مارچ۲۰۰۶

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| مارچ۲۰۰۶ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

دارالکفر کی پارلیمنٹ کی رکنیت

سوال: برطانیہ میں معروف معنوں میں کسی سیاسی پارٹی کی ممبرشپ اختیار کرنا (ممبرشپ paidہوتی ہے) اس کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنا اور پارلیمنٹ کا رکن بننے کے بارے میں بہت سے لوگ تردّد کا شکار ہیں ۔ بعض لوگ تو بالکلیہ ایسی سرگرمیوں کو  عقیدۂ توحید کے خلاف سمجھتے ہیں کیوں کہ ایسی جمہوریتوں میں اقتدارِاعلیٰ انسان کو سمجھا جاتا ہے‘ یعنی پارلیمنٹ کو۔

مولانا مودودیؒ کی راے بھی دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہے: موجودہ زمانے میں جتنے جمہوری نظام بنے ہیں وہ اس مفروضے پر مبنی ہیں کہ… قانون سازی کے لیے راے عامہ سے بالاتر کسی سند کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اسلام کے نظریے کے بالکل برعکس ہے… اس نظریے سے ہٹ کر اول الذکر جمہوری نظریے کو قبول کرنا گویا عقیدۂ توحید سے منحرف ہوجانا ہے۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ جو اسمبلیاں یا پارلیمنٹیں موجودہ زمانے کے جمہوری اصول پر بنی ہیں ان کی رکنیت حرام ہے‘ اور ان کے لیے ووٹ دینا بھی حرام ہے‘ کیوںکہ ووٹ دینے کے معنی ہی یہ ہیں کہ ہم اپنی راے سے کسی ایسے شخص کو منتخب کرتے ہیں جس کا کام موجودہ دستور کے تحت وہ قانون سازی کرنا ہے جو عقیدۂ توحید کے سراسر منافی ہے… جو نظام اس وقت مسلمانوں پر مسلط ہوا ہے‘ جس کے تسلط کو وہ اپنے لیے دلیلِ اضطرار بنارہے ہیں‘ وہ آخر ان کی اپنی ہی غفلتوں کا تو نتیجہ ہے۔ پھر اب بجاے اس کے کہ اپنا سرمایہ‘ وقت و عمل اس نظام کے بدلنے اور خالص اسلامی نظام قائم کرنے کی سعی میں صرف کریں‘ وہ اس اضطرار کو حجت بناکر اسی نظام کے اندر   حصہ دار بننے اور پھلنے پھولنے کی کوشش کر رہے ہیں…

یہ لوگ اس اصولی فرق کو نظرانداز کردیتے ہیں جو ایک فرد غیرمسلم کے شخصی کاروبار اور ایک غیراسلامی نظام کے اجتماعی کاروبار میں ہے۔ ایک غیراسلامی نظام تو قائم ہوتا   ہی اس غرض کے لیے ہے اور اس کی سارے کاروبار کے اندر ہر حال اور ہر پہلو میں مضمر ہی یہ چیز ہوتی ہے کہ اسلام کے بجاے غیراسلام‘ طاعت کے بجاے معصیت اور خلافتِ الٰہی کے بجاے خدا سے بغاوت انسانی زندگی میں کارفرما ہو‘ اور ظاہر ہے کہ یہ چیز حرام اور عام حرمات سے بڑھ کر حرام ہے۔ لہٰذا ایسے نظام کو چلانے والے شعبوں میں یہ تفریق نہیں کی جا سکتی کہ فلاں شعبے کا کام جائز نوعیت کا ہے اور فلاں شعبے کا ناجائز کیوںکہ یہ سارے شعبے مل جل کر ایک بڑی معصیت کو قائم کر رہے ہیں۔(مکمل مطالعے کے لیے دیکھیے: رسائل و مسائل‘ اوّل‘ ص ۲۸۹- ۲۹۱)

بعض لوگ لوکل کونسل کی سطح تک حصہ لینے میں قباحت نہیں سمجھتے کیوںکہ اس میں قانون سازی نہیں ہوتی۔ بعض لوگ مطلق اس کے حق میں ہیں۔

یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ اس ملک کی شہریت حاصل کرنے کے لیے ملکۂ برطانیہ کی وفاداری کا جو حلف لیا جاتا ہے اس میں اور پارلیمنٹ کا ممبر بننے میں کیا فرق ہے؟

جواب: اسلام کی ہمہ گیریت اور آفاقیت اس بات کا مطالبہ کرتی ہے کہ اس کے سیاسی‘ معاشی‘ معاشرتی‘ دعوتی اور قانونی نظام میں بھی نہ صرف اسلامی ریاست کی حدود میں بلکہ غیر اسلامی نظام کے ماحول میں بھی عمل کیا جاسکے‘ جب کہ بہت سے مسلمانوں نے اپنی خودساختہ فکر سے یہ بات ایجاد کرلی ہے کہ جب تک اسلامی ریاست اپنی تمام بھلائیوں کے ساتھ قائم نہ ہوجائے اس وقت تک اسلامی نظام کے بہت سے پہلوئوں کو معطل رکھا جائے۔ آپ کے سوال کے دو پہلو بہت اہم ہیں۔ ایک نظری حیثیت سے غیراسلامی نظام کا توحید سے تعلق اور دوسرے کسی ایسے نظام میں جو اسلامی بنیادوں پر قائم نہ ہوا ہو‘ ایک فرد کی شمولیت اور ذمہ داری۔

ہم پہلے عملی صورت کو لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ قرآن وسنت کی روشنی میں ایک ایسے نظام میں جس کی بنیاد اسلامی اصولوں پر نہ ہو‘ ایک باشعور شہری کے فرائض پر غور کریں۔

فرض کیجیے ایک اسلامی ملک میں موروثی بادشاہت رائج ہے اور بادشاہ کے مرنے پر اس کا بھائی یا بیٹا اس کا جانشین قرار پاتا ہے چاہے اس میں اہلیت‘ علم‘ تقویٰ‘ تجربہ وغیرہ ہو یا نہ ہو۔ کیا ایسے سیاسی نظام کو اس بنا پر اسلامی کہا جا سکتا ہے کہ وہ ایک مسلم اکثریتی ملک میں رائج ہے؟ عقل یہ مطالبہ کرتی ہے کہ قرآن وسنت کے منافی جانشینی اور وراثتی بادشاہت کو غیراسلامی قرار دیا جائے۔ اب ذرا آگے چلیے۔ اگر ہر غیراسلامی نظام میں جہاں حاکمیتِ الٰہی کی جگہ انسان کی بادشاہت‘ آمریت یا حاکمیت ہو‘ ایک شہری کا کام اپنے آپ کو مروجہ نظام سے کاٹ کر اپنے ایمان کا تحفظ ہی ہے تو پھر اصلاحِ حال کی شکل کیا ہوگی؟ پہلا کنکر کون پھینکے گا؟ گویا ایک نظام کے غیراسلامی ہونے کے باوجود امربالمعروف‘ نہی عن المنکر اور فتنہ و فساد کو دُور کرکے عدل و انصاف کے نظام کو قائم کرنے کا فریضہ موقوف نہیں کیا جائے گا۔ اور اگر ایسے کسی ملک میں عوامی ادارے ہوں جہاں سے آواز بلند کرکے اصلاح حال کی جاسکتی ہو تو قرآن وسنت کا مطالبہ ہوگا کہ ایک باشعور شہری کو جو وسائل بھی میسرآسکیں وہ ان کا استعمال کرے۔ اگر پارلیمنٹ یا کانگریس کا ممبر بننے کے بعد وہ فتنہ و فساد کو دُور کرنے کا کام زیادہ مؤثر طور پر کرسکتا ہو اور وہ ایسا نہ کرے تو عنداللہ جواب دہی سے نہیں بچ سکتا۔

اب فرض کیجیے ایک ایسے ملک میں جہاں اکثریت غیرمسلموں کی ہے قانون سازی‘ انسانی حقوق کے تحفظ‘ دینی اور ثقافتی آزادی کے حصول کے لیے قوتِ نافذہ پارلیمنٹ کے پاس ہے تو کیا مسلمان جو اقلیت میں ہیں اپنے تمام مسائل و حقوق کو غیرمسلم اکثریت کی صواب دید پر چھوڑ دیں یا خود اپنے میں سے ایسے افراد کو پارلیمنٹ میں بھیجیں جو وہاں جاکر نہ صرف ان کے حقوق بلکہ غیرمسلموں کے حقوق کے لیے بھی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جدوجہد کرسکیں؟

اس عملی مشکل پر غور کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ نظری اور اصولی حیثیت سے ایسی جمہوریتوں کی حیثیت پر بھی غور کیا جائے جو بنیادی طور پر اسلامی اصولِ حکومت و سیاست سے متصادم ہوں۔ مغربی لادینی جمہوریت جو اکثر مسلم ممالک میں بھی نافذ ہے پارلیمنٹ کی راے کی بناپر فیصلے کرتی ہے۔ ظاہر ہے یہ اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ اسلام لازمی طور پر  ’جمہوری روح‘ کو فوقیت دیتا ہے اور ہرمعاملے میں آزادیِ راے اور حریتِ فکری کے مواقع فراہم کرتا ہے لیکن فیصلوں کی بنیاد محض اکثریت کو قرار نہیں دیتا۔ اگر ایک اقلیتی راے قرآن و سنت سے زیادہ قریب ہو تو اسلامی نقطۂ نظر سے اس کا اختیار کرنا زیادہ جمہوری عمل ہوگا۔ کیوںکہ اس میں اُمت کے مصالح اور مفاد کا زیادہ بہتر تحفظ ہوگا۔

محترم مولانا مودودیؒ نے جو بات ۱۹۴۵ء میں تحریر فرمائی ہے وہ اصولی حیثیت سے بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ کسی بھی طاغوتی نظام سے تعاون کرنا توحید کے منافی ہے۔ لیکن اگر ایک غیراسلامی نظام میں ایک منتخب یا مقرر کردہ نمایندے کو یہ اختیار ہو کہ وہ قانون سازی کے ذریعے امنِ عامہ‘ عدل و انصاف اور حقوقِ انسانی کے تحفظ کے لیے ان اختیارات کو استعمال کرسکے جن کی بناپر حضرت یوسف ؑ نے ایک غیراسلامی نظام میں کلیدی منصب لینا قبول کیا تھا‘ تو اس کی نوعیت مختلف ہوگی۔

محترم مولانا کا یہ فرمانا کہ سیکولر جمہوریت توحید کے منافی ہے‘ بالکل صحیح ہے لیکن ایک ایسے ملک میں جہاں سیکولر جمہوریت نافذ ہو اور مسلمان اقلیت میں ہوں اصلاح حال کا ذریعہ کیا ہوگا۔ تین امکانات فوری طور پر سامنے آتے ہیں: اوّلاً: تمام معاملات کو غیرمسلموں پر چھوڑ دیا جائے اور صبروشکر کے ساتھ ایک محکوم اور غلام کی زندگی گزاری جائے۔ ثانیاً: اسلامی اصولوں کو نظرانداز کرتے ہوئے حکمران ٹولے کے ساتھ مل کر اپنے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ ثالثاً: ایسے نظام کو اصولاً     غلط مانتے ہوئے تبدیلیِ اقتدار کے لیے نظام میں رہتے ہوئے کوشش کی جائے۔ میری ناقص راے میں یہ تیسرا طرزِعمل اسوۂ یوسفی ہے‘ جو آخرکار زمامِ کار کی تبدیلی‘ اسلامی اصولوں کے قیام کی طرف لے جاتا ہے ‘اور مطالبہ کرتا ہے کہ توحید کی دعوت کو ایوانِ اقتدار میںپہنچ کر نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموں کو بھی حکمت کے ساتھ توحید کی دعوت دی جائے۔

حضرت یوسف علیہ السلام کے کلیدی منصب پر فائز ہونے کے حوالے سے امام قرطبیؒ کی راے یہ ہے کہ ایک فاضل شخص کے لیے فاسق وفاجر شخص یا کافر حکمران کے ہاتھ سے کسی کام کی  ذمہ داری قبول کرنا جائز ہے بشرطیکہ عہدہ قبول کرنے والے کو معلوم ہو کہ اسے پورے اختیارات حاصل ہوں گے۔ وہ جو چاہے گا اصلاحی تدبیر اختیار کرسکے گا اور اس کے کام میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی جائے گی۔ یہی راے مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے تفسیرِ مظہری میں تحریر فرمائی ہے۔

جہاںتک سوال لوکل باڈی یا قومی اداروں میں ذمہ داری اٹھاتے وقت رسمی طور پر عہد لینے کا ہے‘ اگر وہ عہد غیرمشروط اطاعت کا ہے تو یہ ہر لحاظ سے ایک غیراسلامی فعل ہے۔ لیکن اگر صرف ان باتوں کا ماننا جو ایک شخص کے ضمیر‘ تصور اور ذاتی معتقدات سے نہ ٹکراتے ہوں تو اس میں کوئی قباحت اس کے سوا نہیں ہے کہ یہ عہد بھی ایک ایسے نظام کا حصہ ہے جس کی اصلاح‘ نظام میں نفوذ کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ اسے بہ اکراہ ماننا ہوگا اور قانونی اداروں کے ذریعے اس کی تبدیلی کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی۔

مسلمانوں کے لیے بہتر شکل یہی ہے کہ ان کی اپنی سیاسی پارٹی ہو۔ لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو  تو پھر جس سیاسی پارٹی میں زیادہ رواداری اور اُمتِ مسلمہ کے مفادات کے تحفظ کا امکان زیادہ ہو‘ اسے اختیار کرنا افضل ہوگا۔ ایک سے زائد پارٹیوں میں شرکت اگر مسلمانوںکے مفادات کے تحفظ کے لیے بہتر ہو تو اس میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کرنی چاہیے‘واللّٰہ اعلم بالصواب۔ (ڈاکٹر انیس احمد)


فی سبیل اللہ کی مد

س: زکوٰۃ کے مصارف میں فی سبیل اللہ کی مد سے کیا مراد ہے؟

ج: تیر و تلوار کی طرح قلم اور زبان سے بھی جہاد ہوتا ہے۔ جہاد کبھی فکری ہوتا ہے‘ کبھی تربیتی‘ کبھی اقتصادی اور کبھی سیاسی‘ بالکل اسی طرح جس طرح عسکری جہاد ہوتا ہے۔ بہرحال ہرنوع کے جہاد کے لیے امداد اور سرماے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اہم ترین چیز یہ ہے کہ ان سب میں بنیادی شرط پائی جاتی ہو اور وہ ہے فی سبیل اللہ۔ یعنی ان تمام کوششوں کا مقصد اسلام کی نصرت اور زمین پر اللہ کے کلمے کی سربلندی ہو۔بلکہ میری راے میں تو فکری جہاد جس میں دعوتی ذرائع ابلاغ کے اداروں کا قیام بھی شامل ہے‘ کبھی کبھار فوجی جہاد سے بھی اولیٰ ہوجاتا ہے۔

اگرچہ مذاہب اربعہ کے قدیم فقہا کی اکثریت نے زکوٰۃ کی اس مد کو غازیوں کو سازوسامان سے مسلح کرنے کے لیے مخصوص کیاہے جیسے گھوڑے‘ جنگی اسلحہ اور سواری وغیرہ مہیا کرنا‘ لیکن ہم اس میں اپنے زمانے کی ضرورت کے لحاظ سے اضافہ کرسکتے ہیں اور وہ غازی بھی اس میں شامل کرسکتے ہیں جو قلوب و اذہان کو اسلامی تعلیمات سے روشن کرنے کے لیے اور اسلام کی طرف دعوت دینے کے لیے اپنی کوششیں صرف کرتے ہیں اور اپنی زبانیں اور قلم‘ عقائدِ اسلام اور شریعتِ اسلامیہ کے دفاع کے لیے وقف کیے رکھتے ہیں۔ جہاد کی یہ قسم بھی احادیث سے ثابت ہے جیساکہ حضوؐر کا  ارشاد گرامی ہے: جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا افضل جہاد ہے۔

جہاد کی جن اقسام کا ہم نے ذکر کیا ہے اگر یہ بطور نص جہاد میں شامل نہ بھی ہوں تو قیاساً انھیں جہاد کے زمرے میں شامل کیا جاسکتا ہے کیوںکہ دونوں کا مقصد غلبۂ اسلام‘ شریعت اسلامیہ کا دفاع‘ دین کے دشمنوں کی مزاحمت اور اللہ کے کلمے کو زمین میں غالب کرنا ہے‘ بلکہ فی سبیل اللہ کی مد کو اس دور میں‘ ثقافت‘ تربیت اور ذرائع ابلاغ میں صرف کرنا اولیٰ ہے۔ بشرطیکہ یہ صحیح اور اسلامی ہوں۔ مثلاً خالص اسلامی اخبار جاری کرنا جو کہ گمراہ کن صحیفوں کا پوری طرح مقابلہ کرسکے اور اللہ کا کلمہ بلند کرسکے‘ حق و انصاف کی بات کرسکے‘ اسلام کے خلاف افتراپردازوں کا ردّ کرسکے۔ گمراہ لوگوںکے شکوک و شبہات کو رفع کرسکے اوردین کی صحیح تعلیمات بغیرکسی حذف و اضافہ کے ٹھیک ٹھیک لوگوں تک پہنچا سکے۔ ایک اسلامی کتاب کی طباعت بھی فی سبیل اللہ کی مد میں شامل ہے جو اچھے طریقے سے اسلام کا تعارف پیش کرسکے اور اسلام کے جوہر کو دنیا کے سامنے نمایاں کرسکے‘ اس کی تعلیمات کے حسن و جمال کو نمایاں اور مخالفین کے باطل دعووں کو جھوٹا کرسکے۔ انھی صفات کی حامل کتاب کو ری پرنٹ کرکے وسیع پیمانے پر پھیلانا بھی اس مد میں شامل ہے [اسی طرح فلم بنانا بھی]۔

ایسے امانت دار اور مخلص لوگوں کو مذکورہ کاموں کے لیے فارغ کرنا بھی جہاد فی سبیل اللہ کی مد میں شامل ہے جو اس دین کی خدمت کے لیے منصوبہ بندی کرسکیں اور چاردانگ عالم میں اسے پھیلاسکیں‘ دشمن کی چالوں کا توڑکرسکیں‘ اسلام کے سوئے ہوئے بیٹوں کو بیدارکرسکیں اور نصرانیت‘ لادینیت‘ اباحیت اور سیکولرازم کا مقابلہ کرسکیں۔ ان اسلامی داعیوں کی معاونت کرنا جن کے خلاف خارج کی اسلام دشمن طاقتیں مقامی سرکش اور دین اسلام کے باغیوں کی مدد سے سازشوں میں مصروف ہیں‘ یہ بھی جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ مذکورہ متعدد مدات میں زکوٰۃ اور صدقات صرف کرنا بدرجۂ اولیٰ ہے خاص طور پر اسلام کی اجنبیت کے اس زمانے میں۔(علامہ یوسف قرضاوی‘ ترجمہ:طارق محمود زبیری۔المجتمع، کویت‘ شمارہ ۱۶۸۵‘ ۲۷جنوری ۲۰۰۶ئ)