جون ۲۰۰۱

فہرست مضامین

پرندوں کی نقل مکانی : قدرت الٰہی کا ایک کرشمہ

عبدالرشید صدیقی | جون ۲۰۰۱ | مطالعہ کائنات

Responsive image Responsive image

علی الصبح پرندوں کا چہچہانا اور اپنی سریلی آواز سے فضائے عالم کومعمور کر دینا کسی کو بھی متاثر کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ گویا پرندوں کے یہ نغمے کائنات کی ہر شے کو دعوت نظارہ دیتے ہیں کہ اٹھیں اور افق مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج اور اس کی فرحت بخش روشنی کا استقبال کریں‘ اور خالق کائنات کا شکر ادا کریں جس نے رات کی تاریکی کو دُور کر دیا اور خورشیدمنور کی روشنی اور حرارت سے زمین کی تمام مخلوقات کے لیے خزانۂ رزق کے دروازے کھول دیے۔

اسی طرح سرشام پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ اپنے آشیانوں کی طرف دل نواز گیتوں کو آلاپتے ہوئے واپس ہوتے ہیں۔ خاص طور سے کسی بھی جھیل‘ تالاب‘ یا دریا کے کنارے پر آبی پرندوں کا ایک ازدہام ہوتا ہے جو اپنے پروں کو کمال خوبی اور خوش اسلوبی سے پھیلائے ہوئے‘ اپنی گردنوں کو اونچا کیے ہوئے ‘اور اپنے پنجوں کو بریک کی مانند استعمال کرتے ہوئے سطح آب پر جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ مرغ آبیاں‘ بطخیں‘ قاز ‘ راج ہنس اور کئی اقسام کے پرندے سب مل کر ایک ناقابل فراموش سماں باندھتے ہیں۔ یہ دل فریب مناظر اکثر ہی ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں۔

پرندے دوسرے جانوروں سے مختلف ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پر ہوتے ہیں۔ اس طرح نمایاں طور پر وہ دودھ پلانے والے جانوروں (mammals) اور رینگنے والے جانوروں (reptiles) سے الگ نوع ہیں۔چند اونس یا چند پونڈ کے وزن پر مشتمل گوشت پوست‘ پروں اور ہڈیوں کا ڈھانچا اپنے اندر بڑے ذخائر رکھتا ہے۔ اس میں اڑنے کے لیے جو قوت درکار ہوتی ہے‘ موجود ہوتی ہے۔ اس میں اڑنے کی صلاحیت اور

اس کو پوری طرح کنٹرول میں رکھنے کے ذرائع موجود ہوتے ہیں جو کسی طرح بھی موجودہ اعلیٰ معیار کے ہوائی جہاز سے کم تر نہیں ہوتے۔ ہوائی جہاز کی طرح پرندے بھی اپنی پرواز کے لیے ہمیشہ مستعد رہتے ہیں۔ اگرچہ محاورتاً ’’پرندوں کی طرح آزاد‘‘ ہمارے زبان زد رہتا ہے لیکن وہ اتنے آزاد بھی نہیں ہوتے۔ ان کی زندگی دانہ پانی کی تلاش میں صرف ہوتی ہے۔ اپنی پرواز سے لطف اندوز ہونے کے لیے ان کو خاصی مشقت بھی برداشت کرنا ہوتی ہے۔ اس کے باوجود ان کی بعض انواع کا ناپید نہ ہونا بھی ایک معجزہ ہے۔ اس لیے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے بیش تر مقامات پر پرندوں کے اڑنے اور ہوا میں اپنے آپ کو برقرار رکھنے کو بطور نشانی بتایا ہے:

اَلَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآئِ  ط  مَا یُمْسِکُھُنَّ اِلاَّ اللّٰہُ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ o (النحل ۱۶:۷۹) کیا ان لوگوں نے کبھی پرندوں کو نہیں دیکھا کہ فضائے آسمانی میں کس طرح مسخر ہیں؟ اللہ کے سوا کس نے ان کو تھام رکھا ہے؟ اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں۔

اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلَی الطَّیْرِ فَوْقَھُمْ صٰٓفّٰتٍ وَّیَقْبِضْنَ ط  مَا یُمْسِکُھُنَّ اِلاَّ الرَّحْمٰنُ ط اِنَّہٗ بِکُلِّ شَیْ ئٍ م بَصِیْرٌ (الملک ۶۷:۱۹) کیا یہ لوگ اپنے اوپر اڑنے والے پرندوں کو پر پھیلائے اور سکیڑتے نہیں دیکھتے؟ رحمن کے سوا کوئی نہیں جو انھیں تھامے ہو۔ وہی ہر چیز کا نگہبان ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودیؒ نے تفہیم القرآن میں فرمایا ہے:

یعنی ایک ایک پرندہ جو ہوا میں اڑ رہا ہے ‘ خداے رحمن کی حفاظت میں اڑ رہا ہے۔ اس نے ہر پرندے کو وہ ساخت عطا فرمائی جس سے وہ اڑنے کے قابل ہوا۔ اس نے ہر پرندے کو اڑنے کا طریقہ سکھایا۔ اس نے ہوا کو ان قوانین کا پابند کیا جن کی بدولت ہوا سے زیادہ بھاری جسم رکھنے والی چیزوں کا اس میں اڑنا ممکن ہوا۔ اور وہی ہر اڑنے والے کو فضا میں تھامے ہوئے ہے ورنہ جس وقت بھی اللہ اپنی حفاظت ان سے ہٹا لے وہ زمین پر آ رہتے ہیں۔ (جلد ششم‘ ص ۵۰)

پرندوں کی کئی اقسام ہیں۔ بعض پرندوں میں اڑنے کی صلاحیت نہیں ہوتی‘ جیسے کہ شترمرغ یا پنگوین  (Penguin)۔ لیکن ان کی اس معذوری کا ازالہ شترمرغ کی تیزرفتاری اور پنگوین کی ماہرانہ تیراکی سے ہو جاتا ہے۔ بعض پرندے نہایت خوب صورت گھونسلے بناتے ہیں‘ جیسے بیا‘ جس کا گھونسلا صنعت کاری کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔ بعض محض پتھریلی زمین پر تنکوں کو جمع کر کے انڈے دیتے ہیں۔ لیکن ان کی حفاظت میں شب و روز بعض اوقات بلاکھائے پیے مصروف رہتے ہیں۔ اور جب انڈوں سے چوزے نکلتے ہیں تو ان کی نگہبانی میں ہمیشہ مستعد رہتے ہیں‘ اور ان کو ہر طرح کے خطرات سے محفوظ رکھتے ہیں‘ اور ان کے لیے غذا فراہم کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اڑنا سیکھ جائیں ‘ اپنی مدافعت آپ کر سکیں‘ اور خود ہی دانہ پانی تلاش کر سکیں۔ اس سے زیادہ حیرت انگیز کارنامہ پنگوین انجام دیتے ہیں۔ جب وہ ہزاروں پنگوین اور ان کے بچوں کے درمیان اپنے چوزوں کو محض ان کی آواز سے شناخت کر لیتے ہیں۔

پرندوں کی دنیا کا مطالعہ کیا جائے تو ایک محیرالعقول امر ان کی نقل مکانی ہے۔ ان کا ہزارہا میل کے سفر کو طے کرنا اور پھر واپس اپنے مقام پر پہنچ جانا قدرت الٰہی کا ایک عجیب کرشمہ ہے۔ صدیوں سے یہ مسئلہ انسانوں کے لیے باعث حیرت اور استعجاب رہا ہے۔ زمانۂ قدیم میں جب انسان کی معلومات کا دائرہ محدود تھا‘ لوگوں نے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کیں‘ لیکن یہ کسی طرح بھی عقل انسانی کو مطمئن نہ کر سکیں۔ پچھلی دو صدیوں میں سائنس دانوں نے اس نقل مکانی اور پرندوں کے راستے تلاش کرنے کی صلاحیت کا تحقیقی مطالعہ کیا۔ پرندوں کے پنجوں میں ایمونیم کے چھلے ڈالے تاکہ جس ملک میں یہ پرندے پہنچیں وہاں کے لوگوں کو پتا چل سکے کہ یہ پرندہ کہاں سے آیا ہے۔ اس طرح پرندوں کی نقل مکانی کے نقشے مرتب کیے گئے۔ یہ تحقیقات اب بھی جاری ہیں۔

قابل غور بات یہ ہے کہ پرندے جن کے پاس نہ نقشے ہوتے ہیں‘ نہ عمدہ آلات‘ نہ ان کے تصرف میں ریڈار(Radar)ہوتا ہے‘ نہ ریڈیو‘ اور نہ دیگر افراد ہی جو ہوائی اڈوں پر پائلٹ کی رہنمائی کے لیے موجود ہوتے ہیں‘ نہ ٹریفک کنٹرول والے ان کو ہدایات دیتے ہیں کہ موسم کیسا ہے اور اترنا ممکن ہے یا نہیں--- اس کے باوجود لاکھوں پرندے ہزارہا میل کے سفرکے دوران سمندروں‘ صحرائوں اور پہاڑوں کی بلندیوں کو سر کرتے ہوئے ایک براعظم سے دوسرے براعظم میں جا پہنچتے ہیں۔ راہ میں ہرطرح کے موسموں‘ طوفانوں اور تیزوتند ہوائوں کو سہتے ہوئے بخیر و خوبی ایک ملک سے دوسرے ملک میں باقاعدگی سے منتقل ہو جاتے ہیں اور پھر اسی جگہ واپس آجاتے ہیں اور اگلے سال پھر محو پرواز ہوتے ہیں۔ ان کی یہ حیرت انگیز نقل مکانی کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔

یہ سب کس طرح ممکن ہوتا ہے؟ پرندوں کے ماہرین نے مختلف قیاسات اور نظریات قائم کیے ہیں۔ بعض کا خیال ہے کہ پرندے زمین کی مقناطیسی قوت سے اندازہ لگاتے ہیں اور اپنا راستہ تلاش کرتے ہیں‘ بعض موسموں کی تبدیلی ‘ سورج کی شعاعوں کے زاویے بدل جانے سے مدد لیتے ہیں۔ ممکن ہے ان کی قوت شامّہ بہت حسّاس ہو اور وہ ہوا کے درجۂ حرارت اور اس کے رخ سے اندازہ کرتے ہوں۔ شاید ان کے چھوٹے سے دماغ میں اللہ تعالیٰ نے وہ قوت رکھی ہو جو زمین کے نشیب و فراز سے انھیں راہ ڈھونڈنے میں مدد دیتی ہو۔

۸۰ کے عشرے میں دو جرمن سائنس دانوں (P.Berthold and U.Querner) نے اس پر کافی مشاہدات اور تحقیق کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ پرندوں میں پیدایشی طور پر یہ داخلی نظام موجود ہوتا ہے کہ وہ دنوں کے بدلتے ہوئے اوقات اور درجۂ حرارت کے باوجود اپنا راستہ خود تلاش کرسکتے ہیں۔

یقینا یہ صرف قدرتِ الٰہی کا کمال ہے کہ یہ پرندے ہزاروں میل کے سفر کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ وہ لوگ جو خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں‘ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی کائنات کی ہر شے کا خالق و مالک ہے اور اسی نے ہر ذی حیات کو ایسی صلاحیتیں اور قوتیں عطا کی ہیں کہ وہ اس دنیا میں اپنے رزق کو پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ وہ ان کی رہنمائی جبلت کے ذریعے کرتا ہے۔

سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی o الَّذِیْ خَلَقَ فَسوّٰی o  وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَھَدٰی o (الاعلٰی ۸۷: ۱-۳) اپنے رب برتر کے نام کی تسبیح کرو جس نے پیدا کیا اور تناسب قائم کیا اور جس نے تقدیر بنائی پھر راہ دکھائی۔

اس آیت کی تفسیر میں سید قطب شہیدؒ نے اپنی تفسیر فی ظلال القرآن میں نیویارک کی سائنسی علوم کی اکیڈمی کے صدر کریس موریسن (Chris Morrison) کی کتاب ’’انسان اکیلا نہیں کھڑا‘‘ سے یہ اقتباس نقل کیا ہے:

پرندوں میں وطن لوٹنے کا ایک ملکہ ہوتا ہے۔ ایک خاص چڑیا جو دروازوں پر گھونسلے بناتی ہے‘ خزاں کے موسم میں جنوب کی طرف ہجرت کر جاتی ہے اور اگلے سال بہار میں اپنے اس مقام کی طرف لوٹ آتی ہے۔ ستمبر کے مہینے میں امریکہ کے اکثر پرندے جنوب کی طرف جاتے ہیں اور وہ سمندروں اور صحرائوں پر سے پرواز کرتے ہوئے ہزاروں میل سفر کرتے ہیں اور کبھی اپنا راستہ نہیں بھولتے۔ اور پیغام رساں کبوتر پنجرے میں طویل سفر کرتے ہیں اور جب ان کو پیغام دے کر چھوڑا جاتا ہے تو وہ کچھ دیر کے لیے حیران ہو کر چکر لگاتے ہیںاور اس کے بعد سیدھے اپنے وطن کی طرف پرواز کرتے ہیں اور کبھی راہ سے نہیں بھٹکتے۔ (ترجمہ: سید معروف شاہ شیرازی‘ جلد ششم‘ ص۹۳۸)

اس پر سید قطب شہیدؒ کا یہ تبصرہ بھی بڑا ہی جامع ہے کہ ’’یہ ایک عظیم حقیقت ہے‘ اور اس کائنات کی جس چیز کا تجزیہ کیا جائے اس کے اندر یہ حقیقت موجود ہے۔ اس وسیع و عریض کائنات کی ہر چیز‘ خواہ بڑی ہو یا چھوٹی ہو‘ اہم ہو یا حقیر ہو‘ ہر چیز کی تخلیق میں تسویہ اور تناسب موجود ہے۔ ہر چیز کامل الخلقت ہے اور ہر چیز کی تخلیق کا ایک مقصد ہے اور وہ مقصد اس کی تقدیر ہے۔ اللہ نے ہر چیز کو اپنا مقصدِ وجود پورا کرنے کے لیے نہایت ہی آسان طریقہ کار فراہم کر دیا ہے۔ غرض اللہ کی ہر مخلوق مکمل اور متناسب ہے اور ہر چیز اپنا انفرادی فریضہ ادا کرتی ہے‘‘۔

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جس خالق کائنات نے پرندوں اور تمام ہی چیزوں کو رہنمائی عطا فرمائی ہے‘ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اس نے انسان کو‘ جو اشرف المخلوقات ہے‘ بغیر کسی رہنمائی کے چھوڑ دیا ہو؟ بھلا وہ ذات رحیم و کریم جو ایک چھوٹی سی چڑیا کو فضا میں یونہی بھٹکنے کے لیے نہیں چھوڑ دیتی‘ وہ کس طرح ہم کو گمراہی کی تاریکی میں نور ہدایت کے بغیر چھوڑ سکتی ہے؟ یہی بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تمثیلی انداز میں یوں سمجھائی: ’’ہوا کے پرندوں کو دیکھو‘ نہ یہ فصل بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیں اور نہ کوٹھوں ہی میں غلہ جمع کرتے ہیں‘ لیکن ان کا رب انھیں کھلاتا ہے‘ تو کیا تم ان سے زیادہ قیمتی نہیں ہو؟‘‘ (متی ۶:۲۶)۔ اور ایک اور موقع پر یوں فرمایا: ’’صرف معمولی قیمت میں تم دو چڑیاں خرید سکتے ہو لیکن ایک چڑیا بھی زمین پر نہیں گرتی الا یہ کہ اللہ کی مرضی ہو۔ جہاں تک تمھارا معاملہ ہے تمھارے سر کے بال تک گنے ہوئے ہیں‘ تو خوف نہ کھائو تمھاری قیمت تو کئی چڑیوں سے کہیں زیادہ ہے‘‘۔ (متی ۱۰:۲۹-۳۱)

یہ بات تو ظاہر ہے‘ کہ تمام ہی پرندے ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی کرتے ہیں۔ جہاں بھی دانہ پانی دستیاب ہو وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ اسی طرح بعض صرف چند میل کے دائرے میں گھومتے ہیں۔ بعض زیادہ سے زیادہ پڑوسی ملک کا چکر لگا لیتے ہیں۔ لیکن پرندوں کی بعض انواع باقاعدگی سے ہزارہا میل کی مسافت طے کر کے نصف دنیا کا سفر طے کر لیتی ہیں۔ اس کا سب سے زیادہ حیرت انگیز ریکارڈ تو بحرمنجمد شمالی کے ایک آبی پرندے نے جسے Antic Tern کہتے ہیں‘ قائم کیا ہے۔ ان کی رہایش بحرمنجمد شمالی میں ہوتی ہے لیکن وہاں جب موسم سرما کا آغاز ہوتا ہے تو یہ جنوب کی طرف پرواز کرتے ہیں۔ گرین لینڈ سے ہوتے ہوئے شمالی بحراوقیانوس سے گزرتے ہوئے برطانیہ اور اسپین‘ اور وہاں سے ساحل افریقہ سے ہوتے ہوئے بحرمنجمد جنوبی جا پہنچتے ہیں۔ جہاں اس وقت موسم گرما ہوتا ہے۔ یہاں یہ موسم گرما گزار کر موسم سرما کی آمد سے پہلے دوبارہ ۲۶ ہزار میل کا واپسی سفر مکمل کر کے بحرمنجمد شمالی میں اپنے گھونسلوں میں واپس پہنچ جاتے ہیں۔ یہ ایک بے مثال طویل سفر کی داستان ہے‘ لیکن لاکھوں پرندے آئس لینڈ اور سائیبریا سے انگلستان اور شمالی یورپ میں موسم سرما گزارنے کے لیے آتے ہیں اور یہاں کے پرندے جنوبی یورپ اور شمالی افریقہ کی طرف منتقل ہو جاتے ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سال بہ سال یہ پرندے اپنے منتخب کردہ مخصوص تالاب‘ جھیل‘ درخت یا چمنی (chimney) میں آکر بسیرا کرتے ہیں۔ اس طرح یہ دو تین ہزار میل کا سفر جیسے ایک طے شدہ نظام الاوقات کے مطابق سرانجام دیتے ہیں۔

پرندوں کے لمبے سفر واقعی کرشمہ ہیں۔ اس سلسلے میں ایک جرمن مصنف Dr. Werner Gitt جنھوں نے تخلیق کے عجائبات پر کافی کتابیں شائع کی ہیں‘ پرندوں کی پرواز کا تکنیکی طور پر تجزیہ کیا ہے۔ انھوں نے اس بات کا باقاعدہ حساب لگایا کہ پرندوں کو اپنی لمبی پرواز مکمل کرنے میں کتنی قوت درکار ہوتی ہے‘ اور آیا ان کے پاس اتنا زادراہ ہوتا ہے کہ وہ یہ طویل سفر مکمل کر سکیں؟ انھوں نے اپنی کتاب "Am Anfang war die Information", [In the beginning there was Information]  میں‘ مثال کے طور پر‘ مشرقی سائیبریا کے ایک پرندے پلووَر (Plover) ‘جو الاسکا (Alaska) میں پایا جاتا ہے‘ کی پرواز پر تحقیق کی۔ یہ زمینی پرندہ ہے جس کی ٹانگیں لمبی ہوتی ہیں اور انڈے زمین پر دیتا ہے۔ یہ پرندے الاسکا سے موسم سرما میں جنوب کی طرف جزائر ہوائی (Hewaii) کی طرف نقل مکانی کرتے ہیں۔ چونکہ راستے میں کوئی اور جزیرہ یا خشکی کا کنارہ موجود نہیں ہے اس لیے ان کا تمام سفر بلاتوقف بحرالکاہل پر پرواز کر کے ہوتا ہے۔ اس پر مزید مسئلہ یہ بھی ہے کہ زمینی پرندہ ہونے کی وجہ سے تیرنا نہیں جانتے۔ چنانچہ یہ ڈھائی ہزار میل (ساڑھے ۴ ہزار کلومیٹر) کا لمبا سفر مسلسل ایک اڑان میں مکمل کرتے ہیں۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ اس دوران ۲لاکھ ۵۰ ہزار مرتبہ اپنے پروں کو پھیلاتے اور سکیڑتے ہیں اور اس طرح یہ پرواز ۸۸ گھنٹوں میں پوری کرتے ہیں۔

جب یہ پرندے سفر کا آغاز کرتے ہیں اس وقت ایک پرندے کا وزن ۲۰۰ گرام ہوتا ہے۔ جس میں ۷۰ گرام چربی ہوتی ہے جو قوت فراہم کرنے کا ذخیرہ ہوتی ہے۔ یہ معلوم رہے کہ پلووَر اپنے وزن کے اعشاریہ چھ فی صد (۶%.) کو حرکت مجردہ (Kinetic Energy) اور حرارت پیدا کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ مناسب رفتار سے پرواز کرتے ہیں تاکہ کم از کم قوت خرچ ہو لیکن ان کے لیے ہوائی تک سفر مکمل کرنے کے لیے مطلوبہ مقدار میں قوت کا حصول ممکن نہیں ہے۔ اپنی توانائی کے ذخیرے سے وہ صرف ۸۱ فی صد سفر مکمل کر سکتے ہیں اور وہ اب بھی تقریباً ۵۰۰ میل (۸۰۰ کلومیٹر) اپنی منزل مقصود سے دُور ہوتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر وہ کس طرح ہوائی پہنچ جاتے ہیں؟ کیا ہم نے اپنے حساب میں کوئی غلطی کی ہے؟ نہیں‘ ہمارا حساب تو درست ہے۔ خالق کائنات نے اس کا اہتمام بڑے ہی پراسرار انداز میں کیا ہے۔ اس نے پرندوں کو انتہائی اہم معلومات مزید بہم پہنچائی ہیں۔ وہ یہ کہ تنہا کبھی بھی سفر نہ کرنا اور پرواز کے دوران انگریزی کے حرف ’’وی‘‘ (v)کی شکل میں اڑنا۔ اس طرح اڑنے سے وہ پرواز میں ۳۳ فی صد قوت بچا سکتے ہیں اور اپنی منزل مقصود تک بخیریت پہنچ جاتے ہیں۔

۸۸ گھنٹوں کے سفر کے بعد پرندوں کے پاس عام طور سے ۸.۶ فی صد قوت ابھی مزید باقی رہتی ہے۔ خالق کائنات نے اس کو بھی اپنے حساب میں ملحوظ رکھا ہے تاکہ کہیں پرندوں کو مخالف ہوا کا سامنا درپیش ہو تو یہ قوت کام آسکے۔

جو لوگ اللہ تعالیٰ کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے اور یہ انتہائی صحیح اندازے خالق کی قدرت کا نتیجہ نہیں قرار دیتے‘ تو وہ ان سوالات کا کیا جواب پیش کرسکتے ہیں؟ پرندوں کو کس طرح یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو سفر کے لیے کتنی قوت درکار ہے؟ کس طرح وہ مناسب چربی جمع کر پاتے ہیں کہ وہ دوران سفر ان کے کام آسکے؟ پرندوں کو کس طرح سفر کی مسافت اور اس کے لیے زادراہ کا اندازہ ہوتا ہے؟ وہ کس طرح اپنی سمت سفر اور راستے کی رہنمائی حاصل کرتے ہیں؟ وہ کس طرح جھنڈ کے جھنڈ ایک ساتھ اڑتے ہیں اور صحیح طور پر اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں؟

پرندوں کے یہ ہوائی سفر کسی قسم کے پیچیدہ آلات‘ قطب نما اور نقشوں کے بغیر ہوتے ہیں‘ حالانکہ اس دوران ہمیشہ سورج کا مقام‘ ہوا کا رخ‘ بادلوں کی گردش اور روز و شب کے تفاوت سے منظر اور صورت حال بدلتے رہتے ہیں۔ یقینا یہ اللہ تعالیٰ کا کرشمہ ہے‘ وہی ان پرندوں کی رہنمائی کرتا ہے اور اس طرح وہ اپنے سفر کامیابی سے سرانجام دیتے ہیں۔ زمینی پرندوں کا بحری سفر جو پلووَر کرتے ہیں اگر ان میں ذرہ برابر بھی تفاوت ہو جائے تو ان کی ہلاکت یقینی ہے۔ دوران سفر بالکل صحیح سمت برقرار رکھنا کوئی تجرباتی عمل تو نہیں ہوتا۔ اگر خدا ان کی رہنمائی نہ کرے تو یہ پرندے کبھی بھی اتنا لمبا سفر اپنے تئیں طے نہیں کر سکتے۔

کینیڈا میں قاز کی نقل مکانی کے مشاہدات سے چند اور حقائق سامنے آئے ہیں جو یقینا ہمارے لیے قابل غور ہیں۔

پہلی بات تو وہی ہے جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے کہ قازیں بھی اپنی نقل مکانی اور طویل سفر میں "v" کی شکل میں اڑتی ہیں۔ دوسری بات یہ مشاہدے میں آئی کہ اگر کسی وجہ سے ایک قاز اپنی جگہ سے ہٹ جائے‘ یا پیچھے رہ جائے تو وہ ہوا کا دبائو محسوس کرتی ہے‘ اس لیے وہ جلد ہی واپس اپنے مقام پر آجاتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ جو قاز لیڈر کے طور پر سب سے آگے اڑ رہی ہوتی ہے وہ ہوا کے دبائو کو سب سے زیادہ برداشت کرتی ہے۔ جب وہ تھک جاتی ہے تو پیچھے ہٹ کر اپنی جگہ بناتی ہے اور دوسری قاز آگے بڑھ کر رہنمائی کا کام انجام دیتی ہے۔ چوتھی بات جو اکثریتی مشاہدے میں آئی ہے کہ جو قازیں پیچھے ہوتی ہیں وہ مسلسل آوازیں نکالتی رہتی ہیں تاکہ وہ رفتار برقرار رکھ سکیں۔ آخری مشاہدہ یہ ہے کہ اگر کوئی قاز دوران سفر بیمار ہو جائے‘ یا زخمی ہو جائے‘ یا کسی کی گولی کا نشانہ بن جائے اور زمین کی طرف گرنے لگے‘ تو دو قازیں اس کے ساتھ زمین کی طرف اڑتی ہیں تاکہ اس کی مدد کر سکیں اور اس کی حفاظت کر سکیں۔ یہ مجروح قاز کے ساتھ رہتی ہیں تاآنکہ وہ صحت یاب ہو جائے اور اڑنے کے قابل ہو جائے‘ یا پھر مر جائے۔ اس کے بعد قازیں دوبارہ اپنے سفر کا آغاز کرتی ہیں اور کسی دوسرے جھنڈ کے ساتھ مل کر واپس اپنے ساتھیوں سے جا ملتی ہیں۔

ان حقائق میں انسانوں کے لیے انتہائی سبق آموز نصیحتیں ہیں‘ اگر ہم ان پر غوروفکرکریں۔ وہ لوگ جن کی منزل ایک ہے اگر مل جل کر اپنی منزل کی طرف پیش رفت کریں تو وہ سفر آسانی سے اور جلد طے کر سکیں گے۔ اجتماعیت سے قوت حاصل ہوتی ہے اور لوگ باہم ایک دوسرے کے لیے باعث تقویت ہوتے ہیں۔ رہنمائی اور قیادت کا کام انتہائی مشکل اور صبر آزما ہوتا ہے۔ اس لیے دوسروں کو مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ پیرووں کو اپنے لیڈر کی ہمت افزائی کے لیے مسلسل کوشش کرنا چاہیے۔ اپنے ساتھیوں اور رفقا کے لیے ایثار اور ہمدردی لازمی ہے۔ مصیبت کے وقت ان کی اعانت اور مدد فرض ہے۔ بچھڑے ہوئے لوگوں کو دوبارہ اپنے ساتھ ملا کر سفر کا آغاز کرنا بھی حکمت کا متقاضی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے کارخانۂ قدرت میں ہمارے لیے بہت سی نشانیاں رکھی ہیں۔ اگر ہم قدرت کے عجائبات پر غوروفکر کریں تو ان سے عبرت اور سبق حاصل کر سکتے ہیں:

نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی

(اقبال)


کتابیات

Baker, R. Robin: Bird navigation: the solution of a mystery. London: Hodder & Stoughton, 1984.

1

Berthold, P. and Querner, U.: Genetic basis of migratory behaviour in European warbles. Science. Vol. 212, 1981, pp 77-79

2

Mathews, G.V.T.: Bird navigation. 2nd ed. Cambridge University Press, 1968.

3

Werner, Gitt: Am Anfang war die Information [In the beginning there was information] Stuttgart: Hanssler-Verlag, 1994. (Translation quoted from: "How do birds do it?" Published in The Plain Truth, March-April, 1996, pp. 10-13.

4

"There's a lot we can learn from these geese" The Vancouver Sun, 1st August 1998, p-18.

5