مارچ۲۰۰۶

فہرست مضامین

شیطانی کارٹون ___تہذیبی کروسیڈ کا زہریلا ہتھیار

پروفیسر خورشید احمد | مارچ۲۰۰۶ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جس طرح جنگ میں دشمن کے مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی کے تعین کے لیے ضروری ہے کہ نقشۂ جنگ اور محرکاتِ جنگ کو ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے‘ بالکل اسی طرح فکری اور تہذیبی جنگ میں کامیابی کا انحصار بھی نقشۂ جنگ اور محرکاتِ جنگ دونوں کے صحیح ادراک پر ہے۔ آج ڈنمارک کے اخبار یولاند پوسٹن (Jyllands Posten) کے ۱۲ کارٹونوں کے ذریعے مغرب کے سورمائوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پاک‘ اسلام اور مسلمانوں کو تمسخر‘ تضحیک اور اہانت کا ہدف بناکر اور دہشت گردی کا منبع اور علامت قرار دے کر جس عالمی تہذیبی جنگ کا   اعلان کیا ہے اس کی اصل نوعیت کو سمجھنا اور اس کے مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی بنانا فی الوقت دنیاے اسلام کا سب سے اہم مسئلہ بن گیا ہے۔

فطری طور پر مسلم عوام نے اپنے عالم گیر ردّعمل سے یہ ظاہر کردیا ہے کہ اُمت صرف مٹی کا ڈھیر نہیں ہے۔ اس میں ایمان اور غیرت کی وہ چنگاری بھی موجود ہے جو طاقت کے زعم میں بدمست اربابِ اقتدارکے متکبرانہ اقدامات کو چیلنج کرنے کا داعیہ رکھتی ہے اور جس میں ایسا شعلہ جوالہ بننے کی استعداد بھی ہے جو بڑے بڑے محل نشینوں کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔

اُمت مسلمہ کا ردّعمل فوری بھی ہے اور فطری بھی‘ لیکن مسئلہ محض وقتی ردّعمل کا نہیں بلکہ مقابلے کی مکمل اور مربوط حکمت عملی اور ہرسطح پر اس کے مطابق پوری تیاری کے ساتھ مسلسل جدوجہد کا ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ان شیطانی کارٹونوں کے ذریعے اُمت مسلمہ کو جس تہذیبی کروسیڈ کا ہدف بنایا گیا ہے‘ اس کے اصل نقشے اور اس جنگ کے اسلوب‘ اہداف اور تمام محاذوں کو سمجھا جائے اور مقابلے کی تیاری کی جائے۔ جہاں فوری ردّعمل ضروری تھا‘ وہیں دوسرے تمام پہلوئوں کو نظرانداز کرکے محض جذباتی اظہارِ نفرت اور غیظ و غضب سے اس معرکے کو سر نہیں کیا جاسکتا۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت گہرائی میں جاکر حالات کا صحیح ادراک کرے اور مقابلے کی حکمت عملی ان تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر طے کرے۔


مغرب کی استعماری قوتوں کا یہ خیال تھا کہ دوسری جنگ کے بعد جو عالمی نظام قائم ہوگا ‘وہ صرف امریکا اور یورپی اقوام کے سیاسی غلبے سے ہی عبارت نہیں ہوگا بلکہ پوری دنیا میں مغربی تہذیب‘ فلسفے‘ اقدار‘ معیشت اور اصول حکمرانی کا دور دورہ ہوگا۔ ان کا خیال تھا کہ مذہب کا دور اب ختم ہوچکا ہے اور لادینی تہذیب کو مادی اور عسکری غلبے کے ساتھ ساتھ فکری بالادستی بھی حاصل ہوگئی ہے جس کے نتیجے میں وہ پوری انسانیت کو اپنے رنگ میں رنگ لے گی۔ امریکا اور روس کی سردجنگ ایک ہی تہذیب کے دو مرکزوں کی جنگ تھی جو بالآخر امریکا کی بالادستی پر منتج ہوئی اور جلد ہی روس میں بھی لبرلزم اور جمہوریت کی وہی آوازیں بلند ہونے لگیں جو امریکا اور نام نہاد آزاد دنیا کی شناخت تھیں۔ اس زمانے میں ڈیڑھ سو سے زیادہ نئے ملک دنیا کے سیاسی نقشے پر اُبھرے لیکن بظاہر ان کے پاس نہ تو کوئی اپنا نظریہ تھا اور نہ سیاسی‘ معاشی اور عسکری اعتبار سے وہ کوئی وزن رکھتے تھے اس لیے روس کے اشتراکی ڈھانچے کے تتر بتر ہوتے ہی صرف ایک نظریے اور ایک تہذیب کے عالمی غلبے کے خواب دیکھے جانے لگے___ لیکن اس میں ایک سدّراہ کی بھی نشان دہی کی جانے لگی یعنی اسلام، ’سیاسی اسلام‘ اور اُمت مسلمہ جو اپنا تہذیبی تشخص رکھے اور اس تشخص کے اظہار اور استحکام کے لیے اجتماعی نظام‘ قانون‘ معیشت‘ معاشرت‘ تمدن اور سیاسی قوت کی طلب گار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ روس کے عالمی قوت کی حیثیت سے میدان سے باہر ہوتے ہی اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا آغاز ہوگیا۔

مغربی استعمار کے خلاف جنگ‘ بظاہر آزادی اور قوم پرستی کے نام پر ہورہی تھی اور حق خودارادیت اس کا محور تھا مگر اسلامی دنیا میں اس کی پشت پر جو سب سے قومی محرک تھا وہ اسلام اور اس کا دیا ہوا تصورِحیات تھا۔ تحریک پاکستان میں یہ پہلو زیادہ واضح اور کھلا کھلا تھا‘ جب کہ دوسرے ممالک میں اگرچہ یہ مؤثر طور پر موجود تھا۔ اصحابِ نظر اور تاریخ پر گہری نگاہ رکھنے والے بخوبی اس سے واقف تھے مگر اظہار اور اعلان کے اعتبار سے ہر جگہ اتنا نمایاں نہیں تھا۔ ولفریڈ اسمتھ اس حقیقت کا کھلا اعتراف کرتا ہے کہ:

جوں جوں آزادی کی تحریک عوام میں مقبول ہوتی چلی گئی ‘ اس کی پس پشت قوت کے طور پر مذہب سامنے آتا گیا۔ اگرچہ تحریک کے نظریات‘ ہیئت اور قائدین زیادہ تر مغربی انداز پر قوم پرستانہ خیالات کے حامل تھے‘ تاہم عام وابستگان اور ان کے اعمال اور احساسات میں نمایاں طور پر اسلامی رنگ کا غلبہ تھا۔ مسلم عوام نے قومیت کا کوئی ایسا تصور قبول نہیں کیا جو اسلام کے بندھنوں سے ماورا کسی برادری کے ساتھ وفاداری یا کسی  اور تعلق پر مبنی ہو۔ (Islam in Modern History ‘ پرنسٹن ۱۹۵۷ئ‘         ص ۷۵-۷۷)

۱۹۷۹ء کے ایران کے اسلامی انقلاب‘ ۱۹۷۹ء تا۱۹۸۹ء کے جہاد افغانستان اور ۱۹۷۳ء کے بعد مسلم ممالک میں اسلامی تحریکات اور اتحاد اسلامی کی اجتماعی مساعی نے جہاں اُمت مسلمہ میں اپنے تشخص کی حفاظت اور اپنی اقدار اور تصورات کے مطابق اجتماعی زندگی کی نقشہ بندی کا احساس پیدا کیا‘ وہیں مغربی اقوام کے لیے یہ احساس اور یہ کوشش خطرے کی گھنٹی بن گئی اور اسلام کو مغربی اقوام کے سیاسی مقاصد کے حصول کی راہ میں ایک رکاوٹ اور خطرہ بناکر پیش کیا جانے لگا۔ اس سلسلے میں صہیونی اور امریکی اہلِ قلم نے کلیدی کردار ادا کیا جن میں برنارڈ لیوس‘ سیمویل ہن ٹنگٹن‘ ڈینیل پائپس‘ ہنری کسنجر اور فرانسس فوکویاما خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں۔ ناین الیون کے بعد اسلام کوجس بے دردی سے دہشت گردی کا مذہب اور ہرمسلمان کو ایک بالقوہ دہشت گرد (potential terrorist) کے روپ میں پیش کیا جارہا ہے اس کے فکری ڈانڈے تہذیبی جنگ کے متذکرہ بالا اوّلین قائدین کے رشحاتِ قلم سے جاملتے ہیں۔ صدربش اور ان کے نیوکونز (neo-cons) کا پورا طائفہ مختلف انداز میں کبھی بالکل کھلے طور پر اور کبھی منافقانہ انداز میں اور شاطرانہ اسلوب میں یہی بات کہہ رہا ہے۔ صدربش کے اس سال کے خطاب بہ عنوان State of the Nation (جنوری ۲۰۰۶ئ) میں کھل کر کہا گیا ہے کہ ہمارا اصل مقابلہ ’سیاسی اسلام‘ (political Islam)اور اسلامی بنیاد پرستی (Islamic fundamentalism) سے ہے۔ اور یہی وہ مرکزی نکتہ ہے جو ہن ٹنگٹن نے پوری چابک دستی کے ساتھ مغرب کے پالیسی سازوں کے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کی ہے‘ یعنی:

مغرب کا اصل مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں‘ خود اسلام ہے۔ یہ ایک مخصوص تہذیب ہے جس کے وابستگان اپنے تمدن کی برتری کے قائل ہیں اور اور اقتدار و اختیار سے محرومی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ اسلام کے لیے مسئلہ سی آئی اے یا امریکا کا محکمہ دفاع نہیں‘ مغرب ہے۔ یہ ایک مختلف (اور متصادم) تہذیب ہے جس کے داعی اپنی تہذیب کی آفاقیت کے قائل ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ ان کی (بظاہر زوال پذیر) مگر بالاتر طاقت تقاضا کرتی ہے کہ اس تمدن کو پوری دنیا میں پھیلا دیا جائے۔ یہ وہ بنیادی عناصر ہیں جو اسلام اور مغرب کے درمیان تنازعے میں جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں۔ (The Clash of Civilizations ،سیمویل پی ہن ٹنگٹن)

بات بہت واضح ہے۔ تصادم کی وجہ دو تہذیبوں کا اختلاف نہیں۔ مغرب کا یہ عزم ہے کہ اس کی تہذیب بالاتر ہے اور اسے دنیا میں بالادست ہونا چاہیے۔ جو چیز کش مکش اور تنازعے کو   جنم دے رہی ہے اور پروان چڑھا رہی ہے وہ یہ تصور ہے کہ جو طاقت مغرب کو حاصل ہے‘ اس کا استعمال مغربی تہذیب کو ساری دنیا پر مسلط کرنے کے لیے ہونا چاہیے اور یہ گویا کہ ایک واجب   اور فرض ہے جسے انجام دینا مغرب کی ذمہ داری ہے۔ مغرب کی حکمت عملی میں دو تہذیبوں کی بقاے باہمی اور تعاون اور ایک دوسرے کے احترام کا کوئی مقام نہیں‘ اور یہی وہ چیز ہے جو عالمی امن کے لیے خطرے اور جنگ و جدال کی راہ ہموار کرنے کا سبب ہے۔ قوت کے عدمِ توازن کی وجہ سے کمزور ممالک اور اقوام وہ راستے اختیار کرنے پر مجبور ہوتی ہیں جو برابربرابر کی جنگ سے مختلف ہیں۔

یہ ہے وہ فکری‘ تہذیبی اور عسکری نقشۂ جنگ جس میں:

  • ۳۰ ستمبر ۲۰۰۵ء کو ڈنمارک کے اخبار یولاند پوسٹن نے ۱۲ شیطانی کارٹون شائع کیے۔
  •  اس پر مسلم دنیا کا ردّعمل نرم رہا۔
  • آگ کو تیز کرنے اور جلتی پر تیل ڈال کر‘ اُسے مزید بھڑکانے کے لیے جنوری ۲۰۰۶ء میں ۲۲ممالک کے ۷۵ اخبارات و رسائل میں انھیں شائع کیا گیا۔
  •  ۲۰۰ ریڈیو اور ٹی وی چینلوں پر اُنھیں دوبارہ بلکہ سہ بارہ نشرکیا گیا۔ اور یہ سب آزادیِ اظہار‘ آزادیِ صحافت اور سیکولر جمہوریت کے نام پر کیا گیا۔
  •  ہالینڈ کے اخبارات نے لکھا کہ ہم یہ کارٹون ہر ہفتے شائع کیا کریں گے تاکہ مسلمان ان کے عادی ہوجائیں۔
  •  اٹلی کے ایک وزیر نے ان کی ٹی شرٹ خود استعمال کی اور اسے ایک فیشن کے طور پر فروغ دینے کے پروگرام کا اعلان کیا۔

یہ محض چند کارٹون نہیں بلکہ اِن کی اشاعت ایک وسیع تر مہم کا حصہ ہے‘ پوری اسلامی دنیا کے عقیدے اور تہذیب کے خلاف برملا اعلانِ جنگ ہے اور خودپسندی اور تکبر کے مقام بلند سے استہزا‘ تذلیل اور اہانت کے ہتھیاروں سے اُمت مسلمہ کی غیرت اور عزت پر حملہ ہے۔ اگر اس کا بروقت اور مؤثر جواب نہ دیا جاتا تو اس سے بڑا سانحہ اُمت کی تاریخ میں نہ ہوتا۔ مسلم عوام نے اپنی سیاسی کمزوری کے باوجود‘ اپنی غیرتِ ایمانی کا اظہار کر کے تاریخ کا ایک نیا باب رقم کیا ہے اور وقت کے فرعونوں‘ جابر حکمرانوں اور دوسروں کی عزت سے کھیلنے والوں کو چیلنج کیا ہے اور اُمت اپنے دین‘ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور ناموس کا دفاع اور اپنی تہذیب اور اقدار کے تحفظ کے لیے پوری سرفروشی کے ساتھ میدان میں اتر آئی ہے۔ یہ جنگ طویل ہے اور فیصلہ کن بھی___ فوری احتجاج‘ جلسے اور جلوس‘ سفارتوں کا انقطاع‘ سیاسی تنائو‘ معاشی بائیکاٹ اس کا صرف پہلا مرحلہ ہیں۔ بلاشبہہ یہ ناگزیر تھے اور دشمن کے اعلانِ جنگ کے بعد دعوت مبارزت قبول کرنے کا اوّلیں اقدام___ لیکن اصل جنگ فکری‘ تہذیبی‘ معاشی اور سیاسی ہے اور بہت طویل ہے۔ اس لیے ہر سطح پر اس میں شرکت‘ مقابلے کے لیے مناسب تیاری‘ اور صحیح حکمت عملی کے ذریعے بازی سر کرنے کی نقشہ بندی اُمت مسلمہ کی اوّلیں ضرورت ہے۔ ان تمام مراحل اور ان کے لیے وسائل اور ضروری تیاری (mobilization) کے بغیر اس جنگ کا جیتنا ممکن نہیں۔ اللہ پر بھروسا ہماری قوت ہے‘ اصل سرچشمہ ہے لیکن یہ بھی اللہ ہی کا حکم ہے کہ مقابلے کے لیے ایسی قوت بھی حاصل کرو جو مدمقابل پر ہیبت طاری کردے۔

وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ - (الانفال ۸:۶۰)

اور ان کے لیے جس حد تک کرسکو فوج اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو جس سے  اللہ کے اور تمھارے ان دشمنوں پر تمھاری ہیبت طاری رہے اور ان کے علاوہ کچھ دوسروں پر بھی جنھیں تم نہیں جانتے ہو۔


یہ ۱۲ شیطانی کارٹون اتفاقی طور پر شائع نہیں ہوگئے۔ ان کا خاص پس منظر ہے۔ یولاند پوسٹن کے ثقافتی امور کے ایڈیٹر فلیمنگ روز (Flemming Rose)نے باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت اس فکری اور تہذیبی جنگ کا آغاز کیا۔ اس اقدام سے ایک سال پہلے وہ امریکا گیا اور وہاں اسلام دشمنی کی مہم چلانے والوں کے سرخیل ڈینیل پائپس سے خصوصی صلاح و مشورہ ہوا۔ ڈینیل پائپس پچھلے ۴۰ سال سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف قلمی جنگ کر رہا ہے۔ دسیوں کتابوں اور سیکڑوں مضامین کا مصنف ہے۔ صہیونی تحریک میں اونچا مقام رکھتا ہے اور فلسطینیوں کے بارے میں کھلے عام کہتاہے کہ ان کو فوجی قوت سے نیست و نابود کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں۔ صدربش نے اسے ایک ایسے تھنک ٹینک کا مشیر بنایا تھا جس کے مصارف سرکاری خزانے سے برداشت کیے جاتے ہیں۔ اس مشاورت کے نتیجے میں فلیمنگ روز نے کارٹون بنانے والے ۴۰افراد کو دعوت دی اور کہا کہ تم سب موضوعات پر کارٹون بناتے ہو اور شخصیات کا تمسخر بھی اُڑاتے ہو لیکن اسلام کو تم نے کبھی تختۂ مشق نہیں بنایا۔ تو اب اسلام کا چہرہ دکھانے کے لیے اپنے برش حرکت میں لائو۔ ان ۴۰میں سے ۱۲ افراد کے کارٹون ۳۰ستمبر ۲۰۰۵ء کی اشاعت میں The Painting of a Portrait of Islam's Prophet (پیغمبراسلام کی تصویر کا خاکہ) کے عنوان سے شائع کیے گئے اور اس دعویٰ سے کیے گئے کہ اس طرح مسلمانوں کی ’تنگ نظری‘ کا علاج ہوسکے گا۔ ان کارٹونوں کو ہر کسی نے ناخوش گوار‘ اشتعال انگیز اور توہین آمیز قراردیا۔ واشنگٹن پوسٹ نے انھیں a calculated insult (ایک نپی تلی توہین) قرار دیا مگر عالمِ اسلام کے تمام احتجاج کے باوجود ایڈیٹر‘ کارٹونسٹ‘ مغربی میڈیا کی اکثریت اوروہاں کی سیاسی قیادت نے آزادیِ صحافت‘ آزادیِ اظہار راے اور سیکولر جمہوریت کا سہارا لے کر ان کا دفاع کیا اور اب تک ان کی اشاعت کو غلطی تسلیم کرکے معذرت کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ مصلحت کے تحت جو بات کہی جارہی ہے وہ صرف یہ ہے کہ ہم نے تو جو کیا‘ وہ درست کیا تھا۔ افسوس صرف اس پر ہے کہ اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ حالانکہ اصل مقصد ہی اسلام‘ اسلام کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو دہشت گرد دکھانا اور اُنھیں بے ہودہ جنسی مذاق کا نشانہ بنانا تھا۔ اب تک فلیمنگ روز کا دعویٰ ہے کہ I do not regret having commissioned these cartoons. (مجھے یہ کارٹون بنوانے پر کوئی افسوس نہیں ہے)۔

اسی طرح اصل کارٹونسٹ کرٹ ویسٹرگارڈ (Kurt Westergaard) کا بیان لندن کے اخبارات میں ۱۸ فروری کو شائع ہوا ہے۔ ہیرالڈ نامی رسالے کے استفسار پراس نے صاف کہا کہ کارٹونوں کا اصل محرک یہ دکھانا ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام [صلی اللہ علیہ وسلم] نعوذ باللہ دہشت گردی کی علامت ہیں۔

جب پوچھاگیا کہ کیا اسے ان کارٹونوں کی اشاعت پر افسوس ہے؟ اس نے صاف جواب دیا: نہیں۔ اس نے کہا کہ ان خاکوں کے پیچھے ایک جذبہ کارفرما تھا: دہشت گردی جسے  اسلام سے روحانی اسلحہ فراہم ہوتا ہے۔ (اے ایف پی رپورٹ‘ ڈان، ۱۹ فروری ۲۰۰۶ئ)

ڈنمارک کے وزیراعظم نے پہلے ۱۱ مسلمان سفرا سے ملنے سے انکار کیا۔ جب ۲۷ مسلمان تنظیموں کے نمایندے ۱۷ہزار مسلمانوں کے دستخطوں سے ان کے خلاف احتجاج اس کو دینے گئے تو لینے سے انکار کردیا گیا اور اب سارے عالمی احتجاج کے باوجود ان کا موقف یہ ہے کہ یہ سب ایک جمہوری ملک میں آزادیِ اظہار کا مسئلہ ہے اور اصرار کے باوجود انھوں نے کھلے طور اسے غلطی ماننے اور صاف الفاظ میں مسلمانوں سے معافی مانگنے سے احتراز کیا ہے۔ الاھرام کے ایڈیٹر نے طرح طرح سے سوالات کیے مگر ڈنمارک کے وزیراعظم ٹس سے مس نہ ہوئے اور یہی کہتے رہے کہ: جو کچھ بھی شائع ہوا ہے ‘ اس کے لیے ڈنمارک کے عوام اور حکومت کو ذمہ دار قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔(ہفت روزہ الاھرام، ۱۲ فروری ۲۰۰۶ئ)

نہ صرف ڈنمارک کے وزیراعظم اور وزیرخارجہ کا رویہ تکبر اور تعصب سے بھرا ہوا ہے بلکہ مسلمانوں کو طیش دلانے اور ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے ناروے‘ جرمنی‘ فرانس‘ اٹلی‘ اسپین اور خود امریکا کے چند اخبارات نے ان کارٹونوں کو شائع کیا۔ یورپین یونین کے صدر نے مسلمانوں سے ہمدردی کے اظہار کے ساتھ آزادیِ صحافت کے نام پر ان شیطانی کارٹونوں کی اشاعت کی مذمت سے انکار کیا بلکہ خود صدربش اور ٹونی بلیر نے اپنے خبث باطن کے اظہار کے لیے ڈنمارک کے وزیراعظم کو ٹیلی فون کر کے اپنے تعاون کا یقین دلایا جس نے ڈنمارک کے وزیراعظم کو یہ کہنے کا موقع دیا کہ Islamic World must realise we are not isolated (اسلامی دنیا کو محسوس کرنا چاہیے کہ ہم تنہا نہیں ہیں۔ انٹرویو‘ ڈیلی ٹائمز‘ ۱۴ فروری ۲۰۰۶ئ)۔

سارے حالات اورحقائق سے ظاہر ہے کہ یہ محض ڈنمارک کے ایک اخبار کی شرارت نہیں بلکہ ایک عالمی مہم ہے جس میں ڈنمارک کو ذریعہ بنایاگیا ہے اور سب کا ہدف اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانا اور اسلام کی سب سے مقدس شخصیت اور اللہ کے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور ان کو نعوذ باللہ دہشت گرد کے روپ میں دکھاکر مسلمانوں کو دہشت گردی کا منبع قرار دینا ہے۔ اسی طرح جہاد کو‘ جو انصاف کے قیام کی ضمانت‘ آزادی کا محافظ اور ظلم اور بیرونی قبضے کے خلاف مزاحمت کا ذریعہ ہے‘ دہشت گردی کا نام دے کر مسلمانوں کو تہذیبی ہی نہیں سیاسی اور معاشی غلامی کے جال میں پھنسانا ہے___ الحمدللہ! مسلمان اس شیطانی کھیل کو سمجھتے ہیں اور مسلمان حکمران خواہ کتنے بھی غافل ہوں بلکہ ان میں سے کچھ سامراجی قوتوں کے آلہ کار ہی کیوں نہ ہوں‘ لیکن مسلمان عوام اپنے دین‘ اپنے ایمان‘ اپنے نبیؐ کی عصمت اور عزت اور اپنے نظریۂ حیات کی بنیادی اقدار کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کو تیار ہیں اور کوئی رکاوٹ اس جہاد میں ان کا راستہ نہیں روک سکتی۔ دنیا کے ہر خطے سے احتجاج اُمت مسلمہ کی زندگی کی علامت ہے اور باطل کی قوتوں کے لیے اس میں واضح پیغام ہے کہ مسلمانوں کو نرم نوالا نہ سمجھا جائے۔


اس احتجاج کے نتیجے میں پہلی فتح مسلمانوں کو یہ حاصل ہوئی ہے کہ اب سب یہ تسلیم کرتے ہیں کہ یہ کارٹون نامناسب تھے‘ مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے تھے‘ اور بدذوقی ہی نہیں بدکلامی‘ تضحیک اور عزت پر حملے کے مترادف تھے___ لیکن اس اعتراف کے باوجود       دو دعوے پورے تسلسل سے اور ڈھٹائی کے ساتھ کیے جارہے ہیں اور ایک جوابی اعتراض کی شکل میں مزید داغا جا رہا ہے جن کا جائزہ ضروری ہے۔

پہلا دعویٰ یہ ہے کہ مغربی معاشرے کی بنیاد اظہار راے کی آزادی یعنی آزادیِ صحافت پر ہے اور اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی جاسکتی۔ دوسرے الفاظ میں گو ان شیطانی خاکوں سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں اور ایسا عالم گیر احتجاج رونما ہوا ہے جس میں بیسیوں افراد شہید ہوگئے ہیں اور اربوں کا نقصان ہوا ہے لیکن پھر بھی مغربی ممالک اور حکومتوں کے لیے اظہار راے کی تحدید ممکن نہیں اور خوداحتسابی (self-censorship) کے علاوہ کوئی راستہ ایسے شیطانی حملوںکو روکنے کا نہیں۔ اظہار راے اور آزادیِ صحافت پر پابندی مغربی معاشرے و تہذیب کی بنیادی اقدار کے منافی ہوگی۔

دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ مغربی تہذیب کی بنیاد سیکولرزم پر ہے اور مسلم معاشرہ مذہبی اقدار پر ایمان رکھتا ہے۔ سیکولرزم میں مذہب اور مذہبی شخصیات کا مذاق اڑانا ایک معمول ہے‘  جب کہ مسلمان اس کے عادی نہیں اور اسی وجہ سے یہ تصادم کی کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ یہ دو رویوں (attitudes) کا معاملہ ہے اور سوسائٹی کے بارے میں دو تصورات کا اختلاف ہے___ اور دعویٰ یہ ہے کہ سیکولرزم میں ایسا ہی ہوتا ہے اور ہوگا اور مسلمانوں کو اگر سیکولر معاشرے میں رہنا ہے تو اس کو گوارا کرنا ہوگا۔

تیسری بات کا تعلق احتجاج کی اس نوعیت سے ہے جو چند ملکوں میں رونما ہوئی ہے اور اس میں تشدد کا عنصر آگیا جس سے بہت سی جانوں اور مال کاضیاع ہوا ہے۔ نیز مغربی ممالک کے نقطۂ نظر سے معاشی بائیکاٹ بھی احتجاج کی ایک ناقابلِ قبول صورت ہے اور یورپی یونین نے اس صورتِ حال میں عالمی تنظیم تجارت (WTO)  سے دادرسی تک کی دھمکی دی ہے۔

ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ان تینوں امور کا بے لاگ جائزہ لیا جائے اور مغرب کے   دانش وروں‘ اہل قلم‘ صحافیوں اور سیاسی قائدین کے ان بیانات کا علمی تعاقب کیا جائے۔

آزادیِ اظہار راے اور آزادیِ صحافت پر مغربی اقوام اپنی اجارہ داری کا کیسا ہی دعویٰ کریں‘ حقیقت یہ ہے کہ ان کا تعلق ہمیشہ سے انسانی معاشرے اور تہذیب سے رہا ہے اور یہ ان کی ایجاد نہیں۔ آج بلاشبہہ مغربی ممالک میں ان اقدار کا بالعموم اہتمام و احترام ہو رہا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ انھی ممالک میں ان آزادیوں کا خون نہ کیا جا رہا ہو۔ دنیا کی تمام تہذیبوں میں اپنے اپنے زمانے میں آزادیِ اظہار کا ایک مرکزی مقام رہا ہے گو اس کے آداب اور اظہار کے طریقوں میں فرق رہا ہے۔اسلام نے اوّل دن سے آزادیِ اظہار کو ایک بنیادی انسانی ضرورت اور قدر کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزادی دے کر پیدا کیا ہے اور وہ اس آزادی کو اس حد تک بھی لے جاسکتا ہے کہ خود اپنے خالق کا انکار کر دے۔ بلاشبہہ اس انکارکے نتائج اس کو بھگتنے پڑیں گے مگر انکار کا حق اسے دیا گیا ہے۔ مغرب کو زعم ہے کہ روسو نے یہ کہا تھا کہ Man is born free, but is everywhere in chains.(انسان آزاد پیدا ہوا‘ لیکن ہر جگہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے)۔ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آزادی کا تصور وحی الٰہی پر مبنی ہے اور قرآن اس کا جامع بیان ہے۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ حجۃ الوداع (۹ہجری) تاریخ کا پہلا چارٹر ہے اور سیدنا حضرت عمررضی اللہ عنہ نے روسو سے بارہ سو سال پہلے فرمایا تھا کہ تم نے انسانوں کو غلام کب سے بنا لیا؟ ان کی مائوں نے انھیں آزاد جنا تھا۔

قولوا قولاً سدیدا کا حکم دے کر قرآن نے آزادیِ اظہار کا دستوری حق تمام انسانوں کو دیا۔ لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ کے اصول میں مذہبی رواداری اور حقیقی تکثیریت (genuine plurality) کی قانونی اور اخلاقی حیثیت کو تسلیم کیا گیا۔ امرھم شورٰی بینھم کے ذریعے پورے اجتماعی نظام کو آزادی‘ مشاورت اور حقیقی جمہوریت سے روشناس کرایا گیا۔ حکمرانوں سے اختلاف کے حق کو فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللّٰہ ورسولہ کے فرمان کے ذریعے قانون کا مقام دے دیاگیا۔ آزادیِ اظہار پر مغرب کی اجارہ داری کا دعویٰ تاریخ کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

لیکن آزادی کے معنی مادر پدر آزادی نہیں‘ آزادی تو صرف اس وقت ہی ممکن ہوسکتی ہے جب اس کی حدود کا واضح تعین ہو اور ایک کی آزادی دوسروں کے لیے دست درازی اور غلامی کا طوق نہ بن جائے۔ جرمن مفکر ایمانویل کانٹ (Immanul Kant)نے بڑی پتے کی بات کہی ہے جب اس نے کہا کہ:

I am free to move my hand but the freedom of my hand ends where your nose begins.

میں اپنے ہاتھ کو حرکت دینے میں آزاد ہوں‘ لیکن جہاں سے تمھاری ناک شروع ہوتی ہے‘ میرے ہاتھ کی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آزادی اور انارکی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ آزادی اگر حدود سے آزاد ہوجائے تو پھر انارکی بن جاتی ہے اور دوسروں کے حقوق پامال ہوتے ہیں۔ آزادی اور   ذمہ داری اور آزادی اور حدود کی پاس داری لازم و ملزوم ہیں۔ آزادیِ اظہار کے نام پر نہ تو دوسروں کی آزادی اور حقوق کو پامال کیا جاسکتا ہے اور نہ آزادیِ اظہار کو دوسروں کی عزت سے کھیلنے اور ان کے کردار کو مجروح کرنے کا ذریعہ بننے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر نظام میں آزادی کو قانونی‘ اخلاقی اور ملکی سلامتی کی حدود میں پابند کیا جاتاہے۔ جان‘ مال‘ عزت و آبرو کی حفاظت کے فریم ورک ہی میں آزادی کارفرما ہوسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قومی سلامتی‘ معاشرے کی بنیادی اقدار کا تحفظ اور شخصی عزت و عفت کا احترام ہر نظام قانون کا حصہ ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر آف ہیومن رائٹس بھی آزادی اور حقوق کو ملکی قانون اور معاشرے کی اقدار سے غیرمنسلک (delink) نہیں کرتا۔

آزادیِ اظہار کا حق غیرمحدود نہیں ہے۔ عالمی ضابطہ براے شہری اور سیاسی حقوق (International Convention on Civil and Political Rights - ICCPR)  اس آزادی کو صاف الفاظ میں تین چیزوں سے مشروط کرتا ہے‘ یعنی امن عامہ‘ صحت اور اخلاق کو قائم رکھنا (maintenance of public order, health and morals) ۔اس کے نفاذ کے لیے ہر ملک اپنا قانون بناتا ہے لیکن عالمی سطح پر بھی کچھ اہم ضوابط (conventions)   ہیں اور دنیا کے بیش تر ممالک نے ان کی توثیق کی ہے اور وہ بین الاقوامی قانون کا حصہ ہیں۔   اس سلسلے میں ایک عالمی ضابطہ نسلی امتیاز کی تمام شکلوں کے خاتمے کے لیے (International Convention on Elimination of All Forms of Racial Discrimination -ICERD ) ہے جس کے ذریعے نسلی تفاخر‘ نفرت اور نسلی تفریق کے فروغ کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور اس قانون کے تحت لازم کیا گیا ہے کہ تمام ممالک ان لوگوں کوسزا دیں جو نسلی اور گروہی منافرت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میںعالمی سطح پر نسلی امتیاز کے خاتمے کے لیے ایک کمیٹی (The Committee on the Elimination of Racial Discrimination -CERD) ہے جو متذکرہ بالا قانون (ICERD) کے نفاذ کی نگرانی کرتی ہے۔ اس کمیٹی کی عمومی ہدایات  (xv of CERD) یہ ہیں کہ:

ملکی جماعتوں کے لیے لازمی ہے کہ نسلی تفاخر یا نسلی منافرت پر اُکسانے کو قابلِ تعزیر جرم قرار دیں۔ کسی بھی قسم کی قومی‘ نسلی یا مذہبی منافرت کی وکالت جسے نسلی امتیاز پر اُبھارنا قرار دیا جاسکے‘ قانوناً ممنوع ہوگی۔ اس طرح کی تعزیر اظہار راے کی آزادی سے مطابقت رکھتی ہے۔ ان فرائض کو ادا کرنے کے لیے سرکاری پارٹیاں نہ صرف مناسب قانون سازی کریں گی بلکہ اس کے نفاذ کو یقینی بنائیں گی۔ کسی شہری کا آزادی اظہارراے کا یہ حق خصوصی ذمہ داری اور فرائض رکھتا ہے۔ (عمومی سفارش نمبر۱۵‘ سی ای آر ڈی)

اسی طرح انسانی حقوق کی کمیٹی (Human Rights Committee -HRC) ہے جس نے درجنوں رپورٹیں تیار کی ہیں اور ان میں وہ رپورٹ بھی موجود ہے جس میں آزادی کے اظہار کی حدود کا واضح تعین کردیا گیا ہے اس لیے کہ اوپر مذکورہ کنونشن کی دفعہ (۲) ۲۰ میں مرقوم ہے کہ: آزادی اظہار راے کے حق کا استعمال اپنے ساتھ خصوصی فرائض اور ذمہ داریاں رکھتا ہے۔ (آرٹیکل ۲۰ [۲۵])

ایک مشہور عدالتی فیصلے Faurisson vs France میں HRC کا فیصلہ ہے کہ

ایسے بیانات پر‘ جو یہودیت دشمن جذبات کو اُبھاریں یا انھیں تقویت دیں‘ پابندیوں کی اجازت ہوگی تاکہ یہودی آبادیوں کے مذہبی منافرت سے تحفظ کے حق کو بالادست بنایا جاسکے۔

اسی طرح انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کا فیصلہ ہے کہ:

اظہار راے کی آزادی کے اس حق کا اطلاق ان معلومات اور نظریات پر بھی ہوگا جو ریاست یاآبادی کے کسی حصے کو ناراض کریں‘ صدمہ پہنچائیں یا پریشان کریں۔ کثیرالقومیتی معاشرت اور رواداری کے یہی تقاضے ہیں جن کو پورا کیے بغیر کوئی جمہوری معاشرہ قائم نہیں ہوتا۔ (Hyndyside کیس)

اسی طرح ایک اور اہم فیصلے میں عدالت نے یہ اصول اس طرح بیان کیا ہے:

دفعہ ۹ میں کسی مذہب کے ماننے والوں کے مذہبی احساسات کے احترام کی جو ضمانت دی گئی ہے‘ بجاطور پر کہا جا سکتا ہو کہ مذہبی احترام کی علامات کو اشتعال انگیز انداز میں پیش کر کے اس کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ مذہبی احترام کی ان علامات کا اس طرح سے پیش کرنا اس رواداری کے جذبے کی بدنیتی سے خلاف ورزی قرار دی جاسکے جو  ایک جمہوری معاشرے کی خصوصیت ہونا چاہیے۔

مذہبی عقائد کی جس انداز سے مخالفت کی جائے یا انکار کیا جائے‘ اس کا جائزہ ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے‘ یہ ذمہ داری کہ خاص طور پر دفعہ ۹ کے تحت جس حق کی ضمانت دی گئی ہے اسے ان عقائد کے علم بردار پُرامن طور پر استعمال کرسکیں۔

عدالت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی ایسے فرد پر پابندی لگا دے جو کسی مذہب کی مخالفت یا انکار میں اس طرح کے خیالات کا اظہار کرتا ہے تاکہ جہاں تک ممکن ہو‘ ان خیالات سے بچا جاسکے جو دوسروں کے لیے اشتعال انگیز ہوں۔ (Otto Preminger Institut vs Austria)

اسی اصول کو اور بھی وضاحت کے ساتھ ایک دوسرے مقدمے کے فیصلے میں اسی عدالت نے یوں بیان کیا ہے:

مذہبی تقدس کی حامل باتوں کا اشتعال انگیز اور پُرتشدد طور پر پیش کرنا دفعہ ۹ کے تحت دیے گئے حقوق کی خلاف ورزی شمار ہوسکتا ہے۔ ریاست کا یہ فریضہ ہے کہ عقائد کے بارے میں حساس اقلیتوں کو حملے سے تحفظ دے۔ ریاست کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کسی حق کے استعمال کو کسی قاعدے میں لانے کے لیے کسی فرد کی اظہار راے آزادی میں مداخلت کرے۔ ریاست کا یہ فریضہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ افراد اور سرکاری اداروں کے درمیان تعلقات کے دائرے میں مذہبی احترام کو یقینی بنائے۔ اس فریضے کومناسب ترقی دینے سے ہی یہ ممکن ہے کہ یورپی کنونشن برطانیہ میں اقلیتی مذاہب کو آگے بڑھانے میں اہم کردارادا کرسکے۔

بین الاقوامی قانونی اور عالمی عدالتوں کے فیصلے اس سلسلے میں بالکل واضح ہیں اور کوئی جمہوری ملک محض جمہوریت اور آزادیِ اظہار و صحافت کے نام پر مذہبی منافرت‘ مذہبی شخصیات کی تذلیل اور تضحیک اور کسی انسانی گروہ کے جذبات سے مذہبی‘ تہذیبی یا لسانی اہداف کو تحقیر اور تمسخر کا نشانہ بناکر کھیلنے کا حق نہیں رکھتا اور اس سلسلے میں معاملہ صرف خوداحتسابی کا نہیں‘ بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ افراد‘ گروہوں اور برادریوں کے اس حق کا تحفظ کریں۔

خود ڈنمارک کا قانون اس باب میں خاموش نہیں ہے۔ اس ملک میں مذہبی عقائد‘ شعائر اور شخصیات کی عزت کے تحفظ کے لیے ناموسِ مذہب کا قانون (Blasphemy law) صدیوں سے موجود ہے۔ اسی طرح ہر فرد کی عزت کے تحفظ کے لیے Law of Libel and Slander موجود ہے۔ پھر ملک کے قانون فوج داری میں صاف صاف ایسی تمام حرکتوں کو قابل دست اندازی جرم قرار دیا گیا ہے جو دوسرے کی تذلیل اور ان کے جذبات کو مجروح کرنے والے اور مختلف گروہوں اور برادریوں کے خلاف امتیازی سلوک کے مرتکب ہوں۔ ڈنمارک کے ضابطۂ فوج داری کی دفعہ ۱۴۰ اس طرح ہے:

جو لوگ کسی مذہبی برادری کی عبادات اور مسلّمہ عقائد کا کھلا مذاق اڑائیں یا ان کی توہین کریں‘ ان کو جرمانے یا چار ماہ کی قید کی سزا دی جائے گی۔

اسی طرح دفعہ بی ۲۶۶ میں مرقوم ہے کہ:

کوئی بھی فرد جو کھلے عام یا وسیع تر حلقے میں پھیلانے کی نیت سے کوئی بیان دے یا کوئی اور معلومات پہنچائے جس کے ذریعے وہ لوگوں کے کسی گروہ کو ان کی نسل‘ رنگ یا   قومی و نسلی عصبیت‘عقیدے یا جنس کی بنیاد پر دھمکی دے‘ توہین کرے‘ یا تذلیل کرے وہ جرمانے‘ سادہ حراست یا دوسال سے کم قید کی سزا کا مستحق ہوگا۔

یہ خود اس ملک کا قانون ہے جس میں مسلمانوں کے ایمان کے ساتھ یہ گھنائونا کھیل کھیلا جارہا ہے اور جس کا دفاع آزادیِ اظہار کے نام پر کرنے کی جرات مغربی اقوام کے دانش ور اور سیاسی قائد کر رہے ہیں۔

بات صرف قانون اور نظری حیثیت کی نہیں‘ اگر ان ممالک کے تعامل پر نگاہ ڈالی جائے تو صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ معاملہ مذہبی امتیاز (religious discrimination) کا ہے۔ اسی اخبار کے ایڈیٹر نے ۲۰۰۳ء میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ہتک آمیز کارٹون چھاپنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا تھا کہ میں نہیں سمجھتا کہ قارئین ان خاکوں کو اچھا سمجھیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا خیال ہے کہ اس سے ہنگامہ برپا ہوجائے گا۔ اس لیے میں انھیں استعمال نہیں کروں گا۔

نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف یہ شرمناک اور ہتک آمیز کارٹون شائع کرنے کے بعد جب احتجاج ہوا اور ایران نے جرمنی کے ہولوکاسٹ کے بارے میں کارٹون بنانے کی دعوت دی تو اس اخبار کے کلچرل ایڈیٹر فلیمنگ روز نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بات کا عندیہ دیا کہ وہ ہولوکاسٹ پر بھی کارٹون شائع کرے گا۔ لیکن اس اعلان کے فوراً بعد اخبار کے ایڈیٹر نے اس کی تردید کی اور ساتھ ہی فلیمنگ روز کو طویل رخصت پر بھیج دیا۔ آج یورپ کے کم از کم سات ممالک میںقانونی طور پر ہولوکاسٹ کو چیلنج کرنا جرم ہے اور آسٹریا میں تاریخ کا ایک پروفیسر ڈیوڈ ارونگ (David Irving) جیل میں اس لیے بند ہے کہ اس نے برسوں پہلے ہولوکاسٹ کے بارے میں دیے جانے والے اعداد وشمار کو چیلنج کیا تھا اور اب اسے تین سال کی سزا ہوگئی ہے حالاںکہ اس نے عدالت کے سامنے بیان دیا کہ مجھے غلط فہمی ہوئی تھی اور میں نے اپنے خیالات سے رجوع کرلیا ہے___ وہ آسٹریا کا باشندہ بھی نہیں مگر اس کو آسٹریا میں سزا دی گئی ہے۔ اسرائیل میں باقاعدہ قانون ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی شخصی ہولوکاسٹ کو چیلنج کرے تو اسرائیل کو حق ہے‘ اسے اغوا کر کے لے آئے اور اس کو سزا دے۔ انگلستان کے اخبار انڈی پنڈنٹ نے کسی نبی یا یہودی مذہبی لیڈر نہیں ایک دہشت گرد جرنیل ایریل شیرون کے بارے میں ایک کارٹون شائع کیا تھا جس میں اسے فلسطینی بچوں کا خون چوستے دکھایا گیا تھاجس پر ساری دنیا میں ہنگامہ ہوگیا تھا۔ برطانوی یہودیوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور جرمنی کے اخبار نے اس کارٹون کو چھاپنے سے انکار کردیا تھا۔ فرانس میں حضرت عیسٰی علیہ السلام پر ایک فلم میں رکیک جنسی حوالوں کی وجہ سے ہنگامے ہوئے‘ ایک سینما کو آگ لگا دی گئی اور ایک شخص جل کر مرگیا۔ آج یورپی ممالک میں گھر میں بلندآواز سے میوزک سننا منع ہے کہ ا س سے پڑوسیوں کی سمع خراشی ہوتی ہے۔ سڑک پر ہارن بجانا خلافِ قانون ہے اور گاڑی میں زور سے گانا نہیں سنا جاسکتا مگر دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے جذبات پر نشترچلانے کی آزادی ہے اور اس کا دفاع بھی جمہوریت کے نام پر کیا جاتا ہے___ کیا آزادی کے ایسے تباہ کن تصور کو‘ جو دراصل فسطائیت کی ایک ’مہذب‘ (sophisticated) شکل ہے‘ ٹھنڈے پیٹوں قبول کیا جا سکتا ہے؟

مسلمانوں کو تحمل اور برداشت کا درس دینے والوں کوا پنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے اور سمجھ لینا چاہیے کہ ظلم کی سرپرستی اور ترویج کا اس سے بھی بہتر کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا۔ ظلم کا استیصال تو اسے چیلنج کرکے اور مزاحمت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔


دوسرا دعویٰ سیکولرزم کے نام پر کیا جا رہا ہے جو انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ تم مذہبی لوگ ہو اور ہم سیکولر ہیں۔ ہمیں مذہب کا مذاق اڑانے کا حق ہے۔ سیکولرزم کے چہرے کو بگاڑنے کی اس سے زیادہ قبیح صورت اور کیا ہوسکتی ہے۔ سیکولرزم کے اس اصول سے مسلمانوںکو ہی نہیں‘ تمام اہل مذہب بلکہ ابدی اخلاقی اقدار کے تمام ماننے والوں کو اختلاف ہے‘ وہ یہ ہے کہ  دین و مذہب‘ الہامی ہدایت اور ابدی اقدار کا سیاسی اور اجتماعی زندگی میں کوئی کردار نہیں اور محض انسانوں کے ووٹ سے ہوائوں کے رخ کو دیکھ کر حق و باطل اور خیروشر کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ یہ وہ خطرناک نظریہ ہے جو سیکولرزم کی اساس ہے اور ہمیں اس سے بنیادی اختلاف ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ جس طرح آج ہم جنسی کو محض راے عامہ کی بنیاد پر جائز قرار دے دیا گیا ہے‘ کل کچھ انسانوں کے بنیادی حقوق کو بھی باطل قرار دیا جا سکتاہے ۔ عملاً مذہب کے ماننے والوں کو تفریق اور امتیاز کا نشانہ بنایا جارہا ہے جیساکہ فرانس میں خواتین کو اسکارف استعمال کرنے کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ مذہب نے کچھ ابدی اقداردی ہیں جنھیں محض ووٹ سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں ہمارا اور سیکولرزم کا بنیادی اختلاف ہے۔ سیکولرزم کا دوسرا ستون رواداری اور خصوصیت سے مذہبی کثرتیت (religious plurality) کا تصور ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں مذہب کے ماننے والوں کو اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کلچر اور ملکی روایات کی بنیاد پر اپنے مذہبی شعائر سے محروم کیا جاسکتا ہے۔ مذہبی رواداری کے معنی ہی یہ ہیں کہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کے مساوی مواقع حاصل ہوں اور اس کا لازمی تقاضا دوسرے مذاہب کا احترام ہے۔ ان کے عقائد‘ شعائر‘ عبادات اور بنیادی مظاہر کو تحقیر‘ تذلیل اور تضحیک کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ علمی انداز میں ہر موضوع پر بحث و اختلاف ہوسکتا ہے۔ لیکن سیکولرزم کے نام پر دوسرے مذاہب کی تضحیک اور تمسخر سیکولرزم کا نہیں فسطائیت اور شیونزم  کا خاصا ہے اور آج سیکولرزم کے نام پر یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے جو خود سیکولرزم کے بنیادی اصولوں کی نفی ہے۔ مسئلہ نہ آزادیِ اظہار کا ہے اور نہ سیکولرزم کا‘ بلکہ ایک گہرے تہذیبی تعصب‘ طاقت کے نشے میں رعونت اور دوسروں پر اپنی اقدار اور عادات کو مسلط کرنے کی شرمناک کوشش کا ہے جو اب ایک اجتماعی جنگ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ ڈنمارک میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جس طرح اس کی پشت پناہی کی جارہی ہے وہ اس خطرناک کھیل کا حصہ ہے۔

خود مغرب کے کچھ دانش ور کس طرح اس رجحان پردل گرفتہ ہی نہیں متوحش ہیں۔ رابرٹ فسک اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھتا ہے:

یہ سیکولرزم بمقابلہ اسلام کا مسئلہ نہیں ہے۔ مسلمانوں کے لیے رسولؐ اللہ وہ شخصیت ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے براہِ راست کلامِ ربانی وصول کیا۔ ہم اپنے پیشوائوں اور نبیوں کو تاریخی شخصیات سمجھتے ہیں جو ہمارے انسانی حقوق کے جدید تصورات اور آزادیوں کے مدمقابل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارتے ہیں‘ ہم نہیں گزارتے ہیں۔ انھوں نے تاریخ کے اَن گنت نشیب و فراز میں اپنے عقیدے کو محفوظ رکھا ہے۔ ہم اپنا عقیدہ کھو چکے ہیں۔ اسی لیے ہم اسلام کے مقابلے پر مغرب کی بات کرتے ہیں بجاے اس کے کہ اسلام کے مقابلے پر عیسائیت کی بات کرتے۔ اس لیے کہ یورپ میں عیسائی زیادہ تعداد میں نہیں بچے ہیں۔ ہم اس بات سے باہر نہیں نکل سکتے کہ دنیا کے تمام مذاہب کو سامنے لے آئیں اور کہا جائے کہ ہمیں کیوں رسولؐ کا مذاق نہیں اڑانے دیا جا رہا ہے؟

مارٹن بورکارتھ (Martin Burcharth) جو ڈنمارک کے اخبار Information کا نمایندہ ہے‘ لکھتا ہے:

اس بات پر کچھ تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ڈنمارک کے عوام اور ان کی حکومت اس اخبار اور اس کے اس فیصلے کی کہ‘ پیغمبر محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے خاکے شائع کیے جائیں‘ پشت پناہی کررہے ہیں۔ کیا ڈنمارک کے لوگوں کے بارے میں نہیںسوچا جاتا کہ وہ عموماً غیرمعمولی طور پر روادار اور دوسروں کا احترام کرنے والی قوم ہیں؟

غیرملکی جس بات کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں وہ یہ ہے کہ گذشتہ کچھ برسوں سے ہم ڈنمارک کے لوگوں میں غیرملکیوں سے نفرت و حقارت کے جذبے میں اضافہ ہو رہاہے۔ میرے خیال میں‘ کارٹونوں کی اشاعت کا خود احتسابی اور آزادیِ اظہار کی بحث شروع کرنے میں بہت کم حصہ ہے۔ اسے صرف ڈنمارک میں کسی بھی مسلم شعار کے خلاف متعدی دشمنی کی فضا کے سیاق میں سمجھا جا سکتا ہے۔

ڈنمارک میں ۲ لاکھ سے زیادہ مسلمان ہیں‘ جب کہ ملک کی کُل آبادی ۵۴ لاکھ ہے۔ چند عشرے پہلے‘ ڈنمارک میں ایک بھی مسلمان نہ تھا۔ اس پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ بہت سے مقامی لوگ اسلام کو ڈنمارک کی ثقافت و تمدن کی بقا کے لیے ایک خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

۲۰ برس قبل‘ مسلمانوں کو کوپن ہیگن میں مسجد کی تعمیر کے لیے اجازت نہ دی جاتی تھی۔ مزیدبرآں‘ ڈنمارک میںمسلمانوں کے لیے کوئی قبرستان بھی نہیں ہے‘ جس کا مطلب ہے کہ وہ مسلمان جن کا یہاں انتقال ہوجائے ان کی مناسب تدفین کے لیے ان کی میتوں کو ان کے ملکوں کو واپس بھجوانا ہوتا ہے۔

اور سب سے واضح اور چشم کشا تبصرہ نیویارک ٹائمز میں اس کے مضمون نگار رابرٹ رائٹ ( Robert Wright) کا ہے جس پر سب کو ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے:

امریکا کے دائیں اور بائیں بازو کے لوگ آپس میں زیادہ باتوں پر اتفاق نہیں رکھتے۔ لیکن ہفتوں کے مظاہروں اور سفارت خانوں کی آتش زدگی نے دونوں کو ایک نکتے کی طرف دھکیل دیا ہے: اگر تہذیبوں میں تصادم نہیں ہے تب بھی کم سے کم مغربی دنیا اور مسلم دنیا میں ایک بہت بڑا خلا ہے۔

خوش قسمتی سے اس خلا کے حجم میں مبالغہ کیا جا رہا ہے۔ ڈنمارک کے ان کارٹونوں پر مسلمانوں کا شوروغوغا امریکی کلچر کے لیے اتنا اجنبی نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ ایک دفعہ آپ اسے دیکھیں تو ایک معقول اور بنیادی طور پر امریکی ردّعمل سامنے آتا ہے۔ بہت سے امریکی جو کارٹون کی اشاعت کی مذمت کرتے ہیں اس موقف کو تسلیم کرتے ہیں جو ڈنمارک کے اخبار کے اب مشہورزمانہ ایڈیٹر نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ مغرب میں ہم عام طور پر مخصوص مفادات کے حامل گروہوں کو یہ اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہم کو   خوف زدہ کر کے اس بات کے لیے آمادہ کریں جسے خوداحتسابی کہا جاتا ہے۔

یہ کتنی واہیات بات ہے۔ بڑے بڑے امریکی میڈیا کے ایڈیٹر خصوصاً نسلی اور مذہبی مفادات کے حامل گروہوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے سے بچنے کے لیے بہت سے الفاظ‘ جملے اور تصاویر حذف کردیتے ہیں۔ مثالیں پیش کرنا مشکل ہیں اس لیے کہ ان کا کوئی ثبوت نہیں ہوتا مگر آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں۔ ایک عیسائی مبلغ (ہیوج ہیوٹ) نے پیغمبرمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کارٹونوں کے مقابلے میں ایک مناسب مثال پیش کی: اسقاطِ حمل کے ایک کلینک پر بم باری کے بعد حضرت عیسٰی ؑکے کانٹوں بھرے تاج کا کارٹون جس میں کانٹوں کو ٹی این ٹی کی سلاخوں میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ ایسا کارٹون بہت سے امریکی عیسائیوں کے جذبات کو مجروح کرسکتا تھا۔ یہی ایک وجہ ہے کہ ایسا کوئی کارٹون کسی بڑے امریکی اخبار میں نہیں دیکھا گیا۔

رابرٹ رائٹ نے اس اعتراض کا بھی بھرپور جواب دیا ہے جو مغرب کے دانش ور مسلمانوں کے مظاہروں میں تشدد کے عنصر سے آجانے پر کر رہے ہیں۔ ہم بھی تشدد کو کسی اعتبار سے صحیح نہیں سمجھتے بلکہ اپنے مقصد کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ لیکن انسانی حقائق سے صرفِ نظر بھی ممکن نہیں۔ اس اعتراض کا جواب ہم خود دینے کے بجاے رابرٹ رائٹ کے مضمون کا متعلقہ حصہ دینا مناسب سمجھتے ہیں:

جوں جوں اس واقعے کے بارے میں تفصیلات ہمارے سامنے آرہی ہیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک بے ساختہ اشتعال انگیزی نہیں تھا۔ کارٹونوں کے خلاف مسلمانوں کا فوری ردّعمل تشدد کا نہیں تھا بلکہ ڈنمارک میں چھوٹے چھوٹے مظاہرے ہوئے اور ڈنمارک کے مسلمانوں نے ایک مہم چلائی جو کئی مہینے چلتی رہی لیکن دنیا کی راڈر اسکرین پر اس کا پتا نہ چلا۔ ان سرگرم لوگوں کو جب ڈنمارک کے سیاست دانوں نے جھڑک دیا اور انھیں مسلم ریاستوں کے طاقت ور سیاست دانوں سے حمایت ملی تو بڑے مظاہروں کا آغاز ہوا۔ ان میں سے بعض مظاہرے پُرتشدد ہوئے لیکن بیش تر مظاہروں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکومتوں‘ دہشت گرد گروپوں اور دوسرے سیاسی عناصر نے منظم کیے۔

دوسری طرف ‘کون کہتا ہے کہ اپنی بات پہنچانے کے لیے تشدداستعمال کرنے کے لیے کوئی امریکی روایت نہیں ہے۔۱۹۶۰ء کے عشرے کے فسادات کو یاد کیجیے جو ۱۹۶۵ء کے وائس رائٹ فسادات سے شروع ہوئے جس میں ۳۴ آدمی مارے گئے (ان فسادات کے نتیجے میں سیاہ فام آبادی کو زیادہ مقام ملا)۔ سیاہ فاموں کی ترقی کی قومی انجمن ۵۰کے عشرے سے جس شو کے خلاف احتجاج کر رہی تھی ۱۹۶۶ء میں جاکر سی بی ایس نے اس پر کارروائی کی۔ کوئی رابطہ ثابت تو نہیں کیا جا سکتا لیکن اس بات میں کوئی شبہہ نہیں کہ ۶۵ کے عشرے کے فسادات نے میڈیا میں سیاہ فام لوگوں کی تصویرکشی (اور مضحکہ خیزی) کے بارے میں حساسیت کو بڑھا دیا۔ اسی کو حساس تر خود احتسابی کہاجاسکتا ہے۔

کارٹونوں پر احتجاج کے دوران کچھ قدامت پرست کٹر عناصر نے تنبیہہ کی کہ جو شکایات تشدد کے ساتھ پیش کی جائیں‘ ان کو حل کرنا انھیں تسلی دینے (appeasement) کے مترادف ہے‘ اور اس سے زیادہ تشدد پیدا ہوگا اور مغربی اقدار کمزور ہوں گی۔ مگر ۶۰ کے عشرے میں تو تسلی دینے کے عمل نے اس طرح کام نہیں کیا۔ ۱۹۶۶ء میں صدر جانسن نے فسادات کے لیے جو کرنر کمیشن قائم کیا تھا اس نے سفارش کی کہ غیرمساوی تعلیم کے مواقع‘ غربت‘ ملازمت اور رہایش میں امتیاز کے مسائل پر زیادہ توجہ دی جائے۔ یہ توجہ فوراً دی گئی اور اس سے آنے والے عشروں میں فسادات نہیں بڑھے۔ کارٹونوں کے شوروغوغا میں یہ احساس بہت کم ہے۔ جب کہ امریکی اس سوال پر یکسو ہوکر سوچ رہے ہیں کہ ایک کارٹون کس طرح لاکھوں افراد کو مشتعل کرسکتاہے؟ جواب ہے کہ آپ کن لاکھوں کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ غزہ میں اصل ایندھن اسرائیلیوں سے کشیدگی نے فراہم کیا۔ ایران میں بنیاد پرستوں نے امریکا سے پرانی دشمنی کو استعمال کیا۔ پاکستان میں مغرب کی حامی حکمران حکومت کی مخالفت نے کردار ادا کیا اور اسی طرح دوسری جگہوں پر ہوا۔ غم و غصہ اور زیرزمین شکایات کا یہ تنوع چیلنج کو پیچیدہ کرتا ہے۔ ظاہراً محض مذہبی حساس امور کو چھیڑنے سے احتراز کافی نہیں ہوگا۔ پھر بھی زیربحث جرم جامع تر چیلنج کی ایک واضح علامت ہے۔ کیونکہ بہت ساری شکایات اسی احساس میں مجتمع ہیں کہ خوش حال طاقت ور مغرب مسلمانوں کااحترام نہیں کرتا (جیسے کہ فسادات برپا کرنے والے سیاہ فام سمجھتے تھے کہ خوش حال طاقت ور ‘ سفیدفام ان کا احترام نہیں کرتے)۔ ایک کارٹون جو رسولؐ کی توہین کرکے اسلام کی بے عزتی کرتا ہے وہ لبلبی کی مانند ہے اور انتہائی اشتعال دلانے والا ہے۔

جس چیزسے زیادہ اختلاف نہیں کیا جا سکتا وہ مسلمانوں کا بڑے بڑے میڈیا چینل سے خود احتسابی کا مطالبہ ہے۔ اس طرح کی خوداحتسابی صرف ایک امریکی روایت ہی نہیں ہے بلکہ ایک ایسی روایت ہے جس نے امریکا کو دنیا کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہم آہنگ ‘ کثیرنسلی اور کثیرمذہبی معاشرہ بنایا ہے۔


ان تینوں ایشوز پر پیش کردہ معروضات کی روشنی میں آیندہ کی حکمت عملی کے خطوط کار پر غور ضروری ہے۔ مسلمانوں کا ردّعمل صرف وقتی اور جذباتی نہیں ہونا چاہیے بلکہ ہمیں معاملے کے سارے پہلوئوں پر غور کرکے فوری اقدام اور دور رس حکمت عملی دونوں کی فکر کرنی چاہیے۔

فوری طور پر احتجاج وقت کی ضرورت تھی اور اسے پرامن قانونی ذرائع سے جاری رہنا چاہیے۔ اس کے تین محاذ ہیں:

۱- عالمی سطح پر مسلمانوں کے جذبات اور احساسات کا بھرپور اظہار اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے پُرامن جدوجہد۔ ڈنمارک کی حکومت حتیٰ کہ متعلقہ اخبار‘ اس کے کارٹونسٹ اور کلچرل ایڈیٹر کسی نے بھی کھلے انداز میں نہ اپنی غلطی تسلیم کی ہے اور نہ معذرت کی ہے۔ لفظوں کی عیّاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے محض مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونے پر افسوس کا اظہار ہے جسے کسی حیثیت سے بھی غلطی کا اعتراف اور قرارواقعی معافی نہیں کہا جاسکتا جس کے بغیر ایسے واقعات کے دوبارہ رونما ہونے کے خطرے کاسدّباب ممکن نہیں۔ اسی لیے عوامی اور حکومتی سطح پر یہ سلسلہ برابر جاری رہنا چاہیے___ البتہ اسے پرامن رکھنا اور دلیل اور اجتماعی ضمیر کی قوت کے ذریعے سے اپنے موقف کا لوہا منوانا اسی وقت ممکن ہے جب جذبات میں آکر تشدد کا ارتکاب نہ کیا جائے جس کا نتیجہ اپنے ہی جان و مال کا ضیاع اور تباہی ہے۔

۲- دوسرا محاذ معاشی اور سفارتی دبائو ہے جو ملکی اور بین الاقوامی سیاست کے معروف  طریقے (instruments) تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اس وقت بھی تھوڑے سے معاشی دبائو کی وجہ سے‘ جس کے نتیجے میں ڈنمارک کی سات بلین کرونا کی تجارت خطرے میں پڑگئی ہے‘ ڈنمارک کی تجارتی کمپنیاں اپنی حکومت کو روش بدلنے کا مشورہ دے رہی ہیں۔ یہ دبائو جاری رہنا چاہیے۔

۳- تیسرا محاذ خود مسلمان ملکوں کا اپنا اندرونی معاملہ ہے کہ حکمران بالعموم عوام کے جذبات‘ احساسات اور امنگوں سے غافل ہیں اور اپنے شخصی اور گروہی مفادات کا شکار ہیں۔ عوامی دبائو سے مجبور ہوکر ہی وہ نہایت کمزور احتجاج پر آمادہ ہوئے ہیں۔ فطری طور پر اس احتجاج کا ایک ہدف خود اپنے ملکوں میں عوام کو متحرک اور تیار کرنے کے ساتھ حکمرانوں کی روش کی تبدیلی اور جو تبدیل ہونے کے لیے تیار نہ ہو‘ اس کو تبدیل کرنے کی جدوجہد ہے۔

اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ او آئی سی اور مختلف مسلم ممالک میں مغرب میں اسلام کے خلاف جو تحریک (Islamophobia) چل رہی ہے اس کا بغور جائزہ لیا جاتا رہے اور اس کا سائنسی بنیاد پر جواب دیا جائے۔ اسی طرح مسلم اقلیتوں پر کام کرنے اور ان کو تقویت پہنچانے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ اس پر بھی سنجیدگی کے ساتھ کام ہونا چاہیے کہ جس          طرح anti-semetismکے سلسلے میں عالمی معاہدے اور قانون نافذ کیے گئے ہیں‘ اسی طرح Islamophobia کے خلاف بھی قانونی ضابطے مرتب کیے جائیں۔ یہ تمام کام منظم اور مرتب جدوجہد اور سیاسی اور سفارتی کوششوں کے ذریعے انجام پاسکتے ہیں بشرطیکہ مسلم حکمراں اور او آئی سی اس کے لیے مؤثر انداز میں کام کرنے کا بیڑا اُٹھائیں۔

لیکن معاملہ محض ان فوری اہداف کا نہیں‘ اصل مسئلہ زیادہ بنیادی اور پیچیدہ ہے۔ اس کے لیے گہرے سوچ بچار اور مناسب حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے چند اہم پہلو یہ ہیں:

۱- اُمتِ مسلمہ کا انتشار‘ سیاسی اور معاشی وحدت کی کمی‘نظریاتی اور تہذیبی اعتبار سے ضعف‘ حکمرانوں اور عوام میں بُعد‘ تعلیم‘ سائنس اور ٹکنالوجی اور مقابلے کی قوت کا فقدان۔ ہم دنیا کی بالادست قوتوں سے عزت اور انصاف کی توقع اس وقت تک نہیں رکھ سکتے جب تک ہم خود مضبوط نہ ہوں___ ہر اعتبار سے نظریاتی اور اخلاقی‘ معاشی اور عسکری‘ تعلیمی اور سائنسی‘ معاشرتی اور تہذیبی۔ یہ ہماری کمزوری ہے جس کا دوسرے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور یہی وہ تاریخی حقیقت ہے جسے اقبال نے اس طرح بیان کیا ہے    ؎

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

جوبیداری اس شرمناک اور شیطانی کارٹون کی اشاعت سے اُمت مسلمہ میں پیدا ہوئی ہے‘ وہ اس کے اندر خیر اور اخلاقی قوت کی غماز ہے۔ اس کو پروان چڑھانا اور اُمت میں اتحاد‘ یکسوئی اور اخلاقی‘ مادی‘ معاشی اور عسکری قوت کا حصول اور عالمِ اسلام کی سیاسی قوت کو ایک مرکز پر جمع کرکے اُمت کی ترقی اور اس کے مفادات کے تحفظ اور انسانیت کی فلاح کے لیے استعمال کرنا ہے۔

۲- دوسری بنیادی بات یہ ہے کہ ہمیں اس جنگ کو تہذیبوں کی جنگ نہیں بننے دینا ہے۔ ’تہذیبوں کے درمیان جنگ‘ کا تصور ہی ایک جاہلانہ اور فسطائی تصور ہے۔ تہذیبوں کا تنوع انسانیت کا سرمایہ ہے اور جس طرح انگریزی مقولہ ہے variety is the spice of life (زندگی کا حُسن تنوع میں ہے) اسی طرح تہذیبوں کا اختلاف بھی انسانیت کے حُسن کا باعث اور انتخاب کے مواقع فراہم کرکے ترقی اور مسابقت کا ضامن ہے    ؎

گلہاے رنگ رنگ سے ہے رونق چمن

اے ذوق! اس جہاں کوہے زیب اختلاف سے

آج انسانیت کو جو خطرات درپیش ہیں اور خصوصیت سے ایٹمی اور عالم گیر تباہی کے  دیگر ہتھیاروں کے وجود میں آنے کے بعد جنگ سراسر تباہی کا راستہ ہے۔ اسی طرح کسی ایک طبقے‘ ملک یا تہذیب کی قوت کے بل بوتے پر کسی ایک کا بالادست ہوجانا بھی سلامتی کا راستہ نہیں ہے۔ صحیح راستہ حقیقی اور مستند کثرتیت (genuine and authentic pluralism) میں پوشیدہ ہے جس میں دوسروں کو جینے دینے اور دلیل‘ افہام و تفہیم اور اعلیٰ اصولوں اور انصاف پر مبنی سماج کا نمونہ پیش کر کے اتفاق اور اختلاف میں توازن اور رد و اختیار کا موقع فراہم ہوتا ہے۔

دراصل دو قومی نظریے کی اصل بھی یہی اصول ہے کہ اقوام کو‘ خواہ وہ اکثریت میں ہوں یا اقلیت میں‘ اپنے دین و مذہب اور تہذیب و ثقافت کے تحفظ و ترقی کا حق ہے اور اس کے مناسب مواقع سب کو حاصل ہونے چاہییں۔ دوقومی نظریہ محض تقسیم کا نظریہ نہیں‘ بقاے باہمی کا نظام ہے‘ اس اصول کے ساتھ کہ جہاں اپنا مخصوص تشخص رکھنے والی قوم کو اپنے عقائد و تہذیبی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کے مواقع حاصل نہ ہوں اور جغرافیائی اعتبار سے ان کے ایک الگ وحدت بننے کا امکان اور موقع ہو تو وہاں سرحدوں کی ازسرنو ترتیب بھی اس کا حق ہے لیکن جہاں یہ ممکن ہو کہ مختلف قومیں تعاون اور ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکتی ہیں وہاں ریاست کو اپنا مخصوص تشخص رکھنے کے ساتھ دوسری تمام قوموں کو بھی اپنا اپنا تشخص باقی رکھنے کا موقع دینا چاہیے۔ اس لیے      قومی حکومت (Nation State) کے مقابلے میں قوموں کی حکومت (State of Nationalities) ایک بالاتر سیاسی ماڈل ہے اور آج کی دنیا میں ایک ایسے ہی سیاسی ماڈل میں انسانیت کی نجات ہے جہاں قوت اور تشدد کے مقابلے میں کثرتیت  کو مستند تسلیم کیا جاسکے۔

۳- تیسری بنیادی بات یہ ہے کہ جو شرمناک رویہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مغرب کے چند ممالک اور کچھ طبقات نے اختیار کررکھا ہے‘ اس کا کوئی تعلق نہ آزادیِ اظہار سے ہے‘ نہ سیکولرزم سے۔ نام نہاد تہذیبوں کے اختلاف اور تصادم میں لڑائی تہذیبوںکے درمیان نہیں‘ تہذیب اور جاہلیت کے درمیان ہے‘ انصاف اور ظلم کے درمیان ہے‘ خیر اور شر کے درمیان ہے‘ انسانیت اور فسطائیت کے درمیان ہے۔ اس میں ایسا نہیں ہے کہ سارے مسلمان ایک طرف ہوں اور دوسری اقوام ان کے مدمقابل بلکہ خود مغربی ممالک میں عام انسانوں کی بڑی تعداد اور ان کے دانش وروں میں بھی ایک معتدبہ تعداد اسے تہذیبوں کی جنگ نہیں بلکہ تہذیب کے خلاف جنگ سمجھ رہی ہے۔ مذاہب اور ان کی مقدس ہستیوں کا احترام سب کا مشترک سرمایہ ہے۔ قرآن نے تو یہ اصول پیش کیا ہے کہ ایک انسان کی ناحق موت پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے اور ایک معصوم انسان (محض مسلمان نہیں) کی جان کا بچانا ساری انسانیت کو زندگی عطا کرنے کی مانند ہے۔

قرآن نے تو جھوٹے خدائوں کو بھی گالی دینے سے منع کیا ہے کیوںکہ اس طرح مخالفین اپنی جہالت میں کائنات کے حقیقی خالق اور آقا سے گستاخی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ جس پاک ہستی صلی اللہ علیہ وسلم کو دہشت گردی کی علامت بناکر پیش کیاجا رہا ہے‘ وہ تو پوری انسانیت کے لیے رحمت بن کر آیا تھا اور اس کا لایا ہوا دین ہے ہی دین رحمت اور پیغامِ امن و انصاف۔ اس کا کردار تو یہ تھا کہ جو اس کی راہ میں کانٹے بچھاتے تھے‘ وہ ان کی بھی دادرسی کرتا تھا‘ جنھوں نے اسے اذیتیں دے کر اپنا گھربار اور وطن چھوڑنے پر مجبور کیا جب وہ ان کے درمیان فاتح کی حیثیت سے آیا تو کسی سے بدلہ نہ لیا اور نفیرعام دے دی کہ لا تثریب علیکم الیوم۔ جس نے ایک یہودی کے جنازے کی آمد پر بھی اس کا استقبال تعظیم کے ساتھ کھڑے ہوکر کیا اور اس بات پر کہ یہ ایک یہودی کا جنازہ ہے‘ فرمایا:کیا وہ انسان نہیں‘ سیدنا عمرؓ نے جب ایک بوڑھے یہودی کو محنت مزدوری کرتے دیکھا تو اس کا بیت المال سے مشاہرہ مقرر کردیا اور یہ تاریخی الفاظ ارشاد فرمائے:  تم ان انسانوں سے جب وہ جوان اور قوی تھے کام لیتے تھے اور جب ان کے قویٰ مضمحل ہوجاتے ہیں تو انھیں بے سہارا چھوڑ دیا ہے۔

ایسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیرووں اور ایسے دین کے حامیوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ’تہذیبوں کی جنگ‘ میں آنکھیں بند کر کے کود نہ جائیں بلکہ تہذیب کے غلبے کے لیے خود بھی اور تمام معقول انسانوں کو منظم و متحرک کریں اور اس طرح اس ایجنڈے ہی کو بدل دیں جس پر ظالم قوتیں اور مفاد پرست عناصر کارفرما ہیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ہم اپنے داعیانہ کردار کو سمجھیں اور اسے صحیح طریقے سے ادا کریں۔ آج بھی‘ ساری مخالفت کے باوجود‘ مغربی ممالک میں اسلام سب سے تیزی سے بڑھنے والا دین ہے۔ ہمارے لیے تہذیبی جنگ کی اس آگ میں کودنااور فریق بنناسب سے بڑی غلطی ہوگی۔ اس کے مقابلے میں ہمیں سمجھنا چاہیے کہ یہ ہمارے لیے ایک اچھا موقع ہے: اپنے دین کا صحیح صحیح نمایندہ بننے اور اس کی تعلیمات کو انسانوں تک پہنچانے کا۔ پھر آپ دیکھیں گے کہ یہ مخالفتیں آپ کے لیے نئے مواقع اور امکانات کا پیغام بن جائیں گی   ؎

تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے

۴-چوتھی بنیادی بات یہ ہے کہ اس موقع پر اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت کو خصوصیت سے اوآئی سی کو تمام مذاہب کے احترام کے بارے میں کچھ اصولوں (پروٹوکول) پر دنیا کی تمام اقوام کو متفق کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ضرورت ہے کہ واضح الفاظ میں بقاے باہمی ہی نہیں‘ تعاون باہمی کا ایک ایسا چارٹر تیار کیا جائے جس پر سب عمل پیرا ہوں اور جسے قانونی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے ایک بالاتر ضابطے کی حیثیت حاصل ہو۔ اس کے لیے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس بھی بلایا جا سکتا ہے لیکن ضروری تیاری (home work)کے بعد۔ اس کے لیے مختلف سطح پر سیمی نار‘ مذاکرات اور تحقیقی کام کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے لیے عالمی سطح پر مکالمہ وقت کی ضرورت ہے۔ اگر ان شیطانی کارٹونوں کے نتیجے میں دنیا ایک ایسے پروٹوکول پر متفق ہوجائے تو اس شر سے ایک بڑے خیر کے نکل آنے کا امکان ہے۔ جس ڈنمارک سے یہ کروسیڈ شروع ہوا ہے اس کے ایک دانش ور اور سابق وزیرخارجہ (Uffe Ellemann Jensen) نے بڑی دردمندی سے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ:

اب‘ جب کہ پیغمبرمحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے کارٹونوں پر تنازع ختم ہورہا ہے‘ یا میں اس کی امید کرتا ہوں‘ یہ بات واضح ہے کہ اس میں جیتنے والے صرف انتہاپسند ہیں‘ اسلامی دنیا میں بھی اور یورپ میں بھی۔ مجھے اس بات پر افسوس ہے کہ تنازع میرے ملک میں شروع ہوا جب ایک اخبار نے آزادیِ اظہار راے کا مظاہرہ کرتے ہوئے کارٹون شائع کیے۔ یہ گذشتہ خزاں میں ہوا اور اس وقت میں نے اس کے خلاف کھلے عام آواز اٹھائی۔ اسے میں بے حسی پر مبنی ایک اقدام سمجھتا تھا کیوں کہ یہ دوسرے لوگوں کے مذہبی جذبات کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ یہ واقعہ غیرضروری اشتعال انگیزی تھا اور خود ہماری اس آزادی کا مذاق اڑانے کے مترادف تھا جو ہمیں ازحد عزیز ہے اور جس کی ہمارے دستور میں ضمانت دی گئی ہے۔ میرے والد بھی ایک صحافی تھے‘ وہ کہا کرتے تھے کہ آزادیِ اظہار راے ہمیں وہ کچھ (جو آپ سوچتے ہیں) کہنے کا حق تو دیتی ہے لیکن ایسا کرنا لازمی نہیں ہے۔

میری رائے میں اس منحوس واقعے کے سبق بالکل واضح ہیں۔ ہم سب کو تسلیم کرنا چاہیے کہ جدید دنیا میں یہ ضروری ہوتا جا رہا ہے کہ تمام معقول لوگ باہمی احترام‘ رواداری اور بہتر افہام و تفہیم کے لیے کام کریں۔ ہمیں ایسی صورت حال سے بچنا چاہیے جہاں مختلف اقدار ایک دوسرے کے مقابل ایسے طریقوں سے آجائیں کہ تشدد یک دم برپا ہوجائے۔ اس کے بجاے ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ مذاہب‘ اخلاق اور معمولات کے درمیان رواداری کے ذریعے پُل تعمیر کریں۔

آپ چاہیں تو اسے خود احتسابی کہہ لیں لیکن معقول لوگ ہمیشہ خوداحتسابی پر عمل کرتے ہیں۔ اگر آپ ایسے کمرے میں ٹھیرنا چاہتے ہیں جس میں دوسرے لوگ بھی ہیں تو آپ کو کوشش کرنا چاہیے کہ غیرضروری اشتعال انگیزیوں سے آپ ان کو ناراض نہ کریں۔ ہم جس کمرے کے بارے میں بات کر رہے ہیں‘ وہ مقامی تالاب نہیں بلکہ عالمی گائوں ہے‘ بقاے باہمی کی کلید ہے۔

دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں۔ موجودہ صورت حال کتنی ہی خراب اور تکلیف دہ کیوں نہ ہو اگر اصحاب خیر ہمت کر کے کوشش کریں تو اسے انسانوں کے درمیان دوستی اور اعتماد باہمی کے    پُل باندھنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

آخر میں ہم پاکستان کی اسلامی قوتوں سے بالخصوص اور تمام سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں سے یہ اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح اس فتنے کا بروقت نوٹس لینا ضروری تھا‘ اسی طرح اس شیطانی کروسیڈ کے مقابلے اور اس کی شکست کے لیے دیرپا لائحہ عمل کی تیاری اور اس پر    ہوش مندی سے عمل بھی ضروری ہے۔ یہ ایک تاریخی موقع ہے اور اس موقعے پر ذرا سی غفلت بڑی مہنگی پڑسکتی ہے۔ ملک کی اس قیادت کو بھی ہوش کے ناخن لینا چاہییں جو اپنے عوام کے جذبات اور احساسات سے غافل اور بیرونی سہاروں پر اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی کوشش کر رہے ہیں۔   یہ سہارے بڑے بودے اور دھوکا دینے والے ہیں۔ اصل سہارا اللہ کا ہے‘ اس کے دین کا ہے اور اس کے ان بندوں کا ہے جو اصول اور اقدار کے لیے جان کی بازی لگانے میں دنیا اور آخرت کی کامیابی دیکھتے ہیں۔ یہی اس قوم کا اصل سہارا ہیں اور یہی سہارا قابلِ بھروسا اور زمانے کی آزمایشوں پر پورا اُترا ہے۔ وما علینا الا البلاغ۔