امجد عباسی


اہلِ کشمیر ایک طویل مدت سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے خلاف اور اسلام کی سربلندی اور حق خود ارادیت کے حصول کے لیے عزم و ہمت اور صبرواستقامت سے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں ایک لاکھ کے قریب کشمیری مرد و خواتین، نوجوان اور بچے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں، جب کہ ایک لاکھ سے زائد زخمی و معذور ہوچکے ہیں۔ اتنی ہی تعداد میں مرد و خواتین، نوجوان، بزرگ اور بچے بھارتی غاصب فوج کے ہاتھوں گرفتار، جیلوں، تعذیبی مرکزوں، انٹروگیشن سنٹروں اور ٹارچر سیلوں میں نہایت وحشیانہ اور انسانیت سوز مظالم سے دوچار ہیں جن کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد لاپتا ہے جن کے بارے میں نہیںمعلوم کہ آیا وہ زندہ بھی ہیں یا ہلاک ہوچکے ہیں۔

اس تمام تر جبر اور انسانی حقوق کی پامالی کے باوجود اہلِ کشمیر نے بھارتی جارحیت اور  تہذیبی و ثقافتی یلغار کا منظم انداز میں ایک جامع حکمت عملی سے مقابلہ کیا ہے۔ سیاسی محاذ ہو یا نظریاتی محاذ، تہذیبی و ثقافتی محاذ ہو یا تعلیمی محاذ اور دعوتی محاذہو یا عسکری محاذ___ ہرہرمحاذ پر اہلِ کشمیر نے مسلمانوں کے وجود کو مٹانے کی بھارت کی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور لازوال قربانیوں سے داستانِ عزیمت رقم کی ہے۔

اس تحریکِ آزادی میں خواتین نے بھی مردوں کے شانہ بہ شانہ حصہ لیا ہے اور کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ انھوں نے مردوں کو حوصلہ اور سہارا دیا ہے، اپنے بیٹوں کو جہادکشمیر کے لیے تیار کیا اور بھارتی فوج کے ظلم و جبر اور سفاکیت کو بڑے حوصلے اور ہمت سے برداشت کیا۔ مردوں کے شہید یا لاپتا ہوجانے کے نتیجے میں خواتین کو بہت سے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ وہ نیم بیوہ اور نیم بیوی کی سی کیفیت سے دوچار ہیں۔ انھیں نہیں معلوم کہ خاوند حیات ہیں یا شہید ہوچکے ہیں۔ مائوں کو لاپتا ہوجانے والے بچوں کا انتظار ہے کہ آیا زندوں میں ہیں یا مُردوں میں کہ صبر ہی آجائے۔ مردوں کی عدم موجودگی میں خواتین معاشی بوجھ بھی اُٹھائے ہوئے ہیں۔ وہ لاپتا خاوند کا    ڈیتھ سرٹیفیکیٹ نہیں پیش کرسکتیں کہ پنشن کی وصولی کی کوئی صورت بن سکے، بلکہ باپردہ خواتین بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں اپنے بچوں بالخصوص بچیوں کے تحفظ کے لیے بھی فکرمند اور ہراساں ہیں اور اس کے نتیجے میں ذہنی امراض سے بھی دوچار ہیں۔

ان حالات میں ادبی محاذ پر کشمیری اہلِ قلم نے ظلم کے خلاف بالخصوص خواتین کو درپیش مسائل اور ان کی قربانیوں کو موضوع بناتے ہوئے قلم اُٹھایا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے میں کئی ناول اور رپورٹیں سامنے آئی ہیں جنھوں نے مؤثرانداز میں ظلم کے خلاف آواز بلند کی ہے اور دنیا کو متوجہ  کیا ہے۔ ان میں شہناز بشیر کا ناول Half Mother (نصف ماں)، بشارت پیر کا Curfewed Night (کرفیو کی رات) اور مرزا وحید کا The Collaborater (دشمن سے خفیہ تعاون کرنے والا) معروف ہیں۔ اس کے علاوہ ایک تنظیم ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپیرڈ پرسنز، کے تحت ایک رپورٹ Half Widow, Half Wife(نصف بیوہ، نصف بیوی) بھی سامنے آئی ہے  جس میں براہِ راست خواتین سے رابطہ کر کے ان کے مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ ان خواتین کے مسائل پر مبنی ہے جنھیں نہیں معلوم کہ ان کے خاوند زندہ ہیں یا وفات پاچکے ہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: نیم بیوائیں، نیم بیویاں، ترجمان القرآن، مئی ۲۰۱۲ئ)

’نصف ماں‘ (Half Mother) حال ہی میں سامنے آنے والا ناول ہے جس کے جواں سال مصنف، شہناز بشیر سنٹرل یونی ورسٹی آف کشمیر میں میڈیا اسٹڈیز سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے اپنے ناول میں ۱۹۸۷ء کے انتخابات کے بعد جب اہلِ کشمیر نے سیاسی عمل سے مایوس ہوکر عسکریت کی حکمت عملی کو اپنایا اور ۱۹۹۰ء میں وادی میں مظالم کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا تھا، کو موضوع بنایا ہے۔ مختلف کرداروں کے ذریعے اس دور کے مظالم کی عکاسی کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ۸ہزار لاپتا افراد کے لواحقین بالخصوص مائیں جس کرب اور اذیت سے گزر رہی ہیں، اس کو حلیمہ کے کردار سے نمایاں کیا ہے جس کے جوان بیٹے (عمران) کو بھارتی فوجی اُٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اس دوران اس کا سہارا اور حوصلہ دلانے والا باپ بھی شہید کردیا جاتا ہے۔ وہ بے یارومددگار لیکن ماں کی ممتا کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے بیٹے کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی ہے اور ماری ماری پھرتی ہے۔ پولیس اسٹیشن، جیل، آرمی کیمپ اور ٹارچر سیل اور جہاںتک اس کی رسائی ممکن ہوتی ہے، بیٹے کو تلاش کرتی پھرتی ہے لیکن ناکامی کا منہ ہی دیکھتی ہے۔ یہ خون کے آنسو رُلا دینے والی کہانی ایک کشمیری ماں کے جذبات و احساسات اور اس کے مسائل کی عکاسی کرتے ہوئے قاری کو بہت متاثر کرتی ہے اور سوچنے پر مجبور کردیتی ہے۔

ادبی محاذ پر ایک اور آواز معروف ادیب، مین بُکر پرائز اور سڈنی پیس پرائز کی حامل  ارون دھتی راے کی ہے جو ہندو ہونے کے باوجود کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز اُٹھاتی رہتی ہیں۔ ۲۰۰۸ء میں جب مقبوضہ کشمیر میں امرناتھ منتقلی زمین کا تنازع اُٹھا تھا اور حکومت نے غیرقانونی طور پر کشمیر کی زمین ہندو پنڈتوں کو الاٹ کرنے کی کوشش کی تھی تو پورے کشمیر میں احتجاجی تحریک شروع ہوگئی تھی اور لاکھوں کشمیری اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اس موقعے پر ارون دھتی راے نے کشمیر کا دورہ کیا تھا اور پھر ایک تنقیدی انٹرویو میں چشم دید مشاہدات کی روشنی میں یہ مطالبہ کیا تھا کہ اہلِ کشمیر اگر بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو ان کو علیحدگی کا حق ملنا چاہیے۔ یہ انٹرویو ٹائمز آف انڈیا میں ۸؍اگست ۲۰۰۸ء کو شائع ہوا۔ اس پر انھیں ہندوئوں کی طرف سے سخت احتجاج اور دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ تاہم یہ دبائو انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کوشاں اس ادیبہ کو اہلِ کشمیر کے حق میں آواز بلند کرنے سے نہ روک سکا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح اہلِ کشمیر ادبی محاذ پر سرگرمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، پاکستانی ادیب بھی اپنا فرض ادا کریں۔ افسانہ، ناول اور شاعری کے ذریعے کشمیر کا مقدمہ پیش کریں اور دلوں اور جذبات کی ترجمانی کریں۔ آج سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں آواز پہنچانا بہت سہل ہوگیا ہے۔ اہلِ کشمیر اگر اپنے خون کی سرخی سے تاریخ رقم کر رہے ہیں، تو کیا پاکستانی اہلِ قلم  کا فرض نہیں کہ وہ بھی اپنے قلم کی سیاہی سے کچھ قرض ادا کریں۔

 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی آمد کا شدت سے انتظار فرماتے تھے۔ رمضان کے لیے شعبان کا چاند دیکھنے کا خصوصی اہتمام فرماتے اور اس کی تاکید بھی کرتے تھے تاکہ پورے اہتمام سے رمضان کا آغاز کیا جاسکے۔ نبی کریم ؐ کا معمول تھا کہ رمضان کی آمد سے قبل اس ماہ کی اہمیت و فضیلت کے پیش نظر صحابہ کرامؓ کو نصیحت فرماتے تھے، تاکہ اہلِ ایمان اس مبارک ماہ کی برکات سے بھرپور استفادہ کرسکیں اور اس کے لیے اپنے آپ کو تیار کرسکیں، اور بھلائی کے طالب آگے بڑھ سکیں۔

  •  حضرت سلمان فارسیؓ روایت کرتے ہیں کہ شعبان کی آخری تاریخ کو خطبہ دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! تم پر ایک بڑا بابرکت مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ یہ بڑی برکت والا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے (اس کے) روزے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں کے قیام (تراویح) کو نفل قرار دیا ہے۔ جس شخص نے اس مہینے میں کوئی نیکی کرکے اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی، تو وہ اس شخص کے مانند ہے جس نے دوسرے دنوں میں کوئی فرض ادا کیا اور جس نے اس مہینے میں ایک فرض ادا کیا تو وہ ایسا ہے جیسے دوسرے دنوں میں اس نے ۷۰فرض ادا کیے۔
  •  رمضان صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے۔ اور یہ ایک دوسرے سے ہمدردی کرنے کا مہینہ ہے۔ اگر کوئی شخص اس میں کسی روزہ دار کا روزہ کھلوائے تو وہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور اس کی گردن کو دوزخ کی سزا سے بچانے کا ذریعہ ہے، اور اس کے لیے اتنا ہی اجر ہے جتنا اس روزہ دار کے لیے روزہ رکھنے کا، بغیر اس کے کہ اس روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی واقع ہو۔ اللہ تعالیٰ یہ اجر اس شخص کو (بھی) دے گا جو کسی روزہ دار کو دودھ کی لسّی سے روزہ کھلوا دے، یا ایک کھجور کھلا دے، یا ایک گھونٹ پانی پلادے۔(بیہقی)
  •  لیلۃ القدر کی اہمیت اُجاگر کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا: جو اس سے محروم رہ گیا وہ تمام کی تمام بھلائی سے محروم رہ گیا اور اس کی بھلائی سے وہی محروم رہتا ہے جو ہے ہی بدنصیب! (ابن ماجہ)
  •  آپؐ نے فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے، تو اس کے وہ سب گناہ معاف کر دیے جائیں گے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے۔ اور جس شخص نے رمضان میں ایمان اور احتساب کے ساتھ قیام کیا (یعنی راتوں کو کھڑے ہوکر عبادت کی) تو اس کے وہ قصور معاف کر دیے جائیں گے جو اس نے پہلے کیے ہوں گے۔ (متفق علیہ)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان خطبات اور ارشادات سے رمضان کی فضیلت اور اہمیت بخوبی اُجاگر ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ خوش نصیب ہے وہ جو اس مبارک ماہ کی قدر جانے اور اس کی برکات سمیٹنے کے لیے مقدور بھر کوشش کرے۔

رمضان اللہ کی بندگی اور حصولِ تقویٰ کا خصوصی موقع ہے۔ صلوٰۃ اور قیامِ لیل وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ کا قرب حاصل کیا جاسکتا ہے۔ قرآنِ مجید قربِ الٰہی اور تقویٰ کے حصول کا وہ  نسخۂ ہدایت ہے جو تزکیہ و تربیت اور صراطِ مستقیم پر استقامت کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے بہترین سہارا ہے۔ پھر یہ مہینہ اپنے بھائیوں سے ہمدردی کرنے اور اللہ کی راہ میں انفاق کا مہینہ ہے۔

  •  احساسِ بندگی: رمضان کا اولین تقاضا اللہ کی بندگی کا احساس اُجاگر کرنا ہے۔ روزہ محض بھوک یا پیاس کا نام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی مشق ہے۔ لہٰذا رمضان کی آمد سے قبل اس بات کا جائزہ لیں کہ کیا ہم زندگی کے ہرمعاملے میں اللہ کی بندگی کر رہے ہیں؟ کیا ہم اپنے نفس، خاندان، برادری، معاشرتی رسوم و رواج کو اللہ کے احکام پر فوقیت تو نہیں دے رہے؟ ایک مسلمان کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ کی مکمل بندگی کے لیے اپنے آپ کو تیار کیجیے۔ دو رنگی اور منافقت کی روش کو ترک کیجیے۔ اس کے نتیجے میں رمضان المبارک میں احساسِ بندگی مزید تقویت پائے گا اور روزے کے اصل مقصد کے حصول اور رمضان کی برکات کو سمیٹنے میں مدد ملے گی۔
  •  شعور کے ساتھ نماز: نماز احساسِ بندگی کا عملاً مظاہرہ ہے۔ روزمرہ مصروفیات کو ترک کرکے نماز باجماعت کی ادایگی اللہ کی اطاعت کی عملی مشق ہے۔ نماز کو شعوری طور پر ادا کیا جائے۔ نماز میں پڑھے جانے والے کلمات کا مفہوم سیکھ لیجیے تاکہ پوری یکسوئی سے نمازا دا کی جاسکے۔ دورانِ نماز اپنا جائزہ لیجیے کہ کیا میں صحیح معنوں میں اللہ کی بندگی کر رہا ہوں؟ اس جائزے کے نتیجے میں تزکیۂ نفس ہوگا۔ خلافِ اسلام روش کو ترک کرنے، بُرائی اور فحش کام سے بچنے کی باربار ترغیب ملے گی۔ اس طرح رمضان میں پورے شعور کے ساتھ نماز ادا کرنے کا موقع ملے گا اور تقویٰ اور پرہیزگاری کا حصول ممکن ہوسکے گا۔ نماز کس طرح سے تزکیۂ نفس اور تربیت کرتی ہے یہ جاننے کے لیے سیّدمودودی کی خطبات، اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر ، نیز دعوتِ اسلامی اور اس کے مطالبات میں سے میاں طفیل محمد کی نماز پر تحریر کا مطالعہ مفید ہوگا۔

نوافل خصوصاً نمازِ تہجد کا اہتمام کیجیے۔ دورانِ نماز قرآنِ مجید کو خشوع و خضوع سے پڑھیے۔ آیات پر غور کیجیے، اپنا جائزہ لیجیے اور احکامات پر عمل کی توفیق و دُعا مانگیے۔ تہجد میں ٹھیرٹھیر کر اور  تدبر اور غوروفکر سے تلاوتِ قرآن سے حقیقی لذتِ ایمان میسر آتی ہے۔ نبی کریمؐ اور صحابہ کرامؓ کا تزکیہ و تربیت کا اہم ذریعہ ترتیل قرآن اور قیامِ لیل تھا۔

  •  قرآن فھمی:رمضان قرآن کا مہینہ ہے۔ رمضان میں قیامِ لیل (صلوٰۃ التراویح) کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے۔ قرآن کی سفارش کا مستحق بننے کے لیے قرآن سے خصوصی تعلق قائم کیجیے۔ قرآنی عربی سیکھنے کے لیے کورس کیجیے یا انٹرنیٹ پر کسی کورس سے استفادہ کرکے اتنی عربی سیکھ لیجیے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اس کا مفہوم آپ کے ذہن میں آجائے۔ یہ کوئی زیادہ مشکل کام نہیں۔ تھوڑی سی مشق سے یہ مہارت حاصل کی جاسکتی ہے۔ قرآنِ مجید کی ہدایات سے مستفید ہونے،اس کی لذت اور تاثیر سے صحیح معنوں میں فائدہ تب ہی اُٹھایا جاسکتا ہے جب آیاتِ قرآنی کا مفہوم جانا جائے۔ پھر ان آیات کی روشنی میں اللہ کی ہدایت کے مطابق عمل کیا جائے۔ تراویح سے قبل ترجمۂ قرآن پڑھنا اور خلاصۂ قرآن کے ذریعے بھی اس تعلق کو مزید مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔
  •  صلہ رحمی اور اِنفاق: رمضان ہمدردی اور اِنفاق کا مہینہ بھی ہے۔ روزے سے بھوک پیاس اور غربت و افلاس کا احساس شدت سے ہوتا ہے۔ لہٰذا اپنے عزیز و اقارب، دوست احباب، پڑوسیوں اور اہلِ محلہ کی ضروریات کا خیال کیجیے۔ بیماروں کی عیادت کیجیے۔ علاج کے لیے ادویات کی ضرورت ہو تو فراہم کیجیے۔ مالی پریشانی کا سامنا ہو تو ازالے کی صورت بنایئے۔ اس کے لیے دوست احباب کو بھی توجہ دلایئے اور باہمی تعاون سے انفاق کیجیے۔سفیدپوش مستحقین کو تلاش کرکے ان کا حق ان تک پہنچایئے۔ اس بات کا خیال رکھیے کہ کسی کی عزتِ نفس مجروح نہ ہو اور نہ کسی پر احسان جتانے کی کوشش کیجیے کہ اس طرح سے دیے جانے والے صدقات برباد ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کو قبول نہیں فرماتا۔ اپنے گھر پر درسِ قرآن یا مطالعۂ قرآن کا اہتمام کیجیے تاکہ دین کی تعلیمات پہنچانے کا فریضہ انجام دیا جاسکے اور سادگی سے روزہ کھلوایئے۔
  •  دعوتِ دین اور اصلاحِ معاشرہ: ہمدردی اور خیرخواہی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اپنے بھائیوں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلایا جائے۔ خوبیوں کو اپنانے اور خرابیوں و کوتاہیوں کو ترک کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے۔ نیز جہنم کی آگ سے بچنے کی تلقین کی جائے۔ رمضان کا احترام کرتے ہوئے معاشرے میں پائی جانے والی اخلاقی خرابیوں کو روکا جائے اور اس کے لیے اجتماعی کوشش کی جائے۔

کرپشن اور بدعنوانی جو ناسور بن چکا ہے اور رشوت اور رزق حرام کا ذریعہ ہے۔ اس کے خاتمے کے لیے لوگوں کو توجہ دلایئے کہ معاشرے میں پھیلنے والی خرابی کو اگر نہ روکا جائے تو بالآخر    یہ فسادِ عظیم بن جاتی ہے، بربادی اور خدا کے عذاب کا مستحق بنادیتی ہے۔ اُمت مسلمہ کو تو کھڑا ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ نیکی کا حکم دیتی ہے اور بُرائی سے روکتی ہے۔ اصلاحِ معاشرہ اور غلبۂ دین کے لیے کوشش کیجیے۔ رمضان، نیکیوں کے موسمِ بہار میں یہ فریضہ بہ حسن و خوبی ادا کیا جاسکتا ہے۔

  •  دُعا: رمضان کا مہینہ آتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتا تھا اور نماز میں اضافہ ہوجاتاتھا، اور دُعا میں بہت عاجزی فرماتے تھے (دُرِ منثور)۔لہٰذا دعائوں کا خصوصی اہتمام کیجیے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجیے کہ وہ رمضان کی خیروبرکات کو بہترین انداز میں سمیٹنے کی توفیق دے۔ ایمان اور احتساب کے ساتھ روزے رکھنے کی توفیق دے۔ ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کرے اور نیکی کی راہ پر استقامت دے۔ صحیح معنوں میں عبادت و بندگی کی توفیق دے۔ قرآن سے حقیقی تعلق قائم کرنے اور اس کی ہدایات کے مطابق عمل اور دوسروں تک اس کا پیغام پہنچانے کی توفیق دے، نیز ضرورت مند اور مستحقین تک پہنچ کر اُن کا حق ادا کرنے کی توفیق دے اور ان سب کے نتیجے میں ہماری مغفرت کا سامان اور جہنم سے نجات اور جنت کا مستحق ٹھیرا دے، آمین!

اللہ کی مدد کب آتی ہے؟

اللہ تعالیٰ اپنے جن بندوں کے ذریعے اپنے دین کو سربلند کرتا ہے ان کے بارے میں   اس کی سنت یہی ہے کہ وہ انھیں آزمایش کی بھٹی سے گزار کر ان کی تربیت کرتا ہے اور کندن بناتا ہے اور اپنی مدد و نصرت سے بالآخر ان کے ہاتھوں دین کو غلبہ عطا کرتا ہے۔ یہ سنت انبیاے کرام ؑ، رسولِ اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام اہلِ ایمان کے لیے عام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصائب و آلام سے پریشان ہوکر انبیا اور اہلِ ایمان پکار اُٹھتے ہیں: مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ (البقرہ ۲:۲۱۴) ’’اللہ کی مدد کب آئے گی؟‘‘جب اہلِ ایمان آزمایش میں استقامت و ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو پھر اللہ اپنا وعدہ پورا کرتا ہے اور اس کی مدد آجاتی ہے اور فرمایا جاتا ہے: اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ o(البقرہ ۲:۲۱۴) ’’سنو! اللہ کی مدد قریب ہے‘‘۔

اللّٰہ کی مدد کا قانون

’’اللہ کی مدد ان لوگوں کے لیے ہے جو اس کے مستحق ہیں۔ اس کی نصرت کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جو آخر تک ثابت قدم رہیں، جو شدائد و آلام میں ثابت قدمی دکھائیں، جو ہلا ڈالنے والی مصیبتوں کے مقابلے میں چٹان ثابت ہوں، جن کے سر طوفانوں کے آگے نہ جھکیں، جنھیں اس بات کا یقین ہو کہ مدد صرف اللہ کی مدد ہے اور وہ اس وقت آتی ہے جب اللہ چاہتا ہے، اور جب آزمایش اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے وہ صرف اللہ کی نصرت کے منتظر ہوتے ہیں، کسی اور حل کے نہیں اور نہ کسی اور مدد کے، جو اللہ کی طرف سے نہ آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ مدد اور نصرت اللہ ہی کی طرف سے ہے۔

اس کے نتیجے میں اہلِ ایمان جنت میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ جہاد، آزمایش، صبروثبات، اللہ کے لیے یکسوئی و اخلاص، صرف اللہ کے تصور اور اس کے سوا ہر شے اور ہرشخصیت سے صرفِ نظر کے بعد جنت کے مستحق و سزاوار ہوتے ہیں۔

کش مکش اور اس میں صبرواستقامت سے نفوس کو قوت و رفعت ملتی ہے۔ مصائب و آلام کی کٹھالی میں وہ تپ تپ کر پاک صاف ہوتے اور ان کا جوہر روشن و مصفٰی ہوجاتا ہے۔ اس سے ان کے عقیدے میں گہرائی، قوت اور زندگی پیدا ہوتی ہے، یہاں تک کہ اس کی آب و تاب سے مخالفوں اور دشمنوں کی نظریں خیرہ ہوجاتی ہیں اور وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے لگتے ہیں___ جیساکہ واقع ہوا اور جیساکہ ہرحق کے معاملے میں ہوتا ہے۔ ابتدا میں اہلِ حق ہر طرح کے حالات سے دوچار ہوتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ آزمایش میں ثابت قدم رہتے ہیں تو ان سے جنگ کرنے والے خود ان کے دائرے میں آجاتے ہیں اور ان کے بدترین دشمن ان کے معاون و مددگار بن جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک اور چیز جو حقیقت کے اعتبار سے اس سے بھی بڑھ کر ہے وہ یہ ہے کہ دعوتِ حق کے حاملین کی اَرواح زمین کی تمام قوتوں اور اس کے تمام شرور و فتن سے بلند ہوجاتی ہیں۔ وہ سہولت پسندی و راحت طلبی ہی نہیں، آخرکار خودزندگی کی حرص سے آزاد ہوجاتی ہیں۔ یہ آزادی کمائی ہے پوری انسانیت کے لیے۔ یہ کمائی ہے ان اَرواح کے لیے، جو اس تک دنیا سے بے نیازی کی راہ سے پہنچتی ہیں۔ یہ کمائی ان تمام مصائب و آلام اور شدائد و مشکلات سے___ جن سے اہلِ ایمان، جو اللہ کے پرچم، اس کی امانت، اس کے دین اور اس کی شریعت کے حامل ہیں، دوچار ہوتے ہیں___ زیادہ وزنی ہے۔

یہ آزادی آخرکار انسان کو جنت کا اہل بناتی ہے۔ درحقیقت یہی جنت کا راستہ ہے!

وہ راستہ کیا ہے؟ ایمان وجہاد، ابتلا و آزمایش، صبروثبات اور صرف اللہ کی طرف توجہ، پھر اللہ کی مدد آتی ہے۔ پھر جنت اور اس کی نعمتیں استقبال کرتی ہیں‘‘۔(سیّد قطب شہیدؒ، فی ظلال القرآن، ج۱، ترجمہ سیّد حامد علی، ص ۵۳۳)

غزوۂ بدر اور یوم الفرقان

غزوئہ بدر وہ معرکہ ہے جسے یوم الفرقان، یعنی حق اور باطل کا فرق کردینے والا دن بھی کہا جاتا ہے۔ یہ آزمایش اتنی کڑی تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی آہ و زاری کے ساتھ اپنے رب کو پکارا اور فریاد کی کہ: ’’خداوندا بس اب آجائے تیری وہ مدد جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا، اے خدا اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو روے زمین پر پھر تیری عبادت نہ ہوگی‘‘۔ گویااس آزمایش کے موقعے پر نبی اکرمؐ کے بس میں جو کچھ تھا وہ آپؐ نے پیش کر دیا اور پھر اللہ سے نصرت چاہی۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کن حالات کا سامنا تھا اور آپؐ کس آزمایش سے دوچار تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ’’ آپؐ نے محسوس فرمایاکہ فیصلے کی گھڑی آپہنچی ہے اور یہ ٹھیک وہ وقت ہے، جب کہ ایک جسورانہ اقدام اگر نہ کرڈالا یا تو تحریکِ اسلامی ہمیشہ کے لیے   بے جان ہوجائے گی، بلکہ بعید نہیں کہ اس تحریک کے لیے سر اُٹھانے کا پھر کوئی موقع ہی باقی نہ رہے۔

نئے دارالہجرت میں آئے ابھی پورے دو سال بھی نہیں ہوئے ہیں۔ مہاجرین بے سروسامان، انصار ابھی ناآزمودہ، یہودی قبائل برسرِ مخالفت، خود مدینہ میں منافقین و مشرکین کا ایک اچھا خاصا طاقت ور عنصر موجود، گردوپیش کے تمام قبائل قریش سے مرعوب بھی اور مذہباً ان کے ہمدرد بھی۔ ایسے حالات میں اگر قریش مدینہ پر حملہ آور ہوجائیں تو ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت کا خاتمہ ہوجائے۔ لیکن اگر وہ حملہ نہ کریں اور صرف اپنے زور سے قافلے کو بچاکر ہی نکال لے جائیں اور مسلمان دبکے بیٹھے رہیں تب بھی یک لخت مسلمانوں کی ایسی ہوا اُکھڑے گی کہ عرب کا بچہ بچہ ان پر دلیر ہوجائے گا اور ان کے لیے ملک بھر میں پھر کوئی جاے پناہ باقی نہ رہے گی۔ آس پاس کے سارے قبائل قریش کے اشاروں پر کام کرنا شروع کردیں گے۔ مدینہ کے یہودی اور منافقین و مشرکین علی الاعلان سر اُٹھائیں گے اور دارالہجرت میں جینا مشکل کردیں گے۔ مسلمانوں کا کوئی رعب و اثر نہ ہوگا کہ اس کی وجہ سے کسی کو ان کی جان، مال اور آبرو پر ہاتھ ڈالنے میں تامل ہو۔ اس بناپر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عزم فرما لیا کہ جو طاقت بھی اس وقت میسر ہے اسے لے کر نکلیں اور میدان میں فیصلہ کریں کہ جینے کا بل بوتا کس میں ہے اور کس میں نہیں ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص۱۲۴)

اللّٰہ کی مدد

۱۷رمضان ۲ ہجری میں بدر کے میدان میں پیش آنے والا یہ معرکہ کوئی معمولی معرکہ نہ تھا۔ ایک طرف ایک ہزار کا لشکرِ جرّار تھا اور دوسری طرف ۳۱۳ ؍ اہلِ ایمان تھے جن کی بے سروسامانی کا یہ عالم تھا کہ دو تین کے پاس گھوڑے تھے اور باقی آدمیوں کے لیے ۷۰ اُونٹوں سے زیادہ نہ تھے جن پر تین تین اور چار چار اشخاص باری باری سوار ہوتے تھے۔ سامانِ جنگ بھی ناکافی تھا۔ صرف ۶۰ آدمیوں کے پاس زرہیں تھیں۔ تین کافروں کے مقابلے میں ایک مسلمان تھا اور وہ بھی پوری طرح مسلح نہ تھا۔ گویا یہ موت کے منہ میں جانے کے مترادف تھا۔

اس موقعے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اپنی مدد اور نصرت سے نوازا اور نبی کریمؐ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اور وہ موقع، جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمھاری مدد کے لیے پے درپے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔ یہ بات اللہ نے تمھیں صرف اس لیے بتا دی کہ تمھیں خوش خبری ہو اور تمھارے دل اس سے مطمئن ہوجائیں، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، یقینا اللہ زبردست اور توانا ہے۔

اور وہ وقت، جب کہ اللہ اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بے خوفی کی کیفیت طاری کر رہاتھا ، اور آسمان سے تمھارے اُوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمھیں پاک کرے اور  تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دُور کرے اور تمھاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعے سے تمھارے قدم جما دے۔

اور وہ وقت، جب کہ تمھارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ ’’میں تمھارے ساتھ ہوں،  تم اہلِ ایمان کو ثابت قدم رکھو، میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں، پس تم ان کی گردنوں پر ضرب اور جوڑجوڑ پر چوٹ لگائو‘‘۔یہ اس لیے کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کا مقابلہ کیا اور جو اللہ اور رسولؐ کا مقابلہ کرے اللہ اس کے لیے نہایت سخت گیر ہے....

پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انھیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور تو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا (اور مومنوں کے ہاتھ جو اس کام میں استعمال کیے گئے) تو یہ اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمایش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے، یقینا اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘۔(الانفال ۸: ۹-۱۳، ۱۷)

قرآنِ مجید میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غزوئہ بدر میں اہلِ ایمان کی کس طرح مدد کی۔ ان کی ہیبت دشمن پر طاری کردی اور دشمنانِ اسلام کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود اہلِ ایمان کو کم دکھائی۔بارش کے ذریعے مسلمانوں کے قدم جما دیے اور کفار کی طرف زمین میں کیچڑ سے پائوں دھنسنے لگے۔ خود فرشتوں نے اہلِ ایمان کی قتال میں مدد کی۔ جب مسلمانوں اور کفار کے لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی بھر ریت ہاتھ میں لے کر شاھت الوُجُوہ (چہرے بدنما ہوجائیں)کہہ کر پھینکی اور مسلمان یکبارگی کفار پر حملہ آور ہوگئے اور بالآخر سرخرو ہوئے۔

اھلِ ایمان کی کڑی آزمایش

’’اس معرکۂ کارزار میں سب سے زیادہ سخت امتحان مہاجرینِ مکہ کا تھا جن کے اپنے   بھائی بند سامنے صف آرا تھے۔ کسی کا باپ، کسی کا بیٹا، کسی کا چچا، کسی کا ماموں، کسی کا بھائی، اس کی اپنی تلوار کی زد میں آرہا تھا اور اپنے ہاتھوں اپنے جگر کے ٹکڑے کاٹنے پڑ رہے تھے۔ اس کڑی آزمایش سے صرف وہی لوگ گزر سکتے تھے جنھوں نے پوری سنجیدگی کے ساتھ حق سے رشتہ جوڑا اور جو باطل کے ساتھ سارے رشتے قطع کر ڈالنے پر تُل گئے ہوں۔

 انصار کا امتحان بھی کچھ کم سخت نہ تھا۔ اب تک تو انھوں نے عرب کے طاقت ور ترین قبیلے، قریش اور اس کے حلیف قبائل کی دشمنی صرف اسی حد تک مول لی تھی کہ ان کے علی الرغم مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دے دی تھی۔ لیکن اب تو وہ اسلام کی حمایت میں ان کے خلاف لڑنے بھی جارہے تھے جس کے معنی یہ تھے کہ ایک چھوٹی سی بستی جس کی آبادی چند ہزار نفوس سے زیادہ نہیں ہے، سارے ملک عرب سے لڑائی مول لے رہی ہے۔

یہ جسارت صرف وہی لوگ کرسکتے تھے جو کسی صداقت پر ایسا ایمان لے آئے ہوں کہ اس کی خاطر اپنے ذاتی مفاد کی انھیں ذرہ برابر پروا نہ رہی ہو۔ آخرکار ان لوگوں کی صداقت ِ ایمانی خدا کی طرف سے نصرت کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور قریش اپنے سارے غرورِ طاقت کے باوجود ان بے سروسامان فدائیوں کے ہاتھوں شکست کھاگئے۔ ان کے ۷۰ آدمی مارے گئے، ۷۰ قید ہوئے اور ان کا سروسامان غنیمت میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ قریش کے بڑے بڑے سردار جو ان کے گل ہاے سرسَبد اور اسلام کی مخالف تحریک کے روحِ رواں تھے اس معرکے میں ختم ہوگئے اور اس فیصلہ کن فتح نے عرب میں اسلام کو ایک قابلِ لحاظ طاقت بنا دیا۔ جیساکہ ایک مغربی محقق نے لکھا ہے، ’’بدر سے پہلے اسلام محض ایک مذہب اور ریاست تھا، مگر بدر کے بعدوہ مذہب ِ ریاست بلکہ خود ریاست بن گیا‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص ۱۲۶-۱۲۷)

آج بھی معرکۂ حق و باطل برپا ہے۔ اہلِ ایمان، اہلِ باطل اور اسلام مخالف قوتوں کے تمام تر جبر، ظلم و ستم، سفاکیت اور سازشوں کے اسلام کے غلبے کی جدوجہد کو منظم انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس راہ میں جان و مال کی قربانیاں دے رہے ہیں، کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی منتظر ہے! شہدا کی یہ ایسی فصل ہے جو ایک طرف شہادتِ حق کے علَم برداروں کی ہے جو حق کی گواہی دے رہے ہیں، اور دوسری طرف اپنی جان راہِ خدا میں لٹاکر شہادت کی منزل پانے والوں کی ہے۔ تمام تر سفاکیت کے باوجود یہ فصل کٹنے میں نہیں آرہی، بلکہ عزیمت و استقامت کی ایک ایسی داستان ہے جو اہلِ ایمان اپنے خون سے رقم کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دشمن کی سازشوں سے بچتے ہوئے اور پاے استقامت میں لغزش لائے بغیر اس جدوجہد کو جاری رکھا جائے۔ اللہ کی راہ میں جہاد، آزمایش، صبروثبات، اللہ کے لیے یکسوئی و اخلاص اور اللہ کے سوا ہرشے اور ہرشخصیت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جدوجہد جاری رکھنا ہی جنت کا راستہ اور نصرتِ الٰہی کے قانون اور اللہ کے وعدے کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ بقول اقبال:

دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش

تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارا

اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا

ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا

(ارمغانِ حجاز)

حضرت ابویوسف عبداللہ بن سلامؓ مدینہ کے مشہور علماے احبار (یہودی علما) میں سے تھے۔ رسولِ اکرمؐ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہ بھی آپؐ کے دیدار کے لیے گئے۔ انھوں نے آپؐ کا چہرۂ انور دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہوسکتا اور اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔ ان کا نام حصین تھا جسے بدل کر آپؐ نے عبداللہ رکھا۔

حضرت عبداللہ بن سلامؓ سے روایت ہے کہ میں نے مدینہ میں جو پہلی گفتگو نبی کریمؐ سے سنی وہ یہ روایت تھی۔ گویا یہ وہ پہلی ہدایات تھیں جو اہلِ مدینہ کو دی گئیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے لوگو! سلام کو عام کرو، کھانا کھلائو، صلۂ رحمی کرو اور رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو۔ (ایسا کرنے کی صورت میں) سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجائو گے‘‘۔ (احمد، ترمذی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جوامع الکلم کی خصوصیت سے نوازا تھا۔ آپؐ   مختصر گفتگو فرماتے تھے لیکن وہ اختصار و جامعیت کا شاہکار ہوتی اور اپنے اندر گہرے مفاہیم و معنی رکھتی تھی۔ آپؐ کے اکثر خطبے مختصر اور جامع ہوتے تھے۔ ایسی ہی گفتگو کا نمونہ یہ روایت بھی ہے، جو مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر وسیع مفاہیم اور نکات کو سموئے ہوئے ہے۔ یہی وہ ہدایات ہیں جنھوں نے اہلِ مدینہ پر اسلام اور مسلمانوں کا ایسا گہرا تاثر چھوڑا کہ ان کے دل اسلام کے لیے کھلتے چلے گئے اور فی الواقع مدینہ میں اسلامی انقلاب کی بنیاد پڑگئی۔

  • سلام کوعام کرو: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کی روشنی میں مسلمانوں نے سلام کو شعار بنالیا۔ ملاقات پر ایک دوسرے کو سلام کہتے اور پھر آپؐ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ہرایک کو سلام کرو چاہے اسے پہچانتے ہو یا نہیں پہچانتے۔ سلام سلامتی کی دُعا، محبت کا اظہار اور  ایک دوسرے کی خیریت جاننے کا ذریعہ ہے۔اس اقدام کے نتیجے میں اہلِ مدینہ نے یہ جان لیا کہ مسلمان مخلص اور خیرخواہ ہیں۔ انھیں ہم سے کوئی لالچ نہیں بلکہ ہمارے سچّے ہمدرد ہیں جو پریشانی اور مشکل میں ہمارے کام آتے ہیں۔ یہ سلام کو عام کرنے اور اخلاص و خیرخواہی کا نتیجہ تھا۔
  •  کہانا کہلاؤ:آپؐ کی دوسری ہدایت تھی کہ ایک دوسرے کو کھانا کھلائو۔ اس کے نتیجے میں صحابہ کرامؓ کو یہ فکر لاحق ہوتی کہ ہمارے گردوپیش اور ہمسایے میں کوئی بھوکا نہ رہے۔ پھر باہمی محبت کے اظہار کے لیے بھی ایک دوسرے کو مہمان کرتے کہ آج چند لقمے میرے ساتھ کھائیں۔ اس سے جہاں ایک دوسرے کی خیریت سے آگہی ہوتی وہاں اللہ کے دین کی طرف دعوت بھی دی جاتی۔ پھر نبی کریمؐ نے یہ ہدایت بھی دی تھی کہ وہ شخص مومن نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے(مسلم)۔نبی کریمؐ نے مکہ میں جب دعوت کا آغاز کیا تھا تو اہلِ قریش کو کھانے کی دعوت پر بلایا تھا۔ کھانے یا چائے کی دعوت سے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ سرسری گفتگو سے نہیں ہوتے۔ لہٰذا دعوتِ دین میں اس پہلو کو بھی سامنے رکھنا چاہیے۔ اس عمل نے لوگوں کو متاثر کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
  •  صلۂ رحمی کرو:نبی کریمؐ نے اپنی ابتدائی ہدایات میں اہلِ مدینہ کو یہ ہدایت بھی دی کہ وہ صلۂ رحمی کریں۔سلام کو عام کرنے اور کھانا کھلانے سے جہاں مسلمانوں کے خلوص اور خیرخواہی کا جذبہ عام ہوا وہاں صلۂ رحمی نے اس تاثر کو مزید گہرا کیا۔ پریشان حال اور مصیبت زدوں کی مدد کے لیے مسلمان بے قرار رہتے۔ اس کے نتیجے میں ایثار کے جذبے نے فروغ پایا۔ ایک مسلمان اپنے اُوپر دوسرے کی حاجت کو ترجیح دیتا۔ صلۂ رحمی اور ایثار کے نمونے جابجا لوگوں کے دیکھنے میں آئے۔ نبی کریمؐ نے یہ ہدایت بھی دی تھی کہ راستے کی تکلیف دہ چیز کو دُور کردینا بھی  صلۂ رحمی ہے اور اپنے بھائی کو مسکرا کر ملنا بھی صدقہ ہے۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے: ’’اور اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (اور کہتے ہیں کہ) ہم تمھیں صرف اللہ کی خاطر کھلا رہے ہیں۔ ہم نہ تم سے کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ شکریہ ‘‘۔(الدھر ۷۶: ۸-۹)

اہلِ مدینہ کو جس چیز نے سب سے بڑھ کر متاثر کیا وہ مواخات کا عمل تھا۔ مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد سے اہلِ مدینہ کو جن مسائل کا سامنا تھا اس کا حل نبی کریمؐ  نے ایک مہاجر اور ایک انصاری کو ایک دوسرے کا بھائی بناکر جس طرح سے کیا، اور پھر انصار نے   اپنے مہاجر بھائیوں کی ضروریات کا جس طرح سے خیال رکھا اور ان کو اپنے اُوپر ترجیح دی، اس خلوص، خیرخواہی، صلۂ رحمی نے یقینا اہلِ مدینہ کے دل مسلمانوں کے لیے کھول دیے ہوں گے۔ اسلامی معاشرت کی اس جیتی جاگتی تصویر نے قبولِ اسلام کے لیے راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

  •  تھجد پڑہو: اس روایت میں نبی کریمؐ نے مسلمانوں کو آخری ہدایت یہ دی کہ رات کو جب لوگ سو رہے ہوں تو نماز پڑھو، یعنی نمازِ تہجد ادا کرو۔ رات کی تنہائیوں میں تہجد اداکرنے سے قربِ الٰہی کے ساتھ ساتھ اخلاص میں اضافہ ہوتا ہے۔ سلام کو عام کرنا، کھانا کھلانا اور صلۂ رحمی، سب اللہ کی رضا کے حصول اور خلوص کے اظہار کا ذریعہ ہیں۔ تہجد کی ادایگی اس کیفیت میں مزید اضافے کا باعث ہوتی ہے۔ جب مسلمان راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر قیامِ لیل کرتے ہوں گے، قرآن پڑھتے ہوں گے اور خلوصِ دل  سے دُعا کرتے ہوں گے تو اس سے اہلِ مدینہ پر مسلمانوں کے خلوص کا نقش مزید گہرا ہوتا چلاگیا ہوگا اور ان کے اخلاص میں کسی قسم کا شبہہ باقی نہ رہا ہوگا۔ پھر یہ کیسے ممکن تھا کہ ایسے مخلصین کا وہ دل و جان سے ساتھ نہ دیتے۔

ان ہدایات کے آخر میں آپؐ نے ان سب اعمال کے نتیجے میں سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہونے کی ضمانت بھی دی ہے۔

  •  مثالی اسلامی بستی بنایئے:نبی کریمؐ ۱۳ برس تک مکہ میں دعوتِ دین دیتے رہے لیکن بہت کم لوگوں نے اسلام قبول کیا، تاہم ہجرتِ مدینہ کے بعد قبولیت اسلام میں اضافہ ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ نبی کریمؐ جس دین اور معاشرت کی دعوت دے رہے تھے لوگوں نے مدینہ کی بستی کی شکل میں اس کا عملی نمونہ دیکھ لیا تھا۔ صحابہ کرامؓ کا خلوص اور کردار ان کی نگاہوں کے سامنے تھا۔

آج بھی ضرورت ہے کہ مثالی اسلامی بستی کا نمونہ پیش کیا جائے تاکہ لوگ عملاً اسلامی معاشرت کی برکات دیکھ سکیں۔ اگر کسی بستی کے لوگ یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم اپنی بستی کے لوگوں کی خدمت کریں گے۔ ہماری بستی میں کوئی بھوکا ننگا ، بیمار یا پریشان حال ہوگا تو ہم اس کی بے غرض مدد کریں گے۔ وہ اپنے آپ کوتنہا نہ پائے گا، تو یقینا اس پُرخلوص جدوجہد کے اثرات بہت جلد سامنے آئیں گے۔ اگر اس کام کو منظم انداز میں مختلف بستیوں میں کیا جائے تو پھر اس ملک میں اسلامی انقلاب کو برپا ہونے سے کون روک سکتا ہے۔

اگر نماز کو اس کی حقیقی روح اور شعوری تقاضوں کے مطابق ادا کیا جائے تو یہ بھی اصلاحِ معاشرہ اور انقلاب اسلامی کا اہم ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے۔ نماز جہاں اللہ کی بندگی و اطاعت کی عملی تربیت کا ذریعہ ہے وہاں تزکیۂ نفس اور احتساب و جائزے کا ذریعہ بھی۔ نماز صلۂ رحمی بھی سکھاتی ہے۔  صحابہ کرامؓ میں سے کوئی نماز کے لیے نہ آپاتا تو وہ اس کی خبرگیری کے لیے جاتے، کوئی بیمار پڑجاتا تو عیادت کرتے، اور پریشان حال ہوتا تو اس کی پریشانی کے ازالے کی فکر کرتے۔ ہم سال ہا سال ایک مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں لیکن ایک نمازی دوسرے نمازی سے واقف نہیں ہوتا۔ اگر نماز کی اس روح کو زندہ کیا جائے اور اگر کوئی نمازی بیمار پڑجائے تو اس کی عیادت کو جائیں، اور کوئی حاجت ہو تو اسے پورا کرنے کی فکر کریں، تو ایسی بے لوث نیکی اور ایسا خلوص و محبت کیا دلوں کو بدل کر نہیں رکھ دے گا۔ مسلمان دن میں پانچ بار اس مشق سے گزرتے ہیں۔ اگر تسلسل سے اس عمل کو جاری رکھا جائے تو کیا بستی کی حالت بدل کر نہ رہ جائے گی۔ ضرورت صحیح سمت میں عمل کی ہے۔

اگر کسی بستی میں دینی تعلیم و تربیت، اخلاقی بگاڑ کے سدباب اور حاجت مندوں کی حاجت روائی، نیز سرکاری اداروں میں درپیش مسائل کے حل کے لیے بے لوث تعاون، اور اپنی مدد آپ کے تحت بستی کے مسائل حل کرنے کا ایک منظم نظام وضع کرلیا جائے اور مخلص لوگوں کی ایک جماعت اس کام کے لیے اپنے آپ کو وقف کردے، تو معاشرے کی حالت بدل سکتی ہے۔ اور کچھ نہیں اگر نماز ہی اس کی حقیقی روح کے ساتھ شعوری طور پر ادا کی جائے، اور نمازی ایک دوسرے کی ضروریات کا خیال رکھیں اور پریشانیوں کے ازالے کے لیے سرگرم ہوجائیں، تو نماز اصلاحِ معاشرہ کا اہم ذریعہ بن سکتی ہے۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں حکمرانوں کو بھی سماجی دبائو کے تحت بگاڑ کے سدباب اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے مجبور کیا جاسکتا ہے۔

تحریکِ اسلامی کے کارکنوں کو اپنی بستیوں کو اس کا عملی نمونہ بنانا چاہیے۔بلاشبہہ آج بھی نبی کریمؐ کی یہ ہدایات اسلامی انقلاب کی بنیاد اور جنت کی ضمانت بن سکتی ہیں!

آج پوری دنیا جس معاشی بحران سے عالمی سطح پر دوچار ہے اور جس کی وجہ سے امریکا   اور یورپ سمیت کئی ترقی یافتہ ممالک کی اقتصادی بنیادیں ہل کر رہ گئی ہیں، اس کا بنیادی سبب  سرمایہ داری نظام اور سود پر مبنی معیشت ہے۔ خود پاکستان کی معاشی صورت حال دن بدن بگڑتی چلی جارہی ہے۔ قرضوں کا بوجھ بڑھ ہا ہے، ٹیکسوں کی بھرمار ہے اور مہنگائی میں ہوش ربا اضافے اور آسمان سے باتیں کرتی ہوئی اشیا کی قیمتوں اور بے تحاشا لوڈشیڈنگ سے صنعت اور ترقی کا پہیہ رُکتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے، معیشت تنگ ہوکر رہ گئی ہے، اور پھر یہ سلسلہ کہیں رُکتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ نااہل اور کرپٹ حکمرانوں کے علاوہ اس کا بنیادی سبب بھی سود اور قرضوں پر مبنی معیشت ہے۔ یہ سودی معیشت ہی کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان کے ذمے ۱۲؍ارب روپے کا قرض واجب الادا ہے، یعنی ہر پاکستانی ۶۰ہزارروپے کا مقروض ہے۔

  • قائداعظم کی بصیرت اور اسلام کا اقتصادی نظام: قائداعظم محمد علی جناح کی بصیرت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انھوں نے قیامِ پاکستان کے موقع پر ہی اس بات کی نشان دہی کردی تھی کہ موجودہ سرمایہ داری نظام دنیا کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ یہ انسانیت کو درپیش مسائل میں اضافہ تو کرسکتا ہے لیکن ان مسائل سے نجات نہیں دلا سکتا۔ لہٰذا ہمیں اپنے مسائل کے حل اور دنیا کو اس کی مشکلات سے نجات دلانے کے لیے اسلام کے اقتصادی نظام کو عملاً پیش کرنا ہوگا۔ آج یہ بات دنیا بھرمیں پائے جانے والے اقتصادی بحران اور کساد بازاری سے ایک کھلی حقیقت کی طرح ثابت ہورہی ہے۔

قائداعظم نے محض اس مسئلے کی نشان دہی ہی نہیں کی تھی بلکہ اسلامی اقتصادی نظام کے نفاذ کے لیے عملاً اسٹیٹ بنک کا قیام عمل میں لائے اور اس کے شعبۂ تحقیق کو اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کے لیے عملی خاکہ اور ماڈل کی تیاری کی ذمہ داری بھی سونپی تھی۔ انھوں نے اپنے ان خیالات کا اظہار یکم جولائی ۱۹۴۸ء کو اسٹیٹ بنک کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا تھا:

[سٹیٹ بنک] کا تحقیقی شعبہ، بنکاری کے طور طریقوں کو معاشرتی اور اقتصادی زندگی کے اسلامی تصورات سے ہم آہنگ کرنے کے سلسلے میں جو کام کرے گا مَیں ان کا   دل چسپی کے ساتھ انتظار کروں گا۔ اس وقت مغربی اقتصادی نظام نے تقریباً ناقابلِ حل مسائل پیدا کردیے ہیں اور ہم میں سے اکثر کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید کوئی معجزہ ہی دنیا کو اس بربادی سے بچاسکے جس کا اسے اس وقت سامنا ہے۔ یہ افراد کے مابین انصاف کرنے اور بین الاقوامی سطح سے ناچاقی کو دُور کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ برعکس اس کے گذشتہ نصف صدی میں دو عالمی جنگوں کی زیادہ تر ذمہ داری بھی اس کے سر ہے۔ مغربی دنیا اس وقت اپنی میکانکی اور صنعتی اہلیت کے باوصف جس بدترین ابتری کی شکار ہے وہ ا س سے پہلے تاریخ میں کبھی نہ ہوئی ہوگی۔ مغربی اقدار، نظریے اور طریقے خوش و خرم اور مطمئن قوم کی تشکیل کی منزل کے حصول میں ہماری مدد نہیں کرسکیں گے۔ ہمیں اپنے مقدر کو سنوارنے کے لیے اپنے ہی انداز میں کام کرنا ہوگا اور دنیا   کے سامنے ایک ایسا اقتصادی نظام پیش کرنا ہوگا جس کی اساس انسانی مساوات اور معاشرتی عدل کے سچے اسلامی تصور پر استوار ہو۔ اس طرح سے ہم مسلمان کی حیثیت سے اپنا مقصد پورا کرسکیں گے اور بنی نوع انسان تک پیغامِ امن پہنچا سکیں گے کہ صرف یہی اسے بچا سکتا ہے اور انسانیت کو فلاح و بہبود، مسرت و شادمانی سے ہم کنار کرسکتا ہے۔(قائداعظم: تقاریرو بیانات، جلد چہارم، ص ۵۱)

یہ بات غور طلب ہے کہ اسٹیٹ بنک کے افتتاح کے موقع پر قائداعظم نے اسلام کے اقتصادی نظام کوتلاش کر کے نافذ کرنے کی طرف توجہ دلائی تھی اور یہ ذمہ داری اسٹیٹ بنک کے شعبۂ تحقیق کی لگائی تھی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مولانا شبیراحمد عثمانی اور مفتی محمد شفیع جیسے علماے کرام کی موجودگی میں قائداعظم نے اسٹیٹ بنک کی ذمہ داری کیوں لگائی کہ اسلام کا اقتصادی نظام تلاش کرے؟

اگر غور کیا جائے تو اس کے دو بنیادی اسباب تھے: ایک سبب تو یہ تھا کہ پاکستان جب بناتھا تو اس کا سٹیٹس ڈومینین (dominion) ( حکومت کے زیراثر )کا سا تھا نہ کہ ایک آزاد ملک کا۔ لہٰذا برطانیہ کے زیراثر ہونے کی وجہ سے وہاں کے قوانین ہم نے اپنا لیے اور آج تک ان پر عمل پیرا ہیں۔

دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ قیامِ پاکستان کے موقع پر اگر انگلستان کے مالیاتی نظام کو جو کہ  سودی نظام تھا،فی الفور ختم کردیا جائے تو پھر ملک کا اقتصادی نظام کیسے چلے گا؟ راتوں رات یہ تبدیلی ممکن نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ نظام کی تبدیلی کی ذمہ داری قائداعظم نے اسٹیٹ بنک کی لگائی۔     یہ بات اپنی جگہ بجا ہے کہ سود حرام ہے اور اللہ اور اس کے رسول سے جنگ ہے۔ سوال یہ ہے کہ  اگر ہم سود نہیں لیتے تو متبادل نظام کیا ہو؟ یہ کام اسٹیٹ بنک ہی کرسکتا تھا۔ درس نظامی کے نصاب میں بنکاری بطور مضمون نہیں پڑھائی جاتی۔ اس لیے اس مسئلے پر علما پوری طرح نظر نہیں رکھتے۔

قیامِ پاکستان کے بعد ایک اور عملی مسئلے کا بھی سامنا تھا۔ تقسیم کے بعد یہاں سے ہندو چلے گئے تو ایک ہزار شاخوں پر مشتمل بنکاری نظام جس میں کوآپریٹو بنک بھی شامل تھے، بیٹھ گیا۔ ان حالات میں قائداعظم نے سنٹرل بنک کے نظام کو اپنی بصیرت کے ذریعے اسلام کے اقتصادی نظام میں داخل کر دیا، اور اسٹیٹ بنک کے قیام کے ذریعے اس راہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی۔

اس طرح یہ تین بنیادی مسائل تھے جن کا ابتدا ہی میں پاکستان کے مالیاتی نظام کو سامنا تھا۔ آئین بنائے بغیر ڈومینین سٹیٹس کو خودمختاری کا اسٹیٹس نہیں مل سکتا تھا۔ اگر آئین بنتا تو کرنسی یا مالیاتی نظام کا متبادل پہلے ہونا چاہیے تھا۔ اس وقت تک یہ مسائل حل نہ ہوئے تھے، لہٰذا قائداعظم نے اسٹیٹ بنک کی بنیاد پہلے رکھی تاکہ مالیاتی نظام وضع کیا جاسکے۔ جب آئین بنا تو اس میں سود کو حرام قرار دیا گیا لیکن اسٹیٹ بنک کا ایکٹ بنایا گیا تو اس کے آرٹیکل ۱۳ تا ۲۱ کے تحت سود کو    تحفظ دے دیا گیا۔ بنکاری آرڈی ننس ۶۲ بنایا گیا تو اس کے سیکشن ۲۵ یا ۲۶ وغیرہ میں سود کو تحفظ دے دیا گیا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ہم آج تک سود کے نظام میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ یہ بات غور طلب ہے کہ قائداعظم کی بصیرت کیا تھی اور ہم نے کیا کیا۔

حقیقت یہ ہے کہ بنکاری کی بنیاد مسلمانوں نے رکھی تھی (’بنکاری نظام، ایک تاریخی جائزہ‘ آئی اے فاروق، ترجمان القرآن، اپریل ۲۰۰۵ئ)۔ ۱۹۸۵ء میں ایس ڈی گوے ٹی ئین (S.D. Goitien) نے ایک کتاب Mediterranean Society (بحیرۂ روم کے خطے کا معاشرہ) کے نام سے لکھی۔ اس نے واضح طور پر لکھا ہے کہ بنکاری عربوں کا کھیل ہے (ص۳۲۵)۔ اگر ریاضی وجود میں نہ آتا تو بنکاری ممکن ہی نہ ہوتی۔ اگر صفر نہ ہو تو حساب کتاب ممکن نہیں اور کمپیوٹر کی اکائونٹس کی کمیونی کیشن ممکن نہیں ہے۔ صفر اور ریاضی کے ایجاد کرنے والے مسلمان ہیں۔

ملک کو درپیش معاشی بحران سے نجات دلانے کے لیے آج بھی یہی راستہ ہے کہ سود کی لعنت سے نجات حاصل کرتے ہوئے سود سے پاک اسلام کے اقتصادی نظام کو نافذ کیا جائے۔ بگڑتی ہوئی ملکی معاشی صورت حال کا تقاضا ہے کہ فوری اقدام اُٹھایا جائے۔ خدانخواستہ معیشت کی تباہی کے نتیجے میں کسی فوجی یلغار کے بغیر ہی ملک و قوم غلامی اور انحطاط و زوال سے دوچار ہوسکتے ہیں!

  • سود کے خاتمے کے لیے اھم پیش رفت:اسلامی نظامِ معیشت کے نفاذ کے لیے  علمی و تحقیقی سطح پر ماضی میں کام ہوتا رہا ہے اور بلاسود بنکاری نظام کے نفاذ کے لیے اقدامات بھی اُٹھائے گئے ہیں لیکن بڑے پیمانے پر پیش رفت نہ ہوسکی، اور رائج الوقت اسلامی بنکاری کے بارے میں بھی مختلف شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن اس ضمن میں ایک اہم پیش رفت پنجاب اسمبلی کا بل  Prohibition of Private Money Lending Act 2007 ہے۔ یہ بل پنجاب اسمبلی کی رکن حمیرااویس شاہد نے پیش کیا تھا اور ایک طویل جدوجہد کے بعد وہ اسے منظور کروانے میں کامیاب ہوئیں۔ یہ بل ۱۲جون ۲۰۰۷ء میں باقاعدہ منظور ہوکر قانون بن گیا ہے۔ پہلی بار نہ صرف نجی سطح پر سود کو قانوناً جرم قرار دیا گیا بلکہ اس کی خلاف ورزی پر سزا بھی مقرر کردی گئی۔ اسی قانون کو متحدہ مجلس عمل کی حکومت کے تحت صوبہ سرحد میں بھی نافذ کردیا گیا۔ اس طرح ملک کے نصف سے زائد حصے سے نجی سطح پر سود کا خاتمہ ہوگیا (اے این پی کی موجودہ صوبائی حکومت نے اس قانون کو پھر غیرمؤثر کردیا ہے)۔ بلاشبہہ یہ ملک سے سود کے خاتمے کے لیے عملاً پیش رفت اور روشنی کی ایک کرن ہے جو ایک نیا عزم اور حوصلہ دیتی ہے۔

یہ بات باعث ِ حیرت ہے کہ جب ۲۰۰۴ء میں نجی سطح پر سود کے خاتمے کے لیے بل پنجاب اسمبلی میں پیش کیا گیا تو سخت ردعمل سامنے آیا۔ حیرت ہوتی ہے کہ سود جو شرعاً حرام ہے اور قرآن نے اسے اللہ کے خلاف جنگ قرار دیا ہے، ملک کا آئین بھی اس بات کا پابندکرتا ہے، اور معاشی مسائل سے نجات کا ناگزیر تقاضا ہے، لیکن ارکان اسمبلی اس مسئلے پر تعاون کے لیے تیار نہ تھے۔ چار سال تک مختلف حیلوں بہانوں سے بل کو زیرالتوا رکھا گیا۔ اس کے حق میں آواز اُٹھانے والوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ۔ کبھی میٹنگ نہ ہوتی اور کبھی کورم پورا نہ ہوتا تھا۔ اگر کبھی میٹنگ ہوتی تو طرح طرح کے اعتراضات اُٹھائے جاتے۔ریونیو ڈیپارٹمنٹ کے لوگ دھمکاتے تھے۔ سودخور مافیا کی طرف سے بھی دھمکیاں ملتی تھیں۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد بالآخر یہ بل اسمبلی میں پیش ہوا اور منظور ہوا۔

  • بیع سلم، سود سے پاک نظام:اس تاریخی اقدام کے بعد اسلام کے اقتصادی نظام کو عملاً نافذ کرنے کے لیے پنجاب اسمبلی میں ایک منصوبہ پیش کیا گیا ہے جس کے تحت زراعت سے سود کے خاتمے کا آغاز کرتے ہوئے بتدریج پورے ملک سے سودی نظامِ معیشت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ اس منصوبے کو ’بیع سلم ماڈل‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ بھی محترمہ حمیرا اویس نے پیش کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحقیقی اور فنی پہلو پر تعاون ماہر اقتصادیات اور اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے سابق مشیر آئی اے فاروق نے کیا ہے۔ اس ضمن میں علمی و تحقیقی سطح پر اور عملی مسائل کے حوالے سے کافی پیش رفت ہوچکی ہے۔ لیکن اپنے نفاذ کے لیے یہ بل وزیراعلیٰ پنجاب کی منظوری کا منتظر ہے!

’بیع سلم‘ اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کا عملی ماڈل ہے۔ بیع سلم زراعت کو سود سے پاک کرنے کا وہ نظام ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کو حرام کرنے کے بعد متبادل کے  طور پر متعارف کروایا تھا۔ اس نظام میں کسان سے فصل پیشگی خرید لی جاتی ہے اور اسے رقم ادا کردی جاتی ہے۔ ایک معاہدہ یا عقد لکھا جاتا ہے جس میں فصل اُگانے سے قبل فصل کی کوالٹی، مقدار، قیمت اور فصل کی حوالگی کی تاریخ کا تعین کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس میں کوئی ردوبدل نہیں کیا جاتا۔ کسان کو فصل کی قیمت ادا کردی جاتی ہے اور وہ بآسانی فصل کاشت کرسکتا ہے۔ یہ ایک آسان اور قابلِ عمل نظام ہے اور اس کے نتیجے میں سود اور اس کی بہت سی قباحتوں سے بھی نجات مل جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں جہاں کسانوں کا استحصال ختم ہوگا اور مہنگائی پر قابو پایا جاسکے گا، وہاں بتدریج سود سے پاک اسلام کے اقتصادی نظام کے نفاذ کی راہ بھی ہموار ہوسکے گی۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: ’بیع سلم‘ جسٹس ملک غلام علی، عالمی ترجمان القرآن، جنوری ۲۰۱۲ئ، ص ۱۹۶-۱۰۷۔ ’زراعت کی مالی ضروریات اور بیع سلم‘، آئی اے فاروق ، ترجمان القرآن، اپریل ۲۰۰۷ئ، ص ۷۷-۸۰)

  • کسان کے استحصال کا خاتمہ اور بیع سلم:کسان کا استحصال کس طرح سے کیا جا رہا ہے اور بیع سلم سے کس طرح اس کو فوائد پہنچ سکتے ہیں؟ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو  کسان کے ساتھ پہلا ظلم یہ کیا جاتا ہے کہ فصل کی کٹائی کے آٹھ ماہ بعد اسے فصل کی قیمت ملتی ہے۔ کسان آڑھتی کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے اور وہ منہ مانگی قیمت پر فصل خریدتا ہے اور کسان مجبور ہے۔ فصل کی کاشت پر لاگت بڑھتی چلی جارہی ہے۔ حکومت کسان کو قرض اور سبسڈی کی سہولت دیتی ہے اس سے وقتی فائدہ تو ہوتا ہے لیکن اس سے کسان مزید مقروض اور مسائل سے دوچار ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف فصل کی مہنگی کاشت کے نتیجے میں عوام کو گندم، چاول، آٹا اور چینی وغیرہ مہنگے داموں خریدنے پڑتے ہیں۔ ان تمام مسائل کا حل ’بیع سلم‘ کے ذریعے بآسانی کیا جاسکتا ہے۔

’بیع سلم‘ کے تحت چونکہ کسان کو ایک معاہدے کے تحت فصل کی قیمت پیشگی ادا کی جاتی ہے، اس لیے اسے کٹائی کے بعد کئی کئی ماہ تک فصل کی قیمت کے انتظار سے نجات مل جاتی ہے۔ دوسری طرف یک مشت ادایگی کی بنا پر فصل کی کاشت پر لاگت بھی کم آئے گی اور کھاد اور زرعی ادویات وغیرہ بھی نقد ادایگی پر کسان کو سستی ملیں گی۔ حکومت خود بیع سلم کرے یا مختلف بنکوں یا کمپنیوں کے ذریعے بیع سلم کیا جائے اور پھر حکومت فصل خرید لے تو اس طرح آڑھتی جو کسان کا استحصال کرتا ہے، اس کا کردار بھی ختم ہوجائے گا۔ حکومت خود مارکیٹ میں گندم فراہم کرے گی تو ذخیرہ اندوزی کا بھی خاتمہ ہوسکتا ہے۔ فصل کی کاشت پر لاگت میں کمی، آڑھتی کے کردار کے خاتمے اور حکومت کی طرف سے مارکیٹ میں فصل کی فراہمی کی وجہ سے آٹا، چینی اور چاول وغیرہ کی قیمتیں بھی کم ہوں گی جس سے عوام کو بھی براہِ راست فائدہ ہوگا اور سستی چیزیں ملیں گی۔

’بیع سلم‘ سے چھوٹے کسان جو کم زمین کی وجہ سے نقدآور فصل نہیں اُگا سکتے، ان کو بھی فائدہ ہوگا۔ چند کسانوں کی زمینوں کو یک جا کر کے بھی بیع سلم کیا جاسکتا ہے۔ اس کوآپریٹو فارمنگ کے نتیجے میں چھوٹا کسان بھی گندم اور چاول وغیرہ کاشت کرسکے گا۔ اسلامی بنکاری میں اجارہ سکیم کے تحت چھوٹے کسانوں کو ٹریکٹر، ٹیوب ویل اور دیگر زرعی ضروریات کی بلاسود فراہمی بھی ممکن ہوسکتی ہے۔

بیع سلم کے نتیجے میں کسان اور بنک یا حکومت چونکہ فصل کے مالک ہوں گے، لہٰذا فصل کی بہتر کاشت، زرعی تحقیق اور جدید زرعی ٹکنالوجی سے استفادے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔ اس سے میدانِ زراعت میں تحقیق اور نئی ٹکنالوجی اور جدید ذرائع اپنانے کا رجحان بھی آگے بڑھے گا جو زراعت کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کرسکتا ہے۔

  • عملی مسائل:ملک کا مالیاتی نظام براہِ راست مرکز اور اسٹیٹ بنک کے تحت ہے، لہٰذا سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا صوبائی سطح پر سود کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کاوشیں مؤثر ہوں گی؟

حقیقت یہ ہے کہ ۱۸ویں ترمیم کے بعدوزارتِ عشر اب صوبائی حکومت کے تحت ہے۔  لہٰذا اگر بیع سلم کے تحت زراعت کی سطح سے سود کے خاتمے کے لیے کوشش ہوگی تو اس میں مرکز یا اسٹیٹ بنک رکاوٹ نہیں بن سکتا۔دوسرا یہ کہ بیع سلم منصوبے کے لیے جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس میں مختلف اعتراضات اُٹھائے گئے، بیوروکریسی نے ٹیکنیکل اعتراضات اُٹھائے لیکن وضاحت کے بعد اس پر اعتراض نہیں کیا گیا۔ اس کے قابلِ عمل ہونے کی رپورٹ (فزیبلٹی رپورٹ) بن چکی ہے، نفاذ کے لیے عملی ڈھانچا کیا ہوگا اس کی وضاحت بھی پیش کی جاچکی ہے، اور خود وزیراعلیٰ کو دو مرتبہ پریزنٹیشن دی جاچکی ہے۔ کسی بھی مرحلے پر یہ اعتراض نہیں اُٹھایا گیا کہ یہ منصوبہ قابلِ عمل نہیں ہے۔ اسی منصوبے کے تحت عشر بڑے پیمانے پر جمع ہوسکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ۲۰۰؍ارب روپے تک عشر جمع ہوسکتا ہے، جب کہ گذشتہ سال حکومت نے ۱۶۰ ؍ارب روپے عشر جمع کیا تھا۔   علما کی طرف سے بھی اعتراض نہیں اُٹھایا گیا بلکہ انھوں نے فتویٰ دے کر اس کی تائید کی ہے۔

بیع سلم منصوبے کے لیے بیرونِ ملک سے بھی پیش کش ہو رہی ہے۔ مڈل ایسٹ ڈویژن پول کے فنڈز ہیں۔ ان میں او آئی سی، آئی سسکو اور اسلامک ڈویلپمنٹ بنک شامل ہیں۔ یہ سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔ اس مَد میں وہ ایک ملین ڈالر فنڈ بلاسود دینے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زراعت کی سطح پر پہلی بار بیع سلم کے ذریعے بلاسود منصوبہ سامنے آیا ہے۔ اس طرح عالمی سطح پر بھی ایک تبدیلی کا آغاز ہوسکتا ہے اور عالمی بحران سے نجات کے لیے ایک راہ نکل سکتی ہے۔ افسوس   اس بات کا ہے کہ ہماری حکومت اس منصوبے کی تائیداور نفاذ کے بجاے رکاوٹیں کھڑی کر رہی ہے۔

معاشی خودانحصاری، آئی ایم ایف سے نجات، اور خاص طور پر بیرونی قرضوں کی ادایگی کی راہ بھی بیع سلم کے نفاذ سے ہموار ہوسکتی ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے قرض دینے کا بڑا سبب عالمِ عرب کا سرمایہ ہے جو  ان تک پہنچتا ہے۔ اگر ملک میں بیع سلم نظام کو نافذ کردیا جائے تو پھر عرب دنیا کے وسائل کا رُخ بھی پاکستان کی طرف ہوسکتا ہے۔ جیساکہ اُوپر ذکر کیا گیا ہے کہ مڈل ایسٹ سے نجی شعبے کے سرمایہ کار سرمایہ کاری کے لیے تیار ہیں۔ ان سے مضاربہ اور مشارکہ کی بنا پر سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے اور ہم قرض کے بوجھ سے بھی نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ہم آگے بڑھ کر کوئی اقدام تو اُٹھائیں۔ اس کے نتیجے میں بہت سی راہیں کھل سکتی ہیں۔

اس بحث کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ بیع سلم منصوبہ شرعی، تحقیقی اور عملی حوالے سے قابلِ عمل ہے۔ اس کے قابلِ عمل ہونے کی فزیبلٹی رپورٹ بھی پیش کی جاچکی ہے۔لیکن اب یہ  بل بیوروکریسی کے روایتی تاخیری حربوں کی نذر ہورہا ہے۔ بیوروکریسی چاہتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس میں سود کے عنصر کو شامل کیا جائے لیکن علما کے تحریری فتووں کی وجہ سے عملاً ایسا ممکن نہیں ہوپا رہا۔ یہ سود سے پاک نظام ہے۔ اس پر عمل درآمد کے نتیجے میں نہ صرف غریب کسان کے استحصال کا خاتمہ ہوگا بلکہ مہنگائی کے مارے عوام کو بھی سستی اشیا کی فراہمی ممکن ہوسکے گی۔ اس اقدام کے نتیجے میں مالیاتی نظام تبدیل ہوگا اور سود کے نظام سے نجات کی راہ ہموار ہوگی۔حکومت پنجاب کو اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے بیع سلم کے نفاذ کے لیے فوری اقدام کرنا چاہیے۔ دینی و سیاسی جماعتوں کو ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں حکومت پر دبائو ڈالنا چاہیے تاکہ اس منصوبے پر عمل درآمد کو ممکن بنایاجاسکے۔ عوامی سطح پر بھی اس حوالے سے آگاہی بڑھ رہی ہے۔ اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے علما، ماہرین اور میڈیا کو  اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ مختلف کالم نگاروں نے اس کو موضوع بحث بنایا ہے۔ تاہم میڈیا کو مزید مؤثر انداز میں کردار ادا کرنا ہوگا۔

آج دنیا میں جو اقتصادی بحران ہے وہ سود کی وجہ سے ہی ہے۔ پوری دنیا سودی نظام میں جکڑی ہوئی ہے اور اس کا سبب قرض ہے۔ آج ہر چیز قرض پر مل رہی ہے۔گاڑی ہو یا ہوم فنانس، سب قسطوں پر مل رہے ہیں اور یوں یہ نظام مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ عالمی سرمایہ داری نظام اور سود کی لعنت سے نجات کے لیے آغاز بیع سلم سے ہوسکتا ہے۔ اس طرح قائداعظم نے اسلام کے اقتصادی نظام کو تلاش کرنے کی جو ذمہ داری ڈالی تھی اس سے بھی عہدہ برآ ہوا جاسکے گا، اور ہم دنیا کے سامنے بھی اسلام کے اقتصادی نظام کو عملاً پیش کرسکیں گے۔

اہلِ کشمیر ایک طویل مدت سے بھارتی فوج کے ظلم و جبر، انسانیت سوز مظالم اور انسانی حقوق کی بے دردی سے پامالی کا سامنا کر رہے ہیں۔ جسمانی اذیتوں، معاشی مصائب کے ساتھ ساتھ نفسیاتی ٹارچر بھی سہ رہے ہیں۔ خاص طور پر بھارتی فوج کے ہاتھوں مسلمان خواتین کی تذلیل اور بے حُرمتی کا سامنا کرنا انتہائی اذیت ناک عمل ہے۔ ان حالات میں کشمیری خواتین کا جدوجہد آزادی کو جاری رکھنا اور مردوں کی ہمت بندھائے رکھنا عزیمت کا بے مثال نمونہ ہے۔

کشمیری خواتین آج کن مصائب سے دوچار ہیں، خاوندوں کے شہید ہوجانے یا لاپتا ہوجانے کے نتیجے میں بیوگی اور نیم بیوگی کی جس کیفیت سے وہ دوچار ہیں، کن معاشی مسائل کا سامنا کر رہی ہیں، لاپتا افراد کی تلاش میں بھارتی انتظامیہ کے ظالمانہ رویوں اور انسانیت سے    گری ہوئی حرکات کا کیسے سامنا کر رہی ہیں، نیز کمانے والے افراد کے شہید یا لاپتا ہوجانے کے نتیجے میں گھروں کو چلانے اور بچوں کی پرورش اور تربیت کے لیے کن مشکلات اور کیسے کیسے ذہنی و نفسیاتی مسائل سے دوچار ہیں___ ان گرفتاریوں، ہلاکتوں اور کشمیر کی مظلوم عورت کو درپیش مسائل کی یہ  دکھ بھری داستان افشاں راشد نے Widows & Half Widows (بیوائیں اور نیم بیوائیں)  کے عنوان سے تحریر کی ہے (ناشر: Pharos Media، نئی دہلی، بھارت۔ صفحات: ۱۹۲۔ قیمت: ۱۵ڈالر)۔ افشاں راشد معروف صحافی ہیں اور سری نگر سے تعلق رکھتی ہیں۔

بھارت کے اس سفاکانہ ظلم و ستم کے نتیجے میں ایک اندازے کے مطابق ۱۹۸۹ء سے  اب تک ایک لاکھ سے زائد مرد، جب کہ ۲ ہزار سے زائد خواتین شہید ہوچکی ہیں۔ ایک لاکھ سے زائد افراد گرفتار ہیں، ۳۲ہزار سے زیادہ خواتین بیوہ اور تقریباً ۲لاکھ بچے یتیم ہوچکے ہیں۔ ان حالات میں خواتین کی ایک بڑی تعداد ذہنی دبائو اور ذہنی امراض سے دوچار ہے۔ خاص طور پر   اُن خواتین کو شدید ذہنی اضطراب کا سامنا ہے جن کے خاوند خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں طویل عرصے سے لاپتا ہیں اور نہیں معلوم کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں؟گویا ان کی حالت ’نیم بیوہ‘ کی سی ہے! وہ   اپنے خاوندوں کی پنشن بھی نہیں لے سکتیں کہ خاوند کا تصدیق نامۂ وفات (death certificate) نہیں پیش کرسکتی ہیں۔ وہ اس اُمید پر جی رہی ہیں کہ ان کے خاوند زندہ ہیں۔ وہ دوسری شادی  بھی نہیں کرسکتی ہیں کہ اس طرح مصیبت زدہ خاندان کی معاشی کفالت سے محروم ہوجاتی ہیں۔بچے   کس خوف و ہراس سے دوچار ہیں اور جوان بچیوں کے تحفظ کے لیے مائیں کس طرح پریشان ہیں، ان سارے مسائل کی وضاحت بھی مختلف کشمیری خواتین کے مصاحبوں ( انٹرویو) کے ذریعے   اس کتاب میں کی گئی ہے۔

کشمیر میں بیوگی اور نیم بیوگی کی حالت سے دوچار مظلوم خواتین اور یتیم بچے کسمپرسی سے دوچار ہیں۔ کمانے والے افراد کی شہادت یا لاپتا ہوجانے کے نتیجے میں معاشی بوجھ خاندان کے بزرگوں کے کاندھوں پر آن پڑا ہے اور پیرانہ سالی کے باوجود محنت مشقت کر کے وہ کنبے کو پالنے پر مجبور ہیں۔ ان حالات میں خواتین پر کیا بیت رہی ہے؟ اس کتاب میں طاہرہ نامی خاتون کا تذکرہ ہے جس کا خاوند گذشتہ سات برس سے لاپتا ہے۔ ہاجرہ کا ذکر ہے جس کے چار میں سے تین بیٹے شہید ہوچکے ہیں، جب کہ چوتھا بیٹا لاپتا ہے۔ پروین جس کا بیٹا ۱۹سال سے لاپتا ہے لیکن وہ اُمید کا دامن تھامے ہوئے اس کی بازیابی کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ اعداد وشمار اور حقائق پر مبنی یہ کتاب بہت سی تصاویر سے بھی مزین ہے۔ پوری کتاب ایسی بہت سی مظلوم خواتین کی داستانِ الم پر مبنی ہے جسے پڑھ کر دل دہل جاتا ہے اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلتے ہیں۔ سیکڑوں کی تعداد میں ایسی کشمیری خواتین ہیں جو انصاف کی منتظر ہیں! (Kashmir's Suffering Women ، ڈاکٹر اے جی خان، ملّی گزٹ، دہلی، ۱۵ جولائی ۲۰۱۱ئ)

بھارتی دانش ور خاتون ارون دتی راے اور کئی دوسرے صحافیوں نے بھی اہلِ کشمیر پر مظالم کے خلاف آواز اُٹھائی ہے اور اجتماعی قبروں کی نشان دہی کی ہے۔ اب کشمیری خود بھی سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے براہِ راست اپنے اُوپر روا رکھے جانے والے مظالم کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں اور دنیا کی توجہ مبذول کروا رہے ہیں۔ اس طرح دنیا کو براہِ راست حقائق جاننے اور بھارتی پروپیگنڈے کی حقیقت کا علم ہونے لگا ہے۔

کشمیری خواتین ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپیرڈ پرسنز (APDP) کے تحت منظم ہورہی ہیں جو خواتین کے حقوق اور لاپتا افراد کی بازیابی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔ یہ تنظیم احتجاجی مظاہروں کے ساتھ ساتھ ان خواتین کے مسائل کو بھی عدالت میں اُٹھا رہی ہے جن کے خاوند لاپتا ہیں اور وہ تصدیق نامہ وفات نہیں پیش کرسکتی ہیں۔

’اے پی ڈی پی‘ نے ایک رپورٹ Half Widow, Half Wife (آدھی بیوہ، آدھی بیوی) کے نام سے شائع کی ہے جس میں ایسی خواتین کے حالات و واقعات پیش کیے گئے ہیں جن کے خاوند لاپتا ہیں۔ اندازہ ہوتا ہے کہ پولیس ایسی خواتین کے ساتھ کس ہتک آمیز رویے سے پیش آتی ہے۔ نوجوان بچیوں کے تحفظ کے لیے کشمیری مائوں کو کیسی کیسی پریشانیوں کا سامنا ہے، مارے خوف کے کہ نہ جانے کون رات کو آن دھمکے، مائیں سو نہیں پاتی ہیں۔ تعلیم یافتہ بچیوں کو ملازمت کے حصول میں ہزارہا دقّتوں کا سامنا ہے۔ بعض عورتیں گھروں میں کام کر کے بھی گزارا نہیں کرپاتیں، اور برقع پہن کر بھیک مانگنے پر مجبور ہیں کہ کہیں پہچانی نہ جائیں۔ اگر خواتین حکومتی ریلیف فنڈ لینے کے لیے مجبوراً جاتی ہیں تو اپنی عزت کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔ نوجوان بیوائوں کے ناموس کے تحفظ کے لیے ساس اپنے ۱۲سالہ بیٹے سے جوان بیوہ بہو کی شادی کے لیے مجبور ہے۔  (کشمیری خواتین کی دردناک اپیل، مطبوعہ: ویمن اینڈ فیملی کمیشن جماعت اسلامی پاکستان، منصورہ، لاہور)

افشاں راشد نے Widows & Half Widows کے ذریعے انسانی ضمیر کو جھنجھوڑا ہے کہ وہ کشمیر کے مظلوم عوام خصوصاً خواتین کی داد رسی کے لیے آواز اُٹھائے،نیز بھارت پر عالمی دبائو ڈالا جائے کہ وہ انسانی حقوق کی پامالی کو روکے اور اہلِ کشمیر کو جینے کا حق دے۔ حکومت پاکستان کا فرض ہے کہ وہ اہلِ کشمیر کی اخلاقی تائید اور مالی تعاون کے ساتھ ساتھ حق خود ارادیت کے حصول کے لیے عالمی راے عامہ کو ہموار کرے، نہ کہ بھارت کو ’پسندیدہ ملک‘ قرار دے کر اہلِ کشمیر کے ساتھ غداری کی مرتکب ہو!

انسانی جان کا تحفظ اور احترام کسی بھی متمدن معاشرے کے قیام، ملک و قوم کے تحفظ اور دنیا میں قیامِ امن کے لیے ناگزیر ہے۔ اگر لوگوں کو اپنے جان و مال، عزت و آبرو اور گھربار کے تحفظ کا یقین نہ ہو تو متمدن زندگی کا آغاز ہی ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں ایسے      قوانین و ضوابط بنائے اور اقدامات اٹھائے جاتے ہیں جن سے انسانی جان کے احترام اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے، لوگوں کے حقوق غصب ہونے پر ان کی داد رسی کی جائے، اور قانون شکنی کرنے اور ظلم وستم ڈھانے والوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاسکے۔ دستورسازی، قانون ساز اداروں اور عدلیہ کی تشکیل اور انتظامیہ، پولیس اور فوج کا قیام اسی غرض کے پیش نظر عمل میں لایا جاتا ہے۔

ہزاروں برس کے انسانی اجتماعی شعور اور فکری کاوشوں کے بعد انسان متمدن زندگی    کے تحفظ، انسانی حقوق کے تعین اور ظلم و استحصال کے خاتمے اور عدل وانصاف کی فراہمی کے لیے  ملکی سطح سے لے کر عالمی سطح تک قوانین کی تشکیل اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے اداروں کا قیام عمل میں لانے کے قابل ہوا ہے۔ اقوام متحدہ، عالمی عدالتِ انصاف، امن افواج اور دیگر  عالمی اداروں کی تشکیل اسی کاوش کا نتیجہ ہے تاکہ جارحیت کا سدّباب کرکے عالمی امن کو برقرار     رکھا جاسکے۔ ظلم واستحصال کا خاتمہ کیا جاسکے، اور حکومت سازی اور اقتدار کی منتقلی عوام کی تائید اور جمہوری عمل کے ذریعے ممکن بنائی جاسکے، نیز آمریت اور جبر کا سدّباب  کیا جاسکے۔

مہذب و متمدن زندگی اور حقوقِ انسانی کے تحفظ اور عالمی امن کے قیام کے لیے انسان کی یہ اجتماعی سعی اور جدوجہد قابلِ تحسین ہے۔ اس حوالے سے عالمی سطح پر شعور بھی پایا جاتا ہے اور دنیابھر میں ان مسلّمہ اقدار و قوانین کے نفاذ کے لیے کوششیں بھی کی جاتی ہیں۔ تاہم، انسان اپنی نفسانی خواہشات سے مغلوب ہوکر اور قومی مفاد کے پیش نظر بے لاگ عدل و انصاف کو ممکن نہیں بناپاتا۔ اس کے لیے تو ایسے قوانین و ضوابط اور اُس کردار کے حامل لوگ مطلوب ہیں جن کے   پیش نظر ذاتی اور قومی مفاد سے بڑھ کر انسانیت کی فلاح ہو اور جو انصاف کریں خواہ اس کی زد    ان کے اپنے اُوپر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ بلاشبہہ ایسے اصول اور ایسا کھرا کردار وہی ہستی دے سکتی ہے جو خواہشات اور مفادات کی سطح سے بلند ہوکر پوری انسانیت کے مفاد کو پیشِ نظر رکھ سکے۔ یقینا وہ ہستی خداتعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہوسکتی اور ایسے بے لاگ اصولوں اور کردار کے حامل بھی وہی لوگ ہوسکتے ہیں جو خدائی اصولوں کے علَم بردار ہوں۔ اس کے لیے یقینا انسان کو خدائی ہدایت اور رہنمائی (قرآن و سنت) کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔

عالمی امن خطرے میں

مقامِ افسوس ہے کہ انسانیت کی فلاح و بہبود اور عالمی امن کے لیے کی جانے والی ان کوششوں اور جدوجہد کو خود انسان ہی اپنے ہاتھوں تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ آج دنیا کی واحد عالمی طاقت امریکا اپنی طاقت کے زعم میں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے جس طرح مروجہ عالمی قوانین کی کھلی کھلی خلاف ورزی، عالمی اداروں بالخصوص اقوامِ متحدہ کی توہین اور بے توقیری اور عالمی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی کررہا ہے، اس سے عالمی اقدار و قوانین کے ساتھ ساتھ عالمی امن اور مملکتوں کی آزادی و خودمختاری اور سلامتی بھی خطرات کی زد میں ہے۔ امریکا کے سامنے مروجہ اصول و ضوابط اور عالمی اقدار و دستور کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔

امریکا نے ’دہشت گردی‘ کے نام پر ظلم و جبر، ناانصافی اور سفاکیت کے وہ وہ حربے آزمائے ہیں کہ جس سے انسانی تاریخ کے دورِ وحشت کی یاد تازہ ہوجاتی ہے اور انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔بگرام، ابوغریب اور گوانتاناموبے کی جیلوں میں انسانی حقوق کی جس طرح سے پامالی کی گئی ہے وہ ’روشن خیالی‘ کے اس دور میں کسی سیاہ باب سے کم نہیں کہ انسان اپنے مفادات کے لیے اس حد تک سفاکیت پر اُتر سکتا ہے۔ گویا دنیا کو ایک بار پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق طاقت کے زعم میں جنگل کے قانون کی طرف دھکیلاجا رہا ہے۔

امریکی سامراج کا جنگی جنون

حقیقت یہ ہے کہ جنگ ِعظیم دوم کے بعد عالمی طاقت کی حیثیت سے اُبھرنے والے امریکا نے دنیا کو جنگ اور خوں ریزی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ۵۰ کے عشرے میں (۱۹۵۰ئ-۱۹۵۳ئ) کوریا سے جنگ میں ۲۵ لاکھ کے قریب کوریائی باشندے ہلاک یا زخمی ہوئے۔ ویت نام کی جنگ (۱۹۵۹ئ- ۱۹۷۵ئ) ۱۶ سال جاری رہی جس میں ۱۵ لاکھ سے زائد جنوبی ویت نامی، ۲۰لاکھ شمالی ویت نامی، ۷ لاکھ کمبوڈیائی اور ۵۰ ہزار لائوس کے شہری ہلاک ہوئے اور ۵۸ ہزار سے زائد امریکی فوجی مارے گئے اور امریکا شکست سے دوچار ہوا۔ ۷۰ کے عشرے میں افغانستان میں روسی جارحیت کے خلاف جنگ (۱۹۷۹ئ-۱۹۸۹ئ) میں ۱۵ سے ۲۰لاکھ افغانی شہید ہوئے۔ ۹۰کے عشرے کے آغاز میں خلیج کی پہلی جنگ کے نتیجے میں عراق پر پابندیاں عائدہوئیں اور اس کے نتیجے میں تقریباً ۱۵ لاکھ عراقی شہری جن میں ۵لاکھ بچے بھی شامل تھے، ہلاک ہوگئے۔ نائن الیون کے سانحے کے بعد ’دہشت گردی‘ کی آڑ میں افغانستان پر امریکی جارحیت اور پھر عراق پر حملے کے نتیجے میں    اب تک ۱۳لاکھ عراقی، جب کہ ۵۰ ہزار افغان اور ہزاروں پاکستانی باشندے مارے جاچکے ہیں۔

’دہشت گردی‘ کے خلاف اس جنگ میں امریکا کو خود بھی بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امریکا کا جانی نقصان ۹۰ہزار سے زائد ہے۔ ان میں ۵۷ہزار سے زائد فوجی ہلاک ہوچکے ہیں، جب کہ ۱۴ ہزار سے زائد معذور یا ناکارہ ہوکر گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔ خوف اور دہشت کی وجہ سے نفسیاتی امراض کے شکار افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ اس طرح امریکا کے جنگی جنون اور دنیا کے وسائل پر قبضے کی ہوس کی وجہ سے لاکھوں بے گناہ انسانوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے اور دنیا کا امن تہ و بالا ہوکر رہ گیا ہے۔

امریکا کے جنگی جنون کا ایک سبب اور بھی ہے۔ امریکا ان جنگوں کے ذریعے اپنا اسلحہ فروخت کرتا ہے اور وہی دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ ایکسپورٹر ہے۔ عالمی معاشی بحران کی وجہ سے امریکی معیشت بیٹھتی جارہی ہے، بنک دیوالیہ اور بے روزگاری بڑھتی چلی جارہی ہے لیکن اگر کوئی صنعت پھل پھول رہی ہے تو وہ اسلحے کی صنعت ہے۔ ۲۰۰۷ء کے ایک سال میں امریکا نے تقریباً ۷ہزار ۴ سو ۵۴ ملین ڈالر کا اسلحہ دنیا بھر میں فروخت کیا۔ دنیا میں سب سے زیادہ دفاعی بجٹ بھی امریکا ہی کا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو دنیا میں کہیں نہ کہیں جنگی محاذ کا کھلا رہنا امریکا کی ضرورت ہے تاکہ اس کے اسلحے کے کارخانے چلتے رہیں۔ گویا اس جنگی جنون کی وجہ سے دنیا میں ایک فساد برپا ہے، اور دنیا ہے کہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ بظاہر کوئی قوت نہیں جو آگے بڑھ کر ظالم امریکا کا ہاتھ روک سکے۔ یہ صورت حال قرآن پاک کی اس آیت کی مصداق ہے:

ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَھُمْ (الروم ۳۰:۴۱) خشکی اور تری میں فساد برپا ہوگیا ہے لوگوں کی اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزہ چکھائے اُن کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔

فتنہ و فساد کے خاتمے کا خدائی قانون

اللہ تعالیٰ جو اس کائنات کا خالق و مالک ہے، اس دنیا میں امن چاہتا ہے۔ وہ یہ نہیں چاہتا کہ اس کے بے قصور بندوں کو ستایا جائے۔ طاقت ور کمزوروں کا حق ماریں اور ان کا جینا دوبھر کردیں۔ دنیا میں ظلم و فساد اور قتل و غارت گری کا بازارگرم ہو، اور لوگوں پر جبراً اپنی مرضی مسلط کی جائے۔ دھن دولت، لالچ اور ہوس اور جہاں گیری اور کشورکشائی کے لیے انصاف کا خون کیا جائے۔ طاقت کا بے جا استعمال کرکے انسانوں کا خدا اور طاغوت بن کر اللہ کے بندوں پر      اپنی خدائی چلائی جائے اور انسانی شرافت و اخلاق کا جنازہ نکال دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے  فتنہ قرار دیا ہے جو انسانی قتل سے بڑھ کر ہے۔ اس لیے کہ افراد یا اقوام جب سرکشی پر اُتر آئیں تو  وہ بڑے پیمانے پر فتنہ وفساد برپا کر دیتے ہیں۔ ایک فرد سے بڑھ کر ایک قوم کی سرکشی سے بے شمار انسانوں کی زندگی دوبھر ہوجاتی ہے۔ قوموں پر عرصۂ حیات تنگ ہوجاتا ہے، اور انسانی تہذیب و تمدن کا شیرازہ بکھر کر رہ جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ایک طرف اللہ تعالیٰ نے انسانی جان کو محترم ٹھیراتے ہوئے کسی انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے (المائدہ ۵:۳۲)، اور حکم دیا ہے کہ جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرو، دوسری طرف فتنہ وفساد کو قتل سے بڑھ کر سنگین جرم   قرار دیا ہے(البقرہ ۲:۱۹۱)، اور اس کی سرکوبی کا حکم دیا ہے۔ اس کے لیے قتل بالحق اور ناگزیر  خوں ریزی کو جائز قرار دیا ہے تاکہ ظلم کو مٹاکر عدل قائم کیا جاسکے۔ اسی لیے فرمایا:

وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ لِلّٰہِ ط (البقرہ ۲:۱۹۳) ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور اطاعت صرف خدا کے لیے ہوجائے۔

اس کے ساتھ یہ بھی تاکید کی گئی ہے:

اِلَّا تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْاَرْضِ وَ فَسَادٌ کَبِیْرٌ o (الانفال ۸:۷۳) اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ ہوگا اور بڑا فساد برپا رہے گا۔

بقول مولانا مودودیؒ: ’’اس ناگزیر خوں ریزی کے بغیر نہ دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے، نہ شروفساد کی جڑ کٹ سکتی ہے، نہ نیکوں کو بدوں کی شرارت سے نجات مل سکتی ہے، نہ حق دار کو حق    مل سکتا ہے، نہ ایمان داروں کو ایمان اور ضمیر کی آزادی حاصل ہوسکتی ہے، نہ سرکشوں کو ان کے جائز حدود میں محدود رکھا جاسکتا ہے، اور نہ اللہ کی مخلوق کو مادی و روحانی چین میسرآسکتا ہے‘‘۔ (الجہاد فی الاسلام، ص ۳۲-۳۳)

اللہ تعالیٰ دنیا میں برپا ہونے والے اس فتنہ و فساد کا ازالہ مختلف طریقوں سے کرتا رہتا ہے۔ کبھی وہ ایک گروہ کو دوسرے گروہ سے دُور کر کے تمام انسانوں کو ظلم و زیادتی سے نجات دلاتا ہے:

وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ ذُوْ فَضْلٍ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ o (البقرہ ۲:۲۵۱) اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا تو زمین فساد سے بھرجاتی، مگر دنیا والوں پر اللہ کا بڑا فضل ہے (کہ وہ دفعِ فساد کا یہ انتظام کرتا رہتا ہے)۔

ایک اور جگہ قوموں کی باہمی عداوت اور دشمنی کا ذکر کرکے ارشاد ہوتا ہے:

کُلَّمَآ اَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ اَطْفَاَھَا اللّٰہُ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا ط وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَo (المائدہ ۵:۶۴) یہ لوگ جب کبھی جنگ اور     خوں ریزی کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ اس کو بجھا دیتا ہے۔ یہ لوگ زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ مفسدوںکو پسند نہیں کرتا۔

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا ط (الحج ۲۲:۴۰) اگر خدا لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے سے دفع نہ کرتا تو صومعے اور گرجے اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے، مسمار کردیے جاتے۔

درحقیقت یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ عادل انسانوں کے ذریعے سے عام انسانوں کو دفع نہ کرتا رہتا تو اتنا فساد ہوتا کہ عبادت گاہیں تک، یعنی صوامع عیسائیوں کے راہب خانے، مجوسیوں کے معابد اور صابیوں کے عبادت خانے، اسی طرح عیسائیوں کے گرجے اور یہودیوں کے کنیسے اور مساجد بربادی سے نہ بچتیں جن سے ضرر کا کسی کو اندیشہ نہیں ہوسکتا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ دنیا کو فتنہ وفساد، ظلم و ستم اور تباہی و بربادی سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات اٹھاتے رہتے ہیں اور انسانی تاریخ اس پر شاہد ہے۔ برعظیم پاک و ہند میں مغلوں کی حکومت اور زوال، انگریزوں کی آمد اور انحطاط، اور قیامِ پاکستان، اسی تاریخی حقیقت کا تسلسل اور ہمارے مشاہدے کی بات ہے۔

اُمت مسلمہ کا فرضِ منصبی

فلاحِ انسانیت اور عدل و انصاف کے اس فریضے کو ادا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ایک طرف بنی نوع انسان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرے، اور اس کے ساتھ ساتھ اس نے ایک خصوصی اہتمام بھی کیا ہے۔ دنیا کی اُمتوں میں سے ایک اُمت کو اس نے خاص اسی مقصد کے لیے تشکیل دیا ہے اور اس کا فرضِ منصبی ہی یہ ہے کہ جہاں کہیں بھی ظلم وستم ڈھایا جائے، فساد برپا ہو، سرکشی کا مظاہرہ کیا جائے اور دنیا کے امن کو خطرہ ہو، وہ آگے بڑھ کر اس کی سرکوبی کرے اور بے لاگ انصاف کا مظاہرہ کرے، یہاں تک کہ فتنہ مٹ جائے۔

یہ وہ مقصد ہے جس کے لیے مسلمانوں کو پیدا کیا گیا اور اُمت مسلمہ کو برپا کیا گیا ہے۔ اسے کسی خاص قوم یا نسل کے لیے نہیں بلکہ بنی نوع انسان کی خدمت کے لیے پیدا کیا گیاہے کہ وہ نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے، ظلم و استحصال کا خاتمہ کرے اور عدل و انصاف قائم کرے۔

کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ط (اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰) تم ایک بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کی خدمت و ہدایت کے لیے برپا کیا گیا ہے، تم نیکی کا حکم کرتے ہو اور بدی کو روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔

یہ اُمت چونکہ عدل و انصاف کے لیے کھڑی کی گئی ہے، لہٰذا اسے ہدایت کی گئی ہے: اے ایمان والو! انصاف پر سختی سے قائم رہنے والے اور خدا واسطے کی گواہی دینے والے بنو، خواہ یہ انصاف اور یہ گواہی تمھاری اپنی ہی ذات کے خلاف پڑے یا تمھارے والدین یا عزیزوں کے خلاف۔ دولت مند کی رضاجوئی یا فقیر پر رحم کھانے کا جذبہ تمھیں، انصاف اور سچی شہادت سے نہ پھیر دے، کیونکہ اللہ ان کا تم سے زیادہ خیرخواہ ہے (النساء ۴:۱۳۵)۔ اس سے بھی بڑھ کر    اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ جس قوم کے ساتھ تمھاری دشمنی ہو، اس سے بھی انصاف کرو:

وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی(المائدہ ۵:۲) کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اس سے انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو کیونکہ یہی پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے۔

اس فریضے کی اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اس اُمت کو کھڑا کرنے کے ساتھ ساتھ  اس بات کا بھی حکم دیا ہے کہ اس اُمت میں ایک گروہ تو لازماً ایسا رہنا چاہیے جو نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے اور اس فریضے کی ادایگی کرے اور دنیا کو فساد سے محفوظ رکھے اور امن قائم کرے:

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ ط (اٰل عمران ۳:۱۰۴) اور تم میں ایک گروہ ایسا ضرور ہونا چاہیے جو بھلائی کی طرف بلائے، نیکی کا حکم دے اور بدی سے روکے۔

یہی وجہ ہے کہ جب ظلم و ستم کا بازار گرم ہواور کمزور اقوام اور مظلوم انسانوں کا استحصال ہورہا ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے موقع پر مسلمانوں کو توجہ دلاتا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنا فرض ادا کریں:

وَمَا لَکُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئِ وَ الْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَـآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ اَھْلُھَا (النساء ۴:۷۵) ’’تمھیں کیا ہوگیا ہے کہ تم خدا کی راہ میں ان مردوں اور عورتوں اور بچوں کے لیے نہیں لڑتے جنھیں کمزور پاکر دبا لیا گیا ہے اور جو دعائیں مانگتے ہیں کہ خدایا ہمیں اس بستی سے نکال جس کے کارفرما ظالم ہیں۔

اس تمام تر ترغیب کے بعد آخر میں اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کو اس فرض سے غفلت برتنے پر متنبہ بھی کرتا ہے کہ اگر تم نے اپنا فرضِ منصبی ادا نہ کیا اور ظلم کو نہ روکا اور انصاف کے قیام کے لیے جدوجہد نہ کی اور اس کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار نہ ہوئے تو پھر تم خدا کی لعنت اور ذلت اور عذاب کے مستحق ٹھیرو گے:

وَ ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ  وَ بَآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ط (البقرہ ۲:۶۱) آخرکار نوبت یہاں تک پہنچی کہ ذلت و خواری اور پستی و بدحالی ان پر مسلط ہوگئی اور وہ اللہ کے عذاب میں گھِر گئے۔

اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو ظلم و استحصال اور فتنہ وفساد سے محفوظ رکھنے اور      امن و انصاف کے تحفظ اور اسے یقینی بنانے کے لیے یہ نظام وضع کیا ہے۔ اسی غرض کے لیے جہاد  فی سبیل اللہ اور قتال کا حکم دیاگیا ہے۔ گویا ظلم کے خاتمے کے لیے ہرممکن تدبیر اور انتہائی جدوجہد، یعنی جہاد کیا جائے، اور اگر کوئی چارئہ کار نہ رہے تو پھر ظالم کے خلاف بندوق اُٹھانے، یعنی قتال کا حکم دیا گیا ہے، اور اس وقت تک لڑنے کا حکم ہے جب تک کہ فتنہ و فساد مٹ نہ جائے اور انصاف قائم نہ ہوجائے۔ گویا جہاد امنِ عالم کا ضامن ہے۔ لہٰذا جہاں پوری انسانیت کا فرض ہے کہ وہ ظلم کے خلاف اُٹھے اور امن و انصاف کے قیام کو یقینی بنائے، وہاں اُمت مسلمہ کا یہ منصبی فریضہ ہے کہ وہ لازماً اس فریضے کو ادا کرے، اور کوتاہی اور غفلت کے نتیجے میں وہ خدا کے غضب کا شکار ہوسکتی ہے۔

امریکا مخالف تحریک ، وقت کا تقاضا

آج ’دہشت گردی‘ کے نام پر امریکی استعمار نے جس طرح دنیا کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے ظلم و ستم اور فساد کی آماج گاہ بنا رکھا ہے اور لاکھوں لوگوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ چکا ہے، اس سے پوری دنیا کا امن خطرے میں ہے۔ عالمی قوانین کو جس طرح تاراج کیا گیا ہے اور    عالمی اداروں کو بے وقعت کرکے رکھ دیا گیا ہے، اس سے ملکوں کی آزادی، سلامتی اور خودمختاری دائوپر لگی ہوئی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اپنی طاقت کے زعم میں امریکا دنیا کا خدا اور طاغوت بن چکا ہے جو طاقت کے زور پر دنیا پر حکمرانی چاہتا ہے اور انسانی حقوق غصب کر رہا ہے اور دنیا میں فتنہ وفساد کا باعث ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ امریکا کو اس سرکشی اور مزید ظلم و استحصال سے روکا جائے۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ امریکا کسی دبائو کو خاطر میں لائے بغیر افغانستان، عراق، پاکستان کے بعد اب یمن میں نیا محاذ کھولنا چاہ رہا ہے۔

ان حالات میں انسانیت کی فلاح اور انسانی تہذیب وتمدن کے تحفظ اور عالمی امن و انصاف کے لیے پوری دنیا کو بالخصوص تمام امن پسند قوتوں کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اُمت مسلمہ کو سب سے بڑھ کر اپنا فرضِ منصبی ادا کرنے کی فکر ہونی چاہیے۔ اگر اُمت مسلمہ اس فتنے و فساد کے خاتمے کے لیے جو کہ براہِ راست اس کا نشانہ بھی بنی ہوئی ہے، اپنا کردار ادا نہیں کرتی توخدانخواستہ وہ خدا کے غضب کا شکار بھی ہوسکتی ہے اور غلامی اور ذلت و مسکنت اس کا مقدر ٹھیرسکتا ہے۔ ’پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے‘ کے مصداق وہ نئی اُمت بھی کھڑی کرسکتا ہے۔

وہ جنگ جو کل تک افغانستان تک محدود تھی آج پاکستان میں لڑی جارہی ہے۔ پاکستان براہِ راست امریکی ’دہشت گردی‘ کی زد میں ہے اور یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ اس سارے فساد کی جڑ امریکا ہے جس کی بے جا مداخلت اور خودسری کی وجہ سے نوبت یہاں تک پہنچی ہے۔ اس لیے امریکا کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکنا بہت ضروری ہے۔ ماضی میں جس طرح روسی جارحیت کو افغانستان میں روکا گیا تھا اور اس کے سامراجی عزائم کو خاک میں ملا دیا گیا اور سوویت یونین صفحۂ ہستی سے مٹ گیا اور اشتراکیت دم توڑ گئی، اسی طرح امریکی سامراج کو بھی اس خطے میں روکنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کی تمام امن پسند اقوام کو اس کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

امریکا کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ اسے ظلم و استحصال کی اس روش کو ترک کر دینا چاہیے۔ عملاً وہ یہ جنگ ہارچکا ہے۔ دنیا میں اس کے مخالفین میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین اور تجزیہ نگار ’دہشت گردی‘ کی اس جنگ کی مخالفت کر رہے ہیں۔ خود امریکا کے اندر سے یہ آواز   اُٹھ رہی ہے۔ امریکا خود بھی مسائل سے دوچار ہے، اس کی معیشت بیٹھتی جارہی ہے اور اس کے زوال کے چرچے عام ہو رہے ہیں۔ دانش مندی کا تقاضا بھی یہی ہے کہ امریکا سابق سوویت یونین سے سبق سیکھتے ہوئے جلد از جلد افغانستان سے نکل جائے اور اس جنگ سے اپنا پیچھا چھڑا لے۔

عالمی سطح پر پائے جانے والے اس ردعمل کو حکومتی، سفارتی، اداراتی، علمی و فکری حلقوں، غیرسرکاری تنظیموں، انسانی حقوق اور امن کے لیے سرگرم تنظیموں، عوامی سطح پر بیداری اور میڈیا کے بھرپور استعمال کے ذریعے مؤثر عالمی دبائو میں بدلنے کی ضرورت وقت کا تقاضا ہے۔ عالمی اسلامی تحریک کو بھی اپنے اپنے دائرے اور ممالک کی سطح پر آگے بڑھ کر منظم انداز میں امریکی جارحیت کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے، راے عامہ کو ہموار کرنا چاہیے اور امریکا مخالف قوتوں کے تعاون سے   امریکا مخالف محاذ بناکر امریکا پر دبائو بڑھانا چاہیے اور اسے مزید فساد اور خون ریزی سے روکنا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ہی پُرامن جدوجہد سے دنیا کے امن کا تحفظ اور ظلم و استحصال کا خاتمہ ،اور دنیا کو مزید خوں ریزی سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس شعور کو عالمی سطح پر اُجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔

اھلِ پاکستان کی آزمایش

اہلِ پاکستان جنھوں نے کل افغانستان میں امریکی جارحیت کے لیے ’فرنٹ لائن اسٹیٹ‘ کا کردار ادا کیا اور معصوم انسانوں کے خون میں ہاتھ رنگے، آج امریکی جارحیت کے خلاف بھرپور مزاحمت پیش کر کے جہاں تاریخ ساز کردار ادا کرسکتے ہیں وہاں امریکی جارح کا ساتھ دینے کے جرم کی تلافی بھی کرسکتے ہیں، اور خدا کے ہاں سرخ رو ہوسکتے ہیں۔

آج جس طرح سے لوگوں کا جینا دوبھر ہوگیا ہے اور ایک خوف اور دہشت کی فضا پورے ملک پر طاری ہے، اور ہرشعبۂ زندگی میں بگاڑ ہی بگاڑ نظر آرہا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی نعمتیںہم سے چھنتی چلی جارہی ہیں اور ایک مایوسی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہی ہے کہ ہم نے اللہ سے اپنا عہد وفا نہ کیا،امریکا کے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لیے اس کا ساتھ دیا، اپنے فرضِ منصبی کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے انصاف کی علَم برداری کے بجاے افغانستان کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھانے کے لیے اپنا کندھا پیش کیا، اور آج ہم خود اس فتنہ و فساد کا شکار ہیں۔

موجودہ حکومت نے اپنے دعووں کے برعکس ملکی پالیسی میں تبدیلی کے بجاے پرویز مشرف کی پالیسی ہی کو جاری رکھتے ہوئے امریکا کے اشارے پر پے در پے ایسے اقدامات اٹھائے ہیں جن کا نتیجہ پوری قوم کو امریکا کی غلامی میں دینے کے مترادف ہے۔ سوات اور قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کا آغاز، جس سے بڑے پیمانے پر تباہی کے ساتھ ساتھ پاک فوج کے خلاف نفرت اور انتقامی جذبے کا سر اٹھانا اور ملک میں دھماکے اور خودکش حملوں کا ہونا جس کا اس سے پہلے کوئی وجود نہ تھا، ڈرون حملوں کی اجازت کے نتیجے میں بے گناہ لوگوں کی بڑے پیمانے پر شہادت،   کیری لوگر بل کے ذریعے امداد کا حصول اور قوم کی تذلیل، بلیک واٹر ایجنسی کو کام کرنے اور مشکوک امریکی گاڑیوں کی بلاروک ٹوک آمدورفت، دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مذاکرات کے بجاے طاقت کے استعمال پر اصرار جس کے نتیجے میں دہشت گردی کے دائرے کا پھیلتے چلے جانا وغیرہ    اسی نوعیت کے اقدامات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کے ہاتھوں آئے روز ہماری ذلت کا سامان ہورہا ہے اور دوسری طرف امریکا کی سرپرستی میں بھارت کی طرف سے آئے دن دھمکیاں دی جاتی ہیں اور جنگ مسلط کرنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ ہم بے وقعت اور محکوم ہوکر رہ گئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو مول لینے اور ظلم کا نتیجہ یہی نکلا کرتا ہے کہ زندگی وبال بن جاتی ہے۔ امن و سکون چھن جاتا ہے، خوف اور دہشت کے سایے سر پر منڈلاتے محسوس ہوتے ہیں، خوش حالی کے بجاے تنگ دستی، بھوک، افلاس اور خشک سالی اور قحط خدا کے غضب کو دعوت دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے کسی بڑے عذاب سے قبل قوم کو جھنجھوڑنے اور بیدار کرنے کے لیے آزمایش ہوتی ہے۔ اگر آزمایش کی اس گھڑی میں قوم اپنی اصلاح کرلے تو یہی آزمایش سربلندی کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔ اس وقت اہلِ پاکستان ایسی ہی کیفیت سے دوچار ہیں۔ خدا کے اس غضب سے نجات پانے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں ہے کہ ہم بحیثیت قوم اللہ کی طرف رجوع کریں، ظلم سے اجتناب کریں اور عدل و انصاف کی سربلندی اور امریکی طاغوت کی سرکوبی کے لیے حق کی آواز بلند کریں، اور اس راہ میں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ یہی راہِ نجات ہے۔ اس کے نتیجے میں اللہ بھی ہم سے راضی ہوگا، اپنی نعمتوں کا اتمام کرے گا اور خوف سے امن بخش دے گا۔

وقت کے اس تقاضے کو سمجھتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان نے امن و انصاف کی بالادستی، ظلم و استحصال کے خاتمے، امریکی استعمار کے جبر اور فتنہ و فساد کوروکنے اور اُمت مسلمہ کے فرضِ منصبی کو ادا کرنے کے لیے آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا اور ’گو امریکا گو‘ کے عنوان سے امریکا مخالف تحریک کا آغاز کیا جو تسلسل سے جاری ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ یہ پُرامن جدوجہد دنیا میں امن کے تحفظ کی جدوجہد ہے۔ یہ جدوجہد امریکا جیسے سامراج اور دنیا کی خدائی کے دعوے دار کے ظلم و استحصال اور فتنہ وفساد سے بچانے کے لیے امن و انصاف کی جدوجہد ہے۔ یہ جدوجہد خدا کے مقابلے میں دنیا کو اپنی اطاعت اور غلامی کا اسیر بنانے والے امریکی طاغوت کی غلامی کے خلاف خدا کی بندگی کی دعوت ہے۔ یہ جدوجہد آزاد دنیا کے آزاد ملکوں کی سلامتی، خودمختاری اور تحفظ کے لیے امریکا کی بے جا اور حد سے بڑھتی ہوئی مداخلت کے خلاف جدوجہد ہے۔ یہ جدوجہد اہلِ ایمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور ان کے  فرضِ منصبی کی ادایگی کی جدوجہد ہے۔ یہ وہ جہاد ہے جس کے لیے اس اُمت کو برپا کیا گیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں عالمی سطح پر امریکا مخالف تحریک کے لیے بھرپور آواز اٹھائی جائے، وہاں قومی سطح پر بالخصوص وہ صالح عنصر جو ملک و ملّت کے لیے درد رکھتا ہے آگے بڑھ کر منظم انداز میں اپنا کردار ادا کرے۔ امریکا مخالف محاذ قائم کیا جائے، ملک گیر عوامی تحریک کے ذریعے عالمی احتجاج کے ساتھ ساتھ موجودہ حکمرانوں کو منصفانہ روش اپنانے اور ملک و ملّت کے مفاد میں پالیسی بنانے پر مجبور کیا جائے، نیز امریکا کی بے جا مداخلت اور افغانستان میں جاری جنگ کو روکا جائے۔ طاقت کے استعمال کے بجاے مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا منصفانہ ، پُرامن اور پایدار حل نکالا جائے۔

آزمایش کی اس گھڑی میں اہلِ پاکستان کو استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے منصفانہ موقف کی حمایت اور امریکا کی بے جا مداخلت کے خلاف بھرپور آواز اٹھانی چاہیے اور ملک میں جاری امریکا مخالف تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔ اس کے نتیجے میں ہی ہم ماضی میں کی جانے والی کوتاہیوں کی تلافی کرسکتے ہیں اور بحیثیت مسلمان اپنا فرضِ منصبی ادا کرسکتے ہیں اور امریکی طاغوت کو مزید ظلم و فساد سے روک کر نہ صرف اپنے ملک میں امن قائم کرسکتے ہیں بلکہ پوری دنیا کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔

بحیثیت قوم اگر ہم نے اس فیصلہ کن مرحلے میں غفلت برتی یا مداہنت دکھائی اور ہماری وجہ سے مزید خون خرابہ، بگاڑ اور فساد برپا ہوتا ہے تو پھر ملک کا مستقبل بھی مخدوش نظر آتا ہے۔ بھارتی بالادستی، بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک، سرحد میں نفرت اور سر اٹھاتا ہوا انتقامی جذبہ اور کراچی کی بگڑتی صورت حال، ملکی سلامتی کو درپیش خطرات کی کھلی کھلی نشان دہی کر رہے ہیں۔ اگر ہم نے اس موقع کو بھی ضائع کر دیا تو خدشہ ہے کہ کہیں خدانخواستہ اللہ کا قانون حرکت میں نہ آجائے اور اہلِ پاکستان کی مہلتِ عمل ہی ختم کر دی جائے اور فساد کے خاتمے کے لیے انتظام کسی اور کو  سونپ دیا جائے۔ اس لیے کہ اللہ کو فساد اور بگاڑ نہیں بلکہ امن اور انصاف پسند ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اُمت مسلمہ جس کا فرضِ منصبی ہی یہ ہے کہ وہ دنیا میں ظلم و استحصال کا خاتمہ کرے اور انصاف کی علَم بردار بن کر رہے، اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ اس ذمہ داری کو کماحقہ ادا نہیں کرتی تو وہ کبھی سرخرو نہیں ہوسکتی۔ مسلمانوں کے لیے اللہ کا یہ خاص قانون ہے۔ اس کے بغیر وہ ترقی نہیں کرسکتے خواہ ان کا بچہ بچہ تعلیم یافتہ ہوجائے، اور ان کے پاس کتنے ہی وسائل کیوں نہ ہوں۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر مسلمان اپنی بے سروسامانی کے باوجود مخلص مومن اور اسلام کے سچے پیروکار بن کر ظلم کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں اور طاغوتی قوتوں کی سرکوبی کے لیے سرتوڑ کوشش کریں اور جہاد فی سبیل اللہ کی راہ کو اپنا لیں، تو بے سروسامانی کے باوجود اللہ ان کو غالب کر دے گا۔ اُمت کی سربلندی کا راز بھی اسی بات میں مضمر ہے۔ اللہ کی سنت ہے کہ بارہا اس نے قلیل گروہ کو کثیر گروہوں پر غالب کیا ہے۔ ہماری تاریخ اس پر شاہد ہے اور آج بھی امریکی سامراج اور طاغوت کے خلاف اپنی بے سروسامانی کے باوجود اگر کوئی مزاحمت کر رہا ہے تو وہ مسلمان ہی ہیں۔

اس جدوجہد کے نتیجے میں بالآخر وہ مرحلہ بھی آئے گا جب ظلم کے خلاف اگر مدد کے لیے دنیا کسی کو پکارے گی تو وہ اُمت مسلمہ ہوگی، بے لاگ عدل وانصاف کے لیے اگر کسی طرف نظریں اُٹھیں گی تو وہ مسلمان ہوں گے، اور دنیا میں انسانی حقوق کا محافظ اور امن کا ضامن اگر کسی کو سمجھا جائے گا تو وہ مسلمانوں کو سمجھا جائے گا۔ کوئی دوسری قوم، کوئی دوسرا نظام ان کے سامنے ٹھیر نہ سکے گا۔ اسی جدوجہد کے نتیجے میں پسپائی امریکا کا مقدر ٹھیرے گی، اشتراکیت کی طرح سرمایہ داری بھی اپنے انجام کو پہنچ کر رہے گی، پھر کسی طاغوتی قوت کو ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر دنیا کے امن کو تہ و بالا کرنے کی جرأت نہ ہوسکے گی۔ بالآخر دنیا کا مستقبل ایک پُرامن اور منصفانہ عالمی نظام، یعنی اسلام ہوگا، ان شاء اللہ! اس کے لیے شرط صرف یہی ہے کہ اُمت مسلمہ اپنا فرض منصبی ادا کرنے کے لیے اُٹھ کھڑی ہو!

وَ لَا تَھِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۱۳۹) دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔

بلاسود بنکاری کا رجحان اب اسلامی ممالک کے ساتھ ساتھ غیرمسلم ممالک میں بھی    بڑھ رہا ہے۔ اس کا ایک سبب اسلامی بنکاری کا حقیقی سرمایہ کاری پر مبنی محفوظ سرمایہ کاری ہونا ہے،   جب کہ دوسرا سبب عالمی معاشی بحران کی وجہ سے سرمایہ کاری میں کمی کے پیش نظر مسلمانوں کے سرمایے کو بھی استعمال میں لانا اور بحران کی شدت میں کمی کرنا ہے۔ مسلمان چونکہ سود کی حُرمت کی بناپر سودی بنکاری سے اجتناب کرتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کے لیے سودی بنکوں میں بھی سود سے پاک بنکاری کے لیے کھڑکیاں یا کائونٹر کھولے جارہے ہیں۔ ایسی ہی کوششیں بھارت میں بھی کی جارہی ہیں۔ اس سلسلے میں ریزرو بنک آف انڈیا کو حکومت کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے کہ  وہ اس ضمن میں اقدامات اٹھائے۔ ایچ عبدالرقیب جنرل سیکرٹری انڈین سنٹر فار اسلامک فنانس (آئی سی آئی ایف) اور کنوینر نیشنل کمیٹی اسلامک بنکنگ نے حکومت کے اس اقدام کو خوش آیند قرار دیا ہے۔ (ٹیلی گراف، ۶دسمبر ۲۰۰۹ء، بحوالہ: icif.trust@gmail.com)

بھارت اگرچہ جمہوریت کا دعوے دار اور ایک سیکولر ملک ہونے کے ناتے مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا علَم بردار ہے مگر عملاً ہندو انتہا پسندی کے ہاتھوں جس طرح غیرہندو اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر مظالم توڑے جاتے ہیں، ہندو مسلم فسادات کے نتیجے میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا جاتا ہے، احمدآباد اور گجرات کے مسلم کُش فسادات اس کا کھلا ثبوت اور بھارت کے اصل چہرے کو بے نقاب کرنے کے مترادف ہیں۔ اس فضا میں بظاہر ’بلاسود بنکاری‘ کے لیے اقدام کرنا درحقیقت عالمی معاشی بحران کی وجہ سے سرمایہ کاری میں کمی سے بچنے اور مسلمانوں کے سرمایے کو استعمال میں لانے کی کوشش ہے۔

بھارت میں بلاسود بنکاری کے آغاز کا مطالبہ مسلمانوں کی طرف سے کیا جاتا رہا ہے اور اس میں مسلم دانش وروں، اراکینِ پارلیمان اور بینکرز کا فورم انڈین سنٹر فار اسلامک فنانس (آئی سی آئی ایف) پیش پیش رہا ہے۔ اب یہ مطالبہ باقاعدہ عوامی تحریک کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔

سچرکمیٹی رپورٹ میں جس میں مسلمانوں کے معاشرتی و اقتصادی احوال کا جائزہ لیا گیا ہے، اس پہلو کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے کہ بھارت میں مسلمان کُل آبادی کا ۱۵ فی صد ہیں لیکن ملک کے ۲۷ فی صد پبلک سیکٹر کے موجودہ بنکوں میں ان کے کھاتوںیا اکائونٹس کی تعداد صرف ۱۲ فی صد ہے، جب کہ دیگر اقلیتیں جن کی آبادی فقط ۶ فی صد ہے، کا تناسب ۸ فی صد ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کے بنکوں میں بھی مسلمانوں کے صرف ۲۰ فی صد کھاتے ہیں، جب کہ دیگر اقلیتوں کے ۵۱ فی صد کھاتے ہیں۔ اسی طرح رگھورام راجن کمیٹی رپورٹ میں اس بات کوتسلیم کیا گیا کہ کچھ مذاہب اور عقائد ایسے فنانشل اداروں کو ناجائزقرار دیتے ہیں جو سود کا کاروبار کرتے ہیں۔ چنانچہ بلاسود بنکاری کی غیرموجودگی میں کچھ ہندستانیوں کو جو اقتصادی طور پر پس ماندہ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ایسے بنکوں سے فائدہ اٹھانے سے محروم کر دیتا ہے جسے وہ عقیدے کی بنا پر ناجائز سمجھتے ہیں۔ اس طرح اس رپورٹ میں بھی بلاسود بنکاری کی سفارش کی گئی ہے۔

اسلامی بنکاری کے بلاسود ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے دروازے غیرمسلموں کے لیے بھی بلااستثنا کھلے ہوئے ہیں۔ اس کو اپنانے کے نتیجے میں نہ صرف بڑے پیمانے پر پس ماندہ طبقہ اس سے مستفید ہوگا بلکہ سود کے بوجھ سے بھی لوگ چھٹکارا پاسکتے ہیں۔ اس نظام کی افادیت کو محسوس کرتے ہوئے ریزرو بنک آف انڈیا نے اپنی ایک رپورٹ لیگل نیوز اینڈ ویوز (۲۰۰۵ء) میں اس بات پر زور دیا ہے کہ بلاسود بنکاری ساری دنیا میں مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ اس لیے وقت آگیاہے کہ اسے بھارت میں بھی اختیار کیا جائے۔ عملاً صورت حال یہ ہے کہ سودی نظام کے مخالفین کی بڑی رقم ہندستان میں بے مصرف اور منجمد پڑی ہوئی ہے۔ اگر اسے معقول طریقے سے کاروبار میں لگایا جائے تو یہ ہندستان کی اقتصادی ترقی میں معاون ہوسکتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مسلمانوں کے اثاثے ۱۵ کھرب کے قریب ہیں جو ۱۵ فی صد کی مقدار سے ہرسال بڑھ رہے ہیں۔ بلاسودبنکاری نظام ہندستانی بنکوں میں صرف ایک  ونڈو کے ذریعے انجام دیا جاسکتا ہے۔ (’’بلاسود بنکاری کا روشن مستقبل‘‘، پورینما ایس ترپاٹھی، ماہنامہ ملّی اتحاد، دہلی، دسمبر ۲۰۰۹ء)

وزیراعظم من موہن سنگھ کی ہدایت پر ڈپٹی چیئرمین راجیہ سبھا کے رحمن خان نے ارکانِ پارلیمنٹ کا ایک گروپ تشکیل دیا ہے جس نے یہ راے دی ہے کہ بلاسود بنکاری کو ہندستان میں کسی دستوری ترمیم کے بغیر روبہ عمل لایا جاسکتا ہے۔ اس گروپ نے وزیراعظم کے سامنے ایک متبادل ماڈل بھی تجویز کیاہے جو ملایشیا کے تابنگ حاجی (Tabung Haji) کے طرز پر چلایا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہوگا جہاں مسلمان اپنی بچت جمع کرا سکیں گے اور یہ مسلمانوں کو ادایگیِ حج میں سہولت مہیا کرے گا، اور ان کی بچت کی رقوم کو ایسے منصوبے میں لگائے گا جو شریعت کے ضوابط کے مطابق ہوں۔ اگر یہ ادارہ مسلم آبادی کے صرف ۱۵ فی صد کو بھی متوجہ کرسکے تو ۳ ہزار کروڑ روپے  کی رقم تین سے پانچ سال کے اندر جمع ہوسکتی ہے۔ دوسری جانب ارکانِ پارلیمنٹ کا ایک گروپ اسدالدین اویسی کی سربراہی میں بلاسود بنکاری کے لیے ایک بل بھی پیش کرچکا ہے۔ ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں کمیونسٹ پارٹی، مارکسٹ سماج وادی پارٹی، راشٹریہ جنتادل، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی اور ڈی ایم کے بھی بلاسود بنکاری کی حمایت کرچکی ہیں۔ نائن الیون کے بعد خلیجی ممالک سرمایہ کاری کے لیے چین اور بھارت میں دل چسپی رکھتے ہیں۔ خود بھارت کو اپنی ملکی ضروریات کے لیے  اگلے پانچ سال کے لیے ۵۰۰ بلین ڈالر کی ضرورت ہوگی جس کا اظہار من موہن سنگھ قطر میں    اپنے دورے کے موقع پر کرچکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ۴۰ کھرب کی رقوم خلیجی ممالک میں اس انتظار میں پڑی ہیں کہ ہندستان میں بلاسود بنکاری کا آغاز ہو۔

بھارت میں بلاسود بنکاری کا مستقبل روشن ہے، تاہم کچھ عملی دشواریاں ہیں۔ بھارت میں تمام بنک ۱۹۴۹ء کے ایکٹ کے تحت چلائے جا رہے ہیں جس میں بلاسود بنکاری کے آغاز کے لیے کم از کم چھے جگہ ترمیم کی ضرورت ہے۔ یہ ترمیم صرف پارلیمنٹ ہی کرسکتی ہے۔ جب تک پارلیمنٹ اس کے حق میں فیصلہ نہیں کرتی، بھارت میں بلاسود بنکاری شروع نہیں ہوسکتی۔ بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ اور دوسرے بہت سے حلقے اس کی افادیت کو سمجھتے ہیں لیکن ہندوئوں کی ناراضی کا خطرہ مول لینے کے لیے کوئی تیار نہیں اور کوئی بھی اسلام پرست یا مسلم نواز ہونے کا الزام اپنے سر لینے کے لیے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک پارلیمنٹ میں اس پر بحث نہیں ہوسکی۔ تاہم، اس مسئلے کا ایک درمیانی حل ملک میں موجود بنکوں میں بلاسود بنکاری کی ونڈو یا کائونٹر کھول کر نکالا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے پارلیمنٹ سے ایکٹ میں ترمیم یا قانونی اجازت کی بھی ضرورت نہیں ہے۔

ملک کے موجودہ بنکنگ ایکٹ میں بنک کو کسی کمپنی کے لیے بطور ٹرسٹی کام کرنے کی اجازت ہے۔ اس اجازت کی وجہ سے بنک کمپنیوں کے لیے غیرسودی سرمایہ کاری بھی کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو ادارے نیم بنکاری (پیرا بنکنگ) کا کام کرتے ہیں اور بلاسود بنکاری زیادہ تر نیم بنکاری کا کام کرتی ہے، سودی بنک بلاسود بنکاری ونڈو کے ذریعے ان کے ساتھ سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔ خیال رہے گذشتہ برس بھارت میں اُونچی شرح سود کی وجہ سے سودی بنکوں کی آمدنی میں اضافے کی شرح ۲۵ فی صد سے کم تھی، جب کہ غیرسودی آمدنی میں اضافے کی شرح ۴۰ فی صد سے زیادہ تھی۔ اس لیے بھی سودی بنک بلاسود بنکاری کرنا چاہتے ہیں۔ (’’ہندستان میں اسلامک بنکنگ: مسائل اور امکانات‘‘، سید زاہد احمد علیگ، سہ روزہ دعوت، دہلی، ۲۸؍ اکتوبر ۲۰۰۹ء)

حال ہی میں بھارتی حکومت نے بنک قوانین میں تبدیلی کر کے ریزرو بنک آف انڈیا کو جو ہدایت کی ہے کہ وہ بلاسود بنکاری کو ممکن بنائے، بالآخر اس سے وہ راہ کھل گئی ہے جس سے بھارت میں بلاسود بنکاری کا خواب ایک حقیقت بنتا نظرآرہا ہے۔ یوں یہ حقیقت بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہوکر سامنے آتی جا رہی ہے کہ انسانیت کو اپنے مسائل کے حل کے لیے بالآخر اسلام کی راہِ نجات ہی کو اپنانا ہوگا۔

یہاں ایک بات کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ اسلامی بنکاری وہ ہے جو شریعت کے تمام مطالبات اور تقاضوں کو پورا کرے اور مقاصد ِ شریعت کے تابع ہو۔ جو تجربہ بھارت یا چند اور ممالک میں کیا جارہا ہے وہ بلاسود بنکاری تو ہوسکتا ہے اسلامی بنکاری نہیں۔ اسلامی بنکاری کے لیے ضروری ہے کہ بنک کے تمام معاملات اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہوں، اور بنک کے نظامِ کار یا فنڈ میں سود یا دوسرے حرام ذرائع سے آنے والی آمدنی گڈمڈ نہ ہو۔ بلاسود کائونٹر میں اس کا خدشہ ہوتا ہے جس کا سدباب ضروری ہے۔ اس بنا پر بھارت میں بنکاری کو بلاسود بنکاری قرار دیا جائے گا نہ کہ اسلامی بنکاری۔

عالمی معاشی بحران کے نتیجے میں اسلامی بنکاری کو تیزی سے فروغ حاصل ہورہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق عالمی اسلامی فنانس انڈسٹری کے اثاثہ جات میں گذشتہ چند برسوں میں بہت تیزی سے اضافہ ہو ا ہے اور اب وہ ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ چکے ہیں(ٹریو بنکنگ، اگست-ستمبر ۲۰۰۹ء، ص ۱۱)۔ یہ غیرمعمولی پیش رفت ہے اور اسلامی بنکاری کے ایک محفوظ بنکاری کے تصور پر بڑھتے ہوئے اعتماد کا نتیجہ ہے کہ یہ سود اور سٹہ سے پاک حقیقی سرمایہ کاری پر مبنی ہے۔

اسلامی بنکاری کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت چند ماہ قبل اشتراکی نظریات کے حامل روس کے دارالحکومت ماسکو میں پہلی بین الاقوامی اسلامی بنکاری کانفرنس (۱۷؍۱۸ مارچ ۲۰۰۹ء) کا انعقاد ہے جس سے روس اور اسلامی ممالک میں اسلامی بنکاری کی پیش رفت کے لیے راہ ہموار ہوئی ہے۔ حال ہی میں ویٹی کن سٹی نے بھی سرمایہ داری نظام کو ناکام قرار دیتے ہوئے تجویز کیا ہے کہ معاشی بحران کے حل کے لیے اسلامی بنکاری سے رجوع کیا جائے۔ اس لیے کہ اسلام کے معاشی قوانین معاشی بحران کا بہتر حل پیش کرتے ہیں۔ ویٹی کن کے سرکاری ترجمان L'osservator Romunoنے ایک مقالہ: Islamic Finance: Proposal and Ideas for The West in Crisisجو کہ اٹلی کے ماہرین معیشت Loretta Napoleoniاور Claudia Segreنے لکھا ہے، شائع کیا ہے اور تجویز کیا ہے کہ اسلامی معاشی قوانین موجودہ بحران کا ایک بہتر حل پیش کرتے ہیں اور سکوک بانڈ کو سود کے متبادل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ پوپ بینڈکٹ XVI نے بھی سرمایہ داری نظام پر کڑی تنقید کی ہے۔ ویٹی کن خود بھی مالی بحران کا شکار ہے۔ ۲۰۰۷ء کے ۱۸ بلین یورو اضافی بجٹ میں ۶ بلین یورو کی کمی واقع ہوچکی ہے جس میں سالِ رواں میں مزید کمی کا اندیشہ ہے۔

عالمی اسلامی فنانس کا بڑا مرکز اس وقت مشرق وسطیٰ، ایشیا اور برطانیہ ہے۔ ہانگ کانگ، سنگاپور، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا کے ساتھ ساتھ جاپان میں بھی اسلامی بنکاری تیزی سے فروغ پارہی ہے۔اس عالمی رجحان کی وجہ سے عالمی اسلامی بنک کے قیام کی ضرورت کو بھی محسوس کیا جارہا ہے۔ ماضی میں بھی اس حوالے سے کوششیں کی جاتی رہی ہیں، تاہم البرکہ گروپ بحرین نے شیخ صالح کمال کی سربراہی میں سرگرمی دکھائی ہے اور عالمی اسلامی بنک کے قیام کی طرف  مزید پیش رفت ہوئی ہے۔ البرکہ گروپ، استخلاف (Istikhlaf) کے نام سے شرعی انوسٹمنٹ عالمی بنک کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ گذشتہ کئی برسوں کی کوششوں کے نتیجے میں اسی اقدام کو نہ صرف سراہا جا رہا ہے بلکہ بنک کے اجرا کے لیے اب تک ۵ء۳ بلین ڈالر کا سرمایہ خلیجی ممالک سے جمع بھی کیا جاچکا ہے، جب کہ اسے ۱۰۰ بلین ڈالر تک بڑھانے کا ہدف ہے۔ (اکانومسٹ، ۲۰ جون ۲۰۰۹ء)

اس راہ میں کچھ عملی مشکلات بھی ہیں۔ ایک بڑا مسئلہ سرمایے کی کمی ہے جس کی وجہ سے اسلامی بنک سرمایے کے حصول کے لیے ملٹی نیشنل بنکوں سے رجوع کرنے پر مجبور ہیں۔ اس مسئلے کے حل کی ایک صورت یہ ہے کہ سعودی عرب جو آج بھی اسلامی بنکاری کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے، آگے بڑھ کر اپنے وسائل عالمی اسلامی بنک کے قیام کے لیے لگائے۔ بحرین جو اس میدان میں پیش پیش ہے اس کے ساتھ مشترکہ سرمایہ کاری کی جائے۔

اسلامی بنکاری کے لیے تکنیکی سٹاف کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے جس کو ملٹی نیشنل بنکوں کے تعاون سے پورا کیا جارہا ہے۔اس مسئلے کے حل کے لیے اسلامی ممالک کو جامع منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرنا چاہیے۔ فنی تربیت کے لیے بڑے پیمانے پر معیاری تعلیمی ادارے کھولنے کی ضرورت ہے جو اسلامی فنانس کی ضروریات کو مستقبل میں پورا کرسکیں۔

ایک عملی مسئلہ اسلامی بنکاری کے لیے یکساں عالمی اصولوں اور قواعد و ضوابط کا ہے۔ اسلامی بنکاری کے مختلف طریقوں مثلاً مضاربہ (باہمی شراکت) رہن (مارٹ گیج) اور سکوک بانڈ کے لیے مختلف ممالک میں مختلف طریق کار رائج ہیں جو کہ عالمی اسلامی بنکاری کے فروغ میں   ایک رکاوٹ ہے۔ کویت کا ایک مسلمان ملایشیا کا سکوک بانڈ نہیں خرید سکتا، اس لیے کہ ایک ملک کے علما کے نزدیک اس میں سود کا عنصر شامل ہے۔ اسی طرح اسلامی بنکاری کے لیے رائج طریقوں اور اسکیموں میں شریعہ ماہرین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے یکساں عالمی اسلامی بنکاری کے قوانین اور ضوابط وضع کرنے میں رکاوٹ پیش آرہی ہے اور عالمی اسلامی بنکاری کے فروغ میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

اس مسئلے کے حل کے لیے ضروری ہے کہ علماے کرام، اسکالرز اور شریعہ ماہرین علمی سطح پر تبادلۂ خیال کر کے اصولی نقطۂ نظر کو سامنے لائیں۔ اس کے نتیجے میں یکسوئی پیدا ہوگی اور عالمی اسلامی بنکاری کے لیے راہ ہموار ہوگی۔ عالمی اسلامی بنک کے قیام کی ضرورت بھی اس لیے محسوس کی جارہی ہے تاکہ یکساں عالمی اسلامی بنکاری کے اصول وضوابط کا اجرا ہوسکے اور پوری دنیا اسلامی بنکاری سے بھرپور انداز میں استفادہ کرسکے۔ توقع ہے کہ علماے کرام، اسکالرز اور شریعہ ماہرین اُمت مسلمہ کو درپیش اس چیلنج کا عملی حل جلد پیش کریں گے۔

 

کہتے ہیں کہ ’’سکتے کے مریض کا آخری امتحان اس طرح کیا جاتا ہے کہ اس کی ناک کے پاس آئینہ رکھتے ہیں۔ اگر آئینے پر کچھ دھندلاہٹ پیدا ہو تو سمجھتے ہیں کہ ابھی جان باقی ہے، ورنہ اس کی زندگی کی آخری امید بھی منقطع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی کسی بستی کا تمھیں امتحان لینا ہو تو اسے رمضان کے مہینے میں دیکھو۔ اگر اس مہینے میں اس کے اندر کچھ تقویٰ، کچھ خوفِ خدا، کچھ نیکی کے اُبھار کا جذبہ نظر آئے تو سمجھو ابھی زندہ ہے، اور اگر اس مہینے میں نیکی کا بازار سرد ہو، فسق و فجور کے آثار نمایاں ہوں اور اسلامی حِس مُردہ نظر آئے، تو انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھ لو۔ اس کے بعد زندگی کا کوئی سانس مسلمان کے لیے مقرر نہیں ہے‘‘۔ (سید مودودیؒ، کتاب الصوم)

اگر اس پیمانے سے ہم اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو الحمدللہ ایسی مایوس کن صورت حال نہیں ہے۔ رمضان کے آتے ہی تقویٰ، خوفِ خدا اور نیکی کے لیے ایک نیا جذبہ اور ولولہ سامنے     آتا ہے۔ ہرشخص کچھ نہ کچھ نیکی کرنے کی کوشش میں ہوتا ہے۔ مساجد میں رونق ہوجاتی ہے،  تلاوتِ قرآن کا اہتمام ہوتا ہے، اور ہمدردی و خیرخواہی کے جذبے کے تحت اِنفاق اور حاجت مندوں کی امداد کی جاتی ہے۔ اجتماعی طور پر نیکی کا ماحول ہوتا ہے۔ نیکیوں کے لیے موسمِ بہار کا سا سماں ہوتا ہے۔ گویا اس حوالے سے ہمارا معاشرہ ایک زندہ معاشرہ ہے۔ کم و بیش پورے ماہِ صیام میں یہ سلسلہ چلتا ہے بلکہ آخری عشرے میں اعتکاف کا خصوصی اہتمام خصوصاً شب قدر کے موقع پر عبادت، نوافل کی ادایگی اور شب بیداری کے لیے لوگوں کا جذبہ دیدنی اور ایمان پرورہوتا ہے۔

دوسری طرف رمضان کے گزرتے ہی بلکہ چاند رات ہی کو یہ صورتِ حال بدلتی محسوس ہوتی ہے۔ جذبۂ ایمان سرد پڑنے لگتا ہے۔ روزے کی وجہ سے لوگ جن غلط کاریوں سے رُکے ہوتے ہیں ان کا پھر سے ارتکاب کرنے لگتے ہیں۔ نماز کی ادایگی میں کمی آجاتی ہے اور مسجدوں کی رونق ماند پڑنے لگتی ہے۔ قرآن کی تلاوت اور قرآن سے وہ تعلق نہیں رہتا جو اس ماہ میں لوگوں کا معمول بن جاتا ہے۔ عبادت کے ذوق و شوق میں کمی آجاتی ہے۔ حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی وہ تمیز گھٹنی شروع ہوجاتی ہے جس کا رمضان کے تقدس اور احترام میں اہتمام کیا جاتا ہے۔ گویا رمضان میں اگر قید یا پابندی تھی تو رمضان کے بعد ایک طرح سے پھر بے قیدی ہوجاتی ہے۔ آخر اس کا سبب کیا ہے؟

اگر غور کیا جائے تو اس کے دو بنیادی اسباب ہیں۔ پہلا سبب تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں عبادت کا رسمی تصور پایا جاتا ہے، حقیقی شعور نہیں۔ لوگوں کے نزدیک نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ کی ادایگی اور کچھ نیک کام کر دینے کا نام عبادت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان عبادات کا پوری طرح اہتمام کرتے ہیں۔ گویا ان کے لیے چند افعال کی ظاہری شکلوں کی ادایگی کا نام عبادت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ رمضان میں روزے کے آداب اور دیگر عبادات کا بہت اہتمام کرتے ہیں لیکن رمضان کے گزرتے ہی ان کے معمولات میں فرق آجاتا ہے۔ گویا عبادت کا ایک مہینہ تھا، گزر گیا۔

عبادت دراصل ہر وقت اور ہر حال میں خدا کی بندگی اور اطاعت کا نام ہے۔ درحقیقت نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کے ذریعے پوری زندگی میں خدا کی بندگی اور اطاعت کی مشق کروائی جاتی ہے۔ نماز دن میں پانچ مرتبہ یہ یاد دلاتی ہے کہ ہم اللہ کے بندے ہیں، ہمیں اسی کی بندگی اور اطاعت کرنی ہے۔ روزہ سال میں ایک مرتبہ مہینہ بھر خداخوفی اور خدا کی اطاعت کی مشق کرواتا ہے۔ ہم اس کے حکم پر کھانا پینا چھوڑتے ہیں اور اسی کے حکم ہی پر کھاتے پیتے اور دیگر خواہشات کی تسکین کرتے ہیں۔زکوٰۃ کی ادایگی سے ہمیں یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ ہمارا مال خدا کا عطیہ ہے اور ہمیں اسے خدا کی مرضی کے مطابق خرچ کرنا ہے اور اس میں ہمارے غریب بھائیوں کا حق بھی ہے۔ حج کے ذریعے خدا کی محبت اور اس کی بندگی کا گہرا نقش بٹھایا جاتا ہے۔ اس طرح یہ تمام عبادتیں انسان کو اس بڑی عبادت کے لیے تیار کرتی ہیں جو کہ حقیقی عبادت ہے، یعنی زندگی کے ہرمعاملے میں خدا کی اطاعت اور بندگی۔

اسلام میں عبادت کی اہمیت اس قدر ہے کہ اسے مسلمان کا مقصد ِزندگی قرار دیا گیا ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo(الذاریات ۵۱:۵۶) میں نے جِن اور انسان کو اس کے سوا کسی اور غرض کے لیے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔

اگر ایک مسلمان اپنے مقصدِ زندگی ہی کو نہ پاسکے تو یہ کتنی بڑی ناکامی اور خسارہ ہے۔ لہٰذا عبادت کے حقیقی شعور کا اُجاگر ہونا ناگزیر ہے۔ مسلمانوں میں جب عبادت کی حقیقی روح بیدار ہوگی تو پھر رمضان کے بعد بھی وہ خدا کی عبادت میں مصروف رہیں گے بلکہ رمضان جیسے بابرکت مہینے کی مشق ان میںتقویٰ اور پرہیزگاری میں اضافے کا باعث ہوگی۔

رمضان کے بعد عبادات میں کمی کا ایک دوسرا بنیادی سبب اجتماعی ماحول اور اجتماعیت کی کمی ہے۔ ماہِ رمضان میں پورے ماحول پر نیکی کا رنگ غالب ہوتا ہے۔ نیکی کرنا آسان اور برائی کا ارتکاب مشکل ہوتا ہے۔ رمضان کے رخصت ہوتے ہی ماحول میں بڑی حد تک تبدیلی آجاتی ہے اور نیکی کرنا مقابلتاً مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیکی کا جذبہ سرد پڑنے لگتا ہے اور عبادات میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ یہی وہ پہلو ہے جس کی طرف ایک غزوہ سے واپسی کے موقع پر نبی کریمؐ نے صحابہ کرامؓ کو توجہ دلائی تھی کہ اب تم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹ رہے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ روز مرہ زندگی میں، جب کہ ماحول بھی سازگار نہ ہو خدا کی مکمل اطاعت کرنا کوئی آسان کام نہیں اور اسی لیے آپؐ نے اسے جہادِ اکبر سے تعبیر فرمایا ہے۔

رمضان کے بعد نیکی کے لیے جذبے کو تروتازہ رکھنا ایک مسلمان کے لیے بڑا چیلنج ہے، جب کہ ماحول سازگار نہ ہو اور اس میں تبدیلی بھی آچکی ہو۔ شیطان ہمارا کھلا دشمن ہے اور اس کے مقابلے کے لیے اجتماعیت ناگزیر ہے۔ نبی کریمؐ نے مختلف مواقع پر اجتماعیت کی اسی اہمیت کو واضح کیا ہے۔ ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا کہ بھیڑیا اُسی بھیڑ کو کھاتا ہے جو اپنے ریوڑ سے الگ ہوجاتی ہے۔ کہیں آپؐ نے فرمایا کہ جماعت پر خدا کی رحمت ہوتی ہے۔ اسی طرح آپؐ نے اجتماعیت کے ساتھ جڑے رہنے پر بہت زور دیا ہے۔ لہٰذا رمضان کے بعد نیکی اور پرہیزگاری کے عمل کے تسلسل کے لیے اجتماعیت سے جڑنا اور صحبت ِ صالح اختیار کرنا جہاں ضروری ہے وہاں نیکی کے جذبے کے ماند پڑجانے کا علاج بھی ہے۔ سورئہ کہف میں اجتماعیت اور صحبت ِ صالح کی اسی اہمیت پر زور دیا گیا ہے بالخصوص جب نیکی کے لیے ماحول سازگار نہ ہو، جیساکہ آج ہمارا معاشرہ ہے۔ فرمایا گیا ہے: ’’اور اپنے دل کو اُن لوگوں کی معیت پر مطمئن کرو جو اپنے رب کی رضا کے طلب گار بن کر صبح و شام اُسے پکارتے ہیں، اور ان سے ہرگز نگاہ نہ پھیرو‘‘ (الکھف ۱۸: ۲۸-۲۹)۔ گویا کہ یہاں واضح  طور پر صالح اجتماعیت سے جڑنے کی تاکید کی گئی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ماہِ رمضان کے موقع پر نیکی و پرہیزگاری کا حامل صالح عنصر اُبھر کر سامنے آجاتا ہے اور اپنی زندگی کا ثبوت دیتا ہے۔ منظم اجتماعیت کا تقاضا ہے کہ معاشرے کے اس صالح عنصر کو جو فی الواقع خیر کا علَم بردار اور حق و باطل کی کش مکش میں اہلِ حق کا قیمتی سرمایہ و اثاثہ ہے،ایک منظم قوت میں تبدیل کرلیا جائے۔ رمضان، یعنی نیکیوں کے موسم بہار کے بعد بھی یہ اجتماعیت سے جڑا رہے اور نیکی اور خیر کا عمل ایک تسلسل سے جاری رہے۔ اس کے نتیجے میں رمضان میں بیدار ہونے والے جذبۂ ایمان کو ایک تسلسل سے آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔ اس طرح نیکیوں کے موسمِ بہار کی فصل کے ثمرات سے بھرپور انداز میں استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

عبادت اور بندگی کے حقیقی شعور کی آبیاری اور صالح اجتماعیت سے جڑے رہنے کی ایک صورت قرآن مجید سے مستقل بنیادوں پر حقیقی تعلق کو قائم کرنا اور اس سے بھرپور استفادہ کرنا ہے۔ اس کی ایک عملی صورت گلی محلے کی سطح پر درسِ قرآن کے حلقے قائم کرنا ہے۔ حلقۂ درس کے قیام کے نتیجے میں ایک طرف قرآن کی تعلیمات اور خدا کی بندگی و اطاعت کا شعور عام ہوگا اور قرآن سے مستقل بنیادوں پر تعلق قائم ہوگا، تو دوسری طرف نیکی کے جذبے سے سرشار اہلِ ایمان کے لیے صالح اجتماعیت کی بنیاد فراہم ہوسکے گی۔ قرآن کے اجتماعی مطالعے کی بہت سی صورتیں ہوسکتی ہیں۔ جہاں کہیں اچھا مدرس دستیاب ہو وہاں باقاعدہ درسِ قرآن کا سلسلہ شروع کیا جاسکتا ہے اور جہاں ایسا انتظام نہ ہوسکے وہاں تفہیم القرآن کا اجتماعی مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ آج کل فہم قرآن کے حوالے سے بہت سی آڈیو وڈیو سی ڈیز بھی دستیاب ہیں جنھیں اہتمام سے سنا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی لٹریچر کی فراہمی کے ذریعے دینی شعور کو مزید پختہ کیا جاسکتا ہے۔

رمضان کے موقع پر خواتین میں بھی افطارو سحر کے اہتمام کے ساتھ ساتھ نماز،     تلاوتِ قرآن، تراویح اور نوافل کی ادایگی اور انفاق کا جذبہ فزوں تر ہوتا ہے۔ رمضان کے بعد خواتین میں بھی اس جذبے کو ایک تسلسل سے آگے بڑھنا چاہیے۔ فہم دین اور اجتماعیت سے وابستہ رہنے کے لیے خواتین کی سطح پر بھی اسی نوعیت کا حلقۂ درسِ قرآن قائم کیا جاسکتا ہے۔ آس پاس کی خواتین کسی مرکزی جگہ پر جمع ہوکر باقاعدگی سے اس حلقے کو چلا سکتی ہیں۔ ایک دوسرے کو دعوت دینے اور توجہ دلانے سے یہ ایک مفید سرگرمی ثابت ہوسکتی ہے۔ مرد حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ خواتین کی حوصلہ افزائی کریں اور انھیں سہولت دیں کہ وہ بہ آسانی اس میں حصہ لے سکیں۔ یوں خواتین کی سطح پر بھی دعوت و تربیت کا ایک مستقل نظام وضع ہوسکتا ہے۔

رمضان المبارک درحقیقت تقویٰ، خوفِ خدا اور خدا کی اطاعت و بندگی کا احساس بھرپور انداز میں اُجاگر کرتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ آنکھ کا بھی روزہ ہوتا ہے اور زبان کا بھی، کان کا بھی روزہ ہوتا ہے اور ہاتھ پائوں کا بھی۔ گویا خدا کی مکمل اطاعت کا نام روزہ ہے۔ رمضان کے بعد اس احساس کو ہمیشہ تازہ رکھیں کہ ہمیں عمربھر خدا کی اطاعت کرنی ہے۔ یہی رمضان کا پیغام ہے۔ نمازوں کے اہتمام کے ساتھ ساتھ روزانہ چند آیات کی تلاوت اور ترجمہ پڑھیے تاکہ قرآن سے تعلق قائم رہے۔ کچھ نہ کچھ انفاق کا سلسلہ بھی جاری رکھیے کہ رمضان ہمدردی و مواخات کا مہینہ ہے۔ تزکیۂ نفس کے لیے دعوتِ دین سے جڑے رہیے۔ حلقۂ احباب میں دعوت کا کام کیجیے۔ اس کی عملی صورت درسِ قرآن میں باقاعدہ شرکت اور دوسروں کو اس کی دعوت دینا ہے، نیز دعوتی لٹریچر پھیلایئے۔ رمضان کے بعد بھی نفلی روزوں کا اہتمام کریں۔ نبی کریمؐ کا معمول تھا کہ آپؐ ہر ماہ تین دن کے روزے رکھتے تھے۔ رمضان کی انفرادیت قیامِ لیل ہے۔ رمضان کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رکھا جاسکتا ہے۔ نمازِ فجر سے کچھ قبل اُٹھ کر تہجد کا اہتمام کیجیے۔ یہ جہاں تزکیۂ نفس کا اہم ذریعہ ہے وہاں رات کے آخری پہر میں اپنے رب سے مناجات اور اس کے قرب کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ اس طرح رمضان کے بعد بھی ایک طرح سے رمضان کا تسلسل جاری رہے گا۔

اگر اللہ کی بندگی و عبادت کا شعور عام ہو اور قرآن سے حقیقی تعلق قائم ہوجائے، اور افراد قرآن کی بنیاد پر اجتماعیت سے جڑے رہیں تو امید ہے کہ رمضان کے بعد جذبۂ ایمان سرد نہ پڑے گا بلکہ رمضان کی برکات اور ثمرات سے بھرپور انداز میں استفادہ کیا جاسکے گا، نیز اصلاحِ معاشرہ کے ساتھ ساتھ اسلامی انقلاب کی منزل کی طرف بھی ایک تسلسل سے پیش رفت ہوسکے گی۔

عالمی معاشی بحران سے جہاں بڑے پیمانے پر بے روزگاری بڑھی ہے، بڑے بڑے مالیاتی ادارے دیوالیہ ہورہے ہیں اور عالمی معیشت ہل کر رہ گئی ہے وہاں سرمایہ دارانہ نظام کا مستقبل بھی مخدوش نظر آرہا ہے۔ ماہرین معیشت کا دعویٰ ہے کہ وہ معیشت کو اِس بحران سے نکالنے میںکامیاب ہوجائیں گے اور شاید یہ بحران چند برسوں پر محیط رہے۔ لیکن بہت سے لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ یہ بحران سرمایہ دارانہ نظام کے حتمی انتشار کی ابتدا ہے۔ اس لیے عالمی سطح پر بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔ نتیجتاً ایک منصفانہ اور مستحکم متبادل معاشی نظام کی ضرورت اور مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ چنانچہ متبادل نظام کی تلاش جاری ہے اور مختلف حل بھی پیش کیے جارہے ہیں۔

ایک حل سوشلزم کے تحت اداروں کو قومیانے اور غریب طبقے کے مفادات کے تحفظ کو   یقینی بنانے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو کہ ماضی میں آزمایا جاچکاہے اور سودی معیشت سے پیداشدہ مسائل، ارتکازِ دولت اور امیروغریب کے فرق جیسے مسائل کا کوئی پایدار حل نہیں۔ حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر اور محفوظ بنکاری کے طور پر بھی اسلامی بنکاری کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیرمسلم بھی بڑی تعداد میں اس طرف رجوع کر رہے ہیں۔ امریکا جسے معاشی بحران کا سب سے زیادہ سامنا ہے، وہاں بھی اسلامی بنکاری فروغ پارہی ہے اور اسلامی بنک کھل رہے ہیں۔اسلامی بنکاری سرمایہ دارانہ نظام کے نقائص، مثلاً سود، سٹے کا کاروبار،قرض کی معیشت اور زرپرستی وغیرہ جو معیشت کو سکیڑ دیتے ہیں، دولت کو مرتکز کردیتے ہیں اور بالآخر معاشی بحران کا سبب بنتے ہیں، سے پاک ہے اور موجودہ معاشی بحران کی زد سے بھی بڑی حد تک محفوظ رہی ہے۔ گویا سرمایہ پرستی کا سفینہ ڈوبنے کو ہے اور انسانیت اپنی اصل کی طرف لوٹنے پر مجبورہے! علامہ یوسف قرضاوی کے بقول: سرمایہ داری نظام کا انہدام اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام کا معاشی فلسفہ فروغ پا رہا ہے۔ (دوحا کانفرنس، ۲۰۰۸ء)

  •  عالمی معاشی بحران کا سبب : معروف ماہر معیشت ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کے تجزیے کے مطابق موجودہ عالمی بحران کی بنیادی وجوہات بلاقید سودی قرض پر مبنی سرمایہ کاری (debt-financing)، سٹہ، جوا اور خودغرضی اور مفاد پرستی ہے۔ اس کے علاوہ معاشی سرگرمیوں کا کسی قسم کی اخلاقی قیود اور پابندیوں سے مستثنیٰ ہونا ہے، جیسا کہ جوا اور سٹہ بازی وغیرہ۔ اس کے تدارک کے ضمن میں انھوں نے کہا: معاشی سرگرمیوں سے سود اور جوئے کے عنصر کو ختم کردیں، اور مارکیٹ کو اخلاقی ضوابط کا پابند بنا دیں تو معاشی بحران پر بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔

معاشی بحران کے ایک اور سبب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سرمایہ داری نظام نے انوسٹمنٹ اور متوقع آمدنی (expected income) کے تصور کو فروغ دیا جس سے سٹے بازی کو فروغ ملا۔ نتیجتاً حقیقی سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے معیشت بیٹھ گئی۔ اس بحران کا ایک اور بڑا سبب کریڈٹ کارڈ کلچر کا فروغ بھی ہے جو کہ سودی معیشت کا تسلسل ہے اور بالآخر کریڈٹ defaultکا سبب بنا۔ (ریڈینس ویوز ویکلی، نئی دہلی، بھارت، ۳۱ جنوری ۲۰۰۹ء)

اسلام ان مسائل کا حل اس طرح پیش کرتا ہے کہ پہلے ہی قدم پر سود اور سودی قرض پر مبنی سرمایہ کاری کو حرام قرار دیتا ہے۔ سودی قرض ایسی ظالمانہ سرمایہ کاری ہے کہ سرمایہ دار کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ مقروض قرض کیسے اتارے گا۔ اسے صرف اپنے سرمایے سے غرض ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اسلام نفع و نقصان کی بنیاد پر شراکت کو جائز قرار دیتا ہے اور استحصال کو ختم کرتا ہے۔ اس وقت اسلامی بنکاری میں مرابحہ، اجارہ اور تکافل اسکیموں کے تحت سرمایہ کاری کی جارہی ہے۔ ان میں اسلامک mortgage (رہن رکھنا)، اسلامک کار فنانس، اسلامک کریڈٹ کارڈ ، اسلامک انشورنس وغیرہ شامل ہیں۔ یہ دنیا بھر میں سرمایہ کاری تیزی سے فروغ پارہی ہے۔

دوسرے یہ کہ اسلام جوئے اور سٹے کو حرام قرار دیتا ہے، اور سرمایہ کاری ذاتی ملکیت اور حقیقی بنیادوں پر کرتا ہے۔ متوقع آمدنی کی سرمایہ کاری پر جوا اور سٹہ ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کردیتا ہے۔ تیسرے یہ کہ خود غرضی اور مفاد پرستی کے بجاے اجتماعی مفاد کو پیش نظر رکھتا ہے۔ اس کے  نتیجے میں قرض پرمبنی سرمایہ کاری کا بڑی حد تک خاتمہ ہوجاتا ہے، جوکہ سرمایہ داری نظام کا خاصا ہے، اور متوقع آمدنی کی بنا پر معیشت کو درپیش خطرات میں بھی کمی واقع ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اسلام، زکوٰۃ و عشر کا نفاذ، وراثت کی تقسیم، دولت کے حصول میں جائز و ناجائز کی تمیز اور مال میں مستحق اور غریب افراد کے حقوق کا تعین کرکے دولت کی منصفانہ تقسیم کی بنیاد پر ایک فلاحی معاشرے کی تشکیل کرتا ہے۔

معاشیات کی رو سے مارکیٹ کسی اخلاقی ضابطے یا جائزو ناجائز کی تمیز کی پابند نہیں ہوتی۔ نیوٹرل مارکیٹ کا تصور پیش کیا جاتا ہے۔ موجودہ معاشی بحران کے نتیجے میں اس تصور پر نظرثانی کی ضرورت کو بھی محسوس کیا جا رہا ہے کہ مارکیٹ کو جوئے اور سٹے بازی وغیرہ سے روکنے کے لیے ضوابط کا پابند ہونا چاہیے۔ یہ اسلامی معیشت کا ہی تصور ہے جو جوئے اور سٹے کو حرام قرار دیتا ہے اور اس سے آگے بڑھ کر اجتماعی مفاد کے پیشِ نظر دولت کے حصول میں جائز و ناجائز کی تمیز کی بنا پر پابندیاں عائد کرتا ہے، جیساکہ شراب، جوئے، سود، رشوت وغیرہ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح سے اس بحران کے نتیجے میں اسلام کے مارکیٹ کے اصول و ضوابط کے نفاذ کی طرف بھی پیش رفت ہوئی ہے۔

  •  اسلامی بنکاری کا رجحان: ایک اندازے کے مطابق اسلامک فنانس، عالمی سرمایہ کاری کا اگرچہ ایک فی صد (ایک ٹریلین ڈالر) ہے لیکن سالانہ ۱۵ سے ۲۰ فی صد بڑھوتری کی شرح کے لحاظ سے تقریباً ۵۰۰ ارب ڈالر سالانہ سرمایہ کاری متوقع ہے۔ موجودہ عالمی بحران سے اس کی شرح میں مزید تیزی آئی ہے۔ مڈل ایسٹ اکانومک ڈائجسٹ کے مطابق ۲۰۱۲ء تک خلیج میں ہونے والی کاروباری ڈیل کا تقریباً ایک تہائی اسلامی بنکاری پر مبنی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ۷۵ ممالک میں کام کرنے والے ۳۰۰ اسلامی بنکوں کا مقابلہ کرنے اور اسلامی بنکاری کی مارکیٹ میں داخل ہونے کے لیے عالمی شہرت کے بنک، مثلاً Deutsche Bank، HSBC اور سٹی بنک بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررہے ہیں اور اسلامی بنکاری کے لیے کھڑکیاں کھول رہے ہیں۔ برطانیہ میں اسلامک مارٹ گیج مارکیٹ میں سرمایہ کاری ۹۰۰ ملین ڈالر سے بڑھ چکی ہے۔ HSBC کے مطابق گلوبل اسلامک انشورنس مارکیٹ ۲۵ فی صد سالانہ شرح سے بڑھ رہی ہے اور اس میں سرمایہ کاری ۲۰۱۰ء تک ۱۴بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ HSBC نے ملایشیا میں اسلامک مارٹ گیج کا آغاز کیا تو پہلے ہی سال سرمایہ کاری کرنے والوں کی نصف تعداد غیرمسلموں پر مشتمل تھی۔

سنگاپور نے اسلامی فنانس کی اہمیت کے پیش نظر اس کے فروغ کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں تاکہ وہ مستقبل میں اسلامک فنانس کا سنٹر بن سکے۔ مانٹیری اتھارٹی سنگاپور (MAS) پہلا مرکزی بنک ہے جس نے غیرمسلم اکثریتی ملک ہونے کے باوجود اسلامک بانڈ جاری کیا ہے جسے Sukuk (سکوک) کہا جاتا ہے۔ ایم اے ایس کے منیجنگ ڈائرکٹر کے بقول:  یہ بانڈ بڑی تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں اور یہ سنگاپور حکومت کا اسلامی بنکاری میں دل چسپی کا ٹھوس ثبوت ہے۔ اسلامی بنکاری پر ۲۰۰۷ء سے کام ہو رہا ہے۔ یہ سٹینڈرڈ چارٹرڈ بنک، اسلامک بنک آف ایشیا، ڈی بی ایس بنک سنگاپور کے مشترکہ تعاون سے جاری ہے۔ عبداللہ حسن سیف، چیئرمین اسلامک بنک آف ملایشیا نے کہا کہ یہ جہاں سنگاپور کے لیے ایک نمایاں اسلامک فنانس سنٹر بننے کا سبب ہوگا وہاں دوسرے ممالک اور اداروں کے لیے بھی ایک اچھا کیس اسٹڈی ثابت ہوگا اور اسلامی بنکاری کو فروغ ملے گا (Finance The Islamic Way at Small US Bank، حج اینڈ عمرہ، سعودی عرب، اپریل ۲۰۰۹ء، ص ۲۵)۔ توقع ہے کہ سکوک کریڈٹ کارڈ میں سرمایہ کاری اگلے چند برسوں میں ۱۰۰ بلین ڈالر سے بھی تجاوز کرجائے گی۔

فرانس میں بھی اسلامک بنکاری فروغ پارہی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گذشتہ برس فرنچ سینیٹ نے ایک نشست کا اہتمام کیا جس میں سیاست دانوں، بنکاروں اور شریعہ اسکالروں نے بھی شرکت کی۔ اس اجلاس میں اس بات پر غور کیا گیا کہ اسلامک فنانس کے فروغ اور عوام میں آگہی کے لیے حکومتی سطح پر کیا کیا جاسکتا ہے، نیز ٹیکس قوانین میں تبدیلی کے لیے کیا قانون سازی کی جائے۔

امریکا میں بھی اسلامی بنکاری کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ یونی ورسٹی اسلامک فنانشل کارپوریشن کے تحت مشی گن میں پہلا اسلامی بنک، ’یونی ورسٹی اسلامی بنک‘ کے نام سے کھولا گیا ہے جسے حکومت کی تائید بھی حاصل ہے۔ یہ بلاسود بنکاری کر رہا ہے اور دن بدن مقبول ہو رہا ہے۔ کارپوریشن کے ڈائرکٹر جان سکلر کا کہنا ہے کہ آج ہم جس معاشی بحران سے دوچار ہیں، اگر ہم نے اسلامی بنکاری کو بنیاد بنایا ہوتا تو ہمیں اس کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ یہ بنک شراکت کی بنیاد پر دو طرح سے سرمایہ کاری کرتا ہے۔ ایک مارک اَپ انسٹالمنٹ سیل، اور دوسرے lease to purchaseسیل۔ یونی ورسٹی بنک کے صدر Stephen Razini نے کہا ہے کہ بہت سے بنک  اور مارٹ گیج کمپنیاں ہمارے ساتھ شراکت میں دل چسپی لے رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بنک نے  گھر کے لیے قرض اور کریڈٹ کمپنیوں کو ملک گیر سطح پر اپنی خدمات پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے (ایضاً، ص ۲۴)۔ اس سے بھی امریکا میں اسلامی بنکاری کے رجحان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

  •  شریعہ فنانس کورسز کا اجرا: جیسے جیسے اس عالمی رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے، ویسے ویسے شریعہ اسکالروں کی کمی بھی محسوس کی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعہ اسکالروں کی    اس بڑھتی ہوئی اِس ضرورت کے پیش نظر شریعہ فنانس کورسز کا اجرا کیا جارہا ہے۔ ملایشیا نے جو  شریعہ فنانس کے حوالے سے عالمی سطح پر شہرت رکھتا ہے، ملایشیا سنٹرل بنک اور سعودی عرب کے اسلامک ڈویلپمنٹ بنک کے تعاون سے شریعہ اسکالروں کی تیاری کے لیے ۵۳ ملین ڈالر کے وظائف مختص کیے ہیں۔ مختلف دینی مدارس کے تحت بھی شریعہ فنانس کورسز کا رجحان سامنے آیا ہے۔ مغرب میں بھی اس کا رواج عام ہو رہا ہے۔

برطانیہ کو شریعہ فنانس کورسز کے اجرا کے حوالے سے شہرت حاصل ہورہی ہے۔   فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق یونی ورسٹی آف ریڈنگ، جنوبی لندن اسلامک فنانس کورسز کے لیے ایک سنٹر قائم کررہی ہے۔ گذشتہ برس یونی ورسٹی نے انوسٹمنٹ بنکنگ اینڈ اسلامک فنانس کی ماسٹر ڈگری کا اجرا کیا تھا۔ بن گور یونی ورسٹی، ویلز نے حال ہی میں اس حوالے سے ماسٹر ڈگری کورس کی ابتدا کی ہے۔ فرانس کی رابرٹ شومان یونی ورسٹی، سٹراس برگ نے بھی اسی طرح کے کورس کا آغاز کیا ہے۔ اسی یونی ورسٹی کے بزنس لا سنٹر کے سربراہ مائیکل سٹارک نے کہا ہے کہ امریکا میں عالمی بحران سے جو کچھ ہوا ہے، اس سے اسلامک فنانس میں لوگوں کی مزید دل چسپی بڑھے گی کیونکہ یہ محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ (فارن پالیسی، Carla Power، جنوری فروری ۲۰۰۹ء)

اسلامی بنکاری ابھی تشکیلی مراحل میں ہے،لہٰذا علمی اختلاف، عملی مشکلات اور اصولی ہدف کے حصول میں مسائل کا سامنا فطری امر ہے جنھیں علمی انداز اور اعتدال پسندی کے ساتھ بتدریج حل کیاجاسکتا ہے۔ اس عالمی رجحان کا تقاضا ہے کہ اسلام کے معاشی تصورات کو جدید تقاضوں کے پیش نظر مرتب کیا جائے، فنی مہارت اور شریعہ فنانس کے ماہرین کی بڑے پیمانے پر تیاری کا اہتمام ہو۔ اسلامی بنکاری کے حوالے سے جو فکری اختلاف پایا جاتا ہے اور عملاً جو دشواریاں پیش آرہی ہیں ان کا علمی سطح پر بے لاگ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سیمی ناروں اور کانفرنسوں کا انعقاد ہونا چاہیے تاکہ کسی مشترکہ حکمت عملی کو آگے بڑھایا جاسکے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے بھی بھرپور جدوجہد کی ضرورت ہے، اس لیے کہ اس بنکاری کے ثمرات و برکات سے صحیح معنوں میں استفادہ ایک اسلامی اور فلاحی معاشرے میں ممکن ہے۔

اس سلسلے میں ایک اہم قابلِ غور پہلو یہ ہے اسلامی بنکاری صرف ان سرگرمیوں تک اپنی مساعی کو محدود نہ رکھے جو شریعت کے مطابق ہیں بلکہ شریعت پر مبنی بنکاری کی طرف جرأت مندانہ پیش رفت کرے تاکہ حصص کی بنیاد پر (equity based)  معیشت وجود میں آسکے جو ایک طرف ترقی اور افزایشِ دولت کا ذریعہ بنے گی تو دوسری طرف انصاف اور دولت کی منصفانہ تقسیم کی طرف معاشرے کو لے جاسکے گی۔

ایک زمانہ تھا جب سود کے بغیر معیشت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ایسے میں مولانا مودودیؒ نے اپنی معرکہ آرا کتاب سود (۱۹۳۶ء) میں پہلی بار سرمایہ داری اور سودی معیشت کا بھرپورانداز میں محاکمہ کیا اور سود سے پاک معیشت اور اسلامی بنکاری کا تصور پیش کیا، اور اس شبہے کو دُور کیا کہ سود کا انسداد قابلِ عمل نہیں ہے۔ آج اسلامی بنکاری ایک حقیقت ہے۔ عالمی معاشی بحران نے سرمایہ داری اور سودی معیشت پر کاری ضرب لگائی ہے اور متبادل نظامِ معیشت کے لیے اسلام اور اسلامی بنکاری پر اعتماد کیا جا رہا ہے۔ سود جو کہ سرمایہ داری کی روح اور جان ہے، اس کا خاتمہ دراصل سرمایہ داری کا خاتمہ ہے۔ بلاشبہہ آج سرمایہ داری نظام واشنگٹن میں لرزہ براندام ہے اور سودی معیشت اپنے منطقی انجام سے دوچار ہونے کے قریب ہے۔ دنیا نے جس عالمی نظام کی طرف پیش رفت کی ہے، اس کے نتیجے میں اسلام کے منصفانہ عالمی نظام کے لیے راہ ہموار ہوئی ہے، اور عالمی اسلامی بنکاری کا فروغ اس کا کھلا ثبوت ہے۔ وہ وقت دُور نہیں جب دنیا کا مستقبل اسلام اور سود سے پاک، منصفانہ اور مستحکم معاشی نظام ہوگا۔

 

نیوزی لینڈ آسٹریلیا کے جنوب مشرق میں واقع ہے جسے طویل سفید بادلوں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جنوبی بحرالکاہل کے ۲ بڑے جزائر شمالی آئی لینڈ اور جنوبی آئی لینڈ پر مشتمل ہے۔ ۱۶۴۲ء میں ولندیزی جہازران ایبل تسمان نے اسے دریافت کیا تھا اور پھر یہاں انگریز آباد ہوگئے۔ ۲ دسمبر ۱۹۰۷ء کو نیوزی لینڈ کو برطانیہ سے آزادی ملی۔ اس کا دارالحکومت ولنگٹن ہے۔ ملک میں پارلیمانی نظام رائج ہے۔ گورنر جنرل کا تقرر برطانیہ کرتا ہے، جب کہ عملاً سربراہِ حکومت وزیراعظم ہوتا ہے۔ اس ملک کو یہ تاریخی حیثیت حاصل ہے کہ ۱۸۹۳ء میں سب سے پہلے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق یہیں دیا گیا۔ اُون، گوشت، ڈیری مصنوعات اور تجارت کے حوالے سے معروف ہے۔ گذشتہ برس چین نیوزی لینڈ فری ٹریڈ معاہدہ ہوا جو تجارت کے حوالے سے ایک بڑی پیش رفت ہے۔ ۲۰۰۶ء کی مردم شماری کے مطابق ملک کی آبادی ۴۰ لاکھ ۳۰ ہزار ہے۔ اکثریت (۵۶ فی صد) کا مذہب عیسائیت ہے، ۳۵ فی صد بے دین، جب کہ ۵ فی صد آبادی کا تعلق دیگر مذاہب، یعنی ہندومت، بدھ مت اور اسلام سے ہے۔ مسلمانوں کی تعداد اگرچہ کم ہے اور ان کی آبادی بھی منتشر ہے، تاہم ۱۹۷۰ء کے بعد سے مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا اور وہ زیادہ منظم ہوکر سامنے آئے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کی سرگرمیوں کے بارے میں عام طور پر معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ اس لیے بھی ان کے احوال سے آگاہی دل چسپی کا باعث ہوگی۔

کہا جاتا ہے کہ نیوزی لینڈ میں سب سے پہلے چینی مسلمانوں کی آمد ۱۸۷۰ء میں ہوئی۔ یہ دنستان، اوٹاگو کی سونے کی کانوں میں کھدائی کی غرض سے آئے تھے۔ اس کے بعد ۱۹ویں صدی کے ابتدا میں ہندستان سے گجراتی مسلمانوں کے ۳ اہم خاندان یہاں آئے۔ اس طرح سے مسلمانوںکی آباد کاری کا سلسلہ شروع ہوا۔ ۱۹۵۰ء میں مشرقی یورپ سے ۶۰ سے زیادہ مسلمان  پناہ گزین کے طور پر یہاں منتقل ہوئے۔

نیوزی لینڈ میں مسلمانوں نے اپنی پہلی تنظیم نیوزی لینڈ مسلم ایسوسی ایشن (NZMA) کے نام سے قائم کی۔گجراتی اور یورپی مسلمانوں کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں ۱۹۵۹ء میں پہلا اسلامک سنٹر قائم کیا گیا۔ اس سنٹر میں دیگر سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ نماز کی ادایگی کے لیے بھی جگہ مختص کی گئی اور باقاعدہ نمازادا کی جانے لگی۔ ایک برس بعد گجرات سے مولانا سعید موسیٰ پٹیل کو بطور امام مدعو کیا گیا۔ یہ نیوزی لینڈ کے پہلے مسلمان امام تھے۔ اس طرح اسلامک سنٹر قائم کرنے کا سلسلہ بتدریج آگے بڑھتا چلا گیا جس میں سائوتھ ایشیا اور سائوتھ ایسٹ ایشیا کے طلبہ کا نمایاں کردار تھا۔

۱۹۷۹ء میں نیوزی لینڈ کے مسلمانوں نے مزید منظم انداز میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور اس ضمن میں متعدد اقدامات اٹھائے۔ مسلمانوں کی تین علاقائی تنظیموں کو جن کا تعلق کینٹربری، ولنگٹن اور آک لینڈ سے تھا، یک جا کر کے ایک ملک گیر تنظیم فیڈریشن آف اسلامک ایسوسی ایشن آف نیوزی لینڈ (FIANZ) قائم کی گئی۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد قرآن وسنت کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کا فروغ، تعلیم و تدریس، مسلمانوں کی مختلف سطح کی سرگرمیوں کو منظم کرنا، باہمی تعاون کا فروغ، مسلم کمیونٹی کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے تعاون، رفاہی منصوبوں کے لیے عطیات کا حصول اور نیوزی لینڈ سے باہر مسلمانوں کی نمایندگی کرنا ہے۔ اس تنظیم کا مرکزی دفتر ولنگٹن میں ہے۔ اس کی ممبر ۷ مقامی تنظیمیں ہیں جن میں NZMA، سائوتھ آک لینڈ مسلم ایسوسی ایشن، انٹرنیشنل مسلم ایسوسی ایشن آف نیوزی لینڈ (IMAN)، اور اس کے علاوہ ہملٹن، پالمرسٹون نارتھ، کرسٹ چرچ اور ڈیونڈن کی ایسوسی ایشنیں بھی شامل ہیں۔

تنظیم کی دیگر سرگرمیوں میں مقامی ایسوسی ایشنوں کو فنڈ کی فراہمی میں تعاون، بیرونِ ملک سے مقررین کے دوروں کا اہتمام، وڈیوز اور لٹریچر کی تقسیم، اور حسنِ قرأت کے مقابلوں کا اہتمام کرنا شامل ہے۔ ایک کمیٹی قائم کی گئی ہے جو عید کی تاریخوں کا تعین کرتی ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کی عالمی تنظیموں، مثلاً مسلم ورلڈ لیگ، دی ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ (WAMY)اور ریجنل اسلامک دعوۃ کونسل آف سائوتھ ایسٹ ایشیا اینڈ پیسیفک (RISEAP) وغیرہ سے وابستگی بھی ہے اور ان کی سرگرمیوں میں حصہ بھی لیا جاتا ہے۔

نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کی آبادی میں نمایاں اضافہ ۱۹۷۰ء میں اس وقت دیکھنے میں آیا جب فجی انڈین مسلمان حصول روزگار کے لیے یہاں آئے۔ اسی طرح ۱۹۹۰ء میں صومالیہ، بوسنیا، افغانستان، کوسووا اور عراق سے بھی بہت سے مسلمان پناہ گزین کی حیثیت سے نیوزی لینڈ آئے جس سے مسلمانوں کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ اس طرح سے مسلمان پناہ گزینوں کی آمد  سے مسلمان مزید مستحکم ہوگئے اور ان کی افرادی قوت میں بھی اضافہ ہوا۔ اس وقت مسلمانوں کی آبادی میں سب سے زیادہ تناسب چینی مسلمانوں کا ہے (۳ء۲ فی صد)، جب کہ انڈین مسلمانوں کا تناسب ۲ء۱ فی صد ہے۔ نیوزی لینڈ کی مسلم کمیونٹی ۳۵ مسلم ممالک کے نمایندوں پر مشتمل ہے، جن میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، فجی انڈین، عرب، ملایشیا، انڈونیشیا، ایران، صومالیہ اور  بلقان کے ممالک نمایاں ہیں۔ کچھ تعداد میں کیوی بھی پائے جاتے ہیں جو کہ مسلمان ہوچکے ہیں۔ ۱۹۹۶ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی ۱۳ ہزار ۵ سو ۴۵ ہے جو کہ کُل آبادی کے ۳۷ء۰فی صد پر مبنی ہے۔ مقامی مسلم قیادت کا دعویٰ ہے کہ ان کی آبادی ۴۰ ہزار ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت آک لینڈ میں رہتی ہے، جب کہ دارالحکومت ولنگٹن اور دیگر چار بڑے شہروں میں بھی مسلمان آباد ہیں۔

۱۹۶۰ء کے لگ بھگ جب مسلمانوں کی تعداد محدود تھی NZMA کے تحت اجلاس گھر     یا دکان میں ہوتے تھے اور عید کی تقریبات کے لیے ہال کرایے پر لیے جاتے تھے۔ ۱۹۷۰ء     کے وسط تک ۳ مزید مسلمانوں کے گروپ تشکیل پا گئے، جن میں فجی انڈین مسلمانوں کی تنظیم   انجمن حمایت الاسلام نمایاں تھی۔ ۱۹۷۶ء میں نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کے ایک وفد نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو انھیں مشورہ دیا گیا کہ وہ مشترکہ فورم تشکیل دیں تاکہ زیادہ مؤثر انداز میں کام کیا جاسکے۔ چنانچہ انجمن حمایت اسلام اور NZMA نے اجتماعی طور پر نیوزی لینڈ مسلم ایسوسی ایشن کی بنیاد ڈالی۔ اس تنظیم کا قیام ۳۰ مارچ ۱۹۷۹ء کو عمل میں آیا اور اس کی پہلی ترجیح اسلامک سنٹر کا قیام اور مسجد کی تعمیر تھی۔ چنانچہ ۱۹۸۳ء میں نماز کے لیے مرکزی ہال تعمیر کیا گیا جس میں ۴۰۰ نمازیوں کی گنجایش تھی۔ ۱۹۹۰ء میں میٹنگ ہال اور امام صاحب کی رہایش گاہ تعمیر کی گئی۔

حالیہ برسوں میں NZMA تیزی سے آگے بڑھی ہے اور نمازِ جمعہ میں ۵۰۰ سے زائد نمازی شریک ہوتے ہیں۔ اسی طرح آک لینڈ میں مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کی ایک اور تنظیم IMAN کا قیام ۱۹۶۶ء میں ولنگٹن میں عمل میں لایا گیا۔ یہ بنیادی طور پر مسلمان طلبہ کی تنظیم تھی۔ یہ اسلامک سنٹر قائم کرچکی ہے اور ایک مسجد کی تعمیر کے لیے کوشاں ہے۔ ولنگٹن میں بھی مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اور IMAN ان کو زیادہ سے زیادہ سہولتوں کی فراہمی کے لیے سرگرم عمل ہے۔ مختلف مقامات پر نمازِ جمعہ کا باقاعدہ اہتمام کیا جا رہا ہے اور نمازیوں کی تعداد ۵۰۰ سے ۶۰۰ تک ہوتی ہے۔ اسی طرح ملک کے دوسرے حصے شمالی آئی لینڈ میں مسلمان کرسٹ چرچ، ڈیونڈن اور کنٹربری میں پائے جاتے ہیں۔ کینٹبربری میں کینٹربری مسلم ایسوسی ایشن ۱۹۷۷ء میں قائم ہوئی تھی۔ مسلمانوں کی تعداد اگرچہ کم ہے مگر وہ ۱۹۸۵ء تک مسجد تعمیر کرچکے تھے اور اسلامک سنٹر کے لیے کوشاں ہیں۔

نیوزی لینڈ کی یہ تنظیمیں اپنے اپنے دائرے اور دستیاب وسائل کے اندر رہتے ہوئے بہت سی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ ان میں دعوتِ دین کے فریضے کی ادایگی، دین کی بنیادی تعلیمات سے آگہی، نماز کی ادایگی کے لیے انتظام، رمضان کے موقع پر مختلف تقاریب کا انعقاد، عید و دیگر تقریبات کا اہتمام، قرآن مجید کی تعلیم اور عربی زبان سیکھنے کے لیے کلاسوں کا اجرا اور دیگر    رفاہی و سماجی سرگرمیاں وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح حلال غذا کی فراہمی، شادی بیاہ کے لیے رشتوں کی سہولت اور تدفین کے انتظامات کی خدمات بھی انجام دی جاتی ہیں۔

بچوں کو معیاری تعلیم کی فراہمی، اسلامی اقدار سے روشناس کرانے اور تربیت کے لیے اسلامی اسکولوں کے قیام کی طرف بھی توجہ دی جارہی ہے، اگرچہ اس میں بڑے پیمانے پر پیش رفت نہیں ہوسکی۔ آک لینڈ میں المدینہ اسکول قائم کیا گیا ہے جو اسلامک ایجوکیشن اینڈ دعوۃ ٹرسٹ کی نگرانی میں چل رہا ہے۔ اس اسکول کا آغاز ۱۹۸۹ء میں بنیادی طور پر ہوم اسکولنگ کے طرز پر   کیا گیا تھا۔ تقریباً ۳۰۰ سے زائد طلبہ و طالبات زیرتعلیم ہیں۔ ۲۰۰۱ء میں طالبات کے لیے     ایک کالج بھی قائم کیا گیا۔ اس دوران ایک مزید کالج کھولا گیا جو فنڈ کی کمی کی بنا پر چلایا نہ جاسکا اور اب اس کو دوبارہ کھولنے کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

FIANZ کی کوشش ہے کہ ایسی تجارتی سرگرمیوں کو بھی فروغ دیا جائے جس سے تنظیم کو وافر وسائل فراہم ہوسکیں اور اسے عطیات پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ اس کے لیے بھی کچھ سرگرمیاں جاری ہیں۔ اسلامی بنک کاری کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں۔ غیرمسلموں میں اسلام کی اشاعت کے لیے ایک تنظیم اسلامک دعوۃ اینڈ کنورٹس ایسوسی ایشن کے نام سے قائم ہے۔ یہ غیرمسلموں کو اسلام کی دعوت دیتی ہے اور قبولِ اسلام کے بعد ان کو پیش آنے والی مشکلات میں تعاون بھی کرتی ہے۔ آک لینڈ میں ان کے ارکان کی تعداد ۱۰۰ کے قریب بتائی جاتی ہے۔ نیوزی لینڈ کے مسلمانوں کی یہ منظم اور ہمہ جہت جدوجہد نیوزی لینڈ میں مسلمانوں کے روشن مستقبل کی پیش خیمہ ہے۔ (ماخوذ: wikipedia آن لائن انسائی کلوپیڈیا۔ ’دی مسلمز آف نیوزی لینڈ‘، مجلہ حج اینڈ عمرہ، ریاض، سعودی عرب، اپریل ۲۰۰۹ء)