ارشاد الرحمن


سیرتِ رسولؐ ایک ایسے انسان کی داستانِ زندگی ہے جو اپنی زندگی کو اس دعوت کی نذر کردیتا ہے جس میں اس کا کوئی ذاتی مفاد نہیں۔ دولت و ثروت، اثر و نفوذ یا منصب و اقتدار کی کوئی خواہش نہیں، حتیٰ کہ تاریخی بقا و دوام بھی پیش نظر نہیں کیونکہ وہ تو اللہ کے ہاں دوام پرایمان رکھتاہے۔ ایسا انسان جو بچپن سے لے کر ۴۰ سال تک کی زندگی نہایت پاکیزگی سے گزارتا ہے۔ پھر ۴۰برس سے انتہاے عمر تک کی زندگی عبادت و ہدایت اور جہاد و جدوجہد میں گزارتا ہے اور  دنیا اس کے سامنے زیر ہو جاتی ہے، تو وہ دنیا کے تمام تر باطل معیارات کو کالعدم کرتا ہے اور اپنے راستے پر پھر سے رواں دواں ہو جاتا ہے۔

آیئے!آپؐ   کی رسالت و نبوت کے ابتدائی برسوں کے چند لمحات پر ایک نظر ڈالیں!  یہ برس ایسے ہیں کہ صبر و ثبات اور صدق و عظمت میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ ان برسوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ہادی و معلّمِ انسانیت جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیاں دوسرے برسوں کی نسبت ان برسوں میں کھل کر سامنے آئیں۔ یہ برس زندہ کتاب کا دیباچہ تھے۔

یہ رسالت کے وہ سال ہیں جب رسولؐ اللہ تنہا تھے۔ آپؐ نے اپنا تمام تر سکون اور راحت کو تج دیا تھا اور لوگوں کے پاس ایسی چیز لے کر گئے تھے جس سے لوگ آشنا نہیں تھے بلکہ  وہ اس کو ناپسند کرتے تھے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا پیغام لے کر ان کے ذہنوں پر دستک دینے نکلے۔ اہل دانش جانتے ہیں کہ عوام کے ذہنوں کو مخاطب کر کے اس وقت کوئی بات کرنا تو بڑا آسان ہوتا ہے جب آدمی اجتماعی توقعات اور اُمیدوں میں خود بھی ان کے ساتھ کھڑا ہو مگر جب انھیں ایسے مستقبل بعید کی طرف بلایاجائے جس کو آدمی خود تو دیکھ رہا ہو مگر لوگ اسے نہ دیکھ رہے ہوں تو یہ انتہائی مشکل ہوتا ہے! جی ہاں، جب آدمی عوام کے ذہنوں پر دستک دے اور اُن کی زندگی کی بنیادوں کو امانت دارانہ اور مخلصانہ طور پر منہدم کرنے کے لیے اٹھے اور اس کے پیچھے کوئی ذاتی غرض، مَجدو شرف اور خواہش و آرزو بھی نہ ہو تو ایسی صورتِ حال میں پیش آنے والے خطرے کا سامنا کرنا اولوالعزم صالحین و مرسلین ہی کا کام ہے۔ محمد رسولؐ اللہ اس موقعے کے مردِ میدان اور رجلِ عظیم ہیں! یہ وہ موقع ہے جب بتوں کی عبادت ہی اصل عبادت تھی اور انھی کے شعائر اصل دین تھا۔

اس موقعے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرگز کسی چال کی آڑ نہ لی۔ راستے کی دشواری اور مصائب کی شدت دونوں اس بات کی اجازت دیتی تھیں کہ یکدم کلمۂ توحید پیش کرڈالنے سے قبل افرادِ کار کو تیار کرنے میں آپؐ اپنی نادر ذہانت کو استعمال کر لیں۔ یہ آپؐ کے دائرہ اختیار میں بھی تھااور آپؐ  کا حق بھی تھا کہ آپؐ  صدیوں سے بتوں کی عبادت سے وابستہ معاشرے کو اس سے دُور کرنے کے لیے فضا سازگار بناتے اور راہ ہموار کرتے، پھر رفتہ رفتہ تحریک کو اس تباہ کن مزاحمت سے بچاتے ہوئے آگے بڑھاتے جو اول لمحے ہی سے قوم کے بغض و کینہ کی صورت میں متحرک ہوجانے اور اپنے تمام تر اسلحے کو میدان میں لا ڈالنے والی تھی مگر آپؐ  نے اس طرح کا کوئی ایک کام بھی نہ کیا۔ اور یہی سب سے بڑی نشانی تھی کہ آپؐ  اللہ کے رسول ہیں جس نے آسمانی صدا کو اپنے دل میں یہ کہتے ہوئے سنا کہ کھڑے ہو جائو تو کھڑے ہو گئے۔ اس نے کہا: پیغام پہنچا دو تو پیغام پہنچا دیا۔ اس میں لمحہ بھر کے لیے توقّف کیا نہ ذرّہ بھر فرار کی کوشش کی۔آپؐ  نے اول روز بلکہ اول لمحے ہی سے رسالت کے جوہر اور مسئلے کی اصل کو بیان کرتے ہوئے یوں لوگوں کو مخاطب کیا:

لوگو!میں تمھاری طرف بھیجا گیا اللہ کا رسول ہوں تاکہ تمھیں یہ بتائوں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائو۔یہ بت جن کی تم عبادت کرتے ہو، لغو و باطل ہیں۔ تمھارے کسی نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں!

آپؐ  نے لمحۂ اوّل سے انھی واضح اور کھلے الفاظ سے لوگوں کو مخاطب کیا اور اسی لمحے سے اس سخت معرکہ آرائی کا سامنا شروع کر دیا جس میں ساری زندگی گزار دی۔

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت پیش کی تو قریش کا شعلوں کی مانند لپکتا ہوا ردّعمل فوراً سامنے آ گیا۔ ایک ایسی جان پر مخالفتیں اور مزاحمتیں ٹوٹ پڑیں جس نے ساری زندگی ایسا اعزاز و اکرام اور عزت و احترام دیکھا تھا کہ اس سے بڑھ کر عزت و احترام کا کوئی مرتبہ نہیں!

رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پہلا درس ہی حیران کن اور عجیب فداکاری کے رنگ میں پیش کرنا شروع کیا اور یہ وہ منظر ہے جس نے زمان و مکان کو بلکہ تاریخ کو بھر دیا۔ مکہ کے زندہ ضمیر اس پر تعجب و حیرت کااظہار بھی کر رہے تھے اور اس کے قریب بھی آتے جا رہے تھے۔

انھوں نے قربانی، استقامت اور عظمت کو دیکھا۔ انھوں نے جو کچھ اس روز دیکھا جب اشرافِ قریش کا ایک وفد جناب ابو طالب کے پاس گیا، یہ تو اور زیادہ خوب صورت اور خوش کن منظر تھا۔ اشرافِ قریش نے جناب ابو طالب کو مخاطب کر کے کہا:

اے ابو طالب!آپ کو ہمارے اندر بزرگی، شرف اور قدرومنزلت کا مقام حاصل ہے، اور ہم نے آپ کو اپنے بھتیجے کو باز رکھنے کے لیے کہا ہے لیکن آپ نے اسے باز نہیں رکھا۔ اللہ کی قسم! ہم اپنے آبا و اجداد کی بے عزتی، اپنے تصورات کی حماقت اور اپنے معبودوں کی عیب جوئی پر صبر نہیں کر سکتے۔ لہٰذا اس کو ہم سے باز رکھ لیں۔ نہیں تو ہم اسے بھی اور آپ کو بھی جنگ میں اُتار لیں گے، یہاں تک کہ ہم دونوں فریقوں میں سے ایک ہلاک ہو جائے۔

جناب ابوطالب نے قریش کو اس حد تک پہنچتے دیکھا تو بھتیجے کے پاس گئے اور کہا:

بھتیجے!تیری قوم کے لوگ میرے پاس آئے ہیں اور انھوں نے تیرے معاملے کے بارے میں بات کی ہے۔ لہٰذا تم مجھے اور خود کو مشکل میں نہ ڈالو اور مجھے کسی ایسے امر سے دوچار نہ کرو جس کو برداشت کرنے کی میرے اندر طاقت نہیں۔

وہ تن تنہا شخص جو ایک جانب کھڑا تھا اور ظاہر یہ ہوتا تھا کہ وہ اس جدوجہد سے دست بردار ہوجائے گا یا یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس قبیلۂ قریش کے مقابلے کی تاب نہیں لا سکے گا جس نے اس کے خلاف اپنی خوفناک کچلیاں نکال لی ہیں۔لیکن ادھر ایک اور ہی منظر اور مظاہرہ سامنے آتا ہے اور رسولؐ اللہ کسی تردّد و توقّف کا اظہار کرتے ہیں نہ آپؐ  کے عزم میں کوئی کمزوری رُونما ہوتی ہے۔ نہیں ہرگز نہیں!آپؐ  تو ایسے الفاظ بھی تلاش نہیں کرتے جن کے ذریعے اپنے ایمان کو قائم رکھنے کی کوشش کریں۔ آپؐ  کا ایمان تو منصب استاذیت کے بلند مقام پر پہلے ہی کھڑا تھا جو پوری انسانیت پر بلیغ درس اور دائمی ہدایات بہا رہا تھا۔ پھر آپؐ  یوں بولتے ہیں کہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ کوئی انسان بات کررہا ہے یا پوری کائنات نغمہ سرا ہے؟

آپؐ  فرماتے ہیں:

یَا عَمِّ وَ اللّٰہِ لَوْ وَضَعُوا الشَّمْسَ فِی یَمِیْنِیْ، وَ القَمَرَ فِی یَسَارِی ، عَلٰی اَنْ اَتْرُکَ ھٰذَا الاَمْرَ حَتّٰی یُظِھِرَہُ اللّٰہُ اَوْ اَھْلُکَ فِیْہِ، مَا تَرَکْتُہ!!

چچا جان اللہ کی قسم! اگر یہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند لا کر رکھ دیں کہ میں اس امر کو چھوڑ دوں تو میں اسے نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے غالب کر دے یا میں اس (جدوجہد) میں ختم ہو جائوں۔

جناب ابو طالب نے یہ سنا تو فوراً اپنے آبا و اجداد کی روایت کا مظاہرہ کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے بھتیجے کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا:

بھتیجے! جو چاہو کہو، میں تمھیں کبھی کسی چیز کے حوالے نہیں کروں گا۔

شدائد ہر جانب سے آپؐ پر ٹوٹ پڑے تھے اور وہ غم خواری جو آپؐ  کو اپنے چچا جناب ابوطالب اور زوجہ حضرت خدیجہؓ سے مل رہی تھی وہ بھی آپؐ  سے منہ پھیر لیتی ہے اور یہ دونوں شخصیتیں تھوڑے تھوڑے وقفے سے وفات پا جاتی ہیں۔

اگر کوئی شخص اس تشدد کی انتہا اور جنگ کی شدت کا تصورکرنا چاہے جو قریش نے تن تنہا رسول کے خلاف برپا کر رکھی تھی، تو اس کے لیے یہی جان لینا کافی ہے کہ وہ ابو لہب جو رسولؐ اللہ کا بدترین دشمن تھا ایک دن اس کا ضمیر بھی اس تشدد کو دیکھ کر یہ اعلان کرنے پر مجبور ہو گیا کہ وہ رسولؐ اللہ کو پناہ دے گا اور آپؐ  کے دشمنوں سے آپؐ  کی حفاظت کرے گا!! لیکن رسولؐ اللہ اسے اس کی پناہ واپس لوٹا دیتے ہیں اور خود تنہا کھڑے قربانی پیش کرتے جاتے ہیں۔ کوئی نہیں جو آپؐ سے اس تشدد کو روکے اور آپؐ  کا دفاع کرے کیونکہ کوئی یہ طاقت ہی نہیں رکھتا کہ وہ اس تشدد کو روک سکے۔  حتیٰ کہ عظیم المرتبت ابوبکرؓبھی اس صورتِ حال پر رونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے!

ایک روز رسولؐ اللہ کعبہ کی طرف جاتے ہیں اور جونہی طواف شروع کرتے ہیں تو انتظار میں بیٹھے اشرافِ قریش ٹوٹ پڑتے ہیں۔ آپؐ  کو گھیرے میں لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں: تم ہو جو ہمارے معبودوں کے بارے میں یہ یہ کہتے ہو؟

آپؐ  پورے سکون و اطمینان سے جواب دیتے ہیں: ہاں!میں ہوں جو یہ کہتا ہوں۔ قریش یہ سنتے ہی آپؐ  پر پل پڑتے ہیں اور آپؐ  کو زدوکوب کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جنابِ ابوبکرؓ ان کی طرف بڑھتے ہیں اور روتے ہوئے کہتے ہیں:کیا تم ایک ایسے آدمی کو مار ڈالنا چاہتے ہو جویہ کہتا ہے کہ اللہ میرا رب ہے؟

جس شخص نے طائف کے روز رسولؐ اللہ کو دیکھا ہو اس نے تو آپ کی صداقت و فدویت کی ایسی نشانی دیکھی ہو گی جو آپؐ  ہی کے شایانِ شان تھی!

رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم ثقیف کی طرف رُخ کرتے ہیں اور انھیں اللہ کی طرف بلاتے ہیں۔ کیا وہی سلوک کافی نہیں جو آپؐ  کی قوم نے آپؐ  سے کیا تھا کہ آپؐ  ایک اور قوم کی جانب چل پڑے ہیں؟ اور پھر اس قوم کے درمیان اور آپؐ  کے درمیان کوئی قرابت داری بھی نہیں کہ وہ اس کا لحاظ رکھتے ہوئے آپؐ  کے ساتھ بات کریں!

نتائج و عواقب کسی بھی صورت میں آپؐ  کے حق میں نہیں تھے کیونکہ آپؐ  کے رب نے آپؐ  سے کہہ دیا تھا کہ عَلَیْکَ الْبَـلَاغ   (تبلیغ تمھارے اوپر فرض ہے)۔ لہٰذا اب آپؐ  کو طائف کی طرف جانا تھا کہ اس کے لوگوں کو بھی اللہ کا پیغام پہنچا دیا جائے۔

جب آپؐ  یہاں پہنچے تو اس علاقے کے اشراف نے آپؐ  کو گھیرے میں لے لیا۔ اِنھوں نے اپنے احمقوں اور اوباشوں کو اُکسایا، حتیٰ کہ مہمان کی عزت اور پناہ طلب کرنے والے کو پناہ دینے کی مقدس ترین عربی خصلت کو بھی بالاے طاق رکھ دیا۔ انھوں نے ان اوباشوں کو آپؐ  کے پیچھے لگادیا اور وہ آپؐ  کو پتھر مارنے لگے ۔

جس کو پتھر مارے جا رہے ہیں، یہ وہ شخص ہے جس کو قریش نے پیش کش کی تھی کہ وہ اتنا مال و دولت اس کے لیے جمع کر دیتے ہیں کہ وہ مکہ کا امیر ترین شخص بن جائے، منصب و اقتدار  ایسا پیش کر دیتے ہیں کہ وہ پوری مکی قوم کا سردار اور بادشاہ بن جائے لیکن اس شخص نے یہ کہتے ہوئے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا کہ: اِنَّمَا اَنَا عَبْدُ اللّٰہِ وَ رَسُوْلُہُ (میں تو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں)۔ میں ان چیزوں کے حصول کے لیے یہ کام نہیں کر رہا ۔ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ (اس کا بدلہ تو مجھے اللہ سے ملنا ہے) اللہ اکبر!

طائف کا وہ منظر دیکھیے جب آپؐ  ایک باغ میں داخل ہو کر اس کی دیوار کی اوٹ لے کر ان احمقوں اور اوباشوں سے محفوظ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپؐ  کا دایاں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا ہوا ہے اور آپؐ  دعا فرما رہے ہیں اور بایاں ہاتھ چہرے پر رکھ کر پتھروں سے بچائو کے لیے ڈھال بنایا ہوا ہے۔ اپنے مولا و خالق سے عرض کر رہے ہیں:

اِنْ لَمْ یَکُن بِکَ غَضَبٌ عَلَیَّ فَلَا اُبَالِی، وَلٰکِنَّ عَافِیَتَکَ اَوْسَعُ لِی، اگر مجھ پر تو ناراض نہیں تو مجھے کسی کی پروا نہیں لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے۔

کیوں نہیں، آپؐ  تو اللہ کے رسول ہیں۔ آپؐ  بخوبی جانتے ہیں کہ اپنے رب سے کس عظیم ادب کے ساتھ ہم کلام ہونا ہے۔ جب آپؐ  اعلان کرتے ہیں کہ راہِ خدا میں آنے والی تکلیف کی مجھے کوئی پروا نہیں تو آپؐ  اسی طرح یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ آپؐ  کو اس عافیت کی اشد ضرورت ہے جو اللہ کی طرف سے عنایت ہوتی ہے۔

اس طرح کے مواقع پر آپؐ  اپنی ہمت و برداشت اور شجاعت و بسالت پر فخر کرتے ہیں اورنہ اترانے کا اظہار، کیونکہ ایسے فخر کا معنی اللہ پر احسان دھرنا ہے اور جنابِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ چیز کیسے مخفی رہ سکتی تھی۔لہٰذا ایسے مواقع پر شجاعت و برداشت کی جو بہترین تعبیر ہو سکتی تھی وہ اللہ کے سامنے گڑگڑانا اور آہ و زاری کرنا تھا۔یہی وجہ ہے کہ آپؐ  اپنے رب سے گلو گیر آواز میں عرض گزار ہوتے ہیں:

اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِی وَقِلَّۃَ حِیْلَتِی وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ، اَنْتَ رَبُّ المُسْتَضْعَفِیْنَ وَاَنْتَ رَبِّی، اِلٰی مَنْ تَکِلُنِی؟ اِلَی بَعِیْدٍ یَتَجَھَّمُنِیْ اَمْ اِلٰی عَدُوٍ مَلَّکْتَہُ اَمْرِی؟ اِنْ لَمْ یَکُنْ بِکَ عَلَیَّ غَضَبٌ فَلَا اُبَالِی، وَلٰکِنَّ عَافِیَتَکَ ھِیَ اَوْسَعُ لِیْ، اَعُوْذُ بِنُورِ وَجْھِکَ الَّذِی اَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمَاتُ وَصَلُحَ عَلَیْہِ اَمْرُ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ مِنْ اَنْ یَنْزِلَ بِی غَضَبُکَ اَوْ یَحِلَّ عَلَیَّ سَخَطُکَ، لَکَ العُتَبِی حَتّٰی تَرْضٰی وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِکَ، بار الٰہا! میں اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ تجھی سے کرتا ہوں، یا ارحم الرحمین! تو کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی میرا بھی رب ہے۔ تومجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ کسی بیگانے کے جو تندی سے میرے ساتھ  پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنا دیا ہے؟ اگر مجھ پر تو ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی کی ذرا پروا نہیں، لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے۔ میں تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتا ہوں جس سے اندھیرے روشن ہو جاتے ہیں اور دنیا و آخرت کے معاملات کا سدھار اسی پر ہے، کہ مجھ پر تیرا غضب نازل ہو یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو تیری ہی رضا مطلوب ہے۔ یہاں تک کہ تو خوش ہو جائے اور تیرے بغیرکوئی زور اور طاقت نہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی دعوت سے یہ کیسا تعلق اور وابستگی ہے کہ جہاں بھی جاتے ہیں دعوت پیش کرتے ہیںتو شدائد آپؐ  کا استقبال کرتے ہیں۔ ان حالات میں دنیاوی اسباب میں سے کوئی چیز ایسی نہیںجو آپؐ  کی ہمت کو سہارا دیتی اور آپؐ  کی ڈھارس بندھاتی لیکن آپؐ پھر بھی پورے تسلسل کے ساتھ ان حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب طائف سے مکہ کی طرف واپس لوٹتے ہیں تو مایوس نہیں، شکست خوردگی کا احساس نہیں، ناکامی کا خیال نہیں، بلکہ پُرامیدی کی ایک گہری کیفیت ہے جس نے آپؐ کو ڈھانپ رکھا ہے اور اللہ کی راہ میں قربان ہو جانے کا ایک بھرپور جذبہ ہے جو آپؐ  کے اندر موجزن ہے!

آپؐ  قبائل کے پاس جا کر اپنی دعوت ان کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ایک روز قبیلہ کندہ کے پاس جاتے ہیں، ایک روز قبیلہ بنی حنیفہ کے پاس اور اگلے روز قبیلہ بنی عامر کے پاس تشریف لے جاتے ہیں۔ اس طرح یکے بعد دیگرے ہر قبیلے کے پاس پہنچتے ہیں اور ان سب سے یہی کہتے ہیں: میں تمھاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائو اور اس کو چھوڑ کر جن بتوں کی عبادت کرتے ہو، ان سے دست بردار ہو جائو۔

قریب قریب کے قبائل کے پاس جب آپؐ  تشریف لے جاتے تو ابولہب آپؐ  کے پیچھے پیچھے یہ کہتا جاتا کہ اس کی بات نہ ماننا! یہ تمھیں گمراہی کی طرف بلا رہا ہے۔

ان حالات میں لوگوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی مشکل میں ہیں، آپ مومنین و حامیان کی تلاش میں ہیں لیکن ہر جگہ انکار اور دشمنی ہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں نے دیکھا کہ ان سخت حالات کے باوجود آپؐ نے ہر قسم کی سودے بازی سے انکار کیا اور ایمان کے بدلے کوئی دنیاوی قیمت وصول نہ کی، خواہ یہ بادشاہت کی پیش کش ہی کیوں نہ تھی! ان جھلسا ڈالنے والے ایام میں آپؐ  نے اپنے آپؐ  کو قبیلہ بنی عامر بن صعصعہ پر پیش کیا۔ آپؐ  ان کے پاس بیٹھے قرآنِ حکیم کی تلاوت کر رہے تھے اور اللہ کی باتیں بتا رہے تھے کہ انھو ں نے آپؐ  سے پوچھا: اس بارے میں تم کیا کہتے ہو کہ اگر ہم تمھاری بیعت کر لیں، پھر اللہ تعالیٰ تمھیں اپنے مخالفین پرغلبہ عطا کر دے، توکیا تمھارے بعد حکمرانی ہمیں ملے گی؟

رسولؐ اللہ نے جواب دیا: حکمرانی اللہ کی ہے وہ جہاں چاہتا ہے اسے رکھتا ہے۔

بنو عامر نے یہ سنا تو یہ کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ ہمیں تمھارے معاملے کی کوئی ضرورت نہیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا۔ دراصل آپؐ تو ایسے اہل ایمان کی تلاش میں تھے جو اپنے ایمان کو حقیر قیمت پر بیچ ڈالنے والے نہ ہوں۔

لوگوں نے دیکھا کہ ایک چھوٹی سی تعداد آپؐ  کے اوپر ایمان لائی لیکن قلّتِ تعداد کے باوجود اس کے اندر ٹوٹ کر محبت کرنے اور ہر قیمت پر ساتھ چلنے کا جذبہ موجود تھا۔ قریش نے یہ فیصلہ کیا کہ ہر قبیلہ ان اہل ایمان کو سزا سے دوچار کرے گا۔ پھر اچانک آندھی کی مانند تمام مسلمانوں پر تشدد ٹوٹ پڑتا ہے۔ مشرک کوئی ہتھکنڈا ایسا نہیں چھوڑتے جس کو آزما نہ لیا ہو۔ ادھر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام مسلمانوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دیتے ہیں اورخود تن تنہا یہاں رہ کر دشمن کا سامنا کرتے ہیں۔آپ بھی کسی دوسری جگہ پر جا کر کیوں اللہ کا پیغام نہیں پہنچاتے، اللہ تو تمام جہانوں کا رب ہے اکیلے قریش ہی کا نہیں۔آپؐ  اپنے ان ساتھیوں کو کیوں اپنے پاس نہیں رکھ لیتے کہ ان کے یہاں رہنے میں یقینی فائدہ ہے۔ کیونکہ قلت تعداد کے باوجود وہ لوگوں کو اللہ کے دین میں داخل ہونے کے لیے آمادہ کر سکتے ہیں اور پھر ان میں قریش کی اعلیٰ قیادت میں سے بھی کچھ افراد شامل ہیں جو بہرحال ایک قوت و طاقت اور اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

اس مقام پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت روشن ہو کر سامنے آتی ہے کہ آپؐ  کوئی فساد کرنا چاہتے ہیں نہ اندرونی جنگ بھڑکانے کا ارادہ رکھتے ہیں خواہ اس صورت میں آپؐ  کو مدد پہنچنے کا امکان بلکہ یقین ہی کیوں نہ ہو۔

اس موقعے پر آپؐ کی انسانیت اور رحمت واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ آپؐ  اپنی وجہ سے مومنوں کو مبتلائے عقوبت نہیں دیکھ سکتے۔ کیوںکہ آپؐ  کو اس بات پر یقین تھا کہ قربانی ہر عظیم دعوت اور بامقصد جہاد کا خراج ہوتی ہے، لہٰذا جب اس قربانی سے مفر نہیں تو اسے پیش کرنا ہی چاہیے۔

انسانیت اور رسالت دونوں چیزیں آقائے نامدار جنابِ محمد بن عبد اللہ کے اندر پوری شدت کے ساتھ یک جا ہو گئی تھیں۔ جن لوگوں نے آپؐ  کی رسالت میں شک کیا وہ آپؐ  کی عظمت اور انسانیت کے لیے محبت میں شک نہیں کر سکے۔ اور اللہ تعالیٰ ایسی ذات ہے جو اس بات کا بہترین علم رکھتا ہے کہ اسے اپنی رسالت کو کہاں رکھنا ہے۔ اسی لیے اس نے جس انسان کو اس منصب کے لیے چنا اس کو ایسی رفعت، بلندی اور امانت سے سرفراز کیا کہ انسانیت اس کے حصول کی خواہش بھی اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتی۔ لوگوں نے دیکھا اور سنا کہ آپؐ  کسی کو ڈانٹ بھی پلاتے ہیں تو اس شخص کی حد درجہ تعظیم کے ساتھ یہ کام کرتے ہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ حددرجہ سے بھی کہیں بڑھ کر یہ کام کرتے ہیں۔ آپؐ  اس بات سے بھی منع کر دیتے ہیں کہ جب آپؐ تشریف لائیں تو بیٹھے ہوئے لوگ آپؐ  کے اعزاز میں کھڑے ہو جائیں۔ ایک بار جب ایسا موقع پیش آیا تو آپؐ  نے فوراً اس کی تصحیح کرتے ہوئے فرمایا:

لَا تَقُوْمُوْا کَمَا یَقُومُوا الاَعَاجِمُ، یُعَظِّمُ بَعْضُھُمْ بَعْضًا ،اس طرح کھڑے نہ ہوا کرو جس طرح عجمی لوگ کھڑے ہوتے ہیں کہ ان میں سے کچھ لوگ کچھ کو بڑا سمجھتے ہیں۔

آپؐ کے بیٹے جنابِ ابراہیم کی وفات کے روز سورج کو گرہن لگ گیا تو لوگ یہ کہنے لگے کہ ابراہیم کی وفات کے غم میں ایسا ہوا ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی وقت اٹھے اور اس  بے بنیاد تصور اور دعویٰ کو لوگوں کے ذہنوں میں پختہ ہونے سے پہلے ہی محو کرڈالا۔ آپؐ  منبرپر جلوہ افروز ہوئے اور لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا:

اِنَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ، لَا یَنْخَسِفَانِ لِمَوتِ اَحَدٍ وَلَا لِحَیَاتِہٖ،سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ کسی کی موت اور زندگی پر گرہن زدہ نہیں ہوتے۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اس بات کا علم الیقین رکھتے تھے کہ آپؐ  حیاتِ انسانی کو بدلنے کے لیے مبعوث کیے گئے ہیں۔ آپؐ  صرف قریش کی طرف بھیجے گئے رسول نہیں ہیں، نہ صرف عرب کی طرف مبعوث کیے گئے ہیں بلکہ آپؐ  تو ساری کائنات کے لیے رسول بنائے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی بصیرت کو اس انتہا تک کھول دیا تھا جہاں تک آپؐ  کی دعوت کو پہنچنا اور آپؐ  کے جھنڈے کو لہرانا تھا۔ آپؐ نے یقین کی آنکھ سے اس دین کے مستقبل کو دیکھ لیا تھا جس کی آپؐ  دوسروں کو خوشخبری دیتے تھے، اور اس دوام کا بھی مشاہدہ کر لیا تھا جو عنقریب اس دین کو عطا ہونے والا تھا کہ اللہ روے زمین کا آپؐ  کو وارث بنا دے گا۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود آپؐ  اپنی ذات، اپنے دین اور اپنی کامیابی کو جس کی زمین نے کوئی مثال نہیں دیکھی، عمارت میں ایک اینٹ کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔آپؐ  پوری وضاحت کے ساتھ اعلان کرتے ہیں:

مَثَلِی وَ مَثَلُ الاَنْبِیَائِ قَبْلِیِ، کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَاَحْسَنَہُ وَاَجْمَلَہُ اِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَۃٍ فِی زَاوِیَۃٍ مِنْ زَوَایَاہُ، فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوْفُوْنَ بِہِ وَیَعْجَبُوْنَ لَہُ، وَ یَقُوْلُوْنَ: ھَلَّا وُضِعَتْ ھٰذِہِ اللَّبِنَۃُ؟ فَاَنَا تِلْکَ اللَّبِنَۃُ وَ اَنَا خَاتَمُ النَّبِیّٖنَ ، میری اور مجھ سے قبل کے انبیا ؑ کی مثال اس آدمی جیسی ہے جو ایک مکان بنائے اوراس کو آراستہ پیراستہ کرے مگر ایک کونے میں ایک اینٹ لگانا چھوڑ دے۔ لوگ اس مکان کو دیکھنے کے لیے اس کے اردگرد گھوم رہے ہوں اور اس پر پسندیدگی کا اظہار کر رہے ہوں اور یہ بھی کہہ رہے ہوں کہ یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی؟ (انبیاء کی عمارت) میں یہ اینٹ میں ہوں (جو ابھی لگنا باقی تھی) اور میں خاتم النبیینؐ ہوں!

یہ ہیں معلّمِ انسانیت اور خاتمِ انبیا !جناب محمد رسولؐ اللہ!

بندئہ مومن ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے عطا کی اُمید رکھتا ہے اور ہمیشہ اُس سے مانگتا ہے۔ خزانے اُس کے ہیں مگر ختم نہ ہونے والے خزانے ہیں: وَ اِنْ مِّنْ شَیْ ئٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآئِنُہٗ وَمَا نُنَزِّلُہٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ (الحجر ۱۵:۲۱) ’’کوئی چیز ایسی نہیں ہے جس کے خزانے ہمارے پاس نہ ہوں، اور جس چیز کو بھی ہم نازل کرتے ہیں ایک مقرر مقدار میں نازل کرتے ہیں‘‘۔

حدیث قدسی کا مفہوم ہے: ’’اے میرے بندو! اگر تمھارا اوّل و آخر شخص اور تمام جِنّ و انس ایک جگہ کھڑے ہوکر (بیک وقت) مجھ سے مانگیں اور میں ہرایک کو اس کی طلب کے مطابق عطا کردوں، تو یہ چیز میرے خزانے میں صرف اتنی سی کمی کرسکتی ہے جتنی سوئی سمندر میں ڈبو کر باہر نکالنے سے ہوتی ہے‘‘۔ (مسلم، ۲۵۷۷)

یہ حدیث اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کی طرف اشارہ ہے۔ بندۂ مومن کی نگاہ بڑے سے بڑے معاملے سے لے کر چھوٹے سے چھوٹے امر میں بھی اللہ ہی کو اپنا حاجت روا اور مشکل کشا دیکھتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی تعلیم فرمائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تم میں سے ہرشخص کو اپنی ہرحاجت اور ضرورت کا سوال اپنے رب سے کرنا چاہیے۔ یہاں تک کہ اگر اُس کے جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو وہ بھی اللہ ہی سے مانگے‘‘۔ (صحیح ابن حبان)

جب مسلمان کو یہ معلوم ہوجائے کہ ہرقسم کی نعمتوں کا خزانہ اللہ کے ہاتھ میں ہے تو     پھر مومن کا فرض ہے کہ وہ قبولیت کے تصور بلکہ یقین کے ساتھ اللہ سے دعا کرے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا: اللہ سے دعا کرو تو تمھیں اس کی قبولیت کا یقین ہونا چاہیے۔ (مستدرک حاکم، ترمذی)

  •  صرف اللہ ہی سے دُعا کرنا:عبادت کو اللہ کے لیے خالص کرنا ہر عبادت کی اصل اور عمل کی اساس ہے:

فَادْعُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَo(المؤمن ۴۰:۱۴)     (پس اے رجوع کرنے والو) اللہ ہی کو پکارو اپنے دین کو اُس کے لیے خالص کر کے، خواہ تمھارا یہ فعل کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔

قرآن مجید کا بیان ہے:

وَ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلَّآ اِیَّاہُ ج فَلَمَّا نَجّٰکُمْ اِلَی الْبَرِّ اَعْرَضْتُمْ  ط وَ کَانَ الْاِنْسَانُ کَفُوْرًا o (بنی اسرائیل ۱۷:۶۷) جب سمندر میں تم پر مصیبت آتی ہے تو اُس ایک (اللہ) کے سوا دوسرے جن جن کو تم پکارتے ہو وہ سب گم ہوجاتے ہیں، مگر جب وہ تم کو بچا کر خشکی پر پہنچا دیتا ہے تو تم اُس سے منہ موڑ جاتے ہو۔ انسان واقعی بڑا ناشکرا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرمایا ہے: اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْٓ ئَ (النمل ۲۷:۶۲) ’’کون ہے جو بے قرارکی دُعا سنتا ہے، جب کہ وہ اُسے پکارے اور کون اس کی تکلیف رفع کرتا ہے؟‘‘

آدابِ دعا میں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنے کی ہے کہ دعا کا آغاز خالق ارض و سما کی حمدوثنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے صلاۃ و سلام سے کیا جائے۔ حضرت فضالہ بن عُبیدؓ روایت کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے ایک آدمی کو سنا کہ اُس نے نماز میں نہ اللہ کی حمدوثنا کی، نہ رسولِ کریمؐ پر صلاۃ و سلام کی دعا کی۔ اس پر رسولؐ اللہ نے فرمایا: اس شخص نے جلدبازی سے کام لیا ہے۔ پھر اُس آدمی کو بلایا اور اُس سے یا کسی اور سے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص نماز ادا کرے تو اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا سے ابتدا کرے۔ پھر نبیؐ پر درو د و سلام کی دعا کرے، پھر جو مانگنا چاہے مانگے‘‘۔ (ترمذی)

  • دل کی حضوری اور نفس کی بیداری:مومن کا یہ عقیدہ ہے کہ ثواب کے خزانے بھی اللہ کے پاس ہیں اور عذاب کا اختیار بھی اُسی کو حاصل ہے۔ قلب ِ مومن ان دونوں احساسات کے ساتھ اپنے رب کے حضور میں پہنچتا ہے۔ اجروثواب کی کشش اور عذاب و عتاب کا خوف ایسی چیزیں ہیں کہ یہ مومن کے لیے حضوری قلب کا سبب بنی رہتی ہیں۔ مومن کی دعا کی شان یہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور حکم بھی یہی ہے کہ دعا و مناجات اور ذکروتسبیحات میں حضوری قلب اختیار کرو:

وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیْفَۃً وَّ دُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَ لَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَo(اعراف ۷:۲۰۵) اے نبیؐ!  اپنے رب کو  صبح و شام یاد کیا کرو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ۔ تم اُن لوگوں میں سے نہ ہوجائو، جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے کہ اللہ سے دعا کرو تو قبولیت کا یقین رکھتے ہوئے کرو، یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ غافل و لاپروا دل کی دعا کبھی قبول نہیں فرماتا۔ (مستدرک حاکم ،  ترمذی)

  • عزم و پختہ یقین سے مانگنا: دعا دراصل انسان کی عاجزی و بے بسی ، ناتوانی و کمزوری اور تہی دامنی کا اظہار ہے۔ رب کی قدرتِ کاملہ اور اس کے وسیع خزانوں کا اقرار ہے۔اللہ تعالیٰ کی عطا و بخشش کا اعتراف ہے۔ دنیا و آخرت کی ہر بھلائی مومن اس سے مانگتا اور دنیا کی ہرطاقت کو  اللہ کے سامنے ہیچ سمجھتا ہے۔ مومن جس یقین کے ساتھ یہ عقیدہ رکھتا ہے اُسے اللہ تعالیٰ کے سامنے دعا کرتے ہوئے بھی اسی عزم و یقین سے کام لینا چاہیے۔ رسولؐ اللہ نے اسی لیے دعا میں استثنا کے اظہار سے منع فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو وہ انکسار و تواضع کا پورا زور اُس میں صرف کرے اور یہ نہ کہے کہ اے اللہ!اگر تو چاہے تو عطا فرما دے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس دعا کو اُس کے لیے نامطلوب نہیں بنانا چاہتا‘‘۔ (بخاری، مسلم)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو یہ نہ کہے کہ اے اللہ اگر تو چاہے تو معاف فرما دے، بلکہ اپنے سوال میں زور پیدا کرے اور اپنی طلب میں رغبت کو بڑھائے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی چیز گراں بار نہیں جسے وہ عطا نہ فرما سکے‘‘۔(بخاری، مسلم)

  •  دُعاے مستضعفین: اہل طائف کے بدترین ردعمل کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بارگاہِ رب میں دستِ دُعا بلند فرمائے:

اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِی وَقِلَّۃَ حِیْلَتِی وَھَوَانِیْ عَلَی النَّاسِ یَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِیْنَ، اَنْتَ رَبُّ المُسْتَضْعَفِیْنَ وَاَنْتَ رَبِّی، اِلٰی مَنْ تَکِلُنِی؟ اِلَی بَعِیْدٍ  یَتَجَھَّمُنِیْ اَمْ اِلٰی عَدُوٍ مَلَّکْتَہُ اَمْرِی؟ اِنْ لَمْ یَکُنْ بِکَ عَلَیَّ غَضَبٌ فَلَا أُبَالِی، وَلٰکِنَّ عَافِیَتَکَ ھِیَ اَوْسَعُ لِیْ، اَعُوْذُ بِنُورِ وَجْھِکَ الَّذِی اَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمَاتُ وَصَلُحَ عَلَیْہِ اَمْرُ الدُّنْیَا وَالآخِرَۃِ مِنْ اَنْ یَنْزِلَ بِی غَضَبُکَ اَوْ یَحِلَّ عَلَیَّ سَخَطُکَ، لَکَ العُتَبِی حَتّٰی تَرْضٰی وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِکَ ، بار الٰہا! میں اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ تجھی سے کرتا ہوں، یا ارحم الراحمین! تو کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی میرا بھی رب ہے۔ تومجھے کس کے حوالے کر رہا ہے؟ کسی بیگانے کے جو تندی سے میرے ساتھ پیش آئے؟ یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملے کا مالک بنا دیا ہے؟ اگر مجھ پر تو ناراض نہیں ہے تو مجھے کسی کی ذرا پروا نہیں، لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے۔ میں تیرے چہرے کے اس نور کی پناہ چاہتاہوں جس سے اندھیرے روشن ہو جاتے ہیں اور دنیا و آخرت کے معاملات کا سدھار اسی پر ہے، کہ مجھ پر تیرا غضب نازل ہو یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو، تیری ہی رضا مطلوب ہے یہاں تک کہ تو خوش ہو جائے اور تیرے بغیرکوئی زور اور طاقت نہیں۔

  •  دُعاے بدر :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفیں درست کرکے واپس آتے ہی اپنے پاک پروردگار سے نصرت و مدد کا وعدہ پورا کرنے کی دُعا مانگنے لگے۔ آپؐ کی دُعا یہ تھی:

اَللّٰھُمَّ اَنْجِزْلِی مَا وَعَدْتَّنِیْ، اَللّٰھُمَّ اَنْشُدُکَ عَھْدَکَ وَ وَعْدَکَ ،اے اللہ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا فرما دے۔ اے اللہ! میں تجھ سے تیرا عہد اور تیرے وعدے کا سوال کررہا ہوں۔

پھر جب گھمسان کی جنگ شروع ہوگئی تو آپؐ نے یہ دُعا فرمائی:

اَللّٰھُمَّ اِنْ تَھْلِکْ ھٰذِہِ العِصَابَۃُ الْیَوْمَ لَا تُعْبَدُ، اَللّٰھُمَّ اِنْ شِئْتَ لَمْ تُعْبَدْ بَعْدَ الْیَوْمِ اَبَدًا،اے اللہ! اگر آج یہ گروہ ہلاک ہوگیا تو تیری عبادت نہ کی جائے گی۔ اے اللہ! اگر تو چاہے تو آج کے بعد تیری عبادت کبھی نہ کی جائے۔

آپؐ نے خوب تضرع کے ساتھ دُعا کی۔ یہاں تک کہ دونوں کندھوں سے چادر گرگئی۔ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے چادر درست کی اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ!بس فرمائیے! آپؐ نے اپنے رب سے بڑے الحاح کے ساتھ دُعا فرمالی۔ ادھر اللہ نے فرشتوں کو وحی کی کہ:

اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ (الانفال۸:۱۲) میں تمھارے ساتھ ہوں، تم اہلِ ایمان کے قدم جمائو، میں کافروں کے دل میں رُعب ڈال دوں گا۔

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی بھیجی کہ:

اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ (الانفال۸:۹) ’’میں ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ تمھاری مدد کروں گا جو آگے پیچھے آئیں گے۔

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جھپکی آئی۔ پھر آپؐ نے سر اُٹھایا اور فرمایا: ’’ابوبکرؓ خوش ہوجائو، یہ جبریل ؑ ہیں ، گردوغبار میں اَٹے ہوئے‘‘۔ ابن اسحاق کی روایت میں ہے آپؐ نے فرمایا:’’ ابوبکرؓ خوش ہوجائو، تمھارے پاس اللہ کی مدد آگئی۔ یہ جبریل ؑ ہیں، اپنے گھوڑے کی لگام تھامے اور اس کے آگے آگے چلتے ہوئے آرہے ہیں اور گردوغبار میں اَٹے ہوئے ہیں‘‘۔

  • قبولیت کے لیے جلدبازی نامطلوب:عموماً دعا کرنے والا اپنی تکلیف سے نجات یا نعمت کے حصول کے لیے دعا کا سہارا تو لیتا ہے مگر جلدبازی کرتا ہے۔ انسان کی یہ جلدبازی قبولیت ِ دعا میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اُس کی دعا قبولیت کو ابھی پہنچ نہیں پاتی کہ وہ ہمت ہار بیٹھتا ہے اور دُعا کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جب تک بندہ کسی گناہ کے کام یا رشتہ داری توڑنے کے لیے دعا نہیں کرتا ، یا جلدی کا طالب نہیں ہوتا اُس کی دعا قبول ہوتی رہتی ہے۔ پوچھا گیا: یارسولؐ اللہ! جلدی سے کیا مراد ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اُس کا   یہ کہنا کہ میں تو دعا کرکر کے تھک گیا ہوں، مجھے نہیں دکھائی دیتا کہ میری دعا قبول ہوگی۔ پھر اس مرحلے پر پہنچ کر وہ دعا کرنا چھوڑ دیتا ہے‘‘۔(مسلم)

بندۂ مومن قبولیت ِ دعا میں ایسی نامطلوب عجلت کا متمنی کیسے ہوسکتا ہے کیوںکہ اللہ کئی اسباب اور وجوہ کی بنا پر قبولیتِ دعا کو مؤخر کرسکتا ہے اور یہ تاخیر بھی مومن کے لیے باعث ِ خیر ہوتی ہے۔ جب بندئہ مومن کی دعائیں قبول نہ ہورہی ہوں تو اُسے اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ اللہ سے اپنے    تمام گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے اور ساتھ ساتھ اپنی حاجت و ضرورت کو بھی کمال ترین تواضع کے ساتھ مسلسل اپنے رب کے سامنے پیش کرتے رہنا چاہیے۔ وہ اپنی درخواست کی منظوری کا شدید حریص ہو اور بار بار اس عرض کو بارگاہ الٰہ العالمین میں پیش کرے۔ دعا کی قبولیت اور عدم قبولیت دونوں صورتوں میں دعا کا یہ مسلسل عمل اس کے لیے سراسر خیرواجر کا سبب بنے گا۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو مسلمان بھی اللہ سے کوئی دعا کرے اور اس میں گناہ کا عمل نہ ہو اور قطع رحمی کا سوال نہ ہو تو اللہ تعالیٰ دُعا کرنے والے کو تین میں سے ایک چیز عطا کردیتا ہے۔ یا تو اُس کی دعا فوراً قبول ہوجائے گی، یا اس دعا کو آخرت میں اُس کے لیے ذخیرہ کردیا جائے گا، یا اس دعا میں مانگی گئی چیز کے برابر کسی بڑی مصیبت کو ٹال دیا جائے گا‘‘۔(مسنداحمد)

یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ کسی دعا کی قبولیت کا عمل طویل عرصے کے لیے بھی مؤخر ہوسکتا ہے۔ حضرت ایوبؑ کی بیماری سے شفا اور حضرت یوسف ؑ کی واپسی کے لیے حضرت یعقوب ؑ کی دعائیں اِس کی واضح مثال ہیں۔ حالاںکہ یہ دونوں ہستیاں زمرئہ انبیا ؑمیں شامل ہیں۔ لہٰذا ناگزیر ہے کہ بندۂ مومن اپنے رب کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو اور دعا کا عمل کبھی ترک نہ کرے۔ دعا بذاتِ خود اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے جو ہر صورت اور شکل میں بندے کے لیے خیروفلاح کی ضامن ہے۔

  • سرگوشی و شائستگی کا انداز :دعا ایک عرض، درخواست اور التجا ہے۔ جس طرح دنیاوی اُمور میں اس کے آداب میں نرمی، شائستگی اور ادب کا ملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے، اس سے ہزار گنا زیادہ رب کے سامنے پیش ہونے والی درخواست، یعنی دعا میں اس کو ملحوظ رکھنا ناگزیر ہے۔ ان اُمور میں سے ایک بات آواز کو ہلکا اور مدھم رکھنا ہے۔ خود قرآنِ مجید کے اندر اللہ تعالیٰ نے انسانوں سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ: اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً ط اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَo (اعراف ۷:۵۵) ’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے، یقینا وہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔

حضرت ابوموسیٰؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ لوگوں نے ایک موقعے پر بلندآواز سے تکبیر پڑھنا شروع کر دی۔ اس پر نبی کریمؐ نے فرمایا: لوگو! اپنے اُوپر ترس کھائو، تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے، بلکہ سمیع اور قریب کو پکار رہے ہو اور وہ تمھارے ساتھ ہے۔(بخاری، مسلم)

بعض لوگ جذبات میں دعائیہ کلمات کو ایسے لب و لہجے میں ادا کرتے ہیں گویا اللہ سے دعا نہیں کی جارہی، بلکہ اُسے حکم دیا جا رہا ہے۔ ظلم کی شدت اور انتہا کا اثر یہ نہیں ہونا چاہیے کہ انسان دعا کے اندر شائستگی اور نرمی ہی کو بھول جائے۔ ایسی دعا تو زیادہ سے زیادہ رازدارانہ انداز میں ہونی چاہیے۔

  • وقتِ سحر و نیم شبی:رات کا پچھلا پہر، نیم شب، وقت ِ سحر ، رب سے اپنا مافی الضمیر بیان کرنے اور اُس سے مانگنے کا بہترین اور خاص موقع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہمارا رب روزانہ رات کو آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے۔ جب رات کی آخری تہائی باقی رہ جاتی ہے تو فرماتاہے: کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اُس کی دعا کو قبول کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے اور میں اُسے عطا کروں؟ کوئی ہے جو مجھ سے گناہوں کی مغفرت طلب کرے اور میں اُسے معاف کردوں؟‘‘ (بخاری، مسلم)

حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسولؐ اللہ کو فرماتے سنا کہ: ’’رات کی ایک ساعت ایسی ہے جس میں کوئی مسلمان اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کے کسی امر میں خیر مانگے تو اللہ اُسے وہ عطا کردیتا ہے اور یہ روزانہ کا عمل ہے‘‘۔ (مسلم)

نماز ایک ایسا عمل ہے جو اوّل و آخر ذکر و تسبیحات اور دعا و مناجات پر مشتمل ہے۔ نماز کے کسی بھی حصے میں دعا کی جائے تو اس کی قبولیت کے امکانات اسی قدر روشن ہوتے ہیں جس قدر دعا میں اخلاص و للہیت اور عاجزی و انکساری ہو۔ نماز کی اس اہمیت کے باوجود ایک خاص کیفیت ایسی ہے جو نماز ہی کا حصہ ہے مگر یہ اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حالت ِ سجدہ میں بندہ اپنے رب سے قریب ترین ہوتا ہے‘‘۔(مسلم)

  • حرام رزق کے منفی اثرات: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگو! یقینا    اللہ تعالیٰ طیب ہے اور طیب (پاک) چیزوں کو ہی قبول کرتا ہے، اور اللہ نے مومنین کو بھی وہی حکم دیا ہے جو مُرسلین کو دیا ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

یٰٓاَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا ط(المومنون ۲۳:۵۱) اے پیغمبرو ؑ! پاک اور طیب چیزیں کھائو اور صالح عمل کرو۔

اور (دوسری جگہ) فرمایا:

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ (البقرہ ۲:۱۷۲) اے    اہلِ ایمان! ہم نے تمھیں جو پاکیزہ رزق دیا ہے اس سے کھائو۔

پھر آپؐ نے اُس شخص کا ذکر کیا جو طویل سفر کرتا ہے جس سے اس کے بال اُلجھے ہوئے اور جسم غبارآلود ہوجاتا ہے۔ وہ اسی حالت میں آسمان کی طرف متوجہ ہوکر دست ِ دعا دراز کرتا ہے۔ کہتا ہے: اے رب! اے رب! جب کہ اس کا کھانا حرام، اس کا پینا حرام، اس کا لباس حرام، اور اس کی پرورش بھی حرام غذا سے ہوئی ہوتی ہے، تو پھر کیسے اس کی دعا قبول ہوگی؟(مسلم، ۱۰۱۵)

  • دُعا مومن کا ہتھیار: امام ابن قیمؒ کے مطابق مصائب و مشکلات میں دعا کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں:

                ۱-            اگر دعا مصیبت سے قوی تر ہو تو مصیبت سے نجات کا ذریعہ بن جائے گی۔

                ۲-            اگر مصیبت سے دعا کمزور ہے تو مصیبت اُس کے اُوپر غلبہ پا لے گی اور بندہ اُس سے دوچار ہوجائے گا۔ لیکن اس دعا کا اتنا فائدہ ضرور ہوگا کہ مصیبت کی شدت کم ہوجائے گی۔

                ۳-            اگر مذکورہ دونوں صورتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو تو دونوں باہم کش مکش اور تصادم کے دوران ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔(الجواب الکافی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی چاہتا ہو کہ کرب و بلا اور مصائب میں اُس کی دعا قبول ہو، تو وہ خوش حالی اور سلامتی کے زمانے میں کثرت سے دعا کرے۔ (ترمذی)

جب تمام سہارے ختم ہوجائیں، تمام اسباب بے کار ہوجائیں تو مومن کے پاس دعا کی صورت میں پھر بھی ایک مضبوط سہارا باقی ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے:

وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ط اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ o(البقرہ ۲:۱۸۶) اور اے نبیؐ! میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں تو انھیں بتادو کہ میں اُن سے قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اُس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا، اُنھیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں، شاید کہ وہ راہِ راست پالیں۔

قرآنِ مجید انسانیت کے لیے کتابِ ہدایت و اصلاح ہے۔ یہ فرد اور جماعت، حکمران اور عوام، قوموں اور ریاستوں کے لیے یکساں طور پر ضابطۂ ہدایت ہے۔ اس کا مقصدِ نزول ہی یہ ہے کہ انسانی زندگی کے تمام گوشوں اور پہلوئوں میں اس کی رہنمائی کی جائے اور اُسے درست راستے پر چلایا جائے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ مسلمان انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ایک لمحے تو اس کو اپنا حاکم اور مقتدا مانتے ہیں اور دوسرے ہی لمحے اس کی طرف سے توجہ ہٹا لیتے ہیں۔ کسی واقعے میں قرآن اُن کے لیے قانون اور دستور ہوتا ہے اورکسی واقعے میں اس سے قانونی رہنمائی لینے کی وہ ضرورت محسوس نہیں کرتے۔قرآن جہاں لوگوں کے مفادات، خواہشات، میلانات اور ضروریات کے مطابق ہو وہاں لوگ آگے بڑھ کر اس کو بیچ میں لاتے اور اس کو حَکم مانتے ہیں، لیکن جہاں معاملہ اس کے برعکس ہو وہاں لوگ اس سے دُوری میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔آج ہر گھر میں قرآن موجود ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں قرآن کے ایک سے زائد نسخے موجود نہ ہوں۔ پرنٹ میڈیا کی مطبوعات اور الیکٹرانک میڈیا کی نشریات میں قرآن کے بلاواسطہ پیغام کا اظہار دن رات کا معمول ہے۔ دنیاے اسلام میں سیکڑوں ہزاروں نہیں لاکھوں حفاظِ قرآن موجود ہیں۔ یہ سب کچھ ہے، لیکن اس سب کے باوجود وہ نتائج سامنے نہیں آ رہے جو آنے چاہییں۔

اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم وہ شرائط پوری نہیں کر رہے جو قرآن کسی بھی دل کے اندر اپنے اثرات چھوڑنے کے لیے طلب کرتا ہے۔ قرآن کے مفہوم کی تعلیم زبان سے اس کے حروف کی ادایگی کی تعلیم تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ آج بیش تر حفاظ اور قراء قراء تِ قرآن کے ماہر ہیں، لیکن اس کے مفہوم و مقصود سے ناآشنا ہیں۔ یہ کوئی معمولی معاملہ نہیں ہے بلکہ حاملین قرآن کی   اس صورتِ حال نے اُمتِ مسلمہ کے اندر بیداری کی روح کو بھی متاثر کررکھا ہے۔ قرآن کی تعلیم اور تدریس سے وابستہ افراد کی ایک بڑی تعداد معاملات کو سلجھانے، عوام کی رہنمائی کرنے اور   حق و ناحق کے خلط ملط ہوتے تصورات کو چھانٹ کر بیان کرنے کی کماحقہ صلاحیت نہیں رکھتی۔   یہ صورتِ حال جہاں حاملین قرآن کے اعلیٰ طبقے معلّمین و مدرّسین اور حفاظ و قراء ِ قرآن کی کثیر تعداد میں موجود ہے وہاں امت کے عام افراد میں اس کا گراف مزید پست ہے۔ یہ کیفیت قرآن کے ساتھ روا رکھے جانے والے اس سرسری تعلق اور سلوک کا نتیجہ ہے جس کو ہم اپنی زندگیوں کا ایسا معمول بنائے ہوئے ہیں کہ ذرا رُک کر اس پر غور کرنے کی ضرو رت محسوس نہیں کرتے۔

قرآنِ مجید اور اس کے علوم کالجوں، یونی ورسٹیوں، دینی مدارس اور اسلامی اداروں کے مقالات اور خطابات کا موضوع ہوتے ہیں۔ علمی اور فکری کانفرنسوں میں بڑے بڑے مقالے پیش کیے جاتے ہیں۔ کتب لکھی جاتی ہیں۔ مسائل اور موضوعات پر بحثیں ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ یوں ہوتا اور پیش کیا جاتا ہے گویا عملی طور پر مسلمان قرآنِ کریم کے بغیر کوئی کام انجام نہیں دیتے، قرآن او رعلومِ قرآن کے ساتھ گہرا شغف رکھتے ہیں۔ اس کی تعلیمات اور احکام کے دل و جان سے گرویدہ ہیں۔ حکومتوں کا طرزِ حکمرانی عین اسلام کے مطابق ہے۔ اس سے سرمو انحراف نہیں کیا جاتا۔ ان مقالات، کتب، تقریروں، لیکچروں اور گفتگوئوں میں کوئی لفظ، کوئی مسئلہ، کوئی قضیہ ایسا نہیں چھوڑا جاتا جس کے اوپر بحث و تحقیق کی انتہا نہ کر دی جائے۔

سوال یہ ہے کہ ان سرگرمیوں سے عام انسانی زندگی کس قدر مستفید ہوتی ہے؟ کیا یہ   دل و دماغ، روح و ضمیر اور اخلاق و کردار کے اندر زندگی پیدا کرتے ہیں؟ کیا ان سے انسانوں کے ایمانی و اعتقادی، ثقافتی و نظریاتی اور قدری و روایاتی انحرافات میں کوئی اصلاح ہوتی ہے؟

اصحابِ علم و معرفت اور علومِ قرآن کے اہلِ اختصاص کا فرض ہے کہ وہ قرآن کو فلسفیانہ موشگافیوں سے دُور رکھ کر عام مسلمانوں کے لیے ذریعۂ ہدایت بنائیں۔ وقت کی ضرورت اور تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر فرد اور معاشرے کی اصلاح کا فریضہ انجام دیں۔جامعاتی تحقیقات،   علمی رسائل و جرائد، ادارہ جاتی اور نشریاتی پروگراموں اور سرگرمیوں میں بھی اس پہلو پر بہت زیادہ توجہ اور خصوصی جدوجہد کی ضرورت ہے کہ یہ معلوم کرنے کی کوشش کی جائے کہ قوموں کی زندگی پر  قرآنِ مجید کس طرح سے اثرانداز ہو سکتا ہے؟ اُن کی بیداری و تبدیلی کا کیوںکر ذریعہ بن سکتا ہے؟ ان کی تجدید و احیا کا رہنما کس انداز میں ہو سکتا ہے؟ مسلمانوں کے اجتماعی نظام اور باہمی تعلقات میں قرآن کی تاثیر کہاں تک ہے اور کہاں تک ہونی چاہیے؟ تعمیر و ترقی اور خوش حالی کے لیے کیسا محفوظ و متوازن پروگرام وضع کیا جا سکتا ہے؟ یہ سب کچھ نظری تحقیقات سے نکل کر عملی زندگی کا حصہ بننا چاہیے۔

فھم و تدبر قرآن

اس مقصد کے حصول کے لیے قرآن کے مطالعے اور تلاوت کی ناگزیر ضرورت ہے تاکہ  تلاوتِ قرآن کا وہ حق ادا ہو جائے جس کے نتیجے میں تلاوت کرنے والا حقیقی صاحبِ ایمان بنتا ہے:

اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ  حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ط اُولٰٓئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ ط وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَo(البقرہ۲:۱۲۱) جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اُسے اُس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے وہ اِس (قرآن) پر سچے دل سے ایمان لے آتے ہیں۔اور جو اِس کے ساتھ کفر کا رویّہ اختیار کریں، وہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!  اس کی تلاوت کا حق یہ ہے کہ پڑھنے والا اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام جانے، جس طرح اللہ نے اسے نازل کیا ہے اُسی طرح اس کو پڑھے، اس کے الفاظ و کلمات میں کسی قسم کی تحریف    نہ کرے، اور اس کی کوئی غیرحقیقی تاویل نہ کرے۔

اس طرز کی تلاوت اور تعلیم ہی سے مطلوب تزکیے اور تقویٰ و طہارت کا حصول ممکن ہے۔ اس میں شک نہیں کہ قرآنِ مجید کی مجرد تلاوت بھی باعثِ برکت اور حصولِ ثواب کا ذریعہ ہے،   مگر اس حقیقت سے کسی کو مفر نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے صرف تلاوت ہی کے لیے قرآن نازل نہیں فرمایا، نہ اس لیے نازل کیا ہے کہ خوب صورت خطاطی میں اس کی آیات دیواروں کی زینت بنائی جائیں، نہ اس لیے نازل کیا ہے کہ مُردوں کے لیے رحمت و مغفرت کی غرض سے اسے پڑھا جائے، اور نہ محض اس لیے نازل کیا ہے کہ اسے خوش الحانی سے تلاوت کرنے کے لیے قراء ت کانفرنسیں منعقد کی جائیں۔قرآنِ مجید اس لیے نازل ہوا ہے کہ اپنی ہدایت و رہنمائی سے انسان کے سفرِ حیات کو منظم اور منضبط بنا دے۔ زندگی پر ہدایت ِالٰہی اور دینِ حق کی حکمرانی قائم کر دے۔ اپنے نور کی روشنی سے انسانیت کو شاہراہِ ہدایت پر لے آئے اور اندھیروں سے نکال کر روشنیوں میں لا کھڑا کرے۔

اپنی زندگیوں کو قرآن کی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کے لیے یقیناً بہت سے ذرائع ہوسکتے ہیں مگر ان تمام ذرائع میں قرآن ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو انسان کو براہِ راست اپنی     خوب صورت، واضح اور دو ٹوک زبان میں اپنا پیغام سناتا ہے۔ قرآنِ مجید کا یہ پیغام قرآن کے حروف میں پوشیدہ ہے اور یہ حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کی غالب اکثریت اس کو براہِ راست سمجھنے سے قاصر ہے۔ معمول کی تلاوت قرآن کی صورت محض حروف و الفاظ کی حد تک قرآن سے وابستگی ہوتی ہے اور الفاظ کے تلفظ و ترنم کے اندر یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے کہ انسان پر اثر انداز ہو، مگر دلوں کی کیفیت اسی وقت بدلتی ہے جب الفاظ کا معنی و مفہوم انسان کے دل و دماغ اور قلب و شعور میں اتر رہا ہو۔ ہم آیات تو پڑھ لیتے ہیں مگر ان کے اندر بیان کی گئی ہدایات سے یکسر ناآشنا رہتے ہیں۔

ہر صاحبِ ایمان کو قرآن کے ساتھ اپنے اس تعلق پر نظرثانی کی ضرورت ہے کیوںکہ  قرآن کی حقیقی برکت تو اس کے معانی اور مفاہیم میں مضمر ہے اور الفاظ تو ان مفاہیم تک پہنچنے کا ذریعہ اور وسیلہ ہیں۔ اسی بنیاد پر اکتاہٹ اور بے دلی کی کیفیت میں قرآن کی قراء ت سے منع کیا گیا ہے کہ اس طرح قرآن کے الفاظ کی ادایگی تو ہو سکتی ہے، لیکن ان کے مفہوم سے آگاہ ہونا ممکن نہیں ہوتا۔

قرآن کی تلاوت یا سماعت کے وقت تدبر و تفکر کی اہمیت تو قرآن کی اپنی آیات سے واضح ہے۔ قرآن پر عمل کرنے کے لیے قرآن کو سمجھنا اور اس کا فہم حاصل کرنا ضروری ہے اور جب فہم حاصل ہوتا ہے تو یہ دل کے اندر تاثیر چھوڑتا ہے اور یہی تاثیر عمل کا محرک بنتی ہے:

کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہٖ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِo (صٓ۳۸:۲۹) یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔

فہم کا حصول بلاشبہہ الفاظ کی قراء ت کا ہی نتیجہ ہوتا ہے اور اگر فہم حاصل نہ ہو رہا ہو تو محض الفاظ کی قراء ت کیوںکر مطلوب ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسولؐ اللہ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے فرمایا تھا: لَا یَفْقَھُہُ مَنْ یَقْرَوُہُ فِی اَقَلٍّ مِنْ ثَلَاثٍ(صحیح الجامع الصغیر) ’’وہ آدمی اس (قرآن)کو سمجھ نہیں پاتا جو تین دن سے کم وقت میں اس کی قراء ت کر لیتا ہے‘‘۔

جب ہم ہر چیز کو سمجھنے کے لیے توجہ اور غور کے ساتھ اسے پڑھنے کے اصول پر عمل کرتے ہیں تو قرآن کی قراء ت کو اس اصول سے کیوں خارج کر ڈالتے ہیں۔ قرآن کے معاملے میں تو   اس کا سب سے زیادہ لحاظ رکھا جانا چاہیے۔امام ابن تیمیہؒ کہتے ہیں:یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ہرکلام کا مقصد اس کے الفاظ کو نہیں بلکہ مفہوم کو سمجھنا ہوتا ہے اور قرآن اس کا سب سے زیادہ     حق دار ہے کہ اس کے معانی کو سمجھا جائے۔ (مقدمہ فی اصولِ التفسیر: ۷۵)۔امام قرطبیؒ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ ط وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا (النساء ۴:۸۲) کی تفسیر میں کہتے ہیں: یہ آیت قرآن میں تدبر کرنے کے وجوب پر دلالت کرتی ہے تاکہ قرآن کا مفہوم معلوم کیا جا سکے۔(الجامع لاحکام القرآن:۱۸۷)

تاثیرِ قرآن اور تعمیرِ کردار

قرآن کے اعجاز کا سب سے بڑا پہلو اس کی وہ قدرتِ تاثیر ہے جس سے یہ انسان کو اندر سے بدل کر رکھ دیتا ہے ۔ پھر یہ انسان ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کو یوں اپنے سامنے حاضر وموجود پاتا ہے کہ اپنے تمام تر امور و معاملات میں اسی کی عبادت اور اسی کی اطاعت کا دم بھرتا ہے اور تسلیم و رضا کی اس انتہائی بلندی کو پہنچ جاتا ہے جس کے بارے میں خود قرآن ہی کا بیان ہے: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (الانعام۶:۱۶۲)’’کہو میری نماز، میرے تمام مراسمِ عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے‘‘۔

مذکورہ آیت میں جس تبدیلی کا ذکر ہے قرآن انسان کے دل کے اندر اپنا نور داخل کرکے اس تبدیلی کا آغاز کرتا ہے۔ چوںکہ یہ نور اپنے اندر پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے لہٰذا رفتہ رفتہ بڑھتا رہتا ہے اور زندگی بھی اسی رفتار سے اس کی لَو میں چلنے لگتی ہے اور بالآخر یہ انسان ایک نئی زندگی کا آغاز کر لیتا ہے جس سے وہ پہلے آشنا ہوتا ہے نہ اس کا خوگر اور عادی!

قرآنِ کریم نے انسانی دل میں اس نور کے داخل ہونے سے قبل کی زندگی کو موت سے تعبیر کیا ہے اور بعد کی زندگی کو حیات کا نام دیا ہے، فرمایا: اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ وَ جَعَلْنَا لَـہٗ نُوْرًا یَّمْشِیْ بِہٖ فِی النَّاسِ کَمَنْ مَّثَلُـہٗ فِی الظُّلُمٰتِ لَیْسَ بِخَارِجٍ مِّنْھَا (الانعام ۶:۱۲۲)’’کیا وہ شخص جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اسے زندگی بخشی اور اس کو وہ روشنی عطا کی جس کے اجالے میں وہ لوگوں کے درمیان زند گی کی راہ طے کرتا ہے اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو تاریکیوں میں پڑا ہوا ہو اور کسی طرح اُن سے نہ نکلتا ہو‘‘۔

اس اعتبار سے قرآن وہ روح ہے، جو دل میں جاگزیں ہو کر دل کو زندگی سے ہمکنار کردیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ مجید کے بارے میں یہی بیان کیا ہے، فرمایا:

وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الْاِِیْمَانُ وَلٰـکِنْ جَعَلْنٰہُ نُوْرًا نَّہْدِیْ بِہٖ مَنْ نَّشَآئُ مِنْ عِبَادِنَا ط (الشوریٰ ۴۲:۵۲)اسی طرح (اے نبیؐ) ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تمھاری طرف وحی کی ہے۔ تمھیں کچھ پتا نہ تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہوتا ہے، مگر اس روح کو ہم نے ایک روشنی بنا دیا جس سے ہم راہ دکھاتے ہیں اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں۔

جب یہ روح دل میں داخل ہوتی ہے تو دل کے تمام گوشے نورِ ایمان سے جگمگا اٹھتے ہیں۔ پھر اس روشنی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ خواہشات اور حُبِّ دنیا کو وہاں سے نکال باہر کرتی ہے اور اس کا اثر انسان کے کردار، اس کی ترجیحات اور دلچسپیوں پر واضح دکھائی دیتا ہے کہ وہ سب بدل کر      رہ جاتے ہیں۔ یہی وہ کیفیت ہے جس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقعے پر واضح فرمایا تھا جب صحابہؓ نے قرآنِ مجید کی اس آیت کے بارے میں دریافت کیا تھا: اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہٗ لِلْاِِسْلاَمِ فَہُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖ ط(الزمر۳۹:۲۲)’’کیا وہ شخص جس کا سینہ اللہ نے اسلام  کے لیے کھول دیا اور وہ اپنے رب کی طرف سے ایک روشنی پر چل رہا ہے‘‘ (اس شخص کی طرح    ہو سکتا ہے جس نے ان باتوں سے سبق نہ لیا؟)۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: اِذَا دَخَلَ النُّوْرُ القَلْبَ اِنْشَرَحَ وَانْفَتَحَ’’جب نور دل میں داخل ہو جاتا ہے تو دل کھل جاتا ہے اور کشادہ ہو جاتا ہے‘‘۔ صحابہؓ نے پوچھا: یارسولؐ اللہ!اس کی نشانی کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اَلْاِنَابَۃُ اِلٰی دَارِ الخَلُودِ، وَالتَّجَافِی عَنْ دَارِالغَرُورِ، وَالْاِستِعْدَادُ لِلْمَوْتِ قَبْلَ نُزُوْلِہِ دارِخلود،’’(آخرت) کی طرف میلان اور دارِغرور (دنیا) سے کنارہ کشی اور موت کے آنے سے پہلے پہلے موت کے لیے تیاری!‘‘۔ (اخرجہ البیہقی فی الزھد)

قرآنِ کریم کی تاثیر اور انسانی دلوں کو بدل ڈالنے کی قوت ناقابل بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ایک مثال قرآنِ کریم میں ہی بیان فرمائی ہے۔ فرمایا:

لَوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْـیَۃِ اللّٰہِط وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُہَا لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَo (الحشر۵۹:۲۱) اگر  ہم نے یہ قرآن کسی پہاڑ پر بھی اُتار دیا ہوتا تو تم دیکھتے کہ وہ اللہ کے خوف سے دبا جا رہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے اس لیے بیان کرتے ہیں کہ وہ (اپنی حالت پر)غور کریں۔

امام قرطبیؒ کہتے ہیں کہ اگر پہاڑوں کو عقل عطا کرکے ان سے قرآن کے الفاظ میں خطاب کیا جاتا تو پہاڑ اس کے مواعظ کے سامنے یوں مطیع ہو جاتے کہ تم ان کی سختی کے باوجود انھیں اللہ کے خوف وخشیت سے روتا اور ٹوٹتا پھوٹتا دیکھتے۔ (الجامع لاحکام القرآن۱۸:۳۰)

قرآنِ کریم کی اس مثال میں قرآنِ حکیم کی قوتِ تاثیر پر غور و فکر کرنے کی دعوت بھی ہے تاکہ تمام انسانوں کے لیے حجت قائم ہو جائے اور اس آدمی کا دعویٰ غلط قرار پائے جو یہ کہتا ہو کہ وہ قرآن کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔

جوشخص پوری دیانت داری اور طلبِ ہدایت کے ارادے سے قرآن کو کتابِ ہدایت و شفا سمجھ کر اس کی طرف آتا ہے، اس شخص پر قرآن کی عجیب تاثیرہوتی ہے۔ اس کی شخصیت میںگہری بنیادوں پر استوار ہونے والا ایک مکمل انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔ اس کی شخصیت کی ڈھلائی اور تشکیل ایک ایسے نئے انداز سے ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند اور محبوب ہے۔ اس باب میں اگر کسی کو شک ہو تو وہ اُن اصحابِ رسولؐ کی زندگیوں کا مطالعہ کرے جو اسلام سے قبل جاہلیت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے تھے، لیکن اسی حالت میں جب قرآن کی بھٹی میں داخل ہوتے ہیں تو ایسے نئے انسان بن کر باہر نکلتے ہیں جن پر ساری انسانیت کو آج تک فخر ہے۔

قرآن نے صحابہؓ کو اس لیے بدل کر رکھ دیا تھا کہ صحابہؓ قرآن کو سمجھنے، اس کے مقصدِ نزول کو جاننے اور اس کے معنی و مفہوم کی قیمت کا ادراک کر لینے کے بعد اسی کو اپنی زندگیوں کا رہنما سمجھتے تھے۔ صرف سمجھتے ہی نہیں تھے بلکہ اس کا سو فی صد مظاہرہ کرتے تھے۔ اس معاملے میں ان کے    رہنما و مقتدا اور استاذ و معلّم رسولؐ اللہ تھے اور اللہ کے رسولؐ زندگی کے ایک ایک لمحے کو قرآن کی رہنمائی میں گزار رہے تھے۔ آپؐ کی زندگی پر قرآن کا رنگ یوں چڑھا ہوا تھا کہ آپؐ چلتے پھرتے قرآن تھے۔ آپؐ کا اندازِ تلاوت اور طریقۂ قراء ت یہ تھا کہ آپؐ قرآن کو ٹھیر ٹھیر کر ترتیل کے ساتھ پڑھتے تھے۔ ایک بار تو آپؐ نے تہجد کی نماز میں یہ آیت دہراتے ساری رات گزار دی:

اِنْ تُعَذِّبْہُمْ فَاِنَّہُمْ عِبَادُکَ ج وَاِنْ تَغْفِرْ لَہُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ o (المائدہ ۵:۱۱۸) اب اگر آپ انھیں سزا دیں تو وہ آپ کے بندے ہیں اور اگر معاف کر دیں تو آپ غالب اور دانا ہیں۔

قرآن کی قوتِ تاثیر اس وقت مزید واضح ہوکر سامنے آتی ہے جب ہم رسولؐ اللہ کے     یہ کلمات سنتے ہیں کہ: شَیَّبَتْنِیْ ھُوْدُ وَاَخَوَاتُھَا قَبْلَ المَشِیْبِ!(صحیح الجامع الصغیر)  ’’مجھے سورۂ ہود اور اس جیسی دیگر سورتوں نے بوڑھا ہونے سے قبل ہی بوڑھا کر دیا ہے‘‘۔

جب اللہ کے رسولؐ پوری پوری رات ایک آیت کو دہراتے گزار دیتے ہیں اور قرآن کی تذکرۂ آخرت پر مشتمل سورتیں آپؐ کے اوپر بڑھاپا طاری کر دیتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ محض قرآن کے الفاظ کی تلاوت سے یہ کیفیت پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ یہ لازماً قرآن کے مفہوم و معنٰی کے اثرات تھے۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کی حقیقی قدروقیمت اس کے معانی و مفاہیم کے اندر ہے۔

دلِ بیدار کی ضرورت

آج ہمارے ہاتھوں میں بھی وہی قرآن ہے جو صحابہ کرامؓ کے پاس تھا۔ انھیں تو اس قرآن نے ایک بے مثال گروہ بنا دیا، لیکن ہم___؟ آج ہمارے اندر ان جیسے نمونے اور کردار کیوں پیدا نہیں ہوتے؟کیا آج قرآن کی تاثیر ختم ہو گئی ہے؟___نہیں، ہرگز نہیں!قرآن کی تاثیر ختم نہیں ہوئی بلکہ وہ دلِ بیدار نہیں ہیں جن کے اندر یہ تاثیر پیدا ہوتی ہے۔ اس حقیقت سے مفر نہیں کہ قرآن کی طرف رجوع کی صورت میں ہی ہم اس پریشان کن صورتِ حال کو ختم کر سکتے ہیں۔ قرآن کو چھوڑ کر یا اس کو نظرانداز کرکے کوئی ذریعہ اور طریقہ ایسا نہیں جو امت کی اصلاح اور تبدیلی میں بنیادی کردار ادا کر سکے اور مطلوبہ نتائج فراہم کرے!

مصر میں فوجی انقلاب کے بعد سے اب تک ہزاروں کی تعداد میں اخوان اور دیگر شہریوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں بند کیا جاچکا ہے۔ ڈاکٹر محمد مرسی سمیت اخوان کی مرکزی قیادت کے بیش تر افراد سزاے موت کے مستحق ٹھیرا دیے گئے ہیں۔ اسلامی دنیا کا شاید یہ واحد واقعہ ہو کہ اصلاحِ معاشرہ اور دعوتِ دین کے لیے کوشاں کسی پُرامن سیاسی تنظیم کو اپنی تاریخ کے مختلف اَدوار میں وقت کی آمر اور غاصب حکومت کے ہاتھوں تیسری بار اپنی اعلیٰ قیادت سے محرومی کا صدمہ برداشت کرنا پڑا ہو۔  فوجی انقلاب کے ہاتھوں ہزاروں کارکن اور شہری وحشیانہ کارروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں اور متعدد صحافیوں نے جیلوں میں بند ان بے گناہ اور معصوم شہریوں کی صورت حال اور اعداد و شمار بیان کیے ہیں، وہ مختصراً یہاں پیش کیے جا رہے ہیں:

  •    ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق: ۳جولائی ۲۰۱۳ء سے ۳۰ جون ۲۰۱۵ء تک گرفتاریوں کے ذریعے جیلوں میں ڈالے گئے قیدیوں کی تعداد ۴۱ہزار سے تجاوز کرگئی ہے۔ یہ تعداد وزارتِ داخلہ، ملٹری فورسز، اٹارنی جنرل یا عدالت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہے۔ اصل تعداد یقینا اس سے زیادہ ہوگی۔
  • ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق قیدیوں کی تعداد ۴۱ہزار ہے اور یہ تعداد صرف جولائی ۲۰۱۳ء تا مئی ۲۰۱۴ء کے دوران گرفتار کیے گئے افراد کی ہے۔ اس بڑی تعداد کے جیلوں میں پہنچنے کے باعث جیلوں میں گنجایش بہت کم ہوگئی ہے۔
  •   اقوامِ متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ۱۸سال سے کم عمر ۳۲۰۰ بچوں کو فوجی انقلاب کے بعد گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے ۸۰۰ بچے تو بدستور پابند سلاسل ہیں۔ ان میں سے اکثر بچوں پر عقوبت خانوں میں تعذیب و تشدد کی انتہا کی گئی۔

اس فوجی انقلاب کے دو برس پورے ہونے پر انسانی حقوق کی تنظیموں نے ایک مشترکہ رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ کو اِعدام وطن (پورے ملک کے لیے پھانسی) کا عنوان دیا گیا اور کہا گیا کہ فوجی انقلاب کے دوسال پورے ہونے تک ۱۱۶۳ قیدیوں کو سزاے موت سنائی جاچکی ہے۔ ان میں سے سات کی سزا پر عمل درآمد بھی کردیا گیا۔ ۴۹۶ کی نظرثانی کی اپیل منظور کرلی گئی اور اُن کی سزاے موت دیگر سزائوں میں بدل دی گئی۔ ۲۴۷ کی اپیل کے نتیجے میں اُن کی سزاے موت ختم ہوگئی اور ۴۱۳ بدستور سزاے موت کے منتظر ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بنیادی طور پر سزاے موت پانے والوں کی یہ تعداد ۱۶۹۳ تھی جو پھانسی کا حکم جاری کرنے کے لیے مفتی اعظم کے پاس بھجوائی گئی تھی۔ البتہ بعد میں اسے کم کر کے ۱۱۶۳ پر لایا گیا جن کے ’مجرموں‘ کو سزاے موت کے پروانے جاری کیے گئے ہیں اُن پر ایک کالعدم جماعت سے تعلق کا الزام تھا۔

سزاے موت کا حکم سننے والوں میں سرفہرست اخوان کی مرکزی قیادت اور معزول کیے گئے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی ہیں۔ مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع کو پانچ بار سزاے موت سنائی گئی ہے۔ تحلیل شدہ پارلیمان کے صدر محمد سعد الکتاتنی، حزب الحریۃ والعدالۃ کے رہنما محمد بلتاجی، معروف مقرر اور داعی صفوت حجازی اور اخوانی قیادت کی ایک بڑی تعداد اس فہرست میں شامل ہے۔

سزاے موت کا حکم پانے والوں میں شمالی مصر کا ضلع مُنیا سب سے آگے ہے۔ اس سے تعلق رکھنے والے سزاے موت کے قیدی ۱۲۱۱ ہیں۔ اسی طرح ضلع الجیزہ کے ۲۳۳، اور قاہرہ کے ۱۷۸ ہیں۔ سزاے موت کے احکام پر مہر تصدیق کے لیے مفتی اعظم مصر کو پیش کیے گئے ان ناموں میں زندگی کے مختلف شعبوں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ مساجد کے ائمہ اور خطیب، یونی ورسٹیوں کے اساتذہ اور محققین، طلبہ، صحافیوں، انجینیروں، ڈاکٹروں اور مزدوروں کے علاوہ خواتین خانہ بھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ۲۶۸؍افراد تو جیلوں اور تفتیشی مراکز کے اندر ہی یا تو طبی امداد نہ مل سکنے پر یا تعذیب و تشدد کی بنا پر موت کے منہ میں چلے گئے۔ اُن افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے جن کو مظاہروں کے دوران یا دھرنوں کے دوران جبرو تشدد کے ذریعے بھگانے کے عمل میں ہی موت کی نیند سُلا دیا گیا۔ کچھ ایسے بھی تھے جو دورانِ گرفتاری بے پناہ تشدد کے باعث زندگی ہار بیٹھے۔ ان لوگوں کی تعداد ۱۴۰۶ ہے مگر اس میں رابعہ اور نہضہ کے میدانوں میں دھرنے دینے والوں کی تعداد شامل نہیں ہے جن کو ملٹری فورسز نے نمازِ فجر کے وقت عین حالت ِ نماز میں گولیوں سے بھون ڈالا تھا اور وہ بھی ماہِ مقدس و ماہِ رحمت رمضان المبارک کے ایسے لمحات میں جب عادی مجرموں اور انتہائی خطرناک مجرموں کے لیے رب کی عام معافی کا اعلان ہو رہا ہوتا ہے۔ رابعہ اور نہضہ کے شہدا کی تعداد ۵ہزار سے زائد بتائی گئی ہے۔

طلبہ کی ایک تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق جو یونی ورسٹیوں کے طلبہ کی آزادی و حقوق کے لیے کوشاں ہے، ۳جولائی ۲۰۱۳ء کے فوجی انقلاب سے ۱۱فروری ۲۰۱۵ء کے عرصے میں ماوراے قانون ہلاک کیے گئے طلبہ کی تعداد ۲۲۸ ہے۔ ان میں چھے طالبات بھی ہیں۔ ۱۶۴ کو ’ناگزیر وجوہ‘ کی بنا پر لاپتا رکھا گیا ہے۔ فروری ۲۰۱۵ء تک گرفتار شدہ طلبہ و طالبات کی تعداد ۳ہزار ۲سو۴۲ ہے۔ ان میں سے ۱۸۹۸ طلبہ و طالبات بدستور گرفتار ہیں۔ ان میں سے ۱۶۰ کو جبری طور پر اعترافِ جرم کرانے کے دوران بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انسانی حقوق کی ایک تنظیم کے کارکن کا کہنا ہے کہ یہ تو وہ تعداد ہے جو پرانے اعداد و شمار کے مطابق ہے۔ اصل اور موجودہ تعداد تو اس سے بہت زیادہ ہے۔ بیش تر اضلاع میں روزانہ نئی گرفتاریاں عمل میں آتی ہیں۔ اس طرح یہ تعداد ۶۰ ہزار کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ البتہ کچھ لوگوں کی رہائی بھی عمل میں آئی ہے مگر اُس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ کمی روزانہ کی بنیاد پر کی جانے والی گرفتاریوں سے پوری ہوجاتی ہے۔

اس کارکن کا کہنا ہے کہ ان گرفتار شدہ افراد کے لیے اپیل کرنے والے وکیلوں کو بھی پکڑ لیا جاتا ہے اور مختلف قسم کے مقدمات میں دھر لیا جاتا ہے۔ ایسے وکلا کی تعداد ۳ہزار تک پہنچ گئی ہے، اور مزید ۲۸۰ کے بارے میں گرفتاری اور پیشی کے احکام جاری کیے جاچکے ہیں۔ یہ صورتِ حال اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ اس وقت مصر کے اندر عدلیہ کی کوئی بنیاد باقی نہیں ہے۔

جیلوں کے اندر بند اِن قیدیوں کی صورت حال کو اُن کے اہلِ خانہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ذرائع ابلاغ پربیان کرتی رہتی ہیں۔ پرنٹ میڈیا میں بھی قیدیوں کے مصائب و آلام اور تعذیب و تشدد کے علاوہ مختلف امراض میں مبتلا افراد کی صورتِ حال سے متعلق رپورٹیں شائع ہوتی ہیں مگر حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔

جنوبی قاہرہ میں واقع کئی جیلوں کا مجموعہ عقرب جیل ہے۔ یہ جیل قیدیوں کے لیے کڑی حراست کے اعتبار سے بہت بُری شہرت رکھتی ہے۔ یہ اپنے قیام کے ۲۵ سال سے خوف ناک تعذیب و تشدد کی روایات کے باعث منفرد تاریخ کی حامل ہے۔ اخوان کے نائب مرشدعام خیرت الشاطر اسی عقرب جیل میں قید ہیں۔ ان کی بیٹی عائشہ کا کہنا ہے کہ وہ دل کے مریض ہیں مگر انھیں ہفتوں دوا نہیں ملتی اور وہ بغیر دوا کے بیماری کے رحم و کرم پر زندگی گزار رہے ہیں۔

گذشتہ رمضان کے دوران قیدیوں کو قرآنِ پاک کے نسخوں سے بھی محروم کردیا گیا تاکہ وہ تلاوتِ قرآن نہ کرسکیں۔ جیل کی بیرکوں کی بجلی بند کردی گئی تاکہ انھیں دورانِ روزہ کوئی آسانی نہ پہنچ پائے۔ اُن کی کلائی گھڑیاں چھین لی گئیں تاکہ اُنھیں سحری و افطاری کے اوقات معلوم نہ ہوسکیں۔ پانی کی فراہمی بند رکھی گئی تاکہ وہ نماز کے لیے وضو نہ کرسکیں۔

قاہرہ کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ ۲۰۱۳ء کے فوجی انقلاب کے بعد مصر کی جیلیں اجتماعی قبروں کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ یہاں بدترین ذہنی و بدنی تعذیب اور غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی ملکی اور عالمی تنظیمیں انسانی حقوق کی اس پامالی کو نہ بند کراسکی ہیں اور نہ کم ہی کرانے میں کامیاب ہوسکی ہیں۔ مرکز براے انسانی حقوق کی تعظیم کے ایک محقق   احمد مفرح کا کہنا ہے کہ سیکڑوں لوگ جو طبی امداد کی عدم فراہمی اور غیرمعمولی تشدد کے باعث موت سے دوچار ہوگئے اُن میں اخوان کی مرکزی قیادت کے لوگ بھی شامل ہیں۔ ان میں نمایاں نام قومی اسمبلی کی کمیٹی براے قومی دفاع و سلامتی کے ذمہ دار فرید اسماعیل کا ہے۔ فرید اسماعیل حالیہ مئی کے مہینے میں قاہرہ کی عقرب جیل کے ہسپتال میں جگر کے مرض میں مبتلا رہ کر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔ ضلع دمیاط سے رکن قومی اسمبلی محمد الفلاحجی بھی اسی طرح کی صورتِ حال سے دوچار ہوکر وفات پاگئے۔ گذشتہ برس نومبر میں عین شمس یونی ورسٹی میں امراضِ جلدکے استاد ڈاکٹر طارق الغندور زیادہ خون بہہ جانے کے باعث انتقال کرگئے۔ ۹؍اگست ۲۰۱۵ء کو الجماعۃ الاسلامیۃ اسلامی مصر کی مجلس شوریٰ کے صدر عصام دربالہ شدید حراست کی جیل ’طرۃ‘ سے ہسپتال منتقل کیے جانے کے دوران دم توڑ گئے۔ اسی سال ۲۸؍اگست کو اخوان کے ایک رہنما خالد زہران وفات پاگئے    جو تین برس سے جیل کی عقوبتیں برداشت کرتے رہے۔ جب ان کی حالت نازک ہوگئی تو ہسپتال لے جایا گیا مگر تب علاج کا وقت گزر چکا تھا۔ امن فورسز کے تشدد اور تعذیب کے نتیجے میں کئی وکلا بھی جاں بحق ہوگئے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کفرالشیخ ضلع کے سابق گورنر سعدالحسینی اپنی نازک صحت کی بنا پر ہروقت موت کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔ اُن کی حالت یہ ہے کہ انھیں ویل چیئر پر بٹھا کر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اسی طرح مرسی حکومت کے وزیر براے اُمورِ نوجواناں اُسامہ یاسین اور حزب الحریۃ والعدالۃ کے صدر ڈاکٹر محمدا لبلتاخی کی صحت کا مسئلہ ہے۔

مرکز براے تعظیم انسانی حقوق کی رپورٹ کہتی ہے کہ ۵۰۰ قیدی ایسے ہیں جن کی نازک صحت کا تقاضا ہے کہ انھیں فوری علاج کی سہولت فراہم کی جائے۔ ان میں سے کثیرتعداد جان لیوا حالت سے دوچار ہے۔ سماجی حقوق کی تنظیموں نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں محکمہ پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آزاد تنظیموں کے ذریعے قیدیوں کا طبی معائنہ کرائیں۔ انھی تنظیموں کے کارکنان کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل کا دفتر ان حقوق کی پامالی کا کوئی نوٹس نہیں لے رہا۔

گرفتاریوں اور قیدوبند کی ان صعوبتوں میں سب سے زیادہ تکلیف دہ امر ہے کہ سیکڑوں بچیوں کو بھی جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بند کر رکھا ہے۔ مصر میں بچیوں کی گرفتاری اور اسیری   سرخ لائن تصور کی جاتی رہی ہے مگر فوجی انقلاب نے اس سرخ لائن کو بھی پامال کر کے آگے بڑھنے کی روش جاری رکھی ہوئی ہے۔ ان قیدی بچیوں میں جامعہ ازہر کی طالبات کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔ اس لیے کہ یونی ورسٹی کے صدر اُسامہ العبد نے کئی بار امن فورسز کو یونی ورسٹی میں چھاپہ مارنے اور طالبات کو گرفتار کر نے کی اجازت دی۔

قیدی خواتین میں ۵۰ برس سے زائد عمر کی خواتین بھی شامل ہیں۔ سامیہ شنن کو کرداسہ کے حادثات کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا مگر بعدازاں اُن پر پولیس اہل کاروں کے قتل کا الزام عائد کرکے انھیں سزاے موت سنا دی گئی۔ کہا گیا ہے کہ ان کے بیٹے کی گرفتاری کے لیے انھیں پکڑا گیا تھا مگر پھر کرداسہ کے حادثات میں ملوث کردیا گیا۔[ماخذ: aljazeera.net]

اللہ تعالیٰ نے اتباع و اطاعت ِرسولؐ کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے:وَمَا اٰتٰـکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْہُ ق وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا (الحشر۵۹:۷)’’جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جائو‘‘۔ قرآنِ مجید نے متعدد مقامات پر رسولؐ اللہ کے امر و نہی کے اتباع کو نہایت مؤکد انداز میں بیان کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے رسول ؐ کی زبانی ہی یہ اعلان کرایا ہے: وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ج وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖط (الانعام۶:۱۵۳) ’’نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا     تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹا کر تمھیں پراگندا کر دیں گے‘‘۔

اس آیت میں رسولؐ کے متعین کردہ راستے کو چھو ڑکر دوسرے راستوں پر چلنے کا انجام یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ راستے تمھیں رسولؐ کے راستے سے دور لے جائیں گے۔ اسی انجام کو دوسرے مقام پر فتنے اور عذابِ الیم کے نام سے یوں بیان فرمایا: فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(النور۲۴:۶۳) ’’رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر درد ناک عذاب نہ آجائے‘‘۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسولؐ اللہ کو یہ فرماتے سنا کہ: مَا نَہَیْتُکُمْ عَنْہُ فَاجْتَنِبُوْہُ، وَمَا اَمَرْتُکُمْ بِہٖ فَاْتُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ (بخاری و مسلم) ’’میں تمھیں جس چیز سے منع کروں اس سے دور رہو، اور جس چیز کا حکم دوں، اپنی استطاعت کے مطابق اس پر عمل کی کوشش کرو‘‘۔

اتباعِ رسولؐ کا حقیقی معیار

ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال کو کتاب و سنت کی روشنی میں انجام دے، اپنی خواہشات کے پیچھے نہ چلے، بلکہ جو طریقہ و دین رسولؐ اللہ نے بیان فرمایا ہے اس کا اتباع کرے۔ اللہ کا یہ فرمان ہے کہ: وَمَا کَانَ لِمُؤمِنٍ وَّلَا مُؤمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُـہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ، وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰــلًا مُّبِیْنًاo(احزاب۳۳:۳۶)’’کسی مومن مرداور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ یقیناصریح گمراہی میں پڑگیا‘‘۔

 دوسری جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: فَـلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ حَتّٰی یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوا فِی اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوا تَسْلِیْمًا (النسائ۴:۶۵) ’’تمھارے رب کی قسم! یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو، اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سربسر تسلیم کریں‘‘۔

یہ رسولؐ اللہ سے محبت کا داعیہ ہوتا ہے کہ ایک مسلمان اطاعت ِرسولؐ کے مقابل مال و دولت، جسم و جان، اولاد و اخوان اور آبا و اَزواج کو ہیچ سمجھتا ہے اور ان سب چیزوں پر اللہ و رسولؐ کو مقدم ٹھیراتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے: لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُونَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ نَفْسِہِ وَوَلَدِہٖ وَ اَھْلِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ(بخاری)’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا، جب تک میں اسے اس کی جان، اس کی اولاد، اس کے اہل اور تمام لوگوں سے زیادہ اسے محبوب نہ ہو جائوں‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تین [صفات] جس شخص میں بھی ہوں، اس نے ایمان کی حلاوت کو پالیا: ۱- اللہ اور اس کا رسولؐ باقی ہرچیز سے زیادہ اسے محبوب ہو۔ ۲-وہ کسی آدمی سے محبت کرے تو یہ محض اللہ کی خاطر ہو۔ ۳-وہ جس طرح آگ میں ڈالا جانا ناپسند کرتا ہے، اسی طرح کفر میں پلٹ جانے کو ناپسند کرے، کیونکہ اللہ نے اس سے اسے نکال دیا ہے‘‘۔(بخاری، مسلم)

قرآن اور سنت دونوں سے ثابت ہے کہ اللہ و رسولؐ کے مقابل نہ تو کسی کا کوئی حکم چل سکتا ہے اور نہ کوئی اپنی خواہش نفس کی پیروی کر سکتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: لَا یُؤْمِنُ أحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِہٖ،    ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک اپنی خواہش نفس کو میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ کر دے‘‘۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و سنت کے احکام پر اِخلاص کے ساتھ عمل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کی اپنی خواہشات ہوتی ہیں، جس کو حدیث میں ھَوَا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ہواے نفس شریعت محمدیؐ کی تابع ہو جائے تو انسان سچا مومن ہو جاتا ہے، اور اگر  شریعت محمدیؐ کے خلاف عمل پر انسان کو مجبور کرے تو ایسا شخص سچا صاحب ِ ایمان نہیں رہتا۔

ایمان کے معتبر ہونے کی شرط اتباعِ رسولؐ ہے۔ اتباعِ رسولؐ سے انکار، ایمان سے اِخراج کے مترادف ہے۔انقباضِ نفس کی کیفیت میں اتباع مقبول نہیں۔ دل کی خوشی اور رضامندی کے ساتھ یہ عمل مطلوب ہے۔اتباع و اطاعت رسولؐ کا حق تب ادا ہو گا، جب مومن اپنے نفس، اولاد اور دیگر تمام لوگوں کو اللہ و رسولؐ کے سامنے ہیچ سمجھے۔ اطاعت رسولؐ میں ذاتی منشا و مرضی نہیں     چل سکتی۔ رسولؐ اللہ کے قول کے مقابلے میں، ہر انسان کی بات ناقابلِ عمل ہے۔اللہ و رسولؐ کا اتباع و اطاعت ہی  محبت کا حقیقی معیار ہے۔ جو شخص اللہ و رسولؐ کی اطاعت سے انکار کرے، وہ بدترین گمراہی میں مبتلا ہوگا۔اتباعِ رسولؐ عبادات، معاملات، اخلاق، کردار غرض ہر عمل میں فرض ہے۔

اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ

حضرت عرباض بن ساریہؓ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسولؐ اللہ نے ہمیں ایسا وعظ فرمایا کہ اس وعظ سے دل کانپ اٹھے اور آنکھیں بہہ پڑیں۔ ہم نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ وعظ تو ایسا تھا جیسے الوداعی نصیحت ہو، لہٰذا ہمیں اور نصیحت فرمائیے! 

آپؐ نے فرمایا: ’’میں تمھیں اللہ سے ڈرنے اور سمع و طاعت کی نصیحت کرتا ہوں خواہ تمھارے اوپر کوئی غلام امیر بنا دیا جائے۔ تم میں سے جو بھی (طویل عمر) زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا۔ لہٰذا تم میری اور خلفاے راشدین مہدیین کی سنت کو اپنے اوپر لازم کر لینا۔ اسے ڈاڑھوں سے پکڑے رکھنا اور نئی چیزوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہوتی ہے اور ہر بدعت گمراہی ہوتی ہے اور ہرگمراہی جہنم میں لے جاتی ہے‘‘۔ (ابوداؤد ، ترمذی، حدیث حسن صحیح )

رسولؐ اللہ کی نصیحت میں یہ خبر بھی ہے کہ آپؐ کے بعد بہت سے اختلافات رُونما ہوں گے۔ یہ اختلافات دین کے اصولوں میں بھی ہو سکتے ہیں اور فروعات میں بھی۔ اعمال و اقوال اور اعتقادات و نظریات میں بھی۔ اس صورت حال میں وہی لوگ راہ راست پر ہوں گے جو سنت رسولؐ اور سنت خلفاے راشدین پر عمل پیرا رہیں گے۔

اختلافات کے ہر موقعے پر سنت سے رہنمائی حاصل کرنا فرض ہے۔ سنت کی موجودگی میں بدعات کو رواج دینا رسولؐ کی حیثیت کو چیلنج کرنا ہے۔سنت کے مقابلے میں بدعت پر عمل اِتباعِ رسولؐ سے انکار ہے۔ جس عمل یا سوچ کی اصل دین و شریعت میں نہ ہو، وہ بدعت ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے بدعت کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ بدعت گمراہی ہونے کی بنا پر جہنم میں لے جانے کا باعث بنے گی۔ دنیاوی وسائل اور ذرائع پر بدعت کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ یہ اعتقادات، عبادات، عادات اور معاملات میں شریعت کو پیش نظر نہ رکھنے کا نام ہے۔

دین کے اندر ایجاد کیا جانے والا ہر ایسا عمل، جس کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو، مُحْدَثَۃ کہلاتا ہے اور ہر مُحْدَثۃ کو بدعۃ قرار دیا گیا ہے۔ بدعت دراصل ایسا عمل ہے، جو کوئی شخص اپنی عقل و فکر کی بنیاد پر اختراع کر کے اسے دین قرار دے۔ اس حدیث میں بدعت کی شناعت کو بڑے واضح الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے۔

رسولؐ اللہ نے کتاب اللہ کو ’بہترین بات‘ اور اپنی ہدایت و رہنمائی کو ’بہترین رہنمائی‘ بھی کہا ہے، جب کہ محدثہ [ہر نئے عمل] کو ’بدترین امر‘ کہا ہے۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ اپنے خطبے میں فرمایا کرتے تھے: اِنَّ خَیْرَ الْحَدِیثِ کِتَابُ اللّٰہِ وَ خَیْرَ الھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ وَ شَرَّ الْاُمُورِ مُحدَثَاتُھَا وَکُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَ کُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ، ’’یقینا بہترین کلام، اللہ کی کتاب ہے اور بہترین ہدایت، محمد کی ہدایت ہے اور بدترین امور محدثات ہیں اور ہر محدثہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘۔

دین کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی و رسول جناب محمدؐ بن عبداللہ کے ذریعے تکمیل کو پہنچایا اور آسمان سے ترسیل ہدایت کا سلسلہ بند کر دیا۔ قرآن کے الفاظ میں اس بات کو یوں بیان کیا گیا ہے: اَلیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاط (المائدہ۵:۳) ’’آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت  تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے‘‘۔  حضرت ابوالدرداؓ فرماتے ہیں:’’اللہ کی قسم! رسولؐ اللہ نے ہمیں ایسی صاف اور روشن شاہراہ پر چھوڑا ہے، جس کی رات کی تاریکی بھی دن کی مانند روشن اور واضح ہے‘‘۔ (ابن ماجہ)

 رسولؐ اللہ نے ان تمام احکامات کو من و عن امت تک پہنچا دیا، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کے ذمے لگائے گئے تھے کہ آپؐ انھیں امت تک پہنچا دیں۔ رسولؐ اللہ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقعے پر کم و بیش ایک لاکھ ۲۴ہزار صحابہؓ سے یہ شہادت لی تھی کہ کیا میں نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا تو اس جم غفیر نے یک زبان و یک آواز ہو کر کہا کہ ہاں، آپؐ نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا۔

اس حقیقت کے بعد یہ بات قانونی اور دستوری حیثیت اختیار کر جاتی ہے کہ جس شخص کو بھی اس دین کو اپنانا ہے، وہ کسی پس و پیش اور ردّ و قدح کے بغیر اس کو حتمی و قطعی قانون سمجھتے ہوئے اپنی زندگی کے تمام شعبوں پر نافذ کرے۔ کسی جدی پشتی عالمِ دین، نسل در نسل مسندِ افتا پر فائز چلے آنے والے کسی خاندان، کسی سیّد زادے اور کسی بڑے سے بڑے مفسر قرآن اور شیخ الحدیث کے لیے یہ روا اور جائز نہیں کہ وہ دین کے کسی معاملے میں اپنی راے اور خواہشِ نفس سے کسی چیز کو دین قرار دے۔ کسی بھی مسئلے کی متعین کی گئی شرعی حیثیت اس وقت تک ہرگز قابل قبول اور لائقِ عمل قرار نہیں دی جا سکتی، جب تک اسے دین کے مسلمہ اصولوں پر جانچ اور پرکھ نہ لیا جائے۔

قرآن اور سنت دو ایسے پیمانے اور معیار ہیں، جن کے ذریعے ہر مسئلے کی دینی اور شرعی حیثیت کا تعین کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص ان دونوں چیزوں کو چھوڑ کر اپنی راے سے کسی چیز کو دین قرار دیتا ہے تو اللہ کے رسولؐ نے اسے باطل، ناقابلِ قبول اور مردود قرار دیا ہے۔

اُم المومنین ام عبداللہ حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: مَنْ اَحْدَثَ فِی اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ(بخاری، مسلم)،’’جس نے ہمارے اس (دین) میں کوئی نئی چیز پیدا کی، جو اس (دین) میں سے نہ ہو تو وہ مسترد کر دی جائے گی‘‘۔

ایک اور روایت میں ہے: مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ اَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ (مسلم)، ’’جس نے کوئی ایسا کام کیا، جس پر ہمارا امر (حکم) نہیں تو وہ کام مردود ہے‘‘۔

جو شخص دین میں کوئی ایسا نیا عمل رائج کرتا ہے جو شرع کے مطابق نہ ہو تو اس کا گناہ اس شخص پر ہو گا اور اس کا یہ عمل اس کے منہ پر دے مارا جائے گا اور وہ وعید کا مستحق ٹھیرے گا۔ حضوؐر نے فرمایا: مَنْ اَحْدَثَ حَدَثًا اَوْ اٰوٰی مُحدِثًا فَعَلَیْہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ(بخاری)،’’جو شخص کوئی نیا عمل رواج دیتا ہے یا نیا عمل رائج کرنے والے کسی شخص کی پشت پناہی کرتا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہے‘‘۔

بدعت: مفھوم اور اِطلاق

حدیث میں اَحْدَثَ کا جو لفظ استعمال ہوا ہے، اس کے معنی ہیں کوئی نئی بات یا شے ایجاد کرنا۔ دین کے معاملے میں اس نئی ایجاد (اِحْدَاث) کا اطلاق چار طرح کے اعمال پر ہوتا ہے:

۱- اعتقادات:دین اسلام کی بنیادوں میں عقیدے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ عقیدے کے اجزا توحید و رسالت کے تصور کو اسلام نے اس قدر نکھار اور نتھار کر پیش کیا ہے کہ ان میں کوئی ابہام و اشکال نہیں رہا۔

عقیدہ میں اِحداث (بدعت) کی بھی ایک پوری تاریخ ہے، جس میں مسلمان دیگر مذاہب کے پیروکاروں اور ان کے فلسفوں سے متاثر نظر آتے ہیں۔ ان میں وحدت الوجود، وحدت الشہود، اتحاد و حلول، اولیا و صلحا کو یوں با اختیار سمجھنا گویا نظامِ کائنات انھی کامرہون منت ہو، رسولؐ اللہکو اللہ کے مقابلے میں بااختیار ثابت کرنا، اہلِ قبور کے بارے میں حاجت براری کا عقیدہ رکھنا___ یہ ایسے نظریات و عقائد ہیں، جو امت میں نیک جذبات کے لبادے میں در آئے ہیں لیکن قرآن و سنت میں ان عقائد و نظریات کے درست ہونے کی کوئی شہادت نہیں ملتی۔ یہ انسانی فکر کی جولانیوں کے کرشمے ہیں۔ دوسری طرف امت کے اندر کچھ ایسے گروہ پیدا ہوئے، جنھوں نے قصداً ایسے عقیدے ایجاد و اختیار کیے جو توحید و رسالت کے تصور سے صریح طور پر متصادم تھے جیسے قدریہ، جبریہ، مرجۂ، بہائیہ، اسماعیلیہ، قادیانیہ وغیرہ اور اسی طرح بے شمار فرقے ہیں۔ ان کے تصورات و عقائد دین کی مسلمہ تعلیمات سے متصادم ہیں۔ ان کی فکر و عقیدے میں بدعت کو بنیادی عنصر کی حیثیت حاصل ہے۔ دورِ حاضر میں عقیدۂ توحید کے حوالے سے جو بدعات رواج پا چکی ہیں، ان کے شمار کی حدود بہت وسیع ہو گئی ہیں۔ قرآن و حدیث میں عقیدۂ توحید و رسالت کے حوالے سے دی گئی رہنمائی ہی اس طرح کی اعتقادی آلایشوں سے ایک مسلمان کو محفوظ رکھ سکتی ہے۔

۲- عبادات: عبادات میں وہی طریقہ قابل قبول ہو گا جو دین میں بیان کیا گیا ہے، مثلاً فرض نمازوں کی تعداد پانچ ہے۔ کوئی شخص نماز کی رکعات کو بڑھا نہیں سکتا، کسی بھی ضرورت کے پیش نظر اس تعداد کو گھٹا نہیں سکتا۔ روزوں کی فرضیت ماہِ رمضان میں ہے۔ کوئی شخص اس فرضیت کو کسی اور ماہ میں منتقل نہیں کر سکتا، کوئی روزوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کر سکتا۔ نماز مکمل طور پر سنت کے مطابق ادا کرنا ہوگی۔ روزے مکمل طور پر سنت کے مطابق رکھنا ہوں گے۔ زکوٰۃ کی شرح متعین ہے۔ اس میں کمی بیشی نہیں کی جاسکتی اور نبی کریمؐ کی طرف سے متعین کردہ مخصوص مدّات میں ہی اسے صرف کیا جاسکتا ہے۔ حج کے مناسک بالکل اسی طرح ادا کرنا ہوں گے جس طرح رسولؐ اللہ نے بتائے اور سکھائے ہیں۔ ان میں رد و بدل اور کمی بیشی کا کسی شخص کو ہرگز کوئی اختیار نہیں اور نہ کسی ایسے شخص کے ان اعمال کو قبول کیا جائے گا جو ان میں کمی بیشی کر کے ادا کرے گا۔

۳-معاملات: معاملات کا دائرہ بہت وسیع ہے، لیکن اس میں بھی کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے کوئی ایسا ضابطہ وضع کر کے دین کے طور پر رائج کر دے جس کا دین کے اصولوں سے کوئی جوڑ اور ربط نہ ہو۔ ہر دور کے اپنے مسائل ہوتے ہیں لیکن ان سب کا حل قرآن و سنت کو سامنے رکھ کر تلاش کیا جائے گا۔ اگر قرآن و سنت میں کوئی واضح رہنمائی موجود نہ ہو تو پھر دین کے مسلمہ اصولوں کو پیش نظر رکھ کر اس مسئلے پر اجتہاد کیا جائے گا۔ مجتہد وہ ہوسکتا ہے جو شرائط اجتہاد پر پورا اُترتا ہو اور جسے قرآن و سنت، فقہ اسلامی اور اجتہادی اصولوں پر عبور ہو۔ اس کے لیے بھی بہتر اور محتاط طریقہ یہی ہے کہ اجتہاد کی یہ کوشش انفرادی اور شخصی نہ ہو بلکہ اجتماعی اور جمہوری ہو۔ معاملات میں کوئی نیا طریقہ رائج کرنے کی مثال یہ ہوسکتی ہے کہ دین میں زنا کی سزا رجم یا کوڑے مارنا ہے لیکن کوئی شخص اس بدنی سزا کو مالی سزا میں بدل کر یہ کہے کہ اتنی رقم بطور سزا یا جرمانہ دے دو۔ کوئی شخص دوران عدت نکاح کو جائز قرار دے یا کوئی اس پر عمل کرے کیونکہ حدیث کے مطابق یہ جائز نہیں۔ عورت کو تین طلاق ہو جانے کے بعد کوئی شخص محض پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح کرانے کی غرض سے کسی دوسرے شخص سے عورت کا نکاح عارضی طورپر کرانے کا فتویٰ دے یا کوئی اس پر عمل کرے۔ حدیث رسولؐ کے مطابق یہ بھی جائز نہیں۔ وراثت میں کوئی شخص ہروارث کے لیے شریعت کے مقرر کردہ حصوں کو بڑھائے یا کم کرے۔ تجارت میں نجش (نیلام کے لیے جھوٹی بولی) کو جائز سمجھے۔ زکوٰۃ کی شرح میں اضافے کا قائل ہو۔یہ تمام معاملات ایسے ہیں، جن کو قرآن و سنت نے متعین کر دیا ہے۔ اگر کوئی شخص یہاں اپنی ذاتی راے اور عمل کو دین قرار دینے کی کوشش کرے گا تو وہ دین قرار نہیں پا سکتا۔

۴- عادات: اعمال کی ایک قسم عادات ہیں۔ عادات میں ہر نئی چیز کو دین کے منافی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس میں بنیادی اصولوں کی پیروی لازمی ہوتی ہے جزئیات کی نہیں۔ اگر بنیادی اصولوں کو بھی ملحوظ نہ رکھا جائے اور ان کی پیروی نہ کی جائے تو یہ چیز دین کے منافی ہو گی اور اِحداث میں شامل ہو گی۔ مثال کے طور پر لباس میں بنیادی اصول یہ ہے کہ ستر پوش ہو، موٹا ہو، باریک نہ ہو، ڈھیلا ڈھالا ہو تنگ نہ ہو، کفار سے مشابہ نہ ہو۔اسی طرح لباس اگر عورت کا ہو تو مردوں سے مشابہ نہ ہو اور مردوں کا لباس عورتوں سے مشابہ نہ ہو۔اب اس میں جزئیات یہ ہیں کہ جیب ایک بھی ہو سکتی ہے، دو بھی اور تین بھی۔ کالر بھی ہوسکتا ہے، بٹن ایک دو یا زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ قمیص بھی ہو سکتا ہے اور کُرتہ بھی۔ اس طرح گھڑی، موبائل، کمپیوٹر، کھانے کی چیزیں اور اوقات وغیرہ۔ یہ سب چیزیں وسائل ہیں۔ ان میں بدعت والی کوئی بات نہیں۔ یہ مسلمان کے لیے بھی مفید ہیں اور غیر مسلموں کے لیے بھی، البتہ ان کے استعمال میں بنیادی اصولوں کو پیش نظر رکھنا ہو گا کہ، اسراف نہ ہو، غلط استعمال نہ ہو، وقت اور صلاحیت کا ضیاع نہ ہو، وغیرہ ۔

انسانیت پر احسانِ عظیم

بدعات دین کے لیے خطرہ ہوتی ہیں۔ یہ خطرہ کئی راستوں سے آسکتا ہے۔ کئی صورتوں اور کئی لبادوں میں آسکتا ہے۔ یہ دین کے اندر کوئی ایسا اضافہ کردینا بھی ہوسکتا ہے جو دین میں موجود نہ ہو۔ خاص طور پر اعتقادات، عبادات کے اندر کسی امر کا اضافہ کردینا۔ جس طرح دین میں کوئی اضافہ کردینا خطرناک ہے اسی طرح دین میں کوئی کمی کرڈالنا بھی اتنا ہی خطرناک ہے۔ دین کے قواعد اور بنیادوں اور اصل احکام میں سے کسی کو کالعدم قرار دینا بھی بدعت ہے۔ دین کی حقیقی اور اصلی صورت کو بگاڑ کر پیش کرنا بھی بدعت ہے۔ کسی چھوٹی چیز کو بڑا اور بڑی چیز کو چھوٹا کر کے پیش کرنا، دین کا چہرہ مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ کسی ترجیحی امر کو مؤخر اور غیراہم بنادینا اور غیراہم کو اہمیت دینا بھی بدعت ہے۔ یونہی تو دین منتشر ہوتا ہے اور اس کے حقائق اُلٹ پلٹ جاتے ہیں۔

دین کے اندر کوئی اضافہ کرنا لوگوں کو تنگی، شدت اور حرج میں مبتلا کرنا ہے۔ اللہ کو یہ پسند نہیں ہے۔ اُس نے دین انسانوں کے لیے آسان اور قابلِ عمل بنایا ہے، مشکل اور ناقابلِ عمل نہیں بنایا۔ اللہ نے دینی احکام میں نہ کوئی شدت، سختی اور مشکل رکھی ہے اور نہ انسانی طاقت اور استعداد سے بڑھ کر کوئی تقاضے کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر فرمایا ہے: مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ (المائدہ ۵:۶) ’’اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کرنا چاہتا‘‘۔ سورئہ نساء میں فرمایا: ’’اللہ چاہتا ہے کہ تم پر اُن طریقوں کو واضح کرے اور انھی طریقوں پر تمھیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحا کرتے تھے۔ وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمھاری طرف متوجہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی۔ ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہِ راست سے ہٹ کر دُور نکل جائو۔ اللہ  تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے‘‘۔(النسائ۴: ۲۶-۲۸)

دین میں زیادتی اور اضافے کا نتیجہ سنت ِ رسولؐ کو پسِ پشت ڈالنے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ کسی دانا نے کیا خوب کہا ہے: میں نے جہاں بھی اسراف دیکھا، اس کے ساتھ کسی حق کو ضائع ہوتے دیکھا۔ ایک قول یہ بھی روایات میں آتا ہے: ’’لوگ جب بھی کوئی بدعت پیدا کرتے ہیں تو کسی سنت کو ضائع کربیٹھتے ہیں‘‘۔ (احمد)

دین کو اللہ تعالیٰ نے آسان بنا کر نازل کیا ہے۔ جو لوگ دین میں اضافوں کے درپے ہوتے ہیں وہ دین کو اس کی سادہ اور آسان طبیعت سے نکال کر لوگوں کو شدت اور مشقت میں مبتلا کرتے ہیں۔ ایسا کرنا لوگوں پر انھی ناروا اور بے جا و ناجائز پابندیوں، قدغنوں اور پھندوں کو کس دینا ہے، جنھیں توڑنے اور ہٹانے کے لیے محسنِ انسانیتؐ اور رحمۃ للعالمین ؐ تشریف لائے۔ آپؐ کی بعثت و نبوت کے اس مقصد کو قرآنِ مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ ز یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا  بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ لا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (اعراف ۷:۱۵۷)  (پس آج یہ رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبرؐ، نبی اُمّی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔   وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، اُن کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اُس روشنی کی پیروی کریں جو اُس کے ساتھ نازل کی گئی ہے وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔

ان بنیادی اور اصولی تعلیمات کو پیش نظر رکھ کر ہر مسلمان، مومن کو اپنے اعتقادات، عبادات، معاملات، عادات اور رسوم و رواج کا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں وہ شارعِ حقیقی اللہ تعالیٰ کی شریعت میں کسی اضافے یا کمی کا مرتکب تو نہیں ہے۔ بعض معاشرتی روایات ورسومات یقینا ایسی ہوں گی جن کو شریعت سمجھ کر ادا نہیں کیا جاتا مگر ان کے ادا نہ کرنے والے کو بہرحال معاشرہ موردِالزام ٹھیراتا ہے جو ہرگز روا اور جائز نہیں۔ جو چیز دین نہیں ہے اُس کی ادایگی پر اصرار کرنا درست نہیں۔ درست تو یہ ہے کہ دین حقیقی پر عمل کے لیے ترغیب دی جائے۔ اُسی کے لیے اصرار کیا جائے اور  اُسی پر عمل میں مداومت اختیار کی جائے۔ دین و شریعت کے متعین اور مسنون طریقوں کو چھوڑ کر، ازخود وضع کیے ہوئے طور طریقوں پر عمل کیے جانا اور دوسروں کو ان پر عمل کے لیے مجبور کرنا اطاعت و اتباعِ رسولؐ کے منافی ہے۔ یہ کسی بھی صورت میں نہ مستحسن ہے اور نہ لائقِ عمل۔  اللہ و رسولؐ سے آگے بڑھنے کی کوئی کوشش قابلِ قبول نہیں ہوسکتی اور رسولِ اکرمؐ کے طریقۂ عمل کو چھوڑ کر کسی اور طریقے پر عمل انسان کو متقی اور بڑا عابد و زاہد نہیں بنا سکتا۔ بقول علامہ محمد اقبال    ؎

بمصطفٰیؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نہ رسیدی ، تمام بولہبی است

علاقائی اور عالمی تبدیلیوں نے ترکی کو ایک فیصلہ کن موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ اُس کے لیے  علاقائی اور عالمی سیاست میں کردار ادا کرنے کا انحصار کئی باتوں پر ہے:

  1. امریکا اور یورپی یونین کے تعلقات ترکی کے ساتھ کیا رُخ اورنوعیت اختیار کریں گے؟ امریکا کی نسبت یورپی یونین کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنا ترکی کی ترجیحات میں شامل ہے، لیکن اس کے باوجود امریکا کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
  2. عرب ریاستیں عالمی جغرافیائی سیاست میں کلیدی اہمیت رکھتی ہیں۔ اُنھیں محض تیل اور گیس کے چشمے سمجھ کر اُن کا سیاسی کردار متعین نہیں کیا جاسکتا، بلکہ یہ عرب ممالک دنیا بھر کے نہایت اہم بحری محلِ وقوع پر واقع ہیں اور ترکی کو یہاں نفوذ کی بہرحال ضرورت ہے۔ اسی طرح اس خطے کے اندر ایران کا کردار بھی اہمیت رکھتا ہے جس نے گذشتہ ۳۰سال کے دوران متعدد ممالک، تحریکات اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ اپنے روابط کا ایک گہرا نظام قائم کرلیا ہے۔ اس صورت حال میں ترکی   اپنا یہ کردار عالمی طاقتوں کے ساتھ تصادم مول لے کر ادا نہیں کرنا چاہتا۔ قفقاز میں روسی اثرونفوذ  قائم ہے۔ البانیا اور بوسنیا میں وسطی یورپ کے ممالک اپنے اثرات رکھتے ہیں۔ لہٰذا ترکی عالمِ عرب کو اپنا ہدف بنائے بغیر کچھ نہیں کرسکتا۔
  3. حالیہ عرب انقلابات نے سیاسی اعتبار سے ترکی کے کردار کو ایک نمونے کے طور پر خطے میں اہم بنا دیا ہے۔ عرب علاقائی صورت حال نے ترکی کو یہ موقع بھی فراہم کردیا ہے کہ وہ ایک تیسرے اور درمیانے فریق کی حیثیت سے عرب ممالک کے داخلی اختلافات کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
  4. اقتصادی لحاظ سے ترکی سرمایہ کاری کو عرب ممالک میں خسارے سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ ۲۰۱۱ء کے ابتدائی تین ماہ کے دوران ترکی برآمدات مصر اور یمن میں ۲۴ فی صد، تیونس میں ۲۰فی صد، لیبیا میں ۴۳ فی صداور شام میں ۵ فی صد کم ہوگئی تھیں۔ لیبیا اور شام کے حالات زیادہ خراب ہونے کی بنا پر اس شرح میں مزید کمی ہوگی۔

عرب انقلابات کے دوران اور بعد میں عرب ممالک کے حوالے سے ترکی نے کئی اہم مواقع پر اپنے موقف میں تبدیلی کی۔ خصوصاً لیبیا اور شام کے حوالے سے ترکی نے موقف بدلا اور یہ اپنی جگہ ضروری تھا۔ عرب بہار کے دوران ترکی کو داخلی طور پر کچھ انتشار و انارکی کی صورت حال سے سابقہ رہا۔ اس بنا پر ترکی اور دیگر علاقائی ممالک کے مابین تعلقات میں تعطل بھی رہا۔خصوصاً شام، عراق اور ایران کے ساتھ تعلقات سخت کشیدہ ہوچکے تھے۔

مستقبل میں ترکی کے علاقائی کردار کو کئی حوالوں سے دیکھا جاسکتا ہے:

  1. ترکی کردار میں بھتری اور پیش رفت: اس کا انحصار ان اُمور پر ہے کہ  اردگان حکومت کو علاقائی سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے قومی تائید حاصل رہے۔ کرد مسئلے کو پُرامن طریقے سے حل کرنے کے لیے داخلی اصلاحات کی تکمیل کا مکمل موقع ملے اور اس میں کامیابی حاصل ہوجائے۔ ترک خارجہ سیاست عمومی امریکی سیاست کے ساتھ اتفاق کرتی رہے۔ امریکا، یورپ اور عالمِ عرب کو ایران کے کردار کو متوازن رکھنے کے لیے ترکی کے کردار کی ضرورت برقرار رہے۔
  2. علاقائی منظرنامے میں ترکی کردار کا خاتمہ: یہ امکان رد نہیں کیا جاسکتا۔ کُردوں سے مصالحت میں اردگان حکومت کی ناکامی اس میں اہم عامل ہوگی۔ موجودہ ترکی کا علاقائی کردار ختم ہوجانے میں سیکولر اور اسلامی طاقتوں کے تصادم کو بھی دخل حاصل ہوگا۔ ایک عامل یہ بھی ہے کہ مشرق و مغرب کے درمیان مفاہمت پیدا کرنے میں ترکی خود کو ایک پُل کے طور پر     پیش کرنے میں ناکام رہے۔

مذکورہ امکانات و خدشات کو پیش نظر رکھ کر دیکھا جائے تو گذشتہ چند مہینوں میں ترکی نے بعض اہم کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں اور بعض مواقع پر اپنے موقف میں حیرت انگیز لچک بھی دکھائی ہے۔ امریکا ’داعش‘ کے معاملے میں ترکی سے حمایت اور سرگرم تعاون کا خواہاں ہے، جب کہ ترکی   ’داعش‘ سے پہلے آمربشارالاسد کے خلاف کارروائی چاہتا ہے۔ امریکا چاہتا ہے کہ ترکی اپنے جنوب میں موجود فضائی اڈے سے امریکا کو فضائی کارروائیوں کی اجازت دے بلکہ وہ ترک فضائیہ کو بھی استعمال کرنا چاہتا ہے۔ امریکا نے ترکی سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ شام اور عراق میں مجاہدین کے داخلے پر پابندی سخت کرے اور ان کی مالی مدد بھی بند کی جائے۔

ترکی صدر اور وزیراعظم دونوں کی ترجیحات امریکا سے مختلف ہیں۔ وہ شام کی مقامی جنگ کو اپنے ملک میں داخل ہوتے نہیں دیکھ سکتے۔ وہ اس معاملے میں حق بجانب بھی ہیں کہ ترکی اس وقت ۱۶لاکھ شامی مہاجرین کو پناہ دیے ہوئے ہے۔ شامی شہر کوبانی سے گذشتہ ہفتے ایک لاکھ ۶۰ہزار مزید شامی کُرد خانہ جنگی کی وجہ سے ترکی میں داخل ہوگئے ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ترکی میں کُردوں کی ہنگامہ آرائی اور لڑائی، شام کے دارالحکومت دمشق کی مرہون منت ہے۔ ترکی حکومتی ذرائع نے کہا ہے کہ کچھ لوگ ہم سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم ’کُرد ورکر پارٹی‘ یا ’داعش‘ میں سے کسی ایک کو قبول کرلیں، مگر ترکی حکومت داعش کو بھی اسی طرح دیکھتی ہے جس طرح ’کُردورکر پارٹی‘ کو۔

اس صورت حال نے امریکی مطالبات میں کچھ شدت پیدا کردی ہے اور ترکی پر زور دیا ہے کہ وہ داعش کے خلاف جنگ میں کردار ادا کرے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ترک صدر اردگان نے خطے کے مسائل پر جان دار موقف اپنایا۔ داعش کے خلاف جنگ کے بجاے شامی آمر بشارالاسد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ مصری فوج کے سابق سربراہ اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور نام نہاد صدرسیسی کے خلاف احتجاج کیا کہ اسے اقوامِ متحدہ کی اسمبلی میں شرکت کا حق حاصل نہیں۔ یہ ایک آمراور غیرجمہوری سربراہِ مملکت ہے۔ سیکرٹری جنرل اقوامِ متحدہ بان کی مون کی طرف سے ناشتے کی دعوت ٹھکرا دی کہ: ’’جس دعوت میں مصری آمر جنرل عبدالفتاح سیسی ہوگا مَیں وہاں نہیںجائوں گا‘‘۔

رجب طیب اردگان کی توانا آواز اور جرأت مندانہ اظہار راے کو برطانوی روزنامہ گارڈین نے یوں بیان کیا ہے: امریکی نائب صدر جوبائیڈن نے ہارورڈ یونی ورسٹی میں اپنے خطاب کے دوران ترکی پر الزام عائد کیا کہ وہ شام اور عراق میں سرکردہ سُنّی جماعت داعش کی حمایت کر رہا ہے۔ طیب اردگان نے امریکی نائب صدر سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے اس بیان پر معذرت کرے اس پر امریکی نائب صدر کو معذرت کرنا پڑی۔ ان حالات کے باوجود ابھی ترک امریکا تعلقات  اس قدر کمزور نہیں ہوئے جس قدر ۲۰۰۳ء میں ہوگئے تھے۔ جب ترکی نے امریکی افواج کو       اپنی سرزمین سے عراق پر حملے کی اجازت نہیں دی تھی۔ داعش کے خلاف برسرِپیکار شام کی کُرد جمہوری پارٹی کو امریکا نے اسلحہ فراہم کرنا شروع کیا تو ترکی نے سخت احتجاج کیا، مگر دوسرے ہی روز یہ خبر آگئی کہ ترکی ان کُردوں کو اپنی حدود سے گزر کر کوبانی کے معرکے میں شریک ہونے کی اجازت دینے پر رضامند ہوگیا ہے۔

تین سال قبل لیبیا میں شروع ہونے والے انتفاضہ کے نتیجے میں قذافی حکومت کا خاتمہ ہوا اور دیگر عرب ممالک کی طرح یہاں بھی عبوری حکومت قائم ہوئی جس نے پُرامن انتقالِ اقتدار کا وعدہ پورا کیا، مگر بدقسمتی سے نئی حکومت کے قیام سے لے کر اب تک لیبیا میں انتشار و انارکی اور ہلاکت و تباہی کا دور دورہ ہے۔ اب تو صورت حال سنگین تر ہوگئی ہے۔ داخلی جنگ نے ملک کو تخریب سے دوچار کر رکھا ہے۔ کئی ناموں سے تنظیمیں موجود ہیں جو مسلح کارروائیوں میں شریک ہیں۔ قتل و غارت اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ عبوری حکومت بھی اور منتخب حکومت بھی دونوں ملک کو اس صورت حال سے باہر نکالنے میں ناکام رہی ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ حکومت اور حکمرانی نام کی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ مسلح کارکن اور جماعتیں سمجھتی ہیں کہ انقلاب برپا کرنے والے صرف ہم ہیں۔ قذافی حکومت کا خاتمہ ہمارا کارنامہ ہے۔ لہٰذا اُس کی جگہ حکمرانی کا حق ہم ہی رکھتے ہیں۔ بہت سی مسلح تنظیموں کے قائدین ہتھیار چھوڑنے کے قائل نہیں ہیں۔ اسلحہ اُٹھانا اور اسے استعمال میں لانااُن کی عادت اور مزاج بن گیا ہے جس نے ملک کو ہلاکت و تباہی میں ڈال رکھا ہے۔

انقلاب کے ایک سال بعد ۲۰۱۲ء کے انتخابات کے نتیجے میں علی زیدان محمد نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالی۔ ستمبر ۲۰۱۲ء سے لے کر مارچ ۲۰۱۴ء تک علی زیدان اس منصب پر متمکن رہے مگر اس دوران وہ کوئی بھی قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہ کرپائے۔ ان کے انتخاب کے موقعے پر ہی عالمی ذرائع ابلاغ کے تبصروں میں یہ بات موجود تھی کہ وہ ایک کمزور وزیراعظم ہوں گے۔ واقعتا ان کا دورِحکومت اس بات کا شاہد رہا۔ مارچ ۲۰۱۴ء میں تو ان کے اغوا کا حادثہ بھی سامنے آیا اور پھر وہ حکومت سے دستبردار ہوگئے۔ ان کے بعد عبداللہ الثنی نے وزارتِ عظمیٰ کا قلم دان سنبھالا۔ یہی انتخابات کا بھی زمانہ تھا۔ نئی حکومت کی تشکیل کے لیے انتخابات ہوئے مگر ان کو انتخابات کہنا بھی مذاق ہے۔ پانچ چھے فی صد کی شرح جن انتخابات میں رہی ہو اُس کے نتیجے میں کیسی حکومت تشکیل پائے گی اور اس کی قانونی حیثیت کیا ہوگی۔ خود اس حکومت کی طاقت اور اختیار کا عالم کیا ہوگا، اس کا اندازہ مشکل نہیں۔ بہرحال ان انتخابات میں عوام کی لاتعلقی اور عدم دل چسپی کااظہار بہت واضح رہا ، حتیٰ کہ نومنتخب ارکانِ اسمبلی کو بھی اسمبلی کے اجلاس اور تشکیل حکومت کے عمل سے خاص دل چسپی دکھائی نہیں دی۔ ۲۰۰کے ایوان میں ۹۳،۹۴ ممبران اسمبلی تشکیل حکومت کے لیے منعقدہ اجلاس میں شریک ہوئے۔ وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار احمد معیتیق کو حاضر افراد میں سے ۸۳ کا ووٹ ملا۔ احمد معیتیق ارکانِ اسمبلی میں سب سے کم عمر ممبر تھے۔ ان کی کابینہ کی تشکیل کے چند ہی گھنٹے بعد ان کے گھر کا بھی محاصرہ کرلیا گیا اور فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص مارا گیا اور کچھ زخمی ہوئے۔ معیتیق محفوظ رہے۔ ادھر عبوری وزیراعظم عبداللہ الثنی نے چارج دینے سے انکار کر دیا اور دونوں افراد کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی شروع ہوگئی۔ معیتیق نوعمر اور نوتجربہ کار ہونے کے باعث انتہائی کمزور وزیراعظم تھے۔ غالباً فوج نے بھی عبداللہ الثنی کی حمایت کی جس کی بناپر وہ وزارتِ عظمیٰ چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے۔ بالآخر عدالت ِ عظمیٰ کو مداخلت کرنا پڑی اور عدالت نے عبداللہ الثنی کو برقرار رکھتے ہوئے ایک مصالحتی کونسل کی تشکیل کا اعلان کیا جس کا مقصد حالات کو درست کرنا تھا۔ ستمبر میں عبداللہ الثنی کو بھی کابینہ کی تشکیل کا ہدف دیا گیا تو اس کے لیے پارلیمان کا اجلاس ہوا مگر وزارتوں پر ارکانِ اسمبلی کے اختلافات کے باعث اجلاس برخاست کردیا گیا۔ ارکانِ اسمبلی کا مطالبہ تھا کہ بحرانی حالات کے پیش نظر کابینہ کو مختصر سے مختصر رکھا جائے مگر وزیراعظم کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔

۲۲ستمبر کی شام کو طبرق شہر میں ہونے والے اجلاس میں عبداللہ الثنی کی حکومت کو اعتماد کا ووٹ مل گیا ۔ نوتشکیل شدہ حکومت کو اجلاس میں حاضر ۱۱۲؍ارکانِ اسمبلی میں سے ۱۱۰ نے ووٹ دیا۔ وزارتِ دفاع سمیت ۱۰ وزرا پر مشتمل کابینہ وجود میں آئی۔ وزارتِ دفاع کا قلم دان وزیراعظم الثنی نے اپنے پاس رکھا ہے اور تین ارکان بھی وزیراعظم کے مشیران کی حیثیت سے اُن کے ساتھ ہوں گے۔ وزیرخارجہ محمد الدایری ہیں اور وزارتِ داخلہ عمر السکنی کے حوالے کی گئی ہے۔

دوسری طرف المؤتمر الوطن (عبوری کونسل) نے بھی عمرالحاسی کی صدارت میں ’نگران حکومت‘ تشکیل دے رکھی ہے۔ الثنی اور الحاشی کے درمیان اس وقت نزاع موجود ہے۔ عبوری کونسل کے اجلاس طرابلس میں اور منتخب اسمبلی کے طبرق میں ہو رہے ہیں۔ الثنی کے طرف داروں کا کہنا ہے کہ عبوری کونسل اپنی میعاد پوری کرچکی ہے، جب کہ عبوری کونسل کا بیان ہے کہ نومنتخب ارکان کی اسمبلی نے جون میں اجلاس منعقد کر کے دستوری اعلان کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس بناپر انتقالِ اقتدار کا عمل اس اعلان کے مطابق انجام نہیں پاسکتا۔ عدالت نے اس دستوری نزاع پر اکتوبر کے شروع میں فیصلہ دینے کا کہا ہے۔

قذافی حکومت کے خاتمے (۲۰۱۱ء) سے لے کر اب تک لیبیا سیاسی اعتبار سے دو گروپوں میں تقسیم ہے، اور نیا ایوان بھی اسی چیز کی نمایندگی کرتا ہے جو جون کے انتخابات کے بعد بنا۔ الثنی کی حکومت لبرل گروپ کی نمایندہ ہے، جب کہ دوسرا گروپ اسلام پسندوں پر مشتمل ہے۔ انقلاب کے بعد سے اب تک عبوری اور منتخب حکومت میں سے کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہوسکا کہ وہ عملاً حکومت کرسکیں۔ زیدان حکومت کی بے بسی کے بعد اب عبداللہ الثنی کی بے چارگی کا عالم یہ ہے کہ دارالحکومت طرابلس میں اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوسکا۔ اُنھیں یہ اجلاس طبرق شہر میں بلانا پڑا۔ نومنتخب حکومت پر لبرل افراد کا غلبہ ہے اور دارالحکومت اسلام پسندوں کے قبضے میں ہے۔ایوانِ حکومت طرابلس پر صدرمملکت عمرالحاسی اور اس کے حامیوں کا تسلط ہے۔

۲۰۱۱ء میں قذافی حکومت کے خاتمے پر قائم ہونے والی عبوری حکومت اور پھر منتخب حکومتوں میں سے ہر حکومت اس قدر کمزور رہی کہ نہ ایوانِ حکومت مسلح تنظیموں کے حملوں سے محفوظ رہا نہ وزیراعظم کو تحفظ حاصل رہا۔ دومنتخب وزیراعظم علی زیدان اور احمد معیتیق کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ، ان حکومتوں کی طاقت اور اختیار کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اسلحہ ملک کے اندر جس قدر عام ہوچکا ہے اور مسلح تنظیمیں جس بڑی تعداد میں تشکیل پاچکی ہیں، اُن کی موجودگی میں ایسی کمزور حکومتوں اور نام نہاد انتخابات کا کوئی فائدہ نہیں۔ ملک کے اہم اور مرکزی ہوائی اڈے ان مسلح تنظیموں کے قبضے میں ہیں۔ دارالحکومت طرابلس پر ان کا تسلط ہے۔ اس وقت تین بڑے گروہ باہمی اور داخلی جنگ میں مصروف ہیں اور چوتھا مناسب وقت کے انتظار میں ہے۔ ان میں اسلام پسندوں کا گروہ ۲۰ سے زائد مسلح دستوں اور ملیشیائوں پر مشتمل ہے۔ ملکی اور غیرملکی تنظیمات کے قائدین   ان گروپوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ القاعدہ اور اخوان پر ان کی قیادت کا الزام ہے۔ دارالحکومت کے مشرق میں واقع مصراتہ شہر ان کی قوت کا مرکز ہے۔ دارالحکومت پر بھی ان کا گہرا رسوخ قائم ہے۔ یہ اسلامی گروپ سابق بَری فوج کے سربراہ خلیفہ حفتر کی افواج سے بھی جنگ آزما ہیں۔ اسلام پسندوں کا یہ اتحاد طرابلس میں ’دروع‘ کے نام سے اور بن غازی و درنہ شہروں میں ’انصارالشریعہ‘ کے ناموں سے مسلح سرگرمیوں میں مصروف ہے۔

دوسرا اتحاد لبرل طاقتوں کا ہے۔ اس گروپ کا حکومت سے بھی رابطہ ہے اور یہ قعقاع اور الصواعق دستوں کے ناموں سے دارالحکومت طرابلس کے جنوب مغرب میں واقع شہر زنتان میں مصروف ہے۔ النصر دستہ بھی اسی اتحاد کا حصہ ہے۔

تیسرا مجموعہ ’الجیش الوطنی‘ ہے جس کی قیادت جنرل حفترکر رہا ہے۔ اس کا مرکز بن غازی کا جنوب مشرق ہے۔ یہ فضائیہ سے بھی کام لیتا ہے اور زمینی حملوں سے بھی ’متشدد اسلام پسندوں‘ کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہے۔ اس گروپ کا ظہور اسی سال عین اس وقت ہوا جب مصری افواج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے مصر کی منتخب حکومت کو ختم کرنے کے ٹھیک ایک سال بعد نام نہاد صدارتی انتخابات کا ڈراما رچایا۔لیبیا کے سیاسی منظرنامے پر اچانک لیبیا کا سابق فوجی سربراہ    خلیفہ حفتر نمودار ہوا اور اس نے اعلان کیا کہ ہم لیبیا کو متشدد اسلام پسند قوتوں اور اخوان المسلمون سے پاک کردیں گے۔حفترنے ملکی افواج کے ہزاروں سپاہیوں اور افسروں کو یک جا کیا اور رضاکاروں کو بھی ساتھ ملا لیا لیکن وہ اپنے مزعومہ مقاصد میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکا اور کامیاب ہونا ممکن بھی نہیں ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ سارا ڈراما مصری جنرل سیسی کو سہارا دینے کے لیے رچایا گیا تھا۔

چوتھا گروپ قبائلی طاقتوں کا ہے۔ یہ ورفلہ اور مقارحہ وغیرہ قبائل پر مشتمل ہے۔ یہ      نہ اسلامی طاقتوں کے ہم نوا ہے اور نہ حکومت کے حمایتی۔ یہ آغاز ہی سے غیر جانب دار چلے آرہے ہیں۔ البتہ وہ اپنے خلاف ہونے والی مسلح کارروائیوں سے بہت نقصان اُٹھا چکے ہیں۔ دراصل   یہ قبائل قذافی حکومت نواز تھے۔

اس وقت مسلح جدوجہد اور کارروائیوں میں مصروف اثرانگیز طاقتیں دروع، الصواعق و القعقاع، انصارالشریعۃ، دستہ ۱۷فروری، دستہ راف اللہ سحاتی، الجیش الوطنی اور قبائلی ملیشیا ہیں۔ الجزیرہ اور العرب کے تجزیہ نگار یاسرالزعاترہ کے مطابق لیبیا ایسا ملک ہے جہاں ہتھیار ڈالنے کی روایت کم ہے بلکہ ایسی جماعتیں موجود ہیں جو آسانی سے اپنے سر کسی جلاد کو پیش نہیں کرسکتیں۔ وہ آخری سانس تک لڑیں گے۔ رہی بات انتشار اور تشدد کی تو اس کا سب اقرار کرتے ہیں۔ لیکن مسلح کارروائیوں کے بعد متوقع کیفیت یہی ہونا تھی کہ تیل کی دولت سے مالا مال ملک کے بڑے قبائل اور خاندان خلیفہ حفتر کے ہم نوا بن جائیں اور وہ کچھ حاصل کرنے کی کوشش کریں جو وہ بیلٹ بکس کے ذریعے حاصل نہیں کرسکتے۔ مختصر یہ کہ کسی بھی طاقت کو منظر سے ہٹاکر جمہوریت کا عمل جڑ نہیں پکڑ سکتا۔ ملکی قوتوں کے مقابلے میں امریکا سے آنے والے خلیفہ حفتر کے پیش نظر کوئی بڑی سیاسی قوت تشکیل دینا نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ بیرونی منصوبے ہیں جن کی تشکیل اور تکمیل کا فریضہ حفتر جیسے لوگ انجام دیتے ہیں۔ بیرونی قوتوں نے عرب بہار کو سبوتاژ کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر صرف اس لیے خرچ کیے ہیں کہ یہ انقلاب کی چنگاری ان تک نہ پہنچ جائے۔

خلیفہ حفتر نے اعلان کیا تھا کہ لیبیا کو اسلام پسندوں خصوصاً اخوان المسلمون سے پاک کردیںگے۔ اس پر اخوان المسلمون لیبیا کے مراقب عام بشیرالکبتی نے کہا کہ ہم لیبیا قوم کا حصہ ہیں اور حفتر ایسی جماعت کے بارے میں بات کر رہے ہیں خود جس کے اپنے اُوپر تشدد اور   دہشت گردی روا رکھی گئی۔ اخوان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ایسی کارروائیوں میں ملوث ہو۔ لیبیا کے بحران کا حل ہمارے نزدیک تمام قوتوں کا مذاکرات اور مکالمے کی میز پر بیٹھنے میں مضمر ہے۔ جس قدر جلدی ہوسکے مذاکرات کا عمل شروع ہو۔ عبداللہ الثنی کی حکومت نے بھی اپنے ایک بیان میں یہی مطالبہ کیا کہ تمام قوتیں گفتگو کی میز پر آجائیں اور سیاسی مسائل کو اسلحے کی زبان سے حل کرنا چھوڑدیں۔ قانون اور عدالت کی طرف رجوع کریں۔

اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور ۱۳ممالک نے ۲۲ستمبر کو ایک اجلاس میں مطالبہ کیا کہ لیبیا کے اندر قتل و خونریزی کا سلسلہ بند کیا جائے اور کسی بھی غیرملکی مداخلت کی کوشش نہ کی جائے۔ اجلاس میں شریک ۱۳ممالک میں الجزائر، مصر، قطر، سعودی عرب،تیونس، امارات، ترکی، فرانس، جرمنی، اٹلی، ہسپانیہ، برطانیہ اور امریکا ہیں۔اجلاس کے اختتام پر جاری کیے گئے اعلامیے میں تمام جماعتوں اور طاقتوں کو تعمیری فکر کے ساتھ پُرامن سیاسی مذاکرات میں شرکت کے لیے کہا گیا۔ کسی بھی ایسے عمل سے باز رہنے کی تاکید کی گئی جس سے خطرے کی صورت حال پیدا ہونے کا خدشہ ہو۔ عالمی اور علاقائی سطح پر مسئلے کے حل کے لیے کاوشوں کو سراہا گیا۔ الجزائر ملک کے اندر جاری نزاع کے دونوں فریقوں کو گفتگو کی ضرورت پر زور دے گا اور اقوام متحدہ کا مشن ابتدائی بات چیت کو ستمبر کے آخر تک ممکن بنانے کی کوشش کرے گا۔

لیبیا کی اندرونی صورتِ حال کو معمول پر لانے کی غرض سے لیبیا میں موجود اقوامِ متحدہ کے مشن نے اپنی ویب سائٹ پر ۲۹ستمبر کو ہونے والے مذاکرات کے بارے میں کہا: ان مذاکرات کی بنیاد ان اُمور پر ہوگی کہ منتخب اداروں کی قانونی حیثیت کو مانا جائے، دستوری اعلان کا احترام کیا جائے، انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کا لحاظ رکھا جائے اور دہشت گردی کو پوری قوت سے  رد کیا جائے۔ نومنتخب اسمبلی حکومت سے متعلقہ اُمور پر اتفاق راے پیدا کرے، اہم اُمور پر کوئی فیصلہ کرنے کے لیے اسمبلی ارکان کی دوتہائی اکثریت کی راے لی جائے۔ عبوری کونسل اور منتخب اسمبلی کے درمیان انتقالِ اقتدار کے عمل کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے تاریخ، مقام اور اقتدار کے انتقال کا طریق کار طے کیا جائے۔

اقوام متحدہ نے اہلِ لیبیا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی اگست میں پاس کی گئی قرارداد پر عمل کو یقینی بنائیں اور فوری اور مستقل جنگ بندی پر عمل کریں۔ اس بیان میں مسلح جماعتوں کے بڑے شہروں اور ہوائی اڈوں اور عام کارخانوں وغیرہ سے انخلا کا لائحہ عمل بھی طے کیا جائے گا۔ خدمت ِ انسانیت کی کاوشوں کا آغاز ممکن بنایا جائے گا۔کاش! اقوامِ متحدہ کے اس خیرخواہانہ بیان پر عمل ہوجائے اور لیبیا کے طول و عرض میں پھیلی مایوسی بدامنی اور خوف و ہراس کے سایے چھٹ جائیں۔

الشرق الاوسط کے مطابق لیبیا میں شروع ہونے والے انتفاضے کو پونے تین سال ہونے کو ہیں۔ اس انتفاضے کو نتیجہ خیز بنانے میں ’ناٹو‘ کا کردار کلیدی رہا۔ اگر یہ نہ ہوتا تو مظاہرین کے لیے قذافی حکومت کا خاتمہ ممکن نہ ہوسکتا۔ لیکن ناٹو نے اس وقت اس عمل میں حصہ کیوں لیا؟ اس لیے کہ یہ آگ پورے خطے میں نہ پھیل جائے، مگر اب ناٹو خاموش تماشائی ہے۔ پہلے کی طرح اب بھی ضروری ہے کہ ناٹو ملک کے اندر امن و امان اور مستحکم حکومت کے قیام میں اپنا کردار ادا کرے۔

۱۰؍اگست ۲۰۱۴ء کو ترکی میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں وزیراعظم ترکی رجب طیب اردگان ملک کے صدر منتخب ہوئے۔ اب تک صدر کا انتخاب پارلیمنٹ کرتی رہی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب قوم نے براہِ راست اپنے ووٹ سے صدر کا انتخاب کیا ہے۔ رجب طیب اردگان کو پہلے ہی رائونڈ میں اپنے حریفوں پر فیصلہ کُن برتری حاصل ہوگئی اور دوسرے رائونڈ کی ضرورت پیش نہ آئی۔ ملکی دستور کی دفعہ۴ کے مطابق ملک کے صدارتی انتخابات میں اردگان کو مطلق اکثریت حاصل ہے۔ اردگان کو ۵۲ فی صد، اکم الدین احسان اوغلو کو ۳۸فی صد اور صلاح الدین دمیرطاش کو ۹ فی صد ووٹ حاصل ہوئے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق رجب طیب اردگان اس وقت اپنی سیاسی زندگی کے بلند ترین مقام پر پہنچ چکے ہیں۔ وہ ۲۰۰۳ء سے ملک کے وزیراعظم تھے۔ وہ ملک کے صدر بن کر صدر جمہوریہ کے اختیارات کا دائرہ وسیع کرنا چاہتے ہیں۔ ذرائع نے یہ تبصرہ بھی کیا ہے کہ اردگان اپنی زندگی کے جس اہم ترین ہدف تک پہنچنا چاہتے تھے وہاں پہنچ گئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ صدارتی منصب کو اعزازی کے بجاے تنفیذی صورت عطا کی جائے۔

عالمی ذرائع ابلاغ میں بہت اہم خبر رساں اداروں کے تبصروں کے مطابق عراق، شام اور یوکرائن کے بحرانوں میں گھرے ہوئے اور مغرب کے نہایت اہم حلیف اور اتحادی ملک ترکی کا آیندہ صدر انتہائی اہمیت کے حامل کثیر جہتی سیاسی مقام پر کھڑا ہوگا۔ اگر مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کے تناظر میں دیکھا جائے تو ترکی کے صدارتی انتخابات کو تبدیلی کا نقطۂ آغاز قرار دیا جاسکتا ہے۔ برطانوی اخبار دی گارڈین کے مطابق اردگان کی یہ نمایاں کامیابی اُس کی طاقت و اقتدار کو مزید مستحکم کرے گی۔ بیش تر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ وزارتِ عظمیٰ کے پورے عرصے میں اردگان کے لیے یہ مشکل ترین سال تھاجو اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔

شخصیت، تجربے اور سیاسی بصیرت و قومی سطح پر حاصل شہرت و پذیرائی کے اعتبار سے تینوں صدارتی اُمیدواروں کی حیثیت میں بہت نمایاں فرق ہے۔ صلاح الدین دمیرطاش ۴۱سال کے ہیں، ملک کی بہت بڑی قبائلی برادری کُردوں کی حمایت انھیں حاصل تھی۔ اندازے سے بہت کم شرح ووٹ ان کے حصے میں آئی، یعنی ۹ فی صد۔ دوسرے صدارتی اُمیدوار او آئی سی کے سیکرٹری جنرل کے منصب پر رہنے کی وجہ سے عالمی شہرت و تعارف رکھتے تھے اور ملک کی ۱۳سیاسی جماعتوں کے متفقہ اُمیدوار تھے۔ اس تمام تر حمایت کے باوجود انھیں ۳۸فی صد ووٹ ملے۔ اردگان کے مقابلے میں لوگ انھیں ’باباجی‘ خیال کرتے ہیں۔ تنقید و تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ رجب طیب اردگان ۶۰سال کی عمر میں بھی پُرکشش شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ قوتِ کار اور حاضر دماغی کے اعتبارسے بہت اچھا تعارف رکھتے ہیں۔ حکومت میں ۱۲برس گزارنے کے بعد بھی وہ توانا عزم اور تعمیروترقی کے منصوبوں کو مزید آگے بڑھانے کے متمنی ہیں۔ ناقدین کے نزدیک اس کے باوجود وہ منصب ِ صدارت پر متمکن ہوکر ترکی کی سیاست کے نقشے میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکیں گے۔ حامی انھیں ’فرزند اُمت‘ کا نام دیتے ہیں اور حریف انھیں مذاق سے ’سلطان‘ کہتے ہیں۔ بہرحال اردگان اپنے دونوں حریفوں کے مقابلے میں پوری قوم کا اعتماد حاصل کرنے میں واضح طور پر کامیاب رہے اور ۵۲ فی صد سے زائد ووٹ حاصل کر کے ملک کے پہلے جمہوری صدر منتخب ہوگئے۔ بعض ذرائع نے انھیں ترکی کی تاریخ کا مضبوط ترین لیڈر قرار دیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ بطور صدر وہ متعدد قومی اداروں میں اپنے پسندیدہ افراد کو متعین کرنے کا اختیار حاصل کرلیں گے۔

رجب طیب اردگان کی صدارتی انتخابات میں کامیابی، اُن کی اپنی قائم کردہ جماعت ’انصاف و ترقی پارٹی‘ کی مسلسل ۹ویں کامیابی ہے۔ ۱۹۲۳ء سے لے کر اب تک سیاسی منظرنامے پر کسی بھی جماعت کو ایسی برتری حاصل نہیں ہوسکی۔ انصاف و ترقی پارٹی تین بار عام انتخابات میں، تین بار بلدیاتی انتخابات میں، دو بار ریفرنڈم میں اور اب پہلے براہِ راست قومی صدارتی انتخابات میں کامیابی کی منزلیں طے کرچکی ہے۔

۱۲ سال سے انصاف و ترقی پارٹی سیاسی منظر پر نہ صرف موجود ہے بلکہ برسرِاقتدار ہے۔ پارٹی نے خارجی سطح پر عالمی تبصرہ و تجزیہ نگاروں کے لیے قابلِ توجہ ڈپلومیسی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ترکی نے علاقائی و عالمی مقام حاصل کرلیا ہے۔ اردگان کو عالمِ عرب اور عالمِ اسلام میں جو پذیرائی ملی ہے اس سے قبل کسی سیاسی رہنما کو حاصل نہیں ہوسکی۔ انصاف و ترقی پارٹی کے دورِ حکومت میں ترکی متعدد بار قابلِ ذکر اقتصادی کامیابیوں کی منزلیں طے کرچکا ہے۔ ایسی مملکت جو قرضوں اور بحرانوں کے بوجھ تلے دبی ہو، وہ قرضوں کے جان لیوا بوجھ سے باہر نکل آئے تو یہ عالمی سطح پر بے مثال کامیابی ہے۔ وزیراعظم رجب طیب اردگان نے صدارتی انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنے خطاب میں کہا: ترکی عالمی مالیاتی فنڈ کا ۲۳ملین ڈالر کا مقروض تھا جن کی مکمل ادایگی کے بعد وہ مالیاتی فنڈ کے قرضوں سے نجات پاچکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ترکی یہ عزم رکھتا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ کو ۵ملین ڈالر کا قرض دے کر وہ مقروض ملکوں کی صف سے نکل کر قرض دینے والا ملک بن جائے۔ عالمی طاقتوں کی ہدایات کے تابع رہنے کے بجاے عالمی سیاست میں برابر کے شریک کی حیثیت سے کردار ادا کرسکے۔

طیب اردگان ایسی شخصیت ہیں جس نے ترکی کے گلی کوچوں میں خود کو موضوع بحث بنالیا ہے۔ ان کے گرد جمع ترک محبت کرنے والے بھی ہیں اور نفرت کرنے والے بھی۔ ان کے عقیدت مند انھیں اتاترک ثانی سمجھتے ہیں۔ ان کے نقاد کہتے ہیں کہ وہ خطے کو تقسیم کرنے اور اس پر تسلط جمانے کے منصوبے کے آلۂ کار ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ عثمانی سلطنت کے شاہوں جیسا ’شاہ‘ بننا چاہتے ہیں لیکن ان کا یہ خواب اس لیے پورا نہیں ہوسکتا کہ اتاترک نے جو ریاست کا بانی ہے، دستور میں ایسی دفعہ شامل کر رکھی ہے جس کی بنیاد پر ریاست کا سیکولر رہنا ناگزیر ہے۔

اتاترک نے اس دفعہ کے فوراً بعد یہ دفعہ بھی شامل کی ہے کہ سیکولرزم کی اس دفعہ کو کسی بھی وقت اور کسی بھی ذریعے سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ چونکہ اردگان کے پیش نظر خلافت ِ عثمانیہ جیسی ریاست قائم کرنا ہے لہٰذا اس دفعہ کی موجودگی تک یہ نہیں ہوسکتا۔ ترکی دستور میں دینی جماعتوں کی تشکیل ممنوع ہے۔ انصاف و ترقی پارٹی دستاویزی اور کاغذی لحاظ سے سیکولر اور مزاج و طبیعت اور کردار کے اعتبار سے اسلامی ہے۔

پے درپے تین قومی انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے یک جماعتی حکومت کی تشکیل کے باوجود یہ ممکن نہیں تھا کہ معاملہ ان کے ہاتھ میں آجاتا۔ ملک پر فوج کا تسلط قائم تھا اور وہ کسی وقت بھی ان کے خلاف بغاوت کرسکتی تھی۔ لہٰذا اردگان نے پہلے فوج کے اثرات و اختیارات کو محدود کیا، پھر عدلیہ کی اتھارٹی کا خاتمہ کیا جو اسلامی گروپوں کے سر پر لٹکتی تلوار تھی۔ اردگان نے یورپی یونین کے قوانین کے ساتھ انضمام کو غنیمت جانا تاکہ رفتہ رفتہ اُن قوانین کو تبدیل کیا جاسکے جو ان دونوں اداروں سے متعلق تھے۔

انصاف و ترقی پارٹی کے نائب صدر محمد علی شاہین نے دستوری تبدیلیوں کے حوالے سے  کہا کہ ایک مدت سے ہماری راے ہے کہ ۱۹۸۲ء کے دستور میں تبدیلی کی ضرورت ہے اور قوم کو نئے دستور کی ضرورت ہے۔ افسوس ہے کہ دستوری تبدیلیوں کے مسودے پر دوسال کی محنت کے باوجود پارلیمنٹ سے دستوری کمیٹی کا اتفاق نہیں ہوسکا۔ مگر اس کے باوجود ہم اپنی راے پر قائم ہیں اور اپنے مقاصد اور اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

۲۰۱۵ء میں منعقد ہونے والے قومی انتخابات میں پیش کیے جانے والے منشور میں ہمارا سب سے اہم وعدہ یہی ہوگا کہ نیا دستور اتفاق راے سے بنے گا۔ ہمارا یقین ہے کہ ملک کو ایسے دستور کی ضرورت ہے جس سے ملکی مشکلات و مسائل کا حل ممکن ہو، جو انسانی حقوق اور آزادیوں کا ضامن ہو اور ترکی کو ایک جدید ریاست بناسکے۔

رجب طیب اردگان نے بذاتِ خود ترکی کے اندر پارٹی قیادت کو یہ ہدف دیا ہے کہ وہ آیندہ پارلیمانی انتخابات میں اتنی غالب اکثریت حاصل کریں جس سے پارٹی کے لیے دستور میں  تبدیلی لانے کا عمل ممکن ہوسکے۔ انھوں نے یہ بات بھی واضح کی کہ آیندہ عام انتخابات میں پارٹی کی شرکت کا مقصد دستور میں تبدیلی کی خاطر زیادہ سے زیادہ اکثریت حاصل کرنا ہے۔ گذشتہ انتخابات میں اگرچہ پارٹی کو ۵۵۰ کے ایوان میں ۳۱۳ نشستیں حاصل تھیں لیکن وہ غالب اکثریت رکھنے کے باوجود دستور میں تبدیلی کے لیے مطلوبہ دوتہائی اکثریت نہیں رکھتی تھی۔

اردگان کی صدارتی کامیابی پر مخالفین کا اعتراض ہے کہ وہ ملک کو صدارتی نظام میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔ اردگان نے اس راے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ میں کسی امتیاز کے بغیر ۷۷ملین ترک عوام کا صدر ہونے کا حلف اُٹھائوںگا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے تاریخی اصلاحات اس لیے کی ہیں کہ ملک کے تمام شہری آزادیِ راے کا حق کسی خوف و خطر کے بغیر استعمال کرسکیں۔ اس کے برعکس اُن کے حریفوں کا خیال ہے کہ ترکی کو مغربی اقدار و روایات سے بہت دُور لے جارہے ہیں۔ اردگان کو درپیش چیلنجوں میں ایک بہت بڑا مسئلہ معروف دانش ور فتح اللہ گولن کی قابلِ اعتراض سرگرمیاں ہیں۔ ان کے بارے میں اردگان نے کہا کہ میرے منصب ِ صدارت سنبھالنے سے گولن سے کش مکش میں اضافہ ہوجائے گا۔ اُن کا کہنا ہے کہ گولن صرف اردگان اور اس کے خاندان اور ساتھیوں کے خلاف نہیں ہے بلکہ وہ ترکی اور ترک قوم کی آزادی کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔

انصاف و ترقی پارٹی کا کہنا ہے کہ سیاسی کش مکش اور چیز ہے اور تخریبی کش مکش دوسری چیز۔ فتح اللہ گولن کی پارٹی پر انصاف پارٹی کا الزام ہے کہ وہ قومی اداروں کے اندر انتشار و انارکی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ترکی ریاست کے خلاف مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ملک کی قومی اور وطنی سلامتی کے اہم رازوں کی جاسوسی کرتے پکڑے گئے ہیں۔ وہ ان معلومات اور سربستہ رازوں کو ترکی کے دشمنوں تک پہنچاتے ہیں۔ ابتدا میں جب وہ حکومت کے سیاسی طور پر مخالف رہے تو اُن سے بالکل تعرض نہیں کیا گیا۔ حتیٰ کہ وہ دستوری حقوق حاصل کیے بغیر سیاسی پلیٹ فارم پر اختلافی سیاست کرتے رہے۔ انھوں نے کوئی سیاسی جماعت رجسٹر نہیں کرائی تھی جس کے ذریعے وہ حکومت کی مخالفت کرسکتے۔ ان پر دوسرا الزام یہ ہے کہ انھوں نے ’مرمرہ‘ بحری جہاز کے مسئلے پر اسرائیلی حکومت کی تائید کی اور ترکی حکومت کو اُن ۹ شہدا کی شہادت کا ذمہ دار قرار دیا جنھوں نے غزہ میں فلسطینی قوم کے گرد اسرائیلی محاصرے کو توڑنے کی خاطر جامِ شہادت نوش کیا۔ یہی وہ موقع ہے جب ترکی حکومت نے اُن کا محاسبہ کرنا چاہا۔ تیسرا الزام یہ ہے کہ فتح اللہ گولن کی جماعت کے کارکن خفیہ طور پر قومی حکومتی اداروں میں جاسوسی نظام قائم کر کے عسکری اور سول حکومتی اداروں کی سلامتی کو خطرے سے دوچار کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ترکی سلامتی کونسل کے اجلاسوں کی جاسوسی کی اور ان خفیہ معلومات کو عام کیا۔

ترکی داخلی اور خارجی دونوں سطحوں پر کئی مشکلات اور چیلنجوں سے دوچار ہے اور رجب طیب اردگان نے ان تمام مسائل و مشکلات کو نقطۂ نظر صفر پر لانے کا عزم ظاہر کیا تھا مگر ۱۲سال مسلسل اقتدار میں رہنے کے بعد بہت سے اُمور و معاملات سے پردہ اُٹھاتو وہ مشکل تر ہوتے گئے۔ داخلی سطح پر اردگان کو سیکولر قوتوں سے سابقہ ہے جو اپنے مقاصد اور اہداف سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتیں، جب کہ اسلامی روحانیت ترکی کو اس کی تہذیب و ثقافت کی طرف لوٹانا چاہتی ہے۔ ملکی امن و امان کے قیام اور اس پر صرف ہونے والے قومی سرمایے کی شرح کو کم سے کم کرنا بھی بہت بڑا چیلنج ہے۔ شام، مصر، عراق وغیرہ کے مسائل ترکی حکومت اور معیشت پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ ملک کے اندر قبائلی تحریکیں بھی ہنگاموں اور فسادات کو ہوا دینے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتیں۔ ان تمام اندرونی و بیرونی مسائل کے باوجود، انصاف و ترقی پارٹی کی بلدیاتی انتخابات اور صدارتی انتخابات میں نمایاں اور واضح تر کامیابی سے قومی رجحان اور میلان کا اندازہ ہوتا ہے۔ اُمید ہے کہ      قوم دستوری تبدیلیوں کو یقینی بنانے کے لیے انصاف و ترقی پارٹی کو ۲۰۱۵ء کے پارلیمانی انتخابات میں پہلے سے مضبوط تر عوامی مینڈیٹ دے کر پارلیمنٹ میں پہنچائے گی۔ غالب اُمید ہے کہ  رجب طیب اردگان بحیثیت صدر ریاست ان تمام اُمور و وسائل سے نبردآزما ہونے میں کامیاب ہوں گے۔ ان کا کامیاب ماضی اس بات کی شہادت فراہم کرتا ہے کہ وہ ایسی شخصیت ہیں جس کو معلوم ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ وہ اپنے ایجنڈے پر پوری یک سوئی کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

آیندہ انصاف و ترقی پارٹی اپنے اہداف حاصل کرنے میں کس حد تک کامیاب رہتی ہے، پارٹی مقبولیت سے تو اس کے امکانات روشن نظر آتے ہیں مگر ناقدین کا کہنا ہے کہ اردگان کے پارٹی سربراہ نہ رہنے کی وجہ سے اُن کی پارٹی پر گرفت کمزور ہوجائے گی۔ پارٹی کے بدخواہوں نے پارٹی کے اندر عبداللہ گل دھڑے کا وجود بھی دریافت کرلیا ہے۔ یہ اندازے اور افواہیں انصاف و ترقی پارٹی کا سفر کھوٹا کرنے کی سازشیں ہیں۔ اُمیدہے کہ پارٹی کے داخلی نظام میں ہونے والی تبدیلی پارٹی قیادت اور قومی حکومت کے لیے مزید تقویت کا باعث بنے گی۔ غالب امکان ہے کہ ترکی وزیرخارجہ احمد دائود اوغلو جو عالمی اُمور میں اردگان کے دست ِ راست کی حیثیت رکھتے ہیں اور پارٹی کے داخلی نظام میں بھی مضبوط شخصیت ہیں، پارٹی سربراہ بنا دیے جائیں اور وہی ملک کے وزیراعظم بھی ہوں۔ اس کے ساتھ سابق وزیرٹرانسپورٹ بن علی یلدریم بھی اس منصب کے اُمیدوار ہوسکتے ہیں۔

انسان جب مخالف سمت میں محوِ سفر ہو تو اُس کو تھکاوٹ کے سوا کیا حاصل ہوسکتا ہے۔ نہ وہ منزل کو پاسکتا ہے اور نہ منزل اُس سے قریب ہوسکتی ہے۔ہمارا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ قرآنِ مجید کا نسخۂ ہدایت ہمارے گھروں کی زینت ہے۔ لائبریریوں میں موجود ہے، گاڑیوں میں رکھا ہوتا ہے، غرض یہ کہ قرآن ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔ ہم جدید و قدیم ہر ذریعے سے اس کو سن اور تلاوت کرسکتے ہیں۔ ہم میں سے کثیرتعداد اس کی تعلیم اس لیے حاصل کرتی ہے کہ وہ اس کو ناظرہ پڑھ سکیں، زبانی یاد کرسکیں۔ ہم اس قرآن کو نمازوں میں سنتے اور پڑھتے ہیں۔ خود بھی سال بھر بلکہ ساری زندگی اس کی تلاوت کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ ضروری ہے، بہت قابلِ رشک ہے___ مگر سوال یہ ہے کہ ہم یہ سب کچھ کیوں کرتے ہیں؟ کیا اس لیے کہ قرآن کو ہم اپنے لیے وہ دستورِ حیات سمجھتے ہیں جو ہمارے خالق و مالک نے ہمارے لیے نازل کیا ہے اور اس کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرنے کا حکم دیا ہے؟ کیا ہم واقعی دنیا اور اس کے بچھے ہوئے جال سے بچ کر خوشنودیِ رب اور سعادتِ دارین کی خاطر ایسا کرتے ہیں؟

قابلِ تعریف بات تو یہی ہے کہ ایسا ہی ہو مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جگہ جگہ درسِ قرآن کی محافل منعقد ہوتی ہیں۔ لوگ ایسی آیات کے دروس سننے کے لیے ذوق و شوق سے آتے ہیں جو آیات محبت ِ الٰہی پر اُبھارتی ہوں، ان میں سامعین کی دل چسپی بہت گہری ہوتی ہے۔لیکن جونہی آپ  اُن سے کسی ایسی آیت پر گفتگو کریں جو انسانی عادات اور معاشرتی رویوں کے خلاف ہو ، تو لوگوں کے ذہن ایسی باتوں کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بیش تر معاشروں میں کسی آیت کے نفاذ کو لوگ اہمیت نہیں دیتے ہیں، حالانکہ یہ معاشرے اسلامی ہوتے ہیں اور اس لحاظ سے اُن کے رسوم و رواج اور عادات و اطوار تو بالکل آیاتِ قرآن سے متصادم نہیں ہونے چاہییں۔ افسوس کے ساتھ مَیں آپ کو ایک ایسے ہی واقعے سے متعارف کروانا چاہتی ہوں، تاکہ ایسے معاشرتی رویوں کی خطرناکی واضح ہوسکے جن کی اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی مگر وہ ہمارے معاشروں کی اقدار، روایات، رواج اور عُرف و عادت کے طور پر فرض کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔

ایک خاتون اچھے مشاہرے پر ملازم تھی۔ ایک طویل انتظار کے بعد اس کی شادی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اُس کو اولاد کی نعمت سے نوازا۔ وہ اپنے بچوں کے درمیان ایک خوش گوار احساس لیے زندگی بسر کر رہی تھی ___مگرایک روز ایسا ناخوش گوار واقعہ پیش آگیا جو اکثر گھروں میں پیش آتا ہے، یعنی شوہر کے ساتھ ناچاقی کا حادثہ۔ خاتون کے خیال میں اُس کا شوہر بعض اہم گھریلو  ضروریات پوری کرنے سے قاصر تھا۔ اُس نے بہت سے وعدے کیے مگر کوئی ایفا نہ ہوا۔ پھر خاتون نے بھی وہی کیا جو عمومی طور پر آج کی عورتیں کرتی ہیں۔ اُس نے شوہر کا گھر چھوڑا اور میکے میں جاکر رہنا شروع کر دیا۔ جاتے ہوئے یہ تک کہہ گئی کہ تم وعدہ پورا کرو گے تو مجھے واپس لاسکو گے۔

پھر دنوں پر دن گزرتے رہے، شوہر تنہا رہا، البتہ شیطان اُس کا ساتھی تھا۔ شیطان اس واقعے کو اُس کے لیے بہت اہم بناکر اُسے غیرت دلاتا رہا، اُس کو عدم مردانگی کا طعنہ دیتا رہا کہ وہ بیوی کی بغاوت کو بھی نہیں کچل سکا۔شوہر بیوی سے یہ کہتے ہوئے ملا کہ : ’’گھر آکر اپنی تمام ذاتی اشیا لے جائو‘‘۔ شوہر نے اس کے لیے وقت مقر کردیا اور خود اتنا وقت گھر سے باہر رہنے کا کہا۔ آخر میں یہ کہا: ’’آج کے بعد تو اس گھر میں داخل نہیں ہوسکتی‘‘۔ خاتون شوہر کے ساتھ جس گھر میں رہایش پذیر تھی وہ اس کے شوہر کے والد کی جایداد تھی۔ خاتون نے ایک دفعہ تو سوچا کہ میں اور میرے بچے اس گھر کے سوا کہاں گزارا کریں گے کیونکہ اپنے والدین کے ساتھ تو میں بچوں سمیت رہ نہیں سکوں گی۔ پھر اُس نے اپنی ساس سے ملاقات کی اور اس سے شکایت کرنا چاہی مگر بدقسمتی سے وہ بھی الٹا الزام تراشی کرنے لگی کہ میرے بیٹے نے تو یہ سب کچھ تنگ آکر کیا ہے۔ خاتون کو یقین نہیں آرہا تھا کہ میں جو کچھ سن رہی ہوں یہ حقیقت ہے۔

خاتون کے والدین کو اس واقعے کا علم ہوا تو والد غضب ناک ہوکربولا: کیا اس کا شوہر   یہ رشتہ لینے اس کے والدین کے گھر نہیں آیا تھا؟ اب ایسے اہم مسئلے میں وہ لڑکی کے والد سے رجوع کیوں نہیں کرسکتا؟ فضا خاصی ناسازگار ہوگئی تھی۔ سب کا خیال تھا کہ جو کچھ ہوا ہے یہ بڑی رُسوائی ہے، اس کا ازالہ اس مرد سے طلاق لے کر ہی ہوسکتا ہے۔ بالآخر طلاق ہوگئی۔

خاتون کے تعلقات ایک تحریکی ساتھی کے ساتھ تھے۔ اُس نے وقت ضائع کیے بغیر اُس سے رابطہ کیا اور آہ و بکا کے بعد ذرا پُرسکون ہوئی تو اپنی داستان سنانے لگی اور اُسے اپنے اور اپنے بچوں کے اُوپر ہونے والے ظلم کی انتہا قرار دیا۔ تحریکی ساتھی نے کہا: اللہ کا شکر ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے اس طرح کی مشکلات کے حل کے لیے ہمیں ایک دستور عطا کیا ہے۔ تم دونوں کا یہ عمل کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ پر پیش کرتے ہیں تاکہ حقیقت میں دیکھ سکیں کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون؟ خاتون کے سانس بحال ہوئے، اور وہ ہرلفظ کو بڑے غور اور توجہ سے سننے کی کوشش کررہی تھی۔ تحریکی ساتھی نے کہا: تو نے اپنا گھر کیوں چھوڑا جب تو اپنے شوہر سے ناراض تھی؟ تجھے معلوم نہیں کہ وہ ایک مشکل مرحلے میں ہے، یعنی طلاق دے چکا ہے۔ رجعی طلاق میں عورت کے لیے مناسب نہیں کہ وہ اپنا گھر چھوڑ دے۔ یہ اللہ سبحانہٗ کا حکم ہے، فرمایا:

لَا تُخْرِجُوْہُنَّ مِنْ م بُیُوْتِہِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ اِِلَّا ٓ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ط وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ ط وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ (الطلاق ۶۵:۱) (زمانۂ عدت میں) نہ تم انھیں اُن کے گھروں سے نکالو، اور نہ وہ خود نکلیں، الا یہ کہ وہ کسی صریح بُرائی کی مرتکب ہوں۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اُوپر خود ظلم کرے گا۔

لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب عورت کو پہلی طلاق دی جاتی ہے تو وہ فوراً اپنے میکے چلی جاتی ہے۔ یہ غلط اور حرام ہے کیونکہ اللہ کا حکم ہے کہ نہ تم انھیں گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود وہاں سے نکلیں۔ استثنائی صورت ہے تو صرف یہ کہ وہ عورت کسی بے حیائی کا ارتکاب کرے۔ پھر فرمایا:

وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ ط وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ (الطلاق ۶۵:۱)  یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اُوپر خود ظلم کرے گا۔

اس کے بعد اس حکم کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا (الطلاق ۶۵:۱) ’’تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صورت پیدا کردے‘‘۔لہٰذا مسلمانوں پر واجب ہے کہ حدود اللہ کا خیال رکھیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کریں۔ شرعی اُمور و احکام کو معاشرتی اور ذاتی روایات کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ اسلام اس مشکل کے حل کے لیے کیسے راہ نکالتا ہے۔ فرمایا:

وَ اِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَیْنِھِمَا فَابْعَثُوْا حَکَمًا مِّنْ اَھْلِہٖ وَ حَکَمًا مِّنْ اَھْلِھَاج اِنْ یُّرِیْدَآ اِصْلَاحًا یُّوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَھُمَا ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا خَبِیْرًا (النساء ۴:۳۵) اور اگر تم لوگوں کو کہیں میاں بیوی کے تعلقات بگڑ جانے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکم مرد کے رشتہ داروں میں سے اور ایک عورت کے رشتہ داروں میں سے  مقرر کرو، وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے۔

یہاں بات صرف شقاق (بگاڑ) کے خدشے کی ہے۔ اگر یہ خدشہ نظر آجائے تو اس سے ڈرنا چاہیے اور اُس وقت دو حَکم (ثالث) ، ایک عورت کی طرف سے اور ایک مرد کی طرف سے مداخلت کریں۔ ان دونوں کا مقصد اصلاح ہو۔ اب میاں بیوی لازماً ایک ہی گھر میں رہیں گے۔ یہ دونوں ثالث اُن کے پاس اصلاح اور صلح و صفائی کی غرض سے جائیں گے جہاں یہ دونوں میاں بیوی مقیم ہوں گے اور انھیں اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کا احساس بھی ہوگا کہ وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ اُن کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا۔

یہ اس معاملے کے حل کی قرآنی صورت ہے۔ اب اس صورت حال کو پیدا کرنا مرد و عورت کو الگ الگ رکھ کر ممکن نہیں، نہ ٹیلی فون پر گفتگو کے ذریعے اس نتیجے پر انھیں پہنچایا جاسکتا ہے۔ لیکن آج کل یہی ہوتا ہے، جس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلتا ہے۔چنانچہ تحریکی ساتھی نے اُس سے کہا کہ تو کیوں غضب ناک ہوکر اپنا گھر چھوڑ آئی؟ اُس گھر کو تیرا گھر تو اللہ تعالیٰ نے قرار دیا ہے۔ عورت اپنے میکے کی طرف نہیں جاسکتی خواہ اُس کے اور شوہر کے درمیان بگاڑ کا خدشہ ہی ہو، بلکہ وہ اپنے گھر میں جم کر رہے اور اصلاح کی پوری کوشش کرے۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ آئے گا، یعنی اُس کی ذاتی کاوش کے بعد اگلا مرحلہ ثالثوں کی کوشش کا ہوگا۔ نہ تم نے یہ کیا ہے اور نہ تمھارے شوہر نے۔ خاتون نے بڑی انکساری سے پوچھا: تو پھر اب اس کا حل کیا ہے؟ تحریکی ساتھی نے جواب دیا: اپنے گھر واپس چلی جائو۔ اُس نے کہا: یہ تو مشکل ہے۔ مجھے جو کچھ کہا گیا ہے میرے جانے کے بعد اب وہ کیسے مجھے برداشت کریں گے؟ میں اس صورت حال میں خود اپنی عزت کو کیسے رُسوائی سے دوچار کرسکتی ہوں؟

تحریکی ساتھی نے کہا: سبحان اللہ، کیا تجھے شروع میں ہی یہ اندازہ نہیں ہوا کہ اسی طرح کی کیفیت میں تو اللہ تعالیٰ کوئی راستہ نکالے گا۔ پھر بات یہ ہے کہ یہی ابلیس کا مسئلہ تھا۔ وہ بھی ہماری طرح جانتا تھا کہ اللہ ایک ہے۔ زمین و آسمان کی حکومت اُس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ یہ سب کچھ جانتا تھا مگر جب اللہ نے اپنی بادشاہت میں زمین پر ایک خلیفہ بنانا چاہا تو یہاں شیطان نے اعتراض کر دیا۔ آج اپنے گردوپیش میں ہم بھی یہی کچھ دیکھتے ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ایک ہے، وہی نگہبان و نگران ہے۔ ہم اسماے حسنیٰ کا ورد کرتے ہیں، اپنے خالق و مالک کے لیے نماز ادا کرتے اور روزہ رکھتے ہیں۔ کبھی صدقہ و خیرات بھی کردیتے ہیں۔ خالق اور معبود کے ساتھ اپنی محبت کا واشگاف اظہار کرتے ہیں۔ لیکن جونہی اس خالق اور معبود کا کوئی ایسا قانون ہمارے سامنے آتا ہے جو ہماری عادات سے ٹکراتا ہو، ہماری خواہشات کے برعکس ہو، تو اس کے نفاذ کی بات ہمارے اُوپر سکتہ طاری کردیتی ہے۔ جب ہمارا عمل یہ ہے تو پھر ہم معبود کی ربوبیت اور اُلوہیت کے کیونکر قائل ہوسکتے ہیں؟ اُس کے حکم کو سن کر کیوں اس پر عمل کرنا لازمی نہیں سمجھتے؟ مَیں سمجھتی ہوں کہ آپ کے والد نیک آدمی ہیں، آپ اُن سے کہیں کہ وہ آپ کے شوہر کو بلائیں اور اُس کی بات سنیں۔ اگر وہ اُس کے ساتھ گفتگو میں کسی حل پر نہ پہنچ سکیں تو مرد کے خاندان سے کسی ثالث کو بلالیں، اور اس کے ساتھ بیٹھ کر اس بکھرتے ہوئے خاندان کو یک جا کرنے کی کوئی سبیل نکالیں۔

خاتون کے شوہر کو بلایا گیا تو اُس نے آکر خاتون کے والد سے کہا کہ یہ اب آپ کی بیٹی ہے، یعنی میں اس کو طلاق دے چکا ہوں۔ والد اس کو رسوم و رواج کے مقابلے میں قرآن کی تعلیمات سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔ اس نے کہا کہ اس حالت میں تمھیں اپنی بیوی کو اپنے گھر میں رکھنا چاہیے کیونکہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ خاتون کے والد نے اللہ کا وہ دستور اُس کے سامنے کھول کر رکھ دیا جس دستور کی بنیاد پر اُس کی بیٹی اس مرد کی بیوی قرار پائی تھی۔ سورئہ طلاق کی پہلی آیت اُس کے سامنے رکھی۔ نوجوان نے آیت دیکھ لی مگر کہتا رہا کہ ہم تو ایسا نہیں کریں گے۔ مطلقہ لڑکی اپنے والدین کے گھر میں ہی رہتی ہے، شوہر کے گھر میں نہیں۔ طلاق کے بعد اب وہ کیسے میرے پاس رہ سکتی ہے؟ خاتون کے والد نے مومنانہ وقار کے ساتھ کہا: ایک گھنٹہ قبل مَیں بھی تمھاری طرح ہی سوچ رہا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے صحیح راہ کی طرف میری رہنمائی کردی اور میں نے فیصلہ کیا کہ اب اپنی عمر کا اختتام اس آیت کے نفاذ پر کروں۔ تم یہ خیال نہ کرو کہ یہ فیصلہ میرے لیے کوئی آسان تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ اُس کے احکام ہیں جس کی ہم نے تمھارا نکاح کرتے ہوئے اطاعت کی تھی۔

معاملہ شوہر کے ہاتھ میں چلا گیا۔ وہ بیوی کو طلاق دینا چاہتا تھا اور بیوی اُس کے گھر سے اپنی ذاتی اشیا اُٹھا کر واپس لانا چاہتی تھی۔ گویا معاملہ ایسا معمولی تھا کہ کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ لیکن اب مرد اپنے گھروالوں سے کیا کہے۔ اس پر اُس کی والدہ کا ردعمل کیا ہوگا۔ طلاق کے بعد وہ گھر میں کیسے رہ سکے گی؟ نوجوان نے خاتون کے والد سے کچھ مہلت مانگی کہ وہ سوچ بچار کرلے پھر جواب دے گا۔

خاتون نے تحریکی ساتھی سے یہ ساری صورت حال بیان کی تو اُس نے خاتون کو اپنے گھر چلے جانے کا مشورہ دیا۔ اس کے شوہر سے بھی کہا کہ وہ بیوی کو گھر لے آئے کیونکہ بہرحال یہی خاتون کا گھر ہے۔ خاتون کے دل میں جنگ برپا تھی کہ وہ کیسے ایک بار پھر سسرال کے ہاں جائے گی؟ اُن کا ردعمل کیا ہوگا؟ تحریکی ساتھی نے اُس کو کثرت کے ساتھ ذکر الٰہی کرنے اور اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت  اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ پڑھنے کو کہا۔بالآخر خاتون اپنے بچوں کو لے کر اپنے گھر چلی گئی۔

پاک ہے وہ ذات جس نے فرما رکھا ہے:  لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا (الطلاق ۶۵:۱) ’’تم نہیں جانتے ، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صورت پیدا کردے‘‘۔ جب بیوی اور شوہر باہر نکلے تو وہ اپنے ساتھ پیش آنے والے حالات پر گفتگو کر رہے تھے۔ بیوی نے اپنے گھر سے نکل کر شریعت کے خلاف عمل پر معذرت کی۔ اُس نے دراصل اس واقعے سے ایک سبق سیکھا اور قرآنِ کریم کی ایک آیت کے اُوپر عمل اور اس کے حقیقی نفاذ کو ممکن بنایا۔ وہ ہزاروں درسِ قرآن بھی سنتی تو آیات کی ایسی تفہیم اُسے حاصل نہ ہوسکتی جو اَب ہوچکی تھی۔

اُس کے شوہر نے سوچنے کے لیے وقت مانگا، مگر جب بیوی بچے اُس کے پاس چلے گئے تو  حالات نے اُس کو عملی کیفیت میں لاکھڑا کیا۔ اُس نے اپنے بچوں کو دیکھا،بیوی پر نگاہ پڑی کہ وہ خود کو تبدیل کرنا چاہتی ہے، تو برف پگھلی اور میاں بیوی کے درمیان رحمت و مؤدت اُبھری۔  تحریکی ساتھی کے ساتھ آخری گفتگو میں خاتون نے بتایا کہ معاف کیجیے گا میرے پاس وقت نہیں، میرے شوہر میرا انتظار کر رہے ہیں۔ انھوں نے مجھے شام کے کھانے کی دعوت دی ہے۔ بچے کہاں ہیں؟ اُس نے کہا: اُنھیں اُن کی دادی کے پاس چھوڑ آئے ہیں، ہم اکیلے جارہے ہیں۔ اُس کی آواز فرحت و مسرت سے سرشار تھی۔ تحریکی ساتھی نے فون بند کیا اور وہ کہہ رہی تھی: ’’اے رحمن و رحیم!  وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے تیری آیات پر عمل کیا‘‘۔(mugtama.com)

اسوۂ رسولؐ کی روشنی میں

نبوت و رسالت انسانیت پر اللہ تعالیٰ کا عظیم ترین احسان ہے۔ یہی وہ واحد محفوظ اور قطعی ذریعۂ ہدایت ہے جس کی بنا پر انبیاے کرام دو ٹوک انداز میں بتاتے رہے کہ ایک اللہ کی عبادت ہی انسانیت کا مقصد اور راہ نجات ہے۔ تمام انبیاے کرام کی دعوت ایک رہی۔ خاتم النبیین حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا: مَا یُقَالُ لَکَ اِِلَّا مَا قَدْ قِیْلَ لِلرُّسُلِ مِنْ قَبْلِکَ (حم السجدہ ۴۱:۴۳) ’’اے نبیؐ! تم کو جو کچھ کہا جا رہا ہے اس میں کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو تم سے پہلے گزرے ہوئے رسولوں کو نہ کہی جا چکی ہو۔‘‘

نزولِ قرآنِ مجید کے ابتدائی دور میں توحید، آخرت اور حضرت محمدؐ کی نبوت و رسالت کے دلائل پر خصوصی ارتکاز رہا۔ نبوت محمدیؐ پر لوگوں نے جس جس نوعیت کے اعتراضات وارد کیے ان کا جواب بھرپور اور قطعی اندازمیںدیا گیا۔ معترضین نے نزولِ قرآن کو جنات و جنون کا اثر اور شعر و شاعری کا نتیجہ کہا اور حضرت محمدؐ کا خود ساختہ کلام قرار دیا (نعوذباللہ)۔ کلامِ الٰہی قرآنِ مجید نے ان تمام باتوں کو ایسی شدت اور قطعیت کے ساتھ مسترد کیا کہ انبیا اور رسل کی صداقت پر اس سے بڑی کوئی شہادت نہیں ہو سکتی۔ ایسی آیات میں جہاں نبی کریم ؐ کی نبوت و رسالت کو برحق قرار دیا گیا وہاں نبوت کے ابلاغ کی ذمہ داری کی ادایگی میں آپؐ کی عصمت و عفت اور امانت و دیانت کو بھی پورے زور سے بیان کیا گیا۔یہ مضمون سورۂ شوریٰ (۴۲:۲۴) اورسورۂ حاقہ(۶۹:۳۸ -۵۲) میں بیان ہوا ہے۔

 نزولِ قرآن کی غرض یہ بیان کی گئی کہ نبی کریمؐ انسانوں کو تاریکی اور ظلمت سے نکال کر روشنی میں لائیں گے۔ فرمایا: ہُوَ الَّذِیْ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبْدِہٖٓ اٰیٰتٍ م بَیِّنٰتٍ لِّیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِِلَی النُّوْرِ ط وَاِِنَّ اللّٰہَ بِکُمْ لَرَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ o (الحدید۵۷:۹) ’’وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں نازل کر رہا ہے تاکہ تمھیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہربان ہے‘‘۔

نبی کریمؐ کو یہ حکم بھی ملا کہ اس وحی شدہ قرآن کو مضبوطی سے اختیار کرنا اور اس کے تقاضوں کو کماحقہ پورا کرنا آپؐ کی ذمہ داری ہے، اور اس ذمہ داری کی جواب دہی بھی ایک روزآپؐ  کو اور آپؐ  کی قوم کو کرنا ہو گی۔ فَاسْتَمْسِکْ بِالَّذِیْٓ اُوْحِیَ اِِلَـیْکَ ج اِِنَّکَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمo وَاِِنَّہٗ لَذِکْرٌ لَّکَ وَلِقَوْمِکَ ج وَسَوْفَ تُسْئَلُوْنَo (الزخرف۴۳: ۴۳-۴۴) ’’تم بہرحال اُس کتاب کو مضبوطی سے تھامے رہو جو وحی کے ذریعے سے تمھارے پاس بھیجی گئی ہے، یقیناتم سیدھے راستے پر ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب تمھارے لیے اور تمھاری قوم کے لیے ایک بہت بڑا شرف ہے اور عنقریب تم لوگوں کو اس کی جواب دہی کرنی ہو گی۔‘‘

وحی پر قائم رہنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے احکام کے ساتھ ہی اس کے ابلاغ کا حکم بھی پوری تاکید کے ساتھ دیا گیا: یٰـٓـاَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ط وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ط (المائدہ۵:۶۷) ’’اے پیغمبرؐ ،جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا‘‘۔

ابلاغ کا حکم اور اس کی نبویؐ تعمیل:

دوسری وحی میں سورۃ المدثر کی ابتدائی ۷آیات نازل ہوئیں۔ ان میں رسول کریم ؐکو تبلیغ دین کا حکم دیا گیا۔ یہ حکم بہت مختصر مگر نہایت   جامع الفاظ میں تھا۔ فرمایا: یٰٓاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُo قُمْ فَاَنْذِرْ o وَرَبَّکَ فَکَبِّرْo (المدثر ۷۴:۱-۳)’’اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اُٹھو اور خبردار کرو، اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کرو‘‘۔ رسول کریمؐ نے ابلاغِ وحی کے اس حکم کی تعمیل میں جدوجہد کا آغاز فرمایا تو پھر اس راہ کی مشکلات کو دیکھانہ ذاتی ضروریات کا خیال رکھا۔انسانوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے دن رات ایک کر دیا۔ پیغمبرانہ زندگی کے ۲۳ برس میں سے پہلے تین برس خفیہ اور پس پردہ دعوتی جدوجہد میں گزرے۔ چوتھے سال سے نبوت کے دسویں سال تک مکہ میں کھلی اور علانیہ دعوت و تبلیغ کی سرگرمیاں جاری رہیں۔ دسویں سالِ نبوت سے تیرھویں سالِ نبوت، یعنی ہجرتِ مدینہ تک مکہ سے باہر دعوت کے اِبلاغ اور پھیلائو کے لیے کاوش جاری رہی۔ پھر ہجرت سے وصالِ نبویؐ تک پورے ۱۰ سال بین الاقوامی سطح پر دعوت دین کا سلسلہ جاری رہا جس میں بیش تر عرصہ جہادی سرگرمیوں پر مبنی جدوجہد میں گزرا۔

علانیہ دعوت کا حکم اور قوم کا ردّعمل:

تین سال تک تبلیغ کا کام خفیہ اور انفرادی رہا۔ اس کے بعد آپ کو مکلف بنایا گیا کہ قوم کو کھلم کھلا دین کی دعوت دیں۔ ان کے باطل سے ٹکرائیں اور ان کے بتوں کی حقیقت واشگاف کریں۔ اظہارِ دعوت کا پہلا حکم وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ کے الفاظ میں دیا گیا۔ اس پر عمل کے لیے آپؐ نے کوہِ صفا پر چڑھ کر قریش کے ایک ایک قبیلے کا نام لے کر آواز لگائی اور جب تمام لوگ جمع ہو گئے تو دعوت پیش کی۔ یہی وہ موقع ہے جب ابولہب نے آپؐ  کو بدزبانی کا نشانہ بنایا۔

اس کے بعد قریش فوراً رسولؐ اللہ کی راہ روکنے کے لیے کمربستہ ہو گئے۔ آپؐ پر تشدد بھی روا رکھا جانے لگا۔ علانیہ دعوت کے بعد حج کا موسم قریش کے لیے اپنے اندر خطرناکی لیے ہوئے تھا۔ لہٰذا انھوں نے حجاج کو اس دعوت سے دور رکھنے کے لیے مشاورت کی اور آپؐ  کے خلاف متفقہ راے یہ قائم کی گئی کہ آپؐ  کو(معاذاللہ) مجنون قرار دیا جائے۔ اس نام سے آپؐ  کو براہِ راست بھی پکارا گیا اور زائرین کعبہ کو بھی یہی فریب دینے کی کوشش کی گئی۔ ہنسی، ٹھٹھا، تحقیر، استہزا اور تکذیب کے تمام ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ گالیوں تک کا آپؐ  کو نشانہ بنایا گیا۔ آپؐ  کی تعلیمات کو    مسخ کرنا، شکوک و شبہات پیدا کرنا، جھوٹا پروپیگنڈا کرنا، تعلیمات سے لے کر شخصیت تک کو واہیات قسم کے اعتراضات کا نشانہ بنانا قریش کا معمول تھا۔ ان اوچھی حرکات کے ساتھ ساتھ سودے بازی کی کوشش بھی جاری رہی۔ جب یہ حربہ بھی کارگر نہ ہوا تو ظلم و جور کا باب کھل گیا۔

اس مقصد کے لیے قریش جمع ہوئے اور ۲۵ سردارانِ قریش نے باہمی مشورے اور غور و خوض کے بعد رسولؐ اللہ اور آپؐ  کے صحابہؓ کو ظلم و ستم سے دوچار کرنے کی قرارداد منظور کی۔ پھر اس قرارداد کو روبہ عمل لانے کا عزمِ صمیم کیا گیا۔ بالآخر قریش نے ایک لمبے صبر کے بعد آپؐ  کو تشدد سے دوچار کرنا شروع کر دیا۔ ابولہب بازاروں اور اجتماعات میں آپؐ  کے پیچھے پیچھے لگا رہتا اور نہ صرف آپؐ  کی تکذیب کرتا بلکہ آپؐ  کو پتھر بھی مارتا جس سے آپؐ  کی ایڑیاں خون آلود ہو جاتیں۔ آپ ؐکو گھر کے اندر بھی اطمینان سے نہ رہنے دیا گیا۔ آپؐ  کے گھر میں گندگی پھینکی گئی۔ آپؐ  کے اوپر اُونٹ کی اوجھڑی ڈالی گئی۔ آپؐ  پر براہِ راست طعن کیا گیا۔ آپؐ  کو خانہ کعبہ میں نماز کی ادایگی سے روکا گیا اور اس حرم کے اندر آپؐ  پر تشدد کیا گیا جہاں انسان تو کجا، حیوانوں اور جانوروں کو ایذا دینا بھی گناہ ہے۔ ہر چیز کو وہاں ’امان‘ حاصل ہوتی ہے۔

تشدد اور عقوبت کی اس خوف ناک کیفیت میں بھی رسول کریمؐ نے حرم شریف میں قریش کے ایک بہت بڑے مجمعے میں سورۂ نجم کی تلاوت فرمائی اور دعوتِ دین کی ذمہ داری کو ہر حال میں ادا کرنے کا درس پیش فرمایا۔ جب قریش نے جسمانی تعذیب و تشدد اور زبانی پروپیگنڈے اور حربوں کو آزما لیا اور دیکھا کہ یہ دعوت رُکنے کے بجاے پھیل رہی ہے، تو انھوں نے اس بات کا عہدو پیمان کیا کہ بنی ہاشم کا مکمل مقاطعہ کر دیا جائے۔ پھر شعب ابی طالب میں بنی ہاشم کی محصوری کے یہ تین سال اس کیفیت میں گزرے کہ محصورین کو بنیادی انسانی ضروریاتِ زندگی حاصل کرنے سے بھی روک دیا گیا۔ تین سال کے بعد قادرِ مطلق نے انھی قریش کے ذریعے یہ قرارداد بھی پاس کرائی کہ اس مقاطعے کی دستاویز کو چاک کر دیا جائے۔

اس روح فرسا عہد سے جب محصورین کو نجات ملی تو رسولِ کریم ؐ نے حسب معمول اپنی دعوت و تبلیغ کا کام شروع کر دیا۔ اس موقعے پر قریش کا وفد ایک بار پھر حضرت ابوطالب کے پاس آیا اور رسولؐ اللہ کو اس کام سے روکنے کا ان سے مطالبہ کیا۔ آپؐ  نے قریش سے کہا کہ میں تم سے صرف ایک بات کہتا ہوں، مان لو گے تو عرب و عجم تمھاری ملکیت ہوں گے۔ قریش نے سوچا کہ صرف ایک بات اور وہ بھی اس قدر مفید! اسے کیسے مسترد کریں؟ آخر کار ابوجہل نے کہا: بتائو وہ بات کیا ہے، ایسی ایک بات کیا، دس باتیں بھی کرو تو ہم ماننے کو تیار ہیں۔ آپؐ  نے فرمایا: لاالٰہ الا اللہ کہو اور اللہ کے سوا جو کچھ پوجتے ہو اسے چھوڑ دو۔اس پر قریش نے ایک بار پھر عہد کیا کہ ہم اپنے آبا و اجداد کے دین پر قائم رہیں گے یہاں تک کہ اللہ ہمارے اور اس شخص کے درمیان فیصلہ کردے۔ سورۂ صٓ(۳۸:۱تا ۷) میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔

 اگر کوئی شخص اس تشدد کی انتہا اور جنگ کی شدت کا تصورکرنا چاہے، جو قریش نے اس تن تنہا رسولؐ کے خلاف برپا کر رکھی تھی تو اس کے لیے یہی جان لینا کافی ہے کہ وہ ابو لہب، جو رسولؐ اللہ کا بدترین دشمن تھا، ایک دن اس کا ضمیر بھی اس تشدد کو دیکھ کر یہ اعلان کرنے پر مجبور ہو گیا کہ وہ محمد ؐکو پناہ دے گا اور آپؐ  کے دشمنوں سے آپؐ  کی حفاظت کرے گا!! لیکن رسولؐ اللہ اسے اس کی پناہ واپس لوٹا دیتے ہیں اور خود تنہا کھڑے قربانی پیش کرتے جاتے ہیں۔

رسولؐ اللہ نے مکہ سے باہر نکل کر طائف میں ’ثقیف‘ کی طرف رُخ کیا اور انھیں اللہ کی طرف بلایا تو علاقے کے اشراف نے آپؐ  کو گھیرے میں لے لیا، اور یہ توآپؐ  کے مکی حریفوں سے بھی زیادہ کمینے ثابت ہوئے۔ اِنھوں نے اپنے احمقوں اور اوباشوں کو اُکسایا، حتیٰ کہ مہمان کی عزت اور پناہ طلب کرنے والے کو پناہ دینے کی مقدس ترین عربی خصلت کو بھی بالاے طاق رکھ دیا۔ انھوں نے ان اوباشوں کو آپؐ  کے پیچھے لگا دیا اور وہ آپؐ  کو پتھر مارنے لگے…

رسولؐ اللہ کے سفر طائف کا وہ منظر ہر داعی دین کے رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے جب آپؐ  ایک باغ میں داخل ہو کر اس کی دیوار کی اوٹ لے کر ان احمقوں اور اوباشوں سے محفوظ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپؐ  کا دایاں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا ہوا ہے اور آپؐ  دعا فرما رہے ہیں، اور بایاں ہاتھ چہرے پر رکھ کر پتھروں سے بچائو کے لیے ڈھال بنائے ہوئے ہیں۔

دعوت کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی وابستگی:

دعوت کے ساتھ رسولؐ اللہ کا یہ کیسا تعلق اور وابستگی تھی کہ جہاںبھی جاتے تن تنہا دعوت پیش کرتے تو شدائد آپؐ  کا استقبال کرتے۔ ان حالات میں دنیاوی اسباب میں سے کوئی چیز ایسی نہیںتھی جو آپؐ  کی ہمت کو سہارا دیتی اور آپؐ  کی ڈھارس بندھاتی لیکن آپؐ  پھر بھی بھرپور عزم کے ساتھ ان حالات کا سامنا کرتے رہے۔ رسولؐ اللہ جب طائف سے مکہ کی طرف واپس لوٹے تو مایوسی اور شکست خوردگی کا احساس نہیں تھا، ناکامی کا خیال نہیںتھا بلکہ پُرامیدی کی ایک گہری کیفیت تھی جس نے آپؐ  کو ڈھانپ رکھا تھااور  اللہ کی راہ میں قربان ہو جانے کا ایک بھرپور جذبہ تھا جوآپؐ  کے اندر موجزن تھا!

آپؐ  ایک ایک قبیلے کے پاس جا کر دعوت پیش کرتے۔ ایک روز قبیلہ کندہ کے پاس جاتے ہیں، ایک روز قبیلہ بنی حنیفہ کے پاس اور اگلے روز قبیلہ بنی عامر کے پاس تشریف لے جاتے ہیں۔ اس طرح یکے بعد دیگرے ہر قبیلے کے پاس پہنچتے ہیں اور ان کو اسلام کی دعوت دیتے ہیں۔ قبائل کے پاس جب آپؐ  تشریف لے جاتے تو ابولہب آپؐ  کے پیچھے پیچھے یہ کہتا جاتا کہ اس کی بات نہ ماننا! یہ تمھیں گمراہی کی طرف بلا رہا ہے!

نبوت کے گیارھویں سال موسم حج میں دعوتِ اسلامی کی رفتارِ کار میں ایک عجیب تبدیلی آئی۔ مکہ میں کھلی تبلیغ کی تو جارہی تھی مگر وہ آسان اور خطرے سے خالی نہ تھی۔ اسی لیے رسولؐ اللہ حجاج کو رات کی تاریکی میں ملتے اور انھیں اسلام پیش کرتے۔ ایک رات آپؐ  حضرت ابوبکرؓکے ہمراہ باہر نکلے۔ بنو ذہل و بنو شیبان کو دعوت دی، مگر انھوں نے اسلام قبول نہ کیا۔ پھر یثرب کی چھے سعادت مند روحوں سے ملاقات ہو گئی۔ یہ خزرج کے جوان تھے ۔ آپؐ  نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا اور انھوں نے اسلام قبول کر لیا۔ بیعت عقبہ اولیٰ اور ثانیہ حضور نبی کریمؐ کی شبانہ مساعی کا ثمر تھیں۔ آپؐ  نے رات کی تاریکی میں مکہ سے دور باہر جا کر رؤساے یثرب کو اسلام پیش کیا تھا، جس کے نتیجے میں یہ بیعت عمل میں آئی۔ یہی واقعہ ہجرت مدینہ کی تمہید ثابت ہوا اور آپؐ  بالآخر مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔

انسانیت کی نجات کا بے مثال جذبہ:

حضرت جابرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ میری اور تمھاری مثال اس آگ جلانے والے جیسی ہے جو آگ جلائے تو پتنگے اور حشرات آکر اس میں گرنے لگیں اور وہ آدمی ان کو آگ سے بچانے میں کوشاں ہو۔   میں (بھی) تمھیں کپڑوں (دامن) سے پکڑ پکڑ کر آگ سے دور کھینچتا ہوں لیکن تم دامن چھڑا چھڑا کر  میرے ہاتھ سے نکلے جاتے ہو۔‘‘ (احمد، مسلم)

انسانیت کو دائرہ ایمان میں لے آنے اور جہنم سے بچانے کے لیے نبی کریمؐ کی خواہش اس حد تک غیر معمولی تھی کہ اس فکرمندی سے آپ ؐ کی صحت پر منفی اثرات پڑنے کا خدشہ ظاہر ہو گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰٓی ٰاثَارِھِمْ اِنْ لَّمْ یُؤْمِنُوْا بِھٰذَا الْحَدِیْثِ اَسَفًا (الکہف ۱۸:۶) ’’ اچھا، تو اے نبی ؐ، شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو، اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے۔‘‘ اس کے بعد آپؐ  کو ان ہدایات سے نوازا گیا جن میں یہ وضاحت تھی کہ نبی اور رسول کی ذمہ داری دعوت حق کا ابلاغ (انذارو تبشیر)ہے۔ اس دعوت کو کون مانتا اور کون نہیں مانتا اور کیوں نہیں مانتا؟ نبی اور رسول سے اس بات کی جواب دہی نہیں ہو گی اور نہ نبی اور رسول کے دائرۂ اختیار میں ہے کہ وہ جس کے ایمان لے آنے کی خواہش اور آرزو کرے وہ ایمان لے آئے اور ہدایت یافتہ ہو جائے۔ نبی کی ذمہ داری صرف اور صرف، دعوت حق کی تبلیغ، تذکیر، اور انذار و تبشیر کی ہے۔چنانچہ نبی کریم ؐ کی اس فکر مندی کے پیش نظرآپ ؐ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا :

 اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ ج (القصص ۲۸:۵۶) اے نبیؐ!تم جسے چاہو اسے ہدایت نہیں دے سکتے، مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔

وَمَآ اَکْثَرُ النَّاسِ وَ لَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَo(یوسف ۱۲:۱۰۳) تم خواہ کتنا ہی چاہو ان میں سے اکثر لوگ مان کر دینے والے نہیں ہیں۔

بلکہ صاف صاف فرما دیا کہ:

 وَ مَا جَعَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا ج وَ مَآ اَنْتَ عَلَیْھِمْ بِوَکِیْلٍo(الانعام ۶: ۱۰۷) تم کو ہم نے ان پر پاسبان مقرر نہیں کیا ہے اور نہ تم ان پر حوالہ وار ہو۔

دوسری جگہ فرمایا: فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ وَ عَلَیْنَا الْحِسَابُo (الرعد ۱۳:۴۰)’’بہرحال تمھارا کام صرف پیغام دینا ہے اور حساب لینا ہمارا کام ہے‘‘۔ فَذَکِّرْ اِِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ o لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍo(الغاشیۃ ۸۸:۲۱:۲۲) ’’اچھا تو (اے نبیؐ) نصیحت کیے جائو ! تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو، کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو‘‘۔ اِِنَّـآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ ج فَمَنِ اہْتَدٰی فَلِنَفْسِہٖ ج وَمَنْ ضَلَّ فَاِِنَّمَا یَضِلُّ عَلَیْہَا ج وَمَآ اَنْتَ عَلَیْہِمْ بِوَکِیْلٍo (الزمر ۳۹:۴۱) ’’(اے نبیؐ) ہم نے سب انسانوں کے لیے یہ کتاب برحق تم پر نازل کر دی ہے۔ اب جو سیدھا راستہ اختیار کرے گا اپنے لیے کرے گا اور جو بھٹکے گا اس کے بھٹکنے کا وبال اسی پر ہو گا، تم ان کے ذمہ دار نہیں ہو‘‘۔

اس مضمون کی متعدد آیات اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ نبی کریمؐ ابلاغ دعوت کے معاملے میں بے حد فکر مند رہتے تھے۔ آپؐ  کی شب و روز کی مصروفیات میں ابلاغِ حق کی ذمہ داری کو  کمال درجے میں ادا کرنے کی جدوجہد سامنے آتی ہے۔ مکی زندگی میں خفیہ اور علانیہ دعوت الی اللہ کی انجام دہی، قومی اور قبائلی سطح کی خصوصی تقریبات میں رہنمائوں، سرداروں اور دانشوروں سے خطاب، مکہ کے اندر اور حدود مکہ سے باہر آپؐ  نے اپنے مشن کی تکمیل اور حکم الٰہی کی تعمیل کے لیے حیرت انگیز جدوجہد فرمائی۔

انسانیت کی سلامتی پر نظر:

مکی عہد میں مسلمانوں اور خود رسول کریمؐ کو سخت عقوبتوں اورایذائوں سے مسلسل دو چار رکھا گیا لیکن دعوتِ دین کا کام رسولؐ اللہ نے برابر جاری رکھا۔ آخری تنبیہ کے طور پر جب قریش کے وفد نے آپؐ کے چچا ابو طالب سے دو ٹوک بات کر دی تو آپؐ  نے جواب میں جو الفاظ ادا فرمائے وہ اس ذمہ داری کی ادایگی کے لیے آپ ؐ کی عزیمت و استقامت کی بے نظیر دلیل ہیں۔ طائف کا سفر آپؐ  کی ظاہری بے سروسامانی مگر حق کی دعوت کو  قریہ قریہ پہنچانے کے لیے آپؐ کی تڑپ کی نشان دہی کرتا ہے۔آپؐ  کے سفر طائف کی روداد دین کے ہرداعی اور تحریک کے ہر کارکن کے لیے ایک عظیم درس ہے۔ آپ ؐکی جدوجہد کا مکی عہد جب اختتام کو پہنچا تو یہ محض ۱۳ برس کی مدت کا خاتمہ نہیں تھا بلکہ یہ ظلم وجور اور تعذیب و تشدد کی المناک تاریخ کا ایک موڑ تھا۔ اس تاریخ کی المناکی اس قدر شدید تھی کہ حاملین دعوت کو داعی اعظمؐ نے اذن ہجرت دے دیا۔

ہجرت کے بعد مدنی دور نبوت بھی معمول کی انسانی زندگی سے نا آشنا ہی رہا۔ قریش کی دیرینہ رقابت، نفرت اور عداوت نے حاملین ایمان کا تعاقب یہاں بھی نہ چھوڑا اورنبی کریمؐ اور آپؐ  کے رفقا کو کش مکش اور تصادم میں مسلسل الجھائے رکھا۔ براہِ راست یا بالواسطہ اس تصادم کی تمام تر تاریخ میں آپؐ  نے اپنی توجہ اور جدوجہد کا پورا ارتکاز دعوت پر رکھا۔ حتی الامکان تصادم سے گریز کیا۔ حالت جنگ میںبھی دشمن کے اظہارِ ایمان کو قانونی طورپر قابل قبول قرار دیا۔ آپ ؐ نے دشمن کے ساتھ ایسے معاہدے بھی کیے جو بظاہر اہل ایمان کے لیے شکست دکھائی دیتے تھے۔ دشمن کے ساتھ مکالمے، مذاکرات اور معاہدات میں ہمیشہ نرم گوشہ رہے اور یہ کسی کمزوری کی بنا پر نہیں  بلکہ انسانیت کو فتنہ و فساد سے بچانے اور اللہ کے دین کی طرف لانے کی غرض سے کیا۔ اپنے  اصحاب و رفقا اور اہل ایمان و اسلام کی تعلیم و تربیت میں بھی ہمیشہ سختی اور شدت سے گریز کیا اور نرمی، ملائمت اورامید و رجا کے پہلو کو پیش نظر رکھا۔ تعلیم و تبلیغ اور انذاروتبشیر سے ہی کام لیا اور   دل ودماغ کی طاقتوں کی بیداری کے ذریعے فرد اور معاشرے کو بدلنے کی سعی فرمائی۔ آنِ واحد میں تبدیلی لے آنے کے بجاے رفتہ رفتہ اور تدریج کے ساتھ اصلاح احوال کا کارنامہ انجام دیا۔ مشکل سے مشکل اور سخت سے سخت حالات اور ماحول میں بھی ناامیدی اور مایوسی کو قریب نہ آنے دیا۔ فتح مکہ کے موقعے پر ایسے تمام دیرینہ دشمنان اسلام کو بھی معاف فرما دیاجن کی گردن اڑانے کا حکم جاری فرمایا جاچکا تھا اور یہ سب ان لوگوں کے اسلام قبول کر لینے کی وجہ سے ہوا۔ مملکتوں کے سربراہان کو مکتوبات اور نمایندوں کے ذریعے اسلام کی دعوت پیش کی۔ کسی قبیلے، قوم اور ملک کے خلاف جنگی اقدام کرنے سے پہلے اس کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرنے کی حجت تمام فرمائی۔ مخاطب دشمن نے اسلام قبول کر لیا تو اس کو خندہ روئی سے گلے لگایا اور اگر انکار کیا تو تباہ و برباد، نیست و نابود اور تہس نہس کر ڈالنے کی ذہنیت اور حکمت عملی کے تحت اس سے جنگ نہیں کی، بلکہ  عین حالت جنگ میں بھی دشمن کے قبولِ اسلام کا داعیہ دل میں موجود رہا اور ہر ممکن طریقے سے انسانیت کو بچانے کی خواہش دامن گیر رہی۔

ابلاغِ دعوت کی مسلح و غیر مسلح کش مکش میں ہمیشہ انسانیت کی سلامتی اور اسے اللہ کی بندگی میں لے آنے کا داعیہ غالب رہا۔ دعوتِ دین پیش کرنے کے لیے ہر خفیہ و علانیہ سرگرمی کو حسب موقع جاری رکھا۔ طائف کا سفر سرزمین مکہ کے بنجر ہونے کی طرف اشارہ تھا مگر اہل طائف نے بھی مکہ سے اپنی ذہنی قربت کا ثبوت دیا اور جس بدترین سلوک سے آپؐ  سفر طائف میں دوچار ہوئے، اس پر رب رحیم و کریم نے بھی غضب ناکی کا اظہار فرمایا۔ پہاڑوں کے فرشتے نے اسی موقعے پر عرض کیا تھا کہ آپؐ  چاہیں تو میں انھیں دو پہاڑوں کے درمیان کچل دوں! اس پر نبیؐ نے فرمایا:  نہیں، مجھے امید ہے کہ اللہ عزوجل ان کی پشت سے ایسی نسل پیدا کرے گا جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھیرائے گی(بخاری) ۔ اس موقعے پر رسولؐ اللہ نے جو دعا فرمائی وہ دعاے مستضعفین (کمزوروں کی دعا) کے نام سے مشہور ہے۔ اس دعا کا ایک ایک لفظ انسانی ناتوانی کا اظہار ہے مگر رب سے امید اور اس سے عافیت طلبی کا بے نظیر شاہکار ہے۔ اس دعا کے اندر مایوسی و ناامیدی اور منکرین دعوت کی ہلاکت و بربادی کی دعا کا قطعاً اظہار نہیں ہے۔

’’اُٹھو اور خبردار کرو‘‘

کا حق ادا کردیا: دعوتِ نبویؐ کا آغاز دوسری وحی کے ان الفاظ سے ہواتھا: یٰٓـاََیُّہَا الْمُدَّثِّرُo قُمْ فَاَنْذِرْo(المدثر ۷۴:۱،۲)’’ اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے، اٹھو اور خبردار کرو‘‘___ دعوت الی اللہ کی ذمہ داری کے لیے اٹھنے کا یہ حکم ملا تو پھر رسول اللہ میدان عمل میں تن تنہا کھڑے ہو گئے۔ انسانیت پر ڈالا جانے والا بوجھ زمین و آسمان اور دشت و جبل نے اٹھانے سے انکار کر دیا تھا اور خوف و دہشت کے مارے سہم گئے تھے۔ اس بوجھ کو انسان نے اٹھالیا اور وہ اس کے انجام سے لاعلم تھا لیکن انسانیت کے محسن انبیاے کرام نے اس بوجھ کو اپنے کندھوں پر اٹھانے کی ذمہ داری کا حق ادا کر کے انسانیت کے اس شرف و اعزاز کو نقش دوام بنادیا۔ ہادی عالم جناب محمد رسولؐ اللہ نے تو اس ذمہ داری کے حق کی ادایگی کا لازوال اور بے نظیر کارنامہ انجام دیا۔ آپؐ  نے قُمْ فَاَنْذِرْ(اٹھو اور خبردار کرو) کا حکم سنا اور پھر مسلسل اور پیہم معرکہ آرائی میں ۲۰ سے زائد برس گزار دیے اور اس دوران آپؐ  کو کوئی ایک معاملہ دوسرے معاملے سے غافل نہ کرسکا۔

سیرت رسول ؐ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ رسولؐ اللہ نے زندگی بھر دعوت الی اللہ کا حق ادا کرنے کی سعی فرمائی اور اپنے آخری اور عالم گیر خطاب خطبہ حجۃ الوداع میں حاضرین سے یہ شہادت لی کہ ’’تم سے میرے متعلق پوچھا جانے والا ہے، تو تم کیا کہو گے؟ صحابہؓ نے عرض کیا کہ ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپؐ  نے تبلیغ کر دی، پیغام پہنچا دیا اور خیر خواہی کا حق ادا فرما دیا۔ یہ سن کر آپؐ  نے شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور لوگوں کی طرف جھکاتے ہوئے تین بار فرمایا : اے اللہ گواہ رہ، اے اللہ گواہ رہ، اے اللہ گواہ رہ! (ابن ہشام)

آج کے داعی کی ضرورت:

دعوتِ الی اللہ کا حق ادا کرنے کے لیے ہر دور کے داعی کو اسی بصیرت، ہمت، صبر، استقامت اور عزم و عزیمت کی ضرورت رہی ہے اور عہد حاضر کے کارکنانِ دعوت کو بھی آج اسی چیز کی ضرورت ہے جس کا مظاہرہ سیرت رسولؐ کے ایک ایک ورق میں ملتا ہے۔ اُمت مسلمہ ’خیراُمت‘ ہونے کی بنا پر اس دعوت کے ابلاغ کی پابند ہے۔ دعوت اپنے اثرات اور نتائج سے مشروط نہیں ہوتی بلکہ سیرت کی روشنی سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ داعی اور کارکن اثرات و نتائج کو اللہ کا اختیار سمجھ کر اپنی ذمہ داری ادا کیے جاتا ہے۔ وہ صرف اس بات کا پابند ہے کہ دعوت کہاں تک پہنچائی اور اس کا حق کس حد تک ادا کیا۔ اس سے آگے اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔

آج دین کی دعوت کو اُسی سوز جگر کے ساتھ انسانیت تک پہنچانے کی ضرورت ہے جو دعوت کے نبویؐ طریق کار میں نظر آتا ہے۔ ایک داعی کی جدوجہد کا اصل مقصد اللہ کے دین کو انسانوں تک پہنچانا ہے۔ دعوتی حلقوں کو اس بات کا پوری سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیتے رہنا چاہیے کہ دین کی دعوت کا ابلاغ کس حد تک ہو سکا۔ اصل، صحیح اور خالص دین سے معاشرے کی بہت بڑی تعداد ناواقف ہے۔ آبا و اجداد سے چلی آنے والی رسوم و روایات آج بھی قوم کی اکثریت کا دین ہے۔ کہیں جہالت اس کا سبب ہے اور کہیں دین کا ناقص اور غیر صحیح تصور و فہم اس کا باعث ہے۔ معاشرے کو بڑی تبدیلی کے لیے تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ بڑے پیمانے پر اسے اصل دین سے آشنا کرنے کے لیے ابلاغ دین کا حق ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ نبی اکرم ؐکا دین تعبیرات و تشریحات کے انباروں تلے گم ہے۔ محمد رسولؐ اللہ کی شریعت کا مصدرِ اول قرآنِ مجید ابھی تک مجموعی طور پر مسلم معاشرے کی سنجیدہ توجہ کا منتظر ہے۔ دعوتی حلقوں میں قرآنِ مجید کے براہِ راست فہم کو اپنی مساعی کا محور بنانے کی ضرورت ہے۔ قرآنِ مجید کا راست فہم داعی کے لیے راستے کی بے شمار مشکلات کا حل پیش کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر حکمت سے لبریز کوئی کتاب نہیں اور راستے کا اس سے بہتر کوئی رہنما نہیں۔ یہ کتاب داعی اعظم حضرت محمدؐکو ۲۳ برس تک مسلسل دین کا پیغام بھی بتاتی رہی اور ابلاغِ دین کا طریق کار بھی واضح کرتی رہی۔ سیرت النبیؐ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہی دین ہے اور یہی طریق دین، یہی دعوت ہے اور یہی اسلوبِ دعوت!! اس سے بے نیاز ہو کر کوئی شخص داعی نہیں بن سکتا اور اس سے ہٹ کر کوئی راستہ منزل پر نہیں پہنچا سکتا۔

بہت کم لوگوں نے براہِ راست سیرت النبیؐ کا مطالعہ اس طرز پر کیا ہو گا کہ نبی کریمؐ کو  دعوتِ دین کی جدوجہد کے دوران کیسے مراحل پیش آئے اور آپؐ  کا ردّعمل اور حکمت عملی ان مراحل میں کیا رہی۔ صیامِ رمضان، مناسک حج اور مسائل عیدین کی طرح قرآن و سیرت ایسا موضوع نہیں ہے جس کی یاد سال کے بعد تازہ ہوتی ہو، بلکہ یہ مسلمان کی زندگی کا دائمی نصاب اور مستقل موضوعِ درس ہے۔ اسے سالانہ بنیادوں پر بڑے سے بڑے پروگراموں، تقریبات اور جلسے جلوس کی صورت میں منعقد کر کے نہ اس کا حق ادا کیا جا سکتا ہے اور نہ یہ طریقۂ یاد رسولؐ اللہ کے شایانِ شان ہے۔ ہردینی کارکن کو خود سے یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا اُس نے زندگی میں ایک بار مکمل قرآنِ حکیم کا مطالعہ شعوری طور پر اس سے ہدایت پانے کی غرض سے کیا ہے؟ کیا اس نے نبی کریمؐ کے اسوۂ حسنہ کو اپنی زندگی کا رہنما بنانے کے لیے سیرت النبیؐ کا مطالعہ کیا ہے؟

لیبیا قریباً ۷۰ لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی کا ملک ہے، لیکن قدرت نے اسے پٹرول کی   بے پناہ دولت سے مالامال کر رکھا ہے۔ دو ملین بیرل پٹرول کی یومیہ پیداوار ملکی معیشت کے لیے آسودہ اور خوش حال زندگی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ چھوٹی سی آبادی کے لیے بے پناہ دولت کے اس قدر تی وسیلے کو اللہ تعالیٰ کی نعمت ِ غیرمترقبہ ہی کہا جاسکتا ہے مگر جس طرح ’تدبیر منزل‘ کے بغیر اُمورِخانہ بگڑ جاتے، اسی طرح’تدبیر مملکت‘ کے بغیر ’کارِجہاں بانی‘ بھی زوال آشنا ہوجاتا ہے۔

۲۰۱۱ء میں جن عرب ممالک میں حکومتوں کو عوامی سیلاب کے سامنے سر نگوں ہونا پڑا ان ممالک میں تین تین چار چار عشروں سے ایک ہی خاندان حکمرانی کے استحقاق پر قابض تھا۔ کسی ایک خاندان کا اُمورِ حکومت کو ۳۰، ۴۰ برس اپنے ہاتھ میں لیے رکھنا ا س ملک کے عوام کی نفسیات میں محرومی کے احساس کو شدید تر کرنے کے لیے کافی مدت ہے۔ لیبیا پر کرنل معمرالقذافی کا تسلط ۴۲برس پر محیط ہے۔ ۲۰۱۱ء میں ’عرب بہارِ انقلابات‘ کا ریلا اس آمرانہ تسلط کو توڑنے کا بھی باعث ہوا۔ ۱۷فروری ۲۰۱۱ء کو لیبیا میں بھی عوامی احتجاج اور مظاہروں کا آغاز ہوگیا۔ احتجاج کا یہ سلسلہ روزافزوں شدت اختیار کرتا گیا۔ حکومت نے اس احتجاج کو کچلنے کے لیے اپنی تمام طاقتوں کو آزمایا۔ بالآخر ناکامی کا منہ دیکھتے ہوئے کرنل قذافی دارالحکومت طرابلس کو چھوڑ کر ۳۶۰کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ’سرت‘ شہر میں روپوش ہوگیا۔یہ ۲۰؍اکتوبر ۲۰۱۱ء کا دن تھا جب سرت میں قذافی مظاہرین کے ہاتھوں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ۴۲برس بلاشرکت ِ غیرے لیبیا کا حکمران رہنے والا شخص جس بے بسی کے عالم میں عوام کے ہاتھوں مارا گیا، یہ ہرظالم و جابر حکمران کے لیے درسِ عبرت ہے۔ فروری سے اکتوبر تک عوامی احتجاج کو روکنے کے لیے لیبیا حکومت نے پورا زور صرف کیا اور آٹھ ماہ کے اس عرصے میں ۵۰ہزار سے زائد افراد کو اپنے اقتدار کی خاطر موت کی نیند سُلا دیا۔

عرب میڈیانے قذافی کے ۴۲سالہ دورِ حکومت کو ’خونیں دورِحکومت‘ کہا ہے۔ ایک راے کے مطابق قذافی کا دورِحکومت قتل و خون ریزی کا دور تھا۔ جو اُس کے خلاف آواز بلند کرتا اُسے معافی نہیں مل سکتی تھی بلکہ ایسی ہر آواز کا واحد علاج ’قتل‘ تھا،جیساکہ متعدد مواقع پر ہوا۔ لاکربی کا مشہور واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جس کے بعد لیبیا پر ۱۹۹۲ء میں ۱۰سال کے لیے عالمی پابندیاں عائد کی گئیں۔ جب بین الاقوامی تنہائی نے اسے مصالحت پر مجبور کردیا تو اس نے اپنے بیٹے سیف الاسلام کو نئے چہرے کے طور پر متعارف کرایا۔

۲۰؍اکتوبر ۲۰۱۱ء کو قذافی قتل ہوا اور ۲۳؍اکتوبر ۲۰۱۱ء کو ’قومی مجلس‘ (عبوری مجلس) نے لیبیا کی ’کامل آزادی‘ کا اعلان کردیا۔ ۳۱؍اکتوبر ۲۰۱۱ء کو ایک علمی شخصیت عبدالرحیم الکیب کو نگران حکومت کا صدر منتخب کیا گیا۔ ۲۲نومبر کو عبدالرحیم الکیب نے اپنی حکومت کی تشکیل کا اعلان کیا۔ عبوری مجلس نے آٹھ ماہ کے اندر ’دستوری مجلس‘ کے انتخاب کرانا تھے جو آٹھ ماہ کے اندر تو نہ ہوسکے البتہ معمولی تاخیر کے ساتھ نوماہ کے اندر ۷جولائی۲۰۱۲ء کو ہوئے۔

۷جولائی ۲۰۱۲ء کا دن لیبیا کے عوام کے لیے تاریخ کے پہلے عام انتخابات کا دن تھا۔ اس انتخاب میں لیبیا کی اس قیادت کا خاص کردار رہا جو ایک عرصے سے بیرونِ ملک جلاوطنی کے دن گزار رہی تھی۔ اگرچہ یہ جلاوطنی خوداختیاری تھی مگر لیبیا کے داخلی حالات سے ان لوگوں کے    عدم اطمینان اور حکومت کے جابرانہ سلوک کی بنا پر اختیار کی گئی تھی۔ ملک کی اسلامی اور لبرل جماعتوں نے ان انتخابات میں حصہ لیا۔ اسلامی قوتوں نے اپنی اپنی جماعتوں کے نام سے انتخاب میں شرکت کی، جب کہ لبرل جماعتیں ایک قومی الائنس کے تحت اس انتخاب میں داخل ہوئیں۔ اگرچہ یہ چھوٹے چھوٹے گروپ تھے مگر ۶۰گروپوں کے اس الائنس نے لیبیا کے انتخابات کی کایاپلٹ دی۔ اخوان المسلمون نے حزب العدالۃ والبناء (تعمیر و انصاف پارٹی) کے نام سے یہ انتخابات لڑے۔ دیگر جماعتیں بھی مختلف ناموں سے شریکِ انتخاب تھیں مگر قابلِ ذکر قرار نہ پاسکیں۔ البتہ آزاد اُمیدواروں نے مجموعی طور پر ان انتخابات میں میدان جیتا۔ ’قومی جماعتوں کے الائنس‘ کی قیادت عبوری مجلس کے سابق وزیراعظم محمود جبریل نے کی۔ اسی الائنس نے بحیثیت پارٹی سب سے زیادہ ۳۹ نشستیں حاصل کیں۔اخوان کی تعمیروانصاف پارٹی کو ۱۷نشستیں ملیں اور آزاد اُمیدواروں کو ۱۲۰، نشستوں پر کامیابی ملی۔ ان آزاد اُمیدواروں میں بھی کثرت لبرل ارکان کی ہے۔ اسلامی اور لبرل ناموں کی تقسیم کے اعتبار سے لیبیا کے اسلام پسند یااسلامی شناخت اور امتیاز رکھنے والے اُمیدوار دوسرے نمبر پر آئے اور لبرل شناخت کے حامل پہلے نمبر پر۔

انتخابی نتائج کی یہ صورت حال نہ صرف روایتی تجزیہ نگاروں کے لیے حیرت انگیز تھی بلکہ خود اسلامی قوتوں کے لیے بھی اس میں اپنی حکمت عملی پر سوچ بچار کرنے کا درس موجود تھا۔ انتخابات میں قوم کے مزاج اور تہذیب و کلچر کا ضرور دخل ہوتا ہے مگر جہاں ۴۰، ۴۰ برس سے لوگوں نے ایک کے سوا کسی دوسرے کا نام حکمران کے طور پر سنا ہی نہ ہو وہاں ا س مزاج اور کلچر کے اُوپر انحصار کرکے مطلوبہ نتائی کی توقع رکھنا خام فکری کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ خلوص اور دیانت داری کے ساتھ صلاحیت اور اہلیت بھی ضروری ہے اور ان کے ساتھ حکمت عملی بھی ناگزیر ہے۔

اسلامی قوتوں کے مقابلے میں لبرل قوتوں کی کامیابی تجزیہ نگاروں کے مطابق متعدد وجوہات کی بنا پر سامنے آئی۔ لیبیا کے ایک سیاسی تجزیہ نگار عصام محمد الزبیر کے مطابق لبرل الائنس کی عبوری مجلس کے سابق وزیراعظم محمود جبریل الائنس کا سربراہ تھا اور وہ قذافی کے خلاف مزاحمت کے دوران بین الاقوامی طور پر معروف ہوچکا تھا۔ ملک کے اندر بھی عوام اس کی شخصیت سے متعارف تھے۔ اس بنا پر اس نے ۶۰ گروپوں کا الائنس بنانے میں نہ صرف کامیابی حاصل کی بلکہ سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہا۔

دوسرا سبب ایک اور تجزیہ نگار کے نزدیک یہ تھا کہ لبرل گروپ اپنی اعتدال پسندی اور  دین داری دونوں اعتبار سے عوام کے لیے اسلامی جماعتوں کی نسبت زیادہ قابلِ قبول رہے۔ اسلامی جماعتوں کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ ان کے ہاں شدت پسندی زیادہ ہے۔ انتخابات سے قبل احتجاج کے دوران ان جماعتوں کے بارے میں پروان چڑھنے والی اس راے نے ان جماعتوں کو بعض اُن نشستوں سے بھی محروم کردیا جہاں فضا مکمل طور پر ان کے حق میں خیال کی جاتی تھی،بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ ان حلقوں کو اسلامی جماعتوں کے ووٹروں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔

ایک سبب یہ بتایا گیا ہے کہ اسلامی جماعتیں اپنی گہری جڑیں رکھنے کے باوجود اس بنا پر  کم نشستیں حاصل کرپائیں کہ یہ غیرمتحد تھیں۔ یہ اسلامی شناخت رکھنے کے باوجود چھے جماعتوں میں تقسیم تھیں، جب کہ محمود جبریل کے الائنس نے لبرل لیبل کے باوجود ۶۰گروپوں کو متحد کر رکھا تھا۔ (الجزیرہ نیٹ، ۱۰ جولائی ۲۰۱۲ئ)

ان انتخابات کے نتیجے میں بننے والی پارلیمان کو دستوری طور پر ملک کا نظامِ حکومت منتقل ہونا تھا جو اس سے پہلے انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی ’قومی مجلس‘ کے پاس تھا۔ ۸؍اگست ۲۰۱۲ء کو قومی مجلس نے اس انتقالِ اقتدار کا مرحلہ بھی طے کرا دیا۔ پُرامن انتقالِ اقتدار کا یہ عمل ۴۲برس کے آمرانہ دورِ حکومت کے بعد پہلی مرتبہ انجام پایا۔ ایک باقاعدہ تقریب میں مجلس اور پارلیمان کے ذمہ داروں، ارکان اور سربراہوں کی موجودگی میں یہ مرحلہ لیبیاکے عوام نے ٹیلی وژن اسکرین پر براہِ راست مشاہدہ کیا۔ قومی مجلس کے سربراہ مصطفی عبدالجلیل نے پارلیمان کے ۲۰۰؍ارکان میں عمر کے اعتبار سے سینیر ترین رکن محمدعلی سلیم کو چارج باقاعدہ طور پر سپرد کیا۔ اختیار لینے اور حوالے کرنے کی دستاویزات پر دونوں اطراف سے دستخط کیے گئے۔ مصطفی عبدالجلیل نے جھنڈا پارلیمان کے صدر محمدعلی سلیم کے حوالے کیا اور دونوں سربراہو ں نے حسب ذیل تحریر پر دستخط کیے:

عبوری مجلس دستوری اختیارات ملکی قیادت قومی پارلیمان کے سپرد کرتی ہے اور اسی تاریخی لمحے سے پارلیمان لیبی قوم کی واحد دستوری نمایندہ قرار پاگئی ہے۔ لیبیا کی آزادی، امن و سلامتی اور وحدتِ اراضی کی نگہبان اب یہی پارلیمان ہے۔

مصطفی عبدالجلیل نے ’لیبیا کی تاریخ میں انتقالِ اقتدار کا پہلا عمل‘ کے عنوان سے خطاب بھی کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ اہلِ لیبیا کے لیے تاریخی لمحہ ہے۔ میں انتقالِ اقتدار کے اس عمل کے دوران میں ہونے والی غلطیوں کا اعتراف کرتا ہوں۔ بعض اہم امور میں ہم سے تاخیر ہوگئی اور ہم چاہتے ہیں کہ پارلیمان ان اُمور کو نبٹانے میں کامیاب ہو۔ ان اُمور میں امن و امان کا قیام، ملک سے اسلحہ اکٹھا کرنا اور اندرون و بیرونِ ملک شہریوں کے علاج پر توجہ دینا اہم ہیں۔ ہم ان اُمور کے  حل کے لیے کوئی طریقہ تجویز نہیں کرتے اگرچہ ہم نے عبوری مجلس میں ان کے بارے میں بہت سے فیصلے کیے، تجاویز منظور کیں۔

مصطفی عبدالجلیل نے کہا: عبوری مجلس اپنے آپ کو پارلیمان کی حکمرانی کے تحت کسی بھی معاملے میں اپنا تعاون پیش کرنے کے لیے حاضر ہے۔ ہم اپنے ان بھائیوں کے لیے بہترین مددگار ثابت ہوں گے جنھوں نے ہم سے یہ جھنڈا حاصل کیا ہے۔ کیونکہ لیبیا کا مفاد ہمارے لیے اہم ہے اور انقلاب کی کامیابی ہم سب کا ہدف ہے۔ پارلیمان انقلاب کے جس میدان میں بھی چاہے ہم اُس کے وفادار ثابت ہوں گے۔

مصطفی عبدالجلیل کرنل قذافی کے دور میں عدلیہ کی سپریم کونسل کے رکن تھے۔ انھوں نے اس کونسل سے اور عبوری مجلس کی رکنیت سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا ہے۔ انتقالِ اقتدار کی یہ تقریب قریباً پون گھنٹا جاری رہی۔ اس میں نومنتخب اسمبلی کے ارکان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے صدر اور نائب صدر کے انتخاب کے لیے اجلاس بلائیں۔ (الجزیرہ نیٹ ۹؍اگست ۲۰۱۲ئ)

مذکورہ اجلاس کے اگلے روز نومنتخب ارکان اسمبلی نے قذافی حکومت کے تاریخی مخالف محمدالمقریف کو اسمبلی کا صدر منتخب کیا۔ محمدالمقریف سیاسی اتحاد جبھۃ الوطنیۃ للانقاذ کی قیادت کر رہے تھے جو جلاوطنی کے دوران قائم ہوا اور ایسی بہت سی شخصیات اس سے وابستہ رہیں جو قذافی حکومت کے خلاف تھیں۔ محمدالمقریف کو اسمبلی سے ۱۱۳ ووٹ حاصل ہوئے اور ان کے مدمقابل  علی زیدان محمد کو ۸۵ ووٹ ملے۔ علی زیدان محمد بھی قذافی نظامِ حکومت کے پرانے مخالف اور   آزاد رکن اسمبلی اور لبرل رجحانات کی حامل شخصیت ہیں۔ محمدالمقریف ۱۹۴۰ء میں پیدا ہوئے۔ قذافی حکومت میں سفارتی خدمات انجام دیں مگر جلد ہی اس سے لاتعلق ہوکر جلاوطن ہوگئے۔ وزیراعظم کا انتخاب، نئی حکومت کی تشکیل، قوانین کا اجرا، نئے دستور کی تیاری اور مکمل پارلیمانی انتخابات کے مراحل طے کرانا محمد المقریف کی ذمہ داری ہوگی۔

انتخابِ صدر کے بعد انتخابِ وزیراعظم کا مرحلہ شروع ہوا۔ ۱۲ستمبر ۲۰۱۲ء کو لبرل الائنس کے سربراہ محمود جبریل اور اسلامی شناخت کے حامل مصطفی ابوشاقور کے درمیان وزارتِ عظمیٰ کے لیے مقابلہ ہوا اور شاقور دو ووٹوں سے یہ انتخاب جیت گئے۔ لیکن ووٹوں کا یہ معمولی فرق اُن کی حکومت تشکیل دینے میں بہت بڑی رکاوٹ بنا رہا۔ دو بار انھیں تشکیل حکومت کا موقع دیا گیا مگر وہ اسمبلی سے اعتماد حاصل نہ کرسکے اور بالآخر اس عہدے سے انھیں ہٹنا پڑا۔

مصطفی ابوشاقور کے انتخاب اور بعدازاں ناکامی کے قریباً ایک ماہ بعد نئے وزیراعظم کا انتخاب عمل میں آیا اور صدارتی انتخاب میں حصہ لینے والے دوسرے امیدوار علی زیدان محمد     لبرل الائنس کی جانب سے محمود جبریل کی قیادت میں سامنے آئے۔ اسلامی جماعتوں کے نمایندے کے طور پر محمدالہاشمی الحراری نے حصہ لیا۔ علی زیدان محمد کو ۹۳ووٹ اور الحراری کو ۸۵ ووٹ ملے۔   یوں علی زیدان محمد وزیراعظم لیبیا منتخب ہوگئے۔ تیسرے اُمیدوار عبدالحمید نعمی اسمبلی کے ۴۰ارکان کی طرف سے تائید حاصل کرنے میں ہی ناکام رہے، لہٰذا مقابلے سے باہر ہوگئے اور چوتھے اُمیدوار ابراہیم دباشی اجلاس میں شریک ہی نہ ہوئے۔

وزیراعظم علی زیدان محمد کا تعلق لیبیا کے ضلع جفرہ کے شہر ودّان سے ہے۔ ۱۹۵۰ء میں پیداہوئے۔ بھارت کی جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی دہلی سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کیا۔ ۱۹۷۵ئ-۱۹۸۲ء لیبیا کی وزارتِ خارجہ کے ڈپلومیٹک ونگ میں کام کیا۔ اس دوران دو سال کے لیے بھارت میں سفارت خانۂ لیبیا میں رہے۔ ۱۹۹۴ء سے تاحال ہیومن ڈویلپمنٹ کی جرمن ایجنسی کے صدر ہیں۔ ۱۹۸۲ء سے ۱۹۹۲ء تک لیبیا کے جبھۃ الوطنیۃ للانقاذ کے رکن رہے۔    انسانی حقوق کی تنظیم الرابطۃ اللیبیۃ کے ۱۹۸۹ء سے باقاعدہ ترجمان ہیں۔ انقلاب کے بعد عبوری مجلس کی طرف سے یورپ خاص طور پر فرانس میں نمایندے مقرر کیے گئے۔

علی زیدان محمد بھارت میں بطور سفارت کار تعیناتی کے دوران قذافی نظامِ حکومت سے الگ ہوئے اور لیبیا حکومت مخالف اتحاد میں شامل ہوگئے جو بیرونِ ملک شخصیات نے جبھۃ الوطنیۃ للانقاذ کے نام سے قائم کیا تھا۔ زیدان کو قذافی نظامِ حکومت کا ’ریڈیکل مخالف‘ کہا جاتا ہے۔ کیونکہ انھوں نے اس وقت بھی حکومت کے ساتھ مکالمے اور سودے بازی سے انکار کیا جب سیف الاسلام قذافی بعض بڑی مخالف شخصیات کو بھی اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوگیا تھا۔

۷جولائی ۲۰۱۲ء کے انتخابات میں اگرچہ مجموعی طور پر لبرل اُمیدواروں کی کامیابی کا تناسب اُونچا رہا مگر اس کے باوجود وزیراعظم کے انتخاب میں ان کو بھی بڑے فرق کے ساتھ کامیابی نہیں ملی۔ زیدان صرف آٹھ ووٹ زیادہ لے کر محمدالحراری کے مقابلے میں وزیراعظم بنے ہیں۔ ملکی صورت حال کی ابتری اور نظامِ حکومت کو استحکام دینے کے لیے اب تمام پارلیمانی قوتیں وزیراعظم زیدان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔ اخوان المسلمون کے سیاسی گروپ العدالۃ والبناء کے سربراہ محمد صوان نے علی زیدان کے لیے اچھے جذبات کا اظہار کیا۔ علی زیدان کے انتخاب کو بھی تجزیہ نگاروں نے کسی ٹھوس کامیابی سے تعبیر نہیں کیا۔ کہا گیا ہے کہ زیدان کی کامیابی کا سبب یہ ہے کہ پارلیمان میں کوئی جماعت ایسی نہیں جس کے پاس کوئی منشور اور واضح فکر ہو۔ بیش تر آزاد اُمیدواروں کا مقصد مناصب کا حصول ہے جس کی بنا پر انھوں نے علی زیدان کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ سیاسی لوگوں کے درمیان سودے بازی کا نتیجہ ہے۔ زیدان کو اسمبلی کا متفقہ وزیراعظم قرار نہیں دیا جاسکتا۔

وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد زیدان نے اپنے پہلے بیان میں کہا کہ وہ لیبیا میں امن کی بحالی پر خصوصی تو جہ دیں گے۔ اُن کے خیال میں ’’تمام مشکلات جن سے لیبیا دوچار ہے وہ     امن کے مسائل سے ہی جنم لیتی ہیں‘‘۔ انھوں نے کہا کہ مسائل کے حل کی خاطر حکومت خود کو  ہنگامی حالت میں تصور کرے گی اور وہ اخوان المسلمون کی آرا و تجاویز کو خوش آمدید کہیں گے۔ زیدان نے کہا: ہر قانونی تعبیر کا مصدر و منبع اسلام ہوگا اور ہر وہ چیز ناقابلِ قبول ہوگی جو شریعت سے متصادم ہوگی۔(الجزیرہ نیٹ، ۱۵؍اکتوبر ۲۰۱۲ئ)

قذافی نظامِ حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد علی زیدان محمد نے ۲۰۱۱ء کے انقلاب تک جرمنی کو اپنا مستقر بنائے رکھا۔ قذافی دور میں سیاست دانوں کے پاس دو ہی اختیار تھے: وہ لیبیا میں رہ کر اہم مناصب پر فائز رہیں یا طویل جلاوطنی کی زندگی کو قبول کرلیں۔ ان کے لیے پہلی صورت کو اختیار کرنا ممکن نہیں تھا کیونکہ جن افراد کے اُوپر حکومت کو شک گزرتا اُن کی اس نظام میں جگہ   نہ ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ انقلاب کی بیش تر قیادت بیرونِ ملک مقیم رہی۔

وزیراعظم لیبیا علی زیدان کو بھی تشکیل حکومت کے لیے دو ہفتے کی مہلت دی گئی۔ انھوں نے اکتوبر کے آخری دنوں میں ۳۲؍افراد پر مشتمل حکومت کا خاکہ صدر کو بھجوایا جس میں آزاد، اسلامی اور لبرل جماعتوں کے افراد کو شاملِ حکومت کیا گیا تھا۔دوخواتین ارکان بھی حکومت میں شامل ہیں۔ اس حکومت میں اہم وزارتوں پر آزاد ارکان کو فائز کیا گیا ہے۔ خارجہ، بین الاقوامی تعلقات، مالیات، عدل و انصاف، داخلہ اوردفاع کی وزارتیں آزادارکان کے سپرد کی گئی ہیں۔  ان ۳۲؍افراد میں تین ارکان وزیراعظم کے ساتھ ہوںگے، ۲۷ وزیر ہیں۔دو وزراے مملکت ہیں جن میں ایک پارلیمان اور دوسرا دورانِ انقلاب زخمی ہونے والوں کے مسائل سے متعلق ہوگا۔

۳۱؍اکتوبر کو صدر پارلیمنٹ محمدالمقریف نے زیدان حکومت کے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیابی کا اعلان کیا۔ مقریف کے مطابق حکومت نے ۱۰۵ ووٹ حاصل کیے، جب کہ ۹ووٹ حکومت کے خلاف رہے اور ۱۸ ووٹ خاموش رہے۔ ۲۰۰؍ ارکان پر مشتمل اسمبلی کے ۲۰ سے زائد ارکان فریضۂ حج کی ادایگی کے باعث غیرحاضر تھے اور قریباً اتنی ہی تعدادپارلیمانی امور کے سلسلے میں برطانیہ اور کینیڈا میں تھی۔

واشنگٹن پوسٹ نے زیدان کی حکومت کو کمزور قرار دیا ہے۔ اخبار کے مطابق طرابلس سے صرف ۱۰۰ میل کے فاصلے پر واقع شہر بنی ولیدمیں انقلاب کے حامیوں اور سابق نظامِ حکومت  کے طرف داروں کے درمیان اب تک تصادم جاری ہے جس سے حکومت کی کمزور گرفت ظاہر ہوتی ہے۔ بنی ولید قذافی حکومت کے حامیوں کا آخری گڑھ ہے، جو انقلاب پسندوں سے مکمل طور پر فتح نہیں ہوسکا۔

انسانی حقوق کی تنظیمیں اور ماہرین قانو ن کے مطابق لیبیا میں مسلح تنازعات کا سبب قانون کی حکمرانی کاعدم نفاذ ہے۔ چونکہ عبوری مجلس کو قریباً ایک سال تو انتقالِ اقتدار کا مرحلہ طے کرنے میں لگ گیا اور چار ماہ نئی حکومت کی تشکیل میں گزر گئے۔ وزیرعدل نے کہا ہے کہ ہم فوت شدگان کو تو زندہ نہیں کرسکتے البتہ قانون کی حکمرانی کو عام کرنا ہمارے بس میں ہے۔ ہمارے لیے یہ ممکن ہے کہ ہم دونوں اطراف کے جانی نقصانات اُٹھانے والوں کو معاوضے دے دیں اور ہمارے اختیار میں یہ ہے کہ ہم لیبیا کی تعمیرنو کو ممکن بنائیں۔(الجزیرہ نیٹ، ۱۳ نومبر ۲۰۱۲ئ)

لیبیا کے سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں کے مطابق علی زیدان کی کابینہ تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل ہونے کے باعث بہتر دورِ حکومت کا آغاز ہے کیونکہ علی زیدان نے اسلامی، لبرل اور قومی قوتوں کے درمیان سیاسی دُوری کو بہت حد تک کم کردیا ہے۔ گویا یہ اتحادی حکومت ہے۔ حزب العدالۃ والبناء کے ایک رکن ولیدماضی کا کہنا ہے کہ زیدان حکومت سیاسی اور جغرافیائی اعتبار سے خاصی حمایت حاصل کرچکی ہے اور یہ وسیع حلقے پر مشتمل حکومت ہے۔ ولید ماضی کے مطابق حکومت کو مطلوبہ حمایت حاصل ہے، لہٰذا وہ قومی اہداف کے حصول کے لیے واضح خطوط پر مشتمل پروگرام کے مطابق آگے بڑھے تاکہ عام شہری کا اعتماد بھی حکومت کے اداروں پر قائم ہوسکے۔

قذافی کے قتل کے ٹھیک ایک سال بعد نئی حکومت وجود میں آئی ہے۔ اس نئی حکومت اور تمام ارکانِ پارلیمنٹ کی کمزوریاں اور خامیاں اپنی جگہ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ۴۰برس کی طویل مدت کے بعد ان تمام سیاسی قوتوں کو پہلی بار حکومت کا تجربہ ہورہا ہے۔ لہٰذا وہ تمام مطالبے جو کسی تجربہ کار رواں نظامِ حکومت کی مشینری سے کیے جاسکتے ہیں اُن کی توقع اس نوآموز پارلیمنٹ سے رکھنا مناسب نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے وہ ملکی حالات بھی ہیںجن سے نبٹنا بڑی حکمت و دانش اور مہارت کا تقاضا کرتا ہے۔ عوام کو جمہوری قدروں اور قومی تعمیروترقی سے ہم آہنگ رویوں سے آشنا کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ملک بھر میں پھیلے ہوئے اسلحے کا ہے جو امن و امان کی غیریقینی صورتِ حال کا سب سے بڑا سبب ہے۔ دوسرا مسئلہ دستور کی تیاری کا ہے جس کے لیے حکومت کو دیگر داخلی مسائل سے فرصت ملنا ضروری ہے۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ موجودہ حکومت وسیع سطح پر متفقہ حکومت ہونے کے ناتے ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش میں بہت حد تک کامیاب ہوگی۔

اسلامی قوتوں کے لیے بھی یہ عرصہ اپنی حکمت عملی کو بہتر طور پر وضع کرنے اور مستقبل کے لائحۂ عمل کو ٹھوس بنیادوں پر تشکیل دینے کے لیے عبوری دور کی حیثیت رکھتا ہے۔ اخوان المسلمون جو حالیہ انتخابات میں بھی اپنی جداگانہ حیثیت کے اعتبار سے پہلے نمبر پر رہی ہے، اگر قومی الائنس میں شامل گروپ متحد نہ ہوتے تو نتائج میں سرفہرست اخوان ہوتے۔ ملکی تہذیب اور کلچر کو اسلامی بنیادوں پر قائم رکھنے اور ۴۰برس کے دوران کی گئی اپنی جدوجہد کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے اسلامی قوتوں کو بہرحال ایسی ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جو ان کے خواب کی تعبیر کو ممکن بناسکے۔

 

ادارتی دفتر کا نیا ای میل پتا

عالمی ترجمان القرآن کے ادارتی دفتر کے سابقہ ای میل پتے کے بجاے نئے پتے پر رابطہ کیجیے:

tarjumanq@gmail.com

اسلامی تاریخ کے قدیم کتابی ورثے میں ’بلادِ شام‘ سے مراد موجودہ شام، لبنان، اُردن اور فلسطین کی سرزمین ہے۔ اس قطعۂ ارضی کو سرزمینِ انبیا ؑ بھی کہا جاتا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرِمعراج میں اس خطے کا ذکر زمینی گزرگاہ کے طور پر ہوا ہے۔ سورئہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت معراج رسولؐ کے اسی زمینی مرحلۂ سفر سے متعلق ہے۔مسجداقصیٰ کے گرد وپیش کی ساری زمین کو مفسرین نے اس آیت کی روشنی میں ’ارضِ مبارکہ‘ قرار دیا ہے۔ متعدد احادیث میں بلادِشام کے فضائل و مناقب بیان ہوئے ہیں۔ امام احمد اور ترمذی کی روایت ہے کہ حضرت زید بن ثابتؓ کہتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شام کے لیے خوش خبری ہے؟ ہم نے عرض کیا: کس بنا پر یارسولؐ اللہ؟ آپؐ نے فرمایا: اس لیے کہ رحمن کے فرشتوں نے اس کے اُوپر اپنے پَروں کا سایہ کررکھاہے۔ ایک دوسری حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس   قطعۂ ارض کے لیے برکت کی دعا بھی فرمائی۔

اس فضیلت کے علاوہ صلیبی جنگوں میں اسلامی فتوحات کے شان دار سلسلے میں بھی شام کا ممتاز کردار رہا۔ شامی مجاہدین نے عماد الدین زنگی اور اُن کے بعد نورالدین محمود زنگی کی سپہ سالاری میں یہ کارنامہ انجام دیا۔ پھر شامی اور مصری اتحاد نے صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں بیت المقدس اور مسجداقصیٰ کو صلیبی تسلط سے آزاد کرایا۔ اسی بناپر بلادِ شام مغربی استعمار کا ہدف ٹھیرا اور اس نے شام کی وحدت کو کئی ریاستوں میںتقسیم کر دیا۔ خلافت ِ عثمانیہ کے تحت اسے ایک صوبے کی حیثیت حاصل تھی۔ سائیکس پیکو معاہدے کی رُو سے چار مملکتوں میں بانٹ دیا گیا۔ انگریزوں اور فرانسیسیوں کی اس تقسیم کے مطابق شام، لبنان، اُردن اور فلسطین کی مملکتیں وجود میں آئیں۔

چھٹی صدی ہجری کے معروف تجدیدی عالمِ دین شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے تاتاری قوتوں کے خلاف اس علاقے کی جہادی سرگرمیوں کا نہ صرف دفاع کیا بلکہ ان میں خود شریک ہوکر  فریضۂ جہاد ادا کیا۔ یہ لشکرِاسلام اس وقت تو اپنا وجود بچانے میں کامیاب ہوگیا مگر بیسویں صدی عیسوی میں وحدتِ مسلمہ کے انتشار نے صہیونی قوتوں کو یہاں پنپنے کا موقع فراہم کردیا۔ آج شام کی تحریک براے تبدیلیِ نظام کی ناکامی اسرائیل کی سب سے بڑی خواہش ہے۔ اس لیے کہ اسرائیل شام اور مصر کے درمیان واقع ہونے کی بناپر اپنے آپ کو خطرے میں سمجھتاہے۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ بلادِشام کی یہ ارضِ مبارکہ کئی عشروں سے خطے کے باسیوں کے لیے جہنم     بنی ہوئی ہے۔ قتل و غارت اور تباہی و بربادی کی جو تاریخ اِن علاقوں میں رقم ہوچکی ہے، تجزیہ نگاروں کے مطابق اس سے بدتر صورت حال کا مشاہدہ ممکن نہیں۔ مظالم کی داستانیں رقم کرنے والے انسان نُما ان وحشی حکمرانوں کو ’انسانیت کے ماتھے پر بدنُما داغ‘ کہا جا رہا ہے۔

آج سے ۴۲برس قبل انسانیت کے ماتھے پر یہ بدنُما داغ اس وقت لگا تھا جب حافظ الاسد خاندان نے سرزمینِ شام کے آمرمطلق کے روپ میں نظامِ حکومت سنبھالا تھا۔ اسدکے اقتدار سنبھالنے سے لے کر آج تک شامی قوم مسلسل اس قصاب خاندان کے ہاتھوں ذبح ہورہی ہے۔ اسد کی حکمرانی اُس کی شخصی آمریت اور اکثریت پر علوی فرقے کا اقلیتی تسلط تھا، جسے عالمی ضمیر نے بھی قریباً نصف صدی سے ظلم وستم کی کھلی اجازت دے رکھی ہے۔ حافظ الاسد کو ملنے والے اقتدار کا آغاز گولان کے علاقے سے شام کی محرومی کی قیمت پر ہوا۔ اسرائیل سے اپنی شکست اور افواج کی پسپائی کا خودساختہ اعلان کرنے والے اُس وقت کے شامی وزیردفاع حافظ الاسدکا یہ فیصلہ اُس کی ذات اور خاندان کے لیے شاہانہ زندگی کی ضمانت فراہم کرگیا۔ ۴۲برس سے شام باپ بیٹے کی آمریت میں سلگ رہا ہے۔ باپ نے ۳مارچ ۱۹۷۱ء کو اقتدار سنبھالنے کے بعد عوام کو طرح طرح کے تعذیب و تشدد اور قتل و غارت کے ذریعے اپنا محکوم بنائے رکھا۔ ۲۷جون ۱۹۸۰ء میں تدمر کے مقام پر قتلِ عام سے حافظ الاسد کے خونریز تاریخی سلسلے کا آغاز ہوا۔ پھر ۱۰مارچ ۱۹۸۰ء کو جسرالشغور کے مقام پر، ۵-۱۲؍اپریل ۱۹۸۰ء کو حماۃ شہر میں، ۱۱؍اگست ۱۹۸۰ء کی صبح عیدالفطر کے روز حلب شہر کے محلے المشارفہ میں قتل و غارت کا اعادہ کیا گیا۔ ۲فروری ۱۹۸۲ء کو تو حماۃ کے ایک بہت بڑے  قتلِ عام کا تحفہ قوم کو دیا گیا۔ یہ قتل عام مسلسل ۲۰دن رہا اور اس میں ۳۰ سے ۴۰ ہزار نفوس نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ۱۵ہزار افراد لاپتا ہوگئے جن کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔ ایک لاکھ شہری اپنے گھروں سے ہجرت کرجانے پر مجبور کردیے گئے کیونکہ حماۃ کے ایک تہائی مکانوں کا مکمل طور پر صفایا کردیا گیا تھا۔

۱۰؍جون ۲۰۰۰ء کو بیسویں صدی کا یہ سفاک اور ظالم حکمران موت کے منہ میں چلا گیا۔ اس کا بیٹا بشارالاسد اس کی جانشینی میں صدرِ مملکت قرار پایا۔ گویا شام کا ملوکیت کے چنگل میں مستقل طور پر جھگڑتے رہنا اس کا مقدر ہے۔ شاید شامی قوم نے اکیسویں صدی کے ’عالمی انسانی حقوق‘ کے خوش نُما دور میں بھی اپنی تباہی و بربادی کا مزید رقص ابھی دیکھنا تھا، لہٰذا ۲۰۱۱ء میں عرب ممالک میں اُٹھنے والی بیداری کی لہر میں شامی قوم بھی شامل ہوگئی۔ باپ کی سفاکانہ تاریخ کو اگر بیٹا آگے نہ بڑھاتا تو جانشینی کا اہل ثابت کیسے ہوتا، لہٰذا وہ اسلحہ جو ۱۹۶۷ء میں گولان کے تنازعے پر اسرائیل کے خلاف استعمال ہونے کے بعد صرف اور صرف شامی قوم کی ’سرکشی‘ کو کچلنے کے علاوہ کبھی اور کہیں استعمال نہ ہوا تھا، دوبارہ اسی شامی قوم پر آزمایا گیا۔ بیٹے نے باپ کی تلخ یاد عوام کو دلا دی بلکہ اب تو قوم مظالم کے اُس سلسلے کی روح فرسائی کو ہلکا سمجھ رہی ہے جو باپ نے قائم کیا تھا۔ کیونکہ بیٹے نے اُس سے دس قدم آگے بڑھ کر قوم کو لاشوں، ہجرتوں اور در و دیوار کی مسماری و تباہی کا تحفہ دیاہے۔

اخوان المسلمون مصر کے مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع کا کہنا ہے کہ شامی قوم پر فضائی اور زمینی ہرقسم کے حملے کیے جارہے ہیں۔ ٹینکوں، توپوں اور راکٹوں سے انسانوں کو تباہ کیا جارہا ہے۔گھر مسمار کیے جارہے ہیں، عزتیں پامال کی جارہی ہیں اور جایدادیں لُوٹی جارہی ہیں۔ اس سے خوف ناک اور دل سوز منظر یہ ہے کہ بچوں کو ذبح کیا جاتا ہے۔ انسانوں کو زندہ دفن کردیا جاتاہے، جو گرفتار ہوجائیں اُن کو بشار کی تصویر کو سجدہ کرنے اور کلمۂ کفر کہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اگر وہ انکار کریں تو بکروں کی طرح انھیں ذبح کردیا جاتا ہے۔ شہادتوں کی تعداد کئی ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ (اخوان آن لائن)

واشنگٹن پوسٹ کے ایک کالم میں کہا گیا ہے کہ حلب جو دنیا کا قدیم ترین شہر ہے آگ کے شعلوں میں جل رہا ہے۔ بشار کی افواج دشمن کے شہریوں کو نہیں بلکہ شامی قوم کوقتل کر رہی ہیں جو حیرت انگیز ہے۔ تجزیے میں کہا گیا ہے کہ بشارالاسد جس وحشیانہ طریقے سے شام کے شہروں میں تباہی و بربادی عام کر رہاہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کو دوبارہ اس حالت میں لایا نہیں جاسکے گا۔

الشرق الاوسط کے مدیراعلیٰ طارق الحمید نے لکھاہے کہ ’’شام میں قتل و غارت اور تباہی و وخونریزی کا سلسلہ بد سے بدترین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ عالمی طاقتیں اپنے نقطۂ نظر میں متفق نہیں ہیں، بلکہ یہ کہاجانا چاہیے کہ سب کچھ واضح ہے کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔بشارانتظامیہ قتل کے راستے پر چل رہی ہے، جب کہ قوم اُس کے خلاف تبدیلی کے لیے بپھری ہوئی ہے، اور ادھر بشارانتظامیہ روس، ایران اور حزب اللہ سے مدد لے رہی ہے مگر کس کے لیے؟ بے یارومددگار اور تنہا شامی قوم کو تباہ کرنے کے لیے۔ (۹؍اکتوبر۲۰۱۲ئ)

الجزیرہ نیٹ کے ایک تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ کسی کو توقع نہیں تھی کہ شام کی صورت حال اس  قدر خراب ہوجائے گی اور اسلحہ ہی فیصلہ کن قوت بن جائے گا۔ ہرآواز جنگ کی آواز میں دب جائے گی،حُریت و حقوق کے علَم بردارِ سیاست اسلحہ اُٹھانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ عوامی مزاحمت کے عسکریت پسندی کی طرف جانے کی وجوہات یہ ہیںکہ جب مظاہرین اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹتے دکھائی نہ دیے تو حکومت نے انھیں اسلحے کے زور سے کچلنے کی کوشش کی۔ اسلحے کا یہ استعمال یقینی بات ہے کہ فوج اور پولیس ہی کو کرنا تھا، لہٰذا فوج اور پولیس کی کثیرتعداد نے اپنی ہی قوم اور اپنے ہی خاندانوں پر اسلحہ چلانے سے انکار کر دیا اور اس جنگ میں فوج کی شرکت پر اعتراض کیا۔ جب یہ لوگ حکومت کی رخصتی کے واحد نکتے پر متفق ہوگئے تو عوام اور قوم کے ساتھ مل گئے۔ ادھر ’آزاد لشکر‘ یعنی عوامی لشکر اپنے بڑے بڑے گروپ تشکیل دے کر مظاہروں کااہتمام کر رہے تھے جن کے ساتھ وہ لوگ ملتے گئے جنھیں اپنے گھربار اور اہل و عیال کے دفاع کی فکر تھی۔ اس کے ساتھ تیسری قوت اُن افراد کی شامل ہوگئی جو تشدد پسند مذہبی انقلابی رجحان رکھتے ہیں۔ان لوگوں کی شمولیت کے باعث حکومت کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ چوتھی طاقت اس تحریک میں   اُن لوگوں کی شامل ہوگئی جو جیلوں سے رہا ہوئے تھے یا جو جرائم پیشہ عناصر تھے۔ ان قیدیوں کو حکومت نے تحریکِ بیداری کے آغاز میں رہا کیا تھا۔ اس عوامی قوت میں بعض کمزور دل اور    مُردہ ضمیر لوگ جب شریک ہوگئے تو لُوٹ مار اور چوری، ڈکیتی کی وارداتوں کا سلسلہ بھی بڑھ گیا۔

اس میں شک نہیں کہ بشارحکومت نے تحریکِ مزاحمت کا رُخ خود مسلح جدوجہد کی طرف موڑا ہے مگر اُسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ ’جیش حر‘ (آزاد لشکر) اُس کے گلے کی پھانس بن جائے گا اور انتظامیہ کی تمام تر قوتوں کو بھی اس معرکے میں جھونک کر کامیابی کی اُمید دکھائی نہیں دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بشاری قوتیں شہریوںکو اجتماعی تشدد و تعذیب کے ذریعے انھیں آزاد لشکر سے الگ تھلگ رکھنے کی کوشش کرر ہی ہیں۔ (الجزیرہ نیٹ، ۱۰؍اکتوبر ۲۰۱۲ئ)

الشرق الاوسط کی ایک رپورٹ سوریا: ’جمہوریۃ الخوف‘ (شام: خوف کی ریاست) میں حافظ الاسد خاندان کے حکومتی تسلط کے جاری رہنے کی ایک وجہ اُس کے جاسوسی نظام کو بتایا گیاہے۔ رپورٹ کے مطابق بشارانتظامیہ میں شامل افراد نے پورے ملک میں مخبری اور جاسوسی کا ایسا نظام قائم کر رکھا تھا کہ ہرشخص اپنے ساتھ رہنے اور کام کرنے والے آدمی پر اعتبار نہیں کرتاتھا۔ وہ یہی سمجھتا تھا کہ شاید یہ حکومتی ایجنسیوں کے لیے مخبری کرتا ہو۔ اس مقصد کے لیے بے روزگار نوجوانوں اور معاشی طور پر زبوں حال خاندانوں کے افراد استعما ل ہوتے رہے۔ رپورٹ میں کئی فرضی ناموں سے اُن افراد کی گواہیاں پیش کی گئی ہیں جو اس نیٹ ورک کے لیے کام کرتے رہے۔

صرف حکومتی ایجنسیاں ہی یہ کام نہیں کرتی رہیں بلکہ بعث پارٹی کا ہرکارکن یہ دھندہ کرتا رہا اور معصوم و مجبور لوگوں کو اس مقصد کے لیے استعمال کرتا رہا۔ مخبری کا یہ نظام اس قدر وسیع تھا کہ   یہ جملہ زبان زدعام عوام تھا کہ ’’احتیاط سے بات کرو، دیواروں کے بھی کان ہیں‘‘۔

بتایا گیا کہ بشارالاسد کا بھائی جنرل ماہر الاسد فوج کے اندر بہت زیادہ اثر رکھتا ہے۔ مخبرین کا ایک گروہ ا س کی حرکات و سکنات نوٹ کرنے کے لیے بھی کام کرتاہے کہ کہیں وہ    ’الدنیا چینل‘ تو نہیں دیکھتا جس میں حکومتی طرزِعمل پر تنقید کی جاتی ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ کہیں ماہر الاسد عوام کے ساتھ نہ جاملے۔ جب صورت حال اس قدر بے اعتمادی اور خودغرضی کی حدوں کو چھونے لگے تو وہاں عوام کے خون، عزت و آبرو اورحقوق کی کیا وقعت ہوسکتی ہے۔ عوام تو عوامی مقامات، ہوٹلوں، قہوہ خانوں، گلیوں، بازاروں میں بات کرتے ہوئے بھی سوبار سوچتے ہیں کہ جس آدمی سے بات کی جارہی ہے یہ بعثی جاسوس تو نہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تحریکِ مزاحمت کے مسلح رُخ اختیار کرجانے میں اس نظامِ جاسوسی کا خاصا دخل ہے۔ جاسوسی نظام نے ہراُس شہری کو مشکوک سمجھا جو واقعتا حکومت کے خلاف سرگرم نہیں تھا مگر انتظامیہ کے بے جا تشدد اور اذیت رسانی نے اسے ’جیشِ حُر‘ کے ساتھ جاملنے پر مجبور کیا۔ (الشرق الاوسط، ۲۸ستمبر۲۰۱۲ئ)

ہفت روزہ المجتمع نے شام کی اس داخلی جنگ کے متاثرین میں سے چند خواتین کے تاثرات اور اُن کی الَم ناک روداد شائع کی ہے۔ یہ خواتین شام کے ہمسایہ ممالک اُردن، ترکی، لبنان، الجزائر اور عراق کی سرحدوں پر موجود مہاجر کیمپوں میں ناقابلِ بیان حالات میں سانس لے رہی ہیں۔ مختلف اندازوں کے مطابق شام کی اس اندرونی جنگ کے باعث اپنے گھربار چھوڑ کر محض اپنی اور اپنے بچوں کی جان بچانے کی خاطر ۱۰ لاکھ سے زائد لوگ ہجرت کرچکے ہیں۔ یقینا ہمسایہ ممالک کا اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین کو قبول کرنے اور انھیں سنبھالنے کا مسئلہ معمولی نہیں ہے۔  پھر ان کیمپوں کے اندر مہاجرین کو ضروریات فراہم کرنے کا کام بھی آسان نہیں۔

اُردن کے صحرا میں زعتری، ذنبیہ اور رمثا کیمپوں میں موجود مہاجر خواتین سے المجتمع کے نمایندے نے صورت حال کے بارے میں پوچھا تو بتایا گیا کہ بنیادی انسانی ضروریات بھی یہاں فراہم نہیں ہورہی ہیں۔ ایک خاتون نے بتایا کہ میں اپنے شیرخوار بچے کے لیے تین دن سے دودھ کے ایک پیکٹ کے لیے گھوم رہی ہوں مگر مجھے وہ دستیاب نہیں ہوسکا۔خواتین سے خوف و ہراس کی اس صورت حال میں ان سرحدوں کی طرف فرار کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ کوئی معمول کا سفر نہیں تھا۔ ہم پیدل چل کر ۱۰ر وز کے بعد یہاں پہنچی ہیں۔ خواتین کے یہ چھوٹے چھوٹے گروپ اپنی بچیوں بچوں کے ساتھ شام کے بڑے شہروں حمص، حماۃ،درعا، حلب وغیرہ سے جان بچاکر بھاگے اور اب ہمسایہ مالک کی سرحدوں پر یا اپنے ہی ملک کے اندر موجود کیمپوں میں بے بسی کے لمحات گزار رہی ہیں۔ سفر کی صعوبتوں کے ساتھ اب کیمپوں کے اندر ناکافی ضروریات نے ان پناہ گزینوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ وہ خواتین جو ہمسایہ ممالک میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئیں اُن کے مسائل اور مصائب کو کسی حد تک کم کرنے کی سماجی کوششیں جارہی ہیں۔

ترکی اس اعتبار سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے کہ اُس کی سرحدی آبادی کے شام کے گرد قبائل کے ساتھ رشتہ داری کے مراسم ہیں، اور بہت بڑی تعداد اس سرحد پر موجود ہے۔ ترکی اپنی کوشش کر رہا ہے کہ مہاجرین کے مسائل بھی حل کیے جائیں اور جلد سے جلد شامی صورت حال معمول پر لائی جائے، مگر بدقسمتی سے ترکی کو اس اندرونی جنگ میں گھسیٹنے کی پوری کوشش ہورہی ہے، بلکہ اسے ترکی کے خلاف جنگ کا بہانہ بناکر بشارانتظامیہ اپنا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش میں ہے۔ شام کو اسلحہ و بارود سپلائی کرنے والے طیارے کو جب ترکی نے اپنی سرحدوں میں داخل ہونے پراُتار لیا تومعلوم ہوا کہ روس کی طرف سے یہ اسلحہ بشارانتظامیہ کی مدد اور شامی قوم کی تباہی کے لیے جارہا تھا۔

حکومت کی تبدیلی کے لیے شروع ہونے والی تحریک عوامی مظاہروں سے جنگی کارروائیوں کی طرف منتقل ہوگئی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق بشارانتظامیہ روس و ایران سے کمک لے رہے ہیں، اور عوامی مزاحمت عسکریت کے ذریعے اُس کا جواب دے رہی ہے۔ شام کے دُوردراز علاقوں میں بسنے والے کاشت کار بھی اس تحریک میں شامل ہوکر اپنا ’فرض‘ ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بشارانتظامیہ ملک کے بڑے شہروں کے بیش تر حصوں پر اپنی گرفت قائم رکھنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ حمص، حماۃ، حل، درعا، وہ شہر ہیں جہاں بشار کا زور ٹوٹ چکا ہے مگر حالات مکمل طور پر ’جیش حُر‘ کے قابو میں بھی نہیں آسکے۔

الشرق الاوسط کے تجزیہ نگار عبدالرحمن الراشد کے مطابق: ’’دارالحکومت دمشق کے بجاے حلب کا فتح ہونا عوامی مزاحمت کی کامیابی اور بشار کی ناکامی کا حتمی اعلان ہوگا۔ حلب انسانی تاریخ کا قدیم ترین شہر ہے۔ اس کی عمر ۱۰ہزار سال کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ دنیا کی ہرشہنشاہیت کا یہاں سے گزر ہوا اور اس شہر کی خاطر اُس نے جنگ لڑی۔ دنیا کی آخری سلطنت خلافت ِ عثمانیہ نے آستانہ و قاہرہ کے بعد اسے اپنا تیسرا دارالخلافہ بنایا۔یہی وجہ ہے کہ دونوں متحارب گروپوں کا زیادہ زور حلب کے اندر صَرف ہورہا ہے۔

دمشق کی صورت حال حلب کی نسبت مختلف ہے۔ یہ دارالحکومت ہونے کی بنا پر ہرطرح کے دفاعی حصار میں محفوظ ہے۔ تاہم کارروائیاں تو یہاں بھی جاری ہیں مگر یہ وقفے وقفے اور بڑی تکنیکی منصوبہ بندی کے بعد ممکن ہوتی ہیں۔ یہاں زیادہ تر کارروائیاں گوریلا ہوتی ہیں۔ ان کارروائیوں پر قابو پانا انتظامیہ کے لیے نسبتاً آسان ہے۔ دمشق کے مشکل ہدف ہونے کی بنا پر  جیش حُرکا زیادہ ارتکاز حلب پر ہے۔ اگست میں حلب عوامی مزاحمت کے کنٹرول میں آنے ہی والا تھا کہ روس اور ایران کی بہت بڑی مددد نے اسے ناممکن بنادیا۔ ۱۹۵۳ء کے عسکری انتفاضہ میں بھی جب سقوطِ حلب عمل میں آیا تو پھر جلد ہی دیگر شہر جبل الدروز اور حمص بھی انتظامیہ گرفت سے آزاد ہوگئے۔ حلب کا سقوط خونریز معرکے، مزاحمت کاروں کی مردانہ وار جرأت مندی اور زخمی اہلِ شہر کے صبر کے ساتھ ہی ممکن ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ انتظامیہ فوراً بے بس ہوجائے تو یہ حلب کے سقوط کے ذریعے ہی ممکن ہے، کیونکہ یہ شام کا سب سے بڑا شہر ہے اوراس کے سقوط کے بعد ہی روس اور ایران شام کے قصاب، بشارالاسد کی پشت پناہی سے ہاتھ روکنے پر مجبور ہوں گے‘‘۔ (الشرق الاوسط ،۲۹ستمبر ۲۰۱۲ئ)

ان حالات میں اخوان المسلمون مصر کے مرشدعام ڈاکٹر محمد بدیع نے شامی عوام کی مزاحمت کو عزیمت و استقامت اور قربانی کا معرکہ کہا ہے۔ عالمِ اسلام سے شامی قوم کی مادی و اخلاقی مدد کی اپیل کی ہے۔ انھوں نے کہا: اگرچہ حالات بہت دگرگوں ہیں، سازشیں خوف ناک اور پے درپے ہیں، اور قربانی و شہادت کی مثالیں دلدوز اور اَلم ناک ہیں لیکن غلبہ قانونِ الٰہی کو ہی حاصل ہے۔ گھڑی کی سوئیوں کو اُلٹا نہیں چلایا جاسکتا۔ بے گناہ اور پاکیزہ خون رائیگاں نہیں جائے گا، بلکہ یہ  عن قریب نصیب ہونے والی فتح کی بہت بڑی قیمت ہے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ پوری شامی قوم خالص اور مخلص ہوکر اللہ کی طرف رجوع کرچکی ہے اور رنجیدہ دلوں کی گہرائیوں سے اُٹھنے والی یہ سچی آواز ہم سن رہے ہیں: یاَاللّٰہ مَا لَنَا غَیْرَکَ یَا اللّٰہ (اللہ تیرے سوا ہمارا کوئی نہیں، اے اللہ!)۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ سچی آہ و زاری اللہ کی رحمت، تائید اور نصرت کے حصول میں کامیاب ہوکر رہے گی۔

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں فرمایا ہے:’’اجازت دے دی گئی اُن لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیونکہ وہ مظلوم ہیں، اور اللہ یقینا ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے: ’’ہمارارب اللہ ہے‘‘۔ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجا اور معبد اور مسجدیں، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے، سب مسمار کرڈالی جائیں۔ اللہ ضرور اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو اُس کی مدد کریں گے۔ اللہ بڑا طاقت ور اور زبردست ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیںگے، نیکی کا حکم دیںگے اور بُرائی سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔ (الحج ۲۲:۳۹-۴۱)