سیّد ابوالاعلیٰ مودودی


اسلام اپنی صداقت پر ایمان لانے کے لیے کسی کو مجبور نہیں کرتا، بلکہ دلائل و براہین کی روشنی میں ہدایت کی راہ کو ضلالت کی راہ سے ممتاز کر کے دکھا دینے کے بعد، ہرشخص کو اختیار دیتا ہے کہ چاہے غلط راستے پر چل کر نامرادی کے گڑھے میں جاگرے، اور چاہے سیدھے راستے پر لگ کر حقیقی اور دائمی فلاح و کامرانی سے بہرہ اندوز ہو۔ لیکن… ہم یہ بتادینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کو تلوار سے ایک گونہ تعلق ضرور ہے۔ اِس میں شک نہیں کہ جہاں تک تبلیغِ دینِ الٰہی کی حد ہے ، اس میں تلوار کا کوئی کام نہیں ہے۔ لیکن اس تبلیغ کے ساتھ کچھ چیزیں اور بھی ہیں جن کے تعاون سے دنیا میں اسلام کی اشاعت ہوئی ہے۔ 

عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ جب انسان بے قیدی کی زندگی بسر کرتا ہے اور اپنی خواہشات کی پیروی میں کسی اخلاقی ضابطے کا پابند نہیں ہوتا، تو اسے اپنی اِس پُرالم، مگر بظاہر پُرلطف زندگی میں ایک مزا آنے لگتا ہے، اور اس مزے کو چھوڑنے کے لیے وہ برضاورغبت آمادہ نہیں کیا جاسکتا۔ وعظ و نصیحت اور دلیل و بُرہان کی قوت سے اس کو اخلاقی حدود کی پابندی، حلال و حرام کی تمیز، اور نیک و بد کے امتیاز کی خواہ کتنی ہی تلقین کی جائے، وہ بہرحال سیدھا ہونے پر راضی نہیں ہوتا۔  

اوّل تو اس کی عقل و وجدان پر مسلسل بدکاریاں کرتے رہنے کے باعث ایسا پردہ پڑجاتاہے کہ اس قسم کی اخلاقی تعلیم کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا، اور اگر اس کے ضمیر میں کچھ زندگی باقی ہوتی بھی ہے تو وہ اس کے نفس پر اتنی حاوی نہیں ہوتی کہ اس کے اثر سے وہ حق کو محض اس بنا پر کہ وہ حق ہے، بطَوع و رغبت قبول کرلے، اور ان لذتوں سے دست بردار ہوجائے جو بے قیدی کی زندگی میں اسے حاصل ہوتی ہیں۔ 

 بخلاف اس کے جب کسی اخلاقی تعلیم کی پشت پر وعظ و تذکیر کے ساتھ سیاست و تعزیر بھی ہوتی ہے اور بد کو بدکرکے دکھا دینے کے ساتھ بدی کو روک دینے والی قوت سے بھی کام لیا جاتا ہے، تو رفتہ رفتہ طبیعت میں نیک بننے کی صلاحیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ حدودکی پابندی اور بُرے بھلے کی تمیز آہستہ آہستہ ترقی کرتی ہے ، اور آخرکار وہی انسان اس نیکی کی تعلیم کو دل میں جگہ دینے لگتا ہے جو بے قیدی کی زندگی میں اس کو سننے کا بھی روادار نہ تھا۔ 

تھوڑی دیر کے لیے کسی ایسی سوسائٹی کا تصور کیجیے، جس میں کوئی قانون نافذالعمل نہیں ہے، اس کا ہرفرد اخلاقی حدود کی پابندی سے مبرا ہے، جس پر بس چلتا ہے اسے لوٹ لیتا ہے، جس سے عداوت ہوتی ہے اسے مار ڈالتا ہے، جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے اسے چُرا کر یا چھین کر حاصل کرلیتا ہے، جو خواہش دل میں پیدا ہوتی ہے اسے جس طریقے سے چاہتا ہے پورا کرلیتا ہے، حلت و حُرمت کی اسے تمیز نہیں ہوتی، جائز و ناجائز کے فرق سے وہ ناواقف ہوتا ہے، حقوق و فرائض کے تخیل سے اس کا دماغ خالی ہوتا ہے، اس کے سامنے بس اپنی خواہشات ہوتی ہیں اور انھیں پورا کرنے کے امکانی وسائل ہوتے ہیں۔  

ایسی حالت میں اگر کوئی اخلاقی مصلح کھڑا ہو اور لوگوں کو حلال و حرام کی تمیز سکھائے، جائز و ناجائز کی حدبندی کرے، مقاصد میں حُسن و قبح اور طریقوں میں نیک و بدکا فرق قائم کرے، چوری سے، حرام خوری سے، خونِ ناحق سے، زنا اور فواحش سے روکے، افراد کے لیے حقوق اور فرائض متعین کرے، اور ایک مکمل ضابطۂ قوانینِ اخلاق مرتب کر کے رکھ دے، مگر اس قانون کی تنفیذ کے لیے اس کے پاس وعظ و پند اور دلیل و حجت کے سوا کوئی قوت نہ ہو، تو: 

  • کیا یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ جماعت اپنی آزادی پر ان قیود کو بخوشی قبول کرلے گی؟  
  • کیا وہ اس کے مُسکِت دلائل سے مغلوب ہوکر برضا و رغبت قانون کی پابند بن جائے گی؟  
  • کیا وہ اس کی پُردرد نصیحتوں سے اتنی متاثر ہوگی کہ خود بخود اُن لذتوں سے کنارہ کش ہوجائے، جو اس کو بے قیدی کی زندگی میں حاصل ہیں؟  

ہرشخص جو انسانی فطرت کا رازداں ہے، اس سوال کا جواب صرف نفی میں دے گا۔ کیوںکہ دنیا میں ایسے پاک نفسوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے جو نیکی کو محض نیکی سمجھ کر اختیار کرتے ہیں، اور بدی کو صرف اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ اس کا بد ہونا انھیں معلوم ہوچکا ہے۔ 

لیکن اگر یہی سوال اس صورت میں کیا جائے، جب کہ وہ معلّم محض اخلاقی واعظ ہی نہیں بلکہ حاکم اور صاحب ِ امر بھی ہو اور ملک میں ایک باضابطہ حکومت قائم کردے، جس کی قوت سے وہ تمام بُرائیاں یک لخت دُور ہوجائیں جو حیوانی آزادی سے پیدا ہوتی ہیں، تو یقینا یہ نفی، اثبات سے بدل جائے گی اور ہرشخص اس اصلاحی تعلیم کی کامیابی کا فتویٰ لگا دے گا۔ 

اسلام کی اشاعت کا بھی تقریباً یہی حال ہے۔  

اگر اسلام صرف چند عقائد کا مجموعہ ہوتا اور اللہ کو ایک کہنے، رسالت کو برحق ماننے، یومِ آخر اور ملائکہ پر ایمان کے سوا انسان سے وہ کوئی اور مطالبہ نہ کرتا، تو شاید شیطانی طاقتوں سے اس کو کچھ زیادہ جھگڑنے کی نوبت نہ آتی۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ صرف ایک عقیدہ ہی نہیں بلکہ ایک قانون بھی ہے۔ ایسا قانون جو انسان کی عملی زندگی کو اوامرونواہی کی بندشوں میں کسنا چاہتا ہے، اس لیے اس کا کام صرف پندوموعظت ہی سے نہیں چل سکتا بلکہ اسے نوکِ زبان کے ساتھ نوکِ سنان [نیزہ]سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ 

اس کے عقائد سے، سرکش انسان کو اتنا بُعد نہیں ہے جتنا اس کے قوانین کی پابندی سے انکار ہے۔ وہ چوری کرنا چاہتا ہے اور اسلام اسے ہاتھ کاٹنے کی دھمکی دیتا ہے۔ وہ زنا کرنا چاہتا ہے اور اسلام اسے کوڑوں کی مار کا حکم سناتا ہے۔ وہ سود کھانا چاہتا ہے اور اسلام اس کو فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ (البقرہ ۲:۲۷۹،’’آگاہ ہوجائو کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے تمھارے خلاف اعلانِ جنگ ہے‘‘) کا چیلنج دیتا ہے۔ وہ حرام و حلال کی قیود سے نکل کر نفس کے مطالبات پورے کرنا چاہتا ہے اور اسلام ان قیود سے باہر نفس کے کسی حکم کی پیروی نہیں کرنے دیتا۔ اس لیے نفس پرست انسان کی طبیعت اس سے متنفر ہوتی ہے اور اس کے آئینۂ قلب پر گناہ گاری کا ایسا زنگ چڑھ جاتا ہے کہ اس میں صداقت ِاسلام کے نُور کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہتی۔  

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۱۳برس تک عرب کو اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ وعظ و تلقین کا جو مؤثر سے مؤثر انداز ہوسکتا تھا اسے اختیار کیا۔ مضبوط دلائل دیے، واضح حجتیں پیش کیں، فصاحت و بلاغت اور زورِ خطابت سے دلوں کو گرمایا۔ اللہ کی جانب سے محیرالعقول معجزے دکھائے۔ اپنے اخلاق اور اپنی پاک زندگی سے نیکی کا بہترین نمونہ پیش کیا، اور کوئی ذریعہ ایسا نہ چھوڑا جو حق کے اظہارواثبات کے لیے مفید ہوسکتا تھا۔ 

 لیکن آپؐ کی قوم نے آفتاب کی طرح آپؐ کی صداقت کے روشن ہوجانے کے باوجود آپؐ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ حق ان کے سامنے خوب ظاہر ہوچکا تھا۔ انھوں نے برأي العین دیکھ لیا تھا کہ جس راہ کی طرف ان کا ہادی انھیں بلا رہا ہے، وہ سیدھی راہ ہے۔ اس کے باوجود صرف یہ چیز انھیں اس راہ کو اختیار کرنے سے روک رہی تھی کہ اُن لذتوں کو چھوڑنا انھیں ناگوار تھا جو کافرانہ بے قیدی کی زندگی میں انھیں حاصل تھیں۔ 

جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد داعیِ اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی اور اَلَا  کُلَّ  مَأْثُرَۃٍ  أَوْ  دَمٍ  أَوْ مَالٍ یُدْعٰی فَھُوَ تَحْتَ قَدَمَیَّ ھَاتَیْنِ{ FR 644 } [السیرۃ النبویۃ،  ابن ہشام، ۳/۴۱۳] کا اعلان کرکے تمام موروثی امتیازات کا خاتمہ کر دیا، عزت و اقتدار کے تمام رسمی بتوں کو توڑ دیا، ملک میں ایک منظم اور منضبط حکومت قائم کردی، اخلاقی قوانین کو بزور نافذ کرکے اُس بدکاری و گناہ گاری کی آزادی کو سلب کرلیا جس کی لذتیں ان کو مدہوش کیے ہوئے تھیں، اور وہ پُرامن فضا پیدا کردی جو اخلاقی فضائل اور انسانی محاسن کے نشوونما کے لیے ہمیشہ ضروری ہوا کرتی ہے، تو دلوں سے رفتہ رفتہ بدی و شرارت کا زنگ چھوٹنے لگا، طبیعتوں سے فاسد مادے خودبخود نکل گئے، روحوں کی کثافتیں دُور ہوگئیں اور یہی نہیں کہ آنکھوں سے پردہ ہٹ کر حق کا نور صاف عیاں ہوگیا، بلکہ گردنوں میں وہ سختی اور سروں میں وہ نخوت باقی نہیں رہی، جو ظہورِ حق کے بعد انسان کو اس کے آگے جھکنے سے باز رکھتی ہے۔ 

عرب کی طرح دوسرے ممالک نے بھی جو اسلام کو اس سُرعت سے قبول کیا کہ ایک صدی کے اندر چوتھائی دنیا مسلمان ہوگئی، تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اسلام کی تلوار نے ان پردوں کو چاک کر دیا جو دلوں پر پڑے ہوئے تھے، اُس فضا کو صاف کر دیا جس کے اندر کوئی اخلاقی تعلیم پنپ نہیں سکتی، اِن حکومتوں کے تخت اُلٹ دیے جو حق کی دشمن اور باطل کی پشت پناہ تھیں، ان بدکاریوں کا استیصال کردیا جو دلوں کو نیکی و پرہیزگاری سے دُور رکھتی ہیں، ان عادلانہ اخلاقی قوانین کو نافذ کیا جو آدمی کو حیوانیت کے درجے سے نکال کر انسان بنا دیتے ہیں، اور پھر اسلام کو عملی پیکر میں پیش کرکے دنیا پر ثابت کردیا کہ انسان کی اخلاقی و مادی اور روحانی ترقی کے لیے اس سے بہتر کوئی اور دستورِ عمل نہیں ہوسکتا۔ 

[لہٰذا] جس طرح یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے لوگوں کو مسلمان بناتا ہے، اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اسلا م کی اشاعت میں تلوار کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ حقیقت ان دونوں کے درمیان ہے، اور وہ یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تبلیغ اور تلوار دونوں کا حصہ ہے، جس طرح ہرتہذیب کے قیام میں ہوتا ہے۔ تبلیغ کا کام تخم ریزی ہےاور تلوار کا کام قلبہ رانی [ہل چلانے کا کام]۔ پہلے تلوار زمین کو نرم کرتی ہے تاکہ اس میں بیج کو پرورش کرنے کی قابلیت پیدا ہوجائے، پھر تبلیغ بیج ڈال کر آبپاشی کرتی ہے تاکہ وہ پھل حاصل ہو جو اس باغبانی کا مقصودِ حقیقی ہے۔  

ہم کو دنیا کی پوری تاریخ میں کسی ایسی تہذیب کا نشان نہیں ملتا، جس کے قیام میں ان دونوں عناصر کا حصہ نہ ہو۔ تہذیب کی کسی خاص شکل کا کیا ذکر ہے، خود تہذیب کا قیام ہی اس وقت تک ناممکن ہے جب تک قلبہ رانی اور تخم پاشی کے یہ دونوں عمل اپنا اپنا حصہ ادا نہ کریں۔ کوئی شخص جو انسانی فطرت کا رمزشناس ہے، اس حقیقت سے ناآشنا نہیں ہے کہ جماعتوں کی ذہنی و اخلاقی اصلاح کے سلسلے میں ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے، جب کہ قلب و روح کو خطاب کرنے سے پہلے جسم و جان کو خطاب کرنا پڑتا ہے۔(الجہاد فی الاسلام، ص ۱۷۰-۱۷۵) 

سوال:  کیا آپ کے نزدیک کم سنی کی شادیوں کو روکنے کے لیے یہ قانون بنانا ضروری ہے کہ شادی کے وقت مرد کی عمر ۱۸ سال سے کم اور عورت کی ۱۵ سال سے کم نہ ہو؟  

جواب: کم سنی کی شادیاں روکنے کے لیے کسی قانون کی حاجت نہیں اور اس کے لیے ۱۸سال اور ۱۵سال کی عمر مقرر کر دینا بالکل غلط ہے۔ ہمارے ملک میں ۱۸سال کی عمر سے بہت پہلے ایک لڑکا جسمانی طور پر بالغ ہوجاتا ہے، اور لڑکیاں بھی ۱۵سال سے پہلے جسمانی بلوغ کو پہنچ جاتی ہیں۔ ان عمروں کو ازروئے قانون نکاح کی کم سے کم عمر قرار دینے کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اس سے کم عمر والے لڑکوں اور لڑکیوں کی صرف شادی پر اعتراض ہے، کسی دوسرے طریقے سے جنسی تعلقات پیدا کرلینے پر کوئی اعتراض نہیں۔ 

 شریعت ِ اسلام نے اس طرح کی مصنوعی حدبندیوں سے اسی لیے احتراز کیا ہے کہ یہ درحقیقت بالکل غیرمعقول ہیں۔ اس کے بجائے یہ بات لوگوں کے اپنے ہی اختیارِ تمیزی پر چھوڑ دینی چاہیے کہ وہ کب نکاح کریں اور کب نہ کریں۔ لوگوں میں تعلیم اور عقلی نشوونما کے ذریعے سے جتنا زیادہ شعور پیدا ہوگا، اسی قدر زیادہ صحیح طریقے سے وہ اپنے اس اختیارِ تمیزی کو استعمال کریں گے، اور کم سنی کے نامناسب نکاحوں کا وقوع، جواَب بھی ہمارے معاشرے میں کچھ بہت زیادہ نہیں ہے، روز بروز کم تر ہوتا چلا جائے گا۔شرعاً ایسے نکاحوں کو جائز صرف اس لیے رکھا گیا ہے کہ بسااوقات کسی خاندان کی حقیقی مصلحتیں اس کی متقاضی ہوتی ہیں۔ اس ضرورت کی خاطر قانوناً اسے جائز ہی رہنا چاہیے، اور اس کے نامناسب رواج کی روک تھام کے لیے قانون کے بجائے تعلیم اور عام بیداری کے وسائل پر اعتماد کرنا چاہیے۔ معاشرے کی ہرخرابی کا علاج قانون کا لٹھ ہی نہیں ہے۔ 

سوال: کیا آپ کے نزدیک نکاح کے لیے عمروں کا یہ تعین اَزروئے قرآن کریم یا اَزروئے حدیثِ صحیح ممنوع ہے؟ 

جواب: نکاح کے لیے عمروں کے تعین کی کوئی صریح ممانعت تو قرآن و حدیث میں نہیں ہے، مگر کم سنی کے نکاح کا جواز سنت سے ثابت ہے اور احادیث ِ صحیحہ میں اس کے عملی نظائر موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو چیز شرعاً جائز ہے اس کو آپ قانوناً حرام کس دلیل سے کرتے ہیں؟ آپ کا ایک عمراَزروئے قانون مقرر کر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس عمر سے کم میں اگر کوئی نکاح کیا جائے تو آپ اسے باطل قرار دیں گے اور ملکی عدالتیں اس کو تسلیم نہ کریں گے۔ کیا اسے ناجائز اور باطل ٹھیرانے کے لیے کوئی اجازت قرآن یا حدیث ِ صحیح میں موجود ہے؟  

دراصل یہ طرزِ سوال بہت ہی مغالطہ آمیز ہے۔ تعیینِ عمر صرف ایک ایجابی پہلو ہی نہیں رکھتی بلکہ ساتھ ساتھ ایک سلبی پہلو بھی رکھتی ہے۔ اس کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آپ نکاح کے لیے محض ایک عمر مقرر کرنا چاہتے ہیں، بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ اس عمر سے پہلے نکاح کرنے کو آپ حرام بھی کرنا چاہتے ہیں۔اس منفی پہلو کو نظرانداز کرکے صرف یہ پوچھنا کہ کیا اس کا مثبت پہلو ممنوع ہے؟ سوال کو ادھوری شکل میں پیش کرنا ہے۔ سوال کی تکمیل اس وقت ہوگی جب آپ ساتھ ساتھ یہ بھی پوچھیں کہ کیا ایک عمرِ خاص سے پہلے نکاح کو ناجائز ٹھیرانے کے حق میں کوئی دلیل قرآن یا کسی حدیثِ صحیح میں ملتی ہے؟ (ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور، دسمبر ۱۹۵۵ء(

یہ بات سراسر عقل اور انصاف کے خلاف ہے کہ [آخرت میں] نیک اور بد، فرماں بردار اور نافرمان، ظالم اور مظلوم، آخرکار سب یکساں کر دیئے جائیں، کسی بھلائی کا کوئی اچھا نتیجہ اور کسی بُرائی کا کوئی بُرا نتیجہ نہ نکلے، نہ کسی مظلوم کی داد رسی ہو اور نہ کوئی ظالم اپنے کیے کی سزا پائے، بلکہ سب ایک ہی انجام سے دوچار ہوں۔ 

خدا کی اس کائنات کے متعلق جس نے یہ تصور قائم کیا ہے، اُس نے بڑا ہی غلط تصور قائم کیا ہے۔ اس تصور کو ظالم اور بدکار لوگ تو اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ وہ اپنے افعال کا بُرا نتیجہ نہیں دیکھنا چاہتے ، لیکن خدا کی یہ خدائی اندھیر نگری نہیں ہے، بلکہ یہ ایک برحق نظام ہے جس میں نیک و بد کو بالآخر یکساں کر دینے کا ظلم ہرگز نہیں ہوسکتا۔ 

[اسی طرح] انکارِ آخرت کا عقیدہ اخلاق کے لیے سخت تباہ کن ہے۔ اس کو اختیار وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنے نفس کے بندے بنے ہوئے ہیں، اور اس لیے کرتے ہیں کہ انھیں بندگی ٔ نفس کی کھلی چھوٹ مل جائے۔پھر جب وہ اس عقیدے کو اختیار کرلیتے ہیں تو یہ انھیں گمراہ سے گمراہ تر کرتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ اُن کی اخلاقی حس بالکل مُردہ ہوجاتی ہے اور ہدایت کے تمام دروازے اُن کے لیے بند ہوجاتے ہیں۔ 

یہ دلائل دینے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح تم آپ سے آپ زندہ نہیں ہوگئے ہو، بلکہ ہمارے زندہ کرنے سے زندہ ہوئے ہو، اسی طرح تم آپ سے آپ نہیں مرجاتے، بلکہ ہمارے موت دینے سے مرتے ہو، اور ایک وقت یقینا ایسا آنا ہے جب تم سب بیک وقت جمع کیے جائو گے۔ اس بات کو اگر آج تم اپنی جہالت و نادانی سے نہیں ما نتے تو نہ مانو، جب وہ وقت آجائے گا تو تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اپنے خدا کے حضور پیش ہو اور تمھارا پورا نامۂ اعمال بے کم و کاست تیار ہے، جو تمھارے ایک ایک کرتوت کی شہادت دے رہا ہے۔ اُس وقت تم کو معلوم ہوجائے گا کہ عقیدئہ آخرت کا یہ انکار، اور اس کا یہ مذاق جو تم اُڑا رہے ہو، تمھیں کس قدر مہنگا پڑا ہے۔ 

(’تفہیم القرآن‘ پس منظر سورۃ الجاثیہ، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، اگست ۱۹۶۵ء، ص ۱۹-۲۱) 

ہرسال محرم میںکروڑوںمسلمان شیعہ بھی اورسنی بھی،امام حسینؓ [شہادت:۱۰محرم ۶۱ھ] کی شہادت پراپنے رنج وغم کااظہارکرتے ہیں۔لیکن افسوس ہے کہ ان غم گساروںمیںسے بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں،جس کے لیے امامؓ نے نہ صرف اپنی جانِ عزیزقربان کی، بلکہ اپنے کنبے کے بچوںتک کوکٹوادیا۔کسی شخص کی مظلومانہ شہادت پراس کے اہل خاندان کا، اوراس خاندان سے محبت وعقیدت یاہمدردی رکھنے والوںکااظہارِغم کرناتوایک فطری بات ہے۔ ایسارنج وغم دُنیا کے ہرخاندان اوراس سے تعلق رکھنے والوںکی طرف سے ظاہرہوتاہے۔ اس کی کوئی اخلاقی قدروقیمت اس سے زیادہ نہیںہے کہ اس شخص کی ذات کے ساتھ اس کے رشتہ داروںکی اور خاندان کے ہمدردوںکی محبت کاایک فطری نتیجہ ہے۔ 

مقصدِشہادت 

سوال یہ ہے کہ امام حسینؓ کی وہ کیاخصوصیت ہے [اتنی مدت] گزر جانے پر بھی ہرسال ان کا غم تازہ ہوتارہے؟ اگر یہ شہادت کسی مقصدِعظیم کے لیے نہ تھی تومحض ذاتی تعلق کی بنا پر صدیوں اس کاغم جاری رہنے کے کوئی معنی نہیںہیں۔اورخودامام کی اپنی نگاہ میںاس محض ذاتی وشخصی محبت کی کیا قدرو قیمت ہوسکتی ہے؟ انھیں اگراپنی ذات اس مقصدسے زیادہ عزیز ہوتی تووہ اسے قربان ہی کیوں کرتے؟ ان کی یہ قربانی توخوداس بات کاثبوت ہے کہ وہ اس مقصد کو جان سے بڑھ کر عزیزرکھتے تھے۔ لہٰذا، اگرہم اس مقصدکے لیے کچھ نہ کریں،بلکہ اس کے خلاف کام کرتے رہیں، تومحض ان کی ذات کے لیے گریہ وزاری کرکے، اوران کے قاتلوں پر لعن طعن کرکے قیامت کے روزنہ توہم امام ہی سے کسی دادکی اُمیدرکھ سکتے ہیںاورنہ یہ توقع رکھ سکتے ہیںکہ ان کاخدااس کی کوئی قدرکرے گا۔ 

اب دیکھناچاہیے کہ وہ مقصدکیاتھا؟کیاامام تخت وتاج کے لیے اپنے کسی ذاتی استحقاق کا دعویٰ رکھتے تھے اوراس کے لیے انھوںنے سردھڑکی بازی لگائی؟ 

کوئی شخص بھی جوامام حسینؓ کے گھرانے کی بلنداخلاقی سیرت کوجانتاہے،یہ بدگمانی نہیںکرسکتاکہ یہ لوگ اپنی ذات کے لیے اقتدارحاصل کرنے کی خاطرمسلمانوںمیںخوں ریزی کرسکتے تھے۔اگرتھوڑی دیرکے لیے ان لوگوںکانظریہ ہی صحیح مان لیاجائے جن کی رائے میںیہ خاندان حکومت پراپنے ذاتی استحقاق کادعویٰ رکھتاتھا،تب بھی حضرت ابوبکرؓسے لے کرامیرمعاویہؓ تک، پچاس برس کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حکومت حاصل کرنے کے لیے لڑنااورکشت وخون کرناہرگز ان کامسلک نہ تھا۔اس لیے لامحالہ یہ مانناہی پڑے گاکہ امام عالی مقام کی نگاہیںاس وقت مسلم معاشرے اوراسلامی ریاست کی روح اوراس کے مزاج اوراس کے نظام میںکسی بڑے تغیر کے آثاردیکھ رہی تھیں،جسے روکنے کی جدوجہدکرناان کے نزدیک ضروری تھا، حتیٰ کہ اس راہ میں لڑنے کی نوبت بھی آجائے تونہ صرف جائزبلکہ فرض سمجھتے تھے۔ 

ریاست کے مزاج ،مقصداوردستورکی تبدیلی 

وہ تغیرکیاتھا؟ظاہرہے کہ لوگوںنے اپنادین نہیںبدل دیاتھا۔حکمرانوںسمیت سب لوگ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورقرآن کواسی طرح مان رہے تھے، جس طرح پہلے مانتے تھے۔ مملکت کا قانون بھی نہیںبدلاتھا۔عدالتوںمیںقرآن اورسنت ہی کے مطابق تمام معاملات کے فیصلے بنی اُمیہ کی حکومت میںبھی ہورہے تھے، جس طرح ان کے برسراقتدارآنے سے پہلے ہوا کرتے تھے، بلکہ قانون میںتغیرتوانیسویںصدی عیسوی سے پہلے دُنیاکی مسلم حکومتوںمیںسے کسی کے دور میں بھی نہیںہوا۔ 

بعض لوگ یزیدکے شخصی کردارکوبہت نمایاںکرکے پیش کرتے ہیں، جس سے یہ عام غلط فہمی پیداہوگئی ہے کہ وہ تغیرجسے روکنے کے لیے امام کھڑے ہوئے تھے، بس یہ تھاکہ ایک بُرا آدمی برسرِاقتدارآگیاتھا۔لیکن یزیدکی سیرت وشخصیت کاجوبرے سے بُرا تصور پیش کرناممکن ہے، اسے جوںکاتوںمان لینے کے بعدبھی یہ بات قابلِ تسلیم نہیںہے کہ اگرنظام صحیح بنیادوں پر قائم ہو تو محض ایک بُرے آدمی کابرسراقتدارآجاناکوئی ایسی بڑی بات ہوسکتی ہے، جس پرامام حسینؓ جیسا دانا وزیرک اورعلم شریعت میںگہری نظررکھنے والاشخص بےصبر ہوجائے۔ اس لیے یہ شخصی معاملہ بھی وہ اصل تغیر نہیںہے جس نے امام کوبے چین کیاتھا۔  

تاریخ کے غائرمطالعے سے جوچیزواضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے، وہ یہ ہے کہ یزیدکی ولی عہدی اور پھراس کی تخت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتداہورہی تھی، وہ اسلامی ریاست کے دستور، اوراس کے مزاج اور اس کے مقصدکی تبدیلی تھی۔اس تبدیلی کے پورے نتائج اگرچہ  اس وقت سامنے نہ آئے تھے، لیکن ایک صاحب ِنظرآدمی گاڑی کارُخ تبدیل ہوتے ہی یہ جان سکتاہے کہ اب اس کاراستہ بدل رہاہے، اورجس راہ پریہ مڑرہی ہے وہ آخرکاراسے کہاںلے جائے گا۔ یہی رخ کی تبدیلی تھی، جسے امام نے دیکھااورگاڑی کوپھرسے صحیح پٹڑی پرڈالنے کے لیے اپنی جان لڑا دینے کافیصلہ کیا۔ 

انحراف کا  آغاز 

اس چیزکوٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ہمیںدیکھناچاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدینؓ کی سربراہی میںریاست کاجونظام چالیس سال تک چلتا رہا تھا، اس کے دستور کی بنیادی خصوصیات کیاتھیں،اوریزیدکی ولی عہدی سے مسلمانوںمیںجس دوسرے نظامِ ریاست کاآغازہوا،اس کے اندرکیاخصوصیات تھیں، جو دولت بنی امیہ وبنی عباس اور بعد کی بادشاہیوں میں ظاہر ہوئیں؟اسی تقابل سے ہم یہ جان سکتے ہیںکہ یہ گاڑی پہلے کس لائن پرچل رہی تھی، اور اس نقطۂ انحراف پرپہنچ کرآگے وہ کس لائن پرچل پڑی اوراسی تقابل سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورسیدئہ فاطمہؓ اور حضرت علیؓ کی آغوش میںتربیت پائی تھی اورجس نے صحابہؓ کی بہترین سوسائٹی میںبچپن سے بڑھاپے تک کی منزلیں طے کی تھیں،وہ کیوںاس نقطۂ انحراف کے سامنے آتے ہی گاڑی کواس نئی لائن پرجانے سے روکنے کے لیے کھڑاہوگیا،اورکیوںاس نے اس بات کی بھی پروانہ کی کہ اس زوردارگاڑی کارخ موڑنے کے لیے اس کے آگے کھڑے ہوجانے کاکیانتیجہ ہوسکتاہے؟ 

۱-انسانی بادشاہی کاآغاز 

اسلامی ریاست کی اولین خصوصیت یہ تھی کہ اس میںصرف زبان ہی سے یہ نہیںکہاجاتا تھا بلکہ سچے دل سے یہ مانابھی جاتاتھا،اورعملی رویے سے اس عقیدے ویقین کاپورا ثبوت بھی دیا جاتا تھا کہ ملک خداکا ہے، باشندے خداکی رعیت ہیں،اورحکومت اس رعیت کے معاملے میں خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ حکومت اس رعیت کی مالک نہیںہے اوررعیت اس کی غلام نہیں ہے۔ حکمرانوںکاکام سب سے پہلے اپنی گردن میںخداکی بندگی وغلامی کاقلادہ ڈالناہے، پھر یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ خدا کی رعیت پر اس کا قانون نافذ کریں۔ لیکن یزید کی ولی عہدی سے جس انسانی بادشاہی کا مسلمانوں میں آغاز ہوا، اس میں خدا کی بادشاہی کا تصور صرف زبانی اعتراف تک محدود ہوکر رہ گیا۔ عملاً اس نے وہی نظریہ اختیارکرلیا جو ہمیشہ سے ہر انسانی بادشاہی کا رہاہے، یعنی ملک بادشاہ اور شاہی خاندان کا ہے اور وہ رعیت کی جان، مال، آبرو ، ہر چیز کا مالک ہے۔ خدا کا قانون ان بادشاہتوں میں نافذ ہوا بھی تو صرف عوام پر ہوا، بادشاہ اور ان کے خاندان اور امرا اور حکام زیادہ تر اس سے مستثنیٰ ہی رہے۔ 

۲- امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تعطل 

اسلامی ریاست کامقصد خدا کی زمین میں ان نیکیوں کو قائم کرنا اور فروغ دیناتھا جو خدا کو محبوب ہیں اور ان برائیوں کو دبانا اور مٹانا تھا جو خدا کو نا پسند ہیں۔ مگر انسانی بادشاہت کا راستہ اختیار کرنے کے بعد حکومت کا مقصد فتح ممالک اور تسخیر خلائق اور تحصیل باج و خراج اور عیشِ دُنیا کے سوا کچھ نہ رہا۔ خدا کا کلمہ بلند کرنے کی خدمت بادشاہوں نے کم ہی کبھی انجام دی ۔ ان کے ہاتھوں اور ان کے امرااور حکام اور درباریوں کے ہاتھوں بھلائیاں کم اور برائیاں بہت زیادہ پھیلیں۔ بھلائیوں کے فروغ اور برائیوں کی روک تھام اور اشاعتِ دین اور علومِ اسلامی کی تحقیق و تدوین کے لیے جن اللہ کے بندوں نے کام کیا، انھیں حکومتوں سے مدد ملنی تو درکنار اکثر وہ حکمرانوں کے غضب ہی میں گرفتا ر رہے اور اپنا کام وہ ان کی مزاحمتوں کے علی الرغم ہی کرتے رہے۔ ان کوششوں کے برعکس حکومتوں اور ان کے حکام و متوسلین کی زندگیوں اور پالیسیوں کے اثرات مسلم معاشرے کو پیہم اخلاقی زوال ہی کی طرف لے جاتے رہے ۔ حد یہ ہے کہ ان لوگوں نے اپنے مفاد کی خاطر اسلام کی اشاعت میں رکاوٹیں ڈالنے سے بھی دریغ نہ کیا، جس کی بدترین مثال بنو اُمیہ کی حکومت میں نو مسلموں پر جزیہ لگانے کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ 

اسلامی ریاست کی روح تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری کی روح تھی، جس کا سب سے بڑا مظہر خود ریاست کا سربراہ ہوتاتھا۔ حکومت کے عمال اور قاضی اور سپہ سالار، سب اس روح سے سرشار ہوتے تھے ، اور پھر اسی روح سے وہ پورے معاشرے کو سرشار کرتے تھے، لیکن بادشاہی کی راہ پر پڑتے ہی مسلمانوں کی حکومتوں اور ان کے حکمرانوں نے قیصر و کسریٰ کے سے رنگ ڈھنگ اور ٹھاٹھ باٹھ اختیار کرلیے۔ عدل کی جگہ ظلم وجور کا غلبہ ہوتا چلا گیا۔ پرہیز گاری کی جگہ فسق و فجور اور راگ رنگ اور عیش و عشرت کا دور دورہ شروع ہوگیا۔ حرام و حلال کی تمیز سے حکمرانوں کی سیرت و کردار خالی ہوتی چلی گئی ۔ سیاست کا رشتہ اخلاق سے ٹوٹتا چلا گیا۔ خدا سے خود ڈرنے کے بجائے حاکم لوگ بندگانِ خدا کو اپنے آپ سے ڈرانے لگے اور لوگوں کے ایمان و ضمیر بیدار کرنے کے بجائے ان کو اپنی بخششوں کے لالچ سے خریدنے لگے۔ 

اسلامی دستور کے بنیادی اصول 

یہ تو تھا روح و مزاج اور مقصد اور نظریے کا تغیر۔ ایسا ہی تغیر اسلامی دستور کے بنیادی اصولوں میں بھی رُونما ہوا۔ اس دستور کے ساتھ اہم ترین اصول تھے ، جن میں سے ہر ایک کو بدل ڈالا گیا۔ 

۱- آزادانہ انتخاب:دستور اسلامی کا سنگ بنیاد یہ تھاکہ حکومت لوگوں کی آزادانہ رضامندی سے قائم ہو۔ کوئی شخص اپنی کوشش سے اقتدار حاصل نہ کرے بلکہ لوگ اپنے مشورے سے بہتر آدمی کو چُن کر اقتدار اس کے سپرد کردیں ۔ ’بیعت‘، اقتدار کا نتیجہ نہ ہوبلکہ اس کا سبب ہو۔ ’بیعت‘ حاصل ہونے میں آدمی کی اپنی کسی کوشش یا سازش کا دخل نہ ہو۔ لوگ ’بیعت‘ کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں پوری طرح آزاد ہوں ۔ جب تک کسی شخص کو ’بیعت‘ حاصل نہ ہو وہ برسرِاقتدار نہ آئے اور جب لوگوں کا اعتماد اس پر سے اٹھ جائے تو وہ اقتدار سے چمٹا نہ رہے۔ خلفائے راشدینؓ میں سے ہر ایک اسی قاعدے کے مطابق برسرِاقتدار آیاتھا۔  

امیرمعاویہ ؓ کے معاملے میں پوزیشن مشتبہ ہوگئی۔ اسی لیے صحابی ہونے کے باوجود ان کا شمار خلفائے راشدین میں نہیں کیاگیا۔ لیکن آخر کاریزید کی ولی عہدی وہ انقلابی کارروائی ثابت ہوئی جس نے اس قاعدے کو الٹ کر رکھ دیا۔ اس سے خاندانوں کی موروثی بادشاہتوں کا وہ سلسلہ شروع ہوا، جس کے بعد سے آج تک پھر مسلمانوں کو ’انتخابی خلافت‘ کی طرف پلٹنا نصیب نہ ہوسکا۔ اب لوگ مسلمانوں کے آزادانہ اور کھلے مشورے سے نہیں بلکہ طاقت سے برسراقتدار آنے لگے۔ اب بیعت سے اقتدار حاصل ہونے کے بجائے اقتدار سے بیعت حاصل کی جانے لگی۔ اب بیعت کرنے یا نہ کرنے میں لوگ آزاد نہ رہے اور بیعت کا حاصل ہونا اقتدار پر قائم رہنے کے لیے شرط نہ رہا۔ لوگوں کی اوّل تو یہ مجال نہ تھی کہ جس کے ہاتھ میں اقتدار تھا اس کی بیعت نہ کرتے۔ لیکن اگر وہ بیعت نہ بھی کرتے تو جس کے ہاتھ میں اقتدار آگیا تھا وہ ہٹنے والا نہ تھا۔ اسی جبری بیعت کو کالعدم قرار دینے کا قصور جب منصور عباسی کے زمانے میں اما م مالکؒ سے سرزد ہوا تو ان کی پیٹھ پر کوڑے برسائے گئے اور ان کے ہاتھ شانوں سے اکھڑوا دیے گئے۔ 

۲- شورائی نظام:دوسرا اہم ترین قاعدہ اس دستور کا یہ تھاکہ حکومت مشورے سے کی جائے اور مشورہ ان لوگوں سے کیا جائے جن کے علم، تقویٰ اور اصابت رائے پر عام لوگوں کو اعتماد ہو۔ خلفائے راشدینؓ کے عہد میں جو لوگ شوریٰ کے رکن بنائے گئے ، اگرچہ ان کو انتخابِ عام کے ذریعے سے منتخب نہیںکرایا گیاتھا۔ جدید زمانے کے تصور کے لحاظ سے وہ نامزد کردہ لوگ ہی تھے۔ لیکن خلفا نے یہ دیکھ کر ان کو مشیر نہیں بنایاتھا کہ یہ ہماری ہاں میں ہاں ملانے، اور ہمارے مفاد کی خدمت کرنے کے لیے موزوں ترین لوگ ہیں بلکہ انھوںنے پورے خلوص اور بے غرضی کے ساتھ قوم کے بہترین عناصر کو چنا تھا، جن سے وہ حق گوئی کے سوا کسی چیز کی توقع نہ رکھتے تھے، جن سے یہ اُمید تھی کہ وہ ہر معاملے میں اپنے علم و ضمیر کے مطابق بالکل صحیح ایمان دارانہ رائے دیں گے، جن سے کوئی شخص بھی یہ اندیشہ نہ رکھتاتھاکہ وہ حکومت کو کسی غلط راہ پر جانے دیں گے ۔ اگر اس وقت ملک میں آج کل کے طریقے کے مطابق انتخابات بھی ہوتے تو عام مسلمان انھی لوگوں کو اپنے اعتماد کا مستحق قرار دیتے۔  

لیکن شاہی دور کاآغاز ہوتے ہی شوریٰ کا یہ طریقہ بدل گیا۔ اب بادشاہ استبداد اور مطلق العنانی کے ساتھ حکومت کرنے لگے۔اب شہزادے اور خوشامدی اہل دربار، اور صوبوں کے گورنر اور فوجوں کے سپہ سالار ان کی کونسل کے ممبر تھے ۔ اب وہ لوگ ان کے مشیر تھے جن کے معاملے میں اگر قوم کی رائے لی جاتی تو اعتماد کے ایک ووٹ کے مقابلے میں لعنت کے ہزار ووٹ آتے اور اس کے برعکس وہ حق شناس و حق گواہل علم وتقویٰ، جن پر قوم کو اعتماد تھا وہ بادشاہوں کی نگاہ میں کسی اعتماد کے مستحق نہ تھے، بلکہ الٹے معتوب یا کم ازکم مشتبہ تھے۔ 

۳- اظہار رائے کی آزادی:اس دستور کا تیسرا اصول یہ تھاکہ لوگوں کو اظہار رائے کی پوری آزادی ہو۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو اسلام نے ہر مسلمان کا حق ہی نہیں بلکہ فرض قرار دیا تھا۔ اسلامی معاشرے اور ریاست کے صحیح راستے پر چلنے کا انحصار اس بات پر تھاکہ لوگوں کے ضمیر اور ان کی زبانیں آزاد ہوں، وہ ہر غلط کام پر بڑے سے بڑے آدمی کو ٹوک سکیں اور حق بات برملا کہہ سکیں۔  

خلافت راشدہؓ میں صرف یہی نہیں کہ لوگوں کا یہ حق پوری طرح محفوظ تھا، بلکہ خلفائے راشدینؓ اسے ان کافرض سمجھتے تھے اور اس فرض کے ادا کرنے میں ان کی ہمت افزائی کرتے تھے۔ ان کی مجلس شوریٰ کے ممبروں ہی کو نہیں ، قوم کے ہر شخص کو بولنے اور ٹوکنے اور خود خلیفہ سے باز پُرس کرنے کی مکمل آزادی تھی ، جس کے استعمال پر یہ لوگ ڈانٹ اور دھمکی سے نہیں بلکہ داد اورتعریف سے نوازے جاتے تھے ۔ یہ آزادی ان کی طرف سے کوئی عطیہ اور بخشش نہ تھی، جس کے لیے وہ قوم پر اپنا احسان جتاتے ، بلکہ یہ اسلام کا عطا کردہ ایک دستوری حق تھا، جس کا احترام وہ اپنا فرض سمجھتے تھے ، اور اسے بھلائی کے لیے استعمال کرنا ہر مسلمان پر خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عائد کردہ ایک فریضہ تھا، جس کی ادائیگی کے لیے معاشرے اور ریاست کی فضا کو ہر وقت ساز گار رکھنا ان کی نگاہ میں فرائضِ خلافت کا ایک اہم جزتھا۔  

لیکن بادشاہی دور کاآغاز ہوتے ہی ضمیروں پر قفل چڑھادیے گئے اور منہ بند کردیے گئے۔ اب قاعدہ یہ ہوگیاکہ زبان کھولو توتعریف میں کھولو،ورنہ چپ رہو ۔ اور تمھارا ضمیر ایسا زور آور ہے کہ حق گوئی سے تم باز نہیں رہ سکتے تو قید یا قتل کے لیے تیار ہوجائو ۔ یہ پالیسی رفتہ رفتہ مسلمانوں کو پست ہمت، بزدل اور مصلحت پرست بناتی چلی گئی ۔ خطرہ مول لے کر سچی بات کہنے والے ان کے اندر کم سے کم ہوتے چلے گئے ۔ خوشامد اور چاپلوسی کی قیمت مارکیٹ میں چڑھتی اور حق پرستی و راست بازی کی قیمت گرتی چلی گئی۔ اعلیٰ قابلیت رکھنے والے ایمان دار اور آزاد خیال لوگ حکومت سے بے تعلق ہوگئے اور عوام کا حال یہ ہوگیاکہ کسی شاہی خاندان کی حکومت برقرار رکھنے کے لیے ان کے دلوں میں کوئی جذبہ باقی نہ رہا۔ ایک کو ہٹانے کے لیے جب دوسرا آیا تو انھوںنے مدافعت میں انگلی تک نہ ہلائی، اور گرنے والا جب گرا تو انھوںنے ایک لات اور رسید کرکے اسے زیادہ گہرے گڑھے میں پھینکا۔ حکومتیں جاتی اور آتی رہیں ، مگر لوگوں نے تماشائی سے بڑھ کر اس آمدورفت کے منظر سے کوئی دلچسپی نہ لی۔ 

۴- خدا اور خلق کے سامنے جواب دہی: چوتھا اصول، جو اس تیسرے اصول کے ساتھ لازمی تعلق رکھتاتھا، یہ تھاکہ خلیفہ اور اس کی حکومت خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہے۔ جہاں تک خدا کے سامنے جواب دہی کا تعلق ہے، اس کے شدید احساس سے خلفائے راشدینؓ پر دن کا چین اور رات کا آرام حرام ہوگیاتھااور جہاں تک خلق کے سامنے جواب دہی کاتعلق ہے، وہ ہر وقت ،ہر جگہ اپنے آپ کوعوام کے سامنے جواب دہ سمجھتے تھے۔  

ان کی حکومت کا یہ اصول نہ تھاکہ صرف مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) میں نوٹس دے کر ہی ان سے سوال کیاجاسکتاہے، وہ ہر روز پانچ مرتبہ نماز کی جماعت میں اپنے عوام کا سامنا کرتے تھے ۔ وہ ہرہفتے جمعہ کی جماعت میں عوام کے سامنے اپنی کہتے اور ان کی سنتے تھے ۔ وہ شب و روز بازاروں میں کسی باڈی گارڈ کے بغیر،کسی ہٹو بچو کی آواز کے بغیر عوام کے درمیان چلتے پھرتے تھے۔ ان کے گورنمنٹ ہائوس (یعنی ان کے کچے مکان ) کادروازہ ہر شخص کے لیے کھلا تھا اور ہر ایک ان سے مل سکتاتھا۔ ان سب مواقع پر ہر شخص ان سے سوال کرسکتاتھا اور جواب طلب کرسکتاتھا۔ یہ محدود جواب دہی نہ تھی بلکہ کھلی اور ہمہ وقتی جواب دہی تھی ۔ یہ نمائندوں کے واسطے سے نہ تھی بلکہ پوری قوم کے سامنے براہ راست تھی۔ وہ عوام کی مرضی سے بر سراقتدار آئے تھے اور عوام کی مرضی انھیں ہٹاکر دوسرا خلیفہ ہر وقت لا سکتی تھی۔ اس لیے نہ تو انھیں عوام کا سامنا کرنے میں کوئی خطرہ محسوس ہوتاتھا اور نہ اقتدار سے محروم ہونا ان کی نگاہ میں کوئی خطرہ تھا کہ وہ اس سے بچنے کی کبھی فکر کرتے۔  

لیکن بادشاہی دور کے آتے ہی جواب دہ حکومت کاتصور ختم ہوگیا۔ خدا کے سامنے جواب دہی کا خیال چاہے زبانوں پر رہ گیا ہو، مگر عمل میں اس کے آثار کم ہی نظر آتے۔ رہی خلق کے سامنے جواب دہی، تو کون مائی کا لال تھا جوان سے جواب طلب کرسکتا۔ وہ اپنی قوم کے فاتح تھے ۔ مفتوحوں کے سامنے کون فاتح جواب دہ ہوتاہے۔ وہ طاقت سے برسرِاقتدار آئے تھے اور ان کا نعرہ یہ تھاکہ جس میں طاقت ہو، وہ ہم سے اقتدار چھین لے۔ ایسے لوگ عوام کا سامنا کب کیا کرتے ہیں اور عوام ان کے قریب کہاں پھٹک سکتے تھے؟ وہ نماز بھی پڑھتے تھے تو نتھو خیرے کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے محلوں کی محفوظ مسجدوںمیں، یا باہر اپنے نہایت قابلِ اعتماد محافظوں کے جھرمٹ میں۔ ان کی سواریاں نکلتی تھیں تو آگے اور پیچھے مسلح دستے ہوتے تھے اور راستے صاف کردیے جاتے تھے۔ عوام کی اور ان کی مڈ بھیڑ کسی جگہ ہوتی ہی نہ تھی۔ 

۵- بیت المال، ایک امانت:پانچوا ں اصول اسلامی دستور کا یہ تھاکہ بیت المال خدا کا مال اور مسلمانوں کی امانت ہے، جس میں کوئی چیز حق کی راہ کے سوا کسی دوسری راہ سے آنی نہ چاہیے ، اور جس میں سے کوئی چیز حق کے سوا کسی دوسری راہ میں جانی نہ چاہیے۔ خلیفہ کا حق اس مال میں اتنا ہی ہے جتنا قرآن کی رُو سے مالِ یتیم میں اس کے ولی کا ہوتاہے کہ وَمَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفُ ج  وَمَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاکُلُ بِالْمَعْرُوْفِ  ط (جواپنے ذاتی ذرائع آمدنی اپنی ضرورت بھر رکھتا ہو وہ اس مال سے تنخواہ لیتے ہوئے شرم کرے، اور جو واقعی حاجت مند ہو وہ اتنی تنخواہ لے جسے ہر معقول آدمی مبنی بر انصاف مانے ۔ النساء۴:۶)۔ خلیفہ اس کی ایک ایک پائی کے آمد وخرچ پر حساب دینے کا ذمہ دار ہے اور مسلمانوں کو اس سے حساب مانگنے کا پورا حق ہے۔ 

خلفائے راشدینؓ نے اس اصول کو بھی کمال درجہ دیانت اور حق شناسی کے ساتھ برت کر دکھایا۔ ان کے خزانے میں جو کچھ بھی آتاتھا ٹھیک ٹھیک اسلامی قانون کے مطابق آتاتھا، اور اس میں سے جو کچھ خرچ ہوتاتھا، بالکل جائز راستوں میں ہوتاتھا۔ ان میں سے جو غنی تھا اس نے ایک حبہ اپنی ذات کے لیے تنخواہ کے طور پر وصول کیے بغیر مفت خدمت انجام دی، بلکہ اپنی گرہ سے قوم کے لیے خرچ کرنے میں بھی دریغ نہ کیا۔ اور جو تنخواہ کے بغیر ہمہ وقتی خدمت گار نہ بن سکتے تھے، انھوںنے اپنی ضروریاتِ زندگی کے لیے اتنی کم تنخواہ لی کہ ہر معقول آدمی اسے انصاف سے کم ہی مانے گا ، زیادہ کہنے کی جرأت ان کا دشمن بھی نہیں کرسکتا۔ پھر اس خزانے کی آمد و خرچ کا حساب ہروقت ہر شخص مانگ سکتاتھا اوروہ ہر وقت ہرشخص کے سامنے حساب دینے کے لیے تیار تھے۔ ان سے ایک عام آدمی بھرے مجمع میں پوچھ سکتاتھا کہ خزانے میں یمن سے جو چادریں آئی ہیں ان کا طول و عرض تو اتنا نہ تھا کہ جناب کا لمبا کُرتہ بن سکے، یہ زائد کپڑا آپ کہاں سے لائے ہیں؟  

مگر جب خلافت بادشاہی میں تبدیل ہوئی تو خزانہ خدا اور مسلمانوں کانہیں بلکہ بادشاہ کا مال تھا، ہرجائز و ناجائز راستے سے اس میں دولت آتی تھی اور ہر جائز و ناجائز راستے میں بے غل و غش صرف ہوتی تھی ۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ اس کے حساب کا سوال اٹھاسکے ۔ سارا ملک ایک خوانِ یغما تھا جس پر ایک ہر کارے سے لے کر سربراہ مملکت تک ، حکومت کے سارے کل پرزے حسب توفیق ہاتھ مار رہے تھے ، اور ذہنوں سے یہ تصور ہی نکل گیاتھاکہ اقتدار کوئی پروانۂ اباحت نہیں ہے، جس کی بدولت یہ لُوٹ مار ان کے لیے حلال ہو، اور پبلک کا مال کوئی شیرِ مادر نہیں ہے، جسے وہ ہضم کرتے رہیں اور کسی کے سامنے انھیں اس کا حساب دینا نہ ہو۔ 

۶- قانون کی حکومت:چھٹا اصول اس دستور کا یہ تھاکہ ملک میں قانون (یعنی خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون) کی حکومت ہونی چاہیے۔ کسی کوقانون سے بالاتر نہ ہوناچاہیے۔ کسی کو قانون کے حدودسے باہر جا کر کام کرنے کا حق نہ ہونا چاہیے۔ ایک عامی سے لے کر سربراہ مملکت تک، سب کے لیے ایک ہی قانون ہونا چاہیے اور سب پر اسے بے لاگ طریقے سے نافذ ہونا چاہیے۔ انصاف کے معاملے میں کسی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ ہونا چاہیے اور عدالتوں کو انصاف کرنے کے لیے ہر دبائو سے بالکل آزاد ہونا چاہیے۔  

خلفائے راشدینؓ نے اس اصول کی پیروی کابھی بہترین نمونہ پیش کیاتھا۔ بادشاہوں سے بڑھ کر اقتدار رکھنے کے باوجود وہ قانونِ الٰہی کی بندشوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ نہ ان کی دوستی اور رشتہ داری قانون کی حد سے نکل کر کسی کو کچھ نفع پہنچا سکتی تھی اور نہ ان کی ناراضی کسی کو قانون کے خلاف کوئی نقصان پہنچا سکتی تھی۔ کوئی ان کے اپنے حق پر بھی دست درازی کرتا تو وہ ایک عام آدمی کی طرح عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے، اور کسی کو ان کے خلاف شکایت ہوتی تو وہ استغاثہ کرکے انھیں عدالت میں کھینچ لا سکتا تھا۔ اسی طرح اُنھوںنے اپنی حکومت کے گورنروں اور سپہ سالاروں کو بھی قانون کی گرفت میں کس رکھاتھا۔ کسی کی مجال نہ تھی کہ عدالت کے کام میں کسی قاضی پر اثر انداز ہونے کا خیال بھی کرتا۔ کسی کا یہ مرتبہ نہ تھا کہ قانون کی حد سے قدم باہر نکال کر مواخذے سے بچ جاتا۔ 

 لیکن خلافت سے بادشاہی کی طرف انتقال واقع ہوتے ہی اس قاعدے کے بھی چیتھڑے اڑ گئے۔ اب بادشاہ اور شہزادے اور امرا اورحکام اور سپہ سالار ہی نہیں ، شاہی محلات کے منہ چڑھے لونڈی غلام تک قانون سے بالا تر ہوگئے۔ لوگوں کی گردنیں اور پیٹھیں اور مال اور آبروئیں، سب ان کے لیے مباح ہوگئیں۔ انصاف کے دومعیار بن گئے: ایک کمزور کے لیے اور دوسرا طاقت ور کے لیے۔ مقدمات میں عدالتوں پر دبائو ڈالے جانے لگے اور بے لاگ انصاف کرنے والے قاضیوں کی شامت آنے لگی، حتیٰ کہ خدا ترس فقہا نے عدالت کی کرسی پر بیٹھنے کے بجائے کوڑے کھانا اور قید ہوجانا زیادہ قابلِ ترجیح سمجھا،تاکہ وہ ظلم و جور کے آلہ ٔ کار بن کر خدا کے عذاب کے مستحق نہ بنیں۔ 

۷-حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساوات:مسلمانوں میں حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساوات ، اسلامی دستور کا ساتواں اصول تھا، جسے ابتدائی اسلامی ریاست میں پوری قوت کے ساتھ قائم کیاگیاتھا۔ مسلمانوں کے درمیان نسل، وطن، زبان وغیرہ کاکوئی امتیاز نہ تھا ۔قبیلے اور خاندان اور حسب و نسب کے  لحاظ سے کسی کو کسی پر فضیلت نہ تھی۔ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے سب لوگوں کے حقوق یکساں تھے اور سب کی حیثیت برابر تھی۔ ایک کو دوسرے پر ترجیح اگر تھی تو سیرت واخلاق اور اہلیت و صلاحیت، اور خدمات کے لحاظ سے تھی۔ 

 لیکن خلافت کی جگہ جب بادشاہی نظام آیا تو عصبیت کے شیاطین ہر گوشے سے سراُٹھانے لگے۔ شاہی خاندان اور ان کے حامی خانوادوں کا مرتبہ سب سے بلند و برتر ہوگیا۔ ان کے قبیلوں کو دوسرے قبیلوں پر ترجیحی حقوق حاصل ہوگئے۔ عربی اورعجمی کے تعصبات جاگ اُٹھے اور خود عربوں میں قبیلے اور قبیلے کے درمیان کش مکش پیدا ہوگئی۔ ملت اسلامیہ کو اس چیز نے جو نقصان پہنچایا اس پر تاریخ کے اوراق گواہ ہیں۔ 

امام حسینؓ کا بـے مثال مومنانہ کردار 

یہ تھے وہ تغیرات جو اسلامی خلافت کو خاندانی بادشاہت میں تبدیل کرنے سے رونما ہوئے۔ کوئی شخص اس تاریخی حقیقت کا انکار نہیںکرسکتا کہ یزید کی ولی عہدی ان تغیرات کا نقطۂ آغاز تھی، اور اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس نقطے سے چل کر تھوڑی مدت کے اندر ہی بادشاہی نظام میں وہ سب خرابیاں نمایاں ہوگئیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ انقلابی قدم اٹھایا گیاتھا، اس وقت یہ خرابیاں اگرچہ بہ تمام و کمال سامنے نہ آئی تھیں، مگر ہرصاحبِ بصیرت آدمی جان سکتاتھاکہ اس اقدام کے لازمی نتائج یہی کچھ ہیں اور اس سے ان اصلاحات پر پانی پھر جانے والا ہے جو اسلام نے سیاست و ریاست کے نظام میں کی ہیں۔  

اسی لیے امام حسینؓ اس پر صبر نہ کرسکے اور انھوںنے فیصلہ کیا کہ جو بدترسے بدتر نتائج بھی انھیں ایک مضبوط جمی جمائی حکومت کے خلاف اٹھنے میں بھگتنے پڑیں، ان کاخطرہ مول لے کر بھی انھیں اس انقلاب کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کوشش کا جوانجام ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ مگر امام نے اس عظیم خطرے میں کود کر اور مردانہ وار اس کے نتائج کو انگیز کرکے جوبات ثابت کی وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات اُمت مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں، جسے بچانے کے لیے ایک مومن اپنا سربھی دے دے اور اپنے بال بچوں کو بھی کٹوا بیٹھے تو اس مقصد کے مقابلے میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے، اور ان خصوصیات کے مقابلے میں وہ دوسرے تغیرات جنھیں اوپر نمبروار گنایا گیاہے، دین اور ملت کے لیے وہ آفتِ عظمیٰ ہیں جسے روکنے کے لیے ایک مومن کو اگر اپنا سب کچھ قربان کردینا پڑے تو اس میں دریغ نہ کرناچاہیے۔ 

 کسی کا جی چاہے تو اسے حقارت کے ساتھ ایک سیاسی کام کہہ لے، مگر حسینؓ ابن علیؓ کی نگاہ میں تو یہ سراسر ایک دینی کام تھا، اسی لیے انھوںنے اس کام میں جان دینے کو شہادت سمجھ کر جان دی۔ 

سوال:  جدید معاشرے کے حالات و اَطوار بہت بدل چکے ہیں۔ جرم اور سزا کا تصور بدل چکا ہے۔ ماضی کی ’اسلامی ریاست‘ میں اور موجودہ دور کی ’جدید ریاست‘ میں بڑا فرق رُونما ہوچکا ہے۔ سعودی عرب کے معاشرتی حالات اور شکاگو اور نیویارک جیسے بڑے بڑے شہروں کی معاشرتی کیفیت اور ساخت بالکل مختلف ہے۔ اس لیے [ماضی کے] ایک محدود شہری نظام کے لیے اگر اسلامی سزائیں مفید بھی تھیں، تو [آج] بڑے بڑے شہروں کے لیے یہ کس طرح کارآمد ہوسکتی ہیں، جب کہ ان میں جرائم کا رُونما ہونا ایک حد تک فطری بات ہے، اور ان میں سزائوں کا عملی نفاذ، کوئی آسان کام بھی نہیں؟ 

جواب: آپ کا خیال ہے کہ شکاگو اور نیویارک جیسے بڑے بڑے شہروں کی Social Life (معاشرتی زندگی) ہی ایسی ہے کہ ان کے اندر جرائم کا ہونا ایک فطری چیز ہے۔ اس لیے اس حالت کے خاتمے کے لیے ہاتھ کاٹنے جیسی سزائوں کا نفاذ ایک غیرترقی یافتہ بات ہے اور آپ کے خیال میں یہ عملاً ممکن بھی نہیں۔  

لیکن میرا خیال یہ ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے اور اگر صرف چوری پر ہاتھ کاٹنے کا قانون جاری کر دیا جائے تو نیویارک اور شکاگو جیسے شہروں، بلکہ پورے امریکا میں چوری کا ارتکاب کم ہوسکتا ہے۔ اس کا مکمل خاتمہ تو صرف اسی صورت میں ممکن ہے،جب کہ پورا سیاسی اور معاشرتی نظام اسلامی خطوط پر قائم کیا جائے، لیکن اسلامی سزائوں کے نتیجے میں اس میں کمی واقع ہوسکتی ہے…  ہمیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ اسلام کی تجویز کردہ سزائیںمعاشرے سے جرائم کا مکمل انسداد کرسکتی ہیں، اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے اندر اسلام کا مکمل ضابطۂ حیات جاری ہو اور اسلامی تعزیرات نافذ ہوں۔ پھر ہم دُنیا کو بتائیں گے کہ ہمارے ہاں جرائم کس طرح کم ہو گئے ہیں اور اس طرح عملاً دُنیا پر یہ بات ثابت کردیں گے کہ اسلام کی بنیادوں پر ایک جدید ریاست چل سکتی ہے اور زیادہ بہتر طریقے سے چل سکتی ہے ،اور اسلام کی بنیاد پر ایک ایسامعاشرہ وجود میں آتا ہے جو جرائم سے پاک اور امن و امان کا گہوارا ہوتا ہے۔ 


سوال: لیکن میرا خیال یہ ہے کہ روایتی اسلامی قانون کا یہ پہلو ایسا ہے کہ آج کا انسان اس کو قبول کرنے میں دِقّت محسو س کرتا ہے۔ یہ اس وجہ سے نہیں کہ ان سزائوں کا تعلق اسلامی قانون سے ہے اور اس کو قبول کرنے میں مذہبی تعصب مانع ہوتا ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جدید ذہن کے لیے کسی جرم پر ایک شخص کا ہاتھ کاٹ کر اسے ایک عضو سے محروم کر دینا ایک وحشیانہ فعل معلوم ہوتا ہے، اور شاید یہ اس جرم سے بھی سنگین نوعیت کی چیز ہے۔ اسی بناپر بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ریاست کی طرف سے کسی شخص کی جان لینے کا اقدام بہرحال ایک غیرمعمولی نوعیت رکھتا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ قرونِ وسطیٰ کے ایک نظام کو خواہ وہ اپنی جگہ پر مفید ہی تھا، جدید دور میں رائج کرنا کچھ عجیب سی بات معلوم ہوتا ہے۔ 

جواب: میرا خیال ہے کہ آپ کی موجودہ تہذیب کو، جسے آپ ’جدید تہذیب‘ کہتے ہیں، جتنی ہمدردی مجرم کے ساتھ ہے اتنی ہمدردی ان لوگوں کے ساتھ نہیں جن پر جرم کا ارتکاب کیا جاتا ہے، مثلاً ایک شخص کا بچہ کوئی اغوا کرکے لے جاتا ہے۔ اور پھر اس کو اطلاع دیتا ہے کہ ’’اتنے ملین ڈالر مجھے دے دو تو بچّہ تمھیں مل جائے گا ورنہ اسے قتل کردیا جائے گا‘‘ اور بعض اوقات وہ ایسا کربھی گزرتا ہے۔ تو آپ کا کیا خیال ہے کہ اس طرح کے آدمی کو پکڑ کر اگر کوئی سخت سزا دی جائے، مثلاً اس کا ہاتھ کاٹ ڈالا جائے یا اس کی گردن اُڑا دی جائے ،تو کیا یہ ایک وحشیانہ فعل ہوگا؟ یعنی آپ کے نزدیک والدین کو ان کے بچوں سے محروم کر دینا کوئی وحشیانہ حرکت نہیں۔ البتہ اس حرکت کے مرتکب کو اس کے جرم کی سزا دیناوحشیانہ اور ظالمانہ فعل ہے، جس کی کم از کم ریاست کو ذمہ داری نہیں لینی چاہیے۔ آپ کی ساری ہمدردی اس شخص کے ساتھ ہے، جس نے ایک مجرمانہ اور غیرانسانی فعل کے ذریعے سے اپنے آپ کو مستوجبِ سزا ٹھیرایا ہے، اور اس شخص کے بارے میں آپ بے حس ہیں، جسے ظلم اور سنگ دلی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔  

ہم یہ کہتے ہیں کہ جو شخص معاشرے کے اندر جرم کا ارتکاب کرکے معاشرے کے امن و سکون کو غارت کرتا ہے، وہ اس کا مستحق ہے کہ اس کو اتنی سخت سزا دی جائے کہ دوسروں کو اس سے عبرت ہو، اور وہ اس قسم کے جرم کے ارتکاب کی جرأت نہ کرسکیں۔ یعنی ہمارے نزدیک سزا صرف سزا ہی نہیں ہے بلکہ وہ ارتکابِ جرم کو روکنے کا ذریعہ بھی ہے اور وہ جرم کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ چنانچہ ہماری ہمدردی مجرم کے ساتھ نہیں ہے بلکہ اس شخص کے ساتھ ہے، جس پر ارتکابِ جرم کیا جاتا ہے ، اور اس معاشرے کے ساتھ ہے جس کے اندر ارتکابِ جرم سے ناہمواری اورعدم تحفظ کی کیفیت پیدا کی گئی ہے۔ 

You think it is more social and more cultrued to be a criminal human.  It is human to kill a man and it is inhuman to kill a murderer. 

ابھی پچھلے دنوں امریکا میں مس ہیرسٹ  ٭کا جو واقعہ پیش آیا ہے، وہ آپ کے علم میں ہوگا۔ جو لوگ اس کو اغوا کرکے لے گئے اور انھوں نے اس کو اس حد تک جرائم آشنا کردیا کہ اس نے بنک پر ڈاکا ڈالا اور دوسرے جرائم کا ارتکاب کرتی پھری۔ آپ کے نزدیک وہ لوگ تو بہت مہذب (Cultured) ہیں ،لیکن اگر ان لوگوں کو کوئی سخت سزا دی جائے تو یہ فعل غیرمہذبانہ ہوگا۔ 

۲۵ نومبر ۱۹۷۵ء : بی بی سی کے نمائندے ولیم کرالے کے انٹرویو سے ماخوذ 

 _______________ 

٭ اکیس سالہ مس پیٹریکا کیمبل ہیرسٹ (پ:۱۹۵۴ء) کو اغوا کرنے والوں نے، جو اپنے آپ کو بائیں بازو کی دہشت گرد تنظیم ’سمبائیونیزلبریشن آرمی‘ (SLA) کہتے تھے، ۱۹ماہ تک گرفتار رکھ کر مسلسل جرائم کی تعلیم دی اور ڈکیتی و راہ زنی کی بڑی بڑی وارداتوں میں استعمال کیا۔ وہ ۱۸ستمبر ۱۹۷۵ء کو گرفتار ہوئی، مقدمہ چلا اور ۳۵برس کی قید سنائی گئی، جسے امریکی صدر بل کلنٹن نے اپنے دورِ صدارت میں رہائی دلائی۔ ادارہ 

انکارِ آخرت وہ چیز ہے جو کسی شخص ، گروہ یا قوم کو مجرم بنائے بغیر نہیں رہتی۔ اخلاق کی خرابی اس کا لازمی نتیجہ ہے اور انسانی تاریخ شاہد ہے کہ زندگی کے اِس نظریے کو جس قوم نے بھی اختیار کیا ہے، وہ آخرکار تباہ ہوکر رہی ہے۔ 

[سرکش قوموں کی گرفت کےبارے میں فرمایا گیا کہ] یہ لوگ تو اُس خوش حالی اور شوکت و حشمت کو پہنچ بھی نہیں سکے ہیں جو تُبّع [قبیلۂ حمیر کے بادشاہوں کا لقب جیسے کسریٰ، قیصر، فرعون وغیرہ]کی قوم، اور اُس سے پہلے سبا اور قومِ فرعون اور دوسری قوموں کو حاصل رہی ہے۔ مگر یہ مادّی خوشحالی اور دُنیوی شان و شوکت اخلاقی زوال کے نتائج سے اُن کو کب بچا سکی تھی کہ یہ اپنی ذرا سی پُونجی اور اپنے ذرائع و وسائل کے بل بوتے پر اُن سے بچ جائیں گے۔ 

جو شخص بھی حیات بعد الموت اور آخرت کی جزا و سزا کا منکر ہے، وہ دراصل اس کارخانۂ عالم کو کھلونا اور اس کے خالق کو نادان بچّہ سمجھتا ہے۔ اِسی بناپر اُس نے یہ رائے قائم کی ہے کہ انسان دُنیا میں ہر طرح کے ہنگامے برپا کرکے ایک روز بس یونہی مٹی میں رَل مِل جائے گا اور اس کے کسی اچھے یا بُرے کام کا کوئی نتیجہ نہ نکلے گا، حالانکہ یہ کائنات کسی کھلنڈرے کی نہیں بلکہ ایک خالق حکیم کی بنائی ہوئی ہے، اور کسی حکیم سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ فعلِ عبث کا ارتکاب کرے گا۔  

انکارِ آخرت کے جواب میں یہ استدلال قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ 

(’تفہیم القرآن‘ ، سورۃ الدخان سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جولائی ۱۹۶۵ء، ص ۲۶-۲۷) 

درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ اس کی کتاب اس کے اپنے الفاظ میں ہمارے پاس موجود ہے۔ دنیا کی دوسری قوموں کے پاس بھی اللہ تعالیٰ کی کتابیں آئیں اور اللہ تعالیٰ کے رسول آئے۔ خود قرآن مجید فرماتا ہے کہ ہر قوم میں رسول آئے ہیں اور ہر قوم میں اللہ تعالیٰ نے اپنا پیغام بھیجا ہے۔ لیکن کوئی قوم اُس اصل پیغام کو جو اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا، اس کے اپنے الفاظ میں محفوظ نہیں رکھ سکی۔ صرف قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے کہ جس کے اندر انسانی کلام کے ایک لفظ کی آمیزش بھی نہیں ہو سکی اور خالص اللہ تعالیٰ کی زبان میں یہ کتاب موجود ہے۔  

اگر ایک آدمی عربی زبان وادب کا ذوق رکھتا ہو اور وہ قرآن کو پڑھے تو فی الواقع اس کی روح وجد میں آجاتی ہے، کیونکہ اس کے اندر اس بلا کی تاثیر ہے، اس قدر زبردست کشش ہے اور اس کے اندر اتنی پُرزور Spirit بھری ہوئی ہے کہ آدمی کے لیے بعض اوقات ضبط کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یا تو وہ رو پڑے، یا پھر سر دُھنتا رہ جائے۔ 

اس کے علاوہ ایک دوسری عجیب و غریب چیزجو ہم دیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ دوسری کتابیں جو خدا کی کتابوں کی حیثیت سے پیش کی جاتی ہیں، ان میں پورا ایک مضمون کئی کئی صفحوں میں بیان کیا جاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا کلام ایسا شاہانہ کلام ہے کہ جب ہم اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ کے کلام میں دیکھتے ہیں تو وہ ایک دو فقروں کے اندر بیان کیا گیا ہے۔ وہ ایک دو فقرے بھی ان تمام عبارتوں کے مقابلے میں جو ہمیں دوسری کتابوں میں ملتی ہیں زیادہ بھاری، زیادہ بامعنی اور زیادہ مؤثر ہیں۔ 

اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ الٰہی کلام میں اور وہ انسانی کلام جو الٰہی کلام کی تفسیر وتاویل کرتا ہے یا ترجمانی کرتا ہے، اس میں کیا عظیم الشان فرق ہے۔ 

دوسری الٰہی کتابیں جن زبانوں میںآئی تھیں، اُن زبانوں میں وہ اب محفوظ نہیں ہیں۔ صرف ان کے ترجمے ہیں جیساکہ بروہی صاحب (اے کے بروہی) نے فرمایا اور بالکل صحیح فرمایا کہ خدا کے کلام کا ترجمہ ممکن ہی نہیں ہے۔ کوئی دوسری زبان ایسی نہیں ہوسکتی جس میں خدا کے کلام کا ترجمہ کیا جاسکے۔ 

اب جن قوموں کے پاس خدا کا کلام محفوظ نہیں ہے اور صرف ان کے ترجمے محفوظ ہیں، وہ ایک بہت بڑی نعمت سے محروم ہیں۔ اور جس قوم کے پاس خدا کا کلام موجود ہے ، اور اپنی اصلی شکل میں موجود ہے، اصل الفاظ میں موجود ہے اور اسی ترتیب کے ساتھ موجود ہے جس ترتیب کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کے ذریعے سے اس کو مرتب کروایا تھا، اس سے زیادہ بدقسمت پھر کوئی قوم نہیں ہے جو اُس کتاب سے فائدہ نہیں اُٹھاتی، خود اس کتاب سے کوئی سبق نہیں لیتی اور دنیا تک اس کتاب کے نور کو پہنچانے کی کوشش نہیں کرتی۔ جتنے بدقسمت وہ لوگ ہیں، جنھوں نے اصل کتابِ الٰہی کو کھو دیا اور صرف ترجمے ان کے پاس رہ گئے، اُس سے زیادہ بدقسمت وہ لوگ ہیں جن کے پاس اصل کتاب موجود ہے اور وہ اس سے استفادہ نہیں کرتے اور نہ دنیا تک اُس کے نور کو پہنچاتے ہیں۔  

محض عربی دان ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ کئی بلندپایہ عربی دان تو عیسائیوں میں بھی ملتے ہیں، بڑے بڑے معروف ادیب ہیں۔ خود مسلمانوں میں بھی بکثرت ایسے ادیب ہیں، جنھوں نے قرآن مجید آج تک نہیں پڑھا ہے حالانکہ انھیں عربی زبان بھی آتی ہے۔ پھر جن کی مادری زبان عربی ہے ، معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے بھی قرآن مجید نہیں پڑھا ہے۔ اس سے زیادہ بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے! 

ہماری یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ خود اس کتاب کو سمجھیں ، اس کتاب کا اپنی زندگی پر پوری طرح اثر قبول کریں، اور اس کتاب کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں ۔ اس کی روح اور اس کی Siprit کو اپنے اندر جذب کریں اور اس کے بعد ساری دنیا تک اس کو پہنچائیں ۔ یہ ہماری ذمہ داری اور responsibility ہے۔  

جب ہم مغربی دنیا میں جاتے ہیں تو وہاں معلوم ہوتا ہے کہ لوگ صرف اس وجہ سے بہک رہے ہیں کہ ان کو حقیقی روشنی نہیں مل رہی۔ کوئی ہپّی (Hippy، ملنگ) بن رہا ہے ۔ کس وجہ سے؟ صرف اس لیے کہ جو اس کی زندگی ہے اس سے وہ مطمئن نہیں ہے۔ کوئی بودھ ازم کی طرف جا رہا ہے، کوئی ہندوازم کی طرف چلا جا رہا ہے، کوئی سکھ بن رہا ہے۔ اس طرح سے مختلف قسم کے عجیب وغریب تجربات لوگ کر رہے ہیں۔ صرف اس وجہ سے کہ اصل روشنی ان کے پاس نہیں پہنچی۔  

اگر آپ اپنے گردوپیش میں ایسے چند آدمی بھی پائیں کہ جو قرآن مجید کو کم از کم انگریزی زبان ہی میں، اس کی اصل روح کے مطابق لوگوں کے سامنے پیش کریں، اور اس زمانے کے آدمی کے سمجھنے کے قابل عبارت میں اس کو پیش کریں تو یہ ایک بہت بڑی خدمت ہو گی ، نہ صرف اپنی عاقبت سنوارنے کے لیے بلکہ دنیا کی رہنمائی کے لیے بھی۔  

آج انسان اس چیز کا طالب ہے جس کو وہ نہیں جانتا کہ وہ کس چیز کا طالب ہے ؟ وہ ایک پیاس محسوس کر رہا ہے، مگر اسے نہیں معلوم کہ اسے کس چیز کی پیاس ہے ؟ جب اُس کے پاس یہ چیز پہنچے گی اور اس زبان میں پہنچے گی کہ جس کو وہ سمجھتا ہو، تب اس کو معلوم ہو گا کہ ہاں، یہ وہ چیز تھی جس کا میں پیاسا تھااور اس سے وہ سیراب ہو گا۔  

متعدد آدمی ایسے میرے علم میں ہیں کہ جب ان کے سامنے اسلام کو اس کی اصلی روح میں پیش کیا گیا، اور ان کو بتایا گیا کہ قرآن مجید یہ ہے اور یہ اس کی تعلیم ہے، تو ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور وہ حیران ہو گئے کہ’’کیا فی الواقع ایسی چیز دنیا میں موجود ہے اور ہم اس سے ناواقف ہیں؟‘‘ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ کتنی بڑی ذمہ داری ہمارے اوپر عائد ہوتی ہے کہ ہمارے پاس وہ شے موجود ہے مگر ہم نہ خود اس سے فائدہ اُٹھا رہے ہیں اورنہ دنیا کو اس کا فائدہ پہنچا رہے ہیں۔  

اس لیے میں ایسے تمام لوگوں کو انتہائی قابلِ قدر سمجھتا ہوں، جو موجودہ زمانے کی زبان میں لوگوں کو قرآن مجید کی تعلیمات سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور میں چاہتا ہوں کہ اس ملک میں جتنے لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے یہ قابلیت عطا فرمائی ہے کہ وہ بیرونی زبانوں میں، انگریزی میں یا فرنچ میں، اور دوسری زبانوں میں قرآنِ مجید کی تعلیمات سمجھا سکتے ہیں، وہ اس خدمت کو ضرور انجام دیں۔ خود ہماری نئی نسلیں بھی بگڑ رہی ہیں اور دنیا کے لوگ بھی صرف اس وجہ سے گمراہ ہیں کہ ان کو حقیقی روشنی کی ہدایت نہیں مل رہی۔  

 ۲۳مئی ۱۹۷۵ء کو ہوٹل انٹرکانٹی نینٹل ،لاہور میں مختصر خطاب 

سوال : [آپ کی کتاب] خطبات میں عبادات کے مقاصد کے تذکرے پر یہ اعتراض اُٹھایا گیا ہے کہ آپ نے صرف ان کے دُنیوی فوائد کا تذکرہ کیا ہے۔ عبادات کے اُخروی فوائد کا یا تو ذکر ہی نہیں کیا، یا اگر کیا بھی ہے تو ثانوی درجے کی حیثیت سے۔ اس کے جواب میں ہم اپنے علم کے مطابق وضاحت کی کوشش کرتے رہے ہیں مگر معترضین ہمارے جواب سے مطمئن نہیں ہوتے۔ اس لیے خود آپ کی توضیح زیادہ مفید ہوگی بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کتابوں کی عبارتوں میں ضروری ترمیم کر دی جائے۔ آخر میں یہ خوش خبری بھی عرضِ خدمت ہے کہ اندھی مخالفت کا یہ طوفان جتنا جتنا زور پکڑ رہا ہے، ہماری دینی دعوت بھی اسی کے ساتھ روزبروز بڑھتی جارہی ہے۔ آپ ہمارے لیے خدا تعالیٰ سے دُعا فرمایئے۔ 

جواب : خطبات میں عبادات کے دُنیوی نہیں بلکہ اخلاقی فوائد کو میں نے زیادہ نمایاں کرکے پیش کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ میں اُخروی فوائد کا قائل نہیں ہوں یا انھیں کم اہمیت دیتا ہوں، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے لوگوں کی نگاہوں سے عبادات کے اخلاقی، اجتماعی اور تمدنی فوائد اوجھل ہوگئے ہیں، اور ان کے اوجھل ہوجانے کی وجہ سے لوگ ان عبادات سے غفلت برتنے لگے ہیں۔ اس لیے میں نے ان پہلوئوں کو زیادہ نمایاں کیا ہے۔ نمایاں وہی چیز کی جاتی ہے، جو مخفی ہو یا جس سے عموماً لوگ غافل ہوں،نہ کہ وہ چیز جس سے پہلے ہی لوگ واقف ہوں۔ 

آخر میں دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کی مدد فرمائے اور فتنہ پردازوں سے آپ کی حفاظت فرمائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے موقع پر دُعا فرمایا کرتے تھے:  

اَللّٰھُمَّ   اِنَّا  نَجْعَلُکَ  فِیْ  نُحُوْرِہِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ (سنن ابی داؤد، کتاب تفریع، حدیث: ۱۵۳۷) [اے اللہ! ہم تجھے اُن (دشمنوں) کے مقابلے میں سامنے رکھتے ہیں اور اُن کے شرور سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔] 

یہی دُعا مَیں بھی مانگتا ہوں۔ جو لوگ محض نفسانیت اور تعصب اور حسد کی بنا پر ہمارے خلاف طرح طرح کے فتنے اُٹھا رہے ہیں اور محض اپنے ذاتی کینے کی وجہ سے اُس خیر کا راستہ روکنا چاہتے ہیں جس کے لیے ہم کوشش کررہے ہیں، ان کے شر سے ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں ، اور خدا ہی سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ان سے نمٹ لے۔ 


کیا نماز میں درود پڑھنا شرک ہے؟ 

سوال : نماز میں سورئہ فاتحہ ، سورئہ اخلاص یا کوئی اور سورت جو ہم پڑھتے ہیں، ان میں صرف اللہ ہی کی حمدوثنا اور عظمت و بزرگی کا بیان ہے۔ اسی طرح رکوع و سجود میں اسی کی تسبیح و تہلیل بیان ہوتی ہے۔ لیکن جیسے ہی ہم تشہد کے لیے بیٹھتے ہیں تو حضور سرورِ کائنات حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر شروع ہوجاتا ہے، جیساکہ تشہد اور دونوں درود شریف وغیرہ۔ کیا اس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کی عبادت میں شریک نہیں ہوجاتے؟ 

جواب : تشہد کی پوری عبارت پر آپ غور کریں۔ پہلے آپ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنا سلام پیش کرتے ہیں، پھر رسولؐ کے لیے رحمت و برکت کی دُعا کرتے ہیں۔ پھر اپنے حق میں اور تمام نیک بندوں کے حق میں سلامتی کی دُعا کرتے ہیں۔ پھر اللہ کی وحدانیت اور حضرت محمدؐ کی رسالت کی شہادت دیتے ہیں۔ پھر رسولؐ اللہ پر درود بھیجتے ہیں، جو دراصل اللہ ہی سے اس امر کی دُعا ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی نوازشات کی بارش فرمائے۔ پھر اللہ سے اپنے حق میں اور اپنے والدین کے حق میں بخشش کی دُعا کرتے ہیں۔ ان سارے مضامین کو آپ خود دیکھیں، ان میں کیا چیز ہے جسے آپ ’شرک‘ کہہ سکتے ہیں؟ یہ توساری دُعائیں اللہ تعالیٰ ہی سے ہیں۔ کیا اللہ سے دُعا کرنا ’شرک‘ ہے؟ اور کیا اللہ کے رسولؐ کو رسول ماننا بھی ’شرک‘ ہے؟ (ترجمان القرآن، فروری۱۹۶۱ء( 

خلافت ِ راشدہ حقیقت میں محض ایک سیاسی حکومت نہ تھی، بلکہ نبوت کی مکمل نیابت تھی۔ یعنی اس کا کام صرف اتنا ہی نہ تھا کہ ملک کا نظم و نسق چلائے، امن قائم کرے اور سرحدوں کی حفاظت کرتی رہے، بلکہ وہ مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں معلّم، مربی اور مرشد کے وہ تمام فرائض انجام دیتی تھی، جونبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی حیاتِ طیبہ میں انجام دیا کرتے تھے، اور اس کی یہ ذمہ داری تھی کہ دارالاسلام میں دینِ حق کے پورے نظام کو اس کی اصلی شکل و روح کے ساتھ چلائے ، اور دُنیا میں مسلمانوں کی پو ری اجتماعی طاقت، اللہ کا کلمہ بلند کرنے کی خدمت پر لگادے۔ 

اس بناپر یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ وہ صرف ’خلافت ِ راشدہ‘ ہی نہ تھی بلکہ ’خلافت ِ مرشدہ‘ بھی تھی۔ ’خلافت علیٰ منہاج النبوۃ‘ کے الفاظ اس کی انھی دونوں خصوصیات کو ظاہر کرتے ہیں، اور دین کی سمجھ رکھنے والا کوئی شخص بھی اس بات سے ناواقف نہیں ہوسکتا کہ اسلام میں اصل مطلوب اِسی نوعیت کی ریاست ہے نہ کہ محض ایک سیاسی حکومت۔ 

(’خلافت راشدہ سے ملوکیت تک‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، جون ۱۹۶۵ء، ص ۳۳) 

اقامت ِدین کے لیے جرأت ِعمل

سوال : اگر ہمارے پیش رو لغزشوں سے محفوظ نہیں رہ سکتے تو ہمارا دامن کیسے پاک رہ سکتا ہے اور اقامت ِدین کے لیے ہم میں جرأت عمل کیسے پیدا ہوسکتی ہے؟

جواب : انسان جب تک انسان ہے،اس کی سعی بشریت کے تقاضوں اور محدودیتوں سے پاک نہیں ہوسکتی۔ ہر شخص کو اپنی حد تک اپنا فرض بہتر سے بہتر طریقے سے انجام دینے کی کوشش کرنی چاہیے اور ساتھ ہی ساتھ اﷲ سے دُعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمیں ارادی لغزشوں سے بچائے اور غیر ارادی لغزشوں کو معاف فرمائے۔


اسلامی تحریکوں کا اتحادکیوں نہیں؟

سوال : تمام عالم ِاسلام کی اسلامی تحریکوں کو متحد کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی جاتی؟

جواب : اس وقت بدقسمتی سے تمام مسلمان ملکوں میں قومیت پرستی کا دور دورہ ہے، جس کی وجہ سے یہ بات ممکن نہیں ہے۔ کم و بیش تمام مسلم ممالک کے سربراہ اپنے ملکوں میں تحریک ِاسلامی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس صورت میں وہ متحد ہو کر اسلامی تحریکوں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ لہٰذا، فی الوقت اتنا ہی کافی ہے کہ یہ تحریکیں صحیح خطوط پر چلتی رہیں اور ایک دوسرے سے صِرف واقفیت اور ہمدردی رکھیں۔

یہ بات قابلِ غور ہے کہ انبیا علیہم السلام کے مقابلے میں اُٹھ کر باپ دادا کی تقلید کا جھنڈا بلند کرنے والے ہر زمانے میں اپنی قوم کے کھاتے پیتے لوگ ہی کیوں رہے ہیں؟ آخر کیا وجہ ہے کہ وہی حق کی مخالفت میں پیش پیش اور قائم شدہ جاہلیت کو برقرار رکھنے کی کوشش میں سرگرم رہے، اور وہی عوام کو بہکا اور بھڑکا کر انبیا علیہم السلام کے خلاف فتنے اُٹھاتے رہے؟

اس کے بنیادی وجوہ دو تھے:

ایک یہ کہ کھاتے پیتے اور خوش حال طبقے اپنی دُنیا بنانے اور اُس سے لطف اندوز ہونے میں اِس قدر منہمک ہوتے ہیں کہ حق اور باطل کی، بزعمِ خویش ، دُور ازکار بحث میں سر کھپانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اُن کی تن آسانی اور ذہنی کاہلی انھیں دین کے معاملے میں انتہائی بے فکر، اور اس کے ساتھ عملاً قدامت پسند (Conservative) بنادیتی ہے، تاکہ جو حالت پہلے سے قائم چلی آرہی ہے، وہی قطع نظر اس سے کہ وہ حق ہے یا باطل، جوں کی تُوں قائم رہے اور کسی نئے نظام کے متعلق سوچنے کی زحمت نہ اُٹھانی پڑے۔

دوسرے یہ کہ قائم شدہ نظام سے اُن کے مفاد پوری طرح وابستہ ہوچکے ہوتے ہیں اور انبیا علیہم السلام کے پیش کردہ نظام کو دیکھ کر پہلی ہی نظر میں وہ بھانپ جاتے ہیں کہ یہ آئے گا تو ان کی چودھراہٹ کی بساط بھی لپیٹ کر رکھ دی جائے گی اور ان کے لیے اکلِ حرام اور فعل حرام کی بھی کوئی آزادی باقی نہ رہے گی۔

(’تفہیم القرآن‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، مئی ۱۹۶۵ء، ص ۲۱)

ایک مسلمان کی حیثیت سے آپ دیکھیں تو اخلاق کی پستی کے ساتھ ہم سرے سے کسی اسلامی زندگی کا تصوّر ہی نہیں کرسکتے۔ مسلمان تو مسلمان بنایا ہی اس لیے گیا ہے کہ اس کی ذات سے دُنیا میں بھلائی قائم ہو اور بُرائی مٹے۔ بھلائی کو مٹانا اور بُرائی پھیلانا ، اور پھر اس کے ساتھ مسلمان بھی ہونا، یہ درحقیقت ایک کھلا ہوا تناقض ہے۔ایک شخص مسلمان ہو اور پھر بھی اُس کے شر سے دوسرے بندگانِ خدا محفوظ نہ ہوں۔ ایک شخص مسلمان ہو اور پھر بھی اُس پر کسی معاملے میں اعتماد نہ کیا جاسکے۔ ایک شخص مسلمان ہو اور پھر بھی وہ نیکی سے بھاگے اور بدی کی طرف لپکے، حرام کھائے اور حرام طریقوں سے اپنی خواہشات پوری کرے، تو آخر اس کے مسلمان ہونے کا فائدہ کیا ہے؟ کسی مسلم معاشرے کی اس سے بڑھ کر کوئی ذلّت نہیں ہوسکتی کہ وہ انصاف سے خالی اور ظلم سے لبریز ہوتا چلا جائے۔ اس میں روز بروز بھلائیاں دبتی اور بُرائیاں فروغ پاتی چلی جائیں، اور اس کے اندر دیانت و امانت اور شرافت کے لیے پھلنے پھولنے کے مواقع کم سے کم تر ہوتے چلے جائیں۔ یہ خدا کے غضب کو دعوت دینے والی حالت ہے۔ اگر کسی مسلم معاشرے کی یہ حالت ہوجائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اسلام کی روح سے خالی ہوچکا ہے، صرف اسلام کا نام ہی اس میں باقی رہ گیا ہے، اور یہ نام بھی اب صرف اس لیے رہ گیا ہے کہ دُنیا کو اس دینِ حق سے دُور بھگاتا رہے۔

مسلمان اخلاقی زوال کی طرف جاتا ہی اس وقت ہے جب اسے خدا کی رضا اور آخرت کی فلاح مطلوب نہیں رہتی اور صرف دُنیا اس کی مطلوب بن کر ہ جاتی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اخلاق کی پستی کے ساتھ کوئی قوم دُنیا کی کامیابی بھی حاصل نہیں کرسکتی۔ اس پستی کے ساتھ تو آخرت بھی ہاتھ سے جاتی ہے اور دُنیا بھی ہاتھ نہیں آتی۔(’تعمیر اخلاق کیوں اور کیسے ؟‘، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۶۵ء، ص ۲۸)