مئی ۲۰۰۴

فہرست مضامین

قیمتی یادوں کا محور

پروفیسر عنایت علی خان | مئی ۲۰۰۴ | شخصیت

Responsive image Responsive image

تقسیم ہند کے نتیجے میں پاکستان آ کر حیدر آباد (سندھ)میں قیام کیا‘ تو میں اپنے ہم عمر لڑکوں سے تین باتوں میں مختلف تھا: پہلی چیز ہمہ وقت سر پر رہنے والی سیاہ رام پوری ٹوپی‘ دوسری پانچ وقت مسجد کی حاضری‘ اور تیسری ناشائستہ ہنسی مذاق سے خود کو نشانۂ مذاق بنوا دینے سے شدید اجتناب۔ غالباً انھی علامات کی بنا پر بڑے بھائی کے ایک ہم عمر دوست نے مجھے ’’مولانا مودودی‘‘ کا خطاب دیا ہوا تھا۔ میں تو کیا وہ خود بھی مولانا کی شخصیت اور جماعت اسلامی سے کہیں ایک عرصے بعد متعارف ہوئے‘ لیکن یہ واقعہ اس بات کی بہرحال دلیل ہے کہ مولانا مودودی مرحوم و مغفور کا نام ایک دین دار شخصیت کی حیثیت سے معروف ہو چکا تھا۔

مولانا مرحوم و مغفور سے پہلا باقاعدہ تعارف اسلامی جمعیت طلبہ کی رفاقت کے نتیجے میں‘ کچھ جمعیت کے سابقون الاولون اور کچھ ان کتابچوں سے ہوا‘ جو جمعیت کی رفاقت کے نصاب میں پڑھنے کا موقع ملا۔ لیکن مولانا کی عظمت کا نقش دل پر اس وقت مرتسم ہوا‘ جب مولانا کو قادیانی مسئلے کے حوالے سے پھانسی کی سزا سنائی گئی اور مولانا نے معافی مانگ کر رہا ہو جانے سے صاف انکار کردیا۔ اس واقعے پر احتجاجی جلوس میں شرکت بھی کی۔ ان امور نے تعلق کو عقیدت میں تبدیل کر دیا اور دل میں مولانا سے ملنے کی خواہش بیدار ہوئی۔

پھر اپنے عربی کے استاد نسیم اللہ صاحب اور مولانا وصی مظہر ندوی صاحب جیسے بزرگوں سے مولانا مرحوم کی ذہانت و بصیرت‘ اخلاص اور للٰہیت کے واقعات سن سن کر اس آتشِ شوق میں اور اضافہ ہوا۔ یہاں تک کہ جمعیت میں شمولیت کے ۱۰‘ ۱۱ سال بعد اہلیہ کے علاج کے سلسلے میں لاہور جانا ہوا تو وہاں ایک سسرالی عزیز کے ہاں قیام کے دوران اخبار میں پڑھا کہ مولانا مودودیؒ فلاں مسجد میں درس قرآن دیں گے۔ اس موقعے کو نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر پتا پوچھتا ہوا مذکورہ مسجد جاپہنچا۔ مولانا‘ مسجد کے برآمدے میں تشریف فرما تھے‘ برآمدے اور صحن لوگوں سے کھچا کھچ بھرچکے تھے۔ دیر سے آنے والوں کے ساتھ دوسری منزل کی گیلری میں جگہ ملی‘ جہاں لائوڈ سپیکر کے ذریعے آواز تو صاف آ رہی تھی‘ لیکن مولانا پر نظر کھڑے ہو نے پر ہی پڑتی تھی۔ مستقل کھڑا رہنا مناسب نہیں تھا۔ چنانچہ میں تھوڑے تھوڑے وقفے سے اٹھ کر مولانا کو دیکھتا اور پھر بیٹھ جاتا۔ موضوعِ تقریر ’’دعا کی اہمیت‘‘ تھا۔ مولانا کا ٹھیرا ہوا پروقار لہجہ اور تکلف سے پاک اندازِ بیان‘  دل میں گھرکر رہا تھا۔ جتنی بار اٹھ کر مولانا کو دیکھتا ہربار فرطِ مسرت سے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے۔ درس کے اختتام پر ہجوم کے سبب ہاتھ ملانے کی خواہش تشنۂ تکمیل رہی‘ لیکن مولانا کو دیکھنے اور سننے کا نشہ تادیر قائم رہا۔

اس واقعے کے کئی سال بعد ۱۹۷۰ء کے قومی و صوبائی انتخابات کا اعلان ہوا۔ مجھے ایک سال قبل جماعت کے رفقا کیڈٹ کالج پٹارو ]سندھ[ سے تعمیرنو اسکول‘ سکھر لے جاچکے تھے۔ کہا یہ گیا تھا کہ تعمیرنو کے ہیڈ ماسٹر حافظ وحید اﷲ‘ تنظیم اساتذہ کی تشکیل کے سلسلے میں سکھر سے لاہور منتقل ہو گئے ہیں اور مولانا کی خواہش ہے کہ میں ان کی جگہ تعمیرنو اسکول سنبھالوں۔ ۱۹۷۰ء کے الیکشن کے لیے نامزدگیاں شروع ہوئیں تو حیدر آباد جماعت نے صوبائی اسمبلی کے ایک حلقے سے میرا نام طے کیا۔

انتخابی مہم کے دوران میرے ایک شاگرد اپنے پیپلز پارٹی سے منسلک دوستوں کی ناراضی کی قیمت پر میرا سیاسی کام کر رہے تھے‘ اور اس انداز سے کر رہے تھے کہ اپنے ساتھیوں کو کام کا ہدف پورا کرنے پر تفریح کے لیے لے جاتے تھے۔ انھوں نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ انتخاب کا نتیجہ کچھ بھی نکلے‘ آپ مجھے مولانا مودودیؒ سے ملاقات کرانے لاہور لے کر جائیں گے۔ ان دنوں مولانا مرحوم و مغفور کی صحت اس حد تک خراب تھی کہ معالجین نے انتخابی مہم میں حصہ لینے سے سختی سے منع کیا ہوا تھا‘ اور مولانا نے یہ پابندی اپنی شدید خواہش کے علی الرغم قبول کر رکھی تھی۔ ان نوجوان کا کہنا تھا: ’’مولانا سفر کرنے سے قاصر ہیں‘ اور میں ان سے بالمشافہہ ملنا چاہتا ہوں۔ اس لیے وعدہ کریں کہ انتخابی مہم کے بعد لاہور چلیں گے اور مجھے مولانا سے ملوائیں گے‘‘۔

اس وعدے کی تکمیل نے مولانا مرحوم و مغفور سے بالمشافہہ ملاقات کا موقع فراہم کیا۔ لاہور پہنچ کر میں نے چودھری رحمت الٰہی صاحب ] سیکرٹیری جنرل جماعت اسلامی پاکستان[ سے اپنا اور نوجوان کا تعارف کرایا‘ اور ان کی خواہش کی اس شدت کا ذکر کیا کہ وہ مجھے اپنے خرچ پر لاہور لائے ہیں اور اب ہوٹل میں مقیم ہیں۔ چودھری صاحب نے ذرا تکلف و جرح کے بعد ہماری درخواست منظور کر لی۔ پھر دونوں سراپا اشتیاق مولانا کے کمرۂ مطالعہ و ملاقات میں داخل ہوئے۔ مولانا نے  کمال شفقت سے سلام کا جواب دیا اور مصافحہ کیا۔ اپنی آئیڈیل شخصیت سے اس قربت کا احساس اور مولانا کے ہاتھ کے لمس نے کچھ دیر کے لیے تو ہم دونوں کو مبہوت رکھا۔ نوجوان تو آخر تک شخصیت کے محبوبانہ طلسم سے آزاد نہ ہو سکے۔ میں نے مختصراً اپنا تعارف کرایا تو مولانا نے کیڈٹ کالج‘ پٹارو سے سکھر اور سکھر سے نوکری چھڑوا کر حیدر آباد بلوانے پر معترضانہ انداز اور تشویش بھرے لہجے میں صرف: ’’اچھا!‘‘ کہا اور پھر دریافت فرمایا: ’’اب آپ کیا کر رہے ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا:     ’’فی الحال توبے کار ہوں‘‘۔ مولانا نے زبان سے کچھ نہیں کہا‘ لیکن ان کے چہرے پر جو تشویش کے آثار نظر آئے‘ انھیں مجھ سے زیادہ میرے ساتھی نے نوٹ کیا۔

پھر میں نے اس نوجوان کا تعارف کرایا: ’’یوں تو یہ ایک زمیندار خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے بزرگوں سے پیری مریدی کا سلسلہ بھی جاری ہے‘ لیکن ان کے بزرگ کھائو پیر نہیں بلکہ مریدوں کی ہر طرح خبر گیری کرتے ہیں اور یہ خود انگریزی میں ایم اے کر رہے ہیں‘‘۔ مولانا نے اس پر اپنی خوشی کا اظہار فرمایا اور کہا: ’’جماعت اسلامی کو ایسے ہی نوجوانوں کی ضرورت ہے‘ جو کہیں کہ ہماری ذہانت دین کی راہ میں کھپا دیجیے‘‘۔

میں چاہتا تھا کہ اپنے تعارف کے بعد‘ میرے ساتھ جو شاگرد شدید چاہت سے مولانا سے ملنے آئے ہیں‘ وہ خود مولانا سے ہم کلام ہوں۔ لیکن ان پر نظر پڑی تو انھیں اسی طرح مبہوت پایا۔ اب میں تو محض ان کی خواہش پر آیا تھا‘ خالی الذہن اور خود وہ بھی خاموش بیٹھے تھے۔ مولانا گویا ہماری جانب سے کسی سوال کے منتظر تھے۔

چند ثانیے کی خاموشی کی بعد میرے ذہن میں ایک خیال آیا‘ جس کے اظہار کے ذریعے یہ سلسلۂ سکوت توڑا۔ میں نے عرض کیا:میرے شیعہ دوست ہیں جو پروفیسر کرار حسین صاحب اور پروفیسر حسن عسکری کے شاگرد رہے ہیں۔ انھوں نے ایک دن مجھے بتایا کہ وہ ایک مرتبہ مذکورہ دو اساتذہ کی خدمت میں حاضر تھے‘ اور وہ دونوں اسلام کے حوالے سے کسی نظری بحث میں مصروف تھے۔ میں نے نہایت ادب سے یہ سوال کیا کہ جناب یہ نظری بحث اپنی جگہ‘ لیکن یہ نوجوان نسل جو اسلام سے دور ہوتی جا رہی ہے اس بارے میں بھی آپ حضرات نے کچھ سوچا؟ اس پر پروفیسر    حسن عسکری نے کہا: ’’نادر صاحب‘ جب آپ شاگرد تھے تو کوئی بھی شخص بال بڑھائے مذہب پر تنقید کرنے کھڑا ہو جاتا اور کمیونزم کے بارے میں دلائل دے کر مرعوب و متاثر کر سکتا تھا‘ لیکن اب صورت حال بدل گئی ہے۔ آج کے طالب علم خود کو فخر سے مسلمان کہتے ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ نوجوان بھرپور استدلال سے ایسے لوگوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں‘‘۔ عسکری صاحب نے مزید کہا: ’’مولانا مودودی نے اگر اپنی زندگی میں اور کوئی کام بھی نہ کیا ہوتا ‘ صرف اسلامی جمعیت طلبہ ہی کی تشکیل کی ہوتی تو ان کی بخشش کے لیے یہی ایک چیز کافی تھی‘‘۔

میں نے یہ واقعہ اس تمہید کے ساتھ گوش گزار کیا : ’’میں منہ پر تعریف نہیں کر رہا‘ بلکہ تحدیث ِ نعمت کے طور پر یہ واقعہ سنا رہا ہوں‘‘۔ میں نے دیکھا ‘مولانا مودودی مرحوم و مغفور کا چہرہ کسی قسم کے جذبۂ فخر سے بیگانہ تھا۔ پھر نہایت سادہ لہجے میں مولانانے یہ فرمایا: ’’ہاں‘ یہ بات بعض مواقع پر   اے کے بروہی صاحب اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب نے بھی کہی ہے‘‘۔ پھر ذرا سے توقف کے بعد فرمایا: ’’تقسیم ملک کے بعد بعض طالب علم میرے پاس آئے اور کہا ہمیں جماعت اسلامی میں شامل کر لیں‘تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ بات ڈال دی اور میں نے انھیں مشورہ دیا کہ دعوت دین کا جو کام جماعت اسلامی عوام میں کر رہی ہے وہی کام وہ آزادانہ طور پر طالب علموں کے دائرے میں رہ کر کریں‘‘۔پھر مربیانہ انداز میں فرمایا : ’’اگر اللہ تعالیٰ بندے سے کوئی خدمت لے تو بندے کو اس پر شکر کرنا چاہیے کہ یہ خدمت اس سے لی گئی۔ یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ میں نے یہ کام کیا ہے‘‘۔

اب مولانا کا قیمتی وقت لینے کا کیا جواز تھا؟ لیکن اپنے شاگرد کے شوقِ ملاقات کی تسکین ہی کی خاطر ایک عام سا سوال کر ڈالا: ’’مولانا! یہ ہم جماعت کے لوگوں نے ایک خاص وضع کی چھوٹی داڑھی رکھنے کا جو طریقہ اختیار کیا ہے اور جسے ہمارا ٹریڈ مارک سمجھ لیا گیا ہے‘ اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘

مولانا نے بزرگانہ بے تکلفی سے جواب دیا: ’’دیکھیے‘ داڑھی کے بارے میں یہ بات نظر میں رکھیے کہ داڑھی دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک مجبوری کی اور دوسری اختیار کی۔ مجبوری کی داڑھی وہ ہے جو نہ رکھی جائے تو مسجد کی موذنی نہ ملے‘ مدرسے کا وظیفہ نہ ملے‘ یہ داڑھی تو آپ جتنی لمبی چاہیں رکھوا لیں۔ لیکن جہاں تک اختیار کی داڑھی کا تعلق ہے ‘جس کے لیے کوئی مجبور نہیں کر رہا اور محض دین داری کی وجہ سے رکھی جارہی ہے‘ وہ ایک قسم کا جہاد ہے۔ ایسی داڑھی رکھنے والوں کو کالجوں اوریونی ورسٹیوں اور دفتروں میں فقرے بازی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔میرے علم میں ایسے واقعات بھی آئے ہیں کہ کسی نوجوان نے داڑھی رکھ لی تو اس کی منگنی ٹوٹ گئی۔ اس لیے میرے نزدیک تو ان لوگوں کی یہ چھوٹی داڑھی بھی جہاد سے کم نہیں ہے۔ اب ان سے یہ مطالبہ کرنا کہ نہیں اتنی رکھو‘ یہ نامناسب ہے‘‘۔

میں چونکہ داڑھی کی شرعی حیثیت کے بارے میں مولانا کا موقف پڑھ چکا تھا اور یہ مقولہ بھی سن چکا تھا کہ: ’’اسلام میں داڑھی ہے داڑھی میں اسلام نہیں‘‘، نیز یہ کہ ’’داڑھی پہلے اندر جڑ پکڑ کر باہر آئے تو داڑھی معتبر ہوتی ہے ورنہ سکھوں کی داڑھی تو مسلمانوں سے کہیں بڑی ہوتی ہے‘‘۔

یہ بات بھی پوری ہوئی‘ لیکن لذت کلام ہی کے لیے سلسلۂ کلام جاری رکھنا ضروری تھا۔ اس لیے ایک اور سوال پیش کر دیا: ’’مولانا‘ آپ نے صحیح فرمایا۔ میں خود اس قسم کے طنز کاشکار رہا ہوں۔ لیکن میرا تجربہ ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ حلقۂ احباب کے حلق سے داڑھی اتر جاتی ہے بلکہ میرے بعض احباب نے تو یہ بھی کہا کہ یار! اب اسے کٹوانا مت۔ جب طنز و تشنیع کا مرحلہ گزر جائے تو پھر داڑھی بڑھانے میں کیا قباحت ہے؟‘‘ (میرے ذہن میں خود مولانا کا طرز عمل تھا)۔

مولانا نے شگفتگی سے فرمایا: ’’ایک یہ بات بھی ہے کہ جہاں یہ لمبی داڑھی ناکام رہتی ہے‘ وہاں یہ چھوٹی کام نکال لے جاتی ہے‘‘۔ اس وقت تو یہ جواب سن کر ہنس کر رہ گیا لیکن بعد میں اس بلیغ جملے پر غور کیا تو اس کی صداقت واضح ہوتی گئی۔

میں نے اپنے ساتھی کو کنکھیوں سے دیکھا تو وہ اسی طرح نظریں نیچے کیے مؤدب بیٹھے تھے۔ مجھے خیال آیا کہ ان کی تسکینِ خاطر کے لیے اتنا وقت لے لینا ہی کافی‘ بلکہ بہت زیادہ تھا۔ اب   ہمیں مولانا کا قیمتی وقت ضائع کرنے کا کوئی حق نہیں۔ چنانچہ مولانا سے اجازت چاہی‘ مولانا نے ازراہ شفقت دوبارہ مصافحہ فرمایا‘ اور ہم دونوں اس قیمتی لمحۂ حیات کے نشے میں سرشار باہر آگئے۔

میرا خیال تھا کہ ایک دیرینہ خواہش پوری ہو جانے پر شاگرد صاحب خوش اور میرے ممنون ہوں گے‘ لیکن معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ دروازے سے باہر آتے ہی بولے: ’’سر‘ آپ نے اپنی بیکاری کا تذکرہ مولانا سے کیوں کیا؟ آپ نے مولانا کو پریشان کر دیا‘‘ --- ’’وہ کیسے؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔ بو لے: ’’آپ کو اپنی بے کاری کا تذکرہ مولانا سے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ آپ نے دیکھا تھا‘ مولانا آپ کی بات سن کر پریشان ہو گئے تھے۔ سر‘ اچھا نہیں کیا آپ نے۔ مولانا کو بڑے بڑے مسائل سوچنے پڑتے ہیں۔ آپ نے ان کے ذہن پر ایک اور بوجھ ڈال دیا‘‘۔ میں نے کہا: ’’چلیے‘ ابھی تو ہم لاہور میں ہیں نا۔ کل عصر کی نشست میں‘ میں اطمینان دلادوں گا کہ حیدر آباد میں غزالی کالج میں جگہ نکلنے والی ہے‘ وہاں مصروف ہو جائوں گا‘‘۔

دوسرے روز اسی مقصد سے عصری نشست میں شریک ہوئے۔ محفل کا واحد موضوع   ]دسمبر ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں[ جماعت کے امیدواروں کی ناکامی تھا اور اس ضمن میں       جمعیت علماے پاکستان کے معاندانہ پروپیگنڈے کا بطورخاص ذکر تھا۔ ایک صاحب نے کہا: ’’مولانا! یہ علماے پاکستان والے کہتے ہیں کہ جماعت اسلامی ۲۵‘ ۳۰ سال سے کام رہی ہے۔ ہم ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن کے ہیں‘ لیکن ہم نے جماعت اسلامی کو ایسے شکست دی ہے جیسے کوئی بچہ کسی پہلوان کو پچھاڑ دے‘‘۔

مولانا نے فرمایا: ’’یہ نادان لوگ ہمیں اپنا حریف سمجھ رہے تھے۔ حالانکہ ہم ان کی فصیل تھے۔ دین کے خلاف اب جو طوفان آنے والا ہے (اشارہ پیپلز پارٹی کے اقتدار کی طرف تھا) اُسے یہ نہیں روک سکیں گے۔ ہم شاید روک لیتے‘‘۔ پھر ذرا توقف کے بعد فرمایا: ’’سیاسی جماعتوں کا کام عوام کو سیاسی طور پر ایجوکیٹ educate]‘یعنی رہنمائی[کرنا ہوتا ہے۔ اس الیکشن میں سیاسی جماعتوں نے عوام کو ڈس ایجوکیٹ diseducate] ‘یعنی گمراہ[کیا ہے۔ کسی نے روٹی کے نام پرایکسپلایٹ ] exploit - استحصال[کیا ہے ‘کسی نے روضے کے نام پر‘‘۔

ایک صاحب نے کہا: ’’جی ہاں مولانا‘ کہا یہ جاتا تھا کہ دیکھ جنت کی چابی کو اور رسولؐ اللہ کے روضے کو (مراد تھی وہ جھنڈا جس پر گنبد خضرا بنا ہوا تھا) ووٹ دینا ہے‘ باوضو آنا ورنہ ووٹ قبول نہیں ہو گا‘‘۔ ایک اور صاحب نے گرہ لگائی: ’’جی مولانا‘ یہ کہتے تھے کہ جماعت اسلامی والے کہتے ہیں کہ ملک میں سوشلزم آ گیا تو روسی ترکستان کی طرح مساجد میں تالے پڑ جائیں گے۔ پڑ جائیں تالے‘ ہمارے نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کے صدقے میں پوری زمین ہمارے لیے مسجد بنا دی گئی ہے‘ ہم جہاں چاہیں گے سجدہ کر لیں گے۔ لیکن یہ وہابی ہمارے بزرگوں کے مقبرے ڈھادیں گے تو وہ ہم کہاں سے لائیں گے‘‘۔ ایک اور صاحب نے لَے میں لَے ملائی: ’’مولانا‘ شبرات کا موقع تھا‘ ان کے مقررین کہتے تھے: لوگو‘ اس سال اپنے بزرگوں کی روحوں کو ایصال ثواب کر دو۔ اگر اگلے سال یہ وہابی آ گئے تو تمھارے بزرگ قبروں میں ایصال ثواب کو ترسیں گے‘‘۔

’’جی ہاں!‘‘ مولانا نے تینوں حضرات کے بیان پر مسکرا کر پنجابی کا صرف ایک فقرہ فرمایا: ’’ہور‘ چوپو‘‘۔ اب جن لوگوں نے سکھوں کا وہ لطیفہ سنا ہوا تھا جو اس جملے پر ختم ہوتا تھا‘ وہ اس فقرے سے ایسے محظوظ ہوئے کہ ذرا دیر کے لیے تشویش و اضطراب کی فضا خوشگوار ہو گئی۔ میں نے سوچا اگر اس وقت کسی اور سیاسی پارٹی کا سربراہ مولانا کی جگہ بیٹھا ہوتا تو کیا وہ بھی ایسی خوش مزاجی کا مظاہرہ کرسکتا تھا؟ کیا دل کی یہ سکینت اللہ تعالیٰ کی خاص دین نہیں۔

جی نے چاہا کہ میں بھی کسی بہانے گفتگو میں شرکت کروں‘ چنانچہ میں نے بھی ایک سوال داغ دیا: ’’مولانا! اگر ]صدر جنرل [یحییٰ خان کے دیے ہوئے پلان پر عمل کیا گیا تو کوئی مثبت نتیجہ برآمد ہو سکے گا؟‘‘ مولانا نے اب تک کے اپنے انداز گفتگو کے برعکس ذرا تیز لہجے میں فرمایا: یحییٰ خان عوام کو کس برتے پر اعتماد میں لیں گے‘ ان کے پاس اب رہا کیا ہے؟ اب تو آپ انتظار کیجیے اور یہ دیکھیے کہ یحییٰ خان صاحب نے جو گڑھا کھودا ہے اس میں وہ خود پہلے گرتے ہیں یا قوم گرتی ہے‘‘۔ مولانا کی یہ تشویش کس قدر مبنی برحقیقت تھی۔ اس کا ثبوت ذوالفقار علی بھٹو کی ہوس اقتدار کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور وہاں خون ریزی اور بھارت کی یلغار کی شکل میں ملا۔

عصری نشست سے اٹھ کر مولانا اپنے کمرے میں جانے لگے تو میں نے آگے بڑھ کر سلام اور مصافحہ کیا۔ مولانا نے فرمایا: ’’اچھا‘ آپ لوگ ابھی لاہور ہی میں ہیں؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’مولانا‘ یہ میرے شاگرد مجھے ڈانٹ رہے ہیں کہ تم نے کل اپنی بے کاری و بے روزگاری کا ذکر کرکے مولانا کو پریشان کر دیا ہے‘ تو عرض ہے کہ ان شاء اللہ چند روز میں مجھے غزالی کالج میں ملازمت مل جائے گی‘‘۔ مولانا نے تشفی طلب انداز میں سوال کیا: ’’ہوجائے گی؟‘‘ میں نے عرض کیا: ’’جی ہاں‘ ان شاء اللہ ہو جائے گی‘ آپ دعا فرمایئے گا‘‘۔ مولانا آگے بڑھ گئے تو میں نے اپنے شاگرد سے کہا: ’’اب تو آپ کی تسلی ہو گئی‘‘۔ وہ بولے: ’’ہاں سر‘ یہ ضروری تھا‘‘۔

لاہور سے واپسی پر اکثر احباب کو میں یہ روداد سناتا رہا کہ ’ذکر حبیب کم نہیں وصل حبیب سے‘ یہاں تک کہ تنظیم اساتذہ سندھ کے ذمہ دار کی حیثیت سے لاہور میں منعقدہ کل پاکستان اجتماع میں شرکت کے موقع پر تین چار افراد کے ساتھ مولانا سے ملاقات کا موقع ملا۔ اس وقت تک مولانا کی صحت خاصی گر چکی تھی۔ ہم کمرۂ ملاقات میں اسی تشویش کے ساتھ بیٹھے تھے۔ مولانا کوئی ۱۵‘ ۲۰منٹ بعد اندرونی دروازے سے کمرے میں واکر کے سہارے داخل ہوئے۔ حافظ وحید اللہ خان نے آگے بڑھ کر سہارا دینا چاہا تو فرمایا: ’’نہیں نہیں‘ آپ بیٹھیے‘ میں اس کا عادی ہو چکا ہوں‘‘۔

اپنی کرسی پر بیٹھتے ہی مولانا نے سوال کیا: ’’آپ لوگ کتنی دیر سے یہاں تشریف رکھتے ہیں؟‘‘ حافظ صاحب نے کہا: ’’کوئی ۱۵‘ ۲۰ منٹ ہوئے ہوں گے۔ معلوم ہوا تھا کہ آپ بیت الخلا میں ہیں‘‘۔ مولانا نے فرمایا: ’’نہیں صاحب‘ میں اتنی دیر بیت الخلا میں نہیں بیٹھتا۔ مجھے تو آپ لوگوں کے آنے کی خبر ابھی ملی۔ بیٹی آئی ہوئی تھی‘ میں اس سے بات کر رہا تھا۔ افسوس کہ آپ لوگوں کو انتظار کی زحمت اٹھانا پڑی‘‘۔ حافظ صاحب نے کہا: ’’مولانا سنا ہے دو چار ماہ سے آپ کی طبیعت زیادہ ناساز ہے‘‘۔ فرمایا: ’’دوچار نہیں پورے چھ ماہ سے‘‘۔ میں نے اپنی طبیعت کے مطابق بات سے بات پیدا کی: ’’مولانا‘ حافظ صاحب بھی تو دو چار ماہ کہہ رہے ہیں۔ دو چار چھ ہی تو ہوتے ہیں‘‘۔ لیکن  مولانا اپنی طبیعت کے اضمحلال کے تحت اس فقرے سے محظوظ نہیں ہو سکے۔ حافظ صاحب نے اپنا مدعا بیان کیا: ’’الحمدللہ! تنظیم اساتذہ کا یہ پودا اب تناور درخت بن چکا ہے۔ چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کے ہزاروں افراد جامعہ پنجاب میں جمع ہیں‘‘۔ مولانا نے اس اطلاع پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں نے اپنے معاونین سے کہا ہے کہ میں اپنی صحت کی مجبوری کی بنا پر اجتماع گاہ نہیں جا سکتا۔ یہیں کرسیوں کا اہتمام کر دیں تاکہ میں جملہ مندوبین سے گفتگو کر سکوں‘‘۔ سرحد سے آئے ہوئے جناب عبدالعزیز نیازی نے اپنے صوبے میں پھیلے ہوئے نسلی تعصب کے مسئلے کو چھیڑا تو مولانا نے فرمایا: ’’لوگوں کو یہ احساس دلایے کہ تعصب ایسی لعنت ہے کہ ایک مرتبہ یہ بیماری لگ جائے تو                     اس کادائرہ مسلسل محدود سے محدود تر ہوتا جاتا ہے‘ اور خود ایک فرد بھی اس تقسیم کا شکار ہوکر             split personality ]منقسم شخصیت[کی طرح دو لخت ہو جاتا ہے‘‘۔

اس سے قبل اجتماع کے بعض شرکا عصری نشست میں بھی مولانا سے مل چکے تھے۔ اس موقع پر مولانا نے فرمایا تھا: ’’آپ حکومت سے تو نظام تعلیم میں بہتری لانے اور نصابات کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنے کا مطالبہ بھی جاری رکھیں‘ لیکن اپنے طور پر بھی یہ کام مستقلاً کرتے رہیں‘ تاکہ جب اس کے نفاذ کا موقع آئے تو آپ تہی دست نہ ہوں‘‘۔

نظام امتحان کی خرابیوں کے حوالے سے فرمایا: ’’ایک بار ایک تعلیمی ادارے نے ایک امتحانی پرچہ مجھ سے بھی مرتب کرایا تھا۔ میں نے جو پرچہ بنایا تھا اس کے ساتھ یہ ہدایت بھی کر دی کہ طلبہ دورانِ امتحان کتب خانے سے جو کتاب چاہیں طلب کر کے اس کی مدد سے جواب لکھ سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ پرچہ ایسا تھا کہ نقل کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا تھا‘‘۔

تنظیم اساتذہ کے مندوبین کو یہ مژدہ ملا کہ مولانا ان سے خطاب کریں گے تو لوگ جوق درجوق جامعہ پنجاب کے نئے کیمپس سے مولانا کے مکان پر اچھرہ پہنچے۔ مولانا نے اپنے خطاب میں پہلے اس بات پر معذرت چاہی کہ خرابی صحت کی بنا پر وہ اجتماع گاہ نہیں پہنچ سکے اور مندوبین کو اچھرہ آنے کی زحمت اٹھانی پڑی۔ اس کے بعداستاد کے منصب اور  بطور خاص ایک تحریکی استاد کی ذمہ داریوں کے حوالے سے گفتگو فرمائی اور اپنی ۱۵‘۲۰منٹ کی گفتگو کا اختتام اس اہم نکتے پر کیا‘ کہ ایک نصاب وہ ہوتا ہے جو نصابی کتب میں لکھا ہوتا ہے‘ اور ایک وہ ہوتا ہے جو ایک استاد کے ذہن میں ہوتا ہے۔ اصل اہمیت اس نصاب کی ہے جو استاد کے ذہن میں ہوتا ہے۔ مقصد سے لگن رکھنے والا استاد گیتا سے قرآن پڑھا سکتا ہے۔

اساتذہ ساکت وصامت مولانا کے ایک ایک لفظ کو انتہائی عقیدت سے دل میں اتار اور جز و فکر بنا رہے تھے۔ آخر میںمولانا نے فرمایا: حضرات! اب میری توانائی جواب دے رہی ہے۔ میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی کوششوں میں برکت عطا فرمائے اور آپ کی سعی کو مشکور فرمائے۔ پھر مسنون دعا پر اپنی زندگی کے اس آخری عمومی خطاب کو ختم فرمایا ]دسمبر ۱۹۷۸ئ[۔ مجمع کے ہر فرد کا روشن چہرہ اس فخر کا غماز تھاکہ اسے اپنے محبوب رہنما اور عالم اسلام کے منفرد بطلِ جلیل کا مخاطب ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔