دسمبر ۲۰۲۲

فہرست مضامین

بچوں کی تربیت کا ایک لائحہ عمل

مسعود اعجازی | دسمبر ۲۰۲۲ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

خاندان معاشرے کا سب سے اہم اور بنیادی عنصر ہے۔ معاشرے کی ترقی اور نشوونما کا انحصار جہاں خاندان پر ہے، وہاں معاشرے کی خرابی اور انتشار کا ایک بڑا سبب بھی خاندان ہی ہوتا ہے ۔ دراصل خاندان، معاشرے کی اساسی اکائی کی حیثیت رکھتا ہے اور اسی سے معاشرے وجود میں آتے ہیں۔ اس لیے جس قدر خاندان کی اکائی مضبوط اور مستحکم ہو گی، اسی قدر معاشرہ اور ریاست مضبوط اور مستحکم ہوں گے، اور جس قدر خاندان کا یونٹ خراب اور منتشر ہوگا، تو وہ معاشرہ بھی اسی قدر خرابی کا نمونہ ہوگا۔

خاندان کی اسی اہمیت کے باعث خاندان کی بقا اور تحفظ کو شریعت کے بنیادی مقاصد میں شمار کیا گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کا ایک مکمل شعبہ عائلی نظام کے نام سے وجود میں لایا گیا ہے۔ اسی طرح قرآن میں ایک بڑا حصہ عائلی نظام کو نظم و ضبط میں لانے کے لیے رہنمائی دیتا ہے۔ ’خاندان‘ اسلامی تہذیب و معاشرت کا سب سے بڑا ادارہ ہے، جس کو مسلم معاشرے کے ستون کی حیثیت حاصل ہے۔ اسی لیے ہمارے دشمن خاندان کے ادارے کی تباہی کے درپے ہیں۔

اسلام نے ہی یہ شعور دیا ہے کہ اولاد اگر صالح ہوتو یہ ایک نعمت ہے وگرنہ یہ ایک فتنہ اور وبال بن جاتی ہے۔ اسی مناسبت سے دین و شریعت میں اولاد کی تربیت ایک فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے ۔ کیونکہ جس طرح والدین کے اولاد پر حقوق ہیں، اسی طرح اولاد کے والدین پر حقوق ہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں والدین کےساتھ نیکی کرنے کا حکم دیا ہے، ایسے ہی اس نے ہمیں اولاد کےساتھ احسان کرنے کا بھی حکم دیا ہے ۔ان کے ساتھ احسان اور ان کی بہترین تربیت کرنا دراصل امانت صحیح طریقے سے ادا کرنا ہے۔ اس کے برعکس ان کو زمانے کے رحم و کرم پر آزاد چھوڑنا اور ان کے حقوق میں کوتاہی برتنا اُمت کے مستقبل سے ایک بدترین خیانت ہے۔

 کتاب وسنت میں اس بات کا واضح حکم ہے کہ اولاد کے ساتھ احسان کیا جائے، اور ان کے حقوق میں کوتاہیوں سے بچا جائے۔ بے شک اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت، اولاد بھی ہے ۔ اور پھر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر اولاد کی صحیح تربیت کی جائے، تو وہ آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بھی ہوتی ہے ۔ لیکن اگر اولاد بگڑجائے اور اس کی صحیح تربیت نہ کی جائے، تو وہی اولاد آزمایش بن جاتی ہے ۔اپنی اولاد کی تربیت کے معاملے میں سردمہری کا مظاہرہ کرنے والوں کو کل قیامت کے روز جوکربناک صورت حال پیش آسکتی ہے ، اس سے اہل ایمان کومحفوظ رکھنےکےلیے اللہ تعالیٰ نے متنبہ کردیا ہے، تاکہ وہ اپنی فکر کےساتھ ساتھ اپنے اہل و عیال اوراپنی آل اولاد کوعذاب الٰہی میں گرفتار ہونے اور دوزخ کا ایندھن بننے سے بچانے کی بھی فکرکریں۔

اس یاد دہانی کی تو ضرورت ہی نہیں ہو نی چاہیے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے خاندان کے مقاصد بہت بلند اور اہم ہیں، اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نصف دین قرار دیا ہے۔ ہرمسلمان کو نیکی کی ابتدا اپنے گھر سے کرنے کی ہدایت ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ  (التحریم۶۶:۶) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔

حضرت عبداﷲ ابن عمرؓ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، مفہوم:تم میں سے ہر شخص نگہبان اور ذمہ دار ہے اور ہر ایک سے اس کے زیرکفالت و زیرنگرانی افراد سے متعلق پوچھ گچھ ہوگی۔ امام بھی راعی اور ذمہ دار ہے۔ اور یہ کہ اس سے اس کی رعیت کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ آدمی بھی اپنے گھر کا حاکم ہے اور اس سے بھی زیر دست افراد کے متعلق سوال ہوگا۔ عورت بھی اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے۔ اس سے بھی اس کے زیرنگرانی امور کے بارے میں بازپُرس ہوگی۔ (بخاری ،  مسلم)

  • بچّے کی پہلی درس گاہ: اسلام نے نکاح کو خاندان کی بنیاد بنایا ہے، کیوں کہ اسلام ایک خاندان کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنا چاہتا ہے،چنانچہ وہ اس بنیاد کو خالصتاً خلوص، محبت، پاکیزگی، دیانت داری اور مضبوط معاہدے پر استوار کرنے کا حکم دیتا ہے۔سورۂ روم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْہَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً۝۰ۭ  (الروم۳۰: ۲۱)اور اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمھارے درمیان محبّت اور رحمت پیدا کر دی ۔

معاشرے کی پہلی درس گاہ، پہلا ادارہ اور پہلا مدرسہ خاندان ہی ہوتا ہے، جہاں بچے اخلاق، اقدار، عادتیں اور روایات سیکھتے ہیں۔ یہاں بچوں کی منفی یا مثبت شخصیت پروان چڑھتی ہے۔ بلاشبہہ معاشرے کا سب سے قیمتی سرمایہ بچے ہی ہوتے ہیں۔ لہٰذا، اس سلسلے میں ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم ان کی تربیت ، ترقی، تعلیم اور ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے حتی الامکان کوششیں کریں۔ یقیناً ہر خاندان اپنے گھر کے بچوں کے حوالے سے فکر مند ہوتا ہے، لیکن اس کے باوجود بعض خاندانوں میں غفلت یا ناواقفیت کی وجہ سے بعض ایسی خامیاں رہ جاتی ہیں، جو بچوں کی نفسیات پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس لیے ان خامیوں کی جانب اشارہ کرنا ضروری ہے، تاکہ مسلم معاشرے کا ہر خاندان، مثالی خاندان ثابت ہو۔

چونکہ بچوں کی تربیت کے لیے پہلی درس گاہ ماں اور باپ ہوتے ہیں، اس لیے ان دونوں کا اس بات پہ متفق ہونا ضروری ہے کہ بچوں کے سامنے خود اُن دونوں کا باہم، ایک دوسرے کی عزّت کرنا ضروری ہے، اور ایک دوسرے کی بات سننا ضروری ہے۔ بچہ سب سے زیادہ دیکھ کر سیکھ رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا، پہلے تو والدین اور ساتھ رہنے والوں کو، جیسے مشترکہ خاندانی نظام ہے، اُس میں رہنے والے تمام بڑوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ بچہ وہی سب کچھ مستقبل میں کرے گا، جو وہ اُن کے عمل اور رویوں میں دیکھ رہا ہے۔ خواہ آپ اس کو کتنا بھی کسی بات سے کیوں نہ روک لیں، جو اس نے دیکھا ہے، وہی کرنا اس کی فطرت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ یوں بھی بچے کو، جس بات سے مسلسل روکا جارہا ہوتا ہے، وہ اس کے لیے تجسس کا سبب بن جاتی ہے اور وہ اپنے تجسس کی تسکین یا کھوج کے لیے اس عمل کو دہراتا ہے۔

بچوں کی تعلیم کا ایک اہم دائرہ وہ تربیت ہے، جو انھیں اپنے خاندان سے حاصل ہوتی ہے۔ اس تربیت کا اہم ترین پہلو بچوں (اولاد) کے ساتھ والدین، بالخصوص ماں کے طرزِ عمل سے متعلق ہے۔ اس ضمن میں چند اصولی نکات درج ذیل ہیں:

  • بنیادی دینی تعلیم : ابتدائی عمر ہی سے بچوں کو دین کی بنیادی تعلیمات سے واقف کرایا جائے۔ قرآن مجید کی تعلیم کا شعوری انتظام اور حلال و حرام کے احکامات سے واقفیت دی جائے۔ سات سال کی عمر سے نماز کا، اور روزہ رکھنے کے قابل عمر کو پہنچنے پر روزے کا عادی بنایا جائے۔ بچوں میں بالکل ابتدا سے اللہ سے تقویٰ اور اس کے سامنے تمام کاموں (اعمال) کے لیے جواب دہ ہونے کا تصور پیدا کرنا، اور یہ احساس جگانا ضروری ہے کہ اللہ ہر وقت ان کی نگرانی کر رہا ہے۔
  • اخلاقی تربیت:بچوں کو ابتدائی عمر سے ہی اعلیٰ اخلاق کا عادی بنانے کی کوشش کی جائے، کیونکہ بچپن کی عادتیں بڑے ہونے پر پختہ ہوتی جاتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بچپن ہی سے انھیں سچائی، امانت داری، بہادری، احسان، بزرگوں کی عزت، پڑوسیوں سے بہتر سلوک، دوستوں کے حقوق کی پاسداری اور مستحق لوگوں کی مدد جیسے اعلیٰ اخلاقی اوصاف کا حامل بنایا جائے۔ پھر انھیں بُرے اخلاق مثلاً جھوٹ، چوری، گالی گلوچ اور بے راہ روی سے سختی سے بچایا جائے۔ اوائل عمر سے ہی محنت و مشقت کا عادی بنایا جائے اور آرام پسندی سے دُور رکھا جائے۔
  • اجتماع اہلِ خانہ: مثالی طرزِ عمل تو یہ ہے کہ والدین اہل خانہ کے ساتھ ہر روز آدھ گھنٹے سے ایک گھنٹہ تک کی نشست  رکھیں۔ اس میں قرآن، حدیث، سیرت اور اسلامی لٹریچر کا اس طرح احاطہ کیا جائے کہ اس میں ہر عمر کے اہل خاندان کا حصّہ ہو ۔ یک طرفہ تقریر، وعظ و نصیحت کے بجائے باہمی گفتگو اور مکالمہ کا ماحول زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔ بچوں کو کھل کر اپنے شکوک و شبہات اور ذہنی الجھنوں کو پیش کر نے کا موقع دیا جائے۔ انھیں تحّمل اور افہام و تفہیم سے دُور کر نے کی کوشش کی جائے۔

اگر ہر روز نشست ممکن نہ ہو تو گھر میں ہفت روزہ اجتماع اہل خانہ کا تو لازما ًاہتمام کیا جائے اور اس میں کوشش کی جائے کہ ناغہ نہ ہو۔ جو بچے کسی وجہ سے کسی دوسرے شہر میں ہوں انھیں آن لائن یا فون کے ذریعے شریک کیا جائے۔

چار بنیادی باتیں جن سے والدین کے لیے پرہیز کرنا لازم ہے:

  • تحقیر آمیز سلوک:بچوں کی اصلاح و تربیت میں عجلت اور جلد بازی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے صبر و استقامت کے ساتھ یہ کام کیا جائے۔ بچوں کی بے عزّتی کرنے اور سخت سُست کہنے سے گریز کیا جائے۔
  • سزا میں بـے اعتدالی: بالکل سزا نہ دینا اور بہت زیادہ سزا دینا، دونوں غلط ہیں۔ بچوں کے ساتھ محبت و شفقت اور نرمی کا برتاؤ آں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے اور معقول حد تک سرزنش کا بھی ایک مقام ہے۔ ان دونوں روّیوں میں اعتدال لازم ہے۔
  • بـے جا لاڈ پیار: بچوں کی ہر خواہش کو پورا کرنا، غیر ضروری لاڈ پیار انھیں ضدی، باغی اور خود سر بناتا ہے۔ اس بے جا محبت کے اظہار میں اعتدال ضروری ہے۔
  • دوسرے پر ترجیح دینا: ایک ہی گھر میں دو بچوں یا لڑکوں اور لڑکیوں میں سے ایک کو دوسرے پر فوقیت دینا غیر اسلامی رویّہ ہے۔ جس سے بہت سےبچے نفسیاتی عوارض میں مبتلا ہوکر انتہا پسندی اور انتقام پسندی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

عملی اقدامات

ان اصولی نکات کے علاوہ چند عملی اقدامات جن پر والدین آسانی سے عمل کر سکتے ہیں:

۱- ا پنے خاندان میں، بالخصوص بچوں کے ساتھ ممکنہ حد تک زیادہ وقت گزارا جائے۔ اپنی معاشی جدوجہد و دیگر مصروفیات کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ لازماً کچھ وقت اپنے اہل خانہ کے ساتھ گزارا جاسکے۔ بچوں کی تعلیم و تربیت ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داری ہے، تربیت کا تمام تر بوجھ ماں پر ڈال دینا ایک نامناسب اور بڑا غیر عادلانہ طریقہ ہے۔ مدرسے میں بچوں کی مصروفیات، دوستوں کی صحبت وغیرہ سے واقفیت کے لیے ضروری ہے کہ والدین ان کے ساتھ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت گزاریں۔

۲- بچوں کو محنت کا عادی بنانے کے لیے انھیں ایک درمیانے معیار کی زندگی کا عادی بنایا جائے، تاکہ وہ ایک عام انسان جیسی پُر مشقّت زندگی کا تجربہ حاصل کرسکیں۔

۳- اگر بچوں کو جیب خرچ دیا جائے تو پھر انھیں ڈسپلن کا پابند بنایا جائے۔ بچوں سے اس رقم کا حساب بھی پوچھا جائے، تاکہ ان میں بچپن ہی سے کفایت شعاری، بچت اور غیر ضروری اخراجات سے پرہیز کی عادت پروان چڑھے اور جواب دہی کا احساس پیدا ہو۔ والدین کی طرف سے اپنے بچوں کو آرام پہنچانے کی خواہش بجا ہے، مگر ابتدا سے بغیر محنت کے آرام طلب بنانا، ان کے مستقبل کے ساتھ سنگین مذاق ثابت ہوتا ہے۔ اسی طرح ان کے کپڑوں اور جوتوں پر اخراجات میں اعتدال رکھنا ضروری ہے، کیونکہ تعلیمی ادارے میں مختلف معاشی و سماجی پس منظر رکھنے والے طلبہ و طالبات ہوتے ہیں، اس طرح ان میں غیرمطلوب مقابلہ آرائی کو روکا جاسکتا ہے۔

۴-  ابتدا ہی سے بچوں سے خود انحصاری یعنی اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل کرایا جائے۔ اگر معاشی وسائل میں وسعت بھی حاصل ہو، تب بھی بچوں کو اپنے کام کرنے، یعنی جوتے صاف کرنے، کمرے کو ترتیب دینے اور بستر درست کرنے کی عادت ڈالی جائے۔

۵- والدین کا فرض ہے کہ بچوں کو اپنے بزرگوں کی خدمت کی طرف متوجہ کرتے رہیں۔

۶-  بچوں کی مصروفیات اور ان کے دوستوں کو جاننا ضروری ہے۔ جرائم کا ارتکاب اور نشہ آور چیزوں کا استعمال غلط صحبت کا نتیجہ ہوتا ہے، اس لیے بچے کے دوستوں پر گہری نظر رکھنا والدین کی ذمہ داری ہے۔

۷- بچوں کے سامنے مدرسے یا اساتذہ یا دوسرے عزیزوں کی بُرائی نہ کی جائے۔ اگر جائز شکایت ہو تو متعلقہ ذمہ داران سے گفتگو کی جائے، مگر بچوں کے سامنے کبھی ان کے اساتذہ کی تحقیر نہیں ہونی چاہیے۔ والدین اپنے بچوں کے اساتذہ کی عزت کریں گے تو بچے بھی اس کا اچھا اثر قبول کریں گے۔

۸- اپنے بچوں کی غلطیوں اور جرائم کی صفائی نہیں پیش کرنی چاہیے۔ بچوں کو غلطی کا احساس دلانا اور حسب موقع تا دیب انھیں اصلاح کا موقع فراہم کرے گی اور وہ عدل، انصاف اور اعتدال کے تقاضوں سے واقف ہوں گے۔

۹- ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ کے حوالے سے متوازن رویہّ اپنانا ضروری ہے۔ اس کے لیے والدین کو خود اپنے آپ کو نظم کا پابند بنانا ہوگا۔ تعلیمی اور معلوماتی پروگرام سے استفادہ اور اچھے تفریحی پروگراموں پر بچوں سے تبادلۂ خیال کے ذریعے مثبت اور منفی پہلوؤں کو اجاگر کرنا چاہیے۔ ٹی وی اور کمپیوٹر کو ایسی جگہ رکھنا چاہیے ، جہاں سب آتے جاتے ہوں، تاکہ لغو اور غیر اخلاقی پروگرام دیکھنے کا امکان نہ رہے۔

۱۰- ٹی وی اور کمپیوٹر کتابوں کا نعم البدل نہیں بن سکتے۔ اچھی کتب اور رسالے، بچوں کی شخصیت سازی میں غیر معمولی کردار ادا کرتے ہیں، اپنے بچوں میں مطالعے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ والدین انھیں اچھی کتابیں اور رسائل فراہم کریں اور ان کے لیے ذاتی لائبریری بنائیں۔ ان کے نصاب کے مطالعے اور دیگر کتب کے مطالعے پر نظر رکھیں۔ خود بچوں کو ترغیب دیں کہ وہ اپنے جیب خرچ سے رقم پس انداز کرکے کتابیں خریدیں۔

۱۱- بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کیا جائے، تاکہ ملک،ملّت اور انسانیت کو ان کی ذات سے فائدہ ہو۔ موجودہ دور میں ہر شخص اپنے حقوق کے بارے میں تو بہت حساس ہے، مگر اپنے فرائض کی ادائیگی کے بارے میں انجان بن جاتا ہے۔اس رویّے کو تبدیل کرنا ہوگا۔

۱۲- گھر میں ایک بہتر ماحول قائم کیا جائے۔ ماں باپ کو چاہیے کہ وہ بالخصوص بچوں کے سامنے غصے اور لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں۔ خاندان کے بڑوں میں باہم میل جول، ایک دوسرے کی قدر و منزلت اور احترام بچوں پر خوش گوار اثر ڈالتا ہے۔

۱۳- قول و فعل میں تضاد سے پرہیز لازم ہے۔ بچے اپنے بڑوں کے اعمال سے غیر محسوس طریقے سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ماں باپ اور دیگر بڑوں کا طرزِ عمل بچوں کی شخصیت کو بناتا ہے۔ والدین کوسچائی، امانت داری وغیرہ کے حوالے سے معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، اور بظاہر نقصان ہی ہوتا نظر آرہا ہو، اپنے عمل کو درست رکھنا چاہیے۔

۱۴- والدین عموماً اپنے بچوں سے اونچی توقعات وابستہ کرتے ہیں، مگر جب وہ اس معیار پر پورے نہیں اُترتے تو مایوس ہوجاتے ہیں اور بچوں سے ناراض ہوکر جھنجلاہٹ کا اظہار کرتے ہیں۔ اس طرح والدین اور بچے دونوں احساسِ کمتری اور چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک نامناسب رویہ ہے۔ بچوں سے توقعات وابستہ کرتے وقت ان کی صلاحیت، دلچسپی اور کمزوریوں کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے۔ اپنی خواہشات بچوں پر تھوپنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

۱۵- زندگی میں ہر فرد کو کسی نہ کسی بحران سے مقابلہ در پیش رہتا ہے۔ اس لیے نامطلوب حا لات سے مقابلہ کرنے کے لیے بچوں کی ذہن سازی ضروری ہے۔ انھیں مسائل سے فرار کے بجائے ان سے نبرد آزما ہونے کی تربیت دینی چاہیے۔

۱۶-بچوں کو اپنی زندگی کے مقصد کا شعور دیا جائے۔ مقصد زندگی کا واضح تصور انھیں دنیا میں اپنا مقام متعین کرنے میں مدد دے گا۔ مستقبل کے لیے بلند عزائم اور ان عزائم کی تکمیل کے لیے بچوں میں شوق، محنت اور جستجو کے جذبات پیدا کرنے میں والدین کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔

۱۷-بچوں کی تعلیم و تربیت میں والدین تدریج سے کام لیں اور اصلاح سے مایوس نہ ہوں۔

۱۸- بچوں کو نبی اکرمؐ کی سیرت سے واقف کرانا اور اسوۂ حسنہ ؐ کی پیروی کو جزو ایمان بنانا، اسی طرح سلف صالحین کی زندگیاں مشعل راہ کے طور پر بچوں کے سامنے لانا ضروری ہے۔

۱۹-گھر میں مطالعے کا وقت متعین کرکے، والدین اپنی نگرانی میں تعلیمی ادارے کا کام کرواتے ہوئے بچوں کی ترقی کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔

۲۰- وقت کی قدر اورتنظیم والدین خود بھی کریں اور بچوں کو ابتدا سے ہی وقت کے صحیح استعمال کی عادت ڈالیں۔ وقت جیسی قیمتی دولت کا بہترین استعمال کامیابی کی کلید ہے۔

۲۱-تعلیم و تربیت پر خرچ مستقبل کی سرمایہ کاری ہے۔ موجودہ دور کے نہایت مہنگے تعلیمی اخراجات کے پیش نظر مناسب ہوگا کہ ہر خاندان اپنی ماہانہ آمدنی کا ایک مقررہ حصّہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خرچ کرے۔

ناکامی کے اسباب

بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت میں عموماً کیوں ناکامی ہوتی ہے؟اس کی درج ذیل وجوہ ہیں:

۱- تعلیم و تربیت بہت ہی صبر آزما اور پتّہ ماری کا کام ہے۔ یہ کام جتنی توجہ، دلسوزی چاہتا ہے، اس کے لیے عملاً کم ہی لوگ آمادہ ہوتے ہیں۔

۲-عام طور پر بچوں کی عمر اور صلاحیتوں سے کہیں زیادہ ان سے توقعات وابستہ کر لی جاتی ہیں اور جب ان سے بار بار کوتاہیاں اور لغزشیں سرزد ہوتی ہیں اور رفتار ترقی بھی خلافِ توقع بہت سست دکھائی دیتی ہے، تو اصلاحِ حال کی طرف سے بد دل ہو کر لوگ عموماً نہ صرف اپنی کوششوں میں کمی کر دیتے ہیں، بلکہ اپنے رویّے اور برتاؤ سے خود بچوں کو بھی مایوسی اور بد دلی کا شکار بنا دیتے ہیں۔

۳- پورا معاشرہ بگڑا ہوا ہے۔ بڑوں کے غلط نمونے اور ہم عمروں کی بُری صحبت کے غیرمحسوس اثرات بچے برابر قبول کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ اچھے بھلے والدین کے بچوں میں بھی غیرشعوری اور غیر ارادی طور پر طرح طرح کی خرابیاں جڑ پکڑ لیتی ہیں۔

۴- ضروریاتِ زندگی اب محدود نہیں رہیں بلکہ ان کی فہرست بہت طویل ہوگئی ہے۔ معاشی ڈھانچا بھی روز بہ روز پیچ دار ہوتا جا رہا ہے۔ چنانچہ ضروریات کی تکمیل کے لیے دوڑ دھوپ سے فرصت نہیں ملتی۔ بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دینے کی توفیق کہاں سے نصیب ہو۔

۵- مناسب تعلیم و تربیت کے لیے جس صلاحیت اور سلیقے کی ضرورت ہے، اکثر لوگ اس سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کی کوششیں بار آور ہونے کے بجائے بسا اوقات اُلٹی پڑتی ہیں۔

۶-والدین کے باہمی تعلقات کی ناخوشگواری، جدائی، موت، عدم موجودگی یا گھر سے دوری وغیرہ بھی بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت میں بہت زیادہ مزاحم ہوتی ہیں۔

۷- دولت پرستی ذہنوں پر اس قدر غالب آگئی ہے کہ بچوں کی دنیا سنوارنے اور ان کا مستقبل ’شان دار‘ بنانے کے لیے اچھے بھلے لوگ اپنے جگر گوشوں کے ایمان و اخلاق کو اپنے ہاتھوں شیطان کی بھینٹ چڑھا دینے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔

۸-بچوں کو مصروف رکھنے اور ان کے فرصت کے اوقات کو کار آمد بنانے کے لیے دلچسپ تعمیری مشاغل یا موزوں کھیلوں وغیرہ کا کوئی معقول انتظام نہیں ہو پاتا۔ چنانچہ بچوں کی صلاحیتیں غلط رخ اختیار کر لیتی ہیں، وہ آوارہ گردی یا طرح طرح کی نازیبا حرکات کرنے لگتے ہیں۔

۹- معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حیائی، اخلاقی بے راہ روی، فحش لٹریچر، گھناؤنے پوسٹرز کی فراوانی، مخرب اخلاق فلموں، افسانوں کی کثرت وغیرہ عموماً اصلاحی کوششوں پر پانی پھیر دیتی ہیں۔

اجتماعی جدوجہد کی ضرورت

صحیح تعلیم و تربیت پر صرف کی ہوئی قوت، محنت اور دولت ہر ایک کے حق میں نفع بخش ثابت ہوتی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہماری غفلتوں اور اربابِ سیاست کی کوتاہ اندیشیوں سے ساری دنیا پر ایک ایسا نظامِ تعلیم و تربیت مسلط ہو گیا ہے، جو اپنے گونا گوں مضامین و مشاغل، درسی و امدادی کتب، بیرونِ نصاب مصروفیات اور کلچرل پروگراموں وغیرہ کے ذریعے یا تو خداپرستی، احساسِ ذمہ داری اور اخلاقی قدروں کی پاسداری سکھانے کے بجائے خدا سے بے نیازی، آخرت کی باز پُرس سے بےخوفی اور اعلیٰ انسانی قدروں کی بے قدری سکھاتا ہے یا شرک و تو ہم پرستی، تعصب و تنگ نظری، ملکی و قومی عصبیت، خودغرضی و خودنمائی، عیاشی وتن آسانی وغیرہ میں مبتلا کرتا ہے، اور جو مادی ترقی اور معاشی خوش حالی کو تو آخری مقصود ٹھیراتا ہے، لیکن سیرت کو سنوارنے اور اخلاق کو سدھارنے کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔

ظاہر ہے اس نظام میں جب تک بنیادی تبدیلیاں نہ کی جائیں گی، اس کے تحت پروان چڑھنے والی نسلوں سے بحیثیت مجموعی کسی خیر کی توقع عبث ہے۔ البتہ شر کے اندیشے ہمیشہ لگے رہیں گے۔ رہے دینی ادارے جو صحیح تعلیم و تربیت کے علم بردار اور جہالت کی تاریکیوں میں روشنی کے مینار رہے ہیں اور جن سے ہدایت و رہنمائی کے سوتے پھوٹتے اور خلقِ خدا کو فیض پہنچتا تھا وہ بھی اب اپنی بے حسی، ملت کی عدم توجہی، پرایوں کی رقابت، باطل سے مرعوبیت، دینی غیرت وحمیت کے فقدان، ایثار و بے لوثی کے فقدان، اساتذہ کی علمی و عملی کوتاہیوں اور فنِ تعلیم و تربیت سے ناواقفیت، علوم میں دینی و دنیوی کی عملا ًتفریق اور اپنے یک رخے پن اور اذکارِ رفتہ نصاب و نظام وغیرہ کے باعث ٹھٹھر رہے ہیں اور روز بروز ان کی افادیت گھٹتی اور ان کا حلقۂ اثر سکڑتا جارہا ہے۔

اس صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ تمام افراد اور جماعتیں اصلاحِ اَحوال کی طرف توجہ دیں اور انفرادی و اجتماعی حیثیت سے جو کچھ کر سکتے ہیں، اس سے ہر گز دریغ نہ کریں۔ غیر معمولی جدوجہد اور پامردی و استقلال سے حالات کا مقابلہ کیا اور ان کا رُخ موڑا جا سکتا ہے۔