جون ۲۰۱۵

فہرست مضامین

نماز اور لذتِ ایمان

قاری محمد اشرف ہاشمی | جون ۲۰۱۵ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ط اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَ الْمُنْکَرِ ط (العنکبوت ۲۹:۴۵) (اے نبیؐ)تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمھاری طرف وحی کے ذریعے سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو، یقینا نماز فحش اور بُرے کاموں سے روکتی ہے۔

قرآن کریم نے نماز کے موضوع کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے۔ اس آیت میں تلاوتِ قرآن اور نماز کے قیام کی خاص طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت دی جارہی ہے کہ قرآن پڑھا کیجیے اور نماز قائم کیجیے۔ اس طرح سے نماز اور قرآن کو لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے۔

قرآن سے ھدایت کا ذریعہ

دراصل قرآن پڑھنے کا جو لطف نماز کی حالت میں آتا ہے وہ ویسے نہیں آتا، اور جو قرآن نماز میں سمجھ آتا ہے وہ ویسے نہیں آتا۔ اگر آپ قرآن کے علوم سے آشنا ہونا چاہتے ہیں تو وہ آیاتِ قرآن نماز میں پڑھ کر دیکھیے جو آپ کو ویسے سمجھ نہ آتی ہوں۔  آپ کو احساس ہوگا کہ   آپ قربِ الٰہی میں اور دامن رب میں بیٹھ کر خطاب سن رہے ہیں اور آپ اس خطاب کے تاثرات کو محسوس کر رہے ہیں۔ یہ لطف صرف نماز کے اندر ہی آتا ہے۔

قرآن کریم نے اکثر مقامات پر قرآن پڑھنے کو نماز سے تعبیر کیا ہے۔ قرآن کریم نے کہا:

یٰٓاََیُّھَا الْمُزَّمِّلُ o قُمِ الَّیْلَ اِِلَّا قَلِیْلًا o نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا o اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا o (المزمل ۷۳:۱-۴) اے اُوڑھ لپیٹ کر سونے والے، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو مگر کم، آدھی رات، یا اس سے کچھ کم کرلو، یا اس سے کچھ بڑھا دو، اور قرآن خوب ٹھیرٹھیر کر پڑھو۔

یہاں ترتیل سے قرآن پڑھنے کو کہا گیا ہے اور مراد نماز ہے لیکن ذکر قرآن کا ہو رہا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ نماز کے اندر قرآن کریم کو پڑھا جائے۔ جب آپ رات کو اُٹھ کر نماز کی حالت میں خدا کا قرآن پڑھیں گے تو آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ آپ دربارِ الٰہی میں حاضر ہیں اور اللہ خطاب فرما رہے ہیں اور آپ اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے اس کا خطاب سن رہے ہیں۔

ہم عام طور پر قرآن کو یوں پڑھتے ہیں جیسے خدا کی کتاب کو ایک مخصوص رنگ دینے کے لیے پڑھ رہے ہیں۔ ہم اس بات سے اپنے آپ کو بے پروا سمجھتے ہیں کہ کوئی ہم سے مخاطب ہو رہا ہے۔ ہم اس بات سے ناآشنا رہتے ہیں۔ اگر ہم وہاں سر جھکائے اس انداز سے کھڑے ہوں کہ میری زبان سے جو کچھ نکل رہا ہے یہ اللہ کا کلام ہے اور اللہ مجھ سے مخاطب ہے اور میں ایک قاری کی حیثیت سے نہیں، بلکہ ایک سامع کی حیثیت سے اسے سُن رہا ہوں تو اس کا تاثر کچھ اور ہوگا، اور کچھ اور ہی کیفیت محسوس ہوگی۔

نماز کی اھمیت

قرآنِ مجید نے نماز اور کتاب کو خاص طور پر اہمیت دی ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً یَّرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تَبُوْرَo (فاطر ۳۵:۲۹) جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں، اور جو کچھ ہم نے انھیں رزق دیا ہے اس میں سے کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں، یقینا وہ ایک ایسی تجارت کے متوقع ہیں، جس میں ہرگز خسارہ نہ ہوگا۔

سورئہ مومنون کے آغاز میں اہلِ ایمان کی صفات بیان کی گئی ہیں۔پہلی صفت بھی نماز قرار دی اور آخری بھی نماز بیان کی ہے: وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَوٰتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ o (المومنون ۲۳:۹) ’’اور اپنی نمازوں کی محافظت کرتے ہیں‘‘۔قرآن کریم میں نماز کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ شاید ہی کسی اور حکم کو اتنی اہمیت دی گئی ہو۔

بنیادی طور پر بچہ محنت کر کے امتحان میں پاس ہوتا ہے اور اس کی محنت سے اس کا نتیجہ مرتب ہوتا ہے لیکن اگر اس کی حاضریاں کم ہوں تو اس کا داخلہ روک لیا جاتا ہے اور ساری محنت ہی اکارت چلی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں یہ نظام ہے کہ اگر کسی بچے کی حاضری مکمل نہ ہو تو اس کا داخلہ یونی ورسٹی اور بورڈ میں نہیں بھیجا جاسکتا۔ اسی طرح نماز حاضری ہے اور اس کے بعد پھر محنت کا مرحلہ آتا ہے۔ اگر یہ حاضری ہی کم نکلی تو پھر دوسری محنت رائیگاں چلی جائے گی۔

یوں سمجھ لیجیے کہ جیسے فوج میں پریڈ ہوتی ہے ۔ ایک سپاہی ہزار درجے بہادر ہو، اس کا نشانہ بہت اچھا ہو، خوب اچھی ورزش کرنا جانتا ہو ، اس کی وردی بہت خوب صورت ہو، وہ بہت تنومند ، سڈول اور چست و چالاک ہو اور بہادر اور قوی بھی ہو لیکن اگر وہ پریڈ میں حاضری نہیں دیتا اور فوجی مشق میں نہیں آتا تو اُسے اصل جنگ میں جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔

نماز کا حق

ہم عام طور پر سوچتے ہیں کہ نماز کیا ہے اور اس کے پڑھ لینے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ انسان کو مسلمان ہونا چاہیے اور بس!

جب آپ دعوتِ دین کے میدان میں نکلیں گے تو لوگ یہ سوال کریں گے کہ آپ کہتے ہیں کہ نماز بُرائی سے روکتی ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے نماز پڑھنے والے جن کے چہروں پر سجدوں کے نشان پڑگئے ہیں عملاً بُرائیوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ بات بات پر جھوٹ بولتے ہیں، خیانت کرتے ہیں۔ وہ رشوت لیتے ہیں اور ڈنڈی بھی مارتے ہیں۔ وہ ملاوٹ بھی کرتے ہیں،  خائن بھی ہوتے ہیں۔ آپ کیسے کہتے ہیں کہ نماز پڑھنے والوں کو نماز بُرائی سے روک دیتی ہے۔

پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نماز میں کیا رکھا ہے؟ انسان کو دل سے مسلمان ہونا چاہیے۔ پھر  وہ یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ تم کہتے ہو کہ حج بہت بڑی نیکی ہے۔ ہم نے بڑے بڑے حاجی دیکھے ہیں جو اسمگلنگ کرتے ہیں۔ تم کہتے ہو روزہ رکھنے سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ ہم نے روزہ رکھنے والوں کو بڑی بڑی بُرائیاں کرتے دیکھا ہے۔

غور کرنا چاہیے کہ آیا واقعی ایسا ہے۔ فی الواقع بہت سے لوگ ایسے ہیں جو نماز پڑھتے ہیں لیکن جب وہ تجارت کرتے ہیں تو جھوٹ بولنے سے گریز نہیں کرتے۔ ایسے لوگ ہیں جو نماز پڑھتے ہیں اور خیانت کرتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھی کا مال ہڑپ کر جانے سے گریز نہیں کرتے، یا دھوکا دیتے اور جھوٹ بولتے ہیں، جب کہ ہم کہتے ہیں کہ نماز بُرائی سے روکتی ہے۔ دراصل ہمارے تصور میں شاید یہ بیٹھا ہوا ہے کہ نماز پڑھنے والے کو نماز بُرائی سے روکتی ہے۔ مطلب یہ کہ جب وہ بُرائی کرنے جاتا ہے تو نماز اسے پیچھے سے کھینچتی ہے کہ نہ کرو لیکن لوگ بُرائی کا ارتکاب کرلیتے ہیں۔ یہ وہی بات ہے جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ اگر وضو کر کے نہ آئو تو نماز میں سجدہ نہیں ہوتا۔ سجدہ تو ہوجاتا ہے لیکن نماز کا حق ادا نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو نماز کا حق ادا نہیں کرتا اس سے بُرائی ہوجاتی ہے اور نماز کا حق ادا کرنے والے سے بُرائی نہیں ہوتی اور نماز اس کو بُرائی سے روک دیتی ہے۔ درحقیقت نماز  یہ مقام رکھتی ہے۔

بعض لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ جو نماز پڑھتا ہے اور گناہ کرتا ہے تو اسے نماز چھوڑ دینی چاہیے، اس لیے کہ نماز میں کیا رکھا ہے، دل سے مسلمان ہونا چاہیے۔ اسی طرح یہ کہا جاتا ہے کہ روزے میں کیا رکھا ہے یا داڑھی میں کیا رکھا ہے، دل سے مسلمان ہونا چاہیے۔ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ مسلمان کو دل سے مسلمان ہونا چاہیے۔ ایک صحیح مسلمان وہی ہوگا جو دل سے مسلمان ہوگا۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے والے منافقین فی الواقع مسلمان نہیں تھے۔ وہ باقاعدہ نماز پڑھتے تھے اور بڑی بڑی باتیں بھی کرتے تھے۔ اللہ فرماتا ہے کہ اگر آپؐ ان کی باتیں سنیں تو سنتے ہی رہ جائیں۔ ان کی باتیں بڑی انوکھی لگیں گی لیکن عملاً وہ باتیں بے سود ہیں اور وہ لوگ بے کار ہیں۔

یہ بات مشاہدے میں ہے کہ لوگ نماز پڑھتے ہیں لیکن بُرائیاں بھی کرتے ہیں تو کیا نماز کی اہمیت ختم ہوگئی؟ یہ بالکل اس طرح کی بات ہے کہ کوئی شخص بازار میں ننگا کھڑا ہو اور آپ اسے کہیں کہ حیا کر، بازار میں ننگا کھڑا ہے، تجھے شرم نہیں آتی۔ وہ جواب میں یہ کہے کہ تم کیا سمجھتے ہو جتنے کپڑے پہننے والے ہیں سب حیادار ہیں۔ میں تمھیں دکھلا سکتا ہوں کہ کپڑے پہن کر بھی لوگ بے حیا ہیں، حتیٰ کہ برقعہ اُوڑھنے والی بھی بے حیا ہیں۔ اس کی یہ بات ہم مان لیں گے کہ لباس پہننے والے لوگ بے حیا ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ تم کہتے ہو کہ کپڑے پہن لو تو باحیا بن جائو گے۔ مجھے یہ بتائو کہ جس مِلمیںکپڑا بنایا جاتا ہے کیا اس میں حیا کا کوئی دھاگا ہوتا ہے جس سے وہ کپڑا بُنتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات تو اپنی جگہ درست ہے کہ کپڑے پہننے سے حیا پیدا نہیں ہوتی۔ لیکن کیا وہ سچ کہتا ہے کہ کپڑے اُتار دینے چاہییں؟

یہ تو ہم مانیں گے کہ کپڑا پہننے کے ساتھ حیا وابستہ نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص کپڑا پہن کر بھی بے حیا ہو۔ لیکن ہم یہ نہیں مان سکتے کہ حیادار ننگا ہوسکتا ہے۔ اسی طرح یہ تو ہم مان لیں گے کہ کوئی نماز پڑھتے ہوئے مومن نہ ہو لیکن یہ نہیں مان سکتے کہ مومن ہوکر وہ نماز نہ پڑھتا ہو۔ بیک وقت یہ دونوں باتیں نہیں ہوسکتیں۔

نماز کی اتنی اہمیت ہے کہ میرے خیال میں اسلام کے اندر واحد عمل ایسا ہے جس کے نہ کرنے پر کفر کا فتویٰ دیا گیا ہے۔ مَنْ تَرَکَ الصَّلٰوۃَ متعمدًا فَقَدْ کَفَرَ ، یعنی’’ جس نے قصداً نماز ترک کی اس نے کفر کیا‘‘۔یہ واحد عمل ہے جس کے چھوڑ دینے سے انسان کفر تک پہنچ جاتا ہے۔ فرمایا کہ نماز مومن اور کافر کے درمیان حدِ فاصل ہے۔ یہ فرق بتلاتی ہے کہ کوئی شخص مومن ہے یا کافر۔

بچہ سکول میں داخل ہو، وہ ابھی بستہ لے کر سکول نہ گیا ہو کہ اتنے میں سکول کی گھنٹی بج جائے تو کیا گھر میں قیامت نہ برپا ہوجائے گی۔ وہ پوچھے گا کہ میرا بستہ کہاں ہے؟ میری یونیفارم کہاں ہے؟ یوں سمجھیے کہ گھر میں زلزلہ آجائے گا۔ اور جب گھنٹی بجنے پر اس کے سر میں جوں بھی نہ رینگے اور اسے کوئی فرق نہ پڑے تو ہم سمجھیں گے کہ یہ شاید سکول میں داخل نہیں ہے۔

اذان کی آواز آنے کے بعد ایک مومن کے اندر ہلچل نہیں مچتی تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ مومن ہے اور مسجد کا نمازی ہے۔ اگر یہ نمازی ہوتا تو اس کے اندر ایک ہیجان پیدا ہوتا کہ اللہ کی طرف سے پکار آگئی ہے اور میں یہاں کیوں بیٹھا ہوں؟

نماز اور حلاوتِ ایمان

 ہم لوگ اکثر نماز کے اس پہلو سے کوتاہی کرجاتے ہیں۔ ہمیں نماز پڑھنے میں مزا نہیں آتا۔ اسے عادت کے طور پر ادا کرتے ہیں عبادت کے طور پر ادا نہیں کرتے۔ سچی بات یہ ہے کہ کسی کے ساتھ پیار ہو تو کیفیت کچھ اور ہوتی ہے۔

آپ اندازہ لگایئے کہ راہ چلتے اگر کوئی اجنبی شخص آپ کو کھڑا کرے کہ ذرا میری بات سنیے۔وہ لمبی بات کرتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ بھائی مختصر بات کرو میں جلدی میں ہوں۔ آپ اسے لمبی بات کرنے نہیں دیتے۔ لیکن اگر کوئی دوست مل جائے جس سے آپ کو محبت ہو اور آپ تھکاوٹ سے چُور ہوں، بہت سارے کام سر پر ہوں اور وہ آپ کو کھڑا کرلے تو آپ باتیں کرتے اُکتائیں گے نہیں۔ نہ پائوں تھکتے ہیں، نہ جسم تھکتا ہے، نہ کوئی کام یاد آتا ہے اور نہ نیند ہی آتی ہے۔ اور پھر جب وہ جانے لگتا ہے تو آپ بازو پکڑ لیتے ہیں کہ ٹھیرو یار چلے جانا، اتنی جلدی کیا ہے؟

 کیا یہ حیرانی کی بات نہیں ہے۔ دراصل محبت کی کیفیات مختلف ہوتی ہیں۔قرآنِ مجید نے یہی بات بیان فرمائی ہے:

وَ اِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ o الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّھِمْ وَ اَنَّھُمْ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ  o (البقرہ ۲:۴۵-۴۶) بے شک نماز ایک سخت مشکل کام ہے، مگر ان فرماں بردار بندوں کے لیے مشکل نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ آخرکار انھیں اپنے رب سے ملنا اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔

میں نے جب یہ فقرہ سنا تو مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ نماز بھلا بھاری کیسے ہوئی؟ہم دیکھتے ہیں کہ مزدور سارا سارا دن بوجھ اُٹھاتا ہے، ۱۲، ۱۲گھنٹے بھٹی کی آگ پر کھڑا ہوتا ہے۔ چوکیدار رات بھر جاگتا ہے۔ پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کی لگن لیے کوہِ پیما چوٹی سر کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ کئی گرجاتے ہیں، کچھ مربھی جاتے ہیں لیکن چوٹی سر کرنے کی لگن ہے کہ چڑھتے چلے جاتے ہیں۔

ایک طرف یہ صورتِ حال ہے اور جب انھیں دو رکعت نماز کے لیے کہا جائے تو کہتے ہیں کہ یہ بڑا مشکل کام ہے۔ اتنی مشقت اُٹھاتے ہیں لیکن دو رکعت نماز ادا کرنا ان کے لیے مشکل ہے۔ اور دو رکعت نماز ادا کرنا واقعتا مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ نماز واقعتا مشکل ہے مگر ان لوگوں کے لیے نہیں جو پہلو میں یہ تڑپ لیے پھرتے ہیں کہ کل اسی بہانے اپنے رب سے ملاقات نصیب ہوگی۔ ان کے لیے نماز یقینا آسان ہے۔

اذان کی آواز آتی ہے اور کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی آواز آئی بھی ہے یا نہیں۔ اگر اللہ بلائے اور ہم محبت کا دعویٰ بھی کریں اور پھر حالت یہ ہو کہ ابھی جاتے ہیں، یہ تھوڑا سا کام کرلوں۔ آپ کسی دوست سے روز ملتے ہوں اور اگر اس کی آواز گلی میں سے گزرتے ہوئے آجائے، خواہ آپ نے اسے بلایا بھی نہ ہو تو لپک کر اسے ملنے چلے جاتے ہیں کہ دوست آیا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ یہ سب فریب ہے۔ اللہ سے پیار ہو تو یہ روش نہیں ہوسکتی۔ نماز تو آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ رسول پاکؐ حضرت بلالؓ سے کہتے ہیں کہ بلال! اذان پڑھو، میری آنکھیں نماز میں ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ واقعتا یہ کیفیت اُسی کی ہوتی ہے جسے اللہ سے پیار ہوجائے۔ پھر نماز میں آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں اور نماز میں لطف آتا ہے۔ پھر تو یہ کیفیت ہوتی ہے کہ رات تڑپ کر گزری ہے، آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں اور سینہ ہنڈیا کی طرح اُبل رہا ہے اور پائوں میں وَرم پڑگئے ہیں۔لیکن صبح اُٹھ کر پھر یہی کہا جا رہا ہے کہ مالک! تیری عبادت کا حق تو ادا نہ ہوسکا۔

واقعتا محبت میں پیمانے ہی بدل جاتے ہیں۔ جیسے انسان اگر کسی غلط جگہ پر آجائے، جن لوگوں سے پیار نہ ہو، ایسی بستی میں آجائے جو اجنبی ہو اور اُوپر سے رات بھی ہوجائے تو وہ رات کیسے گزرتی ہے، لیکن اگر رات محبوب کے دامن میں گزرے اور وہ ساری رات بٹھائے رکھے کہ باتیں کرنی ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ یہ مؤذن کو کیا ہوا کہ آج اس نے بڑی جلدی فجر کی اذان دے دی۔

اگر کیفیت کچھ مختلف ہو تو وہی رات بہت طویل لگتی ہے کہ قیامت کی رات ہے، ختم ہونے میں نہیں آرہی۔خدا کے پیار میں جنھوں نے راتیں گزاری ہیں انھیں یوں لگا کہ جیسے بات ہی کوئی نہیں ہوئی اور بڑی جلدی رات گزر گئی ہے۔ اللہ کے پیار میں کھڑے ہونے والوں سے پوچھیے کہ اس میں کتنا لطف ہے ۔

درحقیقت محبت اور عشق والوں کا معاملہ ہی مختلف ہے۔ محبت کی کیفیت کے انداز ہی مختلف ہیں۔ لوگ سونے میں مزا لیتے ہیں اور یہ جاگنے میں لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لوگ مال جمع کرکے لطف اندوز ہوتے ہیں اور یہ مال لٹانے میں مزا لیتے ہیں۔ لوگ ہنسنے میں مزا لیتے ہیں اور انھیں رونے میں لطف آتا ہے۔ یہ کیفیات ہی مختلف ہیں۔ یہ محبت کے بعد معلوم ہوتا ہے۔

تنہائی میں خدا کو یاد کیا اور آنکھیں برس پڑی ہیں اور کراماً کاتبین بھی بے خبر ہیں کہ کیوں رورہا ہے؟ کس مزے میں ہے؟ اور کس نشے میں ہے؟ قیامت کے روز حکم ہوگا کہ اسے بلا لائو اور میرے عرش کے سایے میں بٹھائو، گرمی میں کھڑا نہ رہنے دو۔ خلوتوں میں میری یاد میں رونے والے کو میرے دامنِ رحمت میں جگہ دے دو۔

وہ بچہ جو کھلے میدان میں مٹی کے کھلونوں سے کھیل رہا ہے اور بڑے مزے میں بیٹھا ہوا ہے۔ اِدھر ماں آواز دیتی ہے تو ہلکی سی کوفت ہوتی ہے۔ کھلونوں کو چھوڑ کر اُٹھنا، بڑے پیارے سے جو گھروندے بنائے تھے اور ساتھیوں کو چھوڑ کر اُٹھنا بڑا مشکل ہوجاتا ہے۔ ماں بلاتی ہے اور مٹی والے کپڑے اُتار دیتی ہے۔ جب وہ کپڑے اُتارنے لگتی ہے تو تب تھوڑا سا روتا ہے، اور جب نہلانے لگتی ہے تو روتا ہے کہ یہ زیادتی کر رہی ہے اور مجھے نہلا رہی ہے۔ جب وہ نہلادُھلا کر گود میں لٹا لیتی ہے تو سب کچھ بھول جاتا ہے۔ وہ دوست بھی بھول جاتے ہیں، کھلونے بھی بھول جاتے ہیں، کھلی فضا بھی بھول جاتی ہے اور دیکھنے والے کو حیرت ہوتی ہے کہ اس چھوٹی سی گود کے اندر اسے کیا نشہ آرہا ہے۔ یہ وہی کیفیت ہے کہ:

تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ o فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَآئً م بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o (السجدہ ۳۲:۱۶-ــ۱۷)  ان کی پیٹھیں بستروں سے الگ رہتی ہیں، اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں، اور جو کچھ رزق ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ پھر جیسا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں اُن کے لیے چھپا رکھا گیا ہے اس کی کسی متنفس کو خبر نہیں ہے۔

نماز کے لیے اُٹھنے میں تھوڑی سی کوفت ہوتی ہے۔ پھر وضو کرنے میں بھی کچھ کوفت ہوتی ہے۔ جب وضو بھی کرلیتا ہے، بستر سے بھی اُٹھ آتا ہے اور شیطان کی ساری زنجیریں توڑ ڈالتا ہے، اور اللہ کے حضور تہجد کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو پھر جو لطف آتا ہے تو وہ دنیا والوں کو نہیں پتا کہ نرم بستر میں زیادہ مزا ہے یا اس چٹائی پر سجدہ ریز ہونے میں زیادہ لطف ہے۔ اللہ کی معرفت، اللہ کے پیار اور اللہ سے محبت کے بعد یہ لطف آتا ہے اور یہ لذت نصیب ہوتی ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر کتنے سخت سے سخت اور کٹھن سے کٹھن مرحلے گزرے ہیں۔ طائف کے بازار میں آپؐ کے ساتھ کیا کیا زیادتی نہیں ہوئی۔ تمام جسم سے لہو بہہ رہا تھا اور عالم یہ تھا کہ آپ گر جاتے تھے اور اُٹھائے جاتے تھے کہ پھر پتھروں کا نشانہ بنایا جائے لیکن آپ کی زبان سے یہی الفاظ نکلے کہ: اے اللہ! مجھے ان زخموں کی پروا نہیں، ہوسکتا ہے کہ ان کی نسلوں میں سے کوئی تیرا نام لیوا پیدا ہوجائے۔

میدانِ بدر میں حضوؐر کس عالم میں اللہ سے دعا اور التجا کرتے ہیں اور اللہ کی نصرت کے مستحق ٹھیرتے ہیں۔

گویا اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے نزدیک نماز بہت ہی اہم چیز ہے۔ نماز کا ادا کرنے والا جب نماز کا حق ادا کرتا ہے تو وہ دو رکعت نماز ادا کر کے اللہ کی جنت کا حق دار بن جاتا ہے، بشرطیکہ نماز کا حق ادا کیا ہو۔ نماز کے اندر اس کی توجہ اِدھر اُدھر نہ بھٹکتی رہی ہو۔

حضوریِ قلب

ہمارا حال بھی عجیب ہے۔ ہم نماز پڑھنے آتے ہیں لیکن دل ظالم کو ساتھ نہیں لاتے۔ وہ گھر پہ ہوتا ہے یا دکان میں اَٹکا ہوتا ہے، دوستوں کے ساتھ ہوتا ہے یا کسی اور محفل میں۔ جب تک ہم اسے ساتھ نہیں لائیں گے نماز کیسے ادا ہوگی۔

قرآنِ مجید میں جہاں سُکرٰی (نشہ) کی بات کی گئی ہے وہ چھوٹا سا فقرہ ہے لیکن بہت عظیم فقرہ ہے اور اس میں نماز کی عظمت بھی بیان کی گئی ہے:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ (النساء ۴:۴۳) اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جائو۔ نماز اس وقت پڑھنی چاہیے جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو۔

یہ بہت بڑی بات کہی گئی ہے۔ آپ کسی کو ملازم رکھتے ہیں۔ آپ اسے کہتے ہیں کہ تمھیں گھر میں جھاڑو دینا ہوگی۔وہ کہتا ہے : جی ہاں اور سر ہلا دیتا ہے۔ آپ کچھ اور کام بتاتے ہیں، وہ سر ہلاتا جاتا ہے اور جی ہاں کہتا ہے۔ آپ اسے جھنجھوڑ کر کہتے ہیں کہ سر ہلاتے جارہے ہو، کیا یہ سب کام کر بھی سکو گے۔

اللہ کہتے ہیں کہ تو جو میرے دروازے پر کھڑا ہوا اتنے وعدے کر رہا ہے، یعنی:

اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُo(الفاتحہ ۱:۴)ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں۔

اَللّٰھُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنَسْجُدُ وَ اِلَیْکَ نَسْعٰی وَنَحْفِدُ وَنَرْجُو رَحْمَتَکَ وَنَخْشٰی عَذَابَکَ،خدایا! ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور تیرے ہی لیے نماز اور سجدہ کرتے ہیں اور ہماری ساری کوششیں اور ساری دوڑ دھوپ تیری ہی خوشنودی کے لیے ہے۔ ہم تیری رحمت کے اُمیدوار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں۔

یعنی اتنے معاہدے میرے ساتھ کرتا چلا جا رہا ہے، کیا سوچ کر کہہ رہا ہے یا ایسے ہی کہے جا رہا ہے۔

یہ بنیادی بات ہے کہ ہم اس کے دروازے پر آئیں تو دل کو ساتھ لائیں اور پھر اس محبوب کی تلاش میں نکلیں۔ نماز کی حالت میں بہت سے خیالات آتے ہیں اور ایسے میں اللہ کے خیال کو سنبھالنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ دراصل ہم تلاش کے اندر مخلص نہیں ہوتے ورنہ تلاش میں مخلص ہونے والا جمگھٹوں سے نہیں گھبراتا۔

آپ کسی پُرہجوم چوک میں کھڑے ہوں اور کسی دوست کی تلاش میں نکلے ہوں، اِدھر اُدھر دیکھ رہے ہوں۔ بہت سے لوگ آپ کو دیکھ کر سلام کریں گے لیکن آپ نہیں دیکھیں گے۔ وہ بعد میں ملیں گے اور کہیں گے کہ آپ فلاں چوک میں کھڑے تھے ، ہم نے بہت ہاتھ ہلایا لیکن آپ نے دیکھا ہی نہیں۔ آپ نے میری آواز سنی اور میرے سلام کا جواب ہی نہیں دیا۔واقعتا آپ کے کانوں سے اس کی آواز تو ٹکرا رہی تھی اور آپ اس کے ہاتھ کو دیکھ رہے تھے لیکن کس طرح دیکھ رہے تھے۔قرآن کہتا ہے:

فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَ لٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِo (الحج ۲۲:۴۶) حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔

یہ آنکھیں اندھی نہیں بلکہ وہ دل اندھے ہوگئے ہیں۔ دل جس کی تلاش کرتا ہے، آنکھیں بھی اسی کی تلاش میں ہوتی ہیں۔ اس دنیا کے بازار میں آپ اس ایک کی تلاش میں یوں نکلیں کہ ہزاروں گزر جائیں لیکن آپ کی نگاہ میں نہ ٹھیریں، اور جب وہ نظر آئے تو آپ شور مچا دیں کہ ہاں وہی ہے۔ اس انداز میں جب آپ نماز پڑھیں گے تو تخیلات آتے رہیں، انھیں دھکا دے کر کہیں کہ میں تو اسی ایک کی تلاش میں نکلا ہوں۔

انسان کمزور ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ خیالات آ بھی جاتے ہیں لیکن ان کے ساتھ دل لگا لینا نقصان دہ ہے۔

آپ کے ہاں مہمان آجائے جو عزیز دوست بھی ہو۔ جب وہ بات کر رہا ہوتو آپ کے بچے آپ سے چمٹ جائیں۔ آپ کبھی اس کی بات سنیں اور کبھی بچوں کو پیار کریں۔ مہمان بات کر رہا ہے اور آپ اس کی طرف توجہ ہی نہیں کر رہے، تو مہمان کہے گا کہ یہ میری بے عزتی ہے۔ یہ تو بچوں کے ساتھ ہی مصروف ہوگئے ہیں اور میں نے جو بات کی وہ انھوں نے غور سے سنی ہی نہیں۔

اب ایک یہ کیفیت ہے کہ مہمان آیا ہے اور بچے بھی آکر چمٹ گئے ہیں۔ آپ انھیں کہیں کہ بیٹا بات کرلینے دو۔ ادھر سے کوئی دوسرا بچہ آجاتا ہے تو کہتے ہیں کہ بیٹے ذرا بیٹھو بات کرلینے دو۔ بچے آرہے ہیں، آپ نے انھیں مارا نہیں یا بُرا بھلا نہیں کہا بلکہ انھیں ہٹاتے جارہے ہیں اور بات دوست کی سن رہے ہیں۔ دوست اس پر بُرا نہیں منائے گا کہ بچے ہیں، نادان ہیں لیکن وہ تو توجہ کر رہا تھا۔

اگر نماز میں دنیا کے خیالات اِدھر اُدھر سے آنے کی کوشش کریں تو انھیں ہٹانے کی کوشش کریں کہ میں اللہ سے بات کر رہا ہوں۔ میں اپنے خدا سے پیار کی بات کر رہا ہوں۔ اگر ہم ادھر منہمک نہ ہوئے تو قابلِ معافی ہیں اور اگر ہم نے ان بچوں سے پیار کرنا شروع کردیا اور مہمان کا خیال نہ کیا، تو وہ کہے گا کہ سارا دن تو ان کے ساتھ رہا ہے اور اب بھی انھی سے سروکار ہے، میرا تو اُس نے خیال ہی نہ کیا۔ پھر یہ بات ناگوار ہوگی۔

اللہ کے ہاں سب سے بڑی چیز نماز ہے۔ نماز جس شخص کی درست ہوجاتی ہے، اس کا ایمان درست ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی تلاش میں سرگرداں شخص ہی دراصل نماز کا حق ادا کرسکتا ہے ورنہ نماز کا حق ادا ہی نہیں ہوتا، اور جو نماز کا حق ادا کردیتا ہے وہ پھر گناہ کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ پھر سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ وہ گناہ کے راستے پر چل سکے اور جو شخص گناہ کے راستے پر جاتے ہوئے نماز ادا کرتا ہے وہ خدا کا مذاق اُڑاتا ہے۔

نماز کے نام پر ربّ سے مذاق

آپ جانتے ہیں کہ نماز کے اندر جو دعا حکماً لازماً منگوائی گئی ہے وہ صراطِ مستقیم کی دُعا ہے: اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘۔اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی، لَاصَلٰوۃَ اِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ، اس دعا کو ہم سے لازماً منگوایا جاتا ہے۔ یہ فقط ایک دعا ہے جو نماز میں مانگی جاتی ہے اور اسی کے لیے فی الواقع ہم نماز ادا کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ میری ملازمت چھوٹ گئی ہے، اور مجھے روزی دے دے، یا مَیں بیمار ہوں مجھے صحت دے دے وغیرہ۔ دراصل ہدایت وہ بنیادی بات ہے جو ہم اللہ سے مانگتے ہیں، اور بڑی التجا کر کے مانگتے ہیں۔

ایک شخص ملتان جانا چاہتا ہے وہ آپ سے پوچھتا ہے کہ ملتان کس طرف ہے؟ آپ اسے بتاتے ہیں کہ اس طرف ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ کسی اور جگہ جاکر ملتان کا راستہ پوچھتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وہ تو پیچھے رہ گیا۔ وہ پھر آپ سے ملتا ہے تو آپ اسے کہتے ہیں کہ تمھیں بتایا تو تھا کہ ملتان اس طرف ہے۔ وہ پھر کہیں اور سے گھومتا پھرتا آپ کے پاس آجاتا ہے کہ ملتان کا راستہ بتادیں۔ آپ غصے میں آجاتے ہیں کہ تم خود بے وقوف ہو یا مجھے بے وقوف بنا رہے ہو اور اسے   اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔

ہم کتنے اہتمام سے اللہ کے حضور حاضر ہوتے ہیں اور اس کی حمد بیان کرتے ہیں کہ   اے اللہ! تو پاک ہے، میں تیری حمد کرنے آیا ہوں۔ تیرا نام بڑا برکت والا ہے، تیری شان بڑی بلند ہے، تیرے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے۔ اے اللہ! سب تعریفیں تیرے لیے ہیں، تو بڑا مہربان ہے، تو بڑا رحیم ہے۔ میں تیرا بندہ ہوں اور تجھ سے پوچھتا ہوں کہ بتا سیدھا راستہ کون سا ہے؟

جب وہ نماز پڑھ کر مسجد سے نکلتا ہے اور دکان پر بیٹھ کر ترازو پکڑ کر ڈنڈی مارنے لگتا ہے تو اندر سے آواز آتی ہے کہ یہ سیدھا راستہ نہیں ہے۔ تو نے صبح مجھ سے پوچھا تھا نا کہ سیدھا راستہ کون سا ہے؟ یہ غلط راستہ ہے،  ُتو غلط راستے پر چل نکلا ہے۔ جب ڈنڈی مار کر دو پیسے بچا لیتا ہے تو پھر  اسی طرح نمازِظہر میں اللہ سے سیدھا راستہ مانگتا ہے۔ پھر دفتر میں بیٹھا ہے اور کسی نے ۱۰۰ کا نوٹ رشوت کے طور پر دے دیا، یا جیب میں ڈال دیا تو دل لرزا کہ یہ رشوت ہے، حرام ہے۔ یہ سیدھا راستہ نہیں ہے لیکن رکھ لیتا ہے کہ اللہ معاف کردے گا۔ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَاَتُوْبُ اِلَیْہِ پڑھ لیتا ہے۔

عصر کی نماز میں پھر آکر کھڑا ہوتا ہے اور پھر خلوص سے کہتا ہے کہ اللہ سیدھا راستہ کس طرف ہے؟ پھر جب باہر نکلتا ہے تو کسی کی غیبت، کسی پر بہتان، کہیں جھوٹ اور کسی سے زیادتی۔ اندر سے مسلسل آواز آرہی ہے کہ غلط چل رہا ہے، سیدھا راستہ تو اس طرف ہے تو کس طرف جا رہا ہے؟

اب بتایئے یہ تماشا کب تک رہے گا۔ ایک وقت آئے گا کہ وہی نماز گندے چیتھڑے کی طرح منہ پر دے ماری جائے گی، اور وہ نماز خود کہے گی کہ تجھے خدا اس طرح خراب کرے جیسے تُو نے مجھے خراب کیا ہے۔

اللّٰہ سے تعلق کی کیفیت

جب تک نماز کا حق ادا نہیں ہوگا، نماز اثرانداز نہیں ہوگی۔ اگر ہم نماز کا حق ادا کردیں تو پھر دیکھیے کہ ایک نماز پڑھنے والے کی کیا شان ہے! یقین کیجیے جب حجابات اُٹھ جائیں تو صرف ایک نماز کے اندر کائنات ساری کی ساری ہی بدلتی نظر آئے گی۔ یہ کیفیات ہی مختلف ہیں۔

حضوؐر فجر کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلے تو حضرت حارثہؓ سے ملاقات ہوگئی۔ پوچھا: حارثہ! صبح کیسی ہوئی؟ اے حارثہ! ایمان کی مختلف کیفیات ہوتی ہیں، تو بتا تیرے ایمان کی کیا کیفیت ہے؟ کہنے لگے: یارسولؐ اللہ! جنتی جنت کی طرف جاتے نظر آرہے ہیں اور دوزخی دوزخ کی طرف، اور میں ہرروز اپنے آپ کو عرشِ معلی کے قریب ہوتا ہوا پاتا ہوں___پھر یہ ایمان نصیب ہوتا ہے!

یہ تب ممکن ہے جب وہ فاصلہ صراطِ مستقیم کی طرف طے کرے۔ جب وہ چل ہی اس کے مخالف رہا ہے تو صراطِ مستقیم نصیب ہونے کی بات تو نہ ہوئی۔ عرش کے قریب تو وہ تب ہوتا جب چل ہی اس راستے کی طرف رہا ہو۔ پھر اس راستے پر چلتا رہے اور رب سے برابر ہدایت مانگتا رہے۔ پھر بھی قدم قدم پر اس راستے پر چلتے ہوئے پوچھنا پڑے گا، اللہ سے ہدایت و استقامت مانگنی پڑے گی۔

ایک شخص اگر تیرنا نہیں جانتا تو کسی تیراک نے اگر اس کا بازو پکڑ لیا ہے تو وہ بار بار کہے گا کہ دیکھنا میرا بازو نہ چھوڑ دینا، میںتیرنا نہیں جانتا۔ میں تو محتاج ہوں۔ اگر وہ کہے کہ ٹانگیں سیدھی رکھو تو وہ ٹانگیں سیدھی رکھے گا۔ اگر وہ کہے کہ سمیٹ لو تو سمیٹ لے گا۔ وہ کہے کہ چپ ہو جائو تو چپ ہوجائے گا۔ اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ اگر اس نے ہاتھ چھوڑ دیا تو میں غرق ہوجائوں گا۔

ہم اللہ سے جب سیدھا راستہ مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو بازو پکڑ کر سیدھے راستے پر لے جارہا ہے، تو پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ کہے کہ ٹانگیں سمیٹ لو تو ہم کھول دیں۔ وہ کہے کہ زبان بند کرلو تو ہم کھول دیں ۔ وہ کہے کہ جھوٹ نہ بولو اور ہم جھوٹ بولیں۔ اس لیے کہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ درحقیقت ہم جس چیز کا اقرار کرتے ہیں عمل اس کے خلاف کرتے ہیں۔ گویا ہم جو کچھ کہتے ہیں، غلط کہتے ہیں۔ اس لیے کہ اگر ہم اس کی عظمت کا اعتراف کرتے تو پھر ہم اس کے راستے پر چلتے اور ضرور چلتے۔ پھر ہمیں اس کے راستے پر چلتے ہوئے لطف آتا، اور اس کی طرف بڑھنے میں مزا آتا۔ جب تک یہ کیفیت نہ پیدا ہو، اس وقت تک عبادت کی لذت نصیب نہیں ہوسکتی۔

اللّٰہ کی قدردانی

ہم عبادت رسماً اور ایک عادت کے طور پر ادا کرتے ہیں۔ اگر ہم اسے عبادت کے طور پر ادا کریں تو یہ سجدہ اللہ کے ہاں بڑا قیمتی سجدہ ہے۔ ہماری عبادت جیسی کیسی ہے، وہ ہمیں معلوم ہے۔ یہ تو اللہ کی قدردانی ہے۔ وہ واقعتا قدردان ہے۔ وگرنہ ہماری عبادت کی کیا بساط ہے اس کا ہمیں بخوبی اندازہ ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آسمان پر ملائکہ کے پَروں کی چرچراہٹ کی آواز آتی ہے اور فرمایا کہ ان کو یہ حق پہنچتا ہے کہ یہ آواز پیدا ہو۔ اس لیے کہ آسمان پر کوئی چپّہ برابر بھی جگہ خالی نہیں ہے جہاں کوئی فرشتہ سجدے میں ، قیام میں، قعود میں اللہ کی تسبیح نہ کر رہا ہو، اور سبوح قدوس کا ترانہ نہ گا رہا ہو۔ پھر کیا ہمارے یہ دو سجدے کوئی مقام رکھتے ہیں۔ یہ اس کا کرم ہے کہ اس نے انھیں اہمیت دے دی اور بڑا مقام دے دیا۔ کہا کہ اے فرشتو! ذرا خیال کرنا کہ میرا مہمان آرہا ہے۔ پھر اس چٹائی پر جتنا لطف آتا ہے وہ قالینوں پر نہیں آتا۔

یہ گھر والوں کی نگاہ کا فرق ہوتا ہے۔ اس واسطے یہ لطف آتا ہے۔ گھر والا اگر اچھے قسم کے صوفے پر بٹھا دے اور چہرے پر تیوری چڑھی ہو اور تکبر سے بات کر رہا ہو تو اچھا نہیں لگتا۔ اگر چٹائی پر بٹھا دے اور عزت و احترام دے تو وہ گھر اچھا لگتا ہے۔ اللہ کی چٹائی پر کیوں اتنا مزا آتا ہے جو لوگوں کے قالینوں پر نہیں آتا؟ یہ اس لیے کہ گھر والا پیار سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ جب گھر والا اتنے پیار سے دیکھ رہا ہو تو پھر کیوں نہ مزا آئے!

اللہ نے اپنے فرشتوں کی عبادت کو چھپا کر رکھا ہے کہ کہیں یہ دو نفل ادا کرنے والا اس کا بندہ شرم محسوس نہ کرے۔ بعض دفعہ ہم تھوڑی سی نیکی کربیٹھتے ہیں تو اِترانے لگتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ جو ہم نے کیا ہے شاید دنیا میں کسی نے نہیں کیا۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارا کرنا کوئی کمال نہیں، اصل تو یہ ہے کہ وہ اسے قبول کرلے۔ عبادت جب اس انداز سے کی جائے گی تو لطف کچھ اور ہوگا۔  اللہ ہمیں نماز میں وہ لذت عطا فرمائے جس میں رفعت بھی ہو اور اللہ کا پیار بھی نصیب ہو، اور    اللہ کے دیدار کی وہ کیفیات بھی نصیب ہوں۔

خدا دیکھ رھا ھے!

کیا پیاری کیفیت ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیان فرماتے ہیں:

عبادت ایسے کرو کہ گویا تم اللہ کو دیکھ رہے ہو، اور اگر یہ نہ کرسکو تو یہ تصور کرو کہ اللہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔

یہی تصور غالب آجائے تو بہت بڑی بات ہے۔ ساری کیفیات ہی بدل جائیں گی۔ یہ تصور بھی ہم دلوں میں نہیں بٹھا سکتے اور نہ غالب آتا ہے۔ اگر کوئی نابینا بھی بادشاہ کے دربار میں ملنے کے لیے آئے، اگرچہ وہ اندھا ہے اور اسے کچھ نظر نہیں آتا، لیکن جب اسے یہ کہا جائے کہ اب بادشاہ تمھارے بالکل سامنے ہے، تو آپ دیکھیں گے کہ اس کے اعضا ڈھیلے پڑجائیں گے۔ اس کی گردن ڈھیلی پڑ جائے گی، اس کے قدموں میں فرق آجائے گا اور اس کی آواز دب جائے گی۔ فقط یہ سنتے ہی کہ بادشاہ سامنے ہے، اس پر یہ کیفیت طاری ہوجائے گی حالانکہ وہ نابینا ہے اور اسے کچھ نظر نہیں آرہا۔ ہم نابینا ہی سہی۔ اگر صرف یہ تصور ہی دل میں بٹھا لیں کہ خدا دیکھ رہا ہے تو ہماری عبادت کی کیفیات بدل جائیں۔ اگر اللہ اپنی عظمت ہمارے دل میں بٹھا دے اور رونے کی توفیق بھی عطا فرما دے تو پھر کیا کہنے! (تدوین: امجد عباسی)