اگست ۲۰۱۲

فہرست مضامین

مصری انقلاب: چند غور طلب پہلو

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | اگست ۲۰۱۲ | مقالہ خصوصی

Responsive image Responsive image

گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں مشرق وسطیٰ میں جو نمایاں اور اہم انقلابی تبدیلیاں عمل میں آئی ہیں وہ ایک جانب مغرب و مشرق کے اہلِ فکر کے لیے غور کرنے کا مواد فراہم کرتی ہیں، تو دوسری جانب مسلمان اہلِ فکر کے لیے ایک چیلنج کی شکل اختیار کرگئی ہیں۔

مصر میں ۸۰ سالہ دورِاستبداد کا آغاز ۱۹۵۲ء میں فوجی آمریت سے ہوا۔ یہ آمریت وقت کے دھارے کے لحاظ سے اپنی کینچلی بدلتی رہی، تاہم اس کے زہرِ استبداد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ اس طویل دورِ استبداد کا خاتمہ مصر کی جدید تاریخ میں پہلے عوامی صدر ڈاکٹر محمد مُرسی کے منتخب ہونے پر ہوا۔ لیکن اقوام عالم کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ طاغوتی اور فرعونی قوتیں اپنی شکست آسانی سے قبول نہیں کرتیں اور ایک زخم خوردہ سانپ کی طرح سے دائیں اور بائیں جس طرف سے ممکن ہو ڈسنے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔ بالکل اسی طرح مصر میں موجود نظام (status quo) کی حامی جماعت، یعنی فوج اور عدلیہ نے اس انقلابی عوامی تبدیلی کو بے اثر اور ناکام بنانے میں اپنی مشترکہ قوت اور چال بازیوں کے ذریعے جو اقدامات کیے وہ قرآن کریم کی زبان میں کیدالشیطان کی بہترین مثال ہیں۔

یہاں اس بات کا اظہار ضروری ہے کہ مغرب اور خصوصاً امریکا اور اسرائیل کی دلی خواہش اور حمایت کے باوجود حسنی مبارک کے سابق وزیراعظم کا، جو فضائیہ کا ریٹائرڈ جنرل تھا، ناکام ہونا بھی ایک معجزے سے کم نہیں کہا جاسکتا۔ آخر وقت تک فوجی کونسل نے پوری کوشش کی کہ اور کچھ نہیں تو  کم از کم انتخابی نتائج میں تاخیر کرکے عوام کو نفسیاتی طور پر جانچا جائے کہ وہ ان کی مزعومہ دھاندلی کو کہاں تک برداشت کرسکتے ہیں۔ جب تمام ذرائع سے انھیں یہ یقین ہوگیا کہ دھاندلی نہیں چل سکے گی تو مجبوراً یہ اعلان کیا گیا کہ ایک معمولی تناسب کے فرق کی بناپر اخوان المسلمون کے نامزد صدر محمد مُرسی کو کامیابی حاصل ہوگئی ہے۔ لیکن دوسری جانب اس انتخاب کو بے اثر بنانے اور فیصلہ کن اختیارات کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے فوج اور عدلیہ کے دماغوں نے جو کسی تبدیلی کے لیے آج بھی تیار نہیں ہیں، اور فروری ۲۰۱۱ء میں مصر میں نوجوانوں کی تحریک کے علی الرغم، جس میں جانی قربانیاں بھی دی گئیں اور پورے ملک نے حصہ لے کر فوج اور بدعنوان عدلیہ کی حاکمیت کو رد کر دیا تھا،  موجود نظام کو برقرار رکھنے کے لیے جو اقدامات کیے وہ ان تمام تحریکات کے لیے قابلِ غور ہیں جو بدعنوانی، اقرباپروری، ظلم و استحصال کے نظام کی جگہ عدلِ اسلامی اور معاشرتی فلاح پر مبنی نظام لانا چاہتی ہیں۔ یہ انقلابی جماعتیں چاہے مصر میں ہوں، لیبیا میں ہوں یا پاکستان میں، انھیں اسی نوعیت کے حربوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ خیال کہ اسلامی انقلاب محض مطالبوں، مظاہروں، نعروں اور جلسوں سے آجائے گا اور طاغوت بھلے مانس انداز میں اقتدار کی کنجی سرجھکا کر اسلامی تحریکات کے منتخب شدہ نمایندوں کے حوالے کردے گا، ایک واہمہ اور سادہ لوحی سے کم نہیں کہا جاسکتا۔

آمرانہ ذھنیت

فوج نے عوامی صدر کے انتخاب کے حتمی اعلان سے قبل موجود نظام کے تحفظ اور اپنی مدافعت کے لیے جو اقدامات کیے ان میں اولاً: بدعنوان عدلیہ کو استعمال کرتے ہوئے عوام کی  منتخب کردہ پارلیمنٹ کو اس بنا پر تحلیل کرنا کہ اس کی ۳/۱ نشستوں کے انتخاب میں ان کے خیال میں کوئی بے ضابطگی ہوئی تھی۔ یاد رہے کہ اس پارلیمنٹ میں اخوان المسلمون کو ملک کے ۸۰سالہ دورِآمریت و استبداد میں پہلی مرتبہ ۴۴ فی صد سے اکثریت حاصل ہوئی تھی۔

ثانیاً: دستور کی معطلی کا اعلان اور نئے دستور کی تشکیل کے تمام اختیارات پارلیمنٹ کی جگہ فوجی کونسل کو منتقل کرنے کا حکم نامہ۔

 ثالثاً: ملک کے داخلی، خارجی اور مالی معاملات میں فیصلے کا اختیار فوج کو دیا جانا، یعنی بجٹ اور ملک کی اندرونی و بیرونی پالیسی فوج طے کرے گی۔

رابعاً: پارلیمنٹ کے آیندہ انتخابات کا فوج کی مرضی کے مطابق کیا جانا، اور عدلیہ میں تقرر کا حق بھی فوج کے ہاتھ میں رہنا۔

خامساً: ملک میں عملاً مارشل لا لگانا کہ فوج جسے چاہے امن عامہ کے خطرے کی بنا پر گرفتار کرسکے۔

یہ تمام مدافعانہ اقدامات جس ذہن کا پتا دیتے ہیں وہ مصر میں نہیں، ہر اُس ملک میں پایا جاتا ہے جہاں بدعنوان، لالچی، بے ضمیر، ظالم، خودغرض، اقرباپرور فرماں روا عوام الناس پر ان کی مرضی کے خلاف مسلط ہیں۔ یہ اقدامات ایک شکست خوردہ ذہن کی دلیل ہیں جو اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے اردگرد کے ہرتنکے اور شاخ کے سہارے اپنے انجام سے بچنے کی سر توڑ کوشش کرتا ہے لیکن وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْن کو بھول جاتا ہے۔

مصر میں تحریکِ اسلامی کی کامیابی کو نہ صرف مصری فوج اور عدلیہ نے بلکہ مغرب خصوصاً امریکا نے بھی ایک انتہائی تلخ گھونٹ کے طور پر گوارا کیا ہے۔ دونوں کی مسلسل کوشش ہے کہ اب بھی کسی طرح مصر کے منتخب صدر کو یا تو مکمل طور پر بے اثر کردیا جائے اور تمام اختیارات فوجی کونسل اور عدلیہ کے ہاتھوں میں رہیں، یا مُرسی کو اس طرح استعمال کیا جائے کہ اخوان المسلمون سے وابستہ اُمیدیں ٹھنڈی پڑجائیں اور اخوان کی تصویر مصری عوام میں داغ دار بن جائے۔ چنانچہ بار بار یہ بات کہی جارہی ہے کہ اخوان المسلمون ایک انتہائی قدامت پرست جماعت ہے اور عیسائی اقلیت اور خواتین کے لیے سخت خطرہ ہے۔

اس بات کو بار بار دہرانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ مُرسی سرکاری طور پر یہ اعلان کریں کہ وہ عیسائی اقلیت اور خواتین کو کابینہ اور دیگر مناصب میں ان کے عمومی تناسب سے زیادہ اہمیت دیں گے۔ مُرسی کے حالیہ بیان سے کہ ان کے ایک نائب صدر عیسائی اور ایک خاتون ہوں گی، اس حکمت عملی کے اثرات کی جھلک نظر آتی ہے۔

مغربی قوتوں کا دل کی ناگواری اور مجبوراً مُرسی کو صدر مان لینے کا یہ مطلب لینا بھول ہوگا کہ وہ واقعی ان کے اقتدار کی حمایت اور تائید کریں گے۔ مغربی سیاست کاروں کا متفقہ عقیدہ    آج تک یہی ہے کہ ایک سیکولربدعنوان اقرباپرست اور اخلاقی طور پر کنگال جماعت یا فرد کو،    ایک اسلام پسند لیکن حق گو، مخلص اور ایمان دار شخص یا جماعت کے مقابلے میں فوقیت دینا ان کے مفاد میں ہے۔ اس لیے وہ کسی بھی شکل میں دل کی آمادگی کے ساتھ ایک اسلام پسند کو برسرِاقتدار دیکھنا گوارا نہیں کریں گے۔ یہ بات بھی بار بار دہرائی جارہی ہے کہ اسلام پسند جماعت کا برسرِاقتدار آنا، اسرائیل کی سالمیت کے لیے اور اس کے منطقی نتیجے کے طور پر امریکا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ خطرے کی یہ گھنٹیاں امریکا اور اسرائیل دونوں کے ہاں اس وقت گھڑیال کی شکل اختیار کرجائیں گے جب صدر بھی اسلام پسند ہو اور پارلیمنٹ میں بھی اخوان کی اکثریت ہو۔ اس بات کو سیاسی زبان میں بار بار دہرانے کامقصود یہی ہے کہ صدر مُرسی اسرائیل کو یقین دلائیں کہ اسے ان سے کوئی خطرہ نہیں ہوگا، ساتھ ہی امریکا کو بھی یقین دہانی کرائیں کہ وہ اس کے دشمن نہیں ہیں۔ مغربی صحافت اس بات کو بھی اُچھال رہی ہے کہ مُرسی نے امریکا کی مشہور یونی ورسٹی، یونی ورسٹی آف سائوتھ کیلی فورنیا (USC) سے تعلیم حاصل کی ہے اور ان کے بچے وہاں پیدا ہوئے ہیں جس کی بنیاد پر بچوں کی شہریت امریکی ہے، تاکہ اخوان اور دینی حلقوں میں ان کی وفاداری اور امریکا کی جانب رویے کو مشتبہ بناکر اندرونی کھنچائو پیدا کیا جاسکے۔ خصوصاً نوجوان اخوان کو، جو نہ صرف مصر بلکہ پوری دنیا میں ہر اُس فرد کو شبہے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس کا کوئی تعلق امریکا سے ہو ،     یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ مُرسی پر بھروسا نہ کرو۔ یہ منفی سیاست طاغوتی قوتوں کا خاصا ہے، اس لیے اس پر کسی حیرت کی ضرورت نہیں۔

خطرات

مغربی صحافت اور سیاست کار جن خطرات کو مبالغہ آمیز انداز میں بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں (گو، ان کا تذکرہ ایک تکرار ہی ہوگا)، اختصار سے تین شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں:

اوّلاً: قانون کے حوالے سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ اخوان برسرِاقتدار آکر نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموں پر شرعی سزائیں نافذ کریں گے۔ یہ وہ ہوّا ہے جو ہرمسلم ملک میں برسرِاقتدار طبقہ قیامت تک استعمال کرتا رہے گا اور اس بنیاد پر سیکولر افراد کے تحفظ اور حمایت حاصل کرنے کے لیے عوامی جذبات کو متاثر کرتا رہے گا۔ یہ بات بھی کہی جارہی ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں تقریباً ۲۰فی صد عیسائی اقلیت ہو، اسلام کا نفاذ ظلم ہوگا۔ ان اعتراضات کو اُٹھاتے وقت ایک تیر سے دو شکار کرنے کی حکمت عملی کی بنا پر قرآن و سنت کو بالواسطہ طور پر عملی زندگی سے  خارج کرنے کی طرف واضح اشارے بھی کیے جاتے ہیں اور کیے جاتے رہیں گے۔

دوسرا اہم خطرہ مطلق العنانی دور کا غالب آجانا ہے۔ مغربی اور سیکولر طبقہ اپنی ذہنی ساخت کی بنا پر ہمیشہ اسلام کو مذہب اور مذہب کو مذہبی آمریت اور مطلق العنانی سے تعبیر کرتا ہے۔ اس میں زمان و مکان کی کوئی قید نہیں۔ خود پاکستان کے نام نہاد دانش ور یہ بات ہرمحاذ پر دہراتے ہیں، حتیٰ کہ عوام کو اس جھوٹ پر یقین آجائے۔ یہ لوگ اپنی ڈفلی بجاتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ  حسنی مبارک، قذافی، اسد، صدام اور الجزائر، تیونس اور مراکش کے آمروں نے جس مطلق العنانی کا   عملی مظاہرہ ایک آدھ سال نہیں ۳۰،۳۰ سال کیا، اس کی بنیاد مذہب تھا یا سیکولرزم؟

یہ ایک اہم اندرونی خطرہ ہے جس کا مُرسی اور ان کے رفقا کو صبروحکمت کے ساتھ سامنا کرنا ہوگا۔ اس کے لیے انھیں تبدیلیِ اقتدار کے بعد اپنے طرزِعمل کو قابو میں رکھنا اور اقتدار کی بنا پر اقرباپروری اور مراعات کا غلط استعمال نہ کرنا، عوام کے ساتھ اپنا رابطہ بھلے انداز سے قائم رکھنا، اور نوجوان نسل کی توقعات پر پورا اُترنا جیسے چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ کام آسان نہیں ہے لیکن تحریک کی تربیت کا امتحان ایسے ہی مواقع پر ہوتا ہے۔ اس لیے پوری اُمید کی جاسکتی ہے کہ اخوان سے وابستہ افراد اس زیادہ نازک امتحان میں پورے اُتریں گے، ان شاء اللہ۔

امریکی مفادات

صدر مُرسی اور امریکی انتظامیہ کے درمیان تعلقات کی نوعیت کیا ہوگی اور امریکا کس حد تک مصر کے عوامی صدر کی حمایت کرے گا؟ یہ امکانات سے بھرا ہوا ایک سوال ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلقات کی نوعیت چینی بازی گر کے رسی پر ہاتھ چھوڑ کر چلنے سے کم مشکل نہیں ہوگی۔

مصر میں امریکا کے ایک سابق سفیر ایڈورڈ ایس واکر کا تبصرہ :

ہمارے لیے اخوان المسلمون کے ساتھ کام کرنا بہت مشکل ہوگا، خاص طور پر اس لیے کہ ہم گذشتہ ۳۰ برس سے انھیں نظرانداز کرکے تنہا کرتے رہے ہیں۔

اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ امریکی انتظامیہ بادل ناخواستہ ہی مُرسی سے بات چیت کرے گی،  جب کہ پس پردہ مصری فوجی قیادت کے ساتھ سازباز میں برابر کی شریک رہے گی۔ دوسری جانب دنیا کو دکھانے کے لیے صدر اوباما اور ان کی انتظامیہ جسے عموماً جمہوریت، حقوق انسانی، اور عالمی امن کادورہ پڑتا رہتا ہے اور جس نے عملاً ان تینوں معاملات میں ہمیشہ منفی کردار ادا کرتے ہوئے جمہوری قوتوں کے مقابلے میں فوجی اور شاہی آمروں کی حمایت کی ہے اور آج بھی کررہی ہے،  اس حکومت نے خود اپنے ملک میں اور دیگر ممالک میں انسانی حقوق کی پامالی پر سواے مگرمچھ کے آنسو بہانے کے اور کچھ نہیں کیا ہے۔ وہی انتظامیہ صدر اوباما کے بقول یہ کہنے پر مجبور ہے کہ:

جب مصری عوام جمہوریت، عزت و وقار اور امکانات کے لیے آگے بڑھیں گے، اور اپنے انقلاب کے وعدوں کو پورا کریں گے تو ہم ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ (ترجمان وائٹ ہائوس، اتوار، ۲۴ جون ۲۰۱۲ئ، بحوالہ نیویارک ٹائم، ۲۶ جنوری ۲۰۱۲ئ)

امریکا نے گذشتہ ۳۰ سال سے زائد عرصے میں اپنی خارجہ اور دفاعی پالیسی میں مصر کی فوجی آمریت اور اسرائیل کے صہیونی ظالم حکمرانوں سے اپنے آپ کو مکمل وابستہ رکھا ہے۔ اب بدلے ہوئے سیاسی نقشے میں اخوان المسلمون کے صدر کے ساتھ جو اخوان کا سابق رکن بھی ہے تعلقات استوار کرنا دو طلاقوں کے بعد رجوع سے کم مرحلہ نظر نہیں آتا، لیکن اس تلخ گھونٹ کو مسکراتے ہوئے پئے بغیر بھی کوئی چارہ نہیں۔

اگر امریکا میں تھوڑی بہت عقل ہو تو اسے اس وقت مصری عوام کا مزاج اور جذباتی کیفیت کو سمجھنا چاہیے۔ اسے اپنے آپ کو فوج سے دُور اور عوامی نمایندوں سے قریب کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن امریکی سیاست کی ۵۰ سالہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ امریکی انتظامیہ کی ذہانت سے ایسے دانش مندانہ فیصلے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

اخوان کی حکمت عملی

اخوان المسلمون کی حکمت عملی کے تین پہلو بہت نمایاں نظر آتے ہیں:

اوّلاً: عوامی دبائو کو برقرار رکھنا۔ چنانچہ تحریر چوک پر ہزارہا اخوان کی موجودگی اس مطالبے کے ساتھ کہ پارلیمنٹ بحال کی جائے، فوج اپنی قوت اور چالاکی سے لیے ہوئے دستوری اور حفاظتی اختیارات سے دستبردار ہو اور صدر کو اس کے اختیارات دیے جائیں___ دن رات اپنی یک جہتی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

دوم: صدر مُرسی دیگر سیاسی جماعتوں سے مل کر جن میں سیکولر جماعتیں شامل ہیں، یہ کوشش کررہے ہیں کہ جمہوریت کے مستقبل پر کوئی آنچ نہ آنے پائے، اور تمام سیاسی جماعتیں مل کر پارلیمنٹ کی برتری اور آزادی کی جدوجہد جاری رکھیں۔

سوم: صدر مُرسی کوشش کر رہے ہیں کہ فوج کے ساتھ بھی مذاکرات بند نہ ہوں، اور انھیں اس بات کا احساس دلایا جائے کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ سیاسی اختیارات سے دستبردار ہوں۔  یہ سب سے زیادہ نازک، حساس اور مشکل معاملہ ہے اور فوج پر کسی مسئلے میں بھی بھروسا کرنا   جوے بازی سے کم نہیں۔ لیکن شریعت کی اصطلاح میں ضرورت کی بنا پر اِس اقدام کو کرنا ہوگا تاکہ اتمامِ حجت ہوجائے۔

تحریر چوک پر دھرنا کافی نہ ہوگا۔ اخوان المسلمون کو ملک کے نوجوانوں کو ساتھ ملا کر ایک ملک گیر مہم جیسی فروری ۲۰۱۱ء میں چلائی گئی، چلانا ہوگی۔ یہ کام محض دھرنے سے نہیں ہوسکتا۔ جب تک فوج اپنی آنکھ سے نہ دیکھ لے کہ عوامی قوت اسے بہا لے جائے گی، اس وقت تک فوج اپنی موت کے حکم نامے پر دستخط نہیں کرے گی۔

مجوزہ حکمت عملی

ان حالات میں جس حکمت عملی پر اخوان کی سیاسی قیادت کو غور کرنے کی ضرورت ہے، اسے پانچ نکات میں اختصار سے پیش کیا جاسکتا ہے:

اوّل: ملک گیر پیمانے پر نوجوانوں کی ایک پُرامن مہم جس میں فوج کے منتخب شدہ پارلیمنٹ کو عدلیہ کے ذریعے برخواست کرنے کے اقدام کو کالعدم قرار دیا جائے، اور یہ تجویز کیا جائے کہ  اگر عدلیہ کو پارلیمنٹ کی ایک تہائی نشستوں پر یہ اعتراض تھا کہ ان میں کوئی بے ضابطگی کی گئی ہے تو ان ۳/۱ نشستوں پر دوبارہ انتخاب کرائے جائیں، نیز جن نشستوں میں کوئی بے ضابطگی نہیں ہوئی انھیں برخواست کرنا عدل کے منافی ہے۔ یہ کام سیاسی مہم سے کرنے کا ہے اور عوام کو ساتھ لے کر چلنے سے اس میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔

دوم: اس بات کی ضرورت ہے کہ اخوان کی قیادت اپنے دائرۂ اثر کو وسیع کرنے کے لیے جمہوریت کے تحفظ کی بنیاد پر ان سیاسی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملائے جو چاہے اسلام سے دل چسپی نہ رکھتی ہوں لیکن ملک میں جمہوریت کا نفاذ دیکھنا چاہتی ہیں۔

تیسرے، عوامی مہم کے ذریعے فوجی کونسل کے لامحدود اختیارات کو جن میں بجٹ،    خارجہ پالیسی اور داخلہ پالیسی کی منظوری شامل ہے، پارلیمنٹ کو منتقل کرنا تاکہ پارلیمنٹ عوام کی نمایندہ ادارے کی حیثیت سے ان معاملات پر فیصلہ کرسکے۔ دستوری عدالت (Consititutional Court) کے جج جنھیں حسنی مبارک نے اس غرض سے مقرر کیا تھا کہ دستوری مباحث میں جو کچھ آمر چاہتے ہوں عدالت بھی اسی کی توثیق کردے، یہ کام نہیں کرسکتی۔ اس کے لیے عوامی مہم چلانا ہوگی۔ اگر عوامی مہم حسنی مبارک کو ہٹاسکتی ہے تو یہ کام بھی کیے جاسکتے ہیں۔

چوتھے، نئی حکومت کو ردعمل دینے کے بجاے اقدامی طور پر بعض فیصلے خود کرنے ہوں گے۔ جیساکہ پہلے عرض کیا گیا: سیکولر اور امریکی لابی بار بار وہ مسائل اُٹھائے گی جن پر صدرمُرسی کے مثبت یا منفی موقف اختیار کرنے سے مسئلے کا حل نہیں ہوگا۔ اگر صدرمُرسی ردعمل کے طور پر یہ کہیں کہ وہ امریکا کے دشمن نہیں ہیں بلکہ دوستی چاہتے ہیں، تو وہ نوجوانوں کی حمایت کھوبیٹھیں گے، جو بظاہر ایک امریکی اور فوجی ہدف معلوم ہوتا ہے۔ فوج اور امریکا، دونوں یہ چاہیں گے کہ اخوان کی صفوں میں انتشار واقع ہو، اور کم از کم اخوان کے علاوہ جو مذہبی جماعتیں خصوصاً سلفی حضرات ہیں ان کے ساتھ اختلافات میں اضافہ ہوجائے تاکہ پارلیمنٹ بننے کی شکل میں اخوان کی قوت مؤثر نہ ہو۔ اگر صدر مُرسی ردعمل کے طور پر یہ کہتے ہیں کہ وہ امریکا کے مخالف ہیں تو اسے بھی ان کے خلاف استعمال کیا جائے گا، کہ فوج کی رگ جان ۱ئ۳ بلین ڈالر کی امریکی امداد اگر بند ہوجاتی ہے تو مصر کیا کرے گا؟ گویا بجاے ردعمل کے طور پر کوئی بات کہنے کے صدر کو بہت سوچ سمجھ کر ایسا موقف اپنانا ہوگا کہ وہ نہ تو اپنی نوجوان قوت کو مایوس کریں اور نہ امریکی اور فوجی عزائم کو کامیاب ہونے دیں۔

ترکی سے سبق

یہ کہنا فطری طور پر بہت آسان ہے کہ اخوان کو چاہیے کہ وہ مصر میں ترکی کا ماڈل اختیار کریں۔ اپنی تصویر کو جو اس وقت تک قدامت پرست، بنیاد پرست، جہادی، خواتین کے حقوق کو پامال کرنے والی، اور اقلیتوں کو تہس نہس کردینے والی جماعت کی ہے، بدلنے کے لیے ایسے اقدامات کرے جس سے اس کی ایک متوازن، معتدل اسلامی جماعت کی شبیہ اُبھر کر سامنے آئے۔ لیکن ہماری اس تمام تر خواہش کے باوجود فوری طور پر یا مختصر عرصے میں ایسا کرنا آسان نہیں ہے۔ ذہنی تصویر کا درست کرنا ایک طویل نفسیاتی اور ابلاغی حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے اور اخوان المسلمون ان شاء اللہ اسے کر بھی سکتے ہیں لیکن مقابلتاً ایک طویل حکمت عملی کے ذریعے۔

طیب اردگان کو جس مقام پر وہ آج پہنچے ہیں، اس کے لیے ۳۰سال سے اُوپر واضح منصوبہ، ہدف اور افرادی قوت کے ساتھ کام کرنا پڑا۔ تب جاکر وہ اپنا یہ تشخص بنا سکے اور وہ مقام حاصل کرسکے جس کی بنا پر آج مغرب ہو یا مشرق، ترکی کے ماڈل کی بات کرتا ہے۔

یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے اور اس پر علیحدہ گفتگو کی ضرورت ہے لیکن فی الوقت اس حد تک کہا جاسکتا ہے کہ صدر مُرسی کو اپنے بیانات میں اردگان کی طرح توازن پیدا کرنا ہوگا، تاکہ ایک جانب وہ اپنی اصل قوت نوجوان اخوان کو جو نظریاتی طور پر کفر کے ساتھ تعاون کو کفر قرار دینے کے عادی ہیں، نہ تو مایوس کریں اور نہ انھیں کوئی الگ پریشر گروپ (pressure group) بننے دیں اور اسی قوت کو تحریکِ اسلامی کے لیے صحیح طور پر استعمال کرسکیں۔

ڈاکٹر مُرسی ایک غیرجذباتی شخصیت رکھتے ہیں لیکن انھیں موجودہ حالات میں عوامی قوت کو ساتھ رکھنے کے لیے چند ایسے اقدامات لازماً کرنا پڑیں گے جن کا تعلق ملک کی معیشت اور عوام کے انسانی حقوق کے تحفظ سے ہے، جب کہ سلفی بھائیوں کی ترجیح اسلامی شریعت کے بعض پہلوئوں کے نفاذ کی ہوگی۔ حکمت کا تقاضا ہے کہ مکی دور سے مدنی دور تک کے تدریجی عمل کو سامنے رکھتے ہوئے شریعت کی بالادستی کو متاثر کیے بغیر پہلے شریعت کے اُن پہلوئوں کو نافذ کیا جائے جن کا تعلق اللہ کے بندوں کی جان، مال اور عزت کے تحفظ سے ہے، یعنی ان کے معاشی اور انسانی حقوق۔  اس کے بعد ان پہلوئوں کا نفاذ ہونا چاہیے جنھیں عام تصور میں شرعی نظام کہا جاتا ہے جس سے مغرب و مشرق اپنے خطرے اور خوف کا اظہار کرتا رہا ہے۔

ترکی کے تجربے میں ہمیں کیا مطالعاتی نکات ملتے ہیں، اور کیا مصر اور پاکستان کے مسائل کا حل ترکی کے تجربے کے دہرانے سے ہوسکتا ہے، ایک تفصیل طلب موضوع اور علیحدہ گفتگو کا مستحق ہے۔