مئی ۲۰۰۲

فہرست مضامین

امریکہ کا دینی تعلیم میں تبدیلی کا مطالبہ کیوں؟

ڈاکٹر یوسف القرضاوی | مئی ۲۰۰۲ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

ترجمہ: ابوسعد

ملت اسلامیہ پر آج ایسا مرحلہ آیا ہے کہ وہ اغیار کے رحم و کرم پر زندہ ہے‘ وہ جس طرح چاہیں اس سے معاملہ کریں اور اس کے معاملات میں دخل اندازی کرتے رہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس اُمت کے مزاج اور اس کی اصل کو بدل ڈالیں‘ اس کے تشخص اور تمدن میں وہ تبدیلیاں لائیں جو ان کے لیے قابل قبول ہوں۔ اغیار ہم سے ہرگز راضی نہیں ہو سکتے جب تک کہ ہم ان کی مرضی کے مطابق نہ چلیں۔

وہ چاہتے ہیں کہ ملت اسلامیہ اپنی دینی تعلیم میں بنیادی تبدیلی لائے۔ ریاست ہاے متحدہ امریکہ نے ایک سے زائد اسلامی ممالک سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے ہاں رائج دینی تعلیم کے نظام پر نظرثانی کریں۔ دینی تعلیم سے کیا مراد ہے؟ کیا وہ دینی تعلیم جو عام مدارس کے نصاب میں داخل ہے جس کے ذریعے طلبہ اپنے عقیدے‘ شریعت‘ تہذیب اور اخلاق سے واقفیت حاصل کرتے ہیں‘ یا اس سے وہ تعلیم مراد ہے جو بعض     یونی ورسٹیوں میں اسلامی ثقافت کے حوالے سے ایک مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جاتی ہے‘ یا اس دینی تعلیم سے مراد وہ خاص منہج تعلیم ہے جو مختلف اسلامی ممالک کے دینی مدارس‘ شرعی مراکز اوراسلامی یونی ورسٹیوں‘ مثلاً مصر میں الازھر‘ تونس میں الزیتونہ اور بلاد مغرب میں قروین‘ سعودی عرب میں الجامعہ الاسلامیہ اور جامعہ الامام محمد بن سعود اور جامعہ ام القریٰ‘ بھارت میں مدرسہ دیوبند‘ ندوۃ العلما‘ پاکستان کی معروف دینی درس گاہوں اور ملایشیا میں کوالالمپور کے دینی مدارس میں دی جاتی ہے؟ غالب امکان یہ ہے کہ یہ مطالبہ مذکورہ تمام طرز کی دینی تعلیم کے لیے ہے‘ اور مطلوب یہ ہے کہ دینی تعلیم کو اس رنگ میں رنگا جائے جو امریکہ چاہتا ہے۔

یہ ایک عجیب و غریب مطالبہ ہے۔

کیا ہم عرب اور مسلمانوں پر وہ پابندیاں لگا دی جائیں گی جو دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان اور جرمنی پر لگا دی گئی تھیں؟ جرمنی اور جاپان سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اپنے دستور‘ تعلیم اور ثقافت کو تبدیل کریں کیونکہ وہ امریکہ اور اس کے حلیفوں کے دشمن تھے اور اس جنگ میںکود پڑے تھے جس میں لاکھوں انسانوں کی جانیں تلف ہوئیں۔ حالانکہ ہم ان کے دشمن نہیں ہیں۔ جن اسلامی ممالک سے دینی تعلیم میں تبدیلی کا مطالبہ ہو رہا ہے وہ امریکہ کے دوست ملک سمجھے جاتے رہے ہیں۔ ان کے درمیان معاہدات ہیں‘ سمجھوتے ہیں‘ سفارتی تعلقات ہیں۔ ہم حالت جنگ میں نہیں ہیں‘ پھر بھی ہم سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ آخر ہم سے وہ سلوک کیوں کیاجا رہا ہے جو شکست خوردہ جنگی فریق سے کیا جاتا ہے؟ ہم نے جنگ نہیں چھیڑی مگریہ ایک طاقت ور کی کمزور پر گرفت ہے‘ ایک غالب کا مغلوب سے برتائو ہے‘ بھیڑیاآگیا بکریاں اپنی خیرمنائیں--- یہی کچھ ان دنوں ہو رہا ہے۔

کیا دہشت گردی دینی تعلیم کا نتیجہ ہے؟

امریکہ کیا چاہتا ہے؟ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ ہماری دینی تعلیم کو بدل ڈالے۔ حالانکہ یہاں نہ دہشت گردی سکھائی جاتی ہے اور نہ اس کے نتیجے میںدہشت گردی ہی پروان چڑھتی ہے۔ یہ کس نے کہہ دیا کہ دہشت گردی دینی تعلیم سے پھلتی پھولتی ہے؟ کیا اسامہ بن لادن‘ ایمن الظواہری‘ عبدالسلام فرج اور خالد الاسلامبولی اور وہ جن پر دہشت گردی کے الزامات لگائے گئے ہیں‘ کیا ان میں سے کوئی ہے جس نے جامعہ الازھر سے یا کسی معروف دینی درس گاہ سے تعلیم حاصل کی ہو؟ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس نے کسی معروف دینی درس گاہ سے تعلیم حاصل کی ہو۔ ہاں‘ یہ صحیح ہے کہ طالبان ضرور دینی مدارس کے فارغ ہیں لیکن وہ دہشت گرد نہیں ہیں۔ طالبان پر کچھ بھی الزامات لگائے جائیں‘ مگر دہشت گردی کا الزام ان پر صادق نہیں آتا۔ امریکہ بھی یہ کہتا رہا ہے کہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ دہشت گرد ہیں‘ ہم ان سے اور جو انھیں پناہ دیتے ہیں‘ ان سے بھی لڑیں گے۔ طالبان کو دہشت گرد نہیں‘ بلکہ ان کو پناہ دینے والے قرار دیا گیا تھا۔ یہ کتنی کم ظرفی کی بات ہے کہ اب کہتے ہیں کہ طالبان دہشت گرد ہیں۔

طالبان نے جو کچھ کیا وہ صرف یہ کہ بن لادن کو اپنے ملک میں پناہ دی۔ حقیقت یہ ہے کہ بن لادن اور القاعدہ افغانستان میں اس وقت سے تھے جب سرخ سامراج (سابق سوویت یونین) کے خلاف افغانستان میں جہاد جاری تھا اور جنھیں برسوں امریکہ اور عرب و اسلامی ممالک کی سرپرستی حاصل رہی تھی۔ پھر یہی مجاہدین‘ مجرم قرار دیے جانے لگے ‘ ان کے راستے مسدود کر دیے گئے‘ ان سے اسباب چھین لیے گئے اور وہ اس قابل بھی نہیں رہے کہ اپنے ملکوں کو واپس جا سکیں کیونکہ وہاں ان کی آمد پر دارورسن ان کا مستقبل تھا۔ اس لیے وہ افغانستان ہی میں رہے اور افغانیوں نے ان کے ساتھ اپنے روایتی اخلاق کا برتائو اختیار کیا کہ جس نے ان سے پناہ طلب کی اس کو ہرگز بے یارومددگار نہیں چھوڑا۔ یہ حسن سلوک ہے دہشت گردی نہیں ہے۔

اس دنیا میں دہشت گردی مختلف رنگوں میں نظر آتی ہے جس کا کوئی تعلق دین سے یا دینی تعلیم سے ہرگز نہیں۔ یہ خود امریکہ میں ‘ برطانیہ میں‘ جاپان میں موجود ہے۔ بھارت اور اسرائیل میں بھی موجود ہے۔ ہر جگہ کے واقعات ریکارڈ پر ہیں۔ پھر کیوں صرف اسلامی دینی تعلیم ہی پر دہشت گردی کا الزام لگایا جاتا ہے؟

امریکی دل چسپی کا سبب

آخر امریکہ اسلامی دینی تعلیم میں تبدیلی کے مطالبے سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ کیا وہ یہ چاہتا ہے کہ اس تعلیم کا اثر زائل کر دے تاکہ حیات مسلم پر اس کا کوئی اثر باقی نہ رہے؟ اگر یہی بات ہے تو یہ تبدیلی دہشت گردی کو ختم کرنے میں ممد ثابت نہ ہوگی بلکہ یہ اُمت کے اخلاق کو بری طرح متاثر کرے گی اور اُمت اپنے بنیادی اصولوں سے عاری ہو جائے گی۔ یہ اُمت بے راہ رو اُمت بن جائے گی۔

اخلاق کی بنیاد دین ہے اور دین زندگی کا جوہر اور اس کا راز ہے‘ اور اگر یہ زندگی سے گم ہو جائے تو زندگی‘ زندگی نہ رہے۔ دین ایک قوت سے عبارت ہے جوخیر کی محافظ ہے اور شر کولگام دیتی ہے۔ دین انسان کے لیے ضابطہء حیات متعین کرتا ہے۔ اگر دین کا کردار ختم کر دیا جائے تو اس کے معنی ہوں گے کہ شر پھیلنے لگے‘ جرائم بڑھنے لگیں‘ فساد پھیلے‘ بے حیائی عام ہو اور ضمیر کے سودے سرعام ہونے لگیں۔ اگر دین کو زندگی سے نکال باہر کردیا گیا تو یہی کچھ ہو کر رہے گا۔

مسلم ممالک کے سیکولر حکمران چاہتے ہیں کہ ترکی کی سیکولر اور متشدد حکومت کی طرح دین کو عام مسلمانوں کی زندگی سے خارج کر دیں۔ ترکی مدارس میں دین نہیں سکھایا جاتا۔ ترک عوام نے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے اپنے وسائل سے ہزاروں قرآنی مدارس کا آغاز کیا جس میں بچوں کو قرآن ناظرہ پڑھایا جاتا ہے۔ وہاں وہ قرآن پڑھتے ہیں مگر اس کے معنی نہیں جانتے۔ کیا یہ تعلیم بھی کہیں دہشت گردی پھیلا سکتی ہے؟ مگر اس کے باوجود سیکولر ترکی حکومت نے ان مدارس پر پابندی لگا دی اور مدارس بند کر دیے گئے۔ کیا یہ ایسا ہی چاہتے ہیں؟ کیا یہ چاہتے ہیں کہ دینی تعلیم ان بنیادی مقاصد سے عاری ہو جائے جو ایک کامل مسلمان اور مرد مومن کی نشوونما کے ضامن ہیں۔ وہ مرد مومن جو حق پر ایمان رکھتا ہے اور اس کے راستے میں جہاد کرتا ہے۔ خیر کی طرف بلاتا ہے‘ بھلائیوں کا حکم دیتا ہے اور منکرات سے روکتا ہے اور باطل کا مقابلہ کرتا ہے اور حق کو مضبوطی سے تھامے رہتا ہے۔ وہ اس کی پروا نہیں کرتا کہ اس راستے میں کیسی اذیتیں اور پریشانیاں اسے لاحق ہیں۔ ایک ایسی شخصیت جو اللہ کے راستے میں اپنا سر ہتھیلی پر رکھ لیتی ہے‘ جو اس کی راہ میں شہید ہو جاتے ہیں جس طرح ہمارے بھائی حماس اور جہاد اسلامی و دیگر جہادی تنظیموں میں شہید ہو رہے ہیں‘ کیا وہ چاہتے ہیں کہ جہاد کا یہ تصور دین سے حذف کر دیں؟ ہو سکتا ہے کہ وہ یہی چاہتے ہوں۔ کچھ سیکولرعرب ممالک نے یہ کام کر دیا ہے۔ خصوصاً ان ممالک نے جو سیکولرازم اور تشدد کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔

اہل مغرب کا کہنا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے کہ دین داروں سے جنگ کرو‘ انھیں قیدخانوں میں ڈال دو اور ان پر تسلط حاصل کرلو اور انھیں مالی و نفسیاتی سزا دو۔ دین داروں کے خلاف محاذ اسی وقت جیتا جا سکتا ہے جب ان چشموں کو خشک کر دیا جائے جہاں سے دین کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ اس کو منبع آب خشک کرنے کا نام دیا گیا ہے۔ یقینا امریکہ دینی تعلیم میں تغیر کے اپنے مطالبے سے یہی کچھ حاصل کرنا چاہتا ہے جو اسے اصلاح اور تجدید کے حوالے سے پیش کر رہا ہے۔ یہ اصلاح اور تجدید نہیں‘ بلکہ فساد اور گمراہی ہے۔

کیا امریکہ یہ چاہتا ہے کہ دینی تعلیم کے منہج میں کچھ تبدیلی آئے تاکہ اسلامی فکر اور رواداری پروان چڑھے؟ حالانکہ اسلام ایک ایسی فکر کا حامل ہے جو دوسروں کے ساتھ گفت و شنید کے لیے ہر وقت تیار‘ اور مخالفین کے ساتھ عفو و درگزر اور دشمنوں کے ساتھ احسان کا رویہ پیش کرتی ہے‘ اور انسان کو بحیثیت بشر ایک برادری اور خاندان کے افراد سمجھتی ہے جو ایک باپ آدم ؑ کی اولاد اور ایک رب اللہ تعالیٰ کا بندہ ہے۔ اگر امریکہ یہ چاہتا ہے تو ہم اس مطالبے میں امریکہ سے آگے ہیں۔

دین کو ہم الاسلام کہتے ہیں جو ایک کھلا اور روادار دین ہے۔ ہم مسلمانوں کے متشدد اور تنگ نظر اور متعصب عناصر کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ تعصب‘ تنگ نظری اور جمود سے رواداری اور حرکت کی طرف‘دشواری اور منافرت سے آسانی اور خوش خبری کے ماحول کی طرف‘ غلو اور بے اعتدالی سے انصاف اور اعتدال کی راہ پر آئیں۔ حسداور بغض کے بجائے ہمدردی اور رحمت کو اپنائیں۔ ہم مسلمانوں کو اس طرف بلاتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ امریکہ ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے بلکہ اس لیے کہ ہمارے دین نے اس کا حکم دیا ہے۔ یہ خود ہماری دعوت ہے۔ اس کی قطعی ضرورت نہیں ہے کہ یہ امریکہ اور اس کے حلیف کی طرف سے دبائو کے ذریعے کرائی جائے۔ ہم اسی دینی تعلیم کے منہج کے دعوے دار ہیں جس سے صحابہ اور تابعین نے استفادہ کیا اور وہ لوگ اسلام کا بہتر  فہم رکھنے والے‘ اس کی روح سے اچھی طرح واقف‘ اس کے مقاصد سے آشنا‘ اس سے زیادہ تعلق رکھنے والے‘ اس کے ارکان و آداب پر اچھی طرح عمل کرنے والے لوگ تھے۔ ہم اُس اسلام کی طرف دعوت دیتے ہیں جو کہ صحابہ کرامؓ کی اولین جماعت نے سمجھا جن کی تربیت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے خود کی تھی اور جن کے ذریعے سے اس اُمت کی تشکیل کی گئی۔ ہم اس کی طرف بلاتے ہیں اور ہمیں اس کی ضرورت نہیں ہے کہ اغیار ہمیں دین سکھائیں۔

اسلام ہی ہدف کیوں؟

سوال یہ ہے کہ صرف اسلام اور مسلمان ہی دہشت گردی کا ہدف کیوں؟ دوسری تمام اقوام سے  صرفِ نظر کر کے صرف مسلمانوں سے ہی مطالبہ کیوں کیا جا رہا ہے کہ وہ دینی تعلیم میں تبدیلی لائیں؟ آخر اسرائیلیوں سے یہ مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا‘ جب کہ اسرائیل وہ قوم ہے جس نے خوں ریزی اور غارت گری کو جائزٹھہرا لیا ہے۔ جن کے ہاں خون بہانا‘ عزت نفس سے کھیلنا اور انسانی رشتوں کا لحاظ نہ کرنا کوئی گناہ نہیں‘ ان کی اپنی اسی دینی تعلیم کی بنیاد پر جو تورات میں دی گئی ہے۔ تورات میں موسیٰ علیہ السلام سے یہ کہا گیا ہے کہ اگر تم کسی قوم پر فتح حاصل کرلو اور کسی ملک میں داخل ہو جائو تو وہاں کے باشندوں کو مارو۔ مرد اور عورت دونوں پر تلوار چلائو اور ان کے گائے‘ بھیڑبکریاں‘ گدھوں اور دیگر جانوروں کو قتل کر دو‘ یعنی ہر طرح کی غارت گری روا رکھو۔ یہ وہ سبق ہے جو انھیں تورات سکھاتی ہے۔ جہاں تک تلمود کا تعلق ہے وہ اس سے زیادہ شدید‘ زہریلی اور قساوت سے پُر ہے کیونکہ وہ تمام غیر اسرائیلیوں کو مذموم ٹھہراتی ہے۔ تمام غیر اقوام کو وہ جانوروں کی طرح سمجھتی ہے اور وہ بھی کتوں سے بدتر‘ اور یہ کہ دیگر انسان خدا کی محبوب قوم بنی اسرائیل کے مملوک اور غلام ہیں۔ یہ اور اس طرح کی باتیں تلمود کہتی ہے اور جس کے تعلق سے قرآن بھی گواہی دیتا ہے جب وہ اشارہ کرتا ہے کہ ’’وہ کہتے ہیں کہ ہمارا امیین (غیر اسرائیلیوں) سے کوئی عہد نہیں ہے اور یہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں جانتے بوجھتے ہوئے‘‘۔ اسرائیلیوں کے نزدیک کسی غیر اسرائیلی کی نہ کوئی حرمت ہے اور نہ کوئی منزلت اور وقعت ہی۔ یہی ان کی دینی قدریں ہیں۔

یہ سب جاننے کے باوجود امریکہ اسرائیل سے کیوں مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ اپنی دینی تعلیم بدل ڈالے۔ وہ اسرائیل کی دینی جماعتوں‘ حزب شاش جیسے متشدد گروہوں پر کیوں دبائو نہیں ڈالتا حالانکہ یہی لوگ ہیں جو عربوں کا قتل عام روا رکھتے ہیں اور جنھیں ان کا نام و نشان باقی رکھنا گوارا نہیں ہے۔ اسرائیل کے لیے سب حلال ہے اور مسلمانوں اور عربوں کے لیے سب حرام ہے۔

امریکہ کا یہ مطالبہ امریکہ میں موجود ان بنیاد پرست مسیحی گروہوں سے کیوں نہیں ہے جوکھلے عام یہودی اور صہیونی سازشوں میں تعاون کرتے ہیں اور اس کو وہ دینی تقاضا سمجھتے ہیں جن کی تعلیم نے کروڑوں پر اثر ڈالا۔ بشمول امریکی صدر‘ جمی کارٹر ہوں یا بش (باپ)‘ ریگن ہوں یا کلنٹن اور موجودہ صدر بش (بیٹا)۔ یہ تمام اسی مسیحی فکر سے متاثر ہیں جس کو اصولی مسیحیت یا صہیونی مسیحیت کہا جاتا ہے۔ شاید اوکلاہاما سٹی کے دھماکوں میں جو ملوث تھے وہ بھی اسی ذہن کے پرداختہ تھے اور ان کے علاوہ درجنوں اور تنظیمیں اور گروہ امریکہ میں موجود ہیں جو اس زمرے میں آتی ہیں۔ آخر ان کا نام کیوں نہیں لیا جاتا؟ اسی طرح آئرلینڈ کے کیتھولک مسلح گروہ جو برطانیہ میں پروٹسٹنٹ طبقے سے برسرپیکار ہیں‘ ان کو کیوں ملزم نہیں سمجھا جاتا؟

حد یہ ہے کہ ہمارے رفاہی اور خدمات عامہ کے ادارے بھی ان کی زد میں ہیں۔ حال ہی میں امریکی وفود نے خلیج کا دورہ کیا تاکہ ان اداروں کی جانچ پڑتال اور نگرانی کی جائے اور ان کا کسی بھی طرح کا تعاون بقول ان کے دہشت گردوں کو نہ ملنے پائے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ان سے کوئی تعاون فلسطین نہ جائے۔ حماس‘ الجہاد تنظیم اور حزب اللہ اور دیگر تمام اسلامی جماعتیں جو اپنے دین و وطن کی مدافعت کر رہی ہیں ان سے کٹی رہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ خلیج میں موجودہ رفاہی اور خدمت خلق کے اداروں پر پابندی لگائیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ہر معاملے میں اپنی رائے ٹھونسیں۔ یہ جدید استعمار ہے۔ نیا استعمار نئے نام اور نئے انداز سے آرہا ہے۔ یہ اشد ضروری ہے کہ خلیج اور دیگر عرب و اسلامی ممالک اس طرح کی دخل اندازی کو مسترد کر دیں۔ ہم کسی کے غلام نہیں ہیں۔ ہم صرف اللہ وحدہ لاشریک کے غلام ہیں: کہہ دو کہ میری نماز‘ میری قربانی‘ میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا حکم مجھے دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مطیع و فرماں بردار ہوں۔

اُمت مسلمہ کی ذمہ داری

میں اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ ہمارے دینی اداروں میں بھی مختلف طرح کی خامیاں موجود ہیں۔ ہمارے ملکوں کے یہ تمام ادارے اصلاح کے محتاج ہیں اور اس کی ضرورت ہے کہ ان کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا رہے۔ زندہ قومیں اپنا احتساب خود کرتی ہیں۔ اپنے حال اور مستقبل پر مسلسل نظر رکھتی ہیں اور اس بات کا انتظارنہیں کرتیں کہ کوئی غیر انھیں اس کام کے لیے متوجہ کرے۔ خود امریکہ اپنے حالیہ نظام تعلیم کا جائزہ لے رہا ہے۔ انھوں نے ایک جاپانی وفد کو دعوت دی کہ امریکی نظام تعلیم کی اصلاح کے ضمن میںوہ اپنے مشورے پیش کرے لیکن یہ فیصلہ امریکہ نے خود کیا تھا کسی اور نے اس پر ٹھونسا نہیں تھا۔ ہم ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیںاور ہمارے مفکرین اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ نظام تعلیم کا احیا اور جائزہ مسلسل ہوتا رہنا چاہیے۔ یہ ایک فطری ضرورت ہے۔ اکثر لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہماری مروجہ دینی تعلیم جمود کا شکار ہے۔ وہ ماضی سے عبارت ہے اور عصرحاضر کے تقاضوں سے میل نہیں کھاتی‘ وہ عصرحاضر جس کا دائرہ بہت وسیع ہے‘ جس کی ثقافت متنوع ہے اور جس کے مسائل نئے نئے اور ان گنت ہیں۔ ہماری دینی تعلیم اس سے کوئی سروکار نہیں رکھتی۔

ہم اس بات کے خواہاں ہیں کہ ہم علم دین کی ترویج ماضی کے علمی ورثے اور جدید تقاضوں کے پیش نظر کریں۔ ہمارے ماضی میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ اہل دانش کو چاہیے کہ وہ اپنے زمانے سے واقف اور اپنی خودی کے نگہبان رہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ دینی تعلیم بند حصار سے باہر نکل آئے اور جمود سے چھٹکارا پائے اور علم کو وسیع تر آفاق پر محیط کرے۔ بعض دینی مدارس عصری علوم سے کوئی واسطہ نہیں رکھتے۔ وہ جغرافیہ سے نابلد ہیں‘ نہ فزکس کی معرفت ہے‘ نہ کیمیا‘ نہ علوم حیاتیات کے ہی مبادیات سے واقف ہیں۔ انسان اگر ان اہم علوم کے مبادی سے ناواقف ہو تو اس دور میں کیسے جی سکتا ہے۔ جب ہم بعض مسائل پر گفتگو کرتے ہیں جن کا تعلق عصری علوم سے ہو تو ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کے فارغ التحصیل صحیح صورت حال کو سمجھ نہیں پاتے۔ ہمارے علما یہ کہتے ہیں کہ مفتی کے لیے ضروری ہے کہ وہ نصوص دین کی طرح مسئلے کی حقیقی صورت حال سے بھی اچھی طرح آگاہ ہو۔ دین اور عصرحاضر کے علوم میں مہارت کے بغیر صحیح فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔ رویت ہلال کے مسئلے سے آگاہی ممکن نہیں جب تک علم فلکیات سے واقفیت نہ ہو۔ جب ہم نہیں جانتے کہ فلکیات کیا ہے‘ چاند گرہن اور سورج گرہن کیا ہے اور شمس و قمر کی گردش کس حساب میں ہے تو پھر کیسے کوئی حتمی رائے قائم کر سکتے ہیں۔ اسی طرح سے توالد و تناسل کے جدید علم سے واقف ہوئے بغیر ہم کیسے کوئی شرعی رائے بیان کر سکتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل میں فلپائن کے دورے پر تھا۔ وہاں میں نے اسلامی اور عربی مدارس کا دورہ کیا۔ ہم نے اہل مدارس سے عرض کیا کہ آپ لوگ ماضی بعید میں رہتے ہیں جیسا کہ آج سے ۱۰۰ سال قبل الازھر تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ آخر آپ انگریزی زبان کیوں نہیں سیکھتے؟ عصری علوم کیوں نہیں پڑھتے؟ اپنے انداز تدریس کو سہل اور جدید کیوں نہیں بناتے؟ اور نئے سمعی و بصری وسائل تدریس سے استفادہ کیوں نہیں کرتے؟ تو انھوں نے کہا یہ سب چیزیں وافر وسائل سے ہی ممکن ہیں۔ ہم صرف متوکل اساتذہ کے تعاون سے یہ ادارے چلاتے ہیں۔ اگر وہ مشاہرہ لیتے بھی ہیں تو بہت قلیل سا۔ انگریزی‘ طبیعیات‘ کیمیا‘ جغرافیہ وغیرہ کے مدرسین کے لیے بڑی بڑی تنخواہیں چاہییں۔ یہ ہم کہاں سے مہیا کریں؟ یوں ایک اہم مسئلہ مالی وسائل کی کمی کا ہے۔

یہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ مسلمان جو وافر وسائل اور کارخیر کا جذبہ بھی رکھتے ہیں‘ ان حالات میں بھی جب کارخیر کا سوچتے ہیں تو سوائے ایک کے کوئی اور کام ان کے خیال میں نہیں آتا‘ اور وہ ہے مسجد کی تعمیر۔ یقینا اس کی ضرورت مسلمانوں کو ہے۔ مگر مسلمانوںکو مدارس کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جیسے مسجد کی یا اس سے بھی کچھ زیادہ۔ مدرسے اور مساجد ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ ہمیں مساجد کی ضرورت ہے‘ مدرسوں کی ضرورت ہے‘ اسٹیڈیم کی ضرورت ہے‘ مختلف تربیتی‘ تعلیمی‘ ثقافتی اور ابلاغی اداروں کی ضرورت ہے جن سے ہمارے معاشرے کی ضرورتیں پوری ہوں‘ وہ اس کے ارتقا کے ضامن بن جائیں اور اپنا موثر اور بھرپور کردار ادا کر سکیں۔

یہی وہ تبدیلی ہے جو ہم دینی تعلیم میں دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ نشوونما پائے‘ ترقی کرتی رہے‘ اس کے منہج بہتر ہوتے رہیں‘ عصرحاضر میں زندہ رہے اور حیات انسانی کے ساتھ سفر کرتی رہے۔ یہاں تک کہ ہر لحظہ وہ اپنے رب کے اذن سے اپنے ثمرات عطا کرتی رہے۔ (خطبہ جمعہ ‘ ۱۸ جنوری ۲۰۰۲ء‘ مسجد عمر بن خطاب‘ دوحہ‘ قطر)