۲۰۲۲ فروری

فہرست مضامین

حاشر فاروقی بھائی!

پروفیسر خورشید احمد | ۲۰۲۲ فروری | یاد رفتگان

Responsive image Responsive image

 اللہ تعالیٰ اپنے قانون کے تحت زندگی دیتا اور اپنے طے شدہ قانون کے مطابق اس فانی زندگی کو واپس لے لیتا ہے۔ لیکن امر واقعہ ہے کہ کچھ سعید روحوں کی موت واقعی زندگی کو بے رنگ بناتی اور رنج وغم کی گہرائیوں میں دھکیل دیتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، جن کی زندگیاں صرف اللہ کی راہ میں اور اللہ سے اپنے عہدو فا کو نبھانے میں گزرتی ہیں ۔ایسی ہی ایک نہایت پیاری شخصیت حاشربھائی بھی تھے، جو ۱۱ جنوری ۲۰۲۲ءکو ۹۲برس کی عمر میں ربّ کے حضور پیش ہو گئے ،انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

میرے شفیق بھائی حاشر فاروقی کا انتقال، جہاں مسلم اُمہ کے لیے ایسا بڑا نقصان ہے کہ جس کا عام لوگوں کو ادراک نہیں، وہیں میرے لیے ذاتی طور پر شدید صدمہ ہے کہ تقریباً ۷۰ برس پر پھیلے تحریکی زندگی اور ذاتی تعلقات کا ایک روشن باب ختم ہو گیا۔ وہ میرے بڑے بھائی کی طرح تھے۔ایک ہم دم دیرینہ تھے، علمی کاموں میں مدد کرنے والے شفیق مدد گار تھے، اور سب سے بڑھ کر اللہ کی راہ میں اللہ کے لیے محبت کرنے اور دعائیں دینے والے فرد تھے۔

زندگی کے اتنے طویل سفر میں میں نے حاشر فاروقی بھائی کو اسلام کا انسانِ مطلوب، امت کا درد مندفرد اور ایک سچا پاکستانی پایا۔ وہ اپنی نوعیت کے ایک عظیم صحافی ہی نہیں تھے بلکہ ایک مفکر، علمی منصوبہ ساز ،حوصلہ بڑھانے والے دست گیر اور راہیں سُجھانے والے ہمدرد رہنما بھی تھے۔ اسلام کی صحیح ترجمانی کسی خوف اور مصلحت کے بغیر ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ انھوں نے اسلام کو اس رنگ میں پیش کیا جس میں قرآن، سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور علمائے سلف نے پیش کیا ہے اور لبرل طبقے کے انحرافات اور مغربی فکر کے تحت کیے جانے والے سمجھوتوں (Compromises) کا پردہ چاک کیا ۔ پھر اُمت مسلمہ کاہردُکھ اور اس کا ہر مسئلہ ان کا اپنا مسئلہ تھا اور وہ اس کے بے باک ترجمان تھے۔ ان کا عالم یہ تھا کہ دنیا کے کسی حصے میں بھی مسلمانوں پر کوئی ظلم ہوتا تووہ تڑپ اُٹھتے تھے اور ان کا قلم مظلوم کی دادرسی کے لیے تلوار کی کاٹ ثابت ہوتا تھا۔ امیرمینائی کے بقول:

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

میں گواہی دیتا ہوں اور ایک خلق اس پر گواہ ہے کہ دینِ اسلام سے ان کی وابستگی بدن میں دوڑنے والے خون کی مانند تھی۔ اسلامی نظریۂ حیات کی توضیح و تبلیغ اورمسلمانوں کے مقدمے کی پیش کاری کی خاطر وہ زندگی بھر جدوجہد کرتے رہے، اور اسی راستے پر چلتے ہوئے آخری سانس لیا:

مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ۝۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۝۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۝۲۳ۙ  (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

اسلام پر ہونے والے حملوں اور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر وہ محض تڑپنے کی حد تک نہیں رہتے تھے، بلکہ اپنی اس تڑپ کو عمل اور تحریر میں ڈھال دیتے تھے۔ گویا کہ دیکھتے ،سنتے، دوا کرتے اور دعا دیتے ہوئے اپنا عملی حصہ ادا کرتے تھے۔ اور یہ سب کام نہایت قلیل مادی ومعاشی وسائل کے باوجود انجام دیتے تھے ۔ وہ اس انتظار میں نہیں رہتے تھے کہ کون کیا کرتا ہے، بلکہ اس بارے میں فکر مند ہوتے تھے کہ وہ اپنی قوت اورصلاحیت کس حد تک اس مقصد کے لیے نچوڑ دینے کے لیے کتنا وقت صرف کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے گذشتہ صدی کے اواخر میں سلمان رشدی کی شیطانی ہزلیات کا جس تحقیقی ،علمی، تحریکی، تنظیمی ،اور ابلاغی سطح پر حاشر بھائی نے تعاقب کیا، اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک امڈتی ہوئی مغربی گستاخانہ لہر سے آگاہ کیا، اس کے ہم گواہ ہیں۔ یہ کوشش ان کے لیے صدقۂ جاریہ کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔

حاشر بھائی زمانہ طالب علمی ہی سے مسلم کاز سے وابستہ تھے۔ علامہ اقبال ،حسن البنا شہید، قائد اعظم اور مولانا مودودی رحمہم اللہ کے افکار سے گہرے ربط وتعلق نے انھیں روحِ عصر سے جوڑدیا تھا۔اس فکر ی تعلق نے انھیں دین وملت سے مربوط کیا، اور غیرت وعمل سے سینچا۔ برطانیہ کے امپیریل کالج میں وہ علم الحشرات(Entomology) میں ڈاکٹریٹ کے لیے گئے، لیکن مسلمانوں کی حالتِ زار نے انھیں اپنا کیرئیر قربان کرنے اور اسلام اور مسلمانوں کی خدمت ہی کو اصل کیریئر بنانے پر دل کی گہرائیوں سے مجبور کردیا۔ اس طرح وہ مسلمانوں کے خاموش سپہ سالار بننے کی راہوں پر چلنے کے لیے یکسو ہوگئے۔ ابتداء میں برطانیہ آنے والے مسلمان طالب علموں سے ربط وتعلق بڑھایا اور انھیں علمی مہارت کے ساتھ ،امت اور اسلام سے وابستگی پر ابھارنے کے لیے تدابیر سوچنا شروع کیں۔ الحمد للہ ،اس ضمن میں ان کی کوششوں میں اللہ تعالیٰ نے برکت عطا کی۔ انھوں نے فیڈریشن آف اسٹوڈنٹس اسلامک سوسائٹی (FOSIS)، یوکے اسلامک مشن (UKIM)، مسلم ایجوکیشن ٹرسٹ (MET)،مسلم ایڈ، دی اسلامک فائونڈیشن ،مسلم کونسل آف بریٹن (MCB) وغیرہ کی تنظیم وتوسیع کے لیے بہ یک وقت کارکن اور رہنما کا کردار ادا کیا۔

گذشتہ صدی کے ساٹھ کے عشرے میں اُمت مسلمہ پر دُنیا بھر کے اشتراکی،صہیونی، برہمن اور ملحدیلغار کرنے لگے تو فاروقی صاحب نے اُمت کے دفاع کے لیے سوچا کہ اُمتِ مسلمہ کے ان تمام مسائل کو، ایک جسد واحد کی طرح دیکھا اور پیش کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنے تخلیقی ذہن، خوب صورت اسلوب تحریر، مستقبل بین نظر اور تحقیقی ذوق سے کام لیتے ہوئے  لندن سے ایک رسالہ نکالنے کا منصوبہ بنایا۔ مجھے یہ سعادت حاصل ہے کہ اس میدان میں  حاشربھائی کی غیرمعمولی فکر مندی اور عمل پسندی کا گواہ بھی ہوں اور ان کامعاون اور ساتھی بھی۔  مالی وسائل ،تحریر وتحقیق اور کتب ورسائل کی فراہمی کے لیے ہاتھ بٹا نے کا اللہ تعالیٰ نے مقدور بھر موقع دیا اور اس سلسلے میں خود مولانا مودودیؒ اور چودھری غلام محمدمرحوم کی تائید اور رہنمائی حاصل تھی۔ اس کے نتیجے میں ایک خواب مئی ۱۹۷۱ء میں پندرہ روزہ Impact International کے نام سے شرمندۂ تعبیر ہوا، اور بہت جلد، دنیا کے تقریباً اسّی ممالک میں متعارف ہوکر اپنی جگہ بنانے میں کامیاب ہوا۔ مگر وائے افسوس کہ ۳۵ برس تک جدوجہد کرنے کے بعدمالی مشکلات کے سبب یہ رسالہ بند ہو گیا۔

امپـیکٹ کسی حکومت یا جماعت کا ترجمان نہیں صرف اور صرف اسلام اور مسلم اُمت کا ترجمان تھا۔ اس کا اصل ہدف جہاں اسلام کو اس کی اصل شکل میں مغربی اور خصوصیت سے انگریزی دان دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا، وہیں مسلمانوں کے افکار و مسائل اور اُن پر کیے جانے والے مظالم کی بے باک ترجمانی تھا۔ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ امپـیکٹ نے ’مسلم ویو پوائنٹ‘ کے مقابلے میں ہمیشہ ’مسلم ویو پوائنٹس‘ (Muslim View Points) کی اصطلاح استعمال کی، جو آزادیِ رائے اور افکار میں نظریاتی حدود کے اندر تنوع کی غمّاض تھی۔ یہ صحافت میں ایک بڑی روشن مثال تھی کہ صداقت و دیانت کے ساتھ حقیقی تنوع کا اظہار ہی زندگی کے ہمہ پہلوئوں کو اُجاگر کرسکتا ہے۔

۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان پر بھارتی یلغار نے انھیں مضطرب کیا، اور جب دسمبر میں پاکستان کا مشرقی بازو ٹوٹا تو اس کی ٹوٹ پھوٹ کو انھوں نے اپنی ذات میں اسی طرح محسوس کیا، جس طرح محسوس کرنے کا حق ہے۔ لیکن فاروقی بھائی نے اس مسئلے کے مابعد اثرات سے پاکستان کو نکالنے کے لیے اپنی ذمہ داری بھی ادا کی، اور مغربی دنیا کے مرکزی اخبار ات، ریڈیو سروسز کے ساتھ ساتھ یورپ اور بڑے ممالک کے پالیسی سازوں کے سامنے پاکستان کا کیس پیش کیا۔ یہ کام اداروں کے کرنے کا تھا، مگر فاروقی بھائی نے مختلف اوقات میں اپنے رفقا برادرم سلیم صدیقی، غزالی خاں، عبدالواحد حامداور اوصاف فاروقی وغیرہ کی مدد سے یہ کارنامہ انجام دیا۔ اس طرح دنیا کے مختلف ممالک میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی سچی تصویریں مضبوط دلائل وبراہین کے ساتھ پیش کیں۔

حاشر فاروقی بھائی ایک ایثار پیشہ ،قناعت پسند اور سچے صحافی تھے ۔مقصد کی لگن کا دوسرانام حاشر فاروقی تھا۔ ذاتی مفاد کی قربانی دینے کی ایک اعلیٰ مثال تھے، اور عملاً مغربی دنیا میں مسلم صحافت کے حدی خواں تھے۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے جو راہیں دکھائیں اورجو نقشۂ کار پیش کیا ، آنے والی نوجوان نسل کا فرض ہے کہ وہ ان راستوں کو روشن کریں۔ ہم نے ایک حاشرفاروقی بھائی کی جدائی دیکھی ہے۔ اللہ کے کرم سے اگر درجن بھر حاشر فاروقی اس محاذ کو سنبھالنے کے لیے آمادۂ کار ہوجائیں تو ان شا ءاللہ ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے مسائل پوری قوت سے دنیا کے سامنے نہ صرف نمایاں ہونے لگیں گے بلکہ امت میں یکجہتی بھی پیدا ہوگی ۔