۲۰۲۵ اگست

فہرست مضامین

اشاعت اسلام میں تلوار کا حصہ؟

سیّد ابوالاعلیٰ مودودی | ۲۰۲۵ اگست | نظامِ حیات

Responsive image Responsive image

اسلام اپنی صداقت پر ایمان لانے کے لیے کسی کو مجبور نہیں کرتا، بلکہ دلائل و براہین کی روشنی میں ہدایت کی راہ کو ضلالت کی راہ سے ممتاز کر کے دکھا دینے کے بعد، ہرشخص کو اختیار دیتا ہے کہ چاہے غلط راستے پر چل کر نامرادی کے گڑھے میں جاگرے، اور چاہے سیدھے راستے پر لگ کر حقیقی اور دائمی فلاح و کامرانی سے بہرہ اندوز ہو۔ لیکن… ہم یہ بتادینا ضروری سمجھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کو تلوار سے ایک گونہ تعلق ضرور ہے۔ اِس میں شک نہیں کہ جہاں تک تبلیغِ دینِ الٰہی کی حد ہے ، اس میں تلوار کا کوئی کام نہیں ہے۔ لیکن اس تبلیغ کے ساتھ کچھ چیزیں اور بھی ہیں جن کے تعاون سے دنیا میں اسلام کی اشاعت ہوئی ہے۔ 

عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ جب انسان بے قیدی کی زندگی بسر کرتا ہے اور اپنی خواہشات کی پیروی میں کسی اخلاقی ضابطے کا پابند نہیں ہوتا، تو اسے اپنی اِس پُرالم، مگر بظاہر پُرلطف زندگی میں ایک مزا آنے لگتا ہے، اور اس مزے کو چھوڑنے کے لیے وہ برضاورغبت آمادہ نہیں کیا جاسکتا۔ وعظ و نصیحت اور دلیل و بُرہان کی قوت سے اس کو اخلاقی حدود کی پابندی، حلال و حرام کی تمیز، اور نیک و بد کے امتیاز کی خواہ کتنی ہی تلقین کی جائے، وہ بہرحال سیدھا ہونے پر راضی نہیں ہوتا۔  

اوّل تو اس کی عقل و وجدان پر مسلسل بدکاریاں کرتے رہنے کے باعث ایسا پردہ پڑجاتاہے کہ اس قسم کی اخلاقی تعلیم کا اس پر کوئی اثر نہیں ہوتا، اور اگر اس کے ضمیر میں کچھ زندگی باقی ہوتی بھی ہے تو وہ اس کے نفس پر اتنی حاوی نہیں ہوتی کہ اس کے اثر سے وہ حق کو محض اس بنا پر کہ وہ حق ہے، بطَوع و رغبت قبول کرلے، اور ان لذتوں سے دست بردار ہوجائے جو بے قیدی کی زندگی میں اسے حاصل ہوتی ہیں۔ 

 بخلاف اس کے جب کسی اخلاقی تعلیم کی پشت پر وعظ و تذکیر کے ساتھ سیاست و تعزیر بھی ہوتی ہے اور بد کو بدکرکے دکھا دینے کے ساتھ بدی کو روک دینے والی قوت سے بھی کام لیا جاتا ہے، تو رفتہ رفتہ طبیعت میں نیک بننے کی صلاحیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ حدودکی پابندی اور بُرے بھلے کی تمیز آہستہ آہستہ ترقی کرتی ہے ، اور آخرکار وہی انسان اس نیکی کی تعلیم کو دل میں جگہ دینے لگتا ہے جو بے قیدی کی زندگی میں اس کو سننے کا بھی روادار نہ تھا۔ 

تھوڑی دیر کے لیے کسی ایسی سوسائٹی کا تصور کیجیے، جس میں کوئی قانون نافذالعمل نہیں ہے، اس کا ہرفرد اخلاقی حدود کی پابندی سے مبرا ہے، جس پر بس چلتا ہے اسے لوٹ لیتا ہے، جس سے عداوت ہوتی ہے اسے مار ڈالتا ہے، جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے اسے چُرا کر یا چھین کر حاصل کرلیتا ہے، جو خواہش دل میں پیدا ہوتی ہے اسے جس طریقے سے چاہتا ہے پورا کرلیتا ہے، حلت و حُرمت کی اسے تمیز نہیں ہوتی، جائز و ناجائز کے فرق سے وہ ناواقف ہوتا ہے، حقوق و فرائض کے تخیل سے اس کا دماغ خالی ہوتا ہے، اس کے سامنے بس اپنی خواہشات ہوتی ہیں اور انھیں پورا کرنے کے امکانی وسائل ہوتے ہیں۔  

ایسی حالت میں اگر کوئی اخلاقی مصلح کھڑا ہو اور لوگوں کو حلال و حرام کی تمیز سکھائے، جائز و ناجائز کی حدبندی کرے، مقاصد میں حُسن و قبح اور طریقوں میں نیک و بدکا فرق قائم کرے، چوری سے، حرام خوری سے، خونِ ناحق سے، زنا اور فواحش سے روکے، افراد کے لیے حقوق اور فرائض متعین کرے، اور ایک مکمل ضابطۂ قوانینِ اخلاق مرتب کر کے رکھ دے، مگر اس قانون کی تنفیذ کے لیے اس کے پاس وعظ و پند اور دلیل و حجت کے سوا کوئی قوت نہ ہو، تو: 

  • کیا یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ جماعت اپنی آزادی پر ان قیود کو بخوشی قبول کرلے گی؟  
  • کیا وہ اس کے مُسکِت دلائل سے مغلوب ہوکر برضا و رغبت قانون کی پابند بن جائے گی؟  
  • کیا وہ اس کی پُردرد نصیحتوں سے اتنی متاثر ہوگی کہ خود بخود اُن لذتوں سے کنارہ کش ہوجائے، جو اس کو بے قیدی کی زندگی میں حاصل ہیں؟  

ہرشخص جو انسانی فطرت کا رازداں ہے، اس سوال کا جواب صرف نفی میں دے گا۔ کیوںکہ دنیا میں ایسے پاک نفسوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے جو نیکی کو محض نیکی سمجھ کر اختیار کرتے ہیں، اور بدی کو صرف اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کہ اس کا بد ہونا انھیں معلوم ہوچکا ہے۔ 

لیکن اگر یہی سوال اس صورت میں کیا جائے، جب کہ وہ معلّم محض اخلاقی واعظ ہی نہیں بلکہ حاکم اور صاحب ِ امر بھی ہو اور ملک میں ایک باضابطہ حکومت قائم کردے، جس کی قوت سے وہ تمام بُرائیاں یک لخت دُور ہوجائیں جو حیوانی آزادی سے پیدا ہوتی ہیں، تو یقینا یہ نفی، اثبات سے بدل جائے گی اور ہرشخص اس اصلاحی تعلیم کی کامیابی کا فتویٰ لگا دے گا۔ 

اسلام کی اشاعت کا بھی تقریباً یہی حال ہے۔  

اگر اسلام صرف چند عقائد کا مجموعہ ہوتا اور اللہ کو ایک کہنے، رسالت کو برحق ماننے، یومِ آخر اور ملائکہ پر ایمان کے سوا انسان سے وہ کوئی اور مطالبہ نہ کرتا، تو شاید شیطانی طاقتوں سے اس کو کچھ زیادہ جھگڑنے کی نوبت نہ آتی۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ صرف ایک عقیدہ ہی نہیں بلکہ ایک قانون بھی ہے۔ ایسا قانون جو انسان کی عملی زندگی کو اوامرونواہی کی بندشوں میں کسنا چاہتا ہے، اس لیے اس کا کام صرف پندوموعظت ہی سے نہیں چل سکتا بلکہ اسے نوکِ زبان کے ساتھ نوکِ سنان [نیزہ]سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ 

اس کے عقائد سے، سرکش انسان کو اتنا بُعد نہیں ہے جتنا اس کے قوانین کی پابندی سے انکار ہے۔ وہ چوری کرنا چاہتا ہے اور اسلام اسے ہاتھ کاٹنے کی دھمکی دیتا ہے۔ وہ زنا کرنا چاہتا ہے اور اسلام اسے کوڑوں کی مار کا حکم سناتا ہے۔ وہ سود کھانا چاہتا ہے اور اسلام اس کو فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ (البقرہ ۲:۲۷۹،’’آگاہ ہوجائو کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے تمھارے خلاف اعلانِ جنگ ہے‘‘) کا چیلنج دیتا ہے۔ وہ حرام و حلال کی قیود سے نکل کر نفس کے مطالبات پورے کرنا چاہتا ہے اور اسلام ان قیود سے باہر نفس کے کسی حکم کی پیروی نہیں کرنے دیتا۔ اس لیے نفس پرست انسان کی طبیعت اس سے متنفر ہوتی ہے اور اس کے آئینۂ قلب پر گناہ گاری کا ایسا زنگ چڑھ جاتا ہے کہ اس میں صداقت ِاسلام کے نُور کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی باقی نہیں رہتی۔  

یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۱۳برس تک عرب کو اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ وعظ و تلقین کا جو مؤثر سے مؤثر انداز ہوسکتا تھا اسے اختیار کیا۔ مضبوط دلائل دیے، واضح حجتیں پیش کیں، فصاحت و بلاغت اور زورِ خطابت سے دلوں کو گرمایا۔ اللہ کی جانب سے محیرالعقول معجزے دکھائے۔ اپنے اخلاق اور اپنی پاک زندگی سے نیکی کا بہترین نمونہ پیش کیا، اور کوئی ذریعہ ایسا نہ چھوڑا جو حق کے اظہارواثبات کے لیے مفید ہوسکتا تھا۔ 

 لیکن آپؐ کی قوم نے آفتاب کی طرح آپؐ کی صداقت کے روشن ہوجانے کے باوجود آپؐ کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ حق ان کے سامنے خوب ظاہر ہوچکا تھا۔ انھوں نے برأي العین دیکھ لیا تھا کہ جس راہ کی طرف ان کا ہادی انھیں بلا رہا ہے، وہ سیدھی راہ ہے۔ اس کے باوجود صرف یہ چیز انھیں اس راہ کو اختیار کرنے سے روک رہی تھی کہ اُن لذتوں کو چھوڑنا انھیں ناگوار تھا جو کافرانہ بے قیدی کی زندگی میں انھیں حاصل تھیں۔ 

جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد داعیِ اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی اور اَلَا  کُلَّ  مَأْثُرَۃٍ  أَوْ  دَمٍ  أَوْ مَالٍ یُدْعٰی فَھُوَ تَحْتَ قَدَمَیَّ ھَاتَیْنِ{ FR 644 } [السیرۃ النبویۃ،  ابن ہشام، ۳/۴۱۳] کا اعلان کرکے تمام موروثی امتیازات کا خاتمہ کر دیا، عزت و اقتدار کے تمام رسمی بتوں کو توڑ دیا، ملک میں ایک منظم اور منضبط حکومت قائم کردی، اخلاقی قوانین کو بزور نافذ کرکے اُس بدکاری و گناہ گاری کی آزادی کو سلب کرلیا جس کی لذتیں ان کو مدہوش کیے ہوئے تھیں، اور وہ پُرامن فضا پیدا کردی جو اخلاقی فضائل اور انسانی محاسن کے نشوونما کے لیے ہمیشہ ضروری ہوا کرتی ہے، تو دلوں سے رفتہ رفتہ بدی و شرارت کا زنگ چھوٹنے لگا، طبیعتوں سے فاسد مادے خودبخود نکل گئے، روحوں کی کثافتیں دُور ہوگئیں اور یہی نہیں کہ آنکھوں سے پردہ ہٹ کر حق کا نور صاف عیاں ہوگیا، بلکہ گردنوں میں وہ سختی اور سروں میں وہ نخوت باقی نہیں رہی، جو ظہورِ حق کے بعد انسان کو اس کے آگے جھکنے سے باز رکھتی ہے۔ 

عرب کی طرح دوسرے ممالک نے بھی جو اسلام کو اس سُرعت سے قبول کیا کہ ایک صدی کے اندر چوتھائی دنیا مسلمان ہوگئی، تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اسلام کی تلوار نے ان پردوں کو چاک کر دیا جو دلوں پر پڑے ہوئے تھے، اُس فضا کو صاف کر دیا جس کے اندر کوئی اخلاقی تعلیم پنپ نہیں سکتی، اِن حکومتوں کے تخت اُلٹ دیے جو حق کی دشمن اور باطل کی پشت پناہ تھیں، ان بدکاریوں کا استیصال کردیا جو دلوں کو نیکی و پرہیزگاری سے دُور رکھتی ہیں، ان عادلانہ اخلاقی قوانین کو نافذ کیا جو آدمی کو حیوانیت کے درجے سے نکال کر انسان بنا دیتے ہیں، اور پھر اسلام کو عملی پیکر میں پیش کرکے دنیا پر ثابت کردیا کہ انسان کی اخلاقی و مادی اور روحانی ترقی کے لیے اس سے بہتر کوئی اور دستورِ عمل نہیں ہوسکتا۔ 

[لہٰذا] جس طرح یہ کہنا غلط ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے لوگوں کو مسلمان بناتا ہے، اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہے کہ اسلا م کی اشاعت میں تلوار کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ حقیقت ان دونوں کے درمیان ہے، اور وہ یہ ہے کہ اسلام کی اشاعت میں تبلیغ اور تلوار دونوں کا حصہ ہے، جس طرح ہرتہذیب کے قیام میں ہوتا ہے۔ تبلیغ کا کام تخم ریزی ہےاور تلوار کا کام قلبہ رانی [ہل چلانے کا کام]۔ پہلے تلوار زمین کو نرم کرتی ہے تاکہ اس میں بیج کو پرورش کرنے کی قابلیت پیدا ہوجائے، پھر تبلیغ بیج ڈال کر آبپاشی کرتی ہے تاکہ وہ پھل حاصل ہو جو اس باغبانی کا مقصودِ حقیقی ہے۔  

ہم کو دنیا کی پوری تاریخ میں کسی ایسی تہذیب کا نشان نہیں ملتا، جس کے قیام میں ان دونوں عناصر کا حصہ نہ ہو۔ تہذیب کی کسی خاص شکل کا کیا ذکر ہے، خود تہذیب کا قیام ہی اس وقت تک ناممکن ہے جب تک قلبہ رانی اور تخم پاشی کے یہ دونوں عمل اپنا اپنا حصہ ادا نہ کریں۔ کوئی شخص جو انسانی فطرت کا رمزشناس ہے، اس حقیقت سے ناآشنا نہیں ہے کہ جماعتوں کی ذہنی و اخلاقی اصلاح کے سلسلے میں ایک وقت ایسا ضرور آتا ہے، جب کہ قلب و روح کو خطاب کرنے سے پہلے جسم و جان کو خطاب کرنا پڑتا ہے۔(الجہاد فی الاسلام، ص ۱۷۰-۱۷۵)