۲۰۲۵ اگست

فہرست مضامین

’کم سنی‘ کی شادیوں کی روک تھام کے لیے قانون سازی

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | ۲۰۲۵ اگست | رسائل ومسائل

Responsive image Responsive image

سوال:  کیا آپ کے نزدیک کم سنی کی شادیوں کو روکنے کے لیے یہ قانون بنانا ضروری ہے کہ شادی کے وقت مرد کی عمر ۱۸ سال سے کم اور عورت کی ۱۵ سال سے کم نہ ہو؟  

جواب: کم سنی کی شادیاں روکنے کے لیے کسی قانون کی حاجت نہیں اور اس کے لیے ۱۸سال اور ۱۵سال کی عمر مقرر کر دینا بالکل غلط ہے۔ ہمارے ملک میں ۱۸سال کی عمر سے بہت پہلے ایک لڑکا جسمانی طور پر بالغ ہوجاتا ہے، اور لڑکیاں بھی ۱۵سال سے پہلے جسمانی بلوغ کو پہنچ جاتی ہیں۔ ان عمروں کو ازروئے قانون نکاح کی کم سے کم عمر قرار دینے کے معنی یہ ہیں کہ ہمیں اس سے کم عمر والے لڑکوں اور لڑکیوں کی صرف شادی پر اعتراض ہے، کسی دوسرے طریقے سے جنسی تعلقات پیدا کرلینے پر کوئی اعتراض نہیں۔ 

 شریعت ِ اسلام نے اس طرح کی مصنوعی حدبندیوں سے اسی لیے احتراز کیا ہے کہ یہ درحقیقت بالکل غیرمعقول ہیں۔ اس کے بجائے یہ بات لوگوں کے اپنے ہی اختیارِ تمیزی پر چھوڑ دینی چاہیے کہ وہ کب نکاح کریں اور کب نہ کریں۔ لوگوں میں تعلیم اور عقلی نشوونما کے ذریعے سے جتنا زیادہ شعور پیدا ہوگا، اسی قدر زیادہ صحیح طریقے سے وہ اپنے اس اختیارِ تمیزی کو استعمال کریں گے، اور کم سنی کے نامناسب نکاحوں کا وقوع، جواَب بھی ہمارے معاشرے میں کچھ بہت زیادہ نہیں ہے، روز بروز کم تر ہوتا چلا جائے گا۔شرعاً ایسے نکاحوں کو جائز صرف اس لیے رکھا گیا ہے کہ بسااوقات کسی خاندان کی حقیقی مصلحتیں اس کی متقاضی ہوتی ہیں۔ اس ضرورت کی خاطر قانوناً اسے جائز ہی رہنا چاہیے، اور اس کے نامناسب رواج کی روک تھام کے لیے قانون کے بجائے تعلیم اور عام بیداری کے وسائل پر اعتماد کرنا چاہیے۔ معاشرے کی ہرخرابی کا علاج قانون کا لٹھ ہی نہیں ہے۔ 

سوال: کیا آپ کے نزدیک نکاح کے لیے عمروں کا یہ تعین اَزروئے قرآن کریم یا اَزروئے حدیثِ صحیح ممنوع ہے؟ 

جواب: نکاح کے لیے عمروں کے تعین کی کوئی صریح ممانعت تو قرآن و حدیث میں نہیں ہے، مگر کم سنی کے نکاح کا جواز سنت سے ثابت ہے اور احادیث ِ صحیحہ میں اس کے عملی نظائر موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو چیز شرعاً جائز ہے اس کو آپ قانوناً حرام کس دلیل سے کرتے ہیں؟ آپ کا ایک عمراَزروئے قانون مقرر کر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس عمر سے کم میں اگر کوئی نکاح کیا جائے تو آپ اسے باطل قرار دیں گے اور ملکی عدالتیں اس کو تسلیم نہ کریں گے۔ کیا اسے ناجائز اور باطل ٹھیرانے کے لیے کوئی اجازت قرآن یا حدیث ِ صحیح میں موجود ہے؟  

دراصل یہ طرزِ سوال بہت ہی مغالطہ آمیز ہے۔ تعیینِ عمر صرف ایک ایجابی پہلو ہی نہیں رکھتی بلکہ ساتھ ساتھ ایک سلبی پہلو بھی رکھتی ہے۔ اس کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ آپ نکاح کے لیے محض ایک عمر مقرر کرنا چاہتے ہیں، بلکہ اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ اس عمر سے پہلے نکاح کرنے کو آپ حرام بھی کرنا چاہتے ہیں۔اس منفی پہلو کو نظرانداز کرکے صرف یہ پوچھنا کہ کیا اس کا مثبت پہلو ممنوع ہے؟ سوال کو ادھوری شکل میں پیش کرنا ہے۔ سوال کی تکمیل اس وقت ہوگی جب آپ ساتھ ساتھ یہ بھی پوچھیں کہ کیا ایک عمرِ خاص سے پہلے نکاح کو ناجائز ٹھیرانے کے حق میں کوئی دلیل قرآن یا کسی حدیثِ صحیح میں ملتی ہے؟ (ماہ نامہ ترجمان القرآن، لاہور، دسمبر ۱۹۵۵ء(