جنوری ۲۰۰۱

فہرست مضامین

عدل‘ محاسبہ‘ قومی وقار اور خودمختاری جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا

پروفیسر خورشید احمد | جنوری ۲۰۰۱ | اشارات

Responsive image Responsive image

پاکستان کی ۵۳ سالہ تاریخ میں قومی سطح پر ہماری قیادتوں نے غلطیاں‘ زیادتیاں‘ قانون کی خلاف ورزیاں اور مظالم‘ تو بے شمار کیے ہیںلیکن یہ سانحہ پہلی بار موجودہ حکومت کے ہاتھوں رونما ہوا ہے کہ ایک بااثر قومی مجرم اور اس کے پورے گھرانے کو اسلامی اصول و احکام‘ ملکی دستور و قانون‘ قومی رائے اور جذبات و احساسات اور عالمی سطح پر جرم و سزا کے معروف ضابطوں کو یکسرنظرانداز کر کے شرم ناک سودے بازی کر کے ملک سے فرار کرا دیا گیا بلکہ فرار کی شاہانہ سہولتیں مہیا کی گئیں اور المیہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ موجودہ حکومت کے ہاتھوں ہوا اور عدالتوں کی دی ہوئی سزائوں کو ’’معاف‘‘ یا نظرانداز کر کے اسے ’’ملک و قوم کے بہترین مفاد میں فیصلہ‘‘ قرا ردینے کی جسارت کی گئی۔

بلاشبہ ۱۰ دسمبر ۲۰۰۰ء ہماری تاریخ کا ایک تاریک ترین دن تھا۔

یہ اقدام ایک ناقابل معافی قومی اور اخلاقی جرم ہے۔ معاملہ افراد کا نہیں‘ اصولوں کا ہے‘ ہمیں نہ نوازشریف سے کوئی دشمنی ہے اور نہ پرویز مشرف سے کوئی پرخاش۔ لیکن یہ قوم اور ملک ہمیں عزیز ہیں۔ اسلام کے اصول و احکام اور ملک کا دستور اور قانون ہماری نگاہ میں وہ میزان ہیں جن پر ہر کسی کے عمل کو پرکھا جانا چاہیے اور جو بھی ان اقدار کو پامال کرے جن پر ہمارا ایمان‘ ہماری آزادی اور ہماری سلامتی کا انحصار ہے اس پر گرفت ایک دینی اور قومی فریضہ ہے۔ اس سلسلے میں کسی بھی درجے کی مداہنت دنیا میں بربادی اور آخرت میں خسارے کا باعث ہو گی۔ یہی جذبہ ہے جو ہمیں مجبور کرتا ہے کہ اس گھنائونے اقدام کا بھرپور محاسبہ کریں‘ اس کے مضمرات سے ملک و ملت کو آگاہ کریں اور قوم کو مزید تباہی سے بچنے کے راستے کی نشاندہی کریں۔


حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اسلام کی تعلیمات اور انسانی تاریخ کے تجربات کا نچوڑ ایک جملے میں بیان فرما دیا ہے کہ ’’معاشرہ کفر کے ساتھ تو باقی رہ سکتاہے لیکن انصاف کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاے کرام اور پھر اپنے آخری پیامبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کی زمین پر جس مقصد و ہدف کے حصول کے لیے بھیجا وہ تھا: تعلیم کتاب و حکمت کے ساتھ انسانوں کے درمیان عدل وانصاف کا قیام اور اسی بنیاد پرمعاشرے اور ریاست کی تعمیرو تشکیل ۔

لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا  بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ج (الحدید ۵۷:۲۵)

ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا ‘اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔

حضور اکرمؐ کی زبانی صاف الفاظ میں اعلان فرمایا :

فَلِذٰلِکَ فَادْعُ ج وَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ ج وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ ھُمْ ج وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنْ کِتٰبٍ ج وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ ط  (الشوریٰ ۴۲:۱۵)

اے محمدؐ ‘ اب تم اسی دین کی طرف دعوت دو‘ اور جس طرح تمھیں حکم دیا گیا ہے اسی پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جائو‘ اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو‘ اور ان سے کہہ دو کہ: اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اس پر ایمان لایا۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھارے درمیان انصاف کروں۔

مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے :

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا لا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النساء ۴:۵۸)

مسلمانو‘ اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

اسلام اس معاملے میں اتنا حسّاس ہے کہ خود اپنی ذات‘ باپ بیٹے‘ امیر غریب اور دوست و دشمن میں بھی کوئی تمیز گوارا نہیں کرتا۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ ج اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا قف فَلاَ تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا ج وَاِنْ تَلْوٗآ اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا  o  (النساء ۴:۱۳۵)

اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو ‘ انصاف کے علم بردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری اپنی ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتے داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مال دار ہو یا غریب‘ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو‘ اللہ کو اس کی خبر ہے۔

ایک مسلمان ہمیشہ عدل و انصاف کا علم بردار ہوتا ہے--- دوست ہی نہیں دشمن سے بھی عدل سے پیش آنا مسلمان کا شیوہ ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا  قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ  شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ ز وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ  عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتّٰقْوٰی ز وَاتَّقُوْا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ م بِمَا تَعْمَلُوْنَ  o (المائدہ ۵:۸)

اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتاہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو‘ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

انصاف کے معاملے میں اسلام کی حسّاسیت کا ایک بڑا ہی اہم اور نازک پہلو یہ ہے کہ وہ جرم و سزا کو قانون کے مطابق دیکھنا چاہتا ہے اور اس میں نہ کوئی اضافہ گوارا کرتا ہے اور نہ کمی۔ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی جا رہی ہے :

اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰک اللّٰہُ ط وَلاَ تَکُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًا O وَّاسْتَغْفِرِ اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا  O  وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِیْنَ یَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَھُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ خَوَّانًا اَثِیْمًا O   (النساء ۴:۱۰۵-۱۰۷)

اے نبیؐ‘ ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ جو راہِ راست اللہ نے تمھیں دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو۔ تم بددیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنو‘ اور اللہ سے درگزر کی درخواست کرو‘ وہ بڑا درگزر فرمانے والا اور رحیم ہے۔ جو لوگ اپنے نفس سے خیانت کرتے ہیں تم ان کی حمایت نہ کرو۔ اللہ کوایسا شخص پسند نہیں ہے جو خیانت کار اور معصیت پیشہ ہو۔

جرم کے ثبوت کے بعد اس کے مرتکبین کے لیے نرمی اور رعایت کی بات انصاف کے منافی اور جرم و سزا کے قانون کو غیر موثر کرنے کے مترادف ہے۔ زنا کی سزا کے باب میں قرآن کا صاف ارشاد ہے:

وَّلَاتَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ج  (النور۲۴:۲)

اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو اگر تم اللہ تعالیٰ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔

یہی اصولی بات قتل کے سلسلے میں بیان فرمائی:

یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی ط اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی ط فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْ ئٌ فَاتِّبَاعٌم بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَآئٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ط ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ ط فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ O وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیٰوۃٌ یّٰاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ O (البقرہ ۲:۱۷۸-۱۷۹)

اے لوگو‘ جو ایمان لائے ہو‘ تمھارے لیے قتل کے مقدموں میں قصاص کا حکم لکھ دیا گیا ہے۔ آزاد آدمی نے قتل کیا ہو تو اس آزاد ہی سے بدلہ لیا جائے‘ غلام قاتل ہو تو وہ غلام ہی قتل کیا جائے‘ اور عورت اس جرم کی مرتکب ہو تو اس عورت ہی سے قصاص لیا جائے۔ ہاں‘ اگر کسی قاتل کے ساتھ اس کا بھائی کچھ نرمی کرنے کے لیے تیار ہو‘ تو معروف طریقے کے مطابق خوں بہا کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل کولازم ہے کہ راستی کے ساتھ خوں بہا ادا کرے۔یہ تمھارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے۔ اس پر بھی جو زیادتی کرے‘ اس کے لیے دردناک سزا ہے--- عقل و خرد رکھنے والو‘ تمھارے لیے قصاص میں زندگی ہے۔  امید ہے کہ تم اس قانون کی خلاف ورزی سے پرہیز کرو گے۔

واضح رہے کہ خوں بہا کا حق واختیار حکومت کو نہیں‘ جس کا حق مارا گیا ہے اس کو حاصل ہے۔ جرم و سزا کے بارے میں امیر غریب‘ عالی نسب اور عامی‘ بااثر اور کمزور میں تمیز و فرق اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

’’لوگو‘ تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں‘ وہ ہلاک ہو گئیں اس لیے کہ جب ان کا کوئی عزت والا چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے تھے‘‘۔ اور آپؐ نے فرمایا کہ ’’اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ قطع کر دیے جاتے‘‘۔ سزا میں تخفیف اور اضافہ بھی انصاف کے منافی ہے۔ حضورؐ کا ارشاد ہے کہ:

’’قیامت کے روزایک حاکم لایا جائے گا جس نے حد میں ایک کوڑا کم کر دیا تھا۔ پوچھا جائے گا کہ یہ حرکت تو نے کیوں کی تھی؟ وہ عرض کرے گا کہ آپ کے بندوں پر رحم کھا کر۔ ارشاد ہو گا تو ان کے حق میں مجھ سے زیادہ رحیم تھا؟ پھر حکم ہوگا لے جائو اسے دوزخ میں۔ ایک حاکم لایاجائے گا جس نے حد پر ایک کوڑے کا اضافہ کر دیا تھا۔ پوچھا جائے گا تو نے یہ کس لیے کیا تھا؟ وہ عرض کرے گا تاکہ لوگ آپ کی نافرمانی سے باز رہیں۔ ارشاد ہوگا: اچھا تو ان کے معاملے میں مجھ سے زیادہ حکیم تھا؟ پھر حکم ہوگا لے جائو اسے دوزخ میں (بحوالہ تفسیر کبیر ‘ ج ۶‘ ص ۲۳۵ ‘ تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۳۴۴)

ان احادیث کا تعلق حدود سے ہے لیکن اس سے یہ اصول نکلتا ہے کہ مجرم کا جرم ثابت ہونے کے بعد انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں۔ اس کو بلادلیل اور قانونی تقاضے پورے کیے بغیر نہ چھوڑ دیا جائے--- اور اس کی سزا میں کمی نہ کی جائے بلکہ پورا عمل عدل و انصاف کے مطابق ہو اور جس پر جو حق واجب ہے اسے بلاکم و کاست وصول کیا جائے اور حق داروں کوپہنچایا جائے۔ اسی لیے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر فاروقؓ نے حکومت کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے فرمایا تھا کہ ان کی نگاہ میں ہر قوی کمزور ہے جب تک کہ اس سے حق دار کے حق واپس نہ لے لیں اور ہر محروم قوی ہے جب تک کہ اس کا حق اسے دلوا نہ دیں۔

جس سرزمین پر عدل کا نظام موجود نہ ہو‘ جہاں قانون کی حکمرانی نہ ہو‘ جہاں طاقت ور محض اپنی دولت اور اثر و رسوخ کی بنا پر حق داروںکا حق مار کر دندناتا پھرے اور مظلوم اپنے حق سے محروم رہے اُسے اسلامی تو کیا‘ ایک مہذب معاشرہ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ چرچل نے دوسری جنگ کے عین ان لمحات کے موقع پر جب برطانیہ کا ہر گھر جرمنی کی توپوں کی زد میں تھا‘ کہا تھا : ’’یہ ملک محفوظ ہے اگر اس کا عدالتی نظام ٹھیک ٹھیک کام کر رہا ہے اور لوگوں کو انصاف مل رہا ہے‘‘۔

جس معاشرے سے انصاف اٹھ جائے سمجھ لیجیے کہ اس کی زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں۔


موجودہ حکومت نے نواز شریف اور ان کے خاندان کو جس طرح معافی دی ہے اور اعزاز کے ساتھ ملک سے رخصت کر دیا ہے اس عمل میں اس نے ایک نہیں حسب ذیل سات بڑے سنگین جرائم کا ارتکاب کیا ہے اور اسے ان سب ہی کے بارے جواب دہی کرنا ہو گی:

۱- عدلیہ کی تضحیک اور قوم سے بے وفائی: پہلا جرم یہ کہ ایک ایسے شخص کو ‘جسے ملک کی عدالتوں نے کم از کم دو مقدمات میں مجرم قرار دے کر سنگین سزائیں دی تھیں‘ بلاجواز و اختیار معافی دے کر انصاف کا خون کیا ہے۔ حکومت خود ان معاملات میں مدعی تھی اور ایک مقدمے کے بارے میں عدالت سے سزا میں کمی نہیں‘ مزید اضافے کی درخواست کر رہی تھی۔ نیز مختلف عدالتوں میں اسّی (۸۰) کے قریب دوسرے مقدمات دائر ہو گئے تھے یا دائر کیے جانے کے مراحل میںتھے۔ ایک خاندان جس کے بارے میں ملک اور عالمی اخبارات اور رسائل میں اربوں روپے کے غبن اور  لوٹ مارکی شہادتیں پیش کی جا رہی تھیں اور خود حکومت ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے اقدام کے جواز میں جن جرائم کا شب و روز ذکر کر رہی تھی اور جن کی بنیادپر عدالت عالیہ نے ۱۲ اکتوبر کے اقدام کو ایک گونہ جواز (validation) فراہم کیا تھا‘ ان سب سے بیک چشم صرفِ نظر کرکے محض چند ایسے اثاثوں کو اپنی تحویل میں لے کر‘ جن کی مالیت اصل لوٹ کھسوٹ کاعشر عشیر بھی نہیں‘ اس نے شدید ترین بدعنوانی اور بے انصافی کاارتکاب کیا ہے۔ جرم کرنے والے اس جرم پر پردہ ڈالنے یا مجرم کو بچانے والے اور حق دار کو (جو اس معاملے میں پوری پاکستانی قوم ہے محض کوئی حکمران نہیں) اپنے حق سے محروم کر دینے والے بھی جرم میں اسی طرح شریک اور ذمہ دار ہیں جس طرح اس کا اصل ارتکاب کرنے والے۔ نواز شریف ہوں یا بے نظیر یا کوئی اور سابق حکمران--- ان پر الزام ہی یہ ہے اور عدالتوں اور قوم کے اجتماعی ضمیر نے اس الزام کی توثیق کی ہے کہ انھوں نے اپنے اپنے دورِ اقتدار میں امانتوں میں خیانت کی ہے‘ اختیارات کا غلط استعمال کیا ہے‘ دستور اور قانون کی دھجیاں بکھیر دی ہیں‘ قومی خزانے کو ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے اور ملکی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے۔ ملکی دولت بیرون ملک منتقل کی ہے اور ملک و قوم کو اپنے ہی وسائل سے محروم کر کے غربت اور افلاس اور بے روزگاری کے جہنم میں دھکیل دیا ہے۔

نواز شریف صاحب ۱۹۸۱ء سے کسی نہ کسی صورت میں برسرِ اقتدار رہے ہیں۔ اس زمانے میں ان کا خاندان ملک کا پانچواں امیر ترین خاندان بن گیا۔ ان بیس سال میں محض چند لاکھ کی حیثیت والے اس خاندان کے اثاثوں کی مالیت ۱۰ ارب روپے سے زیادہ ہو گئی اور ۵ سو ملین ڈالر سے زیادہ (ایک اندازے کے مطابق ایک بلین ڈالر) ملک کے باہر منتقل کرنے کا مرتکب ہوا۔ اس عرصے میں اس خاندان کے ۳۴ صنعتی یونٹ وجود میں آئے جو ۳۰ چھوٹے بڑے مالیاتی اداروں سے قرض لے کر اور قرض کی بڑی بڑی رقوم معاف کرا کر قائم کیے گئے۔ صرف ایک حبیب بنک سے ایک ارب روپے قرض لیے گئے۔ دوسرے بنکوں اور مالیاتی اداروں کے واجب الادا قرضوں کی مالیت ۵ ارب سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ اسی طرح ڈیڑھ ارب روپے سرکاری خزانے کے ٹیکسوں کی شکل میں واجب الادا بتائے جا تے ہیں (ملاحظہ ہو‘ جنگ‘ ۱۱ دسمبر ۲۰۰۰ء- جو لندن کے اخبارات گارڈین اور انڈی پنڈنٹ کی رپورٹوں پر مبنی ہیں جن کی صحت پر اخبارات نے شریف خاندان کوعدالتی کارروائی کا چیلنج دیا تھا مگر انھوں نے ان اخبارات کے خلاف کوئی عدالتی چارہ جوئی نہیں کی)۔

جس خاندان نے ملک و قوم کو اس بے دردی سے لوٹا ہو‘ اسے معافی دینے اور ملک سے فرار کی اجازت دینے کا اختیار کسی کو حاصل نہیں تھا۔ یہ اقدام اسلام‘ دستورِ پاکستان‘ قانونِ احتساب اور سب سے بڑھ کر پاکستان اور پاکستانی قوم سے کھلی کھلی بے وفائی ہے۔ معافی اور فرار کا ڈراما رچا کر موجودہ حکومت بھی ان جرائم میں اتنی ہی شریک اور ذمہ دار ہو گئی ہے جتنا ان کا ارتکاب کرنے والے ہیں۔

۲- دستور کی کھلی خلاف ورزی: دوسرا جرم دستور کی کھلی کھلی خلاف ورزی ہے۔ دستور پاکستان کی دفعہ ۴ میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ: ہر شہری خواہ کہیں بھی ہو‘ اور کسی دوسرے شخص کا جو فی الوقت پاکستان میں ہو‘ یہ ناقابل انتقال حق ہے کہ اسے قانون کا تحفظ حاصل ہو اور اس کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے۔

اسی طرح دفعہ ۱۵ میں ہر شہری کے لیے نقل و حرکت اور پاکستان میں کہیں بھی قیام کا حق تسلیم کیا گیا ہے الا یہ کہ کسی قانون کے تحت کسی کو اس سے محروم کیا جائے۔ دستور میں ملک بدری (deportation) کا کوئی حق حکومت کو نہیں دیا گیا۔ بین الاقوامی قانون کے تحت کسی شخص کو اس کی شہریت سے محروم کیے بغیر ملک سے نہیں نکالا جا سکتا اور یہ عمل بھی عدالتی فیصلے کے تحت ہو سکتا ہے ‘محض انتظامی حکم (executive order) سے نہیں۔ دفعہ ۲۵ میں تمام شہریوں کی برابری اور قانون کے مساوی تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ اسی طرح دستور کی دفعہ ۴۵ میں معافی یا سزا میں کمی کا جو حق دیا گیا ہے وہ صرف عدالتوں کے آخری فیصلے کے بعد ہے اور دستوری اور قانونی عرف کے مطابق بالعموم صر ف موت کی سزاکے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اب دیکھیے اس اقدام کی صورت میں کس طرح دستور کی ان تمام دفعات کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

 (i) جن دو مقدمات کی سزائیں معاف کی گئی ہیں وہ ابھی عدالتوں میں زیرِغور ہیں اور حکومت اور ملزم دونوں کی طرف سے اپیل کے درجے میں ہیں۔ دستور کی دفعہ ۴۵کا اطلاق ایسے معاملات پر نہیں ہوتا۔

 (ii) ابھی ان ملزموں کے خلاف ۸۰ کے لگ بھگ مقدمات احتساب کی اور دوسری عدالتوں میں  پیش ہونے کے لیے تیار کیے جا رہے ہیں۔ ان سارے معاملات میں یک طرفہ طور پر ملزمان کو فرار کی راہ دکھانا  (بلکہ عملاً فرار کرانا) دستور اور قانون کا خون کرنے اور جرم کی سرپرستی اور اس میں شرکت کے مترادف ہے۔

(iii) ایک ہی جرم میں شریک مختلف مجرموں کے درمیان تمیز اور فرق دستور اور اسلامی اصول کے منافی ہے۔

(iv) ملک بدری کی کوئی سزا کتاب قانون میں موجود نہیں۔ ایسی کوئی سزا دینے کا کوئی مجاز نہیں جو قانون کی نگاہ میں سزا نہ ہو۔ اسی طرح ملک بدر کرنے یا ملک میں واپسی کے حق سے کسی کو عدالتی کارروائی کے بغیر محروم نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ یہ بھی مشتبہ ہے کہ عدالتی فیصلے کے ذریعے بھی کسی کو اپنے ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ آنے والے کو قانون کے مطابق گرفتار تو کیا جا سکتا ہے لیکن ایک شہری کو ملک میں داخلے کے حق سے محروم کرنے کا اختیار دستور اور قانون کے تحت کسی کو حاصل نہیں۔

(v) اگرچند ملزموں کو اس طرح سودا بازی کے ذریعے سرکاری اہتمام میں ملک کے‘ باہر عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کے لیے بھیجا جا سکتاہے تو پھر کس قاعدے اور قانون کے مطابق دوسروں کو اس ’’حق‘‘ سے محروم رکھا جا سکتا ہے یا ان افراد کو زبردستی ملک میں لایا جا سکتا ہے جو ایسے ہی جرائم کا ارتکاب کر کے ملک سے فرار ہو گئے ہیں۔ خود دوسرے ممالک سے ایسے لوگوں کے بطور ملزم حوالگی (extradition) کا بھی کیا اخلاقی جوازباقی رہ جاتا ہے؟

یہ وہ چند پہلو ہیں جن کے بارے میں دستور اور خود اسلام کے اصول انصاف کی کھلی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

۳- بااثر اور کمزور میں فرق کی شرم ناک مثال : تیسرا بڑا جرم اس اقدام کے ذریعے یہ کیا گیا ہے کہ امیر اور غریب‘ بااثر اور کمزور‘ بیرونی سرپرستی رکھنے والے اور بیرونی سرپرستی سے محروم انسانوں کے درمیان فرق کی ایک شرم ناک مثال قائم کی گئی ہے۔ نیز مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے کے درمیان تمیز و فرق کی بات بھی کی جا رہی ہے۔ ایک ہی جرم کے مرتکب انسانوں کے درمیان تمیز اور فرق کا جو رواج ازمنہ قدیم کے براہمنی‘ یا ایسے ہی دوسرے ظالمانہ اور جابرانہ نظاموں میں پایا جاتا تھا اور جسے اسلام اور خود دورِحاضر کے قانونی نظاموں نے ختم کر دیا تھا اس کا بدقسمتی سے ہمارے ملک میں احیا کیا جا رہا ہے۔ بے نظیر‘ الطاف اور ایسے دوسرے بہت سے افراد تو خود ملک سے بھاگ گئے ہیں لیکن یہ ’’اعزاز‘‘ اس حکومت کو اور امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے بادشاہوں کے منظورنظر اس گھرانے کو جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں حاصل ہوا ہے کہ قومی مجرموں کو قانون اور انصاف کی گرفت سے نکال کر لوٹی ہوئی دولت سے شادکام ہونے کے لیے شاہی انتظام میں رخصت کر دیا گیا ہے۔ چند ہزار روپوں کا غبن کرنے والے تو جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور موٹر سائیکل پر محض دہری سواری کرنے والے تو پابند سلاسل ہیں لیکن اربوں روپے لوٹنے والے اور پوری قوم کو غلام بنانے والوں کے لیے آرام کے ساتھ سرکاری سرپرستی میں فرار کا اہتمام کیا گیا ہے۔  قانون صرف کمزوروں اور چھوٹے لوگوں کے لیے ہے۔ بڑی مچھلیوں پر اسے کوئی اختیار حاصل نہیں۔ یہ انصاف کا خون اور فرعونی روایات کا فروغ ہے۔  تفو!بر تو چرخ گرداں تفو!

۴- احتساب کے نام پر مذاق: فوجی حکومت اس دعوے کے ساتھ وجود میں آئی تھی کہ مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچائے گی‘ لوٹی ہوئی دولت ہی واپس نہیں لائے گی بلکہ لوٹنے والوں کو بھی دنیا کے کونے کونے سے پکڑ کر قانون کی گرفت میں لے کر قرار واقعی سزادے گی۔ لیکن اس اقدام کے ذریعے اس نے قومی دولت کو لوٹنے والے سب سے بڑے ٹولے کو باعزت معافی دے کر ملک سے خود ہی رخصت کر دیا۔ اب دوسروں کی گرفت کا کیا جواز باقی رہا ہے؟ اس اقدام نے احتساب کے پورے عمل کو محض ایک ڈھونگ اور تماشے میں بدل دیا ہے۔ اب احتساب کے موجودہ نظام کا کوئی سیاسی‘ قانونی اور اخلاقی جواز باقی نہیں رہا ہے۔ ملک اور ملک سے باہر اس نظام پر کوئی اعتماد نہیں کر سکتا۔ ایک طرف عدالتی نظام اور قانون کی حکمرانی کے اصول کو پامال کیا گیا ہے تو دوسری طرف احتساب کے پورے نظام کو ایک مضحکہ بنا کر غیر موثر کر دیا گیا ہے جس پر ] اعتماد اور بھروسے والی کوئی بات[ اب باقی نہیں رہی۔ یہ ایک ایسا ظلم ہے جس کی تلافی مشکل ہے۔

۵- ملکی وقار اور خود مختاری پر شدید ضرب:  اس اقدام کے لیے کھلے اور چھپے جو قوتیں کام کرتی رہی ہیں اور جس جس بیرونی دبائو کے آگے ہتھیار ڈالنے کی یہ حکومت مرتکب ہوئی ہے اس نے ملک کے وقار اور خودمختاری پر شدید ضرب لگائی ہے۔ ایک عرب ملک کا کردارتو بہت نمایاں ہے جس کا اعتراف خود سرکاری اعلان میں موجود ہے لیکن بات ایک ملک کی نہیں‘ کئی ملکوں کی ہے۔ اب تو وائٹ ہائوس کے ترجمان نے صاف اعتراف کر لیا ہے کہ ہم اس سلسلے میں برابر دبائو ڈال رہے تھے اور اس اقدام پر خوش ہیں۔ اس طرح کلنٹن صاحب نے ان خدمات کا حساب چکا دیاہے جو سابق وزیراعظم نے بھارت نوازی‘ کارگل سے پسپائی‘ ورلڈ بنک اور امریکہ کی معاشی بالادستی‘ افغانستان پر حملوں میں درپردہ معاونت‘ کانسی کی ملک بدری‘ جوہری صلاحیت کی تحدید اور نہ معلوم کس کس شکل میں انجام دی تھیں۔ سوال صرف سابق حکمرانوں کی مغربی اقوام کی کاسہ لیسی ہی کا نہیں‘ موجودہ حکمرانوں کا ان کے مطالبات کے آگے گھٹنے ٹیک دینے کا بھی ہے--- اور اس میں جو خطرات آیندہ کے لیے مضمرہیں‘ وہ ہوش اڑا دینے والے ہیں۔ مغرب کے ایجنڈے میں افغانستان پر دبائو‘ اسامہ بن لادن کی گرفتاری‘ کشمیرمیں جنگ بندی اور بھارت اور امریکہ کی شرائط پر سمجھوتہ کاری‘ قرضوں کی غلامی اور معاشی محتاجی میں اضافے اور بالآخر نیوکلیر صلاحیت سے محرومی اور اسلام سے بنیاد پرستی (فنڈمنٹلزم) کے نام پر عملی دست برداری آگے کے اہداف ہیں۔ جو حکومت قومی مجرموں کو اپنے دستور اور قانون کے مطابق اپنے دائرہ اختیارمیں نہ رکھ سکی اس سے قومی سلامتی کے دوسرے محاذوں پر مضبوطی کی توقع عبث ہے۔ فوجی قیادت کے بارے میں قوم کو توقع تھی کہ وہ سیاسی قیادتوں کے مقابلے میں بیرونی اثرات سے ملک کو محفوظ رکھنے میں زیادہ مستعد ہو گی لیکن یہ بڑی تشویش ناک بات ہے کہ خود فوجی قیادت اس محاذ پر کمزوری اور پسپائی دکھا رہی ہے۔ گویا ’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘‘۔ اس طرح حکومت نے اپنی ساکھ (credibility) کو بالکل ختم کر کے رکھ دیا ہے۔

۶- حکومت کا جواز سے محروم ہو جانا: ایک اور اہم پہلو اس اقدام کا یہ ہے کہ اس کے ذریعے موجودہ حکومت نے خود اپنے کو اس جواز (legitimacy) سے محروم کر دیا ہے جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذریعے اسے حاصل ہو گیا تھا۔ ۱۲ اکتوبر کے اقدام کا اگر کوئی جواز تھا تو وہ سابقہ حکومت کے کرتوت اور ان کو قرار واقعی سزا دیے جانے کا امکان اور انتظام تھا۔ اسی وعدے کے ساتھ جنرل صاحب نے یہ اقدام کیا تھا اور انھی پہلوئوں کو سامنے رکھ کر سپریم کورٹ نے انھیں سند جواز مرحمت کی تھی۔ لیکن اگر اس مجرم ہی کو معافی دے دی گئی ہے اور اس کے سارے جرائم پر نہ صرف یہ کہ پردہ ڈال دیا گیا ہے بلکہ ساری لوٹ کھسوٹ کو بھی ایک طرح تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے تو پھر اسے ہٹانے والوں کے باقی رہنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے۔ اس اقدام کی شکل میں جنرل صاحب نے وہ کام کیا ہے جو اس بڑھیا نے کیا تھاجس نے جو سوت کاتا اسے اپنے ہی ہاتھوں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ ویسے بھی حکومت کی ۱۴ ماہ کی کارکردگی ہر میدان میں نہایت مایوس کن ہے لیکن اس اقدام کے بعد تو اب اس کے باقی رہنے اور سپریم کورٹ کی عطا کردہ مدت پوری کرنے کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز باقی نہیں رہا۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ جلد از جلد اقتدار عوام کے اصل نمایندوں کی طرف منتقل کیا جائے۔

۷- اسلام کے اصول انصاف سے انحراف: ساتواں اور ان سب جرائم کا جامع جرم اسلام کے اصول انصاف اور جرم وسزا کے درمیان نسبت اور تعلق کے نظام کو درہم برہم کر دینا ہے۔ پاکستان بہت سے دوسرے ممالک کی طرح‘ محض ایک ملک نہیں‘ ایک اسلامی ملک ہے۔ اس کے دستور نے قرآن و سنت کی بالادستی کے اصول کو تسلیم کیا ہے۔اس قوم کی منزل اسلامی ریاست اور معاشرے کا قیام ہے۔ ہم نے اپنی معروضات کا آغاز اسلام کے اصول انصاف کے خلاصے ہی سے کیا ہے۔ ۱۰ دسمبر کا اقدام اسلام کے ہراصول سے انحراف اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کھلے کھلے احکام کی بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ خلاف ورزی ہے۔ اس میں پاکستان کی حکومت اور عرب ممالک کی مسلمان حکومتیں برابرکی شریک ہیں۔ نواز شریف کی فیملی بھی اپنے اصل جرائم کے ساتھ خدا کے قانون جرم و سزا سے بغاوت کی مرتکب ہوئی ہے۔ انسان سے غلطی ہو سکتی ہے لیکن مسلمانوں کا رویہ غلطی پر ندامت اور اللہ سے عفو و درگزرکی طلب ہوتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس یہاں جرم پر کوئی ندامت کہیں دور دور نظر نہیں آ رہی بلکہ چوری اور سینہ زوری کی روش اختیار کی جا رہی ہے جو خدا اور خلق دونوں کے خلاف بغاوت کی ایک صورت ہے۔ مجرموں کو بچانے کی خدمت جو جو افراد اور قوتیں انجام دے رہے ہیں وہ سب اس بغاوت میں شریک اور معاون ہیں۔ جرم کا ارتکاب کرنے والا اور جرم میں معاونت کرنے والے دونوں قانون اور انصاف کی نگاہ میں مجرم ہیں۔ مجرم کو تحفظ دینا بھی ایک جرم ہے۔ ۱۰ دسمبر کے اقدام نے ان سب کو مجرموں کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے اور اب ان سب ہی مجرموں سے نجات میں ہماری بقا اور ترقی کا راز ہے۔

اس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ جنرل صاحب اور ان کی ٹیم مستعفی ہو‘ عدلیہ کے تحت غیر جانب دارانہ مگر قابل اعتماد افراد پر مشتمل عبوری انتظام بنایا جائے ‘ مکمل طور پر آزاد انتخابی کمیشن مقرر کیا جائے اور ایک معقول مدت میں نئے انتخابات کے لیے قوم کو اپنی نئی قیادت منتخب کرنے کا موقع دیا جائے جو ملک کے حالات کو سدھارنے کی جدوجہد کرے اور ملک و قوم کے مجرموں کو بھی قرار واقعی سزا دینے کا اہتمام کرے۔ یہ کئی وجوہ سے ضروری ہے:

اولاً‘ موجودہ حکومت ناکام رہی ہے اور اسے جو موقع ملا تھا ‘اس نے خود اپنے پائوں پر کلہاڑی چلا کر اسے ضائع کر دیا ہے۔ یہ حکومت نہ احتساب کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور نہ اس پر اب احتساب کے باب  میں کسی درجے میں بھی اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ معیشت بھی خراب سے خراب تر ہوئی ہے ۔ اسٹیٹ بنک کی تازہ رپورٹ اس کا ثبوت ہے جو آیندہ بھی اشیاے صرف کی قیمتوں اور بجلی کے نرخوں میں مزید اضافے اور مزید بے روزگاریوں کی بھیانک پیشن گوئیاں کر رہی ہے۔

اس حکومت نے اپنی ہی قوم کے مختلف عناصر سے غیر ضروری محاذ آرائی کا راستہ اختیار کر کے حالات کو خراب کیا ہے۔ جس نئے نظام کی یہ نوید سناتی رہی ہے‘ اسے عوام میں کوئی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی ہے جس کا ثبوت بلدیات کے انتخابات میں عوام کی مکمل عدم دل چسپی ہے جسے ایک حد تک اس نظام اور اس حکومت کے خلاف ریفرنڈم قرار دیا جا سکتا ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر جس طرح اس نے اپنے آپ کو بیرونی دبائو کے لیے نرم نوالہ بنا دیا ہے‘ اس سے تو اس کا اعتبار بالکل ہی غارت ہو گیا ہے۔ اس کی یہ کمزوری اپنے اندر بڑے خطرات لیے ہوئے ہے۔ قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ نئی‘ قابل اعتماد اور عوام کی معتمد علیہ قیادت جلد از جلد زمام کار سنبھالے۔ یہ اب وقت کی سب سے بڑی ضرورت بن گئی ہے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ جو کچھ ۱۰ دسمبر کو ہوا ہے اور جو کچھ اس سے پہلے ہوتا رہا‘ یعنی ۱۹۷۱ء کا سانحہ‘ کارگل کی پسپائی وغیرہ‘ خواہ فوجی حکمران برسرِاقتدار ہوں یا مفاد پرست سیاست دان‘ اس کی بڑی وجہ موثر شورائی نظام کا فقدان‘ حکمرانوں کے ہاتھ میں آمرانہ اختیارات کا ارتکاز اور کسی موثر جواب دہی اور ضروری احتساب کے نظام کی کمی ہے۔

بات ایوبی دور کی ہو ‘جس میں تین دریائوں کے پانی سے دست برداری‘ بھارت چین جنگ کے موقع پر کشمیر پر پیش قدمی سے اجتناب‘ اور تاشقند میں بھارت کے آگے گھٹنے ٹیکنے کے سانحے وقوع پذیر ہوئے یا ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی صاحبزادی کا دور ہو‘ نواز شریف کا زمانہ ہو یا یحییٰ اور ضیا الحق کا اور یا اِس وقت کے جنرل پرویز مشرف کا--- جب بھی اختیارات کسی شخص واحد کی ذات میں مرکوز ہوئے ہیں اور وہ سیاہ و سفید کا مالک بنا ‘ ایسی ہی خوف ناک اور بھیانک غلطیاں (blunders) رونما ہوئیں۔ ستم ظریفی ہے کہ ۱۰ دسمبر کے اقدام کے لیے خود چیف ایگزیکٹو کی اپنی بنائی ہوئی کابینہ تک سے مشورے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی اور نواز شریف کی رخصتی کے چار دن بعد اس واقعے پر کابینہ میں بحث ہوئی اور اس نے آمنا وصدقنًا کی سند جاری کر دی! ہمارے ملک کی سیاست کا اصل المیہ ہی یہ ہے کہ فیصلہ کرنے والے ادارے موجود نہیں اور جو ادارے بنائے گئے ہیں وہ صرف وزن بیت کے لیے ہیں--- حقیقی اختیارات سے محروم! نواز شریف ہو یا بے نظیر‘ نہ ان کی جماعتوں میں کسی مشورے اور جواب دہی کا نظام ہے اور نہ کبھی ان کی کابینہ یا اسمبلیوں نے ایسا کوئی کردار ادا کیا۔

آج بھی بے نظیر بھارت سے دوستی‘ مشترک کرنسی‘ کشمیر میں جنگ بندی‘ مسام دار (porous) سرحدوں اور نہ معلوم کیا کیا باتیں کر رہی ہیں مگر ان کی پارٹی میں کوئی نہیں کہ اس کی زبان کو لگام دے یا اس کے خلاف آواز اٹھائے۔ نواز شریف مسلم لیگ کو گھر کی لونڈی بنا کر رکھے ہوئے ہیں۔ جسے چاہیں نامزد کر دیں‘ جسے چاہے نکال دیں۔ کوئی نہیں جو ان کے اس رویے پر گرفت کر سکے اور ان کے دامن کو پکڑ کر ان سے پوچھ سکے۔ یہ تمام صورتیں آمریت کی شکلیں ہیں‘ انھیں جمہوریت سے کوئی نسبت نہیں۔ قوم کی ضرورت صرف فوجی اقتدار ہی سے نجات نہیں‘ آمریت کی ہر شکل سے بغاوت کر کے حقیقی جمہوریت‘ قانون کی بالادستی‘ مشاورت کے موثر نظام کا قیام‘ پالیسی سازی کے لیے افراد کی جگہ اداروں پر انحصار اور سب کے لیے جواب دہی کے نظام کا قیام ہے۔

آج پاکستان ہی نہیں‘ پوری مسلم دنیا کا مسئلہ ہی یہ ہے کہ فوجی حکومت ہو یا ’’جمہوری تماشا‘‘ اقتدار کسی فردِ واحد کے ہاتھوں میں ہوتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے‘ کرتا ہے اور اس کی سزا پوری قوم کو بھگتنا پڑتی ہے۔ عبرت کے لیے مسئلہ فلسطین کے بگاڑنے میں مصر کے کردار پر ایک نظر ڈالیے۔ کیمپ ڈیوڈ جس نے شرق اوسط کی سیاست کا رخ بدل دیا اور مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کے لیے بگاڑ دیا‘اس کا بڑا سبب فیصلوں کے لیے موثر شورائی نظام اور قومی جواب دہی کا فقدان ہے۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے وقت انورالسادات نے نہایت خود رائی اور خودسری کا مظاہرہ کیا اور عقل کل بن کر اپنے تمام وزیروں اور مشیروں تک کو نظرانداز کر کے صدر کارٹر پراعتماد کی ترنگ میں اس طرح معاملات نمٹائے کہ آج بھی فلسطین میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اور فلسطین اتھارٹی اور عرب حکومتیں دم بخود ہیں۔ اس وقت کے مصری وزیر خارجہ عصمت کمال نے اپنی کتاب Camp David Accrod: A Testimony   (مطبوعہ  ۱۹۸۶ء) میں جو حالات بیان کیے ہیں وہ آنکھیں کھولنے والے اور خون کھولا دینے والے ہیں۔ افسوس کہ یہی کھیل ہے جو برابر کھیلا جا رہا ہے اور کم و بیش ہر ملک میں کھیلا جا رہا ہے۔ انورالسادات کا ایک ہی مطالبہ تھا:

براہ کرم ‘ مجھ پر اعتماد کیجیے۔ کیا آپ کو مجھ پربھروسا نہیں ہے؟

عصمت کمال لکھتا ہے کہ:

اصل مسئلہ نہ اسرائیل کا غیر لچک دار رویہ تھا اور نہ امریکہ کا اسرائیل کے آگے موم کی ناک بن کر ہر معاملے میں سپرانداز ہوجانا (spineless surrender)۔ اصل مسئلہ تو صدر سادات خود تھے۔ انھوں نے صدر کارٹر کے آگے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے تھے اور صدر کارٹر نے بیگن کے آگے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے تھے۔ اب جو معاہدہ بھی ہوتا ‘ مصر کے لیے‘ فلسطینیوں کے لیے اور کل عرب قوم کے لیے تباہ کن ہی ہوتا ۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں سادات کے عزائم اور رویے کی کیا توجیہ کروں۔ شاید انھوںنے اپنے آپ کو امریکہ سے اس درجے مضبوطی سے وابستہ کر لیا تھا کہ انھیں اس مرحلے پر اس سے باہر نکلنا مشکل محسوس ہوتا تھا (ص ۳۵۸-۳۵۹)۔

امریکہ پر انحصار‘ اس کے ہاتھوں میں کھلونا بن جانا اور فردِواحد کے ہاتھوں میں قوم کی قسمت کو دے دینا ساری خرابی کا اصل سبب تھا۔ اور یہی دو بلائیں ہیں جو مسلمان ملکوں کو تباہی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔گھر میں آمریت اور باہر کی قوتوں پر انحصار ہی ہمارااصل روگ ہیں۔ ہم ہی نہیں‘ غیر بھی اس کمزوری کو دیکھ رہے ہیں اور خوب خوب اس کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ڈیوٹ ہرسٹ اور ارنے بی سن نے سادات کی سوانح عمری میں بڑی پتے کی بات کہی ہے جو بدقسمتی سے خود ہمارے حالات پر پوری طرح صادق آتی ہے:

ایک فرد‘ ان اداروں کے بالمقابل جن کا وہ سربراہ ہو‘ جتنا زیادہ خود پالیسی بنائے گا اتنا ہی زیادہ ان کے بنانے میں اس کی ذاتی نفسیات ایک معروضی سیاسی حقیقت کے طورکارفرما ہوگی۔ سادات کسی طرح بھی دنیا کے سب سے زیادہ مطلق العنان حکمران نہ تھے لیکن ان کی سیاسی زندگی بہت ہی نمایاں طور پر اس کی مثال تھی کہ کس طرح سیاسی امور میں ذاتی رجحان کو غلبہ حاصل رہتا ہے۔ اور جب ذاتی رجحان اتنا ہی مخصوص طرح کا ہو جیسا کہ ان کا تھا‘ تو پالیسی کے نام پر کیا کیا بگاڑ رونما ہوسکتے ہیں (ص ۳۵۴)۔

فردِ واحد کی حکمرانی اپنے اندر ایسے ایسے خطرات رکھتی ہے جو برسوںکی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل شدہ آزادی‘ عزت‘ دولت اور امکانات کو لمحوں میں غتربود کر سکتے ہیں!

دستور اور قانون کی حکمرانی‘ موثر شورائی نظام اور جمہوری اداروں کا وجود‘ جواب دہی اور پالیسی سازی کا ادارتی انتظام ہی اچھی حکمرانی کے ضامن ہو سکتے ہیں۔ فوجی حکومت ہو یا جمہوریت کے لبادے میں شخصی حکومت--- دونوں مطلوبہ نظام کی ضد ہیں۔ یہ نہ صرف ملک کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ خود فوج کی دفاعی صلاحیتوں کے لیے بھی سم قاتل ہے۔ اس لیے جتنی جلد ممکن ہو‘ حقیقی جمہوری نظام کی طرف مراجعت ہی میں ہماری نجات ہے۔

یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ قوم کی قسمت سے کھیلنے کا حق اور اختیار کسی کو حاصل نہیں۔ یہ ملک کسی کی جاگیر نہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ایک امانت ہے اور اس کے اصل امین اس ملک کے عوام ہیں۔ ہم اس بات کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ جہاں ہماری فوجی اور سیاسی دونوں قیادتیں ناکام رہی ہیں وہیں عوام بھی اس ناکامی میں اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ قرار نہیں دیے جا سکتے۔

انتخاب کے موقع پر اپنا کردار ادا نہ کرنا‘ یا برادری اور مفاد کی بنیاد پر غلط لوگوں کو برسرِاقتدار آنے میں مدد دینا بھی ایک قومی جرم اور اپنے پائوں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے۔ آخری ذمہ داری عوام کی ہے کہ وہ اپنے ایمان اور ملکی مفاد کے پیش نظر اچھی قیادت کو بروئے کار لائیں اور سیاسی شعبدہ بازوں سے بار بار دھوکا نہ کھائیں۔

غربت‘ تعلیم کی کمی اور جمہوری روایات کا فقدان راہ کے موانع ہیں لیکن جمہوری عمل کا کوئی متبادل نہیں۔ اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود اس عمل کے ذریعے بالآخر بہتر قیادت ابھرے گی اور عوام اپنا حقیقی کردار ادا کرنے کے لائق بن سکیں گے۔

ہمارے ملک کے حالات کی روشنی میں نظام انتخاب کی اصلاح اور آزاد انتخابی کمیشن کا قیام اس کے لیے ضروری ہیں۔ موجودہ حکومت سے اب احتساب کی کوئی توقع نہیں رہی۔اگر یہ ملک کے اچھی شہرت رکھنے والے افراد کے مشورے سے ضروری انتخابی اصلاحات نافذ کر کے نئے انتخابات کا اہتمام کرے اور اقتدار قوم کی طرف لوٹا دے تو یہ اس کے لیے بھی بہتر ہے اور اس میں ملک و ملّت کے لیے بھی خیر ہے۔ اس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں--- سوال اتنا ہے کہ یہ کام افہام و تفہیم اور خیرسگالی اور قومی مفاہمت کے ذریعے ہوتا ہے یا ایک نئی کش مکش اور عوام اور حکومت کے درمیان ٹکرائو کے نتیجے میں۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ حکومت دانائی کا راستہ اختیار کرے گی اور اپنے اخلاقی جواز کو کھو دینے کے بعد اپنے اقتدارکو طول دینے کی کوشش نہیں کرے گی‘ نوشتہ دیوار کو بروقت پڑھ لے گی اور اصلاح احوال کا وہ راستہ اختیار کرے گی جس سے ملک اس دلدل سے نکل آئے اور فوج کا بھی اعتماد باقی رہے تاکہ وہ دفاع وطن کے کام کے لیے یکسو ہو کر سرگرم ہو سکے۔ پاکستان کو اس دلدل سے نکالنے کا راستہ ہی یہ ہے کہ نظام حکومت ایسے ایمان دار اور باصلاحیت عوامی نمایندوں کے ہاتھوں میں آجائے جو خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہوں اور جو اپنے ذاتی مفاد کو قومی مفاد کے تابع رکھ سکیں۔ سابق حکمرانوں کے حشر سے سبق سیکھیں اور اس سے عبرت پکڑیں کہ کس طرح دو دو بار وزیراعظم بننے والوں اور بڑے بڑے مینڈیٹ کا دعویٰ کرنے والوں کو ملک سے فرار کی راہ اختیار کرنی پڑی اور ملک کے عوام کس طرح ان سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ دونوں کا حال یہ ہے کہ نہ صرف ’’بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے‘‘ بلکہ ملک کو ایسا بدحال کر کے نکلے کہ بہ ادنیٰ تصرف یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ’’بڑے بے آبرو کر کے ترے کوچے سے ہم نکلے‘‘۔ لیکن نکلنے کا آبرومندانہ راستہ بھی موجود ہے۔ وہ محاذ آرائی کا نہیں بلکہ حق دار کو اس کا حق دینے کا راستہ ہے۔ فوجی قیادت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ فوج کا کام ملک پر حکمرانی کرنا نہیں‘ ملک و ملت کا دفاع ہے۔ سیاست میں الجھ کر فوج نہ اچھی حکمرانی کا نمونہ پیش کر سکتی ہے کہ اس کی نہ یہ تربیت ہے‘ نہ صلاحیت اور نہ اس طرح یہ اپنی دفاع کی صلاحیت ہی کو باقی رکھ سکتی ہے۔ اگر فوج متنازع بن جائے یا اس کے لوگوں کو بھی بدعنوانی کا خون یا اقتدار کی چاٹ لگ جائے تو پھر وہ قوم کی امیدوں اور دعائوں کا مرکز نہیں رہ سکتی۔ پھر تووہ شکایتوں اور نفرتوں کا ہدف ہی بنتی جاتی ہے اور جس فوج پر اس کی اپنی قوم کا اعتماد نہ ہو‘ وہ دفاع کی خدمت کیسے انجام دے سکتی ہے۔ موجودہ قیادت اس حقیقت کو جتنی جلد تسلیم کرلے ‘ اتنا ہی اس کے اور ملک کے لیے بہتر ہے۔

تحریک اسلامی اور ملک کے تمام بہی خواہوں کا فرض ہے کہ وہ عوام کو بیدار کریں‘ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھیں‘ قوم کا خون چوسنے والوں کے چنگل سے قوم کو نکالیں اور اس ملک خداداد کو ایک اچھی اور ایمان دارانہ قیادت فراہم کریں جو اسے امت کے خوابوں اور تمنائوں کے مطابق ڈھالنے کی جدوجہد کو اپنی منزل بنا لے اور اقبال‘ قائداعظم اور ملت اسلامیہ ہند کے تصور کا پاکستان اس پاک دھرتی پر ایک زندہ حقیقت بن سکے۔ یہی امت مسلمہ کے لیے بھی ایک روشن مینار بن سکتا ہے۔ یہ صلاحیت اور یہ امکان آج بھی موجود ہے‘ اس کے لیے مسلسل جدوجہد اور اللہ پر بھروسا‘ خود اپنی قوم پر اعتماد‘ اپنے  وسائل کا صحیح استعمال  اور معاشرے کے تمام اچھے عناصر کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے:

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!