جنوری ۲۰۰۱

فہرست مضامین

سید احمد شہیدؒ کی تحریک

| جنوری ۲۰۰۱ | ۶۰ سال پہلے

Responsive image Responsive image

]سید احمد شہیدؒ کی [ اس تحریک سے ہندستان کے لاکھوں مسلمان وابستہ تھے اور سارے برطانوی علاقے میں اس کے مرکز قائم تھے۔ سید صاحبؒ نے اپنا اصل مرکز ہندستان کی شمالی سرحد کو بنایا جو ایک آزاد اور جنگجو علاقہ تھا اور جس سے آزاد مسلم سلطنتوں اور قوموں کا علاقہ متصل تھا۔ اُس وقت تک آپ کا محاذ جنگ پنجاب کی سکھ حکومت کی طرف تھا جس کے علاقے میں مسلمان مذہبی آزادی اور شہری حقوق سے محروم تھے۔ لیکن آپ کا ارادہ تھا کہ قوت کے فراہم ہو جانے اور مرکزیت قائم ہو جانے کے بعد رفتہ رفتہ ہندستان میں ایک آزاد شرعی حکومت کی بنیاد ڈالی جائے اور غیرمسلم اقتدار کا مقابلہ کیا جائے۔ آپ کو ابتدا میں پوری کامیابی ہوئی۔ ۱۲ جمادی الثانی ۱۲۴۲ھ کو سرحدی قبائل‘ امرا و خوانین‘ ہندستانی مجاہدین اور  علما و مشائخ نے بالاتفاق آپ کے ہاتھ پر بیعت امامت و خلافت کر لی‘ بیت المال قائم ہو گیا‘ زکوٰۃ و عشر کا نظام اور شرعی حدود و تعزیرات جاری ہو گئے۔ کچھ مدت اور متعدد جنگوں کے بعد پشاور مفتوح ہو کر نئی اسلامی حکومت میں داخل ہو گیا۔

لیکن پھر مسلمانوں کی خیانت اور غداری اور ناسازگار حالات کے سبب مجاہدین اسلام کو شکست ہوئی۔ ۲۴ ذی قعدہ ۱۲۴۶ھ مطابق ۱۸۳۰ء کو سید صاحبؒ اور شاہ اسماعیل صاحبؒ بعض دوسرے رفقا و مجاہدین کے ساتھ مقام بالاکوٹ (ہزارہ) میں شہید ہو گئے اور آپ کی باقی ماندہ جماعت نے سرحد میں ستھانہ اور ہندستان میں پٹنہ میں اپنا مرکز قائم کر لیا۔...

ہندستان کے مرکز صادق پور پٹنہ نے ہندستا ن کے مسلمانوں کی وہ بے نظیر تنظیم اور جہادکی وہ عظیم الشان تبلیغ و تربیت کی جس کی مثال مسلمانوں کے داخلہ ہند سے لے کر اس وقت تک نہیں ملتی۔اس تنظیم و تبلیغ کی وسعت‘ اس اسلامی نظام کی برتری‘ اور ان علما کی سیاسی قابلیت اور انتظامی لیاقت کا تصور کرنے کے لیے اس تحریک کے سب سے بڑے دشمن ڈاکٹر سر ولیم ہنٹر کی کتاب ’’مسلمانان ہند‘‘ کے مندرجہ ذیل اقتباسات پڑھنے چاہییں:

’’یہ لوگ مشنریوں کی طرح ان تھک کام کرتے تھے۔ بے لوث اور بے نفس لوگ تھے جن کا طریق زندگی ہر شبہ سے بالاتر تھا۔ روپیہ اور آدمی فراہم کرنے کی انتہائی قابلیت رکھتے تھے۔ ان کا کام محض تزکیۂ نفس اور اصلاح مذہب تھا۔ میرے لیے ناممکن ہے کہ میں عزت و عظمت کے بغیر ان کا ذکر کروں۔ ان میں سے اکثر نہایت مقدس و مستعد نوجوانوں کی طرح زندگی شروع کرتے تھے اور ان میں سے بہت سے اخیر تک مذہب کے لیے اپنی جاںفشانی اور جوش قائم رکھتے‘‘۔

(’’تفریق دین و سیاست‘‘ ‘ مولانا ابوالحسن علی ندوی‘ ماہنامہ ترجمان القرآن‘ جلد ۱۷‘ عدد ۴-۵‘ شوال و ذی القعدہ ۱۳۵۹ھ‘ دسمبر ۱۹۴۰ء و جنوری ۱۹۴۱ء‘ ص ۳۷۴-۳۷۵)