جنوری ۲۰۲۱

فہرست مضامین

گناہ سے پرہیز اور نصرت کی بشارت

پروفیسر ظفر الاسلام اصلاحی | جنوری ۲۰۲۱ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِيْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَ۝۱۲۸ۧ (النحل۱۶:۱۲۸)  بے شک اللہ پرہیز گاروں اور احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ۝۴ (التوبۃ۹:۴،۷) بے شک اللہ پرہیز گاروں سے محبت رکھتا ہے۔

وَاللہُ وَلِيُّ الْمُتَّقِيْنَ۝۱۹ ( الجاثیہ ۴۵:۱۹) اللہ تقویٰ والوں کا کارساز ہے۔

یہ آیات اس حقیقت کی وضاحت کے لیے کافی ہیں کہ گناہ سے اجتناب سے انسان کو اللہ کی رحمت اور اس کی نصرت نصیب ہوتی ہے۔ جو لوگ اپنے آپ کو گناہوں سے بچاتے ہیں اور پرہیز گاری اختیار کرتے ہیں، ا للہ ربُّ العزت انھیں پسند فرماتا ہے، اور جسے اللہ پسند فرمائے اور جسے مالک الملک اپنی نصرت کا یقین دلائے ،اس کی سرخروئی و کامیابی میں کیا شبہہ ہو سکتا ہے ۔

ان آیات سے اللہ کی نگاہ میں تقویٰ والوں کا محبوب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ تقویٰ ،جیسا کہ بخوبی معروف ہے، ایک ایسی باطنی صفت یا اندرونی خوبی کا نام ہے جو انسان میں گناہ سے نفرت اور نیکی کی رغبت پیدا کرتی ہے۔ اس صفت سے متصف یا متقی ہونے کا مطلب ہی ہے اللہ کی عظمت و کبریائی کے احساس، اس کے خوف اور روزِ جزا باز پرس کے ڈر سے گناہوں سے بچنے والا اور خیر کی راہ میں آگے بڑھنے والا۔ در حقیقت اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری و باز پرس کا احساس ہے جو انسان کو اللہ کی نافرمانی سے بچاتا ہے اور گناہوں سے دور رکھتا ہے۔ گناہ سے اپنے کو دُور رکھنا (جس کی طرف لوگوں کی توجہ کم جاتی ہے) بہت بڑی نیکی ہے۔ اسے دیگر متعدد آیات میں ’احسان‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ نکتہ ان آیات سے بھی منکشف ہوتا ہے، جن میں اللہ کے سامنے حاضری و جواب دہی کے خوف سے اپنے کو ہوا وہوس، یعنی گناہ کے کاموں سے بچنے والوں کو جنّت کی بشارت دی گئی ہے:

وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَہَى النَّفْسَ عَنِ الْہَوٰى۝۴۰ۙ فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِيَ الْمَاْوٰى۝۴۱ (النٰزعٰت: ۷۹ :۴۰-۴۱) اور جو بھی اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو بے جا خواہشات سے دور رکھا تو جنّت اس کا ٹھکانا ہے۔

یہاں یہ پیشِ نظر رہے کہ گناہ سے اجتناب اللہ کی نگاہ میں اس وجہ سے محبوب ہے کہ   اس میں نفس کے خلاف مجاہدہ ،خواہشات کی قربانی اور رضائے الٰہی کی خاطر لذائذ و مرغوبات کو تیاگ دینا ہے۔ ایک حدیث میں نفس کے خلاف جہاد کرنے والے کو اصل مجاہد کہا گیا ہے۔ ارشادِ نبویؐ ہے:

المُجَاھِدُ مَن جَاھَدَ نَفسَہٗ ،مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے۔ (جامع ترمذی، ابواب فضائل الجہاد،باب ماجاء فی فضل فی من مات مرابطاً ۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کریں: سید سلیمان ندوی ،سیرۃ النبیؐ ، محولہ بالا، ۵؍ ۲۷۶ )

قرآن کریم میں انسان کی تخلیق کا اصل مقصد اللہ کی عبادت کو قرار دیا گیا ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ۝۵۶  (الذاریٰت۵۱:۵۶) ’’اور میں نے جن وانسان کو اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے‘‘ ۔ حقیقت یہ کہ ممنوعات یا گناہوں سے بچنا اللہ کی عبادت و بندگی کا تقاضا ہے۔بلاشبہہ اللہ کی عبادت کا تقاضا اسی وقت پورا ہوسکتا ہے،جب عبادت بجا لانے والا اپنے کو اللہ ربُّ العزت کی مرضیات کے حوالے کردے ، ہر معاملہ میں اس کی اتباع کرے اور  ان تمام کاموں سے اپنے کو دُور رکھے جو اللہ کی ناراضی کا موجب بنتے ہیں۔

یہ بات یقینی ہے کہ منہیات سے قریب جانا اللہ کی ناراضی مول لینا ہے اور ان سے کُلّی اجتناب کرنا خوشنودیِ الٰہی کا مستحق بننا ہے۔ اس لیے کہ گناہ سے اجتناب میں بڑی آزمایشوں سے گزرنا پڑتا ہے اور ان میں سب سے سخت آزمایش اندرونی و بیرونی دشمن ( نفس و شیطان) سے جنگ ہے۔ اہم بات یہ کہ حدیث میں اس شخص کو سب سے بڑا عبادت گزار(أَعْبَدَ النَّاسِ) بتایا گیا ہے جو ’ محارم‘ ( حرام چیزوں) سے بچے ۔

 حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ایک طویل حدیث ِ نبویؐ کا پہلا حصہ ملا حظہ ہو: اتَّقِ المَحَارِمَ تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ(جامع ترمذی،ابواب الزہد عن رسولؐ اللہ،باب من اتّقٰی المحارم اعبد الناس )۔ حرام کاموں سے بچو تو سب سے زیادہ عبادت گزار بن جاؤ گے۔اس حدیث کے حوالے سے نامور فقیہ مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کی یہ وضاحت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔خود انھی کے الفاظ میں:’’ پہلا جملہ یہ ارشاد فرمایا کہ اتَّقِ المَحَارِمَ تَكُنْ أَعْبَدَ النَّاسِ   ،یعنی تم حرام کاموں سے بچو تو تم تمام لوگوںمیں سب سے زیادہ عبادت گذار بن جاؤ گے۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملہ کے ذریعے یہ حقیقت واضح فرما دی کہ فرائض وواجبات کی تعمیل کے بعد سب سے زیادہ اہم چیز مومن کے لیے یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ناجائز وحرام کاموں سے بچائے،نفلی عبادتوں کا معاملہ اس کے بعد آتا ہے۔اگر کوئی شخص اس دنیا میں اپنے کو گناہوں سے بچالے تو ایسا شخص سب سے زیادہ عبادت گزار ہے،چاہے وہ نفل زیادہ نہ پڑھتا ہو۔

 حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جملے کے ذریعے ایک بہت بڑی غلط فہمی کا ازالہ فر مایا ہے، وہ یہ کہ ہم لوگ بسااوقات نفلی عبادتوں کو تو بہت اہمیت دیتے ہیں،مثلاً نوافل پڑھنا، تسبیح، مناجات،تلاوت وغیرہ،حالانکہ ان میں سے کوئی ایک کام ایسا نہیں ہے جو فرض ہو۔ چاہے نفلی نمازیں ہوں،یا نفلی روزے ہوں یا نفلی صدقات ہوں،ان کوتو ہم نے بڑی اہمیت دی ہوئی ہے، لیکن گناہوں سے بچنے کا اور ان کو ترک کرنے کا اہتمام نہیں۔یاد رکھیں کہ یہ نفلی عبادات انسان کو نجات نہیں دلا سکتیں،جب تک انسان گناہوں کو نہ چھوڑے‘‘۔(اصلاحی خطبات، کتب خانہ نعیمیہ،دیوبند،۲۰۰۷ء، جلد۱۶،ص ۹۰-۹۱)

 انسان کے جسمانی نظام میں قلب کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اس کی صحت و درستی پر نہ صرف جسمانی نظام کی بہتری و عمدہ کارکردگی منحصر ہوتی ہے، بلکہ فکر ی و عملی نظام کی اصلاح و پاکیزگی بھی اسی پر موقوف ہے۔ اللہ کی نگاہ میں محبوب بننے اور اس کی قربت سے مشرف ہونے کے لیے قلب کی تطہیر،نفس کا تزکیہ، یعنی بُرے خیالات کی آلودگی و گناہ کی آلایشوں سے دل کو صاف رکھنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر دل اللہ کی محبت کے لائق نہیں بن سکتا۔  یہ حقائق ان آیات کی روشنی میں اچھی طرح سمجھے جاسکتے ہیں جن میں یہ ذکر ملتا ہے کہ اللہ ربّ العزت کن لوگوں کو پسند فرماتا ہے اور کن کو ناپسند ۔ قرآن کے مطابق اللہ ان لوگوں کو ناپسند فرماتا ہے جو کفر و انکارِ حق، ظلم و زیادتی، فتنہ و فساد، کبر و غرور،خیانت و بد دیانتی،اسراف و فضول خرچی اور ناشکری یا کسی بھی گناہ کے کام میں مبتلا ہیں ( آل عمران ۳: ۳۲ ؛ ا لروم۳۰:۴۵؛ البقرۃ۲:۱۹۰؛ آل عمران ۳:۵۷،۱۴۰؛ المائدۃ ۵:۸۷؛ الشوریٰ۴۲:۴۰ ؛ البقرۃ ۲:۲۰۵؛ المائدۃ۵:۶۴؛ القصص ۲۸: ۷۷؛ النساء ۴:۳۶؛ النحل ۱۶:۲۳؛ الحدید۵۷:۲۳ ؛ القصص ۲۸:۶ ۷ ؛ النساء۴:۱۰۷؛ الانفال۸: ۵۸؛ الحج۲۲: ۳۸ ؛ الاعراف ۷:۳۱ ؛ البقرۃ ۲:۲۷۶ )۔

l آفات و مصائب کاسبب:اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے والے اعمال کیسے موجبِ خیر بنتے ہیں اور اسے ناراض کرنے والے اعمال کس طرح انسان کے لیے تباہ کن ثابت ہوتے ہیں؟ اس کی وضاحت ایک حدیث قدسی سے ملتی ہے۔ حضرت ابو درداءؓ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم یہ ہے کہ فرمانِ الٰہی ہے کہ میں اللہ ہوں،میرے سوا کوئی معبود نہیں۔میں بادشاہ ہوں، میرے سوا کوئی معبود نہیں۔میں بادشاہوں کا مالک ہوں، بادشاہوں کا بادشاہ ہوں…  لہٰذا اے میرے بندو! [ایسی حالت میں ] ان بادشاہوں کو کوسنے اور انھیں بد دُعا دینے کے بجائے میری یاد میں لگ جاؤ اور [حالات میں تبدیلی کے لیے] ذکر اورتضرع ( رو نے اور گڑگڑانے ) میں مصروف ہوجاؤ۔ میں ان بادشاہوں ( کے شر سے حفاظت کے) لیے تمھاری کفایت کروں گا،یعنی تمھیں اپنی نصرت سے نوازوں گا (محمدابن عبداللہ الخطیب تبریزی، تحقیق : محمد ناصر الدین الالبانی)، مشکوٰۃ المصابیح [کتاب الامارۃ والقضا، الفصل الثالث]، منشورات المکتب الاسلامی، دمشق، ۱۳۸۱ھ؍ ۱۹۶۱ء ، ۲؍ ۳۲۸۔۳۲۹)۔

بلاشبہہ گنا ہ کا ارتکاب،چاہے صغیرہ ہو یا کبیرہ، اللہ کی نافرمانی ہے۔ ( اگر اس کی معافی نہیں ہوئی تو ) ا نسان دنیا میں بھی اس کے وبال سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔اس کا خمیازہ کسی نہ کسی صورت میں اسے بھگتنا پڑتا ہے یا پڑے گا ۔ قرآن و حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ برے اعمال یا گناہ کے کام اللہ کی ناراضی کا سبب بنتے ہیں اور ان کا وبال پریشانیوں و مصیبتوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے:

ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝۴۱( الروم۳۰:۴۱) خشکی اور تری میں ہر طرف فساد برپا ہوگیا لوگوں کے کرتوتوں کی وجہ سے،تاکہ وہ انھیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے، شاید وہ اللہ سے رجوع کر لیں[ اور بُرے اعمال سے باز آجائیں ] ۔

صاحبِ معارف القرآن تفسیر روح المعانی  کے حوالے سے اس آیت کی تفسیر میں    رقم طراز ہیں: ’’ فساد سے مراد قحط اور وبائی امراض اور آگ لگنے اور پانی میں ڈوبنے کے واقعات کی کثرت اور ہر چیز کی برکت کا مٹ جانا،نفع بخش چیزوں کا نفع کم نقصان زیادہ ہو جا نا وغیرہ آفات ہیں اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ ان دنیوی آفات کا سبب انسان کے گناہ اوراعمالِ بد ہوتے ہیں،اور یہی مضمون ایک دوسری آیت میں اس طرح آیا ہے:  وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَۃٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ۝۳۰ۭ (الشوریٰ ۴۲:۳۰ ) تمھیں جو بھی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمھارےہاتھوں کی کمائی کے سبب ہے،یعنی ان معاصی کے سبب جو تم کرتے رہتے ہو اور بہت سے گناہوںکو تو اللہ تعالیٰ معاف ہی کردیتے ہیں۔

مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں جو مصائب اور آفات تم پر آتی ہیں ان کا حقیقی سبب تمھارے گناہ ہوتے ہیں۔گرچہ دنیا میں نہ ان گناہوں کا پورا بدلہ دیا جاتا ہےاور نہ ہر گناہ پر مصیبت و آفت آتی ہے،بلکہ بہت سے گناہوں کو تو معاف کردیا جاتا ہے۔بعض گناہ پر ہی گرفت ہوتی ہے اور آفت و مصیبت بھیج دی جاتی ہے۔اگر ہر گناہ پر دنیا میں مصیبت آیا کرتی تو ایک انسان بھی زمین پرزندہ نہ رہتا،مگر ہوتا یہ ہے کہ بہت سے گناہوں کو حق تعالیٰ معاف ہی فرمادیتے ہیں اور جو معاف نہیں ہوتے ان کا بھی پورا بدلہ دنیا میں نہیں دیا جاتا،بلکہ تھوڑا سا مزہ چکھایاجاتا ہے، جیساکہ اسی آیت کے آخر میں فرمایا:  لِيُذِيْقَهُمْ  بَعْضَ الَّذِىْ  عَمِلُوْا (الروم ۳۰:۴۱)،یعنی تاکہ چکھا دے اللہ تعالیٰ کچھ حصہ ان کے بُرے اعمال کا‘‘ (معارف القرآن، مکتبہ مصطفائیہ،دیوبند، ۶؍ ۷۵۲-۷۵۳) ۔

مذکورہ بالا آیت کی اس ترجمانی کے حوالے سے یہ اشکال ہو سکتا ہے کہ انبیا کرامؑ اور اللہ کے نیک و متقی بندے بھی مصائب و مشکلات سے دوچار ہوتے رہے ہیں۔ اس کا جواب مفسرین نے اس طور پر دیا ہے کہ آیت میں گناہوں کو مصائب کا سبب ضرور بتایا گیا ہے ،لیکن اسے علتِ تامّہ یا سببِ واحد کے طور پر نہیں ذکر کیا گیا ہے، یعنی اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جب بھی کسی پر کوئی مصیبت آپڑے اس کا گنہگار ہونا لازمی ہے۔بعض اوقات مصائب و مشکلات آزمایش و امتحان اور اس سے کامیابی کے ساتھ گزر جانے کی صورت میںرفعِ درجات کے لیے ہوتی ہیں۔انبیا کرامؑ کے تعلق سے مصائب و پریشانیوں سے یہی مقصود رہا ہے اور کسی بھی دور میں نیک لوگوں کے مصائب و پریشانی سے دوچار ہونے پر ان کی یہی علّت یا حکمت سمجھنی چاہیے(معارف القرآن، ۶؍۷۵۴-۷۵۵)۔

 ا وپر کی باتوں سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ انسان کے لیے مصائب و مشکلات سے نجات کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ وہ ربِّ کریم کو راضی کر لے ،یعنی اپنے آپ کو ان تمام کاموں سے دور رکھے جنھیں اللہ تعالیٰ نا پسند فرماتا ہے ۔ بلاشبہہ گناہوں سے بچنے سے اللہ کی خوش نودی نصیب ہو تی ہے اور یہ بالآخر موجبِ رحمت و قربتِ الٰہی بنتی ہے ۔ یہاں یہ واضح رہے کہ سورۃ البقرۃ میں اوامر یا نواہی کے ذکرکے بعد نو مقامات پر فرمانِ الٰہی ہے: وَاتَّقُوْااللہَ۔اس آیت کا ترجمہ مختلف طور پر (اللہ سے ڈرو، اللہ کی نافرمانی سے پرہیز کرو، اللہ کی ناراضی سے بچو،اللہ کے غضب سے بچو) کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ کہ یہ اللہ کا خوف ہی ہے جو انسان کو اللہ رب العزت کی نافرمانی،اس کی ناراضی کے کاموں یا اس کے غضب سے بچنے پر اُبھارتا ہے۔

 اسی ضمن میں اس جانب متوجہ کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ گنا ہ کا ایک دنیوی وبال یہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے انسان نیک عمل کی توفیق سے محروم ہوجاتا ہے، اور گناہ سے بچنے کا ایک فیض یہ ہے کہ اس سے نیک اعمال کی توفیق نصیب ہوتی ہے ۔ یہ نکتہ خود قرآن کریم کی بعض آیات سے سامنے آتا ہے۔ سورۃ المومنون کی آیت:۵۱ يٰٓاَيُّہَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا۝۰ۭ اِنِّىْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِيْمٌ۝۵۱ۭ  ’’ اے رسولوؑ! پاک چیزیں کھاؤ اور عمل صالح کرو،بے شک میں اس سے با خبر ہوں جو تم کرتے رہتے ہو‘‘کی تفسیر میں مولانا مفتی محمد شفیعؒ نے یہ واضح فرمایا ہے : ’’علما نے فرمایا کہ ان دونوں( پاک روزی و عملِ صالح) کو ایک ساتھ لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ حلال غذا کا عملِ صالح میں بڑا دخل ہے۔جب غذا حلال ہوتی ہے تو نیک اعمال کی توفیق خود بخود ہونے لگتی ہے اور غذا حرام ہو تو نیک کام کا ارادہ کرنے کے باوجود بھی اس میں مشکلات حائل ہوجاتی ہیں ‘‘ (معارف القرآن، ۶؍ ۳۱۶)۔ بلا شبہہ حرام مال کمانا اور اسے استعمال کرنا سخت گنا ہ ہے۔ اس کے بہت نقصانات میں سے یہ بھی ہے کہ آمدنی یا مال سے برکت اُٹھ جاتی ہے، جسمانی، ذہنی و فکری صلاحیت متاثر ہوتی ہے، اور حرام مال سے اولاد کی پرورش پر بھی اس کا بُرا اثر پڑتا ہے۔

ایک جدید عربی تفسیر’ نظرات فی کتاب اللہ کی مؤلفہ محترمہ زینب الغزالی نے بھی مذکورہ آیت کے حوالے سے حلال روزی کی برکات کو بڑے اچھے انداز میں واضح کیا ہے۔ متعلقہ حصہ کا اردو ترجمہ ملا حظہ ہو: ’’ پھر اللہ نے اپنے رسولوں اور تمام مخلوقات کو حکم دیا کہ وہ حلال اور پاکیزہ کما ئی کھائیں اور نیک اعمال کریں۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حلال عملِ صالح میں معاون بنتا ہے۔  اللہ سبحانہٗ ظاہراو ر باطن ہر چیز سے واقف ہے۔حلال کی تلاش برکت کا سبب ہے۔اسی طرح حلال کی تلا ش سے انسان کو عمل صالح میں تعاون ملتا ہے۔حلال کھانے کا نفس پر بڑا اچھا اثر پڑتا ہے،جس کے نتیجے میں نفس خیر کی طرف متوجہ  ہوتا ہے اور برائی سے باز رہتا ہے،کیوں کہ بدن کی غذا اگر حرام ہے تو بدن پر تاریکی چھا جاتی ہے ،اگر حلال ہے تو جسم میں نور اور صالح قوت پیدا ہوتی ہے جو ہدایت کا سبب بنتی ہے‘‘ (زینب الغزالی، اردومترجم:عبد الحمید اطہر ندوی،نظرات فی کتاب اللہ، المنار پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی،۲۰۲۰ء،۲؍۴۹۸)

l دُعا     کی قبولیت:مزید یہ کہ گناہوں سے اجتناب کی ایک بہت بڑی برکت یہ ہے کہ اس سے دعاؤں کی قبولیت کی راہ ہموار ہوتی ہے،یعنی رزقِ حلال استجابتِ دعا کا مستحق بنا تا ہے ۔ دوسری جانب یہ بھی لائقِ توجہ ہے کہ حرام کمائی دعاؤں کی قبولیت میں حارج بنتی ہے۔ ہادیِ برحق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اکلِ حلال کی تعلیم دیتے ہوئے ایک دفعہ مذکورہ بالا آیت اور سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۶۸ (يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ كُلُوْا مِـمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا)کی تلاوت فرمائی اور پھر صاف لفظوں میں واضح کیا کہ حرام روزی کھانے والوں کی دعا قبول نہیں ہوتی، خواہ وہ بار باردونوں ہاتھ پھیلا کر رب سے دعا کیوں نہ کرتے رہیں۔ اس حدیث میں بڑی عبرت و نصیحت ہے:

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو! اللہ پاک ہے اور پاک چیزہی قبول کرتا ہے اور اللہ نے جس کا م کا حکم پیغمبروں کو دیا تھا اسی کا حکم مومنوں کو دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں سے فرمایا ’’تم سب پاک چیز کھاؤ اور تم جوکچھ کروگے میں اس سے با خبر ہوں‘‘۔ اور اللہ تعالیٰ نے مو منین سے فرمایا ’’مومنو! ہم نے جو چیزیں تم کو عطا کی ہیں ان میں سے پاک چیزیں کھاؤ‘‘۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا ذکر کیا جس نے لمبا سفر اختیار کیا اور جس کے بال پریشاں و گرد آلود ہورہے ہیں اور وہ دونوں ہاتھ اٹھا کر کہہ رہا ہے: اے پروردگار، اے پروردگار (یعنی دعا مانگ رہا ہے) [ لیکن حالت یہ ہے کہ ] اس کا کھانا بھی حرام، پینا بھی حرام ہے، لباس بھی حرام ہے اور غذا بھی حرام۔ پھر کیوں کر اس کی دعا قبول ہوسکتی ہے] ۔ (صحیح مسلم )

مزید اہم بات یہ کہ روزانہ صبح کو جن دعاؤں کا مانگنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رہا ہے، ان میں یہ دُعا بھی شامل تھی:

اللّٰھُمَّ اَنِّی اَسْئَلُکَ عِلْمًا نَافِعًا وَ رِزْقًا طَیَّبًا وَ عَمَلًا متقبّلًا  (سنن ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوٰۃ، باب یقالُ بعد التسلیم) اے اللہ میں تجھ سے نفع بخش علم ، پاک روزی او ر ( تیری بارگاہ میں ) مقبول عمل کا سوال کرتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن چیزوں کی توفیق طلب فرماتے تھے ان کے موجبِ خیر و برکت ہونے میں کیا شبہہ ہو سکتاہے۔

مختصر یہ کہ گناہ کے ارتکاب کے دنیوی و اخروی نقصانات میں سے سب سے بڑا نقصان اللہ ربّ العزت کی ناراضی ہے۔ سچ یہ کہ جس سے اللہ ناراض ہوجائے اسے کہاں پناہ مل سکتی ہے؟ بلاشبہہ ہر انسان ہر حال میں اللہ کی مدد کا محتاج ہوتا ہے اور ہر ایک اس کی نصرت کا طلب گار ہوتا ہے۔ قرآن کا بہت ہی صاف صاف اعلان ہے:

 يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاۗءُ اِلَى اللہِ۝۰ۚ وَاللہُ ہُوَالْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ۝۱۵ (فاطر۳۵ :۱۵) اے لوگو! تم سب ہی اللہ کے محتاج ہو اور اللہ بے نیاز اوراللہ( ہر حال میں) لائقِ حمد و ستایش ہے۔

موجودہ حالات میں ، جب کہ طرح طرح کے مصائب و مسائل کا سامنا ہے،اللہ سے رجوع اور اس کی نصرت طلب کرنے کی ضرورت اور زیادہ بڑھ گئی ہے۔اس لیے یہ ہمارے لیے انتہائی ضروری ہوگیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو ان تمام کاموں سے دور رکھیں جو اللہ کو ناپسند ہیں، گناہ سے خود بچیں اور دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کریں ۔ بلا شبہہ اللہ کو راضی کرنے کا یہ بڑا مؤثر ذریعہ ہے ۔ حقیقت یہ کہ ربِ کریم کو راضی کیے بغیر ہمارا کوئی مسئلہ حل ہونے والا نہیں اور نہ مصائب و مشکلات ہی سے نجات ملنے والی ہے۔ اللہ کرے یہ حقیقت اچھی طرح ہم سب کے ذہنوں میں بیٹھ جائے۔