جنوری ۲۰۲۴

فہرست مضامین

کشمیر: بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ

افتخار گیلانی | جنوری ۲۰۲۴ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

اگست ۲۰۱۹ء میں جموں و کشمیر کی آئینی خود مختاری ختم کرنے اور ریاست کو تحلیل کرکے  دو مرکزی زیر انتظام علاقے بنانے کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے بھارتی حکومت کے اس قدم کو درست ٹھیرایا ہے۔ ویسے سپریم کورٹ میں ۱۶دنوں تک چلنے والی طویل بحث کے بعد کورٹ کی طرف سے جموں و کشمیر کی اس آئینی خود مختاری کو بحال کرنے کے بارے میں کوئی خوش فہمی تو نہیں تھی، مگر اُمید تھی کہ ریاست جموں و کشمیر کو دولخت کرنے اور اُن کو مرکزی زیر انتظام علاقے بنانے کے لیے سپریم کورٹ، حکومت کی سرزنش ضرورکرے گی، کیونکہ اس کی نظیر بھارت کے دیگر صوبو ں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

پچھلے ۷۰ برسوں میں بھارت میں مرکزی حکومتوں نے مختلف وجوہ کی بنا پر ۱۱۵ بار آئینِ ہند کی دفعہ ۳۵۶ کا استعمال کرتے ہوئے صوبائی حکومتوں کو معزول کیا ہے۔ اب مرکزی حکومت کو ایک اور ہتھیار مل گیا ہے۔ حزبِ اختلاف کے زیر اقتدار کسی بھی صوبائی حکومت کو نہ صرف ا ب معزول کیا جا سکے گا، بلکہ اس ریاست کو پارلیمنٹ کی عددی قوت کے بل پر براہ راست مرکزی علاقے میں تبدیل بھی کیا جاسکے گا اور صوبائی اسمبلی کے مشورہ کے بغیر ہی دولخت بھی کیا جا سکے گا۔  اس لیے بھارت کے اندر کئی دانش وروں اور قانون دانوں نے اس فیصلے کے مضمرات پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ فیصلہ ملک کے وفاقی ڈھانچے کو چیلنج کرتا ہے‘‘۔

افضل گورو کو سزائے موت دینے کے فیصلے کو اجتماعی ضمیر سے جوڑنے اور بابری مسجد کے معاملے پر عجیب و غریب فیصلہ دینے کے بعد، کشمیر کی خودمختاری کے سوال پر بھارتی سپریم کورٹ سے کسی مثبت فیصلے کی شاید ہی کوئی اُمید تھی۔ بہرحال، بابری مسجد پر خو د سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ: ’’اس کو نظیر نہیں بنایا جاسکتا ہے‘‘۔ کیونکہ اس میں بابری مسجد کی زمین ہندو یا مسلم فریق کو دینے کے بجائے بھگوان رام للا کو دے دی گئی تھی اور کورٹ نے جو قانونی سوالات طے کیے تھے، فیصلے کے وقت ان کو نظرانداز کردیا۔

۲؍اگست ۲۰۲۳ء سے شروع ہونے والی سماعت ستمبر کے پہلے ہفتے کو مکمل ہو گئی تھی اور کورٹ نے فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ عدالت میں۱۳ہزار ۵۱۵ صفحات پر مشتمل دستاویزات کے علاوہ ۲۸جلدوں پر مشتمل۱۶ ہزار ۱۱۱ صفحات پر مشتمل کیس فائلز دائر کی گئی تھیں۔ سماعت کے دوران کئی شہرۂ آفاق کتابیں جن میں  The Federal Contract، Oxford Constitutional Theory اور وی پی مینن کی The Transfer of Power  بھی کورٹ کے سپرد کی گئیں۔

چیف جسٹس چندرچوڑ کے علاوہ پانچ رکنی بنچ میں جسٹس ایس کے کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گاوائی اورجسٹس سوریہ کانت شامل تھے۔ یہ طے تھا کہ دسمبر کے وسط میں فیصلہ آئے گا، کیونکہ جسٹس کول دسمبر میں ہی ریٹائر ہونے والے تھے۔ وہ سپریم کورٹ کے واحد کشمیری جج  تھے، اگرچہ پانچ ججوں نے متفقہ فیصلہ دیا، مگر تین الگ فیصلے لکھے گئے۔ ایک چیف جسٹس نے جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس سوریہ کانت کے ساتھ مل کر تحریر کیا۔ جسٹس کول نے الگ سے اپنے تاثرات تحریر کیے۔جسٹس سنجیو کھنہ نے دونوں فیصلوں سے اتفاق کیا اور صرف کچھ معاملات میں اپنی رائے بیان کی ہے۔

اس آئینی بنچ کے سامنے آٹھ معاملات تھے:

 کیا بھارتی آئین میں درج آرٹیکل۳۷۰  کی دفعات کو عارضی یا مستقل حیثیت حاصل ہے اور کیا دستاویز الحاق پر دستخط ہونے کے وقت مہاراجا کشمیر نے کچھ اختیارات اپنے پاس رکھے تھے،جو ریاستی حکومت کو منتقل ہوگئے؟ کیونکہ یہی دفعہ جموں و کشمیر کے اپنے آئین کو تحفظ فراہم کرتی تھی اور اسی وجہ سے اس خطے کی انفرادیت کو تحفظ دینے کے لیے شہریت کا الگ قانون تھا۔

دوسرا سوال یہ کہ چونکہ مذکورہ قانون آئین ساز اسمبلی نے بنایا تھا اورطے تھا کہ قانون ساز اسمبلی ہی اس میں ترمیم کرسکتی ہے۔ اگست ۲۰۱۹ءکو مودی حکومت نے پارلیمنٹ کو پہلے قانون ساز اسمبلی میں تبدیل کیااور پھر اس کے ذریعے دفعہ۳۷۰ میں ترمیم کروائی۔ کورٹ کے سامنے سوال تھا کہ ’کیا آئین اس میکانزم کی اجازت دے سکتا ہے؟ ‘

تیسرا : کیا آرٹیکل۳۷۰ (۱) (d) کے تحت طاقت کے ذریعے بھارت کا پورا آئین ریاست جموں و کشمیر پر لاگو کیا جا سکتا ہے؟

چوتھا: کیا آرٹیکل ۳۷۰  (۳) کے تحت اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اور جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی سفا رش کے بغیر بھارتی صدر آرٹیکل ۳۷۰کو منسوخ کرسکتا ہے؟

پانچواں : کیا ۲۰۱۸ء میں گورنر کی طرف سے قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کرنادرست قدم تھا؟

چھٹا: اس کے چھ ماہ بعد کیا ریاست میں صدارتی راج کا نفاذ درست تھا؟

ساتواں : کیا ’جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ ۲۰۱۹ء‘ کے تحت ریاست کو دولخت کرنا آئینی طور پر درست تھا؟

آٹھواں : کیا ریاست کی حدود کو ریاستی اسمبلی کے مشورہ کے بغیر تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ کیونکہ ابھی تک بھارت میں جو بھی نئے صوبے وجود میں آئے ہیں، ان کی سفارش مقامی اسمبلی نے مرکزی حکومت کو بھیجی تھی۔ اس کے علا وہ کیاکسی فعال صوبے کو راتوں رات مرکزی زیر انتظام علاقے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے؟

پہلے سوال کے جواب میں عدالت نے فیصلہ دیا کہ ’دفعہ ۳۷۰ ایک عارضی انتظام تھا اور۱۹۴۷ء میں یونین آف انڈیا میں شمولیت کے وقت مہاراجا نے کوئی اختیار اپنے پاس نہیں رکھا تھا، بلکہ تمام اختیارات حکومت ہند کو سونپ دیے تھے‘۔ نومبر ۱۹۴۹ءکو اس وقت کے صدر ریاست ڈاکٹرکرن سنگھ کا حوالہ دے کر عدالت نے کہا کہ ’بھارتی آئین، ریاستی آئین پر فوقیت رکھتا ہے۔ اس لیے ریاست جموں و کشمیر کسی بھی ایسی داخلی خودمختاری کا دعویٰ نہیں کرسکتی ہے، جو دیگر صوبوں کو مہیا نہ ہو۔ آرٹیکل ۳۷۰ (۱) (d) کے تحت صدر کی طرف سے جاری کردہ متعدد آئینی احکامات جو آئین کی مختلف دفعات کی ترامیم کا اطلاق کرتے ہیں، اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پچھلے ۷۰ برسوں کے دوران، یونین اور ریاست نے باہمی تعاون کے ذریعے آئینی طور پر ریاست کو یونین کے ساتھ ضم کر دیا‘۔ عدالت نے کہا کہ ’اچانک ستّر سال بعد پورے بھارتی آئین کو لاگو نہیں کیا گیا بلکہ ریاست کے آئینی انضمام کا عمل جاری تھا‘۔

عدالت نے ڈاکٹر کرن سنگھ کے اعلامیے کا تذکرہ کیا ہے، مگر ۱۹۵۰ء میں ہونے والے اُس وقت کشمیر کے وزیراعظم شیخ محمدعبداللہ اور بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کے درمیان طے پائے گئے ’معاہدہ دہلی‘ کو حیرت انگیز طور پر بالکل ہی نظرانداز کردیا گیا ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں ۳ جولائی ۱۹۴۷ء کو سردار پٹیل کے ایک خط کا تذکرہ کیا ہے، جو انھوں نے راجا ہری سنگھ کو لکھا تھا:’’کشمیر کے مفادات بغیر کسی تاخیر کے بھارتی یونین اور اس کی آئین ساز اسمبلی میں شامل ہونے میں مضمر ہیں اور یہ کہ اس کی ماضی کی تاریخ اور روایت اس کا تقاضا کرتی ہے، اور بھارت آپ کی طرف دیکھتا ہے۔ اور آپ سے یہ فیصلہ کرنے کی توقع رکھتا ہے‘‘۔ اسی طرح ۲۷ ستمبر۱۹۴۷ء کو نہرو نے سردار پٹیل پر زور دیا کہ ’’پاکستانی حکمت عملی یہ ہے کہ کشمیر میں مداخلت کی جائے، اور جیسے ہی کشمیر آنے والے موسمِ سرما کی وجہ سے کم و بیش الگ تھلگ ہوجائے تو بڑی کارروائی کی جائے‘‘، یعنی اُن کا کہنا تھا کہ کشمیر کے الحاق پر جلد کارروائی کی جائے۔ بھارت میں جو لوگ نہرو کو کشمیر پر فیصلہ نہ کرنے کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں، اور پاکستان میں جو افراد قبائلی حملے کو ہی کلی طور پر مسئلہ کشمیر کی پیداوار قرار دیتے ہیں، ان کے لیے شاید یہ ایک دلچسپ اطلاع ہوگی کہ اس کھیل کی بساط تو اکتوبر ۱۹۴۷ء سے بہت پہلے ہی بچھائی جاچکی تھی۔

سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ ’چونکہ آئین کی تمام دفعات کو ریاست پر لاگو کرنے کے لیے آرٹیکل ۳۷۰ (۱) (d) کے تحت ریاستی حکومت کی رضامندی کی ضرورت نہیں تھی، اس لیے صدر نے بھارتی حکومت کی رضامندی حاصل کی‘۔ریاستی آئین کی بحالی کے حوالے سے عدالت نے دلیل دی کہ ’بھارتی آئین کے کچھ حصوں کے عدم اطلاق سے جو خلا رہ گیا تھا، اسے ریاستی آئین پور ا کرتا تھا۔ اب آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد چونکہ پورے بھارتی آئین کا اطلاق ریاست پر ہوتا ہے، اس لیے اب ریاستی آئین کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور یہ اب غیر فعال ہوگیاہے‘۔

عدالت نے لداخ کو ایک علیحدہ مرکزی علاقہ تسلیم کیا، یعنی ریاست کے دو لخت ہونے پر بھی مہر لگائی۔ مگر عدالت نے اس پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لے کر سوال اُٹھایا ہے کہ ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کی کیا ضرورت تھی؟اور پھر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ سالیسٹر جنرل نے حکومت کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کیا جائے گا اور یہ کہ مرکزی زیر انتظام والی حیثیت عارضی ہے۔ عدالت نے پھر اس پر کوئی حکم نہیں دیا، بلکہ اُمید ظاہر کی کہ جلد ہی ریاستی حیثیت بحال کی جائے گی۔ مگر الیکشن کے حوالے سے اس نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ ریاست میں ستمبر ۲۰۲۴ء تک اسمبلی کے انتخابات ہونے چاہییں۔ لداخ کی بطور یونین ٹیریٹری کی حیثیت برقرار رہے گی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ کسی بھی ریاست سے کسی بھی علاقے کو الگ کرکے یونین ٹیریٹری بنانے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

جسٹس سنجے کشن کول، جوسپریم کورٹ کے واحد کشمیری جج، اور اس بنچ کے رکن تھے، انھوں نے الگ سے اپنے تاثرات درج کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ اس خطے نے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا سامنا کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے تجویز دی کہ جنوبی افریقہ کی   طرز پر ایک ’سچائی اور مفاہمت کمیشن‘ (Truth and Reconciliation Commission) ترتیب دیا جائے، جہاں متاثرین اپنا دُکھ درد بیان کرسکیں گے۔ جسٹس سنجے کول کا کہنا ہے کہ ’کشمیر میں زمینی سطح پر ایک پریشان کن صورت حال تھی، جس کا ازالہ نہیں کیا گیا‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’اس خطے میں زخموں کو بھرنے اور سماجی تانے بانے کو بحال کرنے کی ضرورت ہے‘۔

تاہم، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس مفاہمتی یا مصالحتی کمیشن کے سامنے فوج اور سیکورٹی سے وابستہ وہ افسران حاضر ہوں گے، جو علی الاعلان ا پنے گناہوں کا اعتراف کرسکیں گے؟خیر، یہ تجویز بُری نہیں ہے، مگر اس کمیشن کا قیام کسی غیرمتازع اور آزاد ادارے کے تحت ہی ہونا چاہیے۔ کشمیر میں جو واقعات پچھلے تین عشروں میں رُونما ہوئے، ان کو ریکارڈ پر لانا اَز حد ضروری ہے۔ بہرحال،سپریم کورٹ کے اس ایک جج نے اس قدر تسلیم تو کیا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔

سپریم کورٹ میں تقریباً ۲۳ کے قریب رٹ پیٹیشنیں دائیر کی گئی تھیں -ان میں سے ایک پیٹیشنر رادھا کمار کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلہ سے خاصی مایوس ہیں ۔ رادھا کمار کو من موہن سنگھ حکومت کے دور میں مصالحت کار نامزد کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے ابتدا میں یقین تھا کہ عدالت ریاست کو مرکزی زیر انتظام علاقہ بنانے کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور دے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جب حکومت نے غیر ریاستی باشندوں کے لیے ریاست میں زمینیں خریدنے کا دروازہ کھولا، تو میں نے اس پر جیسے ہی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، تو مجھ کو بتایا گیا کہ آخری فیصلے تک انتظار کیا جائے۔ لیکن اب عدالت کے اس فیصلے کے بعد ہم جانتے ہیں کہ زمینی حقائق کو آسانی سے نہیں پلٹا جا سکتا، لیکن پلٹنا ناممکن بھی نہیں۔‘ رادھا کمار کے مطابق ہم نے سوچا تھا کہ عدالت آرٹیکل ۳۷۰ پر ہماری حمایت نہیں کر سکتی، اور ضرور اس بات سے متفق ہو گی کہ ریاست کا خاتمہ بھارتی آئین کے آرٹیکل ۳کے خلاف ہے۔ یہ بھی اُمید تھی کہ عدالت قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرے گی، مگر   اس نے یہ بھی نہیں کیا۔ اس کے بجائے، پانچ ججوں نے سالیسٹر جنرل کی اس یقین دہانی کو قبول کیا ہے کہ ریاست کا درجہ 'مناسب وقت پر بحال کیا جائے گا اور الیکشن کمیشن کو اسمبلی انتخابات کرانے کے لیے مزید دس ماہ کا وقت دیا ہے۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ ۲۰۱۹ء، ۲۰۲۰ء، ۲۰۲۱ء، اور ۲۰۲۲ء میں وزیر داخلہ امیت شا کی بار بار کی یقین دہانیوں کے بعد ریاست کا درجہ واپس کیوں نہیں دیا جارہا ہے؟

 اگست ۲۰۱۹ء کے فوراً بعد، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما محبوبہ مفتی اور کئی دیگر افراد نے خبردار کیا تھا کہ مودی حکومت نے کشمیر کو ایک لیبارٹری بنا یا ہے۔ جو کچھ وہ کشمیر میں آزما رہے ہیں، وہی بہت جلد بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی نافذ کرکے ہی دم لیں گے۔ ۱۱دسمبر ۲۰۲۳ء کو عدالت کےکشمیر پر مایوس کن فیصلے کے کچھ ہی دنوں کے اندر، ۱۴۷ کے قریب ممبران پارلیمنٹ کو دونوں ایوانوں سے معطل کیا گیا۔ ان کی غیر موجودگی میں تعزیراتی قوانین، شہادت قانون اور ضابطہ فوجداری کے تین نئے قوانین پاس کیے گئے اور برطانوی دور کے تعزیراتی قوانین کو معطل کیا گیا۔

اسی ایوان میں چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کرنے والی کمیٹی سے چیف جسٹس آف انڈیا کو بے دخل کرکے اُن کی جگہ ایک وزیر کو رکھنے کا قانون بھی پاس کیا گیا۔ عدالت کی طرف سے کشمیر کے عوام کے حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کے بعد بھارت میں پارلیمانی جمہوریت میں کسی بحث و مباحثے کے بغیر ایسے قوانین کو پاس کرنا، جن کا عوام پر براہِ راست اثر پڑتا ہو، آخر کس بات کی نشاندہی کرتا ہے؟ کیا اب بھی بھارتی جمہوریت میں کچھ باقی رہ گیا ہے؟