افتخار گیلانی


بھارت میں عام انتخابات ۱۹؍اپریل سے شروع ہوں گے اور سات مرحلوں میں مکمل ہونے کے بعد ۴جون کو نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔ حکمران پارٹی کے لیے سب سے بڑا چیلنج جنوبی ہند میں اپنی پوزیشن محفوظ بنانا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ صرف ’شمالی انڈیا‘ کا لیڈر ہونے کا داغ مٹانا چاہتے ہیں۔ پھر یہ کہ جنوبی ہند بنیادی طور پر انڈیا کی معاشی قوت کا مرکز ہے۔ اگرچہ حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ہروقت ہی انتخابی مہم کی حالت میں رہتی ہے، مگر اس بار ۷مارچ کو سرینگر کے بخشی اسٹیڈیم میں عوامی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیراعظم نریند را مودی نے یہ عندیہ دے دیا کہ اس بار ہندستان میں ووٹروں کو لبھانے کے لیے ’کشمیر کارڈ‘ کا بھرپور استعمال کیا جائے گا۔ یاد رہے ۲۰۱۹ء کے انتخابات میں پاکستان کو سبق سکھانے کو انتخابی موضوع بنایا گیا تھا۔ ماضی میں بھی بھارت کے وزرائے اعظم سرینگر آتے رہے ہیں۔ مودی کے پیش رو من موہن سنگھ نے اپنے دس سالہ دو رِ اقتدار میں چار بار سرینگر کا دورہ کیا۔

مودی نے اس سے قبل ۲۰۱۵ء میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید، جن کی پیپلزڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ساتھ انھوں نے ریاست میں مخلوط حکومت بنائی تھی، کے ہمراہ سرینگر میں عوامی ریلی سے خطاب کیا تھا۔مگر اب کی بار خصوصیت یہ تھی، کہ اس خطے کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد ان کا سرینگر کا پہلا دورہ تھا۔ پھر یہ خالصتاً بی جے پی کی اپنی ریلی تھی۔

بھارت کی ملک گیر پارٹیوں میں ماضی میں اس طرح کی ریلیاں صرف کانگریس پارٹی ہی وزیراعظم اندرا گاندھی کے لیے اپنے بل بوتے پر کشمیر میں منعقد کراتی تھی۔ ان کے بعد راجیو گاندھی سے لے کر ڈاکٹر من موہن سنگھ تک ، جن وزرائے اعظم نے سرینگر میں کسی ریلی سے خطاب کیا ہے، ان کومقامی پارٹیوں: نیشنل کانفرنس یا پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے ان کے لیے منعقد کیا تھا۔ اندرا گاندھی نے ہمارے قصبے سوپور میں بھی دو بارعوامی جلسے سے خطاب کیا ہے۔۱۹۸۳ء میں کانگریس نے جب ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی نیشنل کانفرنس کے خلاف انتخابات میں پوری طاقت جھونک دی تھی، تو اس انتخابی مہم کی کمان وزیر اعظم اندرا گاندھی نے خود ہی سنبھالی تھی، اور ایک کھلی جیپ میں ہمارے گھر کے سامنے سے ہی گذر کر جلسہ گاہ میں پہنچی تھیں۔

نریندرا مودی کی ریلی کے بارے جموں و کشمیر روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کے ایک عہدے دار نے اعتراف کیا کہ ’’شرکا کو لے جانے کے لیے ۹۰۰ سرکاری بسوں کا انتظام کیا گیا تھا‘‘۔ اس سے قبل، یہ اطلاع بھی دی گئی تھی کہ ’’تقریباً ۷ہزار سرکاری ملازمین، اساتذہ اور جموں اینڈ کشمیر کے بینک کے عملے کو ریلی میں لازمی شرکت کا حکم دیا گیا تھا۔ انھیں فجر سے پہلے مختلف مخصوص جگہوں پر جمع ہونے کو کہا گیا تھا، جہاں سے ان کو بسوں میں لاد کر اسٹیڈیم پہنچایا گیا تھا۔ ان میں سے ۱۴۵بسیں بارہمولہ ضلع سے لوگوں کو جلسہ گاہ تک پہنچانے کے لیے وقف کی گئی تھیں۔

جس طرح ماضی میں اندرا گاندھی کو یہ شوق چرایا تھا کہ مسلم اکثریتی علاقہ وادیٔ کشمیر سے سیٹیں جیت کر ایک طرح کا پیغام دیا جائے، اسی راستے پر مودی چل رہے ہیں۔ وادیٔ کشمیر میں جگہ بنانے کے لیے کانگریس بھی اپنی بھر پور طاقت جنوبی کشمیر یعنی اننت ناگ کی سیٹ حاصل کرنے کے لیے لگاتی تھی، بی جے پی بھی اسی سیٹ کو حاصل کرنے کے لیےپر تول رہی ہے۔

۱۹۸۷ء کے دھاندلی زدہ انتخابات کے بعد یہاں کے عوام کا جمہوری نظام پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے اور ووٹر ٹرن آوٹ عدم دلچسپی اور آزادی پسند پارٹیوں کے بائیکاٹ کال کی وجہ سے  بہت ہی کم ہوتا آیا ہے ۔ مگر پھر بھی ماضی میں حکومتی عہدوں پر جو افراد براجمان ہوتے تھے، وہ کسی حد تک ان کے مسائل سے آگاہ ہوتے تھے۔ لیکن ۲۰۱۸ءکے بعد سے یعنی پچھلے سات سال سے جموں و کشمیر کی انتظامیہ کو مرکزی بیور کریسی چلا رہی ہے۔ اس وقت ۲۰ اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں میں سے صرف آٹھ ہی مقامی ہیں۔ خطے کے ۱۱۲؍اعلیٰ پولیس افسران میں صرف ۲۴مقامی ہیں۔

جموں و کشمیر کی چھ پارلیمانی نشستوں میں تین وادیٔ کشمیر ، دو جموں اور ایک لداخ کے لیے مختص کی گئی تھیں۔ چونکہ اب لداخ کو علیحدہ کر دیا گیا ہے، اس لیے یہ سیٹیں اب پانچ ہی رہ گئی ہیں۔ ۲۰۱۸ء میںہونے والے پنچایتی انتخابات کا نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی نے بائیکاٹ کیا تھا۔ کیونکہ وہ وزیر اعظم سے دفعہ۳۷۰ ، اور ۳۵-اے کو برقرار رکھنے کی یقین دہانی چاہتے تھے۔ اس وجہ سے بی جے پی نے غیر متعلقہ افراد کو کھڑا کرکے اور ان کو جتوا کر سیاسی کارکنوں کی ایک نئی کھیپ تیار کرلی،  جو اب ان کو چیلنج دے رہے ہیں، گو کہ ان میںسے کئی تو مزاحیہ کردار لگتے ہیں۔

اس وقت دو بڑی مقامی پارٹیوں کے علاوہ سید الطاف بخاری کی ’اپنی پارٹی‘، غلام نبی آزاد کی ڈیموکریٹک آزاد پارٹی اور سجاد غنی لون کی پیپلز کانفرنس بھی میدان میں ہے۔ سابق ممبر اسمبلی انجینئر رشید، جو پچھلے پانچ برسوں سے دہلی کی تہاڑ جیل میں ہیں، کی عوامی اتحاد پارٹی بھی انتخابات میں اُترنے کا عزم رکھتی ہے۔ گویا بی جے پی سمیت سات پارٹیاں انتخابات میں قسمت آزمائی کریں گی۔

چونکہ بی جے پی جنوبی کشمیر یعنی اننت ناگ سیٹ پر نظریں جمائے ہوئے ہے، اس لیے حدبندی کمیشن کے ذریعے اس کا حلیہ تبدیل کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ اس میں اب جموں ڈویژن کے دو اضلاع یعنی راجوری اور پونچھ کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ دونوں اضلاع اس سے قبل جموں،توی سیٹ کا حصہ ہوتے تھے۔ ریاسی ضلع کو ادھم پور سیٹ سے الگ کر کے جموں حلقے میں شامل کیا گیا ہے۔

اسی طرح شوپیاں کو جو جنوبی کشمیر کے بالکل وسط میں ہے، سرینگر کی سیٹ کے ساتھ ملایا گیا ہے۔ اس کا سرینگر حلقہ کے ساتھ زمینی رابطہ ہی نہیں ہے۔ اننت ناگ کو راجوری پونچھ سے ملانے کا واحد ذریعہ شوپیاں کے راستے مغل روڈ ہے اور یہ راستہ سردیوں میں بند رہتا ہے ۔ کسی بھی امیدوار کو اس انتخابی حلقہ کے پیر پنچال کے دوسری طرف کے علاقوں کی طرف انتخابی مہم کے لیے جانا ہو، تو پہلے ڈوڈہ، پھر ادھم پور او ر پھر جموں یعنی تین اضلاع کو عبور کرکے اپنے حلقہ کے دوسری طرف پہنچ سکتا ہے۔

 جنوبی کشمیر واحد ایسا خطہ ہے، جو خالصتاً کشمیری نژاد نسل پر مشتمل تھا۔ ورنہ چاہے وسطی کشمیر ہو یا شمالی کشمیر ، اس میں دیگر نسل کے افراد بھی آباد ہیں۔ اب پونچھ ، راجوری کو شامل کرکے اس میں گوجر اور پہاڑی آبادی کو شامل کیا گیا ہے، تاکہ کشمیری آبادی کے اثر و رسوخ پر روک لگائی جاسکے۔ اعداد و شمار کے مطابق اب اس حلقے کی کُل ۲۶لاکھ ۳۱ہزار کی آبادی میں ۱۴لاکھ ۸۰ہزار کشمیری یعنی ۵۶ء۲۵فی صد، گوجرو بکروال ۸۱ فی صد، پہاڑی ۸۴ فی صد، ڈوگرہ۴۷ فی صد اور پنجابی ۴۹ فی صد ہوں گے۔

بی جے پی کو یقین ہے کہ حال ہی میں پہاڑی آبادی کو شیڈول ٹرائب (ST) کی فہرست میںشامل کرنے سے یہ آبادی یکمشت اس کے امیدوار کو ووٹ دے گی۔ پہلے یہ سہولت صرف گوجربکروال کمیونٹی کو ہی مہیا تھی، جو پس ماندہ قوم تصور کی جاتی تھی۔ اس سہولت کی وجہ سے پہاڑی کمیونٹی ، جو جموں و کشمیر کی آبادی کا ۷فی صد یعنی کل ۷ء۹ لاکھ ہیں، کے لیے اسمبلی، ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں نشستیں مخصوص ہوں گی۔ مگر اس کی وجہ سے گوجر بکروال کمیونٹی ناراض ہے، کیونکہ ابھی تک وہ اکیلے ہی ان نشستوں کی دعوےدار تھی۔

مگر اس سب کے باوجود اور جموں و کشمیر میں ’امن و امان کی بحالی‘ کے بلندبانگ دعوئوں کے باوجود اسمبلی کے انتخابات نہیں ہوں گے۔ چیف الیکشن کمشنر راجیو کمار کا کہنا ہے: ’’اگرچہ سب سیاسی پارٹیوں نے لوک سبھا کے ساتھ ہی یہاں کی اسمبلی کے انتخابات کرانے کی وکالت کی تھی، مگر سیکورٹی اداروں نے اس کی مخالفت کی ہے‘‘۔ان کا کہنا ہے کہ ’’نئی حدبندی کے مطابق جموں و کشمیر  کی ۹۰نشستوں کے لیے تقریباً ایک ہزار اُمیدوار ہوں گے، اور سیکورٹی فورسز کی اضافی ۵۰۰ کمپنیوں کی ضرورت ہوگی‘‘۔

کشمیر میں زمینی حقیقت یہ ہے کہ سبھی روایتی سیاسی قوتوں کی ایک طرح سے زبان بندی کرکے ان کو بے وزن کر دیا گیا ہے اور کشمیر میں واقعی قبرستان کی سی خاموشی کا ماحول مسلط کردیا گیا ہے۔ اگر اطمینان کی خاموشی درکار ہے، تو اس کے لیے سیاسی عمل کے ساتھ سیاسی زمین بھی واپس دینی ہوگی، اور مسئلہ کے دیرپا حل کے لیے بین الاقوامی کوششیںبھی کرنا پڑیں گی۔

امریکی ریاست پنسلوینیا کی سٹنفرڈ یونی ورسٹی سے پروفیسر حفصہ کنجوال کی حال ہی میں شائع شدہ کتاب Colonizing Kashmir ایک اہم تحقیقی اضافہ ہے۔یہ کتاب ۱۹۵۳ءکے بعد کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے، جب جموں وکشمیر کے پہلے وزیر اعظم (ان دنوں وزیر اعلیٰ کے بجائے وزیر اعظم کہلاتا تھا) شیخ عبداللہ کو برطرف اور گرفتار کرکے بخشی غلام محمد کو مسند پر بٹھایا گیا تھا، جو اگلے دس سال تک اقتدار میں رہے۔ ان کا واحد مقصد کشمیریوں کو چانکیہ کے سام ، دام، ڈنڈ اور بھید کے ذریعے رام کرنا یا سبق سکھانا تھا، تاکہ وہ رائے شماری یا جمہوری حقوق کے مطالبہ سے دستبردار ہوکر بھارتی یونین میں ضم ہونے کے لیے تیار ہوجائیں یا کم از کم اس کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کے قابل نہ رہ جائیں۔ اس کتاب کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے ، کہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کے بعد اُوپر تلے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں، کم وبیش اسی طرح کے اقدامات ، جن میں مقامی آبادی کو محصور کرنے، میڈیا پر قدغن اورمفت یا کم قیمت پر چاول فراہم کروانا وغیر ہ شامل رہے ہیں، بخشی دورِ حکومت میںبھی کشمیر میں آزمائے گئے ہیں۔ کتاب پڑھ کر لگتا ہے کہ جیسے مصنف نے موجودہ دور کی ہی عکاسی کی ہے۔

مصنفہ نے بتایا ہے کہ جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق میں کلیدی کردار ادا کرنے پر، جب شیخ عبداللہ کو وزیر اعظم بنایا گیا، تو ۱۹۴۹ء ہی میں وہ بھارتی حکمرانوں کے رویہ سے دلبرداشتہ ہو چکے تھے۔ ان کو لگتا تھا کہ نہرو کے سیکولرزم کے بعد کشمیریوں اور مسلمانوں کا جینا بھارت میں دوبھر ہونے والا ہے۔ دوسری طرف جواہر لال نہرو ان کو بار بار تاکید کررہے تھے کہ ’’آئین ساز اسمبلی کے ذریعے مہاراجا کے دستخط شدہ الحاق کی توثیق کروائیں، جس کو شیخ ٹال رہے تھے۔ ۱۹۵۳ءتک بھارتی لیڈروں بشمول شیخ کے انتہائی قریبی دوست نہرو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور ۹؍اگست کو رات کے اندھیرے میں جب شیخ صاحب، گلمرگ سیر و تفریح کرنے کے لیے گئے تھے، ان کو معزول اور گرفتار کرکے زمام اقتدار بخشی غلام محمد کے سپرد کر دی گئی۔ جس کو آج تک کشمیری بکائو اور غدار کے نام سے یاد کرتے ہیں، اگرچہ تعمیر و ترقی کے حوالے سے بخشی کا دور امتیازی رہا ہے۔

پروفیسر حفصہ کا کہنا ہے: ’’سری نگر کی حضرت بل درگاہ کے قریب واقع نسیم باغ کے قبرستان جہاں شیخ عبداللہ کی قبر ہے ، رات دن پولیس کے دستے حفاظت کرتے ہیں۔کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کے چیمپئن ہونے ا ور جیل جانے کے باوجود، ۱۹۹۰ءکے عشرے میں جب مسلح عوامی بغاوت شروع ہوئی تو شیخ عبداللہ کی قبر کی حفاظت ایک مسئلہ بن گئی۔ کشمیر کی نئی نسل نے ان کو نئی دہلی کے ساتھ ۱۹۷۵ء کے معاہدے کے لیے معاف نہیں کیا۔ اس کے برعکس سرینگر کے مرکز میں واقع میر سید علی ہمدانی یا شاہ ہمدان کی خانقاہ کے احاطہ سے ذرا دور بخشی غلام محمد کی قبر ہے، جس کی حفاظت کے لیے انتظامیہ کو کبھی پولیس کی مدد نہیں لینی پڑی۔ شاید کسی کو اس قبر کے بارے میںمعلوم بھی نہیں ہے۔

کتاب کے مطابق ۱۹۵۲ء میں نہرو نے شیخ کو ایک خط میں بتایا تھا کہ: دستاویز الحاق کی آئین ساز اسمبلی میں توثیق کرنا ضروری ہوگئی ہے، کیونکہ بیرونی طاقتیں ، جمو ں و کشمیر میں استصواب رائے کروانے پر دباؤ ڈال رہی ہیں اور اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی قانونی اور عوامی تائید پر مبنی دستاویز کی ضرورت ہے۔ چونکہ آئین ساز اسمبلی عوامی ووٹ سے منتخب ہوئی ہے، اس لیے عوام کے منتخب نمایندوں کے ذریعے کی گئی توثیق کو بھارت رائے شماری کے متبادل کے بطور پیش کرے گا___ مگر جب شیخ نے ان کو یاد دلایا: ’’ رائے شماری کے حوالے سے آپ نے جو وعدے مختلف فورموں پر کیے ہیں ، تو ان کا کیا ہوگا؟‘‘ تو نہرو نے بتایا: ’’ وادیٔ کشمیر اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے لوگ، اگرچہ ذہین اور ہنر مند ہیں، وہ کسی قسم کے تشدد اور غیض و غضب سے دُور رہنے والے ہیں۔ وہ (کشمیری) نرم مزاج کے مالک اور آسان زندگی گزارنے کے عادی ہیں۔ عام لوگ بنیادی طور پر چند چیزوں میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔ایک ایماندار انتظامیہ، سستی اور مناسب خوراک‘‘۔ چونکہ یہ قوم صدیوں سے قحط اور کم خوراک کی شکار رہی تھی، نہرو کا کہنا تھا: ’’اگر وہ یہ حاصل کرتے ہیں، تو وہ کم و بیش مطمئن رہیں گے اور حقِ خود ارادیت اور رائے شماری کو بھول جائیں گے‘‘۔ نہرو کی اسی منطق کو اگلے دس سال تک بخشی غلام محمد نے اپنی حکومت کی اساس بنادیا۔

بخشی غلام محمد ۲۰ جولائی ۱۹۰۷ء کو سری نگر کے مرکز میں صفاکدل نامی محلے میں پیدا ہوئے۔ اپنے چچا کی مالی مدد سے، بخشی نے مقامی عیسائی مشنری اسکول میں تعلیم توحاصل کی،مگر آٹھویں جماعت مکمل کرنے کے بعد اسکول چھوڑ دیا۔ اپنی تحقیق کے دوران پروفیسر حفصہ نے  کئی ایسی کہانیاں ریکارڈ کیں ہیں، جن میں بتایا گیا کہ بخشی سڑک پر گاڑی کھڑ ی کرکے لوگوں کو بلا کر ان کی استعداد معلوم کرتے تھے، جونہی معلوم ہوتا تھا کہ مذکورہ شخص کسی طرح پڑھا لکھا ہے، تو وہیں پر تقرر کا پروانہ تھما دیتے تھے۔ تقرر کے پروانے لکھنے کے لیے وہ کاغذ ڈھونڈنے کا تکلف بھی نہیں کرتے تھے۔ کبھی ماچس کی ڈبیہ پر اور تو کبھی سگریٹ کے پیکٹ کے کاغذ کو پھاڑ کر اسی پر متعلقہ محکمہ کو اس شخص کے تقرر کا حکم صادر کردیتے تھے۔ انھوں نے ہفتہ وار اپنے دفتر میں عام لوگوں سے ملاقات کا اہتمام بھی کیا ہوا تھااور موقع پر ہی انتظامیہ کو حکم دے کر اس کا فالو اَپ بھی کرتے تھے، جب تک سائل کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تھا۔

اپنے دور میں شیخ عبداللہ نے بھارتی حکومت سے فنڈز لینے میں احتیاط برتی تھی۔ ان کے دور میں کشمیر جانے کے لیے پرمٹ لینا پڑتا تھا۔ اسی طرح کسٹم کا سسٹم قائم تھا۔ جس سے ریاست کو آمدن ہو جاتی تھی۔وہ کشمیریوں کو باور کرارہے تھے کہ وہ چاول کھانا ترک کرکے آلو کو بطور غذا اپنائیں، کیونکہ چاول درآمد کرنے پڑتے تھے۔ مگر جب اپنے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے بخشی نے نئی دہلی سے مالی امداد طلب کی تو ان کو بتایا گیا کہ الحاق کی توثیق کے بعد ہی وہ مالی امداد فراہم کرسکتے ہیں۔ رائے شماری کے کسی بھی امکان کو روکنے کے لیے، فروری ۱۹۵۴ء میں، بخشی نے قانون ساز اسمبلی سے ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کی توثیق کرنے کی قرارداد پیش کی، جس کو منظور کرکے معاشی طور پر کشمیر کو بھارت کے ساتھ ضم کیا گیا۔

بخشی کو احساس تھا، کہ کشمیر ی عوام کو قابو میں رکھنے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ گرفتاریوں اور سخت نگرانی وغیرہ کے ساتھ ساتھ خطے کو معاشی خوش حالی فراہم کرنے کے علاوہ عوام کو ثقافتی سطح پر مصروف بھی رکھا جائے، جس کے لیے ہر سال جشنِ کشمیر منانے کی روایت قائم ہوئی اور تقریباً ہر نئے دن فلمی اداکاروں کو کشمیر کے دورے کرائے جاتے۔ خوراک کی رعایتی قیمت بخشی کا ایک بڑا کارنامہ تھا، جس کی وجہ سے اس کو اب بھی یاد کیا جاتا ہے۔ کشمیر کے ایک معمر صحافی پران ناتھ جلالی نے ایک بار راقم کو بتایا کہ وہ شیخ عبداللہ سے جیل میں ملاقات کے لیے گئے، تو انھوں نے شکوہ کیا کہ ’’کشمیریوں کا پیٹ بخشی نے چاولوں سے بھر دیا ہے۔ وہ مجھے بھول گئے ہیں اور مجھے جیل میں سڑنے کے لیے چھوڑدیاہے‘‘۔ قانون ساز اسمبلی سے الحاق کی توثیق کرواکے بخشی کا کام دنیا کو باور کروانا تھا کہ ’’کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے اور عوا م نے تبدیلی کو تسلیم کرلیاہے‘‘۔

مصنفہ کے مطابق کشمیر کے تناظر میں نارملائزیشن کا مطلب یہ تھا کہ ریاست کا سیاسی اور اقتصادی فائدہ بھارتی یونین میں ضم ہونے میں ہی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم کے شعبہ میں اسکول و کالج کی ٹیکسٹ کی کتابوں میں سیکولرزم پر ازحد زور اور کشمیر اور بھارت کے درمیان زمانہ قدیم کے رشتوں کا بار بار ذکر کرنا اور کشمیر کو ہندو دیوی دیوتاؤں کا مسکن قرار دینا، اسی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ بخشی دور، کشمیر میں بدعنوانی کے لیے بھی بدنا م ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اگر کوئی بخشی دور میں دولت حاصل نہیں کرسکا تو وہ کبھی نہیں کرسکتا ہے۔کہتے ہیں کہ کسی ٹھیکے دار کو ایگزیکٹو انجینیر نے بطور رشوت کسی مخصوص قالین کی فرمایش کی۔ قالین توٹھیکے دار نے فراہم کرادیا، مگر اس نے تہیہ کیا کہ اس انجینیر کی شکایت بخشی سے ضرور کرے گا۔ جب ملاقات کا وقت لے کر مقررہ وقت پر وزیراعظم کی رہایش گاہ پر پہنچا تو دیکھا کہ وہی قالین وہاں بچھا ہو ا تھا۔

تعمیر وترقی اور خوراک کی خریداری میں رعایت کے علاوہ بخشی نے اپنی ایک فورس پیس بریگیڈ کے نام سے بناکر انٹیلی جنس کا ایک وسیع نیٹ ورک ترتیب دیا تھا۔ ان کا کام مخالفین کی سن گن لینا، ان پر حملہ یا ہراساں کرنا ہوتا تھا۔ اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ پیس برگیڈمیں گلی محلے کے غنڈوں کو بھرتی کردیا گیا تھا۔ وہ مخالفین کے منہ میں گرم آلو ڈالنے، ان کے سینے پر بھاری پتھر رکھنے اور گرم لوہے سے داغدار کرنے کے لیے مشہور تھے۔ان کو مقامی زبان میں خفتن فقیر یا رات کے بھکاری کے نام سے جانا جاتا تھا، کیونکہ عشاء کی نماز کے بعد وہ گشت کرکے معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے، کہ کوئی ریڈیو پاکستان تو نہیں سن رہا ہے۔ ایسے شخص کا ریڈیو ضبط ہوتا تھا اور اس کو گرفتار کیا جاتا تھا یا مارپیٹ کر چھوڑا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ علیحدہ سرکاری ملیشیا بھی بنائی گئی تھی، جن کا کام شیخ عبداللہ کے حامیوں سے متعلق خفیہ معلومات حاصل کرنا تھا۔ یہ خاص محلوں کو کنٹرول کرتے تھے، اور ان کو کشمیری میں گوگہ کہتے تھے۔

ان دونوں میلیشاز کی وحشت زدگی کی داستانیں جب نئی دہلی پہنچیں، تو اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ، گووند بلبھ پنت نے بخشی سے ان کی سرگرمیوں کے بارے میں سوال کیا۔ میرقاسم، جو کشمیر کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور بخشی حکومت میں وزیر تھے، ان کے مطابق،بخشی نے پنت کو بہلانے کی کوشش کرتے ہوئے بتایا کہ جب یہ دونوں گروپ غیر مسلح ہیں، تو کیسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو سکتے ہیں؟ بھارتی وزیر داخلہ نے بتایا کہ سرکاری سرپرستی میں پلنے والا ایک غنڈا، ہزاروں لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنا سکتا ہے۔مگر کتاب کے مطابق اس کے تحفظات کے باوجود بھارتی حکومت نے بخشی کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی اور کبھی ان گروپوں کو لگام نہیں ڈالی گئی۔

مصنفہ کے مطابق نہرو، کشمیر کو ایک خوب صورت عورت کے ساتھ تشبیہہ دیتے تھے، جو ’اُمیدوں اور خواہشات‘ کو بھڑکاتی ہے اور اس کے کئی عاشق ہیں۔ ان کے مطابق کشمیر کی یہ جنسی تصویر کشی، بھارت میں آج کل زیادہ ہی زور و شور کے ساتھ کی جا رہی ہے۔ ۵؍ اگست ۲۰۱۹ء کے اقدامات کے بعد تو کئی لیڈروں نے بیانات داغے جن کے مطابق کشمیر کے تصور کو ایک نسائی جنت کے طور پراُبھارا جاتا ہے، جس کو دریافت کرنا اور جس کے اندر جگہ بنانا ضروری ہے۔ جنسی زبان کا استعمال کرکے کشمیرکے پہاڑوں اور مناظر کو نسوانی حوالہ بنا دیا گیا ہے۔ مصنفہ کا استدلال ہے، خواتین کے اجسام کے ساتھ کشمیر کے منظر نامہ کا موازنہ کرنا اور پھر بھارتی فوج کی مردانگی بیان کرنا، جو ان مناظر اور وادیوں کو پاؤں تلے روندتے رہتے ہیں، ایک طرح کے تعصب اور غیض و غضب کی نشاندہی کرتا ہے۔

یہ کتاب ان واقعات اور پالیسیوں کا ایک جامع تجزیہ پیش کرتی ہے، جو اس نازک دور میں کشمیر میں رُونما ہوئے۔کتاب کا مرکزی موضوع سیاست ہے کہ اس سیاست کو کس طرح کشمیری باشندوں کے روزمرہ کے معمولات ، بشمول روزگار، خوراک، تعلیم اور بنیادی خدمات سے متعلق مسائل کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے۔ یہ طے کردیا گیا ہے کہ اگر کوئی کشمیری روزگار یا زندگی کے مسائل کے لیے جدو جہد کرتا ہے یا اس کا طالب ہوتا ہے ، تو اس کو حقِ خود ارادیت سے دستبرداری یا ہتھیار ڈالنے سے تشبیہہ دی جاتی ہے۔ جس سے ایک پیچیدہ اور اکثر متضاد منظر نامہ پیدا ہوجاتا ہے۔ کنجوال نے ان طریقوں کا بھی جائزہ لیا ہے جن میں بخشی دور میں کشمیر میں بھارت کے کنٹرول کومضبوط کرنے کے لیے ’سیکولر‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ اسی کے ساتھ مسلم تاریخ کو مٹانے اور ’اچھے‘ مسلم اور ’بُرے‘ مسلم کے فرق کو واضح کیا گیا۔

پروفیسر حفصہ کی یقینا یہ ایک چونکا دینے والی تحقیق ہے۔یہ کتاب نوآبادیاتی اور مابعد نوآبادیاتی قوم کی تشکیل کے روایتی دہرے معیار کو چیلنج کرتی ہے۔ اس کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ اس وقت بھی بھارتی حکومت کشمیر میںپرانے آزمائے ہوئے طریقوں ہی کو ٹھونس رہی ہے۔ یہ سبھی اقدامات بخشی دور کی طرح تاریخ کے اوراق میں گم ہو جائیں گے۔ بخشی کے دس سالہ اقتدار کے بعد ۱۹۶۳ء میں حضرت بل میں موئے مقدس کی گم شدگی کو لے کر جب کشمیر اُبل پڑا ، تو بخشی اور اس کے حواریوں کو کہیں جائے پناہ بھی نہیں مل پا رہی تھی۔ نہرو کو سب سے زیادہ حیرانی اس بات پر تھی کہ دس سال تک جس نسل کو سیکولرزم اور کشمیر کے بھارت کے ساتھ قدیمی رشتوں کا پاٹھ پڑھایا گیا اور جس کی ذہن سازی کی گئی تھی، وہی اس ایجی ٹیشن میں پیش پیش تھی۔

جن افراد نے بخشی کو شیخ عبداللہ کے متبادل کے بطور اقتدار میں بٹھایا تھا، انھوں نے ہی اس کے خلاف بدعنوانی اور دیگر کئی معاملوں میں مقدمے درج کرکے اس کو جیل میں پہنچا دیا۔ دوسروں کی چاکری کرنے اور اپنوں سے بے وفائی کرنے والوں کی یہ تاریخ بار بار دُہرائی جاتی ہے، مگر افسوس کہ مفاد پرست عناصر اس سے کچھ بھی سبق نہیںلیتے۔ آخرکار ۱۹۷۲ء میں ایک تنہا اور غیر مقبول شخص کے رُوپ میں بخشی غلام محمد کا انتقال ہوگیا۔ یہ موجودہ حکمرانوں کے لیے بھی ایک سبق اور تازیانہ ہے، جو اختراعی اقدامات کے بجائے جز وقتی اقدامات کا سہارا لے کر ایک پریشر ککر جیسی صورت حال پیدا کرکے اس کو ’نارملائزیشن‘ کا نام دیتے ہیں۔ اُن سب کے لیے سوچنے کا     یہ وقت ہے کہ ماضی سے سبق سیکھ کر خطّے میں دیرپا اور حقیقی امن قائم کرنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی بنائی جائے، نہ کہ ڈگڈگی بجاکر قبرستان کی خاموشی کو امن قرار دے کر اپنے آپ کو دھوکا دیا جائے۔

ویسے تو ۲۰۱۹ء ہی میں بھارتی سپریم کورٹ کے عجیب و غریب فیصلے نے ایودھیا شہر میں واقع تاریخی بابری مسجد کی شہادت پر مہر لگادی تھی، مگر اب اس سال ۲۲جنوری کو اسی مسجد کی جگہ پر ایک بہت بڑے رام مندر کے افتتاح کے بعد یہ مسجد تاریخ کے اوراق میں گم ہوگئی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے خود ہی اس مندر کا افتتاح کرکے بھارتی سیکولرازم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔ مندر کے افتتاح سے قبل اور بعد میں پورے ملک میں یاترائیں نکالی گئیں اور کئی جگہوں پر شرپسندوں نے مسلم محلوں میں شر انگیزی کی۔ مسجدوں کے سامنے ’جے شر ی رام‘ کے نعرے لگائے گئے۔ دفاتر میں ایک دن کی چھٹی دی گئی اور دیوالی کی طرح چراغاں کیا گیا، کیونکہ بتایا گیا کہ چار سو برسوں کے بعد بھگوان رام کو اپنا گھر نصیب ہوا ہے۔

اساطیری کہانی رامائن کے مطابق:جب بارہ سال کے بن باس کے بعد رام واپس ایودھیا شہر آگئے تھے، تو اس وقت بھی اس طرح کا جشن نہیں منایا گیا ہوگا، جو اس وقت منایا گیا۔ ایودھیا میں پجاری پرم ہنس اچاریہ نے مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر کا پتلا جلا کر اپنے دل کی بھڑاس نکال دی۔ مندر کے افتتاح کو پران پرتشٹھا کا نام دیا گیا، یعنی سیاہ پتھر سے بنی بھگوان رام کی جو مورتی اس مندر میں رکھی گئی، اس میں روح داخل کی گئی۔ ویسے ۱۹۴۹ء میں جب یہ قضیہ شروع ہوا تھا، تب بتایا گیا تھا کہ ’’بابری مسجد کے محراب میں بھگوان رام کی ایک چھوٹی سی مورتی نمودار ہوگئی‘‘، جس سے اخذ کیا گیا، کہ رام اسی جگہ پر پیدا ہوئے تھے۔سپریم کورٹ نے بھی مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ اسی مورتی یعنی رام للا کو دی۔ تاہم پولیس کا کہنا تھا کہ نرموہی اکھاڑہ سے تعلق رکھنے والے چندافراد عشا ء کی نماز کے بعد رات کی تاریکی میں دیوار پھاند کر مسجد میں گھس گئے اور مورتی محراب کے پاس رکھ دی، جس کی شکایت مسجد کے قریب رہائشی ہاشم انصاری نے درج کروائی ۔ اگلے دن پورے شہر میں افواہ پھیل گئی کہ بابری مسجد کی محراب میں رام کی مورتی نمودار ہوگئی ہے۔ مقامی انتظامیہ نے اس افواہ کی علّت کا تدارک کرنے کے بجائے مسجد پر ہی تالا چڑھا دیا۔ بعد میں ۱۹۸۰ء کی دہائی میں ہندوؤں کو پوجا پاٹ کرنے کی اجازت دی۔

ہندستان دھرم کے چار شنکر اچاریوں نے اس افتتاحی تقریب میں یہ کہہ کر شرکت کرنے سے منع کردیا کہ ’’ابھی مندر کی تعمیر نامکمل ہے اور اس میں کیسے مورتی میں روح ڈالی جاسکتی ہے؟ پوری تعمیر میں ابھی ایک سال اور لگ سکتا ہے‘‘۔ مگر مودی تاریخ میں اپنا نام درج کروانے کے علاوہ اس سال اپریل-مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں ووٹروں کے دل لبھانے کے لیے ایجنڈے کو ترتیب دینے کے لیے بے چین تھے۔ ان کے رفقا نے تو اُلٹا شنکر اچاریوں پر ہی سوالات اٹھائے اور مودی ہی کو بھگوان ویشنو کا اوتار قرار دیا۔ جس طرح مودی کو اس مندر کے افتتاح کی جلدی تھی، لگتا ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے وہ خاصے فکرمند ہیں اور اقتدار میںواپسی کا ان کو شاید یقین نہیں ہے۔ ان کو معلوم تھا کہ اگر وہ انتخاب ہار جاتے ہیں یا کسی وجہ سے دوبارہ مسند پر بیٹھ نہیں پاتے، تو ان کی اپنی پارٹی ہی ان کی یاد کو ایسے کھرچ ڈالے گی، جیسے وہ کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ یہ اس جماعت کا وتیرہ رہا ہے۔ جو کچھ ایل کے ایڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کے ساتھ ہوا، مودی کو شاید آئینے میں وہ سب نظر آرہا تھا۔

ہندو قوم پرست جماعتیں، خاص طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) تین متنازعہ ایشوز  لے کر ہی انتخابی میدان میں اترتی ہے۔ یہ ایشوز تھے بابری مسجد کی جگہ ایک عظیم الشان رام مندر کا قیام ، جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کا خاتمہ، اور پورے ملک میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ۔ پچھلے دس سالہ دور اقتدار میں مودی حکومت نے دو اہم وعدوں کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ یکساں سول کوڈ، مسلمانوں کے بجائے قبائل اور ہندوؤ ں کے ہی مختلف فرقوں کو قابل قبول نہیں ہے، کیونکہ شادی بیاہ کی رسوم بھارت کے ہر خطے میں مقامی رواج کے ساتھ عمل میں آتی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق: ’’بی جے پی کے پاس ہندو ووٹروں کو لام بند کرنے کے لیے تین اہم ہتھیار: ’’گائے، پاکستان اور مسلمان‘‘ ہوتے ہیں۔ ۲۰۱۴ء کے انتخابات میں ’’گائے کو تحفظ فراہم کرنا‘‘ ایک اہم ایشو تھا۔ گائے اب اس حد تک محفوظ جانور ہے، کہ شمالی بھارت میں کسانوں کے لیے درد سر بن چکی ہے۔ دودھ خشک ہونے کے بعد ان کو گھروں سے نکالا جاتا ہے، تو یہ دندناتے ہوئے بغیر کسی خوف کے کھیتوں میں گھس کر کھڑی فصلوں کو تہس نہس کرتی رہتی ہیں۔ چند برس قبل مدھیہ پردیش کے کسی شہر میں ایک ٹرک حادثہ میں کسی بزرگ خاتون کی جان چلی گئی، جو سڑک کے کنارے چہل قدمی کررہی تھی۔ ٹرک کے ڈرائیور نے بتایا کہ سڑک پر ایک گائے کو بچانے کے لیے اس نے فٹ پاتھ پر ٹرک موڑ دیا، جس سے بزرگ خاتون کی جان چلی گئی۔ اس کا استدلال تھا کہ اگر گائے کو ٹکر لگ جاتی تو وہ اور اس کا ٹرک ’ہجومی تشدد‘ کی نذر ہوجاتا۔ خاتون کی جان جانے سے کم از کم وہ اور اس کا ٹرک تو محفوظ رہا۔ گائے کا ایشو انتخابات میں کیش ہو چکا ہے، اب اس پتّے پر ووٹ کی بازی جیتنا مشکل ہے۔

 بی جے پی نے۲۰۱۹ء میں ’پاکستان اور قومی سلامتی‘ کے ایشو کو لے کر بھاری منڈیٹ حاصل کرلیا۔ انتخابات سے بس چند ماہ قبل جنوری ۲۰۱۹ء میں رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق مودی حکومت خاصی غیر مقبول ہوگئی تھی اور ۵۴۳ رکنی ایوان میں بی جے پی ۲۰۰ سیٹوں کے اندر ہی سمٹ کررہ گئی تھی۔ مگر فروری میں کشمیر میں پلوامہ کے مقام پر فوجی ہلاکتوں اور پھر بالاکوٹ پر فضائیہ کے آپریشن نے تو فضا ہی بدل ڈالی اور انتخابی نتائج میں بی جے پی نے ۳۰۰کا ہندسہ عبور کرلیا۔ اب اس وقت پاکستان خود ہی اپنے گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر بھی کامیابی کے ساتھ رُوبہ عمل ہے۔ اب لے دے کے ایک ہی ایسا ایشو بچتا ہے، ’’وہ ہے مسلمان‘‘۔

 رام مندر کے افتتاح کے لیے بھارتی وزیر اعظم کا خود موجود رہنا اور اس تقریب کو ’’صدیوں کی غلامی کا طوق اُتار پھینکنے‘‘ سے تشبیہ دینا ، واضح پیغام دے رہا تھا کہ اس بار ہدف  براہِ راست مسلمان ہے۔ اس لیے رام مندر کے افتتاح کے دن کو پورے ملک میں دیوالی کی طرح منایا گیا۔بی جے پی کے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ جنوبی بھارت میں اس کی دال گل نہیں رہی ہے۔ اگرچہ ریاست کرناٹک کے بغیر باقی جنوبی ریاستوں میں اس کا وجود پہلے سے ہی برائے نام تھا، مگر تلنگانہ، آندھرا پردیش اور تامل ناڈو میں وہ مقامی پارٹیوں کے کندھوں پر سوار ہوکر کسی طرح اپنا اُلو سیدھا کیا کرتی تھی۔ مگر یکے بعد دیگرے کرناٹک اور پھر تلنگانہ میں کانگریس کی جیت نے ان مقامی پارٹیوں کے غبارے سے ہوا نکال کر رکھ دی ہے اور تامل ناڈو میں اس کی اتحادی پارٹی ڈی ایم کے (DMK) بھی مضبوط پوزیشن میں ہے۔ لوک سبھا میں جنوبی بھارت کی ۱۳۲نشستیں ہیں۔

 بی جے پی نے ۲۰۱۹ء میں جن۳۰۳نشستوں پرقبضہ کیا، ان میں ۳۰ سیٹیں جنوبی بھارت سے تھیں۔ ۲۲۴نشستوں پر اس کو ۵۰فی صد سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔ حکومت سازی کے لیے لوک سبھا میں ۲۷۲سیٹیں رکھنا لازمی ہے۔ یعنی اس ہدف کو پار کرکے بی جے پی کے پاس اضافی ۳۱سیٹیں ہی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر بی جے پی شمالی بھارت کی سبھی ۲۲۴سیٹیں برقرار بھی رکھتی ہے، تو اس کو مزید ۴۸سیٹیں ساتھ ملانے کے لیے خاصی جدو جہد کرنی پڑے گی۔ پچھلی بار اس کو مہاراشٹرا، مغربی بنگال، اڑیسہ، تلنگانہ اور شمال مشرقی صوبوں سے کل ملا کر ۷۹سیٹیں حاصل ہوئی تھیں، جس نے اس کی تعداد کو تین سو سے اوپر پہنچایا دیا تھا۔

اس بار ان صوبو ں میں کانگریس کے زیر قیادت نو زائدہ ’انڈیا‘ ( یعنی انڈین نیشنل ڈیولپمنٹ انکلوسیو الائینس)اتحاد کو خاصی سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔ بی جے پی کے اپنے اندرونی سروے کے مطابق اگر اپوزیشن متحدہ ہوکر لڑتی ہے تو ۱۰۱؍ایسی سیٹیں ہیں، جن پر دوبارہ جیتنا مشکل ہے۔ اگرچہ ابھی اپوزیشن میں سیٹوں کے بٹوارے پر خاصی لے دے ہونے کے امکانات ہیں، مگر جس طرح ابھی حال ہی میں پارلیمنٹ اراکین کو تھوک کے حساب سے معطل کر دیا گیا اور تفتیشی ادارے اپوزیشن لیڈروں کو زچ کررہے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ وہ متحدہوکر انتخابات میں آر یا پار کی لڑائی لڑیں گے۔ اس وجہ سے بی جے پی کے لیڈروں کی نیند اُڑی ہوئی ہے۔ وہ اس تاک میں ہیں کہ کوئی ایسا ایشو ہاتھ آجائے ، جس سے ۲۰۱۹ءکی طرح پورے ملک کو سحر میں گرفتار کرکے ووٹ اس کی جھولی میں گر جائیں۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی رام مندر کا افتتاح ہے۔

 بابری مسجد پر جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تھا، تو لگتا تھا کہ اب ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دیرینہ تنازعات ختم ہو جائیں گے۔ ۸۰کی دہائی کے آخر میں جب اس قضیہ نے ایک خون ریز رُخ اختیار کیا تھا، تو کئی مسلم لیڈروں اور علما جن میں مولانا وحید الدین خان پیش پیش تھے، مشورہ دیتے تھے، کہ ’’فرقہ وارانہ ماحول کو ختم کرنے کے لیے مسلمانوں کو اس مسجد کی قربانی دینی چاہیے‘‘۔ مگر بقول سینئر صحافی عبدالباری مسعود، ’’یہ سہانا خواب اَدھورا ہی رہ گیا۔ اب تو ہر دوسرے دن کسی نہ کسی مسجد پر دعویٰ ٹھونک کر ہندو تنظیمیں عدالتوں کا رُخ کرتی ہیں‘‘۔ اس سلسلے میں ابھی تک وارانسی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی عید گاہ مسجد پر عدالت نے شنوائی بھی شروع کردی ہے۔ گو کہ نوّے کی دہائی میں پارلیمنٹ نے عبادت گاہوں کی موجودہ حیثیت کو ۱۹۴۷ءکی پوزیشن میں جوں کا توں رکھنے کا قانون پاس کیا تھا، تاہم اس میں صرف بابری مسجد کو باہر رکھا گیا تھا۔ مگر اب عدالتوں کا کہنا ہے کہ یہ قانون گو کہ موجودہ پوزیشن کو جوں کا توں رکھنے کی بات کرتا ہے، مگر یہ مسجد کسی اور عمارت یا عبادت گا ہ کے اوپر بنی ہے، اس کا فیصلہ کرنے یا تجزیہ کرنے سے نہیں روکتا ہے۔ ویسے اس پورے قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے، اور اس پر جلدیا بدیر کوئی فیصلہ آہی جائے گا۔ لیکن جس طرح کا فیصلہ بابری مسجد کے سلسلے میں آیا، اس کے بعد عدالت سے کس طرح کی توقع کرسکتے ہیں۔

 مستقبل کا مؤرخ بھی حیران و پریشان ہوگا کہ اکیسویں صدی میں بھی کسی جمہوری ملک کی عدالت کوئی ایسا فیصلہ دے سکتی ہے!وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی حکومت میں مشیر اور تجزیہ کار موہن گوروسوامی کے مطابق: ’’عدالت کا فیصلہ کچھ اس طرح کا تھا کہ کسی کے مکان پر قبضہ کرنا اور اس کو مسمار کرنا غیر قانونی اور جرم ہے، مگر اس کی جگہ پر نئے مکان کی تعمیر جائز ہے اور اس میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے‘‘۔۲۰۱۹ء میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے استدلال کے بجائے عقیدے کو فوقیت دے کر متنارعہ زمین، اساطیری شخصیت، ہندو دیوتا رام للاکے سپرد کرکے، وہاں پر ایک مندر بنانے کے لیے راستہ صاف کردیا تھا۔

اس فیصلے میں بھی کورٹ نے ہندو فریق کے دلائل کی دھجیاں بکھیر دی تھیں۔ ان کی دلیل بھی رَد کردی کہ مسجد کسی مندر کو توڑ کر بنائی گئی تھی۔سپریم کورٹ نے بابری مسجد کے اندر مورتیاں رکھنے اور مسجد کو منہدم کرنے کے واقعات کو بھی غیر قانونی اور مجرمانہ سرگرمی قرار دیا ۔ کورٹ نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہاں بابری مسجد ایستادہ تھی اور نماز کا سلسلہ منقطع ہوجانے سے مسجد کا وجود ختم نہیں ہوجاتا۔عدالت نے مسجد کے نیچے کسی تعمیر کا تو اشارہ دیا ہے، مگر یہ تعمیر ۱۶ویں صدی کے بجائے ۱۱ویں صدی کی تھی۔ یہ بھی کہا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ نے یہ نہیں بتایا کہ مسجد کی تعمیر مندر توڑ کر کی گئی تھی۔فیصلے کا دلچسپ پہلو یہ ہے، کہ عدالت نے فیصلہ ہندوؤں کے حق میں تو دیا، مگر مسمار شدہ مسجد کی زمین، ہندو فریقین کو دینے کے بجائے ، بھگوان رام کے سپرد کرنے کے احکامات صادر کر دیئے۔ پھر یہ بھی بتایا کہ چونکہ رام للا، نابالغ ہے، اس لیے اس کی سرپرستی کے لیے حکومت کو ایک ٹرسٹ بنانے کے لیے تین ماہ کا وقفہ دے دیا۔کورٹ نے بتایا کہ چونکہ رام للا کی مورتی بابری مسجد کی جگہ پر تعمیر کیے گئے عارضی مندر میں براجمان ہے، اس لیے وہ جگہ ان کی ملکیت ہے۔ کورٹ نے رام للا کو Juristic Personیعنی معنوی و اعتباری شخص، جس پر قانون کے سبھی حقوق و فرائض کا اطلاق ہوتا ہے، قرار دیا۔

 بابری مسجد کا مقدمہ ایک سیدھا سادا سا ملکیتی معاملہ تھا۔مگر جج صاحبان نے برسوں کی عرق ریزی کے بعد قانون اور آئین کی پروا کیے بغیرکہا کہ Law of Limitations کا اطلاق ہندو دیوی،یوتائوں پر نہیں ہوتا ہے اور نہ ان جگہوں پر ہوتا ہے جہاں ان کی نشانیاں ہوں۔ دوسرے لفظوں میں کسی بھی جگہ پر کوئی شخص کوئی مورتی، چاہے وہ پتھرکا ٹکڑا یا کسی درخت کی شاخ یا پتا ہی کیوں نہ ہو، رکھ کر اس پر مالکانہ حقوق جتا سکتا ہے، چاہے اس جگہ کا مالک وہاں صدیوں سے ہی مقیم کیوں نہ ہو۔ اس فیصلے کا اعتبار اور بھی مضحکہ خیز ہو جاتا ہے، جب جج صاحبان نے یہ تسلیم کیا کہ ’’بھگوان رام کا جنم اسی مقام پر ہوا جہاں بابری مسجدکا منبر واقع تھا‘‘، اور یہ بھی کہا کہ ان کے مطابق: ’’رام آٹھ لاکھ سال قبل مسیح میں اس جگہ پر موجود تھے‘‘۔ مگر دوسری طرف دنیا بھر کے تاریخ دان اور آثار قدیمہ کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جنوبی ایشیا میں اتنی پرانی آبادی کے کوئی آثارابھی تک نہیں ملے ہیں۔

بھارتی سپریم کورٹ آزاد اور خودمختار ہی سہی، مگر جب اس طرح کامعاملہ یہاں پر پہنچتا ہے تو انصاف کی دیوی حقیقت میں آنکھوں پر پٹی باندھ لیتی ہے۔ اگر اس کو عدالتی بحث کا موضوع بنایا جاتا ہے، تو بہت سے مندروںاوردیگر عمارتوں کو توڑنا پڑے گا۔بھارت کے طول و عرض میں لاتعداد مندر تو بدھ مت اور جین مت کی عبادت گاہوں کو توڑ کر بنائے گئے ہیں۔ آٹھویں صدی میں آدی شنکر آچاریہ نے جب ہندو مت کے احیا کی خاطر ملک کے طول و عرض کا دورہ کرکے بدھ بھکشوؤںکے ساتھ مکالمہ کیا، تو بدھ عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرایا۔ اشوکا [م:۲۳۲ ق م] اور کنشکا [پیدائش:۷۸ء]کے عہد حکومت میں تو بھارت کی کثیر آبادی بدھ مت اختیار کر چکی تھی، تو پھر آج بھارت میں بد ھ آبادی محض ۸۵ لاکھ یعنی کل آبادی کا اعشاریہ سات فی صد ہی کیوں ہے؟

بھارت میں ایک خطرناک نظیر پیش کر دی گئی ہے کہ مسلم دور کی کسی بھی عمارت کو لے کر تنازع کھڑا کر دیا جائے پھر محکمہ آثار قدیمہ سے کھدائی کرا کے اس کے نیچے کوئی ہندو اسٹرکچر بتا دیا جائے اور پھر اسے کھود ڈالا جائے۔ ہندی کے ایک معروف صحافی و سماجی کارکن شتیلا سنگھ نے اپنی ایک تصنیف ایودھیا۔رام جنم بھومی بابری مسجد وواد  کا سچ  میں انکشاف کیا ہے کہ کس طرح تین عشرے قبل ان کی موجودگی میں پرم ہنس رام چندر داس کی قیادت میں فریقین نے ایک فارمولے پر اتفاق کیا تھا۔ ’ویشوا ہندو پریشد‘ (VHP)کے سربراہ اشوک سنگھل جب اس فارمولے پر مہر لگانے کے لیے ہندو انتہا پسندو ں کی مربی تنظیم آرایس ایس کے سربراہ بالا صاحب دیورس کے پاس پہنچے ، تو ان کو خوب پھٹکار لگائی گئی۔ دیورس کا کہنا تھا ’’ رام مندر تو ملک میں بہت ہیں، اس لیے اس کی فکر (یعنی رام مندر کی تعمیر) چھوڑ کر اس کے ذریعے ہندو ؤں میں آرہی بیداری کا فائدہ اٹھانا ہے‘‘۔ یعنی اگر معاملہ سلجھ جاتا ہے تو فرقہ وارانہ سیاست کی آگ سرد ہوجائے گی اور اقتدار تک پہنچنے کا راستہ بند ہوجائے گا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق: بابری مسجدکا سانحہ اس خطے کی جدید تاریخ کے چھ بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ پہلا ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی، دوسرا ۱۹۲۰ء میں گاندھی کی قیادت میں کانگریس کا  نیا آئین اور سوراج کا مطالبہ، تیسرا ۱۹۴۷ء میں برصغیر کی تقسیم اور آزادی، چوتھا ۱۹۷۱ء میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا‘ اور پانچواں ۱۹۸۴ء میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پرحملہ اور چھٹا ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کا انہدام‘ جو دراصل اعتماد کا انہدام تھا۔

بابری مسجد کے قضیے کا لاہورکی مسجد شہید گنج کیس کے ساتھ موازنہ کرنا بے جا نہ ہو گا۔ یہ کیس اور اس پر پاکستانی سوسائٹی کا رویہ ’ہندوستانی سیکولرازم‘ او ر اس کی نام نہاد لبرل اقدار پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔ ۱۷۶۲ء میں لاہور پر سکھوں کے قبضے کے بعد اس مسجد پر ان کے فوجیوں نے ڈیرہ ڈالا اور بعد میں اس کوگوردوارہ کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ ۱۸۴۹ء میں جب پنجاب برطانوی عمل داری میں شامل ہوا تو مسلمانوں نے اس مسجد کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ ’پریوی کونسل‘ نے Law of Limitation کو بنیاد بنا کر اس کا فیصلہ سکھوں کے حق میں کیا۔ ۱۸۵۰ء میں مسجد کے متولی نور احمد نے عدالت میں فریاد کی اور وہ ۱۸۸۰ء تک قانون کے مختلف دروازوں پر دستک دیتے رہے، مگر ہر بار Law of Limitation کا حوالہ دے کر عدالتیں ان کی اپیلوں کو خارج کرتی رہیں۔ ۱۹۳۵ء میں انگریز گورنر نے اس عمارت کو محکمہ آثار قدیمہ کے سپرد کرنے کی تجویز دی ‘ جس پر ابھی رائے عامہ ہموار ہو ہی رہی تھی کہ سکھوں نے رات کے اندھیرے میں مسجد کی عمارت ڈھا دی۔ جب بادشاہی مسجد لاہور سے ناراض مسلمانوں نے ایک پُرجوش جلوس نکالا تو کئی افراد لاہور کی سڑکوں پر گولیوں سے شہید کردیئے گئے۔ پورے لاہور میں کرفیو نافذکرنا پڑا۔ عدالتی فیصلے کو رَد کرنے کے لیے مسلم لیگ کے اراکین نے پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کے ذریعے یہ جگہ مسلمانوں کے سپرد کرنے کی تجویز پیش کی۔ معروف قانون دان اور مؤرخ اے جی نورانی کے بقول قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے رد کر دیا ۔ قائد اعظم کے شدید ناقد ہونے کے باوجود نورانی کا کہناہے کہ انھوں نے اس قضیے کو کبھی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیںکیا، بلکہ قانون کی عمل داری کا پاس کیا۔ پاکستان بننے کے ۷۰ سال بعد بھی یہ گوردوارہ لنڈا بازار میں آب و تاب کے ساتھ کھڑا ہے، جب کہ شاید ہی اب کوئی سکھ اسے عبادت کے لیے استعمال کرتا ہو۔ لاہور میں جس طرح اس مسئلے نے جذباتی رُخ اختیار کیا تھا، آزادی کے بعداندیشہ تھاکہ اس کو دوبارہ مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، مگر کسی پاکستانی سیاستدان یا مذہبی شخصیت نے عدالت کا فیصلہ رد کرنے کی کوشش نہ کی۔

 اس کے برعکس بھارتی عدلیہ کی جانب داری کا عالم یہ ہے کہ ایک سابق چیف جسٹس جے ایس ورما نے ’ہندوتوا‘ کو مذہبی علامت کے بجائے بھارتی کلچرکی علامت اور ایک نظریۂ زندگی بتایا ۔ انھوں نے ہندو انتہا پسندوںکے گورو ویر ساورکر یا گولوالکر کی تصنیفات کے بجائے مولانا وحیدالدین خان کی تحریروںپر اعتماد اور انحصار کر کے ہندو انتہا پسندی کو ایک جواز فراہم کردیا۔ ۱۹۹۲ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس وینکٹ چلیا کے طریق کار نے بھی مسجد کی مسماری کی راہ ہموارکی۔ وہ مسجد کو بچانے اور آئین و قانون کی عمل داری کو یقینی بنانے کے بجائے کار سیوکوں (مسجد کو شہید کرنے والے) کی صحت کے بارے میں زیادہ فکرمند تھے۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ ۱۹۹۸ء میں بی جے پی حکومت نے انھیں ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن کا سربراہ مقرر کردیا۔

 نورانی نے اپنی کتابDestruction of Babri Masjid:A National Dishonour میں کئی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس کے اندرا گاندھی کے دور اقتدارمیں ہی بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کرنے کے لیے ’ویشوا ہندو پریشد‘ کے ساتھ ایک ڈیل ہوئی تھی۔اگرچہ پریشد نے اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد اپنی تحریک روک دی، مگر راجیو گاندھی نے اس ڈیل کو پھر زندہ کیا،تاہم اس سے پہلے وہ مسلمانوں پر کوئی احسان کرنا چاہتے تھے۔  اس کے لیے ان کے حواریوں نے ایک مسلم مطلقہ خاتون شاہ بانو کا قضیہ کھڑا کرکے پارلیمنٹ سے ایک قانون پاس کروایا کہ مسلم پرسنل لا میں عدالت کوئی ترمیم نہیں کر سکتی۔مصنف کے بقول انھوں نے راجیو گاندھی کو مشورہ دیا تھا کہ اس قضیہ کو کھینچنے کا کو ئی فائدہ نہیں ہے، اور اس کو اینگلو محمڈن قانون کے بجائے شرعی قانون کے مطابق حل کیا جاسکتا ہے ،مگر وہ مسلمانوںکو سیاسی طور پر بے وقوف بنانے پر تلے ہوئے تھے، تاکہ پریشد کے ساتھ ڈیل کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اور یہی ہوا۔

کانگریس پارٹی کے علاوہ دیگر سیکولر جماعتوں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی، جن کی سانسیں ہی مسلمانوں کے دم سے ٹکی ہیں، کا رویہ بھی افسوس ناک رہا ہے۔ ان دونوں پارٹیوں نے،جو پچھلے ۲۰برسوں سے اتر پردیش میں حکومت کر رہی ہیں ،بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔حتیٰ کہ ایک معمولی نوٹیفکیشن تک کا اجرا نہیں کرسکیں، جس سے خصوصی عدالت میں ان افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا۔

یہ ہے بھارت میں سیکولرزم کا جنازہ اور ہندو نسل پرستی کا جادو!

اگست ۲۰۱۹ء میں جموں و کشمیر کی آئینی خود مختاری ختم کرنے اور ریاست کو تحلیل کرکے  دو مرکزی زیر انتظام علاقے بنانے کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے بھارتی حکومت کے اس قدم کو درست ٹھیرایا ہے۔ ویسے سپریم کورٹ میں ۱۶دنوں تک چلنے والی طویل بحث کے بعد کورٹ کی طرف سے جموں و کشمیر کی اس آئینی خود مختاری کو بحال کرنے کے بارے میں کوئی خوش فہمی تو نہیں تھی، مگر اُمید تھی کہ ریاست جموں و کشمیر کو دولخت کرنے اور اُن کو مرکزی زیر انتظام علاقے بنانے کے لیے سپریم کورٹ، حکومت کی سرزنش ضرورکرے گی، کیونکہ اس کی نظیر بھارت کے دیگر صوبو ں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔

پچھلے ۷۰ برسوں میں بھارت میں مرکزی حکومتوں نے مختلف وجوہ کی بنا پر ۱۱۵ بار آئینِ ہند کی دفعہ ۳۵۶ کا استعمال کرتے ہوئے صوبائی حکومتوں کو معزول کیا ہے۔ اب مرکزی حکومت کو ایک اور ہتھیار مل گیا ہے۔ حزبِ اختلاف کے زیر اقتدار کسی بھی صوبائی حکومت کو نہ صرف ا ب معزول کیا جا سکے گا، بلکہ اس ریاست کو پارلیمنٹ کی عددی قوت کے بل پر براہ راست مرکزی علاقے میں تبدیل بھی کیا جاسکے گا اور صوبائی اسمبلی کے مشورہ کے بغیر ہی دولخت بھی کیا جا سکے گا۔  اس لیے بھارت کے اندر کئی دانش وروں اور قانون دانوں نے اس فیصلے کے مضمرات پر گہری تشویش ظاہر کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’یہ فیصلہ ملک کے وفاقی ڈھانچے کو چیلنج کرتا ہے‘‘۔

افضل گورو کو سزائے موت دینے کے فیصلے کو اجتماعی ضمیر سے جوڑنے اور بابری مسجد کے معاملے پر عجیب و غریب فیصلہ دینے کے بعد، کشمیر کی خودمختاری کے سوال پر بھارتی سپریم کورٹ سے کسی مثبت فیصلے کی شاید ہی کوئی اُمید تھی۔ بہرحال، بابری مسجد پر خو د سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ: ’’اس کو نظیر نہیں بنایا جاسکتا ہے‘‘۔ کیونکہ اس میں بابری مسجد کی زمین ہندو یا مسلم فریق کو دینے کے بجائے بھگوان رام للا کو دے دی گئی تھی اور کورٹ نے جو قانونی سوالات طے کیے تھے، فیصلے کے وقت ان کو نظرانداز کردیا۔

۲؍اگست ۲۰۲۳ء سے شروع ہونے والی سماعت ستمبر کے پہلے ہفتے کو مکمل ہو گئی تھی اور کورٹ نے فیصلہ محفوظ رکھا تھا۔ عدالت میں۱۳ہزار ۵۱۵ صفحات پر مشتمل دستاویزات کے علاوہ ۲۸جلدوں پر مشتمل۱۶ ہزار ۱۱۱ صفحات پر مشتمل کیس فائلز دائر کی گئی تھیں۔ سماعت کے دوران کئی شہرۂ آفاق کتابیں جن میں  The Federal Contract، Oxford Constitutional Theory اور وی پی مینن کی The Transfer of Power  بھی کورٹ کے سپرد کی گئیں۔

چیف جسٹس چندرچوڑ کے علاوہ پانچ رکنی بنچ میں جسٹس ایس کے کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گاوائی اورجسٹس سوریہ کانت شامل تھے۔ یہ طے تھا کہ دسمبر کے وسط میں فیصلہ آئے گا، کیونکہ جسٹس کول دسمبر میں ہی ریٹائر ہونے والے تھے۔ وہ سپریم کورٹ کے واحد کشمیری جج  تھے، اگرچہ پانچ ججوں نے متفقہ فیصلہ دیا، مگر تین الگ فیصلے لکھے گئے۔ ایک چیف جسٹس نے جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس سوریہ کانت کے ساتھ مل کر تحریر کیا۔ جسٹس کول نے الگ سے اپنے تاثرات تحریر کیے۔جسٹس سنجیو کھنہ نے دونوں فیصلوں سے اتفاق کیا اور صرف کچھ معاملات میں اپنی رائے بیان کی ہے۔

اس آئینی بنچ کے سامنے آٹھ معاملات تھے:

 کیا بھارتی آئین میں درج آرٹیکل۳۷۰  کی دفعات کو عارضی یا مستقل حیثیت حاصل ہے اور کیا دستاویز الحاق پر دستخط ہونے کے وقت مہاراجا کشمیر نے کچھ اختیارات اپنے پاس رکھے تھے،جو ریاستی حکومت کو منتقل ہوگئے؟ کیونکہ یہی دفعہ جموں و کشمیر کے اپنے آئین کو تحفظ فراہم کرتی تھی اور اسی وجہ سے اس خطے کی انفرادیت کو تحفظ دینے کے لیے شہریت کا الگ قانون تھا۔

دوسرا سوال یہ کہ چونکہ مذکورہ قانون آئین ساز اسمبلی نے بنایا تھا اورطے تھا کہ قانون ساز اسمبلی ہی اس میں ترمیم کرسکتی ہے۔ اگست ۲۰۱۹ءکو مودی حکومت نے پارلیمنٹ کو پہلے قانون ساز اسمبلی میں تبدیل کیااور پھر اس کے ذریعے دفعہ۳۷۰ میں ترمیم کروائی۔ کورٹ کے سامنے سوال تھا کہ ’کیا آئین اس میکانزم کی اجازت دے سکتا ہے؟ ‘

تیسرا : کیا آرٹیکل۳۷۰ (۱) (d) کے تحت طاقت کے ذریعے بھارت کا پورا آئین ریاست جموں و کشمیر پر لاگو کیا جا سکتا ہے؟

چوتھا: کیا آرٹیکل ۳۷۰  (۳) کے تحت اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اور جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی سفا رش کے بغیر بھارتی صدر آرٹیکل ۳۷۰کو منسوخ کرسکتا ہے؟

پانچواں : کیا ۲۰۱۸ء میں گورنر کی طرف سے قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کرنادرست قدم تھا؟

چھٹا: اس کے چھ ماہ بعد کیا ریاست میں صدارتی راج کا نفاذ درست تھا؟

ساتواں : کیا ’جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ ۲۰۱۹ء‘ کے تحت ریاست کو دولخت کرنا آئینی طور پر درست تھا؟

آٹھواں : کیا ریاست کی حدود کو ریاستی اسمبلی کے مشورہ کے بغیر تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ کیونکہ ابھی تک بھارت میں جو بھی نئے صوبے وجود میں آئے ہیں، ان کی سفارش مقامی اسمبلی نے مرکزی حکومت کو بھیجی تھی۔ اس کے علا وہ کیاکسی فعال صوبے کو راتوں رات مرکزی زیر انتظام علاقے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے؟

پہلے سوال کے جواب میں عدالت نے فیصلہ دیا کہ ’دفعہ ۳۷۰ ایک عارضی انتظام تھا اور۱۹۴۷ء میں یونین آف انڈیا میں شمولیت کے وقت مہاراجا نے کوئی اختیار اپنے پاس نہیں رکھا تھا، بلکہ تمام اختیارات حکومت ہند کو سونپ دیے تھے‘۔ نومبر ۱۹۴۹ءکو اس وقت کے صدر ریاست ڈاکٹرکرن سنگھ کا حوالہ دے کر عدالت نے کہا کہ ’بھارتی آئین، ریاستی آئین پر فوقیت رکھتا ہے۔ اس لیے ریاست جموں و کشمیر کسی بھی ایسی داخلی خودمختاری کا دعویٰ نہیں کرسکتی ہے، جو دیگر صوبوں کو مہیا نہ ہو۔ آرٹیکل ۳۷۰ (۱) (d) کے تحت صدر کی طرف سے جاری کردہ متعدد آئینی احکامات جو آئین کی مختلف دفعات کی ترامیم کا اطلاق کرتے ہیں، اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پچھلے ۷۰ برسوں کے دوران، یونین اور ریاست نے باہمی تعاون کے ذریعے آئینی طور پر ریاست کو یونین کے ساتھ ضم کر دیا‘۔ عدالت نے کہا کہ ’اچانک ستّر سال بعد پورے بھارتی آئین کو لاگو نہیں کیا گیا بلکہ ریاست کے آئینی انضمام کا عمل جاری تھا‘۔

عدالت نے ڈاکٹر کرن سنگھ کے اعلامیے کا تذکرہ کیا ہے، مگر ۱۹۵۰ء میں ہونے والے اُس وقت کشمیر کے وزیراعظم شیخ محمدعبداللہ اور بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کے درمیان طے پائے گئے ’معاہدہ دہلی‘ کو حیرت انگیز طور پر بالکل ہی نظرانداز کردیا گیا ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں ۳ جولائی ۱۹۴۷ء کو سردار پٹیل کے ایک خط کا تذکرہ کیا ہے، جو انھوں نے راجا ہری سنگھ کو لکھا تھا:’’کشمیر کے مفادات بغیر کسی تاخیر کے بھارتی یونین اور اس کی آئین ساز اسمبلی میں شامل ہونے میں مضمر ہیں اور یہ کہ اس کی ماضی کی تاریخ اور روایت اس کا تقاضا کرتی ہے، اور بھارت آپ کی طرف دیکھتا ہے۔ اور آپ سے یہ فیصلہ کرنے کی توقع رکھتا ہے‘‘۔ اسی طرح ۲۷ ستمبر۱۹۴۷ء کو نہرو نے سردار پٹیل پر زور دیا کہ ’’پاکستانی حکمت عملی یہ ہے کہ کشمیر میں مداخلت کی جائے، اور جیسے ہی کشمیر آنے والے موسمِ سرما کی وجہ سے کم و بیش الگ تھلگ ہوجائے تو بڑی کارروائی کی جائے‘‘، یعنی اُن کا کہنا تھا کہ کشمیر کے الحاق پر جلد کارروائی کی جائے۔ بھارت میں جو لوگ نہرو کو کشمیر پر فیصلہ نہ کرنے کا ذمہ دار ٹھیراتے ہیں، اور پاکستان میں جو افراد قبائلی حملے کو ہی کلی طور پر مسئلہ کشمیر کی پیداوار قرار دیتے ہیں، ان کے لیے شاید یہ ایک دلچسپ اطلاع ہوگی کہ اس کھیل کی بساط تو اکتوبر ۱۹۴۷ء سے بہت پہلے ہی بچھائی جاچکی تھی۔

سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ ’چونکہ آئین کی تمام دفعات کو ریاست پر لاگو کرنے کے لیے آرٹیکل ۳۷۰ (۱) (d) کے تحت ریاستی حکومت کی رضامندی کی ضرورت نہیں تھی، اس لیے صدر نے بھارتی حکومت کی رضامندی حاصل کی‘۔ریاستی آئین کی بحالی کے حوالے سے عدالت نے دلیل دی کہ ’بھارتی آئین کے کچھ حصوں کے عدم اطلاق سے جو خلا رہ گیا تھا، اسے ریاستی آئین پور ا کرتا تھا۔ اب آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کے بعد چونکہ پورے بھارتی آئین کا اطلاق ریاست پر ہوتا ہے، اس لیے اب ریاستی آئین کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور یہ اب غیر فعال ہوگیاہے‘۔

عدالت نے لداخ کو ایک علیحدہ مرکزی علاقہ تسلیم کیا، یعنی ریاست کے دو لخت ہونے پر بھی مہر لگائی۔ مگر عدالت نے اس پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لے کر سوال اُٹھایا ہے کہ ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کی کیا ضرورت تھی؟اور پھر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ سالیسٹر جنرل نے حکومت کی طرف سے یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ بحال کیا جائے گا اور یہ کہ مرکزی زیر انتظام والی حیثیت عارضی ہے۔ عدالت نے پھر اس پر کوئی حکم نہیں دیا، بلکہ اُمید ظاہر کی کہ جلد ہی ریاستی حیثیت بحال کی جائے گی۔ مگر الیکشن کے حوالے سے اس نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ ریاست میں ستمبر ۲۰۲۴ء تک اسمبلی کے انتخابات ہونے چاہییں۔ لداخ کی بطور یونین ٹیریٹری کی حیثیت برقرار رہے گی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ کسی بھی ریاست سے کسی بھی علاقے کو الگ کرکے یونین ٹیریٹری بنانے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

جسٹس سنجے کشن کول، جوسپریم کورٹ کے واحد کشمیری جج، اور اس بنچ کے رکن تھے، انھوں نے الگ سے اپنے تاثرات درج کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ اس خطے نے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا سامنا کیا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے تجویز دی کہ جنوبی افریقہ کی   طرز پر ایک ’سچائی اور مفاہمت کمیشن‘ (Truth and Reconciliation Commission) ترتیب دیا جائے، جہاں متاثرین اپنا دُکھ درد بیان کرسکیں گے۔ جسٹس سنجے کول کا کہنا ہے کہ ’کشمیر میں زمینی سطح پر ایک پریشان کن صورت حال تھی، جس کا ازالہ نہیں کیا گیا‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’اس خطے میں زخموں کو بھرنے اور سماجی تانے بانے کو بحال کرنے کی ضرورت ہے‘۔

تاہم، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس مفاہمتی یا مصالحتی کمیشن کے سامنے فوج اور سیکورٹی سے وابستہ وہ افسران حاضر ہوں گے، جو علی الاعلان ا پنے گناہوں کا اعتراف کرسکیں گے؟خیر، یہ تجویز بُری نہیں ہے، مگر اس کمیشن کا قیام کسی غیرمتازع اور آزاد ادارے کے تحت ہی ہونا چاہیے۔ کشمیر میں جو واقعات پچھلے تین عشروں میں رُونما ہوئے، ان کو ریکارڈ پر لانا اَز حد ضروری ہے۔ بہرحال،سپریم کورٹ کے اس ایک جج نے اس قدر تسلیم تو کیا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیاں ہوئی ہیں۔

سپریم کورٹ میں تقریباً ۲۳ کے قریب رٹ پیٹیشنیں دائیر کی گئی تھیں -ان میں سے ایک پیٹیشنر رادھا کمار کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلہ سے خاصی مایوس ہیں ۔ رادھا کمار کو من موہن سنگھ حکومت کے دور میں مصالحت کار نامزد کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے ابتدا میں یقین تھا کہ عدالت ریاست کو مرکزی زیر انتظام علاقہ بنانے کے حوالے سے کچھ نہ کچھ ریلیف ضرور دے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جب حکومت نے غیر ریاستی باشندوں کے لیے ریاست میں زمینیں خریدنے کا دروازہ کھولا، تو میں نے اس پر جیسے ہی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا، تو مجھ کو بتایا گیا کہ آخری فیصلے تک انتظار کیا جائے۔ لیکن اب عدالت کے اس فیصلے کے بعد ہم جانتے ہیں کہ زمینی حقائق کو آسانی سے نہیں پلٹا جا سکتا، لیکن پلٹنا ناممکن بھی نہیں۔‘ رادھا کمار کے مطابق ہم نے سوچا تھا کہ عدالت آرٹیکل ۳۷۰ پر ہماری حمایت نہیں کر سکتی، اور ضرور اس بات سے متفق ہو گی کہ ریاست کا خاتمہ بھارتی آئین کے آرٹیکل ۳کے خلاف ہے۔ یہ بھی اُمید تھی کہ عدالت قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرے گی، مگر   اس نے یہ بھی نہیں کیا۔ اس کے بجائے، پانچ ججوں نے سالیسٹر جنرل کی اس یقین دہانی کو قبول کیا ہے کہ ریاست کا درجہ 'مناسب وقت پر بحال کیا جائے گا اور الیکشن کمیشن کو اسمبلی انتخابات کرانے کے لیے مزید دس ماہ کا وقت دیا ہے۔ کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ ۲۰۱۹ء، ۲۰۲۰ء، ۲۰۲۱ء، اور ۲۰۲۲ء میں وزیر داخلہ امیت شا کی بار بار کی یقین دہانیوں کے بعد ریاست کا درجہ واپس کیوں نہیں دیا جارہا ہے؟

 اگست ۲۰۱۹ء کے فوراً بعد، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما محبوبہ مفتی اور کئی دیگر افراد نے خبردار کیا تھا کہ مودی حکومت نے کشمیر کو ایک لیبارٹری بنا یا ہے۔ جو کچھ وہ کشمیر میں آزما رہے ہیں، وہی بہت جلد بھارت کے دیگر علاقوں میں بھی نافذ کرکے ہی دم لیں گے۔ ۱۱دسمبر ۲۰۲۳ء کو عدالت کےکشمیر پر مایوس کن فیصلے کے کچھ ہی دنوں کے اندر، ۱۴۷ کے قریب ممبران پارلیمنٹ کو دونوں ایوانوں سے معطل کیا گیا۔ ان کی غیر موجودگی میں تعزیراتی قوانین، شہادت قانون اور ضابطہ فوجداری کے تین نئے قوانین پاس کیے گئے اور برطانوی دور کے تعزیراتی قوانین کو معطل کیا گیا۔

اسی ایوان میں چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کرنے والی کمیٹی سے چیف جسٹس آف انڈیا کو بے دخل کرکے اُن کی جگہ ایک وزیر کو رکھنے کا قانون بھی پاس کیا گیا۔ عدالت کی طرف سے کشمیر کے عوام کے حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی کے بعد بھارت میں پارلیمانی جمہوریت میں کسی بحث و مباحثے کے بغیر ایسے قوانین کو پاس کرنا، جن کا عوام پر براہِ راست اثر پڑتا ہو، آخر کس بات کی نشاندہی کرتا ہے؟ کیا اب بھی بھارتی جمہوریت میں کچھ باقی رہ گیا ہے؟

اسرائیل کی وحشت ناک بمباری کے بعد، جس نے ۴۹دنوں میں تقریباً۱۵ہزار افراد کو ہلاک کردیا، جس میں چھ ہزار کے قریب بچے اور چار ہزار خواتین شامل ہیں، ایک عارضی جنگ بندی نے فلسطینی خطہ کی غزہ کی پٹی کے مکینوں کو سانس لینے کا موقع فراہم کردیا ہے۔ اس خطے میں لگاتار ہورہے موت کے رقص کے دوران، لوگ کس طرح زندگی گزار رہے تھے؟ فری لانس صحافی صفاء الحسنات کا کہنا ہے کہ بس اُدھار کی زندگی جی رہے تھے اور یہ پتہ نہیں تھا کہ اگلے ایک منٹ کے بعد زندہ ہوں گے یا نہیں۔ ان ۴۹ دنوں کے دوران، جب اسٹوری یا تفصیلات جاننے کے لیے کبھی ان کو فون کرنے کی کوشش کرتا، یا تو کال ہی نہیں ملتی تھی یا مسلسل گھنٹی کے باوجود وہ فون نہیں اٹھاتی تھیں۔ جنگ بندی کے اگلے دن ان سے رابطہ ہوا اوراس سے قبل شکایت کے لیے لبوں کو حرکت دیتا، کہ انھوں نے کسمپرسی کی ایسی ہوش ربا دردرناک داستان بیان کی،جس نے ہو ش اُڑا دیئے۔

شمالی غزہ کی مکین الحسنات کے شوہر ۷؍اکتوبر سے قبل ہی انتقال کر گئے تھے۔ وہ ابھی سوگ کی حالت میں ہی تھیں، کہ جنگ شروع ہوگئی اور اسرائیل نے شمالی غزہ کو خالی کرنے کا فرمان جاری کردیا۔ چار یتیم بچوں کو لے کر وہ جنوبی غزہ کی طرف روانہ ہوگئیں، جہاں وہ کسی کو نہیں جانتی تھیں۔ خیر کسی نے ان کو مہمان بنالیا۔ مگر اسی رات ان کے پڑوس میں شدید بمباری ہوگئی اور وہ کسی دوسرے ٹھکانے کی تلاش میں نکل پڑیں۔ دوسرا ٹھکانہ تو مل گیا، مگر صبح سویرے اس مکان پر بھی بمباری ہوگئی اور بڑی مشکل سے بچوں کے ساتھ وہ جان بچاکر ملبہ سے باہر آپائیں۔ اس دوران ان کے ایک بچے کو چوٹ بھی آگئی۔ اس وقت زخم کو کون دیکھتا، زندگی بچ گئی تھی۔ مگر اب کوئی ٹھکانہ نہیں رہ گیا تھا۔ رات گئے تک وہ غزہ کی سڑکوں پر گھوم پھر کر اپنے اور بچوں کے لیے چھت تلاش کرتی رہیں۔ خیر سلطان محلہ میں ایک کمرہ میں جگہ مل گئی، جہاں تین خاندان پہلے ہی رہ رہے تھے۔ پناہ تو مل گئی، مگر پیٹ کی آگ بھی بجھانی تھی۔ان کی کہنا تھا کہ صبح سویرے بچوں کو الوداع کرکے بیکری کے باہر ایک لمبی قطار میں روٹی کا انتظار کرنا پڑتا تھا اور کسی وقت باسی روٹی ہی مل پاتی تھی، جس پر پھپھوندی جمی ہوئی ہوتی تھی۔ ہمہ وقت اسرائیلی بمباری کا خطرہ ہوتا تھا۔

اکثر اسرائیلی بمبار طیارے اسی طرح کے ہجوم کو نشانہ بناتے تھے۔ خیر روٹی کے ملنے کے بعد پانی کی ایک بوتل ڈھونڈنے کا مرحلہ طے کرنا ہوتا تھا۔ چونکہ گیس یا دیگر ایندھن کے ذرائع مسدود کردیئے گئے تھے، اس لیے پرانے زمانے کے مٹی کے چولہے پر کھانا بنانے اور روٹی کو گرم کرنے کے لیے لکڑی اور کوئلہ کی تلاش میں سرگرداں ہونا پڑتا تھا۔

 الحسنات کہہ رہی تھیں کہ صبح سویرے جب بچوں کو الوداع کرتی تھی، تو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ واپس روٹی، پانی اور لکڑی لے کر آؤں گی یا میری لاش ان کے پاس پہنچے گی۔ جس گھرمیں کسی عزیز کی لاش پہنچتی تھی، وہ بھی اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرتے تھے، کہ انھوں نے عزیز کا جنازہ پڑھا۔ ورنہ بمباری سے ملبہ کے اندر ہی لاشیں دب جاتی تھیں یا ان کی شناخت ہی نہیں ہوپاتی تھی اور پھر گھر والوں کو لاش ڈھونڈنے کی تگ ودو کرنی پڑتی تھی۔ وہ بتا رہی تھیں کہ ’’گھر سے نکلتے وقت اکثر مجھے لگتا تھا کہ شاید آخری وقت بچوں کا چہرہ دیکھ رہی ہوں۔کیا پتہ اس دورا ن اسرائیلی بمباری سے یہ ٹھکانہ بھی مسمار ہو جائے۔ یہ بچے حال ہی میں یتیم ہو گئے تھے اوران کی آنکھیں اور اُداس معصوم چہرے بتاتے تھے کہ اب وہ ماں کے آنچل سے اتنی جلدی محروم نہیں ہونا چاہتے تھے۔ کھانا حاصل کرنے کی اس تگ و دو کے بعد صحافتی ذمہ داریاں بھی نبھانی تھی اور پھر اسٹوری حاصل کرنے کے لیے میدان میں آنا پڑتا تھا۔ یہ میرے پورے ایک دن کی سرگزشت تھی۔ اس لیے اگر میں نے اس دورا ن فون نہیں اٹھایا یا کال کا جواب نہیں دیا،، تو مجھے معافی ملنے کا پورا حق ہے‘‘۔

اس گفتگو کے بعد پھر کون شکایت کرتا۔ یہ نہ صرف الحسنات، بلکہ پورے ۲۰لاکھ غزہ کے مکینوں کی کہانی تھی۔ اسرائیلی بمباری کے سائے میں ۴۹دن انھوں نے کم و بیش اسی طرح گزارے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس عارضی جنگ بندی کو لاگو کروانے اور اس پر اسرائیل کو راضی کروانے کے لیے امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے درمیان ۱۳ بار فون پر بات چیت کے دور ہوئے اور اس کے علاوہ امریکی صدر نے مسلسل قطر کے امیر تمیم بن حماد الثانی کے ساتھ رابطہ رکھا۔ انقرہ، دوحہ اور بیروت میں مقیم مذاکرات کاروں نے راقم کو بتایا کہ قطر نے گو کہ اس معاہدے کی ثالثی میں اہم کردار ادا کیا، مگر اس میں ایران، مصر اور ترکیہ نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ چھ صفحات پر مشتمل جنگ بندی دستاویز میں اسرائیلی فوجی سرگرمیاں بند کرنے، جنوبی غزہ پر اسرائیلی پروازوں پر پابندی اور شمالی فضائی حدود میں کارروائیوں کو محدود کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔اس کے علاہ قیدیوں کے تبادلہ کا نظم بھی وضع کردیا گیا۔ اس کا ابتدائی ڈرافٹ ۲۵؍ اکتوبر کو قطری وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمٰن الثانی اور وائٹ ہاؤس کے مشرق وسطیٰ کے کوآرڈی نیٹر بریٹ میک گرک کے ساتھ طے پایا تھا۔

عالمی سطح پر احتجاج اور عرب ممالک خاص طور پر اس کے حکمرانوں سے تعلقات کی مجبوری نے امریکا کو اسرائیل پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے پر مجبور کردیا۔ ان مذاکرات پر نظر رکھنے اور جلد فیصلہ لینے کے لیے، قطر، امریکا اور اسرائیل کے نمایندوں کا ایک ’سیل‘ ترتیب دیا گیا۔ اس میں امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز،قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان، اور میک گرک، اسرائیل کے موساد کے سربراہ ڈیوڈ بارنیا شامل کیے گئے۔ قطر کے امیر نے وزیر اعظم عبدالرحمٰن الثانی کو ’سیل‘ کے لیے نامزد کردیا، تاکہ فیصلہ سازی میں آسانی ہو۔ بعد میں اس عمل میں ترک وزیرخارجہ حکان فیدان،جو ایک سابق اینٹلی جنس سربراہ ہیں، اور مصری انٹیلی جنس کے سربراہ عباس کامل نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ اس سے قبل ۲۰ اور ۲۵؍اکتوبر کے درمیان، بارنیا نے برنز کے ساتھ کئی بار بات چیت کی، اور بائیڈن نے اس عرصے کے دوران نیتن یاہو سے چار بار بات کی تاکہ معاہدے کا خاکہ تیار کیا جا سکے، جس کے بعد ۲۵؍اکتوبر کو قطر کو ہری جھنڈی دی گئی۔

اس سے پہلے کہ مذاکرات کوئی سنجیدہ موڑ لیں، دوحہ، استنبول اور بیروت میں حماس کی سیاسی قیادت کو کہا گیا کہ وہ زمین پر اور عسکری قیادت پر اپنی گرفت کو ثابت کریں، تاکہ بعد میں معاہدہ کے بعد ان کی زمینی قیادت ا س سے انکاری نہ ہو۔ اس کامظاہرہ کرنے کے لیے، حماس نے ۲۱؍ اکتوبر کو امریکی شہریوں جوڈتھ اور نٹالی رانان کو رہا کردیا، جس سے قطر کی ثالثی کی صلاحیتوں پر اعتماد بڑھ گیا اور حماس کی سیاسی قیادت پر اعتماد قائم ہوگیا۔ تاہم، یہ مذاکرات دو بار تعطل کا شکار ہوگئے۔ پہلی بار جب اسرائیلیوں نے ۲۹؍ اکتوبر کو زمینی حملہ کیا اور دوسری بار ۱۵ نومبر کو جب اسرائیل نے غزہ کے الشفا ہسپتال کا محاصرہ کرلیا۔ لیکن سی آئی اے کے سربراہ نے قطری وزیر اعظم اور موساد کے سربراہ کو بات چیت جاری رکھنے پر آمادہ کرلیا۔ذرائع کے مطابق بائیڈن کی قطر کے امیر کے ساتھ براہِ راست فون کال نے بھی بات چیت کی بحالی میں مدد کی۔ تل ابیب میں میک گرک نے اسرائیلی قیادت کو بائیڈن کا پیغام پہنچایا۔ الشفا ہسپتال پر اسرائیلی حملے کے بعد جب روابط دوبارہ منقطع ہو گئے، تو اس کو بحال کرنے میں دودن لگ گئے۔ اس طرح ۱۸ نومبر کو میک گرک اور برنز نے ایک مسودہ کے ساتھ قطری وزیر اعظم سے ملاقات کی۔ قطری وزیراعظم نے اس مسودے پر حماس کے رہنماؤں سے کئی گھنٹے تک بات چیت کی۔اجلاس میں حماس کے سربراہ اسماعیل حانیہ، سابق سربراہ خالد مشعل اور دیگر اہم پولٹ بیورو کے ارکان بھی شامل تھے، تاکہ بعد میں کسی کو شکایت کا موقع نہ ملے۔

 ایک طویل اعصاب شکن بات چیت کے بعد بالآخر سی آئی اے کے سربراہ برنز اور قطری وزیر اعظم نے چھ صفحات پرمشتمل معاہدہ اسرائیل کے حوالے کرنے کے لیے تیار کرلیا۔ اگلے دن میک گرک نے قاہرہ میں مصری انٹیلی جنس چیف عباس کامل سے ملاقات کی، جس نے کچھ باقی ماندہ خلا کو پُر کرنے میں مدد کی۔اس دوران دوسرے ٹریک پر ایران بھی سرگرم تھا، جس کی وجہ سے تھائی لینڈ اور فلپائن کے قیدیوں کو رہائی مل گئی۔ حتمی تجویز اسرائیل کے سامنے پیش کی گئی تھی، مگر اس نے  شمالی سرحد پر حزب اللہ کے بارے میں خدشات ظاہر کیے اور لبنان بارڈر پر بھی جنگ بندی پر زور دیا۔ اس کے جواب میں ۲۳نومبر کو بیروت میں حماس کے لیڈروں اسامہ ہمدان اور خلیل الحیا ء نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصرا للہ سے ملاقات کی۔حزب اللہ نے حماس کو بات چیت اور فیصلہ کرنے کا کلی اختیار دے دیا اور یہ باور کرادیا کہ حماس، جو معاہدہ کرے گا، وہ اس کی پاسداری کرے گا۔ اس تگ ودو کے بعد ہی غزہ کے مکینوں کو راحت کی چند سانسیں لینے کا موقع ملا۔ مگر کب تک؟ جب تک فلسطین کے مسئلہ کا کوئی پائیدار حل عمل میں نہیں لایا جائے گا، تب تک جنگ بندی عارضی ہی رہے گی۔ پائیدار حل ہی میں اسرائیل کی سلامتی بھی ہے، مگر ان کو کون سمجھائے!

  • مستقبل کے امکانات: ۷؍اکتوبر کو فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے حملے کے جواب میں،  جس طرح اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر قہر برسانا شروع کیا تو ہر حساس ذہن میں سوال اُٹھا کہ کیا حماس کی کارروائی واقعی ا س قدر ضروری تھی ، کہ اتنی ہلاکتوں کا بار اٹھا سکے؟ غزہ میں بچوں اور خواتین کی لاشیں دیکھ کر اور ان مظلوم عوام کے نالے سن کر تو آسمان شق ہو جاتا ہے۔ ان سوالات کا جواب ڈھونڈنے کےلیے میں نے حماس کے کئی چوٹی کے راہنماؤں ،تنظیم کے بین الاقوامی امور کے سربراہ موسیٰ ابو مرزوق اور پولٹ بیورو کے رکن اسامہ ہمدان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ اسامہ ہمدان نے انٹرویو کےلیے ہامی تو بھرلی، مگر انتہائی مصروفیت کی وجہ سے وقت نکال نہ سکے۔وہ اسی دن روس کے دورہ سے واپس آئے تھے، جہاں انھوں نے روسی لیڈروں کو اسرائیل کے ساتھ جاری جنگ کے بارے میں بریف کیا تھا۔

اسامہ ہمدان اس وقت مزاحمتی تنظیم کے کور گروپ کے ممبر ہیں۔ ان کے خاندان کا تعلق یبانہ قصبہ سے ہے، جو اب اسرائیل کی ملکیت میں ہے۔ ۱۹۴۸ء میں ان کے والدین کو گھر سے  بے گھر کردیا گیا اور وہ مصر کی سرحد سے ملحق غزہ کے رفح کے علاقہ کے ایک ریفوجی کیمپ میں منتقل ہوگئے۔ وہ اسی کیمپ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم غزہ میں مکمل کرنے کے بعد انھوں نے کنسٹرکشن مینجمنٹ میں امریکا کی کولاریڈو یونی ورسٹی سے ماسٹرس کی ڈگری حاصل کی۔

 میں نے چھوٹتے ہی ان سے پوچھاکہ ۷؍اکتوبر کو حماس نے دنیاکی ایک مضبوط ترین فوج سے ٹکراکر اسے حیران و پریشان تو کردیا، مگر جس طرح اسرائیل نے اب جوابی کارروائی کی ہے، جس طرح عام شہری اور بچے مارے جا رہے ہیں ، کیا یہ کارروائی اس قابل تھی، کہ اتنی قیمت دی جاسکے ؟ ابو مرزوق نے کہا ’’ فلسطینیوں پر مظالم یا فلسطین کی کہانی ۷؍ اکتوبر کو شروع نہیں ہوئی۔ اس کی جڑ عشروں پر پھیلی ہے، جس کے دوران سیکڑوں قتل عام کیے گئے۔ اسرائیل روزانہ ہمارے لوگوں کو بغیر کسی مزاحمت کے مارتا ہے۔ غزہ کی پٹی کا محاصرہ ۱۷ سال پرانا ہے، اور یہ ایک سخت محاصرہ ہے۔ جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے، اور نوجوانوں کی اکثریت کا مستقبل تباہ ہو گیاہے۔ آپ مجھے بتایئے، کیا ہتھیار ڈالنا یا اسرائیل کے سامنے خود سپردگی کرنا کوئی حل ہے ؟ جن لوگوں نے ہتھیار ڈالے کیا اسرائیلیوں کو وہ قابل قبول ہیں ، کیا ان کے خلاف کارروائیاں کم ہوئی ہیں ؟ اسرائیلی صرف فلسطینیوں کو قتل کرنا اور ان کو اپنی زمینوں اور گھروں سے بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں جو نقشہ لہرایا، اس نے تو ان کے عزائم کو واضح کردیا ہے۔ ہم آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں اور مغربی ممالک کے حمایت یافتہ قبضے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ ہم صرف آزادی چاہتے ہیں کیونکہ ہم اسرائیلی قبضے کے تحت نہیں رہنا چاہتے۔ جس طرح ہندستان نے برطانوی قبضے کو مسترد کر کے آخر کار اسے نکال باہر پھینکا، ہم بھی ویسی ہی جنگ آزادی لڑ رہے ہیں۔ کیا ۱۸۵۷ء کی جنگ جس میں ہزاروں افراد مارے گئے وہ کوئی نا جائز جنگ تھی ؟ اس کا دفاع کیا جاسکتا ہے، ، تو ہماری جدوجہد بھی جائز ہے۔ اگر کوئی اُس وقت کہتا کہ یہ عظیم قربانیاں ہم نہیں دینا چاہتے ، تو آج تک برصغیر پر برطانیہ قابض ہوتا۔

 میں نے دوسراسوال پوچھا :’’مگر آپ نے تو نہتے اور عام اسرائیلی شہریوں کو قتل کیا، اس کاکیا جواز ہے؟‘‘ ابو مرزوق نے جواب دیا :”شہریوں کی ہلاکتوں کے بارے میں اسرائیلی موقف ہی غلط ہے۔ خود کئی اسرائیلیوں نے گواہی دی ہے، کہ ہمارے عسکریوں نے ان کو نشانہ نہیں بنایا۔ ایسی شہادتیں بھی ہیں کہ اسرائیلی شہریوں کو مارنے والوں میں ان کی اپنی فوج ہی ملوث تھی، کیونکہ فوج نے جنگجوؤں کو نشانہ بنانے کےلیے بد حواسی میں رہایشی علاقوں پر بمباری کی، جس میں درجنوں شہری مارے گئے۔ ہمارے جنگجوؤں کے پاس ہلکے ہتھیار اورزیادہ سے زیادہ ہلکے مارٹرز تھے۔ جن اسرائیلی علاقوں کی تباہی اور بربادی کو ٹی وی پر دکھاکر ہمارے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے، کسی بھی ماہر سے اس کا معائنہ کروالیں ، وہ بکتر بند گاڑیوں کے گولوں اور بھار ی ہتھیاروں سے تباہ ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس اس طرح کے ہتھیار ہی نہیں تھے۔ جہاں تک اس میوزک فیسٹیول کا تعلق ہے جو اسرائیلی پروپیگنڈے کے ذرائع استعمال کر رہے ہیں اور واویلا کیا جا رہا ہے کہ وہاں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ پہلے تو یہ کہ ہمیں بالکل معلوم نہیں تھا کہ اس علاقہ میں کوئی میلہ لگا ہوا ہے۔ جب ہمارے جنگجو وہاں پہنچے، وہاں اسرائیلی فوج سے جم کر مقابلہ ہوا۔ ان کو نکالنے یا راہداری دینے کے بجائے اسرائیلی فوج نے ان کی آڑ لی۔ یہ علاقہ وار زون بن گیا۔ اسرائیلی فوج نے تو اس علاقے میں میزائل داغے۔ جب ہمارے جنگجوؤں نے سرحد عبور کی، تو وہ سخت مقابلہ کی توقع کر رہے تھے، ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ عسقلان تک ان کو کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ بارڈر پوسٹ پر اسرائیلی گارڑز نے ہتھیار ڈال دیئے یا بھاگ گئے۔ جس کی وجہ سے خاصی افراتفری مچ گئی۔ جب سرحد کی باڑ ٹوٹ گئی، تو غزہ کی پٹی سے سیکڑوں شہری اور دیگر افراد دھڑا دھڑ اسرائیلی مقبوضہ علاقوں میں داخل ہوئے۔ یہ نظم و نسق کا معاملہ تھا، مگر ایسے وقت میں اس کو سنبھالنا مشکل تھا۔ ہماری منصوبہ بندی میں ایسی صورت حال کی عکاسی نہیں کی گئی تھی۔ ان شہریوں نے اپنے طور پر کئی اسرائیلیوں کو یرغمال بنالیا۔ ہم نے تمام متعلقہ فریقوں کو مطلع کیا ہے کہ ہم عام شہریوں اور غیر ملکیوں کو رہا کر دیں گے، اور ان کو پکڑکر رکھنا ہمارے منشور میں نہیں ہے۔ ہم ان کی رہائی کےلیے مناسب حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ غزہ کی پٹی پر شدید بمباری کے وجہ سے یہ مشکلات پیش آرہی ہیں ‘‘۔

 میں نے ان سے پوچھا :” کیا آپ کے حملے کا ایک مقصد ’ابراہیمی معاہدہ‘ یا عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کو معمول پر لانے میں رکاوٹ پیدا کرنا تھا ؟” انھوں نے کہا کہ اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان نارملائزیشن کے معاہدوں کو سبوتاژ کرنے کےلیے حماس کے حملے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ عرب عوام تو پہلے ہی ان کو مسترد کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پر، مصراور اُردن نے اسرائیل کے ساتھ ۴۰ سال قبل امن معاہدے کیے تھے، لیکن ان کے عوام نے ان کو مسترد کر دیا ہے۔ ان ممالک کو بھی معلوم ہے کہ اس کے جواب میں ان کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ اس لیے ہم اس ’ابراہمی معاہدہ‘ سے خوف زدہ نہیں ہیں۔ وہ خود اپنی موت آپ مرجائے گا۔

میں نے ابو مرزوق کی توجہ دلائی کہ دنیا بھر میں مسلح مزاحمتی تحریکوں کی اب شاید ہی کوئی گنجایش باقی رہ گئی ہے۔ ان گروپوں کو اب دہشت گردوں کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ جیسا آپ نے خود ہی دیکھا ، پورا مغرب اسرائیل کے پیچھے کھڑا ہو گیا ہے۔ کیا اس نئے ماحول میں آپ پُر امن تحریک کی گنجایش نہیں نکال سکتے ہیں ؟ تو انھوں نے جواب دیا ’’۳۰ سال تک انھوں نے پُرامن راستہ آزمایا۔ الفتح تحریک نے اوسلو معاہدے پر دستخط بھی کیے۔ ۳۰ سال بعد کیا نتیجہ نکلا؟ ہمیں فلسطینی ریاست نہیں ملی جیسا کہ انھوں نے ہم سے وعدہ کیا تھا، اور مغربی کنارہ الگ تھلگ جزیرہ کی طرح رہ گیا ہے۔ یہودی بستیوں نے اسے ہڑپ کر لیا ہے، اور غزہ کا محاصرہ کر لیا گیا ہے۔ دونوں فلسطینی علاقوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لوگ اب صرف پرامن حل اور جدوجہد پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم ’جامع مزاحمت‘ پر یقین رکھتے ہیں جس میں مسلح مزاحمت اور عوامی مزاحمت بھی شامل ہے۔ ہمارے لوگوں نے عظیم مارچ میں شرکت کی اور سیکڑوں ہزاروں لوگ روزانہ غزہ کی سرحد پر محاصرہ توڑنے اورمغربی کنارہ کے ساتھ رابط کرنے کا مطالبہ کرتے تھے، مگر اس پُر امن جدوجہد کا کیا نتیجہ نکلا؟ جدوجہد کو پُرامن رکھنا یا اس کو پُرتشدد بنانا ، قابض قوت کے اختیار میں ہوتا ہے۔ اگر وہ پُر امن جدوجہد کو موقع دے، تو یہ پُرامن رہ سکتی ہے‘‘۔

 ایک اور اہم سوال میرے ذہن میں تھا کہ ۲۰۰۶ء میں حماس غزہ میں برسراقتدار آگئی۔ مغربی کنارہ کے برعکس اس خطے کے پاس سمندری حدود تھیں اور اگر گورننس پر توجہ دی گئی ہوتی تو اس کو علاقائی تجارتی مرکز میں تبدیل کرکے مشرق وسطیٰ کے لیے ہانگ کانگ یا سنگاپور بنایا جاسکتا تھا۔ اس طرح سے خطے میں مثالی علاقہ بن جاتا، مگر حماس نے اس کو میدان جنگ بنادیا۔ ابو مرزوق نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ الزام سن کر ہی عجیب لگتا ہے کہ غزہ کو ہم نے میدان جنگ بنادیا۔

 حماس ۱۹۸۷ء میں قائم ہوئی۔ ہم نے ۲۰۰۶ء میں اقتدار سنبھالا، اور اسی کے ساتھ ہی ہمارا محاصرہ کیاگیا تاکہ ہم اچھی طرح حکومت نہ کر سکیں۔ اسرائیل، امریکا، اور ظالم مغربی دنیا نے ہمیں ناکام بنانے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پھر بھی ہم ثابت قدم رہے۔ اسرائیل نے جان بوجھ کر ہمیں تباہ کرنے کے لیے منظم طریقے سے نشانہ بنایا۔ اس صورت حال میں ہم کیسے ایک معیشت کو ترتیب دے سکتے تھے؟ کیا سنگاپور یا ہانگ کانگ کو اسی طرح کی صورت حال کا کبھی سامنا کرنا پڑا؟ خوش حالی کا پہلا قدم نظم و نسق اور مجرموں سے نجات اور پھر ریاست کی تعمیر ہے۔ اسرائیلی قبضے سے قبل ہم واقعتاً خطے کے سب سے ترقی یافتہ علاقوں میں سے ایک تھے۔ جب قبضہ ہوا تو ہم پر جنگیں، نقل مکانی ٹھونس دی گئی۔ ہمارے آدھے لوگ فلسطین سے باہر پناہ گزین ہوگئے۔ ہم ترقی اور خوش حالی کی زندگی جینا چاہتے ہیں۔ مگر کیا قبضے میں رہتے ہوئے ہم خوش حال ریاست بنا سکتے ہیں؟

میں نے پوچھا، خیر آپ نے تو اب جنگ شروع کردی ہے، اس کا انجام کیا ہوگا؟ ; ابومرزوق نے جواب دیا کہ جنگ تو انھوں نے شروع کی ہے، جنھوں نے سرزمین پر قبضہ کیاہے۔ ’’حماس کے مجاہد خطے کی سب سے مضبوط فوج کو بے بس کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ہم اپنی مزاحمت اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک کہ ہم اپنی آزادی حاصل نہیں کر لیتے، اور ہماری آزادی ہی اس جنگ کا انجام ہے‘‘۔

 عرب ممالک ہمیشہ ہی حماس سے خائف رہتے ہیں۔ کیونکہ حماس کو اخوان المسلمون کی ایک شاخ تصور کیا جاتا ہے۔ ایران نے اس کی بھر پور مدد کی ہے۔ میں نے جب ان کی توجہ   اس طرف دلائی، تو ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی مزاحمت ایرانی انقلاب سے پہلے موجود تھی۔ ’’ایران ہمیں مدد فراہم کرتا ہے، اور ہم اس کے لیے اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں ، اور ہم مختلف جماعتوں اور ملکوں سے ہر قسم کی حمایت حاصل کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عرب عوام ان کے ساتھ ہیں ، اور یہ ان کا بڑا سرمایہ ہے۔

 میں نے پوچھا کہ کیا مشرق وسطیٰ میں امن کی خاطر اسرائیل اور فلسطین کا ایک ساتھ رہنا ممکن ہے ؟حماس کے لیے یہ قابل قبول کیوں نہیں ہے؟انھوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’آپ بھیڑ کے بچے سے یہ کہلوانا چاہتے ہیں کہ تم بھیڑیے کے ساتھ رہنے پر راضی ہوجائو؟ آپ کو یہ سوال بھیڑیئے سے کرنا چاہیے ، جس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور مشرق وسطیٰ میں انتہائی جدید ترین فوج کا مالک ہے۔ جہاں تک ہم فلسطینیوں کا تعلق ہے، ہم نے اوسلو میں مذاکرات کیے، دو ریاستی حل کی راہ بھی ہمیں دکھائی گئی۔ پھر کیا ہوا، کیا ہمارے علاقے خالی کیے گئے؟کیا ہمیں ریاست بننے دیا گیا ؟درحقیقت اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو فلسطینیوں کے ذہنوں سے فلسطینی ریاست کے قیام کے تصور کو کھرچنا چاہتے ہیں۔ کیا ایسے افراد یا ایسے نظریہ کے ساتھ رہنا ممکن ہے؟ کیا ان لوگوں کے ساتھ رہنا ممکن ہے جو یہ مانتے ہیں کہ ایک اچھا فلسطینی مردہ فلسطینی ہی ہے؟‘‘ میں نے پوچھا کہ ا یک تاثر یہ بھی ہے کہ فلسطینی خود بکھرے ہوئے اور منقسم ہیں۔ دنیا میں کوئی منقسم تحریک کے ساتھ معاملات طے کرنا پسند نہیں کرتا ہے ؟ انھوں نے کہا یہ ایک مضحکہ خیز دلیل ہے۔ حماس تو ۲۰۰۶ء میں غزہ میں برسراقتدار آئی۔ یعنی اسرائیل کے قیام کے چھ دہائیوں بعد، تو پھر ان دہائیوں کے دوران دنیا نے فلسطینی عوام کو آزادی کیوں نہیں دلائی؟آج دنیا فلسطینیوں کے منقسم ہونے کا بہانہ ڈھونڈ رہی ہے تاکہ فلسطینیوں پر الزام دھرا جا سکے۔ ان کی بین الاقوامی پوزیشن مشکوک بنائی جائے۔ آزادی کے عمل کے دوران ہر ملک میں الگ الگ موقف اور رائے رہی ہے، کیا آپ کو برصغیر کی آزادی کی تحریک کی تاریخ معلوم نہیں ہے؟ مگر اس سے عمومی تحریک کی نفی نہیں کی جاسکتی ہے۔ وہ بہرحال برحق ہے۔

اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کے ایڈیٹر یاکوف کاٹزنے ۲۲ستمبر کو ادارتی نوٹ میں جب سوال کیا کہ ’’کیا اسرائیل کو دوبارہ ۱۹۷۳ءکی ’یوم کپورجنگ‘ جیسی صورت حال کا سامنا کرپڑسکتا ہے؟‘‘ تو خود ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا ، کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں کی ناک کے نیچے ایسی ہی کارروائی کی منصوبہ بندی کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔

تاریخی شہر یروشلم یا القدس سے جنوب کی طرف جاتے ہوئے النقب یعنی نیگیو صحرا سے گزریں تو جدید زرعی تکنیک کے ذریعے اسرائیلی ماہرین نے ریگستان کو گلزار و شاداب بنا دیا ہے، اس کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں ایک طرف یہودی قصبے آراد، دیما، مٹزپے اور رامون کی بلندو بالا عمارتیں، جدید شاپنگ مالز اور انتہائی جدید انفرا سٹرکچر کسی بھی مغربی ملک کے شہر کا منظر پیش کرتے ہیں، انھی کے بغل میں عرب بدو بستیاں اور قصبے راحت، تل شیوا اور لاکیا، انتہائی کسمپرسی اور لاچاری کی داستان بیان کرتے ہیں۔ اس سوکلومیٹر کے راستے میںہی عسقلان، سدیرات، کفار عزا، بیری، نہال اوز اور میگن کی اسرائیلی رہائشی بستیوں ہیں،جہاں ۷؍اکتوبر کی صبح کو حماس نے حملہ کرکے ان علاقوں کو جہنم زار بنادیا، اور اس کے بعد سے اسرائیلی فضائیہ غزہ کی پٹی پرمسلسل قہر برسا رہی ہے۔ حماس نے سادہ موٹر سائیکلوں سے لے کر غیرروایتی پیرا گلائیڈرز پر سوار اور دنیا کے انتہائی جدید ترین نگرانی کے سسٹم کو چکمہ دیتے ہوئے اور راکٹوں کی بارش کرکے تین دن تک ان علاقوں پر قبضہ برقرار رکھا۔

ماضی میں جب بھی غزہ پر اسرائیلی حملہ ہوتا تھا، تو اسی علاقےمیں کبورز بیری کی مکین ایک کینیڈا نژاد یہودی معمر خاتون ۷۴ سالہ ویوین سلورکو فون کرکے حالات معلوم کرتے تھے۔ حقوق انسانی کےکارکن کی حیثیت سے اسکو اکثر سدیرات کے قصبہ میں غزہ کی سرحدکے پاس اسرائیلی حملوں کے خلاف اور فلسطینیوں کے حق میں مظاہرےکرتے ہوئے دیکھا جاتا تھا۔ مگر ۷؍اکتوبر کے حملے میں جہاں ان کےکبورز یعنی ہاؤسنگ سوسائٹی کے دیگر گھرمتاثر ہوئے ہیں ،وہیں ان کی رہایش بھی تباہ ہو گئی ہے۔ اس دن سے وہ غائب ہیں اور ان کا فون بھی بند ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر حماس کے عسکری اس کو اپنے ساتھ لےگئے ہوں گے، تو وہ محفوظ ہوگی اور جلد ہی واپس آکر پھر سرگرم ہوجائے گی، مگر جنگ میں کسی بھی چیز کی گارنٹی نہیں دی جاسکتی ہے۔بس ایک موہوم سی اُمید ہے۔ بیرون دنیا کے صحافیوں کے لیے، جو فلسطین کے مسائل کو خاص طور پر غزہ کو کور کرنا چاہتے تھے، وہ ایک طرح سے پہلا وسیلہ ہوتی تھی۔ ان کاکہنا تھا کہ ۱۹۹۰ء میں جب وہ غزہ سرحد کے قریب واقع کبورز بیری میں منتقل ہوگئی تھی، تو وہ عرب معاملات سے واقف ہوگئیں۔ اس کے بعد انھوں نے غزہ کی آبادی کی بہبود کے لیے پروگرام ترتیب دیئے۔ابھی ۴؍ اکتوبر کو ہی سلور نےیروشلم میں ایک امن ریلی کا انعقاد کیا تھا، جس میں فلسطینی مسئلے کو نظر انداز کرنے پر اسرائیلی حکومت پر شدید تنقید کی گئی۔ اس میں ۱۵۰۰؍ اسرائیلی اور فلسطینی خواتین نے شرکت کی تھی۔

بارود کا قہر صرف اسی سرزمین تک محدود نہیں تھا۔ صرف پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر غزہ، اسرائیل کی انتقامی کارروائیوں اورجھنجھلاہٹ کے بوجھ تلے لرز اٹھا۔ جیسے جیسے دن گزرتے ہیں،  غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اب تک ۵ہزار سے زیادہ فلسطینی بچّے، عورتیں اور مرد شہید ہوچکے ہیں۔ اسی طرح اسرائیل نے الاہل عرب، عرب ہسپتال غزہ پر حملہ کرکے ۵سو سے زیادہ مریضوں اور زخمیوں کو ماردیا ہے۔

سابق امریکی فوجی افسر مارک گارلاسکو، جو اب نیدر لینڈ کی پیکس فار پیس تنظیم کے لیے کام کرتے ہیں کا کہنا ہے:’’ اسرائیل نے تو صرف ایک ہفتے میں ہی۶۵۰۰بم گرائے، یعنی ایک ہزار بم ایک دن میں۔ امریکا نے افغانستان میں پورے سال بھر۷۴۲۳ بم گرائے تھے۔ غزہ پر بمباری اس لیے بھی تشویش کا موجب بنتی ہے کہ افغانستان کے برعکس یہ ایک گنجان آباد شہری علاقہ ہے۔ امریکی فوجی ریکارڈ کے مطابق: ’’ناٹو اتحادی افواج نے لیبیا میں پوری جنگ کے دوران طیاروں سے تقریباً ۷۶۰۰ بم اور میزائل گرائے تھے‘‘۔

غزہ اس وقت اپنے وجود کے بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس علاقے میں ہر فرد بے گھر، الجھن اور نااُمیدی کے احساس کی عکاسی کر رہا ہے۔ غزہ کے رہایشی جمعہ ناصر اور فری لانس صحافی عصیل موسیٰ پناہ کی تلاش میں اپنے دردناک سفر کا ذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں:’’بمباری کے خوف سے وہ رات بھر بھاگتے رہے‘‘۔ فون پر گفتگو کرتے ہوئے عصیل کہہ رہی تھی:’’کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے، کوئی پناہ گاہ نہیں ہے۔ جب بمباری نہیں ہوتی ہے، تو سروں کے اوپر اسرائیلی ڈرون خوفناک آوازیں نکالتے ہوئے پرواز کرکے ایک لمحہ بھی چین سے رہنے نہیں دے رہے ہیں‘‘۔ وہ ان دس لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں میں سے ایک ہیں،جنھیں اسرائیل نے کہا ہے کہ اگر وہ وہاں رہنا چاہتے ہیں تو غزہ کے جنوب میں بھاگ جائیں،مگر ان کے بھاگتے قافلہ پر بھی بمباری کی گئی۔

حماس کی کی کارروائی نے پوری دنیا کوحیران تو کردیا، مگر اس خطے پر نظر رکھنے والے کچھ عرصے سے فلسطین کے حوالے سے کسی بڑی کارروائی کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ ایک لاوا خطے میں پک رہا تھا، جس کو پھٹنا ہی تھا۔ فلسطینیوں میں ’ابراہیمی معاہدے‘ کی وجہ سے مایوسی پھیل گئی تھی۔ پہلا معاہدہ متحدہ عرب امارات، بحرین اور اسرائیل کے درمیان ۱۵ ستمبر۲۰۲۰ء کو ہوا تھا، جس کے بعد اسرائیل، مراکش اور سوڈان کے درمیان بھی اسی طرح کے معاہدے ہوئے۔ گذشتہ ماہ   سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے کہا تھا کہ ’’قطر اور سعودی عرب کے ساتھ ایک بنیادی فریم ورک پر کام کیا جا رہا ہے‘‘۔مگر ان معاہدوں کی خبروں نے فلسطینیوں کی زمینی صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اس کے برعکس ۲۰۲۳ء کے صرف پہلے نو مہینوں میں، اسرائیل نے کم از کم ۲۳۰ فلسطینیوں کو ہلاک کردیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ۲۰۰۵ء کے بعد سے جاری تنازعے میں ہلاکتوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔صرف رواں سال کی پہلی ششماہی میں فلسطینیوں پر اسرائیلی آباد کاروں کے کم از کم۱۱۴۸ حملے ریکارڈ کیے گئے۔مزید یہ کہ اسرائیل کے انتہائی مذہبی شدت پسند جان بوجھ کر الاقصیٰ کمپلیکس کے اندر اشتعال انگیز مارچ میں اس کی بے حُرمتی کر کے فلسطینیوں کو اُکسا رہے تھے۔ حال ہی میں انھوں نے مسیحی برادری کے مقدس مقام پر تھوک کر ان کی بھی توہین کی ۔ مصری خفیہ ایجنسی کے ایک افسر نے میڈیا کو بتایا کہ: ’’ہم نے اسرائیلیوں کو خبردار کیا تھا کہ فلسطینی علاقوں میں صورتِ حال دھماکہ خیز ہوتی جا رہی ہے،مگر انھوں نے ان کو قابلِ توجہ نہیں سمجھا‘‘۔

مغربی کنارے اور اپنے زیرتسلط عرب آبادی کو اسرائیل نے بد ترین نسل پرستی کا نشانہ بنایا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی بتایا گیا ہے کہ عرب آبادی کو امتیازی سلوک کا سامنا کر نا پڑرہاہے ۔ صحراؤں میں رہنے والے عرب بدوؤں کو بنیادی سہولیات سے محروم کرنے کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ ان کے ۳۵دیہات، جہاں تقریباً ۷۰ ہزار لوگ رہتے ہیں، اس وقت اسرائیل کی طرف سے ان معنوں میں ’غیر تسلیم شدہ‘ہیں کہ وہاں بجلی اور پانی کی سپلائی منقطع ہے اور انھیں بار بار مسمار کرنے کے لیے نشانہ بنایا جارہا ہے۔

 مغربی کنارے میں انتفاضہ جیسی کارروائی یا اسرائیل کے اندر عرب آبادی کی بغاوت کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ غزہ کے راستے اس طرح کی پیش قدمی یقینا ان کے لیے بھی حیرانی کا باعث ہے۔ اس غلط اندازے کی وجہ سے اسرائیل نے بھی مغربی کنارے پر افواج کی تعیناتی کی تھی، اور جنوبی خطے کو ایک طرح سے خالی چھوڑا تھا۔ جس کی وجہ سے یہ علاقے واپس لینے کے لیے اس کے انتہائی تربیت یافتہ اور جدید آلات سے لیس کماڈوز کو تین دن زور لگانا پڑا۔

معروف اسرائیلی کالم نگار، گیڈون لیوی کا کہنا ہے: ’’کئی برسوں میں بہت سی اشتعال انگیزیاں ہوئی ہیں جو ایک دھماکا خیز صورتِ حال بنا رہی تھیں۔ یہودی آباد کاروںکی طرف سے فلسطینی آبادی کو اشتعال دلایا جا رہا تھا۔ اور جب حماس نے ان پر حملہ کیا، تو ان کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں تھا‘‘۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق: ’’۲۸ستمبر کو سی آئی اے کی خفیہ رپورٹ میں حماس کی جانب سے اسرائیل پر کئی دنوں تک راکٹ فائر کرنے کے امکان کی نشاندہی کی گئی تھی اور پھر ۵؍اکتوبر کو دوسری رپورٹ میں اس انتباہ کو دُہرایا گیا‘‘۔

اسرائیلی افواج اب غزہ کے تباہ شدہ منظر نامے میں داخل ہو رہی ہیں۔اپنی باقاعدہ فوج کے علاوہ، اسرائیل نے حماس کے خلاف لڑائی میں شامل ہونے کے لیے۳لاکھ ۶۰ ہزار ریزروسٹ، یا کل اسرائیلی آبادی کے ۴ فی صد کو بھرتی کیا ہے۔ فوجی حکمت عملی کے ایک اسرائیلی ماہر جیک خووری کے مطابق: ’’انتقامی کارروائیاں فوری طور پر جذباتی سکون فراہم تو کرتی ہیں، مگر وہ اکثر پیچیدہ، دیرپا مسائل کا باعث بنتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حماس کو اگر ختم کردیا جائے تو غزہ پر کون حکومت کرے گا اور کون تعمیرِ نو کرے گا؟‘‘ جیک خودری کا کہنا ہے کہ :’’امریکا نے نائن الیون کے حملوں کے بعد افغانستان اور عراق پر چڑھائی کی۔ دو عشرے کے بعدافغانستان میں طالبان مضبوطی کے ساتھ واپس اقتدار میں آگئے اور عراق میں ایران کو تاریخ میں سب سے زیادہ اثر و رسوخ حاصل ہے، جس سے یہ ملک امریکیوں کے لیے مزید خطرناک ہوگیا ہے‘‘۔ ایڈرین لیوی کے مطابق: ’’اعلیٰ امریکی اور یورپی حکام کے دورے اور امریکی صدر جو بائیڈن کی ہمدردانہ تقریر سے اسرائیلیوں کو گمراہ نہیں ہونا چاہیے‘‘۔ حماس کے حملوں نے بتایا ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو نظر انداز کرنا ایک غلطی تھی۔ اسرائیل اور اس کے عرب شراکت داروں کے لیے لازم ہے کہ غزہ اور مغربی کنارے کے لیے ایک نئے، پُراُمید وژن پر غور کریں۔فوجی کارروائی سے نہ تو حماس کے عسکریوں کو ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ اس کے نظریہ یا بنیادی مسائل کو، جس کی وجہ سے ان کی آبیاری ہوتی ہے۔

اکتوبر ۱۹۷۳ء میں مصر ی افواج نے اچانک حملہ کرکے نہر سویز اور صحرائے سینا کو اسرائیلی قبضہ سے آزاد کرواکر اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے بت کوپاش پاش کر دیا تھا۔ پچھلے ۵۰برسوں میں یہ سودا ایک بار پھر اسرائیلی حکمرانوں کے سر میں سما گیا تھا۔ اسی غرور کی وجہ سے وہ فلسطینیوں کو کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں تھے۔ اپنے عرب پڑوسیوں کے ساتھ امن کے لیے ’ابراہیمی معاہدے‘ کے مندجات پر بات چیت کرتے ہوئے اسرائیلی، فلسطین کی خودمختاری کے حوالے سے کسی بھی طرح کی بات چیت کرنے کے لیے تیار نہیں ہو رہے تھے۔ 

پچھلے ایک عشرے سے تو کسی بھی سفارتی اجلاس میں اسرائیلی سفارت کار، فلسطین کے حوالے سے کوئی بات سننے کے روادار نہیں ہوتے تھے۔ وہ اس کے بجائے عرب ہمسائیوں کے ساتھ علاقائی روابط اور استحکام پر توجہ مرکوز رکھتے تھے۔ سعودی عرب کے ساتھ ’ابراہیمی معاہدے‘ پر دستخط کرنے سے قبل، صیہونی وزیر اعظم نیتن یاہو کی حکومت نے یہودی غیر سرکاری تنظیموں کوچھوٹ دے رکھی تھی، کہ وہ زیادہ سے زیادہ یہودی آباد کاروں کو مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی زمینوں پر آباد کریں۔ کیونکہ فلسطینیوں کے حوالے سے وہ عرب ممالک کو بس اتنی سی رعایت دینے کے لیے تیار تھے کہ وہ مزید یہودی آبادکاروں کو فلسطینی زمینوں پر آباد نہیں کریں گے۔

سعودی عرب میںبھارت کے سابق سفیر تلمیذ احمد کے مطابق: ’’یہ اقدام کرکے حماس نے پیغام دیا ہے کہ فلسطین کے مسائل کو حل کیے بغیر عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات معمول پر نہیں آسکتے ہیں۔ کچھ عرصے سے مغربی میڈیا جو اسرائیل کا حامی ہے، اسے اس مسئلے کے حوالے سے بات کرنا بھی گوارا نہیں تھا۔ حد یہ کہ نیتن یاہو تو اب دوریاستی فارمولے پر بھی غور کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔وہ بس اردن سے مسجد اقصیٰ کی نگرانی چھین کر اس کو سعودی عرب کو دینے کے لیے تیار تھا اور اسی چیز کو ایک بڑی رعایت سمجھتا تھا‘‘۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب میں نیتن یاہو نے ’گریٹر اسرائیل‘(عظیم تر اسرائیل) کا نقشہ پیش کر کے معاملے کو مزید پیچیدہ کردیا۔ اس میں مغربی کنارے اور غزہ کو اسرائیل کی سرحدوں کے اندر دکھایا گیا ہے۔ نیتن یاہو کے سابق مشیر یاکوف امیڈور نے اعتراف کیا ہے کہ: ’’حماس کی کارروائی ایک بڑی انٹیلی جنس ناکامی ظاہر کرتی ہے،کیونکہ اس طرح کے حملوں کے لیے مہینوں کی منصوبہ بندی اور متعدد گروپوں کے درمیان محتاط تربیت اور ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے‘‘۔

جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ ’’حماس کی کارروائیوں سے کس کو فائدہ ہوا؟‘‘ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس اقدام نے بہت سے اسٹیک ہولڈرز کے لیے راحت کا ساما ن فراہم کیا ہے۔ ایران، چین اور روس اس لیے خوش ہو رہے ہیں کیونکہ امریکی ثالثی میں ہونے والے ’ابراہیمی معاہدے‘ کو شدید دھچکا لگا ہے۔ خطے میں متوقع استحکام کی اُمید میںامریکا اس خطے سے نکل کر اپنے وسائل ایشیا پیسیفک کے علاقے میں منتقل کرنے کی کوشش کر رہا تھا تاکہ چین کا مقابلہ کیا جاسکے۔ روس کے لیے یوکرین سے مغربی دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے یہ ایک نعمت غیرمترقبہ ثابت ہوسکتی ہے۔ اگرچہ ایران نے حماس کی براہ راست مدد نہ کی ہو، لیکن مزاحمتی گروپ پر اس کا اثر و رسوخ اور لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ اس کی قربت اسرائیل کے لیے تنائو کی صورتِ حال بناتی ہے۔اسرائیل جو ایران پر حملہ کرنے کے لیے پر تول رہا تھا، اب اس خطے میں ہی محدود ہو کر مزاحمتی گروپوں سے لڑنے میں مصروف رہے گا۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے پر مجبور شرق اوسط کے ممالک بھی اب تل ابیب کے ساتھ مضبوط بنیادوں پر بات چیت کر سکتے ہیں کیونکہ اب اسرائیل چاہے کچھ بھی کرے وہ اپنا مضبوط اثر و رسوخ کھو چکا ہے۔ ’ابراہیمی معاہدے‘ پر ثالثی کے دوران، امریکا نے بھی اَزحد کوشش کی تھی، کہ کسی طرح اسرائیل کو فلسطینیوں کو کوئی رعایت دینے پر آمادہ کیا جائے، مگر اسرائیل نے امریکی کوششوں کو کئی بار سبو تاژ کیا، جس سے امریکی صدور بھی نالاں تھے۔

چند سال قبل نئی دہلی کے دورے پر آئے یہودی مذہبی لیڈر اور ’امریکن جیوش کمیٹی‘ (AJC) کے ایک عہدے دار ڈیوڈ شلومو روزن نے مجھے بتایا کہ: ’’مصر اور اسرائیل کے درمیان کیمپ ڈیوڈ معاہدہ ۱۹۷۳ءکی جنگ کے بعد ہی ممکن ہوسکا۔ اس جنگ نے ہمارے ناقابل تسخیر ہونے کا بھرم  توڑ دیا۔ اس لیے اس جنگ کے بعد عمومی طور پر اسرائیلی معاشرے میں احساس پیدا ہوگیا تھاکہ ان کو بے یار و مدد گار چھوڑ دیا گیا‘‘۔ جون ۱۹۶۷ء کی چھ روزہ جنگ میں مصر، شام اور اردن کو مکمل طور پر شکست دینے کے بعد اسرائیل حد سے زیادہ پُر اعتماد ہو گیا تھا۔ دستاویزات کے مطابق اسرائیل امن مذاکرات شروع کرنے یا اپنے عرب پڑوسیوں کو کچھ رعایتیں دینے کے لیے امریکی دباؤ کو بار بار مسترد کر رہا تھا۔ ۲۰۲۱ء میں شائع ہونے والی کتابMaster of the Game  ' کے مصنف مارٹن انڈک کے مطابق ہنری کسنجر نے امریکی انتظامیہ کو مشورہ دیا تھا کہ ’’وہ فور ی طور پر اسرائیل کی مددکو نہ آئے‘‘۔ وہ اسرائیل کو ایک جھٹکا(shock) دے کر باور کروانا چاہتے تھے کہ اس کا وجود اور سلامتی بس امریکا کے دم سے ہے۔ اسی جنگ کے بعد ہی ۱۹۷۹ء میں اسرائیل نے مصر کے ساتھ ایک امن معاہدے پر دستخط کیے، بعد میں اردن اور پھر فلسطینیوں کے ساتھ ’اوسلو معاہدے‘ عمل میں آئے۔ اس کی ایک بڑی وجہ اسرائیل کے بھرم کا ٹوٹنا ہی تھا۔

حماس کی کارروائی عرب ہمسایوں اور بڑی طاقتوں کے لیے بھی ایک سبق ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی دوڑ میں، مسئلہ فلسطین کو نظر انداز کرکے انھوں نے ایک بڑی غلطی کی تھی۔ امریکی ڈپلومیسی کے ایک ماہر ہنری کسنجر نے کئی عشرے قبل خبر دار کیا تھا کہ ’’اگر آپ فلسطین جیسے ایشو کو نظر انداز کرتے ہیں، تو یہ کسی بھی وقت پلٹ کر وار کرکے آپ کے چہرہ کو بگاڑ دے گا‘‘۔ واقعات نے ظاہر کیا ہے کہ شرق اوسط میںحالات تیزی کے ساتھ بدل سکتے ہیں۔ اس لیے دیرپا امن کے مفاد میں ضروری ہے کہ فلسطین کے مسئلے کو معتبر طریقوں کے ساتھ حل کرتے ہوئے عالمی سطح پر استحکام پیدا کیا جائے۔ یہی زریں اصول نہ صرف فلسطین، بلکہ تمام متنازعہ خطوں پر صادق آتا ہے۔

 وزیر اعظم نریندر مودی حکومت نے ۵؍اگست ۲۰۱۹ء میں جموں و کشمیر کی آئینی خود مختاری ختم اور ریاست کو تحلیل کرکے مرکز کے زیر انتظام دو علاقے بنانے کا جو قدم اُٹھایا تھا،اس کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر فی الوقت بھارتی سپریم کورٹ روزانہ سماعت کر رہی ہے۔ پیر اور جمعہ چھوڑ کر ہفتے کے بقیہ تین دنوں میں سپریم کورٹ کا پانچ رکنی آئینی بینچ صرف اسی مقدمے کی سماعت کر رہا ہے۔ ۲؍اگست ۲۰۲۳ء کو جب سماعت شروع ہوئی، تو چیف جسٹس ، جسٹس دھنن جے یشونت چندرا چوڑ نے اعلان کیا کہ ’’اس ایشو پر کُل ۶۰گھنٹے کی سماعت ہوگی‘‘۔ اس لیے اگست کے آخر تک سماعت مکمل ہونے کا امکان ہے۔

اس مقدمے کا فیصلہ جو بھی ہو ، مگر وکیلوں کے دلائل، ججوں کے سوالات اور کورٹ میں جمع کرایا گیا تحریری مواد ، کشمیر کے موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں کے علاوہ قانون و سیاست کے کسی بھی طالب علم کے لیے ایک بڑ ا خزانہ ہے۔ عدالت میں۱۳ہزار ۵ سو ۱۵ صفحات پر مشتمل دستاویزات کے علاوہ ۲۸جلدوں پر مشتمل ۱۶ ہزار ایک سو۱۱ صفحات پر مشتمل کیس فائلز دائر کی گئی ہیں۔ کئی شہرۂ آفاق کتابیں Oxford Constitutional Theory, The Federal Contract اور The Transfer of Power by V P Menonکی جلدیں بھی کورٹ کے سپرد کردی گئی ہیں اور وکلا دلائل کے دوران ان کے نظائر اور شواہد پیش کر رہے ہیں۔ لیکن جس کتاب کے حوالوں کو سب سے زیادہ عدالت اور وکلا نے سوالات یا دلائل کے دوران استعمال کیا ہے وہ شہرۂ آفاق مصنف اے جی نورانی کی مدلل کتاب: Article 370: Constitutional History of Jammu and Kashmir  ہے۔ بطور ایک ریسرچر کے اس کتاب میں تحقیقی معاونت سے منسلک ہونے کا مجھے اعزاز حاصل ہے۔

معروف وکیل کپل سبل نے ۲؍اگست کو بحث کا آغاز کرتے ہوئے ججوں کو یاد دلایا: ’’ یہ ایک تاریخی لمحہ ہے۔ تاہم، اس کیس کی سماعت کا آغاز کرنے میں عدالت کو پانچ سال لگے۔ یہ اس لیے بھی تاریخی ہے کہ پچھلے پانچ برسوں کے دوران میں، جموں و کشمیر میںکوئی نمایندہ حکومت نہیں ہے‘‘۔ اس کے بعد کپل سبل نے ترتیب زمانی کے ساتھ تاریخوں کی ایک فہرست پڑھی، جس میں ان عوامل کی نشاندہی کی گئی کہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ کیوں دیا گیا تھا؟ انھوں نے کہا: ’’کشمیر کے لیے ایک علیحدہ ستور ساز اسمبلی تشکیل دی گئی تھی۔ پارلیمنٹ خود کو دستور سا ز اسمبلی میں تبدیل نہیں کرسکتی۔ جب ایک بار آئین منظور ہو جاتا ہے، تو ہر ادارہ اس پر عمل کرنے کا پابند ہوتا ہے۔

۱۸۴۶ء کے ’معاہدۂ امرتسر‘ سے لے کر ۱۹۴۷ء کی ’دستاویزالحاق‘ کی شقوں کو بنیاد بنا کر کپل سبل نے تقریباً ڈھائی دن تک بحث کی۔ انھوں نے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا وہ خط بھی پڑھا، جس میں انھوں نے الحاق کے سوال کو عوامی رائے کے ذریعے طے کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ان دستاویزات کے مطابق، بھارت کی دیگر ریاستوں کے لیے وفاق کے پاس جو اختیارات ہیں، ان کے برعکس ،بقیہ اختیارات جموں و کشمیر ریاست کے پاس ہی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا:میرا نکتہ یہ ہے کہ، حکومت ہند اور ریاست کے درمیان ایک مفاہمت تھی کہ ان کی ایک آئین ساز اسمبلی ہوگی جو مستقبل کے لائحہ عمل کا تعین کرے گی‘‘۔

کپل سبل نے کہا: اس لیے آرٹیکل ۳۷۰ ایک عارضی انتظام تھا، کیونکہ یہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کو طے کرنا تھا کہ وہ اس کو مستقل بنیادوں پر رکھنا چاہتی ہے یا منسوخ کرنا چاہتی ہے؟ اس دوران چیف جسٹس نے بار بار پوچھا کہ ’’آئین ساز اسمبلی تو سات سال کی مدت ختم کرنے کے بعد اس دفعہ پر کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ہی تحلیل ہوگئی ، تو ا ب اس دفعہ کی ترمیم وغیرہ کے لیے کیا طریقۂ کار ہے؟‘‘ سبل نے استدلال پیش کیا کہ ’’چونکہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا وجود ختم ہو گیا ہے، اس لیے آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا، آرٹیکل ۳۷۰ کی شق (۳) ناقابل اطلاق ہو جاتی ہے‘‘۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ’’ اگر سبل کی طرف سے پیش کردہ استدلال کو مدنظر رکھا جائے تو آرٹیکل ۳۷۰، جو کہ ایک 'عبوری پروویژن ہے، مستقل پوزیشن کا کردار ادا کرتا ہے کیونکہ اب کوئی آئین ساز اسمبلی موجود نہیں ہے‘‘۔ جسٹس کانت نے یہ بھی استفسار کیا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کو کیسے عارضی سمجھا جا سکتا ہے جب یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس دفعہ کو کبھی منسوخ نہیں کیا جا سکتا؟‘‘ جسٹس کھنہ کے مطابق: ’’جس مسئلے پر توجہ دینا باقی ہے وہ یہ ہے کہ کیا آرٹیکل ۳۷۰ کی عارضی نوعیت، جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کی موروثی عارضی نوعیت سے ہم آہنگ ہے؟یعنی، ایک بار جب جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا وجود ختم ہو گیا، کیا آرٹیکل ۳۷۰ کی شق (۳)، جو آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ کرنے کی اجازت دیتی ہے، ناقابل عمل بن جاتی ہے؟‘‘

بحث کے دوسرے د ن کپل سبل نے عدالت کو بتایا:’’ آرٹیکل ۳۷۰(۱) کی شق (b )(i) بھارتی پارلیمنٹ کے وفاق کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کے اختیارات کو محدود کرتی ہے اور بھارتی آئین کے ساتویں شیڈول کی کنکرنٹ لسٹوں میں الحاق کی دستاویز میں مذکور مضامین کے سلسلے میں جموں و کشمیر حکومت کی ’مشاورت‘ کا لفظ درج ہے۔ دوسری طرف، آرٹیکل ۳۷۰(۱) کی شق (b) (ii)، پارلیمنٹ کو یونین کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کے اختیار میں توسیع کرتی ہے اور آئین کے ساتویں شیڈول کی کنکرنٹ لسٹیں معاملات کا احترام کرتی ہیں۔

اس سماعت کے آغاز میں، چیف جسٹس نے آرٹیکل ۳۷۰ پر چند مشاہدات پیش کیے: آرٹیکل ۳۷۰(۱) کی شق (b) پارلیمنٹ کو ریاست جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کا اختیار نہیں دیتی۔ یعنی قانون بنانے کااختیار آرٹیکل ۳۷۰(۱)کے علاوہ کہیں اور ہے۔اس بحث میں حصہ لیتے ہوئے جسٹس کول نے کہا کہ آرٹیکل ۳۷۰(۱) کی شق (b) ایک محدود شق ہے۔ مزید یہ کہ آرٹیکل ۳۷۰(1) کی شق (b) (i) کے تحت جموں و کشمیر کے لیے قانون بنانے کی بھارتی پارلیمنٹ کی طاقت دو چیزوں پر محدود ہے۔سب سے پہلے، پارلیمنٹ کا دائرہ جموں و کشمیر پر لاگو قوانین بنانے کا اختیار صرف 'یونین اور کنکرنٹ لسٹ کے معاملات تک محدود ہے۔دوسرا، حکومت جموں و کشمیرکے ساتھ مشاورت یونین اور کنکرنٹ لسٹوں میں ایک شرط ہے جو دستاویز الحاق کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے۔ یعنی جموں و کشمیر سے متعلق کسی بھی معاملے میں ریاستی حکومت کی آمادگی اور رائے کی ضرورت ہے۔

دوسرا، یہاں تک کہ اگر صدر کوئی استثنیٰ اور ترمیم نہیں کر رہے ہیں، لیکن ہندستانی آئین کی کچھ شقوں کو جموں و کشمیر پر لاگو کیا جا رہا ہے، تب بھی جموں و کشمیر حکومت کی مشاورت یا 'اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ جسٹس کول نے یہ مسئلہ بھی اٹھایا کہ اگر دفعہ ۳۷۰ کا کوئی مستقل کردار نہیں ہے، تو پھر اس کو کس طریقے سے ختم کیا جا سکتا ہے اور کیا جو طریقۂ کار اپنایا گیا، وہ درست تھا؟‘‘

سبل کی دلیل تھی کہ آرٹیکل ۳۷۰ مختلف مراحل سے گزرا ہے۔ اس کا آغاز ایک عبوری انتظام کے طور پر ہوا، جس میں جموں و کشمیر میں ایک دستور ساز اسمبلی تشکیل کرنے کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔ جب ایک بار جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی نے جموں و کشمیر کا ایک آئین بنا کر اپنا مقصد پورا کر لیا، جس میں ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کی توثیق کرنے والی مخصوص اور واضح دفعات موجود تھیں ، اس کے تحلیل ہونے کے بعد آرٹیکل ۳۷۰'منجمدہو گیا۔اس طرح اس دفعہ کے مستقل کردار کو قبول کیا گیا۔ اس کے بعد، سبل نے عرض کیا کہ جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کےپاس ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کی شق (۳) کے تحت جموں و کشمیر کو دیے گئے اختیارات کو منسوخ کرنے کا اختیار نہیں ہے، کیونکہ اس طرح کے اختیارات کو منسوخ کرنے کا اختیار صرف آئین ساز اسمبلی کو دیا گیا تھا۔

جب جسٹس کول نے پوچھا کہ کیا ہندستانی پارلیمنٹ کے پاس ایسا کرنے کا اختیار ہے، تو سبل نے جواب دیا کہ یہ طے شدہ قانون ہے کہ قانون ساز ادارہ کسی ایسے اختیارپر مداخلت نہیں کرسکتا، جو پہلے اس کے پاس نہیں تھا، جیسا کہ سپریم کورٹ نے ایس آر بومائی بمقابلہ میں مشاہدہ کیا تھا۔اب سوال یہ تھا کہ کیا پارلیمنٹ آئین ساز اسمبلی کا کردار ادا کرسکتی ہے؟ اس پر چیف جسٹس نے خود ہی کہا کہ جب پارلیمنٹ آئین میں ترمیم کرتی ہے، تب بھی وہ آئین ساز اسمبلی کے اختیارات کا استعمال نہیں کر رہی ہوتی، بلکہ ایک جزوی طاقت کا استعمال کرتی ہے۔ جسٹس چندر چوڑ نے استدلال دیاکہ پارلیمنٹ اور آئین ساز اسمبلی دوالگ الگ ادارے ہیں اور پارلیمنٹ کے لیے خود کو آئین ساز اسمبلی میں تبدیل کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

سماعت کے تیسرے دن سبل نے عدالت کو بتایا: جموں و کشمیر کے گورنر ، جو خود ہی وفاق کا نمایندہ ہے کے ذریعے خصوصی حیثیت کو چھین لیا گیا اور بتایا گیا کہ ریاست کے ساتھ مشاورت کی گئی ہے۔ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعظم شیخ عبداللہ کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے، سبل نے نشاندہی کی کہ اگرچہ آرٹیکل ۳۷۰ کو ایک عارضی شق قرار دیا جاتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دفعہ ۳۷۰ کو 'یک طرفہ طور پر منسوخ، ترمیم یا تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ۱۱؍ اگست ۱۹۵۲ء کی تقریر میں شیخ عبداللہ نے کہا تھا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کی عارضی نوعیت جموں و کشمیر اور یونین آف انڈیا کے درمیان آئینی تعلقات کو حتمی شکل دینے کے پہلو میں ہے، جس کا اختیار خاص طور پر جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے پاس ہے۔ ہندستان کے آئین نے یونین کے اختیارات کے دائرہ کار اور دائرہ اختیار کو الحاق کی شرائط کے ذریعے محدود کر دیا ہے ۔شیخ عبداللہ نے کہا کہ آرٹیکل ۳۷۰ ہندستان کے ساتھ ہمارے تعلقات کی بنیاد ہے۔ اس میں چھیڑ چھاڑ ، ہماری ریاست کی ہندستان کے ساتھ وابستگی پر اثر انداز ہو سکتی ہے اور اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی شیخ عبداللہ نے کہا کہ یہ دو حکومتوں کے درمیان معاہدے کی طرح ہے۔

 سبل نے دلیل دی کہ دونوں خودمختارریاستوں یا مملکتوں کے ذریعے طے شدہ اور دستخط شدہ معاہدے کی ایک توقیر ہوتی ہے اور اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ۵؍اگست ۲۰۱۹ء کو جو کچھ ہوا، وہ ایک صدارتی حکم کے تحت کیا گیا۔ اس صدارتی آرڈرکے جاری ہونے سے پہلے راجیہ سبھا میں ایک قرارداد پیش کی گئی تھی، جس کے ذریعے جموں و کشمیر کی تنظیم نو کرکے اس کو دولخت کردیا گیا، جب کہ ضابطے میںیہ طے ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے والا کوئی بل ریاستی مقننہ کی رضامندی کے بغیر پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ گورنر ایک 'مکمل اتھارٹی نہیں ہے بلکہ ایک آئینی مندوب ہے۔سبل نے سوال کیا: اگر صدر مرکزی کابینہ کی مدد اور مشورے کے بغیر پارلیمنٹ کو تحلیل نہیں کر سکتے تو گورنر اس اختیار کا استعمال کیسے کر سکتا ہے؟سبل نے اپنی گذارشات کو یہ کہتے ہوئے ختم کیا:جموں و کشمیر کے لوگوں کی آواز کہاں ہے؟ کہاں ہے نمایندہ جمہوریت کی آواز؟ پانچ سال گزر چکے ہیں ۔ انھوں نے دوبارہ کہا کہ عدالت اس وقت تاریخ کے ایک کٹہرے میں ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ عدالت خاموش نہیں رہے گی بلکہ عدل و انصاف کی گواہی دے گی۔

سبل کی تقریباً تین دن تک محیط اس بحث کے بعد سینیر وکیل گوپال سبرامنیم نے دلائل کا آغاز کیا۔ انھوں نے اس سے بحث شروع کی کہ بھارتی آئین کی طرح ، جموں و کشمیر کا بھی اپنا آئین ہے ، جو ۱۹۵۷ءمیں آئین ساز اسمبلی نے تشکیل دیا۔ انھوں نے کہا کہ دفعہ ۳۷۰کے ذریعے دونوں آئین ایک دوسرے سے مطابقت پیدا کرتے ہیں۔ سبرامنیم نے دوسرا نکتہ یہ پیش کیا کہ موجودہ کیس میں، عدالت کا تعلق صرف ایک نہیں بلکہ دو آئین ساز اسمبلیوں کے مینڈیٹ سے ہے، یعنی ہندستان کی دستور ساز اسمبلی اور جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی۔سبرامنیم نے آئین سے متعلق ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی تعارفی تقریر کا حوالہ دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ ہندستانی آئین کا وفاقی ڈھانچا ریاست میں لوگوں کو خصوصی حقوق اور مراعات دینے کی اجازت دیتا ہے۔

سبرامنیم نے کہا کہ عدالت کو اس حقیقت کو دھیان میں رکھنا چاہیے کہ ’’جموں و کشمیر کسی دوسری ریاست کی طرح نہیں تھا‘‘۔انھوں نے اس دلیل کو یہ بتاتے ہوئے واضح کیا کہ دیگر راجواڑوں کے برعکس، جموں و کشمیر کا اپنا ۱۹۳۹ء کا آئین تھا، یہاں تک کہ ہندستان کے تسلط کے ساتھ الحاق کے معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے بھی وہاں ایک پرجا پریشد تھی۔ انھوں نے جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی کے مباحثوں کی اہمیت پر زور دیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی تھی جس نے آرٹیکل ۳۷۰(۱)(d) کے تحت ہندستان کو ۱۹۵۰، ۱۹۵۲ء اور ۱۹۵۴ء کے صدارتی احکامات کے ذریعے جموں و کشمیر پر ہندستانی آئین کے اطلاق کے سلسلے میں کچھ مستثنیات کو لاگو کرنے کی دعوت دی۔

سبرامنیم نے کہا کہ ہندستان ان صدارتی احکامات کی پابندی کرنے پر راضی ہے۔    واضح رہے کہ ۱۹۵۴ء کے صدارتی حکم نامے کی، جس نے پہلے کے احکامات کی جگہ لے لی تھی، بالآخر جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے توثیق کی۔ اس طرح جموں و کشمیر کی دستور ساز اسمبلی نے ایک رسمی قرارداد منظور کی جس میں کہا گیا کہ ہندستان کو ۱۹۵۴ء کے صدارتی حکم کی پابندی کرنی چاہیے اور اسے آرٹیکل ۳۷۰ کی شق (۱) اور شق (۳) کے ساتھ جاری رہنا چاہیے۔ اس دوران سبرامنیم نے خود سپریم کورٹ کے ہی پچھلے فیصلوں کا حوالہ دیا۔ انھوں نے کہا کہ اگر آرٹیکل ۳۷۰ کو منسوخ کرنا جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کا مینڈیٹ نہیں تھا اور ریاستی مقننہ کے ذریعے منسوخی کا اختیار کبھی بھی استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے، تو ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ وفاق یا پارلیمنٹ خود کو ریاست کی آئین ساز اسمبلی میں تبدیل کرکے اس دفعہ کو منسوخ کرادے۔

سبرامنیم ، جو لندن سے آن لائن دلائل دے رہے تھے، ان د س گھنٹے کی بحث کے بعد پوڈیم جموں و کشمیر کے معروف وکیل ظفر شاہ نے سنبھالا۔ انھوں نے وضاحت کی کہ آرٹیکل ۳۷۰ نے جموں و کشمیر کے آخری ڈوگرہ مہاراجا، مہاراجا ہری سنگھ کے ذر یعے دستاویز الحاق میں درج اختیارات کو برقرار رکھا۔انھوں نے کہا کہ مہاراجا نے جموں و کشمیر کا ہندستان کے ساتھ الحاق کیا تھا مگر انضمام کا کوئی معاہدہ عمل میں نہیں آیا تھا۔انھوں نے الحاق اور انضمام کی تشریح کی۔ شاہ نے کہا کہ چونکہ انضمام کے کسی معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے تھے، جموں و کشمیر نے اپنی آئینی خودمختاری کو برقرار رکھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ قانون بنانے کے بقایا اختیارات کے ذریعے ہی ریاست نے اپنی خودمختاری کا استعمال کیا۔آرٹیکل ۳۷۰(۱) کے حوالے سے، انھوں نے کہا کہ یہ شق ہندستانی آئین کے ساتویں شیڈول کے تحت تین فہرستوں کے قوانین کے اطلاق کے بارے میں بات کرتی ہے جو جموں و کشمیر پر لاگو ہوگی۔ظفر شاہ نے واضح کیا کہ چونکہ جموں و کشمیر کے لیے تین موضوعات یعنی دفاع، خارجی امور اور مواصلات پر قانون بنانے کے لیے ہندستان کو پہلے ہی مکمل اختیارات دیے گئے تھے، اس لیے آرٹیکل ۳۷۰(۱)(i) لفظ ’مشاورت‘ کا استعمال کرتا ہے۔اس موقع پر، شاہ نے یہ بھی نشاندہی کی کہ آرٹیکل ۳۷۰(۱)(ii) یا ۳۷۰(۱)(d) میں استعمال ہونے والے اظہار ’اتفاق‘ کا مطلب ہے کہ دونوں فریقوں کو متفق ہونا پڑے گا۔انھوں نے کہا کہ انسٹرومنٹ آف ایکشن کے تحت متعین کیے گئے ہندستانی قوانین میںیہ واضح ہے کہ دونوں فریقین کا رضامند ہونا ضروری ہے۔

ظفر شاہ نے کہا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کے تحت، یہ تصور نہیں کیا جا سکتا کہ پارلیمنٹ کوئی یک طرفہ فیصلہ کرے۔ جسٹس کھنہ نے شاہ کی اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہ جموں و کشمیر کا ہندستان کے ساتھ انضمام مکمل نہیں ہوا، کہا کہ انضمام کا سوال 'مکمل طور پر یقینی ہے۔انھوں نے ہندستانی آئین کے آرٹیکل (۱) کا حوالہ دیا جس میں لکھا ہے کہ ہندستان ریاستوں کا ایک یونین ہے جو جموں و کشمیر کے آئین کے آرٹیکل ۳ سے مطابقت رکھتا ہے۔کھنہ نے واضح کیا کہ آرٹیکل ۳۷۰ صرف ریاستی مقننہ کو اپنے لیے قانون بنانے کا خصوصی حق دیتا ہے۔جسٹس کھنہ نے ریمارکس دیئے: مجھے مکمل انضمام کے لفظ کے استعمال پر تحفظات ہیں۔ انھوں نے مزید کہا: 'بھارتی آئین کے آرٹیکل(۱) کے لحاظ سے مکمل انضمام ہوا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جموں و کشمیر کے ذریعے الحاق کے مسودہ پر دستخط کرنے کے بعد انضمام کی بحث ختم ہوتی ہے۔ ظفرشاہ، بنچ کے استدلال سے متفق نہیں ہوسکے۔ انھوں نے اپنے استدلال کو دہرایا کہ خودمختاری دستاویز الحاق کے ذریعے منتقل نہیں کی گئی۔ اسے صرف انضمام کے معاہدے کے ذریعے منتقل کیا جا سکتا ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے نشاندہی کی کہ آج بھی، پارلیمنٹ کے پاس ریاستی فہرست میں اندراجات کے لیے قانون بنانے کے مکمل اختیارات نہیں ہیں لیکن اس سے اس حقیقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ بالآخر خودمختاری ہندستان کے پاس ہے۔انھوں نے مزید کہا: 'ایک بار جب ہندستانی آئین کا آرٹیکل (۱) کہتا ہے کہ ہندستان ریاستوں کا ایک یونین ہوگا، جس میں ریاست جموں و کشمیر شامل ہے، خودمختاری کی منتقلی مکمل ہوگئی تھی۔ ہم ہندستانی آئین کو ایک دستاویز کے طور پر نہیں پڑھ سکتے جو آرٹیکل ۳۷۰ کے بعد جموں و کشمیر کو کچھ خودمختاری برقرار رکھے۔اس دلیل کو آگے بڑھاتے ہوئے، چیف جسٹس نے کہا کہ لفظ ’اتفاق‘ کا استعمال جموں و کشمیر کے آئینی حوالہ جات کے لیے منفرد نہیں ہے، ہندستان کے آئین میں ’اتفاق‘ کے بہت سے مختلف شیڈز کی ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۲۴۶-اےکی مثال پیش کی، جو گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) کے لیے جواز فراہم کرتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس دفعہ کے تحت پارلیمنٹ ریاستی مقننہ کی منظوری کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی۔

ظفرشاہ، جنھوں نے اسی معاملے پر پھر بنچ سے کہا کہ وہ ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۲۵۳ جو بین الاقوامی معاہدوں، معاہدوں اور کنونشنز سے متعلق ہے، میں ایک شرط شامل کی گئی، کہ ریاست جموں و کشمیر کے اختیار کو متاثر کرنے والا کوئی فیصلہ ریاست کی حکومت کی رضامندی کے بغیر انڈیا کی حکومت نہیں کرسکتی ہے۔ شاہ نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر کی صورت حال کی ایک اندرونی اور ایک بیرونی جہت ہے اور دونوں ایک ساتھ ہندستانی آئین کے آرٹیکل ۳۰۶-اے کے مسودہ میں شامل ہیں جو کہ حتمی فیصلہ تک زیر التوا ہے۔شاہ نے اپنی دلیل کا اختتام بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی۲۰۰۵ء کی سری نگر کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کیا کہ 'مسئلہ کشمیر کو انسانیت اور جمہوریت کے دائرے میں حل کیا جائے گا۔ شاہ نے امید ظاہر کی کہ عدالت اس بیان کی روشنی میں اپنا فیصلہ صادر کرے گی۔

شاہ کی آٹھ گھنٹے طویل بحث کے بعد ڈاکٹر راجیو دھون نے مختصر بحث میں عدالت کو بتایا کہ بھارت ایک ملک کے بجائے ایک براعظم ہے اور اس کے تنوع کے لیے خود مختاری کے انتظامات کی ضرورت ہے جیسا کہ آئین کے آرٹیکل ۳۷۰ کے تحت جموں و کشمیر میں موجود تھا۔ راجیو دھون نے دلیل دی کہ آئینی اخلاقیات تجویز کرتی ہے کہ اس طرح کے انتظامات کو محفوظ رکھا جانا چاہیے۔انھوں نے نشاندہی کی کہ بحث کے دوران چیف جسٹس نے آرٹیکل ۲۴۹ اور ۲۵۲ کا حوالہ دیا۔انھوں نے ان آرٹیکلز کے حوالے سے بینچ کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کو بہت اہم قرار دیا اور کہا کہ اس نے درخواست گزاروں کو 'بنیادی ڈھانچا کے خطوط پر بحث کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بینچ نے انضمام کے معاہدوں کی حیثیت سے کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ اس پر دھون نے کہا کہ دستاویز الحاق کی رو سے بیرونی خودمختاری ختم ہو جاتی ہے، لیکن اندرونی خودمختاری ختم نہیں ہوتی ہے۔

دھون نے نشاندہی کی کہ مہاراجا ہری سنگھ نے ہندستان کے ساتھ جوں کے توں یعنی اسٹینڈ اسٹل کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے تھے۔اس طرح کا معاہدہ مہاراجا نے پاکستان کے ساتھ کیا تھا۔ دھون نے اپنی دلیل کو مضبوط کرنے کے لیے پریم ناتھ عدالتی فیصلہ کا حوالہ دیا کہ آرٹیکل ۳۷۰ اسٹینڈ اسٹل یا انضمام کے معاہدے کا آئینی متبادل ہے۔ انھوں نے کہا کہ دستاویز الحاق کے ذریعے مہاراجا نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ جموں و کشمیر ہندستان کے تسلط کا حصہ بن چکا ہے۔ لیکن مہاراجا نے الحاق کے ذریعے اپنی خودمختاری کو منتقل نہیں کیا۔دھون نے نشاندہی کی کہ خودمختاری کی منتقلی کا عمل جزوی طور پر سیاسی وجوہ اور جزوی طور پر آرٹیکل ۳۷۰ کی وجہ سے شروع ہوا۔ انھوں نے آرٹیکل ۳ کے مندرجات کا حوالہ دے کر کہا کہ اس کی رُو سے کسی بھی ریاست کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے والا کوئی بل ریاستی مقننہ کی رضامندی کے بغیر پیش نہیں کیا جا سکتا۔

 انھوں نے مزید کہا کہ ۱۹۵۴ء (صدارتی حکم CO 48) نے آرٹیکل ۳ میں ایک اور شرط شامل کی، جس میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے رقبے کو بڑھانے یا کم کرنے یا ریاست کے نام یا حدود کو تبدیل کرنے کا کوئی بل جموں و کشمیر مقننہ کی رضامندی کے بغیر ہندستانی پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دھون نے سوال کیا کہ ریاستی مقننہ کی مشاورتی طاقت کو پارلیمنٹ کے ساتھ کیسے بدل دیا گیا؟دھون نے ہندستانی آئین کے آٹھویں شیڈول کے ساتھ پڑھے گئے آرٹیکل ۳۴۳ کا بھی حوالہ دیا، جو کشمیری کو ایک زبان کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔انھوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ ایک ایگزیکٹو ایکٹ کے ذریعے کشمیری کو بطور زبان نہیں چھینا جا سکتا۔انھوں نے کہا کہ آرٹیکل ۳۵۶ کے تحت صدر کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں وہ مکمل نوعیت کے نہیں ہیں۔ اختیارات کا اس حدتک استعمال اور غلط استعمال کیا گیا ہے کہ ان کے استعمال میں کچھ نظم و ضبط لازمی ہے۔ دھون نے متنبہ کیا کہ صدارتی راج کی آڑ میں جموں و کشمیر کے ساتھ جو ہوا وہ کسی اور ریاست کے ساتھ ہوسکتا ہے اگر آرٹیکل ۳۵۶ کے تحت اختیارات پر قدغن نہیں لگائی گئی۔انھوں نے دلیل دی کہ آرٹیکل ۳اور ۴ کے تحت نہ تو صدر اور نہ پارلیمنٹ ہی ریاستی مقننہ کا متبادل ہو سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے دھون سے سوال کیا کہ ’’کیا پارلیمنٹ آرٹیکل ۲۴۶(۲) کے تحت صدر راج کے دوران ریاست کے لیے قانون بنا سکتی ہے؟‘‘اس پر دھون نے جواب دیا: پارلیمنٹ ریاستی فہرست کے تحت قانون بنا سکتی ہے لیکن جب وہ آرٹیکل ۳ کے تحت کوئی قانون پاس کرتی ہے، تو اسے مذکورہ شرائط کی پابندی کرنی ہوگی۔انھوں نے نشاندہی کی کہ جموں و کشمیر میں ایک قانون ساز کونسل بھی تھی جسے آئینی ترمیم کے بغیر ختم نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دھون نے کہا کہ آرٹیکل۲۴۴-اے خود مختار ریاستوں کے قیام کا انتظام کرتا ہے۔ یہ ریاستوں کی خود مختاری کو تقویت دیتا ہے جو آرٹیکل ۳۷۰ میں جموں و کشمیر کو دی گئی خود مختاری کے مطابق ہے۔دھون نے کہا کہ آئین کو اخلاقیات کے ساتھ پڑھا جانا چاہیے۔ بھارتی حکومت نے کشمیری عوام کے ساتھ جو وعدے کیے ہیں کہ ان کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق ہوگا۔ انھوں نے یاد دلایا کہ کئی مواقع پر بھارتی لیڈران نے عزم کا اظہار کیا کہ وہ رائے شماری کے ذریعے لوگوں کی مرضی جاننے کے لیے پابند ہیں بشرطیکہ پُرامن اور معمول کے حالات بحال ہوں اور رائے شماری کی غیر جانب داری کی ضمانت دی جا سکے۔ دھون نے کہا کہ ہم نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ آئین ساز اسمبلی کے ذریعے لوگوں کی مرضی ریاست کے آئین کے ساتھ ساتھ یونین کے دائرۂ اختیار کا تعین کرے گی۔انھوں نے کہا کہ یہ وہی عہد ہے جو آرٹیکل ۳۷۰ کی روح ہے۔

دھون کے بعد وشانت دوئے نے دلیل دی کہ ۲۰۱۹ء کے آئینی احکامات تضادات کا مجموعہ اورآئین ہند کے ساتھ دھوکا دہی ہیں۔ انھوں نے عدالت کو کہا کہ انصاف صرف ہونا ہی نہیں چاہیے، ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔آرٹیکل ۳۷۰ کے عارضی ہونے کی وجہ بتاتے ہوئے دوئے نے کہا کہ یہ ہندستان کے لیے کبھی بھی عارضی نہیں تھا۔ یہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے اس حد تک عارضی تھا کہ وہ جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی کے ہاتھوں اپنی قسمت کا فیصلہ کر سکتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کے آخری ڈوگرہ مہاراجا ہری سنگھ نے ہندستان کے اس وقت کے گورنر جنرل لارڈ لوئس ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ مشروط طور پر ہندستان کے تسلط میں الحاق کے لیے جو معاہدہ کیا تھا، اس کی تشریح آرٹیکل ۳۷۰ کی روشنی میں کی جانی چاہیے۔وشانت دوئے نے کہا کہ معاہدہ سازی کی طاقت کو آئین کے زیر غور طریقے سے استعمال کرنا ہوگا اور اس کی طرف سے عائد کردہ حدود کے تابع ہونا پڑے گا۔ آیا یہ معاہدہ عام قانون سازی کے ذریعے نافذ کیا جا سکتا ہے یا آئینی ترمیم کے ذریعے یہ قدرتی طور پر خود آئین کی دفعات پر منحصر ہوگا۔دوئے نے کہا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کی تشریح آرٹیکل ۳۷۰ میں ہی موجود ہے۔

کشمیر کے معاملے پر وہ چاہے سپریم کورٹ ہو یا انڈین قومی انسانی حقوق کمیشن ، بھارت کے کسی بھی ادارے کا ریکارڈ کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا ہے، مگر چونکہ اس مقدمے کے بھارت کے عمومی وفاقی ڈھانچے پر بھی دُور رس اثرات مرتب ہوں گے، اس لیے شاید سپریم کورٹ کو اس کو صرف کشمیر کی عینک سے دیکھنے کے بجائے وفاقی ڈھانچے اور دیگر ریاستوں پر اس کے اثرات کو بھی دیکھنا پڑے۔ اس تناظر میں امید ہے کہ وہ ایک معروضی نتیجے پر پہنچ کر کشمیری عوام کی کچھ دادرسی کا انتظام کر پائے گا۔خیر اس وقت تمام نگاہیں بھارتی سپریم کورٹ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔ کیا سپریم کورٹ واقعی کوئی تاریخ رقم کرے گا؟ ایک بڑا سوال ہے، جس کا جواب وقت ہی دے گا۔

؍اگست ۲۰۱۹ء کو بھارتی حکومت نے جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل ۳۷۰ کے اہم مندرجات کو ختم کر دیا تھا۔ اسی کے ساتھ دفعہ ۳۵-اے، جس کی رو سے ریاستی باشندوں کو خصوصی اور علیحدہ شہریت کے حقوق حاصل تھے، اسے بھی منسوخ کردیا گیا تھا۔ اس اقدام کے خلاف انڈین سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا، جس کے جواب میں چارسال گزرنے کے بعد، سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے ۲؍اگست ۲۰۲۳ء سے سماعت شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جب کہ فریقین کو ۲۷جولائی ۲۰۲۳ء تک دستاویزات جمع کرانے کے لیے ہدایت کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چیف جسٹس جسٹس دھنن جے چندراچوڑ نے سرینگر کے ایک روزہ دورہ سے واپسی پر دفعہ۳۷۰ کے حوالے سے زیر التوا درخواستوں پر سماعت کرنے کا اچانک فیصلہ کرلیا۔ آخر سرینگر میں ان کو کیا کچھ نظر آیا ، جس کی وجہ سے انھوں نے سماعت کا فیصلہ کیا؟

اگرچہ کشمیر کے معاملے پر چاہے سپریم کورٹ ہو یا قومی انسانی حقوق کمیشن ، بھارت کے کسی بھی مؤثر ادارے کی تاریخ کچھ زیادہ اچھی نہیں رہی، مگر چونکہ اس مقدمے کے بھارت کے عمومی وفاقی ڈھانچے پر دور رس اثرات مرتب ہوںگے، اس لئے شاید سپریم کورٹ کو اس کو صرف کشمیر کی عینک سے دیکھنے کے بجائے وفاقی ڈھانچے اور دیگر ریاستوں پر اس کے اثرات کو بھی دیکھنا پڑے گا۔ اس تناظر میں مثبت نتائج پر نظر رکھنے والے لوگوں کو اُمید ہے کہ سپریم کورٹ ایک معروضی نتیجے پر پہنچ کر کشمیری عوام کی کچھ داد رسی کا انتظام کرسکے گی۔

 دفعہ ۳۷۰ کی قانونی حیثیت و افادیت کے علاوہ سپریم کورٹ کے سامنے یہ بڑے سوالات ہیں:(۱) بھارتی پارلیمان کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے بھی، کیا یہ ممکن ہے کہ عددی طاقت کے بل پر کسی بھی ریاست کو دولخت کرکے اس کو مرکزی زیر انتظام علاقہ بنایا جا سکتا ہے؟ (۲)کیا اس سلسلے میں اس خطے کی اسمبلی یا اس خطے کے اراکین پارلیمان کی رائے کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟

پچھلی صدی کے اواخر میں اتراکھنڈ، چھتیس گڈھ، جھاڑکھنڈ، نئے صوبے تشکیل دیئے گئے۔ ان میں جو طریق کار اپنایا گیا، وہ یہ تھا کہ ریاستی اسمبلیوں نے پہلے صوبہ کی تشکیلِ نو کے لیے ایک قرار داد منظور کرکے اس کو مرکزی حکومت کو بھیجا۔ مرکزی کابینہ نے اس کی منظوری دے کر ایک بل ڈرافٹ کرکے اس کو پھر ریاستی اسمبلی کو منظوری کے لیے بھیجا۔ اس کے بعد اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرکے پاس کرنے سے قبل ہاؤس کمیٹی کے سپرد کرکے اس کے خدوخال کا جائزہ لیاگیا۔ صرف تلنگانہ کے معاملے میں اس طریقے کو تبدیل کیا گیا۔ مگراس معاملے میں بھی کئی برس قبل آندھرا پردیش کی اسمبلی قرار داد پاس کر چکی تھی۔ بعد میں اس اسمبلی نے اپنا موقف تبدیل کردیا تھا، مگر اس وقت کانگریس کی قیادت میں مرکزی حکومت نے پچھلی قرار داد کی بنیاد پر زبردست ہنگامہ اور شور شرابہ کے دوران پارلیمنٹ سے اس نئے صوبہ کی تشکیل کا بل پاس کروایا۔

اگر ریاستوں کو تحلیل کرنے اور ان کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے کے عمل کو بھارتی سپریم کورٹ تسلیم کرتا ہے، تو اس سے بھارت کے پورے وفاقی ڈھانچا کے مسمار ہونے کا خطرہ ہے۔ ماضی میں نظم و نسق وغیرہ کا بہانہ بناکر مرکزی حکومتوں نے تو کئی بار اپوزیشن کی زیر قیادت صوبوں کی منتخب حکومتوں کو برخواست کیا ہے،مگر بعد میں سپریم کورٹ نے ایس آر بومئی کیس میں اس پر کئی رہنما اصول طے کر دیئے، جس کے بعد نئی دہلی حکومتوں کے لیے صوبائی حکومتیں برخواست کرنے کے اختیار پر روک لگ گئی۔

 چیف جسٹس ڈی وائی چندراچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کا بنچ اس معاملے کی سماعت کرے گا۔ اس بنچ میں جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بھوشن رام کرشن گاوائی اور جسٹس سوریا کانت ہوں گے۔ جسٹس کول کے بغیر بقیہ تینوں جج اگلے کئی برسوں میں باری باری چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوں گے۔ جسٹس چندراچوڑکے والد یشونت ویشنو چندراچوڑ بھی ملک کے ۱۶ویں چیف جسٹس ( ۱۹۷۸ءسے ۱۹۸۵ء)رہے ہیں۔ وہ بھارت کی سول سوسائٹی کے لیے کچھ اچھی یادیں چھوڑ کر نہیں گئے۔ ۱۹۸۴ء میں بھوپال شہر میں زہریلی گیس کے اخراج کے بعد، جس میں ہزاروں لوگوں کی جانیں چلی گئیں، تو انھوں نے امریکی کمپنی یونین کاربائیڈ کے سربراہ وارن اینڈرسن کو ملک سے باہر جانے میں مدددی۔ ان پر مقدمہ بھی نہیں چلایا جاسکا۔ اس کے علاوہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کی تصدیق کے بغیر ہی فروری ۱۹۸۴ءمیں انھوں نے کشمیری لیڈر مقبول بٹ کی سزائے موت کے فرمان کے خلاف پٹیشن خارج کی،اور اگلے ہی دن مقبول بٹ کو تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔

مگر ان کے فرزند موجودہ چیف جسٹس اپنے اعتدال پسندانہ رویہ اور معرکہ آرا فیصلوں کی وجہ سے اپنے والد کے برعکس سول سوسائٹی کے چہیتے ہیں۔ انھوں نے اظہارِآزادی، شخصی آزادی، حق راز داری وغیر ہ جیسے قوانین کی تشریح کرکے اور ان پر فیصلہ دیتے وقت عوامی مفاد کو مقدم رکھ کر خوش گوار تاثر قائم کیا ہے۔ ۲۰۰۰ء میں ممبئی ہائی کورٹ میں جج کے عہدے پر فائز ہونے سے قبل ان کو ۱۹۹۸ءمیں اٹل بہاری واجپائی کے اقتدار میں آتے ہی اڈیشنل سولسٹر جنرل مقرر کیا گیا تھا۔ اس دوران مجھے ان سے کئی بار ملنے کا موقع ملا ہے۔ دوسرے جج جسٹس سنجے کشن کول کشمیری پنڈت ہیں۔ وہ سورج کشن کول کے خاندان سے نسبت رکھتے ہیں، جو ڈوگرہ حکومت میں وزیر مالیات ہوتے تھے۔ وہ اور ان کے ایک اور برادر دہلی ہائی کورٹ کے جج رہ چکے ہیں۔بطور دہلی ہائی کورٹ جج انھوں نے معروف مصور مرحوم ایم ایف حسین کے خلاف ہندو تنظیموں کی پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے ، بزرگ مصور کی دادرسی کی تھی۔اس فیصلے میں انھوں نے لکھا تھا: ــ’’تکثیریت اور یگانگت جمہوریت کی روح ہوتی ہے۔ جس سوچ کو ہم پسند نہیں کرتے ہیں، اس کے اظہار کی بھی آزاد ی ہونا ضروری ہے۔ اگر تقریر یا اظہار رائے کے بعد آزادی نہ ہو، تو یہ آزادی کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔ جمہوریت کی حقیقت آزادی اور ناقدین کو برداشت کرنے میں مضمر ہے‘‘۔

تیسرے جج جسٹس سنجیو کھنہ پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ بھی ججوں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، اور نومبر ۲۰۲۴ء کو وہ چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔ ان کے والد ونود راج کھنہ دہلی ہائی کورٹ میں جج تھے۔ وہ بھارت کے ایک معروف جج جسٹس ہنس راج کھنہ کے بھتیجے ہیں، جنھوں نے ۱۹۷۶ء میں آنجہانی وزیر اعظم اندراگاندھی کی طرف سے ایمرجنسی کے نفاذ اور بنیادی حقوق کی معطلی کے خلاف فیصلہ دیا تھا، حالانکہ بینچ کے دیگر ججوں نے اس کی حمایت کی تھی۔ جس کی وجہ سے ان کو چیف جسٹس نہیں بننے دیا گیا تھا۔ انھوں نے سپریم کورٹ سے استعفا دے دیا تھا۔ ۱۹۸۲ءکے صدارتی انتخابات میں گیانی ذیل سنگھ کے خلاف وہ اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار تھے۔ جسٹس سنجیو کھنہ مئی ۲۰۲۵ءکو چیف جسٹس بن جائیں گے۔

اس بینچ کے چوتھے جج بھوشن رام کرشن گاوائی ہیں۔ وہ اس وقت سپریم کورٹ کے واحد دلت جج ہیں۔وہ مئی ۲۰۲۵ء  چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالیں گے۔ ۲۰۱۰ء میں جسٹس بالا کرشنن کی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پہلے دلت چیف جسٹس اور بھارت کی تاریخ میں دوسرے دلت چیف جسٹس ہوں گے۔ فی الوقت بھارتی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے کل ۵۶۹ ججو ں میں صرف ۱۷دلت کمیونٹی سے ، نو درجہ فہرست قبائل سے، ۱۵؍اقلیتی برادریوں سے اور ۶۴دیگر پسماندہ طبقات سے تعلق رکھتے ہیں۔ بھوشن کے والد آر، ایس گاوائی مہاراشٹرہ کے مشہور دلت رہنما اور ری پبلکن پارٹی کے سربراہ تھے۔ یہ پارٹی بھارت کے معروف دلت لیڈر ڈاکٹر بھیم راو امیبڈکر نے تشکیل دی تھی۔ گاوائی بود ھ مت سے تعلق رکھتے ہیں۔

پانچویں جج جسٹس سوریہ کانت کا تعلق ہریانہ صوبہ سے ہے۔ جج بننے سے قبل وہ قیدیوں کے حقوق کے حوالے سے خاصے سرگرم رہے ہیں۔ پنجاب اور ہریانہ میں جج کے عہدے پر رہتے ہوئے بھی انھوں نے جیلوں میں اصلاحات کے نفاذ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ممبئی میں بھارت کے معروف ادارے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز، جو جیلوں کی اصلاحات کے سلسلے میں ورکشاپ کا انعقاد کرتے ہیں۔ ان سے ملاقات اور ان کے لیکچر سننے کا کئی بار موقع ملا ہے۔

مارچ ۱۹۹۴ء جنیوا میں تنظیم اسلامی کانفرنس نے جموں و کشمیر میں ابتر ہوتی انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے ’اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کمیشن‘ (جو اب ’کونسل‘ کہلاتا ہے) میں ایک مشترکہ قرار داد پیش کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے طے کیا تھا کہ کمیشن سے منظور ی کے بعد اس پر سلامتی کونسل میں بحث کرائی جائے اور اقوام متحدہ کی طرف سے بھار ت پر اقتصادی اور دیگر پابندیاں عائد کرائی جائیں۔

بھارت کا قریبی دوست اور ویٹو کی طاقت رکھنے والا ملک اشتراکی روس (USSR: سوویت یونین) تمام انسانی ضابطوں کو روندتا ہوا، بھارت کے دفاع میں ہرحد کو پھلانگتا تھا اور جو اس کی حمایت میں مسلسل ویٹو کرتا تھا۔ لیکن جب دسمبر۱۹۹۱ء میں اشتراکی روس ٹوٹ گیا تو روس کے نئے صدر بورس یلسن مغرب سے مدد کے طلب گار تھے۔ دراصل بھارتی قیادت کو خدشہ تھا کہ ماضی کی طرح اب کی بار سلامتی کونسل میں روس اس کی مدد کرنے سے قاصر ہوگا۔ اس دوران بھارتی وزیراعظم نرسمہا راؤ (م:۲۰۰۴ء)نے رات کی تاریکی میں اپنے علیل وزیر خارجہ دنیش سنگھ کے ہاتھ ایرانی صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی (م: ۲۰۱۷ء)کے نام ایک پیغام بھیجا، جس سے پوری بازی پلٹ گئی۔ یہ تفصیل تو ابھی تک معلوم نہیں ہوئی کہ راؤ نے ایران کو کیا درس دیا؟ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ ایران نے اس قرارداد کی حمایت سے دستبردار ہوکرمشکل وقت میں بھارت کو خاصا سہارا دیا۔

اس بحران سے نکلنے کے لیے بھارت نے بین الاقوامی برادری کے سامنے دو وعدے کیے، جن میں: ایک قومی سطح پر اعلیٰ اختیار والے انسانی حقوق کے کمیشن کا قیام، دوسرا بین الاقوامی ریڈ کراس کو   نئی دہلی اور سرینگر میں دفتر کھولنے کی اجازت ، نیز اس کے عملے کو مختلف جیلوں میں بند کشمیری نظربندو ں سے وقتاً فوقتاً ملاقاتوں کی اجازت دینا شامل تھا۔

لیکن ۲۰۱۴ءکے بعد سے ریڈ کراس کے عملے نے تو کشمیری قیدیوں کی خیریت معلوم کرنے کے لیے جیلوں میں جانا ہی بند کردیا ہے۔ وہ اپنے اس عمل یا فیصلے کے سلسلے میں آج تک کوئی وضاحت بھی پیش نہیں کر رہے ہیں۔ اگر معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے بھارتی حکومت ان کو جیلوں میں جانے سے روک رہی تھی یا روک رہی ہے، تو اسے آن ریکارڈ لانے میں کیا رکاوٹ درپیش ہے؟ ریڈکراس کے نمایندوں کے جیلوں میں جانے سے بے نوا قیدیوں کو راحت ملتی تھی کہ دُنیا میں کوئی تو ہے جو اُن کے بارے میں فکرمند ہوکر اُن کے دُکھ درد کو دوسروں کے سامنے پیش کرے گا۔ خاص طور پر جو افراد دُور دراز کی جیلوں میں قید کیے جاتے ہیں اور جہاں ان کے رشتہ داروں کے لیے پہنچنا مشکل ہوتا تھا،یہ ریڈ کراس کا عملہ ہی خیرخبر پہنچانے کا ذریعہ ہوتا تھا۔ ان کی وجہ سے قیدیوں کی صحت وغیر ہ کا بھی خیال رکھا جاتا تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سفارتی سطح پر جنیوا میں موجود ان کے صدر دفتر سے اس بار ے میں باز پُرس کی جاتی؟

بتایا جاتا ہے کہ نرسمہماراؤ کی کابینہ میںوزیر وٹھل نارائین گاڈگل (جو بعد میں کانگریس پارٹی کے طویل عرصے تک ترجمان بھی رہے) نے ہی ’قومی انسانی حقوق کمیشن‘ تشکیل دینے کی تجویز دی تھی اور وزیراعظم راؤ کو یہ تجویز پسند آگئی۔اس کمیشن کے قیام کے قانون پر بحث کا جواب دیتے ہوئے اس وقت کے وزیر داخلہ شنکر راؤ چوان نے بتایا تھا:’’ یہ کمیشن کسی بھی قسم کی بین الاقوامی جانچ پڑتال کے خلاف بفر کے طور پر کام کرے گا اور حکومت کی لا اینڈ آرڈر مشینری کو متاثر نہیںکرے گا‘‘۔ اس سے بھارت کو یقیناً خاصا فائدہ پہنچا۔

جب بھی کسی عالمی فورم پر بھارت میں انسانی حقوق کی بُری صورتِ حال کا معاملہ اٹھتا ہے، تو مندوبین کے سامنے  ایک ہی دفاعی موقف پیش کیا جاتا ہے کہ: ’’انڈیا کے پاس ملک میں ہی حقوق انسانی کی دیکھ بھال کے لیے ایک مضبوط نظامِ کار (میکانز م) موجود ہے‘‘۔مگر حال ہی میں اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے بھارت کے اس کمیشن کو درجہ اوّل کی ایکریڈیٹیشن دینے سے انکار کر دیا۔ اقوام متحدہ کی گلوبل الائنس آف نیشنل ہیومن رائٹس انسٹی ٹیوشنز ، جس کا بھارت بھی ممبر ہے، کا کہنا ہے:’’انسانی حقوق کا یہ کمیشن غیرفعال ہوچکا ہے‘‘۔ دراصل بھارت کی کئی غیر سرکاری تنظیموں نے ہی اقوام متحدہ کے اس ذیلی ادارے کی توجہ اس طرف دلائی کہ یہ کمیشن خاموش تماشائی بن کر بیٹھا ہوا ہے۔

’قومی انسانی حقوق کمیشن‘ کاوجود کشمیر کی وجہ سے عمل میں آیا تھا، مگر شاید ہی اس نے کبھی کشمیر کے بارے میں کسی شکایت یا کیس کی شنوائی کی ہو۔ تاہم، دیگر ایشوز پر اس نے کئی بار خاصی فعالیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ۲۰۰۲ء کے گجرات کے مسلم کش فسادات میںملوث افراد کو سزا دلوانے کے لیے اس کمیشن نے خود فریق بن کر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ چونکہ اس کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا سابق چیف جسٹس ہوتا ہے، اس لیے اس کی آواز میں وزن بھی ہوتا ہے۔ مگر گجرات کے شاید واحد ایسے فسادات تھے، جہاں ملزموں کو عدالت نے سزائیں دیں، اور اس پیش قدمی کا کریڈٹ قومی حقوق انسانی کمیشن کو جاتاہے ۔

تاہم، بھارت میں جہاں دیگر اداروں کو زوال آگیا ہے ، وہیں یہ ادارہ بھی سخت زوال کا شکار ہے۔ اس کے موجودہ سربراہ اور ممبران کو دیکھ کر یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کی سانس روکی گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ارون کمار مشرا اس کے سربراہ ہیں۔ یہ وہی چیف جسٹس ہیں، جن کی جانب داری کے خلاف سپریم کورٹ کے حاضر سروس ججوں کو پریس کانفرنس کرنی پڑی تھی۔ اس کے دیگر ممبران وزارت خارجہ کے سابق افسر دھنونشور منوہر مولے اور انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ راجیو جین ہیں۔

’ساؤتھ ایشیا ہیومن رائٹس ڈاکومنٹیشن سینٹر‘ (SAHRDC)کے سربراہ روی نیّر کے مطابق: ’’نہ صرف ممبران ، بلکہ کمیشن کا عملہ بھی انٹیلی جنس بیورو (IB) اور خارجی خفیہ ادارہ ’را‘ (RAW)سے ڈیپوٹیشن پر منگوایا جاتا ہے‘‘۔ ان کا کہنا ہے: ’’اس وقت آئی بی کا ایک سابق اسپیشل ڈائریکٹر کمیشن کے تفتیشی سیل کا سربراہ ہے۔ اس کے علاوہ دو اور افسران کا تعلق بھی خفیہ اداروں سے ہے‘‘۔ جب انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے اکثر کیس ہی حکومت ، پولیس اور خفیہ اداروں کے خلاف آتے ہوں، تو یہ اسٹاف اور ممبران بھلا کس حد تک انصاف کر تے ہوں گے؟

۲۰۱۹ء میں، انڈین حکومت نے تقرریوں کے معیار میں ردوبدل کرتے ہوئے سول سوسائٹی سے مشاورت کے بغیر انسانی حقوق کے تحفظ کے ایکٹ میں ترمیم کی۔ ترامیم سے پہلے، قانون کا تقاضا تھا کہ کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا سابق چیف جسٹس ہو،جب کہ دیگر چارممبران سپریم کورٹ کے موجودہ یا سابق جج، ہائی کورٹ کے موجودہ یا سابق چیف جسٹس ہوں اور دو ممبران کو انسانی حقوق سے متعلق معاملات کا علم، یا عملی تجربہ ہونا چاہیے۔

اس ترمیم میں یہ کہا گیا کہ ’’کمیشن کا سربراہ سپریم کورٹ کا کوئی بھی سابق جج ہو سکتا ہے،اور دیگر ممبران کے بارے میں بھی حکومت کو اختیار دیا گیا‘‘۔ دوسری طرف کمیشن کے فیصلہ ساز ادارے میں ایک سابق اعلیٰ انٹیلی جنس اور سیکورٹی اہلکار کا تقرر واضح طور پر بین الاقوامی اصولوں کی خلاف ورزی ہے ۔ راجیو جین کا تقرر انٹیلی جنس بیورو میں ان کی مدت کار کے دوران مختلف کارروائیوں کی وجہ سے بھی تشویش کا باعث ہے۔ ان کا کارنامہ یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے دور میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کو نشانہ بنایا گیااور ان میں سے کچھ پر مسلح گروپوں کی پشت پناہی کا خانہ زاد الزام لگایا گیا۔ تنظیموں پر غیر ملکی فنڈنگ حاصل کرنے کے الزامات عائد کرکے قدغن لگائی گئی۔

روی نیّر کا کہنا ہے کہ ’’اس پورے کمیشن کاڈھانچا ابتدا سے ہی غلط تھا۔ اس کو ایک آزاد ادارے کے بجائے وزارت داخلہ کے تحت رکھا گیا تھا۔ اس طرح یہ ادارہ بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ مگر اب عالمی ایجنسیوں کو اس کی کارگزاری کا ادراک ہوچکا ہے۔ یہ معاملہ عالمی سطح پر بھارت کے لیے شرمندگی کا باعث بن رہا ہے۔مگر مغرب کی بدلی ترجیحات کی وجہ سے ان کی حکومتوں نے بھارت کے حوالے سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

۱۹۹۴ءسے دریائے جہلم میں پانی کے ساتھ اب مظلوم انسانوں کا کافی خون بھی بہہ چکا ہے۔ سیاست دانوں کی دھوکے بازیوں اور کرشمہ سازیوں نے کشمیری عوام کو اندھیر نگری میں دھکیلنے میں کردار ادا تو کیا ہی تھا، کہ انسانی حقوق کمیشن ا ور بین الاقوامی ریڈ کراس بھی اپنے وعدوں کو نبھا نہ سکے۔

قضیۂ کشمیر پر جن دومحققین کی کتابیں آج تک بطورِ حوالہ ایک مقام رکھتی ہیں، وہ سابق امریکی وزیر خارجہ میڈلین البرٹ کے والد اور اقوم متحدہ میں چیکوسلواکیہ کے سفیر جوزف کاربل اور برطانوی مصنف الیسٹر لیمب ہیں۔

جوزف کاربل (Joseph Korbel) نے ۱۹۵۴ء میں اپنی کتاب Danger in Kashmir (پرنسٹن یونی ورسٹی، نیوجرسی)میں دُنیا کو خبردار کیا تھا کہ یہ قضیہ امنِ عالم کے لیے شدید خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ انھوں نے اس کتاب میں اقوام متحدہ کی کوششوں میں آنے والی رکاوٹوں کا ذکر کیا ہے۔

اسی طرح ڈاکٹر الیسٹر لیمب [۹جنوری ۱۹۳۰ء- ۱۵مارچ ۲۰۲۳ء]کی کتب: The Crisis in Kashmir 1947-1966 (۱۹۶۶ء)، Kashmir: A Disputed Legacy 1846-1990 (۱۹۹۲ء)، Birth of a Tragedy, Kashmir 1947 (۱۹۹۷ء)،  Incomplete Partition 1947-1948 (۱۹۹۷ء) میں مسئلہ کشمیر اور۱۹۴۷ء میں رونما ہونے والے واقعات پر سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ انھی ۹۳ سالہ برطانوی مصنف کا ۱۵مارچ ۲۰۲۳ءکو لندن میں انتقال ہوا۔

ڈاکٹر الیسٹر لیمب سے کبھی براہِ راست ملاقات کا شرف تو حاصل نہیں ہوا، مگر ۲۰۱۰ء میں جب بھارت کے مشہور محقق اور کالم نویس اور ’بھارت-پاکستان تعلقات‘ پر ایک اتھارٹی اے جی نورانی نے دو جلدوں پر مشتمل اپنی کتاب The Kashmir Disputeپر کام شروع کیا، تو انھوں نے مجھے بطور ریسرچ ایسوسی ایٹ کی ذمہ داری سونپی۔ اس مناسبت سے مجھے فون، ای میل وغیر ہ پر ڈاکٹر الیسٹر لیمب سے وقتاً فوقتاً رابطہ کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ان کا کہنا تھا:’’نہ صرف کشمیر بلکہ بھارت- چین سرحدی تنازعے کے سلسلے میں خاص طور پر بھارت میں معروضی تحقیق کا فقدان ہے‘‘۔

پروفیسر لیمب کا کہنا تھا:’’۱۹۶۲ء میں جب چین - بھارت سرحدی تنازع زور پکڑ رہا تھا اور دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر کھڑے تھے، تو لندن میں پبلک ریکارڈ آفس اور انڈیا آفس لائبریری کے برطانوی آرکائیوز میں مجھ کو متعدد ایسی دستاویزات ملی تھیں، جو بھارتی وزارت خارجہ کے دعوؤں کی یکسر نفی کرتی تھیں۔ مجھ کو لگا شاید بھارتی حکومت کی نگا ہ میںیہ دستاویزات نہیں آئی ہوں گی۔ اس لیے میں نے لند ن میں بھارتی ہائی کمیشن کے ایک سینئر اہلکار سے ملاقات کرکے ان کو صورت حال سے آگاہی دی اور بھارتی حکومت کو بھی یہ دستاویزات بھیجیں۔ مگر بعدازاں میں اس نتیجے پر پہنچا کہ بھارتی حکومت کو ان اصل دستاویزات کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ دانستہ تحریف شدہ (tempered) دستاویزات کی بنیاد پر چین کے خلاف اپنا مقدمہ بنا رہے ہیں‘‘۔

 اے جی نورانی نے بھی اپنی کتاب  India, China Boundary Problem میں تذکرہ کیا ہے کہ کس طرح بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو [م: ۱۹۶۴ء]نے چین کے ساتھ سرحدی تنازع کھڑا کرنے کے لیے تمام پرانی دستاویزات اور نقشوں کو تلف کرکے نئی دستاویزات اور نئے نقشے بنانے کا حکم صادرکیا تھا اور پھر اسی حوالے سے ۱۷صفحات پر مشتمل ایک ’خفیہ یادداشت‘ وزارتوں میں تقسیم کی تھی۔

چینی اُمور کے ماہر اور چین میں متعین برطانوی سفارت کار لاینل لیمب، کے ہاں ۹جنوری ۱۹۳۰ء کو چینی صوبے ہیلونگجیانک کے شہر ہاربن میں الیسٹر لیمب پیدا ہوئے۔ انھوں نے پبلک اسکول ہیرو میں تعلیم حاصل کی، جہاں اُن سے تقریباً ۴۰سال قبل جواہر لعل نہرو بھی تعلیم حاصل کرچکے تھے، اور پھر کیمبرج یونی ورسٹی میں تاریخ کا مطالعہ کیا۔ لیمب کا ڈاکٹریٹ مقالہ برطانوی دورِ حکومت میں ہندستان کی سرحدوں اور خاص طور پر چین کے ساتھ حدبندی لائن کے موضوع پر تھا۔ ۱۹۶۰ء کے عشرے میں لیمب نے ملایا یونی ورسٹی اور بعد میں آسٹریلیا اور گھانا میں پڑھایا۔ اس دوران انھوں نے کشمیر کی تاریخ پر اپنی پہلی کتاب مکمل کی۔ ۱۹۹۰ءکے عشرےمیں، انھوں نے کشمیر کی ۲۰ ویں صدی کی تاریخ اور خاص طور پر الحاق کے بحران کے بارے میں یکے بعد دیگرے تین مزید تفصیلی کتابیں شائع کیں۔

پروفیسر لیمب کو مسئلہ کشمیر کی قانونی اور سفارتی تاریخ کا ماہر تسلیم کیا جاتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں: ’’اگست ۱۹۴۷ءکو جب برٹش انڈیا دو آزاد مملکتوں میں تقسیم ہوگیا، تو جموں وکشمیر کے اُس وقت کے مہاراجا ہری سنگھ [م: اپریل ۱۹۶۱ء]نے بھارت یا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے میں تاخیر کی۔ بعد ازاں اکتوبر کے مہینے میں جب پونچھ اور دوسرے خطوں میں مہاراجا کے خلاف تحریک شروع ہوئی اور پاکستان کے صوبہ سرحد [خیبرپختونخوا]سے مسلح قبائلی جنگجو کشمیر میں داخل ہوئے تو مہاراجا نے نئی دہلی، بھارت سے فوجی امداد طلب کی۔چنانچہ ۲۷؍ اکتوبر کو انڈین فوج کشمیر پہنچی، جس کے بعد مہاراجا نے جموں وکشمیر کا مشروط الحاق بھارت کے ساتھ کیا‘‘__ لیمب ٹھوس حقائق اور دستاویزات کی بنیاد پر ثابت کرتے ہیں کہ ’’بھارتی فوج کی جموں و کشمیر میں دراندازی اور سرینگر پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ہی الحاق کی دستاویز پر دستخط لیے گئے‘‘۔

 چند سال قبل جواہر لال نہرو اور اندارا گاندھی کے ایک معتمد خاص آنجہانی جی پارتھا سارتھی [م: اگست ۱۹۹۵ء]کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب نے بھی آزادانہ الحاق کی تھیوری کے غبارے سے ہوا نکال کر رکھ دی۔ جی پارتھاسارتھی کے بیٹے اشوک پارتھا سارتھی ، جو خود بھی بھارت میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں، انھوں نے اپنی کتاب جس کا ٹائٹل GP:1912-1995 تھا، ۲۰۱۸ء  میں شائع کی ہے۔ ان کے مطابق پشتون قبائلی حملے سے ایک ماہ قبل ۲۳ستمبر۱۹۴۷ء ہی کو کشمیر کی بھارت کے ساتھ الحاق کی بساط بچھ چکی تھی۔ راجا ہری سنگھ کے تذبذب کو ختم کرنے کے لیے نہرو نے گوپال سوامی آئینگر [م: فروری ۱۹۵۳ء]، جو جی پارتھا سارتھی کے والد تھے، انھیں ایک خفیہ مشن پر سرینگر روانہ کیا تھا۔ پارتھا سارتھی کا کہنا ہے کہ میرے والد نے سرینگر میں دو دن قیام کیا اور اس دوران وہ مہاراجا کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ بطور ایک ہندو راجا ان کا مستقبل بھارت ہی میں محفوظ ہے۔ کتاب کے مطابق دہلی واپس آکر جب آئینگر، نہرو کو رپورٹ دے رہے تھے تو وزیراعظم نہرو نے برجستہ کہا:ـ’’مجھے یقین تھا کہ تم اچھی خبر لے کر ہی آؤ گے اور یہ صرف تم ہی کرسکتے تھے‘‘___ گوپال سوامی آئینگر کشمیر کے وزیراعظم بھی رہ چکے تھے۔ بھارتی حکومت نے ۱۲ سے ۱۷؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کے درمیان انڈین آرمی کی ۵۰ویں پیرا شو ٹ بریگیڈ کے ۴کمانڈو پلاٹون اور پٹیالہ پولیس کے دستے کشمیر بھیج دیئے، جنھوں نے سرینگر ہوائی اڈے کو گھیرے میںلیے رکھا۔

ڈاکٹر لیمب نے بھی اپنی کتاب Birth of a Tragedy, Kashmir 1947 کے چھٹے باب میں ’الحاق کی دستاویز‘ پر سوالات اٹھائے ہیں۔ نا معلوم وجوہ کی بنا پرمبینہ طور پر ’الحاق کی اس دستاویز‘ کو بھارتی وزراتِ داخلہ کی جانب سے ۱۹۴۸ء میں شائع White Paper on States میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ اسی طرح نہ یہ ان دستاویزات میں شامل تھی، جو حکومت نے اسی سال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھیجیں تھیں۔ محققین کو بھی اس تک رسائی نہیں دی گئی تھی۔ ۲۰۰۵ء میں جب بھارت میں معلومات کے حق کا قانون پاس ہوا، تو اس حق کو استعمال کرکے میں نے اس ’دستاویزِ الحاق‘ اور سپریم کورٹ رجسٹری سے مقبول بٹ کی کیس فائل کا مطالعہ کرنے کی درخواست دائر کی تھی، اور یہ درخواست قومی سلامتی کا حوالہ دے کر خارج کردی گئی۔

وی پی مینن [م: ۱۹۶۶ء]،جو بھارت سرکار کے ریاستوں سے متعلق امور کے محکمے کے سربرا ہ تھے اور جن کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ انھوں نے دستاویز الحاق پر مہاراجا کے دستخط حاصل کیے،وہ اپنی کتاب The Story of The Integration of Indian States (1956)  میں لکھتے ہیں:’’میں ۲۶؍اکتوبر ۱۹۴۷ء کو دہلی سے بذریعہ ہوائی جہاز جموں آیا اور جموں میں ’دستاویزِ الحاق‘ پر مہاراجا کے دستخط لیے اور واپس دہلی چلا گیا‘‘۔مگر لیمب کا کہنا ہے: ’’یہ دعویٰ کسی بھی طرح صحیح قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ ۲۶؍اکتوبر کی صبح ہی مہاراجا اپنے خاندان کے ساتھ کشمیر چھوڑ کر جموں کی جانب روانہ ہوا، اور جموں سرینگر شاہراہ، جسے ان دنوں بانہال کارٹ روڈ کہاجاتا تھا،کی حالت دیکھتے ہوئے اور ان عینی شاہدین، جنھوں نے مہاراجا کے کاررواں کو راستے میں جاتے ہوئے دیکھا،کے بیانات کو مدنظر رکھتے ہوئے مہاراجا کے لیے شام۷بجے سے قبل جموں پہنچنا ناممکن تھااور چونکہ ان دنوں جموں ہوائی اڈے پر رات کے وقت اُڑان بھرنے اور اُترنے کی سہولت میسر نہ تھی، تو اس زمینی صورتِ حال کے مطابق یہ ناممکنات میں تھا کہ کوئی شخص دہلی سے جموں آئے اور شام کو جموں میں مہاراجا کے دستخط لے کر رات کو ہی واپس دہلی چلاجائے‘‘۔

اس طرح سے انھوں نے مینن کے دعوے کا جھوٹ بے نقاب کردیا۔اتنا ہی نہیں، برطانوی ہائی کمیشن کے ریکارڈLP&S/13/1845b,ff 283-95-India Office Recordsکے مطابق اس وقت کے بر طانوی ڈپٹی ہائی کمشنربرائے بھارت،الیگزنڈر سائمن ۲۶؍اکتوبرکو نئی دہلی میں مینن سے ملے اور انھیں بتایا گیا کہ وہ۲۷؍اکتوبر کو جموں جارہے ہیں، یعنی بھارتی فوج کی لینڈنگ کے بعد ’دستاویز ِالحاق‘ پر دستخط کروانے جا رہے تھے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ گورنر جنرل لارڈماؤنٹ بیٹن [م: اگست ۱۹۷۹ء]نے پہلے ہی مہاراجا ہری سنگھ کو فوجی امداد کی یقین دہانی کرائی تھی۔

بھارتی حکومت کی طرف سے نامعلوم وجوہ کی بنا پر ’دستاویزِ الحاق‘ کی اصل کاپی کو خفیہ رکھنے سے لیمب کی تھیوری کو تقویت ملتی تھی۔ بی بی سی سے تعلق رکھنے والے صحافی اور مصنف اینڈریو وائٹ ہیڈ نے بھی کئی بار اس دستاویز کو دیکھنے اورمطالعہ کرنے کی درخواست کی تھی، جو مسترد کر دی گئی۔

مجھے یاد ہے کہ دہلی میں ’نیشنل آرکائیوز ‘کے تہہ خانہ کے ایک کونے کی الماری میں بقیہ تمام ریاستوں کی دستاویزاتِ الحاق عوام اور محققین کے مطالعے کے لیے رکھی ہوئی تھیں، مگر ان میں صرف کشمیر کی دستاویز غائب تھی۔ ۲۰۱۰ء میں جب معروف ماہر تعلیم اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق وائس چانسلر اور مؤرخ ڈاکٹر مشیر الحسن [م: دسمبر۲۰۱۸ء]کو ’نیشنل آرکائیوز‘ کا سربراہ مقرر کیا گیا، تو اے جی نورانی صاحب کے باقاعدہ قانونی مطالبے کی تعمیل کرتے ہوئے انھوں نے اپنے دفتر میں مجھے اس ’دستاویزِ الحاق‘ کا محض مطالعہ کرنے کی اجازت دی، مگر اس کی کاپی یا فوٹو کھنچنے کی سختی کے ساتھ ممانعت کی۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’آخر بھارتی حکومت اس کو کیوں خفیہ رکھنا چاہتی تھی؟ ‘‘

ڈاکٹر مشیرصاحب بھی اس پر حیران و پریشان تھے۔ تاہم ۲۰۱۶ء میں رائٹ ٹو انفارمیشن مہم چلانے والے کارکن وینکٹیش نائک نے اس دستاویز تک باقاعدہ رسائی حاصل کی۔ دستاویز کے آخر میں گورنر جنرل کے دستخط سے قبل ٹائپ کیا ہوا ’اگست‘ کاٹ کر ہاتھ سے سبز روشنائی سے ’اکتوبر‘ کیا گیا ہے۔ ان کے دستخط بھی سبز روشنائی میں ہیں۔ مگر دستاویز کے اندر نیلی روشنائی میں خالی جگہ کو پُر کرکے ’اندر مہندر راجیشور شری ہری سنگھ والی جموں و کشمیر‘ لکھا گیا ہے اور ٹائپ شدہ ۲۶؍اگست کاٹ کر اکتوبر کیا گیا ہے۔ اس ساری جعل سازی کی ایک یہ توضیح کی جاسکتی ہے کہ شاید گوپال سوامی آئینگر نے ستمبر ہی میں مہاراجا ہری سنگھ سے دستاویز پر دستخط حاصل کیے ہوں گے، اور اکتوبر میں گورنر جنرل سے دستخط حاصل کیے گئے۔ یعنی یہ دستاویز پہلے ہی شاید دہلی میں موجود تھی، مگر یہ وضاحت بھی گھماپھرا کر کہانی کاری سے زیادہ وزن نہیں رکھتی۔

پروفیسر الیسٹر لیمب کو ممتاز تاریخ دانوں میں شمار کیا جائے گا۔ اسکالر ایان کوپلینڈ کے مطابق ’’ان کو مکمل تحقیق اور تفصیل حاصل کرنے میں ملکہ حاصل تھا‘‘۔ پرشوتم مہرا نے انھیں امتیازی اور عظیم مؤرخ قرار دیا ہے، ’’جن کا کام،اُن کی بے پناہ محنت اور حددرجہ باریک بینی سے باوزن تھا‘‘۔ معروفمصنف وکٹوریہ شوفیلڈ کے مطابق ’’لیمبنے کامیابی کے ساتھ اہم مسائل اور غلطیوں کی نشاندہی کی ہے۔ ان کا کام حقائق سے اتنا بھرپور ہے کہ ہر باب کے ساتھ اضافی نوٹ فراہم کیے گئے ہیں‘‘۔ لیوراس ایچ منرو کا کہنا ہے کہ ’’لیمب نے کشمیر کی مستند تاریخ لکھی ہے اور کشمیر کو پیچیدگیوں کے گرداب میںڈالنے کے لیے اپنے ہم وطن ماؤنٹ بیٹن کو موردِ الزام ٹھیرایا ہے‘‘۔  وکٹرکیرن کے مطابق: ’’لیمبجنوبی ایشیا  پر ایک اعلیٰ ترین اتھارٹی ہے‘‘۔ مؤرخ ہیو ٹنکر نوٹس کا کہنا ہے: ’’اگرچہ لیمب نے کشمیر کی سیاسی تاریخ کو ماہرانہ انداز میں بیان کیا ہے، مگر بھارتی محققین ان کی تھیوری کو قبول نہیں کریں گے‘‘۔ مؤرخ سری ناتھ راگھون کا کہنا ہے: ’’یہ دریافت لیمب کے ہی سر جاتی ہے کہ کشمیر کے الحاق کے معاہدے پر ۲۷؍ اکتوبر ۱۹۴۷ء کو بھارتی فوجوں کے اُترنے کے بعد ہی دستخط ہوئے تھے‘‘۔

بلاشبہہ آج ان تھیوریوں کی محض ایک علمی قدر ہی رہ گئی ہے۔ جس طرح جوزف کاربل نے ۱۹۵۴ءمیں کشمیر کو عالمی امن کے لیے ایک خطرہ بتایا تھا، و ہ خطرہ اور عوامل آج بھی برقرار ہیں اور ان میں کچھ زیادہ ہی شدت آگئی ہے ۔کیونکہ اس خطے کے تین ممالک بھارت، پاکستان اور چین، جوہری ہتھیاروں سے لیس ہیں اور کسی کشیدگی کی صورت میں یہ پورا خطہ تباہ و برباد ہوسکتا ہے۔

پروفیسر الیسٹر لیمب اپنی کتاب Incomplete Partition  کے اختتام پر لکھا ہے:’’ہرفردکا ایک نکتے پر دوسروں کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ تاہم، یہ ضروری ہے کہ مسئلے کے تمام پہلوؤں پربحث کرکے ان کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔ میری تحقیق کا مقصد کشمیر پر کوئی پتھر پر لکیر کھنچنا نہیں ہے، بلکہ تاریخی اور دستاویزی شوا ہد کو سامنے لاکر ان پر بحث کروانا ہے‘‘۔ بلاشبہہ ایک معروضی بحث و مباحثہ کروانا ہی مؤرخ کشمیر الیسٹر لیمب کے لیے سب سے بڑا خراج عقیدت ہوگا۔

۲۳مارچ ۲۰۲۳ء کو جموں و کشمیر میں لائن آف کنٹرول سے متصل ٹیٹوال،کرناہ میں بھارتی وزیر داخلہ امت شا نے ’ماتادا دیوی‘ کے مندر کا افتتاح کیا، کہ آزاد کشمیر سے آوازیں بلند ہونے لگیں کہ ’’کرتار پور کی طرز پر اس علاقے میں بھی ایک کوریڈور کا قیام عمل میں لایا جائے، تاکہ ہندو زائرین اصلی شاردا پیٹھ کے درشن کر سکیں اور اس علاقے کی آمد ن کے ذرائع پیدا ہوں‘‘۔ امت شا نے کہا کہ ’’یہ سب دونوں جانب سول سوسائٹی سمیت لوگوں کی مشترکہ کوششوں سے ممکن ہوا ہے‘‘۔

پھر دیکھتے ہی دیکھتے آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی نے متفقہ طور پر ایک قرار داد بھی پاس کی، جس میں مذکورہ کوریڈور بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اگرچہ بعد میں حیرت انگیز طور پر حکومت نے اس سے لاتعلقی کا اظہار کیا، مگر جو نقصان ہونا تھا، وہ ہو چکا تھا۔ ۲۰۱۹ء میں پنجاب میں کرتار پور گوردوارہ کے درشن کی خاطر سکھ عقیدت مندوں کے لیے ایک راہداری کی منظوری کے فوراً بعد سے یہ خبریں آنا شروع ہو گئیں تھیں کہ ’’اسی طرز پر اب پاکستانی حکومت لائن آف کنٹرول کے پاس ہندو زائرین کے لیے شاردا پیٹھ جانے کے لیے بھی ایک کوریڈور کھولنے پر غور کر رہی ہے‘‘۔

لائن آف کنٹرول کو کھولنے، آمد و ررفت کو آسان بنانے اور آر پار کشمیری عوام کے ملنے جلنے جیسے اقدامات کی کون مخالفت کرسکتا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں سرینگر۔مظفر آباد بس سروس اور پھر ۲۰۰۸ء میں تجارت کے لیے اس کو کھولنے سے دونوں طرف کے عوام نے خاصا بہتر محسوس کیا تھا، مگر ۲۰۱۴ء میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے آنے کے بعد اس سمت میں رکاوٹیں کھڑی ہونا شروع ہوگئیں تھیں، تاآنکہ اس کو بند ہی کردیا گیا۔ ویسے تو پاکستان میں بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بحال اور استوار کرنے کا طرف دار ایک طبقہ ہر لمحہ پنجاب میں واہگہ اور سندھ میں کھوکھراپار کے راستے تجارتی راہداریاں کھولنے کا مطالبہ کرتا آیا ہے، مگر وہ اتنی سنجیدگی کے ساتھ جموں و کشمیر لائن آف کنٹرول کے اطراف میں راہداریاں کھولنے پر اصرار کرتے نہیں دیکھے گئے۔

آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفر آباد سے ۲۲۱کلومیٹر دور شمال میں اٹھ مقام اور دودنیال کے درمیان، شاردا کھنڈرات، کشمیر کی قدیم تہذیب اور علم و فن کے گواہ ہیں۔ بودھ مت کی عظیم دانش گاہوں نالندہ اور ٹیکسلا کی طرح شاردا بھی ایک قدیم علمی مرکز تھا۔ نیلم اور مدھومتی کے سنگم پر واقع ان یادگاروں کو صرف ایک مندر یا عبادت گاہ کے طور پر فروغ دینا، تاریخ اور اس دا نش گاہ کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے۔ اس جگہ پر اب بغیر چھت کے پتھروں کی ایک عمارت کھڑی ہے اور یہ علاقہ لائن آف کنٹرول سے صرف ۱۰کلومیٹر دُور ہے۔

چند برسوں سے ہندو خاص طور پر کشمیری پنڈتوں کے ایک طبقے کو اس بات پر اصرار رہا ہے کہ یہ ان کا مقدس مقام ہے اور ’’۱۹۴۷ءتک یہاں شاردا یا علم کی دیوی سرسوتی کے نام پر ایک مندر قائم تھا اور اس مندر کی زیارت کے لیے بھی ہر سال ہزاروں ہندو یاتری اس علاقے میں آتے تھے۔ دونوں اطراف خصوصاً آزاد کشمیرمیں اپنی روشن خیالی ثابت کروانے والے کئی لوگ بھی بغیر تحقیق کے اسی مسخ شدہ تاریخ کو تسلیم کرتے ہوئے اس یاترا کی بحالی کا مطالبہ کرنا شروع کرتے ہیں۔ بھارت میں ہندو قوم پرست آرایس ایس کی طرح پاکستان میں بھی تاریخ کو توڑ مروڑ کر اَزسرنو لکھنے کی دوڑ لگی ہے۔ بھارت میں یہ کام ہندو انتہا پسندوں کا خاصہ ہے، پاکستان میں یہ کام وہ افراد کررہے ہیں، جن پر اپنے آپ کو ’اعتدال پسند‘ اور ’روشن خیال‘ کہلوانے کا خبط سوار ہے۔

چارلس الیسن بیٹس نے ۱۸۷۲ء میں جب گزیٹئر آف کشمیر اینڈ لداخ مرتب کیا تواُس نے اس مقام پر ایک قلعے کی موجودگی کا ذکر کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ قلعے سے ۴۰۰گز کی دوری پر ایک عبادت گاہ کے کھنڈرات ہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ یہ عمارت نہایت خستہ اور ویران حالت میں ہے۔ یاد رہے یہ ہندو ڈوگرہ حکمرانوں کا دور تھا، لہٰذا یہ دعوی ٰ کرنا کہ ’’اس علاقے میں ایک عالی شان مندر واقع تھا اور وہاں ۱۹۴۷ءتک جوق در جوق یاتری آتے تھے، ایک لغو بات اور غلط بیانی کی انتہا ہے۔ بیٹس اورانگریز سرویر جنرل والٹر لارنس نے اس دور میں کشمیر کا قریہ قریہ گھوم کر معمولی واقعات تک قلم بند کیے ہیں۔ ان کی نگارشات میں کہیں بھی، کسی شاردا مندر کی یاترا کا تذکرہ نہیں ہے۔کہتے ہیں کہ ۱۹ویں صدی میں ادھورے من سے ڈوگرہ حکمرانوں نے اس کی تزئین کی کوشش کی تھی، مگر اس کو اَدھورا چھوڑ دیا گیا تھا، اور بس اس عبادت گاہ کے ارد گرد مٹی کی ایک دیوار بنائی گئی۔ اگر اس جگہ پر عقیدت مند وں کا تانتا بندھا ہوتا، تو ہندو حکمرانوں نے اس جگہ پر عالیشان مندر یقینا تعمیر کرایا ہوتا۔ 

تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ جگہ بودھ مت کے عروج کے دوران ایک یونی ورسٹی کا درجہ رکھتی تھی۔نالندہ اور ٹیکسلا کے برعکس یہاں بدھ اشرافیہ یا چیدہ اسکالرز فلسفہ، سائنس اور بودھ مت کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ مشہور چینی سیاح و محقق ہیون سانگ[۶۰۲ء-۶۶۴ء] نے ساتویں صدی میں جب اس علاقے کا دورہ کیا، تو اس کے مطابق اس یونی ورسٹی میں بدھ بھکشو انتہا درجہ کی ریاضت اور تعلیم حاصل کرتے تھے۔ شاردا سے سرینگر تک اپنے سفر کے دوران اس نے کئی سو بودھ خانقاہیں دیکھیں، جن میں ہزاروں بھکشو مقیم تھے۔ اس دور میں یہاں ہر سال ۵۰ہزار کے قریب عقیدت مند آتے تھے اور اس دانش گاہ کے قلب میں واقع عبادت گاہ میں جانے سے قبل پاس کے شاردایا مدھومتی یا کھوچل دریا میں ڈبکی لگاتے تھے۔

شاردا کے کھنڈرات دراصل تاریخ کی اس کڑی کی نشاندہی کرتے ہیں، جب ہندو مت کو دوبارہ عروج حاصل ہوا اور بود ھ مت کو نشانہ بناکر ان کی عبادت گاہوں کو مندروں میں تبدیل کرایا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آٹھویں صدی میں جب کیرالا سے ہندو برہمن آدی شنکر آچاریہ نے بودھ مت کے خلاف محاذ کھول کر پورے جنوبی ایشیا کا دورہ کیا، اس نے شاردا یعنی علم کی دیوی کے نام پر مندر تعمیر کروائے، جن میں سب سے بڑا مندر کرناٹک میں دریائے تنگ کے کنارے سرنگری میں واقع ہے۔جب وہ کشمیر آئے اور اس جگہ پر ان کا بد ھ بھکشوؤں کے ساتھ مکالمہ ہوا۔ ہندو تاریخ نویسوں کے بقول انھوں نے بدھ بھکشوؤں کو مکالمے میں چت کردیا۔ چونکہ اس دور میں اکثر راجے مہاراجے دوبارہ ہندو مت میں داخل ہو گئے تھے، شنکر آچاریہ نے ان کی مدد سے بھکشوؤں کا ناطقہ بند کرادیا اور ان کی عبادت گاہوں کو تہس نہس کرکے ان کی جگہوں پر مندروں کی عمارات کھڑی کردیں۔ یہی کچھ اس شارد ا پیٹھ کے ساتھ بھی ہوا ہے۔

۱۳۷۲ء میں میر سید علی ہمدانی کی آمد تک کشمیر میں وقتاً فوقتاً بودھ مت اور ہندو شیوازم کے درمیان انتہائی کشیدگی جاری تھی۔ ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنا ایک طرح سے معمول تھا۔ اسلام کو جس طرح اس خطے میں عوامی پذیرائی ملی، اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی تھی۔ کشمیر میں ۱۲۶۰ء قبل مسیح میں سریندرا پہلا بودھ بادشاہ تھا۔ اشوکا [۳۰۴ ق م- ۲۳۲ ق م]کی حکومت کے خاتمے کے بعد راجا جالو نے ہندو شیوا زم قبول کیا اور بودھ مت پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ بودھ اسٹوپوں، وہاروں کو تاراج کیا گیا۔ بودھ مت کی دانش گاہوں پر شیو مندر بنائے گئے۔ پھر ۶۳ء میں دوبارہ بودھ مت کو عروج حاصل ہوا۔ راجا کنشک کے عہد حکمرانی [۱۲۷ء-۱۵۰ء]میں بارہمولہ کے کانس پورہ میں چوتھی بودھ کونسل منعقد ہوئی اور بودھ مت کے ایک لبرل مہایانہ فرقہ کی بنیاد ڈالی گئی، جس کے پیروکار چین اور کوریا میں فی الوقت پائے جاتے ہیں۔

  جولوگ اس علاقہ کو ہندو زائرین کے لیے کھولنے کی وکالت کرتے ہیں، انھیں چند منٹ جنوبی کشمیر میں امرناتھ اور شمالی بھارت کے صوبہ اترا کھنڈ کے چار مقدس مذہبی مقامات بدری ناتھ، کیدارناتھ، گنگوتری اوریمنوتری کی مذہبی یاترا کو سیاست اور معیشت کے ساتھ جوڑنے کے مضمرات پر بھی غور کرنا چاہیے۔ایک عشرہ قبل تک امرناتھ یاترا میں محدودتعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے، لیکن اب ہندو قوم پرستوں کی طرف سے چلائی گئی مہم کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ آتے ہیں۔ اس کی یاتراکو فروغ دینے کے پیچھے کشمیر کو ہندوؤں کے لیے ایک مذہبی علامت کے طور پر بھی اُبھار نا ہے، تاکہ بھارت کے دعویٰ کو مزید مستحکم بناکر جواز پیدا کیا جاسکے۔

بھارت کے موجودہ قومی سلامتی مشیر اجیت دوبال تو کشمیر کو سیاسی مسئلہ کے بجائے تہذیبی جنگ قرار دیتے ہیں اور ان کے مطابق اس مسئلہ کا حل ہی تہذیبی جارحیت اور اس علاقہ میں ہندو ازم کے احیا میں ہے۔ ایک باضابطہ منصوبے کے تحت کشمیر کی پچھلی ۶۴۷سال کی مسلم تاریخ کو ایک تاریک دور کے بطور پیش کیا جاتا ہے۔ خطرہ تو بس یہ ہے کہ نام نہاد اعتدال پسندی کا دکھاوا کرکے وادیٔ نیلم یا شاردا کا علاقہ حقیر مفادات کے لیے کہیں دوسرا پہلگام اور بال تل نہ بن جائیں اور حریص طاقتیں ان کو سیاست ومعیشت کے ساتھ جوڑ کرکسی سانحے کا سامان پیدا نہ کریں۔ ایسی روشن خیالی کے ساتھ اگر بے ضمیری شامل ہے تو یہ زہر ہلاہل ہے!

ترکیہ کے گیارہ صوبوں میں جس طرح زلزلے نے قہر برپا کیا، اسی پیمانے پر شمالی شام کے چھ صوبوں کا ۶۰ہزار مربع کلومیٹر علاقہ بھی اس کی زد میںآگیا۔ مگر بین الاقوامی برادری جس تیزی کے ساتھ ترکیہ میں مدد لے کر پہنچی، شاید ہی کسی کو ان شامی علاقوں کے متاثرہ افراد کی مدد کرنے یا ان کی اشک شوئی کرنے کی توفیق ہوئی۔ ترکیہ کے حتائی صوبے کے سرحدی قصبہ ریحانلی سے صرف ۱۲ کلومیٹر دُور بال الحوا کراسنگ پوائنٹ پر ۴۲سالہ شامی شہری محمد شیخ نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی اور اپنے ہم وطنوں کی قسمت پررو رہا ہے۔ وہ ۱۲سال قبل حلب یا الیپو سے جنگ کی وجہ سے نقل مکانی کرکے ترکیہ میں پناہ گزین ہو گیا تھا اور اب اپنے رشتہ داروں کی خیریت جاننے اور زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں مدد کرنے کے لیے واپس جا رہا تھا۔ وہ شکوہ کر رہا تھا: ’’ہماری زندگیاں تو پہلے ہی پچھلے ۱۲برسوں سے جنگ و شورش کی نذر ہوگئی تھیں۔ پھر کورونا وبا نے ہمیں نشانہ بنایا۔ اس میں جوں ہی کمی آگئی تو ہیضہ اور خشک سالی نے اس پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور اب زلزلے نے توہماری زندگیاں برباد کرکے رکھ دی ہیں‘‘۔

رومی دورِ حکومت کی کئی ہزار سالہ پرانی سڑک ، جس نے تاریخ کے کئی اَدوار دیکھے ہیں، اس پر اقوام متحدہ کے ٹرکوں کا ایک کاروان امدادی سامان لے کر رواں تھا۔ ترکیہ کی سرحد کے پار شام کے مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ ’’امدادی ٹیموں، نیزبھاری اوزاروں اور سامان کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہم کو اپنے ہاتھوں سے ملبہ کو ہٹا کر زندہ بچنے والوں کو نکالنا پڑا‘‘۔ اقوام متحدہ کے مطابق ملبے سے اب تک صرف ۶ہزار لاشیں نکالی جا سکی تھیں، جن میں شام کے حاکم بشار کے مخالفین کے زیرقبضہ شمال مغرب میں ۴ہزار۴سو لاشیں ملی تھیں۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق۲ہزار ۷سو ۶۲ سے زائد عمارتیں منہدم ہوچکی ہیں۔ شام کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’رسپانس کوآرڈینیٹرز گروپ‘،  جس کے ترکیہ میں دفاتر ہیں ، نے کہا کہ خطے میں ۴۵  فی صد انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اقوام متحدہ سے لوگ شکایت کر رہے تھے۔ اس کی جانب سے پہلا امدادی ٹرک چار دن بعد تباہ شدہ شہر دیر الزور پہنچا، تو مکینوں نے اقوام متحدہ کے جھنڈوں کو اُلٹا لٹکا کر احتجاج درج کروایا۔ بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے شام کے صدر بشار الاسد نے ۱۰ فروری کو حزب اختلاف کے زیرقبضہ علاقوں میں انسانی امداد بھیجنے کا اعلان تو کیا تھا، مگر یہ امدادی سامان نو دن بعد بھی نہیں پہنچا تھا۔ ان کے وزیروں کا کہنا تھا کہ انھوں نے امداد تو روانہ کی تھی ، مگر عسکریت پسند گروپ حیات تحریر الشام کے سربراہ ابومحمدالجولانی نے ان امدادی رضاکارگروپوں میں شامل افراد کی جانچ پڑتال کرنے میں کافی وقت صرف کردیا۔ ان کو خدشہ تھا کہ شامی حکومت شاید امدادی ٹیموں کی آڑ میں انٹیلی جنس اور کمانڈو اہل کار بھیج رہی ہے۔

’وائٹ ہیلمٹس‘ نام سے شامی شہری دفاع گروپ کے لیے کام کرنے والی رضاکار سورمر تمر نے مجھے بتایا: ’’زلزلہ آنے کے کئی روز بعد تک ملبوں سے انسانی ہاتھ نمودار ہوکر ہاتھ ہلاہلا کر مدد کی دہائی دے رہے تھے۔ منجمد کرنے والی سردی کے دوران بھی ملبو ں سے انسانی چیخ پکار کی آوازیں آرہی تھیں۔ یہ ہولناک یادیں اور آوازیں مجھے ساری زندگی پریشان کرتی رہیں گی۔پھر جب ہم ان تباہ حالوں میں سے کسی کا ہاتھ پکڑتے تھے تو وہ ہاتھ ہی نہیں چھوڑتے تھے۔ ان کو خوف ہوتا تھا کہ اگر انھوں نے ہاتھ چھوڑا تو ہم ان کو چھوڑ کر آگے بڑھ جا ئیں گے ‘‘۔

اپنے آنسو پونچھتے ہوئے تمر نے کہا:’’سچ تو یہ ہے کہ مجھ کو ایسے کئی ہاتھ چھوڑنے پڑے، کیونکہ ملبہ ہٹانے اور ان کو نکالنے کے لیے کوئی سامان نہیں تھا۔ ہم آگے بڑھ کر دیکھتے تھے کہ ننگے ہاتھوں سے کون سا ملبہ ہٹایا جاسکتا ہے او ر کون سی جان بچائی جاسکتی ہے۔ اور پھر دو دن بعد ان ملبوں سے انسانی آوازیںآنا بند ہوگئیں‘‘۔اُس وقت تک علاقے میں کوئی امدادی ٹیم نہیں پہنچ پائی تھی۔ میں ان تمام مرنے والوں سے معافی مانگتی ہوں، جنھیں ہم بچانے میں ناکام رہے‘‘۔ امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ’’صرف پہلے ۷۲گھنٹوں میں پانچ فی صد علاقے میں ریسکیو کا کام ہوسکا‘‘۔

زلزلے کے بعد پہلے ۷۲گھنٹوں ہی میں کسی زندہ وجود کو ملبہ سے نکالنے کا امکان موجود رہتا ہے۔ ’وائٹ ہیلمٹس‘ کے سربراہ رائد صالح نے بتایا: ’’ہم نے بے بسی کے ساتھ بہت جدوجہد کی کہ زندہ لوگوں تک پہنچ سکیں۔ مگر مناسب آلات کی کمی ہماری اس بے بسی کی ایک بڑی وجہ تھی، لیکن قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ہم نے اپنی سی پوری کوشش کی۔ تاہم، اقوام متحدہ کا غفلت برتنا بہت صدمہ خیز ہے۔ ان علاقوں میں ہزاروں شامی خاندان منفی درجہ حرارت میں سڑکوں پر یا ایسے خیموں میں زندگی گزار رہے تھے ، جن میں کمبل ، بستر یا گرمی کا کوئی انتظام نہیں تھا‘‘۔ مغربی ادلب صوبہ کے گاؤں امرین کے ندال مصطفےٰ بتا رہے تھے: ’’اپنی پوری فیملی کے ساتھ پہلے تین دن ہم نے کھلی سڑک پر گزارے۔ باب الحوا کی سرحد کے اس پار، ادلب صوبے میں تقریباً ۴۰ لاکھ افراد آباد ہیں، جن میں ۲۸ لاکھ ایسے افراد ہیں ، جو جنگ زدہ علاقوں سے ہجرت کر کے آئے ہیں‘‘۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۱ءسے اب تک شام کے تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے شمال مغرب میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد تقریباً ۵۳ لاکھ ہے۔ تقریباً ڈ یڑھ کروڑ شامی شہری جنگ اور سخت مغربی پابندیوں کی وجہ سے شدید معاشی بحران کا شکار ہیں۔ ترکیہ کا یہی متاثرہ جنوبی علاقہ ان کے لیے ایک ڈھال تھا، مگر زلزلہ کی وجہ سے ترکیہ کے اس خطے کا انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد ہو چکا ہے۔ ترکیہ میں ۳۵ لاکھ رجسٹرڈ شامی پناہ گزینوں میں سے ۱۷ لا کھ زلزلے سے متاثرہ صوبوں میں رہتے ہیں۔

 امدادی اداروں کے مطابق اگرچہ کئی عرب ممالک اور بین الاقوامی انسانی امداد کے کئی اداروں نے دمشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر امداد پہنچائی تھی، مگر یہ امداد اپوزیشن کے زیراثر شمال مغربی شام تک نہیں پہنچ سکی، جہاں ۸۵ فی صد متاثرہ افراد رہ رہے ہیں۔ رسپانس کوآرڈینیٹرز گروپ نے الزام لگایا کہ ۹۰ فی صد امداد حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں تقسیم کی گئی۔ ۲۰۱۴ء میں ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے انسانی امداد کی ترسیل کے لیے شام میں چار بارڈر کراسنگ کی منظوری دی تھی۔ مگر اب لے دے کے صرف باب الحوا ہی قانونی طور پر اقوام متحدہ کی نگرانی میں واحد سرحدی گزرگاہ رہ گئی ہے۔

زلزلہ کی وجہ سے مقامی آبادی پریشان حال تو تھی ہی، کہ اسی دوران شامی حکومتی افواج اور باغی افواج کے درمیان حلب کے نواح میں جھڑپوں کے دوران دونوں نے ایک دوسرے پر  خوب گولہ باری کی۔ جس کی وجہ سے امدادی کارکنوں کو اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔ سیریئن ابزرویٹری فار ہیومن رائٹس میں اس جنگ کی نگرانی کرنے والے کارکن ابو مصطفےٰ الخطابی کا کہنا تھا کہ اسد فورسزکی بیس ۴۶ سے گولہ باری شروع ہوئی اور انھوں نے مغربی حلب کو نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ عطریب قصبہ ،کفر اما ، کفر تال اور کفر نو دیہاتوں میں بھی شدید جھڑپیں ہوئیں۔ یاد رہے کہ عطریب اور اس کے نواح میں زلزلے کے نتیجے میں ۲۳۵؍ افراد ہلاک ہوگئے تھے اور متعدد افراد ملبے کے نیچے دبے ہوئے تھے۔ ایسے وقت میں اس طرح کی مسلح جھڑپوں سے ابتدائی امدادی کام بھی نہیں ہوسکے۔

حقیقت یہ ہے کہ جو شامی زلزلے کے دوران ملبے میں دب کر مارے گئے اور کئی روز تک ہاتھ ہلا ہلا کر مدد کی دہائی دے رہے تھے، ان کا خون بین الاقوامی برادری اور شامی متحارب گروپوں کے ہاتھوں پر ہے۔