ستمبر ۲۰۲۲

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | ستمبر ۲۰۲۲ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

ذکرِ الٰہی کے مختلف طریقے؟

سوال : حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے اپنے بعض شاگردوں کو دیکھا کہ وہ ذکر کے لیے ایک مقررہ جگہ پر جمع ہوا کرتے ہیں، تو غصے میں فرمایا کہ ’’کیا تم اصحابِ رسولؐ اللہ سے بھی زیادہ ہدایت یافتہ ہو؟‘‘ دوسری روایت میں ہے: حضر ت ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ ’’رسولؐ اللہ کے زمانے میں تو مَیں نے اس طرح کا ذکر نہیں دیکھا، پھر تم لوگ کیوں یہ نیا طریقہ نکال رہے ہو؟‘‘دوسری طرف صحیح البخاری اور مسلم میں ہے کہ ’’فرشتے ذکر ِ الٰہی کی مجالس کو ڈھونڈتے ہیں اور ان میں بیٹھتے ہیں‘‘۔ ان احادیث کی روشنی میں ’حلقۂ ذکر‘ کا بدعت ہونا سمجھ میں نہیں آتا؟

جواب : لفظ ’ذِکر‘ کا اطلاق بہت سی چیزوں پر ہوتا ہے: اس کے ایک معنی ’دل میں اللہ کو یاد کرنے‘، یا ’یاد رکھنے‘ کے ہیں۔ دوسرے معنی ’اُٹھتے بیٹھتے ہرحال میں طرح طرح سے اللہ کا ذکر کرنے کے ہیں، مثلاً: موقع بہ موقع الحمدللہ، ماشاء اللہ، ان شاء اللہ، سبحان اللہ وغیرہ کہنا۔ بات بات میں کسی نہ کسی طریقے سے اللہ کا نام لینا، رات دن کے مختلف احوال میں اللہ سے دُعا مانگنا، اور اپنی گفتگوئوں میں اللہ کی نعمتوں اور حکمتوں اور اس کی صفات اور اس کے احکام وغیرہ کا ذکر کرنا‘۔ تیسرے معنی ’قرآن مجید اور شریعت ِ الٰہیہ کی تعلیمات بیان کرنے کے ہیں، خواہ وہ درس کی شکل میں ہوں، یا باہم مذاکرہ کی شکل میں، یا وعظ و تقریر کی شکل میں‘۔ چوتھے معنی’تسبیح و تہلیل و تکبیر کے ہیں‘۔

جن احادیث میں ذکر ِ الٰہی کے حلقوں اور مجلسوں پر حضوؐر کے اظہارِ تحسین کا ذکر آیا ہے، اُن سے مراد تیسری قسم کے حلقے ہیں۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے جس چیز پر اظہارِ ناراضی کیا ہے، اس سے مراد چوتھی قسم کا حلقہ ہے ، کیونکہ رسول ؐ اللہ کے عہد میں حلقے بنا کر تسبیح و تہلیل کا ذکر جہری کرنا رائج نہ تھا، نہ حضورؐ نے اس کی تعلیم دی، اور نہ صحابہؓ نے یہ طریقہ کبھی اختیار کیا۔ رہا پہلے دو معنوں میں ذکر ِ الٰہی ، تو ظاہر ہے کہ وہ سرے سے حلقے بنا کر ہو ہی نہیں سکتا، بلکہ وہ لازماً انفرادی ذکر ہی ہوسکتا ہے۔ (ترجمان القرآن، مئی ۱۹۶۶ء)

حقیقی توبہ کیسے؟

سوال : اس سے قبل میں مبتلائے کبائر تھا، مگر اس کے بعد توبہ نصوح کرلی ہے اور اب آپ کی تحریک سے متاثر ہوکر اللہ کا شکر ہے کہ ایک ’شعوری مسلمان‘ ہوگیا ہوں۔ لیکن دن رات اپنے اُخروی انجام سے ہراساں رہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ آخرت کے بجائے دُنیا ہی میں اپنے کیے کی سزا بھگت لوں، مگر افسوس کہ اسلامی سزا کا قانون رائج نہیں ہے۔ آپ میری مدد کریں اور کوئی مناسب راہ متعین فرمائیں۔

جواب : اللہ تعالیٰ ہر اس گناہ کو بخش دیتا ہے جس پر ایک مومن سچّے دل سے نادم ہو کر تائب ہو اور پھر اس گناہ کا اعادہ نہ کرے۔ توبہ کے ساتھ ساتھ اگر آدمی راہِ خدا میں کچھ صدقہ بھی کرے یا اللہ کی راہ میں کوئی قربانی اس نیت سے کرے کہ اللہ اپنی رحمت سے اس کا گناہ معاف فرما دے، تو یہ چیز توبہ کی قبولیت میں اور زیادہ مددگار ہوتی ہے۔ اللہ سے دُعا ہے کہ وہ آپ کی توبہ قبول فرمائے اور آپ کو استقامت بخشے۔ (ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۶۲ء)