افتخار گیلانی


معروف انڈین جریدے آوٹ لک نے مجھے فلسطین کے محبوس علاقہ غزہ پر آئی نئی آفت یعنی قحط و بھوک پر رپورٹ لکھنے کے لیے کہا۔ میں نے نوّے کے عشرے کے اوائل میں شورش زدہ علاقوں سے رپورٹنگ کی تھی۔ کشمیر، شام، فلسطین، آذربائیجان، آرمینیا جنگ، افریقہ، انڈیا کے اندر نکسل واد کے متاثرہ علاقے اور کسی حد تک شمال مشرقی ریاستوں میں جنگ و شورش کو کور کیا۔  

آوٹ لک کی اسٹوری کے لیے جب میں نے غزہ میں ایک صحافی اور مقامی سول سوسائٹی کے ساتھ وابستہ والینٹر دوست کو فون کیا، جن کے ساتھ خبروں کے حوالے سے پچھلے دوبرسوں سے ایک تعلق بن گیا تھا، تو کئی بار پیغامات بھیجنے اور کال کرنے کے بعد جب انھوں نے فون اٹھایا، تو ان کی آواز لرز رہی تھی۔ لگتا تھا کہ جیسے وہ کہیں دور سے سرگوشیوں میں بات کر رہے ہیں۔ ان کے الفاظ تھے: ’’برادر، میں نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا۔ جیسے ہی ایک روٹی ملتی ہے، آپ کو فون کروں گا‘‘ (پھر ان کا فون کبھی نہیں آیا، اور میں نے دوبارہ کال کرنے کی ہمت نہیں کی)۔ 

میں دیر تک فون تھامے بیٹھا رہا کہ وہ آواز سُن کر سُن ہوگیا تھا۔ حیران صرف اس کے الفاظ پر نہیں تھا، بلکہ اس وقار پر بھی تھا جس کے ساتھ اس نے وہ جملہ ادا کیا۔ اس لمحے مجھے لگا کہ میں نے گناہ کیا ہے۔ بھوکے انسان سے مجھے خبر مانگنے کا کیا حق بنتا ہے؟ اُس لمحے مجھے اتنی شرمندگی ہوئی جتنی کبھی کسی فوجی ناکے پر تلاشیاں دیتے ہوئے نہیں ہوئی ہے۔ اس ایک لمحے، میں رپورٹر نہیں رہا، بلکہ ایک اخلاقی انہدام کا گواہ بن گیا۔ غزہ کا منظرنامہ انسان کو توڑ دیتا ہے۔ اب غزہ کی رپورٹنگ، گولیوں کے زاویوں، جارح قوت کی وحشت، جنگ بندی کے ڈرامے یا مذاکرات کے سفاکانہ ناٹک بارے میں نہیں، بلکہ بھوک کے بارے میں ہے اور پوری دنیا سمیت ’اقوام متحدہ‘ اور ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC)کے شرم سے عاری رویوں کے بارے میں ہے۔آج کا غزہ صرف بموں اور ناکہ بندیوں کی کہانی نہیں۔ یہ بھوک کی کہانی ہے۔ ایسی قحط سالی جو قحط یا آفت سے نہیں، بلکہ منصوبہ بند جبر سے پیدا کی گئی ہے۔ غزہ کے عوام کے پیٹ ہی خالی نہیں بلکہ نام نہاد دنیا کی روح بھی خالی ہو چکی ہے۔ 

پھر اس تحریر کے لیے میں نے ۲۸ سالہ ابو رمضان سے بات کی، جو غزہ کے شہر النصر کے رہائشی ہیں۔ اُن کی گفتگو تلخی اور بے یقینی سے لبریز تھی۔جب میں نے انتہائی ڈھٹائی سے پوچھا کہ ’’آج کیا کھاؤ گے‘‘؟ تو اُنھوں نے جواب دیا:’’افسوس کہ ابھی تک ہم یہ طے نہیں کر پائے کہ کھانا کہاں سے لائیں گے؟ ہر دن اپنی تقدیر لاتا ہے۔ کبھی باسی روٹی کا ٹکڑا، کبھی بالکل کچھ نہیں۔ کبھی تلخ زعتر میں ڈوبا ہوا نوالہ، اور —وہ بھی اگر زعتر میسر ہو‘‘۔ 

میں نے پوچھا کہ ’’بھوک کی اس کیفیت کو آپ کس طرح محسوس کرتے ہیں؟‘‘ وہ لمحہ بھر رُکے، پھر ایسا جواب دیا جو ہمیشہ یاد رہے گا: ’’یہ ایسے ہی ہے جیسے دل میں خنجر مارا جائے اور ہاتھ بندھے ہوں۔ آپ اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتے، تڑپتے اور روتے دیکھتے ہیں مگر انھیں کچھ دینے کا وعدہ بھی نہیں کر پاتے۔ تسلی کا کوئی لفظ نہیں —بس خاموشی رہ جاتی ہے۔ جیب میں پیسے ہیں لیکن خریدنے کو کچھ نہیں۔چولہے پر سمندر کا پانی چڑھا دیتے ہیں۔ بچے اس کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ اب کھانا تیار ہوجائے گا اور اس چولہے کو دیکھ دیکھ کر سو جاتے ہیں‘‘۔ 

ان کا کہنا تھا:’’امریکا اور اسرائیل کی مدد سے قائم امدادی مراکز’موت کے پھندے‘ ہیں۔ جب وہاں جاتے ہیں، تو بھروسا نہیں ہوتا ہے کہ واپس پیروں پر چل کر آسکیں گے‘‘۔سب جانتے ہیں کہ امدادی مراکز کے سامنے خطرات ہیں۔ یا تو آٹے کا سفید تھیلا لے کر واپس آؤ گے، یا سفید کفن کی تلاش میں اپنی لاش چھوڑ کر آئو گے، مگر اس کے باوجود وہاں جانا پڑتا ہے کہ کوئی راستہ نہیں ہے‘‘۔ 

انھوں نے مزید کہا: ’’غزہ میں میں بھوک سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج اب ایک بند گلی بن چکا ہے۔ ڈاکٹروں کی مہارت اور ان کی لگن بھی مثالی ہے۔ لیکن جب مسلسل محاصرہ اور مکمل محرومی ہو، تو ڈاکٹر کیسے کسی مریض کو غذا کھانے کا لکھ سکتا ہے کہ جس نے ہفتوں سے کھانا نہیں دیکھا؟‘‘  

ابو رمضان بتا رہے تھے: ’’یہ سست موت ہے۔ اور ہم سب اسے اپنی آنکھوں کے سامنے اُمڈتا اور انسانی جانوں کو اُچکتا دیکھ رہے ہیں‘‘۔ پھر بھی وہ کہتے ہیں: ’’مگر اس کے باوجود انسانوں میں بھلائی باقی ہے۔اگر کسی کے پاس روٹی کا ایک ٹکڑا بھی ہو،جو کبھی اضافی نہیں ہوتا، وہ پڑوسی کے ساتھ بانٹ لیتا ہے، اس یقین پر کہ کل وہی نیکی واپس ملے گی۔ ہم سب موت کے پھندوں کی طرف اکٹھے جاتے ہیں۔ اگر ایک شہید ہو جائے تو دوسرا دونوں گھروں کے لیے لے آتا ہے، تاکہ دونوں خاندان زندہ رہ سکیں۔ لیکن زندہ رہنے میں کیا باقی بچا ہے جب ’زندگی‘کا تصور ہی چھین لیا گیا ہو؟‘‘ 

ابو رمضان نے مجھے بتایا:’’یہ جینا نہیں، یہ صرف بچنا ہے۔ ہر چیز بدل گئی ہے ۔ چھوٹی چھوٹی عادتوں سے لے کر ہمارے باطن تک۔ جب سے بھوک نے قبضہ کیا ہے، آئینے میں دیکھنا بھی عذاب ہو گیا ہے۔ ہمارے چہرے ہمارے جیسے نہیں لگتے ، بس کھوکھلے ڈھانچے اور تھکے سائے‘‘۔ افسوس یہ ہے کہ دنیا کو ابھی بھی غزہ کی اصل صورت حال کا ادراک نہیں ہے۔ میڈیا کوریج کے باوجود، کوئی نہیں سمجھتا۔ اگر سمجھتے ، واقعی ہمیں دیکھتے ، تو یہ جنگ ایک دن بھی نہ چلتی‘‘۔ میں نے جب پوچھا کہ دنیا کے لیے کیا پیغام ہے؟ تو ان کی آواز میں تلخی اُمڈی: ’’بس دنیا والوں کو کہیں کہ جا گ جاؤ۔ اس سے پہلے کہ تاریخ تم پر لعنت بھیجے۔ ایک دن تم خود ہم سے بھی بدتر حالت میں کھانے کے محتاج ہوگے۔ قیامت کے د ن ہم یہی گواہی دیں گے‘‘۔ 

’ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ (Medecins Sans Frontieres: MSF) کی ایک تازہ رپورٹ میں ’غزہ ہیومنٹیرین فاؤنڈیشن‘ (GHF)کو، جو امریکی و اسرائیلی سرپرستی میں چل رہا ہے، ’ظلم کی تجربہ گاہ‘قرار دیا گیا ہے۔ صرف سات ہفتوں میں ان مراکز کے باہر۱۸۰۰ ہلاکتیں درج کی گئیں۔ ۱۰۰ کے قریب بچوں کو گولیاں مار دی گئیں۔ بعض کو سر یا سینے میں۔ زخموں کی نوعیت —سر اور سینے میں زخم —ثابت کرتی ہے۔ امدادی مراکز ہدف اور ذلت کے میدان بن چکے ہیں، جن کی حفاظت امریکی نجی ٹھیکے دار کرتے ہیں۔ بچ جانے والے کہتے ہیں کہ پیغام صاف ہے: ’بھوکے مرو، یا کھانے کے لیے کوشش کرتے مرو‘۔ٹی وی پر امدادی ٹرکوں کی تصاویر چلتی ہیں، مگر زمین پر حقیقت مختلف ہے۔ 

مارچ ۲۰۲۵ء سے، جب اسرائیل نے حماس کے ساتھ جنگ بندی مذاکرات کے دوران امداد کی ناکہ بندی کی، خطے کو ایک منصوبہ بند طریقے سے ’قحط کی موت‘ کے مذبح خانے میں جھونک دیا گیا۔  

غزہ کی صحافی راشا ابوجلال لکھتی ہیں: امدادی ٹرک بھی راستے میں لُوٹ لیے جاتے ہیں یا چند گروہوں کے قبضے میں چلے جاتے ہیں۔غزہ کی ضروریات کے لیے روزانہ۵۰۰/۶۰۰ ٹرک درکار ہیں۔مگر اسرائیل ۱۰۰ سے بھی کم ٹرکوں کو داخلے کی اجازت دیتا ہے۔ چھ بچوں کے باپ خالد تنیرہ کہتے ہیں:’’یہ امداد سب تماشا ہے۔ ایک فوجی طیارے نے سات فضائی غباروں سے آٹے کے تھیلے ہمارے محلے کے اوپر گرائے۔ ہزاروں لوگ ان پر ٹوٹ پڑے، —حالانکہ وہ سامان چند درجن خاندانوں کے لیے بھی کافی نہ تھا‘‘۔ 

 صحافی ابو جلال اپنی حالت زار بتاتی ہیں: ’’دو دن سے امدادی کھانے کا انتظارکرنے کے بعد میں نے ۲۵ ڈالر میں ایک کلو آٹا خریدا، جو مشکل سے ایک ڈالر کا ہوتا تھا۔ اب شیر خوار بچوں کا دودھ ۸۰ ڈالر فی ڈبہ ہے، جو پہلے ۱۰ ڈالر تھا۔ مائیں اپنے زیورات بیچ کر بچوں کو کھلا رہی ہیں‘‘۔ غزہ کے کالم نگار طلال اوکل لکھتے ہیں:’’جب تک امدادی رسائی بہتر نہیں ہوتی اور سیکیورٹی بحال نہیں ہوتی، بھوک مزید افراد کو ہلاک کردے گی‘‘۔ بین الاقوامی فضائی ڈراپ تماشے کو ’ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ نے ایک ’بے اثر اور خطرناک‘بتایا ہے۔  

ایک نرس نے بتایا: ’’امدادی جگہوں پر ایک پانچ سالہ بچہ ہجوم میں کچلا گیا، اس کا چہرہ دم گھٹنے سے نیلا پڑ گیا تھا۔ ایک آٹھ سالہ بچے کے سینے میں امداد لیتے ہوئی گولی لگی۔ ہم صرف چند زخمیوں کا علاج کر پاتے ہیں۔ یہ جنگ نہیں رہی۔ جنگ کے علاوہ کچھ اور ہے، جنگ سے بھی زیادہ لرزہ خیز ہولناک اور تباہ کن ‘‘۔ ۴۲سالہ خدیجہ خدیر کہتی ہیں:’’میرے چار بچے بھوک سے سکڑ رہے ہیں۔ ہم تین چار روز کے بعد ایک روٹی کھاتے ہیں اور غزہ میں یہی آج کل ایک ’عیاشی‘ ہے‘‘۔ 

غزہ میں میڈیا آفس کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر اسماعیل الثوابتا کا کہنا تھا: ’’قحط براہِ راست اسرائیلی فوجی محاصرے کا نتیجہ ہے۔ برسوں سے کھانے، ایندھن اور دواؤں کی منظم پابندی، اور تقسیم کے راستوں کی بار بار توڑ پھوڑ نے صورت حال بگاڑ دی ہے۔ محفوظ رسائی ناممکن ہوگئی ہے۔ خطے میں بدترین قحط شروع ہو چکا ہے۔ عالمی عدالت انصاف نے ۲۶ جنوری، ۲۸ مارچ، اور ۲۴مئی ۲۰۲۴ءکو واضح حکم دیا کہ اسرائیل ’بلارکاوٹ‘انسانی امداد کی رسائی یقینی بنائے اور شہریوں کی حفاظت کرے۔ مگر اسرائیل اب بھی گذرگاہیں بند رکھتا ہے، امدادی اور رفاہی کام روکتا ہے، اور تقسیم مراکز کو نشانہ بناتا ہے‘‘۔میں نے ان سے پوچھا: ’’مغربی حکومتوں کا کیا کردار رہا ہے؟‘‘ تو فلسطینی رہنما کا کہنا تھا:’’ زیادہ تر نے اسرائیل کو عسکری و سیاسی سہارا دیا ،یا اپنی قانونی ذمہ داریوں پر عمل نہیں کیا۔ اس سے رکاوٹیں قائم رہیں۔ انھوں نے نہ گزرگاہیں کھولیں اور نہ عدالتی احکام منوائے‘‘۔  

میں نے اسماعیل الثوابتا سے پوچھا: ’’آپ کے گھرانے نے آج اور اس ہفتے کیا کھایا؟‘‘ ان کا کہنا تھا: ’’کئی روز کے بعد آج ہم کو دال کا سوپ نصیب ہوا ہے۔ چند روز قبل تھوڑے سے چاول پانی کے ساتھ حلق سے اتارے تھے۔ یہ میری زندگی کا سب سے کڑا لمحہ ہے ۔گھر میں بیٹی روٹی مانگتی ہے مگر روٹی کو دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ امدادی مراکز پر اسرائیلی اکثر سر، گردن اور ٹانگوں میں گولیاں مارتے ہیں۔ لوگ تھوڑی تھوڑی چیزیں بانٹتے ہیں۔ ایک کلو پھلیاں دس لیٹر پانی میں اُبال کر کئی گھروں میں بانٹ دی جاتی ہیں۔ یہ یکجہتی ابھی باقی ہے۔ محاصرے اور روزانہ ہلاکتوں کے باوجود لوگ ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں‘‘۔ فلسطینی لیڈر نے بتایا:’’میں نے پچھلے دوماہ میں ۱۶کلو وزن کھو دیا۔ میرے کزنز مازن نے ۵۱ کلو، اور ماہر نے ۴۶کلووزن کھو دیا ہے‘‘۔  

بھوک کو ہتھیار بنایا گیا ہے۔اسرائیل اور امریکا نے یہ اہتمام کیا ہے کہ اسرائیلی ٹرک ان کی اپنی زمین پر روٹیاں لائیں اور ان کو جاں بہ لب فلسطینی اور بھوک سے لاچار آبادی کے سامنے پھینک کر ان کا تماشا دیکھیں۔ اس دوران کسی اسرائیلی فوجی کا دل چاہا تو فائرنگ شروع کردی۔ اتنی تذلیل کوئی قوم برداشت کیسے کرسکتی ہے؟ 

 بطور صحافی لکھتے لکھتے میرا قلم رُک جاتا ہے۔ بھوک نے الفاظ چھین لیے ہیں۔ اس باپ کے دُکھ کے مداوے کے لیے کیا لکھوں جو اپنے بچے کو سُوکھتے ہوئے دیکھ کر کڑھتاہے۔ وہ ماں جس نے پانی کا برتن چولہے پر رکھا ہے اور بچے اس کی طرف دیکھ دیکھ کر سو جاتے ہیں، یا اس نوجوان کے خون کا بدلہ جس کی جان کی قیمت بس آٹے کاتھیلا تھا۔ جب آنے والی نسلیں یہ باب پڑھیں گی تو وہ یہ نہیں پوچھیں گی کہ فلسطینی کیوں غصے میں تھے؟ وہ پوچھیں گی: دُنیا کیسے کھانے کھاتی رہی؟___ یہ قحط صرف خوراک کا نہیں، اخلاقی اور سیاسی بھی ہے۔  

یہ ۲۰۰۶ء کی بات ہے کہ ایک ماہرِ قانون نے ’آئین پاکستان‘ اور آزادکشمیر کے ’عبوری آئین کی فراہمی کے لیے مجھ سے تقاضا کیا۔ میری اہلیہ ان دنوں ایک شادی میں شرکت کرنے کے لیے پاکستان گئی ہوئی تھیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ان کتابوں کو خرید کر ساتھ لیتی آئیں۔ واپسی پر جب وہ واہگہ -اٹاری سرحد پر پہنچیں تو ان کا فون آیا: ’کسٹم افسران نے ان دونوں کتابوں کو ضبط کرلیا ہے‘۔ میں نے مذکورہ افسر سے بات کی ، تو بڑی مشکل سے خاصے بحث و مباحثہ کے بعد اس نے ’آئین پاکستان‘ کی کاپی ساتھ لے جانے کی اجازت تودے دی، مگر آزاد کشمیر کے عبوری آئین کو ضبط کرکے اس کی رسید تھما دی۔ یہ واقعہ تو یہاں تمام ہوا، ازاں بعد مذکورہ ماہرِ قانون نے بھی اس کتاب کو بارڈر سے لانے کی کوشش کی، مگر ناکام رہے۔  

دنیا کے مختلف ممالک میں کتابوں پر پابندیاں لگانے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں، مگر جمہوری ممالک کی صف میں انڈیا اس طرح کی پابندیاں عائد کرنے میں بازی لے رہاہے۔ اگست ۲۰۲۵ء میں جس طرح زیرک اور معروف دانشوروں کی پچیس کتابوں پر تھوک کے حساب سے جموں و کشمیر میں پابندی عائد کی گئی اور پھر اگلے ہی روز کتابوں کی دکانوں کی تلاشیاں لی گئیں، اس سے دانش ور طبقہ میں خوف و تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ 

ماضی میں جائیں تو آزادی کے بعد پہلی بار ۱۹۵۰ءمیں تین کتابوں پر پابندی لگائی گئی، وہ حمید انور کی پاکستان پس منظر، آغا بابر کی سیز فائر اور نسیم حجازی کا ناول خاک و خون تھا۔ اس کے دوسال بعد مولانا صادق حسین سردھنوی کے ناول معرکہ سومنات پر پابندی لگا دی گئی۔ اسٹانلے وولپرٹ کی Nine Hours to Rama پر ۱۹۶۲ءمیں پابندی عائد کی گئی۔ اس کے اگلے سال برٹرینڈرسل کی Unarmed Victory ممنوع قرار دی گئی۔ اسی طرح وی ایس نیپال کی An Area of Darkness، تامل ناڈو کے ایک لیڈر پیریار راماسوامی Ramayana: A True Reading بھی اس فہرست میں ہے۔ ۱۹۸۳ءمیں امریکی تفتیشی صحافی کی کتاب سیمور ہرش، ۱۹۸۹ء میں زوہیر کشمیری اور برائن میک انڈریو کی کتابSoft Target: How the Indian Intelligence Services Penetrated Canada? پر پابندی لگائی گئی۔ اسی قبیل میں آخری پابندی ۲۰۱۴ءمیں سنت سوریہ تکا رام اور لوک ساکا دنیشور پر لکھی گئی کتاب پر لگائی گئی۔ ۲۰۱۷ء میں ایچ ایس شیکھر کی قبائلیوں پر لکھی ایک کتاب پر بھی پابندی لگائی گئی تھی، مگر جلد ہی یہ واپس لے لی گئی۔  

اگرچہ ہر سال ریاستی سطح پر اکا دکا ایسی پابندیوں کی خبریں تو آتی رہتی ہیں، مگر اس بڑے پیمانے پر ایک ہی ساتھ ۲۵تحقیقی کتابوں کو ممنوع قرار دینا پہلا واقعہ ہے۔ ان کتب میں بوکر انعام یافتہ ارون دھتی رائے کی آزادی، معروف تاریخ دانوں عائشہ جلال اور سوگاتا بوس کی کتاب Kashmir and the Future of South Asia، معروف قانون دان اور کالم نویس اے جی نورانی کی دو جلدوں پر مشتمل The Kashmir Dispute 1947-2012کے علاوہ کشمیر ٹائمز کی مدیرہ انورادھا بھسین کی کتاب A Dismentled State: The Untold Story of Kashmir after Article 370، محقق سمنترا بوس کی دو کتابیں، امریکا یونی ورسٹی کے پروفیسر اطہر ضیا اور حفصہ کنجوال کی کتابوں کے علاوہ مولانا مودودی کی الجہاد فی الاسلام اور امام حسن البنا کی مجاہد کی اذان اور کئی دیگر کتابیںشامل ہیں۔ اگر کسی کو کشمیر پر کہیں بھی کوئی تحقیق کرنی ہے یا مقالہ لکھنا ہے، تو ان کتابوں کے بغیر یہ مہم سر کرنا ناممکن ہے، مگر حکومت نے تقابلی مطالعے کا یہ باب ہی بند کردیا ہے۔ 

اس پابندی کی خبر پڑھ کر یہ لگا کہ محکمۂ داخلہ میں کسی وسیع المطالعہ شخص کا تقرر ہوا ہے، جس نے ارون دھتی رائے ، اے جی نورانی،سوگتابوس وغیرہ سبھی کو پڑھا ہے۔ مگر جب میں نے دوبارہ فہرست پر نظر ڈالی، تو اس میں معروف رضا اور ڈیوڈ دیوداس کی کتابیں بھی نظر آگئیں، تواس چیز سے یہ محسوس ہوا کہ اس افسر نے تو صرف کتابوں کے سرورق دیکھ کر پابندی کا حکم نامہ صادر کر دیا ہے۔ یہ دونوں مصنّفین انتہائی حد تک بھارت کا موقف تیار کرنے اور اس کی تشہیر کے لیے معروف ہیں۔ ڈیوڈ دیوداس کی کتاب In Search of a Future، سابق عسکریت پسندوں اور بھارت و کشمیر کے اہم سیاست دانوں کے انٹرویوز اور خفیہ ایجنسیوں کی فراہم کردہ معلومات پر مشتمل دکھائی دیتی ہے۔ اس کے مطابق: ’’کشمیری آزادی حاصل کرکے بھارت اور پاکستان کے وسائل نچوڑنا چاہتے ہیں۔ حقِ خودارادیت کا مطالبہ ’دوغلا‘ہے۔ کشمیری خود بھی واضح نہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ جدید دور میں حقِ خودارادیت ناقابلِ قبول ہے۔ ۱۹۸۹ء میں عسکریت کی ابتدا کا محرک سرحد پار سے آنے والی تحریک ہے، وغیرہ وغیرہ‘‘۔اس طرح موصوف نے کشمیر کے مسئلہ پر خوب بحث کی ہے۔ اسی طرح ڈیوڈ نے مسلمانوں کی تاریخ مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ 

دیگر جن کتابوں پر پابندی لگائی گئی ہے، ان میں سب سے اہم مرحوم اے جی نورانی کی دوجلدوں پر مشتمل The Kashmir Dispute 1947-2012 ہے۔ میں نے ان کی جن پانچ کتابوں کے لیے بطور ریسرچر کام کیا ہے، ان میں یہ کتاب بھی شامل ہے۔ اس کتاب کے لیے دستاویزات ڈھونڈنے کی وجہ سے نیشنل آرکائیوز تک رسائی حاصل کی تھی۔یہ کتاب دستاویزات پر مشتمل ہے، جو پہلے ہی انڈین نیشنل آرکائیوز میں موجود ہیں۔ اب کیا ان کو بھی تلف کیا جائے گا؟ اس کی دوسری جلد مصنف کے مضامین کا مجموعہ ہے جو گذشتہ پانچ عشروں کے دوران مختلف روزناموں، جرائد اور کتابوں میں شائع ہوئے ہیں جن کو موضوعاتی طور پر سات حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اس میں نایاب دستاویزات کے متن شامل ہیں، جیسے پاکستان اور بھارت کے درمیان عدم جارحیت معاہدے کے مسودے جو کبھی عملی شکل اختیار نہ کرسکے۔ 

 کشمیر پر مختلف برطانوی اور امریکی دستاویزات، کشمیر کی تقسیم کی امریکی تجویز، مصنف کا اگست ۲۰۰۶ء میں پاکستانی صدرجنرل پرویز مشرف سے کیا گیا انٹرویو، ان کے منصوبے کی تفصیلات، انڈین آئین کے آرٹیکل ۳۷۰کو بدلنے کے لیے نئے آرٹیکل کا مسودہ (جو انڈیا کے زیرقبضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتا ہے)، اور قائدین — جناح، ماؤنٹ بیٹن، نہرو، شیخ عبداللہ، جے پرکاش نرائن اور رادھا کرشنن — کے درمیان خط کتابت کے ساتھ ساتھ اب تک غیر شائع شدہ خفیہ دستاویزات کے متن بھی شامل ہیں۔ 

پچھلے سال ۲۹؍ اگست کو ممبئی میں جب اے جی نورانی کا انتقال ہوا، تو اس سے پندرہ روز قبل انھوں نے مجھے فون پر بتایا تھا کہ ’’ان پر دو کتابوں کا قرض ہے‘‘۔ میں سپریم کورٹ کے بابری مسجد سے متعلق فیصلہ پر کتاب مکمل کروں گا۔ اس سلسلے میں سبھی دستاویزات میرے پاس آچکی ہیں اور ساتھ ساتھ اپنی کتاب انڈین آرمی اور کشمیر  مکمل کرکے مَیں کتابیں لکھنے سے ریٹائرمنٹ لے لوں گا۔‘‘ ان کا کہنا تھا: ’’ناشرین میری کتاب انڈیا-چین باؤنڈری ڈسپیوٹ کی دوسری جلد لکھنے پر زور دے رہے ہیں، مگر اب مزید لکھنا اور تحقیق کرنا میری دسترس سے باہر ہے‘‘۔  

امریکی ریاست پنسلوینیا کی یونی ورسٹی میں پروفیسر حفصہ کنجوال کی کتاب Colonizing Kashmir: State-Building under Indian Occuption بھی اس خطے کی تحقیق کے حوالے سے ایک اہم اضافہ ہے۔اس پر کیسے کوئی پابندی لگا سکتا ہے،سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ کتاب مجموعی طور پر ۱۹۵۳ءکے بعد کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے، جب جموں وکشمیر کے پہلے وزیر اعظم (ان دنوں وزیر اعلیٰ کے بجائے وزیراعظم کا عہدہ ہوتا تھا) شیخ محمد عبداللہ کو برطرف اور گرفتار کرکے بخشی غلام محمد کو مسند اقتدار پر بٹھایا گیا تھا۔ اگلے دس سال تک بخشی اقتدار میں رہے اور ان کا واحد مقصد کشمیریوں کو چانکیہ کے سام، دام، ڈنڈاور بھید کے ذریعے رام کرنا یا سبق سکھانا تھا، جس سے وہ رائے شماری یا جمہوری حقوق کے مطالبہ سے تائب ہوکر انڈین یونین میں ضم ہونے کے لیے تیار ہوجائیں یا کم از کم اس کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کے قابل نہ رہ جائیں۔ 

کتاب پڑھ کر لگتا ہے کہ جیسے مصنف نے موجودہ دور کی ہی عکاسی کی ہے۔ ۳۸۴ صفحات پر مشتمل کتاب میں بتایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ الحاق میں کلیدی کردار ادا کرنے پر جب شیخ محمد عبداللہ کو وزیر اعظم بنایا گیا، تو ۱۹۴۹ءمیں ہی وہ انڈین حکمرانوں کے رویے سے دلبرداشتہ ہوگئے تھے۔ان کو لگتا تھا کہ نہرو کے سیکولرزم کے بعد کشمیریوں اور مسلمانوں کا جینا ہندوستان میں دوبھر ہونے والا ہے۔ دوسری طرف جواہر لال نہرو ان کو بار بار تاکید کررہے تھے کہ آئین ساز اسمبلی کے ذریعے مہاراجاکے دستخط شدہ الحاق کی توثیق کروائیں، جس کو شیخ ٹال رہے تھے۔ ۱۹۵۳ء تک انڈین لیڈروں بشمول شیخ عبداللہ کے انتہائی قریبی دوست نہرو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ۹؍اگست کو رات کے اندھیرے میں جب شیخ عبداللہ گلمرگ سیر و تفریح کرنے کے لیے گئے ہوئے تھے، ان کو معزول اور گرفتار کرکے زمام اقتدار بخشی غلام محمد کے سپردکردی گئی۔ جس کو ابھی تک کشمیری بکاؤ اور غدار کے نام سے یاد کرتے ہیں، گو کہ تعمیر و ترقی کے حوالے سے ان کا دور امتیازی رہا ہے۔ 

پابندی کی اس لسٹ میں ریاست جموں و کشمیر کے مؤقر انگریزی اخبار دی کشمیر ٹائمز کی مدیرہ انورادھا بھسین کی کتاب A Dismentled State: The Story of Kashmir after Article 370بھی شامل ہے۔ انورادھا لکھتی ہیں کہ ’’۵؍اگست ۲۰۱۹ءکی صبح جب کشمیریوں کی بدقسمتی کی ایک اوررات کا آغازہو رہا تھا، تو اپنے مضطرب ذہن کو سکون دینے کے لیے میں جموں شہر کی مقتدر شخصیت کرشن دیو سیٹھی کے پاس چلی گئی‘‘۔ بارہ ابواب پر مشتمل ۴۰۰صفحات کی اس کتاب میں کشمیر کے سبھی ایشوز خاص طور پر پچھلے تین سال کے دوران پیش آئے واقعات اور ان کے اثرات کا جامع جائزہ لیا گیا ہے۔ 

مواصلاتی پابندیوں سے کس قدر عوام کو ہراساں ا ور پریشان کردیا گیا تھا، اس کا اندازہ بھی اسی کتاب سے ہوتا ہے۔ 

 کتاب میں راجوری ضلع کی تحصیل بدھل کے ایک دُور دراز علاقے کے ایک سرپنچ کے حوالے سے بتایا گیا کہ اس کے علاقے کے ہر گاؤں کے باہر سیکورٹی اہلکار تعینات تھے، جو لوگوں کی نقل و حرکت پر پابندی لگا رہے تھے اور موبائل و دیگر فون بند تھے۔ بجلی اور پانی کی سپلائی میں خلل پڑنے کی شکایت کرنے کے لیے سرپنچ کے پاس سول انتظامیہ تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ آخرکار قدیم زمانے کی سواری یعنی گھوڑے پر سوار ہوکر یہ سرپنچ دسمبر ۲۰۱۹ءکو راجوری تحصیل آفس پہنچا اور اپنی شکایت سول انتظامیہ تک پہنچائی۔  

اندازہ کیجیے کہ ایک طالب علم اور محقق کے لیے یہ کتابیں قیمتی معلومات اور تجزیات کا خزانہ ہیں۔اس سے قبل سال کے اوائل میں ہی کشمیر میں پولیس نے متعدد کتاب فروشوں پر چھاپے مارے تھے اور تقریباً ۶۶۸کتابیں ضبط کیں۔ حکام نے ان چھاپوں کو قابلِ اعتماد خفیہ اطلاع کی بنیاد پر جائز قرار دیا کہ ایک ممنوعہ تنظیم (جماعت اسلامی) کے نظریات کو فروغ دینے والا لٹریچر خفیہ طور پر بیچا جارہا تھا۔ ۲۰۲۳ء میں، کشمیر کی یونی ورسٹیوں نے علامہ اقبال اور فیض احمد فیض جیسے عالمی سطح پر تسلیم شدہ معروف شعرا کے کلام کو اپنے نصاب سے خارج کر دیا۔ 

ایسا کرنے سے آخر انڈین حکومت کون سا ہدف حاصل کرنا چاہتی ہے؟ معروف صحافی فرینی منیکشا عسکریت کے سماجی اثرات سمجھنے کے لیے ایک عرصہ قبل کشمیر کے قریہ قریہ گئی تھیں۔انھوں نے بتایا: پتا چلا کہ ایک بوڑھی عورت نے اپنے ہلاک شدہ بیٹے کی تصویر فریم میں لگا کر دیوار پر لٹکا رکھی تھی۔ جب بھی علاقے میں سیکورٹی فورسز تلاشی لیتی تھیں، تو اس گھر کی دیوار پر اس تصویر کو دیکھ کر ان کا پارہ چڑھ جاتا تھا اور اس معمر خاتون سمیت سبھی اہل خانہ کو ہراساں و پریشان کرتے تھے۔ آئے دن کی اس طرح کی وارداتوں کے بعد اس بوڑھی عورت نے بیٹے کی تصویر دیوار سے اتار کر اس کو کسی بکس میں رکھ دیا اور اس کی جگہ پر پہاڑوں کے خوب صورت منظر کی تصویر لگا دی۔ اس نے اپنے آس پاس کے لوگوں سے کہا کہ اس کو اپنے بیٹے کو یاد کرنے کے لیے تصویر کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اس کے دل و دماغ میں رچا ہوا ہے، اور اس کی یاد ہمیشہ قائم رہے گی۔ حکام اور سیکورٹی فورسز کی ناراضی اس کو کھرچ نہیں سکتی۔ 

موجودہ پابندیاں ان یادداشتوں کو کھرچنے کا عمل ہے، جو کئی عشروں سے جاری ہے، اگرچہ ۲۰۱۹ء کے بعد یہ عمل بے حد بڑھ گیا ہے۔یہ بار بار باور کرایا جا رہا ہے کہ جیسے انڈیا کو آزادی وزیراعظم نریندر مودی کے برسرِاقتدار آنے کے بعد ۲۰۱۴ء میں ملی اور کشمیر کو یہ آزادی ۲۰۱۹ءمیں نصیب ہوئی۔ لہٰذا، اس سے قبل کے دور کو دور غلامی یا ’تاریک دور‘ کے طور پر ہی یاد کیا جاسکتا ہے۔ کشمیر کے اخبارات کے آرکائیوز بند کردیے گئے ہیں۔ پچھلے ۳۰ برسوں میں اس خطے پر کیا کیا قیامت برپا ہوئی؟ اس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ 

 سرکاری نوٹیفکیشن میں پابندی کا دفاع کرتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ لٹریچر شکایت، مظلومیت اور دہشت گردانہ ہیرو ازم کی ثقافت کو فروغ دیتا ہے۔’شکایت اور مظلومیت ‘بیان کر نا اب جرم ہو گیا ہے۔ لوگ اپنے دُکھ بیان کرنے کا حق رکھتے ہیں، نہ اپنے آپ کو مظلوم کہہ سکتے ہیں۔ یادداشتوں کو کھرچنے کے عمل کا ایک حصہ ۱۳ جولائی ۱۹۳۱ء کی بغاوت کی یاد کو مٹانے کی کوشش تھی۔ کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر نے لوگوں کو شہدا کے قبرستان میں جمع ہونے ا ور فاتحہ پڑھنے پر ہی پابندی لگادی۔ یہ تاریخی واقعہ کشمیریوں کی اجتماعی یادداشت کا حصہ ہے اور ۲۰۱۹ء تک پارٹی اور نظریاتی وابستگیوں سے بالاتر یادگاری تقریبات منعقد کی جاتی تھیں۔ اس سال ایک وزیر اعلیٰ کو بندگیٹ پھلانگنے پر مجبور ہوکر اس مزار میں داخل ہونا پڑا۔  

 سری نگرمیں لاپتہ افراد کے والدین کی ایسوسی ایشن (APDP) کے اراکین تصاویر اور پلے کارڈز اٹھا کر ریاست سے جوابدہی کا مطالبہ کرتے تھے۔۲۰۱۹ء کے بعد اس عمل کو روک دیا گیا، اور اب پروفیسر اطہر ضیا کی کتاب Resisting Disappearance: Military Occupation & Women' Activism in Kashmir  پر پابندی لگا کر یادداشت غائب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان کی کتاب APDP پر مبنی ایک نسلیاتی مطالعہ ہے، جو یہ تجزیہ کرتی ہے کہ سیاسی تشدد خواتین پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے اور کشمیری خواتین اپنے کھوئے ہوئے پیاروں کا سوگ اور یاد کس طرح مناتی ہیں۔ 

اس پورے قضیہ کا المناک پہلو یہ ہے کہ انڈیا کے لبرل طبقے نے بھی اس پر آنکھیں موند لیں اور اس پر قابلِ قدر رد عمل نہیں دیا۔ فرینی منیکشا کے مطابق شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ کشمیر کی جماعت اسلامی کو صرف مذہب کے ہی تناظر میں دیکھتے ہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ جب کشمیر سوشل میڈیا کا ہیش ٹیگ بھی نہیں بنا تھا، تب جماعت اسلامی ہی کے لوگ وہ تواریخ محفوظ کر رہے تھے، جنھیں کوئی اور چھونے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔  

انورادھا بھسین نے بھی انڈیا کے سیکولر اور لبرل طبقے کو مخاطب کرکے خبردار کیا ہے کہ ’’موجودہ حکومت کشمیر کو ایک لیبارٹری کی طرح استعمال کر رہی ہے اور اگر اس کو روکا نہ گیاتو یہ تجربات قریہ قریہ، گلی گلی انڈیا کے دیگر علاقوں میں دہرائے جائیں گے‘‘۔اگرچہ لوگ سوشل میڈیا پر ان ممنوعہ کتابوں کے گوگل ڈرائیو لنکس شیئر کر رہے ہیں، لیکن اہل کشمیر کے لیے یہ معمولی سا سہارا ہے۔  

ایک صحت مند جمہوریت، بحث سے پروان چڑھتی ہے نہ کہ جبری خاموشی سے۔ جیسا کہ انورادھا بھسین، لکھتی ہیں: 'جب آپ کتابوں پر پابندی لگاتے ہیں، تو آپ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کے پاس کوئی جوابی دلیل نہیں ہے۔ آپ سچائی کا سامنا کرنے کے بجائے اس اقدام سے اپنے خوف کا اعتراف کرتے ہیں۔ اس لیے یہ پابندی ایک مایوس کن عمل ہے۔ یہ عمل ایک ایسی ریاست کو ظاہر کرتا ہے جو ایک باخبر شہری سے خوف زدہ ہے۔ لیکن تاریخ پوشیدہ نسخوں میں زندہ رہتی ہے۔ 

بیسویں صدی کے اوائل میں متحدہ ہندوستان میں مرحوم احمد شاہ پطرس بخاری اپنے ایک طنزیہ مضمون ’مرید پور کا پیر‘ میں رقم طراز ہیں کہ جس شہر میں وہ مقیم تھے، وہیں کانگریس نے اپنا سالانہ اجلاس منعقد کرنے کی ٹھان لی اور جب ایسا جلسہ بغل میں ہو رہا ہو، تو کون متقی وہاں جانے سے گریز کرے گا۔ یہی صورت حال کم و بیش حال ہی میں مجھے پیش آئی۔ معلوم ہوا کہ ترکیہ کے عروس البلاد استنبول میں ۵۷ ؍اراکین پر مشتمل ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC)کے وزرائے خارجہ کا اکاون واں اجلاس منعقد ہو نے والا ہے۔ اب ترکیہ میں مقیم کون صحافی اس موقعے کو ضائع ہونے دیتا۔ ایک تو خطے کی صورت حال ’ایران- اسرائیل جنگ‘، غزہ کی قتل گاہ کا المیہ، دوسرا اس کانفرنس کے دوران افریقی ملک برکینا فاسو کے وفد سے ملاقات کی طلب تھی، جس کے صدر ابراہیم ترورے نے استعماری طاقتوں کے خلاف افریقی ممالک کو متحد کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔  

ترکیہ کے شہر استنبول کی داد دینی پڑے گی کہ شہر میں ستاون وزرائے خارجہ اور ان کے وفود کی موجودگی کے باوجود نہ کہیں ٹریفک میں خلل تھا اور نہ معمولات زندگی میں کوئی رخنہ۔ کانفرنس بلڈنگ تک معلوم ہی نہیں پڑا کہ شہر میں اتنی بڑی تعداد میں وی وی آئی پییز جمع ہیں ۔ کوئی سڑک بند، نہ پولیس کے دستے نظر آرہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک یا دو غیر ملکی سربراہان کی آمد پر بھی نئی دہلی میں تو کئی اہم شاہرائیں بند ہو جاتی ہیں جن سے کئی کئی کلومیٹر دُور تک ٹریفک جام لگتا تھا۔ اسلام آباد میں پچھلے سال ’شنگھائی تعاون تنظیم‘ کے اجلاس کے موقع پر تو پورا شہر ہی بند کردیا گیا تھا۔ حتیٰ کہ شہرکے نواح میں کانفرنس ہال سےبہت دُور شادی ہالوں تک کو بند رکھنے کی ہدایت دی گئی تھی۔  

 کانفرنس کے استقبالیہ پر معلوم ہوا کہ میرا نام فہرست میں موجود ہی نہیں تھا۔ وجہ بتانے کےلیے کوئی موجود نہیں تھا۔ دو گھنٹہ منت سماجت کرنے اور یہ دہائی دینے کے بعد کہ میں انقرہ سے بس اسی کانفرنس کو کور کرنے کےلیے چلا ہوں اور ہوٹل میں مقیم ہوں، تو اسکارٹ کرکےمجھے پریس گیلری میں لے جایا گیا، جو اسٹیج سے کافی دور اوپر کی منزل میں تھی۔ بتایا گیا کہ صرف افتتاحی سیشن ہی پریس کےلیے اوپن ہے۔ترک افسران بار بار معذرت کا اظہار کررہے تھے کہ رجسٹریشن کے باوجود او آئی سی کے سیکرٹریٹ کے اجازت نامے کی فہرست میں میرا نام کیوں نہیں تھا؟ معلوم ہوا کہ میرا بھارتی پاسپورٹ اور شہریت دیکھ کر آو آئی سی سیکرٹریٹ نے میرا نام فہرست میں شامل نہیں کیا تھا۔ ان کو ہدایت تھی کہ بھارتی اور اسرائیلی صحافیوں کو اس کانفرنس تک رسائی نہیں دینی ہے۔ 

 افتتاحی سیشن سے ترک صدر رجب طیب ایردوان نے خطاب کیا۔ اس کے بعد صحافیوں کو دوسری بلڈنگ میں میڈیا سینٹر لے جایا اور بتایا گیا کہ اب کانفرنس کی جائے وقو ع تک ان کی رسائی بند ہے۔ یہ ایک نئی روایت ہے۔ پچھلے تیس برسوں سے سارک سربراہ یا وزرائے خارجہ کانفرنس، ناوابستہ ممالک کا اجلاس،برکس، شنگھائی تعاون تنظیم، افریقہ چوٹی اجلاس یا اقوام متحدہ کی ماحولیات سے متعلق وغیرہ ایسی اَن گنت کانفرنسیں کور کرنے کا موقع ملا ہے۔ ان میں ایک یا دو سیشن آن ریکارڈ میڈیا کےلیے کھول دیئے جاتےتھے، مگر پھر صحافی وہیں بلڈنگ کے آس پاس یا لابی وغیر میں ہی گھومتے پھرتے تھے، اور مہمان بھی ناشتے، لنچ کے وقت ان سے مل لیتے تھے۔ اس طرح جب صحافیوں کا کانفرنس کے مندوبین کے ساتھ ملنا جلنا ہوتا تھا، تو خبرو ں کے حصول کے علاوہ ان کے شعور اور عالمی امور کی سوجھ بوجھ میں اضافہ ہوتا تھا اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی تھی۔  

صحافیوں کےلیے یہ اب ایک سنجیدہ معاملہ بن چکا ہے۔پوری دنیا میں مسند ِحکومت پر فائز افراد کو لگتا ہے کہ اب ان کو میڈیا کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ سوشل میڈیا نے ان کی رسائی عوام تک براہِ راست کر دی ہے۔ اس لیے میڈیا کو اب رسمی یا غیر رسمی رسائی دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس صورتِ حال میں صحافیوں کی موجودہ نسل کو علمی مہارت یا تجزیہ کاری کا تجربہ حاصل ہو تو کیسے ہو؟ خود صحافیوں نے بھی اس خرابی میں اضافہ کیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے آنے سے بس مائیک اور کیمرہ رپورٹروں کو کسی مندوب کے آگے کرکے بریکنگ نیوز لانی ہوتی ہے۔ اس پر خاصے جھگڑے بھی ہوتے تھے، اسی وجہ سے رسائی بند کر دی گئی ہے۔ انفارمیشن حاصل کرنے کےلیے ایک غیر رسمی بریفنگ اور انٹر ایکشن کا ہونا ضروری ہے، جو بعد میں مضامین یا اداریوں میں جھلکتا ہے۔ ورنہ وہی حال ہوگا، جس کا مظاہرہ حال کی ’انڈیا-پاکستان جنگ‘ میں انڈین میڈیا خاص طور پر ٹی وی چینل کر چکے ہیں۔  

کانفرنس کے پہلے روز کے اختتام کے فوراً بعد ہی امریکا نے ایران پر حملہ کرکے اس کی نوعیت ہی بدل دی۔ اگلے روز ایرانی وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور اپنا دورہ ادھورا چھوڑ کر صلاح و مشورہ کےلیے ماسکو چلے گئے۔ چونکہ شام کی جنگ میں ایران نے روس کی خاصی مدد کی تھی اور مشرق وسطیٰ میں ایک عرصے کے بعد روس کو قدم جمانے اور بحری اڈہ قائم کرنے میں مدد کی تھی، اس لیے ایران کو اُمید تھی کہ روس اس احسان کا کچھ بدلہ تو ضرور چکائے گا۔  

اس کانفرنس کے دوران احساس ہوا کہ پاکستان اور سعودی عرب ایک مدت تک مسلم ممالک کی قیادت پر فائز رہے تھے،کئی عشرے قبل ایک بڑی تبدیلی یہ رونما ہوئی کہ مسلم ممالک کی سربراہی آہستہ آہستہ پاکستان اور سعودی عرب کے ہاتھوں سے نکل کر ترکیہ اور ایران کے پاس چلی گئی۔ جب سے او آئی سی کا قیام عمل میں آیا، تب سے ہی پاکستان میں وزارت خارجہ کی نکیل چونکہ ذولفقار علی بھٹو سے لے کر شاہ محمود قریشی بشمول صاحب زادہ یعقوب خان وغیر جیسے زیرک اور انگریزی جاننے والے افراد کے ہاتھوں میں ہوتی تھی، اس لیے کانفرنس کا ایجنڈا اور اعلامیہ اکثر وہی ڈرافٹ کرتے تھے۔ سعودی عرب میں اس تنظیم کا سیکرٹریٹ تھا اور مالی طور پر سب سے زیادہ بار وہی اٹھاتا تھا۔ اس لیے ان دو ملکوں کا رُتبہ اسلامی تنظیم میں وہی تھا، جو اقوام متحدہ میں امریکا اور سوویت یونین کا ہوتا تھا۔ مگر تین عشرے قبل آہستہ آہستہ پاکستان اس تنظیم کےلیے غیر متعلق ہوتا گیا اور یہ منصب ترکیہ کے پاس آتا گیا، جو اس دوران خاصا فعال ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ ایردوان کی حکومت آنے کے بعد یہ رول زیادہ بڑھ گیا۔ 

 سعودی عرب خود قیادت کے منصب سے پیچھے ہٹتا گیا، جس کا خاطر خواہ فائدہ قطر، متحدہ عرب امارات، ملایشیا اور ایران کو حاصل ہوا۔ نظریاتی وجوہ کی بناکر ایران کا رول محدود رہا مگر اس نے لیڈرشپ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ موجودہ حالات میں خاص طور پر انڈیا کے ساتھ محدود جنگ میں ہارڈ پاور کا استعمال کرکے پاکستان کے لیے قیادت کا منصب پھر استوار ہو رہا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ کی وجہ سے ایران کا کردار بھی بڑھ گیا ہے۔ اس کانفرنس میں محسوس ہوا کہ سعودی عرب قیادت کے منصب کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ عرب ممالک میں قطر اور افریقی ممالک میں برکینا فاسو اس بار بہت ہی سرگرم تھے۔  

کانفرنس کے دوسرے دن جب خاصی تگ و دو کے بعد اعلامیہ جاری ہوا، تو مایوس کن بات یہ تھی، کہ اس میں ایران پر اسرائیل کے حملوں کا تو ذکر تھا، مگر امریکا کا کہیں نام شامل نہیں تھا۔ ۵۷ ممالک میں کوئی بھی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ناراضی مول نہیں لینا چاہتا تھا۔ پاکستان کی افواج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر، صدر ٹرمپ کے ساتھ اپنی ملاقات کے بعد ایردوان کو بریف کرنے پہنچ گئے تھے اور انھوں نے بھی افتتاحی سیشن میں شرکت کی۔  

ایک اہم انکشاف یہ تھا کہ مسلم دنیا میں اب یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ طاقت اب صرف سیاست اور احتجاج میں نہیں، بلکہ تعلیم، ابلاغ اور ادارہ جاتی صلاحیت میں بھی پنہاں ہے۔ اس کانفرنس میں استنبول میں ہی ایک ’میڈیا فورم‘ کے قیام کی منظوری دی گئی۔ اس کا خاکہ ایک عشرہ قبل دیا گیا تھا، مگر ابھی اس کا قیام باقی تھا۔ بتایا گیا کہ اسلامو فوبیا کے خلاف یہ ایک مؤثر فورم کا کام کرے گا اور مسلم دنیا کےلیے بیانیہ وضع کرنے کا بھی کام کرے گا۔  

 ایک ایسے عہد میں جب تاثرات کی جنگ سفارتی میدانوں سے پہلے ڈیجیٹل دنیا میں لڑی جاتی ہے، مسلم دنیا کے لیے اپنی کہانی خود سنانا — بغیر مسخ، تعصب یا بیرونی مفروضات کے — نہ صرف ثقافتی ضرورت ہے بلکہ ایک سیاسی ہتھیار بھی ہے۔فورم کے تحت تربیتی پروگراموں کا آغاز، کردار کشی پر فوری ردعمل کے نظام، اور عوامی نشریاتی اداروں و میڈیا ایجنسیوں کے درمیان ہم آہنگی کا فروغ متوقع ہے۔ ایسے وقت میں جب ایک وائرل کلپ یا جھوٹی خبر بین الاقوامی پالیسی کو کمزور کرسکتی ہے یا نفرت انگیزی کو ہوا دے سکتی ہے، تو یہ پہل علامتی نہیں بلکہ ایک تزویراتی ضرورت بن چکی ہے۔ 

اسلاموفوبیا سے نمٹنے کی حکمت عملی کے طور پر سفارش کی گئی کہ اشتعال انگیز تقاریر کو قابلِ سزا جرم بنانا اور مذہبی تعصب کے خلاف تعلیمی إصلاحات کرنا اور اقوام متحدہ کی شراکت سے ایسا عالمی نظام تشکیل دینا، جو مذہبی امتیاز کی تفتیش اور نگرانی کرکے اس پر فوری کارروائی کرے۔ جس بھی ملک سے کوئی شہری اس ادارہ کے پاس مذہبی امتیاز کی شکایت کرے، تو اس کا فوری ازالہ کیا جائے۔  

اگر یہ اقدامات عملی شکل اختیار کر لیں تو یہ بین الاقوامی قانون میں مذہبی رواداری سے متعلق اسلامی دنیا کا پہلا بامعنی کردار ہو گا۔ عشروں سے مسلم ممالک تعصب اور نفرت کی نشاندہی کرتے رہے ہیں، اب وہ ان کا تدارک پیش کر رہے ہیں، یہ — ایک ایسی پیش رفت ہے جسے مغربی ممالک نظرانداز نہیں کر سکیں گے۔ 

اعلامیہ میں جہاں برما کے روہنگیا مسلمانوں کا تذکرہ کیا گیا تھا، وہاں اس میں چین کے شین جیانگ یا چینی ترکستان کے اویغور آبادی کا تذکرہ نہیں تھا۔ چونکہ یہ اجلاس ہی استنبول میں منعقد ہورہا تھا، جہاں جلاوطن ایغور آبادی اچھی خاصی ہے، تو ان کا ذکر نہ کرنا نوٹ کیا گیا۔ معلوم ہوا کہ پچھلے اعلامیوں میں جب ایغور آبادی کا تذکرہ ہوتا تھا تو چین اس پر ناراض ہوتا تھا۔ 

 چند برس قبل چین نے اس کا توڑ یہ نکالا کہ جدہ میں او آئی سی سیکرٹریٹ کےلیے ایک خصوصی سفیر کا تقرر کیا۔ جس کی وجہ سے اس کو اسلامی تنظیم کے اندر رسائی حاصل ہوگئی اور اس نے تنظیم کو پیش کش کی کہ وہ ہر سال مسلم ممالک کے وفد کو شین جیانگ کا دورہ کرنے کی اجازت دیں گے اور اگر وہاں عوام کی فلاح و بہبود کےلیے ان کو کوئی سفارش کرنی ہو، تو براہِ راست اسلامی تنظیم میں متعین چینی سفیر کو کیا کریں۔ اس کے بعد سے اعلامیہ میں ایغور آبادی کا ذکر آنا بند ہوگیا۔  

اسی کانفرنس کے دوران او آئی سی سیکرٹریٹ نے چین کی وزارتِ تعلیم کے ساتھ ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے۔ جس کا مقصد وظائف، تعلیمی تبادلے اور مشترکہ تحقیق کے ذریعے انسانی وسائل کی ترقی ہے۔ جہاں او آئی سی عشروں سے مغربی اداروں سے منسلک رہی ہے، وہاں یہ شراکت ایک نئی جہت کی طرف اشارہ ہے۔ یوں — ترقی کے ایسے ماڈلز تیار کئے جائیں گے جو مغربی امداد کی شرائط سے آزاد ہوں گے۔ او آئی سی ممالک کے لیے یہ ایک قیمتی موقع ہے کہ وہ اپنی نوجوان نسل کو تعلیم، سائنس اور تحقیق کے میدان میں مغربی انحصار سے باہر نکلنے کے راستے فراہم کرے۔ چینی سفیر چانگ ہوا نے اس معاہدے کو مسلم دُنیا کے ساتھ تعلقات میں ’اہم سنگِ میل‘ قرار دیا اور تعلیم، سائنس و ٹکنالوجی، اور دیگر مشترکہ شعبوں میں مزید تعاون کے عزم کا اظہار کیا۔ 

مسلم دنیا میں اعلیٰ تعلیم، سائنسی تحقیق، علمی تبادلہ اور ادارہ جاتی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک اسٹرے ٹیجک فریم ورک قائم کرنے کا بھی اعلان کیا گیا۔جس میں بیس سے زائد جمہوریہ ترکیہ کے اعلیٰ تعلیمی ادارے شامل ہوںگے۔ اس کے ذریعے مشترکہ تحقیق، تربیتی پروگرام، اور رکن ممالک کی جامعات کے درمیان نیٹ ورکنگ کو تقویت ملے گی۔ 

اسی طرح او آئی سی مرکز برائے پولیس تعاون کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ جس میں ابتدا میں ترکیہ ، قطر، موریتانیا، گنی بساؤ، گیمبیا اور لیبیا وغیرہ شامل ہوں گے۔ یہ مرکز ایک رضاکارانہ ماہر ادارے کے طور پر تربیت، انٹیلی جنس شیئرنگ اور سرحد پار تعاون کو فروغ دے گا۔ دہشت گردی، سائبر جرائم اور انتہا پسندی جیسے چیلنجوں کے لیے مشترکہ ردعمل کی ضرورت ہے۔ اس مرکز کو وسعت دی جائے تو مسلم ممالک مغربی سیکیورٹی سانچوں اور ٹکنالوجی پر انحصار کم کر سکتے ہیں۔  

صدر ایردوان نے افتتاحی خطاب میں کہا کہ ’’مسلم دنیا کو صرف ردعمل دینے والا نہیں، بلکہ راہ نمائی فراہم کرنے کا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس قیادت کا اندازہ تقریروں یا پریس ریلیز سے نہیں، بلکہ اُن اداروں، مراکز اور معاہدوں کے عملی اطلاق سے ہو گا جن کا اعلان کیا جائے گا‘‘۔ 

استنبول کا یہ اجلاس ردعمل پر مبنی نہیں بلکہ بھرپور اقدامات کی طرف گامزن ہونے کی نوید سناتا ہے۔ تاہم، اعلامیے کافی نہیں، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی بین الحکومتی تنظیم اپنی آبادیاتی قوت کو ادارہ جاتی طاقت میں تبدیل کرے۔ 

ایران پر اسرائیل کے حملے کے حوالے سے وزرائے خارجہ نے ایک کھلے مینڈیٹ والے رابطہ گروپ کے قیام پر اتفاق کیا، جو دنیا کی بڑی طاقتوں سے رابطہ قائم کر کے کشیدگی میں کمی، اور اسرائیلی جارحیت کے احتساب کے لیے اقدامات کرے گا۔ وزرائے خارجہ نے ان کوششوں کی مذمت کی جو اسرائیلی حکام کی جانب سے القدس الشریف کی تہذیبی شناخت کو مسخ کرنے اور مسجد اقصیٰ کی قانونی و تاریخی حیثیت بدلنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔اعلامیے میں اردن کی حکومت کی کوششوں کو سراہا گیا، جو یروشلم میں اسلامی و مسیحی مقدس مقامات کی متولی ہے۔ بیت المال القدس ایجنسی اور القدس کمیٹی کے کردار کی بھی تعریف کی گئی۔ او آئی سی نے یونیسکو کی ان قراردادوں کا خیرمقدم کیا جن میں مسجد اقصیٰ کو اسلامی عبادت گاہ قرار دیا گیا اور اردن کی انتظامی بالادستی کو تسلیم کیا گیا‘‘۔ 

ایردوان نے کہا کہ ’’اسلامی تنظیم کے رکن ممالک کو صرف اپنے ہی مسائل کا حل نہیں نکالنا، بلکہ پوری دنیا کے مظلوموں کی آواز بھی بننا ہے۔ مسلم اقلیتیں، او آئی سی اور باقی دنیا کے درمیان ایک پل کا کام کرتی ہیں‘‘۔ ان کا اشارہ مغربی اور دیگر ممالک میں مسلم اقلیت کی طرف تھا، جو ایک پُل کا کام کرسکتے ہیں اور ان ممالک میں تنظیم کےلیے ایک اثاثہ ہیں۔ ان خدمات کے بدلے میں ان کے مفادات کا بھی خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔  

انھوں نے فلسطینی دھڑوں کے مابین اختلافات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’یہ ہمارے لیے تکلیف دہ ہے کہ پوری اسلامی دنیا فلسطین کی حمایت میں متحد ہے مگر ہمارے بھائی آپس میں تقسیم کا شکار ہیں۔استنبول سے لے کر القدس تک، ترکوں سے لے کر کردوں تک، سنیوں سے لے کر شیعوں تک — ہمارا قبلہ ایک ہے، تو ہمارا مقصد اور مقدر بھی مشترک ہے‘‘۔  

او آئی سی نے اقوامِ متحدہ میں مشترکہ سفارتی اقدام شروع کرنے کا فیصلہ کیا، جس کا مقصد اسرائیل کے خفیہ جوہری پروگرا م کو دنیا کے سامنے کھولنے اور اس کو جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ یہ فیصلہ ایک بند کمرہ اجلاس میں کیا گیا، جو ایران کی درخواست پر منعقد ہوا۔  

ایردوان نے مغربی طاقتوں پر دوہرے معیار برتنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا: ’’ایران جیسے این پی ٹی پر دستخط کنندہ ممالک پر دباؤ ڈالنے والے یہ کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں کہ اسرائیل نہ صرف اس معاہدے سے باہر ہے، بلکہ معائنے کو بھی رد کرتا ہے؟ ‘‘ 

لگتا ہے کہ استنبول میں منعقدہ یہ اجلاس صرف تقاریر یا قراردادوں تک محدود نہیں رہا۔ اس نے اُمت ِ مسلمہ کے لیے ایک نیا راستہ متعین کیا ہے، جو جوہری توازن کی بحالی، مظلوموں کے دفاع، اور عالمی انصاف کے قیام پر مبنی ہے۔ آنے والے دن اس بات کا امتحان ہوں گے کہ اسلامی تعاون تنظیم صرف آواز بلند کرے گی یا اپنے کسی اعلان پرعمل بھی کرے گی؟ 

نوّے کی دہائی کے اوائل میں، جب میں دہلی میں صحافت کے ابتدائی مراحل سے گزر رہا تھا، مجھے دو ایسی شخصیات سے فیض حاصل ہوا جنھوں نے میرے فکری سفر کی بنیاد رکھی۔ ایک سے براہِ راست ملاقاتیں ہوئیں، جب کہ دوسرے سے محض فون پر رابطہ رہا اور زندگی میں صرف ایک مرتبہ ان سے شرفِ ملاقات نصیب ہوا۔

یہ غالباً ۱۹۹۲ء کا سال تھا۔ کشمیری قائدین جب ایک طویل اسیری کے بعد دہلی آتے، تو وہاں مقیم چند کشمیری طلبہ اور ملازمت پیشہ افراد باری باری ان کی میزبانی کا فریضہ انجام دیتے۔ ایک سینئر ساتھی باقاعدہ شیڈول بناتے، اور جس دن کسی کی خدمتی ذمہ داری ہوتی، وہ دفتر یا کلاس سے چھٹی لے کر ان قائدین کی خدمت پر مامور ہوتا۔ وہ ان کے لیے ٹیکسی کی فراہمی یا کسی مقام پر پہنچنے میں مدد کرتا۔ میرواعظ عمر فاروق اور شبیراحمد شاہ تو ایک ٹیم کے ساتھ سری نگر سے دہلی آتے، مگر دیگر قائدین جیسے عبدالغنی لون، پروفیسر عبدالغنی بٹ، اور عباس انصاری وغیرہ کو مقامی معاونت درکار ہوتی۔ محمد یاسین ملک اُن دنوں انڈرگرائونڈ (روپوش) تھے، مگر ۱۹۹۴ء کے بعد جب انھوں نے دہلی آنا شروع کیا تو اُن کے لیے بھی اسی طرح کا انتظام کیا جاتا تھا۔

ایک بار سیّد علی گیلانی صاحب دہلی آ کر چانکیہ پوری کے جموں و کشمیر ہاؤس میں قیام پذیر ہوئے، تو میری اور ایک اور ساتھی کی ’ڈیوٹی‘ ان کے ساتھ لگائی گئی۔ تب تک ان سے محض اتنا تعلق تھا کہ وہ سوپور سے ایم ایل اے اور معروف رہنما تھے، اور ہمارا خاندان بھی سوپور کا رہائشی تھا۔

اسی دوران ان کے نجی سیکریٹری، غالباً ڈاکٹر محمد سلطان نے، گیلانی صاحب کو یاد دلایا کہ معروف کالم نگار اور ماہر قانون اے جی نورانی ان سے ملاقات کے لیے آ رہے ہیں۔ جب نورانی صاحب کمرے میں داخل ہوئے، تو رسمی سلام دعا کے بعد انھوں نے سبھی، حتیٰ کہ ڈاکٹر سلطان کو بھی، باہر جانے کے لیے کہا۔ چونکہ میں اور میرا ساتھی چائے وغیرہ پیش کر رہے تھے، اس لیے ہمیں جانے کو نہیں کہا۔ چائے دینے کے بعد ہم ایک کونے میں بیٹھ گئے۔

تقریباً ایک گھنٹے بعد، رخصت ہوتے ہوئے نورانی صاحب نے گیلانی صاحب سے کہا کہ : ’’مجھے ایک ایسے شخص کی تلاش ہے جو کشمیر پر کالم لکھنے میں میری معاونت کرے اور مواد فراہم کرے‘‘۔ گیلانی صاحب نے فوراً مجھے آواز دی اور میرا تعارف کرایا۔ بطور کالم نگار میں پہلے ہی ان کا مداح تھا۔ ان دنوں ان کا کالم مشہور اخبار Stateman میں چھپتا تھا اور میں صرف ان کے کالم کی خاطر وہ اخبار خریدا کرتا تھا۔

نورانی صاحب نے مجھ سے فون نمبر مانگا، میرے پاس فون نہ تھا۔ انھوں نے اپنا نمبر دیا اور کہا کہ ہر اتوار کو صبح گیارہ بجے سے سوا گیارہ بجے تک وہ میری کال کا انتظار کریں گے۔ بعد ازاں ہمارا ایسا تعلق بن گیا کہ میں نے ان کی پانچ کتابوں کے لیے بطور ریسرچر کام کیا۔ جب انڈین وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف کے کشمیر فارمولے پر ان کی گیلانی صاحب سے ناراضی ہوئی، تو وہ کہتے تھے کہ ’’میں گیلانی صاحب سے خفا ہوں، مگر یہ احسان کبھی نہیں بھول سکتا کہ انھوں نے افتخار سے میرا تعارف کرایا‘‘۔

اسی دورے کے دوران ایک اور واقعہ بھی پیش آیا۔ میں گیلانی صاحب کے کمرے کے باہر ان کے سیکریٹری کا کوئی کام کر رہا تھا کہ اچانک اندر سے بلایا گیا۔ گیلانی صاحب کسی سے فون پر بات کر رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ پاکستان سے پروفیسر خورشید احمد کال پر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ ریسیور ایک برخوردار، افتخار گیلانی، کو دے رہے ہیں جو صحافت کے طالب علم ہیں اور ان کا مسئلہ حل کرسکتے ہیں۔ جب میں نے کال سنبھالی، تو میرے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ پروفیسر صاحب کی کئی کتابیں اور مقالات پہلے ہی میرے مطالعے میں آ چکے تھے۔ انھوں نے بھی یہی کہا کہ انھیں کشمیر پر مسلسل مواد درکار ہے۔

پھر پرو فیسر صاحب نے رہنمائی کی کہ ’’ہر ہفتے کشمیر پر اخبارات میں شائع ہونے والی رپورٹس اور مضامین کی تلخیص تیار کر کے مجھے بھیجی جائے‘‘۔ دہلی میں کشمیر ٹائمز  کا دفتر شاہجہان روڈ پر واقع تھا اور کشمیر پر اطلاعات کا واحد ذریعہ تھا۔ ایس کے ڈھنگرہ صاحب، جن کے تحت مَیں نے بعد میں کام کیا، اس کے انچارج تھے۔ وہ اسی دفتر میں رہائش پذیر تھے۔ چونکہ ان کا گھر گراؤنڈ فلور پر تھا، وہ اخبار کی کاپیاں کھڑکی کی سلاخوں کے پاس رکھ دیتے تھے۔ میں وہیں کھڑے کھڑے اخبارات پڑھ کر اہم نکات ڈائری میں نوٹ کرتا، کیونکہ دفتر کے اندر وہ داخل ہونے نہیں دیتے تھے۔

چند ہفتوں بعد، پروفیسر صاحب نے مشورہ دیا کہ ’تلخیص ٹائپ کر کے بھیجی جائے‘۔ مجھے یاد ہے کہ انھوں نے دہلی میں اپنے ایک رفیق کو میرے لیے چھوٹا سا ٹائپ رائٹر لانے کا کہا۔ کافی عرصے تک یہ ٹائپ رائٹر میرا ساتھی رہا۔ کمپیوٹر آنے کے بعد بھی میں نے اسے بطور تبرک سنبھالے رکھا۔

اس تمام سلسلے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اے جی نورانی صاحب اور پروفیسر خورشید صاحب کے مضامین پڑھ کر مجھے اندازہ ہونے لگا کہ معلومات کا کس طرح استعمال اور تجزیہ کیا جاتا ہے۔ میں تو محض ابتدائی معلومات فراہم کرتا تھا۔

پروفیسر خورشید احمد صاحب سے یہ تعلق اُس وقت تک برقرار رہا جب تک ۱۹۹۵ء میں دہلی میں حریت کا دفتر قائم نہ ہوا۔ پھر میں خود بھی مصروف ہو گیا اور یہ کمٹمنٹ نبھانا ممکن نہ رہا۔

فروری ۲۰۰۱ء کے دوران، اسلام آباد میں میرے ایک کزن ذوالقرنین کی شادی تھی۔ میں کچھ دنوں کی تاخیر سے پہنچا۔ ارشاد محمود صاحب نے پروفیسر صاحب سے ملاقات کا بندوبست کرایا۔ اپنے دفتر میں مجھ جیسے نو آموز صحافی کا انھوں نے جس محبت سے استقبال کیا، وہ انھی کا خاصہ تھا۔

میں ان دنوں پاکستانی اخبارات دی نیشن  اور نوائے وقت  کے لیے دہلی سے رپورٹنگ کرتا تھا۔ انھوں نے میری رپورٹس کی ایک باقاعدہ فائل بنا رکھی تھی۔ ملاقات سے قبل میرا ارادہ تھا کہ ان کا انٹرویو لے کر کشمیر ٹائمز  میں شائع کروں، جہاں میں بیورو میں کام کرتا تھا، مگر انھوں نے خود میرا انٹرویو لیا۔ دو گھنٹے تک وہ بھارت کی سیاست، صحافت، کشمیر اور میری رپورٹس پر سوالات کرتے رہے۔ دہلی شہر کو وہ بہت یاد کرتے تھے: قرول باغ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، جامع مسجد، گلی قاسم جان، ترکمان گیٹ، —سب کا ذکر چھیڑا۔

اسی طرح ۱۹۹۳ء میں سیّد علی گیلانی صاحب کی جیل ڈائری رُودادِ قفس  کے نام سے شائع ہونی تھی۔ مرحوم الطاف احمد شاہ اس کا مسودہ دہلی لائے اور اگلے روز اسے پریس میں دینا تھا۔ ایک ساتھی، جو اَب معروف ٹی وی پروڈیوسر ہیں، نے جب مسودہ دیکھا تو کہا کہ اس پر کسی بڑی شخصیت کا مقدمہ ہونا چاہیے۔ طے پایا کہ پروفیسر خورشید احمد سے رابطہ کیا جائے۔ پروفیسر صاحب سے جب الطاف شاہ نے رابطہ کیا تو انھوں نے کہا کہ مکمل مسودہ پہنچنے میں وقت لگے گا، لہٰذا اس کی ایک تلخیص بھیج دی جائے۔ ہم نے پوری رات جاگ کر تلخیص تیار کی اور اگلے دن انھیں فیکس کر دی۔ انھوں نے مکمل کتاب بعد میں پڑھی، مگر مقدمہ انھوں نے پہلے ہی تلخیص کی بنیاد پر تحریر کیا تھا۔

اس مقدمے میں انھوں نے لکھا:’’جب میں سیّد علی گیلانی کی پُرآشوب اور ہنگاموں سے بھری زندگی پر نظر ڈالتا ہوں، اور ان کی شخصیت کے وہ نقوش ذہن میں لاتا ہوں، جو دل و دماغ پر نقش ہو چکے ہیں، تو میرے سامنے اقبال کا مردِ مومن اُبھر آتا ہے۔ وہ خود بھی اسی مرد مومن کی عملی تفسیر تھے‘‘۔

یہاں پر اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ انڈین وزیراعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ اور پاکستانی فوجی حاکم صدر جنرل پرویز مشرف کے کشمیر فارمولے پر کشمیر میں سیّد علی گیلانی کے علاوہ دوسرے سیاسی طبقوں میں اتفاق رائے تھا۔ انڈین حکومت اس وقت کسی طرح گیلانی صاحب کو بھی اس کشتی میں سوار کرانا چاہتی تھی۔ اس مقصد کے لیے وہ ایسے افراد کی تلاش میں تھی، جو بزرگ حُریت لیڈر پر اثرورسوخ استعمال کرنے کی پوزیشن میں ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ قرعہ فال پروفیسر خورشیداحمد صاحب کے نام نکلا۔ وزیراعظم من موہن سنگھ کے ایما پر سینئر سفارت کار ایس کے لامبا (م:۲۰۲۲ء) اور اے جی نورانی نے ان سے ملاقات کرکے، انھیں علی گیلانی صاحب کو ’مشرف فارمولا‘ قبول کرنے پر آمادگی کے لیے گزارش کی۔ مگر پروفیسر صاحب نے حُریت کے اندرونی معاملات اور ان کی فیصلہ سازی میں مداخلت کرنے سے انکار کر دیا، اور ایسی معاونت سے معذرت کرلی۔ اسی طرح حکومت پاکستان کی طرف سے بھی پروفیسر صاحب کو اس سمت میں خاصے دبائو کا سامنا کرنا پڑا مگر وہ کشمیری قیادت پر اثرانداز نہیں ہوئے۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ کے نواح میں واقع کئی منزلہ عمارت تناؤ اور بے یقینی کا مرکز بن چکی تھی۔ یہ چار دن کے تھکا دینے والے مذاکرات تھے، جہاں وقت کی قید ختم ہو چکی تھی۔رات اور دن کا کوئی فرق باقی نہیں رہا تھا۔ قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمان الثانی، مصر کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ عباس کمال، اور امریکی ایلچی بریٹ مکگرک کی موجودگی اور ساتھ ہی نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ کے نمائندے، سٹیو ویٹکوف نقشوں کے پلندے میں اُلجھے ہوئے تھے۔ ہر چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے۔ دوسری منزل پر اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیا، داخلی ایجنسی کے افسر رونین بار، اور فوج کے نمائندے نزتان الون تل ابیب سے مسلسل رابطے میں تھے۔

لیکن کہانی کی اصل گتھی تیسری منزل پر تھی، جہاں حماس کے سیاسی بیورو کے نائب سربراہ خلیل الحیہ اپنے وفد کے ساتھ موجود تھے۔ ان کواختیار تھا کہ —امریکی صدر بائیڈن نے گذشتہ سال مئی میں جس سیز فائر پلان کی بنیاد رکھی تھی، اور جس پر بعد میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مُہرثبت کی تھی، اس پر رضامندی ظاہر کریں لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے بار بار پوزیشن بدلنے کے سبب بات منزل پہ نہ پہنچتی۔

مذاکرات کی بھٹی میں ہر لمحہ تپش بڑھ رہی تھی۔ گراؤنڈ فلور پر سفارت کار ایک تجویز تیار کرتے، پھر امریکی وفد اسے پہلی منزل پر اسرائیلی وفد کے سامنے پیش کرتا۔ ادھر قطر اور مصر کے نمائندے اس تجویز کو لے کر حماس کے پاس پہنچتے، جہاں تیسری منزل کی فضا بظاہر پُرسکون تھی۔ اسرائیلی وفد تل ابیب سے مشورے لیتے ہوئے قدم قدم پر نئی شرائط سامنے رکھ رہا تھا، جس سے مذاکرات کا سلسلہ بار بار رُک جاتا۔

مذاکرات میں شریک ایک اہلکار نے راقم کو بتایا کہ ہر قدم پر ایسا محسوس ہوتا جیسے کامیابی کی منزل قریب ہے، لیکن اگلے ہی لمحے جب امریکی وفد اسرائیلی نمائندوں سے مل کر واپس گراونڈ فلور پر وارد ہوتا تھا توان کے تناؤ بھرے چہرے بتاتے تھے کہ وہ کوئی نئی پیچیدگی لے کر ہی آئے ہیں۔ اس طرح ان چار دنوں میں مذاکرات کاروں نے سینکڑوں بار سیڑھیاں چڑھی اور اُتریں۔ ایک لمحے کو لگتا کہ معاہدہ طے ہونے کو ہے، اور پھر ایسا محسوس ہوتا کہ کچھ نہیں ہورہا۔ منگل اور بدھ کی راتیں طویل اور بے چین تھیں۔ انگریزی کی ڈکشنریوں کے صفحات اُلٹے جا رہے تھے، ہر لفظ کی باریکی پر بحث ہو رہی تھی، لیکن سب بے سود۔

ویٹکوف براہ راست صدر ٹرمپ سے جنھوں نے ابھی عہدہ سنبھالا نہیں تھا، مسلسل رابطے میں تھے۔ ابھی مذاکرات کے دور جاری تھے کہ خبر آئی کہ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پر معاہدے کا اعلان کر دیاہے۔ پوری دنیا کے میڈیا میں سمجھوتہ کی خبریں نشر ہونا شروع ہوگئیں۔ مذاکرات کاروں کے مطابق تب تک وہ پیش رفت سے دور تھے۔ مگر ٹرمپ کے اس اعلان نے اسرائیلی وفد کو پیغام بھیجا کہ اب مزید معاملات لٹکانے سےکام نہیں چلے گا۔ اس چیز نے اسرائیلی وفد پر دباؤ ڈالنے کا کام کیا۔ امریکی وفد نے اسرائیلی نمائندوں سے کہا کہ اب سمجھوتے کو آخری شکل دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، وقت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔

اعصاب شکن مذاکرات ۹۶ گھنٹوں سے مسلسل جاری تھے۔ بالآخر اسرائیلی وفد کو تل ابیب سے اشارہ مل گیا اور دو گھنٹے بعد قطری وزیر اعظم نے دوحہ میں پریس کانفرنس میں سیز فائر معاہدے کے مندرجات کا اعلان کردیا۔ اس کے چند لمحوں کے بعد واشنگٹن میں بائیڈن نے بھی اس کا اعلان کیا، مگر ابھی اس معاہدہ کو اسرائیلی کابینہ کی منظوری نہیں ملی تھی۔ جس کا اجلاس اب اگلے دن یعنی جمعرات کو طے تھا اور نیتن یاہو ایک بار پھر پلٹا کھانے کےلیے پر تول رہے تھے۔ امریکی نمائندے کی سرزنش کے بعد، یعنی معاہدہ کے اعلان کے ۲۴گھنٹے کے بعد اسرائیلی وفد اور حماس کے نمائندوں نے اس پر دستخط کرکے سیزفائر ڈیل کو حتمی اور قانونی شکل دے دی۔

ٹرمپ کے نمائندے نے اس سے قبل سنیچر کو اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو تل ابیب میں واضح اور سخت پیغام پہنچایا تھا۔ سنیچر یا سبت کے دن اسرائیلی وزیر اعظم کسی مہمان سے ملنے سے گریز کرتے ہیں۔ مگر ویٹکوف نے ان سے مل کر ٹرمپ کی طرف سے پیغام پہنچایا کہ اگر وہ سیزفائر کےمذاکرات میں تاخیر کرنے کی کوشش کرتےہیں، تو ان کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور اگلے چار سال وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ ہی سے ڈیل کرنا ہے۔ یاد دلایا گیا کہ اسرائیلی کی سیکیورٹی کی صورت حال مضبوط ہے۔ ایران کا مزاحمتی اتحاد دم توڑ چکا ہے۔ شام اور لبنان کی طرف سے کسی مداخلت کا خطرہ نہیں ہے۔ لہٰذا سیز فائر میں دیر نہیں کی جاسکتی۔

اس دباؤ نے مذاکرات میں نئی رفتار پیدا کی۔ تاہم، ایک اور رکاوٹ اس وقت سامنے آئی، جب حماس نے یہ کہہ کر یرغمالیوں کی فہرست مکمل طور پر فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کردی کہ اسرائیل کی مسلسل بمباری کی وجہ سے وہ گراؤنڈ پر اپنے عسکریوں سے رابطہ کرنے میں دشواری محسوس کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ ان کو خدشہ تھا کہ یرغمالیوں کی شناخت ظاہر کرنے سے اسرائیل ان کو سیز فائر سے قبل بازیاب کرنے کا آپریشن کرسکتا ہے یا پھر قتل۔ اسرائیلی فوج کو اپنے شہریوں کو قتل کرنے کا حق حاصل ہے۔ حماس کی طرف سے ایک ہفتہ کی مہلت کو اسرائیل نے مسترد کردیا۔ اس موقعے پر امریکی ثالث نے مصر و قطر کو پیغام دیا کہ حماس کو فہرست دینے پر آمادہ کریں۔

اسرائیل-حماس جنگ بندی معاہدہ کی تفصیلات

پہلا مرحلہ (۶ہفتے)

  •  
    • قیدیوں کا تبادلہ: جس میں
    • حماس: ۳۳ ،اسرائیلی قیدیوں (عورتیں، بچّے، ۵۰ سال سے زائد عمر کے شہری) کو رہا کرے گا، جب کہ
    • اسرائیل: فلسطینی قیدیوں کی بڑی تعداد کو رہا کرے گا، جن میں تقریباً ایک ہزار افراد شامل ہیں، جو  ۷؍ اکتوبر ۲۰۲۳ء کے بعد گرفتار کیے گئے۔
  •  اسرائیلی فوج کا انخلا:
    • غزہ کی سرحد کے اندر ۷۰۰میٹر سے زیادہ آگے نہیں بڑھیں گے (نیٹزریم کوریڈور کے علاوہ)۔
    • ۵۰ویں دن تک فلادلفیہ کوریڈور سے مکمل انخلاء۔
  • نسانی امداد:
    • روزانہ ۶۰۰ امدادی ٹرکوں کی اجازت۔
    • شہریوں کو شمالی غزہ واپس جانے کی اجازت۔
    • زخمی فلسطینیوں کی طبّی امداد اور علاج معالجے کے لیے بیرونِ ملک جانے کا راستہ۔
    • رفاہ کراسنگ مصر کے ساتھ سات دن بعد دوبارہ کھولی جائے گی۔

دوسرا مرحلہ،

  •  شرائط:
    • حماس باقی تمام قیدیوں کو رہا کرے گا (زیادہ تر مرد فوجی)۔
    • اسرائیل غزہ سے ’مکمل انخلا‘ کرے گا۔

تیسرا مرحلہ

  • اہم تجاویز:
    • قیدیوں کی لاشوں کے تبادلے۔ ۳  سے ۵  سالہ بین الاقوامی تعمیر نو منصوبہ۔

حکمرانی کا منصوبہ:

  • فلسطینی اتھارٹی اور بین الاقوامی شراکت داروں کی زیر قیادت عبوری انتظامیہ۔
  • عرب ممالک کی مختصر مدتی سیکیورٹی فورسز، فلسطینی ریاست کے راستے کی شرط کے ساتھ۔
  • حکمرانی اور ریاست کے راستے پر اختلافات باقی ہیں۔

 ثالثی کی ضمانتیں:

  • مصر، قطر، اور امریکا کی
  • مذاکرات جاری رکھنے کے لیے ضمانتیں۔
  • چھ ہفتوں کے اندر تمام مراحل کے نفاذ کو یقینی بنانے کا ہدف۔

یہ معاہدہ یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی، جنگ بندی، اور انسانی امداد کی فراہمی جیسے نکات پر مشتمل ہے۔ تمام اختلافات کے باوجود، دوحہ میں اس رات جو طے پایا، وہ نہ صرف سفارت کاری کی ایک کامیاب کہانی تھی بلکہ خطے میں امن کی ایک نئی امید بھی اور اسرائیل کے غرور کے بت کو پاش پاش کرنے کی ابتدا بھی تھی۔

دالیا شینڈلن نے اسرائیلی اخبار ہآرٹز میں لکھا ہے: بہت سے اسرائیلی فوجیوں کے لیے یہ جنگ بندی ایک بڑی راحت کا باعث بنی ہے۔جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک ایک تہائی ریزرو فوجی ۱۵۰ دن سے زیادہ ڈیوٹی کرچکے ہیں۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوبارہ ڈیوٹی کے احکامات پر عمل کرنا ان کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے، خاص طور پر وہ فوجی جو کئی بار طویل مدت تک خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان میں سے کئی کے لیے یہ وقت سیکڑوں دنوں پر محیط ہے۔

آئی ڈی ایف کے مطابق، جنگ کے دوران بلائے گئے۲ لاکھ ۹۵ ہزار ریزرو فوجی ہیں۔ مائیکل ملشٹائن، جو تل ابیب یونی ورسٹی میں فلسطینی اسٹڈیز فورم کے سربراہ اور آئی ڈی ایف انٹیلی جنس کے سابق اہلکار ہیں، کا کہنا ہے کہ کئی ریزرو فوجی اب گھر واپس آنے کے خواہش مند ہیں۔ انھوں نے کہا: ’خاندان اسرائیل کی شناخت کا ایک اہم حصہ ہیں‘۔

جنگ کے آغاز سے اب تک۷۵ہزار کاروبار بند ہو چکے ہیں، جن میں سے ۵۹ہزار صرف ۲۰۲۴ء کے دوران بند ہوئے۔ ڈاکٹر شیری ڈینیئلز، جو کہ ایک غیر سرکاری تنظیم کی ڈائریکٹر ہیں، نے کہا کہ ان کی تنظیم کو ۴۰ہزار سے زیادہ مدد کی درخواستیں موصول ہوئیں، جو گذشتہ برسوں کے مقابلے میں ۱۰۰ فی صد اضافہ ظاہر کرتی ہیں۔ دوسری تنظیموں، جیسے ناتال، نے خودکشی کے رجحانات رکھنے والے افراد کی طرف سے رابطوں میں ۱۴۵ فی صد اضافہ رپورٹ کیا۔ آئی ڈی ایف کے مطابق: ۲۰۲۴ء میں ۲۱ فوجیوں نے اپنی جان لے لی۔

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ جنگ بندی کا برقرار رہنا غیر یقینی ہے، کیونکہ عدم اعتماد اور غیرحل شدہ مسائل کسی بھی وقت کشیدگی کو دوبارہ ہوا دے سکتے ہیں۔ ان حالات میں، کچھ تجزیہ کار چھوٹی کامیابیوں کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ یعقوب کاتز لکھتے ہیں:’’کبھی کبھی ہمارے لوگوں کی واپسی ہی کافی ہوتی ہے‘‘۔ یہ بیان ایک قوم کی تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے، جو امن کی خواہش کے باوجود مستقبل کی جنگوں کے لیے تیار رہتی ہے۔

غزہ میں انسانی بحران بدستور ایک بڑا المیہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق: غزہ میں صحت کے نظام کی بحالی کے لیے اگلے پانچ سے سات برسوں میں کم از کم ۱۰؍ ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ غزہ کے نصف سے کم ہسپتال اس وقت کام کر رہے ہیں، جس کے باعث جنگ بندی کی کامیابی فوری اور پائیدار انسانی امداد پر منحصر ہے۔

بہت سے اسرائیلیوں کے لیے جنگ بندی تنازعے کے طویل اور بے رحم دورانیے کے بعد سکون کا ایک مختصر لمحہ ہے۔ یرغمالیوں کی واپسی نے خاندانوں کے لیے سکون اور عارضی ریلیف کا احساس پیدا کیا ہے۔ اسرائیل نے حماس کو ختم کرنے کےمقصد سے جنگ شروع کی تھی، مگر وہ ہدف حاصل نہیں ہوا۔ امریکا کے سابق وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کے مطابق حماس کے جتنے عسکری اسرائیل نے ہلاک کیے، اتنے ہی وہ دوبارہ بھرتی کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ کیا دنیا اب سنجیدگی کے ساتھ مسئلہ فلسطین کوفلسطینی عوام کی خواہشات اور خطے کے اطمینان کے مطابق حل کرنے کی طرف گامزن ہوگی تاکہ ایک پائیدار امن قائم ہوسکے۔

جس طرح قدرت اللہ شہاب کی خود نوشت سوانح حیات شہاب نامہ کے مطالعے سے پاکستان کے ابتدائی دور کے حکمرانوں کو جاننے اور پرکھنے کاموقع ملتا ہے، اسی طرح رائے ریاض حسین کی کتاب رائے عامہ اس ملک کے موجودہ حکمرانوں کو قریب سے جاننے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ریاض صاحب کو پاکستان کے چار وزرائے اعظم: میاں محمد نواز شریف، بلخ شیر مزاری، معین قریشی اور ظفراللہ خان جمالی کے پریس سیکرٹری رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ نواز شریف نے اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دو اَدوار میں انھی کو پریس سیکرٹری کے لیے منتخب کیا۔

خبروں کے مرکز بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں لگ بھگ تین عشروں تک میرے لیے رائے ریاض کی اہمیت یہ رہی ہے کہ ۲۰۰۴ء سے ۲۰۰۷ء تک وہ پاکستان ہائی کمیشن میں ’پریس منسٹر‘ رہے۔چونکہ بھارتی میڈیا کے لیے پاکستان کی خبروں کو کور کرنا، اور انڈیا میں چاہے کہیں تشدد کا واقعہ ہو، بم دھماکا یا کوئی کبوتر پکڑا گیا ہو، تو اس کا الزام پاکستان کے سر تو منڈھنا ہی ہوتا ہے اور اس شکل میں پاکستانی ہائی کمیشن کا وجود اور پریس منسٹر توانتہائی اہم ہوجاتا ہے۔ نیوز ایڈیٹر صاحب کا فرمان ہوتا ہے: ’’یہ لکھو کہ پاکستان کے پریس منسٹر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی، مگر اخبار کے پریس میں جانے تک ان کا کوئی جواب نہیں آیا‘‘۔ماضی قریب تک دہلی میں شاید ہی کسی اور ملک کے پریس آفیسر کی اتنی طلب ہوتی ہوگی، جتنی پاکستان ہائی کمیشن کے پریس منسٹر کی ہوتی تھی۔ اس لیے اس فرد کا زیرک اور معاملہ فہم ہونا بہت ہی ضروری تھا۔

مئی ۱۹۹۵ء کو بطور ایک جونیئر رپورٹر کے مجھے دہلی میں منعقد ہ سارک سربراہ کانفرنس میں اپنے سینئر آدتیہ سنہا کا ہاتھ بٹانے کے لیے کہا گیا۔ اُنھوں نے مجھے ہدایت دی کہ پاکستانی صدر سردارفاروق خان لغاری کے ہمراہ آنے والے میڈیا وفد پر نظررکھوں اور اگر پاکستانی وفد کوئی بریفنگ دیتا ہے تو ان کے مندرجہات سے فوراً ان کو مطلع کروں۔ دہلی میں ان دنوں روزنامہ جنگ اور دی نیوز کا باضابطہ بیورو عبدالوحید حسینی کی زیرنگرانی کام کر رہا تھا۔پھر کراچی کے جلیل احمد اے پی پی کے نمائندے کے طور پر دہلی میں مقیم تھے۔ مجھے بھاگ دوڑ کرتے دیکھ کر The Nation کے ایڈیٹر مرحوم عارف نظامی صاحب بہت شفقت سے پیش آئے اور انھوں نے مجھے بھارت سے دی نیشن اور نوائے وقت کے لیے رپورٹنگ کی پیش کش کر دی اور کہا کہ لاہور پہنچ کر وہ تقرر کے کاغذات وغیرہ بھیج دیں گے۔ اسی دورے کے دوران صدر پاکستان نے پہلی بار ’جموں و کشمیر حُریت کانفرنس‘ کے لیڈروں سے پاکستان ہائی کمیشن میں اس وقت کے سفیر ریاض کھوکھر کی مدد سے ملاقات کی۔ یوں ۲۰۰۲ء تک میرا دی نیشن کے ساتھ تعلق رہا، پھر ڈیلی ٹائمز اورفرائیڈے ٹائمز کے ساتھ وابستہ ہوگیا۔ بعد میں کئی برس تک پاکستانی میڈیا کے ساتھ تعلق منقطع ہوگیا تھا۔ مگر ۲۰۱۱ء میں صاحب ِ طرز کالم نگار اور دانش ور ہارون الرشید صاحب نےروزنامہ دُنیا  میں ہفتہ وار کالم لکھنے کا حکم دے کر اس تعلق کو پھر سے استوار کروایا۔

جب رائے ریاض نے دہلی میں بطور پریس منسٹر کے عہدہ سنبھالا تو مَیں ڈیلی ٹائمز کے لیے رپورٹنگ اور فرائیڈے ٹائمز کے لیے ہفتہ وار اسپیشل رپورٹ یا کالم لکھتا تھا۔ دیگر بھارتی صحافیوں میں جاوید نقوی ڈان کے لیے، پرویز احمد ’اے آر وائی ٹی وی‘ کے لیے اور پشپندر کلوستے ’آج ٹی وی‘ کے لیے کام کرتے تھے۔ اے پی پی اور ریڈیو پاکستان کے بھی نمائندے دہلی میں موجود تھے، جو پاکستان سے تین سال کی مدت کے لیے آتے تھے۔ اس طرح ۱۹۹۵ء سے ہی مجھے پاکستان ہائی کمیشن کے پریس منسٹر سے واسطہ پڑنا شروع ہوگیا تھا۔ چونکہ ابھی انٹرنیٹ وغیرہ کی آمد نہیں ہوئی تھی، اس لیے پاکستان سے آنے والے اخبارات لینے ان کے دفتر جانا پڑتا تھا۔ مگر رائے ریاض نے پریس کے شعبہ میں اور مرحوم منور سعید بھٹی نے بطورِ سفارت کار دہلی جیسی مشکل جگہ پر خدمات کی جو چھاپ چھوڑی، وہ کسی اور کے نصیب میں نہیں آئی۔ بعد میں اس کو کسی حدتک منظورمیمن نے نبھایا۔

رائے ریاض جب دہلی وارد ہوئے تو بھارت اور پاکستان کے درمیان وفود کا تانتا لگارہتا تھا۔ رائے صاحب پاکستانی میڈیا کے لیے کام کرنے والے ہم چھ صحافیوں کو کسی بھی وفد کی آمد کی پیشگی اطلاع دیتے تھے اور ان کے ساتھ ملاقات کا بندوبست بھی کرواتے تھے۔ وفد چاہے حکومتی ہو یا اپوزیشن، وہ دونوں کے ساتھ ہماری ملاقات کرواتے تھے، اور بھارتی میڈیا کے لیے کام کرنے والے چند صحافیوں کو بھی ضرور بلاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا: بیرونِ ملک وہ پاکستان کے ترجمان یا پریس آفیسر ہیں، نہ کہ صرف ہائی کمیشن یا حکومت کے اہل کار۔ ہاں، جب وفد اپوزیشن کا ہوتا تو وہ خود پس منظر  میں رہتے تھے۔ انڈس واٹر کمیشن کی بھی ان دنوں میٹنگیں ہوتی تھیں، جن کے ختم ہونے کے بعد وہ انڈس واٹر کمیشن کے سربراہ سیّدجماعت علی شاہ سے بھی ملاقاتیں کرواتے تھے۔ چونکہ جامع مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری تھا، اس لیے اس دوران پاکستان کے وفاقی سیکرٹری حضرات جو شرکت کرنے کے لیے آتے تھے، ان کے ساتھ ملاقاتوں کا اہتمام کرتے۔ یوں ہمیں خاصی بیک گرائونڈ انفارمیشن حاصل ہوجاتی تھی۔

رائے ریاض جب دہلی آئے تو منور بھٹی بطور ڈپٹی ہائی کمشنر تعینات تھے۔ انھوں نے پندرہ دن میں ایک بار پاکستانی میڈیا کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کے لیے بیک گرائونڈ بریفنگ کا سلسلہ شروع کیا۔ جس سے بھارت اور پاکستان کے درمیان معاملات اور پیش رفت سے خاصی آگاہی ملتی تھی۔ رائے ریاض نے نئے ڈپٹی ہائی کمشنر اور دانش وَر جناب افراسیاب ہاشمی کو اس بریفنگ کو جاری رکھنے پر آمادہ کیا، مگر ان کے جانے کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔

رائے ریاض کی کتاب رائے عامہ میں کئی دلچسپ واقعات درج ہیں: کس طرح صدر جنرل پرویز مشرف، ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو امریکا کے حوالے کرنے پر بضد تھے ، اور کس طرح وزیراعظم ظفراللہ جمالی نے اس کوشش کو ناکام بنایا؟ صدر اور وزیراعظم کے درمیان اختلافات تب وسیع ہوگئے جب پرویز مشرف نے امریکا کو خوش کرنے کے لیے عراق میں فوجیں بھیجنے کا فیصلہ کیا، جس کو جمالی صاحب نے فوراً مسترد کر دیا۔ انھی دنوں دہلی میں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بھی عراق میں امریکی افواج کی معاونت کے سلسلے میں خاصے دبائو میں تھے۔اسی دوران کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کا ایک وفد ہرکشن سنگھ سرجیت کی سربراہی میں ان سے ملا، اورفوجیں بھیجنے کے متوقع فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے ایک میمورنڈم واجپائی کو سونپ دیا۔ واجپائی نے مسکراتے ہوئے وفد سے کہا: ’’آج کل بائیں بازو والے بھی لگتا ہے کہ کانگریس کی طرز پر ڈرائنگ روموں میں ہی احتجاجی بیانات داغتے ہیں‘‘۔ بس یہ اشارہ تھا اور اگلے روز سے ہی کئی شہروں میں سڑکوں پر امریکا کے عراق پر حملہ اوربھارتی فوج بھیجنے کے متوقع فیصلے کےخلاف احتجاج شروع ہوگیا۔ واجپائی نے فوراً پارلیمنٹ میں بیان دیا:’’ عوامی رائے عامہ کے پیش نظر، بھارت کا عراق میں فوج بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے‘‘۔ اس طرح انھوں نے امریکا سے معذرت کی۔

سری لنکا میں تقرر کے دوران رائے ریاض نے پاکستان سے پھل منگوانے اور اس ملک کو پاکستانی فروٹ تاجروں کے لیے کھولنے کی بڑی جدوجہد کی۔ اس سلسلے میں کولمبو میں مینگوفیسٹیول منعقد کروایا۔ مگر کراچی سے آنے والے آم انتہائی بدمزہ، خراب اور کھٹے نکلے۔ اسی طرح پاکستان کے ’مہربانوں‘ نے خربوزوں میں ہیروئن ڈال کر بھیج دی،جو ائرپورٹ پر پکڑی گئی۔ یعنی فروٹ مارکیٹ حصول سے قبل ہی ہاتھ سے نکل گئی۔ میڈیا میں خبر آئی کہ ’’پاکستانی خربوزے کی قیمت۱۰ لاکھ ڈالر‘‘۔ یہ اس ہیروئن کی بین الاقوامی قیمت تھی۔ اس کے ساتھ پاکستانیوں کی بغیر ویزا کے انٹری بھی بند ہوگئی۔

رائے ریاض نے دہلی میںقائداعظم محمدعلی جناح کے مکان کا ذکر کیا ہے، جو انھوں نے پاکستان جانے سے قبل Times of India کے مالک رام کرشن ڈالمیا کو بیچا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے:  مہاتما گاندھی، بھنگیوں کے محلے میںرہتے تھے۔ گاندھی کا دہلی میں قیام کچھ زیادہ نہیں رہا ہے۔  دہلی میں ۱۹۳۰ء سے قبل وہ دریا گنج میں ڈاکٹر ایم ایم انصاری کے مکان پر ٹھیرتے تھے۔ پھر ’جناح ہائوس‘ سے چندمیٹر دُوری پر ’برلا ہائوس‘ ان کی رہائش کے لیے وقف کی گئی تھی۔ ’جناح ہائوس‘ میں اس وقت نیدرلینڈ کے سفیررہتے تھے اور ’برلا ہائوس‘ میں اب گاندھی میوزیم ہے۔ اسی جگہ پر گاندھی کو گوڈسے نے ہلاک کیا تھا۔ جب ڈالمیا نے ’جناح ہائوس‘ کا قبضہ لیا تو بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے پہلےاس پورے بنگلے کو گائے کے پیشاب سے دھویا اور پھر ٹینکروں میں دریائے گنگا سے پانی منگوا کر اس کو صاف کیا۔ مگر اتنی ’احتیاطوں‘ کے بعد بھی، وہ اس مکان میں منتقل نہیں ہوئے اور اس کو کرایہ پر دے دیا۔

مصنف نے کتاب میں پاکستانی پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان صاحب کا بھی ذکر کیا ہے، جو ویسے تو اکثر دہلی وارد ہوتےتھے، اور جمعیت العلماء ہند ان کی میزبانی کرتی تھی۔ مجھے بھی ان سے واسطہ پہلی بار ۱۹۹۵ء میں ہی پڑا۔ ۴جولائی۱۹۹۵ء کو کشمیر کے ضلع اننت ناگ میں پہلگام کے لدروت علاقے سے چھ مغربی سیاحوں اور ان کے دو گائیڈز کو ایک غیرمعروف تنظیم ’الفاران‘ نے اغوا کرلیا۔ ۲۲ یا ۲۳ جولائی کے آس پاس حُریت لیڈر جناب سیّدعلی گیلانی دہلی آئے ہوئے تھے اور چانکیہ پوری میں واقع ’کشمیر ہائوس‘ میں ٹھیرے تھے۔ ان کے قیام کے دوران ہی اس اغوا کے بارے میں میڈیا میں رپورٹ آئی۔ اس دہشت پسندانہ کارروائی کے حوالے سے وہ خاصے مضطرب تھے۔ فلسطین کے برعکس کشمیرکےحوالے سے مغربی دُنیا میں ایک روایتی نرمی پائی جاتی تھی۔ ایک دن میری چھٹی تھی کہ میں گیلانی صاحب سے ملنے کشمیر ہائوس پہنچا۔ انھوں نے اغوا کی اس واردات کے حوالے سے سخت دُکھ کا اظہار کیا۔ اسی دن ہندستان ٹائمز میں مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے خبر چھپی تھی، کہ وہ دہلی آئے ہوئے ہیں اور اغوا کی اس واردات کے حوالے سے وہ مدد کریں گے۔ چونکہ یہ معلوم تھا کہ ’حرکت الانصار‘ میں ان کی پہنچ ہے، اور جس طرح ان کا یہ بیان چھپا تھا، اس سے انھوں نے تقریباً اس کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

محترم گیلانی صاحب نے میری موجودگی میں ہی اپنے سیکرٹری فردوس عاصمی کو ہدایت دی کہ ’’مولانا کی جائے رہائش کا پتہ لگا کر ملاقات کا وقت لیا جائے، کیونکہ یہ ایک سنگین معاملہ ہے‘‘۔ عاصمی صاحب پہلی بار دہلی آئے تھے۔انھوں نے میری معاونت چاہی۔ خیرمعلوم ہوا کہ مولانا کنشکا ہوٹل میں ٹھیرے ہیں۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ وہ چیک آئوٹ کرکے دیوبند تشریف لے گئے ہیں۔ چند روز کی تگ و دو کے بعد معلوم ہوا کہ وہ واپس آکر جمعیت کے دفتر میں ٹھیرے ہیں۔ عاصمی صاحب نے کئی بار فون کرکے وقت لینے کی کوشش کی مگر ناکام ہوگئے۔ میں ایک روز نماز کے وقت جمعیت کے دفتر پہنچا اور جونہی انھوں نے نماز ختم کی تو میں ان کے سامنے پہنچا اور گزارش کی  کہ ’’کشمیری لیڈرگیلانی صاحب دہلی میں ہیں اور آپ سے ملنے کے متمنی ہیں‘‘۔ مجھے اب ان کے الفاظ تو یاد نہیں ہیں ، مگر ان کا رویہ ہتک آمیز تھا۔ میں نے عاصمی صاحب کو فون پر بس اتنا بتایا کہ ’’مولانا کے پاس وقت نہیں تھا اور وہ واپس جارہے ہیں‘‘۔ ان کی واپسی کے بعد ۱۳؍اگست ۱۹۹۵ء کو ان سیاحوں میں ناروے کے ہانس کرسچن اوسٹرو کا سر قلم کردیا گیا۔ امریکی جان چائلڈز ۱۷؍اگست کو فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا، باقی کا کبھی پتہ نہیں چلا۔

۲۰۱۳ء میں جب برطانوی صحافیوں ایڈرین لیوی اور کیتھی اسکاٹ کی معرکہ آرا تفتیشی کتاب دی میڈوز منظرعام پر آئی تو معلوم ہوا کہ بھارتی خفیہ اداروں کو ان مغویہ سیاحوں کی جگہ کا علم تھا۔ ’را‘ کے طیارے ان کے فوٹو بھی لیتے رہے۔ مگر جموں و کشمیر پولیس کے افسران نے جب ان کو بازیاب کرنے اور ان کو اغوا کاروں سے چھڑانے کے لیے آپریشن کرنے کی اجازت مانگی، تو دہلی سے انھیں جواب تھا: ’’جتنی دیر یہ مغربی سیاح اس تنظیم کے پاس رہیں گے، اتنی ہی دیر پاکستانی سفارت کاروں کو مغربی دُنیا میں سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑےگا۔ اس لیے ان کے اغواکا طول دینا بھارت کے مفاد میں ہے‘‘۔ لیوی اوراسکاٹ کے مطابق بعد میں ’’جب اغواکار تنگ آگئے، تو انھوں نے ان کو سرکاری بندوق برداروں کے ہاتھوں بیچا۔ مگر چند روز بعد ان کو احساس ہوا کہ اگر ان کو چھوڑاگیا، تو الزام بھارتی فوج کے سر آجائے گا۔ اس طرح ان کو خاموشی کے ساتھ رات کے اندھیرے میں موت کی نیندسُلا کر نامعلوم مقام پر زمین میں دبا دیا گیا۔ مگر  تب تک یہ اغوا کشمیر میں جاری تحریک کے سر پڑچکا تھا اور مغربی دُنیا نے آزادی کی تحریک کو ’دہشت گردی‘ سے تعبیر کرنا شروع کر دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمان نے کشمیر کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے کتنی شان دار خدمات انجام دیں اور اپنے دورۂ دہلی کے دوران کتنی بار وہ کسی کشمیری لیڈر سے ملے؟ یہ معلوم کرنا کسی صحافی کا کام ہے۔

کتاب رائے عامہ  کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ سارے واقعات ایک فلم کی طرح میرے سامنے آرہے تھے۔انھوں نے کتاب میں کارٹونسٹ سدھیر تیلانگ کے ساتھ اپنی ملاقات کا تذکرہ کیا ہے۔ تیلانگ کے ساتھ ان کا رویہ ان کی شخصیت کے بالکل برعکس اور جواب غیرموزوں تھا۔ بلاشبہ اس نے ان کے صبر کا امتحان لیا تھا، مگر کسی اور صورت میں بھی جواب دیا جاسکتاتھا۔ ۲۰۱۶ء میں ان کا انتقال ہوا تھا، مگر جب بھی ان سے پریس کلب میں ملاقات ہوتی تھی، تو وہ ہم سے اس رویے کی شکایت کرتے تھے۔ چند کمیوں کے باوجود کتاب واقعی پاکستان کی موجودہ تاریخ کا ایک آئینہ ہے، جس کو ایک ایسے شخص نے لکھا ہے جس کو طاقت کی راہداریوں تک رسائی تھی اور جس نے کئی رازوں سے پردہ اُٹھایا ہے۔ (ناشر: ’قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل‘، لاہور۔ فون: 0300-0515101)

۱۹۹۵ء میں جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات منعقد کروانے کے لیے بھارت کو شدید عالمی دباؤ کا سامنا تھا۔وزیر اعظم نرسمہا راؤ کی حکومت، کانگریس کی ہم نوا ’نیشنل کانفرنس‘ کی معاونت کے لیے تیار نہیں تھی۔ نئی دہلی میں اس بات پر بھی غصہ تھا کہ ۱۹۸۹ میں فاروق عبداللہ نے وزارت اعلیٰ کے منصب سے استعفا دیا اور بھارت مخالف قوتوں کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کے بجائے لندن جا کر بس گئے تھے۔

 ان انتخابات کو معتبر بنانے کے لیے معروف کشمیری رہنما شبیر احمد شاہ پر ڈورے ڈالے جارہے تھے۔ وہ ابھی حُریت کانفرنس میں شامل نہیں ہوئے تھے۔ نئی دہلی میں خفیہ ایجنسیوں کا ایک اور دھڑا، جس کی قیادت اس وقت کے سیکرٹری داخلہ ایس پدمانا بھیا کر رہے تھے، انھوں نے حکومت نواز بندوق برداروں پر مشتمل ایک پارٹی ’عوامی لیگ‘ کے نام سے میدان میں اتاردی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ خود ساختہ منتخب حکومت کی باگ ڈور، وہ تائب بندوق برداروں کے کمانڈر محمدیوسف المعروف ککہ پرے کے حوالے کردیں گے۔ اس گروپ نے ان دنوں چند برسوں میں ظلم و ستم کے جو پہاڑ توڑے تھے، لوگ کسی طرح ان سے چھٹکارا پانا چاہ رہے تھے۔

اگلے سال یعنی ۱۹۹۶ء میں لوک سبھا کے انتخابات ہوئے، تو نیشنل کانفرنس نے ان کا بائیکاٹ کیا ہوا تھا۔ ان انتخابات میں کانگریس کی زیر قیادت نرسہما راؤ کی حکومت کا تختہ اُلٹ گیا اور جنتا دل حکومت وزیر اعظم دیو گوڑا کی قیادت میں برسر اقتدار آگئی۔ انھوں نے خفیہ ایجنسیوں کی ایما پر اپنے دست ِراست سی ایم ابراہیم کو لندن بھیج کر فاروق عبداللہ کو اسمبلی انتخابات میں شرکت پر آمادہ کروالیا۔ ان کو یقین دہانی کروائی گئی، کہ اسمبلی میں ان کو واضح اکثریت حاصل کرنے کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوگی، اور وہ زیادہ خود مختاری کی قراردار منظور کرواکے نئی دہلی بھیج دیں، جس کو پارلیمنٹ سے پاس کروایا جائے گا۔ سی ایم ابراہیم اکثر غیر رسمی گفتگو میں ان انتخابات کا کریڈٹ لیتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے فاروق عبداللہ کو بتایا تھا کہ اگروہ انتخابات میں شرکت نہیں کرتے، تو ان کے پاس متبادل موجود ہیں۔ اس طرح ان کی پارٹی کا نام و نشان مٹ جائے گا۔

 ان انتخابات میں گو کہ زیادہ عوامی شرکت نہیں تھی۔ کئی جگہوں سے لوگوں کو فوج اور نیم فوجی دستوں نے زبردستی ووٹ ڈالنے کے لیے نکلنے پر مجبور کردیا۔ مگر جو بھی پولنگ بوتھ تک گیا، اس کی اولین ترجیح یہی تھی کہ ککہ پرے کی عوامی لیگ یا اس کے بندوق برداروں کے دستوں کو ہروا کر کسی ایسی انتظامیہ کو بر سرِ اقتدار لایا جائے، جس کے زیر سایہ وہ چند سانسیں لے سکیں۔

 نیشنل کانفرنس نے ان انتخابات میں ۸۷ رکنی ایوان میں ۵۷ نشستیں جیت کرکے قطعی اکثریت حاصل کرلی۔ انتخابات کے بعد فاروق عبداللہ کو بتایا گیا کہ اسمبلی میں ۱۹۵۳ء سے قبل کی سیاسی پوزیشن بحال کرنے کی قرارداد یا بل پیش کرنے سے قبل ایک کمیٹی بنائی جائے، جو اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے گی۔ مگر جب تک کمیٹی کی رپورٹ آتی، تب تک جنتا دل حکومت کا تختہ اُلٹ چکا تھا اور اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں بی جے پی اقتدار میں آچکی تھی ، جس نے جولائی ۲۰۰۰ء  میں جموں و کشمیر اسمبلی میں واضح اکثریت سے پاس کی ہوئی قرار داد کو مسترد کردیا۔

فاروق عبداللہ جنھوں نے انتخابات میں شرکت اور بھارت کو عالمی دباؤ سے بچانے کے لیے اس شرط پر آلہ کار بننے پر رضامندی ظاہر کی تھی، کہ نئی دہلی ۱۹۵۳ء کی پہلے والی پوزیشن بحال کرے گی، یہ تلخ گھونٹ پی لیا اور اقتدار میں رہنے کو ترجیح دی۔ عمر عبداللہ واجپائی کی وزارتی کونسل میں جونئیر وزیر بن گئے اور انھوں نے بھی وزارت سے استعفا دینا گوارا نہیں کیا۔

لگتا ہے کہ کشمیر میں تاریخ کا پہیہ گھوم پھر کر وہیں پہنچ جاتا ہے۔ اُس وقت سرکاری بندوق برداروں کے بجائے لیفٹنٹ گورنر کی انتظامیہ، سرکاری ایجنسیوں اور ہندو قوم پرستوں نے عوام کا ناطقہ بند کررکھا تھا۔ پچھلے پانچ برسوں سے کشمیر میں گھٹن کا ماحول تھا۔ اس لیے حالیہ اسمبلی انتخابات میں عوام کی ایک بڑی تعداد نے ووٹ ڈالے، تاکہ عوامی نمائندوں پر مبنی ایک حکومت بن سکے اور سانس لینے کا موقع فراہم ہو۔

 ان انتخابات میں ۱۹۹۶ء ہی کی طرح نیشنل کانفرنس کو برتری حاصل ہوئی۔ ۹۰سیٹوں میں سے ۴۲ پر نیشنل کانفرنس نے جیت درج کی اور اس کی اتحادی کانگریس کو چھ سیٹوں پر سبقت حاصل ہوئی۔ وادیٔ کشمیر کی ۴۷ میں سے نیشنل کانفرنس کو ۳۵ سیٹیں حاصل ہوئیں اور جموں کی ۴۳سیٹوں میں سات سیٹوں پر کامیابی ملی۔ ہندو اکثریتی جموں میں بی جے پی نے ۲۹نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ جیری مینڈرنگ کے ذریعے اس علاقے میں ہندو سیٹوں کی تعداد ۲۴ سے بڑھاکر ۳۱ کردی گئی تھی۔ اس طرح مسلم سیٹوں کو ۱۲ سے گھٹا کر ۹ کر دیا گیا تھا۔

تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ کانگریس، ہندو بیلٹ میں بی جے پی کو ٹکر دے گی۔ مگر اس نے انتہائی حد تک مایوس کن کارکردگی کا مظاہر ہ کیا۔ کانگریس کی چھ سیٹیں بھی مسلم بیلٹ سے ہی آئی ہیں۔ ان میں پانچ وادیٔ کشمیر سے اور ایک جموں کے راجوری خطے سے ہے۔ راہول گاندھی نے وادیٔ کشمیر کے سوپور قصبہ میں جاکر وہاں نیشنل کانفرنس کے خلاف مہم چلائی، اور جس کانگریسی اُمیدوار کے حق میں مہم چلائی، وہ تیسرے نمبر پر آیا۔

جس طرح سے کانگریس نے جموں خطے میں بی جے پی کے لیے میدان کھلا چھوڑ دیا تھا، اس سے لگتا تھا کہ شاید ان میں کوئی ملی بھگت ہے۔ انتخابی مہم کے دوران خود عمر عبداللہ کو کہنا پڑا کہ کانگریس جموں کی ہندو بیلٹ پر توجہ مرکوز کرنے کے بجائے وادیٔ کشمیر اور جموں کی مسلم بیلٹ میں ووٹوں کو تقسیم کرنے کا کام کررہی ہے۔

وادیٔ کشمیر میں ووٹروں نے یقینی بنایا کہ آزاد اُمیدواروں کی بہتات کی وجہ سے ووٹ تقسیم نہ ہوں۔ اس لیے انجینئر رشید ( عوامی اتحاد پارٹی) اور جماعت اسلامی فیکٹر کا بھی نتائج پر بہت کم اثر ہوا ۔ انجینئر رشید نے پارلیمانی انتخابات میں جو جلوہ دکھایا، وہ اسمبلی انتخابات میں مفقود تھا۔ اس کی بڑی وجہ تھی کہ اس نے انتہائی نالائق اُمیدواروں کو میدان میں اتارا۔ شاید ضمانت پر رہائی کے بعد ان کو اُمیدواروں کے انتخاب کے لیے نہایت کم وقت ملا۔

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، جس نے ۲۰۱۵ء میں بی جے پی کے ساتھ مخلوط حکومت بنائی تھی، وادیٔ کشمیر میں شکست کھا گئی ہے، اور تین نشستوں تک محدود ہوگئی۔جس پارٹی کے اُمیدوار پر تھوڑا بھی شک گزرا کہ اس کے تعلقات نئی دہلی یا بی جے پی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، کو شکست ہوئی۔

بی جے پی نے تین سیٹیں یعنی بھدروا، ڈوڈاویسٹ اور کشتواڑ وادیٔ چناب سے جیتیں۔ اس علاقے میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس دونوں نے اُمیدوار کھڑے کر دیئے تھےاور ووٹوں کی تقسیم کا فائدہ بی جے پی کو ملا۔ بی جے پی کو سب سے بڑا جھٹکا راجوری-پونچھ کی پیر پنجال پٹی میں لگا۔ جہاں اس نے آٹھ میں سے ایک ہی سیٹ جیتی ہے۔ یہ سیٹ بھی اس لیے ممکن ہوسکی کہ جیری مینڈرنگ کے ذریعے انتخابات سے قبل کالاکوٹ کو سندر بنی سے ملاکر بی جے پی کے لیے اس سیٹ کو ہموار کرادیا گیا تھا۔ پیر پنجال کے دیگر حصوں یعنی نوشہرہ، راجوری، درہال، تھانا منڈی، پونچھ،حویلی، مینڈھر اور سورنکوٹ میں بی جے پی کی دال گل نہ سکی۔ اس خطے میں پہاڑی نسل کے لوگوں کو شیڈولڈ ٹرائب کا درجہ دینے کی وجہ سے ان کے لیڈروں کو لگتا تھا کہ یہ خطہ اب ان کی جیب میں ہے۔ وزیر داخلہ امیت شا نے اس خطے کے کئی دورے کیے۔ تاہم، کوئی بھی اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتا کہ بی جے پی نے کچھ ایسے حلقوں میں اپنی موجودگی ثابت کی ہے جہاں وہ دوسرے نمبر پر رہی ہے یا ۱۰۰۰ سے زیادہ ووٹ حاصل کر چکی ہے۔

 گریز میں اس کی کارکردگی قابل ذکر ہے، جہاں اس کے اُمیدوار فقیر محمد نے ۷۲۴۶ ووٹ حاصل کیے،جب کہ نیشنل کانفرنس کے نذیر احمد خان نے ۸۳۷۸ ووٹ حاصل کیے۔بی جے پی سرینگر کے حبہ کدل میں بھی دوسرے نمبر پر رہی لیکن بڑے فرق سے ہار گئی۔

 ۱۹۹۶ء میں نیشنل کانفرنس نے زیادہ سے زیادہ خود مختاری کے نام پر اور چند سانسیں لینے کے عوض بھاری اکثریت حاصل کی تھی۔ اس بار بھی عوام کو امید ہے کہ شاید آکسیجن کی بحالی ہو۔ فرق یہ ہے کہ اس بار نیشنل کانفرنس خود مختاری کے بجائے ریاستی درجہ کی بحالی کے وعدے کو لے کر میدان میں اُتری ہے اور اس میں کس قدر اس کو کامیابی حاصل ہوتی ہے، وقت ہی بتائے گا۔  ویسے نیشنل کانفرنس کا جیتنا دونوں یعنی کشمیری عوام اور نئی دہلی کےلیے ایک طرح سے فائدے والی صورت حال ہے۔ کشمیری عوام آبادیاتی ساخت کی تبدیلی کے حوالے سے اور نچلی سطح پر غیرریاستی افسران کی آمد سے پریشان تھے۔ یہ مسئلہ حل ہونے کا امکان ہے۔ اگر نیشنل کانفرنس کا کوئی کارنامہ ہے، تو یہی ہے۔ ۱۹۷۵ء میں شیخ عبداللہ کے اقتدار میں آنے کے بعد کسی حد تک انتظامیہ میں کشمیریوں کا عمل دخل بڑھا کر ان کو اقتدار کی راہداریوں تک رسائی فراہم کرا دی گئی تھی، جو اَب معدوم ہو چکی ہے۔

نئی دہلی کو اطمینان ہے کہ نیشنل کانفرنس ریڈ لائنز کراس کرنے کی روادار نہیں ہوگی۔ اس کے لیڈران بس ایک حد تک ہی نئی دہلی کو چیلنج کرتے ہیں۔ جو لیڈران اپنی اسمبلی کی خود مختاری کی قرارداد کو مرکزی کابینہ کے ذریعے مسترد ہونے پر بھی خون کے گھونٹ پی سکتے ہیں، تو وہ اقتدار  برقرار رکھنے کے لیے کچھ بھی برداشت کر سکتے ہیں۔

اسی طرح عمر عبداللہ کے پاس سیاسی قیدیوں کی رہائی اور سابقہ ​​حکومتوں کے دوران نافذ کیے گئے جابرانہ قوانین کی منسوخی کے لیے بھارتی حکومت پر دباؤ ڈالنے کا نادر موقع ہے۔ مسئلہ کشمیر کے پائیدار حل کے حصول کے لیے پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ بات چیت کی وکالت کے لیے بھی وہ ایک سازگار فضا اور دباؤ ڈال سکتے ہیں۔

اس حکومت پر لیفٹنٹ گورنر کی خاصی گرفت ہوگی، وہ کس طرح اس سے نبرد آزما ہو سکتے ہیں، وہ ان کی سنجیدگی ظاہر کرے گی۔ تمام متعلقہ فریقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ دیرپا امن اور انصاف کے حصول کے لیے کشمیری عوام کی آواز کو سنا جائے اور اس کا احترام کیا جائے۔ یہ عمر عبداللہ کا اصل امتحان ہوگا۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اور تاریخ کے اس نازک موڑ پر عوام کی رہنمائی کرتے ہیں، تو یہ کارنامہ تصور ہوگا، ورنہ اس پارٹی کے گناہ اس قدر ہیں، جو شاید ہی ووٹوں سے دُھل سکیں۔

 جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

برطانوی جمہوری طرزِ حکومت میں اکثر یتی آبا دی کے نمائندوں کو حکومت سازی کا حق دیا گیا ہے۔ جن ممالک میں اکثریتی رائے کے برعکس ’ملاوٹی جمہوریت‘ کا نظام نافذ ہے، وہاں اقلیتوں کی آبادی مسلسل دبائو میں رہتی ہے، اور اکثریتی آبادی ہی قیادت کرتی ہے۔

ہندوستان میں بھی اکثریتی سسٹم کے تحت انتخابات منعقد کرائے جاتے ہیں اور حکومت سازی کی جاتی ہے۔ مگر انڈیا میں جمہوریت کی یہ دیوی جموں و کشمیر کی سرحد کو پار نہیں کر پاتی؟ فی الوقت جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات میں اَن گنت اقدامات کے ذریعے یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ ان انتخابات میں علامہ اقبال کے مذکورہ بالا شعر کی تفسیر پر عمل ہو اور بندوں کو گننے کے بجائے تولا جائے۔ پلڑے میں مسلم آبادی کو ہلکا رکھنے کے پورے سامان کیے گئے ہیں، تاکہ ان انتخابات کے ذریعے وجود میں آنے والی اسمبلی خطے کی اکثریتی آبادی کی نمائندگی نہ کرسکے۔

اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ یہاں کی اکثریتی آباد ی مسلمان ہے۔ ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر میں مسلم آبادی ۶۸ء۳ فی صد اور ہندوؤں کی ۲۸ء۲ فی صد ہے۔مگر ۲۰۲۲ء کے حد بندی کمیشن نے مسلم اکثریتی وادیٔ کشمیر جہاں ریاست کی ۵۶ء۱۵ فی صد آبادی رہتی ہے، کے حصے میں اسمبلی کی ۴۷ نشستیں اورہندو اکثریتی جموں کی ۴۳ء۸۵فی صد آبادی کو ۴۳ نشستیں دے دیں۔

یہ حد بندی تو خود ہی ووٹروں کی مساوات کے بنیادی جمہوری اصول کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ریاست کے سابق وزیر خزانہ حسیب درابو کا کہنا ہے کہ ’’وادیٔ کشمیر کا ایک ووٹر جموں خطے کے ۰ء۸ ووٹروں کے برابر کر دیا گیا ہے۔ یہ انتخابی عصبیت نہیں تو کیا ہے؟‘‘

پھر جموں ڈویژن کے ہندو بیلٹ کی سیٹوں کی تعداد ۲۵ سے بڑھا کر ۳۱ کر دی گئی، تاکہ اقلیتی آبادی کی نمائندگی میں مزید اضافہ ہو۔اگر یہ جمہوریت ہے، تو یہ فارمولا ملک کے دیگر علاقوں میں بھی لاگو کرنا چاہیے، تاکہ جمہوری اداروں میں وہاں کی اقلیتوں کو بھی متناسب نمائندگی مل سکے۔

اس ۹۰ رکنی اسمبلی میں اب ۲۸ فی صد ہندو آبادی کو ۳۴ء۴۴فی صد نشستیں حاصل ہوجائیں گی۔جموں ڈویژن میں اگرچہ ہندو اکثریت میں ہیں، مگر مسلمانوں کی آبادی بھی ۳۴ء۲۱ فی صد ہے۔غیرمنصفانہ حد بندی کے ذریعے اس علاقے کے مسلم اکثریتی حلقوں کو ۱۲ سے کم کرکے اب ۹کر دیا گیا ہے۔ اسمبلی میں اس خطے کی مسلم نمائندگی ۴۳ فی صد سے کم ہو کر ۳۹ فی صد ہوجائے گی۔پچھلی اسمبلی میں جموں کی کل ۳۷  سیٹوں میں سے ۱۲ مسلم اکثریتی نشستیں تھیں۔

جموں میں، نئے ہندو اکثریتی حلقے بنائے گئے، جیسے کہ پاڈر جس کی آبادی صرف ۵۰ہزار ہے، اسمبلی کا ایک حلقہ ہے، جب کہ اس سے تین گنا زیادہ مسلم علاقوں، جیسے پونچھ ضلع میں سورنکوٹ، کو اسمبلی میں جگہ نہیں دی گئی ہے۔ جموں کے پونچھ اور راجوری کے مسلم اکثریتی اضلاع کو کشمیر کے اننت ناگ کے لوک سبھا حلقہ میں شامل کیا گیا ہے۔ادھم پور حلقہ کا ایک گاؤں جاکھایان، جہاں دلت آبادی ۹۲ء۸ فی صد ہے، بی جے پی کے لیے درد سر بنا ہوا تھا، جہاں اس کے اُمیدوار کو ووٹ نہیں ملتے تھے۔ اسے اب سزا کے بطور چینانی کے ساتھ ملایا گیا ہے۔

۲۰۱۴ء میں راجوری سے بی جے پی کا امیدوار ۲ء۸۶ فی صد کے فرق سے ہار گیا تھا۔ راجوری میں مسلمان ۷۰ فی صد اور ہندو ۲۸ فی صد ہیں۔ کمیشن کی جانبداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس سیٹ سے سوہنا تحصیل کو الگ کرکے تھانہ منڈی میں شامل کیا گیا۔ سوہنا میں ۹۱ فی صد مسلمان آبادی تھی، جس کی وجہ سے راجوری کی سیٹ بی جے پی کے لیے نکالنا مشکل ہوتا تھا۔ جموں پارلیمانی حلقے کے راجوری اور پونچھ، جو مسلم اکثریتی علاقے ہیں، اکثر بی جے پی کے امیدوار کے لیے ٹیڑھی کھیر ثابت ہوتے تھے۔

انتخابات کے بعد گورنر منوج سنہا نے پانچ اراکین کو نامزد کرنا ہے، جس سے اسمبلی اراکین کی تعداد ۹۰ سے بڑھ کر ۹۵ ہو جائے گی۔ یہ اراکین دو خواتین، دوکشمیری پنڈت اور ایک رکن ۱۹۴۷ء میں پاکستان سے آنے والوں میں سے ہوگا۔ گویا یہ بھی ہندو ہی ہوں گے۔ نامزد ممبران ہوتے ہوئے بھی ان کو ووٹنگ کا حق حاصل ہوگا۔ اس طرح ایک مخصوص کمیونٹی کو غیر متناسب طور پر فائدہ پہنچانے اور اکثریتی آبادی کو بے اختیار اور لاچار بنانے کی واضح کوششیں کی گئی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ۹۵ رکنی اسمبلی میں اقلیتی آبادی کو ۳۹ نشستیں مل سکتی ہیں، جب کہ ان کاجائز حق ۲۹نشستوں کا بنتا ہے۔

چونکہ مسلم آبادی کے ہی نمائندے کے وزیر اعلیٰ بننے کے امکانات ہیں، اس لیے گورنر کو قبل از انتخاب ہی مزید اختیارات دیے گئے، تاکہ منتخب حکومت برسرِاقتدار آتی بھی ہے، تو وہ لاچار اور بے بس ہو۔ اس حکم نامہ کی رُو سے پولیس، بیوروکریسی، اٹارنی جنرل اور پراسیکیوٹر کی خدمات پر لیفٹیننٹ گورنرکا کنٹرول ہوگا۔تقرریوں اور تقرر سے متعلق تمام امور کے لیے لیفٹیننٹ گورنر کی منظوری لینی ہوگی اور اس کے فیصلوں پر وزراء کی کونسل نظرثانی نہیں کر سکے گی۔

لیفٹیننٹ گورنر کے نمائندے کو کابینہ کے تمام اجلاسوں میں شرکت کا پابند بنایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ وزراء کی طے شدہ میٹنگوں کے ایجنڈے کو کم از کم دو دن پہلے گورنر کے دفتر میں جمع کرانا ہوگا۔یعنی وزراء اپنی مرضی سے کسی سے مل بھی نہیں سکیں گے۔

ہندو بیلٹ میں نقصان کے اندیشہ کے پیش نظر اب بی جے پی کی نگاہیں، جموں کی مسلم بیلٹ یعنی راجوری اور پونچھ پرلگی ہوئی ہیں۔ حال ہی میں پہاڑی بولنے والی آبادی کو شیڈیولڈ ٹرائب کا درجہ دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے اعلیٰ تعلیمی اداروں اور نوکریوں میں نشستیں مخصوص ہوجائیں گی۔ مگر اس سے گوجر،بکروال برادری جو ’مشمولہ قبائل فہرست‘ ہونے کا فائدہ اٹھاتے تھے، ناراض ہو گئے ہیں۔

جس طرح نیشنل کانفرنس نے اکیلے انتخابات لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، اس نے کشمیر کو گرداب سے نکالنے کے اس کے عزم پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ وقت تھا کہ کشمیر کی سبھی پارٹیاں چاہے وہ نیشنل کانفرنس ہو یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی یا کوئی اور، ایک ساتھ انتخابی میدان میں اُترتیں۔مگر نیشنل کانفرنس کے مغرور لیڈروں نے ہمیشہ ہی نازک مرحلوں پر غلط فیصلے کیے ہیں، یہ فیصلہ بھی اسی زمرے میں تاریخ میں گنا جائے گا۔

عوامی اتحاد پارٹی کے لیڈر انجینئر شیخ عبدالرشید نے نیشنل کانفرنس اور سجاد غنی لون کی پیپلزکانفرنس کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ انجینئر رشید کی جماعت عوامی اتحاد پارٹی قیدیوں کی رہائی، مسئلہ کشمیر کا حل، پاکستان کے ساتھ بات چیت اور انڈین آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کی بحالی کاوعدہ کرکے عوام کو لبھا رہی ہے۔ وہ ’ظلم کا بدلہ ووٹ سے‘ اور ’یہ ملک ہمارا ہے، اس کا فیصلہ ہم کریں گے‘ وغیرہ کے نعرے بلند کررہے ہیں۔

بی بی سی کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق عمر عبداللہ کی نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی جیسی روایتی جماعتوں کی مہم کے مقابلے میں انجینئر رشید کی مہم کو نہ صرف زمینی سطح پر بھاری عوامی تائید حاصل رہی ہے بلکہ سوشل میڈیا پر بھی اُن ہی کی باتیں وائرل ہوئی ہیں۔ کیونکہ ان کے انتخابی نعروں میں ’ظلم، قید و بند، اظہار رائے پر قدغن، ناانصافی اور مسئلہ کشمیر کے حل‘ کی گونج سنائی دے رہی ہے، جو کشمیری طویل عرصے بعد سن رہے ہیں۔

انجینئر رشید نے حیران کن طور پر جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی اتحاد کر لیا۔ جو گو کہ غیرقانونی تنظیم ہے، مگر اس کے چند اراکین بطور آزاد امیدوار میدان میں ہیں۔ جماعت اسلامی نے آخری بار ۱۹۸۷ء میں الیکشن لڑا تھا، اور عسکری جدوجہد شروع ہوتے ہی انتخابات کا بائیکاٹ کرتی آرہی ہے۔حیرت کی بات ہے کہ عمر عبد اللہ سمیت روایتی پارٹیوں نے انجینئر رشید کو بی جے پی کی پراکسی قرار دیا ہے، جو ان کے ووٹ کاٹنے کی سعی کر رہا ہے۔ مگر سوال ہے کہ آخر عمر عبداللہ نے ۲۰۱۹ء میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کرنے کے لیے بنائے گئے اتحاد سے کیوں کنارہ کشی کی؟ اور پھر جو ایجنڈا لےکر انجینئر رشید میدان میں آئے ہیں، اس کو اپنانے میں عمر عبداللہ کو کیا چیز روک رہی ہے؟

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات کے بعد کشمیر میں خصوصاً پچھلے پانچ سال سے چھائی سیاسی گھٹن کو کم کیا جاسکتا ہے؟ کیا عام کشمیری کو اس گھٹن سے نجات ملے گی، یا پھر یہ چند سانسیں لینے کی ہی آزادی ہوگی؟

بھارتی فوج کے ایک سابق سربراہ جنرل سندر راجن پدمانابھن نے ۲۰۰۴ء میں دہلی میں اپنے ایک ناول کا اجراء کیا تھا۔ یہ ناولWritiing on the Wall پاکستان کے ساتھ ایک خیالی جنگ پر مبنی ہے، جس میں فوجیوں اور ٹینکوں کے بجائے سائنس دانوں کے ذریعے مصنوعی ذہانت اور پوشیدہ ہتھیاروں کا استعمال کرکے مواصلاتی نظام میں خلل ڈال کر بھارت یہ جنگ جیت جاتا ہے۔ ناول کے اجرا ء کے وقت ان سے پوچھا گیا کہ ’’کیا اس طرح کے ہتھیار وجود میں آچکے ہیں‘‘؟ تو انھوں نے وضاحت کی کہ’’ یہ مصنف کا تخیل ہے، اس کو فوج کی تیاریوں کے ساتھ نہ جوڑا جائے‘‘۔

اسرائیلی سائنس دانوں کا ایک وفد ایک بار دہلی میں تھا، جہاں سفارت خانے نے چند صحافیوں کے ساتھ ان کی نشست رکھی تھی۔ بات چیت کے دوران وفد میں شامل ان میں ایک سائنس دان نے کہا کہ ’’جب بھی مارکیٹ میں کوئی سائنس فکشن آتا ہے، تو ان کا محکمہ اس کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ لیتا ہے اور معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کیا مصنف کے تخیل کو حقیقت میں ڈھالا جاسکتا ہے؟‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’سائنس دانوں کو سائنس فکشن لکھنے والے مصنّفین رچرڈ مورگن، السٹر ری نالڈس، (جن کے ناولوں کا مرکزی مو ضوع تھیوریٹیکل فزکس ہوتا ہے) اور اَن گنت دیگر مصنّفین کی نگارشات کو پڑھنے کی نہ صرف ترغیب دی جاتی ہے، بلکہ یہ بھی رپورٹ کرنا پڑتا ہے کہ کیا اس کو عملی رُوپ دیا جاسکتا ہے؟‘‘ یعنی ان اسرائیلی سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ ’’ہم جاسوسی تھرلرز کو بھی سنجیدگی سے لیتے ہیں‘‘۔

جنرل پدمانابھن کا تخیل اور اسرائیلی سائنس دانوں کے یہ دعوے اس وقت واقعی حقیقت میںتبدیل ہو گئے، جب لبنا ن کے طول و عرض سے خبریںآنا شروع ہوئیں کہ حزب اللہ کے مواصلاتی آلات ’پیجر‘ اور پھر بعد میں ’واکی ٹاکی‘ میں پے در پے دھماکے ہو رہے ہیں، جن سے پچاس کے قریب افراد ہلاک اور تقریباً ۳ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ موبائل نیٹ ورک کے استعمال کو ترک کرتے ہوئے حزب اللہ نے پیجر نیٹ ورک کو محفوظ مواصلاتی ذریعہ سمجھا تھا، کیونکہ ان کو ہیک کرنے کا کم خطرہ رہتا ہے مگر یہ پیجر خود ہی بم بن گئے ۔

حال ہی میں، حزب اللہ کو پیجرز کی ایک نئی کھیپ موصول ہوئی تھی۔خبروں کے مطابق اسرائیلی ایجنٹو ں نے سمندری جہاز کے ذریعے جانے والی پیجرز کی کھیپ تک رسائی حاصل کی تھی اور بیٹری کے ساتھ ہی اس میں چند گرام بارود رکھ کر ان کو دوبارہ بالکل اسی طرح پیک کر کے ان کو اپنے نیٹ ورک کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔ مگر ایک روز قبل حزب اللہ سے وابستہ کسی جنگجو کو دو پیجرز پر شک ہو گیا تھا، کہ ان کی پیکنگ کھولی گئی ہے۔ اس سے قبل کہ یہ تنظیم ان پیجرز پر مزید تحقیق کرکے ان کو کوڑے دان میں پھینک دیتی، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہونے آپریشن کی منظوری دے دی۔

فی الحال حزب اللہ کا محفوظ مواصلاتی نظام، جو حملوں کو مربوط کرنے اور جنگجوؤں کو متحرک کرنے کے لیے ضروری تھا، اس کی کمزوری بن گیا ہے جس کا اسرائیل نے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے۔  وہ نہ صرف بیروت بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بمباری کر رہا ہے۔۲۴ستمبر کی دوپہر تک ۵۸۰ ؍افراد لبنان میں شہید ہوچکے ہیں، جن میں ۷۰ بچّے بھی شامل ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حزب اللہ جو کبھی نظم و ضبط اور ناقابل تسخیر کے طور پر دیکھی جاتی تھی، اسے ڈیجیٹل اشیا کے ذریعے ہی غیر محفوظ بنایا گیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ میزائلوں اور جدید اسلحہ سے لیس انتہائی محفوظ فوج کو ڈیجیٹل دور میں ایک تباہ کن خطرے میں ڈالا جاسکتا ہے۔

 اسرائیل کا یہ حملہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ مستقبل کی جنگیں صرف بموں اور گولیوں سے نہیں بلکہ ڈیٹا، الگورتھم اور سائبر حکمت عملی سے لڑی جا سکتی ہیں۔ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ حملہ ۲۱ویں صدی میں جنگ کے حوالے سے ایک اہم لمحہ ہے۔سائبر حملے اکثر پوشیدہ ہوتے ہیں، جس میں کوئی نشان، کوئی ملبہ اورگولہ بارود نہیں چھوڑا جاتا ہے۔یہ حملے مواصلاتی نیٹ ورکس، پاور گرڈز، مالیاتی اداروں کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس سے یہ بھی سنگین اندازہ ہوتا ہے کہ ڈیجیٹل دور میں کس طرح روز مرہ استعمال کے آلات ہتھیار بن کر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا سکتے ہیں۔

اسرائیل کے نیشنل سائبر ڈائریکٹوریٹ کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹرجنرل ریفیل فرانکو کے مطابق حزب اللہ کو اس شاک سے نکلنے میں کافی وقت لگے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’اب ان کے جنگجو ہرپیجر اور موبائل فون کو شک کی نظر سے دیکھیں گے۔ اسرائیل نے فون اور دیگر آلات کو ہیک کرنے کی ٹکنالوجی کی خاطر خاصی سرمایہ کاری کی ہے۔ یعنی آپ کے گھر پر روبوٹک جھاڑو کو بھی ہیک کرکے اس کو آپ کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ فرانکو کا کہنا ہے کہ: ’’اسرائیلی خفیہ تنظیم موساد نے حز ب اللہ کی سپلائی چین کا پتہ لگا لیا تھا کہ یہ پیجرز کسی شیل کمپنی سے خریدے گئے ہیں۔ ہم نے ہنگری میں بی اے سی کنسلٹنگ کا پتہ لگایا تھا جس نے ان پیجر ز کو سپلائی کرنے کا ٹھیکہ لیا تھا۔ ایران جلد ہی حزب اللہ کو جدید مواصلاتی آلات بھیجے گا،مگر اس نئے نظام کو فعال ہونے میں مہینوں نہیں تو ہفتوں لگیں گے‘‘۔ اس لیے پچھلے چند دنوں میں اسرائیل نے لبنان پر شدید بمباری کی ہے۔

اس سائبر وار سے قطع نظر ماضی میں بھی اسرائیلی ایجنٹوں نے ایسے کئی غیر روایتی حملوں سے مخالفین کو ٹھکانے لگایا ہے۔ اسرائیل کی ایجنسی شن بیٹ نے ۱۹۹۶ء میں غزہ میں حماس کے رکن یحییٰ عیاش کو مارنے کے لیے خفیہ طور پر دھماکا خیز مواد سے لیس موبائل فون ان کے پاس پہنچایا۔ جب فون ان تک پہنچ گیا تو انھی کی آواز پر اس کو ریموٹ سے دھماکا کرکے اُڑا دیا گیا۔

یاد رہے ۱۹۹۷ء میں حماس کے لیڈر خالد مشعل کو قتل کرنے کے لیے موساد کے دو خفیہ ایجنٹوں نے ان کی گردن پر زہر چھڑکا تھا، مگر یہ منصوبہ ناکام ہوگیا اور یہ دونوں ایجنٹ پکڑے گئے۔ حماس کو ہتھیارفراہم کرنے والے محمود المبحوح ۲۰۱۰ء میں دبئی کے ہوٹل کے کمرے میں مُردہ پائے گئے تھے۔ اماراتی حکام نے ابتدائی طور پر اسے قدرتی موت قرار دیا تھا ، مگر بعد کی تحقیقات میں موساد کی ایک ہٹ ٹیم کی سی سی ٹی وی فوٹیج سے پردہ فاش ہوا۔۲۰۱۰ء اور ۲۰۲۰ء کے درمیان، تقریباً نصف درجن ایرانی جوہری سائنس دان پُراسرار انداز سے ہلاک یا زخمی ہوئے۔ایران کے چیف جوہری سائنس دان محسن فخر زادہ کو ۲۰۲۰ء میں تہران کے مضافات میں ایک قافلے میں گاڑی چلاتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ کچھ ایرانی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے سیٹلائٹ سے کنٹرول کرنے والی سنائپر رائفل کا استعمال کیا۔ ایسا ہی عمل اسماعیل ہنیہ کے ساتھ برتا گیا۔

خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی کے مظہر واقعات صرف امریکا اور ایران ہی میں نہیں ہوئے بلکہ ایسے واقعات بہت سے ممالک میں سامنے آتے رہتے ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کئی واقعات کی پیشگی اطلاعات بھی ہوتی ہیں، مگر ان کو وقوع پذیر ہونے دیا گیا۔ جس کی توجیہہ ابھی تک سامنے نہیں آرہی ہے۔

مثال کے طور پر ۲۶ جنوری ۱۹۹۵ء کو انڈیا کے یومِ جمہوریہ کی تقریبات جموں کے  مولانا آزاد اسٹیڈیم میں منعقد ہو رہی تھیں۔جموں و کشمیر کے اس وقت کے گورنر ، سابق آرمی چیف جنرل کے وی کرشنا راؤ نے پرچم لہرایا اور اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے خطے میں سیکورٹی فورسز کی کارکردگی کو سراہا اور انگریزی میں کہا کہ We have broken the backs of..... (’ہم نے کمر توڑ دی ہے‘....) ان کا یہ جملہ ادھورا ہی رہ گیا کہ گیٹ کے پاس اسٹیڈیم کی پارکنگ کی جگہ سے دھماکے کی آواز سے دھواں اُٹھا۔ سامعین کھڑے ہوگئے اور معلوم کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ کیا ہوا؟ کرشنا راؤ اسٹیج پر کھڑے رہے، اورلوگوں کو پُرسکون رہنے کی تلقین کی کہ’’کسی نے پٹا خہ چھوڑا ہے‘‘۔ اسی دوران ان کے دائیں جانب کے اسٹینڈ میں ، جس میں زیادہ تر اطلاعات اور دیگر محکموں کا عملہ بیٹھا ہوا تھا، دوسرا دھماکہ ہوا۔ انسانی اجسام کے چیتھڑے ہوا میں اُڑتے اور خون کے چھینٹے اُڑاتے ہوئے اسٹیڈیم کے گراؤنڈ کو سرخ بناگئے!

اس دوران نیشنل سیکورٹی گارڈ کے کمانڈوز، گورنر کو ایک گاڑی میں دھکیل کر بڑی برق رفتاری سے اسٹیڈیم سے باہر نکل گئے۔ وہ ابھی شاید گیٹ تک بھی نہ پہنچے ہوں گے، کہ تیسرا بم اسٹیج کے نیچے پھٹ گیا۔ وہ اسٹیج ، جس پر چند لمحے قبل گورنر تقریر کر رہے تھے، اس کے پُرزے اُڑ گئے۔ نفسا نفسی کے عالم میں اسٹیڈیم خالی ہوگیا۔ دھماکے کے نتیجے میں ۱۸؍ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔

برسوں بعد، دہلی میں ایک سیمینار میںخفیہ ایجنسی ’ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ‘ (RAW) کے سربراہ سی ڈی سہائے نے، جو اس وقت جموں و کشمیر میں ایجنسی کے کمشنر تھے، انکشاف کیا کہ اس حملے کے بارے میں ان کو علم تھا اور گورنر کو بھی اس کے بارے میں بتایا گیا تھا۔ ۲۵ جنوری ۱۹۹۵ء کی شام کوگورنر کرشنا راؤ نے سرحد پر تعمیر و ترقی و انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لیے سیکورٹی اداروں کی ایک میٹنگ بلائی تھی۔ وہ ایک روز قبل کرشنا گھاٹی کے دورے سے واپس آئے تھے۔وہ اسی طرح کا اسٹرکچر اپنی سائڈ میں بھی بنانے کے خواہش مند تھے۔ سہائے کا کہنا تھا کہ اس میٹنگ میں جانے سے قبل انھوں نے جموں میں اپنے دفتر کے اہلکاروں سے پوچھا کہ کوئی اطلاع یا کوئی ایسا ایشو تو نہیں ہے، جس کو گورنر کے ساتھ میٹنگ میں اُٹھایا جائے؟ لیکن انھوں نے جواب دیا: ’’سر! بس معمول کی انفارمیشن ہے‘‘۔

 چونکہ وہ فارغ ہی تھے، اس لیے انھوں نے اہلکاروں سے کہا کہ گورنر کے ساتھ پچھلی میٹنگ کے بعد کی جو فائلیں آئی ہیں، وہ ان کوپیش کی جائیں۔ یہ تقریباً ۱۳ فائلیں تھیں۔ جن میں چھ میں ۲۶جنوری کو مولانا آزاد اسٹیڈیم میں دھماکے اور گورنر کو ہلاک کرنے کی واضح اور تفصیلی اطلاعات موجود تھیں۔ حیرت کی بات یہ تھی، یہ سبھی فائلیں خود سہائے کے دستخطوں سے الماریوں کی نذر کی گئیں تھی۔ سہائے کا کہنا تھا کہ ’’جب میں نے یہ اطلاع گورنر کے ساتھ میٹنگ میں دی، تو وہاں سانپ سونگھ گیا۔ کسی نے تجویز دی کہ تقریب کی جگہ کو تبدیل کیا جائے۔ مگر گورنر نے پہلے خود اور پھر نئی دہلی میں خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان نے اس کو مسترد کیا اور دلیل یہ دی کہ اس سے ان کے اطلاع کے سورس کا قلع قمع ہو جائے گا۔ یوں طے ہوا کہ تقریب تو اسٹیڈیم میں ہی ہوگی، مگر بم ڈسپوزل اسکواڈ کو دوبارہ بلایا گیا کہ وہ باریک بینی کے ساتھ تلاشی لیں۔وہ رات بھر تلاشی لیتے رہے اور  صبح سویرے انھوں نے اسٹیڈیم کو محفوظ قرار دیا۔سہائے کے مطابق: ’’یہ بم پریڈ گراؤنڈ میں دو فٹ نیچے دبائے گئے تھے اور جاپانی پلاسٹک کے ٹائمر میں لپٹے ہوئے تھے۔ جس کو پولیس کے کتے سونگھ سکتے تھے اور نہ ایکسرے ان کا پتا لگا سکتا تھا‘‘۔ ریموٹ ٹرگر کو بعد میں برآمد کیا گیا۔معلوم ہو اکہ ریموٹ دبانے والے کوپہلے گورنر کے اسٹیج کے نیچے والا بٹن دبانا تھا، مگر اس نے پہلے تین نمبردبایا ، جس سے پارکنگ کا بم پھٹ گیا۔ یعنی اگر گورنر اسٹیج سے بچ جاتا، تو ریسکیو ہوتے ہوئے اسٹیڈیم کے اسٹینڈ کے بم نمبر دو کی ز د میں آجاتا اور اگر اس سے بھی بچ جاتا، تو گیٹ کے پاس والا بم کا م کردیتا۔

اسی طرح ممبئی میں ۲۶ نومبر ۲۰۰۸ء کی خوفناک رات کو کئی جانیں بچائی جا سکتی تھیں، اگر تاج محل پیلس ہوٹل انتظامیہ ٹاور لابی کے باہر پکیٹ پر کھڑے سکیورٹی گارڈز کو کھانا فراہم کرنے پر راضی ہوجاتی۔برطانوی تحقیقاتی صحافیوں ایڈرین لیوی اور کیتھی سکاٹ کلارک کے مطابق ۲۶؍ انٹیلی جنس الرٹ تھے۔ انتباہ اس قدر درست اور مخصوص تھے کہ ڈپٹی کمشنر آف پولیس وشواس نانگرے پاٹل نے اکتوبر ۲۰۰۸ء میں تاج محل پیلس ہوٹل کے عملے کے ساتھ ایک حفاظتی مشق کی تھی۔ تاہم، ان کے چھٹی پر جاتے ہی حفاظتی اقدامات کو ختم کر دیا گیا تھا۔ان صحافیوں کا کہنا ہے کہ انھیں رات ۱۰ بجے غیرسرکاری طور پر متحرک کیا گیا تھا، ۲۶نومبر کو، ممبئی میں پہلی گولیاں چلنے کے صرف ۲۲ منٹ بعد۔لیکن ۷۰منٹ بعد، انھیں کابینہ سکریٹری کے ایم چندر شیکھر اور بعد میں ایک جوائنٹ سکریٹری (داخلی سلامتی) نے بغیر احکامات کے متحرک ہونے کے خلاف خبردار کیا مگر واقعہ ہوگیا۔

اسی طرح، ۱۴ فروری ۲۰۱۹ء کو پلوامہ حملے کے بارے میں فرنٹ لائن کی طرف سے ایک سال تک جاری رہنے والی تحقیقات کے مطابق حملے کی پیش گوئی کرنے والی کم از کم گیارہ انٹیلی جنس اطلاعات تھیں۔ کشمیر کے گورنر، ستیہ پال ملک نے بعد میں انکشاف کیا کہ ’’مجھے کسی بھی حفاظتی ناکامی کے بارے میں خاموش رہنے کی ہدایت کی گئی ہے‘‘۔بڑا سوال یہ ہے کہ مکمل انٹیلی جنس ہونے کے باوجود ایسے حملوں کو کیوں نہیں روکا گیا؟ ان سوالات کے کوئی واضح جوابات نہیں ہیں۔

اسی طرح مجھے یا دہے کہ شاید یکم اکتوبر ۱۹۹۶ء کی صبح سرینگر سے حریت لیڈر سید علی گیلانی کے دفتر سے فون آیا اور انھوں نے کہا: ’’کیا آپ مجھے ایئرپورٹ تک چھوڑ سکتے ہیں؟ وہ ان دنوں علاج کی غرض سے دہلی میں تھے اور انھی دنوںجموںو کشمیر میں نو سال بعد اسمبلی کے انتخابات ہورہے تھے، جن کے بائیکاٹ کی انھوں نے اپیل کی تھی۔ اگلے روز شاید حریت کانفرنس کی کوئی میٹنگ ہونے والی تھی، جس کے لیے ان کو سرینگر بلایا گیا تھا۔ خیر میں نے ان کو ایئرپورٹ پر رخصت کردیا۔ جب وہ دہلی میں ہوتے تھے، تو دارلحکومت میں جموں و کشمیر کے خفیہ محکمے کے اہلکار ان کے ساتھ سائے کی طرح پیچھا کرتے رہتے تھے۔ یوں ان سے اب جان پہچان بھی ہوجاتی تھی۔ مگر ایئر پورٹ پر ایک اور شخص میرے پاس آکر بار بار ان کی فلائٹ کا نمبر ، وقت وغیر ہ پوچھ رہا تھا۔ میں نے خفیہ پولیس والوں سے پوچھا کہ ’’یہ شخص کس محکمے کا ہے؟‘‘ معلوم ہوا کہ وہ ان کے لیے بھی اجنبی تھا۔ ابھی موبائل فون کا زمانہ نہیں تھا۔ رات کو میری اہلیہ کو پتہ چلا کہ گیلانی صاحب تو سرینگر پہنچے ہی نہیں ہیں، کیونکہ سرینگر میں اس دن پرواز نہیں اُتر سکی۔ جہاز امرتسر میں اُتر گیا ہے اور مسافروں کو کسی ہوٹل میں ٹھہرایا گیا ہے۔

 اسی رات حیدر پور میں سیّد علی گیلانی صاحب کے گھر پر دو راکٹ داغے گئے۔ نشانہ اتنا زبردست تھا کہ یہ راکٹ دوسری منزل پر گیلانی صاحب کے بیڈ روم کی دیوار میں شگاف کرتے ہوئے، سیدھے اُن کے بیڈ کو، اڑا کر باتھ روم کو تباہ کرتے ہوئے دوسری دیوار سے نکل گئے۔ یعنی اسی بیڈ کو ان راکٹوں نے نشانہ بنایا، جس پر ان کو اس رات سونا تھا۔ مگر دہلی والے اس نامعلوم شخص کو شاید پتہ نہیں چل سکا تھاکہ جہاز سرینگر کے بجائے امرتسر میں اُتر گیا ہے۔ (یہ بالکل اسی طرح کی کارروائی تھی، جس طرح تہران میں اسماعیل ہنیہ کے کمرے کو تباہ کرکے ہلاک کیا گیا ۔ یعنی دیگر کمروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا)۔

اس دن حیدر پورہ کے مکان میں نیچے جو افراد سو رہے تھے، انھوں نے دھماکوں کی آوازیں تو ضرور سنیں ، مگر ان کو بھی پتا نہیں چل سکا کہ ان کی اُوپر والی منزل کو ہی نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان دنوں رات بھر کشمیر میں دھماکوں کی آوازیں آنا معمول کی بات تھی۔

جب تصویروں میں اس بلڈنگ کو جس میں اسماعیل ہنیہ کو نشانہ بنایا گیا، دیکھ رہا تھا، تو مجھے یہ واقعہ یاد آگیا۔ اس لیے نیویارک ٹائمز کی یہ کہانی کہ اس کمرے میں اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے بم رکھا تھا، مجھے ہضم نہیں ہوئی۔ بم تو پورے کمرے کو ہی اُڑا دیتا۔ یہ میزائل یا راکٹ کا حملہ تھا، جو بالکل ٹارگٹ پر لگا، اور فلسطین کا عظیم مزاحمتی قائد شہید ہوگیا۔

۱۹ مئی ۲۰۲۴ء کی دوپہر ایرانی صدر جناب ابراہیم رئیسی کو لے جانے والا ہیلی کاپٹر آذربائیجان کی سرحد سے متصل ارسباران پہاڑوں پر پرواز کے دوران لاپتہ ہوگیا۔ اس ہیلی کاپٹر میں صدر سمیت ایران کے وزیر خارجہ حسین امیرعبداللہیان اور دیگر اعلیٰ عہدے داران بھی سوار تھے۔ رئیسی، آذربائیجان کے صدر الہام علیوف کے ساتھ سرحد پر ایک ڈیم کے افتتاح میں حصہ لینے کے بعد واپس آرہے تھے۔ جہاں ہیلی کاپٹر گرا ہے، وہ ’خدافرین ڈیم‘ سے تقریباً ۱۲۰کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس حادثے میں صدر رئیسی سمیت تمام افراد جاں بحق ہوگئے۔  حادثے کے بعد بعض لوگ آذربائیجان کو موردِ الزام ٹھیرا رہے ہیں، کیونکہ اس خطے میں یہ اسرائیل کا اتحادی ملک ہے اورماضی میں آرمینیا کے خلاف جنگ میں اسرائیل نے اس کی بھر پور مدد کی تھی، جب کہ آرمینیا آرتھوڈوکس عیسائی ملک ہونے کے ناتے یہودیوں کا مخالف اور موجودہ صورت حال میں ایران کا اتحادی ہے۔

حال ہی میں خلیجی ریاست اومان میں ایران اور امریکا کے درمیان خفیہ مذاکرات کے دور شروع ہوچکے تھے۔ لیکن اس ناگہانی موت کے بعد یہ مذاکرات خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق امریکا کو ان مذاکرات کی ضرورت ۱۸ ؍اپریل ۲۰۲۴ء کے بعد محسوس ہوئی، جب ایرانی میزائلوں اور ڈرون طیاروں نے اسرائیل کو نشانہ بنایا۔ یاد رہے اس سے قبل اسرائیل نے دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر حملہ کرکے کئی ایرانی افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ ذرائع کے مطابق ان مذاکرات میں پیش رفت ہورہی تھی۔ دوسری چیز جو متاثر ہوئی وہ یہ کہ حالیہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی جانشینی کا معاملہ ہے۔ جس طرح ابراہیم رئیسی کو صدر بنایا گیا تھا، اس سے لگتا تھا کہ ان کو اس منصب کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔

اومان کے دارالحکومت مسقط میں مذاکرات کی سربراہی امریکی صدر بائیڈن کے مشرق وسطیٰ کے سینئر مشیر بریٹ میک گرک اور ایران کے نائب وزیرخارجہ علی باقری کر رہے تھے۔ لیکن ہیلی کاپٹر حادثے میں وزیر خارجہ کی ہلاکت کے بعد اب وہ قائم مقام وزیر خارجہ ہیں۔ مذاکرات تین موضوعات پر مرکوز تھے: اسرائیل میں حکومت کی تبدیلی کی مشترکہ خواہش، غزہ پر اسرائیل کی جنگ کا خاتمہ، اور تنازعے کو خطے میں اور زیادہ پھیلنے سے روکنا___  ایک اندازہ ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام اور تیل کی پابندیوں میں نرمی پر بھی بات چیت ہورہی تھی۔

صدر ابراہیم رئیسی کی موت کے بعد، ایران میں ۵۰دنوں کے اندر صدارتی انتخابات کرانا دستوری اعتبار سے لازم ہیں۔ غیر یقینی کے اس دور میں خارجہ پالیسی کے بڑے فیصلے کیے جانے کا امکان نہیں ہے۔ دوسری طرف امریکی صدارتی انتخابات نومبر میں ہونے والے ہیں۔

صدر رئیسی کی وفات کے بعد سب اہم مسئلہ ایران کے ۸۵ سالہ سپریم لیڈر آیت اللہ  علی خامنہ ای کی جانشینی کا ہے۔ ایران میں یہ ایک اہم اور طاقت ور عہدہ ہے، جو ملک کی سیکورٹی اور خارجہ پالیسی کی حتمی منظوری دیتا ہے۔ آئین کے مطابق ماہرین کی ۸۸ رکنی اسمبلی سپریم لیڈر کے جانشین کا انتخاب کرتی ہے۔ تاہم، خود اسمبلی کے ارکان کو ایران کی ’گارڈین کونسل‘ کے ذریعے پہلے جانچا اور پرکھا جاتا ہے، جو کہ ایک طاقت ور ۱۲ رکنی ادارہ ہے۔ یہ دستوری ادارہ انتخابات اور قانون سازی کی نگرانی کرتا ہے۔ ممکنہ جانشینوں کی فہرست کو انتہائی خفیہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ ممکنہ امیدواروں کو ایران کے دشمنوں خاص طور پر امریکا اور اسرائیل کی طرف سے خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ مگر ذرائع کے مطابق تین افراد یعنی موجودہ سپریم لیڈر کے بیٹے مجتبیٰ خامنہ ای، آیت اللہ خمینی کے پوتے حسن خمینی اور صدر ابراہیم رئیسی کو جناب خامنہ ای کے جانشین کے بطور شارٹ لسٹ کردیا گیا تھا۔ رئیسی کی موت کے تین روز بعد ہی اس اسمبلی نے ۲۱ مئی کو ایک بورڈ کا انتخاب کیا۔ جواگلے سپریم لیڈر کے لیے نام دوبارہ شارٹ لسٹ کرے گا۔

ماہرین کی اسمبلی نے جن افراد کو اس بورڈ کےلیے منتخب کیا ہے وہ ہیں، آیت اللہ محمد علی موحدی کرمانی، جو اس بورڈ کے مسندنشین ہوں گے۔ ان کی عمر ۹۳ سال ہے۔ آیت اللہ ہاشم حسینی بوشہری اس بورڈ کے نائب مسندنشین ہوں گے۔ دیگر ممبران میں آیت اللہ علی رضا عرفی، آیت اللہ محسن اراکی اورآیت اللہ عباس کعبی شامل ہیں۔ فی الحال نائب صدر محمد مخبر نے صدارتی اختیارات سنبھال لیے ہیں۔

 ابراہیم رئیسی سخت گیر دھڑے کے لیڈر مانے جاتے تھے۔ ۲۰۲۱ء میں جب و ہ ملک کے آٹھویں صدر منتخب ہوئے، تو گارڈین کونسل نے ان کا راستہ صاف کرنے کے لیے متعدد اصلاح پسند اور اعتدال پسند امیدواروں کو نااہل قرار دیا تھا۔ بطور ایک جج، رئیسی کو ۱۹۸۸ء کے متنازعہ عدالتی کمیشن میں اپنے فیصلوں اور پھر ۲۰۰۲ء میں حجاب نہ پہننے کی وجہ سے ایک خاتون مہسا امینی کی حراستی موت کے بعد برپا پُرتشدد مظاہروں اور ہنگاموں کو طاقت سے دبانے کے سبب کافی عالمی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ مظاہرے ۱۹۷۹ء میں انقلاب کے بعد ایران کی تاریخ کے سب سے بڑے اور طویل ترین مظاہروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ جن کے دوران مغربی میڈیا نے ہلاکتوں کے حوالے سے بہت مبالغہ آمیز اعداد و شمار دُنیا بھر میں پھیلا ئے تھے۔

صدر رئیسی کے دور صدارت کا سب سے بڑا کارنامہ ۲۰۲۳ء میں عوامی جمہوریہ چین کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے بعد سعودی عرب سے ایران کے تعلقات کو بحال کر نا تھا۔ سعودی عرب اور ایران کی باہمی چپقلش نے کئی عشروں سے مسلم دنیا کی وحدت کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا تھا۔  ان کے اس قدم نے مغربی ممالک خاص طور پر امریکی سفارت کاری کو ایسی مات دی ہے کہ جس کی بازگشت کئی برسوں تک سنائی دیتی رہے گی۔ اگرچہ امریکی خفیہ اداروں کو معلوم ہو گیا تھا کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان گفتگو چل رہی ہے، مگر ان کو امید تھی کہ جوہری معاملات پر ایران کے سخت گیر رویہ کی وجہ سے یہ تعلقات اتنی جلدی معمول پر نہیں آئیں گے۔ تاہم، ابراہیم رئیسی کے تدبّر نے عرب ممالک کو قائل کردیا۔ اس مفاہمت نے یمن اور شام میں امن مذاکرات کی راہیں کھول دیں، جہاں دونوں ممالک متحارب گروپوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق رئیسی نے خارجہ اُمور میں عملیت پسندی کو اپنایا۔ سعودی عرب کے ساتھ مفاہمت نے دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ بات چیت کی راہیں بھی کھول دیں۔

یہ سب اسی کا نتیجہ تھا کہ نومبر ۲۰۲۳ء میں، غزہ پر اسرائیل کی جنگ کے دوران،     شام کے صدر بشار الاسد اور صدر رئیسی دونوں نے سعودی دارالحکومت ریاض میں عرب لیگ کے ہنگامی اجلاس میں شرکت کی، اور اسرائیل کے خلاف مزید اقدامات کی وکالت کی گئی۔ رئیسی کی قیادت میں، ایران نے ممکنہ امریکی پابندیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے چابہار بندرگاہ کے معاہدے کو سرد خانہ سے نکال کر اس کا ایک ٹرمینل باضابطہ طور پر انڈیا کے حوالے کر دیا۔ ان دونوں ممالک نے اس اسٹرے ٹیجک بندرگاہ کو ترقی دینے اور چلانے کے لیے ۱۰ سالہ معاہدے پر دستخط بھی کردیئے۔ جس کے تحت انڈیا شہید بہشتی ٹرمینل کو اپنی تحویل میں لے گا اور اس کو جدید ترین بنانے کے لیے ۱۲۰ ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔

اپریل میں رئیسی نے پاکستان کا دورہ کیا۔ دونوں برادر ملکوں کے درمیان جنوری میں اس وقت سرحدی کشیدگی بڑھ گئی تھی، جب ایران نے سرحد پار سے پاکستان میں فضائی حملے کیے تھے، جس میں پاکستان کے دو بچے ہلاک ہو گئے تھے۔ ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق حملہ میں مسلح گروپ جیش العدل کے دو ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اگلے ہی روز پاکستان نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایرانی علاقے میں میزائل داغ دیئے اور تہران سے اپنے سفیر کو واپس بلالیا۔ پاکستانی سفارت کاروں کے مطابق ان حملوں کے فوراً بعد ہی صدر ابراہیم رئیسی کی خواہش پر ایرانی وزیرخارجہ تناؤ کو ختم کرنے کے لیے اسلام آباد آنا چاہتے تھے، مگر پاکستان نے ان کو انتظار کر نے کے لیے کہا۔ صدر رئیسی کے دورۂ پاکستان سے جلد ہی تعلقات دوبارہ پٹڑی پر آگئے۔

اسی طرح اگست ۲۰۲۳ء میں انھوں نے ایران اور امریکا کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کی منظوری دی۔ جس کی وجہ سے کوریا میں منجمد چھ بلین ڈالر تک ایران کی رسائی ہوگئی۔ اکتوبر ۲۰۲۳ء میں جب حماس نے اسرائیل کی طرف سے بنائی گئی سرحدوں کوعبور کر کے کئی فوجی ٹھکانوں پر یہودی بستیوں پر حملہ کیا، تو کئی ممالک نے ایران کو حماس کی مالی اور فوجی امداد و ٹریننگ فراہم کرنے کا ذمہ دار ٹھیرایا۔ مگر چند دن بعد، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ ’’اس بات کے ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملے ہیں‘‘۔ اس دوران اسرائیل نے ایران کو اس قضیہ میں شامل کرنے کی بھر پور کوشش کی، تاکہ ایران کا نام استعمال کرکے مغربی ممالک اور امریکا کو بھی اس جنگ میں شامل کرکے اس کا دائرہ وسیع کیا جائے، اور دُنیا کی توجہ غزہ سے ہٹ جائے۔ مگر ابراہیم رئیسی کی دانش مندی نے یہ دال گلنے نہیں دی۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے جب اسرائیل نے دمشق میں ایران کے موجود سفارت خانے کو نشانہ بنایا، اس کا جواب بھی خاصی دانش مندی سے دیا گیا۔ اس سے ایک طرف اسرائیل کو وارننگ دی، مگر جنگ کے دائرے کو وسیع کرنے کا جوا ز بھی نہیں دیا گیا۔ فلسطین کے مزاحمتی گروپوں کی ایران کی جانب سے مسلسل حمایت اور سفارتی و ابلاغی یک جہتی نے مشرق وسطیٰ اور عرب دنیا میں ایران کی قدرومنزلت اور اثر و رسوخ بڑھا دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں مصر اور دیگر عرب ممالک کو بھی فلسطینیوں کی مدد کے لیے عوامی سطح پر آگے آنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

ترکیہ کے ڈرون کا کردار

ترکی کے ڈرون طیارے نے صدر رئیسی کے لاپتا ہیلی کاپٹر کو تلاش کرکے پوری دنیا کی نگاہیں ترکیہ کے تیار کردہ ملٹری ڈرون پر مرکوز کر دی ہیں۔ ترکیہ کے وزیر ٹرانسپورٹ کے مطابق: ’’ایسا لگتا ہے کہ ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر میں یا تو ٹرانسپانڈر نہیں تھا، یا وہ کام نہیں کر رہا تھا‘‘۔ ٹرانسپانڈر کی وجہ سے جہاز اگر حادثہ کا بھی شکار ہو جائے یا سمندر کی گہرائیوں میں بھی پہنچ جائے، تو سگنل دیتا رہتا ہے۔ جب رات کو دیر تک ریسکیو ٹیم کو کوئی سگنل نہیں مل رہا تھا، تو ترکیہ کے ڈرون کو کسی گرم چیز کے سگنل ملے۔ اکنجی ڈرون، جو کہ ۴۰۰ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچنے اور کم رفتار سے علاقے کو مؤثر طریقے سے سکین (جانچنے) کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس نے مقامی وقت کے مطابق تقریباً ۱۲بج کر۴۵ منٹ پر ترکیہ کے شہر وان سے ایرانی فضائی حدود کو عبور کیا۔صبح ۲ بج کر۲۲ منٹ پر گرمی کے ایک منبع کا پتہ چلایا۔ جو ایک اہم اشارہ تھا، جسے ترکیہ کے حکام نے فوری طور پر ایرانی حکام تک پہنچا دیا۔ اس دریافت نے ملبے کے مقام کی توثیق کی، لیکن جب امدادی کارکن صبح ۵بج کر ۴۶منٹ پر جائے حادثہ پر پہنچے، تو وہاں کوئی فرد زندہ نہیں بچا تھا۔

گذشتہ برسوں میں ترکیہ کے ڈورنز نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا یا ہے۔جدید ترین ترک اکنجی ڈرون ۲۶ گھنٹوں تک محو پرواز رہ سکتا ہے اور چالیس ہزار فٹ کی بلندی حاصل کرسکتا ہے۔ اس لیے وہ بڑے پیمانے پر ایک وسیع علاقے کے اوپر خاصی دیر تک سرچ اور ریسکیو کر سکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت اور جدید ترین الیکٹرانک سسٹمز کی وجہ سے اکنجی کو موسم کے منفی حالات اور جنگی حالات میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کا فنی اور ٹکنالوجی کی سطح پر مقابلہ امریکی ریپر ڈرون کے ساتھ ہے۔ جو ستائیس گھنٹوں تک پرواز کرسکتا ہے اور پچاس ہزار فٹ کی بلندی حاصل کرسکتا ہے۔ مگر امریکی ڈرون زیادہ بھاری پے لوڈ نہیں لے جاسکتا ہے۔

ترکیہ کے دیگر ڈرونز نے حالیہ عرصے کی جنگوں میں شان دار کارکردگی کے مظاہرے کیے ہیں۔ آذربائیجان اور آرمینا کی جنگ میں اس نے میدان جنگ کا نقشہ ہی بدل دیا۔ اسی طرح لیبیا، ایتھوپیا اور یوکرین، روس کی جنگ میں بھی اس نے حریفوں کو مات دی۔ ترکیہ کی اس ڈرون ٹکنالوجی کے بانی سلجوک بائراکتر ہیں، جنھوں نے امریکا کی میسا چوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنالوجی (MIT) اور یونی ورسٹی آف پنسلوانیہ سے انجینئرنگ میں ڈگری حاصل کی ہے۔ ان کے والد نے ۱۹۴۸ء میں ہوائی جہازوں کی مرمت وغیرہ کی ایک فیکٹری قائم کی تھی۔ امریکا سے واپسی پر سلجوک نے اپنے فیملی بزنس کو سنبھال کر ڈرون ٹکنالوجی کو متعارف کروایا۔

سلجوک کا ایک اور تعارف یہ بھی ہے کہ وہ ترک صدر رجب طیب اردگان کے داماد ہیں۔ انھوں نے اردگان کی بیٹی سومیہ سے ۲۰۱۲ء میں شادی کی۔ اکثر مواقع پر یہ افواہیں گشت کرتی رہتی ہیں کہ وہ اردگان کے سیاسی جانشین ہو سکتے ہیں، مگر سلجوک نے کئی بار اس کی تردید کی۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایروسپیس انڈسٹری میں ترکیہ کو دنیا میں ایک اہم پاور بنانا چاہتے ہیں، حکومت میں شامل ہونا ان کی ترجیح نہیں ہے۔ یہ ڈورن اور ان کی فروخت اب ترکیہ کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم جز بن گئے ہیں۔ تقریباً ۳۰ ممالک کو ان ڈرونز کے مختلف ماڈل مہیا کیے جارہے ہیں۔ایران میں ہونے والے المناک واقعے نے بحرانی حالات میں ڈرون ٹکنالوجی کی جنگی اور تزویراتی اہمیت کو اُجاگر کیا اور دکھایا ہے کہ کس طرح یہ بغیر پائلٹ کے چھوٹے جہاز مشکل وقت میں ایک بڑے خلا کو پُر کر سکتے ہیں۔

یہ ۲۰۱۴ء کی بات ہے، انڈیا کے عام انتخابات کو کورکرنے کے لیے مَیں صوبہ بہار کے سمستی پور قصبہ میں گیا تھا۔ معلوم ہوا کہ ہوٹل کے سامنے ہی ایک مقامی منیجر کے کمرے میں قصبے کے سیاسی کارکن اور دانش ور شام کو جمع ہوتے ہیں، جہاں ایک مقامی کلب جیسا ماحول ہوتا ہے۔ سیاسی ماحول جاننے کے لیے میں بھی ان کے کلب میں پہنچا۔

نئی دہلی کے صحافی کی اپنے دفتر میں کوئی عزت و وقعت ہو یا نہ ہو، مگر دارلحکومت کے باہر قدم رکھتے ہی اس کا وقار خاصا بلند ہو جاتا ہے۔ اس کلب نما کمرے میں، پُرتپاک انداز سے میرا استقبال ہوا۔ ایک مقامی سیاسی کارکن نے گفتگو کے درمیان کہا کہ ’’اگر ان انتخابات میں نریندر مودی جیت جاتے ہیں، تو بھارت ہی نہیں، پوری دنیا میں آیندہ انتخابات کے لڑنے کا طریق کار ہی بدل جائے گا‘‘۔ مزید کہا: ’’یہ انتخاب روایتی طریقوں، انسانی احساسات اور ٹکنالوجی کے درمیان ایک جنگ ہے‘‘۔ دراصل ان انتخابات میں پہلی بار سوشل میڈیا اور ٹکنالوجی کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے ، مودی نے بہت سی افواہیں اور آدھا سچ پھیلا کر عوام کی ذہن سازی کرکے اکثریت حاصل کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔

اس نئی انتخابی حکمت عملی کے خالق تو بی جے پی کے لیڈر اور مودی کے گورو کیشو بائی پٹیل ہیں، جنھوں نے ۱۹۹۵ءمیں گجرات کے صوبائی انتخابات میں چھوٹے چھوٹے کیم کارڈرز کا استعمال کیا، جس کے لیے برطانیہ میں پارٹی کے ہمدرد افراد بڑی تعداد میں اپنے ساتھ یہ کیمرے لے کر آگئے۔ انتخابی مہم کے دوران وہ کیم کارڈرز ہاتھ میں لیے ریکارڈنگ کرتے نظر آتے تھے۔ ان کارڈوں نے انتخابی مہم میں ایسا رنگ ڈالا کہ کانگریس کی انتخابی مہم میں بھنگ پڑگئی اور تب سے اب تک اس صوبہ میں بی جے پی کی حکومت ہے۔

اسی طرح انتخابات میں ٹکنالوجی کے استعمال کو بہار کے ایک شہری پرشانت کشور نے ایک انتہا تک پہنچادیا۔ موصوف اقوام متحدہ کے صحت عامہ پراجیکٹ میں کام کرنے کے بعد ملک میں واپس آئے تھے۔ انھوں نے سڑکوں پر گاجے باجے کے بجائے، موبائل فونز پر ایس ایم ایس، اور دیگر پلیٹ فارمز کی مدد سے مہم چلاکر براہِ راست عوامی ذہنوں کو متاثر کرنے کا بیڑا ٹھایا۔ ان کی پہلی محدود مہم ۲۰۱۲ء میں اس وقت رُوبہ عمل آئی تھی، جب مودی، گجرات صوبہ کے تیسری مرتبہ وزیراعلیٰ منتخب ہوئے۔ ایک بار کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے مجھے بتایا تھا: کشور میری دریافت تھی جنھیں بھارت واپس آکر اپنے دفتر میں کام کرنے کی ترغیب دی تھی۔

کشور نے ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر مودی کے لیے کام کرکے قطعی اکثریت حاصل کروانے میں مدد دی اور پھر ایک سال بعد الگ ہوکر بہار میں نتیش کمار اور لالو پرساد یادو کے اتحاد کے لیے کام کرکے بی جے پی کو ہروا دیا۔

پرشانت کشور کے دوست شیوم شنکر سنگھ نے کتاب How to Win an Indian Election?  میں ایسے طور طریقوں کو بیان کیا ہے،جن سے موجودہ دور میں انتخابات کی جیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ سنگھ کا کہنا ہے کہ مودی کے لیے چائے بیچنے والا یا نچلے طبقہ سے تعلق رکھنے والا برانڈ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت بنایا گیا تھا۔ پھر آن گراؤنڈ اور آن لائن مہم کے مؤثر امتزاج سے کانگریس اور گاندھی خاندان کے خلاف ایک بھرپور منفی فضا پیدا کی گئی۔ ایسی فضا شاید ہی خودبخود بنتی ہو۔ عوامی ذہنوں کو اپنی گرفت میں لینے والے ایک آئیڈیا کے لیے بڑی محنت اور مسلسل تکرار درکار ہوتی ہے، جسے جدید ٹکنالوجی نے آسان بنا دیا ہے۔

شیوم سنگھ نے پرشانت کشور سے الگ ہوکر اپنی تمام مہارت بی جے پی کے سپرد کردی۔ سنگھ اور اس کے ساتھیوں کا سب سے بڑا کارنامہ ۲۰۱۸ء میں شمال مشرقی صوبہ تری پورہ کو کمیونسٹوں سے چھیننا قرار دیا گیا، جو اس صوبہ پر ۲۵برسوں سے بر سر اقتدار تھے۔ ۲۰۱۳ء کے اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی کو کل ووٹوں کا محض ۱ء۵۴ فی صد ووٹ حاصل ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ ریاست کے وزیر اعلیٰ سی ایم مانک سرکار نے ایک سادہ آدمی کی حیثیت سے صاف ستھرے اور مخلص ہونے کی مضبوط ساکھ بنا رکھی تھی۔ یہ انتخابات دو مخالف نظریاتی دھڑوں دائیں اور بائیں بازو کی جنگ تھی۔ ڈیٹا پر کام کرتے ہوئے سنگھ اور اس کی پارٹی نے ویژولائزیشن ٹولز بنانے پر توجہ مرکوز کی، نقشوں پر ڈیٹا پلاٹ کرنے اور بار گرافس اور چارٹس جیسے دیگر گرافیکل فارمیٹس تشکیل دیے۔ ایک پرائیویٹ کمپنی کے ساتھ مل کر ایک موبائل ایپ پر بھی کام کیا، جو ڈیٹا کو پارٹی رہنماؤں کے لیے آسان بناتا تھا۔ صوبہ کے قبائلی، کمیونسٹ حکومت سے نالاں ہیں۔ اس ناراضی اور پھر ڈیٹا کی بھر مار کا ایک ایسا مجموعہ حرکت میں لایا گیا ، جس نے کمیونسٹوں کو زچ کردیا اور بی جے پی کا ووٹ بینک ایک فی صد سے اُٹھا کر ۳۶ فی صد تک پہنچا دیا۔

سنگھ کا کہنا ہے کہ بی جے پی کے پاس پہلے سے راشٹریہ سیوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے کیڈر کی طاقت موجود ہے۔ آر ایس ایس نے ملک بھر میں ووٹر لسٹ کے ایک ایک صفحے پر انچارج تعینات کر رکھے ہیں۔ یہ انچارج ووٹر لسٹ کے ایک صفحے پر درج تمام ووٹروں کے درمیان رسائی اور مہم کا ذمہ دار ہوتا ہے، اور جو اوسطاً ساٹھ ناموں پر مشتمل ہوتا ہے۔ایک بار جب کسی پارٹی نے ووٹروں کی ذاتوں اور مذاہب کو انتخابی فہرست میں ان کے ناموں کے ساتھ کمپیوٹر کے سافٹ ویئر میں درج کرادیا، تو اگلا مرحلہ ان کے فون نمبر حاصل کرنے کا ہوتا ہے۔ یہ ڈیٹا بروکرز کے پاس سے دستیاب رہتا، جنھوں نے ممکنہ طور پر اسے ٹیلی کام کمپنیوں کے نچلے درجے کے ملازمین یا سم کارڈ ڈیلرز سے حاصل کررکھا ہوتا ہے۔

بھارت میں اس وقت ۵۳۵ملین واٹس ایپ صارفین ہیں۔ سنگھ کے مطابق مغربی ممالک کے برعکس بھارت میں دیہات کے سفر میں احساس ہوا کہ ووٹروں کا خیال ہے کہ سیاسی واٹس ایپ گروپ میں شامل ہونے سے انھیں کسی قسم کی اندرونی معلومات یا طاقت کے محور تک رسائی حاصل ہو گئی ہے۔چونکہ اس گروپ میں چند معتبر افراد بھی ہوتے ہیں، تو اس سے ان کو لگتا ہے کہ وہ مؤثر لوگوں کے قریب ہوگئے ہیں۔ اگر انھیں کسی معروف سیاسی لیڈر یا ورکر کے خلاف غلط بیانی موبائل پر ملتی ہے، تو وہ اس کو دلچسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ جھوٹے پراپیگنڈا کو پھیلانے کا یہ ایک انتہائی خطرناک رجحان ہے۔ ۲ستمبر ۲۰۱۸ء کو، ایک ٹویٹر صارف نے ایک غریب بھکاری کی ویڈیو ٹویٹ کی ، جس میں لکھا کہ ’اس کو مسلمانوں نے پیٹا ہے‘۔ ایک اداکارہ نے ۹۸ لاکھ فالوورز کے ساتھ اس خبر کو فارورڈ کرکے اعلان کیا کہ ’’جس شخص کی پٹائی کی جارہی ہے وہ ناگا سادھو سنیاسی ہے، جو ہندوؤں کے ایک طبقہ کے لیے نہایت ہی متبرک ہوتے ہیں‘‘۔اس کے بعد خدا کی پناہ، سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر افواہوں کا بدترین بازار گرم ہوگیا۔ ایک دن کے بعد تھانے کے ایس ایچ او اور دہرادون کے ایس ایس پی نے واضح کیا کہ ’’یہ شخص ناگا سادھو نہیں تھا بلکہ ایک عادی نشہ باز تھا ، جس نے ایک ہندو عورت کے ساتھ بدتمیزی کی تھی اور اس عورت کے بھائی نے اس کی پٹائی کی‘‘۔یعنی اس پورے واقعے میں کوئی بھی مسلمان ملوث نہیں تھا۔ مگر اس ویڈیو کلپ نے اُس وقت تک اپنا کام کر دیا تھا، تردید پڑھنے کی بھلا کسے فرصت؟

سنگھ کا کہنا ہے کہ ’’علاقائی پارٹیوں کو شکست دینے کے لیے ، بی جے پی نے ہندو ووٹ بینک کو تیار کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اس کے لیے بابری مسجد ، رام مندر کو بار بار یاد دلانا اور یہ پیغام دینا کہ رام مند ر کو ایک مغل جنرل میر باقی نے ۱۵۲۸ء میں توڑ کر مسجد بنائی تھی۔ کتاب کے مطابق: ’’بی جے پی نے اپنے آپ کو ایک ایسی پارٹی میں ڈھالا ہے، جو ہندو مقاصدکی آبیاری کرتی ہے اور اس میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمان ہے اور اپوزیشن ان کی خوشامد اور پذیرائی کرنے میں لگی ہوئی ہے‘‘۔ یہ کوئی حادثاتی نعرہ نہیں ہے، بلکہ بی جے پی کا انتخابی اور نسل پرستانہ برانڈ ہے۔

 ۲۰۱۷ء کے اتر پردیش قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے ایک بھی مسلم امیدوار کھڑا کیے بغیر ۴۰۰ میں سے ۳۲۵ سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔موجودہ انتخابات میں بھی پارٹی نے ایک ہی مسلم امیدوار کو کیرالا سے کھڑا کیا ہے، جو جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ انتخابات جیتنے کے لیے بی جے پی کو اپنا ہندو ووٹ بینک برقرار رکھنا ہے، کیونکہ پولرائزیشن میں اضافے سے ہی پارٹی کو انتخابی طور پر فائدہ ہوتا ہے۔مسلمانوں کے علاوہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانش وروں کو بھی دشمنوں کے زمرے میں رکھا گیا ہے اور وزیراعظم نریندرا مودی نے خود ان کے لیے ’اربن نکسل‘ اور ’ٹکڑے ٹکڑے گینگ‘ جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ بی جے پی کو اچھی طرح معلوم ہے کہ مثبت ایجنڈے پر وہ انتخابات جیت نہیں سکتی ہے۔ مگر اس کے سامنے عملی مشکل ہے کہ دو اہم ایشوز یعنی ’گائے‘ اور ’پاکستان‘ کو وہ ۲۰۱۴ء اور ۲۰۱۹ء میں کیش کرا چکی ہے ۔ اب لے دے کے ۲۰۲۴ء کے لیے ’مسلمان‘ بچا ہے۔ لوگوں کو اُمید تھی کہ شاید اس بار بی جے پی ترقی اور مثبت ایجنڈے کو لے کر میدان میں اترے گی، کیونکہ مسلمان والا ایشو کرناٹک کے حالیہ صوبائی انتخابات میں پٹ گیا تھا،جہاں ٹیپو سلطان سے لے کر حجاب وغیرہ کو ایشو بنایا گیا تھا ۔ یاد رہے مودی نے کئی انتہا پسند لیڈروں کو اس بار ٹکٹ نہیں دیے ، تاکہ خلیجی مسلم ممالک میں اپنی پارٹی کی شبیہہ کو تبدیل کرنے میں کامیابی ہو۔

تاہم، ابھی اچانک راجستھان میں نریندرا مودی نے جیسی زبان استعمال کی ہے، اور مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کی ہے، وہ سارے اندیشوں کو سچ ثابت کر رہی ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں یہ نفرت انگیز جملے بولتے ہوئے موصوف نے کہا ہے :’’اگرکانگریس اقتدار میں  آئی تو وہ بھارت کی دولت ’دراندازوں‘ میں تقسیم کردے گی، جو زیادہ سے زیادہ بچّے پیدا کرتے ہیں‘‘۔ مودی کی اس بات پر جلسے میں زوردار نعرے بلند ہوئے، تو نریندرا مودی نے جوش میں آکر یہ کہا:’’کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی محنت کا کمایا ہوا پیسہ دراندازوں کو دے دیا جائے، کیا آپ یہ قبول کرو گے؟‘‘کہنے کو تو یہ ایک دو جملے ہیں، لیکن زہر کی تلخی بڑھانے کا بڑا مؤثر ہتھیار بھی ہیں۔  اس چیز نے صرف انڈیا ہی نہیں بلکہ پوری دُنیا کے میڈیا اور سوشل میڈیا کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔

اس طرح یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ ۲۰۲۴ء میں انڈیا کا یہ الیکشن پولرائزیشن اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ہی لڑا جارہا ہے۔ یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ ابھی تک جن علاقوں میں پولنگ ہوئی ہے، وہ بی جے پی کی توقعات کے برعکس نتائج ظاہر کر رہی ہے۔ اس لیے اب ان کو لگتا ہے کہ لازمی طور پر ہندو ووٹروں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا کرکے ہی ان سے ووٹ بٹورے جاسکتے ہیں۔