جنوری ۲۰۰۱

فہرست مضامین

پاکستانی معاشرے کی مزاجی کیفیت

عبدالکریم عابد | جنوری ۲۰۰۱ | پاکستانیات

Responsive image Responsive image

معاشرے کا جب صحت مندانہ ارتقا ہو رہا ہو تو اس کی ایک سمت ہوتی ہے اور مختلف تبدیلیوں کی نوعیت میں ایک ترتیب اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ لیکن یہ بات صاف نظر آتی ہے کہ پاکستانی معاشرے کی تبدیلیاں اس نوعیت کی نہیں ہیں۔ کیونکہ معاشرہ مزاجی ہم آہنگی کھو چکا ہے‘ اس لیے وہ متضاد سمتوں میں جا رہا ہے اور اس سے معاشرے کی تقسیم اور ٹکرائو کا عمل شدید ہوتا جائے گا۔

ابن خلدون نے اپنے مشہور عالم مقدمہ تاریخ میں لکھا تھا کہ معاشرے کی وحدت ایک عصبیت کا نتیجہ ہوتی ہے‘ جو افرادِ معاشرہ میں مشترک ہوتی ہے۔ جب تک یہ عصبیت برقرار رہتی ہے ‘ معاشرہ اوراس کی ریاست قائم رہتی ہے۔ لیکن جب یہ کمزور تر ہوتی چلی جائے تو آخر شیرازہ بکھرنے کی نوبت آجاتی ہے۔

مسلم قومیت کا احساس : پاکستانی معاشرہ اور ریاست کو وجود میں لانے کی عصبیت ‘مسلم قومیت کا احساس تھا لیکن مسلم قومیت کی یہ عصبیت اس وقت انتہائی کمزور حالت میں ہے۔ اس کی جگہ لسانی عصبیتیں لے رہی ہیں۔ اگرچہ معاشرے میں فرقہ وارانہ عصبیت نے بھی اپنا اظہار کیا ہے‘ لیکن یہ افراد معاشرہ میں عام نہیں ہے۔

فرقہ وارانہ عصبیت:  فرقہ پرست تنظیموں اور ان کے مسلح گروہ یا دہشت گرد کارروائیاں کرتے رہے ہیں‘ لیکن ایک پاکستانی مسلمان کی سوچ پر فرقہ وارانہ رنگ غالب نہیں ہے۔ ویسے ہر فرقے میں اس کی اپنی ایک عصبیت ضرور ہوتی ہے‘ لیکن سنی ‘ شیعہ‘ دیوبندی‘ بریلوی کسی فرقے کے افراد میں یہ عصبیت ایسی غالب نہیں ہے کہ عام فساد کی شکل اختیار کر جائے۔ درحقیقت فرقہ واریت کے خون آشام مناظر کسی عوامی لہر کی نمایندگی نہیں کرتے۔ یہ بعض انتہا پسند تنظیموں کی کارستانی تھی اور ان خون آشام مناظر کو دیکھنے کے بعد عوام میں

فرقہ واریت کے خلاف ذہن پیدا ہوا ہے کہ مسجدوں‘ امام بارگاہوں کے فرش کو خون سے رنگین کر دینا کسی مسلک اور فرقے کی خدمت نہیں ہے اور ان واقعات نے فرقہ واریت کے خونی اورجنونی انداز کے خلاف ذہن پیدا کیا ہے۔ فرقہ پرست تنظیموں کے لیڈروں نے بھی سوچا ہے کہ اگر ایک دوسرے کے فرقے کے ممتاز افراد کے قتل کا سلسلہ جاری رہا‘ تو اس کی زد میں ہم بھی آسکتے ہیں۔ ان تنظیموں کو پہلے انتظامیہ کی ’’لڑائو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت جو شہ حاصل تھی‘ وہ بھی اب انھیں حاصل نہیں ہے۔ عراق‘ ایران جنگ کے زمانے میں جو بیرونی شہ تھی‘ وہ بھی ختم ہو چکی ہے۔ کیونکہ مشرق وسطیٰ میں ایک عرب عجم مفاہمت کا ارتقا ہوا ہے۔ تاہم پچھلے دنوں شیعہ سنی فرقہ واریت میں کمی ہوئی ہے‘ تو دیوبندی بریلوی جھگڑے نے بعض گوشوں سے سے سر اٹھایا ہے‘ لیکن یہ بھی عوام کے کسی موڈ کا نتیجہ نہیں۔ اس کے پیچھے سیاست ہو سکتی ہے یا بعض گروہوں کے جھگڑے‘ اور ان کی نوعیت ایسی نہیں ہے کہ یہ کوئی بڑا فساد پیدا کر سکیں۔ اگرچہ بھارت کی کوشش ہے کہ پاکستان فرقہ وارانہ جنگ و جدل کا اکھاڑہ بن جائے۔ اس کے لیے اس کے ایجنٹ بھی کام کرتے ہیں‘ لیکن پاکستانی معاشرے میں فرقہ واریت محدود دائروں میں ہی ہے اور اس سے کسی جنگ و جدل کا اندیشہ نہیں ہے اور نہ لوگوں کا مزاج فرقہ وارانہ لڑائی کا ہے۔

لسانی عصبیتیں : فرقہ وارانہ عصبیت کے مقابلے میں لسانی عصبیتیں مزاج پر حاوی نظر آتی ہیں اور ان عصبیتوں سے کوئی بھی لسانی گروہ خالی نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس عصبیت نے پاکستان بنایا تھا وہ ختم ہو رہی ہے اور اس کی جگہ کسی نہ کسی عصبیت کو لینا ہے اور حالات لسانی عصبیتوں کے لیے سازگار ہیں۔ سندھ‘ کراچی‘ بلوچستان‘ سرحد‘ پنجاب اور اس کا سرائیکی علاقہ سب عصبیتوں کی لپیٹ میں ہیں اور ان کا اثر آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے۔ لسانی عصبیت کی حامل سیاسی جماعتوں سے قطع نظر بیورو کریسی میںبھی اس کی مضبوط جڑیں قائم ہو چکی ہیں۔ کالا باغ ڈیم بنانے یا نہ بنانے کا مسئلہ ہو‘ پانی کی صوبوں میں تقسیم کا معاملہ ہو‘ یا صوبوں کے وسائل کے حق کا معاملہ ہو‘ ان سب کو عصبیت کی عینک سے دیکھا جا رہا ہے۔ ایک طرف تمام چھوٹے صوبوں کے عوام میں یہ بات متفق علیہ ہو گئی ہے کہ پنجاب ہم سے زیادتی کرتا رہا ہے اور مزید کر رہا ہے۔ دوسری طرف پنجاب کے عوام کا عام احساس یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں کی بیوروکریسی اور ان کی سیاسی قیادت خواہ کسی جماعت کی ہو‘ اس کا رویہ عدم تعاون کا ہے اور یہ عدم تعاون صرف تعصب کی بنیاد پر ہے۔

ملک میں صحت مند سیاست اور قیادت کا غلبہ نہ ہونے کے سبب آیندہ اس لسانی عصبیت کے مزاج کے ترقی کرنے اور باہم متصادم ہونے کے کافی امکانات ہیں۔ چونکہ ملک کے معاشی حالات بھی دگرگوں ہو رہے ہیں اور عوام کے لیے روزگار کی صورت حال بدتر ہو رہی ہے‘ اس لیے معاشی مصائب کے لیے بھی ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا۔ جب معاشی حالات اچھے ہوتے ہیں تو ہر گروہ مطمئن رہتا ہے‘ لیکن جب یہ بگڑتے ہیں تو اس کا اثر قومی وحدت پر بھی ہوتا ہے‘ اور کسی جوڑنے والے نظریہ کی عدم موجودگی میں شکست و ریخت اورتوڑنے والی قوتوں کو نفرت انگیزی کے لیے مواقع مل جاتے ہیں۔ آیندہ ہمارے معاشرے کو اس صورت حال کا بھی سامنا رہے گا۔

پاکستانی معاشرے میں پچھلے دو تین عشروں میں دو متضاد چیزوں کو بڑی ترقی حاصل ہوئی ہے۔ ایک مذہبیت ہے‘ دوسری عریانیت و فحاشی ۔ پہلے ہم مذہبی مزاج کا تجزیہ کریں گے۔

مذہبی رجحان:  ہمارے معاشرے میں مذہبی رجحان کا ایسا زور و شور نظر آتا ہے کہ جو پہلے کبھی نہیں تھا۔ پہلے صرف تبلیغی جماعت کی مقبولیت تھی‘ جو اب اور زیادہ ہو گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ’’دعوت اسلامی‘‘ اور اسی طرح کی تحریکوں نے نچلے متوسط طبقے اور چھوٹے تاجروں اور کاریگروں کے طبقے میں خاص نفوذ حاصل کیا ہے۔ جو مذہبیت جڑ پکڑ رہی ہے‘ وہ غیر سیاسی ہے اور سیاسی بھی ہے۔ سیاست کے میدان میں جہادی قوتیں منظم حالت میں ہیں۔ افغانستان اور کشمیر میں کامیاب معرکہ آرائیوں کے مظاہرے کے بعد وہ پاکستانی سیاست میں جارحانہ کردار ادا کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ لیکن یہ عناصر چھوٹی چھوٹی تنظیموں میں بکھرے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ نباہ کر کے چلنے کی صلاحیت ان میں نظر نہیں آتی ہے۔ کئی تنظیموں میں کسی گہری سوچ بچار کے بجائے عام جذباتیت غالب نظر آتی ہے‘ جو چوراہوں پر ٹی وی توڑ کر یا اس طرح کے سطحی مناظر سے مطمئن ہونا چاہتی ہے‘ اور اس امر کا پورا امکان ہے کہ اس طرح کی تنظیمیں تشدد اور توڑ پھوڑ کا راستہ اختیار کریں‘ جو بہرحال پاکستان اور اسلام کے مفاد میں نہیں ہوگا۔

مذہبی جماعتوں کی صورت حال:  مذہبی جماعتوں میں پچھلے جمہوری دور کو دیکھ کر یہ خیال بھی پیدا ہوا ہے کہ اسلام انتخابات کے ذریعے نہیں آسکتا۔ مروجہ سیاست کو اپنا کر اسلام کو غالب نہیں کیاجا سکتا ہے۔ اس کے لیے ہمیں انقلاب کا راستہ اپنانا ہوگا۔ لیکن انقلاب کیا ہے؟ کس طرح آتا ہے؟ اس کے بارے میں صاف ذہن نہیں اور غلط فہمی بھی ہے کہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے بھڑ جانے کا نام انقلاب ہے۔ حالانکہ انقلاب کے لیے معاشرے میں ایک فکری عمل کو جاری کرنا اور اسے اس حد تک کامیاب بنانا ضروری ہے کہ خواص اور عوام دونوں طبقات کے قابل لحاظ عناصر اس کے قائل ہو جائیں۔

’’مسلح جدوجہد‘‘ یا ’’گوریلا جنگ‘‘ کا نظریہ کمیونسٹوں کا رہا ہے اور اس جدوجہد یا جنگ کے پیچھے سابق سوویت یونین کی عالمی طاقت کی اعانت بھی رہی ہے‘ لیکن آخر وہ بھی اس نتیجے پر پہنچے کہ بندوق بازی سے انقلاب نہیں آسکتا اور نہ بندوق کے زور پر انقلاب کو مسلط رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے معاشرے کو فکری اور مزاجی طور پر تیار کرنا ضروری ہے۔ اسے تیارکرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اکثریت بدل جائے کیونکہ اکثریت تو ہمیشہ عوام کالانعام کی رہی ہے۔ اصل حیثیت معاشرے کے ذہین اور فعال طبقات کی ہے۔ اس میں اگر آپ نفوذ حاصل کر لیں‘ تو بعد میں عوام خود بخود ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پچھلے عشروں میں جمہوریت سے مایوسی نے اسلامی انقلاب کا جو نیا ذہن پیدا کیا ہے‘ وہ اسلام کے لیے ایسی بے صبری اور بے تابی کا ہے جس سے خدا نے اپنے رسول کو منع کیا تھا۔ اس بے صبری کی بنا پر ایک نئے مذہبی مزاج کا بھی ظہور ہوا ہے‘ جو مار دھاڑ کے ذریعے اسلام اور شریعت کی حکمرانی حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن یہ مزاج اسلامی تحریک کے لیے سخت نقصان کا موجب ہوگا۔

غیر سیاسی مذہب کا رجحان:  پچھلے عرصے میں جو غیر سیاسی مذہب بڑی تیزی سے مقبول ہوا ہے ‘ اس کے نتیجے میں بلاشبہ لوگوں کے حلیے تبدیل ہوئے ‘ ان کی عادات و اشغال میں تبدیلی آئی ہے‘ لیکن اس غیر ’’سیاسی مذہب‘‘ کے نتیجے میں اس سے متاثرہ لوگ معاشرے سے کٹ رہے ہیں اور اس کے لیے اجنبی بن رہے ہیں‘ حتیٰ کہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے بھی ایک الگ مخلوق نظر آتے ہیں۔ ان کی ذہنیت میں غیر ضروری امور اور مباحث میں شدت‘ اچھے اور نیک انسانوںکی توانائیوں کے ضیاع کا باعث ہو رہی ہے‘ اور ان کی وجہ سے یہ معاشرے کوبدل نہیں رہے ہیں‘ بلکہ پاکستانی معاشرے میں جو مختلف معاشرے پائے جاتے ہیں‘ ان میں ایک نئے معاشرے کا اضافہ کر دیا ہے‘ جو کسی اور سے میل نہیں کھاتا اور معاشرتی تضاد کو بڑھا رہا ہے۔

اسلامی نظام کی تشکیل جدید کا رجحان:  لیکن ان سب کے باوجود معاشرے میں علامہ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کے اس طرزِ فکر کو بھی بڑھاوا ملا ہے کہ مغربی فلسفے اور نظام ناکام ہو چکے ہیں اور مستقبل میں اسلام کی بنیاد پر انسانی اجتماعیت کی جدید تشکیل کا وقت قریب آ رہا ہے۔ اس سلسلے میں یہ احساس بھی عام ہو گیا ہے کہ مسلمانوں کا مقابلہ امریکہ سے ہے‘ جس پر صیہونیت کا غلبہ ہے اور مستقبل کی بڑی جنگ عالم اسلام اور امریکہ کے مغربی حواریوں کے درمیان ہو گی۔ یہ جنگ ناگزیر ہے اور اسے ٹالا نہیں جا سکتا۔

پاکستانی عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی افسوس ناک سیاسی‘ اقتصادی صورت حال بھی امریکہ اور اس کی آلہ کار مقامی قوتوں کی پیدا کردہ ہے‘ اور اپنی اقتصادیات کے لیے بھی مسلمانوں کو امریکہ سے لازماً جنگ آزما ہونا پڑے گا۔ اس طرزِ فکر نے خود حکمران طبقے میں بھی جگہ بنائی ہے اور اب فوج و بیورو کریسی میں بھی اس طرز پر سوچنے والوں کی تعداد کافی ہو گئی ہے۔ تاہم انھیں مختلف مجبوریوں اور موانعات کا بھی خیال ہے‘ جو انھیں یکسو نہیں ہونے دیتا اور کوئی راہِ عمل وہ اختیار نہیں کر پا رہے ہیں لیکن یہ طرزِ فکر بہرحال موثر اور مقتدر طبقات میں بھی بڑھ رہا ہے اور اپنے وقت پر اثر ضرور دکھائے گا۔ اب ہمارے حکمران اور مقتدرطبقہ کے لیے دل و جان سے یکسو ہو کر امریکہ کی تابع داری اور خدمت گزاری ممکن نہیں ہوگی۔ جو تضاد امریکہ سے پیدا ہو چکا ہے‘ وہ بڑھتا جائے گا اور اس سے ایک نئی عظیم الشان تحریک ضرور برپا ہوگی‘ جس میں عوام کا بھی حصہ ہوگا اور خواص کا بھی۔

معاشرتی اقدار سے غفلت کا رجحان: معاشرے کے اس پہلو کو دیکھ کر کسی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ نفس پرستی اور ذات پرستی کے مرض اور مزاج نے بھی معاشرے میں بہت ترقی کر لی ہے۔ ’’حیوۃ الدنیا‘‘ پر جس طرح اب ہر عام و خاص ریجھا ہوا ہے‘ ایسا پہلے کبھی نہیں تھا۔ معیارِ زندگی کو اونچا کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے‘ نمود و نمایش میں لوگ ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتے ہیں۔ اسراف کا کلچر عام ہے۔ معاشرے میں فکرونظر‘ علم و تحقیق‘ مطالعے اور مکالمے کے کلچر کو زوال ہوا ہے۔ نئی نسل کی تعلیم کا نظام بربادی کی نذر ہو گیا ہے۔ گھروں میں جو اخلاقی‘ تہذیبی تربیت کا بنیادی ادارہ ہے‘ بگاڑ داخل ہو گیا ہے۔ بچے گھروں میں بگڑتے ہیں‘ درس گاہوں میں بگڑتے ہیں‘ اور عمل کی دنیا میں ان کے کردار کا فساد اور زیادہ ہو جاتا ہے۔ ہر سینے میں ہوسِ زر ہے۔ مسرت کے حصول کا ذریعہ اقدار نہیں‘ مادی اشیا ہو کر رہ گئی ہیں۔

اخلاقی انحطاط میں اضافہ: آیندہ جو معاشی بحران آرہا ہے ‘ اس میں زندگی کے مادہ پرستانہ معیار کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا‘ اور اس معاشی انحطاط سے نیا اخلاقی انحطاط جنم لے گا۔ عصمت فروشی‘ ڈاکے‘ کاروبار میں دھوکا بازی‘ یہ سب چیزیں زیادہ ہوں گی۔ نوجوانوں کو روزگار کی خراب صورت حال جرائم کی طرف بھی لے جا سکتی ہے اور تخریبی نظریات کی جانب بھی۔

جنسی بے راہ روی میں اضافہ:  سب سے بڑا مسئلہ معاشرے کی جنس زدگی کا ہے۔ ہر طرف سے جنسی جذبات کو اُبھارا جا رہا ہے۔ اخبارات کے اشتہارات سے لے کر فلموں اور ٹی وی پروگراموں تک جنس کا شیطان شرم و حیا کو ختم کر رہا ہے۔ گو یہ بھی صحیح ہے کہ اس کے مقابلے میں عورتوں میں حجاب کا فیشن چل پڑا ہے۔ چادر اوڑھنے اور منہ چھپانے والیوں کی بازاروں میں پہلے کے مقابلے میں کثرت نظر آتی ہے۔ نماز پڑھنے والوں کی تعداد میں بھی خاصا اضافہ ہوا ہے اور مسلسل ہو رہا ہے۔ لوگ عمرے بھی کثرت سے کر رہے ہیں‘ خیرات کا رجحان بھی ترقی پر ہے‘ لیکن اب بھی اس خیر کے مقابلے میں شر کا پلڑہ بہت بھاری ہے اور معاشرے کی جنس زدگی ایسی چیز ہے جو اس میں شیطانیت کو عام کر رہی ہے۔ اسی لیے جنسی جرائم اور درندگی کی خبریں عام ہیں۔ اب چھوٹی چھوٹی معصوم بچیاں اور بچے بھی جنسی درندگی کا شکار ہو رہے ہیں اور جنس کا یہ شیطان ہر گھر میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ اخبارات‘ ٹی وی‘ انٹرنیٹ ہی کے ذریعے نہیں‘ ملبوسات کے نئے فیشن‘ زیب و زینت کی اشیا اور ہار سنگھار کے بہانے بھی ذہنوں میں کج روی پیدا کر رہا ہے‘ اور سادگی کے کلچر کی جگہ اس نئے کلچر کے عام ہونے سے بھی ذہن کی معصومیت اور پاکیزگی متاثر ہو رہی ہے۔ مختلف تقاریب‘ مثلاً شادی میں مہندی کی رسم‘ یا مخلوط پارٹیوں سے بھی اسے ہوا مل رہی ہے۔

وقت کا تقاضا :  معاشرے کی یہ تصویر کشی اس لیے نہیں ہے کہ لوگوں کو مایوس کیا جائے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اس بات کو سمجھا جائے کہ معاشرے کا نیا مزاج متعین کرنا آسان کام نہیں ہے۔ بگاڑ کی قوتیں اب عالمی نوعیت کی ہو گئی ہیں اور تمام وسائل ان کے ہاتھ میں ہیں۔ انھیں اپنے مطلب کا مزاج متعین کرنے کے لیے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے مقصدکا کام خود بخود ہو رہاہے۔ پھر بھی وہ خاص طور پر اپنے مقصد کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کے لیے این جی اوز کو متحرک کر رہے ہیں اور اپنے مطلب کی محفلیں منعقد کر رہے ہیں۔ لٹریچر بھی پیدا کر رہے ہیں‘ جب کہ ہماری کارکردگی بہت کم ہے اور اگر ہم کارکردگی دکھانا چاہتے ہیں‘ تو یہ کسی ایک خاص جماعت یا گروہ کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ اس کے لیے عوام کو حرکت میں لانا ہوگا اور ایک نئے ثقافتی انقلاب کے لیے ہربستی اور محلے میں نیکی کا مزاج رکھنے والوں کو بلالحاظ سیاسی و مذہبی نظریات کو منظم و یک جا کرنا ہوگا ۔جب سب مل کر کوشش کریں گے تو معاشرے کا نیا مزاج بنا سکیں گے‘ اور جو مزاج فاسد پیدا ہو چکا ہے‘ اس کی روک تھام کر سکیں گے۔