جولائی ۲۰۱۹

فہرست مضامین

صدر محمد مرسی کی شہادت، عالمی ضمیر اور اُمتِ مسلمہ

پروفیسر خورشید احمد | جولائی ۲۰۱۹ | اشارات

Responsive image Responsive image

مصر کی تاریخ میں ۱۷جون۲۰۱۹ء نے ایک یادگار حیثیت حاصل کرلی ہے۔ 
۱۷جون ۲۰۱۲ء وہ روشن دن تھا، جب جدید مصر ( جس کا آغاز ۱۹۵۲ء میں شاہ فاروق کے تخت چھوڑنے سے ہوا تھا) میں پہلاآزاد جمہوری انتخاب منعقد ہوا۔ اس کے نتیجے میں ڈاکٹر محمد مرسی عیسیٰ العیاط صدرِ مملکت منتخب ہوئے۔ وہ ’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ (حزب الحریۃ والعدالۃ) کے نامزد اُمیدوار تھے۔ مگر مصر میں جمہوری دور کے آغاز کا جو امکان پیدا ہوا تھا، بدقسمتی سے ایک حریصِ اقتدار جنرل عبدالفتاح السیسی نے بیرونی طاقتوں کے اشارے پر، چند روزہ ہنگاموں کا ڈراما رچایا، اور حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ اس طرح ایک سال اور تین دن بعد ۳جولائی ۲۰۱۳ء کو حکومت پر ناجائز قبضہ کرکے جمہوریت کے اس چراغ کو ضوفشاں ہونے سے پہلے ہی بجھا دیا۔ یوں اکیسویں صدی میں فرعونی استبداد اور ریاستی دہشت گردی کا ایسا آغازہوا کہ جس کا نہایت گہرا زخم ۱۷جون ۲۰۱۹ء کو ٹھیک سات سال بعد منتخب صدرمحمدمرسی کی کمرئہ عدالت میں شہادت ہے۔ 
اس الم ناک واقعے نے ایک بار پھر ساری دنیا کے سوچنے سمجھنے والے افراد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ خصوصیت سے مصر کے عوام کو، اور دنیا کے ہرگوشے میں مسلمانوں کو آمرانہ اقتدار اور ظلم کے نظام کے خلاف نئی جدوجہد کی ضرورت کا احساس دلایا ہے۔ صدر ڈاکٹرمحمد مرسی کی زندگی کو، جو اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھ کر اس خوش فہمی میں تھے کہ ان کی زندگی کے چراغ کو گل کرکے وہ محفوظ ہوجائیں گے، ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان شاء اللہ ان کے اقتدار اور ظلم کے اس نظام کے لیے شہید مرسی اور بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔ یہ تاریخ کا اٹل فیصلہ ہے:وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِيْلًا۝  (احزاب ۳۳:۶۲)’’اللہ کی سنت تبدیل نہیں ہوتی‘‘۔
جارج ٹائون یونی ورسٹی،واشنگٹن کے پروفیسر عبداللہ الریان نے ’الجزیرہ ویب پیج‘ میں  شائع شدہ اپنے مضمون میں بڑی سچی بات لکھی ہے، جس کے آئینے میں مستقبل کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے:

اوریوں ان کی صدارت،درحقیقت شروع ہونے سے قبل ہی ایک ناخوش گوارانجام کو پہنچ گئی۔مرسی کادورحکومت،ایک جمہوری مستقبل کی خاطر محض ایک وقتی اورموہوم سی امید کا پیکر تھا، جوبے رحم مطلق العنان حکمرانوں کے طویل دورکے بعد، ان [مرسی]  کی طرف سے صدرکے پرشکوہ منصب پرفائزہونے میں نظرآیاتھا۔
لیکن ان کے جانشین [جنرل سیسی] کوجلد ہی یہ احساس ہوجائے گاکہ اس موہوم سی اُمید [یعنی جمہوریت کے احیا]کا چراغ بجھانابہت ہی مشکل ہوگا۔اس [نام نہاد] فوجی انقلاب کے چھے برس بعد بھی بہت سے مصری شہری، موجودہ حکومت کو ایک مسلسل غیرقانونی اور ناجائز حکومت تصورکرتے ہیں۔اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ السیسی حکومت جس کاطرۂ امتیاز انسانیت دشمنی ہے، اس نے سابق صدر[ محمد مرسی]کی تدفین بھی کھلے عام نہیں ہونے دی، بلکہ جلدبازی، بدحواسی اور بوکھلاہٹ میں سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی ان کی میت کو دفن کردیا،جب کہ مرسی کے خاندان کے محض [آٹھ] افراد کو تدفین میںشرکت کی اجازت دی۔(الجزیرہ،۲۴جون ۲۰۱۹ء)

مرسی کا سفرِشہادت

محمد مرسی، نیل ڈیلٹا میں واقع شمالی مصر کے ایک چھوٹے سے گائوں ’العدوہ‘ میں ۲۰؍اگست ۱۹۵۱ء کو پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک دین دار متوسط درجے کے کاشت کار تھے۔ ابتدائی تعلیم گائوں کے قریبی علاقے میں حاصل کی اور آمدورفت کی مشکلات اور اسکول دُوردراز ہونے کے باعث گدھے پر بیٹھ کر جاتے تھے۔ اعلیٰ تعلیم قاہرہ یونی ورسٹی کے شعبہ میٹلرجیکل انجینئرنگ سے حاصل کی۔ بی ایس سی اور ایم ایس سی کے امتحانات امتیازی شان سے پاس کیے۔ سرکاری وظیفہ حاصل کیا اور امریکا کی یونی ورسٹی آف سائوتھ کیرولائنا سے میٹریل سائنسز میں پی ایچ ڈی کی سند ِفضیلت حاصل کی۔ چندسال امریکا ہی کے تعلیمی اداروں میں تدریسی خدمات انجام دیں۔ امریکا جانے سے پہلے فوجی تربیت بھی حاصل کی اور مصر واپس آکر زقازیق (Zagazig) یونی ورسٹی میں بطور پروفیسر خدمات انجام دینے لگے۔ اعلیٰ تعلیم کے دوران مصر ہی میں اخوان المسلمون کی دعوت و تحریک سے متاثر ہوئے اور رکنیت اختیار کی۔ امریکا میں قیام کے دوران وہاں پر بھی دعوتِ دین اور خدمت ِ خلق کے کاموں میں مصروف رہے۔
مصر واپس آنے کے بعد ۲۰۰۰ء میں آزاد نمایندے کے طور پر پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے اور بحیثیت رکن پارلیمنٹ اچھی شہرت حاصل کی۔ سابق مصری آمر حسنی مبارک کے دور میں دوبار  جیل بھی گئے۔ اخوان کے مرکزی پالیسی ساز ادارے مکتب الارشاد کے رکن رہے۔ ۲۰۰۷ء میں  نئی سیاسی حکمت عملی مرتب کرنے والی کمیٹی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جب ۲۰۱۱ء میں ’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ قائم ہوئی، تو اس کے صدر منتخب ہوئے۔ آپ ۲۰۱۲ء کے صدارتی انتخاب میں متبادل صدارتی اُمیدوار تھے، لیکن جب الیکشن کمیشن نے ’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ کے صدارتی اُمیدوار محمدخیرت سعدالشاطر کو نااہل قراردے دیا، تو ڈاکٹر محمدمرسی صدارتی اُمیدوار کے طور پر سامنے آئے، جو دوسرے رائونڈ میں ۵۱ء۷۳ فی صد ووٹ لے کر حسنی مبارک کے دور میں وزیراعظم اور ایئرفورس کے سابق سربراہ احمد شقیق کے مقابلے میں کامیاب ہوئے۔ 
۳۰جون ۲۰۱۲ءکو صدارتی حلف لے کر ذمہ داری سنبھالی۔ ایک ہی سال بعد ۳۰جولائی ۲۰۱۳ء کو فوجی سربراہ اور وزیردفاع جنرل السیسی نے اقتدار پر قبضہ کرکے، چار ماہ تک ان کو نامعلوم مقام پر قید تنہائی میں رکھا۔ پھر ان پر متعدد مقدمات قائم کر کے مصر کی بدنام ترین ’الطرۃ جیل‘ میں بھی قیدتنہائی میں ڈال دیا۔ان بے سروپا مقدمات میں، قومی رازوں کے افشا، اہرامِ مصر کی مبینہ فروخت، اور بکریوں کی چوری تک کے مضحکہ خیز الزامات لگاکر دسیوں بار موت اور عمرقید کی سزائوں کا مطالبہ کردیا۔ صدرمرسی کو (جو شہادت کے وقت تک قانونی طور پر مصر کے صدر تھے) لوہے کے ایک پنجرے میں بند رکھا گیا، جس میں وہ دن رات ۲۴گھنٹے محبوس رہتے تھے۔ جسمانی تشدد کے علاوہ خوراک، ادویہ اور علاج کی سہولتوں سے انھیں محروم رکھا گیا۔ اس طرح  ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک ایسے شخص کو، جو ذیابیطس، گردوں، اور بلڈپریشر کا مریض تھا، موت کے منہ میں دھکیلنے کی مذموم حرکت کی۔ 
الحمدللہ، ڈاکٹر محمد مرسی نے یونی ورسٹی کی تعلیم کے دوران قرآن حفظ کرلیا تھا، اور یہ نُور چالیس سے زیادہ برسوں تک ان کے سینے میں امانت رہا۔ لیکن مصر کے ظالم حکمرانوں اور جیل کے عملے کا حال یہ تھا کہ رمضان میں ڈاکٹر محمدمرسی نے قرآن پاک کا نسخہ ہاتھ میں پکڑنے، چھونے اور آنکھوں سے لگانے کے لیے مانگا تو اس سے بھی انکار کر دیا گیا۔چھے سال کی قید کے دوران میں انھیں صرف تین بار اہلِ خانہ سے (اہلیہ اور بچوں) اور دوبار وکیل سے ملنے دیا گیا، حتیٰ کہ جب وہ عدالت میں لائے جاتے تھے، تو اس وقت بھی وہ اپنے اہلِ خانہ یا وکیل سے نہیں مل سکتے تھے۔ ۱۷جون ۲۰۱۹ء کو وہ ایک پنجرے میں بند تھے اور دوسرے بڑے پنجرے میں اخوان کے دوسرے زعما بند تھے۔ جب ڈاکٹر محمد مرسی بے ہوش ہوکر گرے، تو وہ ۳۰ سے ۴۰منٹ تک زمین پر پڑے رہے۔ اخوان کے دوسرے زعما جو دوسرے پنجرے میں تھے، ان میں پانچ ڈاکٹر بھی تھے جو چیخ چیخ کر کہتے رہے کہ: ’’ہمیں ڈاکٹر مرسی کو دیکھنے دیا جائے‘‘ مگر ظالم جج اور جیل عملے کے ارکان ٹس سے مَس نہ ہوئے۔ ہسپتال لے جانے اور بے ہوش ہو کر گرنے میں ۴۰منٹ کا فاصلہ ہے، جس میں وہ اللہ کو پیارے ہوگئے: اِنَّـا لِلہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ۔
ہسپتال میں ان کی موت کے تعین کی رپورٹ تک نہیں تیار کی گئی، اور صرف یہ کہا گیا: ’’ان کی موت دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی ہے‘‘۔ حالانکہ ہارٹ اٹیک کی ان کی کوئی ہسٹری نہ تھی۔ ڈاکٹر مرسی کو ذیابیطس اور گردوں کے امراض تو تھے، مگر دل کی تکلیف کبھی نہیں ہوئی تھی۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل ہدف، ان کو علاج سے محروم رکھ کر موت کی طرف دھکیلنا تھا۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹر مرسی شہید کے صاحبزادے نے بجاطور پر حکومت پر ان کو ارادے سے قتل کرنے کا الزام لگایا ہے۔ پھر دوسرے تمام اداروں بشمول اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کے نمایندے، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور برطانوی ارکان پارلیمنٹ اور وکلا کے وفد نے (جو ایک سال پہلے مارچ ۲۰۱۸ء میں محمدمرسی کو دیکھنے مصر گیا تھا،اور جسے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی) تمام ضروری تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ: ’’ان کو علاج کی ضروری سہولتوں، غذا اور جسمانی راحت سے محروم رکھنے کا جو رویہ اختیار کیا گیا ہے، وہ اگر ایک طرف تشدد (torture ) کی حدود کو چھورہا ہے تو دوسری طرف ان کو موت کی طرف دھکیل رہا ہے‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ صدر طیب اردوغان اور پاکستان سینیٹ نے بھی مطالبہ کیا ہے کہ: ’’ان کی شہادت کے حالات کی آزاد ذرائع سے بلاتاخیر تحقیق ہونی چاہیے‘‘۔ شہید محمد مرسی کے صاحبزادے نے تو الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے، جنرل سیسی، تین ججوں، ایڈووکیٹ جنرل اور چند دوسرے افراد کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔

عالمی ضمیر کی گواہی

ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ یہاں چند اداروں اور ان کے ذمہ دار حضرات کے مطالبے کو اپنی اس تحریر کا حصہ بنا لیں، جو الجزیرہ ٹی وی نے اپنی ۱۹جون سے لے کر ۲۳جون کی نشریات میں اُٹھائے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نمایندے ریوپرٹ کول ولے نے ڈاکٹر مرسی کے اہلِ خانہ، وکلا اور دوسرے افراد کی طرف سے اُٹھائے گئے سوالوں اور سرکاری رویے کی روشنی میں مطالبہ کیا ہے کہ اس پورے معاملے میں آزادانہ اور غیر جانب دارانہ تحقیق ضروری ہے:

ان کی موت کے حالات اوروجوہ کاتعین کرنے کے لیے ایک ایسے عدالتی یاکسی دیگر مجازادارے سے تحقیق کرائی جائے جوحراستی مجازادارے کے اثرسے آزاد ہو، اور  اسے فوری،غیرجانب دار اورمؤثر تفتیش کرنے کااختیارحاصل ہو۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ (HRW)کی شرقِ اوسط کی ڈائرکٹر سارہ لیہہ وہیٹ سن نے کہا ہے کہ: ’مرسی کی موت ایک اندوہناک مگر مکمل طور پر قابلِ فہم واقعہ ہے، جو نتیجہ ہے حکومت کا ان کو طبی سہولتیں نہ دینے کا‘۔ ’الجزیرہ‘ کے مطابق سارہ لیہہ کا موقف ہے:

ہم گذشتہ کئی برس سے جس امر کااظہار کرتے رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ: ’وہ [مرسی] انتہائی بدترین حالات کاشکاررہے ہیں۔جب بھی وہ جج کے رُوبرو پیش ہوتے،وہ ذاتی حیثیت سے طبی نگہداشت اورعلاج کے حوالے سے درخواست کرتے‘۔

انھیں مناسب خوراک اورادویات سے محروم رکھاجاتارہا۔مصری [فوجی]حکومت کو  ان کی گرتی ہوئی صحت کے متعلق مسلسل باخبر رکھا جاتارہا۔ان کاوزن بہت زیادہ کم ہوگیاتھا اور وہ متعدددفعہ عدالت میں بھی بے ہوش ہوکر گرتے رہے۔
انھیں قیدتنہائی میں رکھاگیا،جہاں انھیں ٹیلی ویژن،ای میل یاپھرکسی دیگرذرائع ابلاغ تک رسائی حاصل نہیں تھی، کہ وہ اپنے دوستوں یاخاندان سے رابطہ کرسکتے۔ وٹسن نے اس بناپر یہ موقف پیش کیا کہ: ’مرسی کی موت کے متعلق کوئی بھی قابل اعتبار آزادانہ تفتیش نہیں ہوگی،کیونکہ ان [مصری حکومت] کاکام اورکرداریہ ہے کہ کسی بھی غلط کاری سے خودکوبری قراردے دیں‘۔ (الجزیرہ، ۱۹جون ۲۰۱۹ء)

ایک بڑی اہم گواہی برطانیہ کے ’انڈی پنڈنٹ ڈی ٹنشن ریویو پینل‘ کی ہے، جس کے سربراہ سر کرسپین بلنٹ ہیں۔ اس پینل میں برطانوی پارلیمنٹ کے تین ارکان اور دو آزاد وکلا تھے، جو    مارچ ۲۰۱۸ء میں مصر گئے تاکہ ڈاکٹر مرسی کی صحت اور طبی سہولتوں کا جائزہ لیں۔ مگر انھیں ڈاکٹر محمدمرسی سے ملنے نہیں دیا گیا۔ آزاد ذرائع سے جو معلومات اس وفد نے حاصل کیں، ان کی بنیاد پر انھوں نے اپنی شدید تشویش کا اظہار کیا۔طبی سہولتوں کے فقدان، غذا اور دوسری تمام محرومیوں کی بنا پر صاف الفاظ میں ’قبل از وقت موت‘ (premature death) کے اندیشے کا اظہار کیا اور عالمی راے عامہ کو  خبردار کرنے کے لیے آواز بلند کی ۔ مرسی کی شہادت پر سر کرسپین بلنٹ نے بھی مطالبہ کیا ہے:
مصری حکومت کایہ فرض ہے کہ: ’’وہ ان کی بدقسمت موت کاسبب بتائے اورحراست کے دوران ان کے ساتھ کیے گئے سلوک کی مناسب جواب دہی ہونی چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جنھوںنے ان کے ساتھ بدترین سلوک کیا،نہ صرف وہ قابلِ تعزیرہیں بلکہ وہ لوگ بھی سزاکے مستوجب ہیں جنھوںنے اس سازش میںحصہ لیا‘‘۔انھوںنے ایک بیان میںکہا:’’اس صورت کی تلافی کے لیے اس وقت جو قدم ضروری ہے وہ یہ کہ اس کی آزادانہ عالمی تحقیق کی جائے‘‘۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل (AI)نے بھی یہی مطالبہ کیا ہے:

ہم مصری حکام سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ قیدتنہائی اوربیرونی دنیاسے عدم رابطہ سمیت ان کی موت کے حالات کی ایک غیرجانب داراورشفاف تحقیق کرائی جائے ۔

لندن سے انسانی حقوق کی ایک تنظیم نے کہا:

’مصری حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیاگیاکہ مرسی کو فراہم کردہ طبی امدادکی بھی تحقیق کرائی جائے اور جو کوئی بھی ان سے بدسلوکی کا ذمہ دار پایاجائے،اسے سزادی جائے‘۔
ترکی کے صدر طیب اردوغان اور پاکستان کی سینیٹ نے بھی اپنی متفقہ قرارداد میں آزاد تحقیق اور مجرموں کو قرار واقعی سزا کا مطالبہ کیا ہے۔خود ڈاکٹر محمد مرسی نے اپنے انتقال سے قبل عدالت کو مخاطب کر کے اپنے ساتھ اس ظالمانہ رویے کی شکایت کی تھی، مگر عدالت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

مرسی کے آخری کلمات

جج صاحب! مجھے کچھ بولنے کی اجازت دیں۔ مجھے قتل کیا جارہا ہے، میری صحت بہت خراب ہے۔ ایک ہفتے کے دوران میں دو دفعہ بے ہوش ہوا، لیکن مجھے کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جایا گیا۔ میرے سینے میں راز ہیں، جنھیں اگر ظاہر کروں، میں جیل سے تو چھوٹ جائوں گا، لیکن میرے وطن میں ایک طوفان آجائے گا۔ ملک کو نقصان سے بچانے کے لیے میں ان رازوں سے پردہ نہیں ہٹا رہا۔ میرے وکیل کو مقدمے کے بارے میں کچھ پتا نہیں اور نہ مجھے پتا ہے کہ عدالت میں کیا چل رہا ہے؟
۳۵سیکنڈ کی اس گفتگو کے بعد سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پڑپوتے الشریف قتادہ بن ادریس کا یہ مشہور زمانہ شعر پڑھا اور بے ہوش ہوکر گرگئے:

بِلَادِی وَ اِنْ جَارَتْ عَلَیً عَزِیْزَۃٌ                    وَاَھْلِی و  اِنْ     ضَنَوا عَلَیً کِرَامُ

میرا وطن مجھے عزیز ہے، اگرچہ وہ مجھ پر ظلم کرے۔ اور میرا خاندان قابلِ احترام ہے اگرچہ وہ میرے ساتھ کنجوسی سے پیش آئے۔
مصر کی حکومت نے ڈاکٹر مرسی اور خاندان کی خواہش کے مطابق انھیں ان کے آبائی قبرستان میں دفن کیے جانے کی اجازت نہیں دی۔ عام جنازہ بھی نہ کرنے دیا۔ صرف ان کی اہلیہ، دوبیٹوں اور بھائیوں پر مشتمل صرف آٹھ افراد نے جیل کی مسجد میں نمازِ جنازہ ادا کی اور قاہرہ کے اس قبرستان میں خاموشی سے دفن کر دیا گیا، جہاں اخوان کے دو سابقہ مرشدعام ابدی نیند سو رہے ہیں۔
ڈاکٹر محمد مرسی سے میرا قریبی تعلق نہیں رہا۔ ایک بار ان سے امریکا میں ۱۹۸۰ء کے عشرے میں ملاقات ہوئی، اور دوسری اور آخری بار مارچ ۲۰۱۳ء اسلام آباد میں، جب وہ پاکستان کے سرکاری دورے پر تشریف لائے۔ اس وقت امیرجماعت اسلامی پاکستان، برادر عزیز و محترم سیّد منورحسن کی سربراہی میں جماعت کے وفد نے ان سے ملاقات کی۔ ان کی طبیعت بڑی سادہ اور اندازِگفتگو بڑا دوستانہ اور حکیمانہ تھا۔ تحریکی مسائل پر بہت جچی تلی بات کرتے تھے اور اپنی بات دلیل سے پیش کرتے تھے۔ 
اخوان نے ۲۰۰۷ء میں اپنی نئی سیاسی حکمت عملی بنانے کے لیے جو کمیٹی بنائی تھی، ڈاکٹر مرسی اس کے ایک اہم رکن تھے اور میرے علم کی حد تک ابتدائی ڈرافٹ انھی نے تیار کیا تھا۔ مجھے بھی اس مسودے کو دیکھنے کا موقع ملا اور جسے میں نے ایک بہت ہی مثبت اور وقت کی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش سمجھا۔ بعد میں ’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ کا قیام اسی کمیٹی کی تجویز کا حاصل تھا۔ اسلام آباد کی نشست میں انھوں نے ہم سے بہت کھل کر بات کی اور ان سے بات کرکے حالات سمجھنے میں مدد ملی۔ ہمیں یقین ہوگیا کہ اصل اختیار و اقتدار کہیں اور ہے۔ اس لیے اخوان کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑرہا ہے اور وہ تصادم سے بچتے ہوئے آہستہ آہستہ اختیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 
فلسطین کے بارے میں مرسی حکومت نے جو واضح موقف اختیار کیا تھا، اس پر ہم نے انھیں مبارک باد دی اور میں نے خصوصیت سے کشمیر کے مسئلے پر ان کو کردار ادا کرنے کی دعوت دی، جس پر انھوں نے کہا کہ: ’’ہم ضرور اپنا فرض ادا کریں گے‘‘ اور مجھ سے کہا کہ: ’’ایک نوٹ میرے لیے تیار کردیں، جس میں واضح ہو کہ مصر کیا کرسکتا ہے؟‘‘ میں نے دو ہفتے میں وہ نوٹ بنا کر ان کو بھیج دیا، لیکن بدقسمتی سے اس ملاقات کے تین مہینے کے اندر ہی ان کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا۔

صدر مرسی کا دورِ حکومت و خدمات

ڈاکٹر محمد مرسی اور ان کے ساتھیوں نے جو کارنامہ ایک سال کے مختصر وقت میں انجام دیا،  وہ غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ افسوس ہے کہ اس کا ادراک پاکستان میں اور پاکستان سے باہر کی دنیا کو نہیں۔ امریکا، مغربی میڈیا، عرب میڈیا اور خصوصاً فوجی حکومت نے جو غلط فہمیاں پھیلائی ہیں، اور غلط بیانیاں کی ہیں، ان کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت حالات کو قابو نہ کرسکی۔ جن حالات میں ڈاکٹر مرسی اور ان کے ساتھیوں نے زمامِ کار سنبھالی اور جن اندرونی اور بیرونی قوتوں سے ان کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، انھیں دیکھا جائے تو میں دیانت داری سے سمجھتا ہوں کہ ان کا ایک سال ہراعتبار سے کامیاب اور نئی منزل کی طرف لے جانے کی معتبر کوشش تھی۔
سب سے پہلی بات یہ سامنے رہنی چاہیے کہ اخوان اپنی زندگی کے ۹۱ سالوں میں سے کم از کم ۸۰سال کش مکش اور ابتلا کاشکار اور حکومت اور سامراجی قوتوں کا ہدف رہے ہیں۔ اس کش مکش کا آغاز دوسری عالمی جنگ کے دوران، فلسطین میں برطانوی سامراجی چالوں اور صہیونی قوتوں کے خطرناک کھیل کی وجہ سے ہوا۔ اخوان نے نہرسویز پر برطانوی قبضے، اور فلسطین کی سرزمین پر اسرائیلی بستیوں کو بسانے اور اسرائیل کے قیام کی سازشوں کی مخالفت اور مزاحمت کی، اور یہیں سے برطانیہ، صہیونیت اور مصری حکومت سے اخوان کی ہمہ پہلو کش مکش کا آغاز ہوا۔ 
امام حسن البنا کو ۱۲فروری ۱۹۴۹ء کو شہید کیا گیا اور شاہ فاروق کی حکومت نے ان کے جنازے تک کی اجازت نہیں دی۔ بالکل وہی منظر تھا، جو ڈاکٹر مرسی کی شہادت کے موقعے پر بھی دیکھنے میں آیا۔ لیکن اخوان نے بڑے صبروتحمل سے اس آزمایش کو برداشت کیا۔ پھر جمال ناصر پر حملے کا   ڈراما رچا کر ہائی کورٹ کے سابق جج عبدالقادر عودہ اور مجاہد اعظم شیخ محمدفرغلی سمیت اخوان کے چھے قائدین کو پھانسی کی سزا دی گئی۔ اخوان کے ہزاروں کارکنوں، مرد و خواتین کو جیلوں میں ایسی صعوبتوں کا نشانہ بنایا گیا، جن کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ 
۱۹۴۹ء سے لے کر ۲۰۱۱ء تک اخوان پر مظالم اور پابندیوں کی المناک تاریخ ہے۔ یہ ایک کرشمۂ قدرت ہے کہ اتنی مخالفت، اتنی تعذیب، اتنے پروپیگنڈے اور سیاسی دہشت گردی کا مسلسل نشانہ بننے کے باوجود تحریک نہ صرف زندہ رہی بلکہ دعوت، تربیت، خدمت اور بالآخر سیاسی اثرورسوخ میں بھی ہر میدان میں نئی بلندیوں کی طرف سفر کرتی رہی۔ اس پورے زمانے میں فوج، پولیس، عدلیہ، انتظامی مشینری، روایتی مذہبی قیادت اور ادارے بشمول الازہریونی ورسٹی، میڈیا اور مفاد پرست اشرافیہ اخوان کے خلاف صف آرا رہے۔ 
اس پس منظر میں ڈاکٹر مرسی کا صدارتی انتخاب میں کامیاب ہونا اور پارلیمنٹ میں ’فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی‘ کی اکثریت کا حصول، جہاں ایک بہت بڑا سیاسی کارنامہ ہے، وہیں یہ مخالف قوتوں کے لیے ایک چیلنج اور اشتعال دلانے والے سرخ رومال کی حیثیت اختیار کر گیا۔ مرسی صاحب کے ۵۲فی صد کے مقابلے میں ۴۸ فی صد ووٹ لینے والی قوتوں نے اپنی شکست قبول نہیں کی تھی۔ ان کی ساری کوشش مرسی حکومت کو ناکام بنانے پر مرکوز ہوگئی۔ فوج، پولیس، عدلیہ اور انتظامیہ   سب نے مل کر اخوان کے خلاف محاذ بنالیا۔ ڈاکٹر مرسی کے صدارت کی ذمہ داری اختیار کرنے سے پہلے ہی فوجی کونسل نے صدر کے تمام اختیارات قومی کونسل کو سونپ دیے۔ عدالت نے بھی انتظامیہ کے اختیارات پر شب خون مارا۔ منتخب پارلیمنٹ کو عدالت کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔ مرسی صاحب کو پارلیمنٹ میں حلف تک لینے سے روک دیا گیا۔ اس لیے انھوں نے حلف بھی تحریر اسکوائر پر لیا۔ 
جب محمد مرسی صدرمنتخب ہوئے تو اس وقت فوج کے ۷۸سالہ سربراہ جنرل محمد حسین طنطاوی ۱۵سال کی توسیع ملازمت لے چکے تھے، اور مزید کے لیے سازشیں کر رہے تھے۔ جنرل طنطاوی کو ہٹا کر صدر مرسی نے جنرل عبدالسیسی کو ۱۲؍اگست ۲۰۱۲ء کو مصری فوج کا سربراہ مقرر کیا۔
صدر ڈاکٹر محمد مرسی نے پہلا کام یہ کیا کہ اسلام سے وفاداری کو( جو دستور کا حصہ تھا) اور مصر کی خودانحصاری اور آزادی کو اپنی اوّلین ترجیح قرار دیا۔ سادگی کو عملاً اختیار کیا۔ پہلے دن سے صدرمملکت اور ان کی پوری ٹیم نے سرکاری پروٹوکول کو ترک کرکے عوام کے ساتھ برابری کا رویہ اختیار کیا۔ صدرمرسی کی بہن شدید بیمار تھیں، لیکن ان کو علاج کے لیے باہر نہیں بھیجا، اور قاہرہ ہی کے ہسپتال میں زیرعلاج رہیں جہاں ان کا انتقال ہوگیا۔ صدر مرسی نے مقتدر طبقات کے امتیازی اختیارات کو کم کرنے کی کوشش کی، جس پر انھیں قدم قدم پر مزاحمت کا سامنا کرناپڑا۔ صرف یہی نہیں بلکہ مفادپرست عناصر نے ماضی میں حکمرانی کا فائدہ اُٹھانے والے، نیز لبرل اور سیکولر حلقوں کو اسلام کا ہوّا دکھا کر  مرسی حکومت کے خلاف صف آرا کرنے کے لیے سارے وسائل لگادیے۔ صدافسوس کہ اس میں روایتی مذہبی عناصر، اور سلفی تحریک کی قیادت بھی شامل ہوگئی۔

مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے کوششیں

صدرمرسی کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ غزہ اور مغربی فلسطین پر جو پابندیاں مصر کی حکومت نے لگائی ہوئی تھیں اور رفح کی جو سرحد بند کی ہوئی تھی، اسے فوراً کھول دیا۔ حماس پر اسرائیل نے جو زندگی تنگ کی ہوئی تھی، اس کی تلافی کے لیے مؤثر اقدام کیے اور فلسطین کے مسئلے کو مصر کی اوّلین ترجیح قرار دیا، حتیٰ کہ ستمبر ۲۰۱۲ء میں صدر مرسی نے اقوامِ متحدہ میں جو خطاب کیا اس میں سب سے پہلے اور نہایت جان دار الفاظ میں مسئلہ فلسطین کو پیش کیا۔ اس کے حل کا مطالبہ اور اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کے خلاف اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا۔ 
واضح رہے کہ تصادم سے بچنے کے لیے مرسی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اس امر کا بھی اعلان کردیا تھا کہ مصر کے ماضی میں کیے گئے تمام عالمی معاہدات کا احترام کیا جائے گا۔ حماس کی حمایت کی وجہ سے اسرائیل اور مصر نے غزہ کے عوام پر زندگی تنگ کردی تھی، صدرمرسی نے انھیں  اس عذاب سے فوری نجات دلائی اور نقل و حرکت اور تجارت کی راہیں ہموار اور کشادہ کیں۔ القدس اور فلسطین پر اسرائیلی قبضے اور فلسطین کے حق خود ارادیت کے حصول کی جدوجہد کی کھل کر تائید و حمایت کی، جو مصر کے سابق صدر انوارالسادات اور صدر حسنی مبارک کی حکومتوں کی شرم ناک اسرائیل نواز چالوں کے برعکس ۱۰۰ فی صد معکوس تبدیلی (reversal) تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے برملا کہا کہ: ’’ہم نے مرسی حکومت سے معاملہ طے کرنے اور سابقہ مصری حکومت سے جو بندوبست کیا ہوا تھا، اس پر تعاون کے لیے ہرکوشش کی، لیکن مقبوضہ علاقوں کے بارے میں کسی انتظام پر مرسی حکومت تیار نہ ہوئی اور پھر ہماری ساری کوشش اس حکومت سے نجات پر مرکوز ہوگئی‘‘۔ یہی کوشش روس، امریکا اور یورپی ممالک کی تھی اور بدقسمتی سے یہی رویہ خود مشرق وسطیٰ کے کئی عرب ممالک نے اختیار کیا۔ حتیٰ کہ مرسی حکومت کے خلاف بغاوت کی مالی اعانت اور پشت پناہی کے لیے چندعرب ممالک نے مصر کے غاصب حکمران، جنرل سیسی کی حوصلہ افزائی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ 
یہ تھے وہ حالات، جن میں مرسی حکومت نے ایک سال اور تین دن گزارے، اور وہ بھی اس طرح کہ ان عناصر نے نیا دستور بننے میں رکاوٹیں کھڑی کیں، عدلیہ نے قدم قدم پر رکاوٹیں ڈالیں، اور عسکری قوتوں نے سول حکومت کو غیرمؤثر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پھر نام نہاد عوامی بغاوت کے تانے بانے بُنے گئے اور وہ سب عناصر جو ماضی کی حکومتوں سے فائدہ اُٹھاتے رہے یا جو نظریاتی طور پر اسلامی قوتوں کے مخالف تھے، سب کو مرسی حکومت کے خلاف صف آرا کیا گیا۔ ان تمام حالات میں حکومت کا  ایک سال چلنا بھی ایک بڑی کامیابی تھی۔ مخالفت کے اس پورے طوفان اور میڈیا کی یلغار کے باوجود یہ بھی ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ مرسی حکومت کو عوام کی اکثریت کی تائید حاصل تھی۔ جس کا اعتراف ۱۸جون ۲۰۱۹ء کو الجزیرہ ٹی وی پہ نشر کیے جانے والے تعزیتی (obituary) پروگرام میں ان الفاظ میں کیا گیا:’’محمدمرسی کا ایوانِ صدارت میں جو وقت گزرا، اس میں ان کی شہرت اور عزت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی، اور ان کے لیے عوامی پسندیدگی کا اشاریہ ۶۰ اور ۵۵ فی صد کے درمیان رہا‘‘۔
واضح رہے کہ اس ایک سال میں دو بار فوجی بغاوت کی کوشش کی گئی، لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکیں۔ البتہ ۳جولائی ۲۰۱۳ء کو فوج اور نام نہاد عوامی مظاہروں کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا اور پھر ۱۴؍اگست ۲۰۱۳ء کو صدرمرسی کی تائید اور فوجی اقتدار کے خلاف جو عظیم عوامی مظاہرہ ہو رہا تھا، اس کے شرکا کو خود کار رائفلوں کی فائرنگ سے بھون ڈالا گیا اور فوجی گاڑیوں تلے کچل دیا گیا۔ اخوان نے ۲۶۰۰ سے زائد شہدا کی فہرست جاری کی۔ ہزاروں زخمی علاج معالجے کے لیے ترستے رہے۔یوں جنرل سیسی نے اقتدار اپنی مٹھی میں لے کر ایک آمرانہ دستور ملک پر مسلط کردیا، اور اب جنرل سیسی کو ۲۰۳۰ء تک صدر رکھنے کا ڈراما رچایا گیا ہے۔

مرسی صاحب کے مخالفین کا انجام

یہ سب اپنی جگہ، مگر قدرت کے انتقام کا بھی اپنا ہی نظام ہے۔ بہت سے سیکولر اور جمہوریت پسند عناصر جو اخوان دشمنی میں فوجی سازشوں کے آلہ کار بنے اور جنھوں نے۳جولائی ۲۰۱۳ء کی فوجی مداخلت کی راہ ہموار کی، وہ خود بھی بہت جلد حکومت کی دست درازیوں کا نشانہ بن گئے۔   ان کی ایک بڑی تعداد داخلِ زندان کی گئی اور اخوان کے قیدیوں کے ساتھ اب وہ بھی جنرل السیسی کے قیدی ہیں۔ نیز ان میں سے بھی ایک بڑی تعداد اخوانیوں کی طرح ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئی اور ان میں سے کچھ آج صدر ڈاکٹر مرسی کی شہادت پر افسوس کا اظہار کررہے ہیں۔
ایمن نُور جو غیراخوانی حزبِ اختلاف کے قائدہیں، انھوں نے بیرونِ مصر سے کہا ہے: 

مرسی بلاشبہہ شہید ہوئے اور انھیں سوچ سمجھ کر مارا گیا ہے… میں اپنی اوردنیاکے تمام آزاد لوگوں کی طرف سے آزادی کے راستے کے ایک عظیم معمار (great striver)کی موت پرغم ودکھ کااظہارکرتاہوں۔(الجزیرہ، ۱۹جون ۲۰۱۹ء)

صدرمحمد مرسی کی ایک سخت ناقدمونا الطحاوی اپنے مضمون میں لکھتی ہیں:

یہ ہے وہ کچھ جوعبدالفتاح السیسی نے حاصل کیا۔جولائی۲۰۱۳ء سے (جب مرسی کی حکومت کاتختہ اُلٹاگیا،اور) جنوری۲۰۱۶ء (جب مصری پارلیمان بحال ہوئی) کے دوران ۱۶ہزار سے ۴۱ہزار کے درمیان لوگ گرفتار کیے گئے، جن میں سے زیادہ تر اب کالعدم اخوان المسلمون کے حامی تھے۔ البتہ اطلاعات کے مطابق ان میں ایک تعداد ان افراد کی بھی ہے، جو لبرل اور سیکولر (اور اخوان مخالف تحریک میں) سرگرم تھے۔ اس کے بعد سے سزاے موت کے اعلانات کی تکرار ہے، جس پر عمل ہورہا ہے۔ غیرقانونی اور غیرعدالتی اغوا اور قتل اس کے علاوہ ہیں۔ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی کوشش کا نتیجہ ہے، جس سے معاشرے میں اختلاف راے کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔ ایک طرف اخوان کو صفحۂ ہستی ہی سے مٹانے کا اہتمام ہورہا ہے، دوسری طرف ہر شکل میں، ہراختلافی راے اور ہرمدمقابل قوت کو دبانے پر بھی توجہ مرکوز ہے۔(دی نیویارک ٹائمز، ۱۸جون ۲۰۱۹ء)

مگر اب اظہارِ حقیقت کرنے کا فائدہ؟  ع

صبح دَم کوئی اگر بالاسے بام آیا تو کیا

مختصر یہ کہ جو عناصر اخوان المسلمون کے خلاف میدان میں لائے گئے تھے، خود وہ بھی موجودہ فوجی استبدادی حکومت کا نشانہ بن رہے ہیں اور اب اخوان اور ان کے مخالف سیکولر عناصر، دونوںمصری عقوبت خانوں میں یا مصر سے باہر مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
واضح رہے کہ صدر محمدمرسی کے زمانے میں کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا۔ ان سے پہلے صدر   حسنی مبارک کے دور میں جنھیں سیاسی بنیادوں پر قید کیا گیا تھا، صدر مرسی نے ان کے لیے بھی    جیل کے دروازے کھول دیے تھے، اس بات کا لحاظ کیے بغیر کہ ان کی سیاسی یا مذہبی وابستگی کیا ہے، اور یہ ان کے اوّلین اقدام میں سے ایک تھا۔

اخوان المسلمون کا ’جرم‘

اخوان کو جس ’جرم‘ کی سزا دی گئی ہے، وہ اسلامی اور جمہوری اقدار سے ان کی وفاداری اور ہرقیمت پر مصر کے دستور کو اسلام، جمہوریت اور اجتماعی فلاح کی بنیاد بنانے، منصفانہ سیاسی اور معاشی نظام کی تشکیل اور تمام ریاستی اداروں کو اپنی اپنی حدود میں رکھنے کی کوشش ہے۔ مصر کی قومی خودمختاری اور مسئلہ فلسطین کو انصاف، تاریخی اور زمینی حقائق، اور فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی بنیاد پر مستقل حل، اور فلسطینی سرزمین اور الاقصیٰ کو اسرائیلی قبضے سے نکالنے کے لیے پُرعزم ہونا اور ڈٹ جانا ہے۔ عرب اور اسلامی دنیا کے مسائل کا مل جل کر اور اپنے وسائل کے صحیح استعمال کے ذریعے حل اور دنیا میں ایک مبنی برانصاف معاشی نظام کا قیام ہے جس میں دولت چند ممالک اور چند ہاتھوں میں مرکوز نہ ہو اور وسائل تمام نسانوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے، غربت کو ختم کرنے اور سماجی فلاح کے لیے استعمال ہوں۔اس سلسلے میں صدرمحمد مرسی کی تقاریر بہت واضح ہیں اور ان تمام نکات کا جامع اور مؤثر استحضار ان کی اس یادگار تقریر میں موجود ہے، جو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ستمبر۲۰۱۲ء میں انھوں نے کی تھی (یہ تقریر یوٹیوب پر آج بھی سنی جاسکتی ہے)۔
صدر مرسی کی حکومت نے پہلے دن سے تہذیبوں، مذاہب اور ملکوں کے درمیان تصادم کے بجاے ایک دوسرے کے احترام کی بنیاد پر مکالمے اور بقاے باہمی کا تصور پیش کیا، اور عالمی سطح پر مسلمانوں اور اسلام کے خلاف جو فکری اور تہذیبی جنگ جاری ہے، اسے ختم کرنا اپنا ہدف قرار دیا۔  حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات اور اسلام کی تعلیمات پر جو رکیک حملے کیے جارہے ہیں، ان پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا، ناموسِ رسالت کے سلسلے میں مسلمانوں کے عالمی احتجاج کی مکمل تائید کی اور اقوامِ متحدہ میں برملا اعلان کیا کہ اگر دنیا ہمارے نبیؐ، ہمارے دین اور ہماری اقدار کا احترام نہیں کرے گی، تو ہم سے اپنی تہذیب و ثقافت کے احترام کی توقع نہ رکھے۔ سب کے لیے سلامتی اور آشتی کا راستہ ایک ہی ہے کہ ہم سب مل جل کر تمام انسانوں، تمام علاقوں اور تمام تہذیبوں کا برابری کی بنیاد پر احترام کریں۔ سب کی طرف سے اپنے اپنے موقف کی پیش کاری اور اختلاف، علمی حدود کے اندر ہو، اور کسی کو بھی نفرت کی آگ بھڑکانے اور دوسروں کی تحقیر اور انھیں مشتعل (provocation) کرنے کی کھلی چھٹی حاصل نہ ہو۔ قومی اور بین الاقوامی، ہردائرے کی کچھ اخلاقی حدود ہیں، جن کا احترام ضروری ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے عالمی امن اور تعاون پروان چڑھ سکتا ہے۔
عالمی استعماری قوتیں ہوں یا وہ قومی اور مقامی عناصر، جن کے مفادات پر مندرجہ بالا پالیسی کے خطوطِ کار سے ضرب پڑتی ہے، وہ اخوان اور دوسری اسلامی تحریکات کا راستہ روکنے میں اپنی بقا دیکھتے ہیں، اور ’سیاسی اسلام‘ ، ’اسلامی انتہاپسندی‘ اور ’اسلامی ٹیررازم‘ کے نام پر اسلام اور اسلامی تہذیب کو ہدف بنا رہے ہیں۔ یہی خطرناک کھیل ہے جو مصر میں کھیلتے ہوئے سمجھا جا رہا ہے، وہ یہ کہ محض قوت اور جبرکے ذریعے اسلام کی نظریاتی اور تہذیبی لہر کوروکا جاسکتا ہے۔ 
اخوان المسلمون محض ایک تنظیم نہیں ہے، بلکہ ایک تصور اور نظریہ، ایک پیغام اور نظامِ حیات ہے، جو ایک طرف انسان کو اپنے ربّ سے جوڑتا ہے، تو دوسری طرف ربّ کی دی ہوئی ہدایت کی روشنی میں پوری انسانی زندگی کی تشکیل، خیروفلاح، عدل و انصاف، حقوق کی پاس داری اور تعاون اور اخوت کی بنیادوں پر کرنا چاہتا ہے۔ افراد کو قیدوبند اور قتل و غارت گری کا نشانہ تو بنایا جاسکتا ہے، لیکن افکار اور نظریات کو تیروتفنگ اور جبرواستبداد سے ختم نہیں کیاجاسکتا۔ مصر میں اخوان کو گذشتہ ۸۰سال میں جس طرح ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا ہے، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس سارے ظلم و استبداد کے باوجود اخوان ایک قوت ہیں اوران شاء اللہ رہیں گے، اس لیے کہ:
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا ،جتنا کہ دبا دیں گے
حسن البنا، عبدالقادر عودہ، سیّد قطب اور محمد مرسی مر کر بھی زندہ ہیں اور ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والوں اور خود کو فراعنہ کے فرزند قرار دینے والوں کا نام و نشان باقی نہیں ہے۔ کوئی اسرائیل سے شکست کھا کر ندامت کی موت مرا، کوئی اپنے ہی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنا، اور کوئی جیل اور ہسپتال کے درمیان ایڑیاں رگڑتا رہا ہے: فَاعْتَبِرُوْا يٰٓاُولِي الْاَبْصَارِ (الحشر ۵۹:۲) ’’پس عبرت حاصل کرو اے دیدئہ بینا رکھنے والو!‘‘
قاہرہ میں روزنامہ لاس اینجلس ٹائمز کی نامہ نگار سلمہ اسلام،۲۴ جون ۲۰۱۹ء کو صدرمرسی کی وفات اور اخوان پر پابندی کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے قاہرہ کے ماحول کی عکاسی کرتی ہیں، جس میں جبرواستبداد کی گرفت ہے، اور وہ ماحول سب کو دعوتِ فکر دے رہا ہے:

قاہرہ کی گلیوں میں لوگ عام طور پر بے چین نظر آتے ہیں۔ اگر کسی سے سیاست بالخصوص حساس یا ممنوع موضوعات، یعنی اخوان المسلمون کے بارے میں راے لینے کی کوشش کی جائے تو جواب میں صرف بے چین نظریں دکھائی دیتی ہیں۔ وسطی قاہرہ میں سیّدہ زینب کے قرب میں، جب کوئی بھی فرد مرسی کی موت کے بارے میں اپنی راے دینے پر  راضی نہ ہوا تو ایک شخص نے جو بظاہر ۴۰برس کا لگتا تھا، دوٹوک انداز میں کہا: ’’ہم اس موضوع پر بات نہیں کرسکتے کیونکہ حکومت ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتی‘‘۔ 

اپوزیشن رہنما، مصر کے تیسرے صدر محمدانور السادات کے بھتیجے نے [مرسی کی شہادت پر]کہا: ’اگرچہ اخوان المسلمون، حکومت کی نظر میں یقینا ’دشمن نمبر۱‘ ہے، مگر تاریخ شاہد ہے کہ اخوان المسلمون ایک نظریہ ہے، اور نظریے کے طور پر یہ کبھی نہیں مرسکے گی‘۔
کلیرمونٹ کے اسکرپس کالج میں پولیٹیکل سائنس کی پروفیسر سومٹ پاہاوا کے تجزیے کا حاصل یہ ہے کہ :

مرسی کی موت کو اخوان المسلمون کی قیادت اپنے وجود کو ایک شہید کے طور پر  نئی زندگی بخشنے کے لیے استعمال کرے گی....اخوان کے رہنما یہ توقع رکھتے ہیں کہ مرسی کی موت مصری عوام کے دلوں میں زیادہ ہمدردی پیدا کرے گی۔ اس لیے بھی کہ عوام ۲۰۱۳ء کے مقابلے میں آج حکومتی دبائو کے نتیجے میں زیادہ بے حال ہیں اور روزانہ بڑھتی ہوئی معاشی بدحالی کا سامنا کررہے ہیں۔ ۲۰۱۳ء میں مرسی کی گرفتاری کے وقت اتنا زیادہ اشتعال نہیں تھا کہ جس کا اب مستقبل میں امکان ہے۔ (لاس اینجلس ٹائمز، ۲۴جون ۲۰۱۹ء)

امریکا کے مشہور صحافی اور کالم نگار ڈیوڈ ہرسٹ (David Hearst) نے وہاں کے جریدے Middle East Eye ( ۲۵جون۲۰۱۹ء) میں اخوان کے ایک مخالف اور سابق صدارتی اُمیدوار ایمن نُور کے حوالے سے لکھا ہے کہ:

مرسی کی موت جس طرح واقع ہوئی ہے، اس سے بڑے پیمانے پر حکومت تنقید کا نشانہ بن رہی ہے۔ دراصل مرسی کو چھے سال مسلسل ایک عمل کے ذریعے موت کے گھاٹ اُتارا گیا ہے(Killed slowly over six years)اور حکومت کو اس کی پوری ذمہ داری اُٹھانی پڑے گی اور جواب دہی کرنا ہوگی۔

مرسی حکومت پر تنقید کی حقیقت

پروفیسر عبداللہ الاریان الجزیرہ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون: ’محمد مرسی: ایک مصری المیہ‘ میں مرسی حکومت کی کمزوریوں پر گرفت کرنے کے ساتھ بڑے مؤثرانداز میں ان عوامل کی بھی نشان دہی کرتے ہیں، جن کا مرسی حکومت کو مقابلہ کرنا پڑا اور جو گمبھیر مسائل کسی بھی حکومت کے لیے ناقابلِ تسخیر تھے:
تاہم، جو چیز مرسی کے دورِ اقتدار کے ایک متزلزل سال میں ان کے سخت ترین ناقد سمجھنے میں ناکام ہوگئے، درحقیقت وہ تشکیلی ڈھانچے سے متعلق رکاوٹیں تھیں، جو مصر کے  ان انقلابیوں کی صفوں میں سے کسی بھی شخصیت کو ناکامی کی بدنصیبی سے دوچار کر دیتے۔
مرسی کے بدقسمت دورِ صدارت کے اکثر تنقیدی جائزوں میں سے اُن چند در چند  عوامل و عناصر کا ذکر غائب تھا، جو مصر کی انقلابی تحریک کو ناکامی سے دوچار کرنے کے لیے یکسو تھے (مثال کے طور:) سابقہ [حسنی مبارک کی آمرانہ] حکومت کے طاقت ور بیوروکریٹ جنھوں نے [مرسی کی] صدارتی پالیسیوں کو نافذ کرنے سے انکار کر دیا، محدود طبقے کی حکومت سے متعلقہ وہ لوگ کہ جنھوں نے عوامی بے اطمینانی کو بڑھاوا دینے کے لیے توانائی کی کمی کا مصنوعی بحران پیدا کیا، ایک ایسی سیاسی حزبِ مخالف جس نے جب دیکھا کہ وہ مرسی کو یا ان کی جماعت کو انتخابات میں شکست نہیں دے سکے، تو انھوں نے مریضانہ ذہنیت کے ساتھ تخریبی کردار ادا کرنا شروع کردیا، وہ غیرملکی حکومتیں کہ جنھوں نے جوابی [فوجی] انقلاب کی مالی مدد کی، اور بلاشبہہ مصر کی مسلح افواج۔ یہ سب، انقلابی تبدیلی کے عمل کے دوران زیادہ تر مسائل و مشکلات پیدا کرتے رہے۔
اس پس منظر میں کوئی بھی، یقینا مرسی کی قیادت کی غلطیوں کی نشان دہی کرسکتا ہے، کلیدی فیصلوں کا ان کی طرف سے مناسب طور پر لوگوں تک ابلاغ کا نہ ہونا، اور پھر  یہ عدم صلاحیت کہ وہ ایک وسیع تر انقلابی اتحاد نہ تشکیل دے سکے۔ تاہم، اس یلغار کے باوجود، اس بات کا کوئی امکان نہیں تھا کہ حزبِ مخالف کی کوئی بھی شخصیت کامیاب ہوسکتی۔
اس گفتگو سے چند باتیں بالکل واضح ہوجاتی ہیں:

  1. صدر مرسی اور ان کی حکومت کو جن حالات سے سابقہ تھا، وہ غیرمعمولی تھے اور اندرونی اور بیرونی مخالف قوتیں اور پورا نظام ان کے خلاف صف آرا تھا۔ انھوں نے بڑی حکمت اور محنت سے راستہ نکالنے کی کوشش کی، لیکن فوج،خفیہ ایجنسیاں، انتظامیہ، عدلیہ، مفادپرست اشرافیہ اور لبرل جمہوری اور سیکولر قوتوں کے گٹھ جوڑ اور بیرونی طاقتوںخصوصیت سے اسرائیل، امریکا اور چند عرب ممالک کی مشترکہ مزاحمت اور مخالفت نے صدرمرسی کی تعمیری اور پایدار کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا ۔ اس طرح مصر کی تاریخ کے ۹۱سال میں پہلی بار ایک حقیقی جمہوری انتخابی عمل کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت کا تختہ اُلٹ کر پھرفوجی آمریت کا نظام ملک پر مسلط کر دیا گیا۔
  2. اخوان کے لیے ایک سالہ اقتدار بلاشبہہ ایک نیا تجربہ تھا، مگر آمریت، فوجی حکمرانی، ریاستی جبر، قیدوبند، ظلم اور زیادتی کا نشانہ بننا ان کا پہلا تجربہ نہیں۔ وہ پہلے دن سے اور خصوصیت سے گذشتہ ۸۰برسوں سے انھی حالات سے گزر رہے تھے اور الحمدللہ، ہر دور میں اور ہرحال میں، ہرآزمایش میں وہ ثابت قدم رہے۔ انھوں نے قربانیوں اور استقامت کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کیں اور بیسویں اور اکیسویں صدی میں دعوتِ اسلامی اور اقامت ِ دین کی ہمہ گیر جدوجہد___ علمی، تربیتی ، اصلاحی، تعلیمی، سماجی، معاشی اور سیاسی، غرض ہر میدان میں خدمات انجام دی۔ پھر ہرقسم کے حالات میں اپنے لیے راستہ بنانے کی تابناک مثالیں قائم کیں۔ ہمیں یقین ہے اور یہی اللہ کا وعدہ ہے کہ جب اس کے بندے خلوص، دیانت، حکمت اور استقامت سے اس کی راہ میں جدوجہد کرتے ہیں تو اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، اس کے فرشتے شریکِ سفر بنتے ہیں اور بند دروازے کھلنے لگتے ہیں۔ اللہ رب العزت کا ارشاد اور تاریخ کی شہادت ہے کہ: اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللہُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا تَـتَنَزَّلُ عَلَيْہِمُ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ۝۳۰(حم السجدہ۴۱:۳۰) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے ، یقینا اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اُن سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہوجائو اُس جنّت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے‘‘۔
  3. اخوان المسلمون محض ایک سیاسی جماعت نہیں ہے، ایک دینی تحریک اور نظریاتی جماعت ہے، جو عقیدے، عبادت اور اخلاق و تزکیے سے لے کر انسان کی اجتماعی اور سیاسی زندگی کے ہرپہلو کو ایمان،اخلاق، حق اور انصاف کی بنیاد پر تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ ایسی نظریاتی تحریکات کو محض قوت اور جبر سے اور محض سیاسی انتقام اور تشدد اور عقوبت سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بات سیکولر نظریاتی تحریکوں کے بارے میں بھی سچ ہے، لیکن اس کی اعلیٰ ترین مثال عقیدہ، اخلاق اور دین پر مبنی تحریک اخوان المسلمون اس کی ایک روشن ترین مثال ہے۔ 

اخوان المسلمون کی جہدِ مسلسل

اخوان المسلمون کی قوت کا اصل سرچشمہ اللہ اور اس کے آخری رسولؐ پر ایمان ہے۔اللہ کی کتاب اور اس کے رسولؐ کی سنت اور طریقے کو زندگی کا شعار بنانا اس کا اصل مطلوب ہے۔ نفس کا تزکیہ اور اخلاق و کردار کی تعمیر اس کا اہم ترین ہتھیار ہے۔ خاندان اور معاشرے کی اصلاح اس کی طاقت کا سرچشمہ ہے۔ خدمت اور حق و انصاف اور زندگی کےسارے معاملات کی صورت گری اس کی قوت کا ذریعہ ہے۔ سیاست اجتماعی زندگی میں اسی اخلاقی انقلاب کا ذریعہ ہے۔ اصل مقصود اللہ کی رضا، آخرت کی کامیابی اور جنّت کی تمنا ہے۔ یہ تمام پہلو ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔
فرد، معاشرہ، ریاست، انسانیت کی تعمیر اس کا ہدف ہیں، لیکن اس کی کامیابی کا اصل راز اور اس کی جدوجہد کا اصل ہدف اللہ کی رضا اور اللہ کی زمین پر اللہ کی مرضی اور قانون کو جاری و ساری کرنے کی جدوجہد ہے۔ حسناتِ دنیا اور حسناتِ آخرت دونوں مطلوب ہیں، لیکن رضاے الٰہی کے ثمرات کی حیثیت سے۔ یہ چیز آزمایشوں میں استقامت کا ذریعہ بنتی ہے اور دُنیوی نشیب و فراز سے بے نیازی اور جہد ِ مسلسل کا شعار بناتی ہے۔ اس کیفیت کو پیدا کرنے میں کلیدی کردار قرآن سے تعلق اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اتباع کا رشتہ ہے۔ اس ضمن میں، مَیں نے اخوان المسلمون کو تمام اسلامی تحریکات میں سب سے بہتر اور سب سے بلند پایا ہے۔ 
گذشتہ ۷۰برس میں مجھے ہرسطح پر اخوان کے ساتھیوں سے قریبی تعلق کی سعادت حاصل ہوئی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اخوان کے ہرکارکن کا قرآنِ عظیم سے جو تعلق میں نے دیکھا ہے،     وہ قابلِ رشک ہے۔ مصری معاشرے میں جو دینی اور اخلاقی تبدیلی گذشتہ ۹۰برسوں میں آئی ہے، اس میں دوسری تمام دینی قوتوں کی کوششوں کے ساتھ امام حسن البنا شہید اور اخوان المسلمون کا کردار سب سے زیادہ نمایاں اور روشن ہے۔ قرآن سے تعلق اور ایک دوسرے سے محبت اور خبرگیری،   یہ دو ستون ہیں جن پر اخوان کی تحریک قائم ہے۔ اخوت کا رشتہ، محبت اور خبرگیری کا رشتہ اور   بھائی چارے کی فضا، اخوان نے گھرگھر اور محلے محلے میں قائم کی ہے۔ فہم قرآن کے حلقے اور اسرہ کا نظام اخوان کی طاقت کا منبع ہیں اور جب تک یہ تعلق اور نظام موجود ہے، ان شاء اللہ ظلم کی کوئی قوت اس تحریک کو دبا نہیں سکتی، اور بقول جگر مراد آبادی:

یہ خوں جو ہے مظلوموں کا ، ضائع تو نہ جائے گا لیکن
کتنے وہ مبارک قطرے ہیں ،جو صرفِ بہاراں ہوتے ہیں

استقامت اور تحریک کے نظریاتی کردار کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اتنے ظلم و زیادتی، حقوق کی پامالی، ملک کے دستور اور قانون اور اصولِ انصاف سے رُوگردانی کے باوجود تحریک نے اینٹ کا جواب پتھر، اور تشدد کا جواب تشدد سے نہیں دیا۔ ہرظلم و زیادتی کو برداشت کرتے ہوئے قانون، اخلاق اور خود اپنے طے کردہ طریق کار سے انحراف کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تحریک اپنے طریق کار کی صحت اور اخلاقی برتری پر یقین رکھتی ہے، اور بُرائی کے جواب میں بُرائی کے راستے کو اصولی اور اخلاقی طور پر غلط سمجھتی ہے۔ اسلامی تحریک کا طریقہ محض مصلحت، بدلہ اور انتقام نہیں بلکہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اور سب سے بڑھ کر قرآن کا یہ اصول ہے کہ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَـنَۃُ وَلَا السَّيِّئَۃُ۝۰ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ  (فصلت۴۱: ۳۴) ’’نیکی اور بدی یکساں نہیں ہے۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو، جو بہترین ہو‘‘۔
اخوان کی عظیم کامیابی ہے کہ ۸۰سال میں آزمایش کے تین ہولناک اور صبر آزما اَدوار میں جھونک دیے جانے کے باوجود، انھوں نے اپنے تعمیری، اخلاقی، اصلاحی، جمہوری اور عدم تشدد کے طریق سے سرِموانحراف نہیں کیا۔ اس کے باوجود اگر غصّے، ردعمل اور بدلے کے جذبے سے مغلوب ہوکر کسی نوجوان نے تحریک کے معروف طریقے سے ہٹنے کی کوشش کی، تو اس کا ہاتھ   روک دیا یا اس کو تنظیم سے خارج کر دیا۔ افسوس کہ مسلم حکومتوں، مقتدر طبقات اور مخالفین نے اس پہلو پر غور نہیں کیا حالانکہ اب تو اس بات کو غیر بھی محسوس کرنے اور اس کا برملا اظہار کرنے لگے ہیں۔ 
نیویارک ٹائمز  ( ۱۹جون ۲۰۱۹ء) میں اس کے اسٹاف رائٹر پیٹر ہیسلر نے ، جو مصر پر ایک کتاب The Buried: An Archeology of The Egyption Resolution  کے مصنف ہیں، اپنے حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ: ’’سامراجی حکمرانوں کے خلاف ابتدائی دور میں اخوان کے   کچھ ارکان سیاسی تشدد کے مرتکب ہوئےہیں، اور اخوان کے رہنمائوں نے بالآخر ایسی حکمت عملی کو مسترد کر دیا اور عدم تشدد کے اصول کو اختیار کیا‘‘۔اخوان پر مظالم اور ریاستی تشدد کے تازہ دور کے پس منظر میں صاحب ِ مقالہ لکھتا ہے کہ:

یہ بات اہم ہے کہ حکومتی قیادت میں ہونے والے قاہرہ کے مختلف قتل عام اور ان کے نتیجے میں بچ جانے والوں اور (ان کے) رشتہ داروں میں سے بہت ہی کم افراد نے دہشت گردانہ عمل یا تشدد سے جواب دیا۔ دہشت گردی کے زیادہ تر واقعات جزیرہ نما سینائی کے دُور دراز حصوں میں ہوئے، نہ کہ بالائی مصر کے گنجان آبادی والے حصوں میں، جو کہ ابتدائی نسلوں میں انقلابی اسلام کا گہوارارہے تھے۔ مصری حکومت نے اخوان پر ایک ’دہشت گرد گروہ‘ کے طور پر پابندی لگادی ہے لیکن اس کے پاس کوئی شہادت نہیں کہ اخوان نے متشددانہ مزاحمت کوچال کے طور پر اختیار کیا ہو۔

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اخوان جس طرح ماضی کے ہولناک اَدوارِ ابتلا سے صبرواستقامت کے ساتھ نبردآزما ہوئے، اسی طرح اس دور کا بھی مقابلہ کریں گے اور بالآخر  کامیابی کے ساتھ اپنی اصلاحی اور تعمیری سرگرمیوں کو ایک بار پھر چار چاند لگائیں گے۔ ہمیں خوشی ہے کہ بیرونی حلقوں سے بھی اب ایسی آوازیں اُٹھنے لگی ہیں۔مثال کے طور پر سی این این کی ایک تازہ رپورٹ، جو صدرمرسی کی شہادت کے اگلے روز (۱۸جون ۲۰۱۹ء) شائع ہوئی ہے۔ اس رپورٹ میں مصر کے حالات کا جائزہ لے کر آخری حصے میں کہا گیا ہے:

اور ابھی تک بڑے پیمانے پر گرفتاریوں اور آمرانہ من مانی ہلاکتوں کے باوجود، اخوان تحریک معدوم ہونے سے کوسوں دُور ہے۔اخوان ظلم و تعذیب سہنے کے عادی ہیں اور خدمت خلق کے لیے ان کا اپنا ایک بے مثل ڈھانچا ہے۔ جیساکہ ’کارنیگی رپورٹ‘ نے کہا ہے: ’’مصر کے سیاسی مقدّر کا تعین بدستور اس تصادم سے ہی ہوتا رہے گا جو حکومت اور اسلام پسندوں کے درمیان جاری ہے‘‘۔

اُمت مسلمہ کے نام

صدر محمد مرسی کی شہادت پر مسلمان عوام، دینی اور سیاسی جماعتوں اور متعدد حکمرانوں کا جو ردعمل سامنے آیا ہے، وہ اُمت مسلمہ اور عالمی سیاسی منظرنامے کے لیے ایک آئینے کی حیثیت رکھتا ہے۔ترکی اور اس کے صدر طیب نے سب سے بڑھ کر اور قطر، حماس، ملائیشیا اور انڈونیشیا کی حکومتوں نے کھل کر اور چند دوسرے ممالک کے حکمرانوں نے صرف تعزیت کے انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان کی حکومت تو خاموش ہے، مگر قومی اسمبلی نے دُعاے مغفرت اور پھر سینیٹ آف پاکستان نے ایک جان دار اور مفصل قرارداد کے ذریعے، جسے قائد ایوان اور قائد حزبِ اختلاف کے تعاون سے ۳۵ سینیٹروں  کے دستخطوں کے ساتھ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان نے پیش کیا اور سینیٹ نے متفقہ طور پر پاس کیا، وہ پاکستانی عوام کے دل کی آواز ہے۔ 
مسجد اقصیٰ سے لے کر دنیا کے ہراس ملک میں، جہاں مسلمان آباد ہیں، ہزاروں مقامات پرغائبانہ نمازِ جنازہ ادا کرکے اُمت نے اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کیا ہے۔ لیکن عوام اور حکمرانوں اور مفاد پرست اشرافیہ کے درمیان بالعموم جو فاصلہ اور دُوری ہے، و ہ بہت کھل کر سامنے آگئی ہے۔ اسی طرح امریکا اور مغربی دنیا کے حکمرانوں، اور بااثر طبقات پر موت کا سکوت طاری رہا ہے، وہ چشم کشا ہے۔ حکمران ، دانش ور، صحافی اور انسانی حقوق کے علَم بردار جو ہر چھوٹے بڑے حادثے یا معاملے پر زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں، ان کی خاموشی یا پشت پناہی نے    ان کے دوغلے پن اور منافقت کا پردہ بھی بُری طرح چاک کردیا ہے۔بلاشبہہ مغربی دُنیا میں چند اداروں اور کچھ اصحابِ ضمیر نے غاصب مصری حکومت کے اس اقدامِ قتل کی مذمت بھی کی ہے، یا کم از کم افسوس کے اظہار کے ساتھ معاملے کی تحقیق کا برملا مطالبہ کیا ہے۔ ہم ان افراد اور اداروں کے لیے تحسین کے جذبات رکھتے ہیں، لیکن افسوس کہ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے۔
امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، کینیڈا کے وہ حکمران اور سیاسی اور انسانی حقوق کے ان نام نہاد علَم برداروں کو (جو ہرگستاخِ رسولؐ کی حمایت میں زمین و آسمان ایک کردیتے ہیں) صدرمرسی کے اس ظالمانہ قتل پر سانپ سونگھ گیا ہے۔ مغربی حکمرانوں اور لبرل ازم اور جمہوریت کے دعوے داروں کے دوغلے پن اور نفاق کا یہی مکروہ رویہ ہے جس کی وجہ سے عالمِ اسلام اور تیسری دنیا کے لوگ    ان کے دعوئوں پر یقین نہیں کرتے۔ جمہوریت اور حقوقِ انسانی کے بارے میں ان کی نعرے بازی (sloganeering)کو بجاطور پر محض اقتدار اور مفاد کے کھیل کا حصہ سمجھتے ہیں۔
ہم اس مضمون کو رابرٹ فسک کے ایک اقتباس پر ختم کرتے ہیں، جو روزنامہ انڈی پنڈنٹ اور کاؤنٹر پنچ میں شائع ہوا ہے اور یہ احساس دلاتا ہے کہ ’ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں‘:
اے دیوتائو، محمد مرسی کی پنجرے میں ظالمانہ موت پر ہمارا ردعمل کیا ہی عمدہ تھا! شاید افسوس، پچھتاوے اور غم، نفرت، جبر اور خوف کے تمام الفاظ کو دُہرانا ایک تھکا دینے والا عمل ہو، جو مصر کے واحد منتخب صدر کی اس ہفتے قاہرہ کے کمرئہ عدالت میں موت کی کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی مذمت کرتے ہوئے لوگوں کے کانوں میں انڈیلے گئے۔ ڈائوننگ سٹریٹ اور وائٹ ہائوس سے لے کر، جرمن چانسلری اور ایلسی پیلس تک اور کہیں ہم برلے مونٹ کو بھول نہ جائیں۔ ہمارے مدبروں اور ہماری خواتین نے ہماری خوب خاطرداری کی۔ مرسی کی موت پر ان کی پشیمانی اور احتجاجوں پر غور کرنا تو حقیقت میں ہمیں تھکا دے گا۔
کیونکہ یہ مطلقاً موجود ہی نہیں تھا۔ خاک اور دھول، کچھ بھی نہیں۔ نہ خاموشی اور نہ کوئی بڑبڑاہٹ، نہ کسی پرندے کی چہچہاہٹ، نہ کسی پاگل صدر کا کوئی ٹویٹر پیغام، یہاں تک کہ بالکل رسمی اور سرسری سے اظہارِ افسوس کا کوئی لفظ تک بھی نہیں۔ وہ جو ہماری نمایندگی کا دعویٰ کرتے ہیں،خاموش تھے، گنگ تھے۔ ان کی صدا اسی طرح روک دی گئی تھی جس طرح مرسی (کی صدا) کمرئہ عدالت میں اپنے سائونڈ پروف پنجرے میں۔ اور یہ نمایندے اسی طرح خاموش ہیں جس طرح مرسی اب اپنی قاہرہ کی قبر میں ہے۔
لیکن وہ کوئی بُرا آدمی اور کوئی دہشت گرد نہیں تھا۔ اس نے اپنے جانشین [جنرل سیسی] کی طرح ۶۰ہزار سیاسی قیدیوں کو بند نہیں کیا ہوا تھا۔ وہ جانشین کہ جسے وائٹ ہائوس میں موجود عظیم شخص کی طرف سے عظیم شخصیت قرار دیا جاتا ہے۔
یہ بات نوٹ کرنا مفید و سبق آموز رہے گا کہ اس انقلابِ مرسی کے ساتھ کتنا مختلف سلوک کیا گیا ہے۔ اسے قیدتنہائی میں ڈال دیا گیا، وہ اپنے خاندان سے بھی بات نہیں  کرسکتا تھا، اس کو طبی امداد سے بھی محروم کر دیا گیا۔ اب اس گھنائونے سلوک کا ذرا اس سہولت و آسایش سے مقابلہ کرکے دیکھیں، جو اس [صدر مرسی] کے پیش رو [آمرمطلق] حسنی مبارک کو اپنی معزولی کے بعد حاصل رہی۔ مسلسل ہسپتال میں علاج معالجہ، خاندان کے لوگوں کی ملاقاتیں، عوامی ہمدردی کا اظہار، حتیٰ کہ اخبارات کو انٹرویو بھی۔ 
مرسی کے آخری الفاظ، جو اس نے اپنے دفاع میں کہے کہ:’مَیں مصر کا اب بھی صدر ہوں‘ ان کو مشینی انداز میں سائونڈ پروف پنجرے میں دبا دیا گیا۔ ہماری بے حوصلہ ذلت آمیز خاموشی نہ صرف مغرب میں عوامی عہدے داروں اور انتظامیہ کی شرمناک فطرت کا ثبوت ہے بلکہ یہ مشرق وسطیٰ کے ہر[ظالم]رہنما کی قطعی اور حتمی حوصلہ افزائی [کا اجازت نامہ ]بھی ہے، کہ اس کے بُرے افعال کی اسے کبھی سزا نہیں ملے گی۔ کوئی اس بارے میں سوچے گا بھی نہیں، انصاف کبھی نکھر کر سامنے نہیں لایا جائے گا اور تاریخ کی کتابوں کو کبھی پڑھا نہیں جائے گا۔
ان حالات میں اُمت مسلمہ کے لیے ایک ہی راستہ ہے___ خود اپنے پائوں پر کھڑے ہونا اور اپنے ایمان، اپنی آزادی، اپنی عزت، اپنے دین، اپنی تہذیب و ثقافت، اپنے معاشی مفادات، اپنی خودمختاری اور خودانحصاری کا تحفظ اور ترقی۔ صدر محمدمرسی کی شہادت ہمیں اگر غفلت سے بیدار کرنے کا ذریعہ بنے اور ہمیں اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لیے سرگرم ہونے کے لیے مہمیز کا کام کرے، تو ان کی زندگی بھی قابلِ رشک تھی اور ان کی موت بھی قابلِ رشک ہے۔ بلاشبہہ وہ کامیاب ہیں اور دل گواہی دیتا ہے کہ ان کا شمار ان لوگوں میں سے ہوگا جن کے بارے میں خود زمین و آسمان کے خالق اور پروردگار نے بشارت دی ہے کہ:

مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللہَ عَلَيْہِ۝۰ۚ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰى نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّنْتَظِرُ۝۰ۡۖ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِيْلًا۝۲۳ۙ (الاحزاب ۳۳:۲۳) ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں، جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہدکو سچا کر دکھایا ہے، ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

یہی اللہ کے وہ نیک اور کامیاب بندے ہیں جو حق کے علَم بردار بن کر زندگی گزارتے ہیں جو ظلم کے ہر وار کو مردانہ وار سہتے ہیں اور زندگی کے آخری لمحے تک حق و انصاف، عدل و احسان، اطاعت ِ رب اور خیروفلاح کی سربلندی کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔ جو نفسِ مطمئنہ کی چلتی پھرتی تصویر ہوتے ہیں، اور جنت جن کا انتظار کر رہی ہے!