جون ۲۰۰۳

فہرست مضامین

پاک بھارت مذاکرات اور مسئلہ کشمیر

پروفیسر خورشید احمد | جون ۲۰۰۳ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

پاک بھارت مذاکرات کی ضرورت اور افادیت کا کون کافر منکر ہوگا۔ اس سلسلے میں جو بھی پیش رفت ہو سر آنکھوں پر‘ چشم ما روشن دلِ ماشاد! البتہ جو بات سمجھنے اور سمجھانے کی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ مذاکرات نہ محض ملاقات کا نام ہیں اور نہ خود کلامی کے انداز میں اپنی اپنی پوزیشن کے اعادے کا۔ مذاکرات اسی وقت مفید اور نتیجہ خیز ہوسکتے ہیں جب کم از کم تنازعے کا ادراک اور اعتراف ہو اور حل کی تلاش کی خواہش اور جستجو۔ اگر عالم یہ ہو کہ ایک طرف شاعرانہ گم گشتگی کے ساتھ ’’دوستی کاہاتھ‘‘ بڑھایا جائے اور دوسری طرف ’’اٹوٹ انگ‘‘ کا نعرۂ مستانہ لگایا جائے اور ’’سرحد پار دراندازی‘‘ بلکہ ’’دہشت گردی‘‘ کا راگ مسلسل الاپا جائے تو پھر بات چیت اور افہام تفہیم کا دروازہ کیسے کھلے؟ بقول غالب   ؎

حضرت ناصح گر آئیں‘ دیدہ و دل فرشِ راہ

کوئی مجھ کویہ تو سمجھا دو‘ کہ سمجھائیں گے کیا؟

پاک بھارت تعلقات میں استحکام اور سدھار کی راہ میں حائل ایک اور رکاوٹ وہ غیر حقیقت پسندانہ انداز ہے جس میں دوستی اور مخالفت دونوں کا رنگ آہنگ رچا بسا نظر آتا ہے۔ مخالفت ہو تو تلخی اتنی بڑھتی ہے کہ چشم زدن میں بات گالم گلوچ اور تیغ و تفنگ تک پہنچ جاتی ہے اور پھر اگر دوستی کی ہوائیں چلتی ہیں تو پل بھر میں رازو نیازاور لطف و التفات کا کچھ ایسا سماں بندھ جاتا ہے گویا تلخی اور تصادم کے کوئی اسباب ہی نہ تھے اور نہ جسم پر کوئی زخم لگے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے امیدوں کے قصرتعمیر ہونے لگتے ہیں‘ شاعرانہ بلند خیالیاں فضا پر چھا جاتی ہیں اور لاہور کی پُرفریب الفت رانیوں اور آگرہ کی ’’ایسی بلندی‘ ایسی پستی‘‘ کی کیفیات طاری ہو جاتی ہیں۔ کبھی معاہدوں کے لیے میزیں سجائی جاتی ہیں اور کبھی الوداع کہنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی جاتی۔ کبھی پیش ضرب کاری (pre-emptive strike) کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ ۱۶ ماہ تک فوجیں کیل کانٹے سے لیس آنکھیں چار کیے رہتی ہیں اور نیوکلیر اسلحہ اپنے خول میں کلبلانے لگتا ہے اور کبھی ایک طرف سے دوستی کے پھول ’’زندگی کی آخری خواہش‘‘ بن کر سرحد پار گل پاشی کرنے لگتے ہیں تو دوسری طرف ’’سنجیدگی اور خلوص‘‘کے دریا دریافت ہو جاتے ہیں اور توقعات کے تاج محل ریت کی زمین پر بلند ہوتے نظر آتے ہیں۔

یہ جذباتیت اورعدم توازن‘ اور زمینی حقائق اور تلخ تاریخی عوامل کو نظرانداز کرکے خیالی ترک تازیاں بھی مسائل کی تفہیم اور حالات کے سدھار میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ نہ ایسی دوستی حقیقت پر مبنی ہے اور نہ ایسی دشمنی واحد آپشن۔ حریف سنگ ہونے کے لیے زندگی کے حقائق پر نظر ضروری ہے۔ جذباتی انداز میں ’’چوٹی کی ملاقاتیں‘‘ راہ کی مشکلات کا حقیقی جواب نہیں۔ ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ صرف ٹھنڈے دل سے معاملات اور تنازعات کا تجزیہ اور ٹھوس اور حقیقت پسندی پر مبنی ہوم ورک سے حل کی راہیں استوارہوسکتی ہیں۔ جو حقیقی قوتیں اور دبائو مسئلے کو اجاگر کرنے کا ذریعہ بنی ہیں‘ ان کے موثر ترہوئے بغیر مذاکرات کی کوئی گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔

اعتماد بحال کرنے والے نام نہاد اقدامات کے چکر میں ہم ۱۹۴۹ء کے لیاقت نہرو معاہدے سے لے کر ۱۹۶۵ء کے معاہدہ تاشقند‘ ۱۹۷۳ء کے شملہ معاہدہ اور ۱۹۹۹ء کے ’’اعلانِ لاہور‘‘ تک گھرے رہے ہیں اور معاملہ ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کا ہے۔ ہماری نگاہ میں کلیدی مسئلے دو ہیں‘ باقی تمام امور ضمنی یا ذیلی ہیں۔

پہلا بنیادی مسئلہ ایک دوسرے کو کھلے دل سے تسلیم کرنے کا ہے۔ محض مینارِ پاکستان پر حاضری کا نہیں۔ بھارت نے پہلے دن سے ملک کی تقسیم کو ایک ’’ناجائز عمل‘‘ سمجھا اور صاف الفاظ میں اس کا اعلان کیا ہے۔ ۳ جون ۱۹۴۷ء کی تقسیمِ ہند کی تجویز کو تسلیم کرتے ہوئے کانگریس کی ورکنگ کمیٹی اور اس کی تمام لیڈرشپ نے کھلے لفظوں میں کہا تھا کہ یہ عارضی ہے اور بھارت کو پھرایک ہونا ہے۔ ۱۹۷۱ء میں مشرقی پاکستان کو بہ زور (ہماری اپنی غلطیوں کے سہارے) پاکستان سے جدا کرنے پر اندرا گاندھی نے اعلان کیا تھا کہ آج ہم نے مسلمانوں سے ان کے ہزارسالہ اقتدار اور تقسیم ملک کے ’’ظلم‘‘ دونوں کا بدلہ لے لیا۔ بی جے پی‘ آر ایس ایس اور ہندو بنیاد پرست جماعتوں کا منشور ہی یہ ہے کہ اکھنڈ بھارت قائم کرنا ہے اور تقسیم کی لکیر کو مٹانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے اہل علم کی ایک تعداد پاکستان کو برعظیم میں برطانوی اقتدار کی ایک جانشین ریاست (succeeding state) قرار نہیں دیتے بلکہ اسے ایک علیحدگی پسند اور باغی ریاست (seceeding state) قرار دیتے ہیں۔ یہ ان کا سوچا سمجھا ذہن (mind set) ہے جس سے پالیسی اور رویے دونوں کے دھارے پھوٹتے ہیں۔ اس ذہن کو تبدیل کیے بغیر‘ اور ایک دوسرے کو مبنی برحق ریاست تسلیم کیے بغیر‘ حالات میں بنیادی تبدیلی مشکل ہے۔

گذشتہ سال گجرات کے انتخابات میں صرف مسلمانوں کاقاتل مودی ہی نہیں‘ ایڈوانی اور واجپائی سمیت پوری بی جے پی کی قیادت نے ساری الیکشن کی مہم مشرف ‘پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف پاکستان دشمنی کی بنیاد پر چلائی اور اپنی سر پر لٹکتی شکست کو کامیابی میں بدل دیا۔  ابھی ۲ مئی ۲۰۰۳ء کو بی بی سی کے Question Time India پروگرام میں بی جے پی  /شیوسینا کے رکن پارلیمنٹ نے فخر سے کہا کہ بھارت کو پاکستان میں خودکش حملہ آور بھیجنے چاہیں اور دعویٰ کیا کہ وہ خودخودکش حملہ آوروں کے ایسے گروہ میں شرکت کے لیے آمادہ ہیں۔ جب ایشین ایج کی ایڈیٹر نے اسے مہذب معاشرے کے آداب کے خلاف قرار دیا تو حاضرین کی ۷۰ فی صد نے (واضح رہے کہ بی بی سی کے ان پروگراموں میں مختلف طبقات کے مہذب پڑھے لکھے لوگ ہی بلائے جاتے ہیں) بڑے جوش و خروش سے پاکستان کو ایسے حملوں کا نشانہ بنانے کی تائید کی۔نیز جب ایک ای میل کے ذریعے کشمیر کی لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد بنانے کی تجویز آئی تو بی جے پی کے نائب وزیر خارجہ دج وی جے سنگھ نے نفرت اور غصے سے یہ اعلان کیا کہ ہمیں پورا کشمیر چاہیے ‘محض لائن آف کنٹرول کو سرحد نہیں مان سکتے!

یہ وہ ذہنیت ہے جو تعلقات کی راہ میں سدّ سکندری کی طرح حائل ہے۔ پاکستان میں بھی بھارت کے خلاف شعلہ بیانیاں کرنے والے موجود ہیں لیکن بحیثیت مجموعی پاکستان کی ریاست‘ اس کی کسی بھی حکومت اور اہم سیاسی قیادت نے ریڈکلف ایوارڈ کی ساری زیادتیوں اور حق تلفیوں کے باوجود‘ بھارت کے کسی علاقے پر کوئی دعویٰ نہیں کیا اور کشمیر کے مسئلے کے سوا جو متنازعہ ہے‘ ہمارے درمیان سیاسی جغرافیے کے بارے میں کوئی جھگڑا نہیں۔ پاکستان بھارت کو کھلے دل سے تسلیم کرتا ہے البتہ برابر کی خودمختار حیثیت کی بنیاد پرمعاملہ کرنا چاہتا ہے‘ جب کہ بھارت پاکستان کو جسم میں کانٹے کی حیثیت دیتا ہے اور ایک باج گزار ملک کی حیثیت سے دیکھنا چاہتا ہے بلکہ اپنا ہی کٹا ہوا انگ قرار دیتا ہے۔

پہلا مسئلہ جس پر حقیقت پسندی کے ساتھ افہام و تفہیم کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو برابری کے ساتھ تسلیم کرنا اور نظریاتی اور تہذیبی اختلاف کو تحقیر کی نظر سے نہیںاحترام کی نظر سے دیکھنے کی روایت ڈالنا ہے۔ دو قومی نظریہ جو ہماری ریاست کی بنیاد ہے‘ ان کی نگاہ میں وہی   بِس کی گانٹھ ہے۔ نظریاتی اور تہذیبی اختلاف کو وہ معتبر ماننے کو تیار نہیں اور یہی ان کی عدم رواداری بلکہ جارحیت کا منبع ہے۔ اگر اختلاف کو معتبرمان کر برابری کی بنیاد پر دوستی کی بات ہو تو پاکستان اس کے لیے کافی حد تک آگے (more than half way) جانے کے لیے تیار ہے اور اس میں پاکستان کی تمام سیاسی اور دینی قوتوں میں کوئی اختلاف نہیں۔ البتہ بھارت کو اپنا نظریاتی اور تہذیبی تسلط قائم کرنے کا رویہ ترک کرنا ہوگا‘ اسے ہماری سیاسی اور تہذیبی شناخت کے مبنی برحق ہونے پر حرف گیری ختم کرنا ہوگی اور علاقے میںاپنی اپنی تہذیبی و ثقافتی انفرادیت کی بنیاد ایک دوسرے سے تعاون کی روایت مستحکم کرنا ہوگی۔ ثقافتی اور معاشی رشتے--- محض  اعتماد بحال کرنے کے اقدامات نہیں---صرف اسی وقت بارآور ہوسکتے ہیں جب تعلقات برابری اور احترام کی بنیادوں پہ استوارہوں ورنہ یا ان پر نفاق کا سایہ ہرلمحہ موجود رہے گا یا پھر  وہ سامراجی اور برتری اور کمتری کے کسی نہ کسی فریم ورک کے اسیر رہیں گے جو صحت مند اور باوقار تعاون کے منافی ہے۔

دوسرا بنیادی اور کلیدی مسئلہ جموں و کشمیر کی ریاست کے مستقبل سے متعلق ہے۔ دستور‘ قانون اور بین الاقوامی عہدوپیمان ہر اعتبار سے کشمیر کا پورا علاقہ ایک متنازعہ علاقہ ہے جو تقسیم ملک کے ایجنڈے کا نامکمل حصہ ہے۔ بھارت صرف قوت سے ریاست کے بڑے حصے پر قابض ہے اور شملہ معاہدہ کے بعد اس کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے دھوکے سے سیاچین پر بھی قابض ہو گیا ہے۔ سیاچین یا وولربیرج یا سر کریک کے مسائل کوئی مستقل بالذات مسائل نہیں ہیں‘ مسئلہ کشمیر ہی کا ایک حصہ ہیں۔ کشمیری عوام نے ہر دور میں اور خاص کر گذشتہ چودہ سالوں میں سیاسی اور عسکری جدوجہد کے ذریعے بھارت سے اپنی مکمل علیحدگی (alienation) کا بھرپوراظہار کردیا ہے۔ یہ حقیقت دنیا کے سامنے ہے جس کی شہادت ۶۰‘۷۰ ہزار افراد نے اپنے خون سے دی ہے کہ نہ وہ بھارت کا حصہ ہیں اور نہ ان کے لیے کوئی ایسا انتظام قابلِ قبول ہے جس میں وہ بھارت کے دستور کے تحت ہوں۔ انھیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے اور جو حق شمالی آئرلینڈ اور مشرقی تیمور کو دیا گیا ہے‘ وہی ان کو دیا جائے تاکہ وہ اپنی آزاد مرضی سے اپنے مستقبل کو طے کرسکیں۔

مسئلہ کشمیر کے تین فریق ہیں: پاکستان‘ بھارت اور جموں و کشمیر کے عوام۔ اور مسئلے کا کوئی حل اس کے سوا نہیں کہ یہ تینوں کھلے دل سے مذاکرات کریں۔ حق خود ارادیت اور تقسیم ہند کے طے شدہ اصولوں کی روشنی میں آج کے حالات کے مطابق ریاست کے عوام کو اپنا مستقبل طے کرنے کا آزادانہ موقع دیں اور اس کے تفصیلی عملی طریق کار کو باہمی مشاورت سے خود طے کریں یا غیرجانب دار عالمی انتظام کے تحت اس کا راستہ نکالیں۔

مذاکرات کا موضوع یہی دونوں کلیدی معاملات ہیں اور مذاکرات کا ہدف ان دونوں معاملات کے مبنی برحق اور افہام و تفہیم سے طے ہونے والے متفقہ لائحہ عمل کو ہونا چاہیے۔بیرونی دبائو‘ قوت کے مظاہرے اور سیاسی عجلت پسندی سے ایسے بنیادی مسائل نہ ماضی میں طے ہوئے ہیں اور نہ آج ہوسکتے ہیں۔ ’’کچھ کر دکھانے‘‘ کا جذبہ اور نوبل انعام کا مستحق بننے کی خواہشات خواہ کتنی ہی دل پسند ہوں‘ تاریخی حقائق اور عوامی خواہشات کا بدل نہیں ہوسکتیں۔ ڈپلومیسی کے کتنے ہی راستے (tracks) کیوں نہ ہوں‘زمینی حقائق اور جموں و کشمیر کے عوام کی خواہشات اور ان کے حصہ لینے ہی سے مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ روڈمیپ اسی وقت مفید ہو سکتا ہے جب روڈ ہو--- اور روڈ صرف ایک ہے‘ یعنی بین الاقوامی معاہدات کے مطابق استصواب رائے۔ اس کا کوئی شارٹ کٹ نہیں۔ جموں و کشمیر کے عوام نے جس تاریخی شعور کا مظاہرہ کیا ہے‘ بیرونی تسلط کے خلاف جس جرأت‘ استقلال سے مزاحمت کی تاریخ رقم کی ہے‘ آزادی کے لیے قربانیوںکا جو نذرانہ پیش کیا ہے اور غیرمنصفانہ سمجھوتے کے ہر راستے کو جس طرح رد کیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ ان کو اپنے مستقبل کو طے کرنے کا موقع دیا جائے۔ نیز بھارت اور پاکستان دونوں کو‘ اگر وہ مسئلے کا حل چاہتے ہیں‘ وہ راستہ اختیار کرنا چاہیے جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر کے عوام اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنا مستقبل طے کر سکیں اور جو فیصلہ بھی وہ کرلیں اسے کھلے دل سے قبول کر لیا جائے۔ اس سلسلے میں پاکستانی عوام اور جموں و کشمیر کے عوام کے درمیان مکمل یک جہتی ہے اور پاکستانی حکومتیں بھی اسی موقف کو اپنا اصولی موقف اور قومی پالیسی قرار دیتی رہی ہیں۔ اگر ۵۵ سال ہم اس پر قائم رہے ہیںتوکوئی وجہ نہیں کہ آج اس سے انحرف کر کے کوئی اور راستہ اختیار کیا جائے۔ دوستی وہی پایدار اور مستحکم ہوسکتی ہے جو حقائق اور انصاف پر مبنی ہو۔ دبائو یا مصلحت کے تحت ہونے والے معاملات تارِ عنکبوت کی طرح ہوتے ہیں اور زندہ قومیں وقتی مصلحتوں کی خاطر اصولی موقف ترک نہیں کیا کرتیں۔

آج پاکستان کی قیادت اور قوم دونوں کا امتحان ہے کہ وہ ایک نسبتاً معاندانہ بین الاقوامی ماحول میں بھی کس حد تک ایمان‘ استقامت اور تاریخی شعور کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ مذاکرات ضرور کیجیے اور جتنی بار موقع ملے‘ کیجیے لیکن تاریخی حقائق ‘ اصول انصاف اور اہل کشمیر کے حق پر سمجھوتہ کرنے کے ظلم سے اپنے دامن کو بچائے رکھیے۔ تاریخ کا سبق ہے کہ کبھی ایک قوم کسی دوسری قوم کو محض قوت اور جبر سے ہمیشہ کے لیے مغلوب نہیں رکھ سکی ہے۔ فرعون کے دور میں بنی اسرائیل سے لے کر دورِ جدید کے استعماری نظام کے زیرتسلط اقوام کی تاریخ تک اس پر شاہد ہے: ولن تجد لسنۃ اللّٰہ تبدیلا، اور اللہ کی سنت بدلا نہیں کرتی۔ وقت ہمارے ساتھ ہے‘ ضرورت یکسوئی‘ صبر اور استقامت کی ہے۔


پاکستانی قوم اور قیادت دونوں کے لیے ضروری ہے کہ بھارت کی تازہ نام نہاد دوستی اور مذاکرات کی پیش کش کے اصل مقاصد اور اہداف کا ٹھیک ٹھیک ادراک کرے۔ نیز امریکہ کا اس علاقے اور خصوصیت سے چین‘ بھارت اور پاکستان کے سلسلے میں کیا منصوبہ اور پالیسی ہے اس کا بھی گہری نظر سے جائزہ لے اور تاریخی حقائق کی روشنی میں تجزیہ کرے۔ پھر اپنے قومی مفادات اور علاقے کے بارے میں اپنے وژن کی روشنی میں پالیسی کے مقاصد طے کرے‘ ان کے حصول کی حکمت عملی کا تعین کرے اور ان پر موثرانداز میں عمل کرنے کے لیے نقشہ کار مرتب کرے۔ اس وقت جنرل پرویز مشرف‘ وزیراعظم ظفراللہ جمالی‘وزیرخارجہ خورشید محمود قصوری اور شیخ رشیداحمد جس نوعیت کے اور جس رفتار سے بیانات دے رہے ہیں ان سے ژولیدہ فکری‘ عجلت پسندی‘ رومانوی توقعات اور آج تک کی اس پالیسی سے عملی انحراف کے واضح خطوط نظر آرہے ہیں جس پر ملک میں اتفاق رائے تھا۔ ایک طرف اصولی موقف میں عدم تبدیلی کا دعویٰ ہے اور دوسری طرف وہ سب کچھ کہا اور کیا جا رہا ہے جس کا اس اصولی موقف سے کوئی علاقہ نہیں بلکہ اس سے صریح انحراف ہے۔ یہ صورت حال بڑی خطرناک ہے۔

یہ سب کچھ بڑی حد تک ایک فردِ واحد کے اشارہ چشم و آبرو پر ہو رہا ہے‘ نہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا گیا ہے اور نہ کسی معقول اور موثر قومی سطح کی افہام و تفہیم کا اہتمام کیا گیا ہے۔ دوسری طرف ملک پر امریکی قیادت کی یلغار ہے اور ہدف محض ۱۱ ستمبر اور نام نہاد عالمی دہشت گردی ہی نہیں‘ پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر کا امریکی منصوبے کے مطابق ’’حل‘‘ یا بہ الفاظ صحیح تر ’’تحلیل‘‘ بھی ہے‘ اس لیے ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ قوم کے سامنے ان چاروں پہلوئوں یعنی بھارت کے اہداف‘ امریکہ کا منصوبہ‘ پاکستانی قیادت کی لچک اور منتشرخیالی اور اقبال اور قائداعظم کے وژن کے مطابق مسئلہ کشمیر پر اصل قومی موقف اور اس کے حصول کے لیے صحیح حکمت عملی کے بارے میں ضروری گزارشات پیش کریں۔

بھارت نے آگرہ کے بعد کشمیر کے بارے میں اپنی پرانی حکمت عملی کو ایک نیا رنگ دیا۔ ایک طرف ریاستی تشدد میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ پوٹا (POTA)کے ذریعے کشمیری قیادت کی زبان بندی اور ان کو دہشت گردی کے نام پر حراست اور تشدد کا نشانہ بنانے کی جارحانہ پالیسی پر عمل شروع کیا تو دوسری طرف پاکستان کو عالمی برادری میں تنہا (isolate) کرنے کے لیے سفارتی مہم تیز تر کی اور تیسری طرف جموں و کشمیرمیں نئے انتخابات کا ڈھونگ رچا کر نیشنل کانفرنس کی جگہ نئے چہروں کو پرانا سیاسی کردار ادا کرنے پر مامور کیا۔ اس زمانے میں ۱۱ ستمبر کا واقعہ پیش آیا اور بھارت نے اس کے سہارے امریکہ سے رشتے کو مضبوط تر کرنے‘امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ نیا گٹھ جوڑ قائم کرنے اور دہشت گردی کے خلاف مہم میں امریکہ کا دست راست بننے اور پاکستان کو کارنر کرنے کی بازی چلی۔ پاکستان نے امریکہ کو اپنا کندھا پیش کردیا‘ اس سے بھارت اپنے تمام مقاصد تو حاصل نہیں کر سکا البتہ تین مقاصد حاصل کرنے میں وہ کامیاب ہوگیا۔ پہلا: امریکہ سے strategic partnership‘ جب کہ ہم سے صرف tactical alliance ہے۔ دوسرا: اسرائیل سے قریبی تعاون‘ پالیسی میں باہمی ربط‘ انٹیلی جنس کی شراکت اور مشترک فوجی ٹریننگ کے نظام کا قیام ۔اور تیسرا: کشمیر میں تحریک آزادی کو دہشت گردی کی صف میں شامل کرانا۔

اس میں سب سے افسوس ناک اور ناقابلِ فہم رویہ جنرل پرویز مشرف صاحب کا رہا جنھوں نے ۱۱ستمبر کے سلسلے میں امریکہ سے تعاون بلکہ امریکہ کے آگے سپرڈالنے کے موقع پر دعویٰ کیا تھا کہ یہ سب کچھ انھوں نے تین ضمانتوں کے ساتھ کیا ہے‘ یعنی اول: افغانستان میں امریکی ایکشن مختصر اور متعین اہداف تک محدود ہوگا‘ دوم: کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کے موقف کا تحفظ اور سوم: پاکستان کے strategic resources یعنی ایٹمی صلاحیت کا دفاع۔ لیکن صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ تینوں ضمانتیں پادر ہوا ثابت ہوئیں اور ایک ایک کرکے ہر بات کی نفی ہوگئی۔ افغانستان میں آج تک خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے اور خون خرابے کے اس سلسلے کی کوئی انتہا نظر نہیں آرہی۔کشمیر کے سلسلے میں جنوری اور پھر مئی ۲۰۰۳ء میں جنرل صاحب نے پسپائی اختیار کی اور ’سرحد پار دراندازی‘ مجاہد تنظیموں پر پابندی اور پاکستان کی سرزمین کے نام نہاد دہشت گردی کے لیے استعمال نہ کیے جانے کی ضمانت‘ یہ سب کچھ انھوں نے خود طشتری پر رکھ کر امریکہ اور بھارت کو دے دیا اور اس کے ساتھ یہ بھی گردان جاری رہی کہ اصولی موقف میں تبدیلی نہیں کی گئی۔

اس پورے معاملے کا سب سے نقصان دہ پہلو یہی ہے کہ جنگ آزادی اور دہشت گردی کا اصولی اور مسلمہ فرق نظرانداز کر دیا گیا اور بھارت اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے شاطرانہ کھیل میں پروپیگنڈے کی حد تک کامیاب رہا۔ واجپائی صاحب اپنی اس کامیابی کا اظہاربھارتی پارلیمنٹ میں ۸ مئی ۲۰۰۳ء کو یوں کرتے ہیں:

میں نے بڑی کامیابی کے ساتھ عالمی برادری کوقائل کر لیا ہے کہ پاکستان کو کشمیر میں دراندازی روکنی چاہیے۔

بھارت مسئلہ کشمیر اور پاک بھارت تعلقات کے باب میں جس مسئلے کو سب سے اہم اور کلیدی سمجھتا ہے وہ ’سرحد پار دہشت گردی‘ ہے اور امریکہ کے صدر‘ سیکرٹری آف اسٹیٹ اور ان کے پورے طائفے نے بھارت کی ہاں میں ہاں ملائی ہے اور بالآخر جنرل پرویز مشرف سے یہ یقین دہانی حاصل کر لی ہے کہ ’’پاکستان کی طرف سے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پار کرنے کی اجازت یا موقع کسی کو نہ دیا جائے اور یہ کہ آزاد کشمیر میں کشمیری مجاہدین کا کوئی کیمپ نہیں اور اگر کوئی ہیں تو وہ کل ختم کر دیے جائیں گے‘‘۔ یہ امریکی نائب وزیرخارجہ رچرڈ آرمٹیج کے الفاظ ہیں۔

۱۸ اپریل ۲۰۰۳ء کو واجپائی صاحب نے اس شاعرانہ انداز میں کہ ’’منہ پھیرکر اِدھر کو‘ اُدھر کو بڑھائے ہاتھ‘‘ سری نگر سے پاکستان کے لیے دوستی کا سندیسہ دیا جس پر پاکستان کی قیادت بغلیں بجا رہی ہے اور ان کی ’’سنجیدگی اور خلوص‘‘ کے گیت گا رہی ہے۔ لیکن واجپائی صاحب نے ۸ مئی کو اپنی پارلیمنٹ میں صاف الفاظ میں اعلان کر دیا کہ ’’جموں و کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے اور نئے حالات میں بھی رہے گا۔ اب تقسیم کا زمانہ نہیں اس لیے کشمیر کی بھی تقسیم نہیں ہوگی۔ کشمیرہم سے کوئی چھین نہیں سکتا‘‘۔ نیز یہ بھی کہ سرحد پار دراندازی بندکرنا ہوگی۔ اس کے بغیر مذاکرات کے لیے ماحول سازگار نہیں۔ اور وہی پرانی بات کہ بھارت مرحلہ بہ مرحلہ  (step by step) اپروچ پر کاربند ہوگا جس کے معنی یہ ہیں کہ پہلے اعتماد بحال کرنے والے اقدام (سی بی ایم) ہوں‘ تجارت بڑھے‘ بھارت کو انتہائی پسندیدہ ملک (most favoured nation) کا مقام دیا جائے‘ ہوائی راستے کھولے جائیں‘ ثقافتی تبادلے ہوں۔ پھر باقی امور پر بات چیت ہوگی۔ یہی لفظ بہ لفظ وہ حکمت عملی ہے جس پر بھارت ۱۹۴۹ء سے مصر ہے۔ شملہ معاہدے میں اسی کو بنیاد بنایا گیا تھا۔ دو طرفہ گفتگو کا وعدہ کیا گیا تھا مگر ۱۹۷۲ء اور ۱۹۹۹ء کے درمیان ۴۵ بار بھارت اور پاکستان کے نمایندے ملے‘ جن میں ایک تجزیے کے مطابق چھ بار اور دوسرے کے مطابق آٹھ بار کشمیر کا نام لیا گیا‘ مگر فی الحقیقت صرف ایک بار۔ وہ بھی ۱۹۹۴ء میں جب مقبوضہ کشمیر میں جہادی تحریک اپنے عروج پر تھی‘ عملاً بات چیت ہوئی جو حسب توقع نتیجہ خیز نہ ہوئی۔ یہ ہے بھارت کی حکمت عملی اور اس کا ریکارڈ۔

۱۸ اپریل کی پیش کش کے بعد واجپائی‘ ایڈوانی‘ جارج فرنانڈس اور یشونت سنہا   سب نے بعینہٖ وہی بات کہی ہے جو پہلے سے کہتے چلے آ رہے ہیں حتیٰ کہ فرنانڈس نے ۱۷ مئی کو   سری نگر میں صاف کہا ہے سیزفائرکا سوال نہیں۔ ایڈوانی نے ۹ مئی کو پارلیمنٹ میں کہا ہے کہ:

میں ان (واجپائی) کے ساتھ بالکل متفق ہوں۔ اگر دہشت گردی کا انفراسٹرکچر ختم نہ کیا گیا تو پاکستان کے ساتھ کوئی دوستی نہیں ہو سکتی۔

بھارتی پارلیمنٹ کے اس اجلاس میں پوری بھارتی قیادت نے بشمول واجپائی ۱۹۹۴ء کے پارلیمنٹ کے ریزولیوشن پر قائم رہنے کا اعادہ کیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ جموں و کشمیر کی پوری ریاست بشمول آزاد کشمیر بھارت کا حصہ ہے اور ریاست کی تقسیم کا کوئی سوال ہی نہیں۔ پارلیمنٹ میں کہا گیا کہ پاکستان سے مذاکرات کی بنیاد ۱۹۹۴ء کا یہ ریزولیوشن ہوگا۔ انھی باتوں کا اعادہ ۱۹ مئی کو بھارتی وزیرخارجہ یشونت سنہا نے کیا ہے۔ اس سب کے باوجود ہمارے وزیراعظم‘ وزیرخارجہ اور وزیراطلاعات بھارت کی سنجیدگی اور خلوص کی باتیں کر رہے ہیں اور کشمیر کے مسئلے کے حل کی نوید سنا رہے ہیں بلکہ اس مژدہ جانفزا کی متوقع تاریخ پیدایش کے بارے میں بھی اشارے کر رہے ہیں حالانکہ بھارت کی قیادت اپنے موقف اور حکمت عملی سے سرمو ہٹتی نظر نہیں آرہی    ؎

دیکھ مسجد میں شکستِ رشتہ تسبیح شیخ

ار بت کدے میں برہمن کی پختہ زناری بھی دیکھ

بھارت کی حکمت عملی کا اگر تجزیہ کیا جائے تو اس کے اہم نکات یہ معلوم ہوتے ہیں:

۱-  دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی عالمی جنگ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان پر اتنا دبائو کہ وہ جہاد کشمیر اور تحریکِ مزاحمت سے دست کش ہو جائے اور عملاً اسی قسم کا یوٹرن کرا لیا جائے جس طرح افغانستان میں ۲۰۰۱ء میں ہوا۔

۲-  پاکستان کو مرحلہ وار راستے پر ڈال کر ہوائی سفر‘ تجارت‘ ثقافت اور دوسرے میدانوںمیں بھارت کے اہداف حاصل کرنے کے لیے مجبور کیا جائے۔

۳-  امریکہ اور اسرائیل سے اپنے تعلقات کو مضبوط کرکے ایک موثر اتحاد: امریکہ اسرائیل بھارت محورکے طور پر قائم کیا جائے اور کشمیر میں خونی حکمت عملی جاری رکھی جائے جس پر اسرائیل فلسطین میں عمل پیرا ہے۔ اس کے لیے صرف اسرائیلی انٹیلی جنس کا تعاون نہیں‘ بلکہ اسرائیلی حربے (tactics) اور ٹکنالوجی دونوں کو استعمال کیا جائے۔

۴-  پاکستان کو غیر جانب دار (neutralize)کر کے ریاستی قوت اور تشدد کے ذریعے (واضح رہے کہ ۱۸ اپریل کے بعد بھارت نے گن شپ ہیلی کاپٹر استعمال کیے ہیں اور ایک ہی ہلّے میں ۵۶ افراد شہید کیے ہیں) کشمیر کی تحریک مزاحمت کو پاکستان سے مایوس کر کے نرمی اور سختی (carrot and stick) کی پالیسی کے تحت بھارت کے دستور کے تحت  خودمختاری کے نام پر کسی انتظام کو قائم کر دیا جائے اور اس کے لیے امریکی اور عالمی تائید حاصل کرلی جائے۔

۵-  لائن آف کنٹرول کوعملاً سرحد بنا دیا جائے البتہ پاکستان پر دبائو جاری رکھا جائے کہ آزاد کشمیربھی بھارت کے زیرتسلط کشمیر کا حصہ ہے۔

۶-  اگر اس میں کامیابی ہو جائے تو پھر کشمیر کی معاشی ترقی کے نام پر کشمیر سے پاکستان آنے والے دریائوں پر بجلی اور زراعت کے لیے بند (dams) بنائے جائیں اور پاکستان کو اس کے پانی سے محروم کر کے شدید معاشی دبائو کاشکار کیا جائے۔

۷-  امریکی اور اسرائیلی تائید سے بالآخر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کے لیے مستقل نشست حاصل کی جائے‘ مستقل نشست کی بنیاد پر اپنی ایٹمی صلاحیت کو تحفظ دیا جائے اور پاکستان کی ایٹمی طاقت کی حیثیت ختم (de-nuclearize) کرنے کے امریکی منصوبے کے لیے عالمی دبائو استعمال کیا جائے۔

۸-  بالآخر علاقے پر بھارت کی بالادستی قائم کی جائے اور پاکستان کو یا توکسی نوع کی  کنفیڈریشن میں لایا جائے یا کم از کم سیاست‘ تجارت‘ ثقافت اور میڈیا کے ذریعے تقسیم کی لائن کو عملاً غیرموثر بنا دیاجائے۔ اس کے لیے پاکستان کو ایک جمہوری اور سیکولر ملک بنانے کے لیے دبائو ڈالا جائے۔

یہ ہے بھارت کا وہ عظیم منصوبہ جس پر عمل کا آغاز ۱۸ اپریل کی دوستی کی پیش کش سے ہوا ہے۔ ورنہ کسی پہلو سے بھی بھارت کے رویے میں کوئی ایسی تبدیلی نہیں آئی ہے جس سے مسئلہ کشیر کو کشمیر کے عوام کی مرضی کے مطابق حل کرنے اور پاکستان سے بھارت کے تعلقات دو آزاد مساوی ممالک کی حیثیت سے استوار ہونے کا کوئی اشارہ بھی ملتا ہو    ؎

نہ وہ بدلے‘ نہ دل بدلا‘ نہ دل کی آرزو بدلی

میں کیسے اعتبار انقلابِ آسماں کر لوں


امریکہ کے اہداف اور عزائم کے بارے میں ہمیں کوئی شبہہ نہیں ہوناچاہیے۔ بلاشبہہ افغانستان پر اپنے حملے میں اس نے دل کھول کر پاکستان کو استعمال کیا۔ اور ہم نے عملاً امریکہ کی ایک کالونی کی حیثیت سے اپنے کو استعمال ہونے دیا۔ اسی ہفتے امریکہ کی سنٹرل کمانڈ کی جو رپورٹ شائع ہوئی ہے اس نے وہ تمام تفصیلات دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دی ہیں جن پر آج تک پردہ پڑا ہوا تھا۔ امریکہ نے پاکستان سے ۵۷ ہزار اڑانیں (sorties)کیں اور ملک کو اس دوستی اور تعاون میں ۱۰ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اہل پاکستان اس بارے میں کسی شک میں نہ تھے لیکن اس خدمت کے باوجود پاکستان‘ اس کے نیوکلیر اثاثہ جات اور مسلمانوں کا جذبۂ جہاد امریکہ کی موجودہ قیادت کی آنکھوں میںکانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ صدر جارج بش نے ریاض اور دارالبیضاکے واقعات کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جن ملکوں تک پہنچنے کا اعلان کیا ہے‘ ان میں شام‘ کوریا‘ ایران‘ صومالیہ‘ سعودی عرب‘ کینیا کے ساتھ پاکستان کا نام نامی بھی موجود ہے۔

بھارت اور اسرائیل اس وقت امریکہ کے اہم ترین اتحادی (strategic partners) ہیںاور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اس کی نگاہ میں ایک ناقابلِ برداشت خطرہ ہے۔ ایک طرف دوستی کے دعوے ہیں اور دوسری طرف  سی آئی اے نے برعظیم کا جو نقشہ جاری کیا ہے اس میں بھارت کے زیرقبضہ کشمیر کو ’انڈین اسٹیٹ آف جموں و کشمیر‘ کہا گیا ہے‘ جب کہ آزاد کشمیر کو Pakistan controlled areas of Kashmir قرار دیا گیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ آنکھیں کھول دینے والی وہ قرارداد ہے جو ۷ مئی ۲۰۰۳ء کو امریکی کانگریس کے ایوان نمایندگان کی  بین الاقوامی تعلقات کمیٹی نے متفقہ طور پر منظور کی ہے۔ اور جس میں امریکی صدر سے کہا گیا ہے کہ:

کانگریس کو بتائیں کہ پاکستان سرحد پار دہشت گردی ختم کرنے ‘آزاد جموں و کشمیر میں دہشت گردی کیمپ ختم کرنے اور جوہری پھیلائو روکنے کے دعووں کو کس حد تک پورا کر رہا ہے۔

یہ اس سے بھی زیادہ بدتر‘ شرم ناک اور جارحانہ قرارداد ہے جو پریسلر نے افغان جہاد کے آخری ایام میں منظور کرائی تھی اور جس کے تحت ۱۹۸۹ء سے پاکستان کے خلاف امریکی  پابندیاںلگائیگئی تھیں۔

امریکہ کا ہدف پاکستان کو بے بس (corner) کرنا‘اس کی ایٹمی صلاحیت پر قابو حاصل کرنا اور مسلمانوں کے اندر سے روح جہاد کو کمزور اور بالآخر ختم کرنا ہے۔ خود ملک میں سیکولر نظریات کا فروغ اور لادین قوتوں کی تائید و تقویت اس کا حصہ ہے۔ موجودہ قیادت امریکہ پر اعتماد اور اس سے دوستی کا ایک خطرناک کھیل کھیل رہی ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ نہ توامریکہ سے دوستی کی تاریخ سے کوئی سبق سیکھ رہی ہے اور نہ عالم اسلام کے بارے میں امریکہ کے موجودہ عزائم کا اسے کوئی شعور و ادراک ہے۔

ان حالات میں قوم کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیںکہ اس قیادت پر بھروسا نہ کرے اور اپنے مفاد اور اپنے دین و ایمان‘ ثقافت و تمدن اور سلامتی کے تحفظ کے لیے خود موثر اقدام کرے۔ ہمیں خطرہ ہے کہ ایل ایف او کے معاملے میں جو خطرناک کھیل برسرِاقتدار قوتیں کھیل رہی ہیں وہ بھی علاقے کے لیے امریکی عزائم سے غیرمتعلق نہیں۔ فوج جسے کبھی قوم کی مکمل تائید حاصل تھی اور جس کا آج بھی موٹو ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ ہے‘ اسے عوام کے اعتماد سے محروم کیا جا رہا ہے اور ایسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں کہ قوم اور فوج ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار نہ ہوں بلکہ باہم دست و گریباں اور تصادم کا شکار ہو جائیں۔ جو بالآخر پاکستان کی سلامتی کو کمزور کرنے کا باعث اور علاقہ میں قوت کا توازن بھارت کے حق میں کرنے پر منتج ہوسکتا ہے۔


جنرل پرویز مشرف اور مرکزی حکومت کے دوسرے ذمہ دار حضرات کے چند بیانات کی طرف ہم اشارہ کر چکے ہیں۔ ان بیانات میں تضاد اور انتشار فکری کا سماں نظر آتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان بیانات میں بھارت اور امریکہ کی موجودہ قیادت کے بارے میں خوش خیالیوں اور خوش فہمیوں کی اتنی کثیر مقدار دیکھی جا سکتی ہے جس کی کوئی توجیہ سفارتی آداب کے نام پر نہیں کی جا سکتی۔ ایک طرف اصولی موقف پر استقامت کا دعویٰ ہے‘ کشمیر کی مرکزی حیثیت کا اعلان ہے‘ تقسیم کشمیر اور لائن آف کنٹرول کو سرحد بنانے سے برأت کا اظہار ہے تو دوسری طرف کبھی ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کی بات ہے، اور کبھی ان کی تقریروں اور تحریروں میں’’پاکستان یا کشمیر؟‘‘ جیسے فتنہ انگیز جملے یا اعلان کی بھی بازگشت ہے۔ اسی طرح feelerکے طور پر چناب پلان کا ذکر ہے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے بارے میں سہل انگاری کا رویہ ہے‘ جہاد پر معذرت اور جنگ ِ آزادی اور دہشت گردی کے فرق کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ ہے‘ جہادی تنظیموں پر پابندیاں اور مجاہدین کے کیمپوں سے گلوخلاصی کی باتیں ہیں۔ کبھی کشمیر کے مسئلے کے حل کے بغیر تجارت کا لفظ سننے کے لیے تیار نہ تھے اور اب ’’تجارت اورثقافت پہلے‘‘ کے بھارتی مطالبے پر سجدہ ریز ہیں--- اور ان سب پر مستزاد بھارت کے مذاکرات کے ۵۵ سالہ ناکام تجربات اور امریکہ کی دوستیوں اور بے وفائیوں کی الم ناک تاریخ کے باوجود‘ دونوںسے خوش فہمی اور خوش اعتقادی کا ایسا اظہار ہے جو خود فریبی کی حدود کو چھونے لگتا ہے۔ اگر یہ سب ناتجربہ کاری اور پاک ہند تاریخ اور امریکہ کی دو سو سالہ کارگزاریوں سے ناواقفیت کی بنیاد پر ہے تو سخت خطرناک ہے اور اگر اس زعم پر مبنی ہے کہ جو قائداعظم اور آج تک کی قیادت نہیں کرسکی وہ ہم کر دکھائیں گے تو اس کا نام خود اعتمادی نہیں‘ خودفریبی ہے۔ اس پس منظرمیں ضروری ہوگیا ہے کہ قوم اور موجودہ قیادت کے سامنے چند بنیادی حقائق کو بلاکم وکاست رکھ دیا جائے اور پارلیمنٹ‘ سیاسی اور دینی قوتوں اور ملک کے بالغ نظرصحافیوںاور دانش وروں سے درخواست کی جائے کہ وہ اجتماعی احتساب کے ذریعے قیادت کو راہِ ثواب سے نہ ہٹنے دیں۔

۱-  پہلی اہم ترین بات یہ ہے کہ مذاکرات میں اصولی موقف پر ذرا سی بھی لچک نہایت خطرناک ہو سکتی ہے۔ اگر ہمارا موقف مبنی برحق ہے اور بین الاقوامی قانون‘اقوامِ متحدہ کی قراردادیں‘ یو این او اور غیر جانب دار تحریک (NAM) کا چارٹر اور بھارت اور پاکستان کی قیادتوں کے وعدے (commitments) اور سب سے بڑھ کر جموں اور کشمیر کے عوام کی کھلی تائید ہمارے موقف کے حق میں ہے تو پھر ہمارے لیے کسی قسم کی بھی کمزوری دکھانے اور انصاف کی راہ سے پیچھے ہٹنے کا کیا جواز ہوسکتا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ محض زمین کا تنازع نہیںہے‘ یہ ایک اصولی مسئلہ ہے اور ایک کروڑ ۴۰ لاکھ انسانوں کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے۔ مرور زمانہ سے یہ حق نہ کمزور پڑتا ہے اور نہ پادر ہوا ہو جاتا ہے۔ قومیں اس کے لیے برسوں نہیں‘ صدیوں لڑتی ہیں۔ اور کشمیری عوام نے اپنے خون کی گواہی دے کر حصولِ آزادی کے عزم کا ایسا مظاہرہ کیا ہے جس کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ یہ سیاسی جنگ کے ساتھ اعصابی جنگ بھی ہے اور اس میں فتح اسی کا مقدر ہے جو اپنے موقف پر ڈٹا رہے اور اعصاب کی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرے۔معاشی ترقی اور دفاع پر اخراجات کا ہّوا دکھا کر جو لوگ پسپائی کی باتیں کرتے ہیں وہ حقائق سے آنکھیں چراتے ہیں۔

معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہماری غلط معاشی پالیسیاں‘ بدانتظامی اور کرپشن ہیں اور سود پر حاصل کیے جانے والے قرضوں کی جونکیں ہیں جو ملک کی معیشت کے خون کو چوس رہی ہیں۔ مرکزی حکومت کی محصولات سے حاصل ہونے والی آمدنی کا نصف‘ اس سود کی نذر ہو جاتا ہے ‘ جب کہ دفاعی اخراجات بجٹ کا صرف ۳۰ فی صد ہیں۔ معاشی ترقی کے ان متوالوں کو ترقی کا دشمن یہ bottom less sink نظرنہیں آتا اور نہ اپنی غلط کاریاں اور عیاشیاں دکھائی دیتی ہیں۔ نزلہ کشمیر اور اس کی تابناک جنگ ِ آزادی پر گرتا ہے۔ یہ خلط مبحث نہیں تو اور کیا ہے؟ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کی بات بھی کی جاتی ہے مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ کشمیر کے بغیرپاکستان نامکمل اور خالص اسٹرے ٹیجک اور معاشی اعتبار سے شدید خطرے میں (vulnerable)ہے۔ اگر کشمیر بقول قائداعظم‘پاکستان کی شہ رگ ہے تو پاکستان اور شہ رگ میں فرق کیسے کیا جا سکتا ہے؟ قائدعظم نے تو کشمیر میں ۲۸ اکتوبر ۱۹۴۷ء ہی کو پاکستان کی فوجیں بھیجنے کے احکام جاری کر دیے تھے مگر افسوس کہ اس وقت کے برطانوی کمانڈر ان چیف نے ان کو ماننے سے انکار کر دیا اور خود مرکزی کابینہ کے کوتاہ نظر ارکان نے قائد کی رائے کے خلاف فیصلہ دیا۔ قائداعظم نے چودھری غلام عباس کو خود یہ بتایا کہ:

اس کے بعد میں نے کابینہ کا اجلاس طلب کر کے یہی تجویز اپنے رفقا کے سامنے رکھ دی۔ لیکن تم جانتے ہو کہ کیا نتیجہ نکلا؟ کابینہ نے میری تجویز مسترد کر دی۔ اس لیے کشمیر کے معاملے میں ہم نہ صرف صحیح بس کھو بیٹھے بلکہ غلط بس میں بٹھائے گئے۔

کشمیر کے جہاد آزادی نے ایک بار پھر قوم کو صحیح بس کا پتا بتایا مگر آج کی قیادت ۱۹۴۷ء کی کابینہ کی طرح پھر وہی غلطی کرنے پر تلی ہوئی ہے حالانکہ قائداعظم نے اس فاش غلطی کے باوجود یہی کہا تھا:

لیکن کچھ بھی ہو کشمیر کے متعلق مایوسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا۔ ان شاء اللہ ہم کشمیر لے کر رہیںگے (ملاحظہ ہو: کشمیری مسلمانوںکی جدوجہد آزادی‘ ۱۸۹۴ء سے ۱۹۴۷ء تک‘ از پروفیسر محمد سرور عباس‘ صفحہ ۴۵۴-۴۵۵)

۲-  دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ بھارت سے مذاکرات میں کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب بھارتی قیادت کی نفسیات‘ ان کے مذاکراتی حربوں اور چالوں سے واقفیت ہو۔ برطانوی دور میں جس طرح قائداعظم نے کانگریس سے معاملات طے کیے ہیں اس کی تاریخ سے آگاہی ضروری ہے۔ پاکستان بھارت مذاکرات کی دل خراش داستان کے نشیب و فراز جاننا بھی ناگزیر ہے۔ قائداعظم نے ہندو مسلم اتحاد کے لیے کیا کیا جتن نہ کیے لیکن بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اپنا راستہ الگ بنائے بغیر‘ کوئی چارئہ کار نہیں۔ قائداعظم نے شیخ عبداللہ کو بہت سمجھایا لیکن اُس وقت اس نے ان کی ایک نہ سنی اور پھر اسے خود اعتراف کرنا پڑا کہ بھارت کی قیادت کی سیاست کس طرح دھوکے اور عیاری پر مبنی ہے۔ شیخ عبداللہ کی خودنوشت کا مطالعہ اس پہلو سے چشم کشا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اور جناب ظفراللہ جمالی کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ سمجھ سکیں کہ بھارت سے کس طرح معاملہ کرنا چاہیے۔

قائداعظم نے بھارتی قیادت کی دوغلی سیاست سے شیخ عبداللہ کو جولائی ۱۹۴۴ء میں ان الفاظ میں آگاہ کیا تھا:

شیخ عبداللہ! میںنے اپنے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کیے ہیں۔ تمھیں باپ کی حیثیت سے سمجھا رہا ہوں۔ وقت آئے گا تو تم مجھے یاد کرو گے۔

شیخ عبداللہ اس وقت تو قائد کی نصیحت کو نہ سمجھے لیکن پنڈت نہرونے‘ جو ان کے جگری دوست بھی تھے نے جب چانکیا سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیریوں کے حق خود ارادیت اور استصواب سے برأت کا اعلان کیا تب شیخ عبداللہ کو ان کی سیاست کا اصل چہرہ نظر آیا۔ ۱۳سال بھارت کی جیل میں گزارنے کے بعد ۱۹۶۸ء کے ایک انٹرویو میں وہ کہتے ہیں:

ہندستان نے عارضی شمولیت کا وعدہ توڑ کر یہ اعلان کر دیا کہ کشمیر ہندستان کا حصہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ میںنے پریشان ہوکر نہرو سے جو آزادی اور جمہوریت کے بہت بڑے علم بردار تھے‘ کہا کہ ہندستان کے وہ وعدے کیا ہوئے جو اس نے عارضی شمولیت کے بعد کیے تھے۔ جواب میں پنڈت نہرو نے کہا: ’’شیخ محمد عبداللہ! وہ سب تو تماشا تھا‘‘ اور میں بیان نہیں کر سکتا کہ پنڈت نہرو کا جواب سن کر مجھے کتنی حیرت ہوئی‘ میرا دل کس بری طرح ٹوٹ کر چکنا چور ہوگیا۔ (ماہنامہ شبستان‘ دہلی)

بھارت سے مذاکرات کرنے والی ہر ٹیم کو یہ تاریخ نظر میں رکھنی چاہیے۔

۳-  بھارت سے مذاکرات میں سب سے بڑا جال (trap) مرحلہ بہ مرحلہ اپروچ اور مسائل پر الگ الگ بات چیت ہے۔ یہی کھیل فلسطین میں اسرائیل اور امریکہ نے کھیلا ہے اور یہی اب کشمیر میں کھیلا جانے والا ہے۔ اصل مسئلے کو مؤخر کرنا اور جزوی معاملات پر کچھ لو اور کچھ دو کا رویہ اختیار کرنا وہ خطرناک سانپ ہے جو مسئلے کے حل کے ہر امکان کو ہڑپ کر جائے گا اور حاصل کچھ نہ ہوگا۔ بھارت سے معاملہ کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے اوروہ یہ کہ کشمیر میں  تحریکِ مزاحمت کا دبائو ناقابلِ برداشت ہو جائے‘ عالمی دبائو جس حد تک ممکن ہو موثر بنایا جائے‘ پاکستان دفاعی حیثیت سے مستعد ہو اور تمام متعلقہ امور پر ایک جامع منصوبے کے ذریعے معاملات کو طے کیا جائے۔ اس سے ہٹ کر راستہ کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو کا راستہ ہے جس کا انجام ہماری زمین پر مخالف کا قبضہ‘ دائمی محکومی اور پاکستان کو ٹکڑے کر کے غیر موثر حصوں میں تقسیم کرنا (balkanization) ہے۔ فلسطین کی زبوں حالی سے اگر کوئی سبق ملتا ہے تو وہ یہ ہے کہ جزواً جزواً (piecemeal) معاملات سے احتراز کیا جائے اور جامع منصوبے (comprehensive package) پر اصرار کیا جائے ‘ خواہ اس میں کتنا بھی وقت لگے۔

۴-  چوتھا مسئلہ اعتماد بحال کرنے والے اقدامات (سی بی ایم) کا ہے۔ لیکن ہمارے لیے اعتماد مضبوط کرنے والے اصل عوامل اور اقدامات وہ نہیں جن کا مطالبہ بھارت کر رہا ہے اور ہررعایت اور نرمی کے بعد ھل من مزید کی پکار لگاتا ہے بلکہ وہ ہیں جو جموں اور کشمیر کے عوام اور تحریکِ آزادی کے جانبازوں کے اعتماد کو مضبوط کریں اور انھیں مزید حوصلہ دیں۔ آج ہماری حکومت ہر وہ اقدام کر رہی ہے جس سے کشمیر کے عوام مایوس ہوں‘ مجاہدین آزادی کی ہمتوں پر اوس پڑے اور بھارت کے ایوانوں میں خوشی کے چراغ روشن ہوں۔ اس سے زیادہ غیرحقیقت پسندانہ اور تباہ کن حکمت عملی کوئی نہیں ہوسکتی اور قوم تحریکِ آزادی پر ضرب لگانے والے ان اقدامات پر حکومت اوران عناصرکو جو ان کی تائید کر رہے ہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ ہم کو اس وقت ماضی سے بڑھ کر اس سے یک جہتی کا اظہار کرنا چاہیے اور انھیں جدوجہد تیز تر کرنے کا حوصلہ دینا چاہیے۔ ہمیں عالمی راے عامہ اور اپنی خارجہ سیاست کو اس رخ پر موڑنا چاہیے کہ بھارت فی الفور پوٹا (POTA)جیسے جابرانہ قوانین کو منسوخ کرے جن پر ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی سخت احتساب کیا ہے‘ ریاستی تشدد کو روکے‘ فوجوں اور بارڈر سیکورٹی فورس اور اسپیشل فورس جن کو ختم کرنے کا وعدہ خود مفتی نے انتخابات کے موقع پر کیا تھا کو فوراً ختم کرے‘ تمام اسیروں کو رہا کرے اور عوام کو سیاسی آزادی دے تاکہ وہ کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کرسکیں۔

اگر آج بھارت مذاکرات کی بات کررہا ہے تو وہ اس لیے نہیں کہ اس کی سوچ میں تبدیلی آگئی ہے یا امریکہ کے دبائو میں ایسا کر رہا ہے بلکہ اصل دبائواگر کوئی ہے تو وہ جموں و کشمیر کے عوام کی جدوجہد آزادی کا ہے۔ بھارت نے دیکھ لیا ہے کہ ۷ لاکھ فوج اور اربوں روپے کو آگ لگا دینے کے باوجود وہ اس تحریک کو کمزور نہیں کر سکا ہے۔ جو لولے لنگڑے اور  طے شدہ نتائج حاصل کرنے والے انتخابات پچھلے سال جموں و کشمیر میں ہوئے تھے وہ بھی دراصل بھارت کے اقتدار اور اس کی قتلِ کشمیر میں شریک نیشنل کانفرنس کے خلاف تھے‘ کسی مفتی یا کسی کانگریس کے حق میں نہ تھے۔آج اگر پاکستان کی عاقبت نااندیش قیادت کے مختلف اقدامات سے  تحریکِ آزادی کشمیر کمزور ہوتی ہے تو یہ ایک ناقابل معافی جرم ہوگا۔ اصل ضرورت ایسے اقدامات (سی بی ایم) کی ہے جو اس تحریک کو تقویت دیں۔ یہی وہ چیز ہے جو بھارت کو مذاکرات اور بالآخر اصل مسئلے کے حل پر اسی طرح مجبور کرے گی‘ جس طرح گذشتہ صدی میں دنیا کے ۱۵۰ ممالک میں آزادی کی تحریکات نے کیا۔ آخر جب ۱۹۴۵ء میں اقوامِ متحدہ قائم ہوئی ہے تو اس میں شریک ممالک کی تعداد صرف ۴۵ تھی اور آج یہ ۱۹۲ ہے جس میں سے بیشتر نے لڑکر اپنی آزادی حاصل کی ہے۔ اور یہی جذبہ کشمیر میں آج بھی موجزن ہے۔ اسی ہفتے حریت کانفرنس کے اجلاس میں حریت کے قائدین ہی نہیں بلکہ کشمیرٹائمز کے ہندو ایڈیٹر تک نے مجاہدین کو خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا ہے وہ ہماری قیادت کے لیے چشم کشا ہوسکتا ہے۔   اے ایف پی کی رپورٹ ہے:

ہندو اکثریتی علاقے جموں کے ایک معروف دانش ور ویدبھاسن نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل عوام کی خواہشات کے مطابق ہونا چاہیے۔ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیریوں کو کرنا ہے‘ نہ کہ بھارت یا پاکستان کو۔ اگر آپ آزادی کا نصب العین حاصل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو جدوجہد کو جاری رکھنا ہوگا‘ اتحاد برقرار رکھنا ہوگا‘ اور تحریک کو مثبت سمت دینا ہوگی۔ انھوں نے کہا: آزادی کے لیے لڑنے والوں کو اپنے مقصد میں کامیابی کے لیے امریکہ یا کسی ملک پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آپ کو مدد طلب ہی کرنا ہے تو دنیا کے لوگوں سے طلب کیجیے نہ کہ مختلف ملکوں کی حکومتوں سے۔ (دی نیوز‘ ۲۰ مئی ۲۰۰۳ئ)

اصل میدان جموں و کشمیر ہے‘ اسلام آباد یا دہلی نہیں۔ اور جو بھی اس مقصد سے مخلص ہے اسے ایسے اقدامات کی فکر کرنی چاہیے جو جہاد آزادی کی تقویت کا باعث ہوں۔

۵-  ہمارا ایک بڑا اہم محاذ خود ملک کی راے عامہ کو متحرک کرنا اور اسے اتنا قوی کرنا ہے کہ حکومت وقت کوئی غلط اقدام نہ کر ڈالے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکمران بڑی عجلت میں ہیں اور امریکہ جو کبھی ۲۰۰۴ء کی بات کرتا ہے اور کبھی ۲۰۰۵ء کی‘ اس کے چکر میں یہ حضرات ایک تاریخی جدوجہد کو مصلحتوں کے پتھر سے پاش پاش کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان کے قدم روکنا اور تحریک کو اس کے اصل مقاصد کے لیے جاری رکھنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

۶-  ایک اہم کام عالمی راے عامہ تک اصل حقائق پہنچانا اور اسے کشمیر کی جدوجہد آزادی کے حق میں ہموار کرنا ہے۔ غضب ہے کہ یکم جون کو ہونے والی جی-ایٹ کے سربراہی اجلاس میں بھارت کو دعوت دی گئی ہے جہاں وہ نام نہاد سرحد پار دہشت گردی کا  مسئلہ اٹھانے کے دعوے کر رہا ہے اور ہماری وزارتِ خارجہ خوابِ غفلت کا شکار ہے۔ ہم اصل حقائق بھی دنیا کے سامنے رکھنے سے قاصر ہیں حالانکہ یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف قرارداد منظور کی ہے اور جنیوا میں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے صاف الفاظ میں جدوجہد آزادی کی حمایت کی ہے۔ سیکورٹی کونسل کی صدارت کے باوجود ہم مسئلہ اٹھانے میں شرما رہے ہیں حالانکہ اس وقت ایک عالم گیر سفارتی مہم کی ضرورت ہے جس میں ہمارے سفارت کاروں کے ساتھ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کے نمایندوں کو بھی شریک کرکے دنیا کو حقائق سے آگاہ کرنا ناگزیرہے۔

۷-  آخری بات یہ کہ ہماری قیادت اقبال اور قائداعظم کا نام صبح و شام لیتی ہے لیکن ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے اور ان کے وژن کے مطابق پاکستان کی تعمیرسے مجرمانہ تغافل برتتی ہے۔ اقبال نے کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں نمایاں حصہ لیا تھا اور یہ راستہ دکھا دیا تھا کہ جہاد آزادی ہی کے ذریعے کشمیر اپنا حق حاصل کر سکتا ہے۔ اقبال اور قائداعظم نے کشمیر اور پاکستان کے ناقابلِ انقطاع تعلق کو واضح کر دیا تھا۔ ان کی وصیت ہی یہ ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر کوئی سمجھوتا نہ کیا جائے بلکہ اپنی شہ رگ کو دشمن کے چنگل سے آزاد کیا جائے۔ ہم ان اشارات کو اقبال اور قائداعظم کے تاریخی الفاظ پر ختم کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم اور اس کی قیادت ‘خصوصیت سے مذاکرات کرنے والے تمام افراد سے درخواست کرتے ہیں کہ ان الفاظ کو حرزِ جان بنالیں اور قائد کے اس وژن سے ہٹ کر ہرگز کوئی سمجھوتا نہ کریں۔

علامہ اقبال نے تقسیم ہند سے ۱۵سال قبل کشمیر اور پاکستان کے رشتے کو یوں واضح کیا تھا:

کشمیر کا مسئلہ تمام مسلمانان ہندستان کی سیاسی حیات اور موت کا مسئلہ ہے۔ اہل کشمیر سے ناروا سلوک‘ ان کی جائز اور دیرینہ شکایات سے بے اعتنائی اور ان کے سیاسی حقوق کا تسلیم نہ کرنا‘ مسلمانانِ ہند کے حقوق کو تسلیم کرنے سے انکار ہے۔ حق بات بھی یہی ہے کہ اہل خطہ کشمیر ملت اسلامیہ کا جزولاینفک ہے۔ ان کی تقدیر کو اپنی تقدیر نہ سمجھنا تمام ملت کو تباہی و بربادی کے حوالے کر دینا ہے۔ اگر مسلمانوں کو ہندستان میں ایک مضبوط و مستحکم قوم بننا ہے تو دو نکتوں کو ہر وقت ذہن میں رکھنا ہوگا۔ اول یہ کہ شمال مغربی سرحدی صوبے کو مستثنیٰ کرتے ہوئے حدود ہند کے اندر جغرافیائی اعتبار سے کشمیر ہی وہ خطہ ہے جو مذہب اور کلچر کی حیثیت سے خالصتاًاسلامی ہے۔ دوسری بات جسے مسلمانان ہند کبھی نظرانداز نہیں کر سکتے یہ ہے کہ ان کی پوری قوم میں سب سے بڑھ کر اگر صناعی و ہنرمندی اور تجارت کو بخوبی پھیلانے کے جوہر نمایاں طور پر کسی طبقے میں موجود ہیں تو وہ اس خطے کا گروہ ہے۔ بہرحال وہ قوم اسلامی ہند کے جسم کا بہترین حصہ ہیں۔ اگر وہ حصہ درد و مصیبت میں مبتلا ہے تو یہ ہو نہیں سکتا کہ باقی افراد ملت فراغت کی نیند سوجائیں۔ (بحوالہ کشمیری مسلمانوں کی جدوجہد آزادی‘ ص ۴۷۱)

اور قائداعظمؒ نے اس سلسلے میںجو بات کہی وہ حرفِ آخر کا درجہ رکھتی ہے۔

کشمیر کا مسئلہ نہایت نازک مسئلہ ہے لیکن اس حقیقت کو کوئی انصاف پسند قوم اور ملک نظر انداز نہیں کر سکتا کہ کشمیر تمدنی‘ ثقافتی‘ جغرافیائی‘ معاشرتی اور سیاسی طور پر پاکستان کا ایک حصہ ہے۔ جب بھی اور جس نقطہ نظرسے بھی نقشے پر نظرڈالی جائے گی یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ کشمیر سیاسی اور دفاعی حیثیت سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کوئی ملک اور قوم اسے برداشت نہیں کر سکتی کہ اپنی شہ رگ کو دشمن کی تلوار کے نیچے دے۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ ایک ایسا حصہ جسے پاکستان سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے یہ کہتے ہوئے قطعاً کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ ریڈکلف ایوارڈ میں مسلمانوں کے ساتھ دھوکا کیا گیا۔ (ایضًا‘ص ۴۷۲)