ستمبر ۲۰۲۲

فہرست مضامین

غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور امریکی سرپرستی

منصور جعفر | ستمبر ۲۰۲۲ | اخبار امت

Responsive image Responsive image

۵؍اگست ۲۰۲۲ء فلسطینیوں کے لیے سخت آزمایش کا دن تھا کہ اس روز ان پر اسرائیلی آتش و آہن کی بارش ہوئی۔ جس طرح ایسی آزمایشوں میں فلسطینی بھائی پہلے کامیاب ہوئے، اسی طرح اب بھی اللہ نے ان کے جذبۂ آزادی کی لاج رکھ لی۔

دوسری آزمایش یہ تھی کہ دُنیا بھر میں پھیلے ملّی برادارن اس مشکل اور آزمایش کی گھڑی میں کس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں؟

تیسری آزمایش بین الاقوامی سطح پرانسانی آزادیوں، حقوق اور بین الاقوامی قراردادوں، بین الاقوامی معاہدات، اقوام متحدہ کی طے شدہ پالیسیوں اور بلندو بالا عالمی اداروں اور ایوانوں کے دعووں اور وعدوں کی بھی تھی۔ آزمایا یہ جانا تھا کہ عالمی ادارے اسرائیل کی اس نسل کشی اور فلسطین دشمنی کو اس بار بھی نظر انداز کر جاتے ہیں یا وہ اپنے ضمیر کی آواز پر جاگتے ہیں۔

فلسطینی عوام تو اپنے محاذ پر سرخرو ہوئے کہ وہ ڈٹے رہے، کھڑے رہے۔ لیکن دوسری دو آزمایشوں کا فیصلہ تاریخ کے حوالے کرتے ہیں کہ تاریخ انھیں سرخرو قرار دیتی ہے یا سیاہ رو ثابت کرتی ہے۔اسرائیل کی طرف سے غزہ پر مسلط کردہ تین روزہ جنگی جارحیت بظاہر جمعے سے شروع ہو کر اتوار کی شب ساڑھے آٹھ بجے ختم ہوئی۔ مصر کی مدد سے ہونے والی اس جنگ بندی کے فوراً بعد اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ ’’ہم غزہ پر زیادہ وسیع اہداف کو سامنے رکھ کر پھر حملہ کریں گے‘‘۔

گویا فلسطینیوں کو موت اور خون کے اس دریا کے پار ایک اور دریا کا سامنا ایک بار پھر کرنا ہوگا۔ سہ روزہ اسرائیلی جنگی جارحیت کے دوران چھ کم سن فلسطینی بچوں، بچیوں اور کئی خواتین سمیت مجموعی طور پر ۴۶ فلسطینیوں کو شہید کیا گیا۔ اس کے علاوہ ۱۵۰۰گھروں کو جزوی نقصان پہنچایا گیا ہے۔ دو درجن کے قریب گھر مکمل تباہ ہوئے اور ۷۱ کو ایسا نقصان پہنچا کہ اب رہایش کے قابل نہیں رہے۔ تقریباً دو درجن دیگر کئی منزلہ عمارات بھی تباہ ہوئی ہیں۔

بجلی و پانی کا نظام متاثر اور ادویات کی فراہمی معطل ہونے سے ہسپتالوں میں علاج معالجہ جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔ گویا زخمی فلسطینیوں کے زخموں پر جس طرح سفارتی اور انسانی حوالے سے مرہم رکھنے کی کوشش کرنے کے لیے میدان میں کوئی موجود نہ تھا، اسی طرح ہسپتال کے معالجین بھی نظام کے تعطل کی وجہ سے اس پوزیشن میں نہ رہے۔ یہ سب تو غزہ اور اہل فلسطین کے لیے ایک معمول کے درجے میں پہنچ چکا ہے۔ ان کے اغوا، گرفتاریاں، شہادتیں اور گھروں کی مسماری معروف معنوں میں دُنیا کے لیے کوئی خبر نہیں بلکہ معمول کا ایک کام ہے۔

اس بار اسرائیل نے برطانیہ کی مدد سے تیار کردہ ڈرون طیاروں کا استعمال فلسطینیوں کے گھروں کو نشانہ بنانے کے لیے بھرپور طریقے سے کیا۔ وہی ڈرون جن کے پرزوں کی فیکٹری پر برطانیہ میں فلسطینی احتجاج کر چکے ہیں کہ یہ پرزے اسرائیل کو ملنے سے فلسطینیوں کی ناحق جانیں لینے کا باعث بنتے ہیں۔ احتجاج اپنی جگہ اور برطانوی کاشتہ صیہونی راج اپنی جگہ۔ جب امریکی صدر جو بائیڈن خود کو ’صیہونی‘ کہہ کر اسرائیل میں اپنا تعارف کرا رہے ہوں تو پھر اسرائیل کو فلسطینیوں کی جانوں سے کھیلنے کے لیے ڈرون اسی صیہونی سوچ کے تحت دیے جانے میں کوئی کیونکر رکاوٹ پیدا کر سکے گا۔

غزہ میں اس بار اسرائیل نے اپنے حملے کا بطور خاص ہدف ’اسلامی جہاد‘ کے نام سے سرگرم گروپ کو بنایا، اور یہ گہری سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ تھا۔

امریکی صدر جو بائیڈن کے پچھلے ماہ جولائی میں مشرق وسطیٰ کے دورے پر آنے سے تقریباً تین چار ہفتے پہلے ڈیموکریٹس اور ری پبلکن ارکان کانگریس نے ایک مشترکہ بل کانگریس میں پیش کیا تھا۔ اس بل میں اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کو فضائی دفاع کو اجتماعی چھتری کے نیچے لانے کی تجویز تھی۔ اجتماعی دفاعی چھتری کے دو مقاصد بیان کیے گئے۔ ایک یہ کہ اسرائیل اور عرب دنیا کو ایران کے حملوں خصوصاً ڈرون حملوں اور میزائل حملوں سے بچانا۔ دوم یہ کہ خطے میں موجود امریکی فوجی اہلکاروں کو واپس اپنے گھروں کو جانے میں مدد دینا، کہ ان کی قیمتی جانوں کو خطرناک ماحول سے نکال لیا جائے ،کیونکہ امریکی کی جان ’قیمتی‘ اور ’مقدم‘ سمجھی جاتی ہے۔

بعد ازاں امریکی صدر جو بائیڈن مشرق وسطیٰ کے دورے پر آئے تو بھی ان کے دورے کی اصل ’کاروباری مہم‘ ایران اور ایران کی وجہ سے خطے کے ممالک کو درپیش خطرات سے منسوب تھی۔ ان کے کلام و بیان میں ایرانی خطرے کی ایسی تکرار تھی کہ صاف لگتا تھا کہ یہ ترکیب کارگر رہے گی اور جو بائیڈن کامیاب دورے کے بعد واپس جائیں گے۔ ان کی کامیابی میں اسرائیل کے حوالے سے معاہدے کے تحت ’نارملائزیشن‘ کا عمل آگے بڑھانا اور خود امریکا کے لیے توانائی یا مالیاتی اعتبار سے وسائل اور امکانات کو ممکن بنانا تھا کہ نومبر میں ہونے والے امریکی درمیانی مدت کے انتخابات میں ڈیموکریٹس کی جیت کا امکان پیدا کرنے کے لیے یہ ضروری تھا۔ بصورتِ دیگر ۳۷ فی صد تک گر جانے والے مقبولیت کے گراف کے بعد جو بائیڈن اپنی جماعت کے لیے ’خطرناک‘ ہو چکے ہیں۔

صدر جو بائیڈن کے دورے سے پہلے اور اس دورے کے دوران جو فضا بنائی گئی تھی، اس میں یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ خطے میں جنگی ماحول اب زیادہ دور نہیں ہے کہ اسی صورت امریکی اسلحے کی فروخت کے امکانات بڑھیں گے اور امریکی مالیاتی مسائل میں کمی کی راہ ہموار ہو سکے گی۔

مبصرین اس اسرائیلی جارحیت سے مقابلتاً زیادہ پھیلی ہوئی جنگ کا ماحول دیکھ رہے تھے۔ اسرائیل نے غزہ میں اسلامی جہاد کو بطور خاص نشانہ بنا کر بقول اسرائیل ’ایرانی پراکسی جنگ‘ کو نشانہ بنایا ہے۔ ۱۹۸۱ء میں قائم ہوئے اسلامی جہاد گروپ کو فلسطین میں ایران کے زیادہ قریب سمجھا جاتا ہے۔ یہ گروپ اگرچہ حماس کے مقابلے میں ایک چھوٹا مزاحمتی گروپ ہے، مگر تصور یہ ہے کہ اسلحے کے اعتبار سے یہ کافی مضبوط گروپ ہے۔البتہ حماس کی راکٹ ٹکنالوجی زیادہ دور تک مار کرنے والی ہے۔

اسرائیل نے اس ایرانی حمایت یافتہ گروپ کے سیاسی شعبے کے رہنما سعد السعدی کو چند دن قبل مقبوضہ مغربی کنارے سے گرفتار کیا تھا۔ بدقسمتی سے اس گرفتاری میں فلسطینی اتھارٹی اور اس کے سربراہ محمود عباس کی سہولت کاری کا بھی دخل تھا۔ یہ سہولت کاری انھوں نے جو بائیڈن کے اسرائیل آنے سے پہلے اسرائیلی وزیر دفاع کے ساتھ اسی ملاقات میں طے کر دی تھی کہ نہ صرف جوبائیڈن کے دورے کے موقعے پر امن کو بحال رکھا جائے گا بلکہ سکیورٹی کے سلسلے میں دوطرفہ تعاون بھی برقرار رکھا جائے گا۔ اسی دو طرفہ تعاون کی تجدید نے اسرائیل کو اسلامی جہاد کے سیاسی شعبے کے اہم رہنما سعد السعدی کی گرفتاری کا موقع دیا تھا۔

اسرائیل نے ایک جانب یہ اہم گرفتاری کی اور دوسری طرف خود غزہ پر چڑھائی کر دی کہ اس گرفتاری کے بعد اسے خطرہ تھا کہ اسلامی جہاد گروپ اسرائیل پر حملہ کردے گا۔ اس حملے میں اگرچہ عام فلسطینی شہید، زخمی اور بےگھر ہوئے، مگر اسرائیل نے اسے صرف ’اسلامی جہاد‘ کے خلاف حملہ قرار دیا کہ یہ ایرانی حمایت یافتہ گروپ ہے۔

اسرائیل کی یہ کوشش کامیاب رہنے کا امکان نسبتاً زیادہ تھا کہ ایران کے بارے میں اس طرح کی بات مشرق وسطیٰ میں آسانی سے فروخت کی جا سکتی تھی، جیسا کہ جو بائیڈن نے بھی ایران کو ہی اپنا ’کاروباری ہدف‘ بنایا۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایران کی طرف سے سب اچھا قرار دیا جارہا ہے، بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ خطے کی ترقی و استحکام کے لیے ان مسلم ممالک کے درمیان تعلق کو سیاسی بہتری کے برعکس ان میں تصادم اور ٹکراؤ کو بڑھاوا دے کر امریکا نے اسرائیل کے لیے گنجایش اور سہولت پیدا کرنے کا موقع بنا لیا ہے۔

اسرائیل کی ناجائز ریاست کو اس وقت نسبتاً زیادہ قبولیت کے قابل بنا کر پیش کرنے کی کوشش جاری ہے۔ اس کے مقابلے میں عرب دنیا اور ایران کے درمیان خلیج کو پاٹنے کے بجائے انھیں مزید گہرا کیا جا رہا ہے۔یقیناً اس صورت حال میں خطے میں حقیقی امن و استحکام کا امکان بڑھانے کے بجائے کم کیا جا رہا ہے۔ یہ ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی پالیسی مشرق وسطیٰ کے وسائل پر نظر رکھنے اور اپنے لیے ایک اچھی خرچیلی مارکیٹ پیدا کرنے کے لیے معاون ہو سکتی ہے۔

  اسی کو اسرائیل نے بروئے کار لاتے ہوئے ’ایرانی پراکسی جنگ‘ میں جوابی حملے کا نام دیا۔ ابھی زیادہ بڑے حملے کی دھمکی اسرائیلی فوج نے اتوار کی رات ہونے والی جنگ بندی کے فوری بعد دے دی ہے۔گویا امریکا اور اس کے حلیف ممالک کی سرپرستی میں اسرائیل غزہ کو کبھی ایک بہانے سے اور کبھی دوسرے بہانے سے تباہ و برباد کرنے کی کوشش کرتا رہے گا، اور یہ ان حالات میں کیا جاتا رہے گا کہ جب ایک طرف خطے میں اسرائیل کے لیے ’نارملائزیشن‘ کی مہم جاری ہے اور دوسری طرف فلسطینیوں کے خلاف جنگی کارروائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔