اکتوبر ۲۰۲۱

فہرست مضامین

تحریکِ آزادیِ کشمیر کے مختلف پہلو

سیّد علی گیلانی | اکتوبر ۲۰۲۱ | گوشۂ خاص

Responsive image Responsive image
  • سوال: مارچ ۲۰۰۷ء میں آپ کو ہنگامی طور پر آپریشن کروانا پڑا،اس کی تفصیل بیان کیجیے، آپریشن کے بعد اب صحت کیسی ہے؟
    • جواب: بیماری کی تشخیص بالکل غیر متوقع طور پر ہوئی۔۲۲فروری۲۰۰۷ء کو ایسکارٹس ہاسپٹل میں معمول کے چیک اَپ کے لیے گیا تھا تو ڈاکٹر سیٹھی اور ڈاکٹر کھوسلا نے سی ٹی سکین کا مشورہ دیا، جس سے دائیں گردے میںMass جمع ہونے کا پتہ چلا۔ ڈاکٹر سمیر کول نے اس کے علاج اور آپریشن کے لیے امریکا جانے کا مشورہ دیا، تاکہ واحد گردے کو بچایاجاسکے۔ وزیراعظم ہند کی ہدایت پر ۲۶سال بعد ایک سال کے لیے پاسپورٹ دیاگیا، لیکن امریکی حکومت نے علاج کے لیے ویزا دینے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد ڈاکٹروں کے مشورے سے ممبئی میںعلاج کروانے پراتفاق ہوا، جہاں  الحمدللہ،۲۶مارچ کو چھےگھنٹے کاآپریشن کامیاب رہا۔ آپریشن کے بعد تین دن ناقابل برداشت درد رہا، اس دوران پانی کا ایک گھونٹ پینے سے بھی منع کیا گیا۔ بہرحال ۲۴؍اپریل کو علاج معالجے کے بعد سرینگر واپسی ہوئی،تاہم ڈاکٹروں نے کم ازکم تین ماہ تک طویل سفر اور مشقت سے منع کیا۔

متبادل قیادت

  •  اس دوران ایک بڑا اہم موضوع بحث ابھر کر سامنے آیا، جو آپ کے بعد لیڈرشپ یا مرکزی شخصیت کی تلاش سے متعلق ہے،اس کے بارے میں آپ کی رائے؟
    •  اس بارے میں خدشات کئی بار سامنے آئے ہیں۔ چند سال قبل اسلام آباد [اننت ناگ] میںایک جلسے کے دوران میںنے چند نام بھی پیش کیے تھے، لیکن بعد میںمحسوس ہوا کہ ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ اس بات کا میںنے ٹیک ون ٹیلی ویژن چینل پر انٹرویو میںاظہار بھی کیا تھا۔ تاہم، اب میری رائے یہ ہے کہ تحریک حریت کا شورائی نظام خود لیڈرشپ کا انتخاب کرے گا، اور کُل جماعتی حریت کانفرنس میںبھی وہی طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شخصیات کو محور بنانا نظریاتی تحریکوں کے لیے ٹھیک نہیں بلکہ شخصیات کے بجائے اصولوں، اور ان کے اتباع کو محور اورمعیار بنایا جائے۔ اگرایسا کیا گیا تو کسی بحران کاخدشہ نہیں ہے۔
  • آپ نے تحریک کا تذکرہ کیا ہے، تحریک حریت کے کیا اہداف ہیں؟
    •  ہمارے بنیادی اہداف تین ہیں:

 پہلا یہ کہ ہم اسلام کو زندگی کے لیے مکمل رہنمائی مانتے ہیں ،لہٰذا انفرادی واجتماعی زندگی کی تعمیر اسی رہنمائی کی روشنی میںکرنا ہمارا اوّلین ہدف ہے۔

دوسرا یہ کہ ہم سمجھتے ہیںکہ جموں وکشمیر پر بھارت کا قبضہ جبری ہے، غیر قانونی ہے اور عوام کی امنگوں کے برخلاف ہے، لہٰذا اس کا خاتمہ ضروری ہے۔

تیسرا یہ کہ امت کا اتحاد ہمارے پیش نظر ہے۔ آج ملت اسلامیہ وطن، زبان، رنگ، نسل، مسلک اور نہ جانے کس کس نام پر تقسیم ہوچکی ہے۔ ایک تسبیح ہے جس کی ڈورٹوٹ گئی ہے اور دانے بکھر گئے ہیں، یہی اس امت کا حال ہے ۔ امت کی شیرازہ بندی ہماری آرزو اورہمارا ہدف ہے۔

مسئلہ کشمیر اور اقوام متحدہ کی قراردادیں

  • مسئلہ کشمیر کے حل کی مناسبت سے اقوام متحدہ کی قرار داد یں، ان بیان کردہ اہداف سے کہاں تک ہم آہنگ ہیں؟
    • یہ قرار دادیں تقسیم ہند کے اصولوں کی بنیاد پر ہمیں خودارادیت کا حق دیتی ہیں، جس کا حصول ہمارا ایک بنیادی ہدف ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوچکا ہے۔ان قرار دادوں پر عمل سے تہذیبی، مذہبی، جغرافیائی اورعوامی اُمنگوں کاپاس ولحاظ ممکن ہوسکے گا۔ حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ پر حملوں کے وقت ہندستان نے یہی دعویٰ پیش کیا اور دلیل بیان کی تھی۔ لیکن کشمیر کے بارے میں اسی اصول کو پامال کیا گیا۔ کانگریس اور برطانیہ نے مل کر ریڈکلف ایوارڈ کی سازش رچائی، جس سے بھارت کو جموں وکشمیر پر فوج کشی کے لیے زمینی راستہ فراہم ہوا۔ پاکستان کمزور تھا، اسی لیے اپنے حق کادفاع نہیں کرسکا۔ تاہم، اخلاقی،سفارتی اور رائے عامہ کے دبائو کے پیش نظر بھارت نے اقوام متحدہ میں رائے شماری کرانے کا وعدہ کیا۔ اقوام متحدہ کی قرار دادیں بنیادی طورپر اسی عہد وپیمان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ایسی دستاویزات وقت گزرنے سے غیر متعلق اور ناقابل عمل نہیںہوجاتی ہیں۔ اگر ایسا ہو تو پھر دنیا کا کوئی بھی معاہدہ مقدس نہیں رہتا۔ انسانوں کے حقوق دریائوں کے پانی میںنہیں بہتے ہیں۔
  •  ایک خیال یہ ہے کہ ۱۹۴۷ء میں قبائلی حملے سے کشمیر کا معاملہ الجھ گیا، اور بھارت کو براہِ راست فوجی مداخلت کا بہانہ مل گیا؟
    • بفرض محال پاکستان نے غلطی کی بھی تھی، تو اس کی سزاکشمیریوں کو کیوں دی جاتی ہے؟ یہ محض حیلہ سازی ہے۔ اس وقت کس نے غلطی کی، اس سے قطع نظر، کسی بھی بہانے سے کشمیری عوام کو اپنی آزادی کے مطالبے سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ اس مسئلے میں ہم بنیادی فریق ہیں۔ کسی ایک فریق کے اقدامات سے ہمارے مطالبات ختم نہیںہوسکتے۔

کشمیر میں ہند نواز عنصر

  •  زمینی حقائق اور تلخ حقائق کے زیر اثر کچھ لوگ یہاں پر ہندنواز بن گئے ہیں ، اس سے کیا فرق پڑے گا؟
    •  اس سرزمین پر گذشتہ عشروں سے بھارت کا فوجی تسلط ہے۔ اتنے لمبے عرصے میں مفتوحہ عوام کا تقسیم ہونا، یا دیگر طور پر متاثر ہونا،ناممکن نہیں ہے۔ یہ فطری ہے، اور یہ تحریک آزادی کے لیے بالکل مایوس کن نہیں ہے۔ اقتدار کاچسکا بھی ایک وجہ ہے۔ ایسے لوگ کسی بھی قیمت پر اقتدار چاہتے ہیں، چاہے اس کے لیے ضمیر بیچناپڑے یا پوری قوم کو دائو پر لگانا پڑے۔لیکن اس سب کے باوجود آزادی کی امنگ ہر جگہ موجود ہے، اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔پونچھ راجوری میں سب سے زیادہ فوجی ارتکاز اور دبائو ہے، لیکن وہاں بھی عوام کے سینے جذبۂ آزادی سے خالی نہیں ہیں۔
  • حال ہی میں میرواعظ عمر فاروق نے آپریشن سدبھاونا کے تحت فوج کی طرف سے زیارت گاہوں کی تجدید ومرمت پر ناراضی ظاہر کرتے ہوئے اسے مداخلت فی الدین قرار دیا۔ کیا اس معاملے پر آپ ان سے تعاون کریں گے؟
    • ہم تو پہلے ہی فوج کی اس مہم کی مخالفت کرتے آئے ہیں، اور یہ سب اس کی جانب سے اپنے گھناؤنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش ہے۔ فی الحال اس سے بڑھ کرتعاون کی کوئی صورت نہیں ہے۔البتہ عمرفاروق صاحب کی بھارتی فوج کے خلاف گرم گفتاری ان کے بدلے ہوئے موقف پر عوامی غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش باور کی جاتی ہے۔ مرحوم شیخ محمد عبداللہ نے ۱۹۷۵ء میں اندرا گاندھی کے ساتھ معاہدے کے بعد چلّا چلّا کر کہا تھا کہ ’’اگر ہندستان نے کشمیریوں کو عزت کا مقام نہ دیا تو ہم دوسرا راستہ اختیار کریں گے‘‘۔اس طرح انھوں نے دلی کے ساتھ اپنے سمجھوتے کے لیے جواز پیدا کرنے اور عوامی جذبات کو مطمئن کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ ایک استحصالی طریقۂ کار ہے۔ کانگریس کی تو بات ہی چھوڑیں ،وہ تو ام الخبائث ہے۔ البتہ نیشنل کانفرنس ایک زبردست فریب کار جماعت ہے۔ مجھے ان لوگوں کی عقل اور سوجھ بوجھ پر افسوس ہوتا ہے، جو اس پارٹی کے ساتھ وابستہ ہیں۔ فاروق عبداللہ صاحب نے مندر میں جاکرقشقہ بھی کھینچا۔ کشمیر کو غلامی کی لعنت میں مبتلا کروانے میں اس پارٹی کا کلیدی رول ہے۔ اقتدار کے اندر ایک بات کرتے ہیں اور اقتدار سے باہر ہندستان کے خلاف مکے لہرا کر عوامی جذبات کا استحصال کرتے ہیں۔
  • ۱۹۴۷ء میں جموں میںجو قتل عام ہوا، اور چار سے پانچ لاکھ کے قریب افراد شہید کیے گئے ،اس کے بعد رواں تحریک میںمزید ایک لاکھ جانیں قربان کر دی گئیں، تو سوال یہ ہے کہ ان چھے لاکھ افراد کا ووٹ رائے شماری میںکیسے شمار ہوگا؟
    •  موجود لوگ اپنے شہداء اور قربانی کو یاد رکھ کر رائے استعمال کریں، تو ان شاء اللہ اس نقصان کا ازالہ ہوگا۔

امریکا کی جانب سے مخالفت کیوں؟

  •  مختلف معاملات پر امریکا مخالف بیانات دے کر کیا ہم اسے جان بوجھ کراپنا دشمن نہیں بنا رہے ہیں؟
    •  امریکا جو کچھ کر رہا ہے اس کو نظر انداز کیسے کریں؟ عراق پر فوج کشی کے لیے وہاں عام تباہی پھیلانے والے ہتھیاروںکی موجودگی کے جھوٹ اور عراقی صدر صدام حسین کی القاعدہ سے وابستگی کے بہانے بنائے گئے۔ اب خود امریکی صدر بش نے ان دعوئوں کے غلط ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ عراق میںاب تک ساڑھے چھے لاکھ مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔ اس پر خاموش کیسے رہا جائے؟ ضمیر کو ٹٹولنے کی ضرورت ہے۔ نائن الیون کا واقعہ کھلی دہشت گردی ہے،لیکن افغانستان اور عراق پر حملہ اس سے ہزار گنابڑی دہشت گردی ہے۔ مانا کہ اسامہ بن لادن افغانستان میں کہیں موجود تھا، لیکن پورے ملک پر فوج کشی کا کیا جواز ہے؟ امریکا عالمی سطح پر انسانیت کا قاتل ہے۔ پاکستان ، ایران، افغانستان اور عراق کو تقسیم کرکے اورکمزور کرکے اسرائیل کے تحفظ اور اپنی بالادستی کو و ہ یقینی بنانا چاہتا ہے۔
  •  مسلمانوں کے اندرونی گروہی فسادات اور خون ریزی کی ذمہ داری امریکا کے سرتھوپنا کیا اپنے جرائم کی پردہ پوشی نہیںہے؟
    •  یہ تصویر کا ایک اورپہلوہے ۔مسلمانوںکی اندرونی کمزوریوں سے انکار نہیں ہے،جب ہی تو ہم ظالم کا ترنوالہ بن رہے ہیں۔ جیسا کہ حدیث میں کہا گیا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب دشمن تم پر ٹوٹ پڑیںگے جیسے کھانے والے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ صحابہ کرام ؓ کے استفسار پر اس صورتِ حال کاسبب بھی بتادیا گیا، یعنی دنیا کی محبت اورموت سے خوف۔

 اندرونی کمزوریاں اپنی جگہ لیکن امریکا براہ راست یا اپنے آلۂ کار حکمرانوں اور سیاست دانوں کے ذریعے بیش تر معاملات میںذمہ دار ہے۔ ۲۰۰۶ء میں امریکا نے فلسطین میںالفتح کو حماس سے لڑنے کے لیے مبینہ طور پر ۲۷ملین ڈالر فراہم کیے ۔یہ صرف ایک مثال ہے، اس سے کیا ثابت ہوتا ہے؟ حزب اللہ اور اسرائیل کی جنگ میںامریکا کی اسرئیل نوازی کیا ثابت کررہی ہے؟ اور پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف کے ذریعے جوکچھ کروایا جارہا ہے، کراچی سے لے کر وزیرستان تک، جہاں ایک دینی تعلیمی ادارے پر بمباری کی گئی اور ۸۲حفاظ قرآن شہید کردیے گئے___ یہ صرف چند مثالیں ہیں مسلم ممالک میں امریکی کردارکی۔

  •  صرف امریکا کیوں؟ روس نے بھی تو بوسنیا ، چیچنیا اور تاجکستان میں جو کچھ کیا اور کر رہا ہے، اس پر خاموشی کیوں اختیار کی جاتی ہے؟
    • روس کا ریکارڈ ہرگزصاف نہیں ہے۔ یہ بات کون بھلا سکتا ہے کہ افغانستان اور وسط ایشیا میں روس کا خونیں کردار ہے۔ لیکن آج امریکا زیادہ اثرانداز ہورہا ہے۔
  • فلسطین اور دیگر مسلم ممالک مسائل کے بارے میں آپ بیانات دیتے ہیں۔ کیا وہاں کے لوگ اپنے لیے خودنہیں بول سکتے؟ آپ کا وہاں کے مسائل میں کیا رول بنتا ہے؟
    •  ایک حدیث مبارک میںہے کہ مسلمان جسدواحد کی مانند ہیں،کہیںبھی تکلیف ہوتو درد پورے جسم کو محسوس ہونا چاہیے۔ اگر کچھ لوگ امریکا سے حد سے زیادہ خوف زدہ ہیں اور براہِ راست بول نہیں پاتے تو یہ ان کی کمزوری ہے۔ ان کا یہ کردار ہمارے لیے قابل تقلید نہیں ہے۔

اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کا اس بارے میں کردار بنتا ہے۔ لیکن وہ حق ادا نہیں کررہے ہیں۔ حج کے موقع پر ہم نے ان کوبتایا تھا کہ ان کا کیا رول بنتا ہے اور مظلوم مسلمانوں کی ان سے کیا اُمید یں وابستہ ہیں۔

بھارتی سامراج کے خلاف مزاحمت

  •  ۱۹۶۲ء میںآپ پہلی بار گرفتار ہوئے ۔ اس دوران کئی تحریکیں اور رہنماآئے۔ اُس وقت سے لے کر آج تک آپ ایک ہی سیاسی موقف کو لے کر جدوجہد کررہے ہیں۔ آپ کے جذبے کو توانائی بخشنے کا ذریعہ کیا ہے؟اپنی تحریر اور تقریر میں آپ لفظ استعمار بار بار استعمال کرتے ہیں۔ نیز استعمار سے کیا مراد ہے؟
    •  استعمار یا Imperialism،یعنی جو طاقت کے بل پر کسی قوم پر قابض ہوجائے۔ یہ صحیح ہے کہ ۲۸؍اگست۱۹۶۲ء کو میں پہلی بار گرفتار ہوا۔ میںاس وقت جماعت اسلامی ضلع بارہمولہ کا امیر تھا اور یہ بخشی غلام محمدصاحب کا دور حکومت تھا۔

میںچار سال مولانا محمد سعید مسعودی کے ساتھ سرینگر میںرہا۔ طیب شاہ صدیقی انسپکٹر اسکولز تھے۔ وہ ایک دن مجاہد منزل آئے تو مولانا مسعودی صاحب نے ان سے کہا کہ ’’اس لڑکے کو نوکری پرلگادو، لیکن رکھنا سرینگر ہی میں ہے‘‘۔ اس طرح میںپرائمری سکول میں ٹیچر ہوگیا۔ اس کے بعد میںنے ادیب فاضل اور منشی فاضل کے امتحان پاس کیے ،پھر رعناواری ہائی سکول مجھے بھیجا گیا۔ ان دنوں وہاں تاراچند ہیڈماسٹر تھے اور قاری سیف الدین،غلام حسن رضوی اور نبیہہ احمد اندرابی بطور استاد کام کررہے تھے۔ وہ مجھے مجاہد منزل سے آیا ہوا آدمی سمجھ کرمجھ سے کھچے کھچے رہنے لگے۔میری موجودگی میں پاکستان کے متعلق کوئی بھی بات کرنے سے پرہیز کرتے تھے۔ لیکن پاکستان کی محبت ان کے دلوں میںموجود تھی۔ آج آپ اندازہ نہیں کرسکتے کہ بھارت کے فوجی قبضے کا کتنا دبدبہ اور دہشت تھی۔ نجی محفلوں میںپاکستان اور سیاست کے بارے میں گفتگو کی جاتی تھی،لیکن میرے بارے میں ان کو لگتا تھا کہ مجاہد منزل کا آدمی ہے، رپورٹ پہنچائے گا۔

صبح کی اسمبلی میںبچوں کے سامنے تقریر کرنے کے لیے میری ذمہ داری لگادی گئی۔میں ہر روز دس پندرہ منٹ بچوں کو دین واخلاق کی باتیں بتایا کرتا تھا۔دس پندرہ دن کے اندر ہی ان لوگوں کو یقین ہوگیا کہ میں مجاہد منزل کے خیالات کاآدمی نہیں ہوں۔ میں عمر میں سب سے چھوٹا تھا، اور ان لوگوں کا دست شفقت ہمیشہ میرے سرپر رہا۔قاری صاحب نے سید مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب تفہیمات مجھے پڑھنے کو دی۔میںپوری دلچسپی سے کتابیں پڑھنے لگا۔ پھر ایک دن قاری صاحب نے کہا کہ ’’شاہ محلہ ،نواب بازار میں ہمارا اجتماع ہوتا ہے تم بھی آجایا کرو‘‘۔ اور میں باقاعدگی سے اجتماعات میںجانے لگا۔ وہاںمجھے اجلاس کی کارروائی قلم بند کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ چارسال تک میں نے بڑی محنت سے کارروائی کے نوٹس تیار کیے ۔ اس طرح تحریری طور پر بہت قیمتی مواد جمع ہوگیا تھا، لیکن وہاں آگ لگ گئی، جس میں یہ تمام نوٹس اور ڈائریاں ضائع ہوگئیں۔

اس دوران مسعودی صاحب اپنے والد کی آنکھوں میں تکلیف کے باعث ان کے ساتھ ہی ڈلگیٹ میں رہنے لگے۔ مجاہد منزل میں گاندربل کے غلام محی الدین صوفی کمیونسٹ آئیڈیالوجی سے متاثر تھے۔ انھوں نے مسعودی صاحب سے شکایت کی کہ ’’گیلانی کے پاس پاکستانی خیالات کے لوگ آتے رہتے ہیں اور مجاہد منزل پاکستان کا اڈہ بن گیا ہے‘‘۔ اصل بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے کچھ دوست میرے پاس آتے رہتے تھے۔چنانچہ میرا تبادلہ بمئی مڈل سکول،سوپور میں کروایا گیا۔اس سے میرا ذاتی طور پر کافی نقصان ہوا، کیونکہ میں سرینگر کے، ماحول میں کافی دلچسپی سے پڑھنے لگا تھا۔ خیر وہاں پہنچتے ہی اگست۱۹۵۳ء میں جماعت اسلامی کارکن بنادیاگیا۔ ان دنوں جماعت اسلامی کارکن بنناپل صراط عبور کرنے سے کچھ کم نہ تھا۔ میں بمئی (سوپور) میں چار سال رہا۔ پھر سوپور کے انٹرمیڈیٹ کالج میںتبادلہ کردیا گیا اور چھے سال وہاں رہا۔ اس دوران قرآن پاک اور اسلامی لٹریچر سے کافی شغف بڑھ گیا۔ اور یہی اسلامی فکر، جو یہاں سے حاصل ہوئی میرا اصل جذبہ حاصل کرنے کا سرچشمہ ہے۔

میں سرزمین کشمیر پر بھارتی فوج کے قبضے سے کبھی ذہنی طور پر مطابقت پیدا اور سمجھوتا نہ کرسکا۔ یہ موقف اور اس پر استقامت میں میری کوئی ذاتی خوبی نہیں بلکہ یہ سب اسلام کی دین ہے۔ میرا پختہ ایمان اور اعتقاد ہے کہ اسلام کامل ضابطۂ حیات ہے ۔اور دوم، یہاں بھارت کا قبضہ جبری اور بلا جواز ہے۔جتنا خدا وند کریم کے وجود پر یقین ہے اتنا ہی ان دو باتوں کی صداقت پر یقین ہے۔

  •  ۱۹۶۲ء میں موئے مقدس کاسانحہ پیش آیا، رائے شماری کی تحریک چل ہی رہی تھی، پھر اور کچھ جماعتیں وجود میںآگئیں۔ کیا ان دنوں بھی کشمیری مزاحمت کا سواداعظم پاکستان نواز ہی تھا؟
    • یہ بات بلاخوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ جموں و کشمیر کا سواداعظم پاکستان کے حق میں تھا۔ پاکستان کے ساتھ بے پناہ محبت تھی۔ آپ اسی بات سے اندازہ کرلیجیے کہ کئی بزرگ وصیت کرجاتے تھے کہ ’’جب یہاں پاکستان قائم ہوگا تو ہماری قبور پرآکر کہہ دینا کہ پاکستان بن گیا ہے، تاکہ ہماری روحوں کو سکون مل سکے‘‘۔

دراصل ان دنوں یہ اندازہ نہ تھا کہ یہ تنازع اس قدر طول پکڑے گا۔ اس وقت تو لگتا تھا کہ معاملہ اقوام متحدہ میںہے، وہاں قرار داد یںپاس ہوچکی ہیں، بس ان پر عمل درآمد کی دیر ہے، اور یہاںپاکستان بن جائے گا۔ یہ اندازہ نہ تھا کہ ہندستان، برطانیہ سے بھی زیادہ ظالم سامراج ثابت ہوگا۔

بعض اوقات پاکستانی حکومتوں کا رویّہ

  •  آپ نے کئی بار کہا ہے کہ پاکستان پیچھے ہٹ رہا ہے۔ آپ کی نظر میںکیا یہ پاکستانی ریاست کی دانستہ پالیسی ہے کہ اب تحریک کشمیر سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیے،یا محض حکمرانوں کی وقتی پالیسی یا مصلحت؟
    •  اس رنج دہ صورت حال کا اپنا ایک پس منظر ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میںجب قیام پاکستان کی تحریک شروع ہوئی تو مسلم لیگ نے ’پاکستان کامطلب کیا لاالٰہ الااللہ‘ کا نعرہ لگایا ،لیکن خود مسلم لیگ میںبھی لوگوں کو اس کام کے لیے تیار نہیںکیاگیا کہ وہ قیام پاکستان کے بعد کلمہ طیبہ کی بنیاد پرنئے ملک کے خدوخال ترتیب دے سکیں۔ میںلاہور میںچار سال رہا ۔ موچی دروازہ میدان میںقائد اعظم کی تقریر سنی، عبدالرب نشتر اور نواب بہادر یار جنگ بھی تھے۔ قائد اعظم کا اپنا تصور پاکستان بڑا واضح تھا کہ ہم ایک الگ قوم ہیں ، ہماری الگ تہذیب ہے اورہم ہندواکثریت کے زیر سایہ اپنی تہذیب وثقافت کے تقاضوں پرعمل نہیں کرپائیں گے۔لیکن انھیں پاکستان بن جانے کے بعد زیادہ موقع نہ مل سکا۔ ان کے بعد جوقیادتیں آئیں، وہ تصور پاکستان کے شعور سے عاری تھیں۔ سید مودودی ؒ کے بارے میں ایک کتاب تذکرہ سیّد مودودی  ہے۔ اس میں تمام تفصیل درج ہے کہ قیام پاکستان کے بعد کیا ہوا۔مسلم لیگ کے ایک بڑے لیڈر تھے ڈاکٹرعمرحیات ملک صاحب جو پنجاب یونی ورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ پاکستان جب بنا تو قیادت کے بہت سے ارکان پر ہوس زر غالب ہوگئی۔ وہ الاٹمنٹوں کے بکھیڑے میںپھنس گئے۔ انھوں نے پاکستان کی اسلامی بنیادوں پر تعمیر کے لیے کبھی سوچا ہی نہیں ، بلکہ جو لوگ ان خطوط پر سوچتے تھے، اور پاکستان کو اسلامی بنیادوںپر استوار کرنا چاہتے تھے ان کو وہاں برداشت ہی نہ کیا گیا، جیسے سیّد ابوالاعلیٰ مودودی۔ تحریک پاکستان کے دوران سید مودودی نے مسئلہ قومیت، مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش اوّل، دوم جیسی کتابیں لکھ کر کُل ہند مسلم لیگ کی تحریک کو نظریاتی بنیاد اور پختہ دلیل فراہم کی تھی۔ چنانچہ مسلم لیگ نے بڑی تعداد میںوہ کتب چھپوائیں اور تقسیم کیں۔ اس کے بعد مولاناؒ نے خود مسلم لیگ کو بھی اس بات کے لیے ہدف تنقید بنایا کہ وہ نام تو اسلام کالے رہی ہے لیکن بنیادی سطح پر لوگوں کو اسلام کے لیے تیار نہیں کررہی ہے۔

متعدد پاکستانی حکمرانوںکی اقتدار پرستی، اسلام سے بے اعتنائی اور اسی طرح کی سازشوںکی وجہ سے اپنے قیام کے ۲۴ برسوں بعد ہی پاکستان دولخت ہوگیا۔پاکستانی معاشرہ اسلامی بنیادوں پرتعمیر نہ ہوسکا،اخوت کے بجائے علاقائی تعصبات نے جڑپکڑی،معاشی اونچ نیچ اور استحصال کو ختم نہ کیا جاسکا۔ وہاں استحصالی جاگیرداری نظام ابھی تک قائم ہے۔ وہاں زبانیں بت بن گئی ہیں، مسلکی عصبیت بھی زور وں پر ہے۔ یہ سب اسلام کو بطور دین اختیار نہ کرنے کی وجہ سے ہوا۔

اس وقت کشمیرکے معاملے میںجو موقف پایا جارہا ہے، اس میں نائن الیون کے بعد کے حالات اور امریکی مداخلت کا عمل دخل ہے۔ موجودہ حکمران اقتدار پر ست ہیں۔ وہ شاید کشمیر کو ایک بوجھ سمجھنے لگے ہیں اورچاہتے ہیں کہ یہ بوجھ ان کے سر سے اترجائے، جس کے بہت سارے محرکات ہیں جن میں سب سے بڑا موجودہ حکمران طبقے کا مرعوب ہونا ہے۔ وہ امریکا سے بھی مرعوب ہیں اور بھارت سے بھی۔ ان کا خیال ہے کہ کشمیری بھی اب تھک چکے ہیں ۔وہاں ایک عنصران لوگوں پر مشتمل ہے جواسلامی اخوت اور ملّی وحدت کے بجائے قوم پرستی اور مادی خوش حالی کوترجیح دیتے ہیں۔ رسول ؐاللہ کے اس فرمان سے کہ مسلمان ایک جسد واحد کی طرح ہیں، یہ لوگ اس سے کنی کتراتے ہیں۔

  • کیا ایک وجہ یہ تو نہیں ہے کہ تحریک کشمیر نے جو نہج اختیار کی اور اس کی جو بنیادیں یہاں پر استوار ہوئی ہیں، ان کی وجہ سے پاکستان کی اخلاقی برتری کو ضعف پہنچا ہے؟
    • پاکستان اسی صورت میں اپنی برتری قائم رکھ پاتا، جب وہ نظریاتی حیثیت برقرار رکھتا، کیونکہ وہی نظریاتی بنیاد خود پاکستان کی بھی اور تحریک کشمیر کی بھی وجۂ جواز ہے۔یہ بنیاد مضبوط ہوتی تو وہ احساسِ کمتری کا شکار نہ ہوتے۔لیکن چونکہ وہ اب نظریاتی زاویے سے نہیں سوچتے ، لہٰذا ان کے اہلِ حل و عقد یا میڈیا میں مخصوص طبقوں کو لگتا ہے کہ ’کشمیر خواہ مخواہ ایک معاشی بوجھ بناہوا ہے‘۔ دراصل ان پر بھارت کا خوف بھی طاری ہے۔ جب میںنے دلی میں جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کی، تو انھوں نے کہا کہ ’’ہم نے تین جنگیں کشمیر کے لیے لڑیں اور آپ بھی ۵۰ سال سے جدوجہد کررہے ہیں لیکن حاصل کچھ بھی نہیں ہوا، لہٰذا ہمیں سمجھوتہ کرلینا چاہیے‘‘۔ میںنے کہا کہ ’’ہماری جدوجہد حق پرمبنی ہے، ہمارے ساتھ وعدے بھی کیے گئے تھے، لہٰذا ہمیں استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور اپنی حقانیت وصداقت اور اللہ تعالیٰ کی نصرت پر بھروسا کرکے اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے اور آپ بھی ہماری اخلاقی ، سفارتی اور سیاسی سطح پر حمایت جاری رکھیں ،تو وہ شخص جواب میں بول پڑا کہ’ میرے ساتھ جارج بش اور ٹونی بلیئر ہیں‘۔ اللہ تعالیٰ کو بھول گئے کہ وہ کس کے ساتھ ہے، لہٰذاجب وہ اس طرح سوچتے ہیں تواس میں ملّی،دینی اور تہذیبی رشتے کی اہمیت نہیں رہتی۔
  •  پاکستانی حکومت کی ذہنی تبدیلی کے لیے کہیں وہاں کی دینی جماعتیں توذمہ دار نہیں ہیں کہ جو قومی انتخابی سیاست میں کشمیر کی تحریک کا ذکر کرتی ہیں اور اس سے شاید حکومت یہ سمجھتی ہو کہ کشمیر کی تحریک ہمارے لیے سیاسی چیلنج بن رہی ہے؟
    • دینی عناصر اور حکومت کے مابین تضاد ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ پاکستان کے عوام بھی دین پسند ہیں، اور اگر جنرل مشرف بھی دینی ذہن ہی رکھتے تو یہ صورتِ حال پیدا ہی نہ ہوتی ۔ دین پسندوں اور دین مخالفوں کا نظریاتی ٹکرائو پوری مسلم اُمت میں ایک بنیادی مسئلہ ہے۔
  •  اس ٹکرائو سے قومی اتفاق رائے نہیں ہوپاتا۔ جیسے وہاں کی حزب اختلاف نے آپ کو ۲۳ مارچ کی ایک تقریب میںمدعو کیا تھا۔ شاید اس طرح کے واقعات سے جنرل مشرف سوچنے لگے کہ کشمیر کے نام پر مجھے للکاراجارہا ہے،کیوں نہ اس باب ہی کو بند کریں؟
    • کشمیر پاکستانی سیاست میں ہمیشہ ایک مرکزی ایشو رہا ہے اور ہرکسی نے ہمیشہ برسرِاقتدار بھی نہیں رہنا۔ اگر کوئی جماعت یہ کہتی ہے کہ ہم کشمیر کی تحریک کو جائز جانتے ہیں اور اس کی اخلاقی و سفارتی معاونت کرتے ہیں، تو اس میںکون سی غلط بات ہے۔ بلاشبہہ پانچ ہزار پاکستانی نوجوان یہاں شہید ہوچکے ہیں، اس کو نظرانداز کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اس کا تذکرہ کیوں نہیںہوگا؟ اس لیے کہ یہ بات حکمرانوں کے مزاج پر گراںگزرے گی؟ بھلا دینی جماعتیں ہی اپنے ایجنڈے سے کیوںہٹیں؟ جنرل مشرف بھی توصدر کی حیثیت میں ’’انتہا پسندوں‘‘ کے خلاف ووٹ دینے کی اپیلیں کررہے ہیں، اوریہ انتہاپسند کون ہیں ؟ جنرل مشرف، امریکی بولی بول کر اسلام کا نام لینے والوں کوانتہاپسند کہتے ہیں۔
  •  صدر مشرف کے ہاتھوں یوں لگا کہ پاکستان، اقوام متحدہ کی کشمیر سے متعلق قرار دادوں سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ اس صورتِ حال کے متعلق آپ کی کیارائے ہے؟
    •  یہ پاکستان کے ایک ڈکٹیٹر کا امریکی دبائو میں فیصلہ معلوم ہوتا ہے۔ امریکا، اسلام دشمنی اورمسلم دشمنی کی قدر مشترک پرہندستان کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ ہندستان،امریکا اوراسرائیل تینوں اسلام اور اُمت مسلمہ کے قوت پکڑنے سے خائف ہیں، لہٰذا یہ سارا معاملہ ناقابلِ فہم نہیں ہے۔ اس صورتِ حال میں ہمارے پاس جدوجہد کی وجۂ جواز ہمارا اپنا جذبۂ حُریت ہے۔آزادی سے ہماری کمٹ منٹ، کسی پاکستانی حکومت کے بدلتے موقف سے مشروط نہیںہے۔
  •  کیا آپ کے نزدیک اقوام متحدہ اسلام دشمن تنظیم نہیں ہے؟
    •  اقوام متحدہ پر اسلام دشمنوں کاغلبہ ہے، لیکن ہمیں اس ادارے کی قراردادوں کے ذریعے عالمی رائے عامہ کے ریفرنس کے طور پر اپنے مقدمے کی ایک جائز اور مبنی برحق بنیاد مل رہی ہے، تو پھر کیوں اسے چھوڑیں گے؟
  • سردار عبدالقیوم صاحب،بھیم سنگھ کی دعوت پردلی آئے جہاںوہ غلام نبی آزاد ، فاروق عبداللہ اور مفتی سعید سمیت کئی لیڈروں سے ملے۔ انھوںنے جنرل مشرف کے اقدامات اور فارمولوں کی حمایت کی۔ سردار عبدالقیوم اس نتیجے پرکیوں پہنچے؟
    • سردار عبدالقیوم صاحب کی پارٹی اس وقت وہاں برسراقتدار ہے۔ انتخابات میں پاکستانی حکومت نے مسلم کانفرنس کی حمایت میںزبردست رول ادا کیا۔ اس لیے یہ حکومت مشرف صاحب کی ڈکٹیشن پر چل رہی ہے۔ اس میںحیرت کی کوئی بات نہیں ہے۔
  •  ایک رائے یہ ہے کہ سردار عبدالقیوم اور ان کے ساتھیوں نے ۱۹۴۷ء میں تحریک شروع کی تھی۔ لیکن آج ان کو بزرگ مزاحمتی لیڈر کے طور پر تسلیم نہیں کیا جارہاہے۔ اس خیال کے مطابق تحریک چلانے والے آزاد کشمیر اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو ایک جیسا سمجھتے ہیں۔ مثال کے طور پر جیسے غلام نبی آزاد، ویسے ہی سردار صاحب کوسمجھا جاتا ہے۔ اور ان کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا جاتا، جس سے یہ ردعمل پیدا ہوا ہے؟
    • ہم نے سردار عبدالقیوم صاحب کی جدوجہد کو ہمیشہ کھلے دل سے تسلیم کیا ہے۔ ہم ہمیشہ کہتے آئے ہیںکہ پاکستان ہمارامحسن ملک ہے، جس نے آج تک ہماری جدوجہد کی حمایت کی ہے۔ ہم آزاد کشمیر کو تحریک آزادی کابیس کیمپ مانتے ہیں۔ یہاں سے جو لوگ ہجرت کرکے وہاں جاتے ہیں ، تو آزاد کشمیر ہی کے لوگ ان کی ضروریات پوری کرتے ہیں اوران کو سرآنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ ہم اس بات سے بہ خوبی واقف ہیں، لہٰذا یہ تاثر غلط ہے۔ دراصل وجہ یہ ہے کہ وہ (سردارعبدالقیوم) جموں وکشمیر کے حوالے سے اپنے موقف پرقائم نہیں رہے، ان کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ انسان جو دعویٰ کرے،اسے چاہیے کہ پہلے خوب غور وفکر کرے کہ جس راستے کا وہ تعین کررہا ہے، وہ صحیح ہے یا نہیں۔ ایک بار سوچ سمجھ کرفیصلہ کرلیا تو پھر استقامت کا مظاہرہ کرناچاہیے۔چاہے دنیا مخالف ہوجائے اور گردوپیش کتنا ہی بدل جائے،لیکن وہ حق پرڈٹا رہے۔ جنرل مشرف ہی کی طرح انھیں بھی لگا کہ جنگیں بھی لڑیں، قربانیاں بھی دیں لیکن کچھ حاصل نہ ہوا تو وہ مایوسی کاشکار ہوئے۔ اوراگر بالفرض مان بھی لیتے ہیںکہ ہماری کسی بات سے انھیں لگا ہو کہ ان کو جائز مقام نہیں مل رہاہے، تب بھی جس چیز پر ان کا ایمان ہے، اس سے انحراف کے لیے یہ رویہ کس طرح وجۂ جواز بن سکتا ہے؟ ہم سردار عبدالقیوم خاں صاحب کی قربانیوں سے انکار نہیںکرتے، مگر قربانیوں کا تحفظ ان کی بھی تو ذمہ داری ہے۔ آج جو موقف انھوں نے اختیار کیا ہے، اس سے وہ ہمارے ساتھ ساتھ اپنی قربانیوں اور جدوجہد کو بھی بھلارہے ہیں۔
  •  ۲۰۰۵ء میں پاکستانی صحافیوں کاایک گروپ یہاں آیا۔انھوں نے حالات کا جائزہ لیا، ملاقاتیں کیں اوریہ تاثر قائم کیا کہ کشمیری نہ صرف خود پریشان ہیں بلکہ ہمیں بھی پریشان کریںگے۔ اس کے متعلق آپ کیاکہیںگے؟
    • کیا یہ ممکن نہیںکہ موجودہ پاکستانی حکومت ہی کا منصوبہ رہا ہو کہ اپنا نیا موقف مضبوط بنانے کے لیے صحافیوںسے یہ باتیں کہلوائے۔ ورنہ ہماری توان سے ایسی کوئی بات نہ ہوئی تھی کہ جس سے انھیں پریشانی لاحق ہوئی ہو۔ البتہ ان صحافیوں نے جموں میںجو کچھ کیا، گوّیوں، شرابیوں اور رقاصائوں پرڈالر نچھاور کیے،اسے دیکھ کر ہم پوچھتے ہیں کیا اسلامی جمہوریہ سے آنے والوں کے لیے یہ رویہ درست ہے؟
  • مگر اس سارے پس منظر میں اور تحریک آزادی میں،گلگت اور بلتستان کو فراموش کردیا جاتاہے۔ وہ کیا چاہتے ہیں؟ کیا اس کو نظرانداز نہیںکیا جارہا ہے؟
    •  یہ آزاد کشمیر میںبھی کہا جارہا ہے۔ میں نے کچھ روز پہلے آزاد کشمیر کے امیرجماعت اسلامی کا ایک بیان پڑھا۔ وہ بھی آج گلگت اور بلتستان کے حوالے سے کچھ ایسی ہی باتیں کررہے ہیںجیسا کہ ہمارے یہاں کچھ لوگ کررہے ہیں۔

کراچی معاہدے میں کہا گیا تھا کہ شمالی علاقہ جات میں پاکستان اپنی ذمہ داری ادا کرے گا مگر اس نے یہ ذمہ داری پوری نہیں کی۔ انھوں نے اس علاقے کے ساتھ ایک کالونی جیسا برتائو کیا۔ ان کو جمہوری حقوق سے محروم رکھا۔ ایسی صورت میںمزاحمت پیدا ہونا ناگزیر ہے۔ اس کے لیے خود پاکستان کا رویہ ذمہ دار ہے۔

  •  شمالی علاقے فوجی اعتبار سے پاکستان کے لیے کافی اہم ہیں؟
    •  جب یہ خطہ پاکستان کے لیے اتنا اہم ہے تو ان کو اپنی کوتاہیوں اور کمیوں کا ازالہ کرنا چاہیے ، نہ کہ اس کے رد عمل میںکشمیر کاز ہی سے ہاتھ کھینچ لیں، یا اسے نقصان پہنچائیں۔
  •  ہر ایک ملک کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مفاد کے مطابق اپنی پالیسی میںتبدیلی لائے؟
    • روز مرہ پالیسی میں تبدیلی ہوسکتی ہے لیکن بنیادی ستون مسمار نہیںکیے جاتے ۔
  •  ستون کیا ہیں؟
    • بنیادی ستون جموں و کشمیر کے بارے میں ۱۹۴۷ء سے چلا آرہا مسلّمہ موقف ہے، جوکشمیریوں کی امنگوں اور حقوق سے ہم آہنگ ہے۔

عالمی ردعمل اور حمایت

  •  یہاں عالمی برادری کو متوجہ کرنے کے لیے ہزاروں ہڑتالیںکی گئیں مگر عالمی برادری کی طرف سے خاطرخواہ حمایت نہیںمل رہی ہے،جیسا کہ حال ہی میںایما نکلسن رپورٹ میں آیا ہے۔ کیا یہ آپ کی ناکامی نہیں ہے؟
    • اوّلاً آپ تسلیم کرلیں کہ عالمی سطح پر لوگوں کے برتائو کی کوئی اخلاقی بنیاد نہیںہے۔ ۲۰۰۴ء میں یورپی یونین کے وفد نے کہا کہ جموں وکشمیر ایک خوب صورت جیل ہے اور یہاں کا پُرامن اور قابل قبول حل اقوام متحدہ کی قرارداوں پر عمل درآمد میں ہے۔پھر دوسال میںایسا کیا بدل گیا جس سے یورپی یونین کے خیالات ہی تبدیل گئے،بہر حال ایمانکلسن رپورٹ اور اس جیسی چیزوں سے ہماری تحریک متاثر نہیںہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ گلگت میںجمہوریت نہیں ہے، جب کہ وہ ہندستانی جمہوریت کی مدح خوانی کرتے ہیں۔بہتر ہوگا کہ وہ ہمیں ہندستانی جمہوریت کے بارے میں نہ بتائیں۔ ہم بہتر جانتے ہیں کہ یہاں کون سی جمہوریت ہے۔مغرب کی پالیسیاں اخلاقی بنیاد سے عاری ہیںاورصرف ان کے مادی مفادات کے تابع ہوتی ہیں۔
  • کشمیر کے تنازعے کا ایک حل خود مختار کشمیر کی صورت میں پیش کیا جارہا ہے؟
    • ہم ایسا حل چاہتے ہیں جس سے مستقل طور پر تنائو ختم ہو، جو پائیدار ہو، اور جس سے مزید خون خرابے کا دروازہ نہ کھلے۔ یہ تب ہی ممکن ہے کہ اگر تنازعے کو اس کے تاریخی پس منظر میں، عوامی جدوجہد اور قربانیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ان ہی امنگوں اور خواہشات کے مطابق حل کیا جائے۔
  • جموں میں لوگ علیحدہ ریاست کا مطالبہ کررہے ہیں، جب کہ لداخ میں ۱۹۸۹ء سے ہی یونین ٹیرٹیری کے لیے تحریک چل رہی ہے، تو کیا ان کی امنگیں قابلِ قدر نہیں؟
    • جموں میں صرف ڈوگرے آباد نہیں ہیں۔ راجوری، پونچھ، ڈوڈہ، کشتواڑ، بھدرواہ، بانہال،گول گلاب گڑھ میں بہت بڑی تعداد میں مسلمان موجود ہیں۔ اسی طرح لداخ میں بھی۔  ان کی اُمنگیں بھی تو ہیں۔ کیا ہم ان کو نریندر مودیوں کے حوالے کریں جنہوں نے ۱۹۴۷ء میں پانچ لاکھ مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا اور مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی سازش رچائی۔
  • تو کیا وہ اس وقت محفوظ ہیں؟
    • فی الحال تو جس طرح ہم غیر محفوظ ہیں، اسی طرح وہ بھی غیر محفوظ ہیں، لیکن ہم مستقبل کے انتظام کی بات کرتے ہیں۔ وہاں کے مسلمانوں کی امنگیں ہمارے ساتھ ہیں، اس لیے ہم انھیں علیحدہ کردیں تو اللہ کی نظر میں بڑے مجرم ٹھہریں گے۔ ان لوگوں نے سجاد لون فارمولے پر شدید تنقیدی رد عمل ظاہر کیاجو ان کی امنگوں کا اظہار ہے۔
  • سجاد لون کے فارمولے میں خطوں کی بنیاد پر آپشن دینے کی بات کی گئی ہے۔ کیا یہ ایک نئی کوشش نہیں ہے؟
    • اس سے دوبارہ ۱۹۴۷ء جیسی صورتِ حال پیدا ہوجائے گی، اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ جموں شہرمیں اس وقت بھی کم از کم ۴۰ فی صد مسلمان آباد ہیں۔ کیا ہم ان کو شیوسینا کے حوالے کردیں؟
  •   شیو سینا والے ہندو کیا پاکستان کے ساتھ رہنا قبول کریں گے؟
    • کیا کہیں پر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی تصفیہ ہونے کے بعد کوئی اقلیت وجود میں نہ آئے۔  مسلم معاشرے میں اقلیتیں بالکل محفوظ ہوتی ہیں۔ تمام دنیا کے مسلم ممالک میں غیر مسلم اقلیتیں آباد ہیں اور اپنے عقائد کے مطابق سکون وچین سے زندگی بسر کررہی ہیں۔ پاکستان میں مسلمان بھلے ہی ایک دوسرے سے لڑبھڑ رہے ہوں، لیکن اقلیتیں محفوظ ہیں۔ آپ دکھائیے کوئی ایک جگہ جہاں اقلیتوں کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا جاتا ہو جو ہندستان میں مسلمانوں ، سکھوں یا عیسائیوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ خوشونت سنگھ کے مطابق۱۹۸۴ء میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد صرف دہلی میں ۳۵۰۰سکھ قتل کیے گئے اور دہلی سے باہر ۱۰ہزار سکھ تہہ تیغ کیے گئے۔ یعنی مجموعی طور پر ساڑھے تیرہ ہزار سکھوں کو چند دن کے اندر اندر موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔ جموں وکشمیر ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے، ہندو اقلیت میں ہیں۔ یہ امر واقعہ ہے، اور اس کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ وہ یہاں باعزت زندگی گزار سکتے ہیں۔ میں کسی ہچکچاہٹ کے بغیر کہتا ہوں کہ یہاں ان کے ساتھ وہ سلوک نہیں ہوگا، جو ہندستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہماری طرف سے ان کو جان، مال اور عزت کے تحفظ کی مکمل ضمانت ہوگی۔

صحافتی خدمات

  • آپ صحافت سے بھی وابستہ رہے ہیں ،کتابیں بھی لکھی ہیں اور سیاسی سرگرمیوں میں بھی مصروف رہے ہیں، اتنی مصروفیات کے باوجود مطالعہ اور تصنیف وتالیف کے لیے بھی آپ کیسے وقت نکالتے ہیں؟ کیسے دانش اور قیادت جیسی بالعموم متضاد صفات کو یکجا کردیا ہے؟
    •  وقت اللہ تعالیٰ کی سب سے قیمتی عطا ہے۔ اسی لیے وقت کی قسم کھائی گئی ہے۔ والعصر……  میں کوشش کرتا ہوں کہ کوئی لمحہ بے مقصد صرف نہ ہو، لکھنے پڑھنے میں زیاددہ وقت دینا چاہتا ہوں۔ البتہ لکھنے پڑھنے کا زیادہ موقع جیل میں ہی ملا ہے۔ رودادقفس اور مقتل سے واپسی، دونوں کتابوں کی تصنیف بھی جیل ہی میں ہوئی۔ مطالعہ اور تصنیف کا کام اکثر صبح اور شام کے وقت کرتا ہوں۔

۱۹۴۹ء سے ۱۹۵۳ء تک میں جماعت اسلامی کے اجتماعات کی کارروائی لکھتا رہا۔ یہ بڑی قیمتی روداد تھی جو آگ لگنے کی ایک واردات میں ضائع ہوگئی ، اس کا مجھے آج بھی صدمہ ہے۔ پھر ۱۹۶۴ء سے ۱۹۷۰ء تک میں جماعت کے اخبار اذان کا مدیر رہا۔ میں اکثر اداریے اور دیگر مضامین تحریر کرتا تھا۔ ’دیدوشنید‘ میرا مستقل کالم تھا۔ یہ سارا مواد بھی میرے پاس محفوظ نہیں ہے۔ اس طرح آہستہ آہستہ مطالعہ اور تصنیف کا ذوق پروان چڑھا۔

میرے والد صاحب سیزن قلی تھے، غریب گھرانہ تھا۔ زیری منز پہاڑیوں کی اوٹ میں ہونے کے باعث وہاں ظہر کے بعد ہی غروب آفتاب کا منظر ہوتا ہے۔ میں ننگے پائوں اسکول جاتا تھا، چھٹی کے وقت اکثر گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ملتا تھا۔

۱۹۳۹ء میں محمد دین فوق صاحب، شمس پورہ اپنے کسی رشتہ دار کے پاس آئے تھے۔ وہ ان دنوں لاہور کالج سے وابستہ تھے۔ غلام محمد صادق اور مس محمودہ بھی اس کالج میں زیر تعلیم تھیں۔ ان دنوں کشمیر کے تاجر اور طالب علم اکثر پنجاب کے شہروں ، راولپنڈی ، لاہور اور امرتسر آتے جاتے تھے، جب کہ سردی کے مہینوں میں مزدوری کی تلاش میں بہت سارے کشمیری پنجاب کے میدانوں کا رخ کرتے تھے۔ ہم بھی فوق صاحب سے ملنے گئے۔

فوق صاحب نے میری تعلیم کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتایا کہ شوق تو ہے البتہ یہاں سہولت نہیں ہے۔ فوق صاحب نے کہا کہ میرے ساتھ لاہور چلو۔ چنانچہ مجھے فوق صاحب کے ساتھ ہی لاہور بھیج دیا گیا۔ میں چھوٹا تھا، گھر کی بہت یاد آتی تھی، اکثر اقبال کی نظم پرندے کی فریاد گنگناتا تھا اور آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑتے تھے۔ایک سال بعد گھر واپس آیا، اگلے سال اپنے بھائی کے ساتھ جو لاہور کالج برائے خواتین میں کام کرتا تھا، واپس لاہور گیا۔

اس بار مسجد وزیرخان لاہور میں حفظ کے لیے میں نے داخلہ لیا، البتہ حفظ مکمل نہ ہوسکا۔ مزید تعلیم کے لیے اندرون دہلی دروازہ میں شام کے وقت کام کرنے والے نجی اورینٹل کالج میں داخلہ لیا۔ اس کے پرنسپل آقا بیداربخت تھے۔ وہاں پروفیسر عاشق حسین اقبالیات پڑھاتے تھے۔  لاہور میں قیام کے دوران اردو اور پنجابی دونوں زبانیں میں اچھی طرح بولنے لگا۔ پنجاب یونی ورسٹی سے ادیب عالم پاس کرکے ۱۹۴۴ء میں کشمیر لوٹ آیا اور ملازمت کی تلاش شروع ہوئی۔ میرے چچا یوسف گیلانی صاحب لانک ریشی پورہ کی مسجد کے امام تھے۔ انھوں نے کسی شناسا کی وساطت سے مولانا محمد سعید مسعودی سے رابطہ کروایا، جو ان دنوں اخبار خدمت کے نگران تھے۔ انھوں نے مجھے بطور رپورٹر تعینات کیا۔ نند لال واتل ایڈیٹر تھے۔ محمد یوسف قادری بھی ان دنوں خدمت میں تھے۔ اس دوران میں نے ادیب فاضل اور منشی فاضل بھی پاس کیا۔ مسعودی صاحب ایک عالم اور علم دوست انسان تھے۔ حافظہ بلا کا تھا، حوالہ دیتے وقت کتاب کے صفحے اور سطر تک کا حوالہ دیتے تھے۔ غیررسمی تربیت کرتے تھے، غلطیوں کی بروقت تصحیح کرتے تھے۔

۱۴نومبر ۱۹۶۲ء کو میرے والد صاحب کا انتقال ہوا۔ میں اس وقت جیل میں تھا، جنازے میں شرکت کی اجازت نہیں ملی۔۱۹۶۴ء میں مجھے اذان کا ایڈیٹر بنایا گیا۔ غرض سخت زمانہ دیکھا ہے،کاندھوں پر پتھر بھی ڈھوئے ہیں۔ بلاشبہہ کم عمری میں محنت، آسایش پسندی سے بچاتی ہے۔

انتخابات کے بائیکاٹ کا سبب

  •  اگلے سال جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی کا الیکشن ہورہا ہے۔ آپ نے بائیکاٹ کی اپیل کی ہے، کیوں؟ کیا یہ مفید نہیں کہ نسبتاً بہتر لوگ اسمبلی میں جائیں؟
    •  میں پندرہ سال تک اس اسمبلی میں رہا ہوں۔ الیکشن عوام کا حق ہے۔ یہاں دو چیزیں ہوتی تھیں۔ سیاسی پارٹیاں مراعات، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر، ملازمتوں اور ترقیاتی کاموں کے نام پر عوام سے ووٹ لیتی تھیں۔ لیکن اسمبلی میں جاکر شراب، سود، مخلوط تعلیم اور بے معنی معاملات کے متعلق قانون سازی کرتی تھیں۔ یہ عوامی اعتماد سے ان کی خیانت تھی۔ اگر وہ شراب اور غیر اسلامی قوانین کے لیے عوام سے ووٹ مانگتے تو عوام انھیں دھتکار دیتے۔ جماعت اسلامی نے سیاسی پارٹیوں کی اس بدمعاشی کا توڑ کرنے کے لیے الیکشن میں شرکت کرنے کا فیصلہ کیا۔ لوگ بھی الیکشن کے ماحول میں بات سننے کے لیے آمادہ ہوتے ہیں۔ ہم نے اسلام کو بطور کامل نظام حیات متعارف کرنے کے لیے الیکشن میں بھرپور شرکت کا اقدام اُٹھایا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ ہم کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو اُجاگر کرنا چاہتے تھے۔ عوام میں بھی اور اسمبلی میں بھی، تاکہ عوامی آواز کو منوایا جائے اور اسے مؤثر طور پر پیش کیا جائے۔ ۱۹۸۹ء تک ہم اسمبلی میں رہے۔ ۲۹؍ اگست۱۹۸۹ء کو ہم نے اسمبلی کی نشستوں سے استعفیٰ دیا۔ تب تک ووٹ ہی ایک ذریعہ تھا مسئلے کو اجاگر کرنے کا، لیکن ووٹ کی حرمت کو بھارتی کٹھ پتلیوں کے ہاتھوں مسلسل پامال کیا گیا۔ اس طرح جب ووٹ کا سب سے زیادہ جمہوری طریقہ صریح دھاندلی سے ناکام بنایا گیا تو مسلح تحریک نے جنم لیا۔ ہندستان اور اس کی پروردہ سیاسی پارٹیاں ہمیشہ دھاندلی ہی کے بل پر یہاں مسلط ہوتی رہیں۔ ۱۹۸۷ء میں بھی یہی تماشا ہوا۔ حالانکہ مسلمانوں نے مسلم متحدہ محاذ (MUF)کو وسیع پیمانے پرحمایت سے نوازا تھا۔ لیکن ہندستان نے ناکام کو کامیاب اور کامیاب کو ناکام بنادیا۔ لہٰذا ووٹ والا خیال زبردست مایوسی سے دوچار ہوا، اور رجحان بیلٹ سے بلٹ، یعنی صندوق کے بجائے بندوق کی طرف منتقل ہوا۔ خون بہنے کے بعد بیلٹ بے معنی ہوجاتا ہے۔ ایک لاکھ جانیں، عزتیں ، عصمتیں، جایدادیں، اتنی ساری قربانیوں کو الیکشن کے ذریعے دفن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اس لیے ہم اس کی مخالفت کررہے ہیں۔

 ایک اور بات یاد رکھیں، بڑا مقصد حاصل ہوگا تو چھوٹی چھوٹی چیزیں خود بخود آجاتی ہیں۔ بڑی جدوجہد کے دوران چھوٹے اہداف پر توجہ مرکوز نہیں رہ سکتی۔ بیورو کریسی تو غالب قوت کی پیداوار ہوتی ہے۔ ہم شاخ تراشی کے بجائے کیکر کے درخت ہی کو جڑ سے اکھاڑنا چاہتے ہیں۔ مزاحمتی تحریکوں کا یہی انداز ہوتا ہے اور انھی اہداف پر توجہ مرکوز رہتی ہے۔

سامراجی غلبہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ آبادی کی اکثریت دین اور تہذیب سے نا آشنا بھی ہے اور لاتعلق بھی۔ یہ چیز بھی استعماری قبضے کو مستحکم کرنے میں ایک عنصر ہے۔ لہٰذا وہ ہمارے دین اور تہذیب سے ہمارے رشتے کو ہدف بناتی اور اس کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ ملّی و دینی شعور کی بیداری اور قبضے کی مزاحمت ہماری جدوجہد کے دوبنیادی اہداف ہیں۔

  •  ان انتخابات کے بائیکاٹ سے کیا مدد ملتی ہے؟ بائیکاٹ ہو یا نہ ہو، حکومت تو بن ہی جاتی ہے، جو پھر من پسند قانون نافذکرتی ہے، اس میں بائیکاٹ پر زور کیوں؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ اچھے اور اہل تر لوگ اسمبلی میںجائیں؟
    •  ۱۹۷۷ء میں نیشنل کانفرنس دو تہائی اکثریت کے باوجود کچھ نہ کرسکی، حالانکہ شیخ محمد عبداللہ جیسا بلند قامت لیڈر بھی موجود تھا۔ نیشنل کانفرنس کے اٹانومی بل کا حشر تو سب نے دیکھ لیا۔  یہ واضح ہے کہ یہ اسمبلی کشمیر کے مفاد کے لیے کچھ نہیں کرسکتی ۔ پھر اچھے لوگ وہاں جاکر کیا کریں؟ الیکشن کا بائیکاٹ، ہم ہندستان سے عدم تعاون واضح کرنے اور بنیادی مسئلے کی طرف توجہ دلانے کے لیے کر رہے ہیں۔
  •  جموں و کشمیر کے میڈیا سے آپ کتنا مطمئن ہیں؟
    •  میڈیا اداروں کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ اگر حریت نوازی ظاہر کریں تو ان پر پابندی لگ سکتی ہے۔ اس لیے ہمدردی کے باوجود ان کے لیے کما حقہٗ تحریک نوازی بر تنا مشکل ہے۔ ہم اس کو سمجھتے ہیں۔ نیت پر شک نہیں کرتے ، چند اخباروں کے استشناء کے ساتھ یہاں کا مقامی پرنٹ میڈیا صورتِ حال کی صحیح عکاسی کی کوشش کرتا ہے۔

پُرامن جدوجہد اور عسکریت

  • عیدگاہ کے جلسے میں (۲۲؍اپریل ۲۰۰۷ء) اور اس کے بعد بھی آپ نے یہ کہا کہ ہماری جدوجہد پُرامن اور سیاسی ہے، جب کہ یہاں سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ عسکری جدوجہد بھی چل رہی ہے ۔ اس کی کیا وضاحت ہے؟
    • ہم نے عسکریت کے حوالے سے بات نہیں کی، بلکہ اپنے اور تحریک حریت کے حوالے سے یہ بات کی تھی۔ عسکریت کا ایک الگ میدان ہے، جس کے اپنے ضوابط اور تقاضے ہیں۔ لیکن عوامی جدوجہد کہ جہاںسب لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا ہو، سیاسی نوعیت کی ہوتی ہے۔ سب لوگ عسکری میدان میں نہیں کود سکتے۔ البتہ یہ ساری کوششیں تحریک آزادی کا حصہ ہیں۔عسکری جدوجہد سے متعلق معاملات پر میں نے اپنی کتاب قصہ درد میں کچھ باتیں لکھی ہیں اور اس جدوجہد میں رونما ہوئی کمزوریوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے۔
  •  عسکری تنظیمیں اکثر آپ کے پروگراموں مثلاً ہڑتال وغیرہ کی حمایت کرتی ہیں۔ عیدگاہ ریلی میں عسکریت پسندوں کی شرکت سے متعلق خبروں کو بھی بعض ٹی وی چینلوں نے نشر کیا۔ کیا پروگرام طے کرنے سے قبل عسکری حلقوں کو اعتماد میں لیا جاتا ہے؟
    • شاید وہ ہماری آواز کو اپنی امنگوں سے ہم آہنگ پاتے ہیں۔ البتہ پروگرام طے کرنے سے قبل کوئی مشاورت نہیں ہوتی اور نہ موجودہ حالات میں ایسا کرنا ممکن ہے۔
  •  جماعت اسلامی سے آپ کا نصف صدی تک تعلق رہا۔ اب تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟
    • تحریک حریت، جماعت اسلامی کے ساتھ ایک مفاہمت کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی۔ اس وقت صراحت کے ساتھ کہا گیا تھا کہ باہمی تعلقات وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى۝۰۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۝۰۠ (المائدہ ۵:۲) کی قرآنی رہنمائی کی روشنی میں استوار ہوں گے ۔ تحریک حریت میں شامل ہونے والوں کی جماعتی حیثیت برقرار رکھنے کی بات بھی طے تھی، لیکن بعد میں ایسا نہ رہ سکا۔ جماعت اسلامی کے تنظیمی اتنخابات سے قبل تحریک حریت سے واپسی کی شرط رکھی گئی۔ محترم محمداشرف صحرائی صاحب اور میں نے ، اپنے طور پر جماعت کے تنظیمی انتخابات میں کسی بھی منصب یا ذمہ داری سے لاتعلق رہنے کا اعلان کیا اور ہمارے حق میں ووٹ نہ دینے کی اپیل کرنے کی پیش کش کی تھی۔ لیکن اس کو بھی قبول نہ کیا گیا ۔ البتہ یہ جماعتی الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان نہیں تھا بلکہ صرف اپنے حوالے سے ہم نے یہ بات کہی تھی۔

خفیہ مذاکرات

  •  محمد یاسین ملک صاحب نے ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ خفیہ مذاکرات پہلے بھی ہوئے ہیں، جب آپ حریت کانفرنس کے چیئرمین تھے۔ حقیقت کیا ہے؟
    •  میری کتاب دیدو شنید میں اس معاملے کی تفصیل درج ہے۔ جب میں چیئرمین تھا تو حریت ایگزیکٹیو کا اجلاس مرحوم عبدالغنی لون صاحب کی رہایش گاہ پر منعقد ہوا۔ ان دنوں اشارے مل رہے تھے کہ شاید ہندستان کشمیری لیڈر شپ کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتا ہے۔ اس اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ اگر ہندستان بات چیت کے لیے کوئی پہل کرے، یا اس میں دلچسپی ظاہر کرے تو انھیں بتایا جائے گا کہ حُریت چیئرمین سے رابطہ کریں۔ اس پورے معاملے میں کوئی خفیہ بات نہیں تھی بلکہ حریت ایگزیکٹیو کا فیصلہ تھا۔ چنانچہ بعد میں وجاہت حبیب اللہ یہاں آئے۔ دوبار اسی کمرے میں ان سے بات ہوئی، دونوں فریقوں نے اپنا اپنا نقطۂ نظر بیان کیا۔ میں نے ان کو بتایا کہ ہماری گزارشات کی روشنی میں اگر نئی دلی بات چیت پر آمادہ ہوتی ہے تو ہم بھی تیار ہیں۔ مگر وجاہت صاحب تیسری بار تشریف نہیں لائے، جس سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ دلی ہمارے موقف سے متفق نہیں تھی۔

اس کے بعد آر کے مشرا اور ریٹائرڈ میرل نیر دوبار یہاں تشریف لائے۔ مشرا صاحب سے دہلی میں حریت دفتر میں بھی ایک بار ملاقات ہوئی۔ ان کے سامنے بھی ہم نے اپنا موقف رکھا، البتہ وہ بھی جواب لے کر واپس نہیں آئے ۔ اس پر روابط کا یہ سلسلہ منقطع ہوا۔

  • یہاں گذشتہ دو دہائیوں میں کئی لوگوں کو سیاسی وابستگی کی بنیاد پر قتل کیا گیا، کیا یہ آپ کے نزدیک صحیح ہے؟
    • ہم اس کے خلاف ہیں۔ اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اپنی کتاب قصۂ درد میں مَیںنے تفصیل سے اس پر بات کی ہے۔
  • کئی بار آپ نے لفظ Indigenousاستعمال کیا۔ اس سے کیا مراد ہے؟
    • Indigenousتحریک سے مراد یہ ہے کہ یہ تحریک جموں وکشمیر کی سرزمین سے برپاہوئی ہے اور یہاں کے لوگ ہی اصل فیصلہ کن قوت ہیں۔ یہ باہر سے کی گئی دراندازی کی وجہ سے برپا نہیں ہوئی ہے، بلکہ یہاں کے لوگوں نے اپنے خون جگر سے اس کی آبیاری کی ہے۔ جموں وکشمیر سے باہر بہت سے لوگ ہماری حمایت کرتے ہیں، تو وہ اپنا انسانی، اخلاقی اور دینی فریضہ بجالاتے ہیں۔ اس بنا پر کسی تحریک کو بیرونی سازش سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ۔