مئی ۲۰۰۴

فہرست مضامین

ہمارے والدین‘شجرہاے سایہ دار

سیدہ حمیرا مودودی | مئی ۲۰۰۴ | شخصیت

Responsive image Responsive image

بعض لوگ اپنی ذات میں اک انجمن ہوتے ہیں اور بعض لوگ اک شجرثمردار کی مانند کہ جن کے سائے میں اپنے پرائے‘ امیر غریب‘ بچے بوڑھے‘ سب پناہ لیتے ہیں اور ان کا پھل کھاتے ہیں۔ ان کی چھائوں سب کے لیے ہوتی ہے۔ وہ اپنی چھائوں اور اپنے پھل سے کسی کوبھی محروم نہیں کرتے۔

ہماری اماں جان (بیگم مودودیؒ) بالکل ایسی ہی تھیں۔ وہ اپنی ذات میں اک انجمن تھیں۔ ہمارے والدمحترم کے حوالے سے ہمارا گھر ہر وقت لوگوں سے بھرا رہتا تھا‘ باہر مرد حضرات اور اندر خواتین۔

ہم نے بچپن سے اپنے گھر میں ’جمعہ‘ ہوتا دیکھا تھا۔ ۱۱ بجے سے گھر کے سب سے بڑے کمرے میں دری‘ چاندنی کا فرش بچھ جاتا تھا اور ہماری اماں جان نہادھو کر صلوٰۃ التسبیح پڑھنے میں مشغول ہو جاتی تھیں۔ اسی اثنا میں دُور و نزدیک سے خواتین کی آمد شروع ہوجاتی تھی۔چونکہ یہ انفرادی عبادت ہے اس لیے ہمارے گھر میں صلوٰۃ التسبیح کبھی باجماعت نہیں ہوئی۔ جب جمعہ کی نماز کا وقت ہو جاتا تھا تو کمرہ تقریباً خواتین سے بھرجاتا تھا اور ہماری اماں جان نماز باجماعت پڑھاتی تھیں۔ نماز کے بعد بہت لمبی اجتماعی دعا ہوتی تھی اور اس کے بعد درس قرآن و حدیث ہوتا تھا۔ درس کے بعد دوبارہ دعا ہوتی تھی جس کے بعد یہ اجتماع ختم ہو جاتا تھا۔

اسی طرح عیدین کی نمازیں ہمارے گھرمیں ادا ہوتی تھیں۔ ہماری والدہ فجر کی نماز کے بعد تلبیہ پڑھتی جاتی تھیں اور عید کی نماز کے لیے تیاری کرواتی تھیں۔ ابھی ہم دری‘ چاندنی کا فرش بچھا کر فارغ بھی نہیں ہوتے تھے کہ نمازعید کے لیے خواتین کی آمدشروع ہو جاتی تھی‘ جوآکر خاموشی کے ساتھ صفیں باندھ کر بیٹھتی جاتی تھیں۔ پھر سب مل کر تلبیہ پڑھتے تھے۔ سورج نکلتے ہی خواتین کو تکبیروں کے بارے میں ہدایات دی جاتی تھیں اور پھر اماں جان بڑی      خوش الحانی سے سب کو نماز پڑھاتی تھیں۔ نماز کے بعد خطبہ ہوتا تھا۔ دعا کے بعدسب کو سویاں کھلائی جاتی تھیں اور خود سب سے گلے ملتی تھیں اور عید کی مبارک باد دیتی تھیں۔

جیسے ہی ذہن پیچھے کی طرف لوٹتا ہے تو چشم تصور میں ایک منظر گھوم جاتا ہے۔

رات کا وقت ہے اور اماں جان اپنے بچوں کو اپنے سے لگائے کھڑی ہیں۔ دو لیڈی کانسٹیبل آگے بڑھتی ہیں۔ وہ اماں جان‘ ہماری اور پورے گھر کی تلاشی لے رہی ہیں۔ اباجان کے کپڑے ایک سوٹ کیس میں رکھے ہیں اور وہ تیار ہوکر کہیں جانے کو کھڑے ہیں۔ پھر یکدم اباجان نے پیچھے مڑ کر ہماری طرف دیکھے بغیر قدرے بلند آواز میں: ’’السلام علیکم‘ خدا حافظ‘    فی امان اللہ‘‘ کہا اور پولیس والوں کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ یہ پہلی گرفتاری تھی جو ۴ اکتوبر ۱۹۴۸ء کو ہوئی۔ اس وقت میری عمر آٹھ سال تھی۔

بعد میں‘ میں نے اماں جان سے پوچھا :’’اباجان نے ہماری طرف مڑ کر دیکھا کیوں نہیں تھا؟‘‘ تو انھوں نے بڑے اطمینان سے کہا :’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی تو مکے سے جاتے وقت حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا تھا--- پیچھے مڑ کر دیکھنے سے ارادے اور عزم میں کمزوری آجاتی ہے‘‘۔ وہ چونکہ ہمیں انبیا علیہم السلام کے قصے سناتی رہتی تھیں اس لیے اتنا اشارہ ہی کافی تھا۔

جب اباجان گرفتار ہوئے تو اس وقت گھر میں بہت تھوڑے سے پیسے تھے۔ ہماری  اماں جان نے زندگی کے تمام معمولات بدل دیے۔ دھوبی کو کپڑے دینے بند کر کے‘ انھوں نے خود کپڑے دھونے شروع کر دیے‘ جب کہ ان کا تعلق دہلی کے ایسے متمول گھرانے سے تھا جہاں بلامبالغہ ایک رومال بھی خود نہیں دھویا جاتا تھا--- ملازم کو فارغ کر کے کھانا خود پکانا شروع کردیا۔ اس وقت ایک مائی جو اچھرہ سے جمعہ پڑھنے ہمارے ہاں آیا کرتی تھی اور ایک ٹانگے والے کی بیوہ بہن تھی ‘ضد کر کے ہمارے ہاں آگئی اور سارے کام سنبھال لیے اور اماں جان  سے کہا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے کام کریں گھر کے کام میں کروں گی۔اس کا نام ’بھاگ بھری‘ ]قسمت والی[ تھا۔ یہ نام ہماری سمجھ میں نہیں آتا تھا‘ اس لیے ہم اسے ’رس بھری‘کہتے تھے جس کا اس نے کبھی برا نہیں منایا تھا۔

اس زمانے میں ہماری اماں جان ہر وقت یَاحیّ یَا قیّوم بِرَحمَتِکَ استغیث کا ورد کرتی رہتی تھیں۔ ایک مرتبہ بہت شدید دمے کا دورہ پڑگیا تو بس اتنا کہا :’’میرے میاں جیل میں ہیں‘ مجھے کچھ ہوگیاتو میرے بچے روئیں گے اور انھیں کوئی چپ کرانے والا بھی نہیں ہوگا‘‘۔ اس پر ہماری دادی اماں جو ہمارے ساتھ ہی رہتی تھیں سخت ناراض ہوئیں کہ: ’’کیوں مایوسی کی باتیں کرتی ہو‘ حوصلہ کرو‘ کیا ہوا جو ذرا سا سانس اوپر نیچے ہوگیا‘‘۔

ہماری دادی اماں بڑی حوصلے والی خاتون تھیں۔ وہ ہماری اماں جان کو نصیحت کیا کرتی تھیں:’’بچوں کو ایسی عادت ڈالو کہ سرد و گرم ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کر سکیں۔ ایک وقت سونے کا نوالہ کھلائو‘ موتی کوٹ کر کھلائو لیکن دوسرے وقت دال سے روٹی کھلائو‘ چٹنی سے روٹی کھلائو۔ بچوں کو کبھی ایک طرح کی عادت نہ ڈالو اور نہ ہر وقت ان کی منہ مانگی مراد پوری کرو۔ ماں باپ تو آسانی سے اولاد کی عادتیں خراب کردیتے ہیں لیکن دنیا لحاظ نہیں کرتی۔ یہ تو بڑے بڑوں کوسیدھا کردیتی ہے‘‘۔ اور پھر کہتی تھیں:’’میں نے اپنے بچوں کو اسی طرح پالا ہے۔ ایک وقت اچھے سے اچھا کھلایا تو دوسرے وقت دال چٹنی سے روٹی کھلائی‘‘۔--- شاید یہی وجہ تھی کہ ہمارے اباجان ہر طرح کے سرد و گرم حالات سے بڑی ثابت قدمی کے ساتھ گزر گئے اور ہر سختی اپنی جان پر جھیل گئے۔ ان کے اعصاب فولاد کے بنے ہوئے تھے۔ وہ اپنا ٹوٹا ہوا بٹن خود ٹانک لیتے تھے۔ اپنا پھٹا ہوا کرتہ خود رفو کر لیتے تھے۔ ان کی ’جیل کٹ‘ (jail kit) جو بعد میں ہر وقت تیار رہتی تھی‘ اس میں سوئی دھاگا اور ہر سائز کے بٹن بھی ہوتے تھے۔

ہماری دادی اماں ولی اللہ تھیں۔ وہ جب بیمار ہوتی تھیں توآسمان کی طرف نظریں اُٹھا کر بڑے جذبے کے ساتھ کہتی تھیں: مَن مَرِیضَمْ تُوَ طَبِیبَمْ--- اور پھر وہ ٹھیک ہوجاتی تھیں۔ کبھی ڈاکٹر کو نہیں دکھایا اور نہ کبھی دوا پی۔ اگر کبھی پھوڑا پھنسی نکل آتا تو اس جگہ ہاتھ رکھ کر کہتی تھیں: ’’اے دنبل بزرگ مشو‘ خدائے ما بزرگ تر است‘‘] اے پھوڑے زیادہ نہ بڑھ‘    ہمارا خدا سب سے بڑا ہے[۔ یہ کہنے سے وہ پھوڑا ٹھیک ہوجاتا تھا۔ وہ فارسی زبان و ادب کی بہت زبردست اسکالر تھیں اور اکثر ایسا بھی ہوتا کہ فارسی اشعار میں بات کا جواب دیتیں۔

ہماری اماں جان کہتی تھیں :’’میں نے اپنی پوری زندگی میں تمھاری دادی اماں جیسی کوئی دوسری عورت نہیں دیکھی کہ جس میں سرے سے ’نفس‘ ہی نہ ہو۔ انھیں کسی چیز کی طلب نہیں تھی۔ دادی اماں کہا کرتی تھیں کہ:’’صوفیا کی یہ صفت ہے کہ وہ کسی کو منع نہیں کرتے‘ طمع نہیں کرتے اور جمع نہیں کرتے‘‘۔ اتفاق سے یہ تینوں صفات ہماری دادی اماں ‘ اباجان اور اماں جان میں تھیں۔ رضا بقضا اور صبر جیسی صفات کی ان تینوں ہستیوں نے اپنے اندر اس طرح سے پرورش کی تھی کہ وہ نفس مطمئنہ کا بہترین نمونہ بن گئے تھے۔ اماں جان کہا کرتی تھیں:’’میں نے جینے کا سلیقہ تمھاری دادی اماں سے سیکھا ہے‘‘۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ساس بہو‘دونوں  ہمیشہ ایک رائے رکھتی تھیں اور کبھی آپس میں کوئی اختلاف نہیں ہوتا تھا۔

جب ابا جان پہلی مرتبہ جیل گئے اور ہاتھ بالکل تنگ ہوگیا تو اماں جان نے فیصلہ کیا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے بچوں کی تعلیم جاری رہنی چاہیے۔ ہماری اماں جان کی ایک نہایت مخلص دوست خورشید خالہ‘ جب ان سے ملنے آئیں تو اماں جان نے اپنا کچھ زیور انھیں دیا کہ اسے فروخت کر لائو۔ اس طرح وہ بچوں کی تعلیم اور گھر کے اخراجات پورے کرتی رہیں۔ بڑی جز رسی کے ساتھ بہت سنبھل کر خرچ کرتی تھیں۔ اماں جان کہا کرتی تھیں :’’دنیا میں ہر چیز کے بغیر گزارا ہو سکتا ہے۔ گزارا ہوتا نہیں بلکہ ’کیا‘جاتا ہے‘‘۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کی مدد سے وہ مشکل وقت بھی گزر ہی گیا اور ۲۸ مئی ۱۹۵۰ء کو ۱۹ ماہ اور ۲۵ دن کی نظربندی کے بعد اباجان پھولوں کے ہاروں سے لدے رِہا ہوکر گھر آگئے اور سارا گھر مبارک باد دینے والوں سے بھرگیا۔

۲۸ مارچ ۱۹۵۳ء کو ابا جان دوبارہ مارشل لا کے تحت گرفتار کر لیے گئے۔ پھر وہی    گنے چنے پیسے تھے اور چھوٹے چھوٹے آٹھ بچوں کے ساتھ دمے کی مریضہ‘ انتہائی کمزور صحت والی ہماری اماں جان تھیں‘ جنھوں نے بڑے حوصلے سے ان حالات کا مقابلہ کیا۔ کبھی چوڑی اور کبھی انگوٹھی بیچنے کا سلسلہ جاری رہا (یہ کام خورشید خالہ مرحومہ انجام دیتی تھیں)۔ حسب سابق پھر خود کھانا پکانا اور گھر کے سارے کام کرنے شروع کر دیے۔ اس مرتبہ مارشل لا کے تحت فوجی عدالت میں اباجان پر مقدمہ چل رہا تھا۔ ۹مئی کو مقدمے کی کارروائی مکمل ہوگئی۔ یہ مقدمہ ایک پمفلٹ قادیانی مسئلہ لکھنے کے سلسلے میں چل رہا تھا۔ ۱۱مئی کی صبح اماں جان ناشتا بنا رہی تھیںاور ہم سب بچے اسکول جانے کے لیے تیار ہوکر ناشتے کے انتظار میں بیٹھے تھے کہ یکدم ہمارے سب سے بڑے بھائی عمر فاروق ہاتھ میں اخبار لیے بڑے گھبرائے ہوئے اندر آئے اور اماں جان کو ایک طرف لے جاکر اخبار دکھایا۔ اس اخبار میں نہ جانے کیا تھا کہ اسے دیکھتے ہی اماں جان کا چہرہ زرد ہوگیا اور دوسرے ہی لمحے انھوں نے اخبار چھپا دیا اور ایک لفظ کہے بغیر ہمارے لیے اسی دلجمعی اور اسی رفتار سے پراٹھے پکانے شروع کر دیے۔ ہم سب کو ناشتا کروا کر اسکول روانہ کر دیا اور اندر جاکر آکا بھائی ] سید عمرفاروق[کو بھی اسکول جانے کو کہا۔ ان کی اندر سے آواز آئی: ’’نہیں اماں‘ مجھ سے اسکول نہیں جایا جائے گا‘‘--- دوسرے بڑے بھائی احمد فاروق گھرسے کچھ دُور ہی گئے تھے کہ ایک ہاکر زور زور سے اعلان کر رہا تھا:’’مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی‘‘۔ وہ تو اپنا اخبار بیچنے کے لیے آواز لگا رہا تھا‘ لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ ایک بچہ جو     یونی فارم پہنے سائیکل پر اپنے اسکول جا رہا ہے‘ یہ اسی کے باپ کو پھانسی دینے کا اعلان ہے۔ غرض احمد فاروق بھائی آدھے راستے سے ہی واپس آگئے۔

میں اور اسما‘ جب اسکول جانے کے لیے گھر سے نکلے‘ تو ہاکروں کی صدائیں کان میں پڑیں: ’’مولانا مودودی کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی‘‘۔ اس وقت ہمیں معلوم ہوا کہ آکا بھائی اخبار ہاتھ میں لیے کیوں گھبرائے ہوئے اماں جان کے پاس آئے تھے اور اس اخبار میں کیا تھا کہ اسے دیکھتے ہی اماں جان کا چہرہ زرد پڑگیا تھا--- لیکن ہم دونوں بہنیں گھر واپس نہیں آئیں بلکہ سیدھی اسکول چلی گئیں۔

ہم ۶۰ فیروز پور روڈ والے سرکاری اسکول میں پڑھتی اور پیدل جاتی تھیں۔ اسکول میں ہمیں جو دیکھتا حیران رہ جاتا تھا۔ ہماری ہیڈمسٹریس صاحبہ ایک عیسائی خاتون تھیں۔ انھوں نے جب اسکول اسمبلی میں ہمیں دیکھا تو سب سے کہا:’’دیکھو رہنما ایسے ہوتے ہیںکہ باپ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے اور بیٹیاں صاف ستھرے یونی فارم پہنے بالکل پُرسکون اسمبلی میں کھڑی ہیں‘ اور شاباش اس ماں کو ہے جس نے ایسے دن ایسے موقعے پر بھی اپنی بچیوں کو صاف کپڑے پہنا کر‘ بال بنا کر‘ کھلا پلا کر اسکول روانہ کر دیا۔ یہ لڑکیوں کا کمال نہیں ہے یہ تو ان کی ماں کی عظمت ہے کہ ایسے موقعے پر بھی انھوں نے اپنی بچیوں کی تعلیم کو مقدم جانا۔ کوئی اور جاہل عورت ہوتی تو اس وقت اس نے رو رو کر اور بین کرکر کے سارا محلہ سر پر اٹھایا ہوا ہوتا‘‘۔ ہیڈ مسٹریس صاحبہ نے کہا: ’’عام لوگوں اور لیڈروں میں یہی فرق ہوتا ہے‘‘۔ اس وقت میں نویں جماعت میں تھی اور اسما ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ وہ ہیڈمسٹریس صاحبہ تو عیسائی تھیں اور ایسی باتیں کر رہی تھیں ‘ جب کہ ہماری دوسری اسکول ٹیچرز جو مسلمان تھیں‘ کہہ رہی تھیں کہ یہ کہاں سے لیڈر بن گئے یہ تو غدار ہیں‘ پاکستان کی مخالفت کرنے والے ہیں۔ لڑکیاں بھی دیکھو کتنی مکار ہیں۔ یہ سب ایکٹنگ ہے‘ چالاک ماں کی چالاک لڑکیاں!

اسکول سے جب ہم اپنے گھر ۵ اے‘ ذیلدار پارک آئے تو منظر ہی اور تھا۔

پوری گلی لوگوں سے بھری پڑی تھی۔ دُور دُور تک بسیں کھڑی تھیں جن میں سوار ہو کر لوگ دوسرے شہروں سے آگئے تھے‘ ہم دونوں بہنیں گلی سے گزر کر گھر کے دروازے تک بمشکل پہنچ پائیں۔ پھر دروازے سے گھر کے اندر داخل ہونا مشکل ترہوگیا۔ کچھ لوگ دھاڑیں مار مار کر    رو رہے تھے اور کچھ خاموشی سے آنسوبہا رہے تھے۔ ایسے میں جب انھوں نے ہمیں خاموشی سے بستے اٹھائے اسکول سے گھر آتے دیکھا تو حیران رہ گئے۔ انھوں نے اپنے آنسو پونچھ ڈالے اور کہا: ’’جب مولانا کے بچے نہیں رو رہے اور صبروسکون کے ساتھ حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں تو ہم روتے اور بے صبرے ہوتے کیا اچھے لگتے ہیں‘‘۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ ’’صبر تو اسی کو کہتے ہیں‘‘۔ بڑی مشکل سے ہجوم میں سے گزر کر جب ہم گھر کے اندر پہنچے تو پورا گھرخواتین سے پٹا پڑا تھا۔ جو خواتین اس دن ہمارے گھر اظہار ہمدردی کے لیے محبت سے آئی تھیں‘ رو رہی تھیں--- اماں جان ان کو صبر کی تلقین کر رہی تھیں‘ اور یہی حال ہماری دادی اماں کا بھی تھا۔ جب ہمیں دیکھا تواماں جان نے بس اتنا کہا : ’’بیٹا گھبرانا نہیں‘ صبر کرنا‘‘۔ اور پھر ہم سب کو اپنے ہاتھ سے پکایا ہوا کھانا کھلایا اور جا کر خواتین میں بیٹھ گئیں۔

اس روز ایک خاتون نے اماں جان سے کہا تھا کہ بیگم صاحبہ‘ آج رات آپ ۱۰۰ نفل حاجت کے لیے پڑھیں اور پھر تہجد کے نفل پڑھ کر مولانا کی زندگی‘ سلامتی اور بقا کے لیے دعا کر کے یہ منت مانیں کہ جب سلامتی‘ خیروعافیت سے گھر واپس آئیں گے تو پھر میں اسی طرح ۱۰۰نفل شکرانے کے ادا کروں گی--- غرض وہ ساری رات اماں جان نے نفل پڑھتے ہوئے گزاری۔ رات کو جب بھی دیکھا (ایسی ہولناک رات میں بھلا نیند کسے آنی تھی) انھیں نفل پڑھتے ہوئے پایا۔ فجر کی اذان سنتے ہی ہم بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ فجرکی نمازکے بعد اماں جان نے تلاوت کے لیے قرآن کھولا اور وہی سلسلہ جہاں سے روز پڑھتی تھیں پڑھنا شروع کیا۔ ہمیں حیرت ہوئی کہ سورۂ بقرہ کی جو آیت ان کے سامنے آئی وہ یہ تھی:

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْط مَسَّتْھُمُ الْبَاْسَآئُ وَالضَّرَّآئُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُاللّٰہط اَلَآ اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْبٌ o (البقرہ۲:۲۱۴) پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی تمھیں جنت میں داخلہ مل جائے گا حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ ان پر سختیاں گزریں‘ مصیبتیں آئیں وہ ہلا مارے گئے حتیٰ کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی  اہل ایمان چیخ اُٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔ اس وقت انھیں تسلی دی گئی کہ ہاں‘ اللہ کی مدد قریب ہے۔

اس آیت کو اماں جان پڑھتی گئیں اور روتی گئیں--- پھر مجھے بلایا اور یہ آیت دکھائی‘ کہنے لگیں:’’دیکھو‘ یہ زندہ کتاب ہے‘ یہ انسان کی دکھتی رگ پکڑتی ہے۔ یہ دل کا چور پکڑتی ہے۔ یہ دکھی انسان کے زخموں پر مرہم رکھتی ہے۔ بس شرط یہ ہے کہ تم اس سے دوستی کرلو! پھر یہ تمھارے حالات کے مطابق‘ تمھاری دلی کیفیت کے مطابق‘ تم سے معاملہ کرے گی‘ تمھیں مشورہ دے گی‘ تمھیں تسلی دے گی‘ اب دیکھو عین ہمارے حالات اور ہماری دلی کیفیت کے مطابق ہمیں کیسے تسلی دے رہی ہے‘ کیسے ہمارے زخموں پر مرہم رکھ رہی ہے!‘‘

بس پھر سارا دن اماں جان مطمئن رہیں--- وہ بار بار اس آیت کا ورد کرتی رہیں اور کہتی رہیں:’’ویسے تو سارے قرآن پر ہی اللہ تعالیٰ کا شکر واجب ہے کہ اس نے ایسی زندہ کتاب ہم کو عطا فرمائی‘ لیکن اس آیت کا ہم سب پر بہت ہی بڑا احسان ہے کہ اس نے ایسے نازک وقت میں ہمیں حوصلہ دیا‘ بشارت دی اور ہماری دست گیری کی‘‘--- دوسری رات بھی آئی اور گزر گئی۔ اماں جان مطمئن رہیں‘ باہر مردوں سے اور اندر عورتوں سے گھر بھرا رہا۔ عورتیں روتی ہوئی آتی تھیں‘ مگر اندر آکر جب اماں جان اور دادی اماں کا صبر دیکھتی تھیں تو خاموش ہوجاتی تھیں اور ایک دوسری سے کہتی تھیں’’اس کو کہتے ہیں صبر!‘‘

اباجان کی سزاے موت کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں‘ ہڑتالوں اور سزا کی منسوخی کے مطالبات کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ دوسرے مسلم ممالک ہی نہیں بلکہ بہت سے غیرمسلم ممالک کے مسلمانوں کی طرف سے بھی گورنر جنرل اور وزیراعظم کے نام تار بارش کی طرح برس رہے تھے۔ ردعمل انتہائی وسیع اور ہمہ گیر تھا۔

۱۳ مئی کو اماں جان نمازِ عصر سے فارغ ہی ہوئی تھیں کہ جماعت کے ایک صاحب اندر آئے اور انھوں نے کہا کہ بیگم صاحبہ کو دروازے کے پاس بلائو۔ ہم سب ڈر گئے کہ پتا نہیں کیسی خبر ہے؟ اماں جان بھی بڑی گھبرائی ہوئی آئیں کہ یکدم دروازے کے پیچھے سے آواز آئی: ’’بیگم صاحبہ مبارک ہو! مولانا کی سزاے موت ۱۴ سال قیدبامشقت میں تبدیل ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کے خلاف ایک بیان جاری کرنے کے جرم میں سات سال مزید قیدبامشقت کی سزا سنائی گئی ہے‘‘۔ وہ صاحب تو اپنی کہے جا رہے تھے‘ ادھر اماں جان کھڑے قد سے سجدے میں گرگئیں۔ ان کی دیکھا دیکھی ہم لوگ بھی سجدے میں گرگئے۔

اب تو گھر کا ماحول ہی بدل گیا۔ سب طرف سے مبارک‘ سلامت شروع ہوگئی۔ یہ کسی نے سوچا ہی نہیں کہ آگے ۲۱ سال کی قید ہے! اماں جان بار بار کہہ رہی تھیں: ’’اللہ کا وعدہ سچا ہے‘ اَلَآ اِنَّ نَصْرَاللّٰہِ قَرِیْبٌ‘‘۔ پھر کہتیں:’’دیکھو ‘آیتیں اور حدیثیں خود اُٹھ اُٹھ کر اپنا مطلب ہمیں سمجھا رہی ہیں کہ ہم ایسے ہی حالات کے لیے ہیں اور یہ ہمارا مطلب ہے ‘‘---

اس وقت اماں جان نے ہم کو اپنا ایک خواب سنایا جواباجان کی کورٹ مارشل سے سزاے موت سے صرف ایک دن پہلے انھوں نے دیکھا تھا۔کہنے لگیں: کیا دیکھتی ہوں کہ ایک ہوائی جہاز آکر اترا ہے اور اس میں تمھارے اباجان ہم سب کو لے کر سوار ہو گئے ہیں--- جہاز ہے کہ بڑی تیز رفتار کے ساتھ آسمان کی طرف عمودی پرواز کر رہا ہے۔ مجھے سخت چکر آرہے ہیں اور بڑی گھبراہٹ ہورہی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ میرا دل پھٹ جائے گا۔ پھر یک لخت ہوائی جہاز کہیں اتر جاتا ہے اور تمھارے ابا جان میرا ہاتھ پکڑ کر‘ سہارا دے کر جہاز سے اُتار رہے ہیں۔ ادھر میری جان پر بنی ہوئی ہے اور ادھر تمھارے اباجان کی آواز آتی ہے: ’’ذرا کھڑی ہو کر نیچے دیکھو تو سہی کہ تم کتنی بلندی پر آگئی ہو‘‘--- پھر میں نیچے دیکھتی ہوں تو واقعی لوگ سڑکوں پر بونوں کی طرح نظر آرہے ہیں اور بڑی بڑی اونچی عمارتیں کھلونوں کی طرح نظرآرہی ہیں--- اتنے میں میری آنکھ کھل گئی۔ خواب سناکر کہنے لگیںکہ اب اس خواب کی تعبیر سامنے آئی ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ باری تعالیٰ کو تو صرف اپنے بندوں کے درجات بلند کرنے تھے! اس بھاری آزمایش میں سے بخیروخوبی گزار کر ہمیں بلندیوں تک پہنچانا تھا!

اماں جان اور دادی اماں کی یہ پوری کوشش ہوتی تھی کہ بچے خوش و خرم رہیں اور ان کی نفسیات پر کوئی بُرا اثر نہ پڑے۔ ہماری اماں جان کہتی تھیں:’’انسان کا بچپن خوشیوں سے بھرپور ہونا چاہیے اور اسے کبھی عدمِ تحفظ کا احساس نہ ہونے پائے‘ کیونکہ کسی بھی قسم کی محرومی اگر بچپن میں آدمی کو ڈس لے تو یہ چیزیں انسان کی شخصیت کو گہنا دیتی ہیں--- یہ تلخ یادیں پھر ساری زندگی آسیب کی طرح اس کا پیچھا کرتی ہیں‘‘--- انھیں یہ فکر پریشان کرتی تھی کہ میرے بچے بچپن ہی میں بوڑھے ہوگئے ہیں اوران کا بچپنا چھن گیا ہے۔ اس کے ازالے کے لیے انھوں نے بڑے جتن کیے اور مختلف طریقوں سے ہمیں مصروف رکھا۔

آخرکار ۲۹ اپریل ۱۹۵۵ء کو قانونی سقم کی بنا پر اباجان ۲۵ ماہ کی قیدوبند کے بعد رِہا ہوکر گھر آگئے۔ وہ بڑا ہی خوشیوں والا مبارک دن تھا۔ ہمارا گھر پھولوں‘ ہاروں اور مٹھائیوں سے بھرگیا۔ ہر طرف سے مبارک‘ سلامت کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ سارا دن خوشیوں میں گزر گیا۔ جب رات ہوئی تو ہم سب سونے کے لیے لیٹ گئے۔ خوشی اور تھکاوٹ کے مارے عشاء بھی نہیں پڑھی کہ یکدم اماں جان کی آواز کانوں میں پڑی: ’’ذرا دیکھوکتنی بے شرمی کی بات ہے‘ بجاے شکرانے کے نفل پڑھنے کے انھوں نے فرض نماز بھی نہیں پڑھی۔ جب باپ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی تو یہ کیسے نفل پڑھ پڑھ کر دعائیں مانگ رہے تھے۔ بس نکل گیا مطلب! ، اب تھوڑی کبھی اللہ سے واسطہ پڑنا ہے!‘‘ یہ سنتے ہی ہم اٹھے اور وضو کر کے نماز پڑھنے لگے۔

اس پوری رات اماں جان شکرانے کے نفل پڑھتی رہیں‘ یعنی انھوں نے سزاے موت والی رات جو منت مانی تھی (کہ جب میاں خیریت کے ساتھ گھر واپس آئیں گے تو جس طرح آج حاجت کے ۱۰۰ نفل پڑھے ہیں اسی طرح شکرانے کے ۱۰۰ نفل پڑھوں گی) اس کو پورا کر رہی تھیں۔ لیکن اس مرتبہ انھوں نے چائے کا تھرموس اپنے پاس رکھا ہوا تھا اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد چائے پیتی تھیں‘ جب کہ سزاے موت کی خبر سننے کی اس ہولناک رات میں بالکل چائے نہیں پی تھی--- سخت گرمی کا موسم تھا۔ صبح کو اماں جان بہت ہنسیں اور کہنے لگیں: ’’انسان بھی کتنا ناشکرا ہے۔ جب میاں کی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے اور موت سامنے کھڑی نظر آرہی تھی تو یہ سو نفل بہت ہلکے تھے۔ نہ نیند آئی‘ نہ تھکاوٹ محسوس ہوئی‘ نہ طبیعت بوجھل ہوئی اور نہ دھیان ہی اِدھر اُدھر ہوا۔ جو الفاظ زبان سے نکل رہے تھے وہی دل سے بھی نکل رہے تھے۔ کمربعد میں جھکتی تھی‘ دل پہلے جھک جاتا تھا۔ لیکن کل رات کبھی نیند آتی تھی‘ کبھی تھکاوٹ محسوس ہوتی تھی اورکبھی سرمیں درد ہوتا تھا۔ وہ ’’جذب اندرون‘‘ سرے سے نصیب ہی نہ ہوا جو اس مرتبہ ملا تھا‘‘۔ وہ ساتھ میں توبہ اور استغفار بھی کر رہی تھیں:’’سچ ہے ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کرسکتے چاہے ساری عمر سجدے میں گرے رہیں‘‘۔

ایک روز ابا جان نے ہمیں جیل کے حالات بتائے کہ جب لاہور سے انھیں ملتان جیل لے جایا گیا تو دوپہر کے وقت وہاں پہنچے‘ جو کمرہ ابا جان کو دیا گیا تھا اس میں چھت کا پنکھا نہیں تھا اور نلکے کی جگہ ہینڈپمپ تھا۔ وہ اے کلاس کے قیدی کے کمرے میں پہنچے توسی کلاس کا ایک مشقتی جو انھیں خدمت کے لیے دیا گیا تھا‘ بیٹھا ان کا انتظار کر رہا تھا۔ تقریباً ۴۰سال کا خوب مضبوط جسم کا تنومند آدمی تھا۔ پہلے تو اس نے اباجان کو غور سے دیکھا اور پھر یکدم اٹھ کھڑا ہوا۔ جلدی جلدی سامان سنبھالا۔ پھرہینڈپمپ چلا کر غسل خانے میں پانی رکھا اور کہنے لگا:’’ میاں جی نہا لیجیے‘‘---  ابا جان غسل خانے سے جو نکلے توکیا دیکھتے ہیں کہ پورے کمرے میں ریت بچھی ہوئی ہے اور اس پر پانی چھڑک کر ان کے لیے چارپائی بچھاکر بستر کر دیا گیا ہے۔ پوچھا :’’پہلے تو اس کمرے میں ریت نہیں تھی۔ یہ کیوں بچھائی ہے؟‘‘ تو وہ کہنے لگا:’’گرمی بہت ہے‘ میں اس ریت پر پانی ڈالتا رہوں گا‘ تاکہ کمرہ ٹھنڈا رہے اور آپ دوپہر کو آرام کرسکیں‘‘--- جتنی دیر میں اباجان نے ظہرکی نماز پڑھی اتنی دیر میں اس نے کھانا تیارکرلیا اور بڑے سلیقے سے لاکر ابا جان کے سامنے رکھا۔ ساتھ میں بڑی معذرت کرتا رہا کہ مجھے آپ کے ذوق کے متعلق کچھ پتا نہیں ہے۔ بس جلدی میں جو ہوسکا کرلیا ہے۔

پھر اس نے نوٹ کر لیا کہ اباجان کس وقت کون سی دوائیاں کھاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ ناشتے کی‘ دوپہر کے وقت کھانے کی اور رات کو کھانے کی صحیح صحیح دوائیاں ان کے سامنے رکھتا تھا۔ کبھی یہ کہنے کی ضرورت نہیں پیش آئی کہ تم نے صبح کے وقت کی دوائی نہیں رکھی ہے۔ ابا جان نے بتایا:’’اس نے جیل میں میری ایسی خدمت کی اور اس محبت سے خدمت کی کہ میں حیران رہ جاتا تھا‘‘۔

ایک دن اس قیدی نے یہ بتایا :’’جب اس کوارٹر میں میری ڈیوٹی لگائی گئی تھی تو مجھے بتایا گیا تھا کہ ایک نہایت خطرناک قیدی آ رہا ہے جس نے حکومت کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں! بس اس کو راہ راست پر لانا ہے۔ اس کو اتنا تنگ کرو کہ خاموشی سے معافی نامے پر دستخط کر دے اور حکومت جو شرائط منوانا چاہے مان لے‘ بس تمھارا کام اسے ہر طرح سے تنگ کرنا ہے۔ کھانا اتنا بدمزہ پکانا کہ زبان پر نہ رکھا جائے۔ بس جی‘ میں کوارٹر میں بیٹھا آپ کا انتظار کر رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ ذرا دیکھوں کہ آج کیسے شخص سے پالا پڑتا ہے ؟آخر میں بھی جرائم پیشہ آدمی ہوں‘ کسی سے کم تو نہیں ہوں! پھر جب آپ اندر آئے اور میں نے آپ کا چہرہ دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا اور سوچتا رہا کہ بھلا آپ جیسے شخص سے بھی کسی کو کوئی خطرہ ہو سکتا ہے؟ میاں جی‘ آپ کو دیکھتے ہی پہلی نظر میں آپ کی محبت نے میرے دل میں گھر کرلیا‘‘---

پھر اباجان نے بتایا:’’جب میں تفہیم القرآن لکھنے میں مصروف ہوتا تھا‘ یا جب میں نماز پڑھ رہا ہوتا تھا تو مجھے محسوس ہوتا کہ وہ بس بیٹھا ٹکٹکی لگائے مجھے دیکھتا رہتا تھا۔ دن یونہی گزرتے رہے کہ بقرعید آگئی۔ اتفاق سے جو راشن جیل سے دیا جاتا تھا وہ ختم ہوچکا تھا اور مزید راشن ابھی پہنچا نہیں تھا کہ عید کی چھٹیاں شروع ہو گئیں‘ یہاں تک کہ عید کی صبح کو راشن بالکل ختم ہوچکا تھا۔ ملازم سخت پریشان تھا کہ راشن پہنچا نہیں‘ اب آپ کو ناشتا کیسے دوں؟ میں نے اس سے کہا کہ رات کو جو چنے کی دال اور روٹی بچی تھی وہی گرم کرکے لے آئو۔ کہنے لگا: وہ تو میں آپ کو کبھی نہیں دوں گا! بھلا عید کے دن کوئی رات کی باسی دال روٹی کھاتا ہے؟ میںنے اسے سمجھایا کہ تم میری فکر نہ کرو‘ میں بڑی خوشی سے دال روٹی کھا لوں گا‘‘(چونکہ ابا جان صبح آٹھ بجے ناشتا کرنے کے عادی تھے اور اپنے معمولات میں وقت کے سخت پابند تھے‘ اس لیے انھوں نے آرام سے دال روٹی کا ناشتا کرلیا۔ یہاں پردادی اماں کی تربیت رنگ لا رہی تھی جو انھیں کبھی سونے کا نوالہ کھلاتی تھیں اور کبھی چٹنی روٹی)۔ جس وقت میں ناشتا کر رہا تھا تو کسی کے سسکیاں بھربھر کر رونے کی آواز آئی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہی ملازم بیٹھا رو رہا تھا۔ پوچھا کہ کیا بال بچے یاد آ رہے ہیں؟کہنے لگا کہ میں تو آپ کو دال روٹی کھاتے دیکھ کر رو رہا ہوں۔ میں سوچ رہا ہوں کہ عید کے دن رات کی باسی دال روٹی تو ہم غریبوں نے بھی کبھی نہیں کھائی۔ آپ تو بڑے آدمی ہیں‘آپ نے بھلا کہاں کھائی ہوگی؟--- میں نے اسے بڑے پیار سے سمجھایا کہ دیکھو بھائی‘ یہ راستہ میںنے بہت سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے اور میں بڑی خوشی سے اس راہ پر چل رہا ہوں۔ اگر کبھی بالکل بھوکا بھی رہنا پڑا تو میں آرام سے رہ لوں گا۔ تم میری وجہ سے رنجیدہ نہ ہوا کرو‘‘۔

’’میں تو ناشتا کرکے تفہیم القرآن لکھنے بیٹھ گیا تھا‘ لیکن ملازم بے چارے نے احتجاجاً ناشتا نہ کیا (اگرچہ اس کے لیے دال روٹی بچی ہوئی رکھی تھی)۔ اتنے میں کوارٹر کا دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا گیا۔ ملازم نے دروازہ کھولا تو ایک سنتری کئی ناشتے دان‘ بڑے بڑے پیکٹ اور گٹھڑیاں اٹھائے کھڑا تھا کہ مولانا صاحب‘ آپ کے چاہنے والے تو فجرکے وقت ہی یہ چیزیں لے آئے تھے اور جیل کے دروازے پر کھڑے تھے‘ لیکن سپرنٹنڈنٹ صاحب کا دفتر عید کی نماز کے بعد کھلا۔ اس کے بعد ان چیزوں کی تلاشی اور جانچ پڑتال ہوئی اس لیے دیر لگ گئی۔ اب جو ملازم نے وہ پیکٹ‘ ناشتے دان اور گٹھڑیاں کھولیں تو ان میں انواع و اقسام کی بے شمار نعمتیں تھیں۔ میںنے اپنے جیل کے ساتھی سے کہا ‘دیکھو یہ سب تمھارے لیے آیا ہے ‘ کیونکہ تم ہی اداسی میں بھوکے بیٹھے تھے‘ اب خوب جی بھر کر کھائو اور باقی چیزیں دوسرے قیدیوں میں بانٹ آئو۔ مگر ملازم کفِ افسوس مل رہا تھا کہ کاش! وہ دال روٹی میں نے آپ کو دینے کے بجاے کوئوں کو کھلادی ہوتی۔ میرے بہت کہنے پر اس نے ناشتا کیا اور باقی ساری چیزیں دوسرے قیدیوں میں بانٹ آیا اور ساتھ ہی ساتھ ان سے کہتا کہ میرے میاں جی کے لیے یہ سب چیزیں آئی تھیں۔ انھوں نے تمھیں بھجوائی ہیں!

عید کے روز دوپہر ہوئی تو اسی طرح دروازہ کھٹکھٹایا گیا اور پھر اسی طرح ناشتے دان اور ہانڈیاں کپڑے میں بندھی ہوئی آگئیں۔ ایسے ایسے کھانے آئے کہ ملازم تو حیران رہ گیا۔ اس نے مجھے کھانا کھلایا اور باقی قیدیوں میں بانٹ آیا۔ رات کو پھر اتنا ہی کھانا آگیا۔ الغرض عید کے تین دن ہمارے رفقا نے ملتان جیل میں اتنا زیادہ اور ایسی ایسی انواع و اقسام کا کھانا پہنچایا کہ سارے جیل والے عش عش کر اٹھے‘‘۔

ادھر ابا جان ہمیں یہ سب کچھ بتا رہے تھے‘ ادھرہماری اماں جان نے ہمیں کہا :’’دیکھو‘   سورئہ مریم کی آخری آیات میں بھی یہی بات کہی گئی ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَیَجْعَلُ لَھُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّاo (۱۹:۹۶)،’’کہ جو اہل ایمان نیک اعمال کرتے ہیں رحمن ان کے لیے لوگوں کے دلوں میں محبت ڈال دیتا ہے‘‘۔ وہ اسی طرح زندگی کے واقعات کو آیات اور احادیث کے ساتھ منطبق کر کے ہمیں ان کا مطلب سمجھایا کرتی تھیں۔ آج اخبار پڑھتے اور ٹیلی ویژن پر خبریں دیکھتے ہوئے قرآن کی آیات اور احادیث یاد آتی ہیں۔ ساتھ ہی اماں جان کے یہ الفاظ کانوں میں گونجتے ہیں:’’تم عمل تو کرکے دیکھو‘ پھر آیتیں اور حدیثیں خود اُٹھ کر تم کو اپنا مطلب سمجھائیں گی‘‘۔

اماں جان نے ایک مرتبہ دادی اماں سے التجا کی کہ آپ کسی کو بددعا نہ دیں۔ آپ کی دعا اور بددعا دونوں حرف بہ حرف لگتی ہیں۔ یہ وہ موقع تھا جب ۱۹۵۳ء میں اباجان جیل میں تھے اور دادی اماں نے کہا تھا کہ:’’جس نے میرے بیٹے کو جیل میں سڑایا ہے‘ یااللہ! تو اسے پلنگ پر ڈال کر ایسا سڑا کہ اس کا آدھا دھڑ گل جائے‘‘--- اس کے چند ماہ بعد اخبارات میں خبر چھپی کہ پاکستان کے گورنر جنرل ملک غلام محمد کو فالج ہو گیا۔ یہ خبر پڑھ کر ہم حیران رہ گئے کہ دادی اماں کی بددعا غلام محمد کو کیسی لگی۔

ان دنوں جب کبھی اباجان کو تفہیم القرآن لکھنے کا موقع نہ ملتا اور وہ دوسری مصروفیات میں مشغول ہو جاتے تو کہا کرتے تھے :’’دیکھو تم لوگ مجھے تفہیم القرآن لکھنے نہیں دے رہے ہو‘ اب میں جیل جانے ہی والا ہوں۔ جب بھی میں مصروفیت کی وجہ سے تفہیم نہیں لکھ پاتا تو اللہ تعالیٰ مجھے لے جا کر جیل میں بٹھا دیتے ہیں اور میں وہاں اطمینان سے لکھتا    رہتا ہوں‘‘۔ ساتھ میں یہ بھی کہتے تھے کہ’’ تفہیم القرآن مکمل کرلوں تو اسی اسلوب میں  تفہیم الحدیث بھی لکھنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں‘‘۔

اسی لیے اماں جان ہم بچوں پر بہت زور دیتی تھیں:’’اپنے ابا جان کو تنگ نہ کیا کرو‘‘۔ جب کبھی بچے کسی چیز کے لیے تقاضا کرتے تو اماں جان ہمیں سمجھاتی تھیں:’’اگر میں ہر وقت تمھارے والد کی جان کھاتی رہتی کہ اب مجھے یہ اور یہ چاہیے اور میرے بچوں کو ایسی ایسی چیزیں درکار ہیں تو یہ ساری کتابیں جو انھوں نے لکھی ہیں‘ وہ نہ لکھ سکتے۔ تمھارے باپ ایک ریسرچ اسکالر ہیں‘ ایک مصنف اور محقق ہیں۔ ان کو خاموشی‘ سکون اور اطمینان کی ضرورت ہے۔ تم ان سے کوئی مطالبہ نہ کیا کرو اور نہ ان کے سامنے اپنے تعلیمی مسائل بیان کیا کرو۔ ان کو اپنی باتوں میں بھی نہ الجھایا کرو‘‘--- غرض اماں جان نے اباجان کو ایسا سکون اور اطمینان مہیا کیا کہ وہ جو کچھ لکھتے تھے‘ ذہنی طور پر پوری طرح یکسو ہو کر اور جم کر لکھتے تھے۔

ابا جان نے سورۂ یوسف کی جو تفسیر لکھی ہے اسے پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس وقت وہیں کہیں موجود تھے اور اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہے ہیں۔ سورئہ کہف یا   سورئہ فیل کی تفسیر پڑھتے ہوئے بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ دراصل وہ ذہنی طور پر اسی زمان و مکان (time and space)میں منتقل ہوجاتے تھے۔ برسوں بعد جدہ میں‘ شعبۂ عربی کی سربراہ جو شامی النسل تھیں‘ مجھے کہنے لگیں کہ ایک فقرے میں اپنے والد کی صفت بیان کرو تو میرے منہ سے بے ساختہ یہ جملہ نکلا کہ اِنَّہٗ کَانَ یَعِیشُ فِی عَالَمِ الثَّانِیْ (کہ وہ ایک اور ہی دنیا میں رہتے تھے)۔ وہ اس جواب سے بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں:’’امام ابن تیمیہؒ کی بھی یہی صفت تھی‘‘۔

کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ اگر اباجان کی شادی کسی جاہل اور خواہ مخواہ مطالبے کرنے والی جھگڑالو قسم کی عورت سے ہوئی ہوتی تو کیا ہوتا۔ اماں جان کو تو شایداللہ تعالیٰ نے بنایا ہی اباجان کے لیے تھا--- اماں جان کا اعلیٰ ادبی ذوق‘ بلندپایہ علمی رجحان‘ اپنی ذات کی نفی‘بے نفسی‘ خودداری اور اباجان کی دلداری کی تو کوئی حد ہی نہیں تھی۔ عربی زبان کا ایک محاورہ ہے   ’البنات عود‘کہ خواتین خوشبو ہوتی ہیں‘ جو خود تو پردے میں رہتی ہیں‘ مگر ان کا سلیقہ اور تھوڑے سے پیسوں میں بنائی ہوئی بہت ساری عزت اور بچوں کی تعلیم و تربیت سب کو نظرآتی ہے۔

۶ جنوری ۱۹۶۴ء کو اباجان پھر جیل چلے گئے اور بڑے بڑے کتابوں سے بھرے صندوق جیل جانے شروع ہو گئے۔ جیل والے بھی حیران ہوتے تھے کہ اے کلاس کے دوسرے قیدیوں کے لیے حلوے اور انواع و اقسام کے کھانے آتے ہیں‘ جب کہ مولانا صاحب کے لیے صرف کتابیں آتی ہیں۔ اس وقت اباجان لاہور جیل میں تھے جہاں اب شادمان کالونی ہے۔ یہیں کہیں وہ جگہ تھی جہاں تفہیم القرآن لکھی گئی۔ ہر ہفتے ہم ملاقات کے لیے جاتے تھے۔ اس پورے عرصے اماں جان کافی بیمار رہیں۔  مَن مَرِیضَمْ تُوَ طَبِیبَمْکہہ کر شفایاب ہونے والی دادی اماں بھی نہیں رہی تھیں (۱۹۵۸ء میں دادی اماں کا انتقال ہو چکا تھا‘ ان کی موجودگی    اماں جان کے لیے بہت بڑا اخلاقی سہارا ہوتی تھی)۔

ہم لوگ اس وقت اسکول کی تعلیم مکمل کر کے کالج میں پہنچ چکے تھے۔ صدر فیلڈ مارشل ایوب خان کا زمانہ تھا۔ اباجان کے خلاف پروپیگنڈا مہم عروج پر تھی۔ اخبارات میں سرخیاں لگتیں کہ مولانا مودودی غدار ہیں‘ وہ پاکستان کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ لاہور کالج براے خواتین میں قدم رکھتے ہی کسی نہ کسی طرف سے یہ آوازے ضرور کسے جاتے: ’مردودی مردودی ۔ایک مودودی سو یہودی۔ ٹھاہ مودودی ٹھاہ‘ وغیرہ۔ بلاشبہہ ہمارے لیے یہ باتیں سخت تکلیف دہ تھیں۔ تاہم‘ جب بھی ہم اس بات کا تذکرہ کرتے‘ ان سب باتوں کے جواب میں اباجان اکثر یہ شعر پڑھتے تھے    ؎

در کوئے نیک نامی مارا گزر نہ داند

گر تو نمی پسندی تغییر کن قضا را

]نیک نامی کے کوچے میں ہمیں (وہ) گزرنے نہیں دیتے یعنی سچے عاشق ہمیشہ ہی بدنام ہوتے ہیں[

لیکن ہماری اماں جان نے ہمیں سمجھا دیا تھا کہ: ’’اگر پڑھنا ہے تو انھی حالات میں اور انھی لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھو‘ ورنہ جاہل رہ جائو گے--- اپنے آپ کو صبر اور حوصلے کا پہاڑ بنالو کہ بڑے بڑے طوفان آکر اس سے ٹکراتے ہیں‘ لیکن وہ اپنی جگہ نہیں چھوڑتا وہیں کھڑا رہتا ہے--- اپنے اندر سمندر جیسا ظرف پیدا کر لو کہ بڑے بڑے دریا آکر اس میں گرتے ہیں ‘وہ انھیں اپنے اندر سمو لیتا ہے لیکن کبھی کنارے توڑ کر باہر نہیں نکلتا‘‘۔

ابا جان میری بیٹی رابعہ سے بہت پیار کرتے تھے۔ ایک بار ہم اسے لے کر انارکلی گئے تو سامنے سے پیپلز پارٹی کا جلوس آگیا۔ جلوس میں اباجان کو گالیاں سن کر میں گھر واپس آگئی۔ گھر کھانے پر‘ ساتھ والی کرسی پر بیٹھ کر بیٹی رابعہ کہنے لگی: ’’نانا ابا‘ مولانا مودودی آپ ہی ہیں؟‘‘کہنے لگے: ’’ہاں بیٹی میں ہی ہوں‘‘۔ اس پر رابعہ بولی: ’’انارکلی میں تو آپ کو گالیاں مل رہی تھیں‘‘۔   ابا جان مسکرا کر اس کی بات دہرانے لگے۔ ہم نے کہا: ’’خوش تو ایسے ہو رہے ہیں جیسے کوئی دولت مل گئی ہے‘‘۔ ابا نے کہا: ’’بیٹی‘ اللہ کے راستے میں گالیاں کھانا انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے‘‘۔

اباجان کے کردار کی جو خوبی مجھے بہت زیادہ یاد آتی ہے وہ یہ ہے کہ بلامبالغہ وہ اپنے بچوں کی اتنی عزت کیا کرتے تھے جتنی دوسرے لوگ ماں باپ کی کرتے ہیں۔ عام حالات میں وہ ہمیں بیٹی کہا کرتے تھے۔ ذرا رنجیدہ ہوتے تو صاحبزادی کہا کرتے‘ اور اگر بہت ہی زیادہ ناراض ہوتے تو پھر ’’صاحبزادی صاحبہ ‘‘کہتے۔ بس‘ پکارنے کا یہ انداز ہی ایک تازیانہ ہوتا تھا ‘اور ہماری کوشش ہوتی کہ ’’صاحبزادی صاحبہ ‘‘کہنے کی نوبت ہی نہ آئے۔

ابا جان ایک ہمہ گیر شخصیت تھے۔ انھوں نے اتنا کام کیا‘ اس قدر سنجیدہ کام کیا جو دوسرے لوگوں کے نزدیک خشک اور بوجھل ہوتا‘ مگر وہ اپنی زندگی میں نہایت باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے۔ میرے آئیڈیل میرے ابا تھے۔

بار بار جیل جانے کی وجہ سے اباجان کی صحت بہت زیادہ متاثر ہو گئی‘ لہٰذا اماں جان نے اپنے درس کافی کم کر دیے۔ وہ ماڈل ٹائون لیڈیز کلب میں پچھلے ۲۵ سال سے درس دے رہی تھیں۔ وہاں انھوں نے شاگردوں کی ایک کھیپ تیار کی تھی۔ آخرکار درس کا معاملہ اپنی شاگردوں کے حوالے کردیا اور سارا وقت اباجان کی خدمت میں گزارنے لگیں۔ ایک بار کسی نے ان سے پوچھا تھا کہ آپ نے کتنے مضامین میں ایم اے کیا ہے؟ تو کہنے لگیں: ’’بیٹی ‘ایم اے‘ بی اے تو آپ لوگ ہیں۔ میں نے تو دہلی کے کوئین میری اسکول سے مڈل تک پڑھا ہے‘‘۔ انھوں پوچھا کہ پھر آپ کے پاس اتنا علم کیسے ہے؟ اس سوال کااماں جان نے ایسا تاریخی جواب دیا جو میں کبھی بھلائے نہیں بھول سکتی۔ کہا:’’میں نے زندگی ایک ایسے عالمِ دین کے ساتھ گزاری ہے جن کی ایک گھنٹے کی بات چیت سن کر آدمی کو وہ علم حاصل ہو جاتا ہے جو لوگوں کو رات رات بھر کتابیں پڑھ کر بھی نہیں ملتا!‘‘

اباجان کی بیماری بڑھتی ہی گئی اور پھر امریکہ سے ڈاکٹراحمد فاروق آئے اور اباجان کو اماں جان سمیت امریکہ لے گئے‘ تاکہ وہاں یکسوئی سے ان کا علاج کروایا جائے۔ وہیں شدید بیمار رہ کر اباجان کا ۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء کو بفیلو کے ہسپتال میں انتقال ہوگیا۔ یہ دہشت ناک خبر لے کر جب احمد فاروق ہسپتال سے آئے تو وہ غم کے مارے نڈھال تھے۔ اماں جان نے ساری رات کے جاگے ہوئے بھوکے پیاسے غم زدہ بیٹے کو چائے پلائی‘ بسکٹ کھلائے اور دلاسا دیا:’’شکر کرو تم نے اپنے باپ کو دیکھا‘ ان کے سائے میں اتنا وقت گزارا‘ ورنہ وہ تو۱۹۵۳ء ہی میں پھانسی چڑھنے کو تیار ہوگئے تھے۔ اگر اس وقت انھیں پھانسی دے دی گئی ہوتی تو تمھیں یہ یاد بھی نہ ہوتا کہ تمھارے باپ کی شکل کیسی تھی!‘‘ اللہ اکبر‘ ایسا حوصلہ اور ایسا توکل۔

اماں جان نے پھر سب کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا :’’اناللّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھو اور باتیں نہ کرو‘‘۔ اس پر سب اکٹھے ہونے والے مرد و خواتین ان کے صبر و حوصلے پر حیران رہ گئے۔ اسی حیرانی کا اظہار میرے ماموں ڈاکٹر جلال شمسی نے بھی کیا۔ وہ ٹورنٹو سے گاڑی چلا کرجب اماں جان کے پاس آئے تو شدتِ غم سے نڈھال تھے۔ وہ اماں جان کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ کہنے لگے: ’’آپا جان‘ میں ٹورنٹو سے بفیلو تک روتا ہوا آیا ہوں۔ سوچتا تھا کہ آپ کا سامنا کیسے کروں گا؟ آپ سے کیا کہوں گا؟ لیکن آپ کو دیکھ کر تو میرے آنسو خشک ہوگئے۔ ایسی ہی حیرانی مجھے اس وقت ہوتی تھی جب بھائی صاحب جیل جاتے تھے اور آپ چھوٹے چھوٹے بچوں کو لیے اطمینان سے بیٹھی رہتی تھیں۔ مجھے بتایئے کہ آپ کے پاس کون سی روحانی طاقت ہے؟ آپ یہ سب کیسے کرلیتی ہیں؟‘‘

اماں جان نے کہا:’’اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان‘ توکل اور صبر وہ صفات ہیں جن کی مدد سے آدمی مشکل ترین حالات سے بخیروخوبی گزرسکتا ہے‘‘۔

ڈاکٹر احمد فاروق نے جہاز چارٹر کرکے میت کو نیویارک پہنچایا۔ اسی اثنا میں پورے امریکہ میں مختلف ٹیلی ویژن چینلز سے اباجان کے انتقال کی خبر نشر کی جا چکی تھی۔ اس لیے نیویارک ایئرپورٹ پر بڑی تعداد میں مسلمان جنازے میں شرکت کے لیے پہنچ چکے تھے۔ احمدفاروق نے اماں جان کو پسنجرلائونج میں لے جاکر بٹھا دیا۔ ابھی وہ وہاں بیٹھی ہی تھیں کہ بہت ساری پاکستانی ’ہندستانی‘ ترک اور عرب ممالک کے علاوہ دوسرے مسلم ممالک کی خواتین   وہاں آگئیں۔ ان کے مرد باہر جنازہ پڑھنے کے لیے کھڑے تھے۔ کچھ پاکستانی خواتین نے جو اماں جان کے پاس ہی بیٹھی ہوئی تھیں آپس میں باتیں کرنا شروع کر دیں کہ بفیلو سے body ]یعنی میت[آنی ہے پتا نہیں باڈی پہنچی یا نہیں؟ اماں جان نے کہا کہ باڈی پہنچ گئی ہے! ان عورتوں نے چونک کر اماں جان کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ آپ کو کیسے پتا چلا کہ باڈی پہنچ گئی ہے۔ انھوں نے بڑے اطمینان سے جواب دیا کہ میں باڈی کے ساتھ آئی ہوں۔ عورتوں نے پوچھا کہ آپ کا ان سے کوئی تعلق ہے؟ جواب ملا ’’وہ میرے شوہر تھے‘‘۔ وہ عورتیں چیخ پڑیں: ’’ہیں بیگم صاحبہ آپ اتنے اطمینان سے اتنے سکون سے اتنا بڑا صدمہ دل میں لیے بیٹھی ہوئی ہیں۔ ہم اور ہمارے مرد سارا راستہ روتے آئے ہیں۔ آپ کو دیکھ کر تو اللہ یاد آگیا! اور پھر آہستہ آہستہ ان ساری ترک‘ انڈونیشی‘ عرب اور افریقی خواتین کو بھی پتا چل گیا کہ یہ خاتون مولانا مودودی کی بیگم ہیں۔ ان سب نے اماں جان سے تعزیت کی اور سب نے کہا کہ ’’صبر تو اسی کو کہتے ہیں‘‘۔یہ جنازہ جگہ کی تنگی کی وجہ سے چھ مرتبہ ہوا۔

جب میت لے کر لاہور پہنچیں تو سب بچوں کو تسلی دی اور صبر کی تلقین کی۔ وہ بڑے حوصلے کے ساتھ اس صدمے کو جھیل گئیں‘ لیکن پھر افسردگی کا شکار ہو گئیں۔ میں ان دنوں جدہ سے گرمیوں کی چھٹیوں میں لاہور آئی ہوئی تھی۔ میں وہاں لڑکیوں کے سعودی کالج کلیۃ البنات میں انگریزی ادب پڑھاتی تھی۔ ان کی کیفیت کو دیکھتے ہوئے‘ میں انھیں اصرار کر کے اپنے ساتھ جدہ لے گئی۔ پہلے تو وہ میرے ساتھ جانے پر راضی نہ ہوئیں اور کہا :’’بیٹی کے گھر بھلا کیسے جا سکتی ہوں‘‘۔ میں نے بہت سمجھایا: ’’آپ نے بیٹوں کی طرح پالا پوسا‘ بیٹوں کی طرح پڑھایا‘ اب میں بیٹوں کی طرح کماتی ہوں‘ اس لیے آپ مجھے بیٹی نہیں بیٹا سمجھیے! آپ کی افسردگی کا علاج دوائیوں میں نہیں مکے اور مدینے کی ہوائوں میں ہے‘‘۔ یہ سن کر وہ چلنے پر راضی ہو گئیں۔ وہاں پہنچ کر میں نے ان کا اقامہ بنوا لیا‘ تاکہ آنے جانے میں کوئی دشواری نہ رہے۔ پہلا ہی عمرہ کرکے آئیں تو تمام دوائیاں اٹھا کر الماری میں رکھ دیں کہ اب ان کی ضرورت نہیں۔

رمضان میں کئی عمرے کیے اور آخری عشرے میں ہم ان کو لے کر مدینہ چلے گئے۔ پاکستان ہائوس میں قیام تھا اور وہ ان دنوں مسجدنبوی ؐکے باب النسا کے بالمقابل تھا۔ اماں جان کا اصرار ہوتا تھا کہ سب سے اگلی صف میں جگہ لینی ہے۔ اس لیے بھاگم بھاگ مسجد میں پہنچ کر تراویح کے لیے اگلی صف میں جگہ لیتے تھے۔ پھر ایسا ہوا ‘انتیسویں رات تھی اور یہ ختم قرآن کی رات تھی۔ پورے مدینے میں اور خصوصاً مسجد نبویؐ میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی‘ اسی لیے ہم بھی بہت پہلے سے عشاء کی نماز کے لیے مسجد میں پہلی صف میں جا بیٹھے تھے۔ یکایک اقامت سے ذرا پہلے مسجد کی دو منتظم سعودی عورتیں اور ایک شرطہ آموجود ہوئے اور بڑے کرخت لہجے میں زور زور سے حکم صادر کرنا شروع کیا:  ارجعوا وراء اِرجعوا وراء (پیچھے ہٹو‘ پیچھے ہٹو)۔ ہم جب پیچھے دیکھتے تھے تو پوری جگہ اس طرح بھری ہوئی تھی کہ تھال پھینکو تو سروں کے اوپر ہی اوپر سے جائے! آخر میں نے بھی اسی کرخت لہجے میں اور اسی طرح ڈانٹ کر پوچھا: یش نرجع ورائ؟ (ہم پیچھے کیوں ہٹیں؟) تو انھوں نے مجھے سعودی سمجھتے ہوئے جواب دیا: فیوف خاص جائو امن بحرین ، (بحرین سے خاص مہمان آئے ہیں)۔ میں نے بھی اسی کرخت لہجے میں اتنے ہی زور سے ڈانٹ کر کہا: احنا کلنا فیوف خاص وھذہ مسجد الرسول صلی اللہ علیہ وسلم واحنا فیوف الرسول صلی اللہ علیہ وسلم! ھذہٖ مسجدوموقصر ابوھم (ہم سب خاص مہمان ہیں اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد ہے۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں۔ یہ مسجد نبوی ؐہے ان کا محل نہیں ہے!)

میرے یہ کہتے ہی ساری سعودی خواتین جو نماز پڑھنے کے لیے بیٹھی تھیں یک زبان ہوکر بول اٹھیں: صحح صحح کلام مضبوط! واللّٰہِ  کلام مضبوط! اتنی دیر میں اقامت کی آواز بلند ہو گئی اور ہم اللہ اکبر کہتے ہوئے اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ شرطہ اور شرطیاں وہاں سے چلے گئے۔ لیکن جب ہم نے فرضوں کا سلام پھیرا اور سعودی خواتین نے میرا پاکستانی لباس دیکھا تو حیران ہوکر پوچھا: واللّٰہِ  انت پاکستانیہ؟ من این تعلمت عربی؟ تو میں نے اماں جان کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ من امّی وا بی۔ ان خواتین نے یہ سن کر اماں جان کے ہاتھ چوم لیے۔ عید کی نماز پڑھ کر ہم جدہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ واپس آکر میں نے اماں جان سے پوچھا کہ آپ اپنی مدینے کی عبادت سے خوش تو ہیں نا؟ تو بس ٹھنڈا سانس بھر کر اتنا ہی کہا  ع

روئے گل سیر نہ دیدیم و بہار آخر شُد!

ان کی خواہش تھی کہ مکے میں بھی اسی طرح ایک دو ہفتہ رہ کر عبادت کی جائے۔ چنانچہ میں نے ڈاکٹر حافظ عبدالحق صاحب کی بیگم فرحانہ بہن سے بات کی۔ مکے میں ان کی رشتے داریاں اور تعلقات ہیں۔ انھوں نے انتظام کر دیا اور خود ان کے ساتھ دو ہفتے رہیں۔ اماں جان کی عادت تھی کہ وہ کئی بار بات کا جواب شعر میں دیتی تھیں۔ جب مکّے سے واپس آئیں تو میں نے پوچھا کہ آپ کی وہاں عبادت کیسی رہی؟ جواب ملا:

نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم

بہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم

خدا خود میر محفل بود شب جائے کہ من بودم

محمد شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم

ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ اس جواب پر یقینا امیرخسرو کی روح بھی وجد میں آگئی ہوگی کہ اماں جان کی طرف سے ایک شعر حضرت داغ دہلوی کا عنایت ہوا     ؎

رخ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں

اُدھر جاتا ہے دیکھیں یا اِدھر پروانہ آتا ہے

پھر مسکرا کر کہنے لگیں:’’حضرت داغ کے اس شعر کا اصل مطلب تو حرم شریف میں جاکر کھلا‘ جب خانۂ کعبہ کی طرف دیکھتی تھی تو لوگ پروانہ وار طواف کر رہے ہوتے تھے اور انھیں دنیا و مافیہا کا کوئی ہوش نہیں ہوتا تھا۔ جب صفا و مروہ کی طرف دیکھتی تھی تو سعی کرنے والے دیوانہ وار سعی کررہے ہوتے تھے اور پھر جب حرم شریف سے واپس اپنے فلیٹ کی طرف آرہی ہوتی تھی تو دکانوں میں خریداروں کا رش ہوتا تھا۔ وہاں بھی پروانے دیوانہ وار سونا‘کپڑا‘ ٹرانسسٹر‘ گھڑیاں خریدنے کے لیے چکر لگا رہے ہوتے تھے۔ طالبانِ آخرت تو اپنی طلب میں دیوانے ہوکر پروانہ وار طواف و سعی کر رہے ہوتے تھے اور طالبانِ دنیا کو ان کی طلب پاگل کیے دیتی تھی!‘‘

جب پاکستان میں ان کے چھوٹے بچوں اسما‘ خالد اور عائشہ نے بہت اصرار کیا تو وہ واپس لاہور آگئیں‘ لیکن اُن دنوں کو کبھی نہ بھولیں جو انھوں نے مکے اور مدینے میں گزارے تھے۔ آخری عمر میں ہر وقت اباجان کو یاد کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ سخت گرمی تھی اور حبس تھا کہ اچانک بجلی چلی گئی اور دیر تک نہ آئی۔ اماں جان چونکہ دمے کی مریضہ تھیں ‘اس لیے گرمی اور حبس سے ان کا برا حال ہوگیا۔ بجلی تھی کہ کسی طرح آتی نہ تھی‘ اسی حالت میں ذرا سی آنکھ لگ گئی۔ جب بیدار ہوئیں تو کہا: ’’ابھی تمھارے اباجان کی آواز آئی ہے کہ تم وہاں گرمی میں کیوں بیٹھی ہو۔ اوپر آجائو نا۔ دیکھو یہاں کیسی اچھی ہوا چل رہی ہے!‘‘ پھر بڑی حسرت سے کہنے لگیں: ’’بھلا میںخود کیسے جا سکتی ہوں؟ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلاوا آنا ہے‘‘۔

جب طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو چھوٹی بہن اسما انھیں اپنے گھر لے گئی‘ جو اباجان کے گھر کے بالکل ساتھ ہے۔ جب ایک مرتبہ میں گئی تو ملازمہ نے بتایا کہ آج بیگم صاحبہ نہ بات کرتی ہیں اور نہ کچھ کھا رہی ہیں۔ میں نے ان کے پاس جاکر بس اتنا کہا   ع

دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

اماں جان نے فوراً کہا:

رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

اس کو فلک نے لُوٹ کے ویران کر دیا

ہم رہنے والے ہیں اسی اُجڑے دیار کے

میں نے کہا: اماں جان کون کہتا ہے کہ آپ بیمار ہیں۔ آپ تو بالکل تندرست ہیں۔ لیجیے کھانا کھا لیجیے۔ وہ پھر دلی کی باتیں کرتی گئیں اور بڑی خوشی سے کھانا کھالیا۔ اسی طرح ایک مرتبہ بہت بیمار تھیں اور کسی کو پہچان بھی نہیں رہی تھیں۔ بس یہی کہہ رہی تھی کہ کوچہ پنڈت جانا ہے۔ جب میں گئی تو اسما نے پوچھا کہ کوچہ پنڈت کیا ہے؟ میں نے کہا یہ دہلی کا مشہور محلہ ہے اور کوچہ پنڈت میں ان کا سسرال تھا‘ یعنی اباجان کا گھر تھا۔ اس کے بعد میں نے دہلی کے کئی محلوں کے نام لیے۔ بہت خوش ہوئیں لیکن کھانا کھانے کے لیے بالکل تیار نہیں تھیں۔ میں نے پھر بس اتنا کہا   ع

سوداگری نہیں‘ یہ عبادت خدا کی ہے

اماں جان تھوڑی دیر تک کچھ سوچتی اور ذہن پر زور ڈالتی رہیں اور پھر کہا:

او بے خبر‘ جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے

واعظ کمال ترک میں ملتی ہے یاں مراد

دنیا بھی چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے

اور پھر میرے ہاتھ سے سوپ پی لیا۔

آخری دنوں میں وہ کسی کو نہیں پہچانتی تھیں۔ ایک دن مغرب کے وقت کہنے لگیں: ’’روزہ کھولو! جلدی کرو مسجد نبوی ؐمیں تراویح پڑھنی ہے‘ آج ختم قرآن ہے‘ جلدی کرو۔ اگلی صف میں جگہ لینی ہے!‘‘ پھر کہنے لگیں: ’’اتنی مشکل سے پہلی صف میں جگہ ملی ہے اب کہتے ہیں پیچھے ہٹو خاص مہمان آئے ہیں۔ یہ رسولؐ اللہ کی مسجد ہے کسی کا محل نہیں‘‘۔ آس پاس سب لوگ حیران تھے کہ اماں جان کیا کہہ رہی ہیں لیکن میں سمجھ گئی کہ ان کی روح زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہوکر اس وقت مسجدنبویؐ میں موجود ہے اوروہ اس رات کو رمضان المبارک کی ۲۹ویں رات سمجھ رہی ہیں--- یہ آخری بات تھی جو انھوں نے کہی۔ اس کے بعد بالکل خاموش ہوگئیں۔

مجھے اکثر اباجان کی کہی ہوئی ایک بات یاد آتی ہے‘ جو انھوں نے میرے ماموں خواجہ محمدشفیع مرحوم سے کہی تھی۔ اس وقت اماں جان بہت بیمار تھیں اور ماموں ان کی خیریت دریافت کرنے آئے تھے۔ ابا جان نے کہا:’’جب لوگ نعرے لگاتے ہیں مولانا مودودی زندہ باد! جماعت اسلامی زندہ باد! تو میں اپنے دل میں کہتا ہوں ’’محمودہ بیگم زندہ باد‘‘۔ جب کوئی فوج   فتح مند ہوتی ہے اور اس کے سپہ سالار کو پھولوں کے ہار پہنائے جاتے ہیں تو اس وقت اس گمنام سپاہی کو کوئی یاد نہیں کرتا جس نے اپنی جان کی بازی لگا کر فتح کو ممکن بنایا ہوتا ہے۔ زندہ باد کے فلک شگاف نعروں میں کسی کی بے نفسی‘ خودداری‘ وفاداری‘ دلداری اور اپنی ذات کی نفی کس کو یاد رہتی ہے‘‘۔

ان کی یہ ادا مجھے کبھی نہیںبھولتی کہ انھوں نے اپنے عظیم شوہر کے عظیم نام کو کبھی     ’جنس بازار‘ نہیں بنایا۔ اباجان کے انتقال کے بعد جنرل ضیا الحق صاحب نے اماں جان کو سینیٹ کی ڈپٹی چیئرپرسن بننے کی پیش کش کی۔ اس مقصد کے لیے پہلے عطیہ عنایت اللہ صاحبہ کو اور بعد میں آپا نثار فاطمہ کو بھیجا۔ اماں جان نے عطیہ عنایت اللہ صاحبہ کو تو پیار سے ٹال دیا‘ لیکن جب آپا نثار فاطمہ آئیں تو انھیں اپنا وہی پسندیدہ شعر سنایا جو میں اوپر لکھ چکی ہوں:’’سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے‘‘۔ یہ قرآن و حدیث کا علم دنیا کمانے اور دنیاوی عہدے حاصل کرنے کے لیے نہیں ہے۔ یہ تو آخرت کمانے کا ذریعہ ہے‘‘۔ پھر کہا:’’میں اپنے خاوند کے نام اور کام کو  کیش کرانے کے لیے وہاں نہیں جا سکتی۔ لوگ اپنے اور اپنی اولاد کی دنیا بنانے کے لیے جیتے ہیں لیکن مولانا نہ اپنے لیے اور نہ اپنی اولاد کے لیے جیئے۔ وہ تو بس اللہ تعالیٰ کے دین کی    سربلندی اور خدمت کے لیے جیتے تھے! ایسے نیک نفس شوہر کے نام کو میں ’جنس بازار‘ نہیں بناسکتی۔ اماں جان کے انکار کے بعد ضیاء الحق صاحب نے یہی عہدہ محترمہ نورجہاں پانیزئی کو پیش کیا تھا جو انھوں نے منظور کر لیا۔

روایت ہے کہ مولانا رومؒ کے مرض الموت میں ایک عالمِ دین ان کی عیادت کو آئے اور کہنے لگے کہ فکر نہ کیجیے‘ ان شاء اللہ شفا ہوگی! مولانا رومؒ نے جواب دیا: ’’اب شفا آپ کو مبارک ہو‘ بال برابر فرق رہ گیا ہے۔ پھر نور نور میں شامل ہو جائے گا اور مٹی مٹی میں چلی جائے گی‘‘۔

اباجان نے ۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء کو رحلت فرمائی اور اماں جان ۴؍اپریل ۲۰۰۳ء کو بروز جمعہ رات ۸ بج کر ۲۰ منٹ پر اس جہان فانی سے رخصت ہوئیں اور اگلے دن بروز ہفتہ سوا گیارہ بجے مٹی میں جاملیں۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ میں ان کے پسندیدہ شعر پر یہ سرگزشت ختم کرتی ہوں     ؎

سوئیں گے حشر تک کہ سبکدوش ہوچکے

بار امانت غم ہستی اتار کے