جون ۲۰۰۳

فہرست مضامین

کتاب نما

| جون ۲۰۰۳ | کتاب نما

Responsive image Responsive image

 

دینی مدارس میں تعلیم ‘ مرتبہ: سلیم منصور خالد۔ ناشر: انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز‘ مرکز ایف سیون‘ اسلام آباد۔ صفحات: ۴۷۲ مع اشاریہ۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

اس کتاب کے مرتب نے علامہ محمد اقبال کے ملفوظات سے چند جملے نقل کیے ہیں‘ جن میں علامہ‘ دینی مدارس کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے‘ کہتے ہیں کہ ان مکتبوں (مدرسوں) کو اسی حالت میں رہنے دو۔ غریب مسلمانوں کے بچوں کوانھی مکتبوں میں پڑھنے دو۔ اگریہ مُلّا اور درویش نہ رہے‘ تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہوگا‘ میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں۔ اگر ہندستان کے مسلمان ان مکتبوں سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح‘ جس طرح ہسپانیہ میں‘ ۸۰۰برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ وقرطبہ کے کھنڈروں اور الحمرا کے سوا اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا‘ یہاں بھی تاج محل اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوںکی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا (ص ۱۹)۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ آزادی اور سرخ و سفید استعمار کے خلاف مزاحمت کی جدوجہدمیں‘ انھی مدرسوں کے درویش پیش پیش رہے ہیں۔ اشتراکیوں کو یہ صدمہ نہیں بھولتا کہ ان کی ذلّت آمیز شکست اور روسی سامراجی امپائرکے انہدام میںبنیادی کردار انھی مدرسوں کے ملّائوں کا ہے۔ دوسری طرف سرمایہ دارانہ سامراج کو بھی بخوبی اس حقیقت کا ادراک ہوچکا ہے کہ    ؎

ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اُس اُمت سے ہے

جس کی خاکستر میں ہے‘ اب تک شرارِ آرزو

چنانچہ نائن الیون کی سازش‘ اسامہ کی گرفتاری کے لیے افغانستان پر یلغار اور پھر خطرناک ہتھیاروں کی تلاش کے بہانے عراق پر قبضہ اسی ضمن میں پیش بندیوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔

بدقسمتی سے ہمارے اندر بھی ایک گروہ ایسا ہے جو حقیقت ِحال کا ادراک کیے بغیر یا پھر بدنیتی یا اپنی لادینی افتادِ طبع کی وجہ سے دینی مدرسوں کے خلاف ہنود ویہود اور استعماری طاقتوں کی اس اسلام دشمن سازش میں شامل ہوگیا ہے کہ دینی مدرسوں کو بند کر دیا جائے یا انھیں طرح طرح کی جکڑبندیوں میں کس کر بے موت مرنے کے لیے چھوڑ دو۔

زیرنظر کتاب‘ دینی مدارس اور ان کے تعلیمی نظام پر منتخب مضامین کا ایک عمدہ اور جامع مجموعہ (anthology) ہے۔ کتاب چار حصوں پر مشتمل ہے۔ اوّل: نہایت جید‘ مخلص صاحبان فکرونظرکے علمی خطبات۔ دوم: دینی مدارس میں تعلیمی و تدریسی عمل کے پہلوئوں اور انتظامی عناصرترکیبی پر گزارش۔ سوم: دینی مدارس کی شماریاتی تصاویر اور ارتقا کی کیفیت۔ چہارم: دینی مدارس کے نصابیاتی عمل پر مشتمل ضمیمہ جات (یہ حصہ تقابلی مطالعے کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے)۔

اس زمانے میں دینی مدارس کے موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ سلیم منصورخالد نے رطب و یابس اور مناظرہ و مجادلہ سے قطع نظر کرتے ہوئے‘ موضوع کو علمی سطح پر پیش کیا ہے۔ چنانچہ  اس مطالعے میں دینی تعلیم کی خوبیوں کے ساتھ اس کے کمزور پہلو بھی سامنے آتے ہیں اور   اصلاحِ احوال کی بہت سی بنیادی تجاویز پر بھی بحث کی گئی ہے (ممکن ہے اس پر کچھ اپنے بھی ناخوش ہوں)۔ لیکن ہمیں بقول اقبال: ’’اپنے عمل کا حساب‘‘ کرنے سے گھبرانا نہیں چاہیے۔

اپنے موضوع پر اس جامع دستاویز کے مطالعے سے دینی مدارس میں تعلیم کی نوعیت‘ ماہیت اور مسائل کے بہت سے چھپے ہوئے گوشے بھی سامنے آتے ہیں۔ پروفیسر خورشید احمد کے الفاظ میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ’’دینی نظام تعلیم کی خوبیوں‘ خامیوں اور اصلاح طلب پہلوئوں کا پوری بالغ نظری سے تجزیہ کر کے اصلاح احوال کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں‘‘۔ زیرنظرکتاب ایسی کوششوں میں نہایت مفیدومعاون اور مددگار ثابت ہوگی۔

مؤلف نے جس محنت و کاوش‘ تلاش و جستجو اور مہارت و سلیقے کے ساتھ اسے مرتب کیا ہے‘ اس کی داد نہ دینا بے انصافی ہوگی۔ کتاب کی پیش کش خوب صورت اور معیاری ہے اور قیمت نسبتاً کم ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)


A Brief Study of the Holy Quran ] قرآن پاک کا ایک مختصر مطالعہ[ ‘ پروفیسر شفیق احمد ملک۔ ناشر: طارق برادرز‘ ۵-پہلی منزل‘ جلال الدین ٹرسٹ بلڈنگ‘ اُردوبازار‘ لاہور۔ صفحات: ۱۹۱۔ قیمت: ۱۰۰ روپے۔

قرآن کے زندہ معجزات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دنیا کے ہر حصے میں اس کے پیغام کو سمجھنے اور اس کے مفہوم کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشش برابر جاری ہے۔

پروفیسر شفیق احمد ملک نے رُبع صدی سے زائد عرصہ اسلامیہ کالج لاہور میں انگریزی زبان کی تدریس کی ہے۔ اب انھوں نے انگریزی تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم طلبہ کے لیے مختصر مطالعۂ قرآن کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ سب سے پہلے سورہ کے مرکزی مضامین کا تعارف کرایا گیا ہے‘ پھر ہررکوع کے مضامین کا مختصر مفہوم اور خلاصہ۔ اس کام میں انھوں نے معروف اُردو تفسیروں کے علاوہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی شہرہ آفاق تفسیر تفہیم القرآن کے تازہ ترین انگریزی ترجمے (از ظفراسحاق انصاری) سے بھی استفادہ کیا ہے۔

مصنف‘ دقیق علمی بحثوں اور باریکیوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے‘ ایک رُکوع کے مرکزی موضوع کو تقریباً ایک صفحے میں سمیٹ دیتے ہیں۔ مذکورہ مطالعے کی پہلی جلد میں    سورۂ فاتحہ سے سورۂ یوسف تک ۱۲ سورتیں شامل ہیں۔ ہر سورہ کا تعارف انتہائی باریک خط میں ہے‘ نسبتاً بڑے خط میں ہونا چاہیے تھا۔ مکۃ المکرمہ کے لیے MECCA کی بجاے MAKKAH لکھنا مناسب ہے۔ صلوٰۃ کا اُردو متبادل NAMAZ لکھا گیا ہے۔ مناسب ہوتا کہ SALAT لکھا جاتا۔

مجموعی طور پر کاوش قابلِ تحسین اور وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ انگریزی دان طبقے خصوصاً نوجوان طالب علموں کے لیے یہ ایک مفید اور لائق مطالعہ کتاب ہے۔ (محمدایوب منیر)


یاد نامۂ دائودی‘ مرتبین: تحسین فراقی‘جعفر بلوچ۔ ناشر: دارالتذکیر‘ غزنی سٹریٹ‘ اُردو بازار‘ لاہور۔ صفحات: ۳۰۶۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔

جناب خلیل الرحمن دائودی (۱۹۲۳ئ-۲۰۰۲ئ) ادبی تحقیق اور مخطوطہ شناسی میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔ اُردو ‘عربی اور فارسی زبانوں پر اچھی قدرت رکھتے تھے۔ اُن کی عمر کا بیشترحصہ مخطوطات کی تلاش‘ جانچ پرکھ‘ اُن کی ترتیب و تدوین اور خرید و فروخت میں گزارا۔ اُن کی کاوشوں سے متعدد پبلک اور قومی کتب خانوں میں گراں بہا مخطوطات کے ذخائر جمع ہوئے۔ زیرنظرکتاب‘ اُن کے سوانحی خاکے کے ساتھ‘ اُن کی شخصی خوبیوںاور علمی و تحقیقی کارناموں کا ایک عمدہ تعارف پیش کرتی ہے۔

دائودی صاحب کی شخصیت کا قابلِ قدر پہلو یہ تھا کہ وہ علمی کام کرنے والوں سے نہایت محبت و شفقت اور فیاضی کے ساتھ پیش آتے تھے۔ کسی اسکالر کی ضرورت کی کتاب یا مخطوطہ اسے بلاتامل اور بلامعاوضہ دے دیتے۔ اکثر فرماتے: ’’میں ہر کتاب پر اس شخص کا حق سمجھتا ہوں جس کی اسے ضرورت ہو‘‘۔ اُن میں ایک خوبی یہ تھی کہ ہر خط کا جواب فوراً دیتے۔ اگر شب میں یاد آتا کہ فلاںخط کا جواب نہیںگیا تو اپنی اس کوتاہی پر افسوس کرتے۔ وہ ’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ کے قائل تھے۔ کہا کرتے تھے: ’’دورِحاضر کے ڈپریشن کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے توقعات وابستہ کرلیتے ہیں۔جب توقعات پوری نہیں ہوتیں تو دماغی اور جسمانی امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔ اس لیے صلے کی توقع کے بغیر کام کریں اور نیکی کر کے بھول جائیں۔ توقعات وابستہ کرو گے اور وہ پوری نہ ہوںگی تو مایوس اور افسردہ ہوکر بیمار ہوجائو گے۔ اگر لوگ حقوق العباد کا خیال رکھیں تو معاشرے میں بدامنی اور بے چینی نہیں ہوگی۔ (ص ۲۱)

یہ کتاب مرحوم کے دوستوں اور احباب (ڈاکٹر وحید قریشی‘ محمد اکرام چغتائی‘ محمداقبال مجدّدی‘ عارف نوشاہی اور تحسین فراقی وغیرہ) کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ کتاب کے دوسرے حصے میں دائودی مرحوم کی چند منتخب اُردو اور انگریزی تحریریںاور عکسِ تحریر شامل ہے۔ کتاب میں    متعدد تصاویر کے علاوہ دائودی صاحب کی تصانیف کی فہرست‘ ان کے چند خطوط اور ان کے نام خطوطِ مشاہیر شامل ہیں۔ یہ کتاب دائودی صاحب کی شخصیت کا ایک دل کش نقش اور ان کے علمی کارناموں کا عمدہ تعارف پیش کرتی ہے۔ اشاعتی پیش کش اچھی ہے۔ اعترافِ خدمات کی روایت میں مرتبین نے قابلِ تحسین اضافہ کیا ہے۔ ( ر - ہ)


دنیا جن سے روشن ہے‘ مرتب: ڈاکٹر نثار احمد قریشی۔ ناشر: پنجابی ادبی سنگت‘ ۲۶۲-محمدنگر‘ مرزا روڈ‘ اٹک کینٹ۔ صفحات: ۱۴۴۔ قیمت: ۳۰۰ روپے۔

برعظیم پاک و ہندکے چند نامور ادیبوں اور ماہرین تعلیم کے ۲۴ مضامین کا مجموعہ‘ جس میں اپنے اپنے اساتذہ کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے۔ نسلِ نو کی تعمیرمیں استاد کا ہمیشہ نہایت اہم کردار رہا ہے اور انسان کی اپنی کاوش سے استاد کی تربیت زیادہ اہم ہوتی ہے۔ مذکورہ مجموعے میں سیدابوالحسن علی ندوی‘ ڈاکٹر محمد باقر اور ڈاکٹر مشتاق الرحمن صدیقی کے علاوہ متعدد دیگر اہل قلم کی تحریریں شامل ہیں۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ اساتذہ کرام کس طرح اپنا علمی ورثہ آنے والی نسلوںتک منتقل کرتے ہیں۔ ہر مضمون سبق آموز ہے اور تاریخ ساز اساتذہ کی زندگی کے کسی نہ کسی پہلو پر روشنی ڈالتا ہے۔

انتساب مؤلف کے استاد ڈاکٹر وحید قریشی کے نام ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ مؤلف کا اپنے کسی استاد کے بارے میں کوئی مضمون اس میں شامل نہیں ہے جو بآسانی وہ لکھ سکتے تھے۔ یقینا وہ کسی نہ کسی یا بعض اساتذہ سے ضرور متاثر ہوئے ہوں گے۔ اساتذہ اور طلبہ کے لیے یہ ایک معلوماتی ‘ دل چسپ اور مفید کتاب ہے مگر قیمت زیادہ معلوم ہوتی ہے۔ (م - ا -م)


Making Connections ‘مولفین: پروفیسر خواجہ محمد صدیق‘ ڈاکٹر عبدالمجید خان۔ اہتمام و اشاعت: اسلامک ایجوکیشن فائونڈیشن‘ رچمنڈ‘ ورجینیا‘ امریکا۔ صفحات: ۱۷۵۔ قیمت: درج نہیں۔

تعلیم و تربیت وہ بنیادی سانچا ہے جس کے ذریعے نسلوں کی تعمیر یا تخریب کا کام ہوتا ہے۔ اس میدان میں الٰہیات و اخلاقیات سے بغاوت جیسے تخریبی کاموں کے لیے تو دنیا بھر کے خزانوں  کے منہ کھلے ہوئے ہیں‘ لیکن ان کے مقابلے میں تعمیری کاوشوں سے منسلک افراد‘ وسائل کی قلت اور مہارت میں کمی کے ہاتھوں مجبور دکھائی دیتے ہیں‘ تاہم اس قلّت و کمی کے باوجود وہ اسکول قائم کر کے چیلنج کا ایک حد تک جواب دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان اسکولوں میں تربیت یافتہ اساتذہ کی فراہمی کے ساتھ ایک اہم مسئلہ نصابی کتب کی تیاری اور پیش کش کا بھی ہے۔ یہ کام  مشکل‘ نازک اور مہنگا ہے۔ انتخاب‘ معیار اور ابلاغ میں سے کوئی ایک کڑی ٹوٹ جائے تو نصاب کا دامنِ درس تار تار ہو جاتا ہے۔

زیرتبصرہ کتاب‘ دسویں تا بارھویں جماعت (یا ۱۵ سے ۱۷ برس عمر) کے بچوں کے لیے مرتب کی گئی ہے۔ اس کے سرورق پر لفظ connections مرکزیت کا حامل ہے۔ کنکشن یا تعلق کس سے؟ مولفین نے ۱۵ ابواب میںنصف صداحادیث رسولؐ میں پوشیدہ: تربیت‘ حکمت‘تدبر‘ رہنمائی اور عمل کی کرنوں کو حد درجہ خوب صورتی سے بزبان انگریزی پیش کیا ہے۔ مسلمانوں کی وہ  نسلِ نو‘ جو دارالکفرمیں زندگی گزاررہی ہے یا پھر پاکستان جیسے عملاً سیکولر ملک کے انگریزی زدہ اسکولوں میں زیرتعلیم ہے‘ اُس کے لیے یہ کتاب ایک موجِ نور ہے۔

اس کتاب کو ایک شان دار انتخاب‘ پیشہ ورانہ نصابی مہارت کا مظہر اور پراثر پیش کش کا مرقع کہا جا سکتا ہے۔ دل چسپی رکھنے والے افراد ویب سائٹ www.isgr.com پر رابطہ کرکے معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔(سلیم منصورخالد)


ذکرِماں‘ ڈاکٹر کیپٹن غلام سرور شیخ۔ ناشر: سارا سرور پبلشرز‘ ۱۷‘۱۸ گل فشاں کالونی‘ جھنگ روڈ‘ فیصل آباد۔ صفحات: ۲۲۹۔ بلاقیمت۔

ماں جیسی عظیم ہستی کا تصور کرتے ہی انسان (خواہ وہ عمر کے کسی بھی مرحلے میں ہو) خود کو بچہ محسوس کرنے لگتا ہے۔ ماں کی رحمت و شفقت کائنات میں مثالی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وہ عظیم ہستی ہے جو اپنے بچوں کی پرورش کے لیے طرح طرح کی تکالیف اٹھاتی اور مشکل سے مشکل مرحلے کو بھی حوصلے اور صبر کے ساتھ برداشت کرتی ہے۔

زیرتبصرہ کتاب میں اس عظیم المرتبت ہستی کے بارے میں بھرپور معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ ان معلومات کو کل نو ابواب میںتقسیم کیا گیا ہے۔ باب اول (قرآنِ حکیم اور ذکرِماں)میں قرآن مجید کی ان تمام آیات کے تراجم کو سورت کے حوالے کے ساتھ جمع کیا گیا ہے جن میں ماں کا ذکر آیا ہے۔ دوسرا باب (رسولؐ کا فرمان اور ذکرِماں)میں احادیث مبارکہ کو یکجا کیا گیا ہے۔

مابعد ابواب میں پیغمبران اسلام کی جلیل القدر مائوں‘ اُمہات المومنین اور اپنی مائوں کے بارے میں اسلامی تاریخ کے متعدد علما و زعما‘ مثلاً: امام بخاریؒ، امام غزالیؒ، اویس قرنیؒ،امام شافعیؒ، علامہ اقبالؒ، سرسیداحمد خاںؒ، قائداعظمؒ، سیدابوالاعلیٰ مودودی ؒاور مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے خیالات و احساسات یکجا کیے گئے ہیں۔ ایک حصے میں ماں کے بارے میں مشاہیر عالم کے اقوال شامل ہیں۔ پھر اس موضوع پر اُردو اور پنجابی شعرا کی نظمیں اور اشعار بھی جمع کر دیے گئے ہیں۔

مصنف کو ’’ماں‘‘ کے موضوع سے ایک جذباتی وابستگی ہے اور انھوں نے کتاب محنت اور لگن کے ساتھ مرتب کی ہے مگر یہ پہلو اجاگر نہیں ہوسکا کہ ماں کو اس قدر اُونچا مقام و مرتبہ کیوں دیا گیا ہے؟ (اس لیے کہ نہ صرف ولادت‘ بلکہ رضاعت‘ پرورش اور تربیت کے مراحل میں وہ انتہائی ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ وغیرہ) اسی طرح ص ۸۰ کے آخری پیرا‘ ص ۸۸ کی سطور ۱۲‘ ۱۳--- اور ص ۸۹ کی سطور ۲‘ ۳پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ مجموعی طور پر کتاب دل چسپ اور قابل مطالعہ ہے۔ آخر میں کتابیات بھی شامل ہے۔ سرورق بہت سادہ اور جاذبِ نظر ہے۔ مولف اسے دوسری بار چھاپ کر مفت تقسیم کررہے ہیں۔ (شایستہ ہاشمی)


انسان دوستی اور جمہوریت (مغربی اور اسلامی تناظر میں)۔ مصنف: ڈاکٹر سیدعبدالباری۔ ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز‘ نئی دہلی۔ صفحات: ۷۲۔ قیمت: ۲۵ روپے۔

عہدِحاضر میں جمہوریت (democracy) اور انسان دوستی (humanism) نہایت کثرت کے ساتھ استعمال ہونے والی وہ اصطلاحات ہیں جو ہمارے ہاں مغرب سے آئی ہیں اور ہم نے بلاسوچے سمجھے محض ذہنی مرعوبیت کی بنا پر ان دل کش اصطلاحات کو‘ ان کے مغربی تصورات سمیت اپنا لیا ہے۔ ڈاکٹر سید عبدالباری نے زیرنظرمختصر اور نہایت عالمانہ اور جامع مقالے میں ان پُرفریب اصطلاحات کی اصلیت پر روشنی ڈالی ہے۔ بتایا ہے کہ مغرب میں انسان دوستی کی نشوونما مذہب سے بے زاری اور مذہب سے بغاوت کے ماحول میں ہوئی اور انسان دوستی کو اس لیے تمام مادی اور معاشرتی ترقیات کا ضامن قرار دے دیا گیا کہ مذہب سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔   دل چسپ بات یہ ہے کہ خدا پرستوں اور منکرین خدا دونوں نے یورپ میں انسان دوستی پر اپنا دعویٰ ثابت کیا ہے۔

مصنف نے ہندستانی فکروفلسفے کی روشنی میں انسان دوستی کی روایت پر مختصراً روشنی ڈالی ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ اسلام میں انسان دوستی کا حقیقی تصور کیا ہے؟ دوسرے باب میں جمہوریت کے مغربی تصورات اور جدید ہندستان میں جمہوریت کے تجربے پھر جمہوریت کے اسلامی تصور پر بحث کی ہے۔ آخر میں یہ بتایا ہے کہ مغرب کی بے خدا جمہوریت اور انسان دوستی کے مقابلے میں اسلام میں ان کے کیا امتیازی خصائص ہیں۔ مصنف کے خیال میں دورِحاضر کے مسائل کے حل میں انسان دوستی اور جمہوری تصورات بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں (اس سلسلے میں ایک مثال انھوں نے بھارت کی بھی دی ہے)۔ چونکہ اسلام میں شورائیت‘ احتساب اور جواب دہی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اس لیے انسان دوستی اور جمہوریت کی وہی صورت انسانیت کو حقیقی معنوں میں تحفظ ِ جان اور تحفظ ِمال و آبرو کی ضمانت فراہم کرسکتی ہے‘ جو اسلام نے پیش کی ہے۔ (ر-ہ)


توبہ کا تصور اور مومنین ‘خواجہ غفور احمد۔ ناشر: ۱۸۹‘ گلشن بلاک‘ علامہ اقبال ٹائون‘ لاہور-۵۴۵۷۰۔ صفحات: ۵۱۔ قیمت: درج نہیں۔

انسان اور حیوان کے درمیان حدِفاصل‘ نیکی اور گناہ کا احساس اور خالق کائنات کے سامنے توبہ کا تصور ہے۔ اسلام کے سوا دیگر مذاہب میں توبہ کا تصور نہ صرف ایک پہیلی ہے‘ بلکہ شاید عقل و عدل کے بھی منافی ہے۔ زیرنظر تحریر اسلام کے تصور توبہ و مغفرت کو پیش کرتی ہے۔ جس کا اسلوب دل چسپ اور توبہ و مغفرت کی طرف رغبت دلاتا ہے۔ مصنف نے قرآن و حدیث سے رہنمائی کے ساتھ دیگر آثار سے بھی کسبِ فیض کیا ہے۔

کتاب کی ہیئت ایک مربوط تحریر سے زیادہ کسی علمی خطبے سے قریب ترہے۔ کیونکہ ایک اچھا خطیب بظاہر تجربات‘ جذبات اور آثار سے اس طرح کام لیتا ہے کہ جس میں سامع کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے ابلاغ کیا جاتا ہے۔ اس تحریر میں اگرچہ لغوی مباحث قیمتی ہیں‘ لیکن ایک اوسط درجے کے قاری کے لیے انھیں سمجھنا قدرے مشکل ہوگا۔ بہرحال یہ مجموعہ فرد کے دل میں رجوع الی اللہ کا جذبہ اور اس سے مغفرت کی طلب کا احساس پیدا کرتا ہے۔(سلیم منصورخالد)