جون ۲۰۰۱

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| جون ۲۰۰۱ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

دہرا معیار

سوال :  عنقریب میری شادی ہونے والی ہے۔ گذشتہ دنوں پیش آنے والے ایک سانحے کی بنیاد پر بہت سے سوال میرے ذہن میں اُلجھن پیدا کر رہے ہیں۔ میری رہنمائی فرما دیں۔

میری خالہ زاد بہن کی شادی اپنے کزن سے ہوئی تھی جو کہ ایک دین دار گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور خود کو بھی دین داروں میں شمار کرتے ہیں۔ انھوں نے میری خالہ زاد بہن کو محض اس وجہ سے طلاق دے دی کہ ان کی غیر موجودگی میں اپنے کزن کو (جو کہ شوہر کے بھی کزن ہیں) گھر میں آنے دیا۔ کچھ چائے پانی سے خاطر تواضع بھی کی‘ جب کہ گھر میں ملازمہ بھی موجود تھی‘ گھر میں تنہا نہ تھیں۔ میری خالہ زاد بہن کے بارے میں خاندان کا ہر شخص گواہی دیتا ہے کہ وہ عفت مآب خاتون ہیں۔ دوسری طرف شوہر کے اپنے معاملات و خیالات کا یہ عالم ہے کہ غیر عورتوں کے ساتھ میل جول‘ ہنسی مذاق‘ پارک وغیرہ میں گھومنا پھرنا اپنے کاروبار کا تقاضا خیال کرتے ہیں اور مصر ہیں کہ اس میں کوئی قباحت نہیں۔ دوسری طرف یہ فرماتے ہیں کہ بیویوں کو تو اپنے گھروں میں

عزت و عفت کا محافظ ہونا چاہیے اور شوہر کی غیر موجودگی میں غیر محرم کو گھر میں نہیں آنے دینا چاہیے۔ یہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی ہے۔

میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ:

۱- اللہ تعالیٰ نے عورت کے فرائض میں شامل کیا ہے کہ وہ مرد کی غیر موجودگی میں اپنی عزت‘ شوہر کے گھر‘ مال و اولاد کی حفاظت کرے‘ تو کیا مرد کی ذمّہ داری نہیں ہے کہ وہ گھر کی چار دیواری سے باہر نکل کر اپنی نگاہ کی حفاظت کرے اور غیر عورتوں سے تعلقات نہ رکھے؟ کیا شوہر کی عزت بیوی کی عزت نہیں؟

۲- مرد کو تو اختیار ہے کہ بیوی کے کردار کو مشکوک پا کر اُس کو اپنے ساتھ نہ رکھے لیکن ایک بیوی شوہر کی بے حیائی کس حد تک برداشت کرے اور وہ کیا کرے؟ لوگ کہتے ہیں کہ مرد کے شرابی‘ زانی یا آبروباختہ ہونے کی بنا پر بیوی علیحدگی کا مطالبہ نہیں کرسکتی۔ کیا یہ صحیح ہے؟ اگر یہ صحیح ہے تو بیوی کس بنا پر علیحدگی کا مطالبہ کرے؟ کیا صرف نان نفقہ کی عدم ادایگی کی بنا پر ہی اُس کا حق ہے اور دیگر تمام روحانی‘ جذباتی‘ سماجی صدموں کی کوئی حیثیت نہیں؟ کیا واقعی عورت کی ضرورت صرف نان نفقہ ہی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر بیوی میں اور کسی بھی پالتو حیوان میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟

۳- کیا شوہر کی غیر اخلاقی سرگرمیوں کی وجہ سے بیوی کے سماجی مرتبے کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا؟ اُس کے خاندان‘ احباب‘ سہیلیوں خصوصاً سسرال والوں کی نظروں میں ایسی عورت کی کیا وقعت رہ جاتی ہے جس کا شوہر اپنی عزت و آبرو کے بارے میں لاپروا ہو‘ اور عورتوں کے ساتھ تعلقات‘ دوستی‘ ٹیلی فون پر گفتگو ‘ سینما یا پارک میں گھومنا پھرنا معیوب نہ سمجھے‘ اور اس کو اپنے کاروبار کا تقاضا سمجھے؟

۴- کیا ایک بیوی کو اپنے شوہر کے کردار کے بارے میں غیرت مند نہیں ہونا چاہیے؟ کیا مرد اپنے ’’اعمال‘‘ کو درگزر‘ چشم پوشی اور نظرانداز کر دیے جانے کا حق دار سمجھتا ہو‘ اور بیوی کے معاملے میں بہت ’’غیرت مند‘‘ ہو جائے کہ قریبی رشتے دار سے بول چال بھی نہ کرے؟ کیا مرد اور عورت کی غیرت میں یہ فرق اسلام کی رُو سے ہے؟ کیا بیوی کو ’’بے غیرت‘‘ بن کر جینا چاہیے؟

۵- یہ بات عام مشاہدے میںہے کہ مرد اپنی بیویوں کی عزت نفس اور جذبات و احساسات کا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ ایک وفادار بیوی اپنے شوہر کی طرف سے صرف وفاداری کی متمنی ہوتی ہے۔وہ ہر معاشی ومعاشرتی دبائو‘ ہر طرح کے سخت حالات میں کشادہ دلی اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ہر قسم کے حالات میں شوہر کی خیرخواہ اور ساتھی ہوتی ہے۔ صرف ایک آرزو اس کی زندگی کا محور ہوتی ہے کہ شوہراُس کے مقابلے میں کسی غیر عورت سے دل نہ بہلائے‘ نہ اس کی دلجوئی کرے‘ نہ اس طرح تذکرہ کرے کہ بیوی کی عزت نفس مجروح ہو۔ ہر بیوی کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا شوہر اسے ویسی ہی محبت‘ خیرخواہی‘ وفاداری اور عزت دے جیسی کہ اس کے دل میں شوہر کے لیے ہوتی ہے۔ میں نے اپنے بزرگوں کو بھی اپنی بیویوں کو تنگ کرتے دیکھا ہے۔ ان کا دل دُکھا کر‘ ان کی روح کو اذیت پہنچا کر جیسے مردوں کو روحانی سکون ملتا ہے۔ غیر عورتوں کی تعریف کر کے‘  اپنی کزن‘ کلاس فیلو‘ ہمسائیوں کی مہربانیوں اور حسن کے تذکرے کر کے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں۔ گاہک عورتوں کی نظر التفات کے قصّے بیان کر کے‘ دوسری شادی کی ناتمام خواہش پر آہیں بھر کے‘ بیوی کی محبت‘ خلوص اور وفاداری کو خاک میں ملاتے ہیں۔ کیا بیوی محض ایک کھلونا ہے جس کے جذبات‘ احساسات‘ خواہشات اور عزتِ نفس سے کھیلنا مرد کا حق ہے؟ کیا بیوی کی کوئی عزتِ نفس نہیں ہوتی؟

جواب :  آپ کے خط سے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ عنقریب ان شاء اللہ آپ کی شادی ہونے والی ہے اور اس طرح سنّتِ رسولؐ پر عمل کر کے آپ اپنے ایمان کی تکمیل کریں گی۔ ممکن ہے جب تک آپ کے سوال کے حوالے سے یہ نکات طبع ہوں یہ مبارک رشتہ اور دینی فریضہ تکمیل پا چکا ہو۔ میری دعا ہے کہ

اللہ تعالیٰ آپ کو اور آپ کے شوہر کو دین پر حقیقی طور پر عمل کی توفیق دے اور آپ ایک دوسرے کے لیے

 سکون و راحت اور دینی فلاح کا ذریعہ بن سکیں۔ آمین!

آپ کے سوالات کی ترتیب کو برقرار رکھتے ہوئے چند نکات تحریر کیے جا رہے ہیں:

۱- شریعت اسلامی نے ایک منکوحہ کے فرائض میں یہ بات شامل کی ہے کہ شوہر کی غیر موجودگی میں کسی ایسے فرد کو گھر میں نہ آنے دے جسے وہ ناپسند کرتا ہو اور نہ کسی کے ساتھ اس طرح کی تنہائی اختیار کرے جو خلوت کی تعریف میں آتی ہے۔ اس دوسری شرط میں وہ رشتے بھی شامل ہیں جنھیں ہمارے معاشرے میں جاہلی رسوم و رواج کی بنا پر جائز سمجھ لیا گیا ہے‘ مثلاً ایک شخص کا اپنی سالی یا ایک بیوی کا اپنے دیور کے ساتھ مکمل تنہائی میں ہونا۔حدیث شریف میں وضاحت ملتی ہے کہ ایسی حالت میں ان کے ساتھ تیسرا فرد شیطان ہوتا ہے‘ یا جیسے ہمارے ہاں سالی کے ساتھ بہنوئی کا بے تکلفی کا اظہار کرتے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے کہ وہ اس کی چھوٹی بہن ہے‘ اسے گلے لگانا‘ ہاتھ میں ہاتھ لینا‘ ساتھ جڑ کر بیٹھنا‘ یہ تمام شکلیں خلوص نیت کے باوجود شریعت کی نگاہ میں ممنوع ہیں۔

آپ نے اپنی خالہ زاد بہن کے حوالے سے ان کے شوہر کے طرزِعمل کے بارے میں جو بات لکھی ہے اس کا سبب وہی جاہلی رواج ہے جس میں ایک شوہر اپنی سالی کے ساتھ بے تکلفی کے اظہار کے لیے ہنسی مذاق کرتے ہوئے اگر اس کے دھپ لگا دے تو وہ اسے ’’جائز‘‘ سمجھتا ہے کیونکہ اس کے خیال میں اس کی نیت اچھی تھی۔ لیکن اگر اس کا اپنا کزن جو اس کی بیوی کا بھی کزن ہو‘ اگر اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر آجائے اور اس کی بیوی اسے چائے پلا دے تو اس کے غصے کا پارہ آسمان تک چڑھ جاتا ہے‘ اور وہ طلاق جیسی چیز پر آمادہ ہو جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسا جائز کام ہے جو ربّ کریم کو طیش‘ غضب اور غصّے میں لے آتا ہے۔ سبب واضح ہے: ربّ کریم چاہتا ہے کہ اس کے بندے رشتوں کا احترام کریں‘ رحم (قرابت و رشتہ) کی عزت کریں‘ اپنے لباس کو جو انھیں زینت و زیبایش دیتا ہے اپنے ہاتھ سے تار تار نہ کریں۔

اگر آپ کی ہمشیرہ صاحبہ نے یہ جاننے کے باوجود کہ ان کے شوہر ان کے مشترکہ کزن کو چائے پلانے سے ناخوش ہوں گے‘ ایسا کیا‘ تو میرے خیال میں انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس کے باوجودصرف اس بنا پر طلاق دینا زیادتی ہے۔ ایسے حالات میں شوہر کا فرض ہے کہ وہ نصیحت و اصلاح کا رویہّ اختیار کرے نہ کہ  یک لخت طلاق دے ڈالے!

۲- یہاں یہ بات بھی واضح کرنی ضروری ہے کہ ایک شوہر کے بیوی کو طلاق دینے‘ یا ایک بیوی کے خلع طلب کرنے کا تعلق ہمیشہ بداخلاقی کے ساتھ نہیں ہے۔ ایک شوہر اپنے کردار و تقویٰ کے لحاظ سے انتہائی اعلیٰ مقام پر ہو لیکن اس کی شکل دیکھتے ہی ایک بیوی کو کراہت آئے تو تقویٰ کے باوجود اسے خلع کا حق ہے۔ ایسے ہی ایک بیوی انتہائی حسین و جمیل اور مال دار اور اعلیٰ نسب کی ہونے کے باوجود اگرحقوق زوجیت ادا کرنے پر آمادہ نہ ہو تو قانونی حد تک شوہر اسے طلاق دے سکتا ہے۔ گویا طلاق اور خلع کسی ایک مخصوص شرط کے ساتھ وابستہ نہیں ہیں۔ دونوں شکلوں میں احساس ذمّہ داری اور اللہ کے سامنے جواب دہی کے جذبے کے ساتھ‘ یہ جانتے ہوئے کہ اس فعل سے اللہ تعالیٰ انتہائی غضب ناک ہوتے ہیں‘ اس پر غور کیا جانا چاہیے۔

۳-  اگر ان صاحب نے محض اپنے غصّے کے اظہار کے لیے ایک طلاق دی ہے تو انھیں رجوع کرنے کا حق ہے اور دونوں کا فرض ہے کہ آیندہ کبھی ایسا موقع پیدا نہ ہونے دیں کہ دوسری طلاق کی نوبت آئے۔ رجوع کے بعد بھی پہلی طلاق تین میں سے ایک شمار ہوتی ہے۔ اس لیے غیر معمولی طور پر احتیاط اور ضبطِ نفس کے ساتھ حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے اور بے جا غصّہ و بدگمانی سے بچا جائے۔ (اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ ‘بلاشبہ بعض گمان گناہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ الحجرات ۴۹:۱۲)

۴- قرآن کریم نے ایک صالح بیوی اور صالح شوہر کو اپنا معیارِ مطلوب قرار دیا ہے اور بار بار صالحیت‘ نیکی‘ بھلائی‘ معروف‘ بر اور تقویٰ کو اہل ایمان کی بنیادی صفت کہا ہے۔ اس لیے شوہر اور بیوی کے لیے عفت و عصمت اور تقویٰ کے معیار الگ الگ نہیں ہو سکتے۔ قرآن کریم جب نگاہیں نیچی کرنے کا حکم دیتا ہے تو اسے صرف عورتوں کے لیے مخصوص نہیں کرتا کہ وہ تو نگاہیں نیچی رکھیں اور مرد جہاں تک ممکن ہو نگاہوں سے تعاقب اور

حظ اندوزی کرتا رہے۔ (اور مومن مرد اور مومن عورتیں اپنی نگاہیں نیچی رکھتے ہیں۔ النور ۲۴:۳۰-۳۱)

اسی طرح تعزیرات میں دونوں کے لیے یکساں معیار رکھا گیا ہے۔ چنانچہ فرمایا گیا:  وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْآ اَیْدِیَھُمَا (المائدہ ۵:۳۸)’’اور چور ‘ خواہ عورت ہو یا مرد‘ دونوں کے ہاتھ کاٹ دو‘‘۔ اس لیے چاہے معاملہ کاروبار کا ہو یا تفریح اور سماجی تعلّقات کا‘ شوہر اور بیوی کو ایک ہی اخلاقی ضابطے کی پیروی کرنی ہوگی۔

۵- اگر شوہر یا بیوی اخلاقی ضابطے کی خلاف ورزی کرے تو اصلاح کے لیے تعلیم‘ اخلاقی دبائو ‘ خاندان کے افراد کے دبائو اور احباب کی نصیحت کا استعمال ہونا چاہیے۔ اگر ان تمام کوششوں کے باوجود ایک فرد اسلام کے خلاف عمل کرتا رہے تب آخری اور ناپسندیدہ شکل طلاق یا خلع ہے۔

۶- کسی شوہر کا تنہائی میں کسی غیر عورت کے ساتھ پھرنا‘ سینما جانا‘ پارک میں تفریح کرنا‘ کسی بھی لحاظ سے کاروباری ضرورت نہیں کہا جا سکتا۔ اگر بعض صورتوں میں کسی کاروباری معاملے میں ایک مرد یا عورت کو ایک غیر مرد سے کوئی بات کرنی ہی ہو تو وہ شکل اختیار کی جائے جس میں برائی کا امکان کم سے کم ہو یعنی ’’خلوت‘‘ (کسی غیر محرم کے ساتھ مکمل تنہائی میں ہونا)کی شکل نہ ہو۔

مثال کے طور پر ایک بنک مینیجر کو اپنے گاہک سے بات کرنی ہے۔ یہ بات تہہ خانے میں ایک لوہے کے دروازے کو مقفل کر کے بھی کی جا سکتی ہے اور ایسے کمرے میں بھی جس میں ہر طرف شفاف شیشے لگے ہوں‘ دروازہ کھلا ہو‘ اور دونوں کے درمیان معقول فاصلہ ہو۔ ظاہر ہے اولین شکل اسلامی شریعت ہی میں نہیں کسی بھی اخلاقی نظام میں درست قرار نہیں پا سکتی۔

اگر ایک جامعہ میں ایک معلّمہ کو اپنی کلاس میں اپنے تخصص کے حوالے سے لیکچر دینا ہے جس میں غیرمحرم لڑکے بھی ہیں اور یہ کام اس کے علاوہ اور کوئی نہیں کر سکتا تو اسلامی حجاب میں رہتے ہوئے شریعت اس کو اس سے منع نہیں کرتی۔ لیکن اگر اسے کسی طالب علم کے مقالے پر اس سے بات کرنی ہو تو چونکہ وہ معلّمہ ہے اور طالب علم بمنزلہ اس کی اولاد کے ہے‘ وہ کمرہ بند کر کے‘ کھڑکی پر پردہ ڈال کر ایک گھنٹے تک اس سے علمی مذاکرہ نہیں کر سکتی چاہے وہ اور اس کا شاگرد تقویٰ کے اعلیٰ ترین مقام پر ہی فائز کیوں نہ ہوں۔ اسے اپنا کمرہ بند کیے بغیر‘ دروازہ کھلا چھوڑ کر‘ کھڑکی سے پردہ ہٹا کر ہی بات کرنی ہوگی۔

۷- طلاق اور خلع کا قانونی پہلو‘ اتنا واضح اور آسان ہے کہ اس پر کسی مفتی اور مجتہد سے رائے لیے بغیر ایک سیدھا سادا مسلمان بھی عمل کر سکتا ہے۔ لیکن طلاق یا خلع سے قبل ضروری ہوگا کہ ایک فرد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے جواب دہی کے احساس کے ساتھ اپنے قلب و دماغ کو خوب ٹٹول کر دیکھے کہ کل جب قیامت میں اللہ تعالیٰ اس سے جواب طلبی کریں گے تو کیا اس کے پاس کوئی معقول جواب ہوگا؟ اور کیا اب حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ ساتھ چلنا‘ رہنا‘ نبھانا بالکل ممکن نہیں رہا۔

۸- جس طرح بیوی کے کردار کی معمولی سی خامی شوہر کے لیے عزت‘ وقار‘ ناک اور مشکلات کا مسئلہ بن جاتی ہے‘ بالکل اسی طرح شوہر کا کردار بیوی کی ساکھ‘ نفسیاتی کیفیات اور سکون کو متاثر کرتا ہے۔ شوہر اور بیوی پر ایک دوسرے کے حوالے سے یکساں اخلاقی‘ قانونی‘ نفسیاتی اور معاشرتی حقوق و فرائض عائد ہیں۔ اگر ایک شوہر بیوی کا حق مارتا ہے اور عوام الناس کے سامنے کیے ہوئے عقد نکاح کے باوجود کسی اور عورت کے ساتھ خلاف اخلاق معاشرتی تعلقات قائم کرتا ہے‘ تو ممکن ہے اس دنیا میں انسانوں کے بنائے ہوئے ضابطوں کی بنا پر اس کی گرفت نہ ہو سکے لیکن وہ آخرت میں بازپرس سے نہیں بچ سکتا۔ دوسری جانب وہ بیوی جو نامساعد حالات کا مقابلہ ہمت‘ وقاراور صبرواستقامت سے اس دنیا میں کرتی رہی دوبارہ ایسے شخص کے حوالے نہیں کی جائے گی بلکہ اسے آخرت میں ایسا زوج دیا جائے گا جو دنیا کی تمام تکالیف و پریشانیوں کا بدلہ سکون‘ لذت ‘ احترام اور عزت و وقار کے ساتھ اسے فراہم کرسکے۔

۹- بعض شوہر نہ صرف بیوی بلکہ اپنی بیٹیوں‘ بیٹوں‘ حتیٰ کہ ماں باپ کی عزت نفس کا بھی خیال نہیں رکھتے۔ یہ ان کی بدقسمتی ہے۔ وہ اپنے اس طرزِ عمل کی بنا پر چاہے دنیا میں اپنی اکڑفوں سے کتنا ہی خوش ہو لیں لیکن آخرت میں ان کا حساب اس سے بہت مختلف ہوگا۔ اس کا ایک بنیادی سبب دینی فہم اور تعلیم کا نہ ہونا ہے۔ اسی بنا پر بہت سے شوہر اپنی بیوی سے ’’تو‘‘ کہہ کر بات کرنے کو بے تکلفی‘ اپنائیت اور محبت سمجھتے ہیں۔ اسلام ایک شائستہ‘ باادب اور باوقار دین ہے اور چاہتا ہے کہ بے تکلفی و محبت کا اظہار ہو یا غصّے کا‘ دونوں صورتوںمیں ادب‘ توازن اور احترام کو مدنظر رکھا جائے۔

بہت سے پڑھے لکھے مرد اپنی بیٹیوں سے جس طرح حقارت‘ طنز یا ان پر احسان جتانے کے انداز میں بات کرتے ہیں وہ روح اسلام کے بالکل منافی ہے۔ وہ لڑکوں کی طرح بلکہ ان سے زیادہ محبت‘ احترام‘ عزت اور باوقار طرزعمل کی حق دار ہیں۔ اسی طرح اگر بیوی کی عزت نفس اور جذبات کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ ایک اخلاقی کمزوری ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر اگر شوہر غیر محرم عورتوں سے تو مسکرا کر اور لطائف سنا کر بات کرے‘ انھیں چائے اور کھانے پر مدعو کرے اور اپنی بیوی سے محض ایک قانونی سا تعلق رکھے تو یہ بیوی کے حقوق پر ڈاکا اور اللہ تعالیٰ سے بغاوت ہے۔ اللہ پر بندے کا حق یہ ہے کہ وہ اس کا واسطہ دے کر جس سے رحم کا رشتہ قائم کرتا ہے وہ اس پر قائم رہے۔ (النساء ۴:۱)

نکاح یا ایسے اعلان اور وعدے کے بعد جس پر بہت سے افراد کو شاہد بھی بنایا گیا ہو‘ اگر ایک شخص کسی اور عورت کے ساتھ گھومتا پھرتا ہے تو یہ خود اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے وعدے سے روگردانی ہے‘ اور اس غلط رویے کی فوری اصلاح ایسی توبہ کے ذریعے جس کے بعد غلطی کا ارتکاب نہ کیا جائے‘ لازم ہو جاتی ہے۔

۱۰- دوسری شادی کی خواہش اگر کسی شرعی ضرورت کی بنا پر ہو تو جائز ہے لیکن اگر اس طرح محض غیرعورتوں کے تذکرے سے اپنی مانگ اور قدر و منزلت بڑھانی مقصود ہو‘ تو اس کی شریعت میں سخت ممانعت ہے۔ حدیث شریف میں بیوی کو منع کیا گیا ہے کہ وہ شوہر کے سامنے کسی دوسری عورت کی تفصیلات بیان کرے۔ اس حکم کا اطلاق شوہر پر بھی ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک شوہر کا اسلامی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے صرف ایک بیوی اور بچوں کے حقوق ایمان داری سے ادا کرنا بھی ہنسی کھیل نہیں ہے‘ کجا یہ کہ وہ آنکھیں بند کرکے اور بس اللہ کا نام لے کر بیک وقت کئی بیویوں اور کئی درجن بچوں کے حقوق کی ذمّہ داری اٹھائے۔ مختلف پہلوئوں پر غور کیے بغیر کچھ ’’دانش مند‘‘ جب یہ کام کر بیٹھتے ہیں تو پھر قانونی موشگافیوں میں اُلجھتے چلے جاتے ہیں۔ اسلام میں نہ بیوی شوہر کے لیے کھلونا ہے‘ نہ شوہر بیوی کے لیے محض ایک عنوان۔ دونوں پر ایک دوسرے کے غیر معمولی حقوق و فرائض عائد ہوتے ہیں۔ ہاں ‘اگر کسی میں اتنی استطاعت ہو کہ وہ ایک سے زائد بیویوں اور کثیر تعداد میں بچوں کے حقوق و فرائض ذمّہ داری اور عدل کے ساتھ ادا کر سکتا ہو تو اسلام اسے نکاح ثانی سے نہیں روکتا۔ (پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد)

روزے میں اِن ہیلر کا استعمال

روزے میں اِن ہیلر (inhaler) کے استعمال کے بارے میں دسمبر ۲۰۰۰ء کے شمارے میں مولانا عبدالمالک کا جواب شائع کیا گیا تھا جس میں اس کا عدم جواز بتایا گیا تھا۔ ہمارے ایک قاری نے سعودی عرب کے مفتی الشیخ محمدالصالح العثیمین رحمہ اللہ کا ایک فتویٰ ارسال کیا ہے۔ہم اسے نقل کر رہے ہیں۔ (ادارہ)

س :  دمے کے مریض اِن ہیلر استعمال کرتے ہیں۔ کیا روزہ دار کے لیے اس کا استعمال جائز ہے؟

ج :  اِن ہیلر کا استعمال روزہ دار کے لیے جائز ہے خواہ رمضان کا کوئی روزہ ہو یا اس کے علاوہ۔ یہ اس لیے کہ یہ (اِن ہیلر) معدے تک نہیں پہنچتا بلکہ پھیپھڑوں تک پہنچ کر ان کو کھلاکر دیتا ہے جس کے بعد انسان معمول کے مطابق سانس لینے لگتا ہے۔ لہٰذا یہ (اِن ہیلر) نہ کھانے پینے کے مترادف ہے اور نہ ہی بذات خود کھانا پینا ہے جو معدے تک پہنچتا ہو۔ اور یہ بات معلوم ہی ہے کہ کسی بھی شے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا جب تک کہ کتاب و سنت‘ اجماع یا قیاس صحیح سے اس کے فاسد ہونے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو۔ (الشیخ محمد الصالح العثیمین‘ مسائل من الصیام‘ دار ابن جوزی‘ جمع و ترتیب: سالم بن محمد الجہنی)