۲۰۲۲ فروری

فہرست مضامین

معاشی ترقی کی حکمت عملی اور نظریۂ پاکستان

پروفیسر خورشید احمد | ۲۰۲۲ فروری | اشارات

Responsive image Responsive image

پاکستان اپنی آزادی کے ۷۴ برس مکمل کرچکا ہے۔ اس موقعے پر اس کی معاشی کارکردگی کا جامع اور صحیح جائزہ و تجزیہ اور اس کی جانچ پڑتال انتہائی ضروری ہے۔

گذشتہ سات عشروں میں جو ترقیاتی منصوبے بنائے گئے، لگتا ہے کہ وہ اپنی صلاحیت کھوچکے ہیں۔ دھندلے معاشی مستقبل میں وقتی راستے نکالنے، اور بظاہر ہوشیاری سے راستے نکالنے کی کوششوں کے باوجود امکان نہیں ہے کہ مزید ایسی پالیساں کامیابی سے ہم کنار ہوں۔ یہ اپنے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں کے ساتھ پاکستانی معیشت کا مجموعی منظر نامہ ہے، جو قیامِ پاکستان کے مقاصد اور اس کے عوام کی ادھوری خواہشات کے تناظر میں تجزیے اور جائزے کا مستحق ہے۔ پے دَرپے اُلجھتے معاشی،انتظامی اور سیاسی تجربات کے نتیجے میں اُبھرنے والے ایک عظیم قومی خطرے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ دانش وروں اور آزاد تحقیقی اداروں کو چاہیے کہ ان معاشی کامیابیوں اور ناکامیوں کا غیر جانب دارانہ جائزہ لے کر درپیش چیلنج کا جواب دیں اور پاکستانی عوام کے بہتر مستقبل کو یقینی بنانے کےلیے متبادل حکمت عملی اور پالیسی کے امکانات کو واضح کریں۔

میں پچھلے سات عشروں میں معاشی کارکردگی کے بارے میں اپنے خیالات اور خدشات کا اظہار کرنا چاہتا ہوں، جو میری نظر میں چند مثبت کامیابیوں کے باوجود، لوگوں کی ضروریات، توقعات اور اُمنگوں سے بہت کم ہیں۔ سات دہائیوں کی ترقیاتی کوششوں اور بیرونی اور اندرونی بھاری قرضوں کو برداشت کرنے کے بعد، انصاف کے بغیر واضح طور پر متضاد رویوں پر کھڑے معاشی پالیسی سازی کے نظام کا خواب دیکھناایک بے کار حرکت ہے۔دولت، چندحلقوں میں مرتکز ہوگئی ہے اور عوام کی ایک بڑی تعداد وسیع پیمانے پر غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے محرومی اور بدحالی کا شکار ہے۔ ترقی کی جو حکمت عملیاں برسوں سے اپنائی گئیں، وہ بڑے پیمانے پر بیرونی صلاح کاری اور تجاویز اور عالمی مالیاتی اداروں کی حاکمانہ ہدایات پر مشتمل تھیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ اصل حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں بلکہ جمہور عوام کی اقدار اور اُمنگوں سے بھی یکسر متصادم تھیں۔ یہ بیش تر پالیسیاں جواز (legitimacy) اور اعتبار (credibility) دونوں سے خالی تھیں، اسی لیے بے ربط اور مسخ شدہ چلی آرہی ہیں۔ اکثر اوقات یہ پالیسیاں معمولی سیاسی فائدے حاصل کرنے کےلیے اور فوری یا مقامی اور غیر ملکی مفادات کو تحفظ دینے اور ان کے تقاضے پورے کرنے کےلیےاپنائی گئی تھیں۔

اگرچہ محضر توازن یا بیلنس شیٹ (balance sheet)کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں، جنھیں پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ لیکن اس بیلنس شیٹ کے کچھ بھیانک پہلو بھی ہیں جن پر بہ غور توجہ دیے بغیر بیلنس شیٹ متوازن نہیں رہے گی۔ اس بات پر بمشکل ہی کوئی اختلاف ہوگا کہ پاکستان کا مروج معاشی نظام اپنی حقیقی صلاحیتوں کو پورا نہیں کرسکا، جسے نرم سے نرم الفاظ میں اوسط درجے کا قرار دیا جاسکتا ہے،تاہم اس بناپر پاکستان کو ’ناکام ریاست‘ قرار دینا سخت مضحکہ خیز ہے، جیسا کہ ہمارے بعض کرم فرما اور نقاد مسلسل دُنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ بہرحال، اس نظام کو مارکیٹ اکانومی کے جادوئی منتر، لبرلائزیشن، ڈی ریگولیشن، نج کاری، بڑی صنعتوں کے استحکام کے نظریے اور عالم گیریت کی برکات کی وجہ سے کامیابی کی داستان کے طور پر پیش کرنا بھی غلط ہے۔؎۱

معاشی ترقی: تاریخی تناظر

پاکستان کی معاشی کارکردگی کو اس کے تاریخی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ متحدہ ہندستان کے مسلمانوں کا ۲۵ فی صد آبادی ہونے کے باوجود ملکی معیشت میں حصہ بمشکل پانچ سے آٹھ فی صد تھا۔ مسلم اکثریتی صوبوں، یعنی موجودہ پاکستان کی معیشت زیادہ تر زراعت پر منحصر تھی۔ کپاس کا ایک بڑا پیداآوری ملک ہونے کے باوجود، ۱۹۴۷ء میں پورے پاکستان میں صرف دو ٹیکسٹائل ملیں تھیں۔ سنہری ریشے (پٹ سن) کی صورت حال مشرقی پاکستان میں زیادہ قابل رحم تھی۔ پاکستان سنہری ریشہ پیدا کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں سے ایک تھا، حالانکہ آزادی کے موقعے پر اس میں سنہری ریشے کی کوئی ایک مِل(Mill) بھی نہیں تھی۔ ۱۹۴۷ء میں ہندستان کی صنعتی پیداوار میں اس خطے کاحصہ ناقابل یقین حد تک کم تھا، جوبمشکل ایک فی صد تھا۔ اس پس منظر میں سنگین ناکامیوں، ضائع ہونے والے مواقع، غلط ترجیحات اور منصفی کی اہم جہتوں کو ناقابل معافی حد تک نظر انداز کیے جانے کے باوجود، گذشتہ ۷۴ برسوں میں جو کچھ حاصل کیا گیا ہے، وہ اہم ہے۔ اگر مسلمان اپنا الگ وطن نہ بناتے تو جو کچھ حاصل کیا گیا ہے، یہ بھی حاصل نہ ہوتا۔ خود ہندستان نے ۱۹۴۷ءسے جو بھی معاشی ترقی کی ہے، وہ بھی ممکن نہ تھی، اگر یہ خطّہ دوبڑی قوموں کے درمیان خانہ جنگی (Civil war) کی حالت میں رہتا (اگرچہ دہلی کے حکمرانوں نے غاصبانہ طورپر مسئلہ کشمیر کھڑا کرکے اس پورے علاقے کو جنگی صورتِ حال سے دوچار کر رکھا ہے)۔

پاکستان ان چند ترقی پذیر ممالک میں سے ایک ہے، جنھوں نے سات عشروں کے دوران اوسطاً ۵ فی صد کی شرح ترقی (growth rate)حاصل کی ہے۔ کچھ اہم معاشی ترقیاتی اشاریوں (indicators) پر نظر ڈالنے سے پیش رفت کا عمومی اندازہ ہوتا ہے۔ مجموعی ملکی پیداوار جو ۱۹۴۷ء میں صرف ۵۸ ؍ارب روپے تھی، ۲۰۲۱ء میں بڑھ کر تقریباً۴۶ہزار ۴سو ۶۴؍ ارب روپے ہو گئی ہے، یہ کوئی معمولی کامیابی نہیں۔اوسط فی کس (per capita)سالانہ اضافہ ۲ فی صد سے زیادہ ہے، جس کے نتیجے میں اس مدت کے دوران فی کس اوسط میں تقریباً پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اور جی ڈی پی (خالص قومی پیداوار) کے لحاظ سے اس کی ۴۴ویں بڑی معیشت ہے، جو قوتِ خرید کے برابری کے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو دنیا کی ۲۸ویں بڑی معیشت بناتی ہے۔

تاہم، فی کس جی ڈی پی اور ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس کے حوالے سےاس کی پوزیشن واضح طور پر خراب ہے (بالترتیب ۲۰۳ ممالک میں ۱۶۴ واں اور ۱۹۰ ممالک میں ۱۴۷ واں نمبر)۔ سماجی شعبے میں ناکامی، وسائل کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ بنیادی طور پر گمراہ کن پالیسیوں کی وجہ سے ہے، جس کو عوام کی عدمِ شرکت اورعمومی احتساب کی عدمِ موجودگی نے بڑھاوا دیا ہے۔مزید برآں ورلڈبنک اور عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) جیسے عالمی سرمایہ دارانہ اداروں کی ہدایات پر ضرورت سے زیادہ انحصار رہا، جنھوں نے مغرب کےلیے بنے معاشی ترقی کے طریقوں کو تیسری دنیا کے ممالک پر چسپاں کرنے کی کوشش کی۔

معیشت کی بنیادی کمزوریوں اور ناکامیوں کا پتا پالیسی کی غلطیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ غلط ترجیحات، بیرونی آمرانہ پالیسیوں، بدانتظامی اور بدعنوانی کی وجہ سے معاشی ترقی کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ سکے۔ یہ اشرافیہ ہی ہے جس نے عام آدمی کا حصہ غصب کرکے اپنی حد سے زیادہ منافع کمایا ۔ غربت کی سطح میں اتار چڑھاؤ آیا ہے جو اس وقت آبادی کے ۶ فی صد سے زیادہ ہے۔ البتہ مناسب زندگی گزارنے کی کم سے کم سہولتوں سے محروم لوگوں کی تعداد ۲۰فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ اسی طرح دولت کی تقسیم بھی دولت مندوں کے حق میں بڑھتی چلی جارہی ہے۔ غربت کے خاتمے میں ریاست کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمی بنک کی ایک تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ غربت میں کمی لانے کےلیے زکوٰۃ اور صدقات کے ذریعے تقریباً ۲۸ فی صد پروگرام نجی سطح پر ہورہے ہیں، جن کی سالانہ لاگت تقریباً ۷۰ سے ۱۰۰؍ ارب روپے ہیں۔

مختلف اَدوار میں فوجی اور سول دونوں حکومتوں کی کچھ حقیقی لیکن بیش تر سطحی پالیسیوں میں تبدیلیوں کے باوجود، معاشی بد حالی کی نوعیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس کی وجہ سنگین تصوراتی ابہامات ، معاشی حکمت عملیوں میں خامیاں، مسخ شدہ ترجیحات، سراسر نااہلی اور بدعنوانی تھی کہ معیشت ہموار نہ چل سکی اور بڑھوتری کی شرح برقرار نہ رہ سکی۔مزید برآں، معیشت کو وسائل کی بہت ہی غلط تقسیم سے زک پہنچی، جس کے نتیجے میں شدید عدم مساوات اور معاشی اور سماجی فوائد کے عدم توازن نے ملک کے مختلف خطوں کے درمیان منافرت، رقابت اور بے اعتمادی پیدا کی۔ پالیسی کی ان خامیوں اور کارکردگی میں ناکامیوں کی ذمہ داری ان تمام حکومتوں پر پوری پوری آتی ہے، جنھوں نے ان سات عشروں میں ملک پر حکمرانی کی ہے۔انصاف کو یقینی بنانے کےلیے سب کا مواخذہ ہونا چاہیے۔ بہر حال اندیشوں کے تمام اطراف کی نشان دہی ضروری ہے۔ ان اہم ترین اطراف کی جانب آنے سے قبل ضروری ہے کہ ۱۹۵۰ء کی دہائی سے جاری بحران اور الجھنوں سے متعلق سب سے بنیادی ایشو پر بات کی جائے۔ یہ ترقی کے تصور اور مطلوبہ معیشت کے وژن سے متعلق ہے۔

ترقی کا وژن: بنیادی اُمور

جن بیوروکریٹوں اور مقتدر جرنیلوں نے معاشی پالیسی کی تشکیل اور انتظام میں کلیدی کردار ادا کیا ہے، اور جن سیاست دانوں نےاس عمل میں حصہ لیا، ان کا زیادہ تر انحصار غیر ملکی مشوروں اور ان کے ساتھ آنے والے دباؤ پر تھا۔

 سیاست کے بانیوں کا ابتدائی وژن دھندلا گیا ، حتیٰ کہ غیر ملکی مشوروں اور عطیہ دینے والے اداروں کی ہدایات کی تعمیل میں انھیں پتا ہی نہ چلا کہ کدھر جانا ہے۔ سرمایہ دارانہ پیراڈائم (مثالیہ) پر مبنی ترقی کا ماڈل، جسے یورپ اور امریکا میں آزمایا گیا، خاص طور پر دوسری جنگِ عظیم کے بعد ان کا ’مارشل پلان‘، ان کا ارفع معیار اور سکّہ رائج الوقت بن گیا۔ ہاروڈ ڈومر(Harrod-Domar) ماڈل اور اس کے متعلقات، جنھیں چینری(Chenery)، نرکسی (Nurkse)، آرتھر لیوس (Arthur Lewis)، کوزنیٹس(Kuznets)، روستو (Rostow) اور دیگر حضرات نے منظم کیا۔؎۲   ایک اہم نظریاتی سرچشمۂ فیض (inspiration)بن گیا ، جب کہ امدادی ایجنسیوں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ذریعے تیار کردہ تجاویز، خاص طور پر ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف نے ترقیاتی حکمت عملیوں اور پالیسیوں کےلیے جو معیار اور ضابطے (parameters) مقرر کیے، انھی کو گذشتہ چھے عشروں سے مختلف حکومتیں اپناتی چلی آرہی ہیں ۔ کچھ کچے پکے تغیرات کے باوجودتقریباً تمام حکومتوں نے ترقی اور معاشی تبدیلی کے لیے سرمایہ داری کا تجویز کردہ راستہ ہی اختیار کیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سوشل ازم سے داغ دار نعرے بازی یا بیان بازی اور جنرل محمد ضیاء الحق کے دورِحکومت میں برائے نام اسلامی اقتصادی پالیسی بھی سرمایہ داری کے کردار کے اصل جوہر کو تبدیل نہ کرسکی۔

دوسرے خطوں کی طرح یہ ماڈل یہاں بھی ناکام ہورہا ہے۔ اسی لیے 'انسانی ضروریات کے لیے فکرمندی، 'غربت میں کمی، بڑے پیمانے پر معاشی استحکام اور اس طرح کی دیگر خصوصیات کا بظاہر اضافہ کیا گیا، لیکن اس کا بھی کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا۔زمینی حقائق بہت کچھ بتا رہے ہیں۔پائدار اور جامع ترقی ایک سراب بنی ہوئی ہے،اور جو بھی ترقی ہوئی ہے، اس کے ساتھ سماجی تناؤ، بڑھتا ہوا اقتصادی فرق اور خلیج،زیادہ غیر ملکی انحصار، سیاسی خودمختاری کا خاتمہ، ماحولیاتی تباہی اور ثقافتی بحران میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ نچلی سطح تک معاشی ترقیاتی فائدے پہنچانے کے جو خواب پیش نظر تھے، وہ سراب ثابت ہوئے ہیں۔اس کے بجائے وہی ممالک کامیاب ہوئے ہیں، جنھوں نے اپنی آزادانہ راہیں اختیار کیں، اور اس ماڈل کو اپنی بنیادی ضروریات اور حالات کے مطابق ڈھال لیا اور بیرونی دباؤ اور تجاویز کو آنکھیں بند کرکے قبول نہیں کیا۔ بدقسمتی سے پاکستان ایک غیرمربوط سرمایہ داری کے راستے پر چل پڑا ہے۔ توازن کے ساتھ اس تجربے کا ایک ایمان دارانہ جائزہ ہمیں اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ یہ ماڈل قومی خدمت اور قومی تعمیر کے امکانات روشن کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ اصل ضرورت اس مثالیے(Paradigm) کو علی الاطلاق تبدیل کرنے کی ہے ، اس کے اندر محض کچھ ترامیم سےکوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔آپ کسی خونخوار عفریت کے جسم پر انسانی ہمدردی کا نقاب نہیں چڑھا سکتے، اورنہ اس بلا سے کسی اچھے انسان کی طرح برتاؤ کی توقع کرسکتےہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام : چھے مہلک خامیاں

سرمایہ دارانہ ترقی کا پیراڈائم چھے مہلک خامیوں سے دوچار ہے، جنھیں لگی لپٹی بغیر سمجھنے کی ضرورت ہے:

  • سب سے پہلی خرابی یہ ہے کہ یہ معاشیات کو اخلاقیات، اخلاقی اقدار اور سماجی اور مساوی معیارات سے مکمل طور پر الگ کرتا ہے۔ انسان کی یہ تباہی دراصل سائنس اور اثباتیت (positivism)  کے نام پر ہوئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صحیح اور غلط اور عدل اور ظلم کا تصور ترقی کی حرکیات کی زبان میں بےگانہ ہوگیا۔ 'معاشرتی ترقی کے بارے میں غور و فکر کرنا،اس کی شناخت اور اس کے بارے میں اخلاقی انتخاب (ethical choices) سے توجہ ، دوسرے تمام امور سے ہٹ کر جنون کے ساتھ مقدار اور قیمتوں(quantum and rates) کی بڑھوتری، سرمائے کی تشکیل، غیرملکی امداد اور وسائل کی تقسیم کی طرف منتقل ہوگئی۔اس کے نتیجے میں پورے عمل کو ایک قسم کی غیرانسانی شکل دے دی گئی۔جیسا کہ ڈینس گولیٹ (Denis Goulet)نے واشگاف الفاظ میں واضح کیا ہے کہ ترقی کا مطلب مطلق اقدار کو مادی بنانا اور ساختیاتی جبریت(structural determinism) کو تخلیق کرنا ہوگیا ہے۔؎۳ اس نقطۂ نظر کے کھوکھلے پن کا احساس تیزی سے بڑھنے لگا ہے۔ ڈینس گولیٹ اس غیراقداری اور غیراخلاقی نقطۂ نظر سے مکمل طور پر نکلنے کی ضرورت پر اصرار کرتے ہیں:

زیادہ تر ترقیاتی پروگرام ثقافتی اقدار کو آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور انھیں محض ترقی کے ذرائع کے طور پر دیکھتے ہیں، یعنی ان اقدار کو اپنے ان مقاصد کے حصول میں معاون یا رکاوٹ سمجھتے ہیں جن کا اس اخلاقی نظام اور اقدار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ترقی کو مجموعی اقتصادی ترقی، جدید اداروں کی تخلیق، اور صارفین کی خواہشات اور پیشہ ورانہ عزائم کے پھیلاؤ کے ساتھ موافق کرتے ہیں۔تاہم، بنیادی طور پر ان میں سے کوئی بھی ترقی نہیں ہے، بلکہ سماجی تبدیلیاں ہی بہتر طور پر حقیقی ترقی کے راستے ہموار کرسکتی ہیں۔ ترقی کے ایک بالکل مختلف تصور کی ضرورت ہے، جو قوموں کے متنوع اقدار ی نظام سے اخذ کیا گیا ہو۔ان اقدار اور معانی، وفاداریوں، اور طرزِ زندگی کے ان نیٹ ورکس سے ترقی کےمقاصد اور اس کے حصول کے لیے موزوں ترین ذرائع کو اخذ کرنا چاہیے۔

روایتی اقدار اکثر پنہاںحرکیات کا سہارا لیتی ہیں۔ انھیں ایسے طریقوں سے ترقیاتی تبدیلی لانے کے لیے متحرک کیا جا سکتا ہے، جو متعلقہ آبادیوں کی شناخت اور سالمیت کو کم سے کم نقصان پہنچائیں۔ صحیح ترقی کی بنیاد روایتی اور مقامی اقدار پر ہونی چاہیے کیونکہ بالآخر معاشی اور سماجی ترقی دونوں ہی ایک وسیع تر مقصد کے مطابق، انسانی ترقی کو فروغ دینے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ تاہم، انسانی ترقی کا انحصار شناخت کے محفوظ احساس اور ثقافتی سالمیت کے علاوہ معانی کے اس نظام پر بھی ہے جس سے انسان جذباتی طور پر وفادار ہو سکتا ہے۔؎۴

  • سرمایہ دارانہ ترقی کے ماڈل کی دوسری بڑی خامی یہ ہے کہ یہ ’معاشرے‘ کو ’معیشت‘ اور ’معیشت‘ کو ’مارکیٹ‘ کے ساتھ برابر کرتا ہے۔ اس نقطۂ نظر کو ’معاشی جوش و خروش‘ '( ' economism)  کی فتح قرار دیا گیا ہے اور یہ ہمارے دور کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دنیا میں معاشی اور سماجی بحران کی جڑ ہے۔ایک ڈچ ماہر اقتصادیات ڈیس گیپر(Des Gaper) نے اس تصور کا درج ذیل خلاصہ پیش کیا ہے:

’اکانومزم‘ ان خیالات کا نام ہے جن کے مطابق زندگی کی تفہیم، قیمت اور انتظام معاشی حساب سے کی جانی چاہیے، یا یوں کہہ لیں کہ معیشت ایک جداگانہ اور بنیادی نوعیت کا دائرہ ہے جس کواس کی اپنی آفاقی اور تکنیکی ضروریات کے مطابق چلانا چاہیے جہاں شرح نمو میں بڑھوتری ہی ترقی کا اصل جوہر ہے۔؎۵

اس نقطۂ نظر کا منطقی نتیجہ مارکیٹ کا تمام فیصلوں میں حتمی ثالت بننے اور فیصلہ کن قوت کی صورت میں نکلتا ہے، بالآخر وہ لوگ جن کے پاس قوتِ خرید (purchasing power) زیادہ ہوتی ہے، ان کا سکہ چلتا ہے اور تمام وسائل ان ہی کی طرف اکٹھے ہوتے ہیں۔ اشرافیہ، دراصل استحصالی اور غیر منصفانہ سوسائٹی کا فطری نتیجہ ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ سرمایہ داری کے حامی بھی اب پوری انسانی حالت کے اس بالکل بدلی ہوئی شکل (metamorphosis) پر سراپا احتجاج ہیں۔ جارج سوروس (George Soros) اپنی کتاب On Globalization میں کہتے ہیں: ’’مارکیٹ کے طریقۂ کار پر حد سے زیادہ انحصار کرنا بہر صورت خطرناک ہے۔مارکیٹیں اس لیے تیار کی گئی ہیں کہ لوگوں کو رضامندی سے اشیا اور خدمات کے آزادانہ تبادلے کی سہولت فراہم کی جا سکے، لیکن وہ خود اس قابل نہیں ہیں کہ امن و امان جیسی اجتماعی ضروریات کی یا خود مارکیٹ میکانزم کی دیکھ بھال کر سکیں، نہ وہ عدل اجتماعی کو یقینی بنانے کی اہل ہیں۔ یہ مشترک ملکیت والی اشیا (public goods )صرف ایک سیاسی عمل کے ذریعے فراہم کی جاسکتی ہیں،لیکن معاشرہ صحیح اور غلط کی تمیز کے بغیر نہیں چل سکتا۔ جائز اور ناجائز کے اجتماعی فیصلے سیاست کے سپرد کیے گئے ہیں، جب کہ سیاست کی دنیا میں ایسے اجتماعی فیصلوں کا کوئی قوی اخلاقی ضابطہ وجودہی نہیں رکھتا‘‘۔؎۶

 ایک فرانسیسی ماہر اقتصادیات اگنیسی ساش (Ignacy Sachs)، اس تخفیف پسندانہ (reductionist) نقطۂ نظر کو چیلنج کرتے ہیں اور ترقی کے لیے زیادہ جامع اور انسانیت سے متصف نقطۂ نظر کی طرف ایک طاقتور استدعاکی تحریک دیتے ہیں۔معاشی بڑھوتری کے نظریات عام طور پر سرمایہ کاری سے پیداوار میں اضافے سے متعلق تخفیف پسند میکانکی پیراڈائم کواختیار کرتے ہیں۔ جہاں تک لفظ ’ترقی‘ کا تعلق ہے، اگر اسے نیچرل سائنس کےلیے اختیار کیا جائے تو یہ اس کی نامیاتی تشریح کے لیے پُر کشش ہوسکتا ہے۔ نامیاتی نشوونما مکمل طور پر جان دار کے جینیاتی کردار اور ماحولیاتی عوامل کے باہمی تعامل سے طے ہوتی ہے۔ یہ پیداوار (growth)، پختگی (maturation)،   گلنے سڑنے (decay) اور بکھرنے (decomposition) جیسے روایتی طریقے کو اختیار کرتاہے:

اس کے برعکس، سماجی و اقتصادی ترقی ایک کھلا تاریخی عمل ہے جس کا انحصار کم از کم جزوی طور پر انسانی تخیل، منصوبوں اور فیصلوں پر ہوتا ہے جو قدرتی ماحول کی مجبوریوں اور زندہ ماضی (تاریخ) کے بوجھ سے مشروط ہوتے ہیں۔ صرف ہماری انواع (species) اپنے مستقبل کو ایجاد کرنے اور اپنے ماحول کو اپنی مرضی کے مطابق بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس میں حقیقت پسندی اور ذمہ داری کے اصول کے مطابق رَدّ وبدل ہوتا ہے۔

اس طرح ترقی کو سماجی و اقتصادی ڈھانچے کی تبدیلی اور انتظام کے ایک دانستہ اور خو د اپنی رہنمائی کرنے والے عمل کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔جس کا مقصد تمام لوگوں کو باوقار ذریعۂ معاش کی فراہمی کے ذریعے مسلسل بہتری لا کر ایک مکمل اور باوقار زندگی گزارنے کا موقع فراہم کرنا ہے، چاہے مختلف ادوار میں مختلف معاشروں کی طرف سے ان اہداف کے لیے جو بھی ٹھوس اقدامات کیے گئے ہوں۔؎۷

یہ تخفیف پسندی (Reductionism)، معاشیات کے چند عظیم معماروں کے خیالات سے بھی مختلف ہے۔ الفریڈ مارشل (Alfred Marshall) معاشیات کو محض دولت کا مطالعہ ہی نہیں سمجھتے بلکہ اس سے بڑھ کر وہ خود انسان کا مطالعہ سمجھتے ہیں۔ گالبریتھ (Galbraith) نے مارشل کا یہ اقتباس دُہرایا ہے: ’’ماہرمعاشیات کو بھی دوسروں کی طرح انسان کے حتمی مقاصد کے بارے میں فکرمند ہونا چاہیے‘‘۔؎۸

آر ایچ ٹانی (R.H. Tawny) نوحہ پڑھتے ہیں: ’’صنعت کار ان لوگوں کو نظر انداز کردیتے ہیں جن کے لیے دولت حاصل کرنا چاہیے اور حصول دولت کے طریقوں میں ہی کھو جاتے ہیں‘‘۔؎۹

’معاشرے‘ کو ’معیشت‘ تک محدود کرنے اور معیشت کو صرف منڈی کا عمل بنانے کی یہ کوشش تمام فیصلہ سازی میں معاشی تحفظات کو فیصلہ کن عنصر بنادیتی ہے اور یہ سرمایہ دارانہ ماڈل کی سب سے مہلک خامی ہے۔

  • تیسری خامی یہ ہے کہ تبدیلی کے جعل ساز عمل (falsification) کا تعلق، ترقیاتی ماڈل کو اس کے تاریخی اور ثقافتی تناظر سے الگ کردیتا ہے۔ ترقی کو ایک تکنیکی مسئلے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جو معاشی پیرامیٹرز پر منحصر ہوتا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ عالم گیر اعتبار کے حامل ہیں۔ اس فریم ورک میں ترقی سرمایے کی تشکیل، بچت اور سرمایہ کاری اور وسائل کی مؤثر تقسیم کا کام بن جاتی ہے۔ جن ممالک میں سرمائے کی کمی ہے، وہ بیرونی سرمایہ کاری اور بیرونی امداد حاصل کرکے اس کمی کو پورا کرتے ہیں۔ پیداوار کا حصول ہی معاشرے کا ہدف بن جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں معاشرے کی تبدیلی کا پورا عمل واقع ہوتا ہے۔ ترقی کا یہ عمل عالمی سرمایہ دارانہ عمل کا حصہ بن جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں مغربی طاقتیں بالا دستی حاصل کرتی ہیں۔
  • چوتھی خامی، بڑی کمزوری کا تعلق ادارہ جاتی عوامل کو تقریباً مکمل طور پر نظر انداز کرنے سے ہے، جو حقیقت میں معاشرے کی تبدیلی اور اس کے عمل کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
  • پانچویں خامی، اس نقطۂ نظر کا مجموعی نتیجہ ہے کہ اس ماڈل میں ترقی، اپنے آپ میں ایک مطلوب بن جاتی ہے اور معاشرے کے فروغ کا ایسا ذریعہ نہیں بنتی جو معاشرے کے تمام افراد، قطع نظر نسل، رنگ، مذہب یا جنس کے، تمام لوگوں کے لیے انصاف کو یقینی بنائے۔ سرمایہ دارانہ ترقی کے ماڈل میں ’کارکردگی‘ کلیدی لفظ بن جاتاہے، ’انصاف‘ اور ’انسانی بھلائی‘ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ترقی اور فلاح کا رشتہ بلاواسطہ قائم نہیں ہوتا بلکہ بالواسطہ طور پر متوقع ہوتا ہے۔ اس طرح غربت میں کمی اور عوام کی فلاح و بہبود اوّلین مطلوب نہیں، بلکہ ضمنی نتیجہ کی حیثیت اختیار کرلیتے ہیں، جسے اصطلاح میں Trickle down کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ماڈل میں  انسانی ترقی، غربت میں کمی اور روزگار پیدا کرنے کے نام پر، اصل توجہ جی ڈی پی اور اس کی شرح پیداوار پر ہے۔ لبرلائزیشن، پرائیویٹائزیشن اور ڈی ریگولیشن صنعت کاری کی اس حکمت عملی کے اہم ستون ہیں۔
  • چھٹا، اور آخری نکتہ یہ ہے کہ یہ ماڈل کاروباری شخص، سرمایہ دار، سرمایہ کار کو کلیدی کردار تفویض کرتا ہے لیکن پھر بھی یہ اپنی فطرت میں اشرافیہ ہی رہتا ہے ۔ نجی شعبے کو اہم محرک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ریاست اور سول سوسائٹی کا کردار غیر اہم ہے۔ لوگوں کی شرکت اس نظام کے لیے اجنبی ہے۔

جمہوریت کے لیے تمام زبانی جمع خرچ کے باوجود، اس عمل میں سے عوام کا اخراج اور ان کی غیر موجودگی اس ماڈل کی ایک بڑی خصوصیت ہے۔

سرمایہ دارانہ ماڈل کی یہ مہلک خامیاں تیسری دنیا کے لوگوں کو حقیقی ترقی اور فلاح و بہبود فراہم کرنے میں ناکامی کی جڑ ہیں، جو اپنی معاشی قسمت بدلنے کی لاحاصل کوششوں میں مصروف ہیں۔ مرکزی دھارے کے ماہرینِ اقتصادیات اور حکمت عملی ساز چاہے کچھ بھی بہانہ بنائیں، یہ احساس [مسلسل] بڑھتا جا رہا ہے کہ سرمایہ دارانہ پیراڈائم کا ’دیوتا ناکام ہوچکا ہے‘۔نئے پیراڈائم کی تلاش اُفق پر امید کی حقیقی کرن ہے۔

عالمی ترقیاتی ادارے کی سفاکانہ پالیسیاں

پروفیسر ولیم ایسٹرلی (William Easterly) عالمی بنک کے سابق ماہر اقتصادیات نے اپنی کتاب The Elusive Quest for Growth میں عالمی ترقیاتی ادارے کا ایک ماہرانہ سروے کیا ہے۔ اس کے نتائج سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کے مستحق ہیں:

۵۰برس پہلے، دوسری جنگ عظیم کے بعد، ہم ماہرین اقتصادیات نے وہ ذرائع دریافت کرنے کےلیے اپنی جرأت مندانہ جستجو کا آغاز کیا تھا کہ جن کی مدد سے منطقہ حارہ (tropics)کے غریب ممالک بھی یورپ اور شمالی امریکا کی طرح امیرممالک بن سکیں۔ ہمیں کئی دفعہ خیال ہوا کہ ہم کامیابی کی کلید کو پاگئے ۔ ہم نے جو قیمتی چیزیں پیش کیں ان میں غیر ملکی امداد سے لے کر مشینوں میں سرمایہ کاری تک، تعلیم کو فروغ دینے سے لے کر آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنے تک، اصلاحات پر مشروط قرضے دینے سے لے کر قرضوں میں ریلیف کی مشروط فراہمی تک شامل تھیں مگر ہم نے ان میں سے کوئی بھی وعدہ وفا نہیں کیا ۔ جن غریب ممالک کا ہم نے مذکورہ نسخوں سے علاج کیا، حسب توقع وہ حقیقی ترقی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

جس خطے کی ترقی پر ہم نے سب سے زیادہ توجہ دی، وہ افریقا ہے جو مکمل طور پر ترقی کرنے میں ناکام رہا۔ لاطینی امریکا اور مشرق وسطیٰ نے کچھ عرصے کے لیے ترقی کی، لیکن پھر ۱۹۸۰ء اور ۱۹۹۰ء کے عشروں میں یہ نمو تنزلی کی طرف بڑھ گئی۔ جنوبی ایشیا جو ماہرین اقتصادیات کی جانب سے گہری توجہ حاصل کر رہا ہے، بے ہنگم ترقی کا شکار ہے، جس کی وجہ سے دنیا کے غریبوں کا بڑا حصہ جنوبی ایشیا میں ہے ۔ اور حال ہی میں مشرقی ایشیا کی، جس چمکتی کامیابی کا ہم نے بار بار جشن منایا، اس کی ترقی بھی گراوٹ کا شکار ہوگئی (جنوبی ایشیائی قوموں میں سے تمام تو نہیں، البتہ کچھ قومیں دوبارہ اُٹھ رہی ہیں)۔ منطقہ حارہ کا نسخہ ہم نے اس سے باہر کچھ سابق اشتراکی ممالک پر لاگو کرنے کی کوشش کی لیکن نتائج بہت مایوس کن نکلے۔؎ ۱۰

ولیم ایسٹرلی نے پچھلے چھے عشروں کے دوران اپنائی گئی ترقی کے راستوں سے بہت بنیادی انحراف تجویز کیا ہے ۔ وہ مفادِ عامہ پر مبنی نقطۂ نظر پر زور دیتا ہے۔ وہ جڑ سے حقیقی ترغیبات پر مبنی شرکت پر زور دیتا ہے، نہ کہ ڈیلیور کرنے میں ناکام ہونے پر اور پھر اُس کے اعادے پر۔

ورلڈ بنک کے ایک اور سابق سینئر ماہر اقتصادیات جان پرکنز (John Perkins) کی ایک دلچسپ اور آنکھیں کھول دینے والی کتاب آئی ہے ۔انڈونیشیا میں اپنے کچھ ساتھیوں کے کچھ واضح تبصروں پر غور کرتے ہوئے پرکنز نے Confessions of an Economic Hitman میں اعتراف کیا ہے:

امریکی خارجہ پالیسی اور اس کے کارپوریٹ مفادات کو فروغ دینے کے لیے ہم انڈونیشیا کی اکثریت کے لیے زندگی کو بہتر بنانے کی خواہش کے بجائے لالچ کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ ایک لفظ ذہن میں آیا: کرپٹو کریسی، مجھے یقین نہیں تھا کہ میں نے اسے پہلے سنا تھا یا ابھی ایجاد کیا ، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ بالکل نئی اشرافیہ کی حقیقت واضح کرتا ہے جس نے کرۂ ارض پر حکمرانی کی کوشش کرنے کا خیال پال رکھا ہے۔ رابرٹ میکنامارا (McNamara)، فورڈ موٹر کمپنی کے صدر کے عہدے سے صدر کینیڈی اور جانسن کے ماتحت سیکرٹری دفاع کے عہدے پر چلے گئے تھے، اور اب دنیا کے سب سے طاقتور مالیاتی ادارے میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔ معیشت کی ترقی میں مدد کرنا صرف ان چند لوگوں کو اور بھی امیر بناتا ہے جو اہرام کے اوپر بیٹھے ہیں، جب کہ یہ نیچے والوں کے لیے سوائے نیچے کی طرف دھکیلنے کے کچھ نہیں کرتا۔ درحقیقت، سرمایہ داری کو فروغ دینے کا نتیجہ اکثر ایسے نظام کی صورت میں نکلتا ہے جو قرون وسطیٰ کے جاگیردارانہ معاشروں سے ملتا جلتا ہے۔؎ ۱۱

جان پرکنز نے ترقی پذیر دنیا میں میگا پراجیکٹس کی حقیقی حرکیات کو سامنے لاکر سعودی عرب میں امریکا کے کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے:

امریکی فرموں کو زیادہ سے زیادہ ادائیگیاں کرنے سے سعودی عرب کے امریکا پر زیادہ سے زیادہ انحصار کی راہ ہموار ہو رہی ہے ۔ بہت جلد واضح ہوگیا کہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں۔ تقریباً تمام نئے منصوبوں میں پیش رفت اور ان کی دیکھ بھال کے لیے سعودیوں کو امریکا کی ضرورت ہوگی۔ یہ منصوبے اس قدر اعلیٰ تکنیکی ہیں کہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ جن کمپنیوں نے انھیں تیار کیا ہے، صرف وہ ہی ان کو برقرار رکھنے اور جدید بنانے کی اہل اور ذمہ دار ہوں گی…ہر پراجیکٹ کے لیے جن دوفہرستوں کا میں نے تصور کیا: ایک ڈیزائن اور تعمیراتی معاہدوں کی، جن کی ہم توقع کرسکتے ہیں، اور دوسری طویل المدت سروس اور انتظامی معاہدوں کی فہرست۔ ان منصوبوں سے بہت سے امریکی انجینئر اور ٹھیکیدار آنے والے عشروں تک خوب فائدہ اُٹھائیں گے۔؎ ۱۲

پرکنز اس احساس جرم کی وجہ سے ہر وقت پریشان رہتا ہے۔وہ مستقبل کے بارے میں مایوسی کا شکار نہیں ہے بلکہ اس کی فکر وہ روایتی حکمت ہے جس کے ہم سب غلام بن چکے ہیں:

میں یہ بہت تفصیل سے بیان کرسکتا ہوں کہ آج ہمیں جو مسائل درپیش ہیں، وہ انھی بدخواہ اداروں کا نتیجہ نہیں ۔ نیز یہ اقتصادی ترقی کے بارے میں غلط تصورات سے وجود پذیر ہوئے ہیں۔ قصور خود اداروں میں نہیں ہے، بلکہ ان کے کام کرنے کے انداز اور ایک دوسرے کے ساتھ تعامل اور اس عمل میں ان کے منتظمین کے کردار کے بارے میں ہمارے تصورات میں ہے۔؎ ۱۳

اس کے باوجود وہ پُرامید اور پُراعتماد ہے کہ دنیا، تمام انسانوں کی مدد کر سکتی ہے مگر صرف اسی صورت میں جب ہم پیراڈائم تبدیل کریں اور اسے حقیقت میں بدلنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ یہ ایک نیا خواب ہوگا جو دُنیا کے استحکام اور سماجی طورپر مساوات کے اصولوں پر مبنی ہوگا۔

نوبیل انعام یافتہ جوزف اسٹگلٹز(Joseph Stiglitz)، جو بطورچیف اکنامسٹ اور ورلڈ بنک کے نائب صدر کی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اپنی اہم تصنیف Globalization and Its Discontents میں اس موضوع پر عالمی مالیاتی اداروں میں پالیسی سازی کی اندرونی کہانی کو اجاگر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

آئی ایم ایف کی پالیسیاں، جزوی طور پر اس مضحکہ خیز مفروضے پر مبنی ہیں کہ مارکیٹیں، خود سے، مؤثر نتائج کا باعث بنتی ہیں لیکن آئی ایم ایف مارکیٹ کے اقدامات میں مطلوبہ حکومتی مداخلت کی اجازت دینے میں ناکام رہا حالانکہ یہ مداخلت اقتصادی ترقی کی رہنمائی کر سکتی تھی اور ہر ایک کو بہتر بنا سکتی تھی۔

فیصلے جس بنیاد پر کیے گئے، وہ نظریے اور خراب معاشیات کا ایک دلچسپ امتزاج نظر آتا تھا۔ یہ نظریاتی واہمہ کبھی کبھی خاص مفادات پر پردہ ڈالتا نظر آتا ہے۔ جب کسی ملک پر بحران آتا ہے، آئی ایم ایف ان ممالک کے لوگوں پر اپنی پالیسیوں کے اثرات پر غور کیے بغیر، پرانے، نامناسب [مگر بزعمِ خویش] 'معیاری حل تجویز کردیتا ہے۔ میں نے شاذ و نادر ہی اس بارے میں سنا ہے کہ پالیسیاں غربت کے لیے کیا کریں گی؟ شاذ و نادر ہی متبادل پالیسیوں کے نتائج کے بارے میں غور کیا گیا ہو یا ان پالیسیوں کا تجزیہ کیا گیا ہو۔ ہر بیماری کے لیے ایک ہی نسخہ تھا۔ کسی سے متبادل رائے نہیں مانگی گئی۔ آئیڈیالوجی گائیڈڈ پالیسی کا نسخہ تھماکر ممالک سے توقع کی جاتی تھی کہ وہ بغیر بحث کے آئی ایم ایف کے رہنما اصولوں پر عمل کریں۔ ان اصولوں نے اکثر خراب نتائج پیدا کیے کیوں کہ وہ اصول جمہوریت مخالف تھے۔

آئی ایم ایف کی ساختیاتی ایڈجسٹمنٹ کی پالیسیاں، وہ پالیسیاں جو کسی ملک کو بحرانوں  سے عہدہ برآ ہونے کے ساتھ ساتھ مزید مستقل عدم توازن کو ایڈجسٹ کرنے میں مدد کرنے کے لیے بنائی گئی تھیں، اُن کی وجہ سے بہت سے ممالک میں بھوک بڑھی اور فسادات ہوئے اور اگر ایک قلیل مدت کےلیے کوئی ملک ترقی حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوگیا، تب بھی اکثر فوائد غیرمتناسب طور پر امیروں ہی کو ملے ۔ نچلے طبقے کو کبھی اس سے بھی زیادہ غربت کا سامنا کرنا پڑا۔؎ ۱۴

مغرب کا دہرا معیار اور خود غرضی

جوزف اسٹگلٹز کے بین الاقوامی ’معاشی کھلاڑیوں‘ پر الزامات بہت سخت ہیں، لیکن سچی بات کی ہے:

عالم گیریت کے ناقدین بجاطور پر مغربی ممالک پر منافقت کا الزام لگاتے ہیں۔ مغربی ممالک نے تجارتی رکاوٹوں کو ختم کرنے کے لیے غریب ممالک کو تو مجبور کیا ہے، لیکن اپنے ہاں رکاوٹیں برقرار رکھی ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کو اپنی زرعی مصنوعات برآمد کرنے سے روکتے ہیں اور اس لیے انھیں برآمدی آمدنی کی اشد ضرورت سے محروم کردیتے ہیں۔ بلاشبہہ ریاست ہائے متحدہ امریکا اہم مجرموں میں سے ایک بڑے مجرم کے طور پر چلاآرہا ہے، اور یہ ایک ایسا گمبھیر مسئلہ تھا جس کے بارے میں مَیں شدت سے محسوس کرتا ہوں۔ جب میں اقتصادی مشیروں کی کونسل کا چیئرمین تھا، تو میں نے اس منافقت کے خلاف بھرپور جدوجہد کی۔ اس سے نہ صرف ترقی پذیر ممالک کو نقصان پہنچا ہے بلکہ اس سے امریکیوں کو بھی نقصان ہوا۔ صارفین کے طور پر، انھوں نے زیادہ قیمتیں ادا کیں، اور ٹیکس دہندگان کے طور پر، بھاری سبسڈی، اربوں ڈالر کی مالی اعانت کے لیے بھی خرچ کرنا پڑا۔ میری جدوجہد اکثر ناکام رہی۔ خصوصی تجارتی اور مالی مفادات غالب رہے۔

مغرب نے گلوبلائزیشن کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ وہ ترقی پذیر دنیا کی قیمت پر فوائد کا غیر متناسب حصہ حاصل کرلے۔ یہ صرف اتنا ہی نہیں تھا کہ زیادہ ترقی یافتہ صنعتی ممالک نے ترقی پذیر ممالک کے سامان کے لیے اپنی منڈیوں کو کھولنے سے انکار کر دیا۔ مثال کے طور پر، ٹیکسٹائل سے چینی تک بہت سی اشیا پر اپنا کوٹہ برقرار رکھا، جب کہ ان ممالک نے اس بات پر اصرار کیا کہ وہ اپنی منڈیوں کو ترقی پذیر ممالک کے لیے کھول دیں۔ دولت مند ممالک کے سامان؛  یہ صرف اتنا ہی نہیں تھا کہ ترقی پذیر ممالک نے زراعت پر ریاستی رعایت (سبسڈی) جاری رکھی، جس سے ترقی پذیر ممالک کے لیے مقابلہ کرنا مشکل ہو گیا، جب کہ ترقی پذیر ممالک صنعتی سامان پر اپنی سبسڈی ختم کرنے پر اصرار کرتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے کچھ کو درحقیقت بدتر بنا دیا گیا۔

مغربی بنکوں کو لاطینی امریکا اور ایشیا میں کیپٹل مارکیٹ کے نظام کے ڈھیلے ہونے سے فائدہ ہوا، لیکن ان خطوں کو اس وقت نقصان اٹھانا پڑا، جب قیاس آرائی پر مبنی بڑے پیمانے پر رقم (hot money)کی آمد ہوئی (وہ رقم جو کسی ملک کے اندر اور باہر آتی ہے، اکثر راتوں رات، اکثر اس بات پر شرط لگانے سے کچھ زیادہ ہوتی ہے کہ کرنسی ہے یا نہیں)۔ یہ کثیر سرمایہ جن ممالک میں ڈالا گیا تھا اچانک پلٹ گیا۔ پیسے کے اچانک اخراج نے کرنسیوں کو تباہ کردیا اور بنکنگ نظام کو کمزور کر دیا۔ اپنے قیام کے نصف صدی بعد یہ واضح ہے کہ آئی ایم ایف اپنے مشن میں ناکام ہو چکا ہے۔ اس نے وہ نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا___ معاشی بدحالی کا سامنا کرنے والے ممالک کے لیے فنڈز فراہم کرنا، ملک کو اس قابل بنانے کے لیے فنڈز کی فراہمی کہ وہ مکمل روزگار کے قریب پہنچ سکے اور اس کو مالی بحران سے نکالنا۔ لیکن ایک بار جب کوئی ملک بحران کا شکار ہوگیا تو آئی ایم ایف کے فنڈز اور پروگرام نہ صرف اس کو مستحکم کرنے میں ناکام رہے، بلکہ صورتِ حال یہ ہے کہ بہت سے معاملات میں حقیقت میں معاملات کو مزید خراب کردیا، خاص کر غریبوں کے لیے۔

جوزف اسٹیگلٹز کی جانب سے نج کاری کی پوری پالیسی اور اسے فروغ دینے کے لیے کی جانے والی زبردستی کی حکمت عملیوں پر کھلی تنقید بھی قابل غور ہے اور اس پر غور کیا جانا چاہیے:

بدقسمتی سے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک نے نج کاری کے مسئلے کو تنگ نظری سے دیکھا ہے۔ اس کی کوشش تھی کہ نج کاری کو تیزی سے آگے بڑھانا چاہیے … آئی ایم ایف نے صرف یہ سمجھا کہ مارکیٹیں ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تیزی سے پیدا ہوتی ہیں، جب کہ حقیقت میں، بہت سے حکومتی سرگرمیاں اس لیے پیدا ہوتی ہیں کہ مارکیٹیں ضروری خدمات فراہم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ نج کاری صرف صارفین کی قیمت پر نہیں بلکہ کارکنوں کی قیمت پر بھی آئی ہے… نج کاری اکثر نوکریاں پیدا کرنے کی بجائے موجود نوکریوں کو بھی تباہ کر دیتی ہے‘‘۔

اندھی نج کاری کے مزید دو پہلو قابل توجہ ہیں:

اس کے برعکس نج کاری نے معاملات کو اتنا بگاڑ دیا ہے کہ آج بہت سے ممالک میں نج کاری کو طنزیہ ’رشوت‘ کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی حکومت بدعنوان ہو تو اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ نج کاری سے مسئلہ حل ہو جائے گا۔ آخر کار جس بدعنوان حکومت نے فرم کو بدانتظامی سے چلایا، وہی نج کاری کی باگیں بھی سنبھالے گی۔ بیش تر ممالک میں یکے بعد دیگرے سرکاری حکام نے یہ یقین کرلیا ہے کہ نج کاری کا مطلب یہ ہے کہ انھیں اب سالانہ منافع کی پستی (skimming )تک محدود رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کسی سرکاری ادارے کو مارکیٹ کی قیمت سے کم قیمت پر بیچ کر وہ اپنے لیے اثاثہ کی قیمت کا ایک اہم حصہ حاصل کر تے ہیں، بجائے اس کے کہ اسے بعد کے آفس ہولڈرز کے لیے چھوڑ دیں۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ دھاندلی زدہ نج کاری کے عمل کو اس لیے تیار کیا گیا تھا کہ اس سے حکومتی وزرا زیادہ رقم اپنے لیے مخصوص کریں، وہ رقم نہیں جو حکومت کے خزانے میں جمع ہوگی، معیشت کی مجموعی کارکردگی کی کوئی پروا کیے بغیر۔ جیسا کہ ہم دیکھیں گے کہ روس کس طرح ہرصورت میں اس تباہ کن نج کاری کے نقصانات کا خصوصی مطالعہ پیش کرتا ہے‘‘۔

ڈونرز یا امداد دینے والوں نے کس طرح مغربی سخاوت حاصل کرنے والوں کے ہاتھ مروڑ دیے ہیں، اسٹیگلٹز کی جانب سے صرف دو مثالیں پیش خدمت ہیں:

شاید زیادہ تشویش کا باعث حکومتوں کا کردار رہا ہے، بشمول امریکی حکومت کے، جنھوں نے اقوام عالم کو ان معاہدوں پر عمل کرنے پر مجبور کیا، جو ترقی پذیر ممالک کے لیے انتہائی غیر منصفانہ تھے ، جس پر وہاں کی بدعنوان حکومتوں نے دستخط بھی کیے ۔ ایسے غیرمنصفانہ معاہدوں کی ایک طویل تاریخ ہے، جن کو نافذ کرنے کے لیے مغربی حکومتوں نے اپنی طاقت کا استعمال کیا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے خلاف براہ راست جائز شکایات کی فہرست میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ ایسی سرمایہ کاری اکثر صرف حکومت کی طرف سے حاصل کردہ خصوصی استحقاق کی وجہ سے پھلتی پھولتی ہے۔ اگرچہ معیاری معاشیات ان مراعات پر توجہ مرکوز کرتی ہے، جو اس طرح کے استحقاق کے نتیجے میں ہوتی ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ گھناؤنا پہلویہ ہے کہ اس قسم کی بیشتر مراعات سرکاری افسران کی رشوت ستانی اور بد عنوانی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری صرف جمہوری عمل کو کمزور کرنے کی قیمت پر آتی ہے۔ یہ خاص طور پر کان کنی، تیل اور دیگر قدرتی وسائل میں سرمایہ کاری کے لیے درست ہے، جہاں غیر ملکیوں کو کم قیمتوں پر رعایتیں حاصل کرنے کی حقیقی ترغیب حاصل ہوتی ہے۔

اس تلخ کہانی کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ حالات تبھی بدل سکتے ہیں، جب بہت ہی بنیادی چیزوں میں تبدیلی لائی جائے۔ اس سلسلے میں اسٹیگلٹز کی اپنی تجاویز ایک نیا پیراڈائم (مثالیہ) بنانے سے متعلق ہیں:

یہ واضح ہے کہ اصلاحات کی ایک کثیر الجہتی حکمت عملی ہونی چاہیے۔ ترقی پذیر ممالک کو اپنی فلاح و بہبود کی ذمہ داری خود لینی چاہیے۔ وہ اپنے بجٹ کا انتظام کرسکتے ہیں۔ اگرچہ یہ اپنےکم وسائل کے اندر رہ کر حفاظتی رکاوٹوں کو ختم کرکے صارفین کو زیادہ قیمت ادا کرنے پر آمادہ کرسکتے ہیں۔

انھیں بین الاقوامی برادری سے صرف اتنا ہی پوچھنا چاہیے کہ ان کے حق ضرورت اور انتخاب کو قبول کریں جس میں ان کے سیاسی فیصلوں کی عکاسی ہوتی ہو۔ مثال کے طور پریہ کہ کس کو کیا رسک لینا چاہیے؟ دیوالیہ پن کے قوانین اور ریگولیٹری ڈھانچے کو اپنے حالات کے مطابق بنانے اور ترقی یافتہ ممالک کے تیار کردہ سانچوں (Templates) کو قبول نہ کرنے پر ان کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔ جس چیز کی ضرورت ہے وہ پائیدار، منصفانہ اور جمہوری ترقی کے لیے پالیسیاں ہیں۔ یہی ترقی کا راز ہے۔ترقی کا مطلب معاشروں کو تبدیل کرنا ، غریبوں کی زندگیوں کو بہتر بنانا ہے، جس سے ہرایک کو کامیابی، صحت کی سہولت اور تعلیم تک رسائی کا موقع ملے۔

چند لوگوں کی تحکمانہ پالیسیوں کا اتباع کرنے سے مذکورہ ترقی ممکن نہیں ہے۔ جمہوری فیصلے یقینی بنانے کا مطلب یہ یقینی بنانا ہے کہ ترقی پذیر ممالک ماہرین اقتصادیات، سرکاری افسران اور دیگر ماہرین کی ایک وسیع کھیپ کو اس بحث میں شامل کیا جائے۔ نیز اس کایہ مطلب بھی ہے کہ ان لوگوں کی شرکت اس قدر وسیع ہونا چاہیے، جو ماہرین اور سیاست دانوں سے بالاتر ہو۔ ترقی پذیر ممالک کو اپنے مستقبل کی ذمہ داری خود سنبھال لینی چاہیے۔ لیکن مغرب میں ہم اپنی ذمہ داریوں سے دست بردار نہیں ہوسکتے۔

پاکستان میں ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے، وہ ترقی کے اس ’پیراڈائم‘ (مثالیے)کا براہِ راست نتیجہ ہیں، جس کی ملک کی مختلف قیادتوں نے اپنی من مانی سے پیروی کی ہے۔ چند مثبت پہلوئوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن جب ہم اٹھائے جانے والے اخراجات، پیدا ہونے والی خرابیوں، ضائع ہونے والے مواقع اور لوگوں اور معاشرے کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا جائزہ لیتے ہیں، تو بگاڑ اور معاشی تباہ کاریوں کے جلو میں ان کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔(جاری)

_______________

حواشی اور حوالہ جات

  1.  Pervez Hasan, Pakistan’s Economy at the Crossroads: Past Policies and Present Imperatives, Karachi, Oxford University Press, 1998.; Charles H. Kennedy and Cynthuia A. Botteron (eds), Pakistan 2005, Karachi, Oxford University Press, 2006.; Ishrat Hussain, Pakistan: The Economy of an Elitist State, Karachi, Oxford University Press, 1999. ; Shahrukh Rafi Khan (ed), 50Years of Pakistan’s Economy:Traditional Topics and Contemporary Concern, Karachi: Oxford University Press, 1999.  S. Akber Zaidi, Issues in Pakistani Economy, Second Edition, Karachi: Oxford University Press 2005.; Khalid Rahman and Abdullah Adnan, Special Issue Pakistan: Society and State The Muslim World, Hartford, Connecticut, Vol. 96, No. 2, April 2006.; Reports and Studies  of Pakistan  Institute of Development Economics, Islamabad and Social Policy and Development Centre, Karachi.

  2.  Hollis B. Chenery, Mon- tela S. Ahluwalia, C.L.G. Bell and Richard Jolly, Redistribution with Growth, London, Oxford University Press, 1974. ; Ragnar Nurkse, Problems of Capital Formation in Underdeveloped Countries, New York, Oxford University Press, 1953; W.W. Rostow, Stages of Economic Growth, Cambridge, Cambridge University Press, 1971. ; Simon Kuznets ‘Economic Growth and Income Inequality’ The American Economic Review, Vol. 45: 1 (1955)  W. Arthur Lewis, The Theory of Economic Growth, London, Unwin Press, 1955.

  3.  Denis Goulet, Development Ethics: A Guide to Theory and Practice, London, Zed Books, 1995, p 20.

4.    ibid, p. 141

  5.  Des Gasper, The Ethics of Development: From Economism to Human Development, New Delhi, Vistaar Publication, 2004, p xiii.

6.    George Soros, On Globalisation, New York, Public Affairs, 2002, p. 6-7.

 7.   Ignacy Sachs, Understanding Development: People, Markets and States in Mixed Economies, New Delhi, Oxford University Press, 2000, pp. 54-55.

  8.  John Kenneth Galbarith, The Affluent Society, Boston, Houghton Miffin Co. 1958.

  9.  R. H. Tawny, The Acquisitive Society, quoted in John Bartlett, Familiar Quotations, 15th edition, Boston, Little, Brown & Co., 1980, p 773.

  10. William Easterly, The Elusive Quest: Economists’ Adventures and Misadventures in the Tropics, Cambridge, The MIT Press, 2002 , p. 11-12.

  11. John Perkins, Confessions of an Economic Hitman, San Francisco, Barrett-Koehler Publishers, 2004, p 26.

  12. ibid.,  p 87.

  13. ibid.,  p 222.

14.    Joseph Stiglitz, Globalisation and Its Discontents, London, Allen Lane, 2002, p12. (آیندہ تمام اقتباسات اسی کتاب سے ماخوذ ہیں)