جنوری ۲۰۲۱

فہرست مضامین

نیند سے بیدار ہوجاؤ!

قاضی حسین احمد | جنوری ۲۰۲۱ | اقبالیات

Responsive image Responsive image

جاویدنامہ میں علامہ اقبالؒ پیرروم ،مولانا جلا ل الدین رومیؒ کےساتھ عالم خیال میں عالم علوی کی سیاحت پر جاتے ہیں۔ فلک قمر، فلک عطارد، فلک زہرہ، فلک مریخ، فلک مشتری اور فلک زحل سے گزتے ہوئے عالم بالا اور جنت الفردوس میں پہنچتے ہیں۔ ہرفلک پر ان کی ملاقات زمانہ ماضی کی بلند شخصیات کی اَرواح سے ہوتی ہے اور ہرشخصیت کےپیغام کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کی زبانی اقبال اپنا پیغام، ملّت کو سناتے ہیں۔ فلک مشتری پر بھی بزرگ روحوں سے ان کی ملاقات ہوتی ہے۔ ان اَرواح جلیلہ میں منصور حلاج کی روح بھی شامل ہے۔ اقبالؒ جس کا نام پیرروم نے عالمِ اَرواح میں اس کا تعارف کرنے کے لیے ’زندہ رُود‘ رکھا ہے، حلاج سے سوال کرتا ہے:

نقشِ حق را در جہاں انداختند
من نمی دانم چساں انداختند

جن لوگوں نے دُنیا میں حق کا نقش قائم کر دیا ہے، میں نہیں جانتا کہ انھوںنے یہ کام کس طریق پر کیا ہے؟

حلاج جواب دیتے ہیں:

یا بزورِ دلبری انداختند
یا بزورِ قاہری انداختند

زانکہ حق در دلبری پیدا تراست
دلبری از قاہری اولیٰ تراست

یا محبت کے زور پر قائم کیا ہے یاقہر اور جبر کے زور پر قائم کیا ہے لیکن چونکہ ذاتِ حق محبت اور رحمت کی صفات میں نمایاں ہے، اس لیے دلبری، یعنی محبت، قاہری، یعنی جبروقہر سے بہترہے۔

دورِ جدید ایک نئے نظام کا محتاج ہے جو انسانوں کو واقعی ایک برادری میں پرو دے۔ اگرچہ فاصلے سمٹ گئے ہیں اور ذرائع مواصلات اور ابلاغ نے حقیقتاً دُنیا کو ایک گلوبل ولیج، یعنی ایک عالمی قریہ بنا دیا ہے، لیکن مل جل کر رہنے کا کوئی عادلانہ نظام نہ ہونے کی وجہ سے اس عالمی قریے میں فساد برپا ہے۔ انسانیت خوف میں مبتلا ہے۔ انسان انسان کا دشمن اور اس کے خون کا پیاسا ہے۔ انسانوں نے اپنی تباہی کا سامان خود اپنے ہاتھوں کرلیا ہے۔ بڑی طاقتیں اس پورے کرئہ ارض پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتی ہیں۔ امریکا غروروتکبر میں مبتلا ہوکر دوسری قومیتوں کے لوگوں کو کم تر سمجھتا ہے اور ان کے خون کو کوئی وقعت نہیں دیتا۔ بے انصافی اور ظلم کی وجہ سے کمزور اور مظلوم اقوام میں ردعمل ہے اور وہ مایوسی کے عالم میں انتقام کا ہرحربہ استعمال کرنے کے لیے آمادہ ہیں۔ دنیا کو اس خوف اور فساد اور تباہی سے بچانے کے لیے نقش حق کیسے قائم ہوگا؟ اس سوال کا جواب حلاج نے دیا ہے کہ نقش حق کو قائم کرنے کے لیے محبت کا پیغام زیادہ مؤثر ہے۔ اگرچہ   اس نے اعتراف کیا ہے کہ قوتِ قاہرہ سے بھی حق کا کام لیا گیا ہے اورلیا جاسکتا ہے، لیکن اس کا اصل ذریعہ دعوت و محبت ہے۔ اسی مطلب کو اقبالؒ نے دوسری جگہ تفصیل سے بیان کیا ہے:

دبدبۂ قلندری ، طنطنۂ سکندری
آں ہمہ جذبۂ کلیمؑ، ایں ہمہ سحر سامری

آں بہ نگاہ می کُشد ، ایں بہ سپاہ می کُشد
آں ہمہ صلح و آشتی، ایں جنگ و داوری

ہر دوجہاں کشاستند ، ہر دو دوام خواستند
ایں بہ دلیلِ قاہری، آں بہ دلیلِ دلبری

ضرب قلندری بیار ، سدِّ سکندری شکن
رسمِ کلیمؑ تازہ کُن ، رونقِ ساحری شکن

دبدبۂ قلندری سراسر جذبۂ کلیم ہے اور طنطنۂ سکندری سراسر سحر سامری ہے۔ قلندری دبدبہ کردار کی قوت سے زیر کرتی ہے، جب کہ سکندری قوت افواج کے ذریعے زیر کرتی ہے۔ دونوں قوتیں عالم کو فتح کرنے والی ہیں اوردونوں قوتیں دائمی بالادستی کی تلاش میں ہیں لیکن قلندری اور روحانی قوت محبت اوردلبرانہ انداز سے غلبہ چاہتی ہیں، جب کہ سکندری قوت جوراور جبر سے فتح کرنا چاہتی ہیں۔ ایک قلندرانہ ضرب پیدا کرکے سدّسکندری کو توڑدے۔ کلیمی طریق کار کا احیا کرکے سامری کی چمک دمک کونابود کردے۔

مسلمانوں کے پاس اصل قوت دین حق کی قوت ہے۔ یہ عالمِ قرآنی ابھی ہمارے سینوں میں گم ہے اور دنیا سے بھی مخفی ہے اور خود ہماری نظروں سے بھی اوجھل ہے۔ ایک ایسا عالم جو رنگ ونسل کے امتیازات سے بالاتر ہے، جو بادشاہوں اورغلاموں کی تمیز سے ماورا ہے جو انسانوں کے اندر ہر طرح کی اُونچ نیچ سے آزاد ہے۔

اس عالمِ قرآنی میں انسان، زمین پر اللہ کا نائب ہے۔ انسان اس خلافت اورنیابت کا حقیقی حقدار اسی وقت بن سکتا ہے جب وہ اپنےاندر کے چھپے ہوئے اعلیٰ اخلاق وصفات کا ادراک پیدا کرے، ان اخلاق کو پروان چڑھائے اور ان بلند صفات اور اخلاق کا عملی نمونہ بن جائے۔ انسان کے اس بلندمقام کا ذکر کرتے ہوئے اقبال فرماتے ہیں:

برتر از گردوں مقامِ آدم است
اصل تہذیب احترامِ آدم است

انسان کا مقام آسمان سے بلند ہے۔ احترام آدم ہی اصل تہذیب ہے۔

مرد و زن ایک دوسرے سے وابستگی کے ذریعے کائنات کی صورت گری کرتے ہیں۔ خلافت ِ آدم کا فریضہ سرانجام دینے میں دونوں برابر کے شریک ہیں کیونکہ دونوں کو ایک نفسِ واحدہ سے پیدا کیا گیا ہے اور عورت کا احترام قائم کیے بغیر انسانی تہذیب حقیقی عروج تک نہیں پہنچ سکتی۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہمارے لیے اور انسانیت کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپؐ نے ایک مدت تک خلوت اختیار کی۔ اقبال نے اس کے اسرار کھولتے ہوئے بتایا ہے:

مصطفےٰؐ اندر حرا خلوت گزید
مدّتے جز خویشتن کس را ندید

نقشِ مارا دردلِ او ریختند
ملّتے از خلوتش انگیختند

مصطفےٰ ؐ نے غارِ حرا میں خلوت اختیار کی۔ ایک مدت تک اپنے سوا کسی کو نہیں دیکھا۔ ہمارا نقش (ملت اسلامیہ کا نقش) اللہ نے اس کے دل میں ڈال دیا اور ان کی خلوت سے ایک قوم اُٹھائی۔

خلافت کے مقام بلند کا مستحق بننے کے لیے علم اور شوق دونوں کی ضرورت ہے۔ یہ عالمِ قرآنی کیا ہے؟ اس کی مختصر تشریح علامہ اقبالؒ ،سعید حلیم پاشاؒ کی روح کی زبانی عالمِ بالا کی سیرکے دوران فلک عطارد پر کرتے ہیں۔ فارسی اشعار کا اُردو ترجمہ پیش خدمت ہے:

سعیدحلیم پاشا کہتے ہیں: مغرب کے لوگوںکو زندگی علمی اور ذہنی ترقی سے ملی ہے، جب کہ مشرق کے لوگ عشق کو کائنات کاراز سمجھتے ہیں۔ علم کے ساتھ جب عشق شامل ہوجاتا ہے تو علم حق کی معرفت حاصل کرلیتا ہے اور عشق کا کام علم اور زیرکی سے پختہ بنیادوں پر استوار ہوجاتا ہے۔ عشق جب علم اور ذہانت کے ساتھ مل کر برگ وبار لاتا ہے تو ایک نیاعالم وجود میں آتا ہے۔

اُٹھو اور ایک نئے عالم کی بنیاد ڈال دو اورعشق اور علم و عقل(زیرکی) دونوں کو اکٹھا کردو۔ مغربی اقوام کی روشنی ماند پڑگئی ہے۔ ان کی آنکھیں اگرچہ دیکھنے والی ہیں لیکن ان کے دل مُردہ ہوچکے ہیں۔ وہ اپنی ہی تلوار سے زخم خوردہ ہیںاور اپنے شکار کی طرح بسمل پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے انگور (شراب) سے سوزو مستی مت تلاش کرو۔ ان کے آسمانوں میں دوسرا عصر یا زمانہ نہیں ہے۔ زندگی کو سوزوساز تمھاری ہی آتش سے مل سکتا ہے۔ ایک نیاعالم پیدا کرنا تمھارا ہی کام ہے۔

مصطفےٰ کمال اتاترک نے تجدد کا نعرہ بلند کیا اور کہا کہ پرانے نقش کو مٹانے کی ضرورت ہے، لیکن اگر کعبہ میں فرنگیوں کے لات و منات رکھ دیئے جائیں تو اس کونئی زندگی نہیں مل سکتی۔ ترکوں کے ساز میں کوئی نیا آہنگ نہیں ہے۔ وہ جسے تازہ پیغام سمجھتا ہے، یہ فرنگیوں کا فرسودہ نظام ہے۔ مصطفےٰ کمال کے سینے میں دوسری سانس نہیں تھی اور اس کے ضمیر میں کوئی نیا عالم نہیں تھا۔  وہ موجودہ مغربی نظام کے ساتھ ہی جڑگیا اور موم کی طرح اسی کی تپش سے پگھل گیا۔

کائنات کے سینے میں نئے پہلو زمانے کی تقلید کرنے سے حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ ایک زندہ دل نئے زمانے اور نئے عصر پیدا کرتا ہے۔ تقلید کرنے سے اس کی جان چلی جاتی ہے۔ اگر مسلمان کی نظر رکھتے ہو تو اپنے ضمیر اور قرآن میں جھانک لے۔ قرآن کریم کی آیات میں سیکڑوں تازہ جہاں آباد ہیں۔اس کے ایک ایک لمحے میں بہت سارے زمانے لپٹے ہوئے ہیں۔ عصرحاضر کے لیے قرآن کا ایک جہاں کافی ہے۔ اگر تمھارے سینے میں سمجھنے والا دل ہے تو قرآن سے اس جہاں کوحاصل کرلو۔ بندۂ مومن اللہ کی آیات میں سے ہے۔ زمانہ اس کے جسم پر ایک قبا کی طرح ہے۔ جب اس کے جسم پر ایک جہان کہنہ اور بوسیدہ ہوجاتا ہےتو قرآن کریم اسے ایک دوسرا جہاں عطا کردیتا ہے۔

’زندہ رُود‘ اپنی بےبسی و بے کسی کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے:

ہم زمین کے رہنے والوں کی کشتی ملاح سے محروم ہے۔ کسی کو معلوم نہیں ہے کہ عالمِ قرآن کہاں ہے؟

اس کا جواب جمال الدین افغانی ؒدیتے ہیں، وہ کہتے ہیں:

’’قرآنی جہاں ایک ایسا جہاں ہے جو ابھی ہمارے سینے میں گم ہے۔ ایک ایسا عالم جو ابھی ’قم‘ (اُٹھ کھڑا ہو جا) کے انتظار میں ہے۔ ایک ایساعالم جس میں خون ورنگ (نسل و نسب)کا امتیاز نہیں ہے،جس کی شام فرنگیوں کی صبح سے زیادہ روشن ہے۔ ایک ایسا عالم جوبادشاہوں اور غلاموں سے پاک ہے۔ مومن کے دل کی طرح وہ بے کراں ہے۔

’’یہ ایک ایسا خوب صورت عالم ہے کہ آپؐ کی ایک نظر کے فیض سے حضرت عمرؓکی زندگی میں اس عالم نے جڑ پکڑلی۔ وہ اَزل سے موجود ہے،لیکن ہرلمحہ نئے جلوؤں کے ساتھ جلوہ افروز ہوتا ہے اور اس عالم کے محکم اصول ہردم نیا برگ و بار لاتے ہیں۔ اس کا باطن ہرتغیر سے بے فکر ہے اوراس کا ظاہر ہردم ایک جہان تازہ کی نمود ہے‘‘۔

عالمِ قرآنی جس کی اس دنیا کو ضرورت ہے، خلافت آدم کے ساتھ ایک حکومت الٰہیہ کا تقاضا کرتا ہے، جس میں انسان انسان کا محتاج اور غلام نہ ہو۔ سب لوگ آپس میں بھائی بھائی ہوں اور ایک اللہ کی حکمرانی ہو۔ حکومت الٰہیہ کی تشریح علّامہ اقبالؒ سے سن لیجیے(ترجمہ:)

حق کا بندہ ہر مقام سے بے نیاز ہے۔ نہ وہ کسی کا غلام ہے نہ اس کا کوئی غلام ہے۔ بندۂ حق آزادبندہ ہے اوراس کی حکومت اورآئین اللہ کا عطا کردہ ہے۔ اس کی رسم و راہ اور اس کا دین اور آئین سب اللہ کا دیا ہوا ہے۔ کیا اچھا ہے، کیا بُراہے، کیا تلخ ہے اور کیا شیریں ہے، یہ سب وہ اللہ کے احکام سے معلوم کرتاہے۔ عقل خود غرض ہے اور وہ دوسروں کی بہبود اور فائدے کی بجائے صرف اپنے فائدے اور سود کی تلاش میں رہتی ہے، لیکن اللہ کی طرف سے جو وحی آئی ہے اس میں سب کی بھلائی اور بہبود کا خیال رکھا گیا ہے۔ مومن صلح اور جنگ کی حالت میں عدل کرنے والا ہوتا ہے۔ نہ وہ کسی سے رعایت برتتا ہے نہ کسی سے ڈرتا ہے۔ اللہ کے سوا جب کوئی دوسرا امرونہی کرنے والا بن جاتا ہے تو طاقت ور، کمزور پر ظلم ڈھاتا ہے۔ آسمان کے نیچے آمریت کے نتیجے میں جبر کا نظام قائم ہوجاتا ہے۔ اس لیے اللہ کے سوا کسی کا آمر بن جانا کفر ہے۔

یہ حکومت الٰہیہ جو دورِ جدید کے مسائل کا حل ہے اور جو انسان کی مادی ضروریات کے ساتھ ساتھ اس کی روحانی ضروریات کا بھی پورا لحاظ رکھتی ہے اور انسانوں کے درمیان عدل و انصاف اوربرابری کی بنیاد پر فیصلہ کرتی ہے، کیسے قائم ہوسکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ قوتِ قاہرہ تو اس وقت حق کی قوتوں کے پاس نہیں ہے۔ حق کے پاس جو اصل قوت ہے، وہ تو بذاتِ خود حق ہی کی قوت ہے۔

لیکن حق کی قوت کے حُسن اور اس کی کشش کوآشکارا کرنے کے لیے لازم ہے کہ ایک گروہ ایسا موجود ہو، جس کی انفرادی اور اجتماعی زندگی اس حق کانمونہ ہو۔ اس کے لیے ایک نمونے کے معاشرے کی ضرورت ہے۔ یہ نمونے کا معاشرہ قائم کرنا، حق کا نقش قائم کرنے کے لیے ضروری ہے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمونے کا یہ معاشرہ مدینہ منورہ میں قائم کیا تھا۔ ابتدا میں یہ معاشرہ بزورِ دلبری، یعنی محبت کی قوت سے قائم کیا گیا تھا۔ اوس اور خزرج کے دونوں قبیلوں نے آپس میں صلح کرلی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ آنے کی دعوت دی اور بہ رضاورغبت ان کی حکومت کو تسلیم کیا۔ اس طرح مدینہ کی اسلامی ریاست بزور دلبری قائم ہوئی، لیکن حکومت قائم ہونے کے بعد ریاست کی قوت کو بھی اس ریاست کے استحکام، دفاع اور اس کے پھیلاؤ کے لیے استعمال کیا گیا۔

ہمارے موجودہ زمانے میں محبت اوردعوت کے ذریعے دین اسلام کی اشاعت کا کام جاری ہے۔ مختلف جماعتیں اورمختلف مبلغین دین اسلام کی اشاعت کا کام کر رہے ہیں اور خود امریکا اوریورپ میں اسلام اس وقت سب سے زیادہ تیزی کےساتھ پھیلنے والا دین ہے۔ اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اسلام دشمن قوتیں اسلام کے پھیلاؤ سے خائف ہیں۔ اگر دنیا میں کسی ایک ملک میں حقیقی اسلامی تعلیمات کے مطابق حکومت الٰہیہ قائم ہوجائے اور اس کی قیادت ایک ایسے گروہ کے پاس ہو جو دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق اسلامی تعلیمات کے نفاذ کی حکمت سے آگاہی رکھتا ہو اوراس کی ترجیحات میں علم وحکمت کی اشاعت، عوام کی صحیح تعلیم و تربیت، تعلیمی اداروں اور میڈیا کے درست استعمال کو بنیادی اہمیت حاصل ہو۔ یہ حکومت غربت اور احتیاج کو ختم کرنے اور عام آدمی کی بنیادی ضروریات روٹی، کپڑا اور مکان، تعلیم اور علاج کو اوّلیت دے اور بیرونی قرضوں سے نجات حاصل کرکے معیشت کو اپنے پاؤں پرکھڑا کردے، انسانی وسائل کو ٹھیک طرح ترقی دے، ٹکنالوجی اور صنعت کے میدان میں اور زرعی پیداوار میں خودکفالت حاصل کرلے توایک ترقی یافتہ اسلامی معاشرے کا نمونہ آنکھوں کے سامنے آجائے گا۔

د نیا اُس اسلامی نمونے کی طرف متوجہ ہوگی جو بلند اخلاقی معیار بھی رکھتا ہو اور ساتھ ہی نظافت اور سلیقے میں بھی دوسرو ں سے آگے ہو۔ساتھ ہی وہ خوددار معاشرہ اور خوددار قوم ہو اور بھیک مانگ کر اپنی آزادی اور خودمختاری کو فروخت کرنےوالی قوم نہ ہو۔ اُمت مسلمہ کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو اس کی تربیت اس نہج پر کرسکے۔ اس اُمت کے پاس انفرادی اورمادی وسائل موجود ہیں۔ جذبہ اور شوق موجود ہے لیکن قیادت کا فقدان ہے۔ یہ قیادت اس کے علما، صوفیا اور جدید تعلیم یافتہ افراد کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کردے اورانھیں اپنے اپنے تنگ دائروں سے باہر نکال کر مشترکات کی بنیاد پر اکٹھا کردے اور انھیں بلندی پر لے جاکر وسیع اُفق کا نظارہ کرادے۔ دُوراُفق کے پار گرد اُڑ رہی ہے جو اس بات کی علامت ہے کہ کوئی سوار اس گروہ سے نمودار ہونے والا ہے۔

مغرب کی چیرہ دستیوں سے انسانیت کراہ رہی ہے۔ دنیا کو ایک نئے نقش کی ضرورت ہے۔ ایک نئی زندگی ، ایک نیاعالم قرآنی جو اُمت مسلمہ کے ضمیر میں پوشیدہ ہے، اس جدید دنیا کی ضرورت ہے۔ ایک ایسے گروہ کی ضرورت ہے جو اَزسرنو تعمیر جہاں کے لیے انسانیت کومتوجہ کرسکے:

فریاد ز افرنگ و دل آویزیٔ افرنگ
فریاد ز شیرینی و پرویزیٔ افرنگ

عالم ہمہ ویرانہ ز چنگیزیٔ افرنگ
معمار حرم! باز بہ تعمیر جہاں خیز

از خواب گراں ،  خواب گراں ، خواب گراں خیز
از خواب گراں خیز!

فرنگیوں اور ان کی دل آویزی سے فریاد ہے۔ فرنگیوں (مغربی اقوام) کی شیرینی اور پرویزی (استعمار) سے فریاد ہے۔ پوراعالم فرنگیوں کی چنگیزی و چیرہ دستیوں سے ویرانہ بنا ہوا ہے۔ اے حرم کے معمار! پھرسے دنیا کی تعمیر کے لیے کھڑے ہوجاؤ۔ گہری نیند سے بیدار ہوجاؤ۔ گہری نیند سے بیدار ہوجاؤ۔ گہری نیند سے بیدار ہوجاؤ۔