جون ۲۰۰۳

فہرست مضامین

جماعت اسلامی ہند: تقاضے اور ترجیحات

ڈاکٹر عبدالحق انصاری | جون ۲۰۰۳ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

ڈاکٹر عبدالحق انصاری جماعت اسلامی ہند کے نئے امیر (براے میقات ۲۰۰۳ئ-۲۰۰۷ئ) منتخب ہوئے ہیں۔ آپ نے تحریکی لٹریچر سے تعارف کے بعد‘ ندوۃ العلما سے عالمیت کا کورس کیا۔ اس کے بعد سرائے میر میں مولانا اخترحسن اصلاحی سے علم تفسیرحاصل کیا۔علی گڑھ سے ۱۹۵۹ء میں فلسفہ میں ایم اے کیا۔ ۱۹۶۲ء میں فلسفۂ اخلاق‘ ابن مسکویہ کی تعلیمات کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۶۵ء میں شانتی نکیتن (بنگال) میں فلسفے کے لکچرر سے تدریس کا آغاز کیا اور پھر شعبہ اسلامک اسٹڈیز کے صدر مقرر ہوئے۔ ۱۹۷۲ء میں ہارورڈ یونی ورسٹی سے ماسٹر ان تھیالوجیکل اسٹڈیز (MTS) کی ڈگری حاصل کی۔ ۹۵-۱۹۸۵ء تک ام درمان یونی ورسٹی (سوڈان)‘ کنگ فہد یونی ورسٹی (ظہران) کنگ سعود یونی ورسٹی (ریاض) میں تعلیم و تحقیق کی خدمات انجام دیں۔ تصوف اور شریعت پر مبسوط تحقیقی کتاب تصنیف کی۔ سعودی عرب میں تحریک کے کام کو نہایت منظم انداز میں ٹھوس بنیادوں پر آگے بڑھایا۔ سعودی عرب سے واپسی پر ۱۹۹۵ء میں ایک تحقیقی ادارہ سنٹر فار ریلجس اسٹڈیز اینڈ گائیڈنس (CRSG) بھی قائم کیا۔ تحریک کی طرف سے وقتاً فوقتاً عائد کی جانے والی متعدد ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں۔ گذشتہ دو میقاتوں میں مرکزی شوریٰ کے رکن رہے۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ امیرجماعت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد جماعت اسلامی ہند کے حوالے سے ان کی ترجیحات اور حکمت عملی پرمبنی مختصر تحریر ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔ (ادارہ)

انسانی وسائل کا فروغ اور اس کی زیادہ سے زیادہ فراہمی ہماری ترجیح اول ہے۔ ہرمیدان میں جو کارکن مصروف عمل ہیں‘ ان کی ماہرانہ تربیت کے ذریعے ارتقا اور ان میں جِلا پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ داعی‘ صحافی‘ مفکرین اور محققین‘ قائدانہ صلاحیت کے   حامل لوگوں کی تیاری اولین ترجیح ہوگی۔ اس ضمن میں تحریکی کارکنوں کی تربیت کے پیش نظر  دینی مطالعے اور رہنمائی کا ایک مرکز (سی آر ایس جی) کے نام سے قائم کیا گیا تھا۔ اس کو دوبارہ فعال بنانے کی سعی کی جائے گی۔ اس میں تیار ہونے والے کارکنوں سے تحریکی کاموں کی   انجام دہی میں بھرپور استفادہ کیا جائے گا۔ میری خواہش ہے کہ مرکز کے اسٹڈی گروپ کے نظم کو مزید مستحکم اور فعال بنانے کی طرف توجہ دی جائے۔

میری ذاتی رائے میں ملک کے اندر ’’مبنی براقدار سیاست‘‘ کے تصور کو عام کرنے اور اس میں جان ڈالنے کے سلسلے میں جماعت بڑا اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اگر ممکن ہو سکے تو اس کے لیے کسی درجہ نیم آزاد اور موثرمیکانزم وجود میں لایا جائے۔ مسلمانانِ ہند کی سیاسی قوت کو ملکی سیاست پر اثرانداز ہونے کے قابل بنانا بھی میں ضروری سمجھتا ہوں۔ ملکی مسائل کے سلسلے میں عوامی شعور بیدار کرنے‘ نیز ان کے جامع اور مناسب حل کے لیے پُرامن اور تعمیری اقدامات کی فضا پیدا کرنے کی طرف توجہ دلانے کی بھی ضرورت ہے۔

نوجوانوں کی قوتوں کو مجتمع کر کے انھیں تعمیری کاموں کی طرف موڑنے کے لیے منظم سعی کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو منظم کرنے کی طرف خصوصی توجہ دی جائے گی۔ تعلیمی میدان میں جماعت جو سعی و جہد کر رہی ہے اسے مزید مستحکم اور منظم کرنے کی اور اس میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ اگر ضرورت ہو تو اس میدان میں تبدیلیوں سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔ طلبہ تنظیم  ایس آئی او اور جماعت کے درمیان ایسے مشترکہ کام کیا ہوسکتے ہیں‘ سوچا جانا چاہیے۔ ایسے کاموں میں طلبہ کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔

مسلمانوں کی اصلاح‘ اخلاقی اور سماجی ترقی کے لیے ٹھوس اقدامات کی سخت ضرورت ہے۔ جب تک کہ کچھ ٹھوس اقدامات نہ کیے جائیں‘ اُمت مسلمہ کی اصلاح و ترقی مشکل ہے۔  اسلامی تحریک کو عوامی تحریک کی حیثیت تک پہنچانے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے اس کا جائزہ لینے اور تجاویز مرتب کرنے کے لیے ضروری تدابیر اختیار کرنا بھی ہمارے پیش نظرہے۔ گائوں اور دیہات کو مرکز بنا کر وہاں کی مختلف ضرورتوں کی تکمیل کے ذریعے گائوں کے لوگوں کی ہمہ گیر ترقی اور اخلاقی و انسانی اقدار کے فروغ کی طرف توجہ دینا چاہتا ہوں۔ جماعت کے پیغام اور عقائد‘ نظریات کی طرف لوگوں کو براہِ راست دعوت دینے اور اس کے لیے کارکنوں میں آمادگی پیدا کرنے کی طرف بھی توجہ دی جائے گی۔

تحریک کے اندر اور سماج میں خواتین کا مقام‘ کردار اور حصہ واضح طور پر ادا ہو‘ اس کے لیے بتدریج آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ انھیں مردوں کے ساتھ برابر کا حصہ دار بنانے کی ضرورت ہے۔

میڈیا کے سلسلے میں جامع اسکیم کی تیاری پیش نظر ہے۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی طرف اور اس کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کے استعمال کی ترویج کی طرف توجہ دینے کی بڑی ضرورت ہے۔

بیرون ملک اسلامی اسکالروں سے میری ملاقات ہوا کرتی تھی اور اب بھی بہت سارے لوگوں سے خط و کتابت ہے۔ ان تعلقات کو مزید مستحکم اور منظم کرنے کی کوشش ہوگی۔

عقیدہ و مذہب کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے۔ اس پر کسی طرح کی پابندی برداشت نہیں کی جانی چاہیے۔ اگر کوئی قانون اس آزادی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہو تو اس کے خلاف قانونی و عدالتی چارہ جوئی اختیار کرنی پڑے گی اور ہم اس سے گریز نہیں کریں گے۔ (ماخوذ: سہ روزہ دعوت‘ دہلی‘ یکم مئی ۲۰۰۳ئ)