۲۰۲۲ فروری

فہرست مضامین

برطانوی میڈیا: اسلام کے بارے متعصبانہ رویہ

فروا شاہ | ۲۰۲۲ فروری | اسلام اور مغرب

Responsive image Responsive image

'اسلام اور مسلمانوں کی برطانیہ میں میڈیا کوریج کے حوالے سے ایک تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’’برطانیہ میں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق شائع ہونے والے زیادہ تر مضامین متعصبانہ تاثرات اور پیغام پر مبنی ہوتے ہیں‘‘۔ ’مسلم کونسل آف بریٹن‘ (MCB) [تاسیس ۲۳نومبر ۱۹۹۷ء] کے ’سینٹر فار میڈیا مانیٹرنگ‘  (Centre for Media Monitoring) نے اپنی رپورٹ میں ۲۰۱۸ء اور ۲۰۱۹ء کے درمیانی عرصے میں اسلام پر شائع ہونے والے مواد سے متعلق، ۳۴نشریاتی اداروں کے ۴۸ ہزار سے زائد ’آن لائن‘ مضامین اور ۵ہزار ۵سو ویڈیو کلپس کا تجزیہ کیا ہے۔ برطانیہ کی مسلم کونسل کی طرف سے کی گئی تحقیق میں اس بات کا انکشاف ہوا کہ ان میں تقریباً ۶۰ فی صد مضامین میں اسلام کو منفی انداز سے پیش کیا گیا ہے اور ہر پانچ میں سے ایک مضمون میں اسلام اور مذہب کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے جوڑا گیا ہے‘‘۔

۱۶۲صفحات پر مشتمل اس معروضی تحقیق کو برطانیہ کے معروف اخبارات The Mirror اورThe Sunday Times سمیت کئی رسائل و جرائد نے شائع کیا ہے۔ ان اشاعتی اداروں کے متعلقین نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ خبررساں اداروں کا یہ فرض ہے کہ سامعین اور ناظرین تک بغیر کسی تعصب کے تمام حقائق اورسچائی پہنچائیں۔ اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ۵۹فی صد میڈیا آرگنائزیشنوں نے بڑے تسلسل کے ساتھ اسلام اورمسلمانوں کو اپنے متعصبانہ رویوں کے ساتھ پیش کرنے کا کام کیا۔ دائیں بازو کی طرف جھکائو رکھنے والے زیادہ تر اخبارات اور جرائد میں ایسا کرنے کے زیادہ آثار پائے جاتے ہیں۔

اس تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ۴۷ فی صد نشریاتی کلپس کا تجزیہ کیا گیا تو ان میں اسلام اور مسلمانوں کو بڑے منفی انداز سے پیش کیا گیا۔ ہر دس میں سے ایک مضمون میں اسلامی عقائد کی بالکل غلط تشریح کی گئی۔ اس تحقیق میں جو دیگر اہم نتائج اخذ کیے گئے، ان کے مطابق ۷ فی صد مضامین میں چند انتہاپسندوں کے رویوں کو عمومی رنگ دے کر پوری مسلم اُمہ پر تھوپا گیا۔ ۲۵ فی صد مضامین میں اسلام کو ’دہشت گردی‘ اور ’انتہاپسندی‘ سے جوڑا گیا اور ۱۸ فی صد میں اسلام کو سیاسی و عسکری مذہب دکھایا گیا اور ۱۷ فی صد میں اسلام کو محض مشرق وسطیٰ کے مذہب کے طورپر پیش کیا گیا۔

اس تحقیق کی اشاعت کے بعد روزنامہ The Mirror [اجراء:۱۹۰۳ء]کے ایڈیٹر ایلیسن فلپس نے کہا:’’ سینٹر فار میڈیا مانیٹرنگ کی یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی رپورٹنگ کے سلسلے میں بطور صحافی ہم جو کام کر رہے ہیں، وہ کسی طور مناسب نہیں ہے اور ہمیں اپنے ضمیر سے خود سوال کرنا چاہیے کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ میڈیا میں کام کرنے والے ہر فرد کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے، وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ جو مواد بھی لکھےوہ منصفانہ اور ذمہ دارانہ ہو۔ یہ ذمہ داری ان لوگوں کے لیے اور بھی زیادہ اہم ہوجاتی ہے جو خبروں کی رپورٹنگ کا کام کرتے ہیں اور قومی اُمور پر ہونے والی بحث پر رائے دیتے ہیں۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ رپورٹیں اور تجزیے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ میڈیا پر نشر ہونے والی زیادہ خبروں میں غلط بیانی اور تعصب پایا جاتا ہے‘‘۔

روزنامہ دی سنڈےٹائمز [اجراء: ۱۸۲۱ء]کی ایڈیٹر ایما ٹکر نے کہا: ’’میں اس تحقیق اور رپورٹ کا خیر مقدم کرتی ہوں، کیونکہ اس میں پریس اور میڈیا پر تنقید کے حوالے سے پوری ذمہ داری سے کام لیا گیا ہے۔ ہمارےپاس اب بھی غیرجانب داری اپنانے کا راستہ موجود ہے، لیکن خبرپیش کرنے والے کمروں میں فیصلے کرنے والے زیادہ تر لوگ وہی کچھ پیش کرتے ہیں جو عوام سننا، دیکھنا اور پڑھنا چاہتے ہیں‘‘۔

برطانوی مسلمانوں کی نمایندگی کرنے والی سب سے بڑی تنظیم ’مسلم کونسل آف بریٹن‘ (MCB) کے سینٹر فار میڈیا مانیٹرنگ کی ڈائرکٹر رضوانہ حامد کا کہنا ہے کہ ’’ یہ تازہ ترین تحقیق اور رپورٹ کسی اخبار،نشریاتی ادارے ،صحافی یا رپورٹر پر الزام نہیں لگاتی، تاہم میڈیا انڈسٹری کے لیے اس حقیقت کو تسلیم کرنے کا وقت ہے کہ جب بھی مسلمانوں اور اسلام کے حوالے سے کوئی بات سامنے آتی ہے، تو عام طورپر اس کی رپورٹنگ صحیح انداز سے نہیں ہوتی اور اس میں کچھ نہ کچھ متعصبانہ رنگ کی ضرور ملاوٹ پائی جاتی ہے۔ میڈیا کے پیشہ ور افراد کو چاہیے کہ وہ کھلے دل سے اس تحقیق کا خیرمقدم کرتے ہوئے معاملات کی جانچ پڑتال کریں اور اپنے صحافتی معیار کو بہتر بنانے کے لیے اس تحقیق کی سفارشات کو عملی جامہ پہنائیں‘‘۔

اس تحقیق میں میڈیا کی اشاعتوں کے حوالے سے بھی سفارشات پیش کی گئی ہیں اور اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ جب تک جرم ، دہشت گردی یا انتہا پسندی کے حوالے سے کوئی واضح معلومات، حقائق اور معقول جواز موجود نہ ہو، اس وقت تک مسلمانوں کو اس سے جوڑنے، اور اس طرح مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے سے گریز کیا جائے۔ نیوز رومز میں لگے بندھے طریق کار پر عمل کرنے کے بجائے تنوع اور کشادہ دلی کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ نامہ نگاروں کو ممکنہ تعصبات سے آگاہ کیا جائے اور ان کی رہنمائی کی جائے۔

اس تحقیقاتی رپورٹ کے مصنف ،صحافی فیصل حنیف کے مطابق: ’’اگرچہ تنقید کرنا میڈیا کا حق ہے اور صرف مسلمانوں یا ان کے کسی رویے کو تنقید سے بچانا ہمارا مقصد نہیں ہے، لیکن اس سلسلے میں جانب داری سے کام نہیں لیا جانا چاہیے۔ ہم اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ اس طرح کی تنقید میں خصوصی احتیاط برتتے ہوئے صرف حقائق کو پیش کیا جائے اور اسلام کے بارے میں کوئی عمومی رائے زنی نہ کی جائے۔یہ تحقیق تعلیم و تحقیق سے وابستگان،نیوز رومز اور صحافی برادری کے لیے یکساں طورپر مفید ہے اور آنے والے برسوں میں یہ انھیں اسلام اور مسلمانوں کے عقائد کی رپورٹنگ کی کوریج کو بہتر بنانے کی طرف رہنمائی کرے گی‘‘۔(The Independent ،لندن، ۱۵جنوری ۲۰۲۲ء)۔(تجزیہ نگار، لندن، انگریزی سے ترجمہ: ادارہ)