مارچ۲۰۰۶

فہرست مضامین

فرانس: خواتین میں گھروں کی طرف واپسی کا رجحان

یاسمینہ صالحہ | مارچ۲۰۰۶ | عالم نسواں

Responsive image Responsive image

ترجمہ: حافظ محمد عبداللہ

’ہم ماں کا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں!‘ فرانس کی خواتین میں یہ نعرہ دن بدن مقبول ہوتا جارہا ہے۔ بادی النظر میں فرانسیسی خواتین کا یہ نعرہ یورپ میں ایک نئے تنازعے کا آغاز محسوس ہوتا ہے۔ اس لیے بھی کہ گذشتہ صدی کے نصف اوّل میں فرانس ہی تحریکِ نسواں کا سب سے بڑا    علَم بردار تھا اور اب یہ وہی فرانس ہے جہاں عورتوں کے سب سے بڑے مجلے میں رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کا عنوان ہے: (نرید أن نکون امھات) ہم ماں کا کردار ادا کرنا چاہتی ہیں۔

فرانسیسی منظرنامے پر ایک نظر ڈالیں تو یہاں وقوع پذیراور ہرلمحہ بدلتے حوادث کا آپس میں گہرا اور مربوط تعلق دکھائی دیتا ہے۔ آج کا فرانسیسی معاشرہ انتہائی تناقضات کا شکار ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ حکومتِ فرانس کی مختلف ثقافتوں اور نسلوں کے لیے کھلی پالیسی (open door policy) ہو۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ اس لیے ہے کہ قانونی اور غیرقانونی مہاجرین اچھی ملازمت اور محفوظ مستقبل کے لیے کثرت سے فرانس کا رخ کرتے اور اسے جاے قیام بناتے ہیں۔ فرانسیسی قوانین کے مطابق سرزمین فرانس پر تین برس گزار لینے والے ہر فرد کو شہریت دے دی جاتی ہے اور فرانس میں پیدا ہونے والے بچوں کے لیے تو اور بھی نرمی ہے۔ یہاں تک کہ اگر اس کے والدین بے روزگار ہوں تو بچے کو ماہانہ وظیفہ ملتا ہے۔ شاید اسی وجہ سے دوسرے ممالک سے آنے والے مہاجرین کے سیلاب کا بیش تر رخ فرانس کی جانب ہے اور یوں فرانس رنگارنگ ثقافتوں اور قومیتوں کا مجموعہ بن چکا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ فرانس کی اپنی اصل شناخت اور تشخص بالکل ہی معدوم ہوچکا ہے۔

فرانسیسیوں کی اصل مشکلات: فرانسیسی اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان کی مشکلات کا اصل منبع رنگارنگ ثقافتیں اور دیگر قومیتیں نہیں بلکہ سماجی مشکلات کا اصل سبب اقتصادیات ہے۔ وہ ادارے اور کارپوریشن جن پر کبھی فرانس فخر کیا کرتا تھا‘ نج کاری کی دیوانگی کا شکار ہیں۔ اسی نج کاری کا شاخسانہ تھا کہ ان اداروں سے ملازمین کی بڑی تعداد فارغ کی جاچکی ہے۔ کئی کارپوریشنیں اپنے دیوالیہ ہونے کا اعلان کرچکی ہیں‘ جب کہ کئی دوسری‘ کارکنوں کی قلت کا شکار ہیں۔ یورپین کمپنیاں ایک کے دو بنانے کے چکر میں ہیں۔ انھیں سماجی اثرات کی زیادہ فکر بھی نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ کارکنوں کو دُگنا کام کرنا پڑ رہا ہے لیکن مادی ضروریات کا بوجھ ہے کہ گھٹنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ یہ حالت خصوصاً اس وقت سے ہے جب سے فرانس نے اپنے سکّے فرانکو کو چھوڑ کر یورو کو اپنایا ہے۔

فرانسیسی خاندان اپنی تاریخ میں پہلی بار حقیقی افلاس سے دوچار ہے۔ ملازمت کے پیچھے بھاگتے ہوئے‘ دوران ملازمت‘ طویل عرصے تک گھروں سے باہر رہنے اور گھنٹوں اوور ٹائم کرنے کے بعد فرانسیسی اپنی نجی زندگی کو تو بھول ہی چکے ہیں۔ بہت سی وہ چیزیں جو ۲۰برس قبل فرانسیسیوں کی عادتِ ثانیہ اور ان کا فخر ہوا کرتی تھیں‘ اب طاقِ نسیاں کی نذر ہوچکی ہیں۔ یہی احساس ہے جو ڈھلتی عمر کی فرانسیسی خواتین میں روز افزوں ہے کہ ڈھلتی عمر اور طویل ملازمتوں نے انھیں اپنے آپ سے بے خبر کر دیا ہے۔ اور اب وہ گھریلو زندگی کے بنیادی تقاضے پورے کرنے سے بھی قاصر ہیں۔

فرانس کیا پورے یورپ ہی میں وقت کی قلت کا علاج نہایت مشکل ہے۔ انسان اگر کامیاب ملازم بننا چاہتا ہے تو اسے اپنی نجی زندگی کو قربان تو کرنا ہی پڑے گا۔ خواتین کے مذکورہ مجلے کی ایڈیٹر ستیفانی تروکرین خواتین میں روز افزوں یاس اور ایک گھر کی مالکہ نہ ہونے کے احساس میں اضافے کے متعلق کہتی ہیں کہ میرے خیال میں فکری وسماجی تبدیلی نے اس تصادم کو  جنم دیا ہے۔ فرانس کی ۷۰ فی صد سے زائد خواتین کی عمر اس وقت ۳۵ برس یا اس سے زیادہ ہے۔ اسی لیے اب سوئٹزرلینڈ کی طرح فرانس کا شمار بھی بوڑھی مملکت میں ہونے لگا ہے۔ واضح ہو کہ سوئٹزرلینڈ کی ۶۶فی صد سے زائد خواتین ۴۰ برس سے زائد عمر کی ہیں۔ فرانسیسی خواتین کی اصل مشکل تھکا دینے والی طویل دورانیے کی ملازمت نہیں ہے بلکہ ان کا خاندان ہے۔ ۴۴فی صد سے زیادہ کامیاب ملازم خواتین کا کہنا ہے کہ انھیں یہ کامیابی اولاد اور گھر کو ملازمت کے بھینٹ چڑھاکر حاصل ہوئی ہے‘ جب کہ ۳۲ فی صد خواتین کا کہنا ہے کہ انھیں اپنی ملازمت کے لیے اپنا بلیدان (اپنا آپ قربان کرنا) دینا پڑا ہے۔ انھیں شادی کرنے اور گھر بنانے کے لیے وقت ہی نہیں مل سکا۔

فرانسیسی میڈیا آج جسے فکری انقلاب سے تعبیر کررہا ہے ‘ ریڈیو فرانس انٹرنیشنل کے ایک سروے کے مطابق خواتین کی بڑی تعداد اسے گھر کی طرف مراجعت (back to home)قرار دے رہی ہے۔ دوسری طرف اہم تر بات یہ بھی سامنے آئی ہے کہ گھرکی کشش کا فقدان صرف ملازمت پیشہ خواتین ہی محسوس نہیں کر رہی ہیں بلکہ گھریلو خواتین میں بھی شدت کے ساتھ یہ احساس پایاجاتا ہے۔ اس لیے کہ ان کا شوہر اپنی ملازمت کے سلسلے میں دن کا اہم تر حصہ گھر سے باہر گزارنے پر مجبور ہے۔

فرانس کے اہم اخبار لیبراسیون کی طرف سے قارئین کے سامنے یہ سوال پیش کیا  گیا تھا کہ معاشرے کو خاندانی نظام اپنانے کے لیے کس طرح تیار کیا جائے؟ اس کے جواب میں ۳۱ فی صد خواتین کا کہنا تھا ہم مزید ملازمت نہیں کرنا چاہتیں‘ لہٰذا گھریلو اخراجات و ضروریات کے لیے ماہانہ مشاہرہ دیا جائے۔ اسی سروے کو مدنظر رکھتے ہوئے اور فرانس کے محفوظ مستقبل کے لیے ہی فرانس کی نیشنلسٹ پارٹی نے اسے باقاعدہ اپنے منشور کا حصہ بنایا ہے۔

فرانس کی مشہور ماہر معاشیات فلولانس موریانتی سے جب دریافت کیا گیا کہ ماضی کی    بہ نسبت اب گھر کی طرف لوٹنے والی خواتین کا تناسب کیوں زیادہ ہے؟ تو ان کا کہنا تھا: کبھی وقت تھا جب فرانس کے بارے میں عموماًکہا جاتا تھا کہ یہاں کوئی بھوک سے نہیں مرتا۔ لیکن افسوس کہ ماضی کی یہ حقیقت اب حقیقت نہیں رہی۔ اب یہاں لوگ بھوک‘ سردی‘ غربت اور مناسب گھریلو زندگی نہ ہونے کے سبب مر رہے ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہیں کہ فرانس اب جنت نہیں رہا‘ یہاں کا سماج تبدیل ہوچکا‘ لہٰذا سوچ اور فکر میں تبدیلی آئی ہے۔ فرانسیسی لوگ اب امریکا اور کینیڈا کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کا تو کبھی کسی نے سوچا تک نہ تھا لیکن اب یہ امر واقعی بن چکا ہے۔  میرے نزدیک عورت کا زندگی میں ہمیشہ اہم کردار رہا ہے لیکن آج کی عورت سوچ رہی ہے کہ وہ اپنی ممتا (امومت) قربان کر کے بھی کچھ حاصل نہیں کرسکی۔ وقت گزرنے پر آج کی بہت سی عورتیں سوچ رہی ہیںکہ ڈھلتی عمر میں اب نہ ان کا کوئی گھر ہی ہے اور نہ بال بچے۔

اس پر مستزاد یہ کہ جس ملازمت کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کیا۔خود اس کا وجود خطرات کی زد میں ہے۔ فرانس میں خواتین کے سب سے بڑے پرچے’وہ‘ کی معروف لکھاری مارسلسیاجادون کہتی ہیں کہ اجتماعی سطح پر چھائی ہوئی مایوسی اب انفرادی سطح پر بھی لوگوں کے دل و دماغ میں گھر کرچکی ہے۔ حالات بھی کچھ زیادہ خوش آیند نہیں ہیں اور ایسے میں تنہائی بھی کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔ کسی بھی چیز پر اعتماد باقی نہیں رہا۔ اوّل تو بے روزگاری عام ہے اور پھر ملازمت سے برخواستگی کی تلوار ہروقت سر پر لٹک رہی ہے اور پوری قوم ہی اخلاقی و روحانی اقدار سے عاری فضا میں زندگی گزار رہی ہے۔ انھی مخدوش حالات نے فرانسیسی خاتون کے دل و دماغ پر اثرات مرتب کیے ہیںاور اسے تنہا ان مشکل حالات سے سابقہ ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ان میں یہ احساس جڑ پکڑتا چلا جا رہا ہے کہ ان کا نہ کوئی گھر ہے اور نہ ہی پُرسانِ حال اولاد۔ مصروفیت نے انھیں اتنا وقت بھی نہیں دیا کہ شادی ہی کرسکتیں۔ امورخانہ داری کی طرف لوٹنے کی رغبت رکھنے والی خواتین کی عمر دیکھیں تو ۳۵ سے ۴۴ برس کے درمیان ہے۔ اسی عمر میں خوابوں کا محل منہدم ہوتا ہے اور تنہائی اور عزلت کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔ انھی کے بارے میں فرانسیسی میں تنہائی گزیدہ مائیں کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے کہ انھوںنے زندگی کی کش مکش میں اپنا سب کچھ کھو دیا اور انجام کار اپنے لیے مزید سماجی مشکلات کھڑی کرلیں۔

فرانس کے مشہور صحافی شارل موورا مذکورہ خواتین کے تجزیے سے مکمل اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فرانس حقیقی اقتصادی مشکلات کا سامنا کررہا ہے۔ ایسے میں اگر امورخانہ داری کی طرف لوٹنے کو پسند کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ نظر آرہا ہے تو یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں ہے۔ ہمیں فی الفور اور سنجیدہ بنیادوں پر اس نئے رجحان کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ پھر یہ مسئلہ صرف ہمارا ہی نہیں ہے بلکہ کچھ عرصہ قبل سوئٹزرلینڈ کے بارے میں بھی ایسی ہی تحریریں سامنے آچکی ہیں‘ بلکہ یہ تو اب سارے یورپی معاشرے کا مسئلہ بن چکا ہے۔ یورپین عورت عجب مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ اس کے لیے ایک ہی وقت میں بیوی‘ اور ملازم پیشہ عورت کا کردار اداکرنا نہایت مشکل ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ہرچیز میں اعلیٰ معیار کی کارکردگی ہو یا پھر کچھ بھی نہ ہو۔ خواتین کی نہایت ہی قلیل تعداد ایسی ہوگی جو گھریلو معاملات میں بھی پوری طرح کردار اداکرے اور اپنی ملازمت کے تقاضوں کو بھی خوب نبھائے۔

فرانس میں طلاق کی اُونچی شرح اور بن بیاہی مائوں کی بڑی تعداد واضح کر رہی ہے کہ شاید ہم نے خواتین پر ان کی بساط سے بڑھ کر بوجھ لاددیا ہے۔ انجام کار عورت پر واضح ہوتا ہے کہ اس نے حقیقی معنی میں تو گھر بسایا ہی نہیں‘ نہ اس کا کوئی شوہر ہے اور نہ کوئی اولاد۔ میرے نزدیک تو اس ساری مشکل سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے‘ اور وہ یہ کہ یورپ کو روحانی اقدار کی طرف لوٹنا چاہیے۔ بالفاظ دیگرہمیں اپنے خاندانی نظام کو بحال کرنا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ بہتری کی طرف قدم بڑھانے کا وقت آچکا ہے۔ (المجتمع، عدد ۱۶۸۰‘ دسمبر ۲۰۰۵ئ)