مئی ۲۰۰۲

فہرست مضامین

امریکی مفکر کی متعصبانہ سوچ

پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد | مئی ۲۰۰۲ | مغرب اور اسلام

Responsive image Responsive image

مغرب میں آج کل اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا رہا ہے۔ اسی حوالے سے گذشتہ دنوں ہفت روزہ نیوزویک نے ’’۲۰۰۲ء کے مسائل‘‘ کے عنوان سے ایک خصوصی شمارہ (دسمبر ۲۰۰۱ء-فروری ۲۰۰۲ء) شائع کیا ہے جس میں مسلمانوں سے موجودہ کش مکش کے منظر کو موضوع بنایا گیا۔ ’’اختتام تاریخ‘‘ شہرت یافتہ امریکی مفکر فرانسس فوکویاما کا مضمون اسلامی احیائی تحریکات کے حوالے سے توجہ کا مستحق ہے۔

وہ پہلی بات یہ کہتا ہے کہ جدید سرمایہ دارانہ تہذیب کے اصل دشمن ’’اس دور کے فاشسٹ‘‘ ، ’’اسلامی انقلابی‘‘ (Radical Islamists) ہیں۔ یہ لوگ جدید لبرل جمہوریت اور سرمایہ داری کو‘ جو فوکویاما کے تصور میں انسانی تاریخ کی بہترین ممکنہ معاشرتی ارتقائی شکل پیش کرتی ہے‘ نفرت‘ حقارت اور دشمنی کی نگاہ سے اپنا مدمقابل سمجھتے ہیں۔ چنانچہ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کا واقعہ اسی کا مظہر تھا۔ ان کا وجود اس جدید تہذیب کی حیات اور بقا کے سلسلے میں بنیادی سوال بن کر اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس مخالفانہ رویے کو اختیار کرتے وقت‘ اس کے خیال میں‘ مسلمان یہ بھول جاتے ہیں کہ امریکہ ہی نے صومالیہ‘ بوسنیا‘ کوسووا اور چیچنیا میں مسلمانوں پر ظلم کے خلاف آواز بلند کی تھی۔

فوکویاما کے یہ خیالات ایک قدم آگے بڑھ کر احیائی تحریکات کے حوالے سے ایک نئی اصطلاح استعمال کرتے ہیں‘ یعنی "Islamo Facists"۔ اس کے بقول:

"The Islamo fascist sea within which the terrorists swim constitutes an  Ideological challenge that is in some ways more basic than the one posed by communism" (p  58)

اسلامی فاشزم کا سمندر‘ جس میں دہشت گرد تیرتے ہیں‘ ایسا نظریاتی چیلنج ہے جو بعض اعتبار سے کمیونزم کے چیلنج سے زیادہ بنیادی ہے۔

فوکویاما کی نظر میں مسلمانوں کو یہ فیصلہ جلد کرنا ہوگا کہ کیا وہ ’’جدیدیت‘‘ (modernity) کے ساتھ ایک امن کا رشتہ قائم کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو انھیں سیکولر ریاست اور مذہبی رواداری کو اختیار کرنا ہوگا (ص۵۹)۔ موصوف کے یہ خدشات تو بڑی حد تک ہن ٹنگٹن کی فکر کا تکملہ نظر آتے ہیں‘ لیکن مغرب کی نمایندہ فکر ہونے کے سبب سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کا تقاضا بھی کرتے ہیں۔

ان تمام خدشات کی بنیاد چار غلط فہمیوں پر ہے۔

اولاً یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ تحریکات احیاے اسلام دراصل ماضی پرست تحریکات ہیں۔ حالانکہ اسلامی تحریکات دراصل اجتہادی تحریکات ہیں اور اسی بنا پر خود مسلم ممالک میں جو طبقات روایتی مذہب پرستی کے قائل ہیں وہ ان تحریکات کی مخالفت میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔ حقیقتاً ماضی پرست تو وہ ہیں جو اسلاف کی ہر عادت کو جامہ تقدس پہنا کر اپنے اُوپر فرض کر لیتے ہیں‘ جب کہ تحریکات اسلامی صرف قرآن و سنت کی بنیاد پر نئے حالات کی روشنی میں تجزیے اور عقل کی بنیاد پر ایک لائحہ عمل پیش کرتی ہیں جس میں اسلام محض عبادات تک محدود نہیں رہتا بلکہ جدید معاشی‘ سیاسی‘ معاشرتی اور بین الاقوامی مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ یہ تحریکات آج کے مسائل اور مستقبل کے امکانات کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتی ہیں اور کسی پہلو سے بھی قدامت پرست اور ماضی کی پرستار نہیں کہی جاسکتیں۔

دوسرا غلط مفروضہ یہ ہے کہ اسلامی تحریکات شدت پسند تحریکات ہیں اور مغرب سے اپنے غصے‘ نفرت اور دشمنی کے پیش نظر اسے تباہ و برباد کرنے کے لیے بے چین ہیں۔ ایک مفکر کی حیثیت سے فوکویاما کو ایک انتہائی غلط اور بے بنیاد بات پر بھی یقین کرنے کا حق حاصل ہے لیکن اگر تعصبات سے بلند ہو کر دیکھا جائے تو اسلامی احیائی تحریکات‘ مثلاً انڈونیشیا میں ماشومی‘ ترکی میں حزب رفاہ‘ سوڈان میں اخوان المسلمون‘ الجزائر میں فاس‘ پاکستان میں جماعت اسلامی اور اسی طرح بنگلہ دیش‘ ہندستان‘ سری لنکا‘ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کی جماعت اسلامی‘ حتیٰ کہ شام‘ عراق‘ اور اُردن کی اخوان المسلمون نے کبھی تشدد‘ انتہا پسندی اور قوت کے استعمال کو نظری اور عملی حیثیت سے اختیار نہیں کیا۔ مصر میں صرف ایک محدود وقت کے لیے اخوان المسلمون نے خفیہ طریقہ اختیار کیا لیکن وہ بھی دوسرے مرشدعام حسن الہضیبی کے دورسے کھلے اور جمہوری ذرائع پر عامل تحریک بن گئی۔ علمی دیانت کا تقاضا ہے کہ جن مقامات پر تحریکاتِ حریت برپا ہیں‘ وہ فلسطین ہو یا مقبوضہ کشمیر‘ ان پر دیگر تحریکات کو قیاس نہ    کیا جائے۔

تیسری اہم بات یہ قابل غور ہے کہ تحریکات اسلامی جو اپنا تشخص دعوت و اصلاح کو قرار دیتی ہیں اور رنگ‘ نسل‘ زبان اور قومیت سے بلند ہو کر یورپ اور امریکہ کی اقوام کو اسلام کے پیغام امن کی دعوت دینے کو اپنی ترجیحات میں شامل کرتی ہیں‘ کیا عقلی اور منطقی طور پر ان اقوام کو نفرت اور دشمنی کا نشانہ بنا سکتی ہیں؟ کیا اتنا بڑا تضاد ممکن ہے؟ فوکویاما اور اس قسم کے مفکرین اسلام کے بنیادی اخلاقی تصور کو نظرانداز کر جاتے ہیں‘ یعنی یہ کہ وہ جہالت‘ ظلم اور بغاوت و فتنہ و فساد کا دشمن ہے۔ اگر فرعون جیسا ظالم اور سرکش اسلام کی دعوت کو سوچ سمجھ کر قبول کر لے تو وہ ولی حمیم بن سکتا ہے۔ اسی لیے خود خالق کائنات نے اپنے رسول حضرت موسٰی ؑکو یہ حکم دیا کہ جائو اور وقت کے باغی کو انتہائی نرمی سے دعوت امن و فلاح دو۔ یہ انبیاء کی سنت رہی ہے۔ خود رسولؐ اللہ نے مکہ اور طائف میں اس سنت پر عمل کیا۔ آج بھی تحریکات اسلامی اس پر عامل ہیں۔ گویا تحریکات اسلامی کی دشمنی جہالت‘ فحاشی اور فتنہ و فساد سے ہے۔ جو لوگ ان برائیوں میں پڑے ہوں اگر وہ اخلاقی رویہ اختیار کر لیں تو وہی بہترین ساتھی بن جاتے ہیں۔ یہاں معاملہ کسی قوم کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کا نہیں ہے اور نہ اس پر ناجائز قوت کا استعمال کرکے اپنی عظمت کا سکّہ منوانا ہے۔ فوکویاما کا ایک تبصرہ اس حوالے سے چونکا دینے والا ہے۔ وہ جرمن فاشزم کی مثال دے کر کہتا ہے:

"German Fascism did not collapse because of its internal moral contradiction; it died because  Germany was bombed to rubbles  and occupied by the Allied armies (p 58-59)

جرمن فاشزم اپنے اندرونی داخلی تضادات کی بنیاد پر منہدم نہیں ہوا۔ اس کی موت اس لیے واقع ہوئی کہ جرمنی کو بم باری کرکے ایک ڈھیر بنا دیا گیا اور اتحادی افواج نے اس پر قبضہ کر لیا۔

اس تبصرے میں ایک واضح پیغام "Islamo-fascists" کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے لیے بھی موجود ہے جو ایسے ممالک اور افراد سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ امریکہ نے بیسویں صدی کی شدید ترین بم باری کے ذریعے افغانستان کو نشانہ بنا کر دوسروں تک یہ پیغام پہنچایا۔

جہاں تک سوال تشدد اور قوت کے استعمال کا ہے‘ اسلامی تحریکات اپنی ساخت‘ طریقہ کار اور لائحہ عمل کے لحاظ سے فاشزم سے کوئی مماثلت نہیں رکھتیں بلکہ تاریخی طور پر مکی دور سے آج تک فاشسٹ قوتوں کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جہاد جو اسلام کا ایک بنیادی رکن ہے ایک صحیح الفہم مسلمان کو متحرک  توکرتا ہے‘ متشدد نہیں بناتا‘ اور نہ اس میں ’’مذہبی جنون‘‘ پیدا کرتا ہے۔

کاش مغربی مفکرین اسلامی تحریکات احیا کو معروضی طور پر مطالعہ کرنے کے بعد کوئی رائے قائم کرتے!