جون ۲۰۰۱

فہرست مضامین

کتاب نما

| جون ۲۰۰۱ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

طالبان‘ افغانستان میں جنگ‘ مذہب اور نیا نظام‘  پیٹر مارسڈن‘ ترجمہ: ڈاکٹر سید سعید احمد۔ ناشر: آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس‘ ۴- بنگلور ٹائون‘ شارع فیصل ‘ پی او بکس ۱۳۰۳۳ ‘کراچی ۷۵۳۵۰۔ صفحات: ۱۱۶۔ قیمت: ۲۲۵ روپے۔

افغانستان کے طالبان ‘مغرب کے لیے ایک بڑا اہم سوال بن چکے ہیں۔ پہلے تو صرف ان کی مذہبی پالیسیاں خصوصاً خواتین کے بارے میں ان کا ’’کٹرپن‘‘ یا اسامہ بن لادن کے بارے میں بے لچک رویہّ ہی قابل اعتراض تھا۔ اب بدھا کے مجسّموں کی توڑ پھوڑ نے اہل مغرب کے ساتھ بعض مشرقی ممالک (جاپان‘ تھائی لینڈ‘ نیپال وغیرہ) کو بھی طالبان کے بارے میں فکرمند اور پریشان کر دیا ہے‘ اگرچہ خود طالبان کسی کی دادو تحسین یا مذمت سے بے نیاز ہیں۔ وہ اپنی ہی دُھن میں مگن جو چاہتے ہیں‘ کر گزرتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ ان کے قابل قدر اقدامات کی بھی قدر نہیں کی جاتی‘ جیسے بھارت کے اغوا شدہ طیارے سے طالبان کا کامیابی سے نمٹنا یا پوست کی کاشت کا کامیابی سے خاتمہ کرنا۔ (اب وہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کو بجا طور پر طعنہ دیتے ہیں کہ تمھارے لاڈلے شمالی اتحاد کے علاقے میںتو پوست بدستور کاشت ہو رہی ہے۔) باوجود اپنی علاقائی اور سیاسی ’’تنہائی‘‘ کے‘ ان کا رویہّ اب بھی بے لچک ہے۔ غالباً اس لیے کہ وہ پاکستان کی تائید سے بڑی حد تک مطمئن ہیں۔ ان کے بارے میں امریکہ کی واضح طور پر معاندانہ پالیسی‘ دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کی مخالفت‘ اقوام متحدہ کی پابندیوں حتیٰ کہ پاکستان کے سوا اپنے تمام مسلم ہمسایوں سے تعلّقات میں کشیدگی اور اندرونِ ملک بے روزگاری ‘ غربت اور قحط کے مسائل نیز شمالی اتحاد سے برسرِ جنگ ہونے کے باوجود طالبان اپنے موقف پر جرأت اور بہادری سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اس سے کم از کم ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ آج افغان ہی دنیا کی سب سے زیادہ آزاد قوم ہے۔

ان عجیب و غریب طالبان کو سمجھنے کے لیے برطانوی پیٹر مارسڈن نے آٹھ سال سے زائد عرصہ مختلف برطانوی ایجنسیوں اور گروپوں کے رابطہ افسر کی حیثیت سے افغانستان میں گزارا۔ یہ مختصر کتاب ان کے آٹھ سالہ تجربے‘ مشاہدے اور تحقیق کا حاصل ہے۔ اس کا دائرہ موضوعات خاصا وسیع ہے (یعنی: افغانستان کا جغرافیہ‘ تاریخ‘مذہبی‘ لسانی اور قبائلی تصورات‘ مجاہدین کی تحریک‘ طالبان کی قیادت‘ ان کے عقائد‘ طور طریقے اور پالیسیاں وغیرہ۔) مارسڈن نے طالبان پر عالم اسلام کی بعض بڑی تحریکوں (اخوان المسلمون‘ سعودی عرب کی وہابی تحریک‘ لیبیا اور ایران کے انقلابات) کے اثرات کا سراغ لگانے کی کوشش کی ہے مگر ان کا خیال ہے کہ طالبان پرکسی خاص تحریک کا ٹھپہ لگانا دانش مندی نہ ہوگی (ص ۵۶)۔ وہ کہتے ہیں کہ طالبان پر سب سے غالب اثر علما کا ہُوا ہے (ص ۶۳)۔

مارسڈن کی رائے میں ملا محمد عمر کا مقصد افغانستان کو بدعنوان‘ مغرب زدہ اور موقع پرست لیڈروں سے نجات دلانا ہے۔ ان کی منفی پالیسی کی سختی دراصل افغان خواتین کو مغربی اثرات سے محفوظ رکھنے کی ایک جان توڑ کوشش ہے (ص ۷۳)۔ مارسڈن نے طالبان کو قریب سے دیکھا ہے اور اس کا رویہّ طالبان سے ہمدردانہ ہے۔ اوّل: مارسڈن کا خیال ہے کہ اسلام کے بارے میں اہل مغرب ابھی تک صلیبی جنگوں کے حصار سے باہر نہیں نکل سکے (شاید اسی لیے وہ طالبان کو سمجھ نہیں پا رہے)۔ دوم: مارسڈن یہ سوال اٹھاتا ہے کہ بجا ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک اپنے اصول و ضوابط کی روشنی میں طالبان کو تسلیم نہیں کر رہے لیکن یہ سمجھنا مشکل ہے کہ جو حکومتیں طالبان سے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہی ہیں انھیں کیوں تسلیم کر لیا گیا ہے؟ (مارسڈن نے کسی کا نام نہیں لیا)۔

مصنف کا خیال ہے کہ طالبان کی مشکلات اور مسائل کا حل پیش کرنا آسان نہیں۔ افغانستان کے داخلی حالات میں مسلسل اتارچڑھائو کی وجہ سے نت نئی پیچیدگیاں اور اُلجھنیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ اس وجہ سے آیندہ کیا ہوگا؟ یا کیا کرنا چاہیے؟ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

عربی کے فارغ التحصیل مارسڈن نے یہ بیانیہ کتاب تجزیاتی اور تحقیقی انداز میں لکھی ہے۔ ابتدا میں ضروری نقشے شامل ہیں اور اشاریہ بھی۔ آخر میں مآخذ کی فہرست ہے۔ افغانستان اور طالبان پر اردو میں لکھنے والوں کو مارسڈن کے طریقہ تصنیف و تالیف سے کچھ سیکھنا چاہیے۔ ایک غیر ملکی ناشر نے کتاب اتنے اچھے معیار پر شائع کی ہے (گو‘ قیمتاً گراں ہے) کہ ملکی ناشرین کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


تاریخ اسماعیلیہ ]تاریخ جہاں گشائی‘ جلد سوم[‘ علاء الدین عطا ملک الجوینی‘ مترجم: پروفیسر علی محسن صدیقی۔ ناشر: قرطاس‘ کراچی یونی ورسٹی۔ صفحات: ۱۸۳۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

تاریخ جہاں گشائی منگولوں‘ خوارزم شاہیوں اور اسماعیلیوں کی تاریخ کی ایک مستند‘ ثقہ اور بنیادی مآخذ کی کتاب ہے۔ عطا ملک الجوینی (متوفی ۶۸۱ھ) ہولاکو کے دَور میں ایران اور عراق کا گورنر رہا۔ وہ منگولوں کے ہاں میرمنشی کی حیثیت سے آیا اور گورنر کے عہدے تک پہنچا۔ وہ ہولاکو کے ہاتھوں وقوع پذیر ہونے والے تمام حادثات و واقعات کا عینی شاہد ہے۔ یہ پہلی کتاب ہے جس نے اُس دَور کے مؤرخین کو بھی منگولوں کی طاقت سے متعلق موثق مواد فراہم کیا۔ یہ کتاب خوارزم شاہیوں کی تاریخ کا تفصیلی بیان بھی مہیّا کرتی ہے۔ نیز اسماعیلیوں کے عقائد اور اُن کی خفیہ دعوت سے بھی پردہ اٹھاتی ہے۔ تین جلدوں پر مشتمل یہ کتاب منگولوں کی قدیم تاریخ سے لے کر ۶۴۴ھ تک کے تمام واقعات‘ خوارزم شاہی سلاطین کے حالات اور ہولاکو کی بلادِ غربیہ میں آمد تک کے واقعات اور ہولاکو کے بلادِ غربیہ پر تسلّط ‘ اس کے ہاتھوں ان کی بربادی اور اس کے بعد رکن الدین خورشاہ کے قتل تک کے واقعات اور اسماعیلی خاندان کی مکمل تباہی کی تفصیل پیش کرتی ہے۔

زیرنظر جلد سوم اسماعیلیوں کی تاریخ پر مشتمل ہے۔ اس میں ہولاکو کی ملاحدہ کے قلعوں کی تسخیر‘ باطنیوں اور اسماعیلیوں کے عقائد‘ ان کی دعوت‘ قرامطہ کے ظہور‘ اسماعیلی حکومت کے فروغ‘ مصر میں اسماعیلی حکومت کے خاتمے اور منگولوں کے ہاتھوں‘ بالآخر بلادِ غربیہ کی مکمل تباہی کا احوال بیان کیا گیا ہے۔

مترجم نے کتاب کے آغاز میں مصنف کے حالات زندگی‘ کتاب کی تاریخی اہمیت اور ترجمے سے متعلق بعض توضیحات شامل کی ہیں اور آخر میں تین ضمیمے مع حواشی بھی دیے ہیں جو قاری کو ایران‘ عراق اور خراسان کے اسماعیلیوںکی تاریخ کے اور قریب کر دیتے ہیں۔ اردو ترجمے کی زبان سلیس اور آسان ہے۔ حسب ضرور ت قوسین میں مناسب الفاظ کی مدد سے تفہیم میں آسانی پیدا کرنے کی بھی سعی کی گئی ہے۔ کہیں کہیں لیکن بہت کم‘ کمپوزنگ اور پروف خوانی میں کوتاہی کے سبب الفاظ غائب نظر آتے ہیں یا عبارت کی غلطی سامنے آجاتی ہے۔ تاریخ کے طلبہ اور تاریخ کا ذوق رکھنے والے دوسرے لوگوں کے لیے یہ کتاب ایک قیمتی دستاویز ثابت ہو سکتی ہے۔ (سعید اکرم)


چراغِ راہ ‘ ڈاکٹر بدریہ کاظم۔ ناشر: ریز کمیونی کیشن‘پی او بکس ۱۰۷۳۴‘ دوبئی۔ صفحات: ۴۳۳۔ ہدیتاً تقسیم ہوگی۔

قرآن حکیم کی تمام سورتوں کا خلاصہ آسان زبان میں پیش کیا گیا ہے۔ دیباچے میں بتایا گیا ہے کہ بدریہ کاظم صاحبہ نے خلاصہ مرتب کرتے ہوئے تفہیم القرآن کے علاوہ ڈاکٹر عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی کی تصانیف اور قرآن پاک کے انگریزی ترجمے مصحف المدینہ النبویہ سے بھی رہنمائی لی ہے۔ سورتوں کے خلاصے کے ساتھ کہیں کہیں پس منظر اور تبصرہ بھی آگیا ہے۔ یہ خلاصہ تقریباً اُسی نوعیت کا ہے‘ جو ہمارے ہاں تراویح کے بعد پیش کیا جاتا ہے۔

مولفہ کا تعلق متحدہ عرب امارات سے ہے۔ انھوں نے کتاب کو اعلیٰ درجے کے (قریب قریب) آرٹ پیپر پر شائع کیا ہے۔ خدا کرے ان کی یہ کوشش ان کے اپنے حسب خواہش ‘ ان کے لیے توشۂ آخرت ثابت ہو۔ (ر - ہ)


جدید سندھ کے دانش ور اور عالم  ‘ محمد موسیٰ بھٹو۔ سندھ نیشنل ٹرسٹ‘ ۴۰۰ بی ‘ لطیف آباد نمبر ۴‘ حیدرآباد ‘سندھ۔ صفحات: ۲۹۲۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

جناب محمد موسیٰ بھٹو سندھ کے ممتاز اہل قلم میں سے ہیں۔ انھوں نے اردو اور سندھی زبان میں اسلام کے فکری اور دعوتی نقطۂ نظر سے لائق مطالعہ کتابیں مرتب کی ہیںاور بعض اہل قلم کی اردو کتابوں کو سندھی زبان میں پیش کر کے مفید خدمت انجام دی ہے۔ بیداری کے نام سے ایک سندھی ماہنامہ نکال رہے ہیں۔ ان کی فکر متوازن اور معقولیت پسندانہ ہے۔ افراط و تفریط کے ماحول میں ایسی کتابوں کی افادی قدروقیمت کو یقینا محسوس کیا جائے گا جو اسلام کے صحیح اور مضبوط فکری موقف کی جانب رہنمائی کرتی ہیں۔

زیرنظر کتاب میں مصنف نے سرزمین سندھ کی ایسی ۵۶ شخصیات کے تعارفی خاکے پیش کیے ہیں جن کا تعلق مختلف تحریکوں کے نمایندہ افراد‘ علما و مشائخ‘ اہل قلم اور اصحاب فکرونظر سے ہے۔ مذکورہ اصحاب نے اپنے اپنے دائرے میں دعوتی‘ علمی و تحقیقی اور سماجی و سیاسی پہلو سے خدمات انجام دی ہیں۔ ان خاکوں میں شخصیات کا مختصر اور اجمالی تعارف پیش کرتے ہوئے مصنف نے بصیرت افروز تنقیدی شعور سے کام لیا ہے اور محاسن کے فیاضانہ اعتراف کے ساتھ ساتھ کمزور پہلوئوں کی نشان دہی بھی بے لاگ طریقے سے کی ہے۔ اندازِ تحریر شگفتہ اور دل نشیں ہے۔

ہر تعارفی خاکے کے آخر میں وہ خطوط بھی شامل ہیں جو ان شخصیتوںکی جانب سے مصنف کو تحریر کیے گئے۔ اس سے کتاب کی افادی حیثیت بڑھ گئی ہے۔ اصل کتاب سندھی زبان میں لکھی گئی تھی۔ مصنف نے اسے اردو قالب میں ڈھال کر اردو کے قارئین کو ایک مفید کام سے مستفید ہونے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔

کتاب پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کے دل میں احیاے اسلام کے لیے ایک تڑپ اور مخلصانہ جذبہ موجود ہے اور یہی جذبہ ان کی قلمی کاوشوں اور علمی سرگرمیوں کا اصل محور ہے۔ وہ باب الاسلام سندھ میں علاقائی نیشنلزم‘ سوشلزم‘ لادینیت اور مغربیت کے بجائے اسلامی فکر کو فروغ پذیر دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کی نظر ملّت اسلام کے مستقبل اور نئی نسل کی صحیح رہنمائی پر ہے۔ پاکستان اور سندھ کے پس منظر میں لادینی قوتوں کی فتنہ انگیزی کو محسوس کرنے اور اسلامی شعور کو بیدار کرنے میں کتاب یقینا معاون ہوگی اور مصنف کی مساعی کو قدر کی نظر سے دیکھا جائے گا ۔ (انیس احمد اعظمی)

تعارفِ کتاب

  •  عظمت ِ قرآن ‘محمد ہمایوں عباس شمس۔ ناشر: جامعہ تبلیغ الاسلام‘ خیابان امین‘ فیصل آباد۔ صفحات: ۱۲۰۔ قیمت: ندارد ]قرآن حکیم پر مختلف مذاہب خصوصاً عیسائیوں کے انٹرنیٹ کے ذریعے کیے جانے والے اعتراضات کے جوابات دیے گئے ہیں۔ سوالات انگریزی میں ہیں۔ مولّف نے زیادہ تر جوابات مختلف اردو مفسّرین کی تحریروں کے ذریعے انھی کے الفاظ میں دیے ہیں۔[
  •  پھول کھلے ہیں رنگ برنگے‘ شان الحق حقی۔ ناشر: ہمدرد فائونڈیشن‘ ناظم آباد‘ کراچی۔ صفحات: ۱۱۱۔ قیمت: ۷۰ روپے۔]۸ سال سے ۸۰ سال کے ’’بچوں‘‘ کے لیے دل چسپ نظمیں‘ مزے دار نظموں کا مجموعہ۔ حقّی صاحب کہنہ مشق ادیب‘ شاعر اور مترجم ہیں۔ نظموں میںشگفتگی‘ ندرت اور مٹھاس ہے۔ ان میں ترانے اور پہیلیاں بھی ہیں[
  •  چراغ نوا‘ رئیس نعمانی۔ ناشر: محمد ارشد‘ اے ۱۱۸/۴ ‘ لوکو کالونی (نئی آبادی) علی گڑھ۔ صفحات: ۶۴۔ قیمت: ۳۰ روپے۔ ]ایک مجموعہ نعت‘ جس میں شاعر کا ایک گہرا جذبۂ محبّتِ رسولؐ کارفرما ہے۔ ان کے بقول: ’’رسولؐ کو رسولؐکے مرتبے پر رکھا گیا ہے‘ اور اکثر نعت گویوں کی طرح خدا و رسولؐ کے امتیاز کو بالاے طاق رکھ کر جاہلانہ عقیدت اور ہندووانہ بھجن خوانی کے مظاہرے سے بھی زبانِ قلم کو آلودہ نہیں ہونے دیا گیا‘‘ (ص ۶۲)۔ مقدمے میں بعض اردو نعت گوئوں کے غیر محتاط انداز (خصوصاً صاحب حدائق بخشش) پر تنقید کی گئی ہے۔[
  •  ماہنامہ دعوت الحق‘ مدیر: ڈاکٹر تسنیم احمد۔ صفحات: ۳۲۔ پتا: ۸- گلشن ویو‘ بلاک سی-۱۳‘ گلشن اقبال‘کراچی ۷۵۳۰۰۔ زرتعاون سالانہ: ۵۰ روپے۔ فی شمارہ: ۵ روپے۔ ] یہ مختصر رسالہ کسی مسلک کا ترجمان نہیں۔ قرآن و سنّت کی روشنی میں دعوت حق پیش کرتا ہے۔ عقائد‘ خصوصاً عقیدئہ توحید کی اصلاح پیشِ نظر ہے۔ حالات حاضرہ کا بھی لحاظ ہے۔ اپریل کے شمارے کا اداریہ (اشارات!) عریانی اور فحاشی پر ہے۔ ایک خاص خدمت اپنی ویب سائٹ پر مندرجات حاضرہ کے نام سے اہم دینی رسائل کے مضامین کا اشاریہ مہیّا کرنا ہے [www.dawatulhaq.tripod.com] ۔(مسلم سجاد)