جنوری ۲۰۲۴

فہرست مضامین

قرآن کا اعجاز

ڈاکٹر ظفرالاسلام خان | جنوری ۲۰۲۴ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

مسلمانوں کا روزِ اوّل سے اعتقاد ہے کہ قرآن پاک شکلاً اور مضمونا ً دونوں طور سے اعجاز کا حامل ہے اور کوئی بشری کلام اس کی برابری نہیں کر سکتا ہے۔ قرآن پاک کو اللہ پاک نے ہمیشہ کے لیے انسانوں کی ہدایت اور رسول اکرمؐ کی رسالت کی دلیل کے طور سے نازل کیا۔ قرآن پاک کے نزول سے دو باتیں ثابت ہوئیں: پہلا یہ کہ وہ کلام اللہ ہے، دوسرے یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے رسول و نبی ہیں۔

رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسرے بہت سے معجزے بھی صادر ہوئے جیسے شق القمر، کنکریوں (حصی) کا تسبیح پڑھنا، حضورپاک کی انگلیوں سے پانی جاری ہونا لیکن وہ سب وقتی تھے اور ختم ہوگئے، جب کہ قرآن پاک ہمیشہ کے لیے معجزہ ہے اور آخرت تک باقی رہے گا۔

مشرکین قریش نے حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم سے حسی معجزہ مانگا تھا جیسے:

  • انھوں نے کہا کہ حضور پاکؐ پر فرشتہ نازل ہو جسے مشرکین دیکھیں: وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ مَلَكٌ۝۰ۭ وَلَوْ اَنْزَلْنَا مَلَكًا لَّقُضِيَ الْاَمْرُ ثُمَّ لَا يُنْظَرُوْنَ۝۸ (الانعام ۶ : ۸)۔
  •  انھوں نے حضور پاکؐ سے مطالبہ کیا کہ وہ ویسے ہی معجزے لائیں جو دوسرے نبیوں کو ملے تھے: وَاِذَا جَاۗءَتْہُمْ اٰيَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰي نُؤْتٰى مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ رُسُلُ اللہِ۝۰ۭۘؔ (الانعام ۶ : ۱۲۴)۔
  • انھوں نےمعجزوں کا انکار کرتے ہوئے نئے معجزوں کا مطالبہ کیا: وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْہِ اٰيَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ۝۰ۭ (الانعام ۶: ۳۷)۔
  • انھوں نے کہا کہ ایک چشمہ جاری کردیجئے: وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ يَنْۢبُوْعًا۝۹۰ۙ (بنی اسرائیل ۱۷: ۹۰)۔
  • انھوں نے کہا کہ اس پیغمبر کی مدد کے لیے ایک فرشتہ کیوں نہیں نازل کیا جاتا، اس کے لیے ایک خزانہ کیوں نہیں اتارا جاتا، اسے ایک باغ کیوں نہیں دیا جاتا؟: وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ۝۰ۭ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَہٗ نَذِيْرًا۝۷ۙ اَوْ يُلْقٰٓى اِلَيْہِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَہٗ جَنَّۃٌ يَّاْكُلُ مِنْہَا۝۰ۭ وَقَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا۝۸ (الفرقان۲۵: ۷-۸)۔
  • انھوں نے کہا کہ اس نبی کے پاس سونے کا گھر ہونا چاہیے: اَوْ يَكُوْنَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ (بنی اسرائیل ۱۷: ۹۳)۔
  • انھوں نے کہا کہ اس نبی کو وہی معجزے کیوں نہیں ملتے جو حضرت موسٰی کو دیے گئے تھے:  قَالُوْا لَوْلَآ اُوْتِيَ مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ مُوْسٰي۝۰ۭ  (القصص۲۸: ۴۸)۔
  • انھوں نے کہا کہ نبی پر معجزے کیوں نہیں نازل ہوتے؟: وَقَالُوْا لَوْلَآ اُنْزِلَ عَلَيْہِ اٰيٰتٌ مِّنْ رَّبِّہٖ۝۰ۭ (العنکبوت۲۹: ۵۰)۔
  • انھوں نے کہا کہ یہ قرآن دونوں شہروں (مکہ و طائف) کے کسی عظیم شخص پر کیوں نازل نہیں ہوا؟: وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ۝۳۱ (الزخرف۴۳: ۳۱)۔

انبیا علیہم السلام کو اپنے اپنے زمانے کے لحاظ سے معجزے ملے۔ جادوگری کے زمانے میں حضرت موسٰی کو عصا اور یدِبیضاء ملا۔ طب کے فروغ کی وجہ سے حضرت عیسٰیؑ کو مریضوں کو شفایاب کرنے کا معجزہ ملا۔عربوں کو اپنی فصاحت و بلاغت اور شعر و خطابت پر ناز تھا، اس لیے ان کے لیے معجزۂ قرآن آیا۔ اللہ پاک نے حسی معجزے کے بجائے اپنے آخری نبی کو عقلی معجزہ دیا۔ عقلی معجزہ زمان ومکان کی حدود سے آزاد ہے، جب کہ حسی معجزہ زمان و مکان میں ہی واقع ہو سکتا ہے۔

اعجاز قرآن

قرآن پاک کے اعجاز پر گفتگو عباسی دور میں شروع ہوئی۔ اس کا بنیادی مقصد قرآن پاک کا دفاع کرنا تھا۔ اس سلسلے میں ایک بڑا مسئلہ معتزلی عالم اور لیڈر ابراہیم بن سیار النظّام (م: ۲۲۴ھ) نے پیدا کیا۔ اس نے دعویٰ کیا کہ قرآن پاک میں بذاتہِ اعجاز نہیں ہے بلکہ اللہ پاک نے لوگوں کی توجہ اس بات سے ہٹا دی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس کا خیال تھا کہ قرآن پاک کے چیلنج کا جواب دیا جا سکتا ہے لیکن چونکہ اللہ پاک نے لوگوں کی توجہ اس طرف سے ہٹا دی ہے، اس لیے یہ نہیں ہو رہا ہے۔ اس نظریہ کا نام ’صرفۃة‘ہے یعنی توجہ پھیر دینا یا ہٹا دینا ۔ اس نظریے کا مطلب یہ تھا کہ اگرچہ قرآن کی نقل کی جا سکتی ہے لیکن اللہ پاک نے عربوں کو اس صلاحیت سے محروم کر دیا ہے۔ لیکن اس رائے کو عام مقبولیت نہیں ملی۔

اسی زمانے میں زنادقہ نے بھی سر اٹھایا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ قرآن پاک میں استعمال شدہ بعض کلمات مناسب نہیں ہیں اور قرآن کے بعض فقروں میں بلاغت و فصاحت نہیں ہے۔ دوسرے لفظوں میں کلام پاک معجزہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ سوسائٹی کے بعض لوگوں کو قرآن پاک کے بعض مبادی جیسے مساوات و عدل سے پریشانی ہوئی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ سب لوگ برابرہوں۔  اس وجہ سے انھوں نے قرآن پاک کے بارے میں شک و شبہہ اور تشکیک شروع کر دی ۔ ۱

یہی وجہ ہے کہ اس زمانے سے قرآن پاک کے اعجاز کے بارے میں علما نے کثرت سے لکھنا شروع کیا۔ بعض نے اپنی کتابوں میں اس مسئلے کا تذکرہ کیا اور بعض نے الگ سے کتابیں تصنیف کیں۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔

اعجاز اور معجزہ

قرآن پاک نے لفظ ’معجزہ‘ یا ’اعجاز‘ استعمال نہیں کیا ہے۔ یہ اصطلاحیں بعد کے علما نے وضع کی ہیں۔ اسلام آنے کے بعد شروع کی دو صدیوں میں مسلمانوں نے قرآن پاک میں ’اعجاز‘ کی طرف توجہ نہیں دی۔ ایک اسکالر نے اس کی وجہ یہ بتائی ہے کہ (۱)اس وقت تک اسلامی عقل بہت باریک مسائل کے بارے میں سوچنے کی عادی نہیں ہوئی تھی، (۲)مسلمان نص قرآنی کو بہت تقدس کی نظر سے دیکھتے تھے، اس لیے اس جیسے مسائل کی طرف متوجہ نہیں ہوئے ۔ ۲  اس میں یہ اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ شروع کی دو صدیاں آپس میں سیاسی خلفشار کی تھیں اور مسلمان جنگوں اور فتوحات میں بہت مشغول تھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ قرآن پاک کا لسانی، بیانی اور تشریعی اعجاز قرنِ اول کے مسلمانوں کے سامنے ایک حقیقت تھا، اس لیے اس کے دفاع کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔

 پہلی دو ہجری صدیوں کے دوران ہمیں اعجاز القرآن کے بارے میں کوئی تصنیف نظر نہیں آتی۔ دوسری صدی ہجری کے آخر میں ابوعبیدہ معمر بن مثنی (م: ۲۰۹ھ)نے کتاب اعجاز القرآن لکھی جو اس موضوع پر پہلی کتاب تھی، لیکن وہ ان کی دوسری کتابوں کی طرح ناپید ہے۔اسی زمانے میں قرآن پاک کے اعلیٰ عربی، ابلاغی اور بیانی اسلوب کے بارے میں بات شروع ہوئی اور تیسری صدی ہجری سے اعجاز القرآن کے مختلف پہلوؤں پر کتابیں تصنیف کی جانے لگیں، مثلاً:

  • ابوعثمان عمرو بن بحر الجاحظ(م: ۲۵۵ھ) نے نظم القرآن  نامی کتاب لکھی جس میں قرآن پاک کے نظم اور تالیف کے اعجاز کا تذکرہ کیا اور اپنے استاذ ابراہیم بن سیار النظّام (م: ۲۲۶ھ) کے نظریۂ صرفہ کو رَد کیا۔
  • محمد بن يزید الواسطی (م: ۳۰۶ھ) : اعجاز القرآن
  • عبدالله بن ابی داؤد السجستانی (م: ۳۱۶ ھ) : نظم القرآن
  • ابو زید البلخی(م: ۳۲۲ھ) : نظم القرآن
  • احمد بن علی’ابن الاخشيد‘ (م: ۳۲۶ھ) : نظم القرآن
  • ابوالحسن علی بن عيسٰی الرمانی (م: ۳۸۶ھ) نے النکت فی الاعجاز القرآنی لکھی۔ انھوں نے قرآنی اعجاز کے سات امور کا ذکر کیا۔ ۳
  • ابوسلیمان حمد بن محمد بن ابراہیم الخطابی(م: ۳۸۸ھ) نے بیان إعجاز القرآن کے نام سے کتاب لکھی۔ وہ کہتے ہیں: قرآن کا اعجاز ان فصیح ترین الفاظ کی وجہ سے ہے جو صحیح ترین معانی کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ دوسرا اعجاز اس کا سننے والوں کے دلوں میں اثر کرنا ہے، کہ کتنے ہی دشمن عرب اس کو سن کر دشمنی ترک کر کے مسلمان ہو گئے ۔ ۴
  • ابوبکر محمد بن الطيب الباقلانی (م: ۴۰۳ھ) نے کتاب اعجاز القرآن میں قرآنی اعجاز کے تین امور کا تذکرہ کیا: قرآن نے غیبی امور کی اطلاع دی، گزرے ہوئے لوگوں اور پچھلی نسلوں کے بارے اطلاع دی، اور اس میں غیرمعمولی نظم پایا جاتا ہے ۔ ۵
  • ابوبکر عبدالقاھربن عبدالرحمٰن الجرجانی (م: ۴۷۱ھ) نے الرسالة الشافية  ۶ لکھی۔ اس کے علاوہ انھوں نے دلائل الاعجاز کے نام سے بھی کتاب لکھی ۔ ۷ اسی موضوع پر ان کی ایک اور کتاب أسرار البلاغة ہے۔
  • القاضی عياض بن موسیٰ(م: ۵۴۴ھ) نے کتاب الشفا بتعريف حقوق المصطفٰی  میں قرآنی اعجاز کے چار امور کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ غیبی امور کی اطلاع دیتا ہے اور پچھلی نسلوں کے بارے بتاتا ہے ۔ ۸
  • علی بن محمد السخاوی(م: ۶۴۳ھ) نے کہا کہ اعجاز قرآنی اس کے نظم اور اسلوب میں ہے۔ غیبی امور اور پرانی قوموں کے واقعات رسولؐ اللہ کی سچائی کی دلیل ہیں۔ ۹
  • ابوعبدالله محمد بن احمد القرطبی(م: ۶۸۴ھ) نے اعجاز قرآنی کے دس امور کا ذکر کیا ہے ۔ ۱۰
  • بدرالدین زرکشی(م: ۷۹۴ھ) نے اعجاز کی مختلف صورتوں کا ذکر کیا ہے۔ ۱۱
  • جلال الدین السيوطی(م: ۹۱۱ھ) نے اپنی دو کتابوں الاتقان فی علوم القرآن  ۱۲ اور معترک الاقرآن فی إعجاز القرآن ۱۳  میں اعجاز قرآنی کی متعدد صورتوں کا ذکر کیا۔
  • مفتی محمد عبدہٗ (م: ۱۹۰۵ء) نے رسالة التوحيد ۱۴ میں اعجاز القرآن پر روشنی ڈالی ہے۔ اسی موضوع پر لکھی گئی کتابوں میں مصطفےٰ صادق الرافعی (م:۱۹۳۷ء) کی کتاب إعجاز القرآن والبلاغة النبوية  ۱۵  بھی شامل ہے۔عبدالمتعال الصعیدی (م:۱۹۶۶ء) نے النظم الفنی فی القرآن لکھی اور قرآنی آیات کے ایک دوسرے سے مربوط ہونے کے اعجاز پر زور دیا۔ سید قطب (م: ۱۹۶۶ء) نے اپنی تفسیر فی ظلال القرآن ۱۶ کے علاوہ التصوير الفنی فی القرآن ۱۷ اور مشاهد القيامة فی القرآن ۱۸ میں قرآن پاک کے ابلاغی اور ادبی اعجاز پر گفتگو کی۔

معجزہ کیا ہـے ؟

’اعجاز‘ عربی زبان کا لفظ ہے جو مادہ یا جذر ( ع-ج-ز) سے مشتق ہے۔اس کے ثلاثی مصدر کے معنی ہیں عاجز ہونا، قادر نہ ہونا، کمزور ہونا۔ اسی جذر سے عاجز، عجوز، معجزہ اور اعجاز جیسے الفاظ بنتے ہیں۔ عجز کے معنی کمزوری بھی ہے اور انسان کا پچھواڑہ بھی۔ اعجاز کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرنے یا پکڑنے کو ناممکن بنانا ۔ اصطلاح کے طور سے ’اعجاز‘کے معنی عاجز اور کمزور کردینا ہے۔ الاعجاز القرآنیکے معنی ہیں قرآن پاک کے ذریعے رسول اکرمؐ کے پیغام کے صدق کا معجزاتی اظہار اور منکروں کو چیلنج کہ اس جیسا کلام لائیں۔ 

عجز سے معجزہ بھی مشتق ہے، جو زندگی اور موجودہ دنیا کے فطری قوانین کے خلاف واقع ہوتا ہے۔ ایک اسلامی اصطلاح کے طور پر معجزہ وہ عمل ہے جو پیغمبرؑ اپنی پیغمبری کے اعلان کے بعد اور پیغمبری کی تائید واثبات میں اپنے انکار کرنے والوں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ شیخ ابو زہرہ نے اس کی تعریف یوں کی ہے: ’’وہ عادت کے مخالف امر ہےجسے نبوت کا دعویٰ کرنے والا یہ کہہ کر پیش کرتا ہے کہ وہ اللہ کا رسولؐ ہے اور (اپنے منکرین) کو چیلنج کرتا ہے کہ اس جیسا عمل لا کر دکھائیں‘‘ ۔ ۱۹  یہ دلیل حسی ہوسکتی ہے جیسے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیا علیہم السلام نے پیش کی مثلاً مُردوں کو زندہ کرنا، عصا کو چلتا ہوا سانپ بنا دینا وغیرہ۔ حضور پاکؐ سے بھی ایسے معجزے صادر ہوئے جیسے شق قمر اور انگلیوں سے پانی نکلنا۔معجزہ فطری قوانین کے خلاف واقعہ ہوتا ہے اور نصرت الٰہی کے بغیر کوئی معجزہ نہیں لا سکتا۔ اسی طرح اللہ پاک کسی جھوٹے مدعی کو معجزہ نہیں دیتے ہیں۔

قرآن پاک کا اعجاز بہت متنوع ہے۔ اس میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ تاریخی اعجاز (ماضی ، حال اور مستقبل کی خبروں کو بتانا)، نفسیاتی اعجاز (انسانی نفس کے اسرار کو بتانا)، تشریعی اعجاز (ایسے قوانین انسان کے لیے بنانا جو اس کے لیے بالکل مناسب ہوں)، علمی اعجاز (ایسے سائنسی اسرار کو بتانا جن کو حضورپاکؐ کے زمانے کے لوگ نہیں جانتے تھے یا جن کا انسان نے ابھی انکشاف نہیں کیا تھا)۔

اس وقت کے اور بعد کے عرب قرآن پاک کے اس چیلنج کا جواب دینے سے قاصر رہے۔ عربوں کے پورے شعری اور نثری کلام میں فصاحت، لطیف معانی، حکمت وبلاغت کی قرآن جیسی مثال نہیں ملتی ہے۔ عرب حکما وشعرا کا جو کلام ملتا ہے وہ چند الفاظ یا مختصر قصائد پر مشتمل ہوتا ہے ۔ ۲۰

عربی زبان کے ممتاز ترین ادیب ابن المقفع (م:۱۴۲ھ/۷۵۹ء)نے اس چیلنج کوقبول کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس میں ناکام رہا۔آخر میں اس نے اپنے لکھے ہوئے سارے صفحات پھاڑ دیے اور شرم کے مارے اس مسئلے پر خاموش رہا ۔ ۲۱

 قرآن کا یہ اعجاز وقتی نہیں تھا بلکہ وہ تاقیامت جاری رہے گا۔ اس لحاظ سے اپنی تعلیمات کے علاوہ قرآن بذات خود ایک معجزہ ہے۔ قرآن ہی رسولؐ اللہ کا اصلی معجزہ ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تمام انبیاؑ کومعجزے دیے گئے، جن کی وجہ سے لوگ ان پر ایمان لائے۔ مجھے جو دیا گیا ہے وہ ’وحی‘ ہے، جو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر نازل کی‘‘(ما من الانبیاء نبی إلا أعطی من الآیات ما مثلہ آمن علیہ البشر، إنما کان الذی أوتیت أنا وحیا أوحاہ اللہ إليّ ۔ ۲۲

’اعجاز‘ یا ’معجزہ‘ کا لفظ قرآن پاک میں نہیں آیا ہے بلکہ اس کا استعمال دوسری صدی ہجری کے اواخر سے شروع ہوا۔ خود قرآن پاک میں اس کے لیے لفظ – ’آيۃ ‘ استعمال ہوا ہے، جیسے: البقرہ۲: ۳۹، ۹۹؛ آل عمران۳:۴، ۷؛النساء۴: ۵۶، ۱۴۰؛ المائدہ۵:۱۰، ۴۴؛ الانعام ۶: ۴، ۲۱ وغیرہ میں ہے۔ اسی طرح اس کے لیے –’بيّنة ‘کا لفظ آیا ہے، جیسے: البقرہ۲: ۲۱۱؛ الانعام ۶:۵۷، ۱۵۷؛ الاعراف ۷: ۷۳، ۸۵، ۱۰۵؛ الانفال۸: ۴۲؛ ہود۱۱:۱۷، ۲۸، ۵۳، ۶۳، ۸۸؛ طٰہٰ ۲۰:۱۳۳؛ العنکبوت ۲۹: ۳۵؛ فاطر۳۵:۴۰؛ محمد۴۷: ۴۷؛ البینۃ ۹۸: ۱،۴۔

اسی طرح – ’برہان ‘ کا لفظ آیا ہے، جیسے: البقرہ۲: ۱۱۱؛ النساء۴: ۱۷۴؛ يوسف۱۲: ۲۴؛ الانبیاء۲۱:۲۴؛ المؤمنون ۲۳:۱۱۷؛ النمل۲۷: ۶۴؛ القصص ۲۸: ۳۲، ۷۵۔ ایک لفظ ’سلطان ‘ استعمال ہوا ہے، جیسے: آل عمران۳: ۱۵۱، النساء۴:۹۱، ۱۴۴، ۱۵۳؛ الانعام ۶:۸۱۔

معجزےکی شرائط

  • معجز ہ اللہ کی طرف سے ہونا چاہیے۔ کوئی جادو یا کرتب معجزہ نہیں ہوگا۔
  • اسے خارق العادت ہونا چاہیے یعنی دنیا میں جو واقعات ہو رہے ہیں اس کے برخلاف ہو۔
  • اس عمل کو کوئی توڑ نہ سکے ، نہ غلط ثابت کر سکے۔
  • اس کا ظہور نبوت کا دعویٰ کرنے والے کے ہاتھوں ہو۔
  • عمل حسب دعویٰ ہو، یعنی ایسا نہ ہو کہ دعویٰ کسی اور بات کا ہو اور عمل کچھ اور ہو۔
  • جس عمل کا معجزہ لانے والا دعویٰ کرے وہی عمل اس کی تکذیب نہ کرے۔
  • مذکورہ عمل دعوائے نبوت سے پہلے نہ ظاہر ہوا ہو بلکہ نبوت کا دعویٰ کرنے کے بعد واقع ہو۔  ۲۳
  • اعجاز اور کرامت میں فرق:کرامت کے ذریعے اللہ پاک اپنے کسی پاک بندے کی فضیلت واضح کرتے ہیں، جیسے حضرت مریم ؑ کو سردی کا پھل گرمی میں ملنا اور گرمی کا پھل سردی میں۔ اسی طرح اولیا و صالحین کے ہاتھوں کرامات ظاہر ہوتی ہیں، جو معجزہ نہیں ہوتی ہیں۔

معجزہ اور جادو میں فرق

  • معجزہ اور جادو میں فرق:معجزہ خارق عادت ہے اور دنیاوی قوانین کے برخلاف وجود میں آتا ہے، جب کہ جادو سیکھاجاسکتا ہے اور وہ ساحر کے عمل سے وجود میں آتا ہے، اللہ پاک کے حکم سے نہیں۔ اس کی مثال حضرت موسٰی کا عصا ہے جو معجزہ سے حقیقی سانپ بن گیا اور جادوگروں کے سانپوں کو کھا لیا، جب کہ جادوگروں کے سانپ محض آنکھوں کا دھوکا تھے۔
  • قرآنی اعجاز کن پہلوؤں میں ہـے؟: علما نے قرآنی اعجاز کے جن پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے ان کو مندرجہ ذیل وجوہ میں بیان کیا جاسکتا ہے:لسانی، ادبی، بیانی، ابلاغی، نظمی، لفظی، دلیلی، عقيدی (اعتقادی) ، تعبدی (عبادی) ،تشريعی (قانون سازی)، تاريخی ،تربوی (تعلیمی)، نفسی (نفسیاتی)، اقتصادی ، اداری (ایڈمنسٹریٹیو)، تنبوؤی (پیشین گوئی) ، علمی (سائنسی) طبی ، فلکی، موسيقی ، عددی اور اجتماعی۔ اور اعجاز کا یہ چیلنج انسانوں اور جنوں سب کے لیے ہے۔
  • قرآنی اعجاز قیامت تک قائم رہـے گا:علما کی رائے ہے کہ قرآن پاک کا اعجاز اپنی تمام صورتوں میں قیامت تک قائم ہے۔ اس بات کو مصطفےٰ صادق الرافعی (م: ۱۹۳۷ء) نے یوں بیان کیا ہے: ’’قرآن واحد کتاب ہے جو معجزہ ہے ۔ اس میں مذکور حقائق معجزہ ہیں ۔ اس میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو انسانی فطرت سے ٹکرائے، اس لیے یہ اس وقت تک باقی رہے گا جب تک انسان اور دنیا باقی ہیں‘‘ ۔ ۲۴

کچھ متاخرین کا خیال ہے کہ اعجاز قرآنی صرف اعجاز بیانی ہے۔ معروف مصری محقق محمودمحمدشاکر (م: ۱۹۹۷ء)نے مالک بن نبی (م: ۱۹۷۳ء)کی کتاب الظاهرة القرآنية کے دیباچے میں لکھا ہے کہ ’’اعجاز ، قرآن میں الفاظ کی ترتیب، بیان اور ان تمام خصوصیات کے استعمال میں ہے جو عربوں کے کلام میں نظم وبیان کے نام سے جانی جاتی تھی‘‘ ۔  ۲۵ لیکن ہمارا خیال ہے کہ قرآنی اعجاز صرف بیان و بلاغت میں نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ اس میں ایسی بہت سی باتیں ہیں جو اس کے نازل ہونے کے وقت عربوں کو نہیں معلوم تھیں یا جن کا انکشاف بعد میں ہوا۔

قرآن پاک اپنی جگہ دائمی معجزہ بھی ہے اور ہدایت کی کتاب بھی،جب کہ حضور پاکؐ سے پہلے آنے والے انبیاؑ کے معجزات وقتی ہوتے تھے۔ ابن خلدون کی رائے ہے کہ ’’معجزات عموماً وحی کے علاوہ واقع ہوتے تھے جو نبی پر نازل ہوتی تھی پھر نبی معجزے کو گواہ کے طور پر پیش کرتا تھا۔ لیکن قرآن بنفس نفیس دعویٰ بھی ہے اور معجزہ بھی‘‘ ۔  ۲۶

  • قرآنی چیلنج کے مراحل:قرآن پاک کے معجزہ ہونے اور کفار و مشرکین کو اس جیسا کلام لانے کے چیلنج کو تین مراحل میں بیان کیا گیا:

            ۱-         پہلے مرحلے میں کہا گیاکہ قرآن جیسا کلام لاؤ : قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِيْرًا۝۸۸ (بنی اسرائیل ۱۷: ۸۸) ؛ فَلْيَاْتُوْا بِحَدِيْثٍ مِّثْلِہٖٓ اِنْ كَانُوْا صٰدِقِيْنَ۝۳۴ۭ (الطور ۵۲: ۳۴)۔

            ۲-         دوسرے مرحلے میں کفار و مشرکین کو چیلنج کیا گیا کہ قرآن کی طرح کی دس سورتیں بنا کر لاؤ: اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىہُ۝۰ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِہٖ مُفْتَرَيٰتٍ وَّادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۱۳ (ھود ۱۱:۱۳)۔

            ۳-         تیسرے مرحلے میں کفار و مشرکین سے کہا گیا کہ قرآن پاک جیسی ایک ہی سورہ بنا کر لاؤ: اَمْ يَــقُوْلُوْنَ افْتَرٰىہُ۝۰ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَــطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۳۸ (يونس ۱۰: ۳۸) ؛ وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ مِّـمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ  مِّنْ   مِّثْلِہٖ۝۰۠ وَادْعُوْا شُہَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۝۲۳  (البقرہ ۲: ۲۳)؛  فَلْيَاْتُوْا  بِحَدِيْثٍ    مِّثْلِہٖٓ    اِنْ  كَانُوْا صٰدِقِيْنَ۝۳۴ۭ  (الطور ۵۲: ۳۴)

لیکن ان تینوں چیلنجوں کو قبول کرنے سے کفار و مشرکین ومنکرین اس زمانے سے لے کر موجودہ زمانے تک عاجز رہے۔

  • عربوں کا ردّعمل:عربوں کو اپنی عربی دانی اور فصاحت و بلاغت پر بڑا فخر تھا۔ وہ دوسروں کو ’عجم‘یعنی بےزبان یا گونگا سمجھتے تھے۔ عربوں میں قریش کی عربی زبان سب سے معیاری سمجھی جاتی تھی۔ جب قرآن ان کے سامنے پہلی بار پڑھا گیا تو وہ ان کو انسانی کلام نہیں لگا، اس لیے انھوں نے اس کو شعر یا سحر یا قدماء کے قصوں (اساطیر) سے تعبیر کیا۔ قرآن پاک نے اس سب کا انکار کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شاعر ہونے کے دعوے کے بارےمیں قرآن نےکہا: وَمَا عَلَّمْنٰہُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْۢبَغِيْ لَہٗ۝۰ۭ اِنْ ہُوَاِلَّا ذِكْرٌ وَّقُرْاٰنٌ مُّبِيْنٌ۝۶۹ۙ (یٰسٓ  ۳۶ : ۶۹) ’’ہم نے اس (نبیؐ) کو شعر نہیں سکھایا ہے اور نہ شاعری اس کو زیب ہی دیتی ہے۔ یہ تو ایک نصیحت ہے اور صاف پڑھی جانے والی کتاب‘‘۔ ساحر کا کلام ہونےکے بارےمیں قرآن نے کہا:اَكَانَ لِلنَّاسِ عَـجَــبًا اَنْ اَوْحَيْنَآ اِلٰى رَجُلٍ مِّنْھُمْ اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّہِمْ۝۰ۭؔ قَالَ الْكٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِيْنٌ۝۲ (يونس ۱۰ : ۲) ’’کیا لوگوں کے لیے یہ ایک عجیب بات ہوگئی کہ ہم نے خود اُنھی میں سے ایک آدمی پر وحی بھیجی کہ (غفلت میں پڑے ہوئے) لوگوں کو چونکا دے اور جو مان لیں اُن کو خوشخبری دے دے کہ ان کے لیے اُن کے ربّ کے پاس سچی عزّت و سرفرازی ہے؟ (اس پر) منکرین نے کہا کہ یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے‘‘۔قدماء کے قصوں کے بارے میں قرآن نے کہا: وَقَالُوْٓا اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَہَا فَہِيَ تُمْلٰى عَلَيْہِ بُكْرَۃً وَّاَصِيْلًا۝۵ (الفرقان ۲۵ : ۵) ’’کہتے ہیں یہ پرانے لوگوں کی لکھی ہوئی چیزیں ہیں جنھیں یہ شخص نقل کراتا ہے اور وہ اسے صبح و شام سنائی جاتی ہیں‘‘۔

عربوں کا شروع سے ردّعمل، قرآنی اعجاز کا انکار کرتے ہوئے تلوار کے ذریعے آخر تک اس کی مخالفت تھا حالانکہ ان کا دعویٰ تھا کہ اگر ہم چاہتے تو ہم بھی قرآن جیسا کلام کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ پچھلے لوگوں کی کہانیاں ہیں لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ ہٰذَآ۝۰ۙ اِنْ ہٰذَآ اِلَّآ اَسَاطِيْرُ الْاَوَّلِيْنَ۝۳۱  –الانفال ۸ : ۳۱)۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ قرآن انسان کا کلام ہے اِنْ ہٰذَآ اِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ۝۲۵ۭ  (المدثر ۷۴ : ۲۵)، وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّہُمْ يَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا يُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ۝۰ۭ  (النحل۱۶ : ۱۰۳)، قَالُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ عَلٰي بَشَرٍ مِّنْ شَيْءٍ۝۰ۭ (الانعام ۶ : ۹۱)۔ لیکن وہ اس طرح کا کلام پیدا نہیں کر سکے۔

قریشی سردار الولید بن المغیرہ قرآن پاک کے بارے میں کہتا ہے: فَوَاللهِ مَا فِيکُمْ رَجُلٌ أَعْلَمُ بِالشِّعْرِ مِنِّي  وَلَا بِرَجَزِهِ  وَلَا بِقَصِيدِهِ وَلَا بِأَشْعَارِ الْجِنِّ وَاللّهِ مَا يُشْبِهُ الَّذِي يَقُولُ شَيْئًا مِنْ هٰذَا وَوَاللهِ اِنَّ لِقَوْلِهِ الَّذِي يَقُولُ حَلَاوَةً وَاِنَّ عَلَيْهِ لَطَلَاوَةً وَاِنَّهُ لِمُثْمِرٌ أَعْلَاهُ مُغْدِقٌ أَسْفَلُهُ وَاِنَّهُ لَيَعْلُو وَلَا يُعْلَی عَلَيْهِ   ۲۷(خداکی قسم، تم میں سے کوئی نہیں جو شعر کو، رجز کو، قصیدے کو اور جنات کے شعر کو مجھ سے زیادہ جانتا ہو۔ خدا کی قسم! یہ جو کہتا ہے وہ ان چیزوں میں سے کسی کی طرح نہیں ہے۔ خدا کی قسم! جو یہ کہتا ہے اس میں شیرینی ہے، اس میں تازگی ہے، اس کا اوپری حصہ پھل دار ہے اور نچلا حصہ پیاس بجھانے والا ہے۔ وہ اوپر کی طرف اٹھتا ہے اور کوئی اس کے اُوپر نہیں اٹھ سکتا ہے)۔[جاری]

حواشی

۱-         فلاح عبدالحسن ہاشم،محاضرات فى مادة الاعجاز القرآنى، جامعة البصرة، ص۱۷

۲-         احمد جمالی العمری، مفہوم الاعجاز القرآنی، ص۴۲-۴۳ نقلا عن   السيد نذير الحسني،المراحل والأدوار التي مر بها بحث الاعجاز ،  مستل من كتاب دروس فی علوم القرآن ، ص  ۲۳۷- ۲۴۳

۳-         الرمانى ، النكت فى الاعجاز القرآنى ، دارالمعارف بمصر ، الطبعة الثالثة ۱۹۵۵م، ص۷۵ ، بحوالہ ثلاث رسائل فى إعجاز القرآن: الخطابى والرمانى والجرجانى

۴-         الخطابى،بيان إعجازالقرآن ،  دارالمعارف بمصر ، الطبعة الثالثة، ۱۹۵۵م ، ص۲۷   ، بحوالہ ثلاث رسائل فى إعجاز القرآن: الخطابى والرمانى والجرجانى 

۵-         الباقلانى، إعجاز القرآن، دار المعارف بمصر، ص ۴۹- ۵۱

۶-            دارالمعارف بمصر ، الطبعة الثالثة ۱۹۵۵م

۷-         تعليق محمود محمد شاكر ، مطبعة المدنى، القاهرة، ۱۹۸۴ء

۸-         القاضى عياض بن موسى ، الشفا بتعريف حقوق المصطفٰى،دبي ۱۹۹۹م،  ص ۳۱۷- ۳۳۳

۹-         السخاوى، جمال القراء وكمال الإقراء ، تحقيق مروان العطية و محسن خرابة ، دارالمأمون للتراث، دمشق وبيروت  ۱۹۹۷، ص  ۱۰۱- ۱۰۹

۱۰-         القرطبى ، الجامع لأحكام القرآن،  دارالكتب المصرية، القاھرۃ، ۱۹۳۵م، ص ۶۹- ۷۵۔

۱۱-      البرهان فى علوم القرآن، تحقيق ابوالفضل الدمياطى،  طبع دارالحديث ۲۰۰۶م، ص۳۸۳ وما بعدھا

۱۲-      الإتقان فى علوم القرآن ، مركز الدراسات القرآنية،  المملکۃ العربیۃ السعودية، ج5، ص ۱۸۷۹ ومابعدھا۔

۱۳-      معترك الأقران فى إعجاز القرآن ، دارالكتب العلمية، بيروت، ۱۹۸۸۔

۱۴-      دارالشروق، بيروت والقاهرة ،  ۱۹۹۴م

۱۵-      دار الكتاب العربي، بيروت ۱۹۷۳م

۱۶-      دارالشروق القاهرة بيروت، الطبعة۳۲، ۲۰۰۳م

۱۷-         دار الشروق القاهرة، الطبعة ۱۷، ۲۰۰۴م

۱۸-        دارالشروق القاهرة، الطبعة ۱۶، ۲۰۰۶م

۱۹-        محمد ابوزهرۃ، المعجزة الكبرى للقرآن، دار الفکر العربی (نحو ۱۹۷۰) ، ص: ۷ 

۲۰-        علي الصلابي، مطارحات في وجوه الاعجاز القرآني، الجزیرۃ،  ۲۴ اگست ۲۰۱۳

۲۱-      مصطفٰى صادق الرافعى ، تارخ آداب العرب ، ۲/۱۱۸

۲۲-      صحیح الخا ری، کتاب فضائل القرآن ۴۹۸۱، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ۷۲۷۴۔

  ۲۳-    فلاح عبدالحسن هاشم،محاضرات فى مادة الاعجاز القرآنى ،ص: ۱۰-۱۱۔

۲۴-        مصطفٰى صادق الرافعى ، تارخ آداب العرب ، ۲/ ۱۰۴

  ۲۵-    مقدمة كتاب الظاهرة القرآنية لمالك بن نبى، دار الفکر، دمشق، ۲۰۰۰، ص۳۰

۲۶-      مقدمة بن خلدون ص: ۱۰۶- ۱۰۷ ،  نقلا عن نورالدين عتر، علوم القرآن الكريم

۲۷-        ابن كثير، البداية والنهاية ص ۷۵۵۔