دسمبر ۲۰۲۲

فہرست مضامین

ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم

پروفیسر خورشید احمد | دسمبر ۲۰۲۲ | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

زندگی اور موت، اللہ تعالیٰ کی قدرت کے اظہار کا ایک نہایت طاقت ور اور ہماری روزانہ مصروفیات میں بار بار سامنے آنے والا مظہر ہے۔ لیکن اللہ کی ان دونوں نشانیوں یعنی ’زندگی‘ اور ’موت‘ پر ہم غور نہیں کرتے۔ اپنے والدین، بہن بھائیوں اور بہت ہی قریبی رفیقوں کے ساتھ ربط و تعلق اور نامہ و پیام کی شاہراہ پر چلتے چلتے ان میں سے اچانک کسی ایک نہایت عزیز ہستی کے وجود کو موجود سے ناموجود بنتا دیکھتے ہیں۔ ۱۱نومبر ۲۰۲۲ء کو ہمیں اپنے نہایت عزیز، محترم، صاحبِ فہم و دانش بھائی ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے انتقال کی خبر سننا پڑی ___ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ حقیقت یہ ہے کہ پچھلے چند ماہ کے اندر تحریکِ اسلامی نے پے درپے صدمات برداشت کیے ہیں، جن میں حاشرفاروقی، حسین خان، مولانا محمد یوسف اصلاحی، علامہ یوسف القرضاوی اور مولانا جلال الدین عمری نمایاں ہیں۔

نجات اللہ صدیقی کے پیکر میں ایک بڑے قیمتی انسان کو اللہ تعالیٰ نے اسلامی تہذیب اور تحریک اسلامی کے قافلے کا دل کش محور بنایا تھا۔وہ عمر میں مجھ سے تقریباً سات ماہ بڑے تھے [پ:۲۱؍اگست ۱۹۳۱ء] اور یہ اُن کی خوش قسمتی تھی کہ شروع ہی سے انھیں بہت اچھی تعلیمی سمت پر سفر کا آغاز کرنے کا موقع ملا۔ اگرچہ یہ تعلیمی مواقع کوئی بڑے معروف اداروں یا بڑا باوسائل پس منظر نہیں رکھتے تھے۔ سائنس کی تعلیم کے ساتھ انھوں نے ۱۹۵۰ء سے ۱۹۵۳ء تک عربی زبان و ادب کا بھرپور فہم حاصل کیا۔ پھر مدرسۃ الاصلاح، اعظم گڑھ میں مولانا اختر احسن اصلاحی کی رہنمائی میں قرآن فہمی کی دولت پائی۔ ازاں بعد گریجوایشن اوّل پوزیشن میں پاس کی، اسی طرح ۱۹۶۰ء میں علی گڑھ یونی ورسٹی سے معاشیات میں ایم اے بھی اوّل پوزیشن ہی سے پاس کیا۔

۱۹۴۹ء میں علی گڑھ آئے تو مولانا ابوالکلام آزاد کے الہلال اورالبلاغ  کو پڑھا، پھر مولانا اشرف علی تھانوی کے بہشتی زیور کا بہت باریک بینی سے مطالعہ کیا۔ اسی دوران میں مولانا مودودی کے دو لیکچر ان کی نظر سے گزرے۔ پہلا لیکچر ’نیا نظامِ تعلیم‘ (۵جنوری ۱۹۴۱ء) ندوۃ العلماء لکھنؤ اور دوسرا وہ مضمون کہ جس میں مولانا نے علی گڑھ یونی ورسٹی کے نظامِ کار کی اصلاح کے لیے تجاویز دی تھیں۔ ان دو تحریروں نے نوعمر نجات اللہ کی زندگی کا دھارا بدل دیا اور انھیں زندگی بھر کے لیے تحریک ِ اسلامی سے وابستہ کر دیا۔

۱۹۵۵ء ہی سے میری اُن سے خط کتابت شروع ہوئی، جس میں اسلام اور تحریک اسلامی کے بڑے بنیادی مسائل پر تبادلۂ خیالات ہوتا رہا۔ اصل میں اُس وقت نجات اللہ صدیقی نے Islamic Thought کے نام سے ایک علمی پرچے کا آغاز کیا، جس نے اہلِ علم کی توجہ کھینچ لی۔ عمر اگرچہ اُس وقت اُن کی محض ۲۵برس تھی، لیکن دین اسلام کوپیش کرنے کے لیے ایک پُرجوش جذبہ ان کے پورے وجود میں موجزن تھا۔ اسی زمانے میں ہم یہاں کراچی سے Student's Voice کے بعد New Era اور Voice of Islam کی صورت میں پیغامِ حق کی وضاحت میں مصروف تھے، جس میں ظفر اسحاق انصاری اور مجھے، اہلِ علم کو اس جانب متوجہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ بہرحال اسلامک تھاٹ کا ہمیں شدت سے انتظار رہتا تھا۔

مثال کے طور پر نجات اللہ صاحب کو اس بات کا شدت سے احساس تھا اور اس احساس میں، مَیں اُن سے متفق تھا کہ ہمیں اسلام کو پیش کرتے وقت قرآن و سنت اور سیرت و تاریخ اور عقل و فطرت، اور باہمی تجربات و مشاورت سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے موجودہ حالات کا تجزیہ کرنا ہے۔ پھر آخرت کی جوا ب دہی کے کڑے معیار کو ہرلمحہ دل و دماغ پر تازہ رکھتے ہوئے، عصرحاضر میں معاملات کی باریکیوں کو سمجھنا ہے اور بہت سوچ سمجھ کر رائے دینا ہے، کیونکہ یہی تجدید دین کا راستہ ہے اور اسی راستے سے تحریک اسلامی، انقلاب کی راہیں کشادہ کرسکتی ہے، اور موجودہ زمانے میں دین کی مصلحت کو پیش کرسکتی ہے۔

ان موضوعات پر ہمارا یہ خیال اُس وقت بھی تھا اور آج بھی یہی خیال ہے کہ اگر ہم مذکورہ پیراڈائم (مثالیہ) کو اختیار کرنے کے بجائے روایتی طور پر روایتی علما ہی کی طرف رجوع کرتے رہے، یا اُسی طرزِ فکر کے سامنے ساکن کھڑے ہوکر رہ گئے تو دین کی فطری منشا اور دین کے حرکی و انقلابی پہلو کو مجروح کردیں گے یا کھو بیٹھیں گے۔ نجات اللہ کہا کرتے تھے کہ اسلامی تحریک، ایمان و ایقان کی بنیادوں پر ہرحال میں جم کر کھڑا رہنے کے بعد کسی ایک لگے بندھے لائحہ عمل کی پابند نہیں ہے۔ اس کے لیے اوّلین کام یہی ہے کہ وہ مقاصد ِ اسلام یا مقاصد ِ شریعت سے پختگی کے ساتھ وابستہ ہو۔ باہم مشاوت اور کھلے عالمی مکالمے کے بعد تجربات سے سیکھ کر اور کھلے دل و دماغ سے واقعات کا تجزیہ کرکے، نئے حالات میں، دینی روح کے مطابق اپنی بات کو نئے انداز سے، نئے مخاطبین کے سامنے رکھتے ہوئے حاضر دماغی، دانش مندی اور بھرپور فعالیت کو قدم قدم ساتھ رکھے۔

نجات اللہ اس احساس کے ساتھ کچھ تیزگام بھی تھے، جس کے نتیجے میں انھیں بعض صورتوں میں تنقید و احتساب کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ان کے برعکس ہم ایک طرح کی احتیاط پسندی کے پابند رہے یا قدرے سُست گام۔

نجات اللہ بھائی جب بھی ملتے تو یہ پہلو زیربحث لاتے کہ مسلم معاشروں میں اصلاح کار کے لیے آواز بلند کرنے والے سبھی لوگ بدنیت اور دین کے دشمن نہیں ہیں۔ ہمیں ان کو دوطبقوں میں تقسیم کرکے دیکھنا چاہیے:

  • ان میں سے ایک بڑے طبقے میں تو قومی احساس کی جڑ بڑی گہری اور مضبوط ہے، لیکن بدقسمتی سے وہ دین کےمطالعے کی کمی اور اسلامی تہذیبی اجتماعیت سے دُوری کے سبب دین کی مصلحت اور اس کے تقاضوں سے بے خبر ہے۔ اس طبقے کو اگر ہمدردی سے دین کی منشا سمجھائی جائے، تو وہ یقینا اپنے موقف کی خطرناکی اور ضرررسانی کو سمجھ جائیں گے اور اصرار نہیں کریں گے۔ ظاہر ہے کہ اس مقصد کے لیے ہمیں اُن سے مکالمے، گفتگو اور سماجی تعلقات میں گرم جوشی کا دروازہ ہروقت کھلا رکھنا چاہیے۔
  • تاہم، اس ’اصلاح کاری‘ کے نام پر مسلم معاشروں میں ایک دوسرا گروہ ایسا بھی موجود ہے کہ جو مسلمانوں کا نام استعمال کرتے، مسلمانوں کی بہبودی اور ترقی کا دم بھرتے ہوئے، خود اسلام اور مسلمانوں اور اسلامی تہذیب و تمدن پر حملہ آور ہوتا ہے اور اس کی علامتوں پر کاری ضرب لگانا چاہتا ہے بلکہ ضربیں لگاتا چلا جاتا ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ خطرناک طبقہ، بے خبر اصلاح کاروں کی پہلی قسم ہی سے گفتگو کا استدلال اُدھار لیتا ہے اور اسلامی تہذیب سے دشمنی کا اُدھار چکاتا ہے۔ اس لیے اس دوسرے طبقے کی زہرناکی کا توڑ کرنے کے لیے بھی ہمیں پہلی قسم کے بے خبر اصلاح کاروں کی طرف زیادہ فکرمندی سے دیکھنا اور انھیں سنبھالنا چاہیے۔

نجات اللہ صدیقی بھائی کو بجاطور پر یہ شکایت تھی کہ ہمارا طبقۂ علما، دین کو پیش کرتے وقت معاشرے اور اہلِ حل و عقد کی توجہ ان اُمور کی جانب مبذول نہیں کراتا، جن میں شامل ہیں: عدل کا قیام، عام سطح پر کفالت کا نظام، معاشی ترقی کا منصفانہ نظام، سود سے پاک اور قابلِ اعتماد معیشت کی اجتماعی اسکیمیں، زندگی کے اجتماعی نظام اور انتظام میں دیانت داری، دولت کی منصفانہ تقسیم، وراثت میں خاص طور پر خواتین کے معاشی مفادات کا تحفظ اور ہرفرد کا ہرسطح پر اعلیٰ کارکردگی دکھانا۔ ظاہر ہے کہ جب زندگی کے ان نہایت اہم اُمور کو نظرانداز کرکے محض لگی بندھی باتیں دُہرائیں گے تو انسانی معاشرے پر اسلام کی منشا و مرضی کے مطابق کوئی گہرا نقش مرتب نہیں کرسکیں گے۔

پھر نجات اللہ صدیقی، ظفراسحاق انصاری، خرم جاہ مراد، سعید رمضان، محمدعمر چھاپرا، اور ہمارے درمیان یہ پہلو بھی اکثر فکرمندی کا عنوان بنتا کہ مسلم معاشروں میں دین کے گہرے رُسوخ کو پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تحریک اسلامی کے کارکن لگے بندھے طریق کار پر جمود کا شکار ہونے کے بجائے نئی راہیں سوچیں۔ دوسروں سے چھوٹے اور جزوی اختلافات کو نظرانداز کرکے رواداری اور خوش خلقی کا راستہ اپنائیں، اوردین کے بڑے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے انسانیت کی خدمت، ترجیحات کی درستی اور تعمیری کردار کو گہرے علم اور معیاری عمل سے ترقی دیں۔

اگر یہ کہا جائے کہ جدید بنکاری نظام کی سودی اجارہ داری کو چیلنج کرتے ہوئے جس پہلے شخص نے پوری ایمانی کمٹ منٹ اور تخلیقی دانش کے ساتھ بلاسودی بنکاری کے خدوخال پیش کیے، تو وہ شخصیت پروفیسر نجات اللہ صدیقی ہی ہیں، اور ان کی اسی تعمیری اور علمی کاوش کے اعتراف میں انھیں ۱۹۸۲ء میں ’بین الاقوامی فیصل ایوارڈ‘ ملا۔

انھوں نے چھوٹی بڑی ۶۳ کتب تحریر کیں، جن میں معاشیات کی اسلامی تشکیل پر ان کی تحقیقات و تخلیقات کلاسیک کا درجہ رکھتی ہیں۔ ۱۹۶۰ء میں انھوں نے امام ابویوسف کی بلندپایہ تاریخی اور ضخیم کتاب، کتاب الخراج کا عربی سے اُردو ترجمہ اسلام کا نظامِ محاصل کے نام سے کیا، اور پھر ۱۹۶۳ء میں سیّد قطب شہید کی معرکہ آرا کتاب العدالۃ الاجتماعیۃ کا عربی سے اُردو ترجمہ اسلام میں عدل اجتماعی کے عنوان سے کیا۔ ان دونوں کتابوں کے ترجمہ و تدوین کے ساتھ نہایت عالمانہ مقدمے تحریر کیے۔ مجھے افسوس ہے کہ ان تراجم سے اُردوخواں طبقے نے قرارواقعی استفادہ نہیں کیا۔

نجات اللہ صدیقی بنیادی طور پر استاد، محقق، مفکر اور تخلیقی ذہن کے مالک تھے۔ انھوں نے افسانے اور ادبی تنقید بھی لکھی۔ میری اُن سے پہلی ملاقات دہلی میں ۱۹۵۶ء میں ہوئی، اورپھر ملاقاتوں کا یہ سلسلہ عمربھر جاری رہا۔ ہمارے درمیان مختلف علمی موضوعات اور تدابیر پر اتفاق اور اختلافات بھی رہے، لیکن اسلامی معاشیات کی تشکیل نو میں جو خدمت انھوں نے انجام دی ہے، اس نے انھیں ہم میں سب سے ممتاز کردیا۔ اسلام کے مآخذ سے مکمل وفاداری کے ساتھ دورِحاضر میں ان کے اطلاق کے باب میں جدید تجربات وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ بلاشبہہ، تحریکِ اسلامی  کے مفکرین میں نجات اللہ بھائی کو اس کا شعور، میرے خیال میں سب سےزیادہ تھا۔ اس ضمن میں کبھی کبھار وہ اعتدال کی راہ سے کچھ ہٹتے تو دکھائی دیتے، لیکن الحمدللہ وہ کبھی اس سے دُور نہیں گئے۔

یہ بھی ایک حُسنِ اتفاق ہے کہ ۱۹۶۱ء میں پہلے میں، کراچی یونی ورسٹی کے شعبہ معاشیات میں لیکچرر مقرر ہوا، اور پھر اسی سال نجات اللہ صدیقی، مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے شعبہ معاشیات میں لیکچرر منتخب ہوئے۔ اسی طرح مجھے صدر ایوب کے دورِ حکومت میں ۶جنوری ۱۹۶۴ء کو، اور انھیں اندراگاندھی کی ’جمہوری آمریت‘ میں ۴جولائی ۱۹۷۵ء کو سنت ِ یوسفی کی سعادت نصیب ہوئی، اور ایک عرصہ جیل میں گزارا۔ ہمارے باہم تعلقات اور اسلامی معاشیات کو درپیش چیلنجوں سے جڑی نشستوں اور تحریک اسلامی کے مسائل سےوابستہ یادوں کا یہ گلدستہ ۱۱نومبر کو بکھر گیا۔ اللہ کریم ان کو کروٹ کروٹ جنّت نصیب فرمائے ، اور جو کام وہ چھوڑ گئے ہیں، اسے آگے بڑھانے کے لیے نوجوانوں کو سرگرمی سے خدمات انجام دینے کی توفیق بخشے، آمین! رہا معاملہ نجات اللہ بھائی کا تو ان کے لیے، ان کا کام ایک صدقۂ جاریہ ہے، اور ان شاء اللہ، ربِّ کعبہ ان کی اس خدمت پر اپنی رحمتوں کی بارش فرماتارہے گا۔