جون ۲۰۲۵

فہرست مضامین

علامہ اقبالؒ اور عرب حکمران

ڈاکٹر غلام قادر لون | جون ۲۰۲۵ | اقبالیات

Responsive image Responsive image

علّامہ اقبالؒ کی وفات کو تقریباً ۹۰ برس ہونے کو ہیں۔ یہ ایک عجیب حیرت کی بات ہے کہ اپنی وفات سے بیس پچیس سال پہلے انھوں نے مسلم ممالک کے احوال کی جو تصویرکشی کی تھی، وہ آج کے حالات سے بالکل مشابہت رکھتی ہے ۔ خلافت عثمانیہ کا زوال ، مفادات کے اسیر بعض طاقت ور عربوں کی غداری ، سامراجی طاقتوں کے سامنے سہمے ہوئے مسلم حکمرانوں کی نااہلی ، مسلم ملکوں پر مغربی طاقتوں کا تسلط ان کے زمانے میں عالم اسلام کے خدو خال تھے۔  

فلسطین ، لبنان ، شام ، عراق میں مسلمانوں کی ناگفتہ بہ حالت اور اس پر مسلم حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی ہمارے زمانے کی مسلم دُنیا کے چہرے کی شناخت ہے۔ ان کے دور میں عرب قوم پرستوں کی غداری سے خلافت اسلامیہ کے ٹکڑے ہوئے۔ آج اُن عرب قوم پرستوں کی مقتدر اولادوں کی غداری سے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی ہورہی ہے۔ 

ترکوں کے دورِ حکومت میں مکہ کے گورنر کو ’شریف‘ کہا جاتا تھا کیونکہ یہ شخص سادات میں سے ہوتا تھا۔ ۱۹۰۸ء میں شریف حسین بن علی [۱۸۵۴ء-۱۹۳۱ء] اس منصب پر فائز ہوا۔ ۱۹۱۶ء میں اس نے ترکوں سے بغاوت کرکے اور برطانوی سامراجی قوت کو ساتھ لے کر انگریزوں کی شہہ پر حجاز کی بادشاہت کا اعلان کردیا ۔ شریف حسین کے چار بیٹے تھے۔ شریف حسین نے انگریزوں کی مدد سے ترکوں کو بے حد نقصان پہنچایا۔ حالانکہ یہ واحد قوم تھی جو مغربی طاقتوں کے مقابلے میں ہر محاذ پر لڑرہی تھی۔ علّامہ اقبال نے خضر راہ  نظم کہی تو عربوں کی غداری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: 

بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دینِ مصطفےٰؐ 
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش 

شریف حسین، ہاشمی ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے بھی دینِ مصطفےٰ ؐ کی عزت و حرمت بیچ رہا ہے، جب کہ سخت جان ترک مسلمان آج بھی اسلام کی خاطر جان کی بازی لگارہا ہے۔ 

حرم رُسوا ہوا پیرِ حرم کی کم نگاہی سے 
جوانانِ تتاری کس قدر صاحب نظر نکلے 

شریف حسین کا ایک بیٹا امیر فیصل اوّل [۱۸۸۳ء-۱۹۳۳ء] جو بعد میں عراق کا بادشاہ بنا، انگریزوں کے ساتھ مل کر اپنے خاندان کی بادشاہت قائم کرنے میں اور ترکوں کا خون بہانے میں پیش پیش تھا۔ امیرفیصل اوّل کا دوسرا بھائی عبداللہ [۱۸۸۲ء-۱۹۵۱ء]جو بعد میں اردن کا بادشاہ بنا،وہ بھی انگریزوں کے ساتھ مل کر ترکوں کے خلاف لڑرہا تھا۔ ان دو کے علاوہ شریف حسین کے دوبیٹے علی اور زید تھے۔ 

عربوں کے برعکس ۱۹۱۱ءمیں اٹلی نے لیبیا پر حملہ کیا تو شیخ احمد شریف سنوسی [۱۸۷۳ء-۱۹۳۳ء ] نے ترکوں کی حمایت کے عوض خلیفہ کی طرف سے کوئی مالی اعانت بھی قبول نہیں کی۔ عظیم حریت پسند شہید عمر مختار ؒ [۱۸۵۸ء- ۱۹۳۱ء] سنوسی تحریک ہی کے پرور دہ اور تربیت یافتہ تھے۔ 

عالم اسلام کے دوسرے مسلمانوں کی طرح شیخ سنوسی بھی شریف حسین اور ان کی اولاد سے ناراض تھے۔ انھیں امیر فیصل سے زیادہ شکایت تھی، جنھوں نے ’لارنس آف عربیہ‘ [تھامس ایڈورڈ لارنس: ۱۸۸۸ء-۱۹۳۵ء]کے ساتھ مل کر ترکوں کے خلاف جنگیں لڑی تھیں۔ یہ غدار ابن غدار وہی اسلام دشمن عرب تھا، جس نے فلسطین میں یہودیوں کے داخلے کے لیے صہیونیوں سے سازباز کی تھی۔ علّامہ اقبال نے اس ہاشمی سے شیخ سنوسی کی نفرت کا تذکرہ بھی ایک شعر میں کیا تھا : 

کیا خوب امیرِ فیصل کو سُنّوسی نے پیغام دیا 
تُو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا 

شریف حسین کے دوسرے بیٹے عبداللہ کے خاندان کی حکومت اردن میں قائم ہے۔ چوں کہ اس خاندان میں غداری کی روایت ایک صدی سے جاری رہی ہے، اس لیے اس کا ہر حکمران اس روایت کو سینے سے لگائے ہوئے ہے۔ موجودہ حکمران شاہ عبداللہ دوم کے والد شاہ حسین (م: ۱۹۹۹ء) کے دورِ حکومت میں ۱۹۷۰ء کے دوران اُردن میں فلسطینیوں کے قتل عام نے اُن کے اعمال نامے میں سیاہی کا اضافہ کیا۔ فلسطینیوں کے اس قتل عام کو ’سیاہ ستمبر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ موجودہ حکمران شاہ عبداللہ دوم کی داستان بھی سرجھکا دینے کے لیے کافی بنیادیں رکھتی ہے۔ اسرائیل پر جب ایران نے میزائل داغے تو اُردن نے ان میزائلوں کو اپنے ملک کی حدود میں روک کر اسرائیل نوازی کا ثبوت فراہم کیا۔فلسطینیوں کی حالیہ نسل کشی کے دوران جب حوثیوں نے آبی گزرگاہوں کو بند کردیا تو سعودی اور اُردنی بادشاہوں نے اسرائیل کو جانے والی سپلائی کے لیے زمینی راستے کھول کر، اسرائیل پہ پڑنے والا دبائو کم کردیا۔ 

شریف حسین نے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد خلیفۃ المسلمین ہونے کا دعویٰ ۱۹۲۴ء میں کیا، جسے نجد کے حکمران عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن سعود [۱۸۷۵ء-۱۹۵۳ء] نے تسلیم نہیں کیا،   اور ۱۹۲۵ ءمیں حجاز پر اپنی گرفت مضبوط بنانے کے بعد ۸ جنوری ۱۹۲۶ء کو حجاز کے بادشاہ ہونے کا اعلان کیا۔اس کے بعد وہ نجدوحجاز کے بادشاہ کہلائے اور ۲۳ستمبر ۱۹۳۲ء کو نجد و حجاز کا نام بدل کر سعودی عرب رکھ دیا۔ انگریزوں نے شریف حسین سے جس عرب سلطنت کے وعدے کیے تھے، اس کے ٹکڑے کیے گئے۔ اب انگریزوں نے شریف حسین کو دھوکا دے کر اس سے چھٹکارا پالیا اور اس کی جگہ شاہ عبدالعزیز ابن سعود کو نیا حلیف چُن لیا۔ آج تک آلِ سعود کا خاندان ہی سعودی عرب کا حکمران چلا آرہا ہے۔ دینی وابستگی کے اعتبار سے سلفیت سے نسبت ہے، مگرامریکا اور برطانیہ کے ساتھ ناقابلِ تصور حد تک دوستی و وابستگی ہے۔ کنگ عبدالعزیز نے جس طرح عہدِ رسالت اور خلافت راشدہ کی یاد گاروں کو مٹانے کے لیے اپنے اقتدار کا استعمال کیا، اس سے پوری دنیا کے مسلمانوں کو تکلیف پہنچی۔ علّامہ اقبال نے ان سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے رہنمائی حاصل کریں : 

تو ہم آں مے بگیر از ساغرِ دوست 
کہ باشی تا ابد اندر برِ دوست 

سجودے نیست اے عبدالعزیز ایں 
بروبم از مژہ خاک درِ دوست 

[تُو بھی حبیبِ ؐ خدا کے اسوہ سے استفادہ کر تاکہ ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امان میں رہو۔ اے عبدالعزیز جو میں کررہاہوں یہ سجدہ نہیں ہے۔ میں اپنی آنکھوں کی پلکوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کی مٹی جھاڑرہا ہوں۔]  

اقبال اس کے بعد شاہ عبدالعزیز سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں: 

تو سلطانِ حجازی من فقیرم 
ولے درکشورِ معنی امیرم 

جہانے کو ز تخمِ لااِلٰہ  
رُست بیابنگر بآغوشِ ضمیرم 

[تو حجاز کا بادشاہ ہے، میں گو ایک فقیر ہوں، مگر اقلیم معانی کا امیر ہوں۔ لااِلٰہ کے تخم سے جو دنیا پیدا ہوئی ہے، اگر اس دنیا کو دیکھنا ہو، تو میرے ضمیر کے اندر دیکھ لو۔ ] 

علّامہ اقبال نے آج کے عربوں سے بار ہا مایوسی اور نا اُمیدی کا اظہار کیا ہے۔ جاوید نامہ میں انھوں نے ایک پُرسکون سمندر میں دو سرکش انسانوں کی روحوں کو دکھایا ہے، جو اس سمندر میں اسیر ہیں۔ ان میں سے ایک روح مصر کے فرعون کی ہے، جس نے حضرت موسٰی کی مخالفت کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے اور اس کے لشکر کو غرقِ آب کردیا۔ دوسری روح فیلڈمارشل ہربرٹ کچنر [۱۸۵۰ء- ۱۹۱۶ء]کی ہے، جو برطانیہ کا ایک درندہ صفت فوجی جرنیل تھا۔ اس نے ۱۸۹۸ءمیں خرطوم (سوڈان) پر قبضہ کیا اور شہر میں داخل ہوتے ہی مہدی سوڈانی (محمد احمد بن عبداللہ مہدی: ۱۸۴۵ء- ۱۸۸۵ء) کی لاش قبر سے نکال کراسے نذر آتش کردیا، جس پر مہدی سوڈانی کے پیروکار درویشوں نے اس درندے کو بددعا دی کہ تو نے ہمارے مرشد کی لاش کی بے حُرمتی کی، اللہ کرے تیری لاش کو خشکی اور سمندر میں کہیں امان نہ ملے۔ اٹھارہ سال بعد اس درندے کا جہاز جس میں وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ سفر کررہا تھا، سمندر میں غرق ہوا۔ اس کی لاش ہی پانی میں ڈوب گئی ۔ برطانیہ کے اس مایہ ناز فرزند کی لاش کو نکالنے کے لیے ماہر غوطہ خور لائے گئے، جنھوں نے بڑی کوششوں کے بعد اس کی لاش سمندر سے نکالی اور بندرگاہ کے ساحل پر رکھ دی۔ لاش ساحل پر رکھی ہوئی تھی کہ وہاں موجود گارڈ نے سوچا کہ لاش کی رپورٹ تیار کرنے میں بڑی پریشانی ہوگی، چنانچہ اس زحمت سے بچنے کے لیے اس نے کچنر کی لاش کو آگ لگادی اور اسے راکھ میں بدل دیا۔ مزید کسی زحمت سے بچنے کے لیے اس نے ٹھوکریں مار مار کر راکھ کو بکھیر کر اڑا دیا۔ قدرت کس طرح بڑے بڑے سرکشوں سے انتقام لیتی ہے! 

پُر سکون سمندر میں لارڈ کچنر کی روح تقریر کرتی ہے کہ ہم نے مصر کے آثار قدیمہ کی کھدائی کسی مادی منفعت کے لیے نہیں کی، بلکہ انگریز علم و حکمت کو پسند کرتے ہیں، اس لیے اس قوم کا مقصد بلند ہوتا ہے۔ ہم نے یہ کھدائی اس لیے کی ہے تاکہ مصر کی قدیم تاریخ اور فرعون و موسٰی کی کش مکش کے تاریخی شواہد سامنے آسکیں۔ علم و حکمت کا مقصد ہی چھپی چیزوں سے پردہ اٹھانا ہوتا ہے۔ ہم نے اگر مصر کے فرعون کی قبر کھودی تو اس کا مقصد یہی تھا۔ 

لارڈکچنر کی یہ تقریر سن کر فرعون نے سوال کیا کہ ٹھیک ہے ہماری قبر کو تونے تاریخی شواہد معلوم کرنے کے لیے کھودا، مگر مہدی سوڈانی کی قبر کے اندر کیا تھا؟ 

قبرِ ما را علم و حکمت برکشود 
لیکن اندر تربتِ مہدی چہ بُود؟ 

یہاں لارڈکچنر خاموش ہوجاتا ہے، کوئی جواب اُس سے نہیں بن پاتا۔ 

اس اثناء میں اس پرسکون سمندر میں ایک بجلی چمکتی ہے۔ پانی میں لہر اُٹھتی ہے اور جنت کے گلستان سے ایک خوشبو آتی ہے۔ مصری درویش مہدی سوڈانی نمودار ہوتے ہیں اور کچنر سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ اگر تمھاری آنکھوں میں روشنی ہو تو درویش کی خاک کا انتقام دیکھ۔ آسمان نے تمھیں قبر کے لیے جگہ بھی نہ دی۔ سمندر کے طوفان کا شور ہی تمھارا مقدر بنا۔ اس کے بعد مہدی سوڈانی کی آواز بیٹھ جاتی ہے۔ وہ ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے عربوں سے خطاب کرتے ہیں : 

گفت اے روح عرب بیدار شو 
چوں نیا گ خالقِ اعصار شو 

اے فواد اے فیصل اے ابن سعود  
تا کجا بر خویش پیچیدن چو دور 

زندہ کن درسینہ آں سوزے کہ رمت  
درجہاں باز آور آں روزے کہ رفت 

خاک بطحا خالدے دیگر بزاے  
نغمۂ توحید را دیگر سراے 

اے نخیلِ دشت تو بالندہ تر  
بر نخیزد از تو فاروقے دگر 

اے جہانِ مومنانِ مشک فام  
از تومی آید مرا بوے دوام 

زندگی تاکجاے ذوق سیر 
تا کجا تقدیرِ تو در دستِ غیر 

بدمقامِ خود نیائی تابکے  
استخوانم دریچے نالد چونے 

از بلاترسی؟ حدیثِ بمصطفٰے است 
مرد را روزِ بلا روزِ صفاست 

 

[مہدی سوڈانی کا یہ خطاب طویل ہے، یہاں صرف نو اشعار دیئے گئے ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے:] 

اے عرب کی روح بیدار ہوجاؤ، اگلے بزرگوں کی طرح نئے اَدوار پیدا کرو 

اے فواد، اے فیصل، اے ابن سعود! ( مصر ، عراق اور حجاز کے حکمران) تم کب تک تفرقہ بازی کا شکار ہوکر صرف اپنی ذات تک محدود رہو گے؟ 

اپنے سینے میں ایمان کی وہ آگ پیدا کرلو جو چلی گئی ہے۔ ان ایام کو دنیا میں پھر سے لاؤ جو چلے گئے ہیں۔  

بطحا کی سرزمین سے ایک نیا خالد (خالد بن ولیدؓ) پیدا کرلو اور توحید کے نغمے کو دنیا میں دوبارہ گاؤ۔  

تمھارے جنگل کا درخت اب بھی بہت سرسبز ہے۔ پھر کیوں کوئی دوسرا عمر فاروقؓ پیدا نہیں ہوتا؟ 

اے سیاہ فام مومنوں کی سرزمین (سوڈان)، مجھے تم سے ابدی خوشبو آتی ہے۔ بڑی اُمیدیں ہیں، تم کب تک غیر متحرک زندگی گزارتے رہوگے؟ تمھاری تقدیر کب تک دوسروں کے ہاتھ میں رہے گی؟ 

اے سیاہ فام مومنو، تم کب تک اپنے مقام سے غافل رہوگے؟ اس تصور سے میری ہڈیاں بانسری کی طرح فریاد کرتی ہیں۔ تم بلاؤں سے گھبراتے ہو، حالانکہ ہمارے پیغمبرؐ نے فرمایا ہے کہ مرد کے لیے مصیبت کا دن قلب کی صفائی کا دن ہوتا ہے۔ یعنی روزِ بلا تزکیۂ نفس کا دن ہوتا ہے۔ 

آج کے حالات میں عرب حکمرانوں کے لیے اس سے بہتر کوئی پیغام نہیں ہوسکتا، جو مہدی سوڈانی نے انھیں دیا ہے۔ آج اگر مسلم ممالک متحد اور طاقت ور ہوتے تو ہمارے فلسطینی مسلمان بھائی اس ظلم و سفاکیت کا شکار نہ ہوتے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اس نسل کشی کے دوران فلسطین کے اصل باشندوں کی جلاوطنی اور ’ابراہیم اکارڈ‘ کی باتیں ہورہی ہیں اور عرب اور مسلمان حکمران ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔