پروفیسر خورشید احمد


ہندو ذہن اور سیاست برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے کوئی نئی چیز نہیں۔ ہمارے تجربات ہزار سال پر پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستان کی وہ نئی نسل جسے آزادی کے بعد کی فضا میں پلنے کا موقع ملا ہے بدقسمتی سے اس تاریخ اور تجربے سے نابلد ہے۔ پاکستان کا قیام کسی وقتی مصلحت کے تحت نہیں ہوا بلکہ ساری جدوجہد مسلمانوں کے جداگانہ تہذیبی اور نظریاتی تشخص کی حفاظت کے لیے تھی۔ بھارت کی قیادت ایک بار پھر تقسیم کی لکیر کو مٹانے اور اکھنڈ بھارت کے لیے نئے نقشۂ راہ (road map) پر عمل پیرا ہونے کے لیے سرگرم ہے۔ واجپائی صاحب یا تو ملاقات سے گریزاں اور سارک کانفرنس میں آنے اور نہ آنے کے باب میں آنکھ مچولی کھیل رہے تھے‘ یا ایک دم ’’نرم سرحدوں‘ اور مشترک کرنسی‘‘ کی بات کرنے لگے ہیں۔ اسی سلسلے کی  ایک کڑی وہ ٹریک ٹو اقدامات ہیں جن کی تفصیل ایک سابق سفارت کار نیاز نائیک نے  ۱۸دسمبر ۲۰۰۳ء کے ڈان میں بیان کی ہے اور جس کا ہدف ۲۰۱۰ء تک پاکستان کو بھارت کے مشترک کرنسی کے جال میں پھنسانا اور بھارت کی معاشی اور مالیاتی گرفت میں دے دینا ہے۔ اب تک اس منصوبے پرایک طرح سے خاموشی سے کام ہو رہا تھا مگر اب اسے کھل کر بیان کیا جارہا ہے اوراس سلسلے میں بائیسویں میٹنگ ۱۸-۲۲ جنوری ۲۰۰۴ء کو متوقع ہے۔ نائیک صاحب کے الفاظ میں اس نقشۂ راہ کو سمجھ لیجیے:

دونوں فریق جلد ہی تین بڑے مسائل پر گفتگو کریں گے: دفاعی بجٹ میں کمی‘ جوہری پابندی پر دستخط اور دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات کا فروغ۔ ان بڑے مسائل پر ابتدائی تفہیم کشمیر کے مسئلے کے حل کی طرف لے جائے گی۔ ہم نے ہندستان پاکستان کے لیے ایک نئی مشترک کرنسی جس کا نام ’’روپا‘‘ ہو‘ ۲۰۱۰ء تک رائج کرنے کی تجویز پیش کی ہے‘ اور اس حوالے سے ہمیں دونوں حکومتوں سے حوصلہ افزا ردعمل ملے ہیں۔ یہ آزادانہ منتقل ہونے والی کرنسی ہوگی جس کا ورلڈ ٹریڈآرگنائزیشن کی حمایت سے اجرا کیا جائے گا۔ ہماری غیر رسمی ملاقات کا مقصد اشیا کی آزادانہ نقل و حمل میں سہولت ہے تاکہ یورپی یونین کے طرز پر ایک معاشی یونین بن سکے۔ ہم علاقائی اتحادکے لیے کام کر رہے ہیں اور دونوں فریقوں کو اس معاملے میں اپنی متعلقہ حکومتوں کی بڑھتی ہوئی حمایت حاصل ہے۔

واجپائی صاحب کے بیان کا پس منظر نیاز نائیک کے تفصیلی نقشۂ کار سے سامنے آجاتا ہے اور صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ اصل اہداف کیا ہیں۔ یہ خطرناک کھیل مختلف سطحوں پر کھیلا جا رہا ہے اور اس نقشے میں رنگ بھرنے کے لیے زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق سیکڑوں افراد متحرک ہوگئے ہیں اور روزانہ کسی نہ کسی طائفے یا وفد کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ وہ وقت آگیا ہے کہ تمام حقائق سے قوم کو آگاہ کیا جائے اور اسے بیدار کیا جائے کہ اس کے اپنے ملک کی قیادت کس طرح ملک کی آزادی‘ حاکمیت‘ معاشی خودمختاری اور تہذیبی تشخص کو دائو پر لگانے پر تلی ہوئی ہے۔ یورپ کی مثالیں بڑی خوش کن ہیں مگر کیا ہمارے تاریخی تجربات اور یورپ کے دوسری جنگ عظیم کے بعد کے حالات میں کوئی مناسبت ہے؟ اور کیا ہمارے علاقے کے زمینی حقائق جن میں بھارت کا حجم ‘ عزائم اور علاقائی ہی نہیں عالمی طاقت بننے اور بالادستی مسلط کرنے کے اہداف شامل ہیں‘ کسی ایسے وژن کے لیے کوئی جواز فراہم کرسکتے ہیں؟

علاقے کا کون سا ملک ہے جو بھارت سے زخم خوردہ نہیں۔ پاکستان تو پہلے ہی دن سے خصوصی ہدف ہے لیکن کیا بنگلہ دیش ۱۹۷۱ء کی ساری لفاظی کے علی الرغم آج بھارت کی چیرہ دستیوں پر چِلّا نہیں رہا؟ سری لنکا کی خانہ جنگی میں بھارت کا کیا کردار رہا ہے؟مالدیو کو کس طرح قابومیں کیا گیا ہے؟ نیپال اور بھوٹان ہندو اور بدھ ریاستیں ہونے کے باوجود کس طرح بھارت کی سازشوں اور دست درازیوں کا شکار ہیں؟ خود سارک آج تک کیوں پنپ نہیں سکی؟ کیا یورپ میں معاشی یونین جرمنی اور فرانس کے تنازعات کو طے کرنے اور ان دونوں بڑے ملکوں کے مسلسل قربانیاں دینے کے بغیر وجود میں آگئی؟ کیا یورو‘ معاشی اور مالیاتی پالیسیوں میں ہم آہنگی اور یورپ کے ایک مرکزی بنک اور مارسٹرک ٹریٹی کے تحت بجٹ سازی کی پالیسی پر ۲۰ سال عمل کرنے سے پہلے وجود میں آگیا تھا‘ اور کیا آج بھی یونین کے سارے ممالک نے یورو کو اختیار کرلیا ہے؟ غرض سیاسی‘ تہذیبی اور معاشی ہر پہلوسے یہ تمام ترک تازیاں نہ صرف غیر حقیقت پسندانہ ہیں بلکہ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری پر ضرب کاری ہیں اوربے وقت کی راگنی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ البتہ یہ سب ایک خطرناک کھیل کا ضرور پتا دیتی ہیں جس کو سمجھنا اور اس کا مقابلہ کرنا پاکستانی قوم کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے ایک تحقیقی ادارے Social Policy and Development Centre نے ۲۰دسمبر ۲۰۰۳ء کو اپنی ایک رپورٹ پاکستان کے تعلیمی حالات پر شائع کی ہے جس پر قومی سطح پر غور نہ کرنا ایک مجرمانہ غفلت ہوگا۔ یہ رپورٹ کسی سیاسی ادارے کی طرف سے نہیں آئی اور اس کا مقصد کسی ایک حکومت کا احتساب نہیں بلکہ اصل میں پوری قوم کا احتساب ہے اور اب تک کی ساری ہی حکومتوں کی ناکامی پر قومی گرفت کی ضرورت کی دعوت ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق ۱۹۷۲ء میں پاکستان میں ۲ کروڑ ۸۰ لاکھ افراد ناخواندہ تھے جن کی تعداد اب ۴ کروڑ ۶۰ لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ ۵ سے ۹ سال کی عمر کے بچوں کے اسکول میں داخلے کی صورت حال بھی اندوہناک ہے۔ ایسے ۵ کروڑ بچوں میں سے عملاً صرف ایک کروڑ ۳۰ لاکھ پرائمری کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان میں بھی اسکول چھوڑنے والوں کی شرح جو ۹۶-۱۹۹۵ء میں ۴۰ فی صد تھی وہ ۱۹۹۹ئ-۲۰۰۰ء میں بڑھ کر ۵۴ فی صد ہوگئی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک سے مقابلے کا تو کیا سوال اس وقت عالم یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں بھی پاکستان ناخواندگی اور اسکول میں داخلوں کے اعتبار سے سب سے پیچھے ہے۔ بنگلہ دیش‘ سری لنکا اور نیپال بھی ہم سے آگے ہیں۔ اسی طرح ہم دنیا کے ان ۱۲ ممالک میں شامل ہیں جو اپنی قومی آمدنی کا ۲ فی صد سے بھی  کم تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں۔ پاکستان میں گذشتہ ۵۰ سال کا اوسط ۸.۱ فی صد ہے۔

اس کے ساتھ دوسرا بڑا مسئلہ تعلیم کے نظام میں یکسانیت کی کمی ہے جس سے قوم طبقوں میں بٹ رہی ہے اور بالکل مختلف ذہنی رویے وجود میں آرہے ہیں۔ اس وقت نظامِ تعلیم‘ اپنے میں مگن تین منطقوںمیںتقسیم ہوگیا ہے۔ ایک طرف انگریزی میڈیم اسکول ہیں جو بالکل دوسرا ذہن پیدا کر رہے ہیں اور دوسری طرف اُردو میڈیم اسکول ہیں جن کی تعلیمی حالت بھی دگرگوں ہے اور ان کا ذہنی اُفق بھی بالکل مختلف ہے۔ تیسرا طبقہ دینی تعلیمی اداروں کا ہے جو ان دونوں سے مختلف ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق انگریزی میڈیم کے طلبہ کا دو تہائی بھارت سے دوستی‘ آزاد پریس‘ عورتوں کی مساوات‘جمہوریت اور کشمیر کے مسئلے پر بھی صرف پرامن ذرائع کا قائل ہے‘ جب کہ ایک تہائی یا اس سے بھی کم جہاد کشمیر اور شریعت کے نفاذ کے حق میں ہے۔ اس کے برعکس اُردو میڈیم اور دینی مدارس کے طلبہ کی عظیم اکثریت شریعت کے نفاذ اور جہاد کشمیر کے حق میں ہے۔ رپورٹ کے مرتبین یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ:

ہم ملک میں ایک سے زیادہ پاکستان تخلیق کر رہے ہیں۔ یہ طلبہ زندگی کے بارے میں متضاد نظریے رکھتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں ملک غیرمستحکم ہونے سے دوچار ہے۔ (ڈان ‘ ۲۱ دسمبر ۲۰۰۳ئ)

یہ رپورٹ ہمارے علم میں کوئی اضافہ نہیں کرتی لیکن جس طبقے کی طرف سے یہ آئی ہے‘ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ملک کی سیکولر لیڈرشپ بھی حالات پر پریشان ہے۔بنیادی مسائل دو ہی ہیں: ایک‘ تعلیم پر توجہ‘ وسائل اور مؤثر قومی جدوجہد کی کمی اور دوسرے‘ نظریاتی‘ اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے تعلیم کا معاشرے اور قومی مقاصد سے متصادم ہونا۔ وزیراعظم ظفراللہ جمالی صاحب نے وزارتِ عظمیٰ سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں ایک ہی مثبت بات کہی تھی کہ تعلیم کو ملک کی شناخت سے ہم آہنگ کرنا اور ملک میں ایک نصاب کی ترویج۔ لیکن عملاً ابھی تک اس کی طرف کوئی پیش رفت نہیںہوسکی کیونکہ استعماریمفادات کی اسیراین جی اوز نے اس کی مخالفت شروع کر دی۔

آج کمیت (quantity) اور کیفیت (quality) دونوں اعتبار سے تعلیم کی حالت  زارو زبوں ہے۔ یہ قوموں کی ترقی نہیں تنزل اور تباہی کا راستہ ہے۔ قوم اور پارلیمنٹ کو تعلیم کے مسئلے کو اولیت دینی چاہیے اور کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے اصلاحِ احوال کی فوری فکر کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں اسلامی جمعیت طلبہ تمام طلبہ تنظیموں اور اساتذہ کے تعاون سے جو کوشش کر رہی ہے وہ بہت لائقِ تحسین اور وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ لیکن یہ کام تمام دینی اور سیاسی جماعتوں اور سب سے بڑھ کر حکومت اور پارلیمنٹ کے کرنے کا ہے۔ اور ترجیحی بنیادوں پر کرنے کا ہے تاکہ ہم اپنی نئی نسلوں کو تباہی سے بچا سکیں اور پاکستان عالمی برادری میں اپنا صحیح مقام حاصل کر سکے۔

کہا جاتا ہے کہ یہ زندگی اور یہ دنیا فرق و امتیاز کی جگہ ہے اور جب انسان‘ عالمِ زیست کی حدوں سے گزر جاتا ہے توموت سب کو برابر کر دیتی ہے--- بے بسی کہ دوسروںکے کاندھوں پر انحصار‘ لباسِ افتخارسب رخصت اور دو سادہ کپڑوں میں امیروغریب سب کا آخری سفر‘ اور محلات اور جھونپڑے سب ختم‘ دو گز زمین اور منوں مٹی تلے بسیرا سب کا مقدر۔ بات سچی ہے لیکن ایک پہلو ایسا بھی ہے جس میں فرق و امتیاز باقی رہتا ہے اور اس کا بھرپور اظہار بھی ہوتاہے۔ اور وہ یہ کہ دوسرے اس موت کو کس طرح دیکھتے ہیں‘ اس غم کو کس طرح محسوس کرتے ہیں اور جنازے کے آئینے میں رخصت ہونے والے کی تصویر کیا نقش چھوڑتی ہے۔

شیخ یوسف القرضاوی نے بڑی خوب صورت بات کہی تھی کہ کچھ جنازے استصواب کی حیثیت رکھتے ہیں کہ خلقِ خدا اپنے خدا کے سامنے جانے والے کے بارے میں کیا شہادت پیش کرتی ہے۔ کراچی نے جو منظر ۱۲دسمبر ۲۰۰۳ء کو مولانا شاہ احمد نورانی کی نمازِ جنازہ میں دیکھا‘ وہ ایک عوامی استصواب سے کم نہ تھا۔ شاید قائداعظمؒ اور مولانا شبیراحمدعثمانی  ؒ کے جنازے کے بعد اتنا بڑا صلوٰۃِ جنازہ کا نظارہ کراچی کی زمین پر نہیں دیکھا گیا۔ اس میں جوان اور بوڑھے‘ عالم اور عامی‘ امیر اور غریب‘ خادم اور مخدوم اور سب سے بڑھ کر ہر مسلک اور ہر مذہبی اور سیاسی رجحان سے وابستہ افراد کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کو دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ مرحوم کی مقبولیت اور  خلقِ خدا کی ان سے محبت اور عقیدت کا منہ بولتا ثبوت‘ ان کی خدمات کا اعتراف اور ان کے رتبے اور مقام کا اظہار تھا۔ سچ ہے     ؎

جس دھج سے کوئی مقتل میںگیا وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے‘ اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم متحدہ مجلسِ عمل کے صدر‘ جمعیت علما ے پاکستان کے قائد‘ ورلڈ اسلامک مشن کے سربراہ‘ ایک ممتاز عالمِ دین اور شہرہ آفاق مبلغ اور داعی تھے۔ سینیٹ آف پاکستان میں متحدہ حزب اختلاف کے قائد اور عملاً ایوان میں لیڈر آف دی اپوزیشن کا کردار ادا کررہے تھے۔ ۱۰ دسمبر کو سینیٹ کے اجلاس اور متحدہ حزبِ اختلاف کی پریس کانفرنس میں شرکت کی۔ ہنستے بولتے رخصت ہوئے کہ ۱۱ دسمبر ۲۰۰۳ء کو ۱۲ بجے دن ایک اور پریس کانفرنس میں شرکت کرنی تھی۔ کسے خبر تھی کہ اس وقت جب انھیں اس پریس کانفرنس میں شرکت کے لیے سینیٹ آنا تھا فرشتۂ رحمت رفیقِ اعلیٰ سے ملاقات کا پروانہ لے کر آجائے گا اور ایک ابدی سفرکی طرف ان کو لے جائے گا۔ دل کا دورہ پڑا اور ہسپتال پہنچتے پہنچتے وہ اپنے مالک سے جاملے--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!

مجھے حضرت شاہ احمد نورانی ؒسے ملنے کا پہلا موقع غالباً۵۳-۱۹۵۲ء میں نصیب ہوا جب ان کے برادرِ نسبتی اور میرے محترم اور مشفق بزرگ (جو مجھے چھوٹے بھائی کا درجہ دیتے تھے) ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری کی معیت میں ان کے والد بزرگوار حضرت مولانا عبدالعلیم صدیقی ؒ سے ملنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ میرا طالب علمی کا دور تھا۔ وائس آف اسلام جمعیت الفلاح کا انگریزی مجلہ تھا اور ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری اس کے مدیر تھے‘ کمالِ شفقت سے انھوں نے وجودِ باری تعالیٰ پر میرا مضمون مجلے میں شائع کیا تھا۔ اس مجلے کے ذریعے مجھے برادر محترم فضل الرحمن انصاری سے قرب حاصل کرنے کا موقع ملا۔ انھی کے توسط سے سنگاپور سے شائع ہونے والے مجلہ Al-Islam سے واقفیت ہوئی جو حضرت مولانا عبدالعلیم صدیقی ؒ کی سرپرستی میں نکلتا تھا اور شاید اس دور میں انگریزی میں دعوتِ اسلامی کا بہترین ترجمان تھا ۔ اسی مجلے سے عظیم مبلغ حضرت مولانا عبدالعلیم صاحب کی تحریروں اور سرگرمیوں سے واقفیت ہوئی تھی اور ملنے کا شوق تھا۔ پس یہ پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ مولانا عبدالعلیم صدیقی کا انتقال غالباً ۱۹۵۴ء میں ہوا اور پھر ان کے مشن کو ڈاکٹر فضل الرحمن انصاری اور مولانا شاہ احمد نورانی نے اپنے اپنے انداز میں جاری رکھا۔

انگلستان میں قیام کے دوران مولانا شاہ احمد نورانی کی عالمی تبلیغی سرگرمیوں سے زیادہ گہری واقفیت ہوئی۔ وہ اسلامک فائونڈیشن‘ لسٹر تشریف لائے اور بڑی شفقت سے ہمارے کام کی تحسین فرمائی۔ اسلام آباد میں بھی انتقال سے چند ماہ قبل اصرار کر کے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز تشریف لائے اور اپنی دعائوں سے نوازا۔ بیرون ملک بھی‘ خصوصیت سے لندن میں بارہا ملاقاتیں ہوئیں لیکن سچی بات ہے کہ زیادہ قریب سے ان کو دیکھنے اور ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملی یکجہتی کونسل کے قیام کے بعد حاصل ہوا‘ اور پھر گذشتہ پورا سال تو اس طرح گزرا کہ سینیٹ اور متحدہ مجلسِ عمل کے کاموں کے سلسلے میں دن رات ان کے ساتھ رہنے اور مل کر کام کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ ان کی شفقت‘ محبت‘معاملہ فہمی‘ نرم گفتاری کے نقوش دل پر مرتسم ہیں اور یہ کہنے میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کہ ہر روز ان سے تعلق کو گہرا کرنے کا باعث ہوا۔ ان کے رخصت ہونے سے نہ صرف قومی زندگی بلکہ ہماری ذاتی زندگیوں میں بھی ایک خلا واقع ہوگیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند فرمائے‘ ان کی قبر کو نور سے بھر دے اور ان کے جاری کردہ اچھے کاموں میں مزید برکت اور افزونی پیدا کر دے۔ آمین!

مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی ۱۷ رمضان المبارک ۱۳۴۶ھ (اپریل ۱۹۲۶ئ) میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ آٹھ سال کی عمر میں قرآنِ پاک حفظ کیا اور ۱۰ سال کی عمر سے تراویح میں باقاعدگی سے قرآنِ پاک سناتے رہے حتیٰ کہ آخری بار اِسی سال ختمِ قرآن کی سعادت حاصل کی۔ بقول مولانا نورانی اس پورے عرصے میں صرف دو سال بیماری کے باعث ختمِ قرآن نہ کرسکے۔ گویا ۶۵ سال قرآن سنایا… سبحان اللہ! جزاھم اللّٰہ خیر الجزائ۔ تعلیم عربک کالج میرٹھ اور الٰہ آباد یونی ورسٹی سے حاصل کی۔ ۱۹۴۸ء سے والد مرحوم کے ساتھ تبلیغی سرگرمیوں میں شرکت کی اور غیرمسلموں تک اسلام کے پیغام کو پہنچانے کے ساتھ ساتھ عیسائی پادریوں اور قادیانی مبلغوں سے مناظروں کا اہتمام بھی کیا اور کئی ہزار افراد کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کی سعادت حاصل کی۔

۱۹۷۰ء میں سیاست میں قدم رکھا اور کراچی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ۷۶-۱۹۷۲ء والی اسمبلی میں ۱۹۷۳ء کے دستور کی تدوین اور ۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے والی متفقہ قرارداد کی منظوری میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ۱۹۷۷ء کی تحریک نظامِ مصطفیؐ میں ان کا مقام صفِ اول میں تھا۔ اس جدوجہد میں قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ۱۹۷۷ء میں سینیٹ میں منتخب ہوئے اور پھر دوبارہ ۲۰۰۳ء میں ایم ایم اے کے سربراہ کی حیثیت سے سینیٹ میں منتخب ہوئے۔ ۵۰سے زائد ملکوں کا دورہ کیا۔

مولانا شاہ احمد نورانی ایک جید عالم‘ ایک بالغ نظر مبلغ‘ ایک باکردار سیاسی قائد اور مدبر اور اسلامی اتحاد اور ملّی وحدت کے نقیب اور اس کی علامت تھے۔ جس حکمت‘ شفقت اور    حسن تدبیر سے انھوں نے پاکستان کے مختلف دینی مکاتب فکر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور انصاف اور اعتدال کے ساتھ ان کی قیادت فرمائی وہ ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے جو آنے والوں کے لیے بھی ایک تابناک مثال رہے گا   ع

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

سقوطِ بغداد (۹ اپریل ۲۰۰۳ئ)کے بعد صدام کی گرفتاری یا موت کی خبر کسی وقت بھی متوقع تھی اور یہ امریکہ کے لیے باعثِ خفت ہے کہ ’’فتح‘‘کے آٹھ مہینے کے بعد اسے یہ کہنے کا موقع مل رہا ہے کہ "We got him" (ہم نے اسے پکڑلیا!)۔

بظاہر معلوم یہی ہوتا ہے کہ مخبری یا صدام کے اپنے محافظوں کی بے وفائی کے سبب امریکہ اس تک پہنچ سکا اور اسے پہلے نشہ زدہ کیا گیا اور پھر گرفتاری کے ڈرامے کو ٹیلی وژن کے اسکرین پر دکھایا گیا۔ یہ بھی معنی خیز ہے کہ ۱۴ دسمبر۲۰۰۳ء کو گرفتاری کے اعلان سے ایک ہفتہ پہلے جنگی جرائم پر مقدمہ چلانے کے لیے عراقی ججوں پر مشتمل عدالت کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ گویا یہ سب اسی ڈرامے کی مختلف کڑیاں ہیں اور ہرمنظر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دکھایا جا رہا ہے۔

امریکہ نے صدام کو ’جنگی قیدی‘ (prisoner of war) قرار دیا ہے اور وہ قابض فوجوں کی تحویل میں ہے۔ ہمیں صدام کی ذات سے کوئی دل چسپی نہیں اور اس نے جو کچھ کیا‘ اس کی سزا وہ اللہ کے قانونِ مکافات کے مطابق یہاں اور آخرت میں ضرور بھگتے گا--- جس میں وہ ذلت بھی شامل ہے جو اس کا مقدر ہوگئی ہے۔ لیکن یہ گرفتاری اور جس طرح اس کی تشہیر کی گئی ہے وہ امریکہ کے کردار کو سمجھنے کے لیے ایک کلید کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر امریکہ ایک مہذب ملک ہے تو وہ بھی بین الاقوامی قانون کا اسی طرح پابند ہے جس طرح دنیا کے دوسرے ممالک۔ لیکن امریکہ خود کو ہر قانون اور ضابطے سے بالا سمجھتا ہے اور ان تمام قوانین اور معاہدات بشمول جنیوا کنونشنز کو پرکاہ کے برابر بھی وقعت نہیں دیتا جو اسے جنگ اور جنگی قیدیوں کے باب میں کسی درجے میں بھی پابند کرتے ہیں۔ جنگ کے دوران جب عراق نے امریکہ کے جنگی قیدیوں کو ٹی وی پر دکھایا تھا تو امریکہ چیخ اُٹھا تھا کہ یہ جنیوا کنونشنز کے خلاف ہے۔ لیکن خود امریکہ نے جس طرح سے صدام کے بیٹوں کی لاشوں کی نمایش کی اور اب جس حقارت کے ساتھ صدام کو بہ ایں ریش دراز دکھایا‘شیوکیے جانے اور دانتوں سے ڈی این اے حاصل کرنے کے مناظرکو پیش کیا اور چوہے کے بل کی داستانیں نشر کیں‘ انھیں بھلا کون سے قانون یا ضابطے کے تحت جائز قرار دیا جا سکتا ہے۔

قیدیوں کی تحقیرایک مذموم حرکت اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے لیکن امریکہ کے لیے یہ سب روا ہے۔ اس نے تو اقوامِ متحدہ کے قائم کردہ جنگی جرائم کی کورٹ کو تسلیم کرنے تک سے انکار کر دیا ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک سے دو طرفہ معاہدات کر رہا ہے کہ امریکہ کے فوجی بین الاقوامی کریمنل کورٹ کی دسترس سے باہر رہیں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ امریکہ ایک مہذب ریاست کا نہیں بلکہ ایک غنڈا ریاست (Rogue State) کا کردار ادا کر رہا ہے اور طاقت کے نشے میں چور‘ خود کو ہر قانون سے بالا رکھنا چاہتا ہے۔ اس طرح وہ  ایک عالمی لیڈر کا نہیں ایک Master اور Bully کا کردار ادا کر رہا ہے اور دنیا کی نگاہ میں اب امریکہ کی یہی پہچان ہے۔ پھر اگر دنیا کے لوگ امریکہ کو امن کے لیے خطرہ اور خود اپنے لیے ایک ناپسندیدہ کردار تصور کرتے ہیں تو اس میں ان کا کیا قصور؟ اس کے بعد بھی اگر صدربش یہی پوچھتے ہیں اہل دنیا ہم سے کیوں نفرت کرتے ہیں؟ تو اس کے سوا کیا کہا جائے کہ  ع

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا

دوسرا پہلو‘ جس میں عرب اور مسلمان ممالک اور ان کی قیادتوں کے لیے بھی بڑا   سامانِ عبرت ہے اور خود امریکہ کے لیے بھی‘ یہ ہے کہ اب اس پر بحث ہو رہی ہے کہ صدام پر مقدمہ کیسے چلایا جائے؟ اس لیے کہ اگر یہ کھلا مقدمہ ہو اور صدام سارا کچا چٹھا عدالت کے سامنے رکھ دے تو صدام کے جرائم سے کہیں زیادہ خود امریکہ کے جرائم اور گھنائونے کردار کا نقشہ دنیا کے سامنے آئے گا اور معلوم ہوگا کہ امریکہ عرب‘ مسلم اور تیسری دنیا کے ممالک میں کیا کردار ادا کرتا رہا ہے۔ صدام نے ۱۲ ہزار صفحات پر مشتمل جو دستاویز عام تباہی کے ہتھیاروں کے سلسلے میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو دی تھی امریکہ نے اس میں سے ۹ ہزار صفحات پر masking tape لگا دیا تھا کہ اس میں اس کے اپنے کردار کا ذکر تھا۔اب یہ سب چیزیں کھل کر دنیا کے سامنے آئیں گی۔

اس کے علاوہ صدام کو صدام بنانے میں امریکہ نے کیا کردار ادا کیا ہے یہ بھی دنیا کے سامنے آرہا ہے۔ رچرڈسیل (Richard Sale)کی ایک تحقیقی رپورٹ کے بموجب جو اس سال اپریل میں یونائیٹڈ پریس انٹرنیشنل نے شائع کی ہے کہ امریکی سی آئی اے کا پہلا رابطہ نوجوان صدام حسین سے ۱۹۵۹ء میں قائم ہوا جو عراق کے مقبول عوام حکمراں جنرل عبدالکریم قاسم کو قتل کرنے کے منصوبے کے سلسلے میں تھا۔ جنرل عبدالکریم قاسم وہ شخص تھا جس نے عراق کی مغرب نواز شہنشاہیت کا تختہ الٹا تھا اور عراقی قوم پرستی اور اشتراکیت کے نظریے پر استوار بعث پارٹی کے ذریعے امریکہ نے اس کا کام تمام کر دیا۔ عرب محقق اور تجزیہ نگار عادل درویش کی کتاب UNHOLY BABYLON: The Secret History of Saddam's War میں پوری دستاویزی شہادتوں کے ساتھ صدام اور بعث پارٹی کے گھنائونے کردار اور ان کے   سی آئی اے سے تعلقات کی تفصیلات آچکی ہیں اور خود بعث پارٹی کے سیکرٹری جنرل نے اعتراف کیا تھا کہ "We came to  power on CIA train" (ہم امریکی گاڑی پر سوار ہوکر اقتدار میں آئے تھے)۔ اس گاڑی میں صدام حسین کا ایک خاص مقام تھا‘ یعنی پارٹی کی خفیہ جاسوسی تنظیم کی سربراہی۔ پارٹی کا یہی وہ عنصر تھا جو Iraqi National Guardsmen کے    عنوان تلے سیاسی مخالفین اورسی آئی اے کی فراہم کردہ فہرست کے مطابق لوگوں کو چن چن کر قتل کر رہا تھا۔

صدام سی آئی اے ہی کے تعاون سے ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا بالآخر عراق کا مطلق العنان فرمانروا بنا اور اس حیثیت سے ہی وہ امریکہ کا منظورِ نظر تھا خاص طور پر جب امریکہ نے اسے ایران کے خلاف استعمال کیا۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد سے عراق پر بھی دوسرے عرب ممالک کی طرح پابندیاں لگی ہوئی تھیں۔ ایران کے خلاف جنگی خدمات کے عوض ۱۹۸۲ء میں صدر ریگن نے وہ پابندیاں اٹھائیں اور صدام کو صرف معلومات ہی نہیں بلکہ اسلحہ‘ کیمیاوی اور گیس کے ہتھیار اور ایک ارب ۲۰ کروڑ ڈالر کی مالی امداد بھی دی۔ اور وہ امداد اس کے علاوہ ہے جو سعودی عرب اور کویت سے دلوائی گئی۔ موجودہ سیکرٹری دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ جو اُس وقت ریگن کے نمایندے کے طور پر ۲۰ دسمبر ۱۹۸۳ء کو صدام سے ملے اور اسے ہر قسم کے تعاون کا یقین دلایا۔ پھر ۱۹۸۴ء میں بغداد کا دورہ کیا اور جس وقت صدام کردوں کے خلاف زہریلی گیس استعمال کررہا تھا جو امریکہ‘ برطانیہ اور جرمنی سے فراہم کی گئی تھی‘ تب کھلے عام امریکہ اس کی پیٹھ تھپک رہا تھا۔ یہ اور سارے حقائق ویسے تو اب کسی نہ کسی طرح سامنے آچکے ہیں لیکن امریکہ خائف ہے کہ صدام کے مقدمے کے ذریعے سے یہ ساری کالک اس کے منہ پر مَلی جائے گی۔ اس لیے وہ   بین الاقوامی مقدمے سے کنی کترا رہا ہے اور صدام کی سرپرستی کے اپنے گھنائونے کردار کے اس طرح طشت ازبام ہونے سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔

صدام کی گرفتار ی سے امریکہ کی مشکلات کا خاتمہ نہیں ہوابلکہ اس میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔ عراق میںامریکی قبضے کے خلاف جو تحریک برپا ہے اس میں کمی کا امکان نہیں اور صدام کی گرفتاری سے یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ اس کی پشت پر صدام نہیں (وہ تو ایک    تہہ خانے میں پناہ لیے ہوئے تھا اور منشیات کے ذریعے اپنے غم غلط کرنے میں مصروف تھا)‘ بلکہ پوری قوم ہے اور محض صدام یا القاعدہ کی دہائی دے کر اس کی توجیہہ نہیں کی جا سکتی۔

عالمِ اسلام کے لیے بھی اس میں عبرت کا مقام ہے کہ کس طرح وہ قائدین جو اس پر مسلط ہیں‘ وہ دوسروں کے آلہ کار رہے ہیں اور ہیں‘ اور وہ جو اپنے عوام پر ظلم ڈھانے کے لیے بڑے جری ہیں جب آزمایش آتی ہے تو کس طرح چوہوں کی طرح بلوں میں گھستے اور اپنی جان بچاتے نظر آتے ہیں۔ اس میں یہ سبق بھی ہے کہ وہ نظام جس میں باگ ڈور ایسے آمروں کے ہاتھ میں ہو‘ کتنا کمزور اور بودا ہوتا ہے اور کس طرح تاش کے پتوں کے گھروندے کی طرح  زمین بوس ہو جاتا ہے۔ استحکام‘ دستور اور قانون کی حکمرانی‘ اصولوں کی بالادستی اور اداروں کے استحکام سے حاصل ہوتا ہے۔ آج ہماری کمزوری کی اصل وجہ ہی اجتماعی نظام کا یہ بگاڑ اور اجتماعی احتساب کا فقدان ہے۔ خود اپنے گھر کی اصلاح وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ بات صرف عراق اور صدام کی نہیں‘ ہر مسلمان ملک اور وہاں پر مسلط ہر آمر کا مسئلہ ایک ہی ہے۔   نام اور جگہ مختلف ہے۔ اگر مسلم عوام یہ سبق سیکھ لیں اور اپنے معاملات ان باہر سے مسلط کیے جانے والے نام نہاد مسیحائوں کے ہاتھوں سے لے کر خود اپنے ہاتھوں میں لے لیں تو چند سالوں میں زندگی کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ فاعتبروا یااولی الابصار!

بسم اللہّٰ الرحمٰن الرحیم

سپریم کورٹ نے اپنے مئی ۲۰۰۰ء والے فیصلے میں ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے اقدام کو  ’’قانونِ ضرورت‘‘ کی بنیاد پر سندِجواز فراہم کی تھی مگر اس کے ساتھ تین باتیں بہت وضاحت سے بیان کردی تھیں جو ان کے فیصلے کی اصل روح اور آیندہ کے بارے میں رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہیں اور وہ یہ تھیں:

۱-  اگرچہ دستور کو معرض التوا میں ڈال دیا گیا ہے لیکن دراصل ملک کا نظام ۱۹۷۳ء کے دستور کے مطابق ہی چلنا چاہیے اور موجودہ فوجی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نظامِ حکومت کو چلانے کے سلسلے میں دستور سے صرف ناگزیر حد تک انحراف کرے اور عملاً تمام معاملات کو دستور کے مطابق یا اس سے قریب ترین انداز میں طے کرے۔ نیز شخصی آزادی‘ بنیادی حقوق اور عدالتوں کی بالادستی پر کوئی آنچ نہ آنے دے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت کے تمام اقدام و احکام عدالتی محاسبے (judicial review)کی گرفت میں ہوں گے۔

۲-  دستور کے تحت کام کرتے ہوئے اگر کہیں کوئی حقیقی مشکل پیش آئے تو اس مشکل کو  رفع کرنے کی حد تک چیف ایگزیکٹو کو دستور میں ترمیم کا اختیار ہوگا‘ مگر وہ کوئی ایسی ترمیم کرنے کا مجاز نہیں ہوگا جو دستور کے بنیادی ڈھانچے کو متاثرکرے جس میں پارلیمانی نظام‘ فیڈرل     نظامِ حکمرانی‘ عدلیہ کی آزادی‘ بنیادی حقوق کا تحفظ اور ریاست کا اسلامی کیریکٹر شامل ہیں۔

۳-  ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء سے تین سال کے اندر اندر نئے انتخابات کے انعقاد کے ذریعے فوج اپنی بارکوں میں واپس چلی جائے گی اور اقتدار عوام کے منتخب نمایندوں کو منتقل کر دیا جائے گا تاکہ سول حکومت نظامِ حکومت کی ذمہ داری سنبھالے اور دستور کے مطابق کاروبارِ سلطنت چلایا جاسکے۔

اس فیصلے کی اصل روح یہ تھی کہ اقتدار منتخب سول حکومت کو منتقل کر دیا جائے اور فوج کا اصل کام صرف دفاع وطن کی ذمہ داری ہو۔

جنرل پرویز مشرف نے اس فیصلے کو دستور میں من مانی تبدیلیوں کے جواز کے لیے تو بڑی بے دردی اور بے باکی سے استعمال کیاہے مگر فی الحقیقت اس فیصلے کو دل سے قبول نہیں کیا اور انتقالِ اقتدار(transfer of power) کے اصول کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے صرف محدود اشتراکِ اقتدار (power sharing) کا ایک بندوبست وضع کرنے کے لیے استعمال کیا۔ یہ عمل فیصلے کے الفاظ اور روح دونوں کے منافی ہے۔ جنرل صاحب کی ساری کوشش یہ رہی ہے کہ اصل قوت اور اختیار حسب سابق انھی کے پاس رہے۔ سول نظام کی بحالی ایک ظاہری اور نمایشی عمل سے زیادہ نہ ہو اور قوت اورفیصلوں کا مرکز ان کی ذات اور ان کے معتمد علیہ افراد رہیں۔ اس کے لیے دستور کے ڈھانچے میں لیگل فریم ورک آرڈر (ایل ایف او) کے ذریعے ایسی تبدیلیاں کر دی گئیں کہ طاقت کی کنجی صرف ان کے ہاتھ میں ہو‘ پھر ایل ایف او کو بھی پارلیمنٹ میں لائے بغیر دستور پر مسلط کر دیا گیا۔اس نے دستوری نظام کا حلیہ ہی بگاڑدیا ہے۔ وہ اپنے لائے ہوئے ایل ایف او سے بھی بڑھ کر عملاً اس طرح پورے نظام پر چھائے ہوئے ہیں کہ قومی سلامتی‘ خارجہ پالیسی‘ معاشی پالیسی‘ انتظامی مشینری سب ان کے تابع مہمل ہے۔ دستور‘ قانون‘ روایات‘ سب کو بالاے طاق رکھ کر یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے اور صرف دھونس‘ ہوس اقتدار اور فوجی قوت کے بل بوتے پر نظام چلایا جا رہا ہے جسے ’’خاکی جمہوریت‘‘ کے سوا کسی دوسرے نام سے موسوم نہیں کیا جا سکتا۔

جنرل صاحب نے بارہا یہ کہا ہے کہ ۱۹۹۹ء سے پہلے ملک ’جعلی جمہوریت‘ (sham democracy) کے دور میں تھا اور اب میں ’حقیقی جمہوریت‘لانا چاہتا ہوں جسے کبھی انھوں نے real democracy (حقیقی جمہوریت)کہا اور کبھی substance of democracy (جوہرجمہوریت)لیکن فی الحقیقت جو کچھ انھوں نے قوم کو دیا وہ ’جعلی جمہوریت‘ کی ہی بدترین صورت ہے۔خود ان کے مجرم ضمیر نے ایک آدھ بار ان سے اس کا اس طرح اعتراف کرا لیا ہے کہ:

اگر آپ واقعی ضرورت سمجھتے ہیںتو میں پاکستان پر جمہوریت کا لیبل چسپاں کردوں گا۔

حقیقت یہ ہے کہ مئی ۲۰۰۲ء کے ریفرنڈم کے تماشے سے شروع ہونے اور اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات کے ذریعے صورت پذیر ہونے والے سول نظام کو صرف فوجی حکمرانی کی ایک شکل ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوری قوتیں مجبور ہیں کہ بحالیِ جمہوریت اور دستور کی بالادستی کی جدوجہد کو اولیں اہمیت دیں۔ اس لیے کہ جمہوریت کی بحالی کا خواب اسی وقت شرمندئہ تعبیر ہو سکتا ہے جب دستور مکمل طور پر اور اپنی اصل شکل میں بحال ہو‘ پارلیمنٹ کی بالادستی قائم ہو‘ وزیراعظم اور کابینہ پارلیمنٹ کی منتخب کردہ اور اس کے سامنے جواب دہ ہو‘ عدالتیں خودمختار ہوں اور سیاست میں فوج کا عمل دخل عملاً ختم ہو‘ وہ سول نظام کے ماتحت ہوکر ان حدود کے اندر اپنی ذمہ داریاں پوری کرے جو دستور نے اس کے لیے مقرر کی ہیں۔ الیکشن اور پارلیمنٹ کے وجود میں آجانے کے ایک سال بعد بھی جمہوریت کی بحالی کی راہ میں لیگل فریم ورک آرڈر اور جنرل پرویز مشرف کی ضد اصل رکاوٹ ہیں‘ جس نے ملک کے پورے نظام کی چولیں ہلا دی ہیں۔

جب تک لیگل فریم ورک آرڈر پارلیمنٹ میں زیربحث نہیں آتا اور پارلیمنٹ اسے ضروری ترمیم کے بعد منظور نہیں کرتی‘ ملک دستوری بحران کی گرفت میں رہے گا‘ سارے دستوری ادارے غیر موثر رہیں گے اور پاکستان جمہوریت اور ترقی کی راہ پر گامزن نہ ہو سکے گا۔

اس پس منظر میں ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کی عاقبت نااندیشی‘ ظفراللہ جمالی کی مخلوط حکومت کی کمزوری اور پارلیمنٹ کی بے عملی کے نتیجے میں ملک و قوم کا ایک قیمتی سال ضائع کر دیا گیا ہے اور مورخ اسے پاکستان کی تاریخ کا ایک ضائع شدہ سال ہی شمار کرے گا۔ اکتوبر ۲۰۰۳ء کے انتخابات اورمنتخب پارلیمنٹ کے وجود میں آنے سے بس اتنا فرق پڑا ہے کہ ملک کھلی فوجی حکومت کی جگہ ایک ’خاکی جمہوریت‘ کے چنگل میں آگیا ہے اور اپنے ہوں یا غیرکوئی بھی اسے جمہوریت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتیں مجبور ہوئی ہیں کہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کریں اور ایک سال میں تقریباً پچاس مرتبہ انھیں اسمبلی اور سینیٹ سے واک آئوٹ کرنا اور پریس کے ذریعے اپنا نقطۂ نظر قوم کے سامنے پیش کرنا پڑا ہے۔ یورپی یونین نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ نہ صرف انتخابات خامیوں سے پُر تھے بلکہ ایل ایف او کی وجہ سے پارلیمنٹ با اختیار حیثیت سے محروم ہے۔ دولت مشترکہ نے جمہوریت کی بحالی کے عمل کو مکمل تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور خود جنرل صاحب کے پشت پناہ اور مداح خواں صدر بش بھی پاکستان کو اس فہرست میں شامل نہیں کرتے جو انھوں نے مسلم ممالک میں جمہوری حکومتوں کے بارے میں اپنی نومبر ۲۰۰۳ء کی بدنامِ زمانہ تقریر میں پیش کی ہے۔

بات بہت واضح ہے کسی بھی ملک میں بیک وقت جمہوریت اور فوجی قیادت کی   حکمرانی (یعنی مارشل لا) ممکن نہیں۔ کاروبارِ حکومت میں فوج کو بالادستی جمہوریت اور دستوریت (constitutionalism) کی نفی ہے۔فوج کو سول نظام کے تابع ہونا ہوگا اور ملک میں دستور کی بالادستی اور پارلیمنٹ کی بالاتر اتھارٹی قائم کرنا ہوگی‘ جو جمہوریت کی روح کو بحال کرنے کی شرط ہے۔ اس پر مہر تصدیق سپریم کورٹ کے فل بنچ کے اس فیصلے نے لگا دی ہے جو اس نے نومبر ۲۰۰۳ء میں ایک سرکاری ملازم کے سیاست میں حصہ لینے کے بارے میں دیا ہے اور صاف الفاظ میں کہا ہے کہ جمہوری نظام میں دستور اور قواعد و ضوابط کے تحت کسی سرکاری ملازم کو‘ سول یا فوجی‘ سیاست میں حصہ لینے کا اختیار نہیں۔

اس وقت ملک جس کش مکش میں مبتلا ہے اس کی جڑ ’’خاکی جمہوریت‘‘ کا وہ باطل تصور ہے جو کبھی عبوری دور اور کبھی تسلسل کے نام سے ملک پر مسلط کر دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ کے ارکان کی ایک تعداد نے ایک بار پھر وہی غلطی کی ہے جو ماضی میں سیاست دان فوجی اقتدار کے لیے دست و بازو بن کر کرتے رہے ہیں حالانکہ پارلیمنٹ کا اصل فرض اور عوام کے منتخب نمایندے ہونے کی حیثیت سے ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ دستور کی بحالی اور سول نظامِ حکمرانی کے قیام کو اولیت دیں۔ سال رواں میں پارلیمنٹ اور خصوصیت سے حکمران الائنس کی اصل ناکامی یہ ہے کہ اس نے اکتوبر ۲۰۰۳ء کے انتخابات کے تقاضوں کو پورا کرنے میں مجرمانہ غفلت سے کام لیا ہے اور محض اقتدار کا مزہ لوٹنے کے لیے ایک ایسے مخلوط سیاسی نظام (political hybrid) کو ملک پر مسلط کر دیا ہے جو فوجی حکمرانی کی ایک قبیح شکل ہے اور جس کے نتیجے میں اوپر سے نیچے تک سارا نظامِ حکومت شترگربگی کا شکار ہے۔

مشرف جمالی حکومت کے ایک سال پر نظر ڈالی جائے تو اس کا سب سے زیادہ پریشان کن‘ بلکہ اندوہناک پہلو اداروں کی تباہی (structural deformity) ہے جس سے  ملک دوچار کر دیا گیا ہے۔ اور نتیجہ ظاہر ہے کہ پورا نظام ٹھٹھرا ہوا ہے‘ کسی سمت میں کوئی پیش قدمی نہیں ہو رہی‘ پارلیمنٹ بالاتر قوتوں کی یرغمال بن گئی ہے اور جنرل مشرف سے لے کر وزیراعظم جمالی تک اس کی کارکردگی سے مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے اسمبلیوں کی برطرفی اور نظام کی بساط لپیٹ دیے جانے کے خطرات ہر وقت سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ یہ صورتِ حال اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک پارلیمنٹ اور سول حکومت اپنی بالادستی دستوری اور عملی ہر دو پہلو سے نہیں منوا لیتی۔ حزبِ اختلاف کی جدوجہد اقتدار میں شرکت کے لیے نہیں(اقتدار تو اسے بار بار پیش کیا گیا) بلکہ یہ جدوجہد نظام کو پٹڑی پر لانے کے لیے ہے جس کے بغیر حالات کے بہتر ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ ملک میں اس وقت جو بھی مخدوش حالات ہیں وہ اسی بنیادی خرابی کا شاخسانہ ہیں۔


جنرل پرویز مشرف اور جمالی صاحب اور ان کے رفقاے کار نے ملک کو جس بحران میں مبتلا کر رکھا ہے اس کا ایک بہت ہی اہم اور تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ملک کا نظامِ حکمرانی سندِجواز (legitimacy) سے محروم ہوگیا ہے۔ یہی واضح نہیں کہ کس دستور کے تحت نظامِ حکومت چلایا جارہا ہے۔ ۱۹۷۳ء کا دستور کتنا بحال ہوا ہے‘ ایل ایف او جسے جنرل صاحب اپنے اقتدار کا اصل ستون قرار دے رہے ہیں وہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر دستور کا حصہ کیسے بن گیا؟ اور اگر وہ دستور کا حصہ نہیں ہے تو پھر وہ دستور پر بالاتر دستور (supra constitution) کیسے بن سکتا ہے؟ عدلیہ کس دستور کے تحت کام کر رہی ہے؟

حزبِ اختلاف کی تمام جماعتیں اسے دستور کا حصہ تسلیم نہیں کرتیں۔ پوری وکلا برادری اس دھاندلی کے خلاف صف آرا ہے۔ اس باب میں حکومت اور حزبِ اختلاف میں کوئی قدر مشترک نہیں۔ عدلیہ اور قانون دان اور وکلاء ایک دوسرے سے نبردآزما ہیں۔ مرکز‘ صوبے اور لوکل باڈیز کا نظام سبھی دستوری تحفظ سے محروم ہیں۔ پارلیمنٹ‘ حکمران اور عدلیہ کس دستور کے پابند ہیں اور ان کے دستوری حلف کی کیا حیثیت ہے؟ عدلیہ کے ججوں کی ایک بڑی تعداد نے عبوری آئین کے تحت حلف لیا تھا اب اس کی کیا حیثیت ہے؟ اگر ملک کا سیاسی اور قانونی نظام ہی جواز سے محروم ہو اور قوت اور اختیارات کا پورا دروبست ہی مشکوک ہو تو وہ نظام کیسے چل سکتا ہے؟

یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی ملک دستوری انحراف کے دور سے دستور کی بحالی کے دور میں داخل ہوتا ہے تو دورِ انحراف کے اقدامات کو قانونی جواز (indemnity)پارلیمنٹ کے فیصلے کے ذریعے دیا جاتا ہے۔ یہی ۱۹۷۳ء کے دستور میں اس کی دفعات ۲۷۰-۲۶۹ کی شکل میں کیا گیا اور یہی جنرل ضیا الحق مرحوم کے مارشل لاکے بعد ۱۹۸۵ء میں جمہوریت کے احیا کے وقت آٹھویں ترمیم کی شکل میں کیا گیا اور دستور کی دفعہ ۲۷۱ اس کا واضح ثبوت ہے۔ لیکن جنرل پرویز مشرف اس معاہدے کے باوجود جو ایم ایم اے سے جمالی صاحب کی ٹیم (ایس ایم ظفرکمیٹی) نے کیا اس صاف اور سیدھی بات سے پہلو بچا رہے ہیں اور ملک کے پورے دستوری‘ سیاسی اور انتظامی ڈھانچے کو مخدوش بنائے ہوئے ہیں۔ اس سال کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ یہ بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوا‘ بدستور حل طلب ہے۔ جب تک یہ حل نہیں ہوتا کسی مثبت پیش رفت کی توقع عبث ہے۔


دوسری بنیادی چیز کا تعلق تقسیمِ اختیارات (checks & balances) سے ہے جس کا جنرل صاب موقع بہ موقع ذکر کرتے رہتے ہیں۔پارلیمنٹ کے وجود میں آنے کے بعد پورے ایک سال کے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ قوتِ اختیار اور فیصلوں کا مرکز جنرل صاحب کی ذات ہی ہے اور انھوں نے پورا نظام اس طرح وضع کیا ہے کہ اصل قوت انھیں حاصل رہے‘ باقی سب نمایشی ہے۔ نام نہاد ریفرنڈم کے ذریعے انھوں نے صدر بننے کا دعویٰ کیا جب کہ دستور میں ریفرنڈم کے ذریعے صدر کے انتخاب کی کوئی گنجایش نہیں۔ وہ منتخب صدر نہیں اور عملاً ملک ایک خود مسلط کردہ غیر آئینی صدر کے تحت کام کر رہا ہے۔ پھر انتخابات کو متاثر کرنے اور اس سے بھی پہلے ایک کنگز پارٹی بنانے اور اسے اکثریت دلانے کی کوشش کی گئی۔ جب وہ کوشش ناکام ہوگئی اور انتخاب میں بھی عوام کے تین چوتھائی ووٹ انھی جماعتوں کو حاصل ہوئے جو جنرل صاحب کے ساتھ نہ تھیں اور سرکاری جماعت کو سادہ اکثریت بھی میسر نہ آئی تو دھونس اور دھاندلی کے ساتھ وفاداریوں کی تبدیلی‘ ضمیر کی خریدوفروخت‘ نیب (NAB) کے بے محابا استعمال کے ذریعے زیرتفتیش ارکان اسمبلیوں کو جن میں سے کچھ پر باہر جانے پر پابندی بھی تھی‘ شامل حکومت کرکے مصنوعی اکثریت حاصل کی گئی۔ پیپلز پارٹی کو توڑ کر پیٹریاٹس کا ڈھونگ رچایا گیا اور اس میں ٹوٹنے والے دس ارکان میں سے چھے کو وزارت سے نواز دیا گیا۔ ایم کیو ایم کو بھی طہارت کا اشنان دے کر شریکِ اقتدار کر لیا گیا اور اس طرح ایک ایسی سیاسی حکومت بنائی گئی جس میں وزیراعظم کو ووٹ اسمبلی میں دیے گئے مگر ان کا انتخاب کسی اور نے کیا۔

وزیراعظم کی کابینہ کا انتخاب بھی وزیراعظم یا پارلیمنٹ نے نہیں کیا بلکہ یہ سب کام ان کے لیے کسی اور نے کیا بشمول وزارتوں کی تقسیم۔ یہی وجہ ہے کہ کابینہ تو وزیراعظم کی ہے مگر وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ بہت سے وزیر ان کی بات نہیں سنتے‘ اس کی سنتے ہیں جس نے ان کو وزارت سے نوازا ہے۔ وزیراعظم صاحب کو بھی کہنا پڑتا ہے کہ ان کا ’باس‘ کوئی اور ہے حالانکہ پارلیمانی نظام کی روح ہی یہ ہے کہ کابینہ وزیراعظم بناتا ہے جو اس کے اور پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ ہوتی ہے۔ صدر وزیراعظم کی ایڈوائس کا پابند ہوتا ہے لیکن یہاں معاملہ بالکل الٹا ہے۔ قومی سلامتی کے امور ہوں یا خارجہ سیاست کے‘ معاشی و مالی معاملات ہوں یا انتظامی‘ گورنروں کا تقرر ہو یا سول انتظامیہ اور پولیس افسران کا‘ بین الاقوامی معاہدات کا معاملہ ہو یا لوکل گورنمنٹ کے اختیارت اور تنازعات کا‘ سب کا مرجع و مرکزجنرل صاحب کی ذات ہے۔ وہ بیرونِ پاکستان دورے اور معاہدات اس شان سے کرتے ہیں کہ وزیرخارجہ تک ان کے ساتھ نہیں ہوتے۔ صدربش سے ملنے جاتے ہیں تو اپنے معتمد وزیرخزانہ اور دستوری امور کے مشیر شریف الدین پیرزادہ صاحب کو لے کرجاتے ہیں۔ وہ وزیراعظم اور بیرونی سفرا سے فوجی وردی میں ملتے ہیں‘ حتیٰ کہ بیرونی سفروں سے ان کے پروانہ تقرری کی وصولی کی تقریب میں بھی فوجی وردی میں شریک ہوتے ہیں۔ اس اندازِ حکمرانی کو کون جمہوری قرار دے سکتا ہے جہاں حکمرانی کا منبع فوجی صدارت ہے نہ کہ پارلیمنٹ اور اس کا منتخب کردہ وزیراعظم اور کابینہ۔

ہمیں معاف رکھا جائے اگر یہ کہیں کہ جو انتظامِ حکمرانی جنرل صاحب نے مرتب کیا ہے اور جس کے مطابق وہ عمل کر رہے ہیں اس میں وزیراعظم ایک بھاری بھرکم show piece (محض دکھاوے کی چیز) سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ جمالی صاحب پر بہادر شاہ ظفر کا شبہ ہوتا ہے جو زبانِ حال سے گویا ہے کہ

یا مجھے افسر شاہانہ بنایا ہوتا

یا مرا تاج گدایانہ بنایا ہوتا

اس نظام میں تقسیمِ اختیارات کا کوئی تصور نہیں۔ سب کے لیے صرف تحدیدات (checks) ہیں۔ اقتدار کا سارا سرمایہ صرف ایک فرد کے کھاتے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ پورے سال سے ایک تماشائی بنی کھڑی ہے‘ قومی اور عوامی امور پر کوئی بحث‘ کوئی قانون سازی‘ کوئی پالیسی سازی اس کے دامن میں نظر نہیں آتی۔

پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے ساتھ کس طرح معاملہ کیا گیا ہے اس کا کچھ اندازہ اس سے کیجیے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس انتخابات کے ۴۰ دن کے بعد بلایا گیا تاکہ سرکاری پارٹی کے لیے اکثریت (خواہ وہ ایک ووٹ کی ہو اور وہ ووٹ بھی غالباً اس شخص کا جس کی جماعت کو  خلافِ قانون قرار دیا گیا تھا اور خود بھی بصدِافسوس تشدد کا نشانہ بن گیا) وضع کرلی جائے۔ سندھ کی صوبائی اسمبلی کا اجلاس تو اسی مصلحت کی خاطر ۶۳ دن کے بعد بلایا گیا۔ قومی اسمبلی کو دستوری طور پر سال میں ۱۳۰ دن اجلاس کرنا ہوتا ہے لیکن پہلے ۹ مہینے میں صرف ۵۷ دن اجلاس ہوئے اور آخری تین مہینے میں جیسے تیسے ۸۳ دن بھگتا دیے گئے اور وہ بھی اس طرح کہ ہفتہ میں ۳ دن ایک ایک گھنٹے کا اجلاس ہوتا تھا اور ۴ دن کی چھٹی کو بھی اجلاس کے ایامِ کار میں شمار کرلیا جاتا تھا۔ سینیٹ کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ مارچ میں پہلا سیشن ہوا ہے اور اب ۸مہینے گزر گئے ہیں لیکن سینیٹ صرف ۲۸ دن کے لیے اجلاس میں رہا ہے جن میں عملاً صرف ۱۸ دن کام ہوا ہے اور ۱۸میں ۶دن حزبِ اختلاف کے طلب کرنے پر (requisition) منعقد ہونے تھے اور ایک دن حلف برداری کے لیے تھا۔ گویا حکومت کی طرف سے صرف ۱۱ دن کارروائی ہوئی ہے‘ جب کہ سینیٹ کے لیے بھی دستوری طور پر سال میں ۹۰ دن ملنا ضروری ہے۔

اسمبلی نے پورے سال میں صرف دو بل منظور کیے ہیں جن میں سے ایک فائی نانس بل تھا جسے صرف ۵ دن میں کسی بحث کے بغیر نمٹا دیا گیا جب کہ ماضی میں بجٹ پر معمولاً ۴ ہفتے بحث ہوتی تھی۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس جسے ہر سال کے شروع میں ہونا چاہیے‘ جس سے صدر خطاب کرتا ہے اور جسے پارلیمانی سال کا آغاز شمار کیا جاتا ہے آج تک نہیں ہوا۔ دستور کے مطابق پارلیمنٹ کے وجود میںآنے کے بعد قومی مالیاتی کمیشن‘ مشترکہ مفادات کی کونسل اور قومی اقتصادی کونسل کوقائم ہونا چاہیے۔ مالیاتی کمیشن ایک سال کے بعد قائم ہوا ہے اور باقی دونوں دستوری ادارے آج تک نہیں قائم کیے گئے۔ اسمبلی کی مجالس قائمہ کا تقرر (نامکمل اور مشتبہ شکل میں) بارھویں مہینے ہوا ہے اور سینیٹ میں تومجالس قائمہ آج تک قائم ہی نہیں ہوئیں حتیٰ کہ سینیٹ کی مالیاتی کمیٹی جو سارے مالی معاملات کی ذمہ دار ہوتی ہے وہ تک نہیں بنی ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی جو سب سے طاقتور اور محاسبے کے لیے سب سے اہم کمیٹی ہے‘ اس نے آج تک کام شروع ہی نہیں کیا ہے۔

ارکان اسمبلی نے ۱۶۰ استحقاق کی قراردادیں داخل کرا رکھی ہیں جن کا تعلق ذاتی معاملات سے ہے۔ ماضی میں ہر سال پارلیمنٹ نے اوسطاً ۲۸ بل منظور کیے ہیں لیکن موجودہ قومی اسمبلی نے عملاً کوئی قانون سازی نہیں کی بلکہ حکومت نے تو بل پیش کرنے کی بھی زحمت نہیں فرمائی۔ اگر اسمبلی اور سینیٹ کے order of the day کا مطالعہ کیا جائے تو حکومت کے پاس سرکاری دنوں میں کوئی ایجنڈا ہی نہیںہوتا تھا۔ سینیٹ میںارکان کے نجی بلوں کی تعداد سرکاری بلوں سے کہیں زیادہ ہے‘ گو ان پر بھی کوئی بحث اور فیصلے نہیں ہوسکے۔ قومی اسمبلی میں کورم بھی ایک مسئلہ رہا ہے اور کم از کم ایک درجن مواقع پر کورم نہ ہونے کے سبب اجلاس ملتوی کرنا پڑا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق ۱۰ ارکان ایسے ہیں جو پورے سال میں غائب رہے ہیں اور اس میں سرفہرست سرکاری پارٹی کے پارلیمانی لیڈر کا نام آتا ہے۔

ایک طرف یہ افسوس ناک کارکردگی ہے‘ جس کے بارے میں حزبِ اختلاف کے بائیکاٹ کو الزام دیا جاتا ہے حالانکہ حزبِ اختلاف کے واک آئوٹ کے بعد‘ سرکاری پارٹی کو کام کی کھلی چھٹی تھی جس کا کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ دوسری طرف ارکان پارلیمنٹ نے بیرونی دوروں پر بڑا وقت صرف کیا۔ صرف گذشتہ دو مہینے میں ۳۲ ارکان نے امریکہ کا سفر کیا جس کاڈیڑھ کروڑ روپے سے زیادہ بوجھ قومی خزانے پر پڑا۔ سب سے زیادہ قابلِ اعتراض بلکہ مجرمانہ کارروائی سال کے آخری دن ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں ۱۱۷ فی صد اضافہ ہے اور وہ بھی اس غریب ملک میں جس میں آبادی کا ۳۳ سے ۴۰ فی صد خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہا ہے‘ جہاں خودکشی اور فاقہ کشی زندگی کا معمول بن رہے ہیں اور وہ بھی ایسے ارکان پارلیمنٹ کے لیے جن کے اثاثوں کا حال ہی میں جو ریکارڈ شائع ہوا ہے‘ اس کے مطابق ان میں سے ایک چوتھائی کروڑپتی ہیں اور بقیہ ۷۰فی صد لکھ پتی۔بمشکل ۵ فی صد ایسے ہیں جو سرکاری تنخواہ پر گزارا کرنے والے ہیں۔

پارلیمنٹ کی کارکردگی کا ریکارڈنہایت مایوس کن ہے اور اس کے دو پہلو ایسے ہیں جن کا نوٹس نہ لینا مجرمانہ چشم پوشی ہوگا۔ پہلا یہ کہ اس پارلیمنٹ نے خود اپنے مقام اور اختیارات سے غفلت برت کر اور ایل ایف او کو زیربحث نہ لا کر اپنی جو تصویر قوم کے سامنے پیش کی ہے وہ   بے حد ناقابلِ رشک ہے۔ اس کے ارکان‘ خصوصیت سے سرکاری الائنس سے وابستہ ارکان نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اقتدار کی خاطر اصولی معاملات سے صرفِ نظر کیا۔ یہ جمہوریت کے مستقبل کے لیے نیک فال نہیں۔ دوسری قابلِ گرفت چیز پارلیمنٹ کے ارکان کی اپنی پارلیمانی ذمہ داریوں سے اغماض اور محض ذاتی استحقاق اور مالی مراعات میں دلچسپی ہے۔ اسلام میں تو سیاست ایک خدمت ہے لیکن مغربی جمہوریتوں میں بھی ارکانِ اسمبلی ملک و قوم اور اپنے حلقہ انتخاب کی خدمت کے لیے ان تھک کوشش کرتے ہیں‘ جب کہ ہمارے ملک میں پارلیمنٹ کے ارکان کی دل چسپی نہ قومی امور سے ہے اور نہ عوام کی خدمت سے بلکہ وہ مراعات میں دل چسپی رکھتے ہیں جو جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ جنرل مشرف کی ’’خاکی جمہوریت‘‘ میں یہ خرابی دوچند ہو گئی ہے جو بہت تشویش ناک ہے۔


اس سال کے جائزے سے جو حیران کن اور تشویش ناک صورت حال سامنے آئی ہے اس میں صرف حکومت اور پارلیمنٹ کی عدم کارکردگی ہی نمایاں نہیں بلکہ صاف نظر آ رہا ہے کہ اگر حالات کو قابو میں نہ لایا گیا تو ملک میں اداروں کی تباہی (institutional breakdown) اور روایات کی پامالی اس مقام پر پہنچ سکتی ہے جس سے واپسی ممکن نہ ہو۔ جنرل صاحب نے اداروں کو مضبوط کرنے اور سیاست سے پاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا مگر ان کے چارسالہ دور کا حاصل یہ ہے کہ ہر ادارہ کمزور سے کمزور تر ہو رہا ہے اور سیاست اور سرکاری مداخلت بلکہ حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہر قانون اور ضابطے کی پامالی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عدلیہ کا وقار معرض خطر میں ہے۔ ایک طرف عدلیہ اور پارلیمنٹ میں کش مکش ہے تو دوسری طرف عدلیہ اور وکلا (Bench & Bar) دست و گریباں ہیں اور ان میں کشیدگی اتنی گمبھیر ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ حد یہ کہ پاکستان بار کونسل نے جو بار کا اعلیٰ ترین سرکاری طور پر تسلیم شدہ ادارہ ہے‘ عدلیہ کے ’’کارناموں‘‘ کے بارے میں قرطاس ابیض شائع کیا ہے جس میں عدلیہ کی جو تصویر نظر آتی ہے وہ شرم ناک ہے۔ اس سے زیادہ نظامِ عدل کی زبوں حالی کا کیا تصور کیا جا سکتا ہے؟

سیاسی پارٹیوں کو نہ صرف ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے بلکہ پارٹیوں کو تقسیم در تقسیم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اور یہ بھی وفاداریوں کی خرید و فروخت کے ذریعے۔ اسی طرح مرکز اور صوبوں کے درمیان کش مکش ہے۔ مسئلہ پانی کا ہو‘ محصولات کی تقسیم کا ہو‘ سرکاری افسروںکے تقرر اور تبدیلی کا ہو‘ ہر معاملہ الجھا ہوا ہے اور دلوں کو پھاڑنے اور بھائی کو بھائی سے جدا کرنے کا ذریعہ بنا ہواہے۔ صوبائی اسمبلیاں اتفاق رائے سے ایسی قراردادیں بھی منظور کررہی ہیں جو مرکزی اقدامات اور اعلانات کو چیلنج کر رہی ہیں۔ اعلیٰ ترین سرکاری ادارے اتفاق رائے سے فیصلہ کرنے سے محروم ہیں۔ ضلعی نظام کو صوبائی حکومتوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ پولیس بے لگام ہو رہی ہے اور جگہ جگہ عوام اور پولیس کا تصادم روز مرہ کا معمول ہو رہا ہے۔ لاقانونیت کا عفریت بے قابو ہورہا ہے اور ایک اندازے کے مطابق صوبہ سرحد کو چھوڑ کر ملک میں جرائم میں دوسو سے تین سو فی صد اضافہ ہوا ہے اور پولیس اور حکمران عناصر کا ایک حصہ بھی ان میں ملوث ہے۔ سول ججوں کو جیل خانے میںہلاک کیا جاتا ہے اور مجرم گرفت میں نہیں آتے۔ ڈاکے‘ قتل‘ اجتماعی زیادتیاں‘ تاوان کے لیے اغوا کی بھرمار ہے اور کوئی ظالموں اور قانون کا دامن تار تار کرنے والوں کو گرفت میں لانے والا نہیں۔مسجدیں اور امام بارگاہیں خون سے آلودہ ہیں اور مجرم قانون کی گرفت سے باہر۔ یہ صورت حال بہت ہی پریشان کن ہے اور اس میں بڑا دخل اس امر کا ہے کہ دستور اور قانون کی حکمرانی نہیں۔ اگر بڑے بڑے دستور توڑنے والے احتساب سے بالا ہیں تو پھرعام لوگ قانون شکنی میں پیچھے کیوں رہیں؟ اگر ملک کا نظام سندِجواز سے محروم ہے تو پھر عام آدمی اور افسر سے جائز (legitimate)عمل کی توقع کیسے کی جائے؟

اداروں کی تباہی کا ایک نہایت خطرناک پہلو یہ ہے کہ اب فوج اور سول سوسائٹی میں کش مکش اور تصادم کی ایسی مثالیں سامنے آ رہی ہیں جو ملک کے مستقبل کے لیے بری فال ہیں۔ اوکاڑہ کے مزارعوں سے تصادم‘ جرنیل کی گاڑی کے شیشوں پر سپاہی کے اعتراض کا معاملہ۔ ہم بڑے دکھ سے کہنا چاہتے ہیں کہ فوج جسے پوری قوم کی معتمدعلیہ ہونا چاہیے اور جسے سب کی تائید حاصل ہونا چاہیے وہ بار بار کی سیاسی دراندازیوں اور فوجی حکمرانی کے دور میں سیاست‘معیشت اور انتظامی امور میں ملوث ہونے کی وجہ سے اب سیاسی اختلاف اور انتظامی بدعنوانیوں کا ہدف بن رہی ہے۔

جنرل ضیاء الحق کے دور میں ڈھائی سو فوجی افسر انتظامی مشینری میں داخل کیے گئے تو جنرل مشرف کے دور میں یہ تعداد بڑھ کر ۱۰۲۷ ہوگئی ہے جو سول نظام کی بحالی اور شدید تنقید کی وجہ سے تبدیلیوں کے باوجود اس وقت ۷۰۰ سے زیادہ ہے‘ جب کہ سول انتظامیہ کے کئی سو افراد اوایس ڈی (’افسر بہ کار خاص‘)اور فارغ خطی کاشکار ہیں۔ فوجی ضرورتوں اور اعزازات کے نام پر زمینوں کے حصول‘ کنٹونمنٹ کے نظام کا سول انتظام سے بالا ہونا اور پھر سابق فوجیوں اور ان کے لیے قائم کیے گئے اداروں کا معاشی امپائر کی شکل اختیار کرلینا بھی تشویش اور کشیدگی کا باعث ہو رہا ہے۔ ایک گروہ کی نگاہ میں اس طرح فوج کی دفاع کی صلاحیت کمزور ہو رہی ہے اور اس کے کچھ عناصر ایک vested inteestکی شکل اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اس پس منظر میں چیف آف اسٹاف اور صدارت کے عہدوں کا ایک ہی شخص کے پاس ہونا‘ گورنری اور دوسرے اہم مقامات پر سابق فوجیوں کی موجودگی‘ سول انتظامیہ اور سفارتی عہدوں پر ان کا تقرر‘ صنعت‘ بنک کاری‘ تعلیم‘ غرض ہر میدان میں ان کے لیے ایک مخصوص مقام اور حیثیت کا انتظام اور انصرام سول نظام اور ملٹری کے معاملات کو متاثر کر رہا ہے اور ان میں جوہری تبدیلیوںکا ذریعہ بن رہا ہے جو فوج پر قومی اعتماد‘ اس کی غیرمتنازع حیثیت‘ اور اس کی دفاعی صلاحیت کو متاثر کر رہا ہے۔ فوجی قیادت اور سول انتظامیہ میں بھی بعد بلکہ ایک طرح کی رقابت (rivalry) کو جنم دے رہا ہے‘ فوج اور پولیس کے تعلقات میں کشیدگی رونما ہو رہی ہے اور سب سے بڑھ کر فوج اور عوام کے درمیان خلیج حائل ہو رہی ہے جو بہت خطرناک ہے۔ اگر جنرل مشرف اور فوج کی قیادت ان زمینی حقائق سے واقف نہیں تو یہ ایک سانحہ ہے اور اگر وہ اب بھی ان حالات کو سدھارنے کی فکر سے غافل ہیں تو یہ فوج اور ملک دونوں کے لیے اپنے دامن میں بڑے خطرات رکھتا ہے۔

ہم پوری دردمندی کے ساتھ فوجی قیادت اور سیاسی عناصر سے اپیل کرتے ہیں کہ ان معاملات کا سنجیدگی سے نوٹس لیں اور حالات کو سنبھالنے کی کوشش کریں۔ ملک پہلے ہی بیرونی خطرات اور اندرونی مشکلات میں مبتلا ہے۔ اداروں کے استحکام کے ذریعے ہی ہم ان خطرات اور مشکلات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ سول اور فوجی دونوں ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر ہی اس ملک کے استحکام اور مضبوطی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ‘ عدلیہ‘ سیاسی جماعتیں‘ وکلا‘ صنعت کار‘ تاجر‘ اساتذہ‘ طلبا‘ غرض ہر ایک کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کی حق تلفی کے بغیر یہ کام انجام دینا چاہیے۔ اسی میں سب کے لیے خیر ہے۔

دستوری‘ اداراتی اور سیاسی خلفشار اور شتر گربگی کے ساتھ ملک کی معاشی صورت حال بھی دگرگوں نظرآتی ہے۔ اس میدان میں گذشتہ چار سال اور خصوصیت سے پچھلے سال کی کارکردگی مثبت اور منفی دونوں پہلو اپنے جلو میں لیے ہوئے ہے۔ عالمی منڈیوں میں روپے کی قیمت میں بحیثیت مجموعی استحکام رہا‘ زرمبادلہ کے ذخائر میں معتدبہ اضافہ ہوا جس نے عالمی منڈی میں پاکستان کی rating کو بہتر بنایا۔ یہ ذخیرہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ۱۱ بلین ڈالر سے متجاوز کرگیا جو تقریباً سال بھر کی درآمدات کے مساوی ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس مثبت پہلو کا صرف جزوی کریڈٹ حکومت کی پالیسی کو جاتا ہے کیونکہ یہ اس کی میکرو اسٹابی لائی زیشن کا ایک نتیجہ ضرور ہے لیکن اس کے حصول میں بیرونی ترسیلات اور آزاد منڈی سے ڈالر کی خرید (kerb buying) کا بڑا حصہ ہے۔ زرمبادلہ کے ان ذخائر میں اضافہ ملکی پیداوار اور برآمدات میں نمایاں اضافے کا نتیجہ نہیں بلکہ اس میں بڑا دخل عالمی حالات اور مرکزی بنک کی زرمبادلہ کے managment کی کارگزاری کا ہے۔ اس کا جزوی طور پر جو کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے اور جس میں سالِ رواں میں تسلسل کی پالیسی کا بھی عمل دخل ہے‘ اس کے اعتراف میں ہمیں کوئی باک نہیں‘ لیکن جو پہلو بہت ہی تشویش ناک ہے وہ یہ ہے کہ اس کا کوئی حقیقی فائدہ عوام کو نہیں ملا۔

بیرونی قرضوں کے باب میں مرکزی حکومت کو ریلیف ضرور ملا مگر ملک میں غربت میں نہ صرف یہ کہ کمی نہیں ہوئی بلکہ واضح اضافہ ہوا ہے جس پر شماریات کی اُلٹ پھیر(jugglery) سے پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ اسٹیٹ بنک کی تازہ رپورٹ اس پر گواہ ہے۔ غربت جس کی گرفت میں ۱۵سال پہلے آبادی کا صرف ۲۰ فی صد تھا اب وہ ۳۳ فی صد ہوگیا ہے اور آزاد معاشی ماہرین کے اندازے کے مطابق یہ ۴۰ فی صد سے کم نہیں۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ۱۴ کروڑ آبادی میں ۵ سے ۶کروڑ انسان دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں۔ اقوام متحدہ کی سالانہ رپورٹ ۲۰۰۳ء جو ابھی شائع ہوئی ہے اس میں عالمی برادری میں ہماری غربت کی پوزیشن اور بھی نیچے چلی گئی ہے اور اب ہمارا مقام ۱۳۸ سے کم ہو کر ۱۴۴ پر آگیا ہے۔بے روزگاری میں بھی ۴۰ فی صد کے لگ بھگ اضافہ ہے جس کا نتیجہ ہے کہ فاقہ کشی کی نوبت ہے اور لوگ خودکشی کا الم ناک راستہ اختیار کر رہے ہیں۔

قیمتوں میں اضافے کا رجحان بھی برابر جاری ہے۔ اس ایک سال میں پیٹرول و تیل کی قیمتوں میں ۲۱ بار اضافہ اور صرف تین بار کمی ہوئی ہے اور مجموعی طور پر تیل کی قیمت میں ۳۰ فی صد کے لگ بھگ اضافہ ہوا ہے۔ یہی حال بجلی‘ پانی‘ گیس‘ ادویات اور دوسری ضروریاتِ زندگی کی قیمتوں کا ہے۔ اس نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ اس پر مستزاد زندگی کے ہر شعبہ میں اور ہر سطح پر بدعنوانی اور کرپشن کا دور دورہ ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی ۲۰۰۳ء کی رپورٹ کرپشن میں اضافے کی تصویر پیش کرتی ہے۔ حکومت کے سارے دعووں کے باوجود بیرونی اور اندرونی سرمایہ کاری میں خاطرخواہ اضافہ نہیں ہوا اور نہ ہی اضمحلال کے شکار معاشرتی اقتصادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے اور ترقی دینے کی کوئی موثر کوشش سامنے آئی ہے۔ خواہ نظری طور پرModis' rating  میں اضافہ ہو گیا ہو مگر عملاً بلاواسطہ بیرونی سرمایہ کاری ۱۹۹۰ء       کے عشرے کے مقابلے میں نہیں بلکہ خود۲۰۰۱-۲۰۰۲ء کے مقابلے میں بھی کم ہوئی ہے اور  ایشین ڈویلپمنٹ بنک کے تازہ ترین تبصرہ کی رو سے اس کی بڑی وجہ  وہ سیاسی بحران اور بے یقینی ہے جس میں ملک مبتلا ہے:

غیریقینی قومی اور علاقائی صورت حال کی وجہ  سے پاکستان کے لیے بیرونی قرضوں کی سطح کم رہی ہے۔ اس کا ایک عنصر غیریقینی سیاسی منظر ہے لیکن سرمایہ کاری کی عمومی فضا کے خراب معاشی اور ادارتی پہلوئوں نے بھی منفی اثر ڈالا ہے۔ (دی نیوز‘ ۱۵ نومبر۲۰۰۳ئ)

بنک کاری کا شعبہ مشکلات سے دوچار ہے۔ قومی بنکوں نے ۱۴۵۹ شاخیں بند کرنے اور عملے میں تقریباً ۴۰ فی صد کمی کے باوجود نہ اخراجات میں کمی کی ہے اور نہ non-performing قرضوں کی پوزیشن خطرے سے باہر ہوئی ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی نے کوئی کام شروع نہیں کیا لیکن وزارتِ خزانہ کی ایک رپورٹ جو ۲۰۰۱-۲۰۰۰ء سے متعلق ہے یہ خبردیتی ہے کہ سرکاری محکموں کے آڈٹ سے پتا چلتا ہے کہ ۱۰ کھرب ۴۷ ارب روپے کی رقوم میں سے ایک کھرب ۴۲ارب اور ۹۰ کروڑ روپے کی رقوم کا استعمال قواعد کے مطابق نہیں ہوا۔ یعنی ۱۰فی صد سے بھی زیادہ سرکاری اخراجات یا بلاجواز تھے یا ان کا ناجائز استعمال ہوا۔

اس صورتِ حال کو کسی پہلو سے بھی قابلِ رشک قرار نہیں دیا جا سکتا۔


خارجہ سیاست کے باب میں بھی کارکردگی مایوس کن ہے۔ ہم جس طرح امریکہ کے شکنجے میں کسے جاچکے ہیں وہ ملک کی آزادی اور حاکمیت کو مجروح کر رہا ہے۔ عالمی وقار میں کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ ہمارے روایتی دوست بھی پہلے جیسی گرمجوشی نہیں دکھا رہے جو بہت تشویش ناک ہے۔ امریکہ کی دوستی تو کبھی بھی قابلِ اعتماد نہ تھی۔ اس کا مسلسل رویہ یہ ہے کہ ہر خدمت اور چاکری کے بعد ھل من مزید کا مطالبہ کرتا ہے۔ اور نیوکلیر پھیلائو اور دہشت گردی میں مطلوبہ سے کم تعاون پر ہاتھ مروڑنے اور بلیک میل کرنے کا وطیرہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ چین اور ایران سے تعلقات میں پہلی سی گرمی نہیں۔ بھارت کی ساری ناز برداریوں کے باوجود اس کا رویہ خطرناک حد تک معاندانہ اور ہمارا شرم ناک حد تک عاجزانہ ہے۔ افغانستان میں بھارت کا عمل دخل بڑھ رہا ہے اور ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں‘ بلکہ اب تو بھارت تاجکستان میں فوجی اڈے بنارہا ہے اور ہمارا عالم ہے کہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم! قابلِ اعتماد دوستوں کا فقدان ہے۔ جو حقیقی دوست تھے اور ہمیں ان سے کبھی کوئی خطرہ نہ تھا‘ ان کو ہم نے دشمن قرار دے دیا ہے۔ عرب دنیا کے عوام میں ہماری عزت خاک میں مل چکی ہے۔ خود جنرل صاحب فرما رہے ہیں کہ ’’اگر کوئی مشکل وقت آیا تو کوئی ہمارا ساتھ دینے والا نہیں ہوگا‘‘۔اس سے زیادہ خارجہ سیاست کے افلاس کی کیا کیفیت ہوسکتی ہے ۔ یہ سب اس حالت میں ہے کہ قومی سلامتی اور خارجہ سیاست کی ساری باگ ڈور پارلیمنٹ یا وزارت خارجہ کے ہاتھ میں نہیں بلکہ بلاواسطہ ایوان صدارت کی گرفت میں ہے اور بش سے ساری ذاتی دوستی اور ’’جب چاہوں ٹیلی فون کر لوں‘‘ کی تعلیوں کے باوجود ہماری مقبولیت کا گراف نیچے گیا ہے اور آزادی اور خودانحصاری کی فصیل میں بڑے بڑے شگاف پڑگئے ہیں۔ داخلی اور خارجہ کارکردگی کا یہ جائزہ روشنی سے محروم اور تاریکیوں اور مسائل کے گمبھیر بادلوں سے فضا کی آلودگی کا منظرپیش کرتا ہے۔


اس سال کا ہمارا یہ جائزہ نامکمل رہے گا اگر ہم مرکزی اداروں اور قیادت کی مایوس کن کارکردگی کے مقابلہ میں صوبہ سرحد کی متحدہ مجلس عمل کی حکومت اور اسمبلی کی کارکردگی کے چند پہلوئوں کا ذکر نہ کریں جو امید کی ایک کرن کی حیثیت رکھتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں ایم ایم اے کی کامیابی ایک تاریخی امر ہے جس سے پاکستان کی سیاست میں جوہری تبدیلیوں کا آغاز ہوگیا ہے۔ ایم ایم اے کا قیام انتخابات سے صرف دو ماہ قبل ہوا اور اسے انتخابی مہم کے لیے بہت کم وقت ملا لیکن اس کے باوجود صوبہ سرحد اور صوبہ بلوچستان ہی میں نہیں‘ بلکہ ملک کے اہم ترین سیاسی اور تجارتی شہروں یعنی کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد‘ راولپنڈی‘ حیدرآباد اور گوجرانوالہ میں اس کی کامیابی اور ملک کے مختلف علاقوں میں ایک معتدبہ تعداد میں اس کے نمایندوں کا دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کرنا ملک گیر پیمانے پر ایک نئے رجحان کا غماز ہے۔ عوام دینی قوتوں کے اتحاد میں اپنے لیے ایک روشن مستقبل کی جھلک دیکھتے ہیں۔ وہ روایتی سیاسی جماعتوں سے مایوس ہیں جو بااثر اور مخصوص طبقات کے مفادات کی محافظ بن کر رہ گئی ہیں اور جنھیں بار بار مواقع دینے کے باوجود عوام ان کی کارکردگی سے مایوس ہیں اور موجودہ پارلیمنٹ کی عدم کارکردگی نے بھی ان کے اس احساس کو اور بھی قوی کر دیا ہے کہ ان جماعتوں اور طبقوں کے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں۔ ایم ایم اے کی پوری قیادت عوام میں سے ہے اور اس کا تعلق متوسط طبقے سے ہے جو عوام کے مسائل اور معاملات سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ ایم ایم اے نے ملکی اور بین الاقوامی ایشوز پر ایک واضح پالیسی اختیار کی ہے اور وہ ملک کی آزادی‘ معاشی خوش حالی اور دینی اخلاقی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت کی علم بردار ہے۔ وہ خودانحصاری کی داعی اور ملک کی امریکی حاشیہ برداری سے نجات کے لیے کوشاں ہے۔

اکتوبر کے انتخابات کے بعد صرف صوبہ سرحد سے اسے اکثریت حاصل تھی اس لیے اس نے اس صوبے میں اپنی حکومت قائم کی اور مرکز میںاپنے اصولی موقف کے مطابق حزبِ اختلاف کا کردار ادا کر رہی ہے۔ سرحد میں حکومت اور اسمبلی کی کارکردگی کے چند پہلو‘ ان تمام مشکلات اور تحدیدات کے باوجود جو مرکز کی طرف سے اسے پیش آئیں اور مرکز کے نمایندے کی گورنری کے منصب پر موجودگی اور اس کی سیاسی معاملات میں مداخلت نے جنھیں اور بھی گمبھیر کر دیا تھا‘ نوٹ کرنے کے لائق ہیں۔

پہلی چیزیہ ہے کہ سرحد میں ایک مختصر کابینہ بنائی گئی جس نے پورے سال بڑی محنت سے کام کیا اور سادگی‘ عوام کی خدمت گزاری اور ہر وقت ان کی پہنچ میں ہونے اور ان کے درمیان پہلے کی طرح زندگی کے شب و روز گزارنے کی اچھی مثال قائم کی۔ مراعات کی لوٹ کھسوٹ کے مقابلے میں خدمت کی ایک شاہراہ روشن کی۔ الحمدللہ اس کا اعتراف دوست دشمن سب کر رہے ہیں۔

دوسری چیز اسمبلی کی کارکردگی ہے۔ صوبائی اسمبلی قومی اور صوبائی معاملات پر بحث و مشورے کا محور اور مرکز رہی ہے۔ دستوری اعتبار سے سال میں صوبائی اسمبلی کا اجلاس ۷۰ دن ہونا ضروری ہے مگر سرحد اسمبلی نے ۹۹ دن کام کیا اور ان بارہ مہینوں میں ایک بار بھی کورم کا مسئلہ پیش نہ آیا۔ اس سال ۱۳ بل منظور کیے جن کا تعلق زندگی اور حکمرانی کے مختلف شعبوں سے تھا۔ خصوصیت سے شریعت بل‘ ہائیڈل پاور بل‘ غیرمنقولہ جایدادوں کا بل‘ ہیلتھ اور ہوسپٹل سروس بل وغیرہ۔ ان ۱۳ بلوں کے علاوہ بھی تین بل اسمبلی میں آئے جن میں ایک نامنظور ہوا اور دو ضروری تائید نہ ہونے کی وجہ  سے پیش نہیں ہو سکے۔ اسمبلی میں ۶۶ قراردادیں متفقہ طور پر اور دس اکثریتی ووٹ سے منظور ہوئیں جن کا تعلق ملکی اور صوبائی مسائل سے تھا۔ ان میں عالمی امور پر صوبے کی اسمبلی کی رائے بھی شامل ہے۔ پانی‘ بجلی‘ تعلیم‘ صحت جیسے امور کے بارے میں قراردادیں بھی ہیں۔

سرحد اسمبلی کی کارکردگی کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ تمام امور پر کھل کر بحث ہوئی اور حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان نہ صرف یہ کہ بڑی خوش گوار فضا رہی بلکہ بیشتر معاملات میں حکومت اور حزبِ اختلاف نے مکمل ہم آہنگی کے ساتھ کام کیا اور سرحد کی روایات کے مطابق جرگے کے طریقہ کو اختیار کیا۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے کہ صوبہ سرحد کا بجٹ اور شریعت بل دونوں مکمل اتفاق رائے سے منظور ہوئے۔ صوبائی اسمبلی کے ارکان کے ذریعے جو ترقیاتی فنڈاستعمال ہوتے ہیں ان میں حکومتی جماعت اور حزبِ اختلاف کے ارکان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کی گئی۔

سرحد اسمبلی نے اپنی ۲۹ مجالس قائمہ بھی پہلی فرصت میں قائم کر دیں جو اسمبلی کے ساتھ ساتھ اپنا کام انجام دے رہی ہیں۔ پبلک اکائونٹس کمیٹی نے بڑی موثر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور متعدد بدمعاملگیوں کا سراغ لگایا ہے اور ان کا احتساب کیا ہے۔ تمام بلوں پر متعلقہ کمیٹیوں نے غور کیا ہے اور ہیلتھ کمیٹی نے ماضی میں (فوجی حکومت کے دور میں) اختیار کی جانے والی کئی پالیسیوں میں تبدیلی کی ہے اور کمیٹی کی رپورٹ کو سرحداسمبلی سے منظورکرا کے نافذ کرا دیا ہے۔

صوبہ میں تعلیم‘ صحت اور ڈویلپمنٹ کے میدانوں میں نئی پالیسیوں اور اقدامات کااہتمام کیا گیا ہے اور صوبے کے حقوق‘ خصوصیت سے پن بجلی کے سلسلے میں صوبے کی رائلٹی کے معاملے میں واضح پالیسی اختیار کی گئی ہے اور اسے بھی کل جماعتی بنیادوں پر آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ بجٹ میں بھی کئی اہم امور میں پہل قدمی کی گئی جن میں فلاحی بجٹ (welfare budget) ایک لازمی حصہ کے طور پر شامل کرنا اہمیت کا حامل ہے۔ عام ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے مگر کابینہ اور ارکانِ اسمبلی نے اپنے مشاہروں میں کوئی اضافہ نہیں کیا بلکہ وزیراعلیٰ اور سینیر وزیر نے اپنے اپنے مشاہرے میں علامتی کمی کا اعلان کیا ہے۔

صوبہ سرحد میں اسلامی بنک کاری کو متعارف کرانے کے الیکشن کے دعویٰ پر بھی پوری سنجیدگی سے کام ہوا ہے اور پہلے ہی سال اسٹیٹ بنک کی اجازت اور تعاون سے خیبربنک کی ایک شاخ نے مکمل اسلامی بنک کاری کا آغاز کر دیا ہے اور اس شاخ کا باقاعدہ افتتاح ۲۷رمضان المبارک کو عمل میں آ رہا ہے۔

صوبہ سرحد میں ایم ایم اے نے جو روشن مثال قائم کی ہے جو مستقبل کے لیے ایک  نیک فال ہے ۔ ایم ایم اے کو تقسیم کرنے اور بدنام کرنے کی ساری کوششوں کے باوجود الحمدللہ ایم ایم اے نے نہ صرف یہ کہ اپنے اتحاد کو قائم رکھا ہے بلکہ حکمرانی‘ عوامی خدمت اور اسلامی شعائر کے مکمل احترام کی ایک روشن مثال قائم کی ہے۔ بلاشبہہ یہ صرف ایک آغاز ہے اور ابھی بہت کام کرنا ہے لیکن انگریزی محاورے کے مطابق: Well begun is half done ۔ اس سرسری موازنے سے قوم کے سامنے امید کی ایک نئی کرن آتی ہے اور اقبال کا ہم زباں ہو کر یہ کہا جا سکتا ہے    ؎

کھول کر آنکھیں مرے آئینہ گفتار میں

آنے والے دور کی دھندلی سی ایک تصویر دیکھ

صدربش بڑے باہمت لوگوں میں سے ہیں اور اگر ان کے ایک غبارے میں سے ہوا نکل جاتی ہے تو فوراً ہی دوسرا غبارہ فضا میں لے آتے ہیں۔ انتخاب سے پہلے انھوں نے قوم اور دنیا کو یہ امید دلائی تھی کہ امریکہ کے لیے صحیح رویہ انکساری اور غرور و تکبر سے پرہیز ہے لیکن صدر بننے کے بعد اور خصوصیت سے ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد غرورو تکبر ان کی پہچان اور امریکی پالیسی کا مزاج بن گئے‘ اور جس فرعونیت کا انھوں نے مظاہرہ کیا ہے اس نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ پھر انصاف کے نام پر انتقام کی روش پر وہ گامزن ہو گئے اور افغانستان کو تہس نہس کر ڈالا۔ پھرعمومی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں(WMD)کی تلاش ان کا ہدف بن گیا اور وہ ہاتھ دھو کر عراق اور صدام کے پیچھے پڑ گئے۔ اس زمانے میں کروسیڈز (صلیبی جنگیں)کا شوق بھی ان کو لاحق ہو گیا۔ عالمِ اسلام کی منفی رائے کی روشنی میں وہ اس لفظ کے استعمال کے باب میں محتاط ہو گئے لیکن عملاً وہ اور ان کے ساتھی امریکہ ہی نہیں پوری دنیا میں کروسیڈز میں مصروف ہیں اور ہدف مسلمان اور عرب ممالک ہیں۔ پھر بش ڈاکٹرائن(Bush Doctrine) نے جنم لیا اور اس میں پیش بندی کے طور پر حملے اور حکومتوں کی تبدیلی کے اہداف مرکزیت اختیار کر گئے۔ امریکہ نے ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود عراق پر فوج کشی کی اور اب ایک ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں جو امریکیوں کو ویت نام کے خوف ناک خواب (nightmare)کی یاد دلا رہی ہے۔

عراق میں گئے تھے اس دعوے کے ساتھ کہ تباہی کے ہتھیاروں کا پردہ چاک کر دیں گے لیکن پردہ ان کے دعویٰ کا چاک ہوا۔ نہ کوئی عمومی تباہی کے ہتھیار وہاں سے ملے اور نہ ان کو تیار کرنے کی صلاحیت کا کوئی ثبوت وہ پاسکے۔ پھر ان کا خیال تھا کہ عراقی عوام ان کو اپنا نجات دہندہ سمجھیں گے اور سر پر بٹھائیں گے لیکن عملاً عراقی عوام نے ان کے قبضے کو سامراجی قبضہ قرار دیا اور اس کے خلاف مزاحمت کی تحریک روز بروز طاقت پکڑ رہی ہے‘ اور امریکی عوام روزانہ اپنے فوجیوں کی لاشوں کے تحفے وصول کر رہے ہیں۔ اس نے ملک کے طول و عرض میں بے چینی اور اضطراب پیدا کردیا ہے اور بش مخالف رجحان کو تقویت دی ہے۔ ان حالات میں        بش صاحب اپنی فوج کشی کے لیے ایک نئے جواز اور عالمی کروسیڈ کے لیے ایک نئے ہدف کی تلاش میں ہیں۔ قرعہ فال اس دفعہ ’’جمہوریت کے عالمی فروغ‘‘ کے نام نکلا ہے۔ ۶نومبر کو National Endowment for Democracy  کے ایک اجتماع میں ایک اہم پالیسی خطاب میں صدربش نے کہا کہ امریکہ کی ۶۰سالہ پالیسی جس کے تحت سیاسی آزادیاں نہ دینے والی حکومتوں کی حمایت کی گئی ناکام ہوگئی ہے۔ اس پالیسی نے امریکہ کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا کیونکہ آزادی کی قیمت پر استحکام حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے خصوصیت سے پورے مشرق وسطیٰ کے لیے جمہوریت کی ضرورت پر زور دیا اور جمہوریت کی کمی کو تشدد اور دہشت گردی کا ایک اہم سبب قرار دیا اور آمریت اور تھیاکریسی (ملائیت) کو خصوصیت سے تنقید کا ہدف بھی بنایا۔ کچھ ممالک کو نام لے کر نشانہ بنایا اورکچھ کے بارے میں واضح اشارے دیے۔ اب اس تقریر کو عراق میں فوج کشی جاری رکھنے کے لیے وجہِ جواز بنایا جا رہا ہے اور آیندہ کی جولانیوں کے لیے فضا ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

آزادی اور جمہوریت دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کو عزیز ہے لیکن اس لیے نہیں کہ امریکہ ان کے لیے جمہوریت کی کوئی شکل فراہم یا مسلط کرے۔ یہ ان کا داخلی معاملہ ہے اور اپنے سیاسی نظریات اور تہذیبی روایات کی روشنی میںوہ اپنے نظام کی اصلاح اپنی ذمہ داری سمجھتی ہیں۔ امریکہ جمہوریت کے بارے میں کتنا مخلص ہے اس کا اندازہ اس کے تاریخی کردار کے علاوہ آج کے سامراجی عزائم سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کی پالیسی منافقت اور دوغلے پن پر مبنی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ان کے دعووں کو خود امریکی عوام اب تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ تازہ ترین عوامی جائزوں کے مطابق امریکی عوام کے ۵۰ فی صد سے زیادہ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی قیادت نے ان سے غلط بیانی کی اور عراق پر حملے کے لیے کوئی حقیقی جواز موجود نہیں تھا۔

حال ہی میں ٹائم یورپ نے ایک عالمی سروے کیا جس میں ۷ لاکھ افراد نے حصہ لیا۔ سوال یہ تھا کہ دنیا کو آج سب سے زیادہ خطرہ کس سے ہے؟ اس کے جواب میں ۸۷ فی صد نے کہا :امریکہ۔ شمالی کوریا کو خطرہ سمجھنے والے صرف ۷.۶ فی صد تھے اور ایران کو ۳.۶۔

صدر جارج بش نے امریکہ کے دستور اور جمہوری روایات کو بری طرح پامال کیا ہے۔ آج قانون کی حکمرانی کا اصول جو جمہوریت کی روح ہے‘ خود امریکہ میں ہزاروں انسانوں کے لیے توڑا جا رہا ہے۔ عدالتی حکم اور جرم کے ثبوت کے بغیر انسانوں کو آزادیوں سے محروم کرنا جمہوریت نہیں جنگل کا قانون ہے۔ امریکہ اس پر گامزن ہے۔ گوانٹاناموبے میں دو سال سے سیکڑوں افراد ہر قسم کی قانونی دادرسی سے محروم پڑے ہوئے ہیں اور امریکہ دنیا کو جمہوریت کا وعظ پلا رہا ہے۔ حب الوطنی کے نام پر شہریوں کے پرائیویسی کے حق کو پامال کیا جا رہا ہے۔ امیگریشن قوانین کو انسانوں کے درمیان بدترین امتیازکے لیے بے محابا استعمال کیا جا رہا ہے۔ میڈیا نئے قسم کے موثر thought control(سوچ پر پابندی) کا آلہ بن گیا ہے اور فکری آزادی کو زنجیریں پہنانے کے لیے امریکہ کے ایوانِ نمایندگان نے ۲۱ اکتوبر کو ایک ایسا قانون (HR 3077) عظیماکثریت سے منظور کر لیا ہے جس کی رو سے جامعات میں تعلیم اور تحقیق کی آزادی کو محدود کیا جا رہا ہے اور خصوصیت سے شرق اوسط کے بارے میں نصابات‘ اساتذہ اور تحقیق کو بیڑیاں پہنائی جا رہی ہیں۔

امریکہ نے خود اپنی سرزمین پر بسنے والے اصل باشندوں سے جنھیں ریڈ انڈین کہا جاتا ہے‘ کیا سلوک کیا۔ اپنی سیاہ فام آبادی جسے اب ایفرو امریکن کہا جاتا ہے اور جو آبادی کا پانچواں حصہ ہے‘ اس کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا اور زیادہ ’مہذب‘ (sophisticated) شکلوں میں آج بھی ہو رہا ہے۔ اسے اگر نظرانداز بھی کر دیا جائے اور صرف جارج بش کے دورِاقتدار کے جمہوریت کش اقدامات کا جائز ہ لیا جائے توجمہوریت اور آزادیوں کا حال صدر بش کے امریکہ میںدگرگوں ہے--- دنیا کو جمہوریت کا سبق سکھانے سے پہلے اگر وہ خود اپنے گھر کی کچھ فکر کرلیں تو امریکہ کے لیے بہتر ہوگا۔

صدربش کی تقریر سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اب جمہوریت کے عنوان کو وہ اپنے سامراجی عزائم کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کو اس میں بھی اسی طرح ناکامی ہوگی جس طرح افغانستان اور عراق میں ہوئی ہے۔ ہمیں خطرہ ہے کہ جس طرح دہشت گردی کے خلاف ان کی نام نہاد جنگ مزید دہشت گردی کو فروغ دینے کا ذریعہ بن رہی اسی طرح جمہوریت کے فروغ کی جنگ جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوگی    ؎

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

جب ہر طرف سے بری خبریں آ رہی ہوں تو ایسے میں اگر کوئی اچھی خبر ملے تودل خوشی اور استعجاب کے جذبات سے معمور ہو جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک رپورٹ راونڈا سے حال ہی میں موصول ہوئی ہے جو تاریکیوں میں روشنی کی کرن ہی نہیں‘ اسلام کی ناقابلِ تسخیر صلاحیت کا ایک نیا مظہر بھی ہے۔

سب جانتے ہیں کہ راونڈا ان مظلوم ممالک میں سے ہے جو ۱۰ سال قبل کی خانہ جنگی کے باعث زبوں حال ہے اور وہاں کی دونوں بڑی قوموں ٹٹسی (Tutsi) اور ہوٹو (Hutu)کا قبرستان بن گیا ہے۔ اس خانہ جنگی میں ۱۰ لاکھ سے زیادہ افراد قبائلی آگ کا ایندھن بن گئے ہیں۔ ملک کی معیشت تباہ ہو گئی ہے‘ غربت و افلاس کا طوفان بپا ہے اور جہالت اور انتقام کی اس جنگ میں عالم اور عامی‘ حکمران اور عوام‘ فوج اور پولیس‘ حتیٰ کہ پادری اور عیسائی مذہبی سب ہی شریک ہوگئے اور ایک دوسرے کا سر قلم کرنے‘ مال و دولت لوٹنے اور عزت و عصمت کو تار تار کر دینے کے وحشیانہ کھیل میں شریک ہو گئے۔

راونڈا میں مسلمان ایک معمولی اقلیت تھے بمشکل ۲.۱ فی صد۔ لیکن خانہ جنگی کے اس خونی دور میں ان کا کردار منفرد رہا۔ انھوں نے کسی قبیلے کا ساتھ نہ دیا‘ کسی ظلم میں شریک نہ ہوئے بلکہ اپنی ساری قوت اس آگ کو بجھانے اور مظلوم انسانوں کو پناہ دینے کے لیے وقف کر دی‘ بلالحاظ اس کے کہ ان کا تعلق کس نسل اور قبیلے سے ہے۔ چند سال کی اس کوشش کے حیران کن نتائج رونما ہوئے۔ ہزاروں افراد نے اسلام قبول کیا اور لاکھوں کا تصور اسلام کے بارے میں بالکل بدل گیا۔ مسلمان غریب ہیں اور تعلیم کے میدان میں پیچھے۔ لیکن اپنے اخلاق اور خدمت کے ذریعے انھوں نے اسلام کے لیے بند راستوں کو کھول دیا اور اب عزت و احترام کے ساتھ ان کو ایسے اعوان و انصار میسر آگئے ہیں جو زندگی کے ہر شعبے اور خصوصیت سے نئی فوج اور انتظامیہ میں اسلام کے دوستی اور اخوت کے پیغام کے علم بردار بن گئے ہیں۔ اس وقت اے ایف پی کے ایک جائزے (دی نیوز‘ ۱۱نومبر ۲۰۰۳ئ) کے مطابق مسلمانوں کی آبادی یدخلون فی دین اللّٰہ افواجا کے نتیجے میں ملک کی آبادی کا تقریباً ۱۰ فی صد تک پہنچ چکی ہے۔ اے ایف پی کی اس رپورٹ کے چند اقتباسات پیش ہیں۔ Rawanda Patriotic Front کا ایک سپاہی جس کا اب اسلامی نام اسحق ہے‘ اپنے تاثرات یوں بتاتا ہے:

جب میری یونٹ کگالی میں آئی اور میں نے دیکھا کہ میرے کتنے ہی ساتھیوں کو مسلمانوں نے چھپایا اور اس طرح ان کی زندگی بچائی تو میں مسلمان ہوگیا۔

ایک رومن کیتھولک ژان پیرے سگاہاٹھ نے جس نے اسلام قبول کرلیا اور اب ایک ٹیکسی چلاتا ہے‘ اے ایف پی کو بتایا:

میں ایک مسلمان ادریس کے گھر کے پیچھے زیرزمین ٹینک میں چھپا ہوا تھا۔ صرف اسی کو معلوم تھا کہ میں کہاں ہوں۔ اگر وہ دھوکا دیتا تو میں قتل کر دیا جاتا لیکن اس نے مجھے دھوکا نہیں دیا۔

راونڈا کے سیکڑوں باسی یہی داستان سناتے ہیں اور اپنے دائرہ اسلام میں داخل ہونے کو اس کا فطری نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق:

جن لوگوں نے مسجدوں میں پناہ لی وہ عام طور پر اس ملیشیا اور فوجیوں سے محفوظ رہے جو ٹٹسیوں کو تلاش کر کے قتل کر رہے تھے۔اس کے مقابلے میں کلیسائوں کا ریکارڈ افسوس ناک ہے۔

اس جائزے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ۱۹۹۴ء میں جب ۱۰۰ دن کے اندر ۱۰ لاکھ افراد ہلاک کر دیے گئے تھے اس کے فوراً بعد اسلام کی طرف رجوع بڑھ گیا اور ٹٹسی ہی نہیں خود ہوٹو کی بھی ایک تعداد نے اسلام قبول کیا۔ کچھ نے مسلمانوں کے انصاف پسند اور رحم دلانہ رویے سے متاثر ہو کر اور کچھ نے نئے حالات میں ٹٹسیوں کے انتقام سے بچنے کے لیے‘ جب کہ ٹٹسی  بڑی تعداد میں حلقہ بگوش اسلام اس لیے ہوئے کہ مسلمانوں نے ان کو تحفظ فراہم کیا اور انسانی ہمدردی اور خدمت کی اعلیٰ مثال قائم کی۔

آج راونڈا میں مسلمانوں کی تعداد برابر بڑھ رہی ہے‘ ہر طبقہ ان کی عزت کرتا ہے۔ راونڈا کے طول و عرض میں مسجدوں کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے جس کے سبز گنبد اور سفید   مینار آزادی اور انسانیت کی علامت بن گئے ہیں۔ راونڈا کے مسلمان غریب ہیں۔ مگر انھیں فخر ہے کہ وہ اپنے معاملات کسی بیرونی امداد کے بغیر اپنے ہی محدود وسائل سے چلا رہے ہیں بقول اے ایف پی: مسلمان کمیونٹی رواداری کا بہترین نمونہ پیش کرتی ہے اور تمام مذاہب اور قبائل سے ان کے تعلقات نہایت دوستانہ ہیں جو باہمی احترام اور عزت انسانی کی اچھی مثال پیش کرتے ہیں۔ کیا پاکستان اور دوسرے روایتی ’عظیم‘ مسلمان ممالک کے لیے راونڈا کے غریب مسلمانوں کے اسوے میں کوئی سبق ہے؟

آباد صاحب بیمار تو ایک عرصے سے تھے اور اسی سال فروری میں ان کی اہلیہ کے انتقال نے ان کی صحت اور ہمت دونوں ہی کو متاثر کیا تھا لیکن سارے مصائب کے باوجود وہ مرد درویش اس مقصد کی خدمت کے لیے بے چین تھا جس کے عشق نے اس کی جوانی اور بڑھاپے کے  شب و روز اپنا لیے تھے۔ تحریک اسلامی کا یہ بوڑھا سپاہی جماعت اسلامی کی تاریخ اور      مولانا مودودی کی سوانح لکھنے کے لیے بے چین تھا اور اپنا یہ کام اُدھورا چھوڑ کر ۲۹ ستمبر ۲۰۰۳ء کو رفیقِ اعلیٰ سے جاملا۔اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!

آباد شاہ پوری صاحب سے میرا پہلا تعارف اس زمانے میں ہوا جب وہ اُردوڈائجسٹ سے وابستہ تھے (۱۹۶۴ئ-۱۹۸۰ئ)۔ اس سے پہلے وہ کوثراور تسنیم سے بھی وابستہ رہے لیکن اس دور میں میرا ان سے کوئی ربط نہ تھا۔ اُردو ڈائجسٹ میں ان کے مضامین نے چونکا دیا--- خصوصیت سے تاریخ‘ سیرت اور شخصیت نگاری کے میدان میں ان کی تحریریں بڑی دل نشیں‘ ایمان افروز اور آرزو کو بیدار کرنے والی تھیں۔ ان کی کتابوں میں مجھے سب سے زیادہ عزیز سید بادشاہ کا قافلہ ، پہاڑی کے چراغ اور اسلامی زندگی کی کہکشاں تھیں۔ تحریکی ادب میں آباد شاہ پوری کی یہ اہم خدمت ہے کہ انھوں نے دماغ کے ساتھ دل کی غذا کا بندوبست کیا اور نوجوانوں کو ولولۂ تازہ دینے کا کام انجام دیا۔

آباد شاہ پوری مرحوم کا اصل نام محمد خورشید الزماں تھا اور وہ تحصیل و ضلع خوشاب میں ۴جون ۱۹۲۳ء کو پیدا ہوئے۔ پہلے منشی فاضل‘ پھر پنجاب یونی ورسٹی سے ایم اے اُردو کی سند حاصل کی۔ اُردو‘ عربی‘ فارسی اور انگریزی پر عبور تھا اور صحافت‘ شعروادب‘ تاریخ و سوانح اور تحقیق و تصنیف کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ عالمِ اسلام کے مسائل اور مسلمانوں کے حالات سے خصوصی دل چسپی تھی اور ان کی تحریر کے جس پہلو نے مجھے متاثر کیا‘ وہ تاریخی شعور کی روشنی‘ ادب کی چاشنی اور سب سے بڑھ کر امید اور جذبۂ کار کو بیدار کرنے والا ولولہ تھا۔ اس میں زندگی ہی زندگی اور جدوجہد ہی جدوجہد کا سماں نظر آتا تھا۔ آباد شاہ پوری زبان کی صحت کا بڑا خیال رکھتے تھے اور مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ ان کی زبان اُردوے معلی کا بہترین نمونہ تھی۔ الحمدللہ وہ کسی لسانی تعصب میں مبتلا نہیں تھے لیکن میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ وہ پنجاب کے اُردو کے ان خادموں میں سے ایک تھے جنھوں نے اپنی تحریر پر مقامی محاورے کا کوئی سایہ نہیں پڑنے دیا اور ان کی نگارشات کے مطالعے سے یہ پتا لگانا مشکل ہے کہ صاحب ِ نگارش کا تعلق کس خطے سے ہے۔ اپنی بات کی وضاحت کے لیے پطرس کا ایک قول بطور جملۂ معترضہ کے لکھ دوں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اہل زبان میں بحث ہو رہی تھی کہ ’’مجھے پشاور جانا ہے‘‘ اور ’’میں نے پشاور جانا ہے‘‘ دونوںمیں سے صحیح یا یوں کہہ لیجیے کہ فصیح کیا ہے تو پطرس نے کہا: فصیح تو ’’مجھے پشاور جانا ہے‘‘ ہی ہے مگر ’’میں نے پشاور جانا ہے‘‘ لکھنے والے کے بارے میں یہ بھی پتا چل جاتا ہے کہ آکہاں سے رہا ہے۔

مجھے آباد صاحب سے ۱۹۸۰ء کے بعد بہت قریب سے معاملہ کرنے کا موقع ملا۔ وہ ایک عرصہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے وابستہ رہے اور اس کے بعد بھی اگرچہ ادارہ معارف اسلامی لاہور سے وابستہ تھے مگر واسطہ انسٹی ٹیوٹ ہی تھا۔ میں نے ان کو ایک بلند پایہ محقق‘ ایک بے لاگ نقاد‘ ایک روشن خیال ادیب‘ ایک مخلص ساتھی اور سب سے بڑھ کر ایک اچھا انسان پایا۔ دنیاطلبی کی کوئی جھلک ان کی زندگی میں نہ تھی اور آخری ایام میں جب وہ کام کرنے سے اپنے کو معذور پا رہے تھے تو یہ کہہ کر اعزازیہ لینے سے انکار کر دیا کہ میں کام نہیں کر پا رہا ہوں    ؎

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

آباد صاحب نے اپنی زندگی کے آخری ۲۰ سال جماعت اسلامی پاکستان کی تاریخ اور مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی سوانح حیات لکھنے کے لیے وقف کر دیے تھے۔ انھوں نے تحقیق کا حق ادا کیا اور لاکھوں صفحات کھنگال کر نوٹس تیار کیے۔ جماعت کی تاریخ کی وہ صرف دو جلدیں مرتب کرسکے۔ افسوس کہ پوری تیاری کے باوجود مولانا کی سوانح وہ ضبط ِ تحریر میں نہ لا سکے اور اپنی ساری تخلیق کا حاصل اپنے ساتھ ہی لے گئے جو اہلِ علم کے لیے بڑی محرومی ہے۔ اگر انھیں مولانا کی سوانح لکھنے کی مہلت مل جاتی تو یہ تحریکی ادب میں ایک بیش قیمت اضافہ ہوتا۔ لیکن امرربی کے آگے کسی کو کیا مجال!

آباد صاحب شاعر بھی تھے لیکن میں اس راز سے ان کے انتقال کے بعد ہی واقف ہوسکا۔ ان کی جو چند نظمیں اب دیکھی ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اگر وہ اس میدان میں آگے بڑھتے تو خاصے کی چیزیں پیش کر سکتے تھے۔

آباد شاہ پوری ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے جس چیز کو مقصدِ زندگی کے طور پر اختیار کیا‘ اس کے لیے پوری زندگی وقف کر دی اور آخری لمحے تک وفاداری کے ساتھ اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ ان کی زندگی بہت سادہ‘ ان کی مصروفیات بہت متعین اور محدود‘ ان کے تعلقات وسیع مگر ان کے معمولات وقت گزاری اور یارباشی سے پاک۔ خاندانی اور تحریکی معاملات میں‘ مَیں نے ان کو بہت معاملہ فہم پایا اور انسانی تعلقات کے باب میں تو وہ اس پہلو سے منفرد تھے کہ اپنے اور پرائے ان سے مشورہ کرتے اور تنازعات میں ان کو ثالث بناتے اور وہ ہمیشہ حق و انصاف اور ہمدردی کے ساتھ معاملات کو نمٹاتے۔ کم گو تو وہ شاید ہمیشہ ہی سے تھے لیکن آخری عمر میں کچھ زیادہ ہی اپنے کاموں میں مگن ہوگئے تھے لیکن انسانی تعلقات اور حقوق کی ادایگی سے کبھی غافل نہ رہے۔ یہ وہ روایت ہے جو اب اٹھتی جا رہی ہے حالانکہ آج کے انسان کو اس کی ہمیشہ سے زیادہ ضرورت ہے۔ آباد صاحب برعظیم کی جس علمی‘ صحافتی اور ادبی روایت کا نمونہ تھے‘ وہ اب عنقا ہوتی جا رہی ہے۔ ان کے اٹھ جانے سے ایک خلا محسوس کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کوقبول فرمائے اور انھیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین!

؎   جو بادہ کش تھے پرانے‘ وہ اٹھتے جاتے ہیں

کہیں سے آبِ بقاے دوام لے ساقی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ : ۲۵ ستمبر ۱۹۰۳ء - ۲۲ ستمبر ۱۹۷۹ء

انسان پر اللہ تعالیٰ کے انعام و الطاف کی کوئی انتہا نہیں‘ لیکن اس کا سب سے بڑا انعام وہ ہدایت ہے جو اس نے روزِ اول سے وحی اور رسالت و نبوت کے ذریعے اپنے بندوں کو عطا کی‘ تاکہ زندگی گزارنے کی شاہراہ روزِ روشن کی طرح ان کے سامنے عیاں ہو اور وہ جہالت اور ظلم کی تاریکیوں میں ٹامک ٹوئیاں ہی نہ مارتے رہیں۔ اس سب سے بڑے انعام کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے--- اور اسلام نام ہی اس انعام کا شکر ادا کرنے میں ہمہ وقت مصروف رہنے کا ہے! یہی عبادت ہے‘ یہی دین کا حاصل ہے اور یہی دنیا اور آخرت کی کامیابی کا راستہ ہے!

اللہ کی وحی قرآن کی شکل میں مکمل ہوگئی اور افضل الانبیا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ    علیہ وسلم کا اسوئہ حسنہ ‘ عالمِ انسانی کے لیے ایک بے مثال نمونہ بن کر سامنے آگیا۔ چنانچہ زمین و آسمان کے خالق اور مالک نے یہ اعلان کر دیا :

اَلْیَوْمَ اَکْـمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاط (المائدہ ۵:۳) آج میں نے تمھارے دین کو تمھارے لیے مکمل کردیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کردی ہے اور تمھارے لیے اسلام کو تمھارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔

اب یہ ذمہ داری اُمت مسلمہ کو سونپی گئی ہے کہ وہ شہادتِ حق‘ دعوت الی اللہ‘ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا کارِ نبوت انجام دے‘ تاکہ وہ حق کی علم بردار ہو اور اللہ کی     اس نعمت کو اللہ کے بندوں تک پہنچانے اور ان کو اس کی زندگی بخش توانائی سے شادکام کرنے کی جدوجہد میں ہمیشہ مصروف رہے۔ ہر دور میں‘ ہر علاقے میں‘ اور ہر قسم کے حالات میں ایسے نفوس قدسیہ سے اُمت اور انسانیت کو برابر نوازنے کا اہتمام فرما دیا‘ جو اللہ کی ہدایت اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے کی طرف لوگوں کو بلاتے رہیں اور اقامت دین کی دعوت دینے اور دین کو عملاً نافذکرنے کی جدوجہد میں سرگرم رہیں۔

ہدایت کے اس نظام کو بھی کارِ نبوت کی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے انعام کا حصہ قرار دیا ہے۔ جن پاکباز انسانوں کو اس کام پر لگایا ہے ان کے اس انتخاب کے لیے اصطفٰی اور اجتبٰیکے وہی محترم الفاظ استعمال کیے ہیں‘ جو انبیا ے کرام کے انتخاب اور تیاری کے لیے استعمال کیے گئے ہیں اور ان انعام یافتہ مخلصین کا شمار بھی انبیاے کرام ہی کے قافلے میں کیا گیا ہے:  وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِـیّٖنَ وَالصِّدِّیْـقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَج وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا o ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰہِط وَکَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیْمًا o (النساء ۴:۶۹-۷۰) ’’جو لوگ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے‘ یعنی انبیا ؑ اور صدیقین اور شہدا اور صالحین--- کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں! یہ حقیقی فضل ہے جو اللہ کی طرف سے ملتا ہے اور حقیقت جاننے کے لیے بس اللہ ہی کا علم کافی ہے‘‘۔

بیسویں صدی کا آغاز مسلمان اُمت کے لیے ان بدترین حالات میں ہوا‘ جن کا آج تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس تاریک دور ہی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خصوصی فضل سے ایسے افراد سے اُمت کو نوازا جنھوں نے ہر میدان میں چومکھی لڑائی لڑی اور تاریکیوں کا سینہ چیر کر شمع ہدایت و رسالت کی روشنی کو اس طرح پھیلادیاکہ غفلت‘ غلامی اور مظلومیت کی رات چھٹ گئی اور احیاے اسلام اور اُمت کے ایک عالم گیر قوت کی حیثیت سے اُبھرنے کے آثار صبحِ نو کی طرح نمودار ہو گئے ہیں۔

جن نفوسِ قدسیہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ کام لیا ان میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ ۱۷ سالہ نوجوان نے ۱۹۲۰ء میں اپنے ایمان اور ضمیر کے تقاضے کے طور پر احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کی جو ننھی منی شمع روشن کی تھی‘ ۱۹۳۰ء کے عشرے میں علمی اور فکری اُفق اس کی ضوفشانی سے منور ہو چکے تھے۔ پھر ۲۶ اگست ۱۹۴۱ء سے شروع ہونے والی ایک منظم اور اجتماعی جدوجہد کی رہنمائی کرتے ہوئے‘ ۱۹۷۹ء میں جب یہ مجاہد اپنے رفیق اعلیٰ کی طرف لوٹ گیا تو یہ دعوت اسلامی احیا کی عالمی لہر بن کر مشرق و مغرب کے دور دراز گوشوں تک پھیل کر ایک جان دار تحریک بن چکی تھی۔ شیخ یوسف القرضاوی نے ۲۶ ستمبر ۱۹۷۹ء کو لاہور میں سید مودودیؒ کی نمازِ جنازہ پڑھانے کے بعد جو الفاظ کہے‘ وہ محض ایک فرد کے جذبات کا مظہر نہیں بلکہ تاریخ کی گونج ہیں:

سید ابوالاعلیٰ کا یہ جنازہ ایک ریفرنڈم ہے کہ پاکستان کے مسلمان صرف اسلام چاہتے ہیں۔ ان کے فقید المثال جنازے نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اللہ کے ہاں مقبول بندوں میں سے ہیں۔ لاکھوں افراد ان کی رحلت پر رو رہے ہیں۔ یہ گویا بجاے خود شہادت ہے کہ مولا نا کی ذات حسنات کا مجموعہ تھی۔

سید مودودیؒ صرف پاکستان ہی کے نہیں‘ پوری اُمت مسلمہ اور ساری انسانیت کا سرمایہ اور میراث ہیں۔ ایک نادرہ روزگار مفکر‘ ایک بے باک قائد‘ ایک زمانہ ساز مدبر‘ ایک حیات آفریں شخصیت‘ ایک نئے دور کا نقیب --- اور سب سے بڑھ کر اللہ کا ایک تابع دار بندہ اور   اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق‘ شیدائی اور مطیع فرمان۔ سید مودودیؒ کی شخصیت کا آئینہ وہ دعا ہے جو انھوں نے ۱۹۳۸ء کے حوصلہ شکن حالات میں اپنے رب کے حضور کی تھی:

اے پروردگار‘ میں ایک مجاہد کے ایمان کا طالب ہوں‘ ایسا دل مانگتا ہوں جو سمندر کی طوفانی موجوں کے مقابلے میں ٹوٹی ہوئی کشتی لے جانے پر بے جھجک آمادہ ہو جائے‘ ایسی روح مانگتا ہوں جو شکست کھانے اور سپر رکھ دینے کا تصور بھی نہ کر سکتی ہو…

اور جب اس داعی الی الحق نے ہجرت کا راستہ اختیار کر کے‘ قافلۂ حق کے جانبازوں کی صف بندی کی تو اس کا دل یوں زبان بن گیا:

  •  برادرانِ اسلام‘ میں ایک دُور دراز علاقے کا رہنے والا‘ اپنا گھر بار اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کو چھوڑ کر آپ کی اس بستی میں صرف اس لیے آیا ہوں کہ میں اسلام اور مسلمانوں کی کچھ خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے یہاں کوئی لالچ کھینچ کر نہیں لایا‘ نہ میں آپ سے کسی اُجرت کا طالب ہوں۔ میں صرف آپ کے لیے اور سب مسلمانوں کے لیے دنیا اور عاقبت کی بھلائی چاہتا ہوں‘ اور اس کام میں بھی اگر کوئی لالچ ہے تو بس اتنا ہے کہ شاید اس طرح میرا مالک مجھ سے راضی ہوجائے اور گناہوں کو بخش دے۔
  •  بھائیو‘ اگرتمھارا دل گواہی دے کہ اس کام میں مدد کرنا تمھارا فرض ہے ‘تو میری مدد کرو۔ میری مدد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ خدا اور اس کے رسولؐ کی تعلیم کے مطابق جو کچھ میں تم سے کہوں ‘اس کو قبول کرو اور جس بات سے منع کروں اس سے باز آجائو اور تمھاری فلاح دارین کے لیے جو کام میں کروں‘ اس میں میرا ساتھ دو۔
  • بھائیو‘ مجھے نہ علم میں کامل ہونے کا دعویٰ ہے ‘اور نہ عمل میں کامل ہونے کا…جس طرح دوسرے انسانوں کے علم اور عمل میں کوتاہیاں ہیں‘ اسی طرح میرے علم وعمل میں بھی ہیں۔ اس لیے میں کبھی یہ نہ چاہوں گا کہ تم آنکھیں بند کر کے میری پیروی کرو۔ نہیں‘ تم میں سے ہر شخص کو اپنے دین کے معاملے میں چوکنا رہنا چاہیے۔(ترجمان القرآن‘ ۱۹۳۸ئ‘ج ۱۱‘ عدد ۶‘ ص ۵۲۷-۵۲۸)

جب اس بندئہ حق کو ظالم اقتدار نے سولی پر چڑھانے کی سزا کا اعلان کیا ‘تب بھی اس کے ایمان اور عزم کی شان ایک سچے بندۂ رحمن کی شایانِ شان تھی: ’’میں کسی سے رحم کی اپیل نہیں کروں گا اور اپنا معاملہ اپنے خدا کے حوالے کرتا ہوں۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں‘ آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی۔ اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی‘‘۔اور الحمدللہ‘ اقتدار وہ سزا نہ دے سکا۔

اس لیے کہ سید مودودیؒ کا شعور حق‘ نور نبوت سے منور تھا۔ انھوں نے کہا:

حق کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ وہ بجاے خود حق ہے--- وہ ایسی مستقل اقدار کا نام ہے جو سراسر صحیح اور صادق ہیں۔ اگر تمام دنیا اس سے منحرف ہوجائے‘ تب بھی وہ حق ہی ہے۔ مصائب حق پر نہیں‘ اہل حق پر آتے ہیں۔ لیکن جو لوگ سمجھ کر کامل قلبی اطمینان کے ساتھ یہ فیصلہ کرچکے ہوں کہ انھیں بہرحال حق پر قائم رہنا اور اس کا بول بالا کرنے کے لیے اپنا سارا سرمایۂ حیات لگا دینا ہے‘ وہ مصائب میں مبتلا ضرور ہو سکتے ہیں لیکن ناکام کبھی نہیں ہوسکتے۔

سید مودودیؒ کی ۷۶ سالہ زندگی‘ حق پرستی اور حق کے لیے جان کی بازی لگا دینے سے عبارت ہے۔ بیسویں صدی میں جو بھی روشنی ہے‘ اسے جلابخشنے میں اللہ کے فضل اور اس کی سنت کے مطابق ان کا بھی ایک منفرد کردار ہے۔ ہم بے جا شخصی تذکرے‘ یا غلو کے قائل نہیں‘      لیکن احسان مندی اور محسن شناسی کی تعلیم بھی اسی اسلام نے ہی دی ہے‘ جس نے شخصیت پرستی سے اجتناب کا حکم دیا ہے--- اور ترجمان القرآن کا یہ خاص شمارہ جس کا پہلا حصہ آپ کے   ہاتھ میں ہے--- ان شاء اللہ دوسرا بھی چند ماہ بعد حاضرخدمت کیا جائے گا‘ درحقیقت اسی احسان مندی کا اعتراف اور اسی محسن شناسی کا ایک اظہار ہے۔

اس ’اشاعت خاص‘ کے لیے کام میرے عزیز بھائی سلیم منصور خالد نے کیا ہے‘ جو اس کے ’مہمان مدیر‘ ہیں۔ان کے لیے اجر کی دعا کرتے ہیں۔ مجلس ادارت کی رہنمائی اور برادرم مسلم سجاد اور برادرم رفیع الدین ہاشمی کی معاونت کا اس خدمت میں ایک قیمتی حصہ ہے۔

ترجمان کا یہ خاص نمبر ایک تاریخی دستاویز‘ ایک عہد کی داستان‘ ایک مجاہد کی ۶۰ سالہ جدوجہد کی ایمان افروز کہانی اور اکیسویں صدی کے انسان کے لیے زندگی کا پیغام ہے۔ جو بھی اس زندگی‘ اس جدوجہد ‘ اس کش مکش اور اس راہِ عمل پر کھلے ذہن اور قلب سلیم کی رہنمائی میں غور کرنے اور چلنے کی کوشش کرے گا‘ کامیاب و کامران ہوگا۔ درخواست ہے کہ ہر فرد‘ اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ‘ اللہ کے اس پاک باز بندے کے لیے بہترین دعائوں کا تحفہ بھیجنے میں بخل سے کام نہیں لے ‘ کہ جس نے بیسویں صدی کے ستم زدہ انسان کو اکیسویں صدی میں قدم رکھتے وقت یہ احساس دلایا کہ’ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے‘اورجس کے بارے میں امیرخسرو کے الفاظ میں دل گواہی دیتا ہے کہ     ؎

آفاق ہا گردیدہ ام ‘ مہربتاں ورزیدہ ام

بسیار خوباں دیدہ ام‘ لیکن تو چیزے دیگری

مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی شخصیت ایسی جامع اور ہمہ گیر تھی اور ان کا کارنامۂ حیات اپنے اندر اتنے گوناگوں اور متنوع پہلو رکھتا ہے کہ آنے والے زمانوں میں اس پر بہت کچھ لکھا جائے گا۔ میں بھی ان کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں کے بارے میں کچھ اپنی یادوں اورتاثرات میں اربابِ شوق اور طالبان حق کو شریک کرنا چاہتا ہوں۔ اس موقع پر فقط چند ذاتی مشاہدات کا تذکرہ مقصود ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کا جو فطری نظام بنایا ہے وہ اس کے رب اور رحیم ہونے کا تقاضا ہے۔ اس کا ایک مظہر یہ ہے کہ خاتم النبیینؐ کے بعد‘ اللہ تعالیٰ عام انسانوں میں سے کچھ خوش نصیب لوگوں کو اسی کارِ نبوت کی خدمت‘ تعمیل اور دعوتِ عام کے لیے منتخب کرتا ہے۔ اس سلسلے میں بیسویں صدی میں تجدید اُمت اور احیاے دین کے لیے جن افراد نے اللہ کے اس نظام اور اس کے طے کردہ منصوبے کے تحت کام کیا‘ ان میں جمال الدین افغانی‘ شکیب ارسلان‘ حلیم پاشا‘ محمدعبدہ‘رشید رضا‘ ابوالکلام آزاد‘ علامہ محمد اقبال‘ حسن البنا‘ بدیع الزماں سعید نورسی وغیرہ شامل ہیں۔ اس درخشاں کہکشاں میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا بھی ایک بہت ہی منفرد اور کئی حوالوں سے مرکزی مقام ہے۔

اس حوالے سے میں اپنے آپ کوبڑا خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اتنا کرم کیا کہ ایسے خادم دین اور ایسی عظیم شخصیت کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ دانش برہانی سے فیض پانے والی اس شخصیت کے افکارِ عالیہ سے اپنی فکر کو جلا بخشنے‘ اس کی صحبت میں زندگی کے اسالیب سیکھنے اور اس کی امارت و قیادت میں اجتماعی زندگی گزارنے کا موقع ملا ہے۔ اسے زندگی کا حاصل اور ایک بہترین انعام سمجھتا ہوں‘ بلکہ زیادہ اہم کہ اگر کہوں کہ زندگی کا رخ متعین کرنے اور اسے بامعنی بنانے میں جس چیز نے اصل کردار ادا کیا‘ وہ یہی تعلق تھا۔ اس دل چسپ داستان کے دو حصے ہیں:ایک میری شعوری زندگی اور دوسری میری خاندانی زندگی۔

خاندانی پہلو سے مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ‘ میرے والد نذیر احمد قریشی کے غالباً سب سے پرانے دوست تھے۔ غالباً اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ بات خود مولانا نے مجھے بتائی اور پھر والد صاحب کے انتقال پر جو تعزیتی خط آیا تھا‘ اس میں بھی یہی تذکرہ کیا۔

مولانا مودودی جب بھوپال اور حیدرآباد سے دہلی منتقل ہوئے تو یہاں جن افراد سے ان کا اولین تعارف ہوا‘ ان میں سے ایک میرے والد گرامی بھی تھے۔ اگرچہ عملی زندگی میں ان کا معاملہ تجارت سے تھا‘لیکن سارا خاندان علمی روایت سے منسلک تھا اور ادبی ذوق کا رچائو بھی تھا۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے تعلیم یافتہ تھے۔ مولانا محمد علی جوہر‘ مولانا ابوالکلام آزاد اور مفتی کفایت اللہ مرحوم سے گہرے نیازمندانہ تعلقات‘ روز و شب کا ملنا جلنا اور اٹھنا بیٹھنا تھا اور گویا ان کی مجلسی زندگی کا محور وہ حلقہ تھا جسے دلی میں مسلم شرفا کا طبقہ کہا جا سکتا ہے۔ تحریک خلافت میں والد صاحب بھی پیش پیش تھے۔ مولانا مودودی اور والد صاحب کے درمیان دوستی کا یہ آغاز ۱۹۲۰ء میں ہوا اور یہ تعلق خاطر۱۹۶۲ء میں والد صاحب کے انتقال پر ختم ہوا۔

جہاں تک یاد پڑتا ہے‘ میں نے مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کو ۱۹۳۸ء یا ۳۹ء میں پہلی مرتبہ دیکھا۔ تب میری عمر ۶‘ ۷ برس تھی۔ ان دنوں مولانا دلی آئے تو والد صاحب سے ملنے ہمارے ہاں تشریف لائے۔ دلی کے گھرانوں میں مردان خانہ اور زنان خانہ الگ الگ ہوتا تھا۔ وہ مردانہ حصے میں مولانا محترم سے بات چیت کر رہے تھے۔ اسی دوران والد صاحب نے مولانا سے ملانے کے لیے مجھے بلایا۔ میں نے آتے ہی مولانا کو سلام کیا۔ اس زمانے میں‘ میں نظم بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا۔ والد صاحب نے کہا: ’’مولانا کو نظم سنائو‘‘۔ اچھی طرح یاد ہے میں نے یہ قومی نظم:

زندہ ہیں اگر زندہ دنیا کو ہلا دیں گے

مشرق کا سرا اُٹھ کر مغرب سے ملا دیں گے

دھارے میں زمانے کے بجلی کا خزانہ ہے

بہتے ہوئے پانی میں ہم آگ لگا دیں گے

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

اتنا ہی یہ اُبھرے گا‘ جتنا کہ دبا دیں گے

بڑے زور اور جذبے اور اس سے بھی زوردار اشاروں کے ساتھ یہ نظم میں نے سنائی اور مولانانے بس ایک پُروقار مسکراہٹ سے میری حوصلہ افزائی کی۔

پھر یہی نظم میں نے محمد علی ٹرافی میں پڑھی تو ڈاکٹر ذاکر حسین اس مجلس میں موجود تھے‘ وہ اُٹھ کر آئے۔ انھوں نے مجھے پیار کیا‘ اور نظم سنانے پر ایک سرٹیفیکیٹ دیا۔ اس کے برعکس مولانا مودودی کا ردعمل بڑا نپاتلا (calculated) تھا۔

دوسری ملاقات مولانا مودودی سے فروری ۱۹۴۸ء میں ہوئی۔ ۱۲ فروری ۱۹۴۸ء کو ہم والد صاحب اور والدہ صاحبہ کے ہمراہ دلی سے لاہور آئے۔ یہاں مسلم ٹائون میں ۲۵نمبر کوٹھی کرائے پر لی۔ جب مولانا کو علم ہوا کہ والد صاحب لاہور میں ہیں تو وہ کمالِ عنایت سے‘ نمازِمغرب سے کچھ دیر پہلے ہمارے گھر پہنچے۔ مغرب کی نماز ہم نے اپنے لان میں باجماعت پڑھی۔ مولانا نے امامت کی‘ والد صاحب کے کہنے پر میں نے اقامت پڑھی۔ مزید تفصیلات یاد نہیں ہیں۔ چند روز میں والد صاحب مولانا سے ملنے اچھرہ گئے‘ میں بھی ان کے ساتھ تھا۔

۱۹۴۸ء ہی میں والد صاحب کراچی منتقل ہوگئے۔ میں چونکہ دیر سے لاہور آیا تھا‘ اس لیے یہاںکسی بڑے کالج میں داخلہ نہ ملا۔ میرے بڑے بھائی ضمیراحمد مرحوم کو ایف سی کالج میں داخلہ مل گیا تھا۔ انھوں نے وہیں سے انٹرسائنس پاس کیا۔ ایف سی کالج کے قریب ہی تعلیم الاسلام کالج میں‘ میں نے انٹر آرٹس میں داخلہ لیا۔ انگریزی‘ اُردو کے علاوہ معاشیات اور نفسیات مضامین منتخب کیے‘ اور پنجاب یونی ورسٹی سے ۱۹۴۹ء میں انٹر کا امتحان پاس کیا۔ یہاں میرے ایک ہم جماعت اقبال احمد تھے‘ جو بعد میں ڈاکٹر اقبال احمد کی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ ہم دونوں میں گہری دوستی تھی۔ ان کا ذہن ایک خاص نہج پر سوچتا تھا۔ ہماری دوستی دانش ورانہ تعلقات (انٹی لیکچول فیلوشپ) پر استوار تھی۔ انٹرمیڈیٹ کے طالب علم ہونے کے باوجود ہم جب معاشرے اور دنیا کے معاملات پر بحث کیا کرتے‘ تو برملا یہ کہتے تھے کہ ایک اچھی نظریاتی زندگی گزارنے کے لیے ہمارے سامنے صرف دو راستے ہیں: ہم کمیونسٹ پارٹی میں جائیں گے یا پھر جماعت اسلامی میں--- اور اتفاق سے وہ دوسرے کیمپ میں چلے گئے اور میں جماعت اسلامی میں آگیا۔ حالانکہ جب ہمارے درمیان بحث ہوتی تھی‘ تو اس وقت تک مجھے جماعت اسلامی کے پروگرام اور نظامِ کار کے بارے میں کچھ زیادہ علم نہ تھا مگر ہم دونوں کو‘ عمومی تاثر کی بنیاد پر‘ یہ بات ضرور معلوم تھی کہ یہ اچھے‘ مخلص اور نظریاتی لوگوں کی ایک تحریک ہے‘ جو اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کر رہی ہے۔

۱۹۴۹ء میں‘ میںکراچی آگیا۔ بھائی ضمیر‘ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوچکے تھے۔ یہاں پہنچ کر میں نے مولانا مودودی کی کتابوں خطبات‘ تنقیحات اور محمداسد کی Islam  at the Crossroads  کا مطالعہ کیا۔ جمعیت سے وابستہ ہوا اور رکنیت اختیار کرنے کے بعد ۱۹۵۰ء میں جمعیت کے سالانہ اجتماع میں شرکت کے لیے خرم‘ راجا (ظفراسحاق انصاری)‘ عبداللہ جعفر اور دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ پھول بلڈنگ‘ گوالمنڈی لاہور پہنچا۔ اُن دنوں اس جگہ نصراللہ خاں عزیز صاحب کے اخبار تسنیم کا دفتر ہوا کرتا تھا۔ دن رات ہم وہیں رہے۔

مولانا مودودی اتوار کو اچھرہ ہی میں ہفت روزہ درس قرآن دیا کرتے تھے۔ ہم لوگ درس سننے مولانا کی رہایش گاہ پر پہنچے۔ اُنھوں نے برآمدے میں زمین پر بیٹھ کر درس دیا۔ چٹائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ کچھ لوگ برآمدے میں اور باقی سامنے کے حصے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کوئی ۵۰ کے قریب حاضرین تھے۔ اس درس کی لذت اور پیغام کی تاثیر آج تک محسوس کرتا ہوں۔ اس سے قبل لٹریچر پڑھنے سے شعوری طور پر مولانا سے عقیدت اور محبت تو پیدا ہو چکی تھی۔ درس کے بعد ہم لوگ آگے بڑھ کر مولانا سے ملے۔ مولانا نے مسکراتے اور کِھلے چہرے کے ساتھ ہاتھ ملایا۔ میں نے ہاتھ ملاتے ہی کہا : ’’مولانا‘ میرا آپ سے ایک اور حوالے سے بھی تعلق ہے‘‘۔ انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں ذرا بھنویں اُٹھا کر پوچھا: ’’وہ کیا؟‘‘ میں نے کہا: ’’میں آپ کے دوست نذیراحمد قریشی صاحب کا بیٹا ہوں‘‘ تو معاً مولانا نے آگے بڑھ کر مجھے گلے سے لگا لیا۔ اس طرح تعلقات میں گرم جوشی اور شفقت کا پہلا تاثر‘ تجربے میں ڈھل گیا۔ جب میں اس کا موازنہ کرتا ہوں ۳۹-۱۹۳۸ء کی پہلی ملاقات میں نظم سنانے سے‘ تو مجھے بڑا بنیادی فرق محسوس ہوتا ہے۔ وہ ہے شخصیت کا ایک فرق‘ جس میں مقصد کی اہمیت اور مقصدیت سے وابستگی‘ اور یہ کہ مقصد کی بنیاد پر جو تعلق ہے اس میں احترام اور گرم جوشی کا معاملہ۔

مولاناکی بہت خواہش تھی کہ میرے والد صاحب جماعت میں آئیں۔ جماعت اسلامی کی تاسیس سے قبل‘ علامہ اقبال اور چودھری نیاز علی خاں کی دعوت اور ایماء پر مولانا نے جو ادارہ دارالاسلام قائم کیا تھا‘ اس کے پہلے پانچ بنیادی افراد میں والد صاحب بھی شامل تھے۔ مولانا محترم کی لائبریری میں میرے والد کی دی ہوئی درجنوں کتابیں تھیں۔ اُن میں سے ایک کتاب Social Evolution  پر تھی۔ اس کے حاشیے پر مولانا نے کہیں مختصر اور کہیں مفصل تنقیدی نوٹس لکھے ہوئے تھے اور اہم حصوں کو نشان زد کیا ہوا تھا۔ یہ مولانا کا خاص طریقہ تھا کہ کتاب کے مطالعے کے دوران جہاں کوئی خیال آتا‘ تنقیدی یا تائیدی پہلو سامنے آتا‘ یا پھر کوئی سوال ذہن میں اُبھرتا تو وہ زیرمطالعہ کتاب کے حاشیے پر لکھ لیتے۔ یہ کتاب مولانا کو میرے والد نے تحفتاً دی تھی‘ میں نے مولانا سے اُسے مانگ لیا تاکہ مولانا اور والد صاحب کی دوستی کی یہ ایک میراث میرے پاس محفوظ رہے۔ ایک خط میں والد صاحب نے مولانا کو لکھا تھا کہ میری خواہش ہے کہ زندگی کا آخری حصہ آپ کے ساتھ گزاروں تو مولانا نے جواب میں لکھا تھا:’’میرے لیے یہ خبر نہایت مسرت کی موجب ہے کہ آپ اپنی زندگی کا آخری حصہ میرے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں‘ مگر اس میں دیر کیوں ہے؟ کیا‘ آپ کو اپنی تاریخ وفات معلوم ہو چکی ہے‘ جس کے لحاظ سے آپ نے تعین کر لیا ہے کہ آخری حصۂ عمر فی الواقع کون سا ہے۔ (خطوط مودودی‘ دوم‘ ص ۳۴-۳۵)

مولانا نے جس گرم جوشی اور محبت سے مجھے اپنے سینے سے لگایا‘ اس واقعے کو بیان کرنے پر والدصاحب نے نہ صرف مجھ سے کہا‘ بلکہ مولانا سے بھی بیان کیا کہ اگرچہ میں تو جماعت میں نہیں آسکا‘ لیکن اپنا بیٹا جماعت کو دے دیا ہے۔ اس طرح مولانا سے میرا ایک تعلق خاندانی ہے اور دوسرا نظریاتی۔ ان دونوں تعلقات کا ایک جگہ جمع ہونا میری خوش نصیبی ہے۔

۱۹۵۰ء کی ملاقات کے بعد مولانا مودودی سے سیکڑوں ملاقاتیں ہوئیں۔ سفر اور حضر میں ساتھ رہا‘ شوریٰ کے اجلاسوں اور کمیٹیوںمیں مل بیٹھے۔ انھیں بحرانوں اور مشکلات کو حل کرتے دیکھا۔ حتیٰ کہ جیل میں اکٹھے رہے ہیں۔ پھر مولانا جب کراچی آتے تو ان کی خدمت کرنے اور لانے لے جانے کا موقع ملتا تھا۔ پہلے غلام حسین عباسی ان کو گاڑی میں لے کر آتے جاتے تھے‘ پھر نواب نقی اور ان کے ڈرائیور انھیں لے کر جاتے۔ پھر میری گاڑی میں انیس ڈرائیو کرتے تھے۔ ان لاتعداد ملاقاتوں کی باتوں کو یاد کر کے انھیں بہ تمام و کمال بیان کرنا ناممکن ہے۔

تاہم‘ یہاں پر بنیادی باتوں کے حوالے سے چند یادداشتیں پیش کروں گا:

جو بات سب سے زیادہ دل پر نقش ہے‘ وہ ہے ان کے ہاں زندگی کی مقصدیت۔ ان کی پوری زندگی میں‘ چاہے وہ دوستوں اور ساتھیوں کے ہمراہ ہوں‘ یا عزیزوں اور اہل خانہ کے ساتھ‘ ہر جگہ اور ہر سطح پر معاملات کرتے وقت جو چیز سب پر حاوی نظر آتی ہے اور سب امور جس کے تابع ہیں‘ وہ زندگی کی یہی مقصدیت ہے۔ یہ چیزہمیں اللہ کے نبیؐ کے اسوے میں مرکزی پہلو کے طور پر نظرآتی ہے۔ رسول کریمؐ کا ہر قول‘ ہر فعل نمونہ اور ایک مثال ہے۔ آپ سیرت کی پوری تصویر دیکھنا چاہیں تو وہ ہے ہر معاملے میں داعی الی اللہ کا کردار۔ اسی چیز کو میں سنتِ کبریٰ کہتا ہوں۔ میں نے زندگی میں‘ اس معیار کی طرف بڑھنے‘ اتباع کرنے کی مسلسل شعوری کوشش کرنے اور اس اسوئہ رسولؐ کی اتباع کرنے والے جس انسان کو دیکھا وہ مولانا مودودی تھے۔

مولانا مودودی کے ہاں جو دوسری چیز ذہن پر نقش ہے‘ وہ ہے وقت کی قدر۔ ان کا نظم الاوقات (ٹائم مینجمنٹ) آئیڈیل تھا اور انھوں نے حیران کن حد تک منضبط زندگی (ریگولیٹڈ لائف) گزاری۔ پہلے پہل ۸ بجے صبح ہی اخبار دیکھ لیتے تھے اور بعدازاں وہ نمازِ ظہرادا کرنے کے بعددیکھتے تھے۔ ناشتے کے بعد قیم جماعت کو بلا کر چند منٹ میں جماعتی زندگی کے لیے ہدایات دے کر کمرے میں یکسوئی کے ساتھ بیٹھ کر علمی کام انجام دیتے اور پھر نمازِ ظہر ادا کرتے۔

دوپہر کا کھانا‘ کچھ دیر آرام‘ پھر نمازِ عصر کے بعد ایک کھلے اور دوستانہ ماحول میں‘ مغرب تک ہر خاص و عام سے ملتے ۔ نمازِ مغرب کے بعد عشا تک آرام کرسی پر بیٹھ کر مطالعہ کرتے اور جب نوٹس بنانے کا کام ہوتا یا لکھنا ہوتا تو میز کرسی پر بیٹھ کر کام کرتے۔ عشاء کے بعد اہلِ خانہ کے ساتھ کھانا کھاتے اور اگر زیادہ ضروری کام ہوتا تو پھر مطالعہ گاہ میں بیٹھ کر رات دیر تک کام کرتے‘ اور جب تھک جاتے تو ایک سادہ چارپائی پر لیٹ جاتے۔

غیرمعمولی حالات میں وہ اس معمول سے ہٹ بھی جاتے تھے لیکن عام طور پر اسی انداز سے شب و روز گزارتے۔ یہ سلسلہ گرمی سردی کے موسم میں یوں ہی جاری رہتا تھا۔ چودھری غلام محمد مرحوم کی خواہش پر ایک دوست نے ایئرکنڈیشنر لگوانا چاہا‘ لیکن مولاناکئی دن تک اس پر یکسو نہیں تھے کہ اپنے معیارِ زندگی میں اتنا بڑا فرق لائیں۔ بہرحال بہت زیادہ قائل کرنے پر وہ تیار ہوگئے۔ دوست نے بھی بڑا اصرار کیا کہ آپ قرآن کی تفسیر لکھ رہے ہیں‘ میں اس کام میں کچھ سہولت فراہم کرنے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوںاس لیے آپ اجازت دیں۔

مولانا مودودی نے اپنے طریق مطالعہ کے بارے میں مجھے ہدایات دیتے ہوئے فرمایا تھا: میرا طریقہ یہ ہے کہ جس موضوع پر مجھے کام کرنا ہوتا ہے‘ میں پہلے اس موضوع پر چند بنیادی چیزیں پڑھتا ہوں‘ تاکہ اُس مسئلے کے بنیادی پہلو تمام تر پس منظر کے ساتھ سامنے آجائیں۔ پھر اس موضوع پر ایک دو کتب یا کم از کم انسائیکلوپیڈیا کے متعلقہ مقالات کو دیکھ لیتا ہوں‘ تاکہ اس کا فکری اور عملی حوالہ معلوم ہو سکے اورعلمی رجحانات کے بارے میں معلومات سامنے آجائیں۔ ان چیزوں کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس موضوع کا حدود اربعہ کیا ہے‘ اس کے بنیادی مقدمات یا key issues کیا ہیں۔ مطالعہ کرنے کے دوران کوئی رائے قائم نہیں کرتا۔ اس کے بعد سب سے پہلے قرآن مجید کو کھولتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ وہ ان امور پر کیا رہنمائی دیتا ہے۔ اس ضمن میں سیاق و سباق کو نظراندازکر کے فقط ایک دو آیات پر غور کرنے کے بجاے پورے قرآن کریم سے مسئلے کا حل تلاش کرتا ہوں۔ پھر دیکھتا ہوں کہ سیرتؐ، سنت‘ حدیث اور خلفاے راشدینؓ کس انداز سے دستگیری کرتے ہیں۔ مطالعے کے دوران میں اپنے نوٹس بناتا ہوں۔ یہ سلسلہ میں نے اپنے طالب علمی کے زمانے میں شروع کیا تھا اور اسے کبھی نظرانداز نہیں کیا‘ سواے اس کے کہ جیل کے زمانے میں جب تک کاغذ پنسل سے محروم رہا‘‘۔

یہ بات پورے یقین کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ ۱۹۷۹ء تک جب مولانا مودودی گرتی ہوئی صحت کے ہاتھوں تقریباً معذور ہو چکے تھے‘ تب بھی وہ مطالعہ کرتے تو ان کے پاس کاغذ اور قلم ہوتا‘ جس پر وہ ضروری نوٹس ضرور قلم بند کر لیتے۔ تفسیر‘ حدیث‘ فقہ‘ تاریخ یا دوسرے عصری علوم کا مطالعہ کرنے کے دوران وہ نوٹس لیتے جاتے تھے۔ یہ نوٹس مولانا نے عربی‘ انگریزی‘ اُردو اور فارسی میں لیے۔ نوٹس تیار کرنے کے لیے اکثر وہ فل اسکیپ کاغذ کو لمبے رخ پر درمیان سے ایک تہہ دے کر کاٹ لیتے‘ جس سے وہ ایک سلپ سی بن جاتی تھی۔ اسی سلپ پر وہ نوٹس لیتے تھے۔

مولانا نے اسی ملاقات میں بتایا: ’’میں مطالعے کے دوران مفہوم اور نکات کو اپنے ذہن میں بٹھانے کے ساتھ نوٹس لینا ضروری سمجھتا ہوں۔ جب میں لکھنے بیٹھتا ہوں تو پھر مراجع کو سامنے نہیں رکھتا‘ اس کے بجاے اپنے نوٹس کو سامنے رکھتا ہوں‘‘۔ یعنی جب وہ لکھنے بیٹھتے تو ان کے سامنے موضوع کی ہر چیز حسن ترتیب کے ساتھ واضح ہو چکی ہوتی اور جب لکھتے تو یوں لگتا کہ وہ لکھ نہیں رہے‘ بلکہ اپنے لوحِ ذہن میں جو کچھ وہ لکھ چکے ہیں‘ اب اسے صرف صفحۂ قرطاس پر منتقل کر رہے ہیں۔ اسی لیے لکھے ہوئے مسودے کو دیکھیںتو بالعموم بہت ہی کم کانٹ چھانٹ دکھائی دیتی۔ جب لکھتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے مضامین اور جملے القا ہو رہے ہیں۔ لکھنے کے بعد فوراً کاتب‘  یا ٹائپسٹ کو نہ دیتے‘بلکہ دوبارہ ایک ایک لفظ پڑھتے تھے۔ جہاں ضرورت ہوتی ترمیم و حذف کرتے اور جہاں زیادہ بڑے اضافے کی ضرورت محسوس کرتے‘ اسے ایک سلپ پر لکھ کر‘ پن کے ساتھ منسلک کر دیتے تھے۔ تحقیق و تصنیف کے اس طریقے کو میں نے اپنے انداز میں اپنانے کی کوشش کی‘ اور بہت مفید اور موثر پایا۔

اسی طرح ایک چیز جو میں نے مولانا سے سیکھی‘ وہ ہے وقت کا نظم و ضبط اور وقت کا صحیح استعمال۔ مولانا مودودی مقصد زندگی کے بعد جس چیز کے بارے میں سب سے زیادہ حساس تھے‘ وہ وقت تھا۔ انھیںاس امر کا شدید احساس تھا کہ زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے‘ اسے ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ جس طرح آخرت میں صلاحیتوں کا حساب دینا ہے اسی طرح مجھے ایک ایک لمحے کا بھی حساب دینا ہے۔ لکھنے کو تو یہ بات ایک جملے میں لکھ دی ہے‘ لیکن اس کا شعور اور اسے برتنے کا اہتمام صرف مولانا مودودی کے ہاں دیکھا۔

وقت کی اس قدرومنزلت کا مطلب یہ نہیں کہ ان کی زندگی میں تفریح کاعنصرنہیں تھا۔  ایسا نہیں ہے‘ بلکہ وہ سیر کا ذوق رکھتے تھے۔ جب وہ ۱۹۶۸ء میں لندن میں زیرعلاج تھے‘ اس دوران ہمارے ساتھ چار ماہ تک رہے۔ آپریشن کے بعد طبیعت بحال ہوتے ہی مولانا نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مجھے یہاں کے اہم مقامات کو دیکھنا ہے۔ برٹش میوزیم میں کئی گھنٹے گزارے پھر مانچسٹرکی پبلک لائبریری دیکھنے گئے۔ وہیں ہم کو انجیل برناباس کا نایاب نسخہ ملا‘ جس کی فوٹوکاپی تیار کروا لی گئی (جسے حاصل کر کے نہ صرف اُردو میں پروفیسر آسی ضیائی صاحب سے ترجمہ کرایا بلکہ اس کی اشاعت بھی کرائی)۔ مولانا بڑے شوق سے لندن ہی نہیں یورپ کی کتابوں کی سب سے بڑی دکان Foyls پرگئے اور متعدد کتب خریدیں۔ اس کے بعد فرمایا: ہائیڈپارک چلیں‘ اور ہم ہائیڈ پارک اور اسپیکرز کارنر گئے‘ جس کی ایک تاریخی اہمیت ہے۔ دریاے ٹیمزدیکھنے گئے۔ اس کے بعد خواہش کر کے زیرزمین ریل کا ایک اسٹیشن سے دوسرے اسٹیشن تک سفر کیا۔ اس ٹرین کو انگریز تو ٹیوب کہتے ہیں‘ مگر مولانا نے اسے ’نلکی‘‘ سے تعبیر کیا!

باغات کی تاریخ پر ان کے پاس بڑی وسیع معلومات تھیں۔ انھوںنے بتایا کہ باغات کس طرح ارتقا پذیر ہوئے۔ انگریزوں کے ہاں باغات کی روایت میں وہ ڈسپلن نہیں تھا۔ درخت‘ پھول‘ گھاس تو تھے مگر توازن اور روش بندی کے بغیر۔ مسلمانوں نے روش بندی کے ذریعے باغات کوایک نظم اور خوب صورتی دی۔ جب لندن میں ان کی طبیعت ذرا بہتر ہوئی تو وہ شام کو سیر کے لیے نکلتے تھے۔ تب وہ چھڑی خریدی تھی جوکرکٹ کے ایمپائروں کے پاس ہوتی ہے‘ کہ جونہی ذرا تھکن محسوس کریں تو اسے نصب کر کے سہارا لے لیں۔ یوں مولانا کے ہاں تفریح کا ایک ذوق سامنے آیا جو ان کی زندگی کا حصہ تھا۔ طبیعت میں فرحت اور زندگی میں توازن پیدا کرنے کے لیے وہ سیر کو لازمی سمجھتے تھے۔ لیکن وہ تفریح جو وقت ضائع کرنے کا ذریعہ بنے ‘ اس جانب وہ کوئی جھکائو نہیں رکھتے تھے۔ اسی طرح ہم نے انھیں جیل میں بھی دیکھا کہ وہ عصر سے مغرب تک ٹہلتے اور ہم اُن کے ہمراہ چلتے ہوئے ہلکی پھلکی بات چیت کرتے۔

مولانا نے بتایا: ’’بچپن میں کشتی اور بنوٹ وغیرہ سیکھی۔ اسی طرح کار چلانا بھی سیکھی‘ لیکن کار چلاتا نہیں ہوں۔ کیونکہ ہر وقت ذہن میں خیالات آتے رہتے ہیں۔ خیالات کی آمد سے کارچلانے کے دوران توجہ ہٹ جاتی ہے ‘جو خطرے سے خالی نہیں۔ انھیں ہمارے عزیز دوست غلام حسین عباسی اور میرے چھوٹے بھائی انیس کی ڈرائیونگ بہت پسند تھی۔ انیس سے کہا کہ آپ بہت اچھی ڈرائیونگ کرتے ہیں‘ تو انھوں نے کہا: ’’مولانا یہ بات آپ مجھے لکھ کر دیں‘‘۔ اس طرح مولانا نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر یہ سرٹیفکیٹ دیا کہ آپ اچھی ڈرائیونگ کرتے ہیں۔

پھر مطالعے میں مولانا مودودی کا ذوق بڑا وسعت پذیر تھا۔ مزاح‘ شعروادب اور ادبی تنقید تک پڑھنے کے لیے بھی وقت نکالتے۔ تمام معیاری ادبی رسالے ان کے ہاں آتے‘ جن میں تحریکی رسالوں کے علاوہ  ہمایوں‘ نیرنگ خیال‘ نقوش‘ سویرا‘ فنون‘ ریڈرز ڈائجسٹ وغیرہ شامل تھے۔ گویا کہ قرآن و سنت‘ حدیث و فقہ‘ تاریخ و قانون اور فلسفہ میں عربی کی ادق کتب کے ساتھ ساتھ کلاسیکی لٹریچر اورمعاصر اصناف ادب کے مطالعے کو وہ ضروری چیز قرار دیتے تھے۔ اس ہلکے پھلکے لٹریچر کے لیے بھی وقت کی متعین حدود تھیں۔جب کبھی بیرونِ پاکستان جاتے تو واپسی پر‘ اس عرصہ غیرحاضری کے اخبارات: ڈان‘ پاکستان ٹائمز‘ نوائے وقت اور جنگ کے پورے فائل منگوا کر دیکھتے۔

تحریکی اداروں کے جو رسالے بھی شائع ہوتے‘ مثلاً:  چراغ راہ‘ مشیر‘یثرب‘ جہانِ نو‘ آئین‘ ایشیا‘ہم قدم‘ سیارہ‘ پہلے عفت پھر بتولوغیرہ ‘وہ انھیں ضرور دیکھتے تھے۔ تفریح کے ساتھ تفریحی لائٹ لٹریچر اور تحریکی لٹریچر پر نظر رکھنے کے لیے وہ اہتمام سے وقت نکالتے تھے۔ ان کی شخصیت میں کمال کا توازن اور بے مثال وسعت نظرتھی۔

اسی طرح انھوں نے یہ روایت قائم کی کہ ہر کام اپنے وقت پر ہو۔ انھوں نے جس پروگرام کے لیے وقت دیا ہوتا‘ اس سے پانچ منٹ پہلے پہنچتے۔ مجھے نہیں یاد کہ اُن کی طلب کردہ کوئی میٹنگ تاخیرسے شروع ہوئی ہو‘ یا وہ کسی شوریٰ‘ کسی عاملہ‘ کسی اجتماع یا اجلاس میں تاخیر سے پہنچے ہوں۔ ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ مولانا محترم کراچی کے دورے پر گئے تو وہاں پی سی ایچ ایس میں ٹھیرے ہوئے تھے۔ انھیں پیرالٰہی بخش کالونی میں ’’مُلا ازم کیا ہے؟‘‘ کے موضوع پر خطاب کرنا تھا اور مولانا کو اجتماع گاہ میں لے کر جانامیرے ذمے تھا۔ ہم بمشکل دو تین منٹ لیٹ پہنچے۔ لیکن میں بیان نہیں کر سکتا کہ وہاں پہنچنے تک جو آخری دس منٹ گزرے اس پورے دورانیے میں وہ کتنے اضطراب میں تھے‘ اور اگر مولانا نے زندگی بھر میں مجھے ڈانٹا ہے تو صرف اُس روز۔ جب میں نے ٹریفک جام کا عذر پیش کیا تو کہا: ’’آپ کو معلوم ہونا چاہیے تھا اس وقت راستے میں ٹریفک کا مسئلہ ہو سکتا ہے‘ اس کا لحاظ رکھتے ہوئے چند منٹ پہلے چلتے یا دوسرا راستہ اختیار کرتے‘‘۔ دوسری طرف جماعت کے لوگ بھی قابلِ داد ہیں کہ انھوں نے مولانا کا انتظار کیے بغیر اجلاس کی کارروائی شروع کر دی ‘اور ہم اس دوران ہی پہنچے۔ گویا وقت کی قدر اور وقت کا استعمال اور وقت کا نظم و ضبط ان کے ہاں کمال درجے کو پہنچا ہوا تھا۔

مولانا کے ہاں نفاست‘ پاکیزگی‘ ذوقِ جمال اور سادگی تھی۔ ان کی میز میں نے کبھی منتشر نہیں دیکھی۔ جیل کا عرصہ اور پھر انگلستان میں گزرے ہوئے چار ماہ کی بنیاد پر اپنا مشاہدہ بیان کر سکتا ہوں: جیل میں تھے یا سفر میں‘ حتیٰ کہ بیماری کی حالت میں ہسپتال میں داخل‘ تب بھی مجال ہے کبھی اُنھوں نے اپنے کپڑے کو بے نیازی سے کسی کرسی پر‘ زمین پر یا کسی چارپائی پر ڈال دیا ہو۔ ان کو جہاں لٹکانا ہوتا‘ وہاں خود اپنے ہاتھ سے لٹکاتے‘ جہاں تہہ کر کے رکھنا ہوتا‘کپڑے کو خود ترتیب سے رکھتے‘ حتیٰ کہ دھونے والے کپڑے سلیقے سے لپیٹ دیتے۔ اس پورے عرصے میں مجھے کبھی ان کا کوئی کپڑا اُٹھا کر یہاں سے وہاں نہیں رکھنا پڑا۔

پھر لباس کے پہننے میں بھی ان کا ایک انداز تھا۔ دفتر اور گھر میں بڑے پائینچوں والا حیدرآبادی پاجامہ زیب تن کرتے۔ باہر کبھی وہ اس لباس میں نہیں گئے۔ باہر جاتے وقت تنگ موری والا پاجامہ نہیں بلکہ کم موری والا علی گڑھ پاجامہ پہنتے۔ تنگ موری والا پاجامہ مولانا کو پسند نہیں تھا۔ مکیشن شو اورشیروانی پہنتے۔ انگلستان میں جب رات کے کھانے کے بعد وہ چہل قدمی کے لیے نکلتے‘ اس وقت میں نے انھیں کبھی شیروانی پہنے بغیر باہر جاتے نہیں دیکھا۔ پھر واپس آکر اپنے گھر کے لباس میں ہمارے ساتھ بیٹھتے۔ اگرچہ وہ پان کھاتے تھے لیکن اُن کے لباس پر اس کا کوئی داغ‘ دھبا یا ہلکی سی چھینٹ تک نہیں دیکھی۔ دفتر یا مجلس میں بیٹھتے تو اگال دان پاس ہوتا۔ سفر پر جاتے تو سفری اگال دان ساتھ رکھتے۔اس کے برعکس پان کھانے والے بڑے بڑے بزرگوں اور نوابوں تک کو ہم نے نہ صرف اردگرد گل پاشی کرتے دیکھا ہے‘ بلکہ بعض اوقات تو سامنے بیٹھا بات سننے والا فرد بھی مجلس آرائی کی دو چار نشانیاں اپنے اوپر ثبت کرا لیتا ہے‘ اور اُن سے پہلے ان کے لباس کا کوئی نہ کوئی حصہ گواہی دے دیتا ہے کہ ہمیں پہننے والا پان کا شوق رکھتا ہے۔ مولانا کے کپڑے پر اورپاس بیٹھنے والے فرد کے لباس پر پان کا کوئی ہلکا سا دھبا یا نشان کبھی نہیں دیکھا۔ ایک مرتبہ اُنھوں نے لطیف لہجے میں کہا:’’جب اسلامی انقلاب آئے گا‘ تو پھر ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے کاروں تک میں ایش ٹرے کے ساتھ ساتھ اگال دان بھی رکھے جائیں گے‘‘۔ یہ سارے پہلو اُن کی نفاستِ طبع پر روشنی ڈالتے ہیں۔

اپنے ہاتھ سے اپنے کپڑے کو سی لینا اور صحیح سی لینا اور بالکل صحیح انداز سے ترپ لینا‘ اپنے جاننے والے مردوں میں صرف مولانا کے ہاں دیکھا۔ جیل میں مجھ پر بھی یہ ابتلا گزری ہے جب ٹانکا لگانا پڑا‘ لیکن ایک بھی سیدھا نہ لگا۔ نفاست مولانا مودودی کی شخصی زندگی کا ایک بڑا اساسی ستون تھا۔ یہی چیز ان کی فکر میں بھی تھی۔ اس میں نفاست‘ سلیقہ‘ منطق‘ ہر چیز ایک دوسرے سے مربوط تھی۔ میری نگاہ میں تو حُسن نام ہی اس چیز کا ہے کہ ہر چیز توازن کے ساتھ ہو۔ یہ حُسن مولانا کی فکر میں‘ لباس میں‘ تعلقات میں‘ معاملات میں اور مولانا کی تحریر میں بھی تھا۔ اسی چیز نے ان کے فکر‘ استدلال اور پیغام میں ایک قوت اور تاثیر پیدا کی تھی۔

جب ہم نئے نئے جمعیت میں آئے توانھی دنوں مولانا کی کتاب اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر شائع ہوئی تھی۔ جس میں عبادت کا تصور اور پھر نماز اور روزے پر مولانا نے کلام کیا تھا۔ اتفاق سے ظفراسحاق انصاری اور میں نے یہ کتاب ساتھ ساتھ ہی پڑھی تھی۔ کتاب پڑھنے کے دوران ہم اس کے استدلال پر بات کر رہے تھے‘ کہ ظفر اسحاق نے ہنس کر کہا: ’’لگتا ہے مولانا نماز پڑھوا کر رہیں گے‘‘۔ مطلب یہ کہ اُن کا قاری ایک فقرے سے اتفاق کر لے تو پھر اس کے لیے فرار ممکن نہیں رہتا۔ اس چیز کو میں مولانا کے اسلوبِ بیان اور طرزِ فکر ہی نہیں بلکہ ان کی شخصیت کے توازن اور اعتدال کی اثرپذیری کا ایک پہلو سمجھتا ہوں۔

ان کے ہاں سادگی کا پہلو بھی قابلِ ذکر ہے۔ تین عشروں پر پھیلے ہوئے اس تعلق کے دوران میں نے انھیں نہایت سادہ اور شفاف انسان پایا‘ جس کا ظاہروباطن ایک ہے۔ جس میں کوئی شو آف یا نمودونمایش نہیں ہے۔ ابتدائی زمانے کی بات ہے کہ اخوان سے متاثر دو نوجوانوں کو کراچی میں مولانا سے ملاقات کرانے کے لیے ناشتے پر بلایا۔ ان میں سے ابراہیم قاہرہ سے آئے اور دوسرے شام سے۔ ملاقات کے بعد انھوں نے کہا: ’’اس شخص کے چہرے‘ آداب‘ گفتگو‘ فکر اور زندگی کے انداز میں ہمیں یک رنگی اور شفافیت نظر آئی ہے اور بے ساختہ دل گواہی دیتا ہے کہ یہ شخص عبدِرحمن ہے‘‘۔ یہ شفافیت اور سادگی ان کی زندگی کا ایک غیرمعمولی پہلو تھی۔

مولانا کی ذات میں بڑی شفقت بھی تھی۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ مولانا میں گرم جوشی  نہیں تھی۔ ہو سکتا ہے کہ کہنے والے کسی فرد کے ساتھ ایسا معاملہ ہوا ہو۔ لیکن میری نگاہ میں   اظہارِ شفقت و محبت میں کسی روایتی انداز کو نہ اپنانے کا سبب ‘مولانا کے فکر وعمل کا وہی ڈسپلن تھا۔

مولانا اپنی زندگی ایک ضابطے کے مطابق گزارتے تھے اور یہی پسند کرتے تھے کہ تمام لوگ وقت‘ صلاحیت اور مقصدیت کے متوازن تعلق کے ساتھ زندگی گزاریں۔ اسی کے مطابق وہ افراد سے میل جول میں بھی توازن برتتے تھے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں جو عمومی کلچر ہے‘  اس میں کسی فرد کی خوش مزاجی کا معیار یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ جتنا حد سے بڑھ کر بے تکلف ہونے کی کوشش کرے‘ بار بار صحت کا حال دریافت کرے‘ جا و بے جا تعریف کرے‘ چاہنے نہ چاہنے کے باوجود خوش مزاجی کا مظاہرہ کرے یا زبردستی کھانے پینے کی دعوت دے‘ تو اسے گرم جوشی کا مظہر قرار دیا جاتا ہے۔ بلاشبہہ یہ چیز مولانا مودودی میں نہیں تھی۔ لیکن اس کے مقابلے میں جس چیز کو شفقت‘ قلبی تعلق اور caring کہتے ہیں وہ مولانا میں بدرجہ اتم موجود تھی۔

مجھے اس چیز کا تجربہ خاص طور پر اس وقت ہوا جب میں ۱۹۶۴ء میں اُن کے ساتھ جیل میں تھا۔ میں نے دیکھا کہ مولانا کا تعلق ہم سبھی کے ساتھ بڑا ہی پرسنل سطح پر ہے۔ ہماری ہر بات کا خیال رکھنا‘ ہم لوگ بیمار ہوئے تو ہمارے پاس آکر دیر تک بیٹھتے۔ لاہور جیل میں ہم کراچی والوں کے خیمے میں وہ اکثر تشریف لے آتے اور دو دو گھنٹے مختلف موضوعات پر باتیں ہوتیں۔ لاہور جیل کے جس احاطے میں ہم لوگوں کو کراچی سے منتقل کیا گیا‘ اس کے نتیجے میں جگہ کم پڑ گئی۔ اس لیے چھولداریاں لگا کر ہمیں اُن میں رکھا گیا۔ فروری کی سردی تھی اس فضا میں مجھے بخار ہوگیا اور سخت زکام میں میری ناک بند ہوگئی‘ تو دن میں تین تین بار مولانا اپنی دوائی ’نیزل ڈراپ‘ لا کر ڈالتے۔ ایک رات بارش ہوگئی تو مولانا کی بے چینی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ جتنی دیر بارش ہوتی رہی‘وہ بے بسی میں جنگلے میں کھڑے رہے۔ (مولانا کے جنگلے میں سرِشام تالا ڈال دیا جاتا تھا اور ہم جنگلے کے باہر احاطے میں عارضی ٹینٹ میں رہ رہے تھے) اور برابر ہماری خیریت دریافت کرتے رہے۔ کھانے کی کوئی چیز آتی تو سب میں بٹوا دیتے‘ اگر کم ہوتی تب بھی تقسیم کر دیتے۔

نعیم صدیقی صاحب نے بتایا تھا: ’’دارالاسلام میں جماعت کے ایک نہایت ذہین نوجوان عرفان نہاتے ہوئے نہرمیں ڈوب گئے تو مولانا سخت بے چینی میں تین میل تک ان کی میت تلاش کرنے گئے اور اُن کی طبیعت پر دکھ اور افسردگی بہت نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی تھی‘‘۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ شفقت کا اظہار میں نے بارہا دیکھا‘ جو ان کی شخصیت کا جزولاینفک تھا۔

شوریٰ کے موقع پر جب ہم لاہور آتے تو کسی ایک روز وہ چودھری غلام محمد مرحوم‘ حکیم اقبال حسین مرحوم‘ صادق حسین صاحب کو پیغام دینے کے لیے مجھے کہتے: ’’خورشید میاں‘ کل صبح ناشتہ نہ کیجیے گا‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اگلے روز وہ ہمیں اپنے گھر پر نہاری کی دعوت دے رہے ہیں۔مولانا خود بڑے اہتمام اور پورے آداب کے ساتھ نہایت لذیذ نہاری تیار کراتے تھے اور اگلے روز ہم دس گیارہ بجے کے درمیان اُن کے کمرے میں زمین پر بیٹھ کر نہاری کھایا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ ہے‘ جب ۵-اے ذیلدار پارک میں شوریٰ کا اجلاس ہوتا تھا۔ برآمدے کے آگے شامیانہ لگا کر اور کوئلوں کی انگیٹھیاں رکھ کر جنوری فروری کا اجلاس ہوتا تھا۔

وہ ہم لوگوں سے اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے اور اس کے ساتھ بعض چیزوں کا خاص طور پر خیال رکھتے‘ مثلاً: وہ مجھے انفرادی طور پر تو ’خورشیدمیاں‘ کہہ کر پکارتے‘ لیکن جب دوسرے افراد ہوتے تب ’خورشید صاحب‘ کہتے۔ یہ اُن کی شفقت اور وضع داری کا انداز تھا۔ منور کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا کرتے تھے کہ وہ ان کے دوست اخلاق صاحب کے فرزند تھے۔

اب میں ایک بات ذرا ڈرتے ڈرتے لکھ رہا ہوں‘ جس کا تعلق ان کے غیرمعمولی اعتدال سے ہے حتیٰ کہ دین کے معاملے میں بھی۔ ان کے ہاں عبادت میں شغف‘ ذکر‘ دعا اور نوافل میں حددرجہ باقاعدگی کے ساتھ ساتھ توازن اور اعتدال بھی تھا۔ بہرحال ایک واقعے سے مجھے سخت دھچکا لگا۔ مرحوم خلیل احمد حامدی صاحب‘ چودھری غلام محمد صاحب اور مجھے ایک بار مولانا کے ہمراہ عمرے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ہم لوگ تو حرم پاک میں گھنٹوں بیٹھے عبادت کرتے۔ مگر میں نے مولانا کو دیکھا کہ وہ فرض اور سنت پڑھنے کے بعد کچھ دیر اذکارِ مسنونہ پڑھتے‘ پھر ریاض الجنہ جاتے‘ صفہ میں نفل ادا کرتے اور اس کے بعد سیدھے ہوٹل جاکر دعوتی اور دوسری دینی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتے۔ اسی طرح رات کے وقت نمازِ تہجد ادا کی‘ کچھ نفل پڑھے‘ تلاوت کی اور پھر واپس ہوٹل چلے گئے اور فجر کی اذان سے پہلے حرم میں آگئے۔

دل میں یہ بات رہی کہ حرمین الشریفین میں آکر یہ اُس طریقے سے اظہار کیوں نہیں کررہے جس طرح عام لوگ کرتے ہیں۔ اگرچہ ان کے معمولات مختلف ہیں۔ یہاں کی غیرمعمولی صورت حال اور مصروفیات کے باوجود مولانا نے اپنے آپ کو ایک نظم و ضبط اور اعتدال میں ڈھالا ہے۔ مگر باقی تمام معمولات کا نظام بالکل ہی درہم برہم نہیں ہونے دیا۔

جب مولانا کے لیے سزاے موت کا اعلان کر کے انھیں پھانسی کی سزا پانے والوں کی کوٹھڑی میں منتقل کر دیا گیا۔ یہاں انھوں نے پانچ سات دن گزارے۔ میاں انور علی انسپکٹر جنرل پولیس اور ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹرنے ایک گواہی دی۔ انور علی نے لکھا ہے اور ڈاکٹر نے خود مجھے بتایا ہے۔ یہ دونوں شہادتیں ایسی ہیں کہ انھیں جھٹلانا ممکن نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم غیرمعمولی طور پر یہ چیز نوٹ کر رہے تھے کہ سزاے موت سننے کے بعد اس شخص کا ردعمل کیا ہے۔ انھوں نے آزاربند کے بغیر والا پاجامہ تک پہن لیا۔ اس کے بعد انھوں نے اسی طرح نماز پڑھی‘ نفل پڑھے‘ قرآن پڑھا اور پھر کتاب کا مطالعہ کیا اور یہ کتاب تھی غالباً  سیرت سید احمد شہید۔ مولانا میں نہ گھبراہٹ‘ نہ کوئی آہ و بکا اور نہ کوئی ایسے آثار پائے گئے کہ یہ شخص چند روز کے فاصلے پر موت کو دیکھ کر ہل گیا ہو۔ ایسی کوئی چیز مشاہدے میں نہ آئی بلکہ اس کے برعکس موت کو آنکھوں کے سامنے دیکھ کر وہ پہلے سے بھی زیادہ پُرسکون اور ایک کوہ وقار کی طرح نظر آئے۔ ان کے   صبح و شام میں وہی معمولات ‘ وہی ڈسپلن اور وہی اعتدال تھا‘ حتیٰ کہ نماز اور نوافل کے باب میں بھی وہی اعتدال کہ جو ان کا معمول تھا!

جب میں حرمین الشریفین اور پھانسی گھاٹ کے ان دونوں واقعات کو دیکھتا ہوں تو یہ امر سامنے آتا ہے: ایک طرف وہ اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دیتے ہیں اور دوسری جانب اللہ کے عطاکردہ فہم دین کے مطابق جو تقاضے انھوں نے سمجھے اور ان تقاضوں کے مطابق جو نظامِ کار انھوں نے بنایا‘ اسے پورا کرنے کے لیے اوقاتِ کار کی معمولی سی تبدیلی کے بعد پوری یکسوئی کے ساتھ اسی رحمن و رحیم کے دین کی خدمت میں لگ جاتے تھے۔ اعلیٰ ترین مقام عبادت پرجا کر بھی پورا وقت نفل پڑھنے میں نہیں گزارتے‘ ایسا کرنے کے بجاے وہ بنیادی عبادت و نفل ادا کر کے جہادِ زندگانی میں مصروف ہو جاتے۔

عمرے والے واقعے کی خلش میرے دل میں اُس روز دُور ہوئی‘ جب میں حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح پڑھتے ہوئے اُس مقام پر پہنچا کہ جہاں ایک فرد‘ حضرت جنید کے پاس مہینہ بھر رہ کر جانے کی اجازت مانگنے لگا تواُنھوں نے پوچھا: ’’بھائی کیوں آئے تھے اور اب کیوں جا رہے ہو؟‘‘ فرد نے کہا: ’’میں اس لیے آیا تھا کہ میں نے آپ کی بڑی دھوم سنی تھی‘ عارف باللہ ہونے کی حیثیت سے۔ میں نے پورا وقت یہاں بڑے آرام سے گزارا اور بہت کچھ سیکھا ہے لیکن یہاں میں نے کوئی غیرمعمولی بات نہیں دیکھی۔ اس طرح قرآن اور اس طرح کی نماز تو میں ہر جگہ پڑھتا اور دوسروں کو پڑھتے دیکھتا تھا‘‘۔ حضرت جنید نے پوچھا :’’کیا تم نے ہمارے ساتھ رہ کر کوئی چیز شریعت کے خلاف دیکھی؟‘‘ اس نے کہا: ’’نہیں‘‘۔ پھر پوچھا: ’’شریعت جس طرح زندگی گزارنے کا حکم دیتی ہے‘ کیا ہم اس کے خلاف زندگی گزار رہے ہیں؟‘‘ اس نے کہا: ’’نہیں‘ البتہ میں نے کوئی کرامت نہیں دیکھی‘‘۔ حضرت نے فرمایا: ’’بس ہم وہی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو شریعت میں مطلوب ہے‘ نہ کم نہ زیادہ‘‘۔ اس واقعے کو پڑھ کر میرے دل کی خلش دور ہوگئی کہ مولانا نے مقاماتِ ربانی پر پہنچ کر بھی کیوں زیادہ وقت نوافل پڑھنے میں نہیں گزارا۔ اور حضرت جنید کا واقعہ پڑھ کر مولانا کی عظمت کا نقش اور بھی گہرا ہوگیا۔ یہ واضح ہوا کہ آزمایش ہو یا مقاماتِ ربانی کی تجلیات کا قرب‘ جس شخص نے اللہ سے اپنی جان کا سودا کرلیا ہے‘ وہ شریعت کے متعین کردہ فریم ورک میں رہ کر معمولات کے مطابق ہرکام کرتا ہے۔ یہی اصل کامیابی ہے‘ یہی اصل کرامت ہے اور یہی اصل مطلوب ہے۔

عدمِ توازن خواہ دینی معاملات میں ہو یا دنیوی امور میں‘ اس سے وہ پہلو بچاتے تھے۔ یہاں حضرت عمر فاروقؓ کا وہ فرمان ذہن میں آ رہا ہے کہ جس میں انھوں نے فرمایا: دنیا اور دین دونوں کے معاملات میں غلو ناپسندیدہ ہے۔ ان ہدایات کے مطابق میں نے مولانا کی زندگی میں وہ توازن اور اعتدال پایا‘ جو اللہ کے دین کو قبول کر کے اور اس کے تقاضوں کو سمجھنے کا لازمی نتیجہ ہونا چاہیے۔ مولانا مودودی نے قدم قدم پر یہ اہتمام کیا‘ کہ کوئی چیز شریعت کے خلاف نہ ہو بلکہ شریعت کے تقاضے پورے کرنے والی ہو۔

مولانا مودودی کے ساتھ گزرے ہوئے وقت میں کرامت تو نہیں لیکن ایک چیز بارہا مشاہدے میں آئی۔ وہ یہ کہ کئی معاملات میں انسانی تدبیر کی انتہا کرلی‘ مگر راستہ بند پایا‘ جسے محاورے کی زبان میں کہتے ہیں ’’بندگلی میں پہنچ گئے‘‘۔ اس صورت حال میں جب مولانا کے پاس گئے تو انھیں اسی طرح پُرسکون چہرے‘ پُراعتماد اور اطمینان بھرے لہجے میں بات کرتے دیکھا‘ اور اکثر وہ رکاوٹ ان کی دعا اور معمولی سے استدلال یا کاوش سے دُور ہوگئی۔

اس حوالے سے بہت سے واقعات ہیں‘ لیکن یہ ایک واقعہ دیکھیے۔ ۱۹۶۴ء میں‘ مولانا مودودی‘ میاں طفیل محمدصاحب‘ چودھری غلام محمد اور دوسرے رفقا کے ساتھ میں لاہور کی جیل میں تھا۔ سپریم کورٹ نے جماعت پر پابندی غیرقانونی قرار دے دی تھی‘ لیکن ابھی ہم قید ہی تھے اور رہائی کے لیے ہائی کورٹ میں آخری سماعت ہو رہی تھی۔ جس کے لیے مجھے چودھری غلام محمدصاحب کے ہمراہ دوسری بار لاہور لایا گیا تھا کیونکہ وہ بھی کراچی جیل میں تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب متحدہ حزب اختلاف (COP) نے محترمہ فاطمہ جناح کو فیلڈ مارشل ایوب خاں کے مقابلے میں متفقہ صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا۔ ہم لوگ تو جیل میں تھے اور باہر چودھری رحمت الٰہی صاحب پوری تندہی کے ساتھ جماعت کے سیاسی و اجتماعی موقف اور عدالتی عمل سے متعلق    تمام امور انجام دے رہے تھے۔ انھی کے ذریعے جماعت ‘متحدہ اپوزیشن سے رابطے میں تھی اور فاطمہ جناح کی حمایت کرنے یا نہ کرنے کا مسئلہ درپیش تھا۔

چودھری رحمت الٰہی صاحب نے مشورے کے لیے جیل کے اندر مولانا کو پیغام بھیجا کہ کیا کیا جائے۔ اگلے روز اپوزیشن کا اجلاس تھا۔ ہمیں مغرب کے وقت یہ پیغام ملا۔ نمازِ مغرب ادا کرکے کھانا کھایا اور پھر مولانا نے ہمیں مشورے میں شریک کیا۔ چودھری غلام محمد صاحب‘ غلام جیلانی صاحب اور میری رائے یہ تھی کہ ہمیں محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت اور تائید کرنی چاہیے لیکن مولانا متردد اور مضطرب تھے کہ ہم عورت کی سربراہی کے مسئلے میں ایک واضح اور اصولی موقف رکھتے ہیں۔ ہر پہلو سے ہمارے مابین دلائل کا تبادلہ ہوا۔ شریعت کی منشا اور معاشرے پرظلم و زیادتی اور ایوب خاں صاحب کے تجدد پسندانہ ذہن‘ آمرانہ اندازِ حکمرانی اور قومی     یک جہتی کو درپیش خطرات اور اس کے مقابلے میں مصلحت عامہ کے اصول تک زیربحث آئے۔ طویل بحث و تمحیص کے بعد ایک وقت آیا کہ ہم تو آرام کے لیے لیٹ گئے‘ مگر مولانا رات گئے تک اضطراب میں ٹہلتے اور سوچتے رہے۔ آخرکار اگلے روز صبح گیارہ بجے کے قریب یکسو ہوگئے کہ   اس صورتِ حال میں فاطمہ جناح صاحبہ کی حمایت کرنی چاہیے۔ اور پھر مولانا نے اسی وقت بیٹھ کر آدھے صفحے پر مشتمل تحریر لکھی۔ سوال یہ تھا کہ اس تحریر کو باہر کیسے بھیجا جائے؟ کوئی راستہ نہیں تھا۔ آدھا دن گزر چکا تھا اور اسی شام اجلاس تھا۔ باہر ہدایت بھیجنا ضروری تھا اور راستہ بند تھا۔

اس مقصد کے لیے ہم پریشان تھے‘ مگر مولانا فیصلہ کرنے اور تحریر لکھنے کے بعد مطمئن اور پُرسکون تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد چودھری غلام جیلانی صاحب نے کہا میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل سے بات کرتا ہوں‘ وہ خود تو یہ تحریر باہر نہیں بھجوا سکے گا‘ ممکن ہے کوئی مدد کر سکے۔ یہ کہہ کر وہ نائب داروغہ جیل کو ملے اور کہا کہ اگر آپ مجھے فلاں شخص کو بلانے کے لیے فون کرنے کی اجازت دے دیں تو میں شکرگزار ہوں گا اور ہم رازداری سے پیغام بھی دے سکیں گے اور آپ پر کوئی حرف بھی نہیں آئے گا۔ اس افسر نے مسکرا کر کہا: ’’وہ تو یہ اطلاع پہلے حکومت کو دے گا‘‘۔ جیلانی صاحب مایوسی میں ابھی ڈیوڑھی سے واپس نہیں آئے تھے لیکن میں دیکھ رہا تھا مولانا جیسے اس صورت حال سے بالکل بے نیاز اور پُراعتماد ہیں‘ کہ اچانک جیلر کا کارندہ آیا کہ کوئی فرد خصوصی اجازت لے کر ملاقات کے لیے آیا ہے۔ اس طرح وہ سلپ چودھری رحمت الٰہی صاحب کو بھجوا دی۔ یہ اور اس سے ملتے جلتے متعدد واقعات ہمارے سامنے وقوع پذیر ہوئے۔ دراصل مولانا کو اعتماد تھا کہ جو چیز حق ہے‘ وہ ہوکر رہے گی۔

ایسا ہی واقعہ مولانا کی گردے کی پتھری کا ہے‘ جب وہ ۱۹۴۸ء میں جیل گئے تواس سے پہلے پتھری کی تکلیف بار بار تنگ کرچکی تھی۔ لیکن جیل میں جاتے ہی مولانا نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے ان ظالموں سے کسی سہولت کی درخواست نہ کرنی پڑی۔ خدا کا کرنا کہ پتھری اپنے راستہ سے ہٹ گئی اور ۲۸ سال ہٹی رہی۔ یہی وہ پتھری تھی جس کے اپریشن کے لیے ہم ۱۹۶۸ء میں مولانا کو انگلستان لے کر گئے تھے۔

ایک پہلو‘ ان کے طریق تربیت کا ہے اور یہ اُن کی شخصیت کا بڑا اہم پہلو ہے۔

اس میں کوئی روایتی یا مصنوعی چیز نہ تھی‘ جس طرح کہ سلوک‘ تصوف یا طریقت کے حوالے سے ہمارے کلچر میں معروف‘ منسوب یا روایت کی جاتی ہیں۔ مولانا مودودی نے اپنی تحریر‘ تقریر‘ تلقین اور ملاقات میں تزکیۂ نفس کے لیے جس چیز کی طرف متوجہ کیا‘ وہ صرف قرآن اور سیرت رسولؐ کی مرکزیت‘ صحابہ کبارؓ سے منسوب مختلف پہلو تھے۔ بس یہی ماخذ مولانا کے سلوک اور طریقت کے سرچشمے تھے۔ کبھی کبھی صلحاے اُمت کی اُن روایات کو بھی دہرایا جو مذکورہ بالا کسوٹی پر پورا اُترتی تھیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ وہ ثانوی ماخذ پر احتیاط اور توازن کے ساتھ متوجہ ہوتے۔ وہ اسی ترتیب کے مطابق تربیت و تزکیہ اور ضبطِ نفس کی تعلیم دیتے اور کہتے تھے کہ: اللہ اور اس کے رسولؐ نے عبادات و معاملات کے لیے جو حکم دیا ہے کم از کم اسے تو پورے توازن سے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں کسی ایک چیز پر زیادہ زور دیں گے تو مطلوب توازن بگڑ جائے گا‘‘۔

میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ مولانا محترم اگر کسی فرد میں غلطی‘کمی‘ کوتاہی یا تساہل دیکھتے تو اسے انفرادی طور پر متوجہ کرتے۔ سخت سست کہنے‘ ڈانٹنے‘ غصے میں بلندآواز میں بولنے یا دوسروں کے سامنے اس کی عزتِ نفس مجروح کرنے کے بجاے بڑے ہی پیارے انداز سے توجہ دلاتے کہ اُن کے اس توجہ دلانے کے انداز میں بڑی مٹھاس پر پیار آتا تھا۔ ایسی متعدد مثالیں ہیں۔ میری بدخطی اور پروف ریڈنگ کے حوالے سے سہل انگاری پر بھی لطیف پیراے میں توجہ دلاتے۔ اور یہ کہتے: دیکھو خورشید میاں‘ میں اپنی کوئی چیز اس وقت تک چھپنے کے لیے نہیں دیتا جب تک اس کی خود پروف ریڈنگ نہ کر لوں اور یہ اطمینان نہ کر لوں کہ جن غلطیوں کی نشان دہی کی تھی‘ وہ لگ گئی ہیں یا نہیں۔ یہاں پر ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔ میری ادارت میں ماہ نامہ چراغِ راہ کا سوشلزم نمبر شائع ہوا تو آپ نے لکھا: ’’سوشلزم نمبر میں نے بہ غور پڑھا۔ آپ کی محنت قابلِ داد اور طباعت کے معاملے میں شدید تساہل قابلِ فریاد ہے۔ اپنی ہی محنت کو اس تساہل کی بدولت جس طرح آپ لوگوں نے برباد کیا ہے‘ اگر وہ کوئی اتفاقی واقعہ ہوتا تو شاید صبر بھی کیا جا سکتا تھا‘   لیکن اس سے پہلے بارہا میں آپ لوگوں کوتوجہ دلا چکا ہوں کہ کتابت کی صحت اور طباعت کی  درستی کے معاملے میں لاپروائی برت کر آپ لوگ اپنے کیے کرائے پر پانی پھیر لیتے ہیں‘‘۔(خطوط مودودی‘ دوم‘ ص ۳۹۲)

پڑھنے کو تو یہ ایک مختصر سا نثرپارہ ہے ‘ لیکن دیکھا جائے تو اس میں حوصلہ افزائی اور کوتاہی کو ایک ہی جگہ نہایت خوب صورت اور جامع انداز میں بیان کر دیا ہے۔

یہ اس وقت کی بات ہے‘ جب جمعیت کا انگریزی پرچہ Students Voice میری ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس کے بالکل ابتدائی دور میں مولانا نے اپنے خط (۱۸ اگست ۱۹۵۲ئ) میں لکھا: ’’اسٹوڈنٹس وائس برابرآ رہا ہے۔ آپ لوگوں کی اس کامیاب کوشش کو دیکھ کر دلی مسرت ہوئی۔ امید ہے کہ جو لوگ اس پرچے میں لکھنے کی مشق کریں گے وہ آگے چل کر انگریزی صحافت میں اسلام کی عمدہ ترجمانی کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے‘‘ (ایضاً‘ ص ۳۹۰)۔ اس میں حوصلہ افزائی بھی ہے‘ رہنمائی اور دعا بھی‘ بلکہ پیش گوئی بھی۔ کیونکہ آنے والے زمانے میں وائس کے انھی نومشق طالب علموں میں سے ایک بڑی تعداد بعد میں تحقیق و تصنیف کے میدان میں خدمات انجام دینے والی بنی۔

میں شوریٰ اور دوسرے اجلاسوں میں اپنی روز مرہ عادت کے مطابق کوٹ پتلون ہی میں شرکت کرتا رہا‘ لیکن مولانا نے مجھے ایک بار بھی اس پر سرزنش نہیں کی۔ اس کے برعکس اسعد گیلانی صاحب اور محموداعظم فاروقی صاحب نے کئی بار ٹوکا۔

۱۹۵۷ء کے بعد جماعت ایک داخلی بحران سے گزری‘ جس میں الگ ہونے والے محترم رفقا میں سے بعض نے نہایت تکلیف دہ اسلوب میں نہ صرف پروپیگنڈا مہم چلائی بلکہ جماعت کے اندر رفقا کی یکسوئی کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ سخت تکلیف دہ مرحلہ تھا۔ اس دوران مولانا نے شخصی بازپرس کرنے اور کسی کا نام لیے بغیر مجموعی طور پر مختلف امور کی جانب توجہ دلائی اور اجتماعی بگاڑ کی خرابیاں بیان کر کے ان سے بچنے کی راہیں بتائیں۔ وہ تحریریں اجتماعی زندگی کو کامیابی سے گزارنے کے لیے بنیادی دستاویز کا درجہ رکھتی ہیں۔ایک روز میں نے مولانا سے اس مسئلے پر بات کی اور پوچھا آپ بعض صورتوں میں عمومی اسلوب کیوں اختیار کرتے ہیں حالانکہ خرابی چند افراد نے کی ہوتی ہے؟

مولانا محترم نے فرمایا: ’’یہ اسلوب میں نے سیرت پاکؐ سے اخذ کیا ہے۔ جب مجھے کہیں کسی فرد میں خرابی نظر آتی ہے تو اپنے انداز میں اسے سمجھانے یا توجہ دلانے کی کوشش کرتا ہوں۔ لیکن جب یہ دیکھتا ہوں کہ اس خرابی میں متعدد لوگ مبتلا ہو رہے ہیں تو پھر فرداً فرداً مخاطب کرنے کے بجاے عمومی انداز میں توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیں یہ نہیں کرنا چاہیے‘ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے یا آپ کو اس پہلو پر خصوصی توجہ دینی چاہیے‘‘۔

میں نے پوچھا: سیرت پاکؐ میں یہ بھلا کس طرح ہے؟

فرمایا: ’’اگر کسی ایک صحابی کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوتا تو آنحضوؐر اسے الگ سے سمجھاتے اور جب خرابی زیادہ پھیلتی نظر آتی تو صحابہؓ میں سے کسی فرد کا دل توڑنے کے بجاے اس طرح ہدایت دیتے یا بیان فرماتے: لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسا کر رہے ہیں یا اس طرح کیوں نہیں کررہے و غیرہ۔ اس طرح آنحضوؐر فرد کی عزتِ نفس کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے توجہ بھی دلاتے اور اسے تنقید کا ہدف بننے سے بھی بچاتے۔

مولانا میں ایک اور بڑی قابلِ ذکر خوبی تھی۔ وہ یہ کہ حفظ مراتب کا خیال رکھنا‘ دوسرے کی عزت کرنا‘ اس کا دل رکھنا‘ اس کے مقام کے مطابق ہی نہیں‘ بلکہ اس سے بڑھ کر عزت دینا اور اکرام کرنا۔ مولانا مودودی‘ مشرقی تہذیبی روایت کے اس صحت مند پہلو کا دل آویز نمونہ تھے۔

ایک مرتبہ کراچی میں مفتی محمد شفیع مرحوم و مغفور کے ہاں مجھے مولانا مودودی کے ہمراہ جانے کا موقع ملا۔ نماز کا وقت ہوگیا تو مفتی صاحب نے مولانا سے کہا: ’’آپ امامت کریں‘‘۔ مگر مولانا نے اصرار کیا : ’’نہیں‘مفتی صاحب نماز آپ ہی پڑھائیں‘‘ اور پھر مفتی صاحب کی اقتدا میں نماز پڑھی۔ اس کے برعکس بیچ لگژری ہوٹل میں جمعیت الفلاح کا ایک اجلاس ہو رہا تھا۔ مولانا احتشام الحق تھانوی مرحوم اور مولانا عبدالحامد بدایونی مرحوم وہاں موجود تھے۔ نمازِمغرب سے پہلے تھانوی صاحب اُٹھے اور اپنے انداز میں کہنے لگے: صفیں یہاں بچھائو ‘ فلاں چیز ادھر رکھو کہ اتنی دیر میں اذان ہوگئی اور بدایونی صاحب جھٹ سے آگے بڑھ کر امامت کے لیے کھڑے ہوگئے۔ اس طرح کا معاملہ کبھی مولانا کے ہاں نہیں دیکھا گیا۔ مولانا مودودی اپنے تمام معاصرعلماے کبار کا بڑا احترام کرتے تھے۔

ممتاز قانون دان اے کے بروہی مرحوم سے مولانا کے بڑے اچھے تعلقات تھے اور یہ لکھتے ہوئے خوشی محسوس کرتا ہوں‘ ان روابط کو استوار کرنے میں ابتدائی کردار میں نے ادا کیا تھا۔ بروہی صاحب سے میری ملاقات بڑے دل چسپ انداز میں ہوئی۔ یہ ۱۹۵۳ء کی بات ہے۔ بروہی صاحب حکومت سندھ کے غالباً ایڈووکیٹ جنرل تھے۔ انھوں نے Dawn میں مضمون لکھا: Can Islam give a Constitution?۔ جواب میں‘ میں نے اسلامی جمعیت طلبہ کے انگریزی ترجمان اسٹوڈنٹس وائس میں دو تین صفحات پر مشتمل اسی عنوان سے اس کا جواب لکھا۔ اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے گورنر اور خرم مرحوم کے ماموں زاہد حسین صاحب نے اس مضمون کو بہت پسند کیا۔ متعدد لوگوں کو پڑھنے کے لیے بھیجا۔ پھر ایک روز بتایا کہ بروہی صاحب نے بھی اس مضمون کو خوب سراہا ہے اور پیغام دیا ہے: ’’میں اس مضمون کے لکھنے والے سے ملنا چاہتا ہوں‘‘۔ جس پر میں ان کے ہاں پہنچا۔ بڑی محبت اور شفقت سے ملے۔ بروہی صاحب کہنے لگے: ’’میں آپ کے مضمون سے قائل تو نہیں ہوا لیکن اس موضوع پر جو بھی لکھا گیا ہے‘ اُس میںآپ کا مضمون‘ موضوع سے متعلق اور سب سے اچھا ہے‘‘۔ پھر اسی زمانے میں ان کی کتاب آئی تھی An Exercise in Self Expression وہ انھوں نے اپنے دستخطوں کے ساتھ دی۔ بعد میں بھی بار بار ملتے رہے۔ بہت سی کتب پڑھنے کے لیے دیتے اور شفقت کرتے رہے۔ اسی دوران میں نے ان سے کہا‘ میں یہ چاہتا ہوں کہ مولانا خطاب کریں اور آپ اس اجلاس کی صدارت کریں۔ انھوں نے کہا: ’’ضرور آئوں گا‘‘۔

اس کے بعد جب مولانا مودودی کراچی آئے تو ہم نے کراچی جمعیت کے تحت ایک پروگرام رکھا‘ جس میں صدارت بروہی صاحب کی تھی اور خطاب مولانا کا تھا۔ مولانا کی تقریر کا موضوع تھا: ’’اسلام اور مغربی تہذیب‘‘۔ یہ اجلاس عام وائی ایم سی اے ہال کراچی میں ہوا تھا۔ اسی اجلاس میں مولانا اور بروہی صاحب پہلی مرتبہ ملے تھے اور تقریر میں بروہی صاحب نے کہا تھا: ’’مولانا مودودی جیسا قانونی ذہن میں نے شاذ ہی دیکھا ہو‘‘۔ اس کے بعد انھوں نے مولانا کو گھر کھانے پر بلایا۔

اسلامی قانون کی تدوین کے موضوع پر مولانا مودودی کا کراچی بار ایسوسی ایشن میں خطاب تھا۔ سامعین میں ججوں کے علاوہ تین چار سو وکلا اور مفتی محمد شفیع مرحوم اور مولانا ظفراحمد انصاری مرحوم بھی شامل تھے۔ مولانا کی تقریر کے بعد مفتی محمد شفیع صاحب نے مولانا انصاری صاحب سے یہ بات کہی اور میں نے خود اپنے کانوں سے سنی کہ:’’اللہ تعالیٰ کو جس قسم کے حالات میں جو کام لینا مطلوب ہے‘ اس کے لیے اپنے کسی بندے کو وہ صلاحیت سے نواز دیتا ہے۔جس طرح مولانا مودودی صاحب نے اس محفل میں وکلا حضرات کے سامنے اسلام کی دعوت کو پیش کیا ہے وہ انھی کا حصہ ہے۔ اگر ہم جیسے لوگوں کو اس کیائوں‘ کیائوں میں کھڑا کر دیا جاتا تو کیا ہوتا‘‘۔ جہاں یہ بات حضرت مفتی صاحب کی طرف سے مولانا مودودی کی عظمت کا فراخ دلانہ اعتراف ہے‘ وہیں خود حضرت مفتی صاحب کی عظمت کا اظہار ہے۔

۱۹۵۳ء میں تحریک ختمِ نبوت پر انکوائری کمیشن بیٹھا۔ اُس وقت مولانا مودودی سزاے موت کے تبدیل ہونے کے بعد عمرقید کاٹ رہے تھے۔ کمیشن نے مولانا کو بیان دینے کے لیے طلب کیا۔ مولانا کے پاس کوئی چیز نہ تھی۔ کمیشن کے سامنے پہلا بیان دینے کے لیے مولانا نے مناسب سمجھا کہ وہ لکھ لیں۔ اس بے سروسامانی میں انھوں نے لکھا اور خوب لکھا: مولانا امین احسن اصلاحی نے فرمایا: ’’کمال ہے‘ یہ بیان مولانا نے قلم سے نہیں بلکہ الہامی انداز میں لکھا ہے‘‘۔

پھر ۱۹۶۰ء یا ۶۱ء میں ایوب صاحب کے عائلی قوانین (فیملی لاز)آئے تو اس کا تنقیدی جائزہ لینے کے لیے تمام مکاتب فکر کے علما کا اجلاس غالباً جامعہ اشرفیہ میں منعقد ہوا تھا۔ اس قانون پر تنقیدی تحریر‘ حرف بحرف مولانا مودودی نے لکھی تھی اور تمام علما نے اس پر دستخط ثبت کیے تھے۔ مفتی محمد حسن صاحب نے فرمایا:’’سبحان اللہ‘ اس سے بڑھ کر اور کیا لکھا جاتا؟ نہ ایک حرف کم کرنے اور نہ زیادہ کرنے کی کوئی گنجائش‘‘۔ یہ تھی مولانا مودودی کی اپنے مضمون‘ فکر اورخیالات پر گرفت۔

۱۹۶۲ء میں ایوب خاں صاحب کا دستور آیا۔ اس وقت کے سب سے نمایاں لیڈر حسین شہید سہروردی صاحب اور دوسرے سربرآوردہ سیاسی قائدین کا خیال تھا کہ اسے مسترد کر دیا جائے اور ۱۹۵۶ء کے دستور کی بحالی کی تحریک چلائی جائے۔ مولانا مودودی کا کہنا تھا:’’اس وقت یہ ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے ہمیں کوشش کر کے اس دستور میں اتنی ترامیم کرا دینی چاہییں کہ اس کی شکل تبدیل ہو جائے اور یہ دستور قابلِ قبول بن جائے‘‘۔ اس مکالمے کا آخری اجلاس مولانا ہی کے گھر ۵-اے‘ ذیلدار پارک اچھرہ میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں سہروردی صاحب کے علاوہ چودھری محمد علی‘ میاں محمود علی قصوری‘ سردار شوکت حیات اور نواب زادہ نصراللہ خاں شریک تھے۔ یہ اجلاس دو تین گھنٹے جاری رہا۔ ہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ باہر بیٹھے ہوئے تھے۔ جب کمرہ کھلا اور اجلاس کے بعد قائدین باہر آئے تو میں نے سہروردی مرحوم کو چودھری محمد علی صاحب سے یہ کہتے ہوئے سنا:

Oh my God! He is a great constitutional mind!

اور محمد علی صاحب نے کہا کہ جو ترامیم مودودی صاحب نے لکھی ہیں‘ اگر فی الحقیقت یہ ترامیم ہو جائیں تو یہ دستور قابلِ قبول ہو جائے گا۔ فوج کی طرف سے دستور میں اقتدار کا بالواسطہ یا بلاواسطہ حق لینے نہیں بلکہ زبردستی اختیار لینے کا معاملہ ۱۹۶۲ء میں تھا‘ اسی کی خواہش یحییٰ صاحب نے ۷۱-۱۹۷۰ء میں کی۔ بعد میںجنرل ضیاء الحق نے ۱۹۸۴ء کے ریفرنڈم اور آٹھویں ترمیم (۱۹۸۵ئ) کے ذریعے یہی چاہا اور پھر جنرل پرویز مشرف نے اسی چیز کو ’’قومی مفاد‘‘ قرار دیا۔ وقت کا فاصلہ اور چہروں کی تبدیلی کو نظرانداز کردیں تو بنیادی ایشو پر یہ تمام فوجی حکمران ہم آواز رہے ہیں۔

ایک بار مولانا نے مجھ سے فرمایا: بعض اوقات مجھے قلم برداشتہ لکھنا پڑتا ہے لیکن اس کے پیچھے برسوں کا غوروفکر ہوتا ہے اور میرے ذہن میں جب کوئی چیز پوری طرح بن جاتی ہے‘ تب میں لکھتا ہوں‘‘۔ یہ تصنیف و تالیف کا کمال ہے۔ اسی طرح شاعری کا معاملہ ہے۔ مشہور شاعر  ٹینی سن کی شاہکار نظم ہے ’’قبلائی خاں‘‘۔ وہ کہتا ہے کہ یہ نظم خواب میں مجھ پر وارد ہوئی اور اُٹھ کر میں نے لکھ ڈالی۔ یہی عالم ہمارے اپنے عظیم ترین شعرا یعنی غالب اور اقبال کا تھا۔

یہ اللہ کی دین ہوتی ہے ‘ مولانا کی بھی یہی کیفیت تھی کہ جب صورت حال پیدا ہوتی اور قلم برداشتہ بھی لکھنا پڑتا تو یوں لکھتے جیسے برسوں سے اس موضوع پر سوچ رہے تھے۔ مربوط‘ مسلسل‘ مدلل‘ موثر اور دل نشیں تحریر!

اب ایک اور حوالے سے دیکھیے: مولانا کو اپنے بچوں سے بہت محبت تھی۔ انھیں خود اس پہلو سے اپنی زندگی میں کمی کا احساس تھا‘ وہ یہ تھا: ’’اپنے بچوں کوجتنا وقت دینا چاہیے تھا وہ میں نہیں دے سکا‘‘۔ حالانکہ مولانا گھر سے متصل ہی بیٹھتے تھے۔ رات کا کھانا ان کے ساتھ ہی کھاتے تھے۔ اپنے سبھی بچوں سے محبت تھی‘ فکرمندی تھی‘ توقعات تھیں‘ تاہم ان میں سب سے زیادہ محبت جس فرد سے تھی‘ وہ اُن کے بڑے صاحبزادے عمرفاروق ہیں۔ ان کا ذکر بڑی چاہت اور بڑی اُمیدوں کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ بلاشبہہ عمرفاروق صاحب میں مولانا محترم کا پرتو پایا جاتا ہے۔ اور جب دوسرے صاحبزادے احمد فاروق کراچی پڑھنے کے لیے گئے تو چودھری غلام محمد صاحب کے ہمراہ مجھ سے بھی کہا: اگرچہ احمد اپنے ماموں کے ہاں مقیم ہیں‘ تاہم آپ لوگ اُن کی ضروریات کا خیال رکھیے گا‘‘۔ اتنی عظیم ذمہ داریوں کے باوجود وہ اس پہلو سے غافل نہیں تھے۔

بعض لوگ جو یہ بات کہتے ہیں کہ مولانا کے ہاں برعظیم کی اہم قومی شخصیات کے باب میں Personality Clash (شخصی تصادم) تھا‘ ایسے افراد ایک خلافِ واقعہ اور ایک قطعی غلط بات کہتے ہیں۔ ایک ایرانی نژاد امریکی نے لکھا کہ قائداعظم کے ساتھ مولانا کا شخصی تصادم تھا‘ کچھ نے کہا کہ اصلاحی صاحب کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ مولانا مودودی کی زندگی کا مجموعی کینوس اور قرائن و شواہد اس الزام کی تائیدنہیں کرتے۔ شخصی تصادم کا ایک عام مظہر یہ ہوتا ہے کہ ہدف شخصیت کا تذکرہ اپنی گفتگو میں برے بھلے اندازمیں آپ سے آپ ہوجاتا ہے۔ لیکن ہم نے کبھی مولانا کو کسی شخصیت کو زیربحث لاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ اگر کبھی بات کی تو مسائل پر اور وہ بھی مناسب حد تک۔ ۱۹۵۷ء میں جو ساتھی الگ ہوئے‘ ان کی علیحدگی اور پھر ایک مہم‘ مگر مولانا نے کبھی ان چیزوں کا جواب نہیں دیا۔ ایک دو افراد نے بہت زیادہ زور دیا تو اُن سے صرف بات کرنے کی حد تک تذکرہ کیا اور اپنی ایسی کسی تحریر کو اُچھالنے کی اجازت نہیں دی۔ دوسری جانب مسئلہ اس کے برعکس رہا بلکہ تکلیف دہ حدتک برعکس!

مولانا مودودی نے پہلے دن سے کوشش کی‘ کہ ان کی معاش آزاد ہو‘ وہ جماعت پر بوجھ نہ بنیں۔ آزاد معاش ہی کی بنیاد پر انھوں نے جماعت کی مدد کی ہے۔ بلکہ انھوں نے اپنی کتب کا بڑا حصہ خدا کی راہ میں وقف کردیا‘ اور کہیں بہت بعد میں جاکر گزربسرکے لیے چند کتب ’ادارہ ترجمان القرآن‘کو دیں۔ جس کوٹھی میں جماعت کا دفترتھا اس کے ایک حصے میں مولانا رہتے اور  اس کا کرایہ جماعت کو ادا کرتے تھے۔ ایک دفعہ چودھری غلام محمد صاحب اور میں‘ مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: ’’جماعت یہ کوٹھی آپ کو تحفتاً دینا چاہتی ہے‘‘۔

مولانا نے فرمایا: ’’نہیں‘ میں اس طرح نہیں لوں گا۔ اگرچہ میرے پاس وسائل نہیں ہیں لیکن آپ مارکیٹ میں اس کی قیمت لگوا لیں‘ جنھیں میں قسطوں میں ادا کر دوں گا‘‘۔

اس پورے عرصے میں مولانا نے ایک انچ زمین بھی نہیں خریدی تھی‘ اور نہ کہیں کوئی جایداد بنائی تھی۔ہم میں سے اگر کسی نے کوئی معمولی سا تحفہ بھی پیش کرنا چاہا تو بڑے تردد کے ساتھ اور ازراہ شفقت قبول کیا۔ مولانا کے انتقال کے وقت اُن کے ترکے میں اس ایک کوٹھی اور چند کتابوں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ اگر کوئی فرد‘ زندگی اپنی اور اپنے اہل خانہ کے لیے گزار رہا  ہوتا تو دولت کا ایک انبار چھوڑ کر بزمِ جہاں سے رخصت ہوتا مگر یہاں معاملہ برعکس تھا۔ بیرونِ پاکستان جو دو مرتبہ علاج کے لیے گئے تو اس میں اُن کے لیے سب سے بڑا ذہنی دبائو یہ ہوتا کہ اس میں ممکن ہے رفقا میں سے کوئی ساتھی زیربار آئیں اور یہ معاونت لینا ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔ الحمدللہ اس سلسلے میں انھوں نے مجھے کچھ سعادت حاصل کرنے کی اجازت دی۔

جماعت اسلامی کے بیت المال میں سے ایک پائی بھی انھوں نے اپنی ذات پر خرچ نہیں کی۔ وہ کسی الیکشن میں کھڑے نہیں ہوئے۔ پاکستان اور بیرونِ پاکستان سے اچھی سے اچھی سہولیات اور بہتر سے بہتر ذرائع آمدن کے مواقع ملے‘ مگر انھوںنے ایسی کسی پیش کش کو پرکاہ کی حیثیت نہ دی اور مقصد زندگی کو اولیت دی۔

ایوب خان صاحب نے انھیں بھاری پیش کش کی اور نیازمندی کا اظہار بھی کیا‘ لیکن انھوں نے شکریے کے ساتھ انکار کر دیا۔ اجتماعی زندگی میں اختیارات کے مسئلے پر ان کا ایک موقف تھا‘ لیکن رفقا نے استدلال پیش کیا تو اپنی راے سے رجوع کر لیا اور کثرت راے سے فیصلوں کے بجاے ان کی کوشش ہوتی کہ اتفاق رائے سے فیصلے ہوں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ جو لوگ مولانا پر حرف زنی کرتے ہیں‘ وہ حقائق سے زیادہ ذاتی تعصب پر اپنے اظہار کو استوار کرتے ہیں۔

زندگی کے ان طویل برسوں میں‘ دنیا بھر میں گھوم پھر کر میں نے کسی دینی یا دنیوی شخصیت میں ایسی خوبیاں اتنے بڑے پیمانے پر اور اتنی گہرائی کے ساتھ نہیں دیکھی ہیں‘ جتنی خوبیاں عصرِحاضر میں مولانا مودودی کی شخصیت میں تھیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں‘ عباد الرحمن میں ایسی خوبیوں کی فراوانی چاہتا ہے اور نبی آخرالزماں نے اسی نہج پر افراد کی تعمیرشخصیت کا پیغام دیا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی ہونے کی حیثیت سے ہم بحیثیت مسلمان اور بحیثیت اسلامی تحریک کے کارکن‘ ان میں سے کون کون سی خوبیوں سے محروم ہیں‘ اس محرومی کو کیسے دُور کر سکتے ہیں اور کن کن خوبیوں کو اپنے اندر پروان چڑھا سکتے ہیں؟

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجھے ہوئے معاملات کو سلجھانا اور اختلافی امور کو حل کرنا حکمت و دانائی کا شیوہ ہے مگر اسے کیا کہا جائے کہ اب اقتدار پر قابض جرنیل اور ان کے ہم نوا دانش ور طے شدہ معاملات کو متنازع بنانے کی مشق بڑی بے دردی سے کر رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ اندرونی مسائل اور مشکلات کی دلدل سے نکلنے کی کوئی راہ پیدا ہو رہی ہے‘ اور نہ خارجہ سیاست میں کہیں روشنی کی کوئی کرن ہی نظر آرہی ہے--- ژولیدہ فکری‘ تضادات اور کہہ مکرنیوں کے سیلاب کے ساتھ اب اصولی موقف اور قومی زندگی کے ثابت اور مستحکم امور بھی مشتبہ اور غیرمعتبر ہوتے جا رہے ہیں اور مفاد کے نام پر ہر اصول‘ ہر حقیقت اور ہر مسلّمہ کلیے سے انحراف کا دروازہ کھولا جا رہا ہے۔ چنانچہ  صرف کنفیوژن میں اضافہ ہو رہا ہے‘ پالیسی کے روشن خطوط دھندلا گئے ہیں اور دلیل کی جگہ ایک ایسے شوروغوغا نے لے لی ہے کہ  ع  کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی!

مصائب تو بہت تھے مگر ذہنی افلاس اور بے اصولی کا جو منظر خارجہ سیاست کے میدان میں نظر آ رہا ہے‘ اس نے ملک و ملّت کو ایسے خطرات سے دوچار کر دیا ہے جن کا اگر بروقت مقابلہ نہ کیا گیا تو پاکستان کے نظریاتی وجود اور تاریخی کردار کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ ان تمام معاملات کا تعلق محض وقتی مصلحتوں سے نہیں بلکہ معاملہ اصول اور ملک و ملّت کے اسٹرے ٹیجک مفادات کا ہے جنھیں محض کسی کی خوشنودی یا کچھ مراعات کی توقع کی خاطر قربان نہیں کیا جا سکتا۔

اسرائیل کو تسلیم کرنے کا سوال بڑے شدومد سے اٹھایا گیا ہے۔باہر کے دشمن اور اندر کے سازشی کوشش کر رہے ہیںکہ پاکستان میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے فضا ہموار ہو۔

یہ ایک بڑا چونکا دینے والا سوال ہے کہ آخر اس وقت یہ شوشہ کیوں چھوڑا گیا ہے؟ فلسطین میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ انتفاضہ الاقصیٰ کو تیسرا سال ہے۔ ڈھائی تین ہزار مسلمان مرد‘ عورت اور بچے اس عرصے میں شہیدہو چکے ہیں۔ فلسطین میں انسانی حقوق کے ادارے ’’لائ‘‘(law) کی رپورٹ کے مطابق صہیونیوں نے ۱۹۴۸ء سے لے کر اب تک ۱۵لاکھ افراد کو گرفتار کیا ہے اور ان کو ٹارچر کا نشانہ بنایا ہے اور طویل عرصے تک بلامقدمہ چلائے جیلوں میں رکھا ہے۔ ۳ لاکھ فلسطینیوں کو زخمی کیا اور ان میں سے ۴۰ ہزار سے زیادہ کو مستقلاً معذور کر دیا ہے۔ سرزمین فلسطین سے اس کے اصل عرب باشندوں میں سے اتنی بڑی تعداد کو ملک بدر کیا ہے کہ اب فلسطین سے باہر فلسطینی مہاجرین کی تعداد۴۵ لاکھ تک پہنچ چکی ہے جو اسرائیل کی پوری یہودی آبادی کے برابر ہے۔ آج بھی مہاجر کیمپوں میں رہنے والوں کی تعداد ۸ لاکھ کے قریب ہے۔ ۱۷۰ ہسپتالوں ‘ ۳۱۵ اسکولوں اور سات یونی ورسٹیوں کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔ عرب علاقے کے ۶۰ فی صد کھیت کھلیان جلا کر خاکستر کر دیے گئے ہیں‘ ۳۷۰فیکٹریاں تباہ کی ہیں‘ ۶ لاکھ سے زائد جانوروں کوموت کے گھاٹ اتار دیا ہے اور اب عرب علاقوں میں ۲۱۰میل لمبی آہنی فصیل بنائی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں عربوں کی لٹی پھٹی زمین کا مزید ۱۰‘۱۵فی صد پر اسرائیلی قبضہ ہوگا۔ جس علاقے کو مستقبل کی عرب ریاست کا محل سمجھا جا رہا ہے وہ ٹکڑوں میں بٹ جائے گی اور اسرائیل کی فوج اور آبادکار ان پر بدستور قابض رہیں گے۔

ظلم و ستم کی اس نہ ختم ہونے والی سوچی سمجھی اسٹرے ٹیجی کی روشنی میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اسرائیل امن کی کسی بھی تجویز پر عمل پیرا ہونے کے لیے تیار نہیںہے۔ نام نہاد روڈمیپ اور اپنی پسند کے فلسطینی وزیراعظم اور پولیس سربراہ کے تقرر کے باوجود نہتے عوام پر ٹینکوں اور ایف-۱۶ سے حملے ہو رہے ہیں۔ ہدف بنا کر سیاسی قائدین اور علما کو قتل کیا جا رہا ہے۔پوری عرب آبادی کو فصیلوں کے ذریعے محصور کیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ یاسرعرفات کو بھی کونے سے لگا دیا گیا ہے۔ صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ جسے ’’روڈمیپ‘‘ کہا جا رہا ہے وہ ایک سراب سے زیادہ نہیں کہ فلسطینیوں کے قدموں تلے کوئی روڈ ہی نہیں ،’’میپ‘‘ کی تو بات ہی کیا!

ایک طرف حالات کی یہ ہولناک صورت ہے اور دوسری طرف جنرل پرویز مشرف کے کیمپ ڈیوڈ کے دورے سے پہلے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے سوال پر اچانک خود کلامی شروع ہو گئی۔ اس کے بعد سیکرٹری وزارتِ خارجہ اور سیکرٹری اطلاعات نے اسرائیل کے تسلیم کیے جانے کے حق میں وعظ شروع کر دیا۔ جنرل صاحب کے علاوہ وزیر داخلہ اور سردار عبدالقیوم بھی میدان میں کود پڑے اور جولائی ۲۰۰۳ء کے Jan's Intelligence Digestنے تو اعلان ہی کردیا کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ اس کے الفاظ میں:

پاکستان کے حکام خصوصیت سے مشرف سے قریب فوجی قیادت اسرائیل کے ساتھ براہ راست روابط قائم کرنے کا پہلے ہی فیصلہ کر چکی ہے۔ مشرف اپنے ایجنڈے کے ساتھ مستقبل قریب میں آگے بڑھنے کے لیے پُرعزم ہیں۔

دفاعی امور کے اس مجلے کے مطابق یہ سب کچھ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ اس سے پاکستان اور اس کی فوج کو بھارت اور امریکہ سے تعلقات کے باب میں اور اسلحے کی خریداری کے لیے کچھ سہولتیں حاصل ہو جائیں گی :

اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ پاکستان کو مستحکم کرنے کی جنرل پرویز مشرف کی کوششوں‘ نیز ان کے اپنے سیاسی مستقبل پر لازماً اہم اثرات مرتب کرے گا۔

دفاعی امور کے بارے میں سراغ رسانی کی اس رپورٹ کا ماحصل یہ ہے کہ فیصلہ تو ہوچکا ہے البتہ ’’جنرل مشرف اندرونِ ملک اور بیرون ملک اس کے ممکنہ اثرات کو ضرور جانچنا چاہتے ہیں‘‘۔

ہم اپنی رائے تو دلائل کے ساتھ پیش کریں گے لیکن اپنی بحث کا نتیجہ بالکل واضح الفاظ میں پہلے ہی بیان کر دینا چاہتے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا ہمالہ سے بڑی غلطی ہوگی جو قوم کے احتجاج اور نفرت ہی نہیں‘ خدانخواستہ اللہ کے غیض و غضب کو بھی دعوت دینے کا ذریعہ بنے گی۔ یہ پاکستان اور جنرل مشرف کے سیاسی مستقبل کو استحکام بخشنے کا نہیں‘ فوری طور پر عدمِ استحکام کی نذر کرنے کا ذریعہ ہوگا۔ اس شوشے کے چھوڑے جانے کے بعد سے آج تک جو کچھ اس کے بارے میں لکھا گیا ہے یا تقاریر اور تبصروں میں جو کچھ کہا گیا ہے اس کا تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ انگلیوں پر گنے جانے والے افراد کے سوا پوری قوم‘ تمام اہم کالم نگاروں اور تمام قابلِ ذکر سیاسی حلقوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔ اسے قومی مفاد اور پاکستان کے تاریخی اور اصولی موقف کی ضد اور ایک بے وقت کی راگنی قرار دیا ہے اور اس شبہہ کا اظہار کیا ہے کہ یہ پاکستان کے اندر سے اُبھرنے والا ایک رجحان نہیں بلکہ باہر سے ہم پر مسلط کیا جانے والا ایک فتنہ ہے--- کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں!

کسی ملک کے جائز ہونے کی بنیادیں

کسی ملک کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا سوال بین الاقوامی قانون‘ سفارت کاری اور تجارت سے متعلق ہے۔ دنیا کے ہر ملک کے لیے ضروری نہیں کہ ہر دوسرے ملک کو لازماً تسلیم کرے‘ یا اس سے سفارت کاری اور تجارت کا رشتہ استوار کرے۔ بنیادی طور پر اس مسئلے کا تعلق دو ہی پہلوئوں سے ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ کیا وہ ریاست یا ملک جس سے معاملہ کیا جا رہا ہے ایک  مبنی برحق اور صاحب ِ اقتدار ملک ہے یا نہیں؟ اور دوسرے یہ کہ اس سے سفارتی یا تجارتی رشتہ استوار کرنا ہمارے مفاد میں ہے یا نہیں؟ پہلا سوال اپنے قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی پہلو رکھتا ہے اور دوسرا خالص مفادات سے متعلق ہے۔ بین الاقوامی قانون اور روایات کی روشنی میں یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر وہ ملک جس سے آپ حالت جنگ (state of war) میں نہ ہوں‘ آپ لازماً اسے تسلیم کریں یا اس سے سفارتی اور تجارتی تعلقات کا رشتہ استوار کریں۔ نیز مختلف وجوہ سے دنیا کے دسیوں ممالک نے برسہا برس تک دوسرے ممالک کو تسلیم نہیں کیا اور کوئی آسمان نہیں گر پڑا۔

خالص قانونی نقطۂ نظر سے کسی ملک کو تسلیم کرنے کے معنی اسے ایک جائز وجود (legitimate entity) تسلیم کرنا ہے۔ بین الاقوامی قانون کی رو سے اس کے لیے اس ملک کے بارے میں چار امور یقینی ہونا چاہییں: ۱- متعین جغرافیائی حدود (defined geographical borders) ۲-آبادی ۳- اپنے حدود میں مکمل آزادی اور ۴- قبضہ۔

یہ حاکمیت (sovereignty) کے لازمی اجزا ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے کوئی ملک ان میں سے کسی پہلو سے بھی متنازع ہو تو اسے تسلیم کرنے میں تردد کیا جاتاہے۔ وہ ملک یا علاقہ جو کسی دوسری قوت کے تابع (کنٹرول میں) ہو اسے آزاد تسلیم نہیں کیا جاتا‘ یا اگر کسی اور وجہ سے اسے جواز (legitimacy) سے محروم تصور کیا جاتا ہو تب بھی اسے تسلیم نہیں جاتا اور یہ سلسلہ صدیوں پر محیط ہو سکتا ہے۔ فاک لینڈ پر انگلستان کے قبضے کو ڈیڑھ سو سال سے زیادہ ہونے کے باوجود‘ ارجنٹائن نے اسے آج تک قبول نہیں کیا۔ روس‘چین‘ تائیوان سب ان مراحل سے گزرے ہیں۔ جموںو کشمیر کے دو تہائی حصے پر بھارت کا قبضہ ہے مگر نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کی وجہ سے صرف قبضے کی بنیاد پر اسے قانونی جواز حاصل نہیں ہوگا۔ اسرائیل کے تسلیم کیے جانے کے سلسلے میں بھی سب سے پہلا اصولی‘ قانونی‘اخلاقی اور سیاسی سوال یہی ہے کہ کیا اسرائیل ایک مبنی برحق ’’جائز‘‘ (legitimate) ریاست ہے؟اس کے عملی وجود (de facto existence) سے توکوئی انکار نہیں کرتا۔ جس طرح صدیوں پر محیط برطانوی‘ فرانسیسی‘ اطالوی‘ ہسپانوی‘ ولندیزی اور دوسرے استعماری طاقتوں کے وجود کا انکار نہیں کیا جا سکتا یا جس طرح جنوبی افریقہ میں سفیدفام پورپیوں کی نسلی ریاست (apartheid state) کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان ریاستوں کو محض قبضے اور اقتدار کی وجہ سے جائز تسلیم نہیں کیا گیا اور بالآخر حالات کی تبدیلی سے آزاد قومی ریاستیں وجود میں آئیں جن کو یواین چارٹر کے تحت سندِجواز حاصل ہوئی۔

اسرائیل کی حیثیت

اسرائیل کا معاملہ دنیا کے باقی تمام ممالک سے بالکل مختلف ہے۔

ارضِ فلسطین بنی اسرائیل کا اصل مسکن نہ تھا۔ یہ اس سرزمین پر ۱۳ سو برس قبل مسیح میں داخل ہوئے اور ۲۰۰ سال کی کش مکش کے بعد اس پرقابض ہوگئے۔ دو بار یہ اس سرزمین سے   بے دخل کیے گئے۔ ۱۳۵ء میں رومیوں نے بنی اسرائیل کو ارضِ فلسطین سے مکمل طور پر نکال باہر کیا۔ گذشتہ ۶ ہزار سال کی تاریخ میں شمالی فلسطین میں بنی اسرائیل کا قیام چار پانچ سو برس اور جنوبی فلسطین میں کل آٹھ نو سو برس رہا جبکہ عرب شمالی فلسطین میں ڈھائی ہزار سال سے اور جنوبی فلسطین میں تقریباً ۲ ہزار سال سے مسلسل آباد چلے آ رہے ہیں۔

ارضِ فلسطین پر یہودیوں کے دعوے کی بنیاد بائبل میں درج نام نہاد الٰہی وعدے پر ہے جسے زیادہ سے زیادہ ایک  خیالی مفروضہ (myth) قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس تصوراتی استحقاق کی بنیاد پر انیسویں صدی کے آخر میں یورپ کے دولت مند اور سیاسی طور پر طالع آزما یہودی قیادت نے فلسطین میں یہودی ریاست قائم کرنے کے لیے ایک سیاسی تحریک صہیونیت (Zionism) کا آغاز کیا۔ انھوں نے دولت‘ ظلم و تشدد‘ سیاسی جوڑ توڑ اور سامراجی سازشوں کے ذریعے بالآخر عربوں اور ترکوں کو لڑا کر‘ برطانوی انتداب (mandate) کے دور میں اس سرزمین پر اپنے قدم جمائے۔ یوں ۱۴ مئی ۱۹۴۸ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی ایک قرارداد کے تحت‘ لیکن دراصل فوجی قوت اور اہل فلسطین کے جبری انخلا اور نسل کشی (genocide) کے ذریعے‘ اسرائیل کے قیام کا ہدف حاصل کیا گیا۔ ایک یہودی دانش ور اور ادیب آرتھر کویئسلر(Arther Koestler)  اپنی جوانی میں صہیونیت کے طلسم کا شکار تھا اور جرمنی میں اپنا گھربار چھوڑ کر فلسطین کی صہیونی بستیوں (kibbutz) میں نقل مکانی کرنے والوں میں شامل تھا۔ مگر جب اس نے بچشم سر اس ظلم کو دیکھا جس کا نشانہ اہلِ فلسطین کو بنایا گیا تو اس نے ایک مختصر جملے میں اس تاریخی ظلم کو یوں بیان کیا:

کیا ستم ہے کہ ایک قوم نے ایک دوسری قوم کو ایک تیسری قوم کا ملک (بڑی فیاضی سے) تحفتاًدینے کا حلفیہ وعدہ کیا۔ (آرتھر کویئسلر‘ Promise and Fulfilment لندن‘ ۱۹۴۹ئ‘ص ۴)

۱۹۱۴ء میں فلسطین میں صرف ۳ ہزار یہودی گھرانے آباد تھے اور پہلی جنگِ عظیم کے بعد وسیع پیمانے پر یہودیوں کو غیر قانونی طور پر ارضِ فلسطین منتقل کرنے کے باوجود فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی صرف ۵۶ ہزار تھی‘ جب کہ اس وقت فلسطینی عربوں کی تعداد ۶ لاکھ ۴۴ ہزار تھی۔ ساری قتل و غارت گری اور تشدد کے باوجود ۱۹۴۸ء میں جب اسرائیل کو جبراً ریاستی حیثیت دی گئی‘ یہودی ارضِ فلسطین میں صرف ۶.۵ فی صد زمین کے مالک تھے اور فلسطین کی آبادی میں ان کا حصہ بمشکل ۳۳ فی صد تھا۔ واضح رہے کہ گذشتہ ۳۰سال میں دنیا کے ۸۰ ممالک سے    چن چن کر یہودیوں کو لا کر یہاں آباد کرنے اور خود فلسطینیوں کو ان کے گھربار سے نکالنے اور ان کی بستیوں کی بستیوں کو تاراج کرنے کے ذریعے یہودی آبادی ۱۰ گنا سے زیادہ بڑھا لی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعے یہودیوں کو ارضِ فلسطین کا ۵۶ فی صد سونے کی طشتری میں  رکھ کر دے دیا گیا اور باقی ۴۴فی صد فلسطینیوں کی آزاد ریاست کو دیا گیا لیکن اسرائیل کے جنگجو گروپوں نے عملاً ۱۹۴۸ء ہی میں ارضِ فلسطین کے ۷۸ فی صد پر بزور قبضہ کرلیا اور پھر ۱۹۶۷ء میں باقی تمام فلسطین بشمول مشرقی بیت المقدس اپنے قبضہ میں لے لیا۔

مقصد یہاں ظلم کی یہ پوری دل خراش داستان بیان کرنا نہیں بلکہ اس تاریخی حقیقت کو نمایاں کرنا ہے کہ اسرائیل ایک حقیقی اور فطری ریاست نہیں جو ایک علاقے میں اس کے رہنے والوں کے حق خود ارادی کی بنیاد پر وجود میں آئی ہو بلکہ ایک چرائی ہوئی (stolen) ریاست ہے جو ایک سرزمین کے اپنے باسیوں کو بے دخل کر کے‘ باہر سے لائے ہوئے افراد (colonisers) کے تسلط کو قائم کرنے سے وجود میں آئی ہے۔ اس ریاست کے قیام کے   اس عمل (genesis) کو سمجھے بغیر علاقے میں اس کی نوعیت کو سمجھنا ممکن نہیں۔ یہ مشرق وسطیٰ کی ایک ریاست نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ کے قلب--- فلسطین میں ایک یورپی استحصالی قوم کے   تسلط اور غلبے سے عبارت ہے جو بین الاقوامی قانون میں ہر جواز (legitimacy) سے محروم ہے اور رہے گی--- اس کے جواز کی صرف ایک بنیاد ہے اور وہ ہے: جبرکے ذریعے قبضہ (occupation by force) ۔ اور محض قبضے کو کسی بھی ملک کے لیے جوازتسلیم کرنا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہی نہیں بین الاقوامی امن کے لیے ایک مستقل خطرہ بھی ہے۔

امریکی اخبار انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون (۲۵ جولائی ۲۰۰۳ئ)میں ایک مضمون نگار John V. Whitbeek جو بین الاقوامی قانون کا ماہر ہے موجودہ نام نہاد روڈمیپ کو ایک مغالطہ (illusion) قرار دے رہا ہے۔ اس نے مسئلے کی صحیح تنقیح کی ہے:

"The roadmap builds on a false premise, that the real problem is Palestinian resistance to the 36 years occuption and not THE OCCUPATION ITSELF.

موصوف نے صحیح نتیجہ نکالا ہے کہ مسئلہ فلسطینیوں کی طرف سے تشدد نہیں بلکہ ان کی سرزمین پر اسرائیلی قبضہ ہے۔ جب تک قبضہ ختم نہیں ہوگا امن کا قیام ممکن نہیں۔

اس ریاست کی نوعیت اور اس کی اصل حقیقت کو سمجھنے کے لیے مندرجہ ذیل حقائق نگاہ میں رکھنا ضروری ہیں:

جبری تسلط: اسرائیلی یہودی اس علاقے کے اصل باسی نہیں تھے‘ اور آج تک نہیں ہیں۔ انھیں ساری دنیا سے لاکر‘ ملک کے اصل باشندوں کو اپنے گھروں سے بے گھر کر کے ناجائز طور پر‘ محض قوت کے بل بوتے‘ اور استعماری تحفظ کی چھتری تلے دوسروں کے ملک پر غلبہ دیا گیا اور پھر اقوام متحدہ کو استعمال کیا گیا تاکہ کوئی قانونی جواز فراہم کیا جا سکے۔ یہ باہر سے آئے ہوئے اپنے کلچر اور زندگی کو اس علاقے پر مسلط کر رہے ہیں اور صرف قوت کے بل بوتے پر موجود ہیں۔

استصواب کے بغیر: اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے ذریعے وجود میں آیا ہے اور وہ بھی اقوام متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے جس کی رو سے صرف کسی علاقے کے لوگ اپنی آزاد مرضی اور استصواب رائے کے ذریعے اپنی آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔ چونکہ مسلمان عرب فلسطین کی آبادی کا ۶۶ فی صد تھے اس لیے اقوام متحدہ نے امریکہ‘ برطانیہ اور روس کی ملی بھگت سے استصواب کے طریقے کو ماننے سے انکار کر دیا اور محض اقوام متحدہ کی قرارداد سے فلسطین کو تقسیم کر کے دو ریاستوں کے قیام کی قرارداد منظور کی۔ یہ بھی اس طرح کیا گیا کہ جنرل اسمبلی میں ووٹ کو دو بار موخر کیا گیا۔ اس لیے کہ اس وقت کے ۵۶ ممالک میں سے صرف ۳۰ اس قرارداد کے حق میں تھے‘ ۱۳ خلاف تھے اور ۱۳ غیر جانب دار تھے اور اس طرح دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہو پا رہی تھی۔ دو بار ووٹ موخر کر کے امریکہ اور عالمی صہیونی ایجنسی نے اپنا اثر اور سرمایہ استعمال کر کے تین غیر جانب دار ممالک (ہیٹی‘ فلپائن اور لائبریا--- جو سب امریکہ کے زیراثر تھے) کو تقسیم کی قرارداد کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور کیا۔ گویا اقوام متحدہ کے چارٹر کی تین کھلی کھلی خلاف ورزیوں پر یہ قرارداد منظور ہوئی۔ (الف) استصواب کے بغیر ایک ملک کے مستقبل کا فیصلہ (ب) دو بار ووٹ موخر کرنا (ج) تین ملکوںسے زبردستی (under duress) تائید حاصل کرنا (یہ تمام حقائق تاریخ کا حصہ ہیں اور امریکی کانگریس میں اہم ارکان کی تقریروں میں اعتراف کی شکل میں موجود ہیں)۔

قانون اور عالمی آداب کی خلاف ورزیاں یہاں تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ قرارداد منظور ہونے سے پہلے اسرائیل کا اپنی قوت سے حاصل کردہ غیر متعین علاقے پر اپنی حکومت کا اعلان اور اس کا امریکہ اور روس دونوں کی طرف سے تسلیم کیا جانا (recognition) بھی قانون اور عالمی آداب کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ یہ ہیں تاریخی حقائق--- اور اسرائیل کو تسلیم کرنا اس پورے تاریخی ظلم اور دھاندلی کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔

غیر متعین سرحدیں: اسرائیل وہ واحدملک ہے جس کا قیام‘ وجود اور انحصار آبادی کے مسلسل غیر فطری انتقال‘ تشدد اور قوت کے ذریعے علاقے پر قبضے اور جنگ اور قوت کے ذریعے مسلسل اپنی سرحدوں میں اضافے پر ہے۔ آج بھی اس کی حدود متعین نہیں۔اقوام متحدہ کی قرارداد میں ارضِ فلسطین کا ۵۶ فی صد اسے حاصل ہوا‘ جسے فوج کشی کے ذریعے ۱۹۶۷ء تک ۷۸ فی صد کر لیا گیا۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد ۲۴۲ اور ۳۸۳ کے ذریعے جنگ سے قبل کی حدود پر واپسی کے احکام جاری کیے گئے اور ۲۰ سے زیادہ قراردادوں میں اس کا اعادہ کیا گیا مگر اسرائیل نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ اب جس روڈمیپ کی بات ہو رہی ہے اس میں عملاً فلسطینیوں کے باقی ماندہ ۲۲ فی صد میں سے بھی تقریباً ۴۰ فی صد عملاً اسرائیل کے قبضے میں ہوگا اور باقی علاقہ جسے ابھی فلسطین اتھارٹی اور ۲۰۰۵ء کے بعد فلسطینی ریاست کہا جائے گا کس مپرسی اور بے چارگی کے عالم میں ہوگا ۔ وہ سارا علاقہ نہ آپس میں مربوط ہوگا اور نہ ایک حصے سے دوسرے حصے میں اسرائیلی چوکیوں سے گزرے بغیر آمدورفت ممکن ہوگی۔ نیز یہ نام نہاد ریاست ہمیشہ فوج سے بھی محروم رہے گی اور اس کی امن عامہ کی دیکھ بھال (policing) اسرائیل کی ذمہ داری ہوگی جس کا اقتدار شاہراہوں اور پانی کے تمام ذخائر پر ہوگا۔

جو لوگ آج اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کررہے ہیں وہ کس چیز کو تسلیم کرنے کے مدعی ہیں--- ہماری نگاہ میں تو اسرائیلی ریاست کا وجود ہی ہرجواز سے محروم ہے لیکن جو    اقوام متحدہ کی قرارداد کی بنیاد پر دو ریاستوںکی بات کرتے ہیں ان کو اتنا تو صبر کرنا چاہیے کہ  نام نہاد ریاستوں کے حدود تو واضح ہو جائیں۔ لچک دار‘ غیر متعین تبدیل ہونے والی سرحدات (flexible, undefined changing boundries) کی حالت کو تسلیم کرنے کے کیا    معنی ہیں؟

توسیع پسندی:

یہاں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ اسرائیل ریاست کی نظریاتی اساس ہی وسعت پذیر حدود (expanding boundries) پر ہے جو امپریلزم کا دوسرا نام اور پورے علاقے کے لیے مسلسل خطرے کا پیغام ہے۔ اسرائیل اور اس کی قیادت نے اس معاملے کو ڈھکا چھپا نہیں رکھا ہے اور علی الاعلان کہا ہے کہ ہمارا ہدف عظیم تر اسرائیل (greater Israel) ہے۔ بن گورین ۱۹۴۸ء میں اس کا اظہار اس طرح کرتا ہے:

عرب اتحاد کا زد پذیر پہلو لبنان ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کی برتری مصنوعی ہے‘ اور اسے بآسانی ختم کیا جا سکتا ہے۔ وہاں ایک عیسائی ریاست بننی چاہیے۔ جس کی جنوبی سرحد Litani ہو۔ ہم اس ریاست کے ساتھ اتحاد کا ایک معاہدہ کریں گے۔ اس طرح سے جب ہم عرب لیجن کی طاقت کو توڑ دیں گے ‘ اور عمان پربم باری کرچکے ہوں گے تو اس کے بعد شام کا سقوط ہوگا۔ اور اگر مصر نے ہم پر جنگ مسلط کرنے کی کوشش کی تو ہم پورٹ سعید‘ اسکندریہ اور قاہرہ کو بم باری کا نشانہ بنائیں گے۔اس طرح سے ہمیں اس جنگ کا خاتمہ کرنا ہے اور یوں ہم اپنے آباواجداد کی طرف سے مصر‘ اسیریہ اور چالڈیہ کا بدلا اتاردیں گے۔ (بن گورین کی ڈائری‘ ۲۱ مئی ۱۹۴۸ئ)

اس سے پہلے عالمی صہیونی تحریک (World Zionist Organization) نے ۱۹۱۹ء میں ورسائی امن کانفرنس (Versailles Peace Conference) کے موقع پر اپنی مجوزہ یہودی ریاست کا جو نقشہ پیش کیا تھا: اس کی رُو سے اسرائیل جن علاقوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ان میں دریاے نیل تک مصر‘ پورا اُردن‘ پورا شام‘ پورا لبنان‘عراق کا بڑا حصہ‘ ترکی کا جنوبی علاقہ اور مدینہ منورہ تک حجاز کا پورا بالائی علاقہ شامل ہے۔ (D.H Miller: My Diary at the Conference of Paris with Documents, Vol v, p 17)

اسرائیلی وزیراعظم بیگن نے یکم جنوری ۱۹۸۲ء کو  کیمپ ڈیوڈ کے تین سال بعد اسرائیلی پارلیمنٹ (Knesset) میں تقریر کرتے ہوئے صاف الفاظ میں کہا تھا:

اصولی طور پر مملکت اسرائیل کی شمالی سرحد میں گولان ہائٹس کو شامل ہونا چاہیے۔ ۱۹۱۸ء میں سلطنت عثمانیہ کے ٹوٹنے‘ اور فلسطین پر برطانیہ کے انتداب کے قیام کے بعد استعماری حکمرانوں کے ایسے عہد میں یک طرفہ فیصلوں کی وجہ سے یہ شامل نہ ہوسکا جو گزر چکا ہے اور اب کبھی نہیں لوٹے گا۔ ہم ان یک طرفہ فیصلوں کے پابند نہیں ہیں…

عالمی صہیونی تحریک اور اسرائیلی قیادت نے علاقے کی تمام وسعتوں پر اپنا حق جتایا اور قوت سے انھیںحاصل کرنے کے بارے میں کبھی کسی تحفظ کا لحاظ نہیں رکھا:

فلسطین ایک علاقہ ہے جس کا نمایاں جغرافیائی فیچر یہ ہے کہ دریاے اُردن اس کی حدود متعین نہیں کرتا بلکہ اس کے بیچ میں بہتا ہے۔ (ولادیمیر جیبوٹس‘ سولھویں صہیونی کانگرس ۱۹۲۹ء کے موقع پر)

مثال کے طور پر امریکہ کے اعلان آزادی کو لیجیے۔ اس میں علاقائی حدود کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔ ہمارے لیے ضروری نہیں ہے کہ ہم اپنی ریاست کی حدود بیان کریں۔(بن گورین کی ڈائری‘ ۱۴ مئی ۱۹۴۸ئ)

صورت حال کو علیٰ حالہ ہی باقی رکھنے سے بھی کام نہیں چلے گا۔ ہمیں ایک ایسی حرکی ریاست قائم کرنا ہے جو توسیع پسند ہو۔ (Ben Gurion in Rebirth and Destiny of Israel, دی فلاسوفیکل پریس‘ نیویارک‘ ۱۹۵۴ئ)

گذشتہ ۱۶ سو برسوں میں ہمارے لوگ ایک ملک اور قوم کی تعمیر اور اس کی توسیع‘ مزید یہودی جمع کرنے اور اضافی آبادیاں قائم کرنے میں مصروف رہے ہیں تاکہ اپنی حدود کو وسیع کریں۔ کوئی یہودی یہ نہ کہے کہ یہ عمل ختم ہوگیا ہے‘ کوئی یہودی یہ نہ کہے کہ ہم منزل کے قریب ہیں۔ (موشے دیان‘ MAARIV ‘۷ جولائی ۱۹۶۸ئ)

اسرائیل کے وزیردفاع موشے دیان نے دی ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا:

ہمارے آباواجداد ان حدود تک پہنچ گئے جو تقسیم کے منصوبے میں تسلیم کیے گئے تھے۔ ہماری نسل ۱۹۴۹ء کی حدو دتک پہنچ گئی۔ اب شش ایام کی نسل سویز‘ اُردن اور گولان ہائٹس تک پہنچ گئی ہے۔ یہ منزل نہیں ہے۔ موجودہ جنگ بندی لائن کے بعد نئی جنگ بندی لائنیںہوں گے۔ یہ اُردن سے شام تک جائیں گے شاید لبنان تک اور شاید وسط شام تک۔ (دی ٹائمز‘ لندن‘ ۲۵ جون ۱۹۶۹ئ)

یہ ہے اسرائیل کا اپنے عزائم اور اہداف کا کھلا کھلا اظہار۔ کیا اس کے بعد بھی اس میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ اپنی فطرت کے اعتبار سے اسرائیل ایک امن پسند ریاست نہیں ایک سامراجی قوت ہے جس کو تسلیم کرنے کے معنی سامراج کو سندجواز دینا ہے۔ ذرا یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ سامراجیت کی تعریف کیا ہے۔ مشہور ویبسٹر ڈکشنری اس کی تعریف یوں کرتی ہے:

امپریلزم: کسی قوم کا اپنے اختیار اور حدود کو توسیع دینے کی پالیسی‘ عمل یا وکالت‘ خصوصاً براہِ راست علاقے حاصل کر کے یا دوسرے علاقوں کی سیاسی اور معاشی زندگی کے اوپر بالواسطہ کنٹرول حاصل کرکے۔ (ویبسٹر‘ نئی کالج ڈکشنری‘ ۱۹۸۱ئ)

مناسب ہوگا کہ اس موقع پر ایسی اسرائیلی ریاست کے بارے میں مغرب کے چند اہم افراد کی آرا اور خیالات کو بھی پیش کر دیا جائے:

اگر ایک ایسی یہودی ریاست کی تشکیلِ نو مناسب ہے جس کا وجود ۲ ہزار سال سے نہ تھا‘ تو ایک ہزار سال مزید پیچھے کیوں نہ جائیں اور کین اینائٹ (cannanite) ریاست کو کیوں نہ دوبارہ قائم کریں۔ یہودیوں کے برخلاف کین اینائٹس اب بھی وہاں ہیں (ایچ جی ویلز)

فلسطین میں بدامنی کا سبب اور واحد سبب صہیونی تحریک اور اس کے ساتھ ہمارے وعدے ہیں۔ (ونسٹن چرچل‘ تقریر دارالعوام‘ ۱۴ جون ۱۹۲۱ئ)

فلسطین میں صہیونی ریاست صرف جبر کے ذریعے قائم کی جا سکتی ہے اور قائم رکھی جاسکتی ہے اور ہمیں اس میں فریق نہ ہونا چاہیے۔ (صدر روزولٹ‘ ۵ مارچ ۱۹۴۵ئ)

یہودی ریاست کے تخیل کی میرے دل میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں نہیں سمجھ سکا ہوں کہ اس کی ضرورت کیا ہے۔ اس کا تعلق تنگ نظری اور معاشی رکاوٹوں سے ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ بدی ہے۔ میں ہمیشہ اس کا مخالف رہا ہوں۔ (البرٹ آئن سٹائن‘ ۱۹۴۶ئ)

یہ تمام حوالے امریکی پروفیسر ولیم بیکر کی چشم کشا کتاب Theft of a Nation سے لیے گئے ہیں۔ ولیم بیکر خود بشریات (Anthropology) اور تاریخ کا پروفیسر ہے اور وہ جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ یہ ہے:

آیئے غور کریں ۱۹۱۷ء سے اب تک کیا ہوا ہے۔ سیاسی صہیونیوں نے فلسطین کا پورا ملک لے لیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پوری دنیا نے ایک قوم سے ایک ملک کی چوری میں شرکت کی ہے‘ حمایت کی ہے اور اس پر یقین رکھا ہے۔ زمینیں‘ مکانات‘ رسوم و رواج‘ معیشت‘ غرض جو چیز بھی عربوں کی تھی‘ اس کی جگہ اسرائیلی کنٹرول اور اثر نے لے لی ہے۔ یہاں تک کہ ملک کا نام بھی۔ یہ مفروضہ کہ فلسطین یہودیوں کا وطن ہے اور انھیں ‘ جو ان کا حق ہے‘ اس کو واپس لینے میں ان کی مدد چاہیے‘ اس کا اتنا زوردار پروپیگنڈا کیا گیا ہے کہ جو کوئی فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کی حمایت نہ کرے تو اس پر امتیاز کرنے (discrimination) اور یہودیت دشمنی (anti semitism) کا الزام لگ جاتا ہے۔ مگر اس کے باوجود ہمارے لیے صحیح رویہ صرف یہ ہے کہ دوسروں کے جذباتی ردعمل کو نظرانداز کر کے حقائق کو پیش کرنے پر اصرار کریں--- اور اگر ہم نے ایسا نہ کیا تو پھر اس المناک ناانصافی کا کوئی مستقل اور منصفانہ حل کبھی نہیں ہوگا۔ (جورے پبلی کیشنز‘ لاس اینجلس‘ ۱۹۸۹ئ)

نسل پرست ریاست :بات یہیں تک نہیں۔ اسرائیل صرف ایک سامراجی اور اپنی سرحدوں کو مسلسل بڑھانے والی ریاست ہی نہیں وہ ایک نسل پرست (racist) ریاست بھی ہے۔ اگر دنیا کے کسی حصے میں یہودیوں کی اکثریت ہو اور وہ وہاں ایک یہودی ریاست قائم کرنا چاہیں تو جس طرح دنیا میں ہندو ریاستیں (نیپال)ہیں‘ یا بدھ مت ریاستیں ہیں (تھائی لینڈ‘سری لنکا) یا عیسائی ریاستیں ہیں (بشمول Vatican)‘ اسی طرح اگر ایک یہودی ریاست بھی ہو تو کسے اعتراض ہو سکتا ہے۔ لیکن اسرائیل کی بنیاد یہ نہیں ہے۔ دوسروں کی زمین پر‘ ان کو اپنے گھروں سے بے دخل کر کے‘جبر اور ظلم کے ذریعے ریاست قائم کرنے کے ساتھ دعویٰ یہ بھی ہے کہ یہودی قوم نسلی بنیادوں پر دوسری اقوام سے مختلف اور بالاتر ہے اور دوسرے کم تر ہیں     اس لیے یہ ایک بالاتر ریاست کی حیثیت سے ان پر حکمران ہونے کا حق رکھتی ہے۔ یہ بالکل جنوبی افریقہ کی نسل پرستانہ ذہنیت ہے۔ یہ وہ چیزہے جواسرائیل کو اقوام متحدہ کے چارٹر اور انٹرنیشنل چارٹر آف ہیومن رائٹس کے برعکس ایک نسل پرست ریاست بناتی ہے اور علاقے کے تمام ممالک اور اقوام کے لیے خطرہ بناتی ہے‘ جب کہ عسکری اعتبار سے اور ایٹمی صلاحیت سے آراستہ ہونے کی وجہ سے اسے علاقے کے سارے ممالک پر ویسے بھی بالادستی حاصل ہے۔

صہیونی عالمی تحریک کے صدر ڈاکٹر ویزمین نے جو اسرائیل کا پہلا صدر بنا‘ ۱۹۱۸ء میں بالفور اعلان کے ضمن میں جمہوریت کے بنیادی اصول اکثریت اور اقلیت کا مذاق اڑاتے ہوئے عربوں کو حقارت سے مقامی (native) اور یہودیوں کو ان سے صلاحیت (qualititavely) کے اعتبار سے مختلف قرار دیا تھا۔

جمہوری اصول تعداد کو اہمیت دیتا ہے اور خوف ناک تعداد ہمارے خلاف پڑتی ہے‘ اس لیے کہ ایک یہودی کے مقابلے میں پانچ عرب ہیں۔ یہ نظام اس حقیقت کو ملحوظ نہیں رکھتا کہ ایک یہودی اور ایک عرب میں ایک بنیادی فرق ہے جو یہودی کی صلاحیت میں فوقیت پر مبنی ہے۔ موجودہ نظام یہودی کو اسی سطح پر لے آتا ہے جس پر ایک مقامی ہے۔

جب آئن سٹائن نے ڈاکٹر ویزمین سے پوچھا کہ اگر فلسطین یہودیوں کو دے دیا جائے تو پھر عربوں کا کیا ہوگا تو ویزمین نے کہا: کون سے عرب؟ ان کی حیثیت ہی کیا ہے؟

پروفیسر بین زیون دی نور (Prof. Ben Zion Dinur)  اسرائیل کا پہلا وزیراعظم تھا۔ اس نے History of the Haganah کے پیش لفظ میں صاف لکھا ہے:

ہمارے ملک میں صرف یہودیوں کے لیے جگہ ہے۔ ہم عربوں سے کہیں گے: باہر نکل جائو۔ اگر وہ یہ نہ مانیں اور مزاحمت کریں تو پھر ہم ان کو طاقت کے زور سے نکال باہر کریں گے۔ (راجر گارودی (The Case of Israel: A Study of Political Zionism, London, 1983)

یہی وہ تصور ہے جس کے تحفظ کے لیے عربوں کو اسرائیل میں دوسرے اور تیسرے درجے کی شہریت کے حقوق بھی حاصل نہیں اور دوسری طرف قانون مراجعت  (Law of Return) کے تحت دنیا کے ہر یہودی کو اسرائیل کی شہریت حاصل کرنے کا نسلی اختیار حاصل ہے۔ ابھی ۳۱جولائی ۲۰۰۳ء کو اسرائیل کی پارلیمنٹ نے جو قانون منظور کیا ہے اور جس کی تنسیخ کا مطالبہ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن نے کیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ اگر ایک عرب فلسطین کے مغربی کنارے کا رہنے والا اسرائیل میں کسی عرب خاتون سے جو اسرائیل کی شہری ہے شادی کرتا ہے تو انھیں اسرائیل میں رہنے کا حق نہیں ہوگا۔ یا دونوں الگ الگ رہیں‘ یا اسرائیل کو چھوڑ دیں۔ اس سے زیادہ اس کا کیا ثبوت درکار ہے کہ اسرائیل ایک جمہوری نہیں‘ ایک نسل پرست ریاست ہے اور اس کو تسلیم کرنا انسانیت کے آج تک کے حاصل شدہ اکرام کی نفی ہوگا۔ فرانس کا مشہور مفکر راجر گارودی اسرائیل کے خلاف اپنی چارج شیٹ میں صاف الفاظ میں لکھتا ہے:

۱-  اسرائیلی ریاست جہاں قائم کی گئی ہے اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس کا ریکارڈ اسے ان بدترین ریاستوں میں شمار کراتا ہے جن سے اس کے قریبی روابط ہیں: ۱-امریکہ ۲- جنوبی افریقہ ۳- ایل سیلوے ڈور ‘گوئٹے مالا‘ پیراگوئے۔

۲-  اسرائیلی ریاست کا بنیادی عقیدہ (سیاسی صہیونیت) یہودی روایت سے پیدا نہیں ہوا۔ وہ صرف مغربی قوم پرستی بلکہ۱۹ویں صدی کی استعماریت سے وجود میں آیا ہے۔ یہ نسل پرستی‘ قوم پرستی اور استعماریت کی ایک شکل ہے۔

۳-  یہ ریاست اقوام متحدہ کے ایک غلط فیصلے‘ دبائو اور بدعنوانی کے نتیجے میں قائم ہوئی ہے۔ اور مغرب سے ملنے والے اسلحے اور مال کے زور پر قائم ہے اور ان سب سے بڑھ کر امریکہ کی غیر مشروط اور غیرمحدود مدد پر۔

۴-  یہ کوئی مقدس ریاست نہیں ہے۔ (ایضاً، ص ۱۵۷-۱۵۸)

فلسطینی ریاست کی کس مپرسی :  اسرائیل کا جو کردار گذشتہ ۵۵ سالوں میں رہا ہے اور جو مظالم وہ اس وقت بھی فلسطینیوںپر ڈھا رہا ہے‘ ان کو نظرانداز کر کے اور فلسطین اتھارٹی کی بے بسی کو اسرائیل کو تسلیم کرنے کا نام دینا ایک ایسی جسارت ہے جو کوئی شخص بہ قائمی ہوش و حواس نہیں کر سکتا۔ ۲۲ عرب ملکوں میں سے صرف دو (یعنی مصر اور اُردن) نے اعلانیہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کیا ہے مگر شدید مجبوری کے تحت۔ ان دونوں نے بھی ایک عرصے سے اپنے سفیروں کو واپس بلایا ہوا ہے۔ رہا معاملہ یاسر عرفات اور فلسطین اتھارٹی کا‘ تو وہ تو ابھی ریاست کے مراحل کے دور دور بھی نہیں اور محض اسرائیل کے چنگل سے نکلنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں۔ ان کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات بالکل ایسی ہی ہوگی جیسے کوئی یہ کہے کہ قائداعظم نے برطانوی سامراج کو تسلیم کرلیا تھا کیونکہ جدوجہد آزادی کے مراحل میں وہ انڈین قانون ساز اسمبلی میں شریک ہوگئے تھے۔ فلسطینی آج اپنے حالات کے مطابق سیاسی اور جہادی ہر راستے سے اپنی آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اسے ’تسلیم کرنا‘ قرار دینا حقائق کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اور دوسرے ممالک کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسرائیل پر جو بھی تھوڑا بہت عالمی دبائو ہو سکتا ہے اسے بھی کسی فیصلہ کن مرحلے سے گزرے بغیر ختم کر دیا جائے۔ یہ اہلِ فلسطین کی جدوجہد آزادی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔

اسلامی نقطۂ نظر سے: اسرائیل کو تسلیم کرنے کا معاملہ محض ایک ریاست کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ نہیں۔ ارضِ فلسطین صرف فلسطینیوں اور عربوں کے لیے اہم نہیں‘ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے بھی اہم ہے۔ القدس ہمارے لیے حرم کا درجہ رکھتا ہے جہاں مسجد الاقصیٰ اور قبۃ الصخریٰ واقع ہیں اور جو حرم مکہ اور مسجد نبوی کے بعد قبلہ اول کی حیثیت سے دنیا کی تمام مساجد کے مقابلے میں سب سے محترم عبادت گاہ ہے‘ جس کی تقدیس پر قرآن گواہ ہے:  سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَکْنَا حَوْلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنْ اٰیٰتِنَاط اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُo (بنی اسرائیل ۱۷:۱) ’’پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجدِحرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا ‘‘۔

الاقصیٰ پر یہودیوں کا قبضہ اور پاکستان کا اسرائیل کو تسلیم کرنا--- محوحیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی!

پاکستان سے دشمنی:  پاکستان پہلے دن سے اور خصوصیت سے نیوکلیر صلاحیت کے حصول کے بعد‘ اسرائیل کا ایک واضح ہدف ہے اور بھارت کے ساتھ مل کر اسرائیل اس پورے علاقے اور خصوصیت سے پاکستان کو غیر مستحکم (de-stabilize) کرنے میں عملاً سرگرم ہے۔ بن گورین نے صاف لفظوں میں اسرائیل کے عزائم کو بیان کر دیا تھا‘ کیا ہماری قیادت ان حقائق سے ناآشنا ہے۔ جیوئش کرانیکل کے ۱۹ اگست ۱۹۶۷ء کے شمارے میں بن گورین کا اعلان ان الفاظ میں موجود ہے:

ہماری عالمی صہیونی تحریک کو فوری طور پر ان خطرات کا نوٹس لینا چاہیے جو ہمیں مملکت پاکستان کی طرف سے ہیں۔ اب عالمی صہیونی تحریک کا ہدف اول پاکستان ہونا چاہیے کیونکہ یہ نظریاتی ریاست اسرائیل کی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور اس (پاکستان) کا ہر باشندہ عربوں سے لگائو رکھتا ہے اور یہودیوں سے نفرت کرتا ہے۔ یہ (پاکستان) عرب کا شیدائی ہمارے لیے عربوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ چنانچہ صہیونیوںکے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف فوری اقدامات کرے۔

اس کے بعد گورین نے بھارت اور اسرائیل گٹھ جوڑ کو سراہتے ہوئے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ ’’چونکہ ہندستان میں بسنے والوں کی اکثریت ہندوئوں کی ہے‘ جن کے دلوں میں صدیوں سے مسلمانوں کے خلاف دشمنی اور نفرت بھری پڑی ہے‘ اس لیے ہندستان ہمارے لیے اہم ترین اڈا ہے‘ جہاں سے ہم پاکستان کے خلاف ہرقسم کی کارروائیاں کرسکتے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اس نہایت کارآمد اڈے سے پورا فائدہ اٹھائیں اور انتہائی چالاک اور خفیہ کارروائیوں سے پاکستانیوں پر زبردست وار کر کے انھیں کچل کر رکھ دیں۔

ایک دوسرے اسرائیلی وزیراعظم شیمون پیریز نے ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد نیوزویک کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اور جنرل مشرف اب ایک ہی کشتی کے سوارہیں لیکن ذرا انداز بیان کا تیکھا پن ملاحظہ ہو۔ صدربش کی دہشت پسندی کے خلاف اسٹرے ٹیجی اور اس کے ذیل میں اسرائیل کے گرم جوشی سے حصہ نہ لینے (low profile) کے ضمن میں فرماتے ہیں:

میں نے اسے بتایا ہم تمھاری حکمت عملی سمجھتے ہیں۔ ایک اچھے یہودی لڑکے کی طرح میں نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ میں پاکستان کے صدر مشرف کی حفاظت کے لیے دعا کروں گا۔ یہ ایک بہت ہی زیادہ غیرمتوقع تجربہ ہے۔ لیکن ہم آپ کی  حکمت عملی کو سمجھتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ خود اپنا کوئی ایجنڈا وضع کریں۔ (نیوزویک‘ ۵ نومبر ۲۰۰۱ئ‘ ص ۳۳)

اس انٹرویو میں طالبان کے بعد عراق پر حملے کا مشورہ بھی موجود ہے اور واضح رہے کہ پس منظر میں کہوٹہ پر بھارت یا اسرائیل کے پیشگی حملے (pre-emptive strike) کے خدشات بھی موجود ہیں۔

عین اس وقت جب جنرل صاحب اور ان کے ہم نوا اسرائیل کو تسلیم کرنے پر قومی بحث کی بات کر رہے تھے اسرائیل کے سرکاری نمایندے نے اعلان کیا ہے کہ ایریل شیرون ستمبر میں بھارت کا دورہ کریں گے اور یہ کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم کر لے تب بھی اسرائیل پاکستان کے مقابلے میں بھارت سے تعلقات کو زیادہ اہمیت دیتا ہے (اوصاف‘ لندن‘ ۱۲ جولائی ۲۰۳)۔ اس سے پہلے ۹ جنوری کے دی نیشن میں پیریز کا بیان بھی قابلِ توجہ ہے جو عین بھارت کی لام بندی کے وقت دیا گیا تھا کہ ’’اگر ہندستان کی پاکستان سے جنگ ہوتی ہے تو ہندستان جو بھی فیصلہ کرے گا اسرائیل ہندستان کا ساتھ دے گا‘‘۔ کیا یہی وہ اسرائیل ہے جس سے دوستی اور خیر کی توقعات باندھی جا رہی ہیں  ع

دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض!

اقبال اور قائداعظم کا واضح موقف

علامہ اقبال اور قائداعظم کے وژن کی باتیں ہماری قیادتیں بہت کرتی ہیں۔ لیکن کیا ان کو اسرائیل اور صہیونی عزائم اورایجنڈے کے بارے میں اقبال اورقائداعظم کے خیالات اور احساسات کا کوئی پاس ہے۔ علامہ اقبال کو یورپ کے پنجۂ یہود میں ہونے کا مکمل ادراک تھا اور صہیونی دعوے کے بارے میں بڑے واضح الفاظ سے انھوں نے کہا تھا کہ    ؎

ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا اگر حق

ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا

اور قائداعظم نے ۲۵ اکتوبر ۱۹۴۷ء رائٹر کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ:

فلسطین کے بارے میں ہمارے موقف کی وضاحت ہمارے نمایندے نے اقوام متحدہ میںکر دی ہے۔ مجھے اب بھی امید ہے کہ تقسیم فلسطین کا منصوبہ مسترد کر دیا جائے گا ورنہ ایک خوفناک کش مکش اور تصادم ناگزیر اور لازمی امر ہے۔ یہ کش مکش محض عربوں اور تقسیم کا منصوبہ نافذ کرنے والوں کے درمیان نہ ہوگی بلکہ پوری اسلامی دنیا اس فیصلے کے خلاف بغاوت کرے گی کیونکہ ایسے فیصلے (اسرائیل کے قیام) کی حمایت نہ تو تاریخی اعتبار سے کی جا سکتی ہے اور نہ سیاسی اور اخلاقی طور پر۔ ایسے حالات میں پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہوگا کہ عربوں کی مکمل اور غیرمشروط حمایت کرے اور (عربوں کے خلاف) اشتعال اور دست درازیوں کو روکنے کے لیے جو کچھ بھی اس کے بس میں ہو‘ پورے جوش اور جذبے اور طاقت سے بروے کار لائے۔

۱۹۳۳ء سے ۱۹۴۸ء تک قائداعظم کے کم از کم ایک درجن بیان اور خود امریکی صدر ٹرومین کے نام ان کا خط اسرائیل کے خلاف ان کے موقف کا منہ بولتا اعلان ہے۔ لیکن ہماری قیادت کا حال یہ ہے کہ آنکھیں ہیں مگر دیکھتی نہیں‘ کان ہیں مگر سنتے نہیں‘ اور دل ہیں کہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کرتے۔

اسلام نے خارجہ سیاست کے جو اصول دیے ہیں ان کی روشنی میں بھی ہمارے لیے اس امر کا کوئی جواز نہیں کہ اسرائیل جو ایک کھلی کھلی جارح قوت ہے اور ہمارے کلمہ گو بھائیوں اور مظلوم انسانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے ہم کسی موہوم مفاد کی خاطر اس ہمہ گیر خون خرابے کے لمحے اسے سندجواز فراہم کریں اور فلسطین‘ عرب اور دنیا بھر کے مسلمانوں اور مظلوم عوام سے اپنے کو کاٹ لیں۔ عرب عوام ہمارے اصل شریک کاررواں ہیں‘ ہمارے ہم راہی وہ حکمران اور مفادپرست عناصر نہیں جن کو اُمت کا مفاد عزیز نہیں اور جو مغرب کے آقائوں کی خوشنودی کو اپنی معراج سمجھتے ہیں۔

حال ہی میں فلسطین میں جو سروے ہوا ہے اس کی رو سے آبادی کا ۹.۸۷ فی صد الاقصیٰ انتفاضہ کے حق میں ہیں۔ ۳.۶۵ فی صد اسرائیل کے علاقوںمیں اور ۵.۶۰ فی صد مقبوضہ غربی حصوں میں عسکری اورجہادی اقدام کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ ۹.۵۹ فی صد خودکش حملوں کے حق میں ہیں۔ ابومازن کو جن کا اعتماد حاصل ہے وہ آبادی کا صرف ۸.۱ فی صد ہیں اور ۸.۶۷ فی صد کا خیال ہے کہ موصوف کو وزیراعظم صرف بیرونی دبائو میں بنایا گیا ہے البتہ ۹.۵۱ فی صد کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں مسئلے کا حل دو آزاد ریاستوں کے قیام کی شکل میں ممکن ہے بشرطیکہ فلسطین کی ریاست بھی حاکمیت کے معیار پر پوری اترے اور اپنے معاملات کی خودمختار ہو (امپیکٹ انٹرنیشنل‘ مئی ۲۰۰۳ئ‘ ص ۱۳)۔ لیکن ظاہر ہے کہ فی الحال ایک ایسی فلسطینی ریاست کے قیام کا امکان دُور دُور تک نظر نہیں آتا۔ ایسے حالات میں اپنے اصولی موقف سے ذرا سا بھی ہٹنا حد درجہ تباہ کن ہوگا۔ ان حالات میں ہمارا کام اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کر کے اس کے ہاتھ مضبوط کرنا نہیں‘ --- اپنے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کی ہر ممکن مدد اور ان کی حوصلہ افزائی ہے۔ قرآن تو صاف کہتا ہے:

لاَ یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْھِمْط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ o اِنَّمَا یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰھَرُوْا عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْھُمْج وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَo (الممتحنہ۶۰:۸-۹) اللہ تمھیں اِس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوں نے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم اُن لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے۔ اُن سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں۔

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

کسی ملک اور حکومت کی خارجہ پالیسی کی کامیابی یا ناکامی کو جانچنے کے دو ہی پیمانے ہوسکتے ہیں--- ایک ملکی اور ملّی مفادات کا موثر تحفظ اور مطلوبہ مقاصد و اہداف کا حصول اور دوسرے عالمی برادری میں ساکھ‘ دوستوں اور حلیفوں کی تعداد میں اضافہ اور دشمنوں اور مخالفین میں کمی یا کم از کم ان کے شر کی تحدید۔ ویسے تو ہماری خارجہ پالیسی کبھی بھی بہت کامیاب نہیں رہی البتہ جنرل ایوب کے دور میں امریکہ کی حاشیہ برداری کے آغاز سے تو ہم نے اپنے  ایک آزاد اور دنیا کے سب سے بڑے مسلم ملک کی اپنی حیثیت اور مقام و مرتبے کو نظرانداز کر کے امریکی نقشے میں رنگ بھرنے والے ایک خادم کی حیثیت سے اپنے اثرونفوذ اور کارفرمائی کے امکانات کو بہت محدود کر لیا۔ اس طرح دوسروں پر انحصار اور محتاجی ہمارا مقدر بن گئی جس کا سب سے تکلیف دہ نشیب ۱۹۷۱ء کی شکست اور نصف ملک سے محرومی تھا۔

اس تاریک ریکارڈ کے باوجود گذشتہ پچاس سالہ خارجہ سیاست میں کچھ روشن پہلو بھی رہے جن میں اُمت مسلمہ کے مسائل کے بارے میں ہمارا کردار‘ چین سے دوستی‘ برطانوی اور فرانسیسی استعمار کے خلاف مسلمان اور دوسرے ممالک کی جنگ آزادی میں معاونت‘ افغانستان میں روسی جارحیت کے مقابلے میں برادر ملک کے عوام سے تعاون‘ وسط ایشیا کے مسلمان ملکوں کی آزادی میں کردار‘ اور بوسنیا اور کوسووا کے مظلوم مسلمانوں کی مدد نمایاں ہیں۔

معروضی جائزے کی ضرورت

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد سے جو پالیسیاں جنرل پرویز مشرف کی قیادت میں اختیار کی گئی ہیں اور جن کا سلسلہ دستور کی نامکمل بحالی اور جمالی حکومت کے قیام کے باوجود جاری بلکہ روز افزوں ہے‘ اس کے نتیجے میں ملک بیرونی دبائو اور اندرونی انتشار کے ایک ایسے دور میں داخل ہوگیا ہے جو تاریک ترین ہونے کے ساتھ مستقبل کے لیے اپنے اندر بڑے خطرات لیے ہوئے ہے۔ یہ ناکامی اور نامرادی کی ایک ہولناک تصویر پیش کر رہا ہے۔ اگر ایک طرف بے اصولی‘ تضادات اور ایڈہاکزم کا وہ منظرہے جو قلابازیوں اور یو ٹرنز کا ریکارڈ قائم کر رہا ہے تو دوسری طرف ملک نہ صرف یہ کہ دوستوں اور عالمی عوامی تائید سے محروم ہو رہا ہے بلکہ دوسروں پر انحصار ہر دور سے زیادہ ہو گیا ہے۔ خصوصیت سے امریکہ کی حاشیہ برداری نے تو وہ رنگ اختیار کرلیا ہے کہ اب ہماری آزادی‘ حاکمیت‘ نظریۂ حیات‘ تہذیبی تشخص‘ دفاعی صلاحیت‘ معاشی خودانحصاری اور علاقائی مفادات سب معرضِ خطر میں ہیں۔

یہ حالات اس امر کا تقاضا کرتے ہیں کہ خارجہ سیاست کا بے لاگ جائزہ لیا جائے‘ پالیسی سازوں میں اصول اور مفادات دونوں کا واضح ادراک پیدا کیا جائے اور خالص معروضی انداز میں بین الاقوامی اور علاقے کے حالات اور چیلنجوں کی روشنی میں خارجہ پالیسی کی تشکیلِ نو کے خطوط پر قومی اتفاق رائے پیدا کیاجائے۔

بلاشبہہ یہ جائزہ اور تجزیہ زیادہ سے زیادہ معروضی انداز میں ہونا چاہیے۔ اس بارے میں جنرل پرویز مشرف کی یہ بات درست ہے کہ ان معاملات کو جذباتی انداز میں طے نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اگر ایک طرف حقائق کا صحیح صحیح ادراک کیا جائے تو وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ خارجہ پالیسی کی یہ تشکیل صرف اور صرف قومی مقاصد‘ اہداف اور مفادات کے محوری حوالے سے ہونی چاہیے۔ اور اسی کسوٹی پر موجودہ روش کا جائزہ بھی مطلوب ہے۔ یہ کام نہ جذباتی انداز میں ہونا چاہیے اور نہ دوسروں کے دیے ہوئے احکامات اور تصورات کے فریم ورک میں۔ ضروری ہے کہ یہ کام غلامانہ اور مرعوب ذہن کے ساتھ نہ ہو بلکہ صحیح معنی میں آزاد ذہن کے ساتھ اور خود اپنے ملکی اور ملّی مفادات‘ ضروریات اور سب سے بڑھ کر حق و انصاف کے مسلمہ اصولوں سے وفاداری کے جذبے سے ہو۔ نیز پوری قوم اور اس کے سیاسی اداروں اور خصوصیت سے پارلیمنٹ اور میڈیا کی بھرپور شرکت سے ہو۔ جہاں ہم الزام تراشی کو گناہ سمجھتے ہیں‘ وہیں حقائق کے بے لاگ جائزے سے فرار کو بھی ایک قومی جرم تصور کرتے ہیں اور محض پروپیگنڈے کے ذریعے اور کثرتِ تکرار کے سہارے ایک منکر کو معروف بناکر پیش کرنے کو بددیانتی اور قوم سے بے وفائی سمجھتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اخلاص‘ علمی دیانت اور حقائق کی پاسداری کے ساتھ ہر قسم کی مداہنت سے دامن بچاتے ہوئے حالات کا جائزہ لیا جائے اور قوم‘ پارلیمنٹ اور قیادت کو ہمالیہ کی برابری کرنے والی غلطیوں سے بچانے اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کی اصل منزل کی طرف پیش قدمی کے لائق بنانے والی پالیسیوں اور اہداف کو دلیل کے ساتھ پیش کیا جائے   ع

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

۱۱ ستمبر کے بعد

قوم اور قیادت کو اس بات کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ جنرل پرویز مشرف نے ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد امریکی صدر اور وزیرخارجہ کی دھمکی کے تحت جو قلابازی کھائی ہے اس نے ہماری خارجہ پالیسی کو بالکل پٹڑی سے اُتار دیا ہے۔ بش صاحب نے تو بلاشبہہ یہ کہا تھا کہ ’’یا تم ہمارے ساتھ ہو یا دہشت گردی کے ساتھ--- اگر ہمارے ساتھ ہو تو سیدھے سیدھے نہ صرف یہ کہ اپنی زمین اور اپنے ہوائی راستے ہمارے حوالے کر دو بلکہ اپنے دل اور دماغ بھی ہمارے قبضے میں دے دو۔ اگر ایسا نہ کیا تو پھر پتھر کے دور کی طرف واپس جانے کے لیے تیار ہوجائو‘‘۔ صدر بش‘ جن کی پالیسیوں کے اصل کارساز امریکہ کے عیسائی بنیاد پرست اور عالمی صہیونی لابی کے شاطردانش ور اور سیاست کار ہیں‘ دنیا کو ایک نئے امریکی استعمار کے جال میں گرفتار کرنے اور ایک جدید سامراج کے قیام کے لیے سرگرم ہیں۔ عالمی راے عامہ کے برعکس چند ممالک کی قیادتیں جن میں اسرائیل‘ برطانیہ‘ اسپین‘آسٹریلیا اور پولینڈ پیش پیش ہیں اپنے اپنے مخصوص مفادات اور عزائم کی خاطر ان کا ساتھ دے رہی ہیں۔ لیکن اس نئے سامراجی کھیل میں مسلمان ممالک کی قیادت میں سب سے پیش پیش جنرل پرویز مشرف ہیں۔ جن عرب ممالک نے طوعاً و کرہاً امریکہ کا ساتھ دیا ہے انھوں نے کچھ پردہ رکھا ہے لیکن جنرل صاحب کا معاملہ سب سے مختلف ہے۔ انھوں نے سب کچھ دائو پر لگا دیا ہے اور حاصل کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ بش صاحب سے شاباشی‘ جرأت مندی کے سرٹیفیکیٹ اور کیمپ ڈیوڈ کی چند گھنٹے کی ملاقات! ان کی گفتار کا جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ  ع

انھی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں‘ زبان میری ہے بات ان کی

اور اگر پالیسی اوراس کے حاصلات کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بات جو ’’پاکستان فرسٹ‘‘ کے دعوے سے شروع ہوئی تھی‘ وہ ’’مُش فرسٹ‘‘ سے ہوتی ہوتی ’’بش فرسٹ‘‘ تک پہنچ گئی ہے اور اب عالم یہ ہے کہ جس تین بلین ڈالر کی دھوم تھی اور جنھیں امریکی بجٹ ۲۰۰۴ئ-۲۰۰۵ء سے شروع ہو کر پانچ سال میں نازل ہونا تھا‘ ان کے بارے میں کانگرس میں نیا بل آگیا ہے اور اس رقم کو جہادِ آزادی کا گلا گھونٹنے اور نیوکلیر استعداد کو قابو کرنے سے مشروط کیا جا رہا ہے۔ افغانستان میں جہاں بات صرف ہفتوں میں معاملہ ختم ہونے کی تھی‘ دو سال ہونے کو آرہے ہیں اور امریکہ کے ساتھ ہم بھی دلدل میں پھنسے جا رہے ہیں‘ کابل میں سفارت خانے پر حملہ اور    دو ہفتے اس کے بند رہنے کی نوبت آگئی ہے اور پاک افغان سرحد پر کشیدگی کم ہونے کا نام   نہیں لے رہی بلکہ لفظوں کی جنگ کا آغاز ہوگیا ہے اور پاکستان میں تخریب کاری کے ڈانڈے سرحد پار دیکھے جا سکتے ہیں۔

کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور اس کے بارے میں ہر مشکل کے باوجود ہم اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہے ہیں‘ اب امریکہ اور اس کے حلیف ہی بھارت کی زبان استعمال نہیں کر رہے بلکہ ساری کہہ مکرنیوں کے باوجود خود جنرل صاحب کی تقاریر اور سفارت کاریوں میں ’’جنگ آزادی‘‘ اور ’’دہشت گردی‘‘ کا فرق مٹتا نظر آرہا ہے۔ امریکہ کی حاشیہ برداری اب اس مقام پر پہنچتی نظر آ رہی ہے جہاں اس کی خوشنودی کی خاطر عراق میں امریکہ اور برطانیہ کے   منہ پر ملی جانے والی کالک میں سے اپنا حصہ نکالنے کے لیے پاکستانی فوج کی ترسیل اور فلسطین میں خاک و خون کی ہولی کے گرم ہونے کے باوجود اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں شروع ہو گئی ہیں   ع

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے

ان حالات میں اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ خارجہ پالیسی کا بے لاگ جائزہ لیا جائے‘ اہم مسائل کے بارے میں صحیح موقف کو دلائل سے بیان کیا جائے اور قوم اور قیادت دونوں کے باب میں حق نصیحت ادا کرنے کا فرض انجام دیا جائے۔ قرآن نے حق کی شہادت کی یہی ذمہ داری اسلام کے علم برداروں کے لیے لازم کی ہے۔

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ انصاف کے علم بردار اور اللہ کے لیے سچی گواہی دینے والے بنو‘ اگرچہ تمھارے انصاف اور تمھاری گواہی کی زد خود تمھاری ذات پر یا تمھارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب‘ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلوتہی کی تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔(النساء ۴:۱۳۵)

پارلیمنٹ اور کابینہ بے تعلق

اس وقت پاکستان کی خارجہ پالیسی کو لیا جائے یا داخلہ پالیسی کو‘ اس کا المیہ یہ ہے کہ فوج کی جس قیادت نے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو اقتدار پر قبضہ کیا تھا وہ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات کے باوجود اقتدار چھوڑنے اور انتخابی نتائج کو قبول کرنے کو تیار نہیں اور محض جبر‘ قوت اور عسکری طاقت کے غلط استعمال کے ذریعے ملک کی قیادت پر اپنی گرفت اسی طرح جاری رکھنا چاہتی ہے جس طرح اسے فوجی حکمرانی کے دور میں حاصل تھی۔ معاشی ترقی اور مبادلہ خارجہ کے ذخائر میں اضافے کو پالیسیوں کے تسلسل کے لیے بطور دلیل پیش کیا جا رہا ہے اور اس کی کوئی فکر نہیں کہ عملاً معیشت کس بگاڑ کی گرفت میں ہے اور عام آدمی کی زندگی کس تباہی سے دوچار ہے۔ غربت میں اضافہ ہو رہا ہے اور تازہ اعداد و شمار کی روشنی میں اگر آبادی میں اضافہ سوا دو فی صد سالانہ ہے تو غریبوں کی آبادی میں اضافہ دس فی صد سالانہ کی رفتار سے ہے (بحوالہ ڈان‘  ۱۶جولائی ۲۰۰۳ئ‘ ڈاکٹرشاہد جاوید برکی کا مضمون)۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور ۱۷ جولائی ۲۰۰۳ء کو شائع ہونے والی UN Human Development Report 2003 کی رو سے Human Development Index کے باب میں پاکستان کی پوزیشن مزید خراب ہوئی ہے۔ چند سال پہلے ہم دنیا کے ۱۹۰ ممالک میں ۱۲۰ نمبر پر تھے جس سے گر کر اس رپورٹ کے مطابق اب ہمارا نمبر۱۴۴ ہے۔ یعنی ۲۴ مزید ملکوں سے ہم پیچھے آگئے ہیں۔ جو ملک سیاسی اور معاشی اعتبار سے اندرونی قوت و استحکام سے محروم ہو‘ وہ بین الاقوامی دنیا میں اچھی ساکھ کا حامل کیسے ہو سکتا ہے۔

محض امریکہ کی قیادت کی خوشنودی خارجہ پالیسی کی کامیابی کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔ امریکہ تو اپنے مفاد میں ہر دور میں اپنے اپنے ملکوں کو تباہ اور کمزور کرنے والے آمروںکی سرپرستی کرتا رہا ہے اور ان سے اپنے مفادات حاصل کرتا رہا ہے۔ ویت نام کے تھیو‘ ڈومینکن  ری پبلک کے جنرل ٹروجیلو‘ فلپائن کے مارکوس‘پاناما کے مینویل نوریجو ‘ ایران کے رضاشاہ‘ مصرکے انورالسادات اور حسنی مبارک سے لے کر پاکستان کے فوجی حکمرانوں (ایوب خان سے پرویز مشرف) تک کو امریکہ کی آشیرباد حاصل رہی ہے اور وہ ان کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرتا رہا ہے۔ اس پس منظر میں ۱۱ستمبرکے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی کو جس طرح امریکہ کے مفادات کے تابع کردیا گیا ہے اس سے ملک کی آزادی‘ سالمیت اور نظریاتی تشخص کو شدید خطرہ ہے۔

جنرل صاحب نے پالیسی کی تمام باگ ڈور اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے اور وزیراعظم‘ کابینہ‘ پارلیمنٹ سب غیر متعلق ہو کر رہ گئے ہیں۔ دستور کا جس طرح حلیہ بگاڑا گیا ہے وہ خود ایک المیہ ہے لیکن اس کا نتیجہ ہے کہ خارجہ اور داخلہ دونوں پالیسیوں کی باگ ڈور جنرل صاحب ہی کے ہاتھ میں ہے اور اپنے جن غیرمنتخب پسندیدہ افراد کو چاہتے ہیں اعتماد میں لیتے ہیں اور خود ان کے سیاسی طنبورے کچھ بھی کہتے رہیں وہ وہی کچھ کر رہے ہیں جو خود کرنا چاہتے ہیں اور جس کا سلسلۂ نسب بش انتظامیہ کی خواہشات سے ملتا ہے۔ ایک ماہ میں چار مغربی اور تین عرب ممالک کا دورہ وہ صدر فرماتے ہیں جن کی صدارت کی قانونی حیثیت (legality) بھی معتبر نہیں اور اگر  بہ فرض محال اس کو تسلیم بھی کر لیا جائے تب بھی خارجہ سیاست دستور ہی نہیں‘ خود ایل ایف او کے تحت بھی صدر کی ذمہ داری نہیں۔ وزیراعظم اور وزیر خارجہ اور پارلیمنٹ سب غیرمتعلق ہو کر    رہ گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے جس طرح ایک فردِ واحد کو دستور میں ترمیم کا حق نہیں دیا جا سکتا اسی طرح خارجہ یا داخلی سیاست بھی کسی ایک فرد کے ہاتھوں میں نہیں چھوڑی جا سکتی۔ پالیسیوں کے افلاس اور حالات کی خرابی کا بڑا سبب پالیسی سازی اور حکمرانی کے اس پورے عمل (process) کا بگاڑ ہے‘ جس کی اصلاح کے بغیر تبدیلی ممکن نہیں۔


اس اصولی بات کے بعد ہم چاہتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف نے اپنے ان سات ملکوں کے دوروں سے قبل‘ ان کے دوران اور ان سے واپسی پر خارجہ سیاست کے سلسلے میں جن بنیادی ایشوز کو اٹھایا ہے ان پر مختصر کلام کریں اور قوم اور پارلیمنٹ کے ساتھ خود ان کو اور ان کے قریبی رفقا کو دعوت دیں کہ اپنے موقف اور اس کے مضمرات پر ازسرنو غور کریں اور ضد اور ہٹ دھرمی کا رویہ ترک کر کے صرف حقائق اور دلیل و برہان کی بنیاد پر پالیسی سازی کے اصول کو تسلیم کریں اور صحیح جمہوری اور قانونی عمل (process) کے ذریعے پالیسیاںبنانے اور ان پر احتساب کا راستہ اختیار کریں۔

امریکی امداد کی شرم ناک شرائط

ہم نے جنرل صاحب کے امریکہ کے دورے کے بارے میں پہلے بھی لکھا ہے اور ایک بار پھر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ محض ’’درمدح خود می گوید‘‘ سے نہ حقائق تبدیل ہوتے ہیں اور نہ تلخ نتائج پر دھول ڈالی جا سکتی ہے۔

کیمپ ڈیوڈ میں پاکستان کے لیے کیا حاصل کیا جا سکا اور امریکہ کی خوشنودی کے لیے کیا کچھ قربان کر دیاگیا ہے؟ اس کی بیلنس شیٹ کو بہت عرصے تک ٹالا نہیں جا سکتا۔ امریکہ میں پاکستانی جن مصائب کا شکارہیں ان میں کوئی کمی آئی ہے؟ گنٹاناموبے کے عقوبت خانے میں جو پاکستانی آج بھی قید ہیں اور دو سال ہونے کو آرہے ہیں لیکن ہر داد رسی سے محروم ہیں ان کے بارے میں کیا حاصل ہوا؟ کشمیرکے مسئلے پر ہمارے موقف کو کہاں کوئی پذیرائی حاصل ہوسکی اور کہاں ہم خود کشمیرکی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو اس زمرے میں شامل کرنے کے مرتکب ہوئے جو امریکہ اور بھارت نے دہشت گردوں کے لیے مقرر کر رکھا ہے۔ افسوس کہ پہلی مرتبہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیرنے امریکی کانگریس کے سامنے اپنے خطاب میں کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے terrorists کا لفظ استعمال کیا اوریہ جنرل صاحب کے امریکہ اور برطانیہ دونوں کے دورے کے بعد ہوا۔ تین بلین ڈالر کے معاشی پیکج کی بڑی دھوم ہے لیکن ایک سال کے بعد شروع ہونے اور پانچ سال پر پھیلے ہوئے اس انتظام کا ابھی آغاز بھی نہیں ہوا کہ امریکی کانگرس میں بل آگیا ہے کہ ہر سال صدر امریکہ کو تصدیق کرنا ہوگی کہ:

۱-            کشمیر میں تمام ٹریننگ کیمپ بند ہیں۔

۲-            لائن آف کنٹرول سے کوئی آر پار نہیں ہو رہا۔

۳-            پاکستان جنگ آزادی کے فرزانوں کی کوئی مدد نہیں کر رہا۔

۴-            پاکستان کی نیوکلیر استعداد قابو میں ہے اور امریکہ کے احکام کی (یعنی جوہری عدم پھیلائو جس میں خود اپنی صلاحیت کا بہتر کرنا اور up-grading بھی شامل ہے) مکمل پاسداری کی جا رہی ہے۔

جنرل صاحب نے بڑے طمطراق سے کہا تھا کہ امداد غیر مشروط ہے حالانکہ وائٹ ہائوس کے ترجمان نے تین شرائط کا ذکر اس وقت بھی کیا تھا۔ اب ان میں سے جمہوریت کی طرف پیش رفت خارج کر دی گئی ہے اورکشمیر کی ناکہ بندی کی ہر تدبیر شامل کی جا رہی ہے۔

کیا اسی کا نام خارجہ سیاست کی کامیابی ہے؟

افغان پالیسی کے ’’نتائج‘‘

جنرل صاحب نے افغانستان پر امریکی فوج کشی کے لیے پاکستان کا کندھا فراہم کرتے وقت کہا تھا کہ امریکہ کا یہ آپریشن مختصر ہوگا اور صرف متعین اہداف تک محدود ہوگا۔ اس کا حشر بھی سب کے سامنے ہے۔ ہزاروں معصوم افغان شہید کیے جا چکے ہیں‘ سیکڑوں شہر اور دیہات بمباری سے تباہ ہوچکے ہیں‘ ملک دوبارہ بدنظمی اور وار لارڈز کے قبضے میں ہے۔ امریکی فوجیوں‘ سرکاری افواج اور عوام کے درمیان مسلسل تصادم ہے اور وہ روز افزوں ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر وہ پاکستان جس کے جہادِ افغانستان میں تعاون کے سبب پوری افغان قوم ممنونیت کے جذبات سے معمور تھی اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہماری سرحدوں پر سکون تھا اور دونوں ممالک میں بھرپور تعاون کی فضا تھی--- وہ سکون درہم برہم ہوگیا ہے۔ ڈیورنڈ لائن کا تنازع ایک بار پھر اٹھ کھڑا ہوا ہے‘ پاکستان کی سفارت خانے پر سنگ باری ہو رہی ہے‘ سرحدوں پر کشیدگی ہے‘ قبائلی علاقے میں فوج لگا دی گئی ہے اور دونوں طرف سے فوجیں صف آرا ہیں۔ امریکی کمانڈر کہہ رہے ہیں کہ ہم ۵۰ فی صد تعاون پر مطمئن نہیںہیں‘ ۱۰۰ فی صد اطاعت مطلوب ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔

اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ کرزئی صاحب نے اپنے تازہ انٹرویو میں جنرل صاحب پر بے اعتمادی کا کھل کر اظہار کر دیا ہے۔ لندن کے روزنامہ ڈیلی ٹیلی گراف کو انٹرویو دیتے ہوئے کرزئی صاحب نے کہا ہے کہ ہم پاکستان سے ’’مہذب رویے‘‘ کے متوقع ہیں۔ ان کے الفاظ جنرل پرویز مشرف کی افغان پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ان کے چند ارشادات بطور آئینہ پیش خدمت ہیں:

پاکستان کو افغانستان کے خلاف جارحانہ اقدامات سے باز رہنا چاہیے اور انتہاپسندوں کی جانب سے سرحدپار حملے بند ہوجانے چاہییں۔ ہم خاموش تماشائی بنے نہیں رہ سکتے۔ کرزئی نے واضح کیا کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے ان کو ذاتی طور پر دھوکا دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ دوستی اور افہام و تفہیم کا رشتہ پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ امریکہ اور پاکستان دونوں کو اس سلسلے میں کوئی شبہہ نہیں ہونا چاہیے کہ یہ پاکستان کے موجودہ رویے کے ساتھ ممکن نہیں۔ (ڈیلی ٹیلی گراف‘ ۱۷ جولائی ۲۰۰۳ئ)

واضح رہے کہ طالبان کے سات سالہ دور میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک بھی سرحدی واقعہ رونما نہیں ہوا تھا اور ڈیورنڈ لائن کے سلسلے میں جو بھی تحفظات دونوں طرف سے ہیں‘ وہ تعلقات کو متاثر کرنے کا ذریعہ نہ بنے۔ لیکن امریکہ کے احکامات کے تحت سرحد کو بند کرنے کا اقدام اور علاقہ غیر میں فوجیں بھیجنے کے نتیجے میں جو صورتِ حال رونما ہوئی ہے وہ بالآخر دونوں برادر ممالک کے تعلقات کو بگاڑنے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ جنرل صاحب کے کیمپ ڈیوڈ کے سفر سے دو ماہ قبل پاکستان کے سیکرٹری داخلہ امریکہ سے سرحد بند کرنے کا معاملہ طے کر آئے تھے اور اس پر عمل کا شاخسانہ ہے کہ دوست دشمن میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی بری طرح ناکام ہیں اور کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کر پائے ہیں۔ شمالی علاقوں کی قیادت اور پشتون عوام میںبعد بڑھ رہا ہے۔ کابل حکومت کا اثر و رسوخ چند شہروں تک محدود ہے۔ امریکہ مخالف رجحانات تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور بیرونی افواج اور ان کے افغان معاونین کے خلاف تحریکِ مزاحمت زور پکڑ رہی ہے۔ افغانستان میں بھارتی اثرات بڑھ رہے ہیں اور اسرائیل بھی قدم جمانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت کو جلال آباد اور قندھار تک میں سفارتی دفاتر قائم کرنے کا موقع مل گیا ہے اور وہاں سے پاکستان کے خلاف تخریب کاری کی منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں۔ کبھی جس strategic depthکی باتیں ہو رہی تھیں وہ اب strategic dearth میں تبدیل ہو گئی ہے۔ پاکستانی فوج کی ایک معقول تعداد (ایک اندازے کے مطابق ۵۰ ہزار سے ایک لاکھ) اب شمالی سرحد پر پابند ہوگئی ہے اور ہماری ساری خدمات اور کارگزاریوں کے باوجود کابل کے حکمران اور افغانستان میں امریکی فوجی قیادت دونوں ہم سے ناخوش ہیں‘ افغان عوام تو پہلے ہی کبیدہ خاطر اور مایوس تھے۔ یہ ہے ہماری ۱۱ستمبر کے بعد کی افغان پالیسی کا حشر!

کشمیر پر پسپائی

دوسرا بڑا مسئلہ پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور پایدار حل کا ہے۔ یہاں جو بھیانک غلطی ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے دن سے ہم نے ’’terrorism‘‘ کے بارے میں اپنے موقف کی نہ موثر وضاحت کی اور نہ امریکہ اور بھارت سے تعلقات کے سلسلے میں ان کے اور اپنے موقف کے فرق کو تسلیم کرایا۔ آنکھیں بند کر کے تائید کر دی گئی اور اس کا نتیجہ ہے کہ جنیوا میں اقوامِ متحدہ انسانی حقوق کا کمیشن تو اپنے ۲۰۰۳ء کے اجتماع میں یہ کہتا ہے کہ جنگِ آزادی کے مجاہد اپنا الگ مقام رکھتے ہیں اور ان کو دہشت گرد قرار نہیں دیا جا سکتا اور ہم تسلیم کرلیتے ہیں کہ لائن آف کنٹرول سے کوئی نام نہاد دراندازی نہیں ہونے دیں گے اور اپنی زمین کو کسی قسم کی دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ عملاً بھی مجاہدین کے سارے کیمپ ختم کر دیے جاتے ہیں اور مجاہدین کو عملاً دہشت گردوں کے زمرے میں شامل کر دیا جاتا ہے بلکہ جہاد کی بات کو بھی ترک کر دیا جاتا ہے اور وہ فوج جس کا موٹو ہی جہاد فی سبیل اللہ ہے اس کے سربراہ کی زبان جہاد کی بات کرتے ہوئے گنگ ہو جاتی ہے۔

بھارت نے اس صورتِ حال کا پورا فائدہ اٹھایا ہے اور ہم ایک ردعمل کی (reactionary) صورتِ حال کے اسیرہوگئے ہیں۔ بھارت میں امریکی سفیر کھل کر اور غالباً پہلی مرتبہ کشمیر کی جنگِ آزادی کو دہشت گردی اور پاکستان کو اس کا پشتی بان قرار دیتا ہے اور ہمارے احتجاج میں بھی کوئی جان باقی نہیں رہی ہے۔ مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں اور اصل ایشوز پر کوئی واضح موقف باقی نہیں رہا ہے۔ جنرل صاحب یہاں تک چلے گئے ہیں کہ کشمیر کے دس بارہ حل کی بات کرتے ہیں اور لچک کے نام پر تجویز دیتے ہیں کہ process of elimination کو بروے کار لایا جائے اور جو حل دونوں کے لیے بالکل قابلِ قبول نہ ہو اس کو ترک کر دیا جائے۔ دوسرے الفاظ میںاگر بھارت یہ کہے کہ استصواب راے اور کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو ہم تسلیم نہیں کرتے تو یہ راستہ ترک کر دیا جائے۔ اگر اسی کا نام سیاست خارجہ ہے تو پھر ’’کار عقلاں تمام خواب شد‘‘۔

اس تمام ژولیدہ فکری اور سمجھوتہ کاری سے ہم جموں و کشمیر کے عوام کو کیا پیغام دے رہے ہیں--- ان عوام کو جو ۵۵سال سے بھارت کے تسلط کے خلاف صف آرا ہیں‘ جنھوں نے تقسیم کے فوراً بعد تین لاکھ جانوں کی قربانی دی اور جو ۱۹۸۹ء سے جہادِ آزادی کے دورِ نو میں ۸۰ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں اور بھارت کی سات لاکھ فوجوں کا مردانہ وار مقابلہ کر رہے ہیں اور کسی قیمت پر بھی اس کے قبضے (occuption)کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اصل ایشو ہی ریاست جموں و کشمیر پر بھارت کے ناجائز اور محض مبنی بر جبر تسلط کا ہے۔ مسئلے کا کوئی حل وہاں کے عوام کی مرضی سے ان کے مستقبل کو طے کرنے کے سوا نہیں ہوسکتا۔ لیکن ہم تعلقات کو معمول پر لانے (normalization) کے فریب میں ایک بار پھر مبتلا ہوگئے ہیں اور اسی سوراخ سے دوبارہ ڈسے جانے کے لیے آمادہ ہیں جس سے ۱۹۴۷ء کے بعد سے برابر ڈسے جا رہے ہیں--- کیا یہی جنرل صاحب کی خارجہ پالیسی کا کارنامہ ہے۔

بلاشبہہ کشمیر کا مسئلہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ یہ محض سرحدی تنازع یا زمین کا جھگڑا نہیں۔ سوا کروڑ مسلمانوں کے حق خود ارادیت کا مسئلہ ہے اور جس اصول پر پاکستان قائم ہوا تھا اس کے اطلاق اور تقسیمِ ہند کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کا مسئلہ ہے۔ یہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور جموں و کشمیر کے عوام کی آزاد مرضی سے ان کی خواہشات کے مطابق حل ہو جائے تو بھارت سے دوستی کے حقوق کے باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات استوار ہونے کے امکانات روشن ہوں گے۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ تقسیم کے اصل منصوبے کے مطابق دونوں ملک عزت و احترام سے اپنے تعلقات استوار کریں لیکن جیساکہ چیئرمین چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل عزیزاحمد خاں نے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بعد بھی پاک بھارت تعلقات کا انحصار علاقے کے تمام ممالک کی حاکمیت کے احترام پر مبنی ہے۔ اگر بھارت کے رویے اور عزائم پر علاقے میں بالادستی کا بھوت سوار رہتا ہے اور چھوٹے ممالک کو وہ اپنا      باج گزار بنا کر رکھنا چاہتا ہے‘ نیز پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی پالیسی پر عامل رہتا ہے جیسا کہ وہ اس وقت کر رہا ہے: بھوٹان اور نیپال کے بعد بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ مالدیپ پر گرفت مضبوط کرنے‘ چین سے بظاہر دوستی استوار کرنے‘ ایران سے تعلقات کا وہ آہنگ جس میں پاکستان کو بائی پاس کیا جاسکے‘ افغانستان میں اثر و رسوخ کا ایسا نظام جس کے ذریعے پاکستان پر دبائو ڈالا جا سکے‘ وسطی ایشیا میں اسرائیل کے ساتھ قدم جمانے کی کوشش‘ امریکہ سے ایسے تعلقات جن کی زد پاکستان پر بھی پڑتی ہو‘ اسرائیل سے اسٹرٹیجک گٹھ جوڑ‘ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا حصول‘ ایٹمی صلاحیت کا عالمی طاقت بننے کے لیے استعمال‘ عسکری قوت میں مسلسل اضافہ جو علاقے کے فوجی توازن کو تہہ و بالا کر دے--- یہ وہ تمام پہلو ہیں جن کو پاکستان اور علاقے کے دوسرے ممالک نظرانداز نہیں کرسکتے۔

دوستی کے خالی خولی نعرے اور اعتماد بنانے والے نام نہاد حربے علاقائی حقائق کو نہ تبدیل کرسکتے ہیں اور نہ ان سے پیدا ہونے والے خطرات کے مقابلے کی کوئی سبیل پیدا کرسکتے ہیں۔ اس لیے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ٹھوس حقائق‘ دوسرے ممالک کے عزائم کے حقیقی ادراک اور خود اپنے مقاصد‘ مفادات اور اہداف کی روشنی میں ایک اقدامی پالیسی کے جملہ پہلوئوںکا احاطہ ہی پاکستان کے تحفظ اور ترقی کا ضامن ہو سکتا ہے۔ کیا ہماری خارجہ پالیسی میں ان تمام پہلوئوں کے شعور کی کوئی جھلک دیکھی جا سکتی ہے؟

نظریاتی رُخ کی تبدیلی

جنرل پرویز مشرف نے اپنے حالیہ دوروں میں خارجہ پالیسی کے سلسلے میں تین نئے موضوعات کو چھیڑا ہے۔ یہ موضوعات اور ان پر بحث کا یہ وقت دونوںاہمیت کے حامل ہیں۔ بظاہر ان کا مقصد امریکہ کی خوشنودی ہے‘ جو ایک خوش فہمی سے زیادہ نہیں۔ لیکن اگر گہرائی میں جاکر تجزیہ کیا جائے تو یہ دراصل پوری خارجہ پالیسی ہی نہیں‘ پاکستان کے نظریاتی رخ کی تبدیلی کا پیش خیمہ اور اس کے لیے اولیں اقدام ہوسکتا ہے۔ اس لیے گربہ کشتن روزِ اول کے اصول پر یہی وہ وقت ہے کہ ان خطرناک feelers کا سرتوڑ دیا جائے اور پوری قوم کو ان کے خطرات اور مضمرات سے آگاہ کر کے اپنی نظریاتی سرحدوں‘ اپنے سیاسی‘ دفاعی اور تہذیبی وجود کی حفاظت اور تاریخی قومی عزائم کی تکمیل کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے۔

پہلی چیز کا تعلق دہشت گردی کے نام پر کی جانے والی جنگ میں ہمارے کردار کا ہے۔ جنرل صاحب اور ان کے رفقا نے ملک کو ایک ہیجانی انداز میں ۱۱ستمبر کے واقعے کے بعد‘ اس سانحے کے اسباب اور ذمہ دار افراد کے بارے میں کسی معروضی تحقیق کے بغیر‘ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا جس کی کوئی انتہانہیں‘ جس کا کوئی واضح ہدف اور متعین منزل نہیں‘ جس کی قیادت ایک ایسے ملک کے ہاتھ میں ہے جو کسی دوسرے کو خاطر میں نہیں لاتا‘ جس کے اپنے عالمی عزائم ہیں اور جس پر ایک مذہبی بنیاد پرست گروہ چھایا ہوا ہے جو حق و انصاف اور سچ اور جھوٹ سب سے بالا ہوکر محض اپنے مذموم مقاصد کے لیے سب کچھ کرنے پر تلا ہوا ہے۔

ہم نے اپنے کو ایک ایسی جنگ میں جھونک دیا ہے اور اب امریکہ کی دم سے بندھے‘ بے بسی کے عالم میں اس کے پیچھے پیچھے گھسٹ رہے ہیں اور کیفیت یہ ہے کہ   ع

نے ہاتھ باگ پر ہے‘ نہ پا ہے رکاب میں

امریکہ دہشت گردی کے عنوان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اسامہ بن لادن پہلا ہدف تھا مگر اس پر کوئی جرم ثابت کیے بغیر اعلانِ جنگ کر دیا گیا۔ وہ آج تک نہیں پکڑا گیا مگر اس کے نام پر دوسرا سال ہے کہ ایک عالمی جنگ کا بازار گرم ہے۔ طالبان نے کوئی جرم نہیں کیا تھا مگر اسامہ کو پناہ دینے کے الزام پر ان پر فوج کُشی کی گئی اور اب افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی خدمت انجام دی جا رہی ہے اور ایک ایسا ملک‘ جو چاہے غریب اور غیرترقی یافتہ تھا مگر آزاد اور پُرامن تھا‘مسلسل جنگ اور خانہ جنگی کی آگ میں جھونک دیا گیاہے اور پاکستان اور افغانستان کو بھی ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر دیا گیا۔ ملاعمر اب بھی گرفت سے باہر ہیں اور طالبان کا ہّوا سروں پر منڈلا رہا ہے۔ عراق پر صریح جھوٹ اور اب خود اپنے اعتراف کے مطابق محض راے عامہ کو ساتھ ملانے کے لیے غلط اور بے بنیاد الزامات کو ہوا دے کر حملہ‘ ملک کی تباہی اور اس کے وسائل پر قبضے کا ڈراما رچایا گیا ہے۔ شمالی کوریا پردبائو جاری ہے‘ ایران اور شام پر بندوقیں تانی جا رہی ہیں‘ اسرائیل کو کھل کھیلنے کا ہر موقع دیا جا رہا ہے اور صاف نظر آ رہا ہے کہ چند مغربی اقوام (برطانیہ‘ اسپین‘ آسٹریلیا‘ پولینڈ) کے علاوہ بھارت اور اسرائیل اس نام نہاد جنگ سے مستفید ہونے والے (beneficiaries)اصل فریق ہیں۔ البتہ ہم دم چھلے کی طرح امریکہ کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ اخلاقی‘ مالی‘ سیاسی‘ ہر اعتبار سے نقصان اٹھا رہے ہیں مگر امریکہ سے نتھی ہیں۔

اس سے بھی زیادہ خطرناک وہ نظریاتی جنگ ہے جو اسلام‘ اور اس کے دین و دنیا اور مذہب اور ریاست کی یک جائی کے تصور کے خلاف امریکی دانش وروں اور سیاست کاروں نے شروع کی ہوئی ہے۔ ’’سیاسی اسلام‘‘ کو ہدف بنایا جا رہا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ ایسا اسلام تو قبول ہے جو گھر اور مسجد تک محدود ہو لیکن اسلام کا یہ تصور کہ زندگی کے پورے نظام کو اللہ کی ہدایت کی روشی سے منور کیا جائے‘ قابلِ قبول نہیں۔ اس تصورِ دین کا نام بنیاد پرستی‘ انتہاپرستی‘ رجعت ‘ جہادی کلچر اور دہشت گردی رکھا گیا ہے۔ دینی تعلیم کا نظام اس تصور کامنبع ہے اس لیے اس نظام کی تبدیلی نئی صلیبی جنگ کا ہدف ہے۔

اس نظریاتی جنگ میں بھی معلوم ہوتا ہے کہ جرنیل پرویز مشرف صدر بش کے ہم رکاب ہیں اور اس پورے سفر میں اسلام کے ایک ترقی پسند اور لبرل تصور کے داعی کے طور پر اُبھرے ہیں۔ یہ وہی راستہ ہے جو استعمار کے پہلے دور میں ماڈرن اسلام کے نام پر اختیار کیا گیا تھا اور جسے اُمت نے علامہ اقبال‘ جمال الدین افغانی‘ محمد علی جوہر‘ ابوالکلام آزاد‘ سید مودودی‘ حسن البنا شہید‘ سعید نورسی‘محمدعبدہ‘ رشید رضا‘ مالک بن نبی اور سید قطب جیسے مفکرین اور مجاہدین کی سرکردگی میں دفن کر دیا تھا۔ شیطان اپنے اسی حربے کو ایک بار پھر اختیار کر رہا ہے اور افسوس ہے کہ جنرل پرویز مشرف غالباً سوچے سمجھے بغیر اور تمام عواقب و مضمرات کا ادراک کیے بغیر     اس صلیبی جنگ میں بھی شریک ہوگئے ہیں اورترقی پسند اسلام کو بھی خارجہ پالیسی کا ایک   نظریاتی ستون (plank) بنانے کا خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ یہ ایک المناک غلطی ہے۔ پاکستان کے عوام اور اُمت مسلمہ اس تصور کو بار بار رد کر چکی ہے اور خود پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی سیکولر عناصر نے یہ بازی کھیلی ہے انھیں بری طرح شکست ہوئی ہے۔

اسلام وہی ہے جو قرآن و سنت کے ذریعے اس اُمت کو ملا ہے اور جب تک قرآن و سنت محفوظ ہیں اور ان کی حفاظت کی ضمانت خود زمین و آسمان کے مالک نے دی ہے‘ اسلام کے چہرے کوکوئی مسخ نہیں کر سکتا اور نہ اس کے جسم پر کوئی دوسرا چہرہ نصب کرسکتا ہے۔ البتہ اس کوشش کا ایک نتیجہ ضرور نکل سکتا ہے اور وہ ہے ملک و ملّت کے درمیان نظریاتی کش مکش اور تصادم اور قوم کی صلاحیتوں کا ضیاع۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ جنرل صاحب اس لاحاصل تصادم سے اپنے کو بھی بچائیں اور قوم کو بھی اور امریکہ کی خوشنودی کی خاطر اسلام میں تراش خراش اور ایک قابلِ قبول وژن تیار کرنے کی کوشش نہ کریں اور یاد رکھیں کہ    ؎

نورِ حق ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا  نُوْرَ اللّٰہِ بِاَفْوَاھِھِمْط وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ o (الصف۶۱:۸)

یہ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔

تاریخ گواہ ہے کہ اسلام پر جو بھی ضرب لگی ہے اور اُمت کو جس نشیب سے بھی سابقہ پیش آیا ہے‘ اسلام پھر قوت بن کر اُبھرا ہے اور اُمت نئے فراز سے شادکام ہوئی ہے    ؎

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

اتنا ہی یہ اُبھرے گا‘ جتنا کہ دبا دیں گے

امریکہ کی مدد کے لیے پاکستانی فوج

دوسرا شوشہ جو اس زمانے میں چھوڑا گیا ہے‘ وہ عراق میں امریکہ کی دعوت پر اور ان کی مدد کے لیے پاکستانی افواج کو بھیجنے کا ہے۔ ستم ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے کسی مشورے‘ کسی قومی مشاورت‘ کسی پارلیمانی بحث کے بغیر اس سے ’’اصولی اتفاق‘‘ کااعلان بھی کر دیا اور صرف ’’مصارفِ لام بندی‘‘ اور کمانڈ کی بات کر کے مسئلے کو الجھانے کی کوشش کی۔

بات بہت صاف ہے۔ اگر پاکستانی فوج محض بھاڑے کے ٹٹو کی حیثیت رکھتی ہے اور وہ ایک آزاد اور اسلام کی علم بردار قوم کی وہ فوج نہیں جو ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ کے آدرش کی دین ہے تو وہ اسے جہاں چاہیں بھیجیں اور جس جہنم میں جھونکنا چاہیں جھونک دیں لیکن نہ پاکستان کی فوج کسی ایسے بکائو مال (mercenaries)کا طائفہ ہے اور نہ پاکستانی قوم ایسی بے ضمیراور بے غیرت قوم ہے کہ اپنے شاہینوں کو امریکہ کی ایک ناجائز جنگ کی آگ میں جھونکنے دیں۔ یہ فوج کسی کی ذاتی جاگیر نہیں کہ جہاں چاہے بھیج دے اور جس جنگ کا چاہے اسے ایندھن بنا دے۔ ایک مسلمان فوج اور ’’ضمیرفروشوں‘‘ میں یہی فرق ہے کہ وہ حق کے لیے تو جان کی بازی لگا دیتی ہے لیکن محض پیسے کی خاطر ظالموں کا آلہ کار نہیں بنتی۔ مولانا محمد علی جوہر نے خوب کہا تھا کہ   ؎

مصلحت کوش مری فطرت پاکیزہ نہ تھی

قول انشا کو کبھی حکمِ الٰہی نہ کہا

گر یہی میری خطا ہے تو خطا کار ہوں میں

میں نے شمشیرفروشوں کو سپاہی نہ کہا

عراق کی جنگ کی حقیقت کونظرانداز کر کے‘ اور آج عراق میں جو کھیل امریکہ کھیل رہا ہے اور اس کی جو قیمت اسے ادا کرنا پڑ رہی ہے اس کے ادراک کے بغیر محض جناب بش کے ارشاد عالی کی تعمیل میں اپنی فوج بھیجنے اور اسے اصولی طور پر ایک صحیح بات کہنے کی جسارت وہی شخص کر سکتا ہے جو یا حالات کا کوئی ادراک نہ رکھتا ہو یا پھر قوم اور فوج دونوں کو دھوکا دینے کی جسارت کر رہا ہو۔

عراق کی صورتِ حال

عراق کی جنگ کے بارے میں حقائق یہ ہیں:

۱-  یہ جنگ امریکی قیادت کے ہوسِ انتقام اور سامراجی عزائم کی جنگ ہے جس کی ساری دنیا کے عوام نے مخالفت کی‘ ڈیڑھ سو سے زیادہ ممالک نے اس میں شرکت سے انکار کیا‘ دنیا کی آبادی کے ۹۰ فی صد نے اسے ناجائز قرار دیا‘ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے بھی امریکہ اس کی تائید حاصل نہ کر سکا اور اس کے سہارے ایڑی چوٹی کے زور لگا دینے کے باوجود جنگ کے بعد بھی اسے سلامتی کونسل سے جواز نہ مل سکا اور کونسل نے اپنی قرارداد ۱۴۸۳ کے ذریعے امریکہ اور برطانیہ کو قابض طاقت (occupying power) قرار دیا۔ ایسی ناجائز اور بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی کی جانے والی فوج کُشی میں شرکت کا کوئی قانونی‘ اخلاقی اور سیاسی جواز ممکن نہیں۔

۲-  جنگ کے بعد اب اس بات پر خود امریکہ اور برطانیہ میں کھلے بندوںاحتساب ہورہا ہے کہ جنگ کے لیے جن وجوہ کو سندِجواز بنایا گیا تھا وہ محض کذب اور دھوکے پر مبنی تھیں اور امریکی اور برطانوی قیادت نے اپنی پارلیمنٹوں اور اپنے عوام کو صریح دھوکا دیا۔ بش صاحب کی جنوری ۲۰۰۳ء کی State of the Nation تقریر جھوٹ پر مبنی تھی اور یہی حالت اس قرارداد کی تھی جو برطانوی پارلیمنٹ میں منظور کرائی گئی۔ دونوں ملکوں میں اب عوام اور سیاسی قوتیں احتساب اور جواب دہی کی بات کر رہی ہیں اور راے عامہ کے جائزوں میں قیادت کی ساکھ برابر روبہ زوال ہے۔ جنگ کے مبنی برباطل ہونے کے ان واضح اعترافات کے باوجود یہ سوچنا بھی ایک گناہ اور انسانیت کے خلاف ظلم ہے کہ ایسی جنگ برپا کرنے والوں کی معاونت کے لیے ایک مسلمان ملک کی فوج بھیجی جائے۔

۳- عراق میں یکم مئی کو جنگ کے خاتمے کے اعلان کے بعد بھی امریکی اور برطانوی فوج کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے جو روز بروز بڑھ رہی ہے۔ امریکہ کے ۱۵۰ سے زیادہ فوجی مارے جا چکے ہیں اور برطانیہ کے ۳۰ سے زائد۔ فوج میں شدید بے چینی ہے اور ہر میت جو امریکہ یا برطانیہ جا رہی ہے ایک کہرام کو جنم دے رہی ہے۔ امریکہ کے ایک لاکھ ۴۸ ہزار فوجی عراق میں اسیر ہیں اور وہ ان میں سے بیشتر کو جلد از جلد واپس بلانا چاہتا ہے اور ان کی جگہ بھاڑے کے ٹٹوں کو عراقی عوام کی مزاحمت کا نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ برطانیہ نے اپنے ۱۷ ہزار فوجیوں کے لیے مزید کمک بھیجنے سے انکار کر دیا اور امریکہ اس کے تھرڈ ڈویژن کو واپس بھیجنے اور متبادل افواج کو لانے کو مشکل پا رہا ہے۔ اس نے فرانس سے فوج طلب کی جس نے انکار کر دیا۔ بھارت سے طلب کی اس نے انکار کر دیا۔ پاکستان سے طلب کی اور وہ جرأت انکار سے بھی  محروم ہے اور چور دروازے تلاش کر رہا ہے۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ ایک ناحق جنگ‘ ایک ظالمانہ اور سامراجی جنگ اور ایک ایسی صورت حال میں جہاں ایک مسلمان عرب ملک پر امریکہ قابض ہے اس بات کا تصور بھی کیسے کیا جا سکتا ہے کہ اس خونی کھیل میں اپنے فوجیوں کو جھونک دیا جائے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر عراقی عوام درخواست کریں یا وہاں کی امریکہ کی نامزد کونسل درخواست کرے تو غور کرسکتے ہیں۔ کونسل ایک امریکی نامزد ادارہ ہے جس میں اعلیٰ اختیار عراق کے نئے امریکی وائسرائے پال بریمر کو حاصل ہے۔ امریکہ نے عراق کے انتظام کو اقوامِ متحدہ کے حوالے کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ وہاں فوجی اور سیاسی دونوں نظام دونوں امریکہ کے تحت ہیں۔ ایسے حالات میں کسی آزاد اور غیرت مند ملک کے لیے ممکن نہیں کہ اپنی فوج وہاں بھیجے۔ بھارت نے پوری جرأت کے ساتھ انکار کر دیا لیکن ہماری قیادت حیص بیص کا شکار ہے۔

۴-  تمام تجزیہ نگار اس بات کا اب کھل کر اظہار کر رہے ہیں کہ عراق میں ایک قومی تحریک مزاحمت وجود میں آگئی ہے۔ امریکہ ویت نام جیسے حالات سے دوچار ہونے کے خطرات سے بچنے کے لیے دوسروںکو اس آگ میں جھونکنے کے لیے دوڑ دھوپ کر رہا ہے۔  ولیم شوکراس نے لندن کے اخبار ایوننگ اسٹینڈرڈ کی ۲۵مارچ ۲۰۰۳ء کی اشاعت میں جنگ سے پہلے ہی اس کی پیش گوئی کر دی تھی اور اب عالم گیریت کے مطالعے کے ییل مرکز کے ایک مطالعے میں جو یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا برکلے کے پروفیسر آر ویل اسکیل نے مرتب کیا ہے صاف لفظوں میں کہا گیا ہے کہ:

ہمارا واسطہ ایک منتشر بھوت سے ہے جو دہشت گردی اور گوریلا جنگ سے مل کر بناہے۔ اس کا صفایا کرنا ہندچینی میں ہمارا جن گوریلا فوجوں سے واسطہ پڑا تھا‘ اس سے زیادہ سخت ہوگا۔ (ایشین ایج‘ لندن‘ ۲۱ جولائی ۲۰۰۳ئ)

کیا اس جہنم میں ہم محض امریکیوں کے نقصانات کم کرنے کے لیے اپنے مجاہد فوجیوں کو بھیجنے کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔

۵-  عراق میں خود امریکیوں نے جس گورننگ کونسل کو نامزد کیا ہے اس تک نے اپنے پہلے ہی اجلاس میں امریکہ کے سارے دبائو کے باوجود صدر بش کا شکریہ ادا کرنے اور اسے عراق کا نجات دہندہ قرار دینے سے انکار کر دیا اور عراق کی سڑکوں اور گلیوں میں جو نعرے لگائے جارہے ہیں وہ امریکی کالم نگار نیل میک فرگوارہر کے بیان کے مطابق یہ ہیں:

"No to America! No to Colonialism

No to Tyranny! No to Devil".

(نیویارک ٹائمز‘ ۲۲ جولائی ۲۰۰۳ئ)

یہ ہے عراق کی عوامی فضا ۔ ہم کس کا ساتھ دینا چاہتے ہیں--- عوام کا یا ان پر تسلط حاصل کرنے والی امریکی افواج اور اس کی نامزد انتظامیہ کا؟

۶-  ہمیں ان تاریخی حقائق کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ برطانوی استعمارکے دور میں پہلی جنگ کے بعد برطانیہ کی افواج میں شامل برعظیم کے سپاہیوں نے عراق کے لوگوں پر گولیاں چلائی تھیں اور جہادِ آزادی کے متوالوں کو کچلنے کی جنگ میں برطانوی استعماری افواج کے شانہ بشانہ شرمناک کردار ادا کیا تھا جس کی یادیں آج بھی موجود ہیں۔ کیا آزادی کے بعد اور اس دور کی پہلی آزاد مسلم مملکت کا شرف رکھنے والے پاکستان کی فوجوں کو پھر اس کی قیادت ایک ایسی ہی شرمناک جنگ میں جھونکنا چاہتی ہے؟ اس طرح پاکستانی قوم اور عراقی قوم میں محبت کا رشتہ استوار ہوگا یا نفرت کا؟ امریکہ کے فوجی تو عراقی عوام کی نفرت کا نشانہ بن رہے ہیں۔ کیا پاکستان کی فوجی قیادت پاکستانی فوج اور پاکستانی قوم دونوں کے منہ پر یہ کالک ملنے کی خدمت انجام دینا چاہتی ہے۔

۷-  امریکہ کے جو عزائم عراق میں سیاسی بندربانٹ‘ اس کے تیل پر قبضے‘ تعمیرنو کے نام پر امریکی کمپنیوں کے تسلط کے قیام اور ہمیشہ کے لیے عراق کو عسکری اعتبار سے ایک غیرموثر ملک بنانے والے ہیں ان سے ہم ناواقف نہیں۔جو نقشہ کل کے لیے بن رہا ہے وہ عراق‘ عرب دنیا اور عالمِ اسلام سب کے مفاد کے خلاف ہے۔ کیا ہم میں اتنی بھی سیاسی فراست نہیں کہ نوشتہ دیوار کو پڑھ سکیں؟ اور امریکہ کے اس خونی کھیل میں محض چند پیسوں کی خاطر شریک نہ ہوں۔

۸-  انگلستان میں ابھی جولائی کے دوسرے ہفتے میں ان ۱۴ ممالک کے سربراہوں کا اجتماع ہوا جو سوشل ڈیموکریسی کے علم بردار ہیں۔ ٹونی بلیر نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح ان کو عراق کی جنگ اور غربت کے خاتمے اور تعمیرنو کے نام پر کیے جانے والے منصوبوں میں شریک کریں لیکن سب نے بہ اتفاق اس میدانِ جنگ میں قدم رکھنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے اس اصول کو بھی تسلیم کرنے سے انکارکر دیا کہ ناپسندیدہ حکومتوں کو ہٹانے‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے اور جابر حکومتوں کے خاتمے کے لیے کسی بھی ملک کو اقدام کا اختیار دیں۔ ان کا ایک ہی مطالبہ تھا‘ امن کو جو بھی خطرہ ہو اس کا مقابلہ کرنے کا صرف ایک راستہ ہے اور وہ ہے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے فیصلے کے ذریعے‘ بین الاقوامی قانون کے مطابق۔ ان کا اعلامیہ بہت واضح ہے:

ہم اس بارے میں بالکل واضح ہیں کہ اس نوعیت کے انسانی بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے عالمی کارروائی کی اجازت دینے والا واحد ادارہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہے۔ (دی انڈی پنڈنٹ‘ ۱۵ جولائی ۲۰۰۳ئ)

کیا اس اعلامیے میں پاکستان کی قیادت کے لیے کوئی پیغام نہیں؟

۹-  آخری بات یہ ہے کہ عراق پر قبضے کے جملہ مقاصد میں ایک اہم مقصد اسرائیل کی تقویت اور اسے علاقے کا چوکیدار بنانا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اس کا اعتراف دوست دشمن سب کرتے ہیں۔امریکہ کی صہیونی لابی اور اسرائیلی وزیراعظم شیرون نے عراق کی جنگ کو حقیقت بنانے میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا اور عراق کی تباہی پر سکھ اور چین کا سانس لیا۔  دی انڈی پنڈنٹ نے اپنے ایک حالیہ اداریے میں اس کا کھل کر اعتراف کیا ہے:

عراق میں جنگ کا ایک سبب یہ تھا کہ علاقائی خطرے کا خاتمہ کیا جائے‘ اور امید کی جائے کہ اس طرح شرق اوسط میں امن فروغ پائے گا۔ عراق کے اندر داخلی سلامتی کتنی ہی غیراطمینان بخش ہو اور اس کے ہتھیاروں کے بارے میں تنازع کتنا ہی بھڑک رہا ہو‘ اس جنگ نے اسرائیل کے لیے ایک خطرے کاخاتمہ کر دیا ہے اور خطے کے دوسرے ممکنہ جنگ کرنے والوں کے لیے تنبیہ کا کردار ادا کیا ہے۔ اب اسرائیل کے لیے دنیا ایک نسبتاً زیادہ محفوظ جگہ ہو گئی ہے۔ (اداریہ ‘ ۱۵جولائی ۲۰۰۳ئ)

یہ ہے عراق پر امریکی قبضے کی اصل حقیقت۔ کیا پاکستان کی فوجی قیادت اسرائیل کی تقویت کے لیے کھیلے جانے والے اس کھیل میں اپنے لیے کوئی کردار تلاش کرنے کی حماقت کرنے کے لیے پر تول رہی ہے۔ کیا اب اس ملک کی قیادت میں اس کھیل کو سمجھنے والا کوئی موجود نہیں۔ اَلَیْسَ مِنْکُمْ رَجُلٌ رَشِیْد؟


اس خطرناک کھیل کا ایک اور شاخسانہ اسرائیل کو تسلیم کرانے کے لیے امریکی دبائو اور ترغیبات سے عبارت ہے۔ جنرل صاحب کے دورے سے پہلے ہی اس کے شوشے چھوڑے جانے لگے تھے اور دورے کے دوران اور اس کے بعد اس بارے میں نت نئے نکتے تراشے جارہے ہیں جن کے تجزیے کی ضرورت ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اسرائیل ہی نہیں اُمت مسلمہ اور عالم انسانیت کے تمام ہی مسائل کے بارے میں مبنی برحق خارجہ پالیسی کے خدوخال متعین کیے جائیں۔ یہ موضوعات مستقل بحث کا تقاضا کرتے ہیں‘ اس لیے ان شاء اللہ ان پر آیندہ کبھی گفتگو ہوگی۔