مئی ۲۰۰۴

فہرست مضامین

سید مودودؒی :ایک محسن ‘ایک رہنما

ڈاکٹر محمد عمارہ | مئی ۲۰۰۴ | اثرات

Responsive image Responsive image

سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، ہم عصر اسلامی بیداری کی تحریک کا سب سے نمایاں نام ہیں۔ آپ نے اسلامی علوم اور مغربی فلسفہ و تہذیب کے مختلف مکاتب فکر پر مکمل عبور حاصل کیا۔ اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت کے پیشے سے کیا۔

مقصدی عملی صحافت میں شرکت کے کئی تجربوں کے بعد آپ ایک نمایاں مفکر کے طور پر سامنے آئے۔ آپ ان مسلم علما سے ممتاز تھے جو ہندو اکثریت کی جماعت کانگریس یا اس کے ہم نوا قافلے میں شامل ہو چکے تھے۔ اسی طرح آپ ان مسلم مفکرین سے بھی الگ تھے جو مسلم لیگ سے وابستہ تھے۔ سید مودودیؒ ۱۹۳۷ء (۱۳۵۶ھ)تک مسلمانان ہند میں کافی معروف ہو چکے تھے۔ چنانچہ عظیم فلسفی علامہ محمداقبال نے آپ کو حیدر آباد، دکن چھوڑ کر بھرپور اسلامی تمدن کے حامل شہر لاہور آنے کی دعوت دی، تاکہ آپ یہاں آ کر اسے اپنی جدوجہد اور دعوت دین کا مرکز بنائیں۔ سید مودودی نے علامہ اقبال کی دعوت قبول کر لی۔ اگلے سال اقبال رحلت فرما گئے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کی وفات کے بعد سید مودودیؒ ہندستان کے مسلم مفکرین میں سب سے نمایاں تھے۔

۱۹۳۳ء سے ۱۹۴۱ء تک کے عرصے میں سید مودودی نے کئی معرکہ آرا تحقیقات‘ تالیفات اور خطبات پیش کیے۔ آپ اپنی طرز کے ایک زبردست خطیب تھے۔ آپ نے اپنی  ان تحریری و تقریری کوششوں سے ایک ایسا سیاسی منصوبہ پیش کیا، جو کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کے منصوبوں سے الگ تھا۔

انڈین نیشنل کانگریس سیاسی مفاد کی خاطر ایک قومیت کی بنیاد پر ہندستان کو مستقبل میں واحد مملکت بنانے کی دعوت دے رہی تھی۔ کانگریس کی اساس مغربی جمہوریت پر تھی‘ جس میں اکثریت حکمران ہوتی ہے۔ وہ سیکولرزم پر ریاست کی بنیاد رکھ رہی تھی، جس میں مذہب کا مملکت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ سید مودودی نے کانگریس کے منصوبے کے مقابلے میں اپنا جو متبادل سیاسی و تہذیبی منصوبہ پیش کیا، اس کے لیے آپ نے چھ بنیادی کتابیں لکھیں:  مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش (تین حصے)‘ مسئلہ قومیت ، اسلام اور جاہلیت،  اسلام کا سیاسی نظریہ، اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے اور تجدید و احیاے دین۔ ان کتابوں میں ہندستان کے مستقبل کے اسلامی منصوبے کی جھلک ملتی ہے۔ آپ نے بتایا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں پر کئی قومتیں رہ رہی ہوں، جو تہذیبی لحاظ سے بالکل الگ الگ ہوں، پھر جن کے قوانین بھی الگ الگ ہوں، ایسے ملک میں مغربی جمہورت نہیں چل سکتی۔ اس لیے کہ یہاں غالب اکثریت ہی مستقل حکمران رہے گی۔

ہندو اکثریت جو کل آبادی کا ۷۰ فی صد ہے وہی ہمیشہ مسلط رہے گی۔ مسلم اقلیت جو  صرف ۲۵ فی صد ہے، ہمیشہ اقلیت میں ہی رہے گی۔ لہٰذا، ہندستان جیسا ملک مغربی جمہوریت کے نفاذ کے لیے قطعاً غیر موزوں ہے۔ سید مودودی نے مغربی سیکولرزم کا بھی توڑ پیش کیا، کہ اسلام میں دین و مملکت کے درمیان کوئی دوئی نہیں ہے۔ سیکولرزم میں حکمرانی عوام کی اور جواب دہی عوام کے سامنے ہوتی ہے‘ جب کہ اسلام میں حق حکمرانی اﷲ کا ہے‘ وہی تمام انسانوں کا حاکم ہے اور انسان جواب دہ اسی کے سامنے ہے۔

۱۹۴۷ء میں ہندستان جب بھارت اور پاکستان میں تقسیم ہو گیا تو آپ نے اس تقسیم کو قبول کرتے ہوئے پاکستان میں احیاے اسلام کی جدوجہد کو جاری رکھا۔ سید مودودی کے سیاسی افکار واضح ہونے کے باوجود، بہت سے افراد اور جماعتوں نے انھیں غلط سمجھا۔ ان حضرات نے یا تو آپ کی عبارتوں کو سیاق و سباق سے بالکل الگ کر کے رکھ دیا یا ان عملی و دعوتی عبارتوں پر اعتراضات کیے جن میں آپ نے عوام کو خطاب کیا تھا۔ آپ کی فکر پر آپ کے مخالفوں نے ہی بے جا اعتراض نہیں کیے‘ بلکہ آپ کے چند سابق رفقا اور اسلامی نقطۂ نظر کے حامیوں میں سے کچھ حضرات نے بھی آپ کو اپنے بے جا اعتراضات کا ہدف بنایا۔

سید مودودی نے ’حکومت الٰہیہ‘ کا پیغام دیا۔ آپ نے حکومت الٰہیہ کے بارے میں بتایا کہ اس سے مراد احکام الٰہیہ کی حکمرانی ہے۔ اس ذات کی حکمرانی جو ’فعال لمایرید‘ ہے۔ جو اپنے کاموں کا کسی کے سامنے جواب دہ نہیں۔ انھوں نے انسانی حاکمیت کو وہاں تسلیم کیا جہاں ’’نص‘‘ نہ ہو۔ یہ اسلامی قانون کی وسعت ہے جو زمان و مکاں کے مطابق اجتہاد کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔

سید مودودی نے بتایا، امت اپنا اقتدار شریعت الٰہیہ کی سیادت کے تحت قائم کرنے کی مجاز ہے۔ ہم حاکمیت کے بارے میں سید مودودی کا نقطۂ نظر اس وقت تک سمجھ نہیں سکتے، جب تک ہم اس بارے میں آپ کی تمام تحریروں کو سامنے نہ رکھیں۔ کیونکہ یہی نکتہ ان کی ساری سیاسی فکر کا محور ہے‘ مثلاً اگر ہم صرف اسی قول کو لے لیں تو بات ادھوری رہ جائے گی: جو کوئی جماعت یا شخص اپنے لیے یا کسی اور کے لیے کلی یا جزی حاکمیت کا دعویٰ کرے وہ بلاشبہہ کھلم کھلا بہتان‘ جھوٹ اور افترا میں مبتلا ہے۔ سیاسی و عمرانی معنوں میں صرف اﷲ ہی حاکم ہے۔ اس نے کسی کو اپنی مخلوق میں اپنا حکم نافذ کرنے کا حق نہیں دیا۔ انسانیت کے لیے مطلقاً حاکمیت کا حق نہیں ہے۔ اسلام میں سیاسی نظریے کی عمارت جس بنیاد پر قائم ہے، وہ یہ ہے کہ حکم اور قانون سازی کے  تمام اختیارات انسانوں کے ہاتھوں سے چھین لیے جائیں۔ ان میں سے کسی کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ انسانوں پر اپنا حکم نافذ کرے اور وہ اس کی اطاعت کریں‘ یا وہ ان کے لیے قانون بنائے اور وہ اس کی بجا آوری کریں اور اس کی پیروی کریں۔ اسلامی ریاست کی ساخت جمہوری نہیں ہے۔ جمہوریت سے مراد ہوتا ہے حکمرانی کا ایسا نظام، جس میں اقتدار مکمل طور پر عوام کے لیے ہو۔ اسلام میں ایسی کوئی چیز نہیں۔

آپ نے دیکھا کہ اگر ہم درج بالا اقتباس یا اس قسم کی عبارتوں کے پورے سیاق و سباق کو نظر انداز کر کے شرارتاً رک جائیں، تو ہم حکمرانی کے بارے میں مولانا مودودی کے عادلانہ اور منطقی نظریے کو ہرگز نہ سمجھ پائیں گے۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم اس موضوع پر آپ کی تمام تحریروں کا مطالعہ کریں، تاکہ آپ کے مجمل مؤقف کی وضاحت ہو سکے۔ مولانا ہی کا قول ہے:

کسی بھی عقل مند کے لیے جمہوریت کی مخالفت کرنا ممکن نہیں ہے۔ ہمیں جو مسئلہ پریشان کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ ہندستان میں‘ ایک قومیت کا وجود فرض کرتے ہوئے نظام حکومت جمہوری اداروں کی بنیاد پر چلے گا۔ یہاں پر ہمیں دو باتوں کو خلط ملط کرنے سے بچنا ہے۔ ایک ہے فی نفسہٖ جمہوریت‘ اور دوسری چیز ہے ایک قومیت کا وجود۔ ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ان میں سے ایک کی مخالفت کا مطلب دوسرے کی مخالفت ہرگز نہیں ہے۔

ایک جمہوری نظام میں جب اکثریت سے بننے والی حکومت کے اصول پر عمل درآمد طے پاجائے‘ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اکثریت حاصل کرنے والا گروپ حکومت سنبھالے گا۔ اکثریت کی حکومت کے اصول کی رو سے ایسا ہونا درست ہو گا، جب شہریوں کے لیے بنیادی معاملات میں اصولاً اتفاق کر لیا جائے۔ آج کی اقلیت کے لیے ممکن ہے کہ وہ کل اکثریت بن جائے، اور آج کی اکثریت کے لیے کل اقلیت بن جانا ممکن ہے۔ مگر مقاصد یا مذہبی اصولوں میں اختلاف یا قومی جذبات میں اختلاف اکثریت کو ہمیشہ یوں ہی اکثریت میں رکھے گا، یہ تو جمہوریت نہیں بلکہ بربریت ہے۔ اسلام نے اﷲ کی سیادت و حاکمیت کے زیر سایہ یہ عوام کی نیابت (vicergency) اور ان کو اﷲ کی طرف سے خلیفہ بنائے جانے کو تسلیم کیا ہے۔ اسلام نے اس حکومت میں مسلمانوں کی محدود و مقید عوامی حاکمیت کا حق دیا ہے۔ امت اسلامیہ، اﷲ کی نائب ہے، وہ اپنے حکمران کا انتخاب کرے گی، اپنے لیے جمہوری طریقے سے ارباب حل و عقد کو منتخب کرے گی۔ وہ چیز جو اسلامی خلافت کو جمہوری بناتی ہے، یہ ہے کہ ہماری اسلامی جمہوریت ایک پہلو سے مغربی جمہوریت کی طرح ہے۔ اس میں حکومت کی تشکیل و تبدیلی راے عامہ سے ہوتی ہے، مگر ہمارے اور اہل مغرب میں فرق یہ ہے کہ وہ اپنی جمہوریت کو    مطلق العنان سمجھتے ہیں‘ جب کہ ہم جمہو ری خلافت کو، خداے بزرگ و برتر کے قانون سے مقید سمجھتے ہیں۔

سید مودودیؒ کی اس جامع تحریر سے معلوم ہوا کہ اگر اکثریت کافر ہو تو ایسی جمہوریت اور قوم کی حکمرانی کا مطلب اﷲ کی حکمرانی کو تسلیم کرنے سے انکار کرنا ہو گا، کیونکہ یہ حکمرانی شریعت سے آزاد ہو گی۔ مگر جب اکثریت اہل ایمان کی ہو اور شریعت کی پابند ہو تو اس اکثریت کی حکمرانی ہی ’اسلامی جمہوریت‘ ہے یا ’جمہوری خلافت‘ ہے، جس کی طرف سید مودودی دعوت دیتے ہیں۔ پس سید مودودی کے اس نظریے کو ہندستان کے مخصوص حالات کو سامنے رکھ کر سمجھا جائے۔ آپ کا یہ نظریہ اس وقت بھی مسلم اور غیر مسلم دونوں کا موضوع بحث تھا اور آج بھی ہے۔

سید مودودیؒ نے ان معاشروں کو ’کفر و جاہلیت‘ سے منسوب کیا تھا، جو اﷲ اور اس کے قانون حاکمیت کو، انسانوں اور ان کے قوانین کی حاکمیت سے برتر نہیں قرار دیتے، خواہ یہ معاشرے پرانے ہوں یا نئے۔ آپ نے مغربی تہذیب کی جدید چھاپ والی آئیڈیالوجی کی تشکیل میں کار فرما تمام بنیادی نظریوں پر بے مثال طریقے سے تنقید کی۔ مثال کے طور پر: ہیگل (۱۸۷۰ء - ۱۸۸۳ئ) کے فلسفۂ تاریخ کا محاکمہ کیا۔ ڈارون (۱۸۰۹ء - ۱۸۸۲ئ) کے نظریۂ ارتقا اور مارکس (۱۸۱۷ء - ۱۸۸۳ئ) کے طبقاتی کش مکش کے نظریے پر کھل کر نقد وجرح کی۔

سید مودودیؒ نے اسلامی تہذیب کے توازن و اعتدال کو بھی واضح کیا اور بتایا کہ مغربی تہذیب مجموعی طور پر توازن و اعتدال سے یکسر محروم ہے۔ یہی نہیں، بلکہ انھوں نے اسلامی تاریخی سرمایے اور علمی ورثے پر بھی تنقیدی نظر ڈالی۔ تجدید و احیا کی فکر پر روشنی ڈالی۔ آپ نے اسلامی تہذیب میں شامل ہونے والے غیر اسلامی افکار و خیالات کی تابع داری سے انکار کی دعوت دی اور خاص طور پر یونانی افکار کی گرفت سے آزاد ہونے کے لیے کہا۔ آپ نے ان علما کے مؤقف کو سراہا‘ جنھوں نے اسلامی بیداری کے لیے مکمل منصوبے پیش کیے اور ان پر عمل درآمد کے لیے کوششیں کیں‘ اور اپنے آپ کو صرف سوچنے اور کتابیں لکھنے تک محدود نہیں رکھا۔

ہم سمجھتے ہیں کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی عصر حاضر کے مسلمانوں کی فکری اور عملی تربیت کے لیے اﷲ تعالیٰ کا ایک خصوصی انعام تھے۔ افسوس یہ ہے کہ امت اپنے اس جلیل القدر محسن کی قدرومنزلت کو پہچان نہ سکی!