جنوری ۲۰۱۵

فہرست مضامین

اطاعت ِرسولؐ: صحت ِایمان کی اولین شرط

ارشاد الرحمن | جنوری ۲۰۱۵ | اسوہ حسنہ

Responsive image Responsive image

اللہ تعالیٰ نے اتباع و اطاعت ِرسولؐ کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے:وَمَا اٰتٰـکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْہُ ق وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا (الحشر۵۹:۷)’’جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جائو‘‘۔ قرآنِ مجید نے متعدد مقامات پر رسولؐ اللہ کے امر و نہی کے اتباع کو نہایت مؤکد انداز میں بیان کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے رسول ؐ کی زبانی ہی یہ اعلان کرایا ہے: وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ ج وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖط (الانعام۶:۱۵۳) ’’نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا     تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹا کر تمھیں پراگندا کر دیں گے‘‘۔

اس آیت میں رسولؐ کے متعین کردہ راستے کو چھو ڑکر دوسرے راستوں پر چلنے کا انجام یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ راستے تمھیں رسولؐ کے راستے سے دور لے جائیں گے۔ اسی انجام کو دوسرے مقام پر فتنے اور عذابِ الیم کے نام سے یوں بیان فرمایا: فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِہٖٓ اَنْ تُصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(النور۲۴:۶۳) ’’رسولؐ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ کسی فتنے میں گرفتار نہ ہو جائیں یا ان پر درد ناک عذاب نہ آجائے‘‘۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسولؐ اللہ کو یہ فرماتے سنا کہ: مَا نَہَیْتُکُمْ عَنْہُ فَاجْتَنِبُوْہُ، وَمَا اَمَرْتُکُمْ بِہٖ فَاْتُوْا مِنْہُ مَا اسْتَطَعْتُمْ (بخاری و مسلم) ’’میں تمھیں جس چیز سے منع کروں اس سے دور رہو، اور جس چیز کا حکم دوں، اپنی استطاعت کے مطابق اس پر عمل کی کوشش کرو‘‘۔

اتباعِ رسولؐ کا حقیقی معیار

ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنے اعمال کو کتاب و سنت کی روشنی میں انجام دے، اپنی خواہشات کے پیچھے نہ چلے، بلکہ جو طریقہ و دین رسولؐ اللہ نے بیان فرمایا ہے اس کا اتباع کرے۔ اللہ کا یہ فرمان ہے کہ: وَمَا کَانَ لِمُؤمِنٍ وَّلَا مُؤمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُـہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ، وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰــلًا مُّبِیْنًاo(احزاب۳۳:۳۶)’’کسی مومن مرداور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ یقیناصریح گمراہی میں پڑگیا‘‘۔

 دوسری جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: فَـلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُونَ حَتّٰی یُحَکِّمُوکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوا فِی اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوا تَسْلِیْمًا (النسائ۴:۶۵) ’’تمھارے رب کی قسم! یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو، اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سربسر تسلیم کریں‘‘۔

یہ رسولؐ اللہ سے محبت کا داعیہ ہوتا ہے کہ ایک مسلمان اطاعت ِرسولؐ کے مقابل مال و دولت، جسم و جان، اولاد و اخوان اور آبا و اَزواج کو ہیچ سمجھتا ہے اور ان سب چیزوں پر اللہ و رسولؐ کو مقدم ٹھیراتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے: لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُونَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ نَفْسِہِ وَوَلَدِہٖ وَ اَھْلِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ(بخاری)’’تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا، جب تک میں اسے اس کی جان، اس کی اولاد، اس کے اہل اور تمام لوگوں سے زیادہ اسے محبوب نہ ہو جائوں‘‘۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تین [صفات] جس شخص میں بھی ہوں، اس نے ایمان کی حلاوت کو پالیا: ۱- اللہ اور اس کا رسولؐ باقی ہرچیز سے زیادہ اسے محبوب ہو۔ ۲-وہ کسی آدمی سے محبت کرے تو یہ محض اللہ کی خاطر ہو۔ ۳-وہ جس طرح آگ میں ڈالا جانا ناپسند کرتا ہے، اسی طرح کفر میں پلٹ جانے کو ناپسند کرے، کیونکہ اللہ نے اس سے اسے نکال دیا ہے‘‘۔(بخاری، مسلم)

قرآن اور سنت دونوں سے ثابت ہے کہ اللہ و رسولؐ کے مقابل نہ تو کسی کا کوئی حکم چل سکتا ہے اور نہ کوئی اپنی خواہش نفس کی پیروی کر سکتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: لَا یُؤْمِنُ أحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبَعًا لِمَا جِئْتُ بِہٖ،    ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک اپنی خواہش نفس کو میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ کر دے‘‘۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و سنت کے احکام پر اِخلاص کے ساتھ عمل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کی اپنی خواہشات ہوتی ہیں، جس کو حدیث میں ھَوَا سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ہواے نفس شریعت محمدیؐ کی تابع ہو جائے تو انسان سچا مومن ہو جاتا ہے، اور اگر  شریعت محمدیؐ کے خلاف عمل پر انسان کو مجبور کرے تو ایسا شخص سچا صاحب ِ ایمان نہیں رہتا۔

ایمان کے معتبر ہونے کی شرط اتباعِ رسولؐ ہے۔ اتباعِ رسولؐ سے انکار، ایمان سے اِخراج کے مترادف ہے۔انقباضِ نفس کی کیفیت میں اتباع مقبول نہیں۔ دل کی خوشی اور رضامندی کے ساتھ یہ عمل مطلوب ہے۔اتباع و اطاعت رسولؐ کا حق تب ادا ہو گا، جب مومن اپنے نفس، اولاد اور دیگر تمام لوگوں کو اللہ و رسولؐ کے سامنے ہیچ سمجھے۔ اطاعت رسولؐ میں ذاتی منشا و مرضی نہیں     چل سکتی۔ رسولؐ اللہ کے قول کے مقابلے میں، ہر انسان کی بات ناقابلِ عمل ہے۔اللہ و رسولؐ کا اتباع و اطاعت ہی  محبت کا حقیقی معیار ہے۔ جو شخص اللہ و رسولؐ کی اطاعت سے انکار کرے، وہ بدترین گمراہی میں مبتلا ہوگا۔اتباعِ رسولؐ عبادات، معاملات، اخلاق، کردار غرض ہر عمل میں فرض ہے۔

اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ

حضرت عرباض بن ساریہؓ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسولؐ اللہ نے ہمیں ایسا وعظ فرمایا کہ اس وعظ سے دل کانپ اٹھے اور آنکھیں بہہ پڑیں۔ ہم نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! یہ وعظ تو ایسا تھا جیسے الوداعی نصیحت ہو، لہٰذا ہمیں اور نصیحت فرمائیے! 

آپؐ نے فرمایا: ’’میں تمھیں اللہ سے ڈرنے اور سمع و طاعت کی نصیحت کرتا ہوں خواہ تمھارے اوپر کوئی غلام امیر بنا دیا جائے۔ تم میں سے جو بھی (طویل عمر) زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا۔ لہٰذا تم میری اور خلفاے راشدین مہدیین کی سنت کو اپنے اوپر لازم کر لینا۔ اسے ڈاڑھوں سے پکڑے رکھنا اور نئی چیزوں سے بچنا کیونکہ ہر نئی چیز بدعت ہوتی ہے اور ہر بدعت گمراہی ہوتی ہے اور ہرگمراہی جہنم میں لے جاتی ہے‘‘۔ (ابوداؤد ، ترمذی، حدیث حسن صحیح )

رسولؐ اللہ کی نصیحت میں یہ خبر بھی ہے کہ آپؐ کے بعد بہت سے اختلافات رُونما ہوں گے۔ یہ اختلافات دین کے اصولوں میں بھی ہو سکتے ہیں اور فروعات میں بھی۔ اعمال و اقوال اور اعتقادات و نظریات میں بھی۔ اس صورت حال میں وہی لوگ راہ راست پر ہوں گے جو سنت رسولؐ اور سنت خلفاے راشدین پر عمل پیرا رہیں گے۔

اختلافات کے ہر موقعے پر سنت سے رہنمائی حاصل کرنا فرض ہے۔ سنت کی موجودگی میں بدعات کو رواج دینا رسولؐ کی حیثیت کو چیلنج کرنا ہے۔سنت کے مقابلے میں بدعت پر عمل اِتباعِ رسولؐ سے انکار ہے۔ جس عمل یا سوچ کی اصل دین و شریعت میں نہ ہو، وہ بدعت ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے بدعت کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ بدعت گمراہی ہونے کی بنا پر جہنم میں لے جانے کا باعث بنے گی۔ دنیاوی وسائل اور ذرائع پر بدعت کا اطلاق نہیں ہوتا بلکہ یہ اعتقادات، عبادات، عادات اور معاملات میں شریعت کو پیش نظر نہ رکھنے کا نام ہے۔

دین کے اندر ایجاد کیا جانے والا ہر ایسا عمل، جس کی شریعت میں کوئی اصل نہ ہو، مُحْدَثَۃ کہلاتا ہے اور ہر مُحْدَثۃ کو بدعۃ قرار دیا گیا ہے۔ بدعت دراصل ایسا عمل ہے، جو کوئی شخص اپنی عقل و فکر کی بنیاد پر اختراع کر کے اسے دین قرار دے۔ اس حدیث میں بدعت کی شناعت کو بڑے واضح الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے۔

رسولؐ اللہ نے کتاب اللہ کو ’بہترین بات‘ اور اپنی ہدایت و رہنمائی کو ’بہترین رہنمائی‘ بھی کہا ہے، جب کہ محدثہ [ہر نئے عمل] کو ’بدترین امر‘ کہا ہے۔ حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولؐ اللہ اپنے خطبے میں فرمایا کرتے تھے: اِنَّ خَیْرَ الْحَدِیثِ کِتَابُ اللّٰہِ وَ خَیْرَ الھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ وَ شَرَّ الْاُمُورِ مُحدَثَاتُھَا وَکُلَّ مُحْدَثَۃٍ بِدْعَۃٌ وَ کُلَّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ، ’’یقینا بہترین کلام، اللہ کی کتاب ہے اور بہترین ہدایت، محمد کی ہدایت ہے اور بدترین امور محدثات ہیں اور ہر محدثہ بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘۔

دین کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی و رسول جناب محمدؐ بن عبداللہ کے ذریعے تکمیل کو پہنچایا اور آسمان سے ترسیل ہدایت کا سلسلہ بند کر دیا۔ قرآن کے الفاظ میں اس بات کو یوں بیان کیا گیا ہے: اَلیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِی وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاط (المائدہ۵:۳) ’’آج میں نے تمھارے لیے تمھارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت  تم پر تمام کر دی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے‘‘۔  حضرت ابوالدرداؓ فرماتے ہیں:’’اللہ کی قسم! رسولؐ اللہ نے ہمیں ایسی صاف اور روشن شاہراہ پر چھوڑا ہے، جس کی رات کی تاریکی بھی دن کی مانند روشن اور واضح ہے‘‘۔ (ابن ماجہ)

 رسولؐ اللہ نے ان تمام احکامات کو من و عن امت تک پہنچا دیا، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کے ذمے لگائے گئے تھے کہ آپؐ انھیں امت تک پہنچا دیں۔ رسولؐ اللہ نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقعے پر کم و بیش ایک لاکھ ۲۴ہزار صحابہؓ سے یہ شہادت لی تھی کہ کیا میں نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا تو اس جم غفیر نے یک زبان و یک آواز ہو کر کہا کہ ہاں، آپؐ نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا۔

اس حقیقت کے بعد یہ بات قانونی اور دستوری حیثیت اختیار کر جاتی ہے کہ جس شخص کو بھی اس دین کو اپنانا ہے، وہ کسی پس و پیش اور ردّ و قدح کے بغیر اس کو حتمی و قطعی قانون سمجھتے ہوئے اپنی زندگی کے تمام شعبوں پر نافذ کرے۔ کسی جدی پشتی عالمِ دین، نسل در نسل مسندِ افتا پر فائز چلے آنے والے کسی خاندان، کسی سیّد زادے اور کسی بڑے سے بڑے مفسر قرآن اور شیخ الحدیث کے لیے یہ روا اور جائز نہیں کہ وہ دین کے کسی معاملے میں اپنی راے اور خواہشِ نفس سے کسی چیز کو دین قرار دے۔ کسی بھی مسئلے کی متعین کی گئی شرعی حیثیت اس وقت تک ہرگز قابل قبول اور لائقِ عمل قرار نہیں دی جا سکتی، جب تک اسے دین کے مسلمہ اصولوں پر جانچ اور پرکھ نہ لیا جائے۔

قرآن اور سنت دو ایسے پیمانے اور معیار ہیں، جن کے ذریعے ہر مسئلے کی دینی اور شرعی حیثیت کا تعین کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص ان دونوں چیزوں کو چھوڑ کر اپنی راے سے کسی چیز کو دین قرار دیتا ہے تو اللہ کے رسولؐ نے اسے باطل، ناقابلِ قبول اور مردود قرار دیا ہے۔

اُم المومنین ام عبداللہ حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسولؐ اللہ نے فرمایا: مَنْ اَحْدَثَ فِی اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ(بخاری، مسلم)،’’جس نے ہمارے اس (دین) میں کوئی نئی چیز پیدا کی، جو اس (دین) میں سے نہ ہو تو وہ مسترد کر دی جائے گی‘‘۔

ایک اور روایت میں ہے: مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَیْسَ عَلَیْہِ اَمْرُنَا فَہُوَ رَدٌّ (مسلم)، ’’جس نے کوئی ایسا کام کیا، جس پر ہمارا امر (حکم) نہیں تو وہ کام مردود ہے‘‘۔

جو شخص دین میں کوئی ایسا نیا عمل رائج کرتا ہے جو شرع کے مطابق نہ ہو تو اس کا گناہ اس شخص پر ہو گا اور اس کا یہ عمل اس کے منہ پر دے مارا جائے گا اور وہ وعید کا مستحق ٹھیرے گا۔ حضوؐر نے فرمایا: مَنْ اَحْدَثَ حَدَثًا اَوْ اٰوٰی مُحدِثًا فَعَلَیْہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ(بخاری)،’’جو شخص کوئی نیا عمل رواج دیتا ہے یا نیا عمل رائج کرنے والے کسی شخص کی پشت پناہی کرتا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہے‘‘۔

بدعت: مفھوم اور اِطلاق

حدیث میں اَحْدَثَ کا جو لفظ استعمال ہوا ہے، اس کے معنی ہیں کوئی نئی بات یا شے ایجاد کرنا۔ دین کے معاملے میں اس نئی ایجاد (اِحْدَاث) کا اطلاق چار طرح کے اعمال پر ہوتا ہے:

۱- اعتقادات:دین اسلام کی بنیادوں میں عقیدے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ عقیدے کے اجزا توحید و رسالت کے تصور کو اسلام نے اس قدر نکھار اور نتھار کر پیش کیا ہے کہ ان میں کوئی ابہام و اشکال نہیں رہا۔

عقیدہ میں اِحداث (بدعت) کی بھی ایک پوری تاریخ ہے، جس میں مسلمان دیگر مذاہب کے پیروکاروں اور ان کے فلسفوں سے متاثر نظر آتے ہیں۔ ان میں وحدت الوجود، وحدت الشہود، اتحاد و حلول، اولیا و صلحا کو یوں با اختیار سمجھنا گویا نظامِ کائنات انھی کامرہون منت ہو، رسولؐ اللہکو اللہ کے مقابلے میں بااختیار ثابت کرنا، اہلِ قبور کے بارے میں حاجت براری کا عقیدہ رکھنا___ یہ ایسے نظریات و عقائد ہیں، جو امت میں نیک جذبات کے لبادے میں در آئے ہیں لیکن قرآن و سنت میں ان عقائد و نظریات کے درست ہونے کی کوئی شہادت نہیں ملتی۔ یہ انسانی فکر کی جولانیوں کے کرشمے ہیں۔ دوسری طرف امت کے اندر کچھ ایسے گروہ پیدا ہوئے، جنھوں نے قصداً ایسے عقیدے ایجاد و اختیار کیے جو توحید و رسالت کے تصور سے صریح طور پر متصادم تھے جیسے قدریہ، جبریہ، مرجۂ، بہائیہ، اسماعیلیہ، قادیانیہ وغیرہ اور اسی طرح بے شمار فرقے ہیں۔ ان کے تصورات و عقائد دین کی مسلمہ تعلیمات سے متصادم ہیں۔ ان کی فکر و عقیدے میں بدعت کو بنیادی عنصر کی حیثیت حاصل ہے۔ دورِ حاضر میں عقیدۂ توحید کے حوالے سے جو بدعات رواج پا چکی ہیں، ان کے شمار کی حدود بہت وسیع ہو گئی ہیں۔ قرآن و حدیث میں عقیدۂ توحید و رسالت کے حوالے سے دی گئی رہنمائی ہی اس طرح کی اعتقادی آلایشوں سے ایک مسلمان کو محفوظ رکھ سکتی ہے۔

۲- عبادات: عبادات میں وہی طریقہ قابل قبول ہو گا جو دین میں بیان کیا گیا ہے، مثلاً فرض نمازوں کی تعداد پانچ ہے۔ کوئی شخص نماز کی رکعات کو بڑھا نہیں سکتا، کسی بھی ضرورت کے پیش نظر اس تعداد کو گھٹا نہیں سکتا۔ روزوں کی فرضیت ماہِ رمضان میں ہے۔ کوئی شخص اس فرضیت کو کسی اور ماہ میں منتقل نہیں کر سکتا، کوئی روزوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کر سکتا۔ نماز مکمل طور پر سنت کے مطابق ادا کرنا ہوگی۔ روزے مکمل طور پر سنت کے مطابق رکھنا ہوں گے۔ زکوٰۃ کی شرح متعین ہے۔ اس میں کمی بیشی نہیں کی جاسکتی اور نبی کریمؐ کی طرف سے متعین کردہ مخصوص مدّات میں ہی اسے صرف کیا جاسکتا ہے۔ حج کے مناسک بالکل اسی طرح ادا کرنا ہوں گے جس طرح رسولؐ اللہ نے بتائے اور سکھائے ہیں۔ ان میں رد و بدل اور کمی بیشی کا کسی شخص کو ہرگز کوئی اختیار نہیں اور نہ کسی ایسے شخص کے ان اعمال کو قبول کیا جائے گا جو ان میں کمی بیشی کر کے ادا کرے گا۔

۳-معاملات: معاملات کا دائرہ بہت وسیع ہے، لیکن اس میں بھی کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی طرف سے کوئی ایسا ضابطہ وضع کر کے دین کے طور پر رائج کر دے جس کا دین کے اصولوں سے کوئی جوڑ اور ربط نہ ہو۔ ہر دور کے اپنے مسائل ہوتے ہیں لیکن ان سب کا حل قرآن و سنت کو سامنے رکھ کر تلاش کیا جائے گا۔ اگر قرآن و سنت میں کوئی واضح رہنمائی موجود نہ ہو تو پھر دین کے مسلمہ اصولوں کو پیش نظر رکھ کر اس مسئلے پر اجتہاد کیا جائے گا۔ مجتہد وہ ہوسکتا ہے جو شرائط اجتہاد پر پورا اُترتا ہو اور جسے قرآن و سنت، فقہ اسلامی اور اجتہادی اصولوں پر عبور ہو۔ اس کے لیے بھی بہتر اور محتاط طریقہ یہی ہے کہ اجتہاد کی یہ کوشش انفرادی اور شخصی نہ ہو بلکہ اجتماعی اور جمہوری ہو۔ معاملات میں کوئی نیا طریقہ رائج کرنے کی مثال یہ ہوسکتی ہے کہ دین میں زنا کی سزا رجم یا کوڑے مارنا ہے لیکن کوئی شخص اس بدنی سزا کو مالی سزا میں بدل کر یہ کہے کہ اتنی رقم بطور سزا یا جرمانہ دے دو۔ کوئی شخص دوران عدت نکاح کو جائز قرار دے یا کوئی اس پر عمل کرے کیونکہ حدیث کے مطابق یہ جائز نہیں۔ عورت کو تین طلاق ہو جانے کے بعد کوئی شخص محض پہلے خاوند سے دوبارہ نکاح کرانے کی غرض سے کسی دوسرے شخص سے عورت کا نکاح عارضی طورپر کرانے کا فتویٰ دے یا کوئی اس پر عمل کرے۔ حدیث رسولؐ کے مطابق یہ بھی جائز نہیں۔ وراثت میں کوئی شخص ہروارث کے لیے شریعت کے مقرر کردہ حصوں کو بڑھائے یا کم کرے۔ تجارت میں نجش (نیلام کے لیے جھوٹی بولی) کو جائز سمجھے۔ زکوٰۃ کی شرح میں اضافے کا قائل ہو۔یہ تمام معاملات ایسے ہیں، جن کو قرآن و سنت نے متعین کر دیا ہے۔ اگر کوئی شخص یہاں اپنی ذاتی راے اور عمل کو دین قرار دینے کی کوشش کرے گا تو وہ دین قرار نہیں پا سکتا۔

۴- عادات: اعمال کی ایک قسم عادات ہیں۔ عادات میں ہر نئی چیز کو دین کے منافی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس میں بنیادی اصولوں کی پیروی لازمی ہوتی ہے جزئیات کی نہیں۔ اگر بنیادی اصولوں کو بھی ملحوظ نہ رکھا جائے اور ان کی پیروی نہ کی جائے تو یہ چیز دین کے منافی ہو گی اور اِحداث میں شامل ہو گی۔ مثال کے طور پر لباس میں بنیادی اصول یہ ہے کہ ستر پوش ہو، موٹا ہو، باریک نہ ہو، ڈھیلا ڈھالا ہو تنگ نہ ہو، کفار سے مشابہ نہ ہو۔اسی طرح لباس اگر عورت کا ہو تو مردوں سے مشابہ نہ ہو اور مردوں کا لباس عورتوں سے مشابہ نہ ہو۔اب اس میں جزئیات یہ ہیں کہ جیب ایک بھی ہو سکتی ہے، دو بھی اور تین بھی۔ کالر بھی ہوسکتا ہے، بٹن ایک دو یا زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ قمیص بھی ہو سکتا ہے اور کُرتہ بھی۔ اس طرح گھڑی، موبائل، کمپیوٹر، کھانے کی چیزیں اور اوقات وغیرہ۔ یہ سب چیزیں وسائل ہیں۔ ان میں بدعت والی کوئی بات نہیں۔ یہ مسلمان کے لیے بھی مفید ہیں اور غیر مسلموں کے لیے بھی، البتہ ان کے استعمال میں بنیادی اصولوں کو پیش نظر رکھنا ہو گا کہ، اسراف نہ ہو، غلط استعمال نہ ہو، وقت اور صلاحیت کا ضیاع نہ ہو، وغیرہ ۔

انسانیت پر احسانِ عظیم

بدعات دین کے لیے خطرہ ہوتی ہیں۔ یہ خطرہ کئی راستوں سے آسکتا ہے۔ کئی صورتوں اور کئی لبادوں میں آسکتا ہے۔ یہ دین کے اندر کوئی ایسا اضافہ کردینا بھی ہوسکتا ہے جو دین میں موجود نہ ہو۔ خاص طور پر اعتقادات، عبادات کے اندر کسی امر کا اضافہ کردینا۔ جس طرح دین میں کوئی اضافہ کردینا خطرناک ہے اسی طرح دین میں کوئی کمی کرڈالنا بھی اتنا ہی خطرناک ہے۔ دین کے قواعد اور بنیادوں اور اصل احکام میں سے کسی کو کالعدم قرار دینا بھی بدعت ہے۔ دین کی حقیقی اور اصلی صورت کو بگاڑ کر پیش کرنا بھی بدعت ہے۔ کسی چھوٹی چیز کو بڑا اور بڑی چیز کو چھوٹا کر کے پیش کرنا، دین کا چہرہ مسخ کرنے کے مترادف ہے۔ کسی ترجیحی امر کو مؤخر اور غیراہم بنادینا اور غیراہم کو اہمیت دینا بھی بدعت ہے۔ یونہی تو دین منتشر ہوتا ہے اور اس کے حقائق اُلٹ پلٹ جاتے ہیں۔

دین کے اندر کوئی اضافہ کرنا لوگوں کو تنگی، شدت اور حرج میں مبتلا کرنا ہے۔ اللہ کو یہ پسند نہیں ہے۔ اُس نے دین انسانوں کے لیے آسان اور قابلِ عمل بنایا ہے، مشکل اور ناقابلِ عمل نہیں بنایا۔ اللہ نے دینی احکام میں نہ کوئی شدت، سختی اور مشکل رکھی ہے اور نہ انسانی طاقت اور استعداد سے بڑھ کر کوئی تقاضے کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر فرمایا ہے: مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ (المائدہ ۵:۶) ’’اللہ تم پر زندگی کو تنگ نہیں کرنا چاہتا‘‘۔ سورئہ نساء میں فرمایا: ’’اللہ چاہتا ہے کہ تم پر اُن طریقوں کو واضح کرے اور انھی طریقوں پر تمھیں چلائے جن کی پیروی تم سے پہلے گزرے ہوئے صلحا کرتے تھے۔ وہ اپنی رحمت کے ساتھ تمھاری طرف متوجہ ہونے کا ارادہ رکھتا ہے، اور وہ علیم بھی ہے اور دانا بھی۔ ہاں، اللہ تو تم پر رحمت کے ساتھ توجہ کرنا چاہتا ہے مگر جو لوگ خود اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کر رہے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم راہِ راست سے ہٹ کر دُور نکل جائو۔ اللہ  تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے‘‘۔(النسائ۴: ۲۶-۲۸)

دین میں زیادتی اور اضافے کا نتیجہ سنت ِ رسولؐ کو پسِ پشت ڈالنے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ کسی دانا نے کیا خوب کہا ہے: میں نے جہاں بھی اسراف دیکھا، اس کے ساتھ کسی حق کو ضائع ہوتے دیکھا۔ ایک قول یہ بھی روایات میں آتا ہے: ’’لوگ جب بھی کوئی بدعت پیدا کرتے ہیں تو کسی سنت کو ضائع کربیٹھتے ہیں‘‘۔ (احمد)

دین کو اللہ تعالیٰ نے آسان بنا کر نازل کیا ہے۔ جو لوگ دین میں اضافوں کے درپے ہوتے ہیں وہ دین کو اس کی سادہ اور آسان طبیعت سے نکال کر لوگوں کو شدت اور مشقت میں مبتلا کرتے ہیں۔ ایسا کرنا لوگوں پر انھی ناروا اور بے جا و ناجائز پابندیوں، قدغنوں اور پھندوں کو کس دینا ہے، جنھیں توڑنے اور ہٹانے کے لیے محسنِ انسانیتؐ اور رحمۃ للعالمین ؐ تشریف لائے۔ آپؐ کی بعثت و نبوت کے اس مقصد کو قرآنِ مجید میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَ الْاِنْجِیْلِ ز یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا  بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ لا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ o (اعراف ۷:۱۵۷)  (پس آج یہ رحمت اُن لوگوں کا حصہ ہے) جو اس پیغمبرؐ، نبی اُمّی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کریں جس کا ذکر انھیں اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا ملتا ہے۔   وہ انھیں نیکی کا حکم دیتا ہے، بدی سے روکتا ہے، اُن کے لیے پاک چیزیں حلال اور ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے، اور ان پر سے وہ بوجھ اُتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائیں اور اس کی حمایت اور نصرت کریں اور اُس روشنی کی پیروی کریں جو اُس کے ساتھ نازل کی گئی ہے وہی فلاح پانے والے ہیں‘‘۔

ان بنیادی اور اصولی تعلیمات کو پیش نظر رکھ کر ہر مسلمان، مومن کو اپنے اعتقادات، عبادات، معاملات، عادات اور رسوم و رواج کا جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں وہ شارعِ حقیقی اللہ تعالیٰ کی شریعت میں کسی اضافے یا کمی کا مرتکب تو نہیں ہے۔ بعض معاشرتی روایات ورسومات یقینا ایسی ہوں گی جن کو شریعت سمجھ کر ادا نہیں کیا جاتا مگر ان کے ادا نہ کرنے والے کو بہرحال معاشرہ موردِالزام ٹھیراتا ہے جو ہرگز روا اور جائز نہیں۔ جو چیز دین نہیں ہے اُس کی ادایگی پر اصرار کرنا درست نہیں۔ درست تو یہ ہے کہ دین حقیقی پر عمل کے لیے ترغیب دی جائے۔ اُسی کے لیے اصرار کیا جائے اور  اُسی پر عمل میں مداومت اختیار کی جائے۔ دین و شریعت کے متعین اور مسنون طریقوں کو چھوڑ کر، ازخود وضع کیے ہوئے طور طریقوں پر عمل کیے جانا اور دوسروں کو ان پر عمل کے لیے مجبور کرنا اطاعت و اتباعِ رسولؐ کے منافی ہے۔ یہ کسی بھی صورت میں نہ مستحسن ہے اور نہ لائقِ عمل۔  اللہ و رسولؐ سے آگے بڑھنے کی کوئی کوشش قابلِ قبول نہیں ہوسکتی اور رسولِ اکرمؐ کے طریقۂ عمل کو چھوڑ کر کسی اور طریقے پر عمل انسان کو متقی اور بڑا عابد و زاہد نہیں بنا سکتا۔ بقول علامہ محمد اقبال    ؎

بمصطفٰیؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نہ رسیدی ، تمام بولہبی است