دسمبر ۲۰۲۲

فہرست مضامین

پاکستان کے سیاسی، آئینی اور انتظامی مسائل

پروفیسر خورشید احمد | دسمبر ۲۰۲۲ | اشارات

Responsive image Responsive image

قومی و بین الاقوامی حالات کو دیکھتے ہوئے مملکت خداداد پاکستان کے لیے ایک قومی لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میںہمیں اندرورنی و بیرونی سطح پر جو مسائل درپیش ہیں ان کا مختصراً جائزہ پیش ہے:

  • عالمی حالات : سب سے پہلے بین الاقوامی حالات کو دیکھنا ضروری ہے۔ عالمی اسٹیج پر اگرچہ ابھی تک کسی نہ کسی شکل میں نائن الیون کے سائے منڈلا رہے ہیں، لیکن اب اصل مسئلہ اس صورتِ حال سے باہر نکلنے اور آگے بڑھنے کا ہے۔ فریقین اس ضرورت کو تو محسوس کرتے ہیں لیکن باہر نکلنے کا راستہ ابھی واضح نہیں ہے۔ اس غیریقینی صورت اور بے عملی سے ہونے والے نقصانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ آج تک کی صورتِ حال کے مطابق کچھ سنجیدہ کوششوں کے باوجود کوئی واضح حل سامنے نہیں آسکا۔ ایک طرف اس بحران کا حل تلاش کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف ایک اور مسئلہ معاشی بحران کی شکل میں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتا جا رہا ہے۔

یہ مالیاتی بحران شروع تو ستمبر ۲۰۰۷ء میں ہوا لیکن بڑھتے بڑھتے آج ۲۰۲۲ء کے اختتام پر دُور دُور تک بحالی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔ اس مالیاتی بحران نے معیشت کے دوسرے شعبہ جات کو بھی متاثر کیا ہے اور اب یہ ایک کثیر الجہتی معاشی بحران کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

اس معاملے کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یہ بحران جو بنیادی طور پر نجی شعبے( بنکنگ، پراپرٹی، رئیل اسٹیٹ وغیرہ ) میں پیدا ہوا تھا، رفتہ رفتہ دوسرے شعبوں تک بھی پھیل گیا اور پیداوار، تجارت، عوامی قرضوں، روزگار، اور بجٹ خسارے وغیرہ پر بھی اس کے منفی اثرات مسلط ہوچکے ہیں۔ موجودہ نظام کو بچانے کے لیے ان حالات میں حکومتوں نے سرمایہ داروں کو جو معاشی سہارے (پیکج) دیے ہیں، انھوں نے اس سرمایہ داری نظام کے اندر ریاست کے کردار پر ہی سوال اٹھا دیے ہیں۔ یہ سلسلہ اب بڑھتے بڑھتے قومی سطح پر معاشی بحرانوں کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ آج اس معاشی فساد سے کوئی یورپی ملک بھی محفوظ نہیں ہے۔ بے چینی اور اضطراب بڑھتا جارہا ہے۔ دنیا کو اب احساس ہو رہا ہے کہ یہ معاشی بحران، تہذیبی بحران میں بدل کر ہماری اخلاقی، سیاسی، انتظامی، اور اداراتی کمزوریوں کو سامنے لانے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

اس عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو بین الاقوامی سطح پر معاشی طاقت کا توازن بھی بدلتا جارہا ہے، جس میں ایشیائی اور لاطینی امریکی ممالک کا کردار مزید اہم ہوتا جا رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک بھی اپنے مسائل کے باوجود اس صورتِ حال میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ یعنی پہلے جو بوجھ تھے وہ اب مضبوطی اور استقامت کی مثال سمجھے جا رہے ہیں۔ چین، جاپان، برازیل، بھارت، اور ترکیہ مستقبل کے اہم کھلاڑیوں کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔ یہ تو ہوا اس صورتِ حال کا ایک پہلو۔

 دوسرا پہلو جو ’بہار عرب‘ سے شروع ہوا تھا، اس نے یہ تصور اور گہرا کر دیا ہے کہ ساری دنیا تبدیلی کی بات کر رہی ہے۔ دنیا بھر میں عوام اب اپنے فیصلے خود کرنا چاہتے ہیں۔ کسی بھی ملک کے عوام ہی اس کی اصل طاقت ہوتے ہیں لیکن ماضی میں عوام کو اس حق سے محروم رکھا گیا اور اب وہ اس نظام میں تبدیلی کےخواہاں ہیں۔ خود نظریاتی میدان میں بھی اس سارے عمل کا ایک غیر متوقع نتیجہ برآمد ہوا ہے۔

اسلامی دنیا میں جب بھی کوئی حقیقی جمہوری عمل شروع ہوا ہے تو اس کے نتیجے میں مذہب خصوصاً اسلام کا رسوخ ہمیشہ بڑھا ہے۔ اس ضمن میں مجھے دو مغربی مفکرین کی رائے بڑی دانش مندانہ نظر آتی ہے، اگرچہ ان کا سیاق و سباق اور مقاصد مختلف ہیں۔ ولفریڈ کینٹ ویل سمتھ نے اپنی دو کتابوںاسلام تاریخِ جدید کے آئینے میں اور پاکستان بطور اسلامی ریاست میں کہا ہے کہ پاکستان یا دوسرے مسلم ممالک میں جب بھی جمہوری عمل مضبوط ہوگا، تو وہ اپنے ساتھ مذہبیت (اسلامائزیشن) ضرور لے کر آئے گا۔

۶۰ کے عشرے میں کی جانے والی اپنی تقریروں میں ڈاکٹر ہنری کسنجر نے بھی خوف میں لپٹے انھی خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ عرب میں جمہوریت آنے سے اسلام کا سیاسی کردار مزید مضبوط ہو گا جو مغرب اور اس کے مفادات کے لیے خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسے خدشات کے زیر اثر اس نے عرب ریاستوں کو مزید تقسیم کرنے اور یہاں نسلی و فرقہ وارانہ تحریکوں کو مضبوط تر کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔ کسنجر کے خیال میں یہ حکمت عملی اسرائیل کے دفاع میں بھی کام آ سکتی ہے۔ کردوں، عربوں، ایرانیوں، اور ترکوں کے درمیان نسلی و فرقہ وارانہ تحریکوں کی حوصلہ افزائی اسی حکمت عملی کا ایک پہلو تھی۔ یہی کھیل اب عراق، افغانستان، پاکستان، ترکیہ اور عرب دنیا میں کھیلا جا رہا ہے۔ اپنے ملک کے لیے آیندہ کی حکمت عملی بناتے ہوئے عالمی منظر نامے کے ان پہلوؤں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔

  • علاقائی تناظر: سوم یہ کہ ہمارے خطے کی صورتِ حال۔ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کا پاکستان پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔ اسی طرح عراق میں بدترین امریکی مداخلت اور بھارت کے ساتھ امریکا کی نئی صف بندی سے بھی ہم متاثر ہوئے ہیں۔ دوسری جانب چین بھی ایک محکم اور کثیر الجہتی حکمت عملی اختیار کر رہا ہے، جس کا اثر پاک چین تعلقات پر بڑا واضح ہے۔ ایک اُبھرتی ہوئی طاقت کے طور پر اپنی سابقہ ترقیاتی حکمت عملی کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ، چین اب عالمی خصوصاً ایشیائی اور افریقی معاملات میں فعال کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اس سلسلے میں ہمیں جو فوری چیلنج درپیش ہے وہ اگست ۲۰۲۱ء میں افغانستان سے نیٹو اور امریکی افواج کے انخلاء کے بعد کی صورتِ حال کے حوالے سے ہے۔ اس مسئلے سے پہلو بچانا ہمارے لیے ممکن نہیں ، لیکن پھر بھی حالات جس طرف بڑھ رہے ہیں وہ انتہائی غیرمتوازن راستہ ہے۔ یہی معاملہ ایران، اسرائیل اور امریکا کے تعلقات کا ہے، جن میں کوئی بھی خرابی مشرق وسطیٰ کے لیے شدید خطرات کا باعث بنے گی۔ ان حالات سے آنکھیں چرانا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ عالمی سطح پر امریکا اب چین کو اپنے مدِمقابل سے بھی زیادہ تصور کر رہا ہے، اور ایک نئے اقتدار کی جنگ کی طرف جارہا ہے، جس میں امریکا،چین کی قوت کو للکارنے کی راہ پر چلے گا۔

  • ملکی حالات: چہارم یہ کہ ہمارے ملکی حالات ہیں۔ زیادہ پیچھے نہ بھی جائیں تو گذشتہ ۲۲برس بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس دورانیے کو دو اَدوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اول، ۱۹۹۹ء سے ۲۰۰۸ء تک مشرف کا دور۔ دوسرا، ۲۰۰۸ء سے ۲۰۲۲ء تک زرداری، نواز اور عمران کا دورِحکومت۔ مشرف کا دور جمہوریت کے زوال، آمریت کے قیامِ نو، تمام ریاستی اداروں کے ایک فوجی حکمران کے سامنے سرنگوں ہونے، سرمایہ دارانہ معاشی نظام کے فروغ، ملک کی نظریاتی سرحدوں کی کمزوری اور پاکستان کی آزادی و خودمختاری کے معاملے میں کچھ شدید قسم کے سمجھوتوں سے عبارت ہے۔

نائن الیون کے افسوس ناک واقعے اور اس کے بعد پاکستانی قیادت کے امریکا کے سامنے غیر مشروط طور پر سرنگوں ہو جانے سے نہ صرف پاکستان اور امریکا کے تعلقات بُری طرح متاثر ہوئے ہیں بلکہ پاکستان کی خودمختاری پر بھی سوال اٹھے اور ہمیں شدید جانی و مالی نقصان سے بھی دوچار ہونا پڑا ہے۔ پاک۔بھارت تعلقات میں بھی کچھ ایسی تبدیلیاں آئیں، جو پوری کی پوری بھارت کے مفاد میں گئی ہیں۔ ہمارے بنیادی مسائل یعنی مسئلۂ کشمیر اور مسئلۂ آب نظر انداز ہوگئے۔ ان مسائل کے لیے غیر روایتی حل بھی پیش کیے گئے لیکن وہ سب فریب ثابت ہوئے۔ مختصر یہ کہ پاکستان کو سیاست، معیشت، امن و امان، قومی یکجہتی، ثقافت اور نظریاتی سطح پر غرضیکہ ہرشعبے میں نقصان اٹھانا پڑا۔

۲۰۰۸ء کے انتخابات تبدیلی کا نقطۂ آغاز ہو سکتے تھے۔ آغاز میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے عوام کو امید کی راہ دکھائی تھی، لیکن رفتہ رفتہ یہ امیدیں دم توڑ گئیں۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس نیم جمہوری دور میں زیادہ وقت حکومت اور اپوزیشن کے باہم جنگ و جدل اور فوج کی مداخلت نے پورا سیاسی و انتظامی ڈھانچہ ہی ہلا کر رکھ دیا۔ اس صورتِ حال میں جس دانش مندی، دُوراندیشی اور صلاحیت کی ضرورت تھی، افسوس کہ فوجی اور سیاسی قیادت، دونوں نے عوام کو بُری طرح مایوس کیا۔

ان دو اَدوار میں ہونے والے واقعات کا نتیجہ اس بحران کی شکل میں برآمد ہوا ہے، جس سے آج ہمارا ملک گزر رہا ہے۔ موجودہ پارلیمان کی مدت ختم ہو رہی ہے اور نئے انتخابات کا شہرہ ہے۔ اس ملکی بحران کی نوعیت اور گہرائی کیا ہے؟ اس ضمن میںکچھ باتیں عرض ہیں:

  • اہلیت کا بحران: سب سے پہلے ہمارے سامنے قانونی اہلیت یا حکومت کے جواز کا بحران ہے۔ کسی بھی حکومت کی کارکردگی کے لیے یہ شرط ہے کہ اس کے پاس حکومت کرنے کا ایک قانونی جواز موجود ہو۔ پہلے مشرف کے پاس یہ جواز موجود نہیں تھا۔ موجودہ حکومت اگرچہ منتخب حکومت ہے اور جمہوریت یا جمہوری اداروں کا ایک تاثر بھی موجود ہے، لیکن یہ حکومت بھی اخلاقی و سیاسی جواز سے عاری ہے۔ عوام اور قیادت، مختلف اداروں اور مختلف اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔ یہ زیادہ سے زیادہ نظریۂ ضرورت کے تحت بنا ہوا ایک عارضی بندوبست ہے، نہ جس کے خیالات میں یکسانیت ہے اور نہ مقصد و عمل میں یک رنگی۔ جس چیز کی سب سے زیادہ کمی ہے وہ باہمی تعاون، اشتراک اور باہمی عمل کا جذبہ ہے۔ تمام بڑے ادارے یا تو ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار ہیں یا ایک مشکل قسم کے باہمی رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ لوگوں کا حکومت اور حکومتی اداروں پر اعتماد اگر مکمل طور پر ختم نہیں بھی ہوا، تو کمزور ضرور ہوچکا ہے۔

اس ضمن میں صرف اعلیٰ عدلیہ کو کچھ استثنا حاصل ہے۔ میڈیا نے کچھ مثبت کردار ادا کیا ہے لیکن اس کا دائرہ بڑا محدود اور انتشار کا شکار ہے۔ فوج کو روایتی طور پر عوامی اعتماد حاصل رہا ہے لیکن اب ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں شمولیت اور سول ، سیاسی اور انتظامی اداروں میں  خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے دخل اندازی کے بعد یہ ادارہ بھی بُری طرح متنازع ہو چکا ہے۔ جواز کا یہ بحران انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے اور اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اگلے انتخابات جلداز جلد اور مکمل طور پر شفاف ہوں۔ لوگوں کا اعتماد رکھنے والی ایک نئی سیاسی قیادت ہی اس ملک کو کسی مثبت سمت میں لے جا سکتی ہے۔

  • دیانت  کا  بحران: معاملے کی دوسری جہت دیانت کا بحران ہے۔ یہ پہلے بحران سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اگرچہ عدم اہلیت کا بحران بھی بددیانتی کے ہی زمرے میں آتا ہے، لیکن یہ اس سے بڑا مسئلہ ہے۔ بات کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ دیانت کی بنیاد، دُور اندیشی، کردار ، اعتماد اور غیرمتزلزل ایمان داری پر استوار ہوتی ہے۔ موجودہ اتحادی حکومت سیاسی، نظریاتی اور اخلاقی میدان میں دیانت داری کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔ حکمران طبقے کی دیانت پر بھی کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اگر عوام کی اکثریت یہ یقین رکھتی ہو کہ فیصلے ان کے مفاد کے علاوہ کسی اور چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے جا رہے ہیں، تو ان کی نظر میں حکومتی دیانت کا کیا تصور باقی رہ جائے گا؟ ہمارے خیال میں اس معاملے کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ فوج کی قیادت بھی اپنی دیانت داری کے تصور کو تقریباً کھو چکی ہے۔ فوج اور عوام کے درمیان بداعتمادی کی فضا مضبوط ہورہی ہے۔اس کی سب سے خطرناک علامت یہ سامنے آئی تھی کہ مشرف کے دور میں فوج کو باقاعدہ حکم نامہ جاری کرنا پڑا کہ وردی میں ملبوس سپاہی عوامی ٹرانسپورٹ میں سفر نہ کریں۔ اس سے زیادہ خطرے کی بات کیا ہو سکتی ہے؟ آج شاید صورتِ حال اتنی خراب نہ ہو، لیکن اتنی اچھی پھر بھی نہیں۔ یقیناً یہ ایک بڑی خطرناک صورت ہے جس نے فوج کے وقار کو مجروح کیا ہے لیکن اس سے نپٹنے کے لیے حقیقت پسندانہ اور مفید طریقے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ اگر ہم علامات کو ٹھیک کرنے کے بجائے بیماری کو جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کریں۔

اس معاملے میں امریکی کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی قیادت کی طرح عسکری قیادت بھی امریکی اشاروں پر چلتی ہے۔ لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ ہماری کوئی بھی پالیسی خالصتاً پاکستانی مفاد میں نہیں بنائی جاتی۔ چنانچہ اس طرح دیانت کا بحران پیدا ہوتا ہے۔ متذکرہ بالا حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں خوب غور و فکر کے بعد ایک سیاسی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو سیاسی قیادت میں تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔ جب تک نئے تصورات رکھنے والی اور پاکستانی مفاد کو مدنظر رکھ کر اپنی پالیسیاں تشکیل دینے والی ایک نئی قیادت سامنے نہیں آجاتی، ہمارا اس بحران سے نکلنا مشکل ہے۔

اس وقت سیاسی منظرنامہ پر تاریکی چھائی نظر آتی ہے لیکن کچھ پہلو اُمیدافزا بھی ہیں۔ تمام بڑے آئینی ادارے اگرچہ عوامی توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں لیکن کم از کم چل تو رہے ہیں اور ان کی بساط میدان میں موجود ہے۔

اسی طرح اعلیٰ عدلیہ کے معاملے میں بھی کچھ مثبت تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔اب اگرچہ عدلیہ آزاد ہو چکی ہے لیکن حکومت اور اس کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ بہت سے عدالتی فیصلوں پر عمل نہیں ہوپاتا۔کچھ ایسے فیصلے ہیں جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت اور عدالتوں کے درمیان کوئی رسہ کشی چل رہی ہے۔ یہ ہمارے مستقبل کے لیے نیک شگون نہیںہے۔ حکومت، قانونی تقاضے پورے کرنے اور آئین کے اندر رہتے ہوئے ڈلیور کرنے میں ناکام ہو جائے تو عدالتی فعالیت (Judicial Activism) ضروری ہو جاتی ہے۔ عدلیہ کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے   ساتھ ساتھ حکومتی نا اہلی سے پیدا ہونے والے عوامی مسائل کے حل کی کوشش بھی کرنا پڑتی ہے۔ ان معاملات میں آئینی طور پر عدلیہ کو انسانی حقوق کی پاسبانی کا منصب دیا گیا ہے اور عدالتیں اس ذمہ داری کو اداکرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ معمول کی بات نہیں ہے بلکہ ملکی صورتِ حال میں پیدا ہونے والے بگاڑ کا نتیجہ ہے۔

دوسری طرف عدالتی ضبط و تحمل (Judicial Restraint) بھی اتنا ہی اہم ہے جتنی کہ عدالتی فعالیت اور ان دونوں کے درمیان ایک توازن پیدا کرنا ضروری ہے۔ ہمارے خیال میں ۱۹۷۳ء کے آئین میں دیا گیا بنیادی حقوق اور عدالت عظمیٰ کے ان کا پاسبان ہونے کا سارا تصور بڑا اہم ہے۔ اس کے پیچھے خیال یہ ہے کہ اگر غلط حکومتی اقدامات کے ذریعے عوام کے بنیادی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے تو ان حقوق کی پاسبان ہونے کے ناطے یہ عدالت عظمیٰ ( صرف عدالت عظمیٰ) کا فرض ہے کہ وہ آگے آئے اور اپنا کردار ادا کرے۔ اس طرح ایک سیاسی مسئلہ بھی بنیادی حقوق کا مسئلہ بن سکتا ہے، اور جب ایسا ہوتا ہے تو یہ عدالت عظمیٰ کی عملداری میں آ جاتا ہے۔ آج سپریم کورٹ بار بار اپنا یہ حق استعمال کر رہی ہے کیونکہ حکومتیں اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس عدالتی فعالیت کے اگرچہ مثبت پہلو بھی ہیں، لیکن اگر یہ سب یونہی چلتا رہا تو مستقبل میںاداروں کے درمیان توازن بگڑنے کااندیشہ ہے۔ یہاں سے بات اچھی حکومت اور اچھے انتظام پر آ جاتی ہے۔ عدالتیں حکومت یا اس کے ذیلی اداروں کاکام نہیں کر سکتیں۔ یہ صرف نظام کے اندر رہتے ہوئے ہدایات دے سکتی ہیں، اور لاقانونیت کے خلاف تحفظ مہیا کر سکتی ہیں، حکومت کا متبادل نہیں ہو سکتیں۔

تیسرا مثبت پہلو صحافتی آزادی اور میڈیا کا بڑھتا ہوا کردار ہے۔ ذرائع معلومات کے علاوہ میڈیا ایک ایسے پلیٹ فارم کا کردار بھی ادا کر رہا ہے، جس پر بحث و مباحث کے ذریعے پالیسی ساز اداروں پر کوئی اثر ڈالا جا سکتا ہے۔ اسی طرح عوامی و سیاسی حلقوں میںشفافیت کو فروغ دینے میں بھی میڈیا کا ایک کردار ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ شعبہ بھی مفادپرستوں، زرپرستوں اور انتشار پسندوں کی دست برد سے محفوظ نہیں اور مختلف مقامی و بین الاقوامی لابیوں ، ثقافتی گروہوں، سیاسی دھڑوں اور طاقت ور اشرافیہ نے اسے بھی اپنے مقاصد پورا کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس ضمن میں اشتہاروں کا لالچ بھی دیا جاتا ہے۔ ان کمزوریوں ، کوتاہیوں کے باوجود ایک آزاد میڈیا ملکی مفاد میں ہے، اور اس ضمن میں جو بھی بہتری ہوئی ہے اسے مثبت ہی سمجھنا چاہیے۔

  • گورننس، صلاحیت اور اعتماد کا بحران: تیسرا بڑا چیلنج جو ہمیں درپیش ہے وہ گورننس کا ایک بڑا بحران ہے جو تمام شعبوں میں واضح ہے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے۔ آگے کی حکمت عملی تیار کرنے کے لیے اہلیت اور دیانت کے ساتھ ساتھ گورننس کا بحران ہمیں مدنظر رکھنا چاہیے۔

اہلیت اور دیانت اہم ہیں، لیکن صرف یہ دو خوبیاں کافی نہیں ہیں۔ اچھی گورننس کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ اگر قیادت اور ادارے ڈلیور کرنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں تو اچھی گورننس کی امید رکھنا عبث ہے۔ اور جب صلاحیت کا یہ فقدان بدعنوانی کے ساتھ مل جائے تو بیڑا غرق سمجھیے۔ وطن عزیز میں گورننس کی ناکامی کی بہت سی وجوہ تلاش کی جا سکتی ہیں، مثلاً اہلیت، صلاحیت اور شفافیت کا فقدان، قانون کی عملداری نہ ہونا، میرٹ اور اصول و ضوابط کو نظرانداز کیا جانا، طاقت کا غلط استعمال اور دولت کی ہوس۔ کچھ قواعد و ضوابط یقیناً غلط ہو سکتے ہیں، لیکن اگر وہ قانونی طور پر موجود ہیں تو ان کا احترام بہرحال فرض ہے۔ اگر کھلے عام بار بار قانون کی خلاف ورزی کی جائے گی تو اچھی گورننس کی امید کبھی پوری نہیں ہو سکے گی۔ یہ اسی بدعنوانی اور نااہلی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں اچھی حکمرانی کی اُمید تقریباً ختم ہو چکی ہے اور یہ معاملہ پورے ملک کا ہے۔ اگر ہم کسی حقیقی تبدیلی کے امیدوار ہیں تو اس نا اہلی اور بدعنوانی کے خلاف سختی سے کارروائی کرنی ہوگی۔

 میں نا اہلی اور بدعنوانی کو جڑواں برائیاں سمجھتا ہوں کیونکہ میرے خیال میں بدعنوانی کو اہلیت کے بالکل الٹ سمجھنا چاہیے، بلکہ اسے اہلیت و صلاحیت کی تباہی کا نسخہ سمجھنا چاہیے۔ اگرچہ یہ بھی بدعنوانی کی ایک نہایت کریہہ شکل ہے، لیکن بدعنوانی کو صرف مالی بے ضابطگی تک محدود نہیں سمجھنا چاہیے۔ طاقت کا ہر غلط اور بے جا استعمال بھی بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ بد عنوانی پورے ریاستی ڈھانچے کی تباہی کا باعث بنتی ہے اور کسی مؤثر قیادت کے ابھرنے کی ہر امید کو مسدود کردیتی ہے۔

چنانچہ اس لعنت کو اس کی جڑ (صلاحیت و دیانت کے فقدان) اور اس کے پھیلاؤ (لاقانونیت، اور بے ضابطگی) دونوں سطح پر ختم کرنا ضروری ہے۔ ایک ملک گیر سخت قسم کی مہم، پہلے مرحلے میں بدعنوانی میں کمی اور پھر رفتہ رفتہ اس کے مکمل خاتمے کا باعث ہو سکتی ہے۔ آیندہ قومی حکمت عملی میں اس پہلو کو بنیادی اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔

اس معاملے کا ایک اور پہلو جو مدنظر رہنا چاہیے وہ ہے ساکھ کا بحران۔ اہلیت یا ساکھ بنیادی طور پر ایک اخلاقی معاملہ ہے اور آدمی کے قول و عمل سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ معاملہ ریاستی انتظام کے ہر پہلو پر اثرانداز ہوتا ہے کیونکہ بہرحال ریاست کا انتظام افراد کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔

درج بالا مسائل اس وقت پاکستان کے لیے اہم ترین ہیں، لیکن ہمارا تجزیہ صرف انھی تک محدود نہیں رہنا چاہیے کیونکہ کچھ اور اہم مسئلے بھی ہماری توجہ کے متقاضی ہیں:

  • ہماری آزادی و خودمختاری : سب سے پہلے تو یہ بیان کر دیا جائے کہ متذکرہ بالا تمام خرابیوں کی موجودگی میں وطن عزیز کو اپنی بقا، آزادی و خودمختاری، قومی افتخار، اور اہم قومی مفادات کے دفاع کا مسئلہ درپیش ہے۔ ہماری آزادی، خودمختاری اور سالمیت خطرے میں ہے۔ اس تناظر میں آگے کی حکمت عملی بناتے ہوئے ہمیں ایک نیا دفاعی بندوبست بھی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اس دفاعی حکمت عملی کی بنیادہماری آزادی، خودمختاری، قومی وقار اور قومی مفادات کے تحفظ پر ہونی چاہیے۔ ہمیں اس چیز کا احساس ہونا چاہیے کہ ہم کمزور ہوں یا طاقت ور، چھوٹے ہوں یا بڑے، چند قومی مفادات ایسے ہیں جن پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ ملکی دفاع صرف عسکری دفاع تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کی کئی جہتیں ہیں، جو سیاسی، انسانی، عسکری، ثقافتی، اور معاشی میدان تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس سیاق و سباق کو سامنے رکھتے ہوئے جو دفاعی حکمت عملی بنائی جائے، اس میں ملکی آزادی، خودمختاری اور سالمیت کو اولین اہمیت حاصل ہونی چاہیے۔
  • ثقافتی و نظریاتی شناخت: دوسرے اہم مسئلے کا تعلق ہماری نظریاتی، اخلاقی اور ثقافتی شناخت کے ساتھ ہے۔ اس میدان میں بھی ہم کئی سمجھوتے کر چکے ہیں اور کئی دفعہ مار کھا چکے ہیں۔ کسی بھی قوم کے افراد سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ صرف چند سیاسی یا معاشی مفادات کی خاطر کوئی جدوجہد کریں اور اپنا سب کچھ قربان کردیں۔ لوگ اس سے بلند تر چیزوں کے لیے زندہ رہتے ہیں اور قربانیاں دیتے ہیں۔ چنانچہ دفاع و خودمختاری کے ساتھ ساتھ ہماری نظریاتی و ثقافتی شناخت بھی بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ اسی لیے اسلام بطور مذہبی شناخت ہمارے لیے نہایت بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔

موجودہ دور میں کئی مغربی مفکرین بھی اس بات کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ کسی بھی مسلم معاشرے کے لیے اس کا مذہب یعنی اسلام ایک جزو لاینفک کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ اسلام کو نظر انداز کر کے یا بگاڑ کر، معاشرے میں اندرونی و بیرونی امن کی امید رکھنا عبث ہے۔ سیکولر لابی یا مفاد پرست طبقہ جو بھی کہے، اس حقیقت کا ادراک کرنا ضروری ہے کہ اسلام ہی ہماری شناخت کی بنیاد ہے اور اگر اس بنیاد کو متزلزل کر دیا جائے تو عوام اور حکمران کبھی ایک صفحے پر نہیں آسکیں گے۔ چنانچہ یہ سمجھا جا سکتاہے کہ ایک ایسا ملک جو اندر سے ہی بے چینی کا شکار ہو، اچھی حکمرانی کی اُمید کیونکر ہو سکتا ہے؟

  • معاشی پہلو: تیسرا پہلو معیشت سے متعلق ہے۔ قوموں کی سیاسی و عسکری طاقت ان کی معاشی طاقت پر منحصر ہوتی ہے۔ آزادی و خودمختاری، قومی تشخص، قومی وقار، شخصی خوش حالی اور ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے معیشت بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ دفاع اور معیشت ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔فرد کی خوش حالی ہی کسی قوم کی اصل طاقت ہوتی ہے، لیکن بدقسمتی سے گذشتہ کچھ برسوں سے ہماری معیشت مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ تمام معاشی اشاریے منفی ہیں،لیکن اس کے باوجود اگر یہ ملک چل رہا ہے تو اسے اللہ کے خصوصی فضل اور عوامی استقامت کا پھل سمجھنا چاہیے۔ لوگوں کی ثابت قدمی اور ایک بڑی غیر منظم معیشت میں اپنے آپ کو بکھرنے سے بچانے کے عوامی جذبے نے ہمیں سنبھال رکھا ہے۔ یہی وجوہ ہیں کہ ہم غلط حکومتی پالیسیوں، توانائی کے بحران اور ہرطرف پھیلی بدعنوانی کے باوجود چلے جا رہے ہیں۔

معیشت کو جس طرح چلایا جا رہا ہے، اسے نا اہلی اور بد انتظامی کی بلندی کی آخری چوٹی ہی سمجھنا چاہیے۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی ،بے روزگاری اور غربت، اندرونی و بیرونی منڈیوں میں روپے کی گرتی ہوئی قدر، پیداوار میں کمی، سرمائے کی بیرون ملک منتقلی، بڑھتے قرضے اور ان پر بڑھتا سود،اور زر مبادلہ کے خالی ہوتے ذخائر ہماری معیشت کو تباہی کے دہانے پر لے آئے ہیں جس میں ملک کے معاشی دیوالیہ ہونے کا دھڑکا ہرآن لگا رہتا ہے۔ لوگ مشکل میں ہیں اور معیشت کا ہر شعبہ رُوبہ زوال ہے۔ صرف ایک مخصوص اشرافی طبقہ ہی خوش حالی اورامارت سے لطف اندوز ہو رہا ہے، جب کہ عوام تکلیف میں ہیں۔ سرکاری ادارے معیشت پر ایک مسلسل بوجھ بن چکے ہیں۔ ملکی قرضوں کی واپسی کے لیے کوئی سبیل بھی پیدا نہیں ہورہی ہے اور ان پر سود کی ادائیگی قومی بجٹ میں اولین نمبر پر آگئی ہے۔ ۱۹۷۰ء اور ۱۹۸۰ء کے عشرے تک دفاعی اخراجات پر سب سے زیادہ رقم خرچ ہوتی تھی، اب قرضوں کی مد میں ادائیگیاں دفاعی اخراجات سے تقریباً دو،تین گنا ہو چکی ہیں۔

ترقیاتی اخراجات سے تقریباً تین گنا زیادہ رقم قرضوں پر سود کی ادائیگی میں صرف ہو جاتی ہے۔ سماجی خدمات (Social Services) پر خرچ ہونے والی رقم اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ کسی بھی ملک کے لیے یہ انتہائی خراب صورتِ حال ہے اور اس صورتِ حال سے اسی صورت نپٹا جا سکتا ہے کہ اگر ملک کو ایک ایسی قیادت میسر آئے جو جانتی ہو کہ کیا کرنا ہے اور معیشت کو ٹھیک کرنے کی اہلیت اور صلاحیت رکھتی ہو۔ اس وقت معیشت میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ہمیں پیداوار کو بڑھانے ، اپنے انسانی وسائل کو بہتر کرنے،بدعنوانی کے خاتمےاور اندرون ملک و بیرون ملک موجود وسائل کو بہترین طریقے سے استعمال کرنے کے لیے ایک حکمت عملی تیار کرنا ہو گی۔ ان تمام تبدیلیوں کے ساتھ اچھی گورننس بھی ضروری ہے اور ہماری پالیسیوں کا رُخ بھی خود کفالت اور عوام کی طرف ہونا چاہیے کہ ان کے حق میں بہتر کیا ہے۔ ان بنیادی تبدیلیوں کے بغیر حالات کا بدلنا اور ہمارا اس بحران سے نکلنا تقریباً ناممکن ہے۔

  • وفاق اور صوبوں کے تعلقات : وفاق اور صوبوںکے درمیان اور پھر مقامی حکومتوں کے درمیان تعلق بھی ایک اہم معاملہ ہے۔ اس وقت وفاق کی بنیاد وں کو کمزور کیے بغیر مقامی و صوبائی حکومتوں کی مضبوطی ہماری اہم ترین ضرورت ہے۔ اس شعبے میں آیندہ کے لیے ایک مکمل لائحہ عمل بنانا ضروری ہے، جس میں وفاق اور صوبوں خصوصاً بلوچستان کے خدشات کو بھی سامنے رکھا جائے۔ یہ لائحہ عمل ایسا ہونا چاہیے کہ تمام اسٹیک ہولڈر اس میں شامل ہوں، تا کہ اتفاق رائے سے معاملے کو سلجھایا جا سکے۔ ملک کے معاشی و مالیاتی نظام میں اگر کچھ تبدیلیوں کی ضرورت ہو تو وہ بھی کی جائیں،کیونکہ ہمارا موجودہ معاشی نظام، وفاقیت کے اصولوں کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا۔ ملک میں اس وقت جو نظام موجود ہے، وہ کسی بھی لحاظ سے وفاقی نظام کی خصوصیات نہیں رکھتا۔

اس نظام میں بنیادی خامی یہ ہے کہ محصول اکٹھا کرنے کا سارا نظام وفاق کے پاس ہے۔ دوسری طرف اخراجات کے لیے ایک الگ نظام موجود ہےاور یہ نظام جن کے پاس ہے ان کا محصولات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ چنانچہ اس گورکھ دھندےکی وجہ سے معاشی نظام میں بہت سی خامیاں جنم لیتی ہیں۔ جب تک محصولات کے نظام کو بھی تقسیم نہیں کیا جاتا، معاشی ذمہ داری کے اصول کو پروان چڑھانا مشکل ہے۔ ملک کے معاشی ڈھانچے کو اَزسر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک اکٹھا کرنے کا اختیار وفاق کے پاس اور خرچ کرنے کا اختیار صوبوں کے پاس رہے گا، بے ضابطگی پیدا ہوتی رہے گی۔ اس لیے ایک باقاعدہ اور منظم وفاقی نظام قائم کرنے کے لیے ملکی ڈھانچے میں کئی بنیادی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔

  • نجی شعبے کا کردار: ان تمام معاشی مشکلات کے باوجود اگر ہم اپنی ترجیحات کو درست کرلیں اور اپنے وسائل کو خصوصاً سماجی اور سرکاری شعبے میںبہترین طریقے سے استعمال میں لے آئیں تو ہم ایک نئے دور کا آغاز کر سکتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے اہم کردار نجی شعبے کا ہو گا۔ تاریخ گواہی دے گی کہ جب بھی نجی شعبے کو پنپنے کا موقع ملا ہے، اس نے اپنا کردار مثبت اور تعمیری انداز میں ادا کیا ہے۔ تاہم بدعنوانی، مفادات کے ٹکراؤ، اچھی گورننس ، شفافیت اور احتساب کے فقدان کے باعث نجی شعبہ خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکا ہے۔

ایک متوازن حکمت عملی کی ضرورت ہے، جس کے تحت نجی شعبہ کو فعال اور سرکاری اداروں کو ذمہ داربنایا جائے۔ انفراسٹرکچر تیار کرنے،سماجی خدمات کی فراہمی اور معاشرے کے نچلے طبقوں کو معاشی نظام میں لانے کے لیے ریاست کا کرداربھی بنیادی اہمیت کا حامل ہوگا۔ اس کے علاوہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے دست کاروں ، کاشت کاروں، اور صنعت کاروں کو روزگار کی فراہمی بھی حکومت کی اہم ذمہ داری ہے۔ بڑی سطح پر معاشی استحکام کے علاوہ نچلے درجے پر معاشی ترقی اور معاشرے کے ہر فرد کو معاشی عمل میں شامل کرنے کے لیے ایک نیا معاشی ماڈل ضروری ہے اور اس ماڈل کی تیاری اس وقت ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ اگر بطور دانش وَر ہم اپنا کردار ادا کرتے ہوئے قومی مقاصد کی درست نشاندہی کے قابل ہو جائیں اور اپنے تصورات کو واضح انداز میں پیش کر سکیں تو شاید ہم آنے والی سیاسی قیادت کے لیے ایک لائحہ عمل متعین کر سکتے ہیں۔

بطور قوم ہم میں کسی صلاحیت کی کمی نہیں ۔ ہاں، سیاسی عزم، واضح مقصد، ایک سوچے سمجھے لائحہ عمل، اہل قیادت اور فعال اداروں کی کمی کا گلہ کیا جا سکتا ہے۔ کسی بھی قیادت کی کامیابی اسی میں مضمر ہے کہ وہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو معاشرے کی تعمیر میں اپنا متعین کردار ادا کرنے پر آمادہ کرسکے۔ چنانچہ آئیے ہم خود کو درپیش مسائل کا جائزہ لیں اور پھر ان کے حل کے لیے کوششوں میں جت جائیں۔اگر ہم اگلے انتخابات میں نئی قیادت کو ایک قابل عمل لائحہ عمل فراہم کرسکیں تو میں سمجھوں گا کہ ہم اپنا تعمیری کردار ادا کرنےمیں کامیاب ہو چکے ہیں۔ چنانچہ اب وقت آچکا ہے کہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ملک کو درپیش اہلیت، قیادت،گورننس اور صلاحیت کے بحران کو حل کرنے میں ہم اپنی قیادت کا ساتھ دیں تاکہ آیندہ دس سال پاکستان کے لیے ترقی و خوش حالی کے دس سال ثابت ہوں۔

بات ختم کرنے سے پہلے ہم چند دوسرے ضروری اُمورکی طرف بھی توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں۔

اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ پورے ملک میں کوئی مربوط معاشی پالیسی نہیں ہے۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ مرکزی حکومت میں شامل جماعتوں، تحریک انصاف اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مشترکہ معاشی پالیسی پر اتفاق رائے پیدا کیا جائے۔ ملک کی معیشت جن حالات سے دوچار ہے، اس میں ایک مربوط پالیسی وضع کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت بن گئے ہیں، لیکن اس کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ملک کی سیاسی قوتوں کے درمیان دُوری، سیاسی تفریق کی شدت اور تصادم کی حددرجہ افسوس ناک فضا ہے، جسے حدود میں لانا ازبس ضروری ہے۔ اسی طرح اس امر کی بھی سخت ضرورت ہے کہ صوبوں میں ضلعی سطح پر بلدیاتی نظام کو دستور کے مطابق جلداز جلد وضع کیا جائے اور دستور کے مطابق وسائل کی تقسیم کے نظام کو بھی نچلی سطح پر انصاف اور حق کے مطابق فراہم کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ جب تک یہ چیزیں نہیں ہوتیں، قومی معیشت کو زمینی سطح پر درست کرنا محال ہے۔

پی ڈی ایم کی مشترکہ حکومت بھانت بھانت کا مجموعہ ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ حکومت اور حزبِ اختلاف، جماعتی مفاد سے بلند ہوکر قومی معیشت کی اصلاح کے لیے سرجوڑ کر بیٹھیں اور ایک قومی حکمت عملی اختیار کریں۔

ہم بڑے دُکھ کے ساتھ یہ بات بھی کہنا چاہتے ہیں کہ سیاسی مباحثے کی سطح اتنی پست ہوگئی ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کبھی یہ اتنی پست سطح پر نہیں گری تھی۔ قومی سطح پر یہ بڑے شرم کا مقام ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اختلاف رائے ایک فطری امر ہے، لیکن جمہوریت میں اختلاف رائے کی معروف حدود ہیں۔ ہربات کو غداری اور ملک دشمنی کے رنگ میں پیش کرنا ملک و قوم کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔ اس کی اصلاح کی بھی اشد ضرورت ہے:

زبان بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا

ملک ہر اعتبار سے ایک نازک صورتِ حال سے دوچار ہے۔ دستور کی حدود کا احترام اور تصادم کے بجائے مفاہمت کا راستہ نکالناوقت کی ضرورت ہے۔