یہ بات سراسر عقل اور انصاف کے خلاف ہے کہ [آخرت میں] نیک اور بد، فرماں بردار اور نافرمان، ظالم اور مظلوم، آخرکار سب یکساں کر دیئے جائیں، کسی بھلائی کا کوئی اچھا نتیجہ اور کسی بُرائی کا کوئی بُرا نتیجہ نہ نکلے، نہ کسی مظلوم کی داد رسی ہو اور نہ کوئی ظالم اپنے کیے کی سزا پائے، بلکہ سب ایک ہی انجام سے دوچار ہوں۔
خدا کی اس کائنات کے متعلق جس نے یہ تصور قائم کیا ہے، اُس نے بڑا ہی غلط تصور قائم کیا ہے۔ اس تصور کو ظالم اور بدکار لوگ تو اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ وہ اپنے افعال کا بُرا نتیجہ نہیں دیکھنا چاہتے ، لیکن خدا کی یہ خدائی اندھیر نگری نہیں ہے، بلکہ یہ ایک برحق نظام ہے جس میں نیک و بد کو بالآخر یکساں کر دینے کا ظلم ہرگز نہیں ہوسکتا۔
[اسی طرح] انکارِ آخرت کا عقیدہ اخلاق کے لیے سخت تباہ کن ہے۔ اس کو اختیار وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنے نفس کے بندے بنے ہوئے ہیں، اور اس لیے کرتے ہیں کہ انھیں بندگی ٔ نفس کی کھلی چھوٹ مل جائے۔پھر جب وہ اس عقیدے کو اختیار کرلیتے ہیں تو یہ انھیں گمراہ سے گمراہ تر کرتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ اُن کی اخلاقی حس بالکل مُردہ ہوجاتی ہے اور ہدایت کے تمام دروازے اُن کے لیے بند ہوجاتے ہیں۔
یہ دلائل دینے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح تم آپ سے آپ زندہ نہیں ہوگئے ہو، بلکہ ہمارے زندہ کرنے سے زندہ ہوئے ہو، اسی طرح تم آپ سے آپ نہیں مرجاتے، بلکہ ہمارے موت دینے سے مرتے ہو، اور ایک وقت یقینا ایسا آنا ہے جب تم سب بیک وقت جمع کیے جائو گے۔ اس بات کو اگر آج تم اپنی جہالت و نادانی سے نہیں ما نتے تو نہ مانو، جب وہ وقت آجائے گا تو تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اپنے خدا کے حضور پیش ہو اور تمھارا پورا نامۂ اعمال بے کم و کاست تیار ہے، جو تمھارے ایک ایک کرتوت کی شہادت دے رہا ہے۔ اُس وقت تم کو معلوم ہوجائے گا کہ عقیدئہ آخرت کا یہ انکار، اور اس کا یہ مذاق جو تم اُڑا رہے ہو، تمھیں کس قدر مہنگا پڑا ہے۔
(’تفہیم القرآن‘ پس منظر سورۃ الجاثیہ، سیّدابوالاعلیٰ مودودی، ترجمان القرآن، اگست ۱۹۶۵ء، ص ۱۹-۲۱)