دسمبر ۲۰۲۲

فہرست مضامین

مسلم رائے عامہ کی امریکی تشکیل

ڈاکٹر سلیمان صالح | دسمبر ۲۰۲۲ | مغربی تہذیبی تضادات

Responsive image Responsive image

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے حادثے کے بعد سے امریکی مراکز تحقیق نے مسلم ممالک میں رائے عامہ کے رجحانات کا گہرائی سے جائزہ لینا شروع کر دیا تھا اور امریکی پالیسی سازوں کو مشرق وسطیٰ میں پائے جانے والے عوامی رجحانات پر کڑی نظر رکھنے کے لیے زور دینا شروع کیا تھا۔ مسلم ممالک میں رائے عامہ کا سروے اور جائزہ لینے والے اہم ترین اداروں میں سے ایک ادارہ ’گیلپ انٹرنیشنل‘ہے۔ اس سروے کمپنی کا ہیڈکوارٹر واشنگٹن میں ہے۔ دوسرا ادارہ مرکز ’پیو‘ (PEW سینٹر) بھی ہے۔  ان اداروں نے متعدد ممالک میں رائے عامہ جاننے کا کام کیا ہے۔

ان مراکز کی جانب سے پیش کی جانے والی ایک کے بعد ایک سروے رپورٹیں یہ واضح کرتی ہیں کہ مسلم ممالک کے عوام کے ذہنوں میں امریکا کی تصویر منفی ہے۔ ’’پیو‘‘ سینٹر کی ۲۰۰۲ء کی سروے رپورٹ میں ۶۹ فی صد مصریوں ، ۷۵ فی صد اردنی، ۵۹ فی صد لبنانی، ۶۹فی صد پاکستانی اور ۵۵ فی صد ترکوں نے واضح انداز میں امریکی پالیسیوں سے اپنی مخالفت ظاہر کی ہے۔ اسی طرح رپورٹ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت امریکی افکارو عادات کے بارے میں یہ خیال کرتی ہے کہ وہ ان کے معاشروں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔

  • امریکا اور دیگر ممالک کے حقیقی مفادات: امریکی مراکز تحقیق نے عوامی رجحانات پر امریکی خارجہ پالیسی کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے امریکا بے زاری کے عام رویے کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے ان عوامل کو، جو اسلامی ممالک میں امریکی پالیسی سے عوامی مخالفت میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں، اس طرح مرتب کیا ہے:اسرائیل کے لیے امریکا کی مسلسل تائید و حمایت، فلسطینی عوام کے حقوق سے دانستہ غفلت، فلسطین میں غاصب افواج کو اسلحے کی فراہمی تاکہ یہ افواج فلسطینیوں کے خلاف قتل عام کا ارتکاب کر سکیں، امریکا کی طرف سے مسلم ممالک کے حقیقی مفادات سے لاپروائی، یہ احساس کہ امریکا اہل ثروت اور غریبوں کے درمیان خلیج کو وسیع کرنے کا کام کرتا ہے، اور عالمی مسائل کے حل کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کرتا۔
  • عراق کے خلاف امریکی جارحیت کے اثرات: پہلے ۱۹۹۱ء میں اور پھر ۲۰۰۳ء میں عراق کے خلاف امریکی جارحیت کے بعد سے مسلم دُنیا میں امریکا دشمنی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ لہر مشرق وسطیٰ سے نکل کر خاص طور سے انڈونیشیا تک پہنچ گئی ہے، جہاں کے متعلق سروے رپورٹ یہ واضح کرتی ہے کہ محض ۱۵ فی صد انڈونیشیائی عوام امریکی خارجہ پالیسی کی حمایت کرتے ہیں۔
  • گیلپ سروے: گیلپ انٹرنیشنل نے جو سروے کیا ہے وہ بھی یہ واضح کرتا ہے کہ عالم اسلام میں امریکا کی خارجہ پالیسی کو مسترد کرنے والوں کا تناسب ۳۳ اور ۷۰ فی صد کے درمیان ہے۔ مجموعی طور پر ۸۵ فی صد مسلمانوں نے امریکی پالیسی کو مسترد کرنے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ امریکی حکومت اسلامی عقائد و اقدار کا احترام ملحوظ نہیں رکھتی اور نہ مسلمانوں کے ساتھ مبنی برانصاف معاملہ کرتی ہے۔

ادارہ ’زغبی‘ کے سروے نتائج بھی ’پیو‘ اور ’گیلپ‘ کے سروے نتائج ہی کی طرح کے ہیں۔ اس ادارے کے ذریعے کیے جانے والے سروے سے یہ واضح ہوا ہے کہ مسلم ممالک میں امریکی خارجہ پالیسی کو مسترد کرنے والوں کا تناسب ۴۸ اور ۸۷ فی صد کے درمیان ہے۔

  • پبلک ڈپلومیسی میں سرمایہ کاری: ان نتائج نے امریکی انتظامیہ کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اس رقم میں اضافہ کرے جو اس نے این جی اوز کی سرگرمیوں کے لیے مخصوص کی ہے۔ اسی طرح اس نے اہل علم اور پالیسی سازوں کے درمیان اس موضوع پر مباحثے کرائے ہیں کہ عالم اسلام کی رائے عامہ پر ٹی وی خبروں کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ ان مباحثوں میں امریکی محققین نے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ امریکی اقدار کو پھیلاکر اور امریکی خارجہ پالیسی کے لیے سازگار ماحول فراہم کرکے مسلم دُنیا کے عوام کو کیسے متاثر کیا جاسکتا ہے؟

اس صورت حال کی روشنی میں امریکا نے پبلک ڈپلومیسی کے لیے اپنا اسٹرے ٹیجک منصوبہ تیار کیا ہے۔ اس کے لیے اس نے متنوع قسم کی تعلیمی، تدریسی، تحقیقی، ابلاغی اور ثقافتی سرگرمیوں کا سہارا لیا ہے۔ عوامی رجحانات پر اثرانداز ہونے کے ہدف کے ساتھ ذرائع ابلاغ کے اندر بہت سا جھوٹا سچا مواد پھیلایا ہے اور ان کے ذہنوں میں امریکا کی مثبت تصویر کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔

امریکی وزارت خارجہ نے ان سرگرمیوں کو منظم کیا ہے۔ پبلک ڈپلومیسی ایجنسی اور امریکی انفارمیشن ایجنسی پر اخراجات میں اضافہ کیا ہے۔ پھر ایک کا م یہ کیا ہے کہ پبلک ڈپلومیسی سے متعلق انڈر سکریٹری کے درجے کا عہدے دار متعین کیا ہے اور مسلم دُنیا کی فکر و رائے پر اثر انداز ہونے کے لیے طویل المدتی حکمت عملی ترتیب دی ہے۔

  • ذرائع ابلاغ اور امریکی صورت گری: اہم بنیادی کام جو امریکی حکمت عملی نے انجام دیے ہیں ، ان میں سے ایک عالم اسلام کے عوام تک براہ راست اور بالواسطہ پہنچنے کے لیے ذرائع ابلاغ کا استعمال ہے۔اس کے تحت اس نے ریڈیو اسٹیشن قائم کیے ہیں، ٹی وی چینل اور انٹرنیٹ پر ویب سائٹ بنائی ہیں۔ ایسی بہت سی فلمیں بنائی ہیں اور کثیر تعداد میں کتابیں اور مجلّوں کا اجرا کیا ہے۔ نوجوانوں، خاص طور سے کم عمر نوجوانوں کو ہدف بنا کر ثقافتی اور میڈیائی مواد تیار کیا ہے۔

اس منصوبے میں وہ سرگرمیاں بھی شامل ہیں، جن کا ہدف مسلم ممالک کے صحافیوں پر اثرانداز ہوکر انھیں امریکی نقطۂ نظر اختیار کرنے اور امریکی پالیسی کا دفاع کرنے کے ساتھ اس بات پر مجبورکرنا بھی ہے کہ وہ واقعات کی رپورٹنگ کے لیے امریکی مآخذ و مصادر پرانحصار کریں۔

مسلم ممالک کے عوام پر اثرانداز ہونے کی امریکی حکمت عملی کا ایک حصہ جدید وسائل ابلاغ، مثلاً ریڈیو ’سوا‘ اور ’الحرۃ‘ چینل کا قیام بھی ہے۔ البتہ رائے عامہ کو متاثر کرنے کی غرض سے مسلم عوام کو ہدف بنانے والے ذرائع ابلاغ میں امریکی سرمایہ کاری کے باوجود ایسے کئی سوالات موجود ہیں، جن کے جوابات تلاش کرنے کے لیے گہرے مطالعے اور جائزے کی ضرورت ہے۔ ایک اہم ترین سوال یہ ہے کہ مسلم دُنیا میں اپنی تصویر کو بہتر بنانے کے سلسلے میں امریکا کو کہاں تک کامیابی مل سکی ہے اور مسلم عوام سے اپنی خارجہ پالیسی کو قبول کروانے میں کس حد تک کامیاب ہوسکا ہے؟

  • میڈیائی ڈپلومیسی:خارجہ پالیسی کی مارکیٹنگ اور عالم اسلام کے ذہن میں اپنی مثبت تصویر بنانے کے لیے امریکا نے میڈیائی ڈپلومیسی کا سہارا لیا ہے۔ اس نے نوجوانوں اور خاص طور سے کم عمر بچوں کو ہدف بنایا ہے۔ اسی طرح عام ڈپلومیٹک سرگرمیوں اور میڈیائی ڈپلومیسی کے درمیان ربط قائم کرنے کا راستہ کھولا ہے۔

ایسے پہلو بڑے واضح طور پر سامنے ہیں، جن کے مطابق مسلم ممالک میں امریکی خارجہ پالیسی نے وہاں کے ذرائع ابلاغ پر اثر انداز ہونے میں کامیابی حاصل کی ہے اور حالات و واقعات کی رپورٹنگ امریکی نقطۂ نظر کے مطابق کرنے کے سلسلے میں وہاں کے صحافیوں کو بھی اپنے زیر اثر لے لیا ہے۔

  •  نئے مطالعے و جائزے کی ضرورت:سوال یہ ہے کہ کیا امریکی حکمت عملی واقعی مسلم عوام کو متاثر کرنے اور ان کے ذہنوں اور دلوں کو اپنی مٹھی میں کر لینے میں کامیاب ہوئی ہے؟ اس جائزے کے لیے غیر امریکی محققین کی ضرورت ہے، جو بڑی حد تک آزادی اور مستقل مزاجی سے ہم آہنگ ہوں تاکہ مسلم ممالک کی رائے عامہ کے سلسلے میں تحقیقات کر سکیں۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اس نوعیت کے رائے عامہ کے جائزے کےلیے کیے جانے والے سروے اور امریکی پراپیگنڈے کا تجزیہ کیا جائے۔
  • اسلامی اقدار سے دشمنی:گیلپ سروے کی جانب پلٹ کر دیکھیں تو یہ اہم نتائج سامنے آتے ہیں کہ ۸۵ فی صد عوام یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا اسلامی عقائد و اقدار کا احترام نہیں کرتا ہے اور نہ مسلمانوں کے ساتھ مبنی برانصاف معاملہ کرتا ہے۔ یہ نتائج ممکن ہے کہ امریکا کو اپنی پالیسی اور عالم اسلام کے سلسلے میں اپنے موقف کا جائزہ لینے پر مجبور کر دیں، اس لیے کہ اسلام کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آنا ہی وہ واحد راستہ ہے جو اسے مسلمانوں کے دلوں میں جگہ دے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ امریکا اپنے غرور اور جانب دارانہ رویے کو ترک کرے۔

لیکن اگر ہم امریکی ٹیلی ویژن چینلوں کے توسط سے پیش کیے جانے والے مواد کا تجزیہ کریں تو نتیجہ یہ سامنے آئے گا کہ یہ چینل، بالخصوص ’الحرۃ‘ ، ہنوز اسلامی عقیدے اور اسلامی اقدار کے خلاف نفرت کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ان چینلوں کے کچھ براڈکاسٹرز مستقل طور پر اسلام کے خلاف مسلسل حملہ آور رہتے ہیں۔اس طرح وہ امریکا کی تصویر یہ پیش کرتے ہیں کہ وہ اسلام کا دشمن ہے، اور یہ چیز مسلم ممالک میں امریکا کے خلاف دشمنی کو ہی ہوا دے گی۔

یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ امریکا ان چینلوں پر دل کھول کر خرچ کرتا اور تکنیکی صلاحیتیں فراہم کرتا ہے لیکن اتنا کافی نہیں ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ سنت نبویؐ کی صحت پر شکوک و شبہات پیدا کرنے اور اسلامی عقائد و اقدار کا مذاق اڑانے والے پروگراموں کو دیکھ کر امریکا کے خلاف دشمنی میں اضافہ ہی ہوگا۔

یہاں ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا اوصاف ہیں جن کی بنیاد پر امریکا، مسلم دُنیا میں اپنی صورت گری کرنا چاہتا ہے؟ کیا وہ یہی چاہتا ہے کہ مسلم عوام کے سامنے خود کو اس حیثیت سے پیش کرے کہ وہ اسلام دشمن ہے؟اور کیا وہ یہی چاہتا ہے کہ وہ اپنے نبیؐ کی سنت سے پلہ چھڑا لیں؟

  • میڈیائی ڈپلومیسی کا مستقبل: اسی طرح رائے عامہ کا جائزہ لینے والے مراکز کو بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ عوام پرپڑنے والے ثقافتی اور میڈیائی مواد اور پروگراموں کے اثرات کے سلسلے میں حقائق کا پتہ لگانے کے لیے اپنے مطالعہ و جائزے اور اسلوب کو بہتر بنائیں۔ مثبت تصویر کی تشکیل محض ذرائع ابلاغ کی فراہمی پر ہی منحصر نہیں ہوا کرتی، نہ صرف مواد و مضمون کی تیاری میں جدید ترین ٹکنالوجی کے استعمال پر منحصر ہوا کرتی ہے، بلکہ اس کے لیے عوامی ضرورتوں اور رجحانات کا علمی جائزہ لینے اور عوام کے ساتھ احترام سے پیش آنے کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔

اور کیا معلوم کسی وقت امریکا پر یہ منکشف ہو جائے کہ ’الحرۃ‘ جیسے چینلوں نے براڈکاسٹر کو سنت نبویؐ پرحملہ آور ہونے ، اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے اور اسلام کو حقارت کے ساتھ پیش کرنے کی اجازت دے کر امریکا کی تصویر کو بگاڑنے اور اس کے خلاف عوام دشمنی میں اضافہ کرنے میں حصہ لیا ہے۔