پروفیسر خورشید احمد


بسم اللہ الرحمن الرحیم

’’روشن خیالی‘‘ اور ’’اعتدال پسندی‘‘ بڑ ے خوش نما الفاظ ہی نہیں‘ بڑے دل پذیر تصورات بھی ہیں۔ اگر مسلمان تہذیب و ثقافت‘ معاشرت اور شریعت پر اسلام کے فکری‘ نظریاتی اور اخلاقی تناظر میں غور کیا جائے‘ تو یہ اس دین اور تہذیب کی امتیازی خصوصیات میں سے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاملہ عقیدے کا ہو یا عمل کا‘ فرد کی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی‘ عبادت ہو یا معیشت‘ حتیٰ کہ دوستی کے امور ہوں یا دشمنی اور جنگ کے‘ ان سب میں اسلام نے عدل کا حکم دیا ہے جو اعتدال اور توازن کی علامت ہے۔ اسلام نے ہر سطح پر ہراقدام کے لیے احتساب کی شرط لگائی ہے جو شعور‘ اختیار اور روشن خیالی پر منحصر ہے اور تعصب‘ جہل اور جانب داری سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اُمت مسلمہ کو خیراُمت اور اُمت وسط قرار دیا ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام امور میں میانہ روی اور وسط کی راہ کو بہترین راستہ اور طریقہ قرار دیا ہے (خیر الامور اوسطہا)۔ اس لیے اگر روشن خیال اعتدال پسندی کی بات کی جائے    تو اس پر تعجب یا اعتراض کچھ بے محل معلوم ہوتا ہے۔ لیکن مشکل یہ آپڑی ہے کہ آج جس   ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی بات کی جا رہی ہے اس کا پس منظر ہمارا اپنا دین‘ ہماری اپنی تہذیب‘ ہماری اپنی روایت اور ہماری ضرورت نہیں بلکہ وہ ایک خاص تاریخی عمل کا حصہ بن گئی ہے اور دنیا کے‘ خصوصیت سے‘ مسلم دنیا کے لیے جس نئے سیاسی اور تہذیبی نقشے میں رنگ بھرا جارہا ہے‘ اس کا اہم رنگ ہے۔ عالمی حالات اور رجحانات کا جائزہ لیجیے تو صاف نظر آ رہا ہے کہ اس کا تعلق بیرونی دبائو اور مطالبات سے ہے۔

جو نیا عالمی نظام وضع کیا جا رہا ہے وہ استعمار کی سب سے جامع اور گمبھیر صورت (version) ہے جس میں عسکری‘ سیاسی‘ معاشی اور ثقافتی پہلو مساوی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس کا ہدف دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کو ایک سوپر پاورامریکا کی صرف سیاسی اور عسکری چھتری تلے لانا نہیں بلکہ فکری‘ معاشی‘ مالیاتی اور ثقافتی طور پر بھی ایک ہی نظامِ اقدار (value system) سب پر مسلط کرنے کا منصوبہ ہے۔ اسے جبر واختیار اور ترغیب و ترہیب کے ہر ممکنہ ذرائع کے استعمال سے کامیاب کرانا مقصود ہے۔ اس ہمہ جہتی حکمت پر سرد جنگ کے دور کے ختم ہونے کے بعد سے‘ بڑی چابک دستی سے عمل کیا جا رہا ہے اور ۱۱ستمبر کے بعد کے اقدامات اس وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ اسے سمجھے بغیر روشن خیالی اور میانہ روی کی جو آوازیں آج اٹھ رہی ہیں‘ ان کی حقیقت اور مضمرات کو سمجھنا ممکن نہیں۔ اس ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کا کوئی تعلق ہماری اپنی ضروریات سے نہیں‘ یہ ہمارے اپنے تہذیبی لنگر سے مربوط اور وابستہ نہیں بلکہ یہ عنوان ہے اس تبدیلی کا‘ جو اسلام اور مسلم معاشرے اور تہذیب کو‘ اس کی اپنی اساس سے ہٹاکر‘ مغرب سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کی جا رہی ہے اور آج سے نہیں سامراج کی یلغار کے پہلے دور ہی سے کی جا رہی ہے۔ البتہ استعمار کی تازہ یورش میں اس کو ایک زیادہ مرکزی کردار دیا گیا ہے۔

گذشتہ ربع صدی میں امریکی دانش ور‘ پالیسی ساز اور میڈیا ایک نئی تہذیبی  جنگ میں مصروف ہے اور اس کا ہدف مغرب کے لبرل‘ معاشی اور سیاسی نظام کو پوری دنیا پر مسلط کرنا ہے۔ ہم انھی صفحات میں اس سلسلے میں دسیوں کتب اور تحقیقی اور تجزیاتی رپورٹوں کا ذکر کر سکتے ہیں۔ اس پوری حکمت عملی کو مشہور امریکی رسالہ فارن پالیسی (Foreign Policy) کے ایڈیٹر جوزف نائی (Joseph Nye) نے اپنے ایک مضمون میں کسی تکلف کے بغیر مختصر طور پر بیان کردیا ہے۔ وہ کہتا ہے:

عالمی سیاست میں طاقت کی نوعیت میں تبدیلی آ رہی ہے۔ طاقت کا مطلب یہ ہے کہ آپ جو حاصل کرنا چاہتے ہیں حاصل کریں۔ اور اگر ضروری ہو تو اسے امر واقع بنانے کے لیے دوسروں کے رویوں کو تبدیل کر دیں۔

(Re-Ordering the World: The Long-term implications of 11th Sept. ed. by Mark Leonard. Foreword by Tony Blair, The Foreign Policy Centre, London 2002)

اس کے لیے روایتی طور پر سب سے اہم ذریعہ جنگ رہی ہے اور ایک عظیم طاقت کی قوت کا پیمانہ جنگ کی استعداد ہی ہوا کرتا ہے۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ:

جنگ وہ آخری اور قطعی کھیل ہے جس میں عالمی سیاست کے کارڈ کھیلے جاتے ہیں اور طاقت کا تناسب ثابت کیا جاتا ہے۔

البتہ اب نیوکلیر اسلحے کے ایک کارفرما قوت بن جانے سے حالات کروٹ لے رہے ہیں۔ نیز دنیا کی مختلف اقوام میں قومیت کے تصور کے جاگزیں ہوجانے سے عالمی سیاست کے دروبست میں تبدیلی آگئی ہے۔ اسی طرح عالمی سرمایہ داری کی موجودہ شکل جس میں معاشی فوائد کا حصول‘ دنیا کے ممالک کی منڈیوں پر قبضے کے ذریعے ان سے فائدہ اٹھانے کے اسلوب‘ کثیرالقومی کمپنیوں کا کردار یہ سب جنگ اور محض قوت کے ذریعے دوسروں کو قبضے میں رکھنے کو اگر مشکل نہیں تو مہنگا (too costly)بنائے جا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں فوجی اورمعاشی قوت جسے وہ Hard Power کہتا ہے مؤثرتو ہیں لیکن اب جن عوامل کا کردار بڑھ رہا ہے انھیں جوزف نائی Soft Powerکہتا ہے:

اس صورت میں یہ بات اہمیت رکھتی ہے کہ عالمی سیاست کا ایجنڈا ترتیب دیا جائے اور دوسروں کو فوجی اور اقتصادی ہتھیاروں کی دھمکی یا استعمال کے ذریعے بزور طاقت اس طرف لایا جائے۔ طاقت کا یہ پہلو کہ دوسرے وہ چاہنے لگیں جوآپ چاہتے ہیں‘ نرم طاقت (Soft Power)کہا جاتا ہے۔ نرم طاقت کا انحصار سیاسی ایجنڈے کو اس طرح ترتیب دینے کی قابلیت پر ہوتا ہے جو دوسروں کی ترجیحات کا تعین کرے۔

اس حکمت عملی پر مؤثر عمل کے لیے ابلاغ کی قوت کا استعمال مرکزی اہمیت رکھتا ہے اور اقتصادی قوت کا ہدف افکار‘ اقدار‘ کلچر کی تبدیلی ہے۔ اس نئی جنگ میںاصل مزاحم قوت مقابل تہذیب کا عقیدہ‘ نظریہ‘ اصول اور اقدار بن جاتے ہیں۔ اسلامی دنیا میں عوام کی اسلام سے وابستگی اور اپنی تہذیب اور اقدار کے بارے میں استقامت--- مغرب کے لیے سب سے بڑا دردسر بنی ہوئی ہے۔ جوزف نائی اعتراف کرتا ہے کہ:

یقینی طور پر ایسے علاقے ہیں‘ جیسے شرق اوسط‘ جہاں امریکی کلچر کے حوالے سے گومگو یا  مکمل مخالفت کی کیفیت اس کی ’نرم طاقت‘ کو محدود کر دیتی ہے۔

یہ ہے اصل مخمصہ! اور اس کا حل تجویز ہوا ہے مسلم ممالک میں ’روشن خیالی‘ اور ’اعتدال پسندی‘ کی حکمت عملی کا فروغ کہ اس طرح مسلم دنیا کو اس کی اپنی بنیادوں سے ہلا کر مغرب کے رنگ میں رنگنے کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے مسلمان عورت کا حجاب بھی توپ اور میزائل کی طرح خطرناک تصور کیا جاتا ہے۔ اسلام سے مسلمانوں کی وابستگی اور اپنی ثقافت اور روایت سے محبت مغرب کی نگاہ میں اس کے عزائم کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسلام میں دین و سیاست کا ناقابلِ تقسیم ہونا اصل سدِّراہ ہے۔

جہاد کا جذبہ جو دفاع کا مؤثر ترین ذریعہ ہے‘ ان کی آنکھوں کا کانٹاہے۔ مسئلہ بنیاد پرستی نہیں‘ اسلام کا ایک مکمل نظامِ زندگی ہونے کا تصور ہے۔ یہ مغرب کی نگاہ میں اصل سنگِ راہ ہے۔ ایک جرمن مستشرق خاتون ایندریا لوئیگ (Andrea Lueg) اپنے ایک مضمون The Perception of Islam in Western Debate میں صاف الفاظ میں مغرب کے دانش وروں کے اس یقین کو یوں پیش کرتی ہے:

مغرب اسلام کو ایک ایسے مذہب کے طور پر زیربحث لاتا ہے جو اسلامی ممالک کے بے شمار سیاسی‘ ثقافتی اور سماجی مظاہرکا ذمہ دار ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ اسلام ایک مذہب کی حیثیت سے مغربی ممالک میں خوف پیدا کرتا ہے۔ مذہب کا وہ خوف جو ہمارا خیال ہے کہ ہم نے اپنے روشن خیال معاشروں سے ختم کر دیا ہے۔

The Next Threat: Perception of Islam, ed. by Jochen Heppila and Andrea Lueg, Pluto Press, London 1995, p27)

اس کتاب میں نیویارک ٹائمز میگزین کے ۳۱مئی ۱۹۹۲ء کے شمارے میںجے ملر (J.Miller) کے ایک مضمون The Islamic Wave کا حوالہ قابلِ غور ہے:

مغرب اسلام کی بڑھتی ہوئی سیاسی مقبولیت کو خطرناک‘ یک رخی اور عجیب قرار دیتا ہے۔ جنگجو اسلام کے فروغ نے اس شدید بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ مغرب اس کے بارے میں کیا کچھ کر سکتا ہے یا کرنا چاہیے۔ کچھ امریکی سرکاری افسران اور مبصرین نے پہلے ہی جنگجو اسلام کو مغرب کا اگلا دشمن قرار دے دیا ہے جس کو اسی طرح قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے جس طرح سرد جنگ میں کمیونزم کو کیا گیا تھا۔ (ص ۱۳۱)

اس پس منظر میں امریکی اور یورپی دانش وروں اور پالیسی ساز اداروں کی کوشش ہے کہ اسلامی دنیا کو بنیاد پرست‘ جنگجو اور لبرل‘روشن خیال اور اعتدال پسندوں میں تقسیم کریں۔ جسے وہ بنیاد پرست‘ جہادی‘ اور مزاحم قوت سمجھتے ہیں اسے ختم کیا جائے اور اس کی جگہ اسلام کے ایک لبرل ورژن کو فروغ دیا جائے۔  نیوزویک کے مدیر بھارت نژاد امریکی فرید زکریا اسی حکمت عملی کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

اوّلین طور پر ہمیں عرب اعتدال پسند ریاستوں کی مدد کرنی چاہیے لیکن اس شرط پر کہ وہ فی الواقع اعتدال پسندی کو مکمل طور پر اختیار کریں۔ ہم مسلمان اعتدال پسند گروہ اور اہل علم تیار کر سکتے ہیں اور ان کی تازہ فکر عرب دنیا میں نشر کرسکتے ہیں جن کا مقصد یہ ہو کہ بنیاد پرستوں کی طاقت کو توڑا جائے۔ (Re Ordering The World ‘ ص ۴۷)

یہ ہے وہ پس منظر جس میں جنرل پرویز مشرف صاحب کی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی تازہ حکمت عملی کی اصل معنویت اور مناسبت (relevance) کو سمجھا جا سکتا ہے۔ نیتوں کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے‘ لیکن انسانی جائزوں کا انحصار ظاہری عوامل ہی پر ہوتا ہے۔ جنرل صاحب نے اپنے اقتدار کے اولیں ایام میں اتاترک کی بات کی‘ پھر عوامی دبائو میں تاویلیں کیں‘ جب موقع ملا حدود قوانین اور اہانتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا۔ موقع بے موقع اسلام میں لبرلزم کا ذکر کیا۔ پھر جہاد اور جنگِ آزادی اور دہشت گردی کے فرق کو یکسر نظرانداز کرنا شروع کیا اور اب کھل کر روشن خیال اعتدال پسندی کے نام سے اسلام میں نشات ثانیہ اور دہشت گردی کی تباہ کاریوں پر دل گرفتگی کا اظہار کرتے ہوئے اور تصادم کے مضراثرات سے خائف کرتے ہوئے نہ صرف روشن خیال اعتدال پسندی اور لبرلزم کا درس دے رہے ہیں بلکہ پہلی بار کھل کر کہہ رہے ہیں کہ اسلام کا جدت پسندی اور سیکولرازم سے کوئی تصادم نہیں‘ یہ ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔ سیکولرازم کی اتنی کھلی تائید انھوں نے پہلی بار کی ہے اور اس طرح روشن خیالی کی بلی تھیلی سے باہرآگئی ہے۔ اب ان کے پورے وعظ و تلقین کی شان نزول اور روشنی کا منبع بھی کسی پردے میں نہیں رہا۔ نیز یہ بھی کہ یہ آواز نئی نہیں‘ بلکہ بار بار اٹھائی جاتی رہی ہے۔ لبرلزم کے ایسے ہی وعظ ہم سو سال سے سن رہے ہیں۔ اقبال نے مغرب کے مقاصد کی تکمیل کرنے والے دانش وروں اور حکمرانوں کے فکری اور تہذیبی دیوالیہ پن کا بہت پہلے ماتم کر کے ان سے اُمت کو ہوشیار کیا تھا:

ترا وجود سراپا تجلیِ افرنگ

کہ تو وہاں کے عمارت گروں کی ہے تعمیر

مگر یہ پیکر خاکی خودی سے ہے خالی

فقط نیام ہے تُو زر و نگار و بے شمشیر

اور یہ کہ     ؎

لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید

مشرق میں ہے تقلیدِ فرنگی کا بہانہ

اسلام پر حملہ کبھی باہر سے ہوتا ہے ‘ کبھی اندر سے‘ کبھی کھل کر ہوتا ہے اور کبھی چھپ کر‘ اور کبھی تحریف کے ذریعے ہوتا ہے تو کبھی تعبیر کے نام پر۔ کبھی دشمنی کے انداز میں ہوتا ہے اور کبھی اصلاح کے نام پر۔ چراغ مصطفویؐ اور شرار بولہبی بہرصورت ہر دور میں اور ہر میدان میں برسرِپیکار رہے ہیں اور رہیں گے۔


روشن خیالی اور اعتدال پسندی وہی مطلوب ہے جو اللہ کی بندگی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے وابستہ ہو۔ ایمان‘ تقویٰ‘ عبادت‘ شریعت سے وفاداری‘ اُمت کے حقوق کی ادایگی اور آخرت کی جواب دہی کا احساس وہ فریم ورک فراہم کرتے ہیں جس میں اسلام کی انصاف‘ اعتدال اور توازن پر مبنی مثالی تہذیب کی صورت گری ہوتی ہے۔ یہ ہدایت پر مبنی اور ہویٰ (خواہشِ نفس) سے پاک روشن خیالی اور اعتدال پسندی ہے۔ جو روشن خیالی اور اعتدال پسندی اسلام میں معتبر ہے۔ اس کی بنیاد وہ دعا ہے جو ہر مسلمان نماز کی ہر رکعت میں اپنے رب سے مانگتا ہے یعنی:

اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ o صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ

اے رب! ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا‘ جو معتوب نہیں ہوئے‘ جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں۔

ہدایت کوئی مبہم اور غیرمتعین شے نہیں‘ وہ اللہ کی وحی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے عبارت ہے اور روشنی کا اصل منبع یہی رہنمائی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روشن خیالی کا ماخذ اس سے ہٹ کر کوئی دوسری شے نہیں ہوسکتی۔ اللہ ہی کائنات کا نور ہے (اللّٰہ نور السموات والارض) اور اللہ کی کتاب ہی انسانوں کو تاریکیوں سے نور کی طرف لاتی ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمْ بُرْھَانٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا (النساء ۴:۱۷۴)

لوگو! تمھارے رب کی طرف سے تمھارے پاس دلیل روشن آگئی ہے اور ہم نے تمھاری طرف ایسی روشنی بھیج دی ہے جو تمھیں صاف صاف راستہ دکھانے والی ہے۔

فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَاعْتَصَمُوْا بِہٖ فَسَیُدْخِلُہُمْ فِیْ رَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَفَضْلٍ وَّیَہْدِیْہِمْ اِلَیْہِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا (النساء ۴:۱۷۵)

اب جو لوگ اللہ کی بات مان لیں گے اور اس کی پناہ ڈھونڈیں گے ان کو اللہ اپنی رحمت اور فضل و کرم کے دامن میں لے لے گا اور اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ ان کو دکھا دے گا۔

یَّہْدِیْ بِہِ اللّٰہُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَہ‘ سُبُلَ السَّلٰمِ وَیُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ بِاِذْنِہٖ وَیَہْدِیْہِمْ اِلَی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ (المائدہ ۵:۱۶)

تمھارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی ہے اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اُجالے کی طرف لاتا ہے اور راہِ راست کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے۔

واضح رہے کہ راہ راست ہی اعتدال کی راہ ہے۔ اسی لیے اس اُمت کو اُمت وسط (البقرہ ۲:۱۴۳) اور انصاف اور عدل کو‘ جو توازن‘ حسن‘ ہم آہنگی اور میانہ روی کا جامع ہے‘ اس اُمت کا مشن اور اس کی امتیازی شان قرار دیا (النساء ۴:۱۳۵‘ المائدہ ۵:۸‘ الاعراف ۷:۲۹‘ النحل ۱۶:۹۰) اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی زندگی کے لیے یہ زریں اصول مقرر فرما دیا کہ خیرالامور اوسطھا --- تمام معاملات میں میانہ روی اور اعتدال پسندی ہی بہترین طریقہ ہے۔

حقیقی روشن خیالی اور اعتدال پسندی قرآن و سنت کی مکمل اطاعت اور پاسداری سے عبارت ہے جو ہمارے نظام زندگی میں پہلے سے موجود (built-in) ہے اسے کہیں باہر سے لانے اور دوسروں کی خواہشات اور مطالبات کی روشنی میں کسی انتخاب و اختیار (pick and choose) اور کسی تراش خراش کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ کی نگاہ میں اس کے دین میں کمی بیشی اور دوسروں کی خواہشات کی روشنی میں رد و قبول سے بڑا کوئی جرم نہیں۔ اس پر دنیا میں خسارے اور آخرت میں بدترین عذاب کی وعید ہے۔

اسلام میں روشن خیالی اور اعتدال پسندی کا جو مقام ہے‘ وہ شریعت کے اس کلّی مثالیے (paradigm) کا حصہ ہے‘ اس سے جدا کوئی جز نہیں۔ اس میں تحریف‘ غلو‘ قطع و برید اور جاہلانہ تعبیرات سے تحفظ اور الفاظ و معانی اور قانون اور روحِ قانون کا ناقابلِ انقطاع رشتہ ہے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت کو ہمیشہ صحیح راستے پر قائم رکھنے کے لیے جو نسخۂ کیمیا تجویز فرمایا ہے‘ وہی روشن خیالی اور اعتدال پسندی کے حدود اربعہ کو طے کر لیتا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے:

عَنْ اِبْرَاھِیْمَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ الْعُذْرِیِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَحْمِلُ ھَذَا الْعِلْمَ مِنْ کُلِّ خَلَفٍ عُدُوْ لُہٗ یَنْفُوْنَ عَنْہٗ تَحْرِیْفَ الْغَالِیْنَ وَاِنْتِحَالَ الْمُبْطِلِیْنَ وَتَاْوِیْلَ الْجَاھِلِیْنَ (مشکوٰۃ)

اس علم کے حامل ہر نسل میں وہ لوگ ہوں گے جو دیانت و تقویٰ سے متصف ہوں گے وہ اس دین کی غلوپسندوں کی تحریف‘ اہلِ باطل کی غلط نسبت و انتساب اور جاہلوں کی تاویلات سے حفاظت فرمائیں۔

یہ ہے اسلام کی کھلی شاہراہ۔ لیکن جس لبرلزم‘ ماڈرنزم‘ روشن خیالی اور اعتدال پسندی کی بات امریکی دانش ور اور پالیسی ساز کر رہے ہیں اور جس کی بازگشت خود ہمارے کچھ حکمرانوں اور دانش وروں کی تحریروں اور تقریروں میں سنی جاسکتی ہے اُس میں اور اس میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔


چراغ مصطفویؐ سے جو روشن خیالی اور اعتدال پسندی رونما ہوتی ہے‘ وہ شریعت اسلامی کے بے کم و کاست اتباع سے عبارت ہے۔ اس کے مقابلے میں ’شراربولہبی‘ کا جو تقاضا اور مطالبہ ہے وہ یہ ہے کہ وقت کی جابر اور بالادست قوتوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ان کے دین‘ اقدار اور تصورِ زندگی کو قبول کیا جائے‘ ان کے تصور ترقی کو اختیار کیا جائے‘ ان کے رنگ میں اپنے کو رنگ لیا جائے اور ان کے دیے ہوئے معیار کے مطابق اور ان کے پسندیدہ پیمانوں میں   اللہ کے دین کو ڈھال دیا جائے۔ گویا جس طرح اکبر بادشاہ نے اپنے دور کے باغیوں کو خوش کرنے کے لیے ایک ’’دین الٰہی‘‘ بنانے کی جسارت کی تھی‘ اسی طرح آج امریکہ اور مغرب کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے ایک نیا ’اسلام‘ وضع کیا جائے جو اُمت کے مرکز سے ہٹ کر ملک اور مقامی مفادات کو مرکز بنائے اور جس کا اصل ہدف شریعت کو عملاً معطل کرکے دین و دنیا کی تفریق اور ماڈرنائزیشن کے نام پر مغربیت کے لیے راہ ہموار کرے۔ اس طرح اسلام کا نام باقی رکھ کر ایک سیکولر نظامِ زندگی پروان چڑھایا جائے تاکہ اسے امریکہ اور مغرب کے حکمران اور دانش ور ’روشن خیال اور اعتدال پسند‘ تسلیم کریں‘ جس کو وہ فنڈامنٹلزم اور انتہاپسندی قرار نہ دیں بلکہ اس ’اسلام‘ میں وہ اپنی تہذیبی اقدار اور عادات و اطوار کی جھلک دیکھ سکیں اور اس پر ’ترقی پسندی‘ کی مہر لگا سکیں۔

’چراغ مصطفویؐ ،اور ’شرار بولہبی‘ کی دائمی ستیزہ کاری اور اللہ اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلام اور اکبری دین الٰہی کی پیکار کی یاد دہانی کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ ۱۱ستمبر کے بعد مسلم دنیا اور خصوصیت سے پاکستان پر امریکی اثرات بلکہ تسلط کا جو آغاز عسکری تعاون اور سیاسی تابع داری سے ہوا تھا‘ وہ اب نظریاتی‘ تعلیمی اور ثقافتی غلامی کے دائروں تک وسیع ہوتا جارہا ہے۔ اب اس کے لیے ایک تصوراتی خاکہ (conceptual framework) بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جس کی خصوصی سعادت ہمارے جنرل پرویز مشرف کو حاصل ہو رہی ہے۔ پہلے انھوں نے اپنی تقریروں میں اور اپنے مختلف سیاسی حلیفوں سے ملاقاتوں میں ایک نئے وژن اور ایک تصوراتی ہیولا کی طرف اشارے کیے‘ پھر او آئی سی کے کولالمپور میں منعقد ہونے والے سربراہی اجلاس میں اس ادارے کی تشکیلِ نو کے عنوان سے اُمت مسلمہ کے لیے ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی ایک حکمت عملی پیش کرنے کی سعی بلیغ فرمائی اور اب ۲ جون ۲۰۰۴ء کو امریکی روزنامے واشنگٹن پوسٹ کے ایک مضمون کی شکل میں اپنے اس نئے فلسفے کو‘ غالباً اپنی پہلی تحریر کے طور پر پیش کیا ہے جسے پاکستان کے تمام اخبارات نے بھی نمایاں طور پر شائع کیا ہے۔ او آئی سی کے وزراے خارجہ کے اجلاس منعقدہ استنبول میں ان کی پیش کردہ حکمت عملی (روشن خیال اعتدال پسندی- Enlightened Moderation)کو خود او آئی سی کے ہدف کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس تصوراتی خاکے اور حکمت عملی کا معروضی جائزہ لیا جائے اور اس کے حسن و قبح کو علمی تجزیے کے ذریعے واضح کیا جائے تاکہ اُمت کے رہے سہے گلشن کو شرار بولہبی کی آتش زنی سے محفوظ کیا جا سکے۔

جنرل صاحب نے ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کا جو نظریہ پیش فرمایا ہے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ:

دنیا ۹۰ء کے عشرے کے آغاز سے لے کر اب تک‘ ایک انتہائی ابتری اور افراتفری کے دور سے گزر رہی ہے اور اس تشویش ناک صورت حال میں بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ انتہاپسندوں‘ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کے ہاتھوں معصوم افراد جس المناک صورت حال سے دوچار ہیں اور خاص طور پر میرے ہم مذہب مسلمان بھائی جس عذاب سے گزر رہے ہیں اس نے مجھے اس بات پر مائل کیا ہے کہ میں اس ابتری اور انتشار سے بھری دنیا کو بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کروں۔

ان کی نگاہِ حقیقت شناس نے یہ بھی تاڑ لیا ہے کہ:

دہشت گردی اور انتہا پسندی کے جرائم میں ملوث افراد بھی مسلمان ہیں اور ان کا نشانہ بننے والے بدنصیب بھی اسلام ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔

اور ان کی نگاہ میں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ’’غیر مسلموں میں‘ غلط فہمی کی بنیاد ہی پر سہی مگر ایک عمومی تاثر یہ قائم ہو رہا ہے کہ اسلام عدم رواداری‘ انتہاپسندی اور دہشت گردی کا مذہب ہے‘‘۔

جنرل صاحب ان بے بنیاد تہمتوں سے اتنے خائف اور مرعوب ہیں کہ پہلے ہی شکست تسلیم کرلیتے ہیں یعنی ’’ہم اپنی دلیلوں کے ذریعے ذہنوں میں بیٹھے ہوئے اپنے خلاف تاثرات کو ختم کرنے کی جنگ جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے‘‘۔ اور یہ سب کچھ اس لیے کہ ’’مسلمان آج دنیا میں بہت غریب‘ سب سے زیادہ غیرتعلیم یافتہ‘ سب سے زیادہ بے بس اور سب سے زیادہ عدم اتحاد و استحکام کے شکار گروہ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں‘‘۔

اس تجزیے کے بعد جنرل صاحب مسئلے کا حل یہ بتاتے ہیں کہ مسلمان اور غیرمسلم دنیا دونوں ان کی ’روشن خیال اعتدال پسندی‘ کی حکمت عملی کو قبول کرلیں تو سب ٹھیک ہو سکتا ہے۔

جنرل صاحب نے تلقین تو مغربی اقوام کو بھی یہی کی ہے اور بہ کمالِ شفقت مغربی دنیا اور بالخصوص امریکا کو مخاطب کرکے کہا ہے کہ ’’مسلم دنیا کو درپیش تمام سیاسی تنازعات کو عدل و انصاف کے ساتھ مل کرحل کرنا ہوگا اور محروم اور پسماندہ مسلم دنیا کی سماجی اور معاشی ترقی کے لیے معاونت کرنا ہوگی‘‘۔ لیکن ان کا سارا زور اسلام کی ’اصلاح‘ اور مسلمانوں کے رویوں اور عمل کو تبدیل کرنے پر ہے۔ جنرل صاحب نے اسلام اور مسلمانوں کے لیے جو وژن پیش فرمایا ہے ‘ اس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ:

ہمیں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا ہوگا اور ہمیں کشادہ نظری کے ساتھ ایک ایسے رویے کو فروغ دینا ہوگا جو اس غلط تصور کو باطل قرار دے سکے کہ اسلام ایک جارحیت پسند دین ہے اور اسلام جدت پسندی‘ جمہوریت اور سیکولرازم سے متصادم ہے۔

اور اس سب کے باوجود جنرل صاحب متنبہ فرما رہے ہیں کہ:

یہ سب کرتے ہوئے یہ بات بھی ہمیں پیشِ نظر رکھنا ہوگی کہ جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں‘ ضروری نہیں ہے کہ ہر وقت ہمارے ساتھ پوری طرح وہی سلوک روا رکھا جائے جو حق و انصاف کے اصولوں کے عین مطابق ہو۔

جنرل پرویز مشرف صاحب نے اسلامی دنیا کی جہادی تحریکوں کو‘ ایک ایسے ڈھکے چھپے انداز میں جو ان کی سوچ اور دل کی کیفیت کی غمازی کرتا ہے‘ افغانستان میں روس کے استعماری حملے کے خلاف تحریکِ مزاحمت کا نتیجہ قرار دیا ہے اور ۱۹۹۰ء کے بعد رونما ہونے والی نام نہاد دہشت گردی کو اس سلسلے کی ایک کڑی قرار دیا ہے۔ وہ جہاد اور آزادی کی تحریکات اور دہشت گردی کے فرق کو سمجھنے اور بیان کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتے اور امریکی دانش وروں اور پروپیگنڈے کے ماہرین کی تیار کردہ نئی تثلیث یعنی ’بنیاد پرستی، انتہاپسندی اور دہشت گردی‘ کو سارے مسائل کی جڑ قرار دے کر ’روشن خیال‘میانہ روی اور اعتدال پسندی‘ کے داعی بن کر اسلامی دنیا میں نشاتِ ثانیہ کی ضرورت کی نشان دہی کر رہے ہیں۔ مضمون میں ایک پیراگراف اسلام کے اولین دور اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماڈل کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ہے مگر اس کے بعد نہ مسلمانوں کے عروج اور عالمی قوت بننے کے اسباب پر کوئی روشنی ڈالی ہے اور نہ موجودہ حالت زار کا کوئی علمی تجزیہ کیا ہے۔ بس تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ معاشی ترقی اور سائنس اور ٹکنالوجی کے میدان میں ہم پیچھے رہ گئے ہیں‘ مقابلے کی سکت ہم میں نہیں ہے۔ خرابی کی جڑ بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی ہے اور ہمارے لیے نجات کی کوئی راہ اس کے سوا نہیں کہ مغرب سے ہم آہنگی اختیار کریں اور ’’کشادہ نظری کے ساتھ ایک ایسے رویے کو فروغ دیں جو اس غلط تصور کو باطل کر دے کہ اسلام ایک جارحیت پسند دین ہے اور اسلام جدت پسندی‘ جمہوریت اور سیکولرازم سے متصادم نہیں۔

ان کا تین نکاتی پروگرام یہ ہے کہ :

۱-  جسے مغرب بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کہتا ہے اسے ترک کر دو اور روشن خیال اعتدال پسندی اختیار کرو۔

۲- ساری توجہ معاشی ترقی‘ تعلیم‘ غربت کے خاتمے‘ صحت اور عدل و انصاف کے حصول پر مرکوز کر دو اور اس کے لیے جدت پسندی‘ جمہوریت اور سیکولرازم کا راستہ اختیار کرو۔

۳-  اسلامی کانفرنس کی تنظیم کو مؤثر اور فعال بنائو اور اس میں نئی روح پھونکو تاکہ مسلم دنیا اکیسویں صدی کے چیلنجوں کا مقابلہ کر سکے۔


جنرل پرویز مشرف کے اس مضمون میں دو باتیں ایسی ہیں جن کو ہم مثبت سمجھتے ہیں۔ ایک‘ خواہ کتنے ہی ادب سے انھوں نے کہا ہو لیکن ان کا یہ ارشاد کہ ’’مغربی دنیا کو اور بالخصوص امریکا کو مسلم دنیا کو درپیش تمام سیاسی تنازعات کو عدل و انصاف کے ساتھ حل کرنا ہوگا اور محروم اور پس ماندہ دنیا کی سماجی اور معاشی ترقی میں معاونت کرنا ہوگی‘‘ اور دوسری یہ کہ مسلم دنیا کو اپنے گھر کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے اور اس کے لیے ’’اپنی ساری توانائیاں غربت کو دُور کرنے‘ تعلیم اور صحت اور عدل و انصاف کے مثالی نظام کے ذریعے اپنے افرادی وسائل کو فروغ دینے کے لیے‘‘ صرف کرنی چاہییں۔ ان دونوں باتوں سے کسی کو اختلاف نہیں لیکن جس پس منظر میں انھوں نے روشن خیال اعتدال پسندی کی اپنی حکمت عملی کو پیش کیا ہے اور جن دلائل اور شواہد کے بل بوتے پر کیا ہے‘ وہ بڑا خام اور حالات کی بڑی غلط عکاسی کرنے والا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اُمت مسلمہ کا مقدمہ پیش کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے ہیں اور عملاً ان کی اس تحریر سے اسلام اور مسلمانوں پر مغرب کے تمام غلط اور ناروا اعتراضات کی بالواسطہ یا بلاواسطہ تائید ہوتی ہے۔ ہم خود ان کے اور تمام سوچنے سمجھنے والے اہل فکرودانش کے غور کے لیے چند گزارشات پیش کرتے ہیں:

۱-  دہشت گردی نہ ۱۹۹۰ء کے عشرے سے شروع ہوئی ہے اورنہ اس کا تعلق محض مسلمانوں سے ہے جیسا کہ زیربحث مضمون سے ظاہر ہوتا ہے۔ اول تو دہشت گردی کی تعریف ضروری ہے کیوں کہ قوت کے استعمال کی ہر کوشش کو دہشت گردی نہیں کہا جا سکتا۔ پھر دہشت گردی صرف افراد یا گروہوں کی طرف سے ہی نہیں ہوتی حکومتوں کی طرف سے بھی ہوتی ہے۔ آج دہشت گردی کا زیادہ ارتکاب حکومتوں ہی کی طرف سے ہو رہا ہے بلکہ عوامی سطح پر رونما ہونے والی دہشت گردی بالعموم نتیجہ ہوتی ہے تبدیلی کے سیاسی اور پُرامن مواقع کے مسدود کیے جانے اور ریاستی تشدد اور قومی اور بالاتر قوتوں کے طاقت کے بے محابا اور بے جواز استعمال سے۔ دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر جو دہشت گردی حکومتیں اور ریاستی ایجنسیاں انجام دیتی ہیں‘ وہ اس کی بدترین شکل ہے جسے آج دہشت گردی کہا جا رہا ہے۔ وہ دراصل ریاستی ظلم اور استبداد اور بالاتر قوتوں کا اپنے کو قانون‘ انصاف اور جمہوری روایات سے آزاد قرار دے لینے اور طاقت ور عناصر کی کمزوریوں پر دست درازیوں کی پیداوار ہے۔ یہ سیاسی مسائل کو سیاسی طریق کار سے حل نہ کرنے اور محض قوت سے حل کرنے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔

جنرل صاحب کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ جسے وہ اور امریکا دہشت گردی کہہ رہے ہیں وہ ۱۹۹۰ء میں افغانستان میں جہادی جدوجہد‘ روس کی پسپائی اور بعد میں امریکا کے تغافل سے پیدا ہوئی حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ نہ جہادی سرگرمیوں کا آغاز افغانستان میں روس کی فوج کشی سے ہوا اور نہ دنیا میں دہشت گردی کا آغازمسلم دنیا سے ہوا۔ بنیادی طور پر دہشت گردی یورپ کی استعماری اور فسطائی حکومتوں کے خلاف عوامی ردعمل کی ایک شکل کو قرار دیا گیا ہے جس میں غیر ریاستی عناصر مسلح سیاسی مقاصد کے لیے جدوجہد پر مجبور ہوئے ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں اورخصوصیت سے مغربی دنیا میں گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بیرونی استعماری قوتوں کی مزاحمت کی مختلف تحریکوں نے اس راستے کو اختیار کیا ہے۔

یہ دورِ جدید کی تاریخ کا ایک خاص پہلو ہے جس کا کسی مذہب یا علاقے سے تعلق نہیں۔ سیکڑوں کتابیں اور ہزاروں مقالات اس کے مختلف پہلوئوں پرلکھے گئے ہیں۔ ہم صرف ایک کتاب کا حوالہ دیتے ہیں جسے مارتھا کرنسٹارڈ (Martha Crenstard )نے مرتب کیا ہے اور Terrorism in Context کے نام سے امریکا کی پینسلوانیا اسٹیٹ یونی ورسٹی پریس نے شائع کیا ہے۔ یہ کتاب ۱۱ستمبر کے واقعہ سے ۶ سال پہلے شائع ہوئی ہے اور اس میں مغرب اور مشرق کی درجنوں دہشت گرد تحریکوں کی پوری تاریخ بیان کی گئی ہے۔ نیز مغرب کے سیاسی مفکرین نے‘ خاص طور پر یورپ‘ لاطینی امریکا اور افریقہ کے دانش وروں نے ظالم حکمرانوں اور سامراجی حکومتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کا کیا کیا جواز پیش کیا ہے اور اس بحث کو یورپ اور امریکا کے تاریخی تناظر میں انقلابی دہشت گردی (Revolutionary Terrorism) اور انارکسٹ دہشت گردی کے زمروں (Categories) میں بیان کیا ہے۔ شاید ہی دنیا کا کوئی حصہ ہو جہاں گذشتہ ڈیڑھ سو سال میں ایک نہیں‘ کئی کئی تحریکیں ایسی نہ اٹھی ہوں جنھیں آج کی اصطلاح میں دہشت گرد تحریک کہا جاتا ہے۔ ان کے کیا اسباب تھے‘ ذمہ داری کن عناصر پر تھی‘کن تحریکوں کے مثبت نتائج نکلے اور ان کے برپا کرنے والے قومی ہیرو ہی نہیں تاریخی کردار شمار کیے گئے۔ اگر جنرل صاحب اس پورے پس منظر سے واقف نہیں تو انھیں ایسے موضوع پر قلم نہیں اٹھانا چاہیے تھا۔

۲-  جہادی تحریک کو بھی افغانستان سے وابستہ کردینا حقائق سے ناواقفیت ہے یا مسئلے کو الجھانے کی کوشش۔ جہاد اسی ماڈل کا ایک حصہ ہے جسے جنرل صاحب نے ضمنی طور پر اسلام کے ابتدائی دور کے نام سے پیش کیا ہے۔ دورِ جدید میں مغرب کی تمام استعماری قوتوں کا مقابلہ ہر مسلمان ملک میں جہاد ہی کے ذریعے سے کیا گیا اور اسی وجہ سے مغربی اقوام کا خصوصی ہدف جہاد کا تصور رہا جسے ’منسوخ‘ کرانے کے لیے ان کو جھوٹی نبوت تک کا کھیل کھیلنا پڑا۔ الجزائر کی جہادی تحریک جدید تاریخ کا ایک تابناک باب ہے۔ فلسطین میں صہیونی قوت کے خلاف جہاد کا آغاز جدیدانتفاضہ سے نہیں ۱۹۴۸ء کی جدوجہد سے ہوتا ہے جو آج تک جاری ہے۔ کشمیر میں بھی جہاد کا آغاز افغانستان سے روس کی پسپائی سے شروع نہیں ہوتا بلکہ ۱۹۴۷ء میں ڈوگرہ راج اور اس کے مظالم کے خلاف منظم انداز میں ہوا اور آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات کسی سیاسی خیرات یا اتفاقی حادثہ کی بنا پر بھارت سے آزاد نہیں ہوئے‘ یہ منظم جہادی جدوجہد سے آزاد کرائے گئے۔

جنرل صاحب نے جو تاریخی پس منظر بیان کیا ہے‘ وہ حقائق پر مبنی نہیں۔ اس سے بڑا ظلم یہ ہے کہ انھوں نے دہشت گردی کا سارا ملبہ مسلمانوں پر گرا دیا ہے۔ نہ اس کے عالمی پس منظر کاذکر کیا ہے‘ نہ ان حقیقی تاریخی‘ سیاسی اور تہذیبی اسباب و عوامل کا تجزیہ کیا ہے اور نہ مغربی اقوام کے اس کردار کی طرف کوئی اشارہ کیا ہے جو اس صورت حال کو پیدا کرنے کا ذریعہ بنے ہیں۔ کاش انھوں نے جرمن محققہ ایندریا لوئیگ ہی کا مطالعہ کر لیا ہوتا جو The Next Threat کے آخری باب میں اپنے نتائج تحقیق بیان کرتے ہوئے اعتراف کرتی ہے کہ:

ان بہت سی خوفناک چیزوں کا اسلام سے بہت کم تعلق ہے‘ بلکہ ان کی بنیادیں کچھ دوسری ہیں۔ اور ان دل دہلا دینے والے (shocking) کاموں میں سے کئی جدید مغربی معاشروں میں بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ‘ انتہا پسندی کی لادینی جڑیں بھی ہوسکتی ہیں‘ چاہے اس کے علم بردار اس کا انکار کریں۔ اس سے پہلے کہ  ہم دوسروں کی انتہاپسندی کے بارے میں غضب میں آجائیں‘ ہمیں اپنے کلچر کی انتہاپسندی کا انکار نہیں کرنا چاہیے۔ جب جرمن نوجوان تارکینِ وطن کے ہوسٹل جلا ڈالنا چاہتے ہیں تو ان کا تعلق بھی انتہاپسندی اور غیرمعقولیت سے ہوتا ہے‘ صرف شراب نوشی اور فہم و فراست کے فقدان سے نہیں۔ لیکن شاید ہم میں سے کوئی ان جرائم کی بنیاد مذہب میں بتانے کا نہ سوچے یا یہ کہے کہ ان کا سرچشمہ مغرب کی عیسائی روایات ہیں۔ پس شرق اوسط کے لوگوں کی انتہاپسندی یا غیرمعقولیت کا تعلق ہمیشہ مذہب سے نہیں ہوتا۔ (ص ۱۵۷)

کاش ہمارے اہلِ قلم حقائق کی گہرائی تک جانے کی کوشش کریں اور ان گمبھیرمسائل کی گہرائی میں جاکر سیاسی‘ عمرانی اور نفسیاتی عوامل کی روشنی میں تجزیہ کریں۔ جنرل صاحب کا مضمون اس پہلو سے یک طرفہ‘ سطحی اور ملامتیہ انداز کا حامل ہے۔     ؎

ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ

ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے

۳-  جنرل پرویز مشرف نے مسلمانوں کو بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا ذمہ دار قرار دیا ہے اور ان کے درمیان ایک عارضی تعلق (causal relationship)بھی دریافت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بنیاد پرستی ایک مبہم اور خالص امریکی تصور ہے جس کا اسلام سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ انیسویں صدی کے آخر میں اور بیسویں صدی کے آغاز کی ایک عیسائی تبلیغی تحریک کی پیداوار تھا جسے گذشتہ چند برسوں سے مسلمانوں پر تھوپا جا رہا ہے۔ جنرل صاحب نے بے سوچے سمجھے اسے مسلمانوں سے وابستہ کردیا۔

انتہاپسندی ایک انسانی کمزوری ہے جو اہلِ مغرب میں بھی ہو سکتی ہے ‘ سیاست دانوں میں بھی‘ فوجیوں میں بھی اور کسی بھی گروہ یافرد میں۔ اس کا رشتہ نام نہاد بنیاد پرستی اور دہشت گردی سے جوڑنے کا کوئی منطقی جواز نہیں۔ دہشت گردی کے اپنے اسباب ہیں اور انتہاپسندی ایک بالکل دوسری شے ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر دہشت گردی انتہا پسندی کا نتیجہ ہو اور ہر انتہا پسندی دہشت گردی پر منتج ہو۔ جنرل صاحب کی یہ ساری بحث محض مغالطوں پر مبنی ہے اور پاکستان اور اسلام دونوں کی بڑی غلط نمایندگی کا ذریعہ بنی ہے۔ تعجب ہے کہ انھوں نے ایک لمحے کے لیے یہ بھی نہیں سوچا کہ اسلام اور مسلمانوں پر بنیاد پرستی اور انتہا پسندی کا لیبل لگانے میں مغرب اور امریکا کے دانش وروں اور خصوصیت سے‘ صہیونی اہلِ قلم کا کیا کردار اور ان کے کیا مفادات وابستہ ہیں۔ کس طرح اسرائیل کے مظالم سے توجہ ہٹانے کے لیے وہ اسلام‘ عربوں اور مسلمانوں کی ایک خاص انداز میں منظرکشی کر رہے ہیں اور اس میں سیاسی مبصروں‘ دانش وروں اور صحافیوں کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا بلکہ ہالی وڈ کی فلموں نے کیا کردار ادا کیا ہے۔ اگر ان تمام حقائق پر کسی کی نگاہ نہیں تو کیا ضروری ہے کہ جن موضوعات پر آپ کی گرفت نہیں ان پر آپ گوہر افشانی کریں۔ اسلام کے بارے میں مغرب کے خود ساختہ تصورات اور فضا کو خراب کرنے میں ان کے کردار کے بارے میں جوشین ہپلر اور ایندریا لوئیگ کا یہ جملہ قابلِ غور ہے کہ:

یہ کتاب اسلام کا نہیں ‘بلکہ اسلام کے بارے میں مغرب کے دشمنانہ رویے کا جائزہ لے گی] یا مزعومہ ’اسلامی خطرے‘ کا[۔ ہمارا ایک نظریہ ہے کہ اس وقت اسلامی خطرے کے بارے میں عوامی لٹریچر کا جو فیشن ہے‘ مفروضہ خطرے یعنی اسلام سے اس کا بہت کم سروکار ہے۔ اس کا زیادہ تعلق مغرب کے اندازِ فکر سے ہے جس کا ایک جزو سرد جنگ کے اختتام کی وجہ سے ہماری شناخت میں پایا جانے والا خلا ہے۔ یہ پہلو ہمارے اندر دل چسپی پیدا کرتا ہے۔ (ص -۱)

ان مصنفین نے یہ بھی کہا ہے کہ خود بنیاد پرستی کی ساری بحث پر بھی ازسرنو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی نگاہ میں:

ہمارا استدلال یہ ہے کہ اگرچہ بنیاد پرستی خراب ہے لیکن اس کے ناقد لامحالہ اچھے نہیں ہیں اور ضرور کچھ کے درپردہ محرکات ہو سکتے ہیں۔(ص -۳)

یورپ کے کچھ دانش ور اتنا غور کرنے کو تیار ہیں لیکن ہمارے اپنے ذمہ دار حضرات آنکھیں بند کر کے وہی بات کہنے اور لکھنے میں عار محسوس نہیں کرتے جس کا اظہار مغرب کے متعصب حکمران اور دانش ور کر رہے ہیں! اور جن کے اخلاقی اور ذہنی افلاس کا یہ حال ہے کہ جب ان سے کسی دعوے کے لیے دلیل طلب کی جاتی ہے اور شواہد کی عدم موجودگی پر احتساب ہوتا ہے تو ان کے پاس اس کے سوا کہنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا کہ بس میں یہ کہہ رہا ہوں۔

امریکا کے کمیشن ۱۱/۹نے اپنی عبوری رپورٹ میں یہ فیصلہ دیا کہ:

ہمارے پاس کوئی قابلِ اعتماد شہادت نہیں ہے کہ عراق اور القاعدہ نے امریکا پر حملوں میں تعاون کیا۔

تو اس کے جواب میں امریکی صدر جارج بش صاحب نے جو جواب دیا وہ گنیزبک میں درج کیے جانے کے لائق ہے :

The reason I keep insisting that there was a relationship between Iraq and Saddam and Al-Qaeeda is because there was a relationship between Iraq and Al-Qaeeda.

اس کی وجہ کہ میں برابر اصرار کرتا رہاہوں کہ عراق‘ صدام اور القاعدہ میں تعلق تھا یہ ہے کہ عراق اور القاعدہ میں تعلق تھا۔ (ٹائم ۲۸ جون ۲۰۰۴ئ)

دہشت گردی اور مسلمانوں کے سلسلے میں ہمارے جنرل صاحب اور جارج بش کے  اسلوبِ استدالال میں بھی کوئی زیادہ فرق نہیں!

۴-  جنرل پرویز مشرف کے مضمون میں دہشت گردی کے سارے منظر اور پیش منظر میں نہ ریاستی دہشت گردی کا کوئی ذکر ہے اور نہ دہشت گردی کے ارتکاب‘ فروغ اور دوام بخشنے میں امریکہ کے کردار پر کوئی گرفت بلکہ اس کا کوئی تذکرہ میں نہیں۔ امریکی قیادت کی بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی کا کوئی تذکرہ ان کی تحریر ہی نہیں۔ افغانستان اور عراق میں امریکہ جس دہشت گردی کا ارتکاب کر رہا ہے‘ اس پر ان کے ضمیر کی کسی خلش کا کوئی سایہ ان کی تحریر پر نہیں پڑا حالانکہ یہ ایک اہم موقع تھا کہ وہ امریکی قوم سے خطاب کر رہے تھے اور کچھ ان کو بھی آئینہ دکھانے کی خدمت انجام دیتے۔

امریکی دانش وروں اور عوام کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد امریکا کی اپنی دہشت گردی پر نالہ کناں ہے۔ چومسکی جیسے مفکر تو پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ امریکا آج ایک غنڈہ ریاست (rogue state)بن چکا ہے۔ سابق امریکی اٹارنی جنرل ریمزے کلارک نے امریکا کے وحشیانہ مظالم پر کئی کتابیں لکھی ہیں اور عراق کی ۱۹۹۱ء کی جنگ سے پہلے‘ جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد کے جنگی جرائم پر ایک بین الاقوامی ٹربیونل کی رپورٹ بھی موجود ہے جو ریمزے کلارک نے جنگی جرائم (War Crimes)کے نام سے قانونی مطالعوں اور ضروری شہادتوں کے ساتھ شائع کی ہے۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کو فروغ دینے میں امریکہ کیا کردار ادا کر رہا ہے‘ اس پر درجنوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں اور ناقابلِ تردید شواہد موجود ہیں۔ لیکن جنرل پرویز مشرف صاحب کی تحریر‘ امریکہ کے اس کردار کی طرف کوئی اشارہ تک نہیں کرتی۔ اس موقع پر شالمرز جانسن کی تحقیقی کتاب Blowback: The Costs and Consequences of American Empire سے دو اقتباس اصل حقیقت کے ادراک کے لیے مفید ہوں گے۔

ایک آدمی کی نظروں میں جو دہشت گرد ہے‘ بلاشبہہ وہی دوسرے کی نظروں میں آزادی کے لیے لڑنے والا ہے۔ جس چیز کو امریکی اہلکار اپنے معصوم شہریوں پر بلااشتعال دہشت گردحملے کہہ کر مذمت کرتے ہیں ‘ وہ اکثر سابقہ امریکی استعماری کارروائیوں کا ردعمل ہوتا ہے۔ دہشت گرد بے گناہ شہریوں اور غیرمحفوظ امریکی اہداف پر حملہ کرتے ہیں ‘ صرف اس وجہ سے کہ امریکی سپاہی اور ملاح اپنے بحری جہازوں سے کروز میزائل فائر کرتے ہیں اور آسمان کی بلندیوں پر بی-۵۲ طیاروں میں بیٹھ کر بم باری کرتے ہیں اور واشنگٹن سے جابر و استبدادی حکومتوں کی حمایت کی جاتی ہے۔ ڈیفنس سروس بورڈ کے اراکین نے اپنی ۱۹۹۷ء کی رپورٹ میں جو ڈیفنس کے انڈر سیکرٹری کو دی گئی‘ لکھا تھا: تاریخی حقائق عالمی حالات میں امریکا کی شرکت اور امریکا کے خلاف دہشت گرد حملوں میں اضافے کے درمیان واضح تعلق ظاہر کرتے ہیں۔ مزیدبرآں فوجی طاقت میں فرق کی وجہ سے قومی ریاستیں امریکا پر کھلم کھلا حملہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتیں اور یوں وہ سمندر پار عامل استعمال نہیں کر سکتیں۔ (ص-۹)

دہشت گردی کی تعریف یہ ہے کہ جس طاقت پر حملہ نہیں کیا جا سکتا اس کے جرائم پر توجہ دلانے کے لیے بے گناہوں کو نشانہ بنایا جائے۔ ۲۱ویں صدی کے بے گناہ‘ حالیہ عشروں کی استعماری مہمات کے مابعد اثرات کی تباہیوں کی غیرمتوقع فصل کاٹیں گے۔ اگرچہ بیشتر امریکی اس امر سے ناواقف ہیں کہ ان کے نام پر کیا کچھ کیا جاچکا ہے اور کیا جا رہا ہے‘ سب ہی انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی قوم کی عالمی منظر پر غلبہ پانے کی مسلسل کوششوں کی گراں قیمت ادا کریں گے۔ (ص ۳۳)

خدا کرے مسلمان قیادتوں کو کبھی یہ توفیق حاصل ہو کہ وہ بھی امریکا کی قیادت کو بتا سکیں کہ دنیا میں جو دہشت گردی ہو رہی ہے وہ اس کی کن پالیسیوں اور اقدامات کا ردعمل ہے اور آخری ذمہ داری کس پر ہے   ع

اٹھا زمانہ میں جو بھی فتنہ اٹھا تیری رہ گزر سے پہلے!

۵- جنرل پرویز مشرف نے اسلام کے تاریخی کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آج کی زبوں حالی کا ذکر کیا ہے اور اس سے نکلنے کے لیے روشن خیال اعتدال پسندی کا درس دیا ہے اور ساتھ ہی معاشی اور تعلیمی ترقی کی بات کی ہے۔ بلاشبہہ معاشی اور تعلیمی ترقی اُمت کی بڑی ضرورت ہے لیکن ہمارا عروج اور ہمارا زوال محض مادی اسباب کی وجہ سے نہ تھا۔ اسلام کی اصل قوت اس کی دعوت‘ اس کے پیغام‘ اس کے اصول اور اس عملی نمونے میں تھی جو اسلاف نے پیش کیا۔ وہ اخلاقی قوت ان کا اصل سرمایہ تھی۔ دین و دنیا کی وحدت‘ انسانی مساوات‘ قانون کی بالادستی‘ حکمرانوں کی جواب دہی‘ شریعت کی پابندی‘ انصاف کی فراوانی‘ معاشرتی اور معاشی مساوات--- علم اور وسائل کے ساتھ عقیدہ‘ اخلاق‘ سیرت و کردار‘ اداروں کا استحکام اور احتساب کا موثر نظام ہماری قوت کا راز تھا۔ جب ان اصولوں اور اقدار کو فراموش کیا جانے لگا‘ جب عیش و عشرت اور سہولت کی زندگی اختیار کر لی گئی‘ جب جہاد اور اجتہاد کو ترک کر دیا گیا تو ہم دوسروں کے لیے تر نوالہ بن گئے‘ کمزور سے کمزور تر ہوتے گئے‘ غلامی اور محکومی کا نشانہ بنے اور آج بھی آزادی کے حصول کے باوجود دوسروں پر محتاجی اور ان کی سیاسی اور معاشی بالادستی کے تحت جینے کی مہلتیں مانگنے میں مصروف ہیں۔ اقبال نے مرض کی صحیح تشخیص کی تھی کہ:

اگرچہ زر بھی جہاں میں ہے قاضی الحاجات

جو فقر سے ہے میسر‘ تونگری سے نہیں

اگر جواں ہوں مری قوم کے جسور و غیور

قلندری مری کچھ کم سکندری سے نہیں

سبب کچھ اور ہے‘ تو جس کو خود سمجھتا ہے

زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں

اگر جہاں میں مرا جوہر آشکار ہوا

قلندری سے ہوا ہے‘ تونگری سے نہیں

لیکن ہمارا کیا حال ہے؟ ہم کاسہ گدائی سے ترقی کی منزلیں طے کرنا چاہتے ہیں اور خداشناسی اور جہاد کا راستہ ترک کر کے عزت کے حصول کے خواب دیکھ رہے ہیں اور اقبال ہی کی اس بات کو بھول گئے ہیں کہ     ؎

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات

تو جھکا جب غیر کے آگے‘ نہ من تیرا نہ تن

حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے زوالِ اُمت کے اسباب کی نشان دہی نورِ نبوت سے فرما دی تھی۔ ارشاد فرمایا:

عنقریب ایک وقت آئے گا جب دوسری قومیں اکٹھی ہو کر تم پر ٹوٹ پڑیں گی‘ جس طرح کھانے والے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ کسی نے پوچھا کیا ہم اس وقت قلیل تعداد میں ہوں گے؟

آپؐ نے فرمایا: تمھاری تعداد تو بہت زیادہ ہوگی لیکن تم سیلاب کے اوپر بہنے والے خس و خاشاک کی مانند ہوگے۔ اللہ تمھارے دشمن کے سینے سے تمھارا رعب چھین لے گا اور تمھارے دلوں میں ’وہن‘‘ ڈال دے گا۔

پوچھا: اللہ کے رسولؐ! یہ وہن کیا ہے؟ فرمایا: دنیا کی محبت اور موت (شہادت) سے نفرت۔

مسلمانوں کی تاریخ کے نشیب و فراز اور ان کے عروج و زوال کے جس تذکرے میں تجزیے کا یہ رخ موجود نہ ہو‘ اسے حقیقت پسندانہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

۶-  جنرل مشرف نے معاشی ترقی‘ انصاف کی فراہمی‘ تعلیم کے فروغ اور جمہوریت کی بات بھی کی ہے لیکن کیا اس سوال سے اغماض برتا جا سکتا ہے کہ ان سب سے محرومی کے اسباب کیا ہیں اور وہ کون سے مفاد پرست طبقات ہیں جو وسائل پر قابض ہیں اور قوم کو ان سے محروم رکھے ہوئے ہیں؟ جمہوریت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مفاد پرست عناصر اور خود فوجی حکمرانوں کا کیا کردار ہے؟ انصاف سے کون محروم رکھے ہوئے ہیں؟ اداروں کے استحکام کی راہ میں کون رکاوٹ ہے؟ اس ملک کے حکمران طبقوں نے کون سی میانہ روی اختیار کی ہے۔ ساری مسلم دنیا کا جائزہ لے لیجیے۔ جن طبقات نے سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ وہی ہیں جن پر لبرل کا لیبل ہے‘ جو ماڈرنزم کے علم بردار ہیں‘ جو سیکولر نظام کے حامی ہیں۔ یہی سامراجی قوتوں کے رفیقِ کار تھے اور یہی آزادی کے بعد اپنی ہی قوم کا خون چوسنے میں مصروف ہیں۔ ماڈرنزم کی قوتوں نے یورپ میں تو کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں لیکن مسلم دنیا میںتو اصل ناکامی نام نہاد لبرل اور سیکولر لیڈرشپ کی ہے۔ کمال اتاترک اور شاہِ ایران اس ماڈرنزم کی علامت تھے۔  جمال عبدالناصر‘ صدام حسین‘ حافظ اسد‘ معمر قذافی‘ حبیب بورقیبہ‘ حواری بومدین‘ کس کس کا نام لیا جائے‘ یہ سب لبرل اور سیکولر قیادت تھی جس نے اسلامی دنیا کو ذلیل او ررسوا کیا۔ پاکستان میں کون سی قیادت ناکام ہوئی--- یہی لبرل سیکولر قیادت: جنرل ایوب سے جنرل پرویز مشرف تک۔ اقبال نے صحیح ہی کہا تھا     ؎

زندہ کر سکتی ہے ایران و عرب کو کیونکر

یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لبِ گور

اور   ؎

نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی

کہ روحِ شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

۷-  جنرل مشرف نے یہ بھی کہا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ان اسباب کی فکر کرنا ہوگی جو ناانصافی پیدا کر رہے ہیں اور لوگوں کو انتہاپسندی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ کیا جنرل صاحب بتا سکیں گے کہ خود اپنے ملک میں جسے وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کہتے ہیں اس کے ازالے کے لیے اسباب کی تلاش اور ناانصافیوں اور محرومیوں کو دُور کرنے کے لیے انھوں نے کیا کیا؟ اور کیا وہ بھی صدر بش کی طرح محض قوت کے استعمال سے ان خرابیوں کا قلع قمع کرنے کی پالیسی پر گامزن نہیں جن کا حل صرف حقوق کی ادایگی‘ انصاف کے قیام‘ جمہوری عمل کے استحکام‘ مذاکرات اور سیاسی طریقے ہی سے کیا جا سکتا ہے۔

۸-  جنرل مشرف نے سیکولرزم کے اسلام سے متصادم نہ ہونے کی بات بھی کی ہے جو اسلام کے تصورِ حیات اور پاکستان کے مقصدِ وجود کی نفی کے مترادف ہے۔ اگر یہ بات سیکولرازم کے تصور اور اس کے مضمرات سے عدمِ واقفیت کی بنا پر کی گئی ہے تو افسوس ناک ہے اور اگر جان بوجھ کر یہ شوشہ چھوڑا گیا ہے تو جنرل صاحب کو یاد رکھنا چاہیے کہ سکندر مرزا اور ایوب سے لے کر آج تک جس نے یہ بات کہی ہے‘ اس نے بالآخرمنہ کی کھائی ہے۔ اُمت مسلمہ لادینی نظریۂ حیات کو کبھی قبول نہیں کرسکتی۔ امریکی دین الٰہی کا اصل ہدف اسلامی دنیا میں دین و دنیا اور مذہب و سیاست کی تفریق کے نظام کو رائج کرنا اور اسلام کا ایک ایسا راہبانہ تصور فروغ دینا ہے جس میں دین گھر اور مسجد تک محدود ہو جائے اور دنیا کا نظام شیطانی نظریات کی پیروی میں چلایا جائے۔ شریعت معطل رہے اور جہاد منسوخ ہو جائے۔ لیکن یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اعلانِ جنگ کے مترادف ہے۔

استعماری دور میں بیرونی حکمران ایسی دسیوں کوششیں کرکے ناکام رہے ہیں اور اب وہ اپنے دیسی ساجھیوں کے ذریعے یہ کرانا چاہتے ہیں تو ان شاء اللہ اسی طرح اب بھی ناکام رہیں گے البتہ اس سے بہتوں کی دنیا اور آخرت دونوں تباہ کر دیں گے۔ ماضی میں نہ دین اکبری چل سکا اور نہ اب دین امریکی کے پنپنے کا کوئی امکان ہے۔ اللہ نے اپنے دین کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور اس دین سے ٹکر لینے کی جس نے بھی کوشش کی ہے بالآخر پاش پاش ہوا ہے۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ یہ راستہ اختیار نہ کریں۔     ؎

مٹ نہیں سکتا کبھی مردِ مسلماں‘ کہ ہے

اس کی اذانوں سے فاش سرِّ کلیمؑ و خلیلؑ

اور مسلمان فرد اورقوم دونوں کے لیے عزت اور زندگی کا ایک ہی راستہ ہے یعنی     ؎

حدیث بے خبراں ہے‘ تو بازمانہ بساز

زمانہ با تو نہ سازد‘ تو بازمانہ ستیز


  • کتابچہ دستیاب ہے۔ فی کاپی ۵ روپے۔ سیکڑے پر رعایت۔  منشورات‘ منصورہ‘ ملتان روڈ‘ لاہور-فون ۵۴۳۴۹۰۹
  •  ماہ جون ۲۰۰۴ء کے اشارات ’نئی صلیبی جنگ کا سب سے مہلک ہتھیار‘ کے تسلسل میں پاکستان میں نصابات اور     درسی کتب میں تبدیلیوں کے موضوع پر تحریر آیندہ کسی اشاعت میں ملاحظہ فرمایئے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہر دور میں جنگ‘ جنگ کا اسلوب اور جنگی ہتھیار بدلتے رہے ہیں اور نئے نئے ہتھیار اسلحہ خانے کی زینت اور انسانیت کے لیے مصیبت بنتے رہے ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے اختتام پر اگست ۱۹۴۵ء میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا کے ایٹمی حملے نے اجتماعی تباہی کے ہتھیار  Weapons of Mass Destruction (WMD)کی اصطلاح کو عالمی سیاست اور جنگ و صلح کی لغت میں ایک خاص مقام دے دیا۔ کیمیاوی‘ حیاتیاتی اور گیس پر مبنی اسلحے کے لیے یہ لفظ    اس سے پہلے بھی استعمال ہوتا تھالیکن دورِ جدید میں ڈبلیو ایم ڈیز نے بڑی اہمیت اختیار کرلی ہے۔

۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد ’دہشت گردی‘ اور ’خودکش حملوں‘ کو بھی ایک قسم کا ڈبلیو ایم ڈی ہی بناکر پیش کیا جا رہا ہے اور ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے نام پر دنیا کو نہ صرف دہشت گردی کے ایک بدترین عفریت کی آماجگاہ بنا دیا گیا ہے‘ بلکہ اس نام نہاد جنگ کے پردے میں کچھ دوسری ہی قسم کے  اجتماعی تباہی کے ہتھیاروں سے دنیا کے مختلف ممالک اور تہذیبوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان میں میڈیا کی ثقافتی یلغار اور مسلم ممالک کے تعلیمی نظام پر ایک کاری وار خصوصیت سے اہمیت اختیار کرگئے ہیں‘ جن کو ہم ڈبلیو ایم ڈیز ہی کی تازہ ترین شکل سمجھتے ہیں۔ اجتماعی تباہی کے ہتھیار جس طرح انسانوں اور شہروں کو جسمانی طور پر تباہ کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں‘ اسی طرح یہ نئے علمی اور فنی ہتھیار قلب و نظر کو مسخر کرنے‘ افراد‘ معاشروں اور تہذیبوں کے تشخص کو تہ وبالا کرنے اور ایک نوعیت کی نظریاتی نسل کشی (ideological genocide) کا مقصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ ویسے تو استعماری قوتوں نے ایسے حربے ہمیشہ ہی استعمال کیے ہیں اور اکبرالٰہ بادی نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ   ع

دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے!

لیکن اپنی کمیت اور کیفیت دونوں اعتبار سے تعلیم پر جدید حملے تباہی کے مہلک ہتھیار کی شکل اختیارکرگئے ہیں۔ اس حملے کے اہداف کیا ہیں؟ علامہ اقبال نے اس خداداد صلاحیت کی بنیاد پر جو فراست ایمانی اور تاریخی اور تہذیبی شعور کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ان کو دی تھی‘ اُن سے اُمت مسلمہ کو بہت پہلے متنبہ کر دیا تھا۔ ضربِ کلیم میں ’نصیحت‘ کے عنوان سے شیطان کے اس حربے کو وہ یوں بیان کرتے ہیں:

اک لُردِ فرنگی نے کہا اپنے پسر سے

منظر وہ طلب کر کہ تری آنکھ نہ ہو سیر

بیچارے کے حق میں ہے یہی سب سے بڑا ظلم

بَرّے پہ اگر فاش کریں قاعدۂ شیر

سینے میں رہے رازِملُوکانہ تو بہتر

کرتے نہیں محکوم کو تیغوں سے کبھی زیر

تعلیم کے تیزاب میں ڈال اس کی خودی کو

ہو جائے ملائم تو جدھر چاہے‘ اسے پھیر

تاثیر میں اِکسیر سے بڑھ کر ہے یہ تیزاب

سونے کا ہمالہ ہو تو مٹی کا ہے اک ڈھیر

امریکا کی سامراجی اور صلیبی قیادت اس وقت عالمِ اسلام اور خصوصیت سے اس کی احیائی تحریکوں اور جہادی قوتوں کو زیر کرنے کے لیے جس حکمت عملی پر عمل پیرا ہے‘ اس میں فوجی قوت‘ معاشی دبائو اور پروپیگنڈے کی نفسیاتی جنگ کے ساتھ جو سب سے خطرناک ہتھیار استعمال کیا جارہا ہے وہ تعلیم کے نظام کو تبدیل کرواکے ذہنوں کو مسخر کرنے کے ذریعے اُمت کو غلامی کے نئے شکنجوں کی گرفت میں لینا ہے۔ فوجی قوت سے بلاشبہہ کچھ تھوڑے عرصے کے لیے مقابل قوت کو قابو میں کیا جا سکتا ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ ہر استعمار اور قبضے کے خلاف تحریک مزاحمت جلد یا بدیر رونما ہوتی ہے۔ معاشی دبائو بھی ایک عرصے تک چلتا ہے اور نفسیاتی حربے اور پروپیگنڈے کی تاثیر بھی محدود ہے۔ البتہ ذہنی غلامی‘ تعلیم کے ذریعے دل و دماغ کو مسخر کرنا‘ سوچنے کے انداز اور نفع و نقصان‘ خیروشر اور مطلوب اور نامطلوب کے پیمانوں کو بدل دینا ہی وہ حربہ ہے جس سے محکومی کو دوام      دیا جاسکتا ہے--- اور اس وقت امریکی دانش ور اور سیاسی قیادت اور اس کے ’مراکز دانش‘ (think tanks)عوامی تباہی کے جس ہتھیار کواستعمال کرنے کے لیے سب سے زیادہ بے چین ہیں‘ وہ نظام تعلیم کی تبدیلی اور نصاب تعلیم میں ایسے تغیرات ہیں جو سوچنے کے انداز کو بدل سکیں اور اسلام کے انقلابی پیغام کو کسی ایسی شکل میں تبدیل کرسکیں کہ مذہبی حِس بھی تسکین پالے اور اسلام کا جہاں بانی اور تاریخ سازی کا کردار بھی ختم ہوجائے۔

اصل ہدف اسلام کا تصور‘ اس کا تاریخی کردار اور وہ احیائی قوتیں ہیں جو اسلام کو محض گھر اور مسجد تک محدود نہیں کرتیں بلکہ زندگی کے پورے نظام کو اس کے تابع لانا چاہتی ہیں‘ اور اس سے بھی بڑھ کر دنیا میں ظلم کے ہر نظام کو چیلنج کر کے انسانوں کو انصاف اور عزت کے حصول کے راستے کی دعوت دیتی ہیں۔ استعمار کا یہ وہی حربہ ہے جسے اقبال نے یوں بیان کیا تھا:

بہتر ہے کہ شیروں کو سکھا دیں رمِ آہُو

باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہٗ

کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند

تاویلِ مسائل کو بناتے ہیں بہانہ

سارا ہدف یہ ہے کہ اسلام ایک اجتماعی قوت کی حیثیت اختیار نہ کرے‘ دین و سیاست میں تفریق ہو‘ اور اہل ایمان کفر اور ظلم کی قوتوں کے خلاف ایک تحریک اور ایک چیلنج بن کر نہ ابھر سکیں‘ آپس میں بٹ جائیں اور ہر ملک اور ہر گروہ صرف اپنے آپ میں مگن ہو (’سب سے پہلے پاکستان‘ میں اس کی بازگشت سنی جاسکتی ہے)‘ اور ایک دوسرے کا معاون و مددگار بن کر انصاف کے حصول اور ظلم کے خلاف جدوجہد سے پہلوتہی کرلے--- اقبال نے متنبہ کیا تھا کہ:

ہے زندہ فقط وحدتِ افکار سے ملّت

وحدت ہو فنا جس سے وہ الہام بھی الحاد

وحدت کی حفاظت نہیں بے قوتِ بازو

آتی نہیں کچھ کام یہاں عقلِ خداداد

اے مردِ خدا تجھ کو وہ قوت نہیں حاصل

جا بیٹھ کسی غار میں اللہ کو کر یاد

مسکینی و محکومی و نومیدیِ جاوید

جس کا یہ تصوف ہو وہ اسلام کر ایجاد

مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت

ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

دین کے رشتے کو کمزور کرنے اور دین کے فہم کو مسموم کرنے کی اسی سازش سے اقبال نے خبردار کیا تھا کہ:

اور یہ اہل کلیسا کا نظامِ تعلیم

ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

اُس کی تقدیر میں محکومی و مظلومی ہے

قوم جو کر نہ سکی اپنی خودی سے انصاف

فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے

کبھی کرتی نہیں ملّت کے گناہوں کو معاف

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد جس نقشۂ جنگ کو ترتیب دیا گیا ہے اس میں فوج کشی‘ معاشی دبائو اور نفسیاتی اور ابلاغی جنگ کے ساتھ مسلمانوں کے دینی تعلیمی نظام کو سبوتاژ کرنا اور اسے دنیاوی علوم اور عصری مسائل کے نام پر اپنی جڑوں سے اکھاڑدینا ہے۔ جدید تعلیمی نظام میں جس حد تک بھی اسلام کے انقلابی تصورِ حیات اور خصوصیت سے حق و باطل کی کش مکش میں مسلمانوں کے کردار اور اجتماعی مقاصد اور وحدت اُمت کے تصورات پائے جاتے ہیں‘ ان کو تار تار کرنا اور محض دنیاطلبی‘ عیش پرستی‘ ہوس رانی‘ اور طائوس و رباب کی زندگی کا رسیا بنانا ہے۔اس کے لیے اصل ہدف اسلام کا یہ تصور زندگی ہے کہ مسلمان ایک نظریاتی اُمت ہیں‘ ایک جسم کے اعضا کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کا اپنا اخلاقی‘ معاشی‘ سیاسی‘ تہذیبی‘ مالیاتی اور ثقافتی نظام ہے۔ وہ ایک نظامِ نو کے داعی اور تہذیب و تمدن کے ایک منفرد تصور کے مطابق انفرادی اوراجتماعی زندگی کی تشکیل کی جدوجہد میں اپنا مستقبل دیکھتے ہیں۔ یہ تصور آج کی امریکی قیادت کی نگاہ میں اس کے مفادات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور وہ اسے ’خطرہ‘ بناکر ایک طرف مسلمانوں کی عسکری قوت کو غیرمؤثر بنانے‘ ان کے معاشی وسائل کو گلوبلائزیشن کے نام پر اپنی گرفت میں لانے اور سب سے بڑھ کر فکری یلغار اور تعلیم کے بطور ایک مہلک ہتھیار کے بے محابا استعمال سے ان کو اپنی غلامی میں لانے کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ کام سرکاری ذرائع کے ساتھ مسلمان ملکوں کے اپنے حکمرانوں‘ لبرل طبقات اور بیرونی سرمایے سے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کے ذریعے انجام دینا چاہتے ہیں جس کے لیے سرمایہ پانی کی طرح بہایا جارہا ہے اور مفید مطلب حکمرانوں کو آلۂ کار بنایا جا رہا ہے۔

اسلام کے تصورِحکومت‘ ملّت کی وحدت‘ جہاد اور ظلم کے خلاف جدوجہد کے جذبے کو اصل ہدف بنایا گیا ہے۔ بنیاد پرستی‘ عسکریت‘ تشدد‘ انتہاپرستی اور اس نوعیت کے تمام اتہامات مسلمانوں پر اور خصوصیت سے دینی قوتوں پر لگائے جا رہے ہیں۔ مسلم دنیا میں حکمرانوں اور عوام میں کش مکش برپا کرنے اور ان کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراکرنے کے لیے نت نئے حربے استعمال کیے جارہے ہیں‘ اور نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اس کے لیے چھتری کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ اگر ایک طرف حفظ ماتقدم حملے(pre-emptive strike) اور حکومتوں کی تبدیلی (regime change)کی حکمت عملی پر عمل ہو رہا ہے تو دوسری طرف دینی تعلیم کے نظام کو تبدیل کرنے‘ اسے سرکاری گرفت میں لانے‘ اور ملکی تعلیمی نظام میں نصاب اور تعلیمی اہداف کو تبدیل کرانے اور ذہنوں کو تبدیل کرنے اور اپنا ہم نوا بنانے کے منصوبوں پر پوری شدومد کے ساتھ عمل کیا جا رہا ہے۔ افغانستان اور عراق کو تو مکمل طور پر اپنے زیرتسلط لے آیا گیا ہے لیکن اس تہذیبی اور تعلیمی جنگ کا ہدف پورا عالمِ اسلام ہے جس میں خصوصیت سے اس وقت سعودی عرب‘ مصر اور پاکستان نشانہ ہیں۔


امریکا کی اس حکمت عملی کی یہ جھلکیاں صدربش سے لے کر ان کے دفاع کے وزیررمزفیلڈ‘ قومی سلامتی کی مشیر کنڈولیزا رائس اور وزیرخارجہ کولن پاول کے بیانات میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ لیکن اس کا بہت واضح اور مکمل اظہار حال ہی میں شائع ہونے والی دو اہم رپورٹوں میں ہوا ہے جس میں جنگ کا پورا نقشہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک رپورٹ وہاں کے مشہور تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کے قومی سلامتی کے تحقیقی شعبے نے تیار کی ہے اورCivil Democratic Islam:  Partners, Resources and Strategiesکے عنوان سے حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ اسےCheryl Benardنے مرتب کیا ہے۔ اس کی تیاری میں آٹھ دوسرے دانش وروں نے شرکت کی ہے جن میں کابل میں امریکی سفیر زلمے خلیل زاد بھی شریک ہیں۔

رپورٹ کا بنیادی تصور یہ ہے کہ آج اسلام ایک دھماکا خیز شکل اختیار کرگیا ہے جو اندرونی اور بیرونی جدوجہد میں مصروف ہے تاکہ اپنی اقدار اور اپنے تشخص کو ابھارسکے اور ان کی روشنی میں دنیا میں اپنا مقام حاصل کرسکے۔ اس پس منظر میں امریکا اور مغربی دنیا کا مفاد اور ہدف یہ ہونا چاہیے کہ اسلامی دنیا ایک ایسی صورت اختیار کرے جو مغرب کے ساتھ ہم آہنگ ہو--- یعنی جمہوری اس معنی میں کہ سماجی اعتبار سے ترقی پسند (socially progressive) ہو اور بین الاقوامی طور پر قابلِ قبول رویہ اختیار کرے۔ اس کے لیے امریکی پالیسی کیا ہو؟ رپورٹ کہتی ہے:

اس لیے دانش مندی کی بات یہ ہے کہ اسلامی دنیا میں ان عناصر کی حوصلہ افزائی کی جائے جو عالمی امن اور عالمی برادری سے ہم آہنگ ہیں اور جمہوریت اور جدیدیت کو پسند کرتے ہیں۔

اس رپورٹ میں مسلمانوں کو چار بڑے بڑے زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے:

۱- بنیاد پرست (fundamentalists)جو مغربی تہذیب کے خلاف ہیں اور اسلامی قانون اور اخلاقیات کا وہ تصور رکھتے ہیں جو رپورٹ کے مصنفین کی نگاہ میں جدیدیت سے متصادم ہے۔ یہ مغرب کے لیے سب سے بڑا خطرہ اور نتیجتاً اہم ترین دشمن ہیں۔

۲- دوسراگروہ قدامت پسندوں (traditionalists)کا ہے جو تبدیلی‘ تجدد اور جدیدیت سے خائف ہیں اور روایت کے اسیر رہنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ یہ بھی ہمارے دشمن ہیں مگر نمبر ایک کے مقابلے میں غنیمت ہیں۔

۳- تیسرا گروہ جدیدیت پسندوں (modernists)کا ہے جو اسلامی دنیا کو آج کی مغربی دنیا (جسے رپورٹ عالمی برادری global community قرار دیتی ہے)سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے اسلام کو جدید بنانے کے خواہاں ہیں۔ یہ ہمارے لیے قابلِ قبول ہیں باوجودیکہ یہ گروہ اسلام سے رشتہ باقی رکھنا چاہتا ہے۔

۴- چوتھا گروہ جو مغرب کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ ہے وہ لادینیوں (secularists)کا ہے جو دین و دنیا اور مذہب اور سیاست کی علیحدگی کے کھلے کھلے قائل ہیں‘ اور مغرب کے ماحول کی مکمل پیروی کرتے ہوئے مذہب کو ذاتی مسئلے اور اجتماعی امور کو مغربی صنعتی جمہوریوں کے طور طریق پر چلانا چاہتے ہیں۔

اصل رپورٹ میں ان چاروں کے درمیان بھی تقسیم در تقسیم کی نشان دہی کی گئی ہے جن میں سب سے ’فسادی‘ اور خطرناک وہ بنیاد پرست ہیں جو ان کی نگاہ میں تشدد کے طریقے اختیار کرتے ہیں۔ تمام بنیاد پرست دہشت گرد نہیں خطرناک ضرور ہیں۔ اسی طرح قدامت پسندوں‘ جدیدیت پسندوں اور لادینیوں میں بھی کم از کم دو دو گروہ ہیں۔

اس رپورٹ کے مصنفین نے مقابلے کے لیے جو بنیادی حکمت عملی پیش کی ہے ‘ اس کے اہم نکات یہ ہیں:

یہ طرزِ فکر ترقی‘ جدیدیت اور تہذیب یافتہ جمہوری اسلام کی تشکیل کو مضبوط کرنا اور فروغ دینا چاہتا ہے۔ یہ مختلف حالات سے ان کی مناسبت سے نمٹنے کے لیے ضروری لچک فراہم کرتا ہے‘ اور غیر مطلوب (unintended)منفی خطرات کے اثرات کو کم کرتا ہے۔ درج ذیل خاکے سے واضح ہوتا ہے کہ ایسی حکمت عملی کیا ہوگی:

  • پہلے قدم پر جدیدیت پسندوں کی حمایت کی جائے: انھیں اپنے نظریات مرتب کرنے اور پھیلانے کے لیے وسیع پلیٹ فارم فراہم کرکے‘ ان کے تصورِ اسلام کو روایت پسندوں کے تصور کے مقابلے میں زیادہ وقعت دے کر۔ انھیں‘ نہ کہ روایت پسندوں کومعاصر اسلام کے حقیقی نمایندے کے طور پر تیار کیا جائے اور عوامی سطح پر پیش کیا جائے۔
  •  لادینیت پسند عناصر میں سے ہر ایک کی اس کی کیفیت اور ضرورت کی مناسبت سے (case by case)  حمایت کی جائے۔
  •  لادینی ‘تہذیبی اور ثقافتی اداروں اور پروگراموں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
  •  روایت پسندوں کی اس حد تک پشت پناہی کی جائے جو انھیں بنیاد پرستوں کے مقابلے کے قابل رکھے (اگر اور جہاں‘ یہ ہمارا انتخاب ہو) اور دونوں گروہوں کے درمیان قریبی اتحاد کوروکا جائے۔ روایت پسندوں کے اندر ہمیں انتخاب کر کے ان عناصر کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے جو جدید سول سوسائٹی سے نسبتاً بہتر مناسبت رکھتے ہوں۔مثال کے طور پر بعض اسلامی فقہی مکاتب ہمارے انصاف اور انسانی حقوق کے تصور سے بہ نسبت دوسروں کے زیادہ قریب ہیں۔
  •  آخری بات یہ کہ بنیاد پرستوں کے اسلامی اور نظریاتی موقف میں کمزور مقامات پر پوری قوت سے حملہ کیا جائے تاکہ وہ باتیں کھل کر سامنے آئیں جو ان کے مخاطب لوگوں میں سے نوجوان مثالیت پسند اور نیکوکار روایت پسند ٹھیک نہ سمجھیں: ان کی بدعنوانی‘ ان کی بے رحمی‘ ان کی جہالت‘ اسلام کے اطلاق میں ان کا تعصب اور واضح غلطیاں‘ اور قیادت کرنے اور حکومت کرنے کی ان کی نااہلیت۔

اس مجموعی طرزفکر کی تقویت کے لیے کچھ اضافی زیادہ براہ راست سرگرمیاں ضروری  ہوں گی جیسی کہ ذیل میں درج ہیں:

  • اسلام کی تعریف کرنے‘ تشریح کرنے اور تعبیر کرنے پر بنیاد پرستوں اور روایت پسندوں کے اجارے کو توڑنے میں مدد دی جائے۔
  • ایسے مناسب جدیدیت پسند علما کی شناخت کرنا جو ایسی ویب سائٹ چلائیں جس میں روزمرہ کے معاملات کے بارے میں سوالات کے جواب دیے جائیں اور جدید اسلامی فقہی آرا پیش کی جائیں۔
  • نصابات کی تشکیل اور درسی کتب لکھنے کے لیے جدیدیت پسند اسکالروں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
  •  زرتلافی شامل کر کے کم قیمت پر تعارفی کتب کی اشاعت کی جائے اور انھیں اسی طرح دستیاب کیا جائے جس طرح بنیاد پرست مصنفوں کے کتابچے دستیاب ہیں۔
  • مقبول عوامی ذرائع ابلاغ‘ جیسے ریڈیو‘ کو استعمال کر کے جدیدیت پسند مسلمانوں کی فکر اور عمل کو عام کیا جائے تاکہ اسلام کا جو مطلب ہے اور جو مطلب ہو سکتا ہے اس کا عالمی دائرہ وسیع تر ہو۔ (ص ۴۷-۴۸)

اس حکمت عملی کے بنیادی نکات یہ بیان کیے گئے ہیں:

                ۱-            قائدین اور رول ماڈل تیار کرنا۔ وہ جدیدیت پسند جن کے ستائے جانے کا اندیشہ ہے ان کو شہری حقوق کے حوصلہ مند قائدین کے طور پر سامنے لایا جائے جو وہ فی الحقیقت ہیں۔ ایسی مثالیں موجود ہیں کہ یہ مفید مطلب ہے۔

                ۲-            سیاسی حد رسائی (out reach)کے معاملات میں جدیدیت پسند عام مسلمانوں کو شامل کیا جائے تاکہ آبادی کی بنیاد پر حقیقی صورت حال کی صحیح عکاسی ہو۔ مسلمانوں کی اسلامیت کو مصنوعی طور پر ابھارنے سے احتراز کیا جائے۔ اس کے بجاے ان کو اس بات کا عادی بنایا جائے کہ اسلام ان کی شناخت کا بس ایک حصہ ہو سکتا ہے۔

                ۳-            اسلامی دنیا میں سول سوسائٹی کی حمایت کی جائے۔ یہ بحرانی حالات‘ میں مہاجروں کی دیکھ بھال میں اور تنازعے کے بعد کی صورت حال میں خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے۔ اس صورت میں ایک جمہوری قیادت سامنے آسکتی ہے اورمقامی این جی اوز اور دوسری شہری انجمنوں کے ذریعے عملی تجربہ حاصل کر سکتی ہے۔ دیہی اور پڑوسی کی سطح پر بھی یہ انجمنیں ایک ایسا انفراسٹرکچر ہیں جو سیاسی شعور بیدار کرسکتی ہیں اور معتدل جدیدیت پسند قیادت ابھار سکتی ہیں۔

                ۴-            مغربی اسلام ‘ جرمن اسلام اور امریکی اسلام وغیرہ کو تشکیل دینا۔ اس کے لیے ان معاشروں کی ہیئت کا اور ان کے ہاں رائج فکروعمل کے ارتقا کا بہتر فہم حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ان کے نظریات کا استنباط کرنے‘ اظہار کرنے اور ان کو قانونی شکل دینے (codifying)میں مدد دی جائے۔

                ۵-            انتہاپسند اسلام سے وابستہ افراد اور موقفوں کو بے جواز قرار دیا جائے۔ بنیاد پرست خودساختہ قائدین کے غیراخلاقی اور منافقانہ افعال کو عام کیا جائے۔ مغرب پر بداخلاقی اور سطحیت کے الزامات‘ بنیاد پرستوں کے اسلحہ خانے کا پرکشش حصہ ہیں‘ جب کہ  انھی نکات پر وہ خود بہت زیادہ حملے کی زد میں ہیں۔

                ۶-            عوامی ذرائع ابلاغ میں عرب صحافیوں کی حوصلہ افزائی کرنا کہ وہ بنیاد پرست قائدین کی زندگیوں‘ عادات و اطوار اور بدعنوانیوں پر تفتیشی رپورٹنگ کریں۔ ان واقعات کی تشہیر کی جائے جو ان کی بے رحمی کو ظاہر کرتی ہے‘ مثلاً حال ہی میں آتش زنی کے واقعے میں سعودی اسکول میں لڑکیوں کی اموات‘ جب کہ مذہبی پولیس نے آگے بجھانے والوں کو جلتے ہوئے اسکول کی عمارت سے لڑکیوں کو نکالنے سے ہاتھ پکڑ کر روکا کیونکہ وہ باپردہ نہ تھیں۔ اور ان کی منافقت جس کا اظہار اس سے ہوتا ہے کہ سعودی مذہبی انتظامیہ تارک وطن کارکنوں کو اپنے نئے پیدا ہونے والے بچوں کی تصویریں منگوانے سے اس بنیاد پر روکتی ہے کہ اسلام میں تصویر بنانا منع ہے‘ جب کہ ان کے اپنے دفاتر میں شاہ فیصل وغیرہ کی بڑی بڑی تصاویر آویزاں ہیں۔

                ۷-            دینی سرگرمیوں کی مالی معاونت کے نظام کو درہم برہم کیا جائے‘ اس لیے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو وسائل فراہم کرنے میں خیراتی اداروں کا کردار ۱۱ستمبر کے بعد زیادہ واضح طور پر سمجھا جا رہا ہے۔ ضروری ہوگیا ہے کہ سرکاری سطح پر تحقیقات ہوں اور مسلسل جاری رہیں۔

                ۸-            خوش حال اور معتدل اسلام کے نمونے کے طور پر مناسب نظریات رکھنے والے  ممالک اور علاقوں یا گروپوں کی شناخت کرکے اور ان کی سرگرمی سے مدد کرکے تشہیر کی جائے۔ ان کی کامیابیوں کو شہرت دی جائے۔

                ۹-            تصوف کے مقام ومرتبے کو بلند کیا جائے۔ مضبوط صوفی روایات کے حامل ممالک کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اپنی تاریخ کے اس حصے کو اہمیت دیں اور اسے اپنے اسکول کے نصاب میں شامل کریں۔ صوفی اسلام پر زیادہ توجہ دی جائے۔

                ۱۰-         انقلابی اسلامی تحریکوں کے بڑی عمر کے وابستگان کے نظریات تبدیل ہونے کی آسانی سے توقع نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اگر جمہوری اسلام کا پیغام متعلقہ ممالک کے اسکول نصابات میں اور سرکاری میڈیا میں داخل کر دیا جائے تو ان کی نوخیز نسل پر اثرانداز ہوا جا سکتا ہے۔ انقلابی بنیاد پرستوں نے تعلیم میں رسوخ حاصل کرنے کے لیے بہت بڑی کوششیں کی ہیں اور اس کا امکان بہت کم ہے کہ وہ کسی لڑائی کے بغیر اپنی قائم شدہ  جڑیں چھوڑ دیں۔ یہ میدان ان سے واپس حاصل کرنے کے لیے ایک بھرپور کوشش کی ضرورت ہوگی۔

اس ۱۰ نکاتی حکمت عملی کو بروے کار لانے کے لیے ایک مفصل پروگرام اور ترجیحات ہی نہیں بلکہ پورے سیاسی اور نظریاتی کھیل کا نقشۂ کار بھی رپورٹ کی زینت ہے۔ میکاولی کی سیاست تو مشہور تھی ہی‘ مگر بش کے امریکا نے میکاولی کی سیاست کا جو اکیسویں صدی کا ایڈیشن مرتب کیا ہے‘ اس کے خدوخال ہی دیکھ لیں اور اس آئینے میں غیروں ہی کے نہیں اپنوں کے بیانات‘ عزائم اور اعلانات کی تصویر بھی دیکھ لیں کہ کس طرح ماڈرن اور ماڈریٹ اور روشن خیال اسلام کا تانابانا بنا جا رہا ہے:

مجموعی حکمت عملی کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ضروری ہوگاکہ درج ذیل خصوصی سرگرمیاں بھی کی جائیں:

  •  جدیدیت پسندوں اور معروف سیکولرسٹوں کی اس طرح سے مدد کی جا سکتی ہے:

                ___        ان کے افکار کی توسیع واشاعت کی جائے۔

                ___        ان کی عوام اور نوجوانوں کے لیے لکھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے۔

                ___        اسلامیات کے نصاب میں ان کے افکار کو متعارف کروایا جائے۔

                ___        ان کو عوامی پلیٹ فارم مہیا کیا جائے۔

                ___        مذہب کے بنیادی تصورات کے بارے میں ان کے افکار ونظریات کو ان بنیاد پرستوں اور روایت پسندوں کے مقابلے میں عام کیا جائے جو پہلے سے ہی اپنے نظریات کی اشاعت کے لیے ویب سائٹس‘ اشاعتی ادارے‘ تعلیمی ادارے اور دیگر ذرائع استعمال کرتے ہیں۔

                ___        غیرمطمئن مسلم نئی نسل کے لیے جدیدیت کو متبادل ثقافت کے طور پر پیش کیا جائے۔

                ___        قبل از اسلام اور غیر اسلامی تاریخ اور ثقافت سے متعلق بیداری کو سہولت پہنچاکر اور حوصلہ افزائی کرکے متعلقہ ممالک کے میڈیا اور نصاب کے ذریعے عام کیا جائے۔

                ___        لادینی شہری اور ثقافتی اداروں اور پروگراموں کی حوصلہ افزائی اور امداد کی جائے۔

  • روایت پسندوں کی بنیاد پرستوں کے مقابلے میں حمایت اس طرح سے کی جائے:

                ___        روایت پسندوں  کی بنیاد پرستوں کے تشدد اور انتہاپسندی پر تنقید کو عام کر کے‘ اور روایت پسندوں  اور بنیاد پرستوں کے درمیان اختلاف کو ہوا دے کر۔

                ___        روایت پسندوں اور بنیاد پرستوں کے درمیان اتحاد کی روک تھام کرکے۔

                ___        ان جدیدیت پسندوں اور روایت پسندوں  کے درمیان تعاون کو فروغ دیا جائے جو اس تناظر میں ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ روایت پسندوں  کے اداروں میں جدیدیت پسندوں کی موجودگی اور حیثیت کو بڑھا یا جائے۔

                ___        روایت پسندوں  کے مختلف حلقوں کے درمیان امتیاز برتا جائے۔

                ___        ان عناصر کی حوصلہ افزائی کی جائے جو جدیدیت سے قریب تر ہیں--- جیساکہ دوسروں کے مقابلے میں فقہ حنفیہ۔ ایسے فتاویٰ جاری کیے جائیں جو قبولیت عام حاصل کرکے دقیانوسی وہابی فتووں کی حیثیت کو کمزور کریں۔

                ___        صوفی ازم کی شہرت اور مقبولیت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

  •  بنیاد پرستوں کا اس طرح مقابلہ کیا جائے اور مخالفت کی جائے:

                ___        اسلامی تعبیرات کے سوال پر ان کے نقاط نظر میں پائے جانے والے اختلافات کو چیلنج کرکے اور بے نقاب کر کے۔

                ___        غیرقانونی گروپوں اور سرگرمیوں سے ان کے تعلقات کو بے نقاب کر کے۔

                ___        ان کی پُرتشدد سرگرمیوں کے نتائج کو عام کر کے۔

                ___        اپنی اقوام کی فلاح و بہبود کے صحیح رخ پر تعمیروترقی کرنے کی نااہلیت کو ظاہر کرکے۔

                ___        ان پیغامات کوبالخصوص نوجوانوں‘ نیک روایت پسند آبادی‘ مغرب میں مسلم اقلیتوں اور خواتین کو پہنچاکر۔

                ___        انتہا پسند بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کے کارہاے نمایاں کی تعریف کرنے اور انھیں احترام دینے سے اجتناب کرکے اور اس کے بجاے انھیں خبطی اور بزدل‘ نہ کہ بدی کے ہیرو کے طور پر پیش کر کے۔

                ___        صحافیوں کی حوصلہ افزائی کر کے کہ وہ بنیاد پرستوں اور دہشت گردوں کے حلقوں میں تفتیشی رپورٹنگ کے ذریعے بدعنوانی‘ منافقت اور اخلاقی گراوٹ کے معاملات کو سامنے لائیں۔

  •   صرف لادین عناصر کی حمایت کی جائے:

                ___        بنیاد پرستی کو بطور مشترکہ دشمن تسلیم کرنے کی حوصلہ افزائی کر کے‘ قوم پرستی اور بائیں بازو کے نظریات کی بنیاد پر امریکا مخالف قوتوں کے ساتھ لادینی عناصر کے اتحادوں کی حوصلہ شکنی کر کے۔

                ___        اس نظریے کی حمایت کر کے کہ مذہب اور ریاست اسلام میں بھی جدا جدا ہوسکتے ہیں اور اس سے ایمان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔ (ص ۶۱-۶۶)

تہذیبی‘ فکری اور تعلیمی جنگ کا پورا نقشۂ کار آپ کے سامنے ہے۔ اگر اب بھی کسی کو امریکی سامراج کی تازہ ترین صلیبی جنگ کے اصل اہداف‘ مقاصد اور مضمرات کو سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے تو اس کی وجہ امریکی دانش وروں کی صاف گوئی کی کمی نہیں‘ اپنی کج فہمی یا تغافل جاہلانہ ہوسکتی ہے۔ رہے ہمارے حکمران اور لبرل دانش ور‘ تو ذرا امریکا بہادر کے ان ارشادات کا موازنہ اپنے حکمرانوں‘ وزراے تعلیم بلکہ کچھ ’علماے کرام‘ کی گوہرافشانیوں سے کرکے دیکھ لیجیے۔ صاف نظر آجائے گا کہ    ؎

انھی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں‘ زباں میری ہے بات ان کی

انھی کی محفل سنوارتا ہوں‘ چراغ میرا ہے رات ان کی


دوسری طرف اس سے بھی زیادہ اہم رپورٹ وہ ہے جو ایک اعلیٰ اختیاراتی مشاورتی گروپ نے مرتب کی ہے جس میں ۱۴ اہم سابق سفیر اور چوٹی کے دانش ور تھے اور جس کے صدر سابق سفیر ایڈورڈ پی ڈجرجن(Edward P. Djerejan) تھے اور جسے امریکی ایوان نمایندگان کی Committee on Appropriationنے مرتب کرایا ہے۔ اس گروپ نے مسلم دنیا کے اہم ممالک کا دورہ کیا اور جہاں نہ جا سکا وہاں ٹی وی کانفرنس کے ذریعے وہاں کے اہم لوگوں سے رابطہ کیا۔ مدیر ترجمان القرآن کو بھی ایک ایسی ہی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ یہ رپورٹ اکتوبر ۲۰۰۳ء میںChanging Minds Winning Peace: A New Strategic Direction for U.S. Public Diplomacy in the Arab and Muslim World کے نام سے شائع ہوئی ہے‘ اور امریکی کانگریس کی متعلقہ کمیٹیوں اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس سے استفادہ کیا ہے۔۱؎

اس رپورٹ کا مثبت پہلو تو یہ ہے کہ اس میں امریکا کے بارے میں عالمِ اسلام اور  عرب دنیا میں پائی جانے والی بے چینی بلکہ نفرت کا واضح اعتراف موجود ہے۔ البتہ اصلاحِ احوال کے لیے امریکا کی پالیسیوں پر نظرثانی کا تو بالکل ضمنی طور پر ذکر کرتی ہے لیکن اصل توجہ اس پر ہے کہ دنیا ہمیں صحیح طور پر سمجھ نہیں رہی‘ اس لیے خوب وسائل خرچ کر کے امریکی نقطۂ نظر کو دنیا کو سمجھانے اور عرب اور اسلامی دنیا کے تعلیمی‘ سیاسی اور سماجی نظام میں ایسی تبدیلیوں کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جو امریکا کی ساکھ کو بڑھانے اور ان کو امریکا کا ہم نوا بنانے میں موثر ہوسکیں۔ سرمایے کا بے محابا استعمال‘ نظام تعلیم کو متاثر کرنا‘ ریڈیوا ورٹی وی کا موثر استعمال‘ وفود کے تبادلے‘ طلبہ قیادتوں‘ فوجی ذمہ داروں کے تبادلہ پروگراموں‘ امریکی لٹریچر کی ان ممالک کی زبانوں میں فراہمی‘ امریکی سینٹرز کا قیام‘ امریکا میں ان ملکوں کی زبانوں کے جاننے والوں کا خصوصی پروگرام وغیرہ بھی توجہ کا مرکز رہی ہیں۔ اس خدشے کا بھی اعتراف ہے کہ جمہوریت کے فروغ سے کہیں مذہبی انتہاپسند ان ممالک میں غلبہ نہ حاصل کرلیں۔

ہم ان تمام اخباری مضامین اور بیانات سے صرفِ نظر کر رہے ہیں جن میں مدرسے کی تعلیم‘ جہادی کلچر کی فسوں کاریوں اور نام نہاد بنیاد پرست تنظیموں کی سرگرمیوں کو ہدف تنقیدوملامت بنایا گیا ہے اور جس نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں پیالی میں طوفان (storm in a cup of tea) کا سماں پیدا کر دیا ہے۔ امریکا کے کارفرما عناصر کے ذہن کو بنانے اور خود پالیسی ساز اداروں کو متاثر کرنے میں اس کا بھی بڑا دخل ہے۔ پالیسی ساز اداروں اور ’مراکز دانش‘ کی رپورٹوں کے جائزے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم اس وقت خاص ہدف ہیں۔

اس پس منظر میں پاکستان میں جنرل پرویز مشرف اور ان کی ٹیم کے ذریعے جو تبدیلیاں نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم میں لائی جا رہی ہیں‘ ان کے بے لاگ جائزے کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے کہ سرکاری اعلانات برأت کے علی الرغم یہ ایک حقیقت ہے کہ ان نام نہاد اصلاحات کے ڈانڈے امریکی پالیسی اور مطالبات سے ملتے ہیں جس کا اعتراف امریکی وزیرخارجہ جناب کولن پاول نے امریکا کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سامنے اپنے ایک بیان میں ۱۰ مارچ ۲۰۰۴ء کو ان الفاظ میں کیا کہ: ’’پاکستانی مدارس دہشت گردوں کی آماجگاہ ہیں جس کے لیے ہم مشرف اور دیگر اسلامی ممالک کے سربراہوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں‘‘۔ اسی طرح امریکا کی سلامتی کی مشیر کونڈولیزارائس کا یہ بیان بھی ایک جہانِ معنی اپنے اندر رکھتا ہے کہ ’’اسلامی ممالک بشمول پاکستان کا تعلیمی نصاب    بڑا مسئلہ تھا اور ہم اسلامی ممالک کے حکمرانوں کی مشاورت سے بڑی تبدیلیاں کررہے ہیں‘‘۔

ہماری وزیرتعلیم خواہ کتناہی یہ کہتی رہیں کہ: ’’نصاب میں تبدیلی اور اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی منصوبہ بندی ہماری اپنی ہے‘ کوئی امریکی یا بیرونی دبائو کا شاخسانہ نہیں‘‘۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ اس کے پیچھے امریکا کی عالمی حکمت کا دبائو موجود ہے اور ایک موقع پر   تو کونڈاولیزارائس نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ: ’’پاکستان میں تعلیمی نصاب میں تبدیلی کے پیچھے  ہماری ہدایات کارفرما ہیں‘‘۔اب تو ’زبانِ خنجر‘ اور ’آستیں کا لہو‘ دونوں پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ  تعلیمی نظام اور تعلیمی نصاب دونوں میں کی جانے والی تبدیلیوں کی اصل شان نزول کیا ہے؟

بلاشبہہ یہ تبدیلیاں ۱۱ستمبر کے واقعے کے بعد ہی شروع ہوگئی تھیں اور ان میں سے کچھ جنرل پرویز مشرف کے اپنے سیکولر اور لبرل رجحانات کے زیراثر بھی ہوسکتی ہیں لیکن تعلیم کو سیکولرائز کرنے کی مہم میں تیزی ۱۱ستمبر کے بعد کی امریکی پالیسیوں کے نتیجے میں آئی ہے۔

اس پس منظر میں کچھ تبدیلیاں تو وہ ہیں جو خاموشی سے وزارتِ تعلیم کے ذریعے لائی جارہی تھیں لیکن ایک دھماکا اس رپورٹ کی اشاعت سے ہوا جسے مغربی سرمایے کے بل بوتے پر ایک این جی او نے سیکولر اور لبرل دانش وروں کے ایک گروہ سے تیار کروایا اور The Subtle Subversionکے نام سے یہ رپورٹ اے ایچ نیر اور احمدسلیم کی ادارت میں Sustainable Development Policy Institute (SDPI)نے شائع کی جس پر وزارت تعلیم کی ایک کمیٹی نے باقاعدہ غور کیا۔ خدا بھلا کرے ان اہلِ قلم اور پارلیمنٹ کے ارکان کا جنھوں نے اس پر بروقت گرفت کی اور وزارتِ تعلیم کو ایک دفاعی پوزیشن میںڈال دیا۔ یہ رپورٹ اس ذہن کی کھلی عکاسی کرتی ہے جو تعلیم کے نظام کو کلی طور پر غیراسلامی بناکر مغرب کے لبرل فریم ورک میں لانا چاہتا ہے اور جو امریکا کے اصل اہداف کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔ اس گروہ نے کوشش تو یہ کی تھی کہ وزارتِ تعلیم کے ذریعے اپنے مذموم اہداف کو حاصل کر لے لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک سنت ہے کہ وہ شر سے کبھی کبھی خیر بھی نمودار کرتا ہے‘ اسی طرح جس طرح رات سے دن رونما ہوتا ہے۔ اس رپورٹ کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مخالف قوتوں کا پورا کھیل سامنے آگیا اور قوم جو ایک حد تک غفلت کا شکار تھی‘ چونک اٹھی اور جو تبدیلیاں خاموشی سے لائی جارہی تھیں وہ ایک دم سب کے سامنے آگئیں۔ اس سلسلے میں روزنامہ نواے وقت و روزنامہ انصاف اور اسلامی جمعیت طلبہ ‘ اسلامی جمعیت طالبات اور تنظیم اساتذہ نے بھی بہت کلیدی کردار ادا کیا۔

اس طرح نظام تعلیم اور نصابِ تعلیم کا مسئلہ قومی بحث اور پارلیمنٹ میں احتساب کا موضوع بن گئے۔ ہم نے جو پس منظر پیش کیا ہے اس میں اس بحث کی اصل معنویت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ ہم آیندہ شمارے میں ان شاء اللہ‘ ایس ڈی پی آئی کی رپورٹ اور وزارتِ تعلیم کے مختلف اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیں گے۔

مسلم حکمرانوں کی بے حسی!

حضرت علی ؓ کا مشہور فرمان ہے کہ کفر کی حکومت چل سکتی ہے مگر ظلم کی نہیں۔ اللہ تعالیٰ ایک حد تک ہی ظالم کو مہلت دیتا ہے‘ پھر جلد ہی اس کا اصل چہرہ بے نقاب ہو جاتا ہے اور بالآخر زمین اس کے پائوں تلے سے نکل جاتی ہے۔

امریکا کی موجودہ قیادت کی رعونت ہی اس کے زوال کو قریب لانے کے لیے کیا کچھ کم تھی کہ اب اس کے ظلم اور انسانیت سوز حرکتوں کی ایک نہ ختم ہونے والی داستان ہے جس نے پوری دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ہے اور بش انتظامیہ کی چولیں ہلنے لگی ہیں۔

جن کی نگاہ امریکا کی تاریخ پر ہے وہ جانتے ہیں کہ جمہوریت‘ قانون کی بالادستی‘ احترام انسانیت‘ بنیادی حقوق اور آزادیوں کے علم برداروں کے دعووں اور حقیقت میں کتنا بُعد رہا ہے اور امریکا کے اصل باشندوں (ریڈ انڈینز) سے لے کر ایفرو امریکنوں اور دوسری غیرملکی اقوام کے ساتھ تاریخ کے مختلف ادوار میں کیا رویہ اختیار کیا گیا ہے لیکن جو تصویر تہذیب نو کی علم بردار اس واحد سوپر پاور کی عراق کی کارگزاریوں کی صورت میںاب سامنے آرہی ہے وہ شرمناک ہی نہیں‘ انسانیت کے لیے ہولناک بھی ہے۔ ابوغریب کے جیل خانے کی جو تصاویر گذشتہ چند ہفتوں میں ساری دنیا کے سامنے آئی ہیں‘ ان میں مظلومیت اور بربریت کے وہ مناظر چشم انسانیت نے دیکھے ہیں جو دلوں ہی کو نہیں پھاڑ دیتے بلکہ مستقبل کی کسی بہت بڑی تباہی کی بھی پیش گوئی کرتے ہیں۔ عراق کے معصوم مردوں‘ عورتوں اور جوان بچوں کو جس سفاکی اور بربریت سے جسمانی اور جنسی تعذیب کا نشانہ بنایا گیا ہے وہ ظلم‘ بے حیائی‘ فسطائیت اور بہیمیت کی تاریخ میں ایک تاریک ترین اور خون آشام باب کا اضافہ ہے۔ امریکی افواج نے اسلام اور عربوں سے نفرت کا جس طرح اظہار کیا ہے اور تشدد اور تعذیب کے جو ہتھیار ابوغریب جیل خانے کے بے بس قیدیوں پر استعمال کیے ہیں وہ جنگی جرائم کی بدترین مثال ہیں اور ان سے امریکی فوج اور اس کی قیادت کی ذہنی‘ اخلاقی حالت کی جو تصویر دنیا کے سامنے آئی ہے وہ اتنی شرمناک ہے کہ الفاظ بیان سے قاصر ہیں۔پال بریمر جو عراق کا امریکی وائسرائے ہے وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوا ہے کہ:

جو کچھ ہوا ہے اس کا بیان کرنا ہولناک ہے‘ ناقابل برداشت‘ غیر انسانی اور انسانی شرف‘ عالمی امن اور اخلاقی اقدار کے خلاف۔

لیکن افسوس کہ اس اعتراف کے باوجود کہ اس کی اپنی راجدھانی میں اس کی اپنی افواج کے کیا کارنامے ہیں‘ نہ اسے استعفا دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور نہ فوج کے کمانڈر‘ وزیردفاع اور خود جارج بش کو--- حالانکہ جو کچھ امریکی افواج نے کیا ہے اس کی ان سب پر اخلاقی ہی نہیں قانونی ذمہ داری بھی آتی ہے اس لیے کہ اوپر سے آئے ہوئے احکامات کی پیروی (chain of command)  کے اصول کے تحت اور ان بیانات کی روشنی میں جو چند فوجیوں نے اپنے کیریئر کو خطرے میں ڈال کر دیے ہیں‘ کہ یہ سب کچھ ایک باقاعدہ اور طے شدہ پالیسی کاحصہ تھا اور اوپر کے احکام یا کم از کم واضح اشاروں اور اجازتوں پر مبنی تھا۔

جو کچھ ابوغریب کے عقوبت خانے میں ہوا ہے اس کی کچھ تفصیل اخبارات میں آگئی ہے اور ابھی اس سے زیادہ اندوہناک کارگزاریوں کی تصاویر حکومت اور کچھ دوسرے اداروں کے قبضے میں ہیں وہ بھی شاید آہستہ آہستہ سامنے آجائیں گی۔ ہم ان تفصیلات کویہاں بیان کرنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔ البتہ چند غورطلب امور ہیں جن کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں۔

اولاً جو کچھ ابوغریب میں ہوا‘ وہ صرف اس ایک عقوبت خانے تک محدود نہ تھا بلکہ سارے شواہد اشارہ کرتے ہیں اور ریڈکراس‘ ہیومن رائٹس واچ اور غالباًخود امریکی فوج کی خفیہ رپورٹوں سے یہ ثابت ہے کہ ہزاروں افراد اس ظلم وستم اور ذلت و تعذیب کا نشانہ بنائے گئے ہیں۔ یہ سب وہ افراد تھے جن کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوا‘ صرف تفتیش کے لیے ان کو ان مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ ظلم صرف ان انسانوںہی پر نہیں بلکہ پوری انسانیت پر ہوا ہے اور امریکا کی موجودہ قیادت انسانیت کی مجرم اور سزا کی مستوجب ہے۔

ثانیاً اس سے جدید تہذیب کے علم برداروں کے اخلاق اور کردار کی جو تصویر سامنے آتی ہے‘ وہ انتہائی گھنائونی ہے اور جو خوب صورت لبادے اس تہذیب نے اوڑھ رکھے ہیں‘ وہ اب تارتار ہوگئے ہیں۔ کوئی معذرت اور کوئی تاویل اس کے کریہہ چہرے پر پردہ نہیں ڈال سکتی۔ بلکہ جارج بش اور ان کے وزیردفاع ڈونلڈرمزفیلڈ نے جو سہارا لیا ہے کہ یہ چند افراد کی غلطی ہے اس سے بڑا جھوٹ اور دھوکا اور کوئی نہیں ہوسکتا جو اس قیادت کے اخلاقی دیوالیے پن کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ اس میں غلطی کو تسلیم کرنے کی اخلاقی جرأت بھی نہیں۔

ثالثاً ان واقعات سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اب عالمی انصاف اور انسانیت کے معاملات کو کسی قاعدے اور قانون کے مطابق طے کرنے اور جواب دہی کا کوئی نظام باقی نہیں رہا ہے اور دنیا ایک جنگل کے قانون کے دور کی طرف واپس جارہی ہے۔ یہ صورت حال سارے انسانوں کے لیے ایک انتباہ (wake up call) کا درجہ رکھتی ہے کہ آج جو کچھ عراق میں ہو رہا ہے کل یہی سب کچھ دوسروں کے ساتھ ہونے والا ہے۔ اور اگر کسی کو اپنی عزت‘ آزادی اور آبرو کی فکر ہے تو آج ظالم کا ہاتھ روکے اور ظلم کی اس روش کو برائی کے اولیں اظہار ہی پر کچلنے کے اصول پر اس ظلم کی مزاحمت کرے اور بالآخر نیست و نابود کرنے کی کوشش کرے۔

استعمار، ظلم اور تعذیب کے اس گھنائونے باب کا آخری حملہ‘ بلکہ حملہ وہ اطلاع ہے جو ۲۵مئی کے اخبارات کی زینت ہے کہ امریکی حکومت نے قید خانوں اور تفتیش کے مقامات کی فوٹوبندی اور فلم بندی پر آیندہ کے لیے پابندی لگا دی ہے۔ اخلاقی زوال کی اس سے زیادہ انتہا کیا ہوگی کہ جرم کی بیخ کنی کے بجاے جرم کو جاننے کے ذرائع کو ختم کیا جائے۔

اس پس منظر میں ۲۲ مئی کو لندن میں وہاں کے میئر کین لیونگسٹن کی قیادت میں ایک عوامی مظاہرے کا انعقاد تاریکی میں روشنی کی کرن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں لیبرپارٹی کے سینیرلیڈر ٹونی بین اور رکن پارلیمنٹ جارج گیلووے کی تقاریر یہ امید دلاتی ہیں کہ انسانیت کا ضمیر مردہ نہیں ہوا۔ کین لیونگسٹن نے اس موقع پر کہا ہے کہ:

ان ہولناکیوں کو ختم کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہماری افواج کو عراق سے فی الفور واپس بلا لیا جائے‘ اور بش پر اُن جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جائے جو اس کی نگرانی میں ہوئے اور اس نے شروع کروائے۔

جارج گیلووے نے کہا:

ان کا کہنا تھا کہ وہ آزادی دلانے آرہے ہیں لیکن وہ تعذیب کا نشانہ بنانے والے ثابت ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جمہوریت لائیں گے لیکن اس کے بجاے وہ خونخوار کتے اور قاتلوں کے کن ٹوپ لائے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ انسانی حقوق لارہے ہیں لیکن اس کے بجاے وہ قیدیوں کی خوراک کو بیت الخلا میں پھینکنے اور وہاں اسے انسانوں کو کھانے پر مجبور کرنے والے ثابت ہوئے۔

ٹونی بین نے کہا:

امریکی اور برطانوی حکومتیں جارحیت کی مرتکب ہوئی ہیں۔ انھوں نے عراق پر ناجائز طور پر قبضہ کیا ہے۔ تعذیب قبضے کا ناگزیر حصہ ہے۔

لندن میں عراق میں کیے جانے والے انسانیت سوز مظالم کے خلاف عوامی ردعمل رونما ہورہا ہے لیکن عالمِ اسلام اور خصوصیت سے اس کی حکومتیں سو رہی ہیں۔ کسی کو اتنی توفیق بھی نہیں ہوئی کہ امریکا کی کھل کر مذمت کرتا‘ امریکی سفیروں کو بلا کر اپنی اور اپنے عوام کے غم و غصے کا موثر اظہار کرتا‘ امریکا سے تعلقات پر نظرثانی کا عندیہ دیا جاتا‘ امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کی تحریک چلائی جاتی‘ یو این او کی سلامتی کونسل کا خصوصی اجلاس طلب کیا جاتا‘ جنرل اسمبلی کا اجلاس بلایا جاتا‘ او آئی سی اپنا سربراہی اجلاس بلاتی‘ مسلم ممالک میں امریکا کے خلاف عوامی مظاہرے ہوتے اور امریکا نے عراق میں جو رویہ اسلام‘ مسلمانوں‘ مسلمانوں کے مقدس مقامات اورعرب عوام کے ساتھ اختیار کر رکھا ہے‘ اس کے خلاف عوامی اور سرکاری سطح پر تحریک کا آغاز کیا جاتا۔ ہمیں یقین ہے کہ اللہ کا قانون تو ان شاء اللہ ضرور اپنے وقت پر اپنا اظہار کرے گا اور ظالم کی کشتی ڈوب کر رہے گی لیکن کیا مسلمان اُمت اور اس کی قیادتیں محض خاموش تماشائی بنی رہیں گی؟--- ہم اپنے ضمیر‘اپنے عوام‘ تاریخ اور سب سے بڑھ کر اپنے اللہ کو کیا جواب دیں گے؟

بھارت کی چودھویں لوک سبھا کے انتخابات مقررہ وقت سے چھ ماہ قبل اپریل اور مئی ۲۰۰۴ء میں چار مرحلوں میں منعقد ہوئے اور ۱۲ مئی کو سامنے آنے والے نتائج نے بھارت ہی نہیں پوری دنیا کو چونکا دیا۔ بی جے پی اور اس کے اتحادی جو اپنی متوقع فتح کے نشے میں چور تھے‘ خوابِ غفلت سے بیدار ہوئے۔ کانگریس اور اس کے اتحادی جنھیں فتح کی کوئی امید نہ تھی اولاً ۲۱۷ نشستیں لے کر اور پھر دوسری جماعتوں کی تائید سے‘ لوک سبھا میں ۳۲۰ ارکان کی تائید حاصل کر کے وزارت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ اس انتخاب کا گہری نظر سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

بھارت‘ پاکستان اور مغربی دنیا کے اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں تبصروں کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ ہم بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اس اہم تبدیلی کے چند ضروری پہلوئوں پر کلام کریں اس لیے کہ پاکستانی حکومت کے ذمہ دار حضرات کے بیانات سے احساس ہوتا ہے کہ وہ ابھی تک اس غیر متوقع حادثے کے مالہ اور ماعلیہ کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔

جمہوریت میں اصل فیصلہ کن قوت عوام کی رائے اور ان کا فیصلہ ہوتی ہے۔ بھارت سے ہمیں جو بھی شکایات ہوں لیکن چار باتیں ایسی ہیںجن کا اعتراف حق پسندی کا تقاضا ہے۔ اول: وہاں سیاست میں کرپشن‘ پارٹیوں کے انتخابات میں دھاندلی اور مفاد پرستی کی شکایات بھی موجود ہیں اور اقلیتوں خصوصیت سے مسلمانوں اور پست طبقوں سے امتیاز برتا اور ان کو خوف زدہ کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود بحیثیت مجموعی ملک میں انتخابات منصفانہ ہوتے ہیں (ریاست جموں و کشمیر کو چھوڑ کر کہ وہ ملک کا حصہ نہیں‘ ایک مقبوضہ ریاست ہے)۔ اس کی بڑی وجہمسلسل انتخابات کا انعقاد اور ایک مختصر سے عرصے کے انحراف (اندرا گاندھی کے دور کی ایمرجنسی) کے سوا انتخابی عمل کے دستور کے مطابق کام کرنے اور ان کے نتائج کو بہ رضا و رغبت قبول کرنے کی روایت قائم ہوگئی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ عوام میں بھی اپنے حق کا احساس اور اپنی قوت کے استعمال کا دم خم پیدا ہوگیا ہے۔ حتیٰ کہ مسلمانوں نے بھی تمام تحدیدات اور ترغیبات کے علی الرغم اپنے ووٹ کی قوت اور اہمیت کو محسوس کرلیا ہے اور اسے استعمال بھی کیا ہے۔ فوج اور اسٹیبلشمنٹ اپنی حدود کے اندر ہے اور یہی وہ چیز ہے جس نے وہاں جمہوریت کے پودے کو پنپنے اور ایک سایہ دار درخت بننے کا موقع دیا ہے۔ اس سے اس اصول کی صداقت بھی ایک بار پھر واضح ہوجاتی ہے کہ ساری خرابیوں کے باوجود جمہوریت کی کمزوریوں اور خرابیوں کا حل مزید جمہوریت اور اس تجربے کو مزیدمستحکم کرنے میں ہے‘ مسیحائوں کی تلاش اور وقتی ٹوٹکے (short cuts) آزمانے میں نہیں کیوں کہ ان کا نتیجہ جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس میں پاکستان کے طالع آزمائوں کے لیے بڑا سبق اور پاکستانی عوام اور سیاسی جماعتوں کے لیے بڑا مثبت پیغام بلکہ راہ نمائی ہے۔

دوم: جمہوریت کے فروغ اور انتخابات کو ایک فیصلہ کن نظام بنانے میں بڑا دخل الیکشن کمیشن کی آزادی‘ اس کے اختیارات کی وسعت‘اور بحیثیت مجموعی الیکشن کمیشن کی بے داغ کارکردگی پر بھی ہے۔ الیکشن کمیشن نے اپنے کو سرکاری دبائو اور سیاسی جماعتوں کے اثرات سے محفوظ رکھا ہے۔ ۷۰۰ کروڑ ووٹروں سے ربط‘ ان کے حق راے دہی کے صحیح استعمال کے لیے مناسب انتظامات‘ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا بے لاگ تعاون‘ اور جدید ترین  مشینوں اور طریقوں کا استعمال‘ ہر حوالے سے اس نے اپنی کارکردگی ثابت کی ہے۔ ان انتخابات میں الیکٹرانک ووٹ کا طریقہ استعمال کیا گیا اور حقیقت یہ ہے کہ امریکا سے بہتر انتظامات کیے گئے۔ صدربش کے ساڑھے تین سال پہلے منعقد ہونے والے انتخاب میں الیکٹرانک نظام نے خاصی جانب داری کا مظاہرہ کیا تھا مگر بھارت جیسے کم ترقی یافتہ ملک نے شفاف طریقے سے اپنی خدمات انجام دیں۔ ووٹر کو صرف اپنے مطلوب نشان پر انگلی رکھنا تھی‘ باقی سارا کام کمپیوٹر نے انجام دے دیا۔ اس کامیابی میں الیکشن کمیشن اور اس کی کارکردگی کا بڑا دخل ہے۔

سوم: بھارت میں عدلیہ کا کردار بھی اہم ہے جس نے انسانی حقوق کے تحفظ اور سیاسی جنبہ داری کے ہر سائے سے اپنے کو محفوظ رکھتے ہوئے دستور کے مطابق قانونی نظام کو ترقی دینے میں بڑا شاندار کردار ادا کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی پشت پر بھی عدلیہ کی آزادی اور قوت موجود ہے۔

چہارم: ان کے ساتھ بھارت میں پریس کی آزادی نے بھی جمہوریت کے فروغ میں بڑا اہم حصہ لیا ہے۔ پریس اور میڈیا کا اپنا اپنا تعصب اپنی جگہ‘ اسی طرح کچھ لوگوں کا اپنے زعم میں قومی مفاد کی خاطر خاص عناصر کو زیادہ اہمیت دینا بھی ایک حقیقت ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ بھارتی پریس نے دوسرے نقطہ نظر کی اشاعت اور ابلاغ میں بھی آزادی سے کام لیا ہے۔

ان چاروں عناصر کی نشان دہی کے ساتھ اس بات کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ سب سے اہم کردار عوام کا ہے کہ وہ اپنے ووٹ کی قوت سے آگاہ ہو رہے ہیں اور اس کے استعمال کی جرأت اور سلیقے کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ بھارتیہ جنتاپارٹی نے پروپیگنڈے کی قوت کو بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ اس کا پورا انتخابی بجٹ بی بی سی کے ایک جائزے کے مطابق ۵۰۰ کروڑ روپے کا تھا جو پاکستان کے پورے سالانہ بجٹ کا ۷۰ فی صد ہوتا ہے۔ صرف میڈیا کے اشتہارات پر بقول کلدیب نیر ۲۰ ملین ڈالر خرچ کیے گئے۔ لیکن بھارتی ووٹر نے محض میڈیا کی چکاچوند میں ’روشن بھارت‘  (Shining India) پر ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ اس کا کریڈٹ عوام ہی کو جاتا ہے جن میں تعلیم اور خواندگی کا تناسب پاکستان سے خواہ تھوڑا سا بہتر ہو‘ لیکن عالمی سطح سے وہ ابھی بہت پیچھے ہیں۔

انتخابات کے مثبت پہلوئوں میں انتخابی نتائج کو سب کا خوش دلی سے قبول کرنا اور انھیں   ناکام کرنے یا ہارس ٹریڈنگ اور مصنوعی اکثریت سازی کے ذریعے عوام کے فیصلے کو ہائی جیک کرنے کی کوشش کا نہ ہونا بھی جمہوری اداروں کے بلوغ (maturity)کا اظہار ہے۔

ان مثبت پہلوئوں کے ساتھ یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ اپنے تمام سیکولرزم‘ لبرلزم اور قانون کے احترام کے دعووں کے ساتھ جس طرح بی جے پی نے سونیا گاندھی کے وزیراعظم بننے کا راستہ روکا اور انتہاپسندی کے ساتھ ہندو شیونزم کا مظاہرہ کیا‘ تشدد اور خلفشار کے سمندر میں ملک کو ڈبونے اور معاشی انتشار اور بحران کی فضا پیدا کی‘ وہ جمہوریت کے چہرے کے ایسے بدنما داغ ہیں جن پر نظر رکھے بغیر بھارت کی سیاسی نفسیات کا صحیح ادراک ممکن نہیں۔

انتخابی نتائج کے اس پہلو پر بڑے شرح و بسط کے ساتھ کلام ہوا ہے کہ بی جے پی کی معاشی حکمت عملی بری طرح ناکام رہی ہے۔ یہ حکمت عملی وہی ہے جس پر ہم بھی آنکھیں بند کرکے عمل کر رہے ہیں۔ ہماری معیشت کی شرح نمو اب ۲ئ۵ یا ۸ئ۵ فی صد ہے مگر بھارت کی ۸فی صد سالانہ تھی۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر ۱۲ بلین ڈالر ہیں ‘بھارت کے ۱۱۸ بلین ڈالر تھے۔ ہماری زراعت ۲ فی صد اور بھارت کی ۹ فی صد کی رفتار سے ترقی کر رہی ہے۔ لیکن اس تمام ترقی کا فائدہ بمشکل ۵ فی صد اہل ثروت کو ہو رہا تھا اور عوام کی اکثریت اس کے ثمرات سے محروم تھی۔ آندھراپردیش جسے دنیا میں کامیابی کی مثال( success story )کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا‘ جہاں کی IT کی برآمدات ۶ ارب ڈالر سالانہ کو چھو رہی تھیں اور جس کے وزیراعلیٰ  چندرا بابو نائیڈو کو بل کلنٹن اور بل گیٹس سینے سے لگا رہے تھے‘ ان کی وزارت خس و خاشاک کی طرح بہہ گئی۔ اس سے لبرل معیشت‘ نج کاری اور گلوبلائزیشن کے سہارے معاشی پالیسی سازی کے افلاس کا پتا چلتا ہے۔ اس میں پاکستان اور دوسرے ترقی پذیر ملکوں کے پالیسی سازوں کے لیے عبرت کا بڑا سامان ہے۔ یہی کچھ ارجنٹاٹنا میں ہوا‘ یوروگوا میں ہوا اور اب ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں ہوا۔ کیا اب بھی ہمارے معاشی معالج اسی نسخے پر عمل جاری رکھیں گے؟

بھارت کے انتخابات کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ یک پارٹی یا دو پارٹی نظام کے دن گنے جاچکے ہیں۔ اب اتحادوں کی سیاست ہے اور اس میں عوامی مسائل کے ساتھ مقامی مسائل نے بڑی اہمیت اختیار کرلی ہے۔ دونوں ہی بڑی پارٹیوں کو علاقائی پارٹیوں کو ساتھ لے کر چلناپڑا ہے۔ ایک اتحاد میں ۲۷ پارٹیاں ہیں تو دوسرے میں ۲۰۔ کانگرس نے سابقہ انتخاب میں ناکامی سے بروقت سبق سیکھا اور اتحاد کی سیاست کا نقشہ بڑی محنت اور چابک دستی سے بنایا‘ خصوصاً جنوب کی علاقائی جماعتوں کو ساتھ ملا کر اس نے ایک کامیاب حکمت عملی وضع کی۔ اسی طرح محروم طبقات اور اقلیتوں کو اس نے سمجھ داری سے اپنی طرف ملتفت کیا اور اس کا اسے بھرپور فائدہ پہنچا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کا زوال فروری ۲۰۰۲ء میں شروع ہوگیا تھا جب اس نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام اور نسل کشی کے سوچے سمجھے منصوبے پر منظم طریقے سے عمل کیا اور پھر گجرات کے انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھایا۔ بھارت کا مسلمان پہلے ۲۴ سال پاکستان کی طرف دیکھتا رہا۔لیکن سقوطِ ڈھاکہ کے سانحے نے اسے اس طرف سے مایوس کر دیا تو اسے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا خیال آیا۔ اب ہندو انتہاپسندی نے اس کی کمر توڑنے کی کوشش کی۔ اس  سلسلے میں بابری مسجد کی شہادت اور گجرات کے مسلم کُش فسادات اہم ترین حربے تھے۔ لیکن حالیہ انتخابات میں مسلم ووٹر نے پہلی بار ایک واضح انتخابی حکمت عملی پر عمل کیا‘ اس نے اپنے ووٹ کی قوت کو کامیابی سے استعمال کیا۔ بی جے پی کے نمایشی اقدامات کے باوجود جن میں مولاناابوالکلام مرحوم کی نواسی اور راجیہ سبھا کی سابق مسلمان ڈپٹی چیئرپرسن نجمہ ہبت اللہ کی تائید اور جامع مسجد دہلی کے امام کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے‘ مسلمان ووٹر نے تقریباً پورے ملک میں اپنا ووٹ صرف اسی نمایندے کو دیا جس کے بارے میں خیال تھا کہ وہ بی جے پی کے نمایندے کو شکست دے گا۔ اس طرح ۱۴فی صد ووٹروں کے فیصلہ کن ووٹ نے بیسیوں انتخابی حلقوں میں پانسہ پلٹ دیا۔ کانگریس کو اس کا احساس ہے اور یہی وجہ ہے بھارت کی تاریخ میں پہلی بار ۶۷ افراد کی کابینہ میں ۷ مسلمان وزرا شامل کیے گئے ہیں۔ اگر مسلمان اپنے تشخص کی حفاظت کے ساتھ اچھی انتخابی حکمت پر مستقبل میں بھی عمل پیرا ہوتے ہیں تو توقع ہے کہ وہ بھارت کی سیاست اور اجتماعی زندگی میں اپنا قرارواقعی مقام حاصل کرسکیں گے۔

ان انتخابات کا ایک اور پہلو (جس کے اثرات شاید صرف بھارت تک ہی محدود نہ رہیں) بائیں بازو کی جماعتوں کا تیسری سیاسی قوت بن کر ابھرنا اور گلوبلائزیشن کے عالمی سرمایہ داری کے منصوبے کو روک لگانے کے عزم کا اظہار ہے۔ لاطینی امریکا میں بھی یہ رجحان واضح ہورہا ہے اور امکان ہے کہ برطانیہ میں لیبر پارٹی کی بے وفائی (betrayal) کے علی الرغم یورپ کے دوسرے ممالک میں یہ رجحان تقویت پائے گا اور خود برطانیہ میں لیبر کی سیاست میں آیندہ تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ علاقائی اور عالمی دونوں تناظر میں یہ تبدیلیاں گہرے مطالعہ اور صحیح  ردعمل کی متقاضی ہیں۔

پاک بھارت تعلقات کا مسئلہ بھی بہت گہرے غوروفکر کا تقاضا کرتا ہے۔ انتخاب سے پہلے ہماری قیادت نے اپنے سارے انڈے بی جے پی اور زیادہ صحیح الفاظ میں اٹل بہاری واجپائی کی ٹوکری میں ڈال دیے اور ان کے لیے دعائیں بھی شروع ہوگئیں۔ اسی طرح جس طرح وزیراعظم صاحب نے اس وقت جب ساری دنیا بش پر لعنت بھیج رہی ہے‘ ان کے لیے دعائوں کا تحفہ پیش فرمایا ہے۔ یہ سادگی نہیں ڈپلومیسی کی زبان میں نہایت بھیانک غلطیاں (blunders) ہیں جن سے احتراز کرنا چاہیے۔

انتخابی نتائج کے بعد سونیا گاندھی اور ڈکشٹ کے بیانات کا سہارا لیا جانا شروع ہوگیا ہے اور ایک بار پھر وہی مذاکرات کی رٹ لگائی جا رہی ہے حالانکہ ابھی بھارت میں وزارت نے اپنے قدم بھی نہیں جمائے ہیں۔ ایسی عجلت بڑی عاقبت نااندیشانہ سیاست ہے۔ کیا ہم صبروہمت کا دامن بالکل ہی چھوڑ چکے ہیں؟

کانگریس اور اس کے اتحادیوں کی سیاست کا بغور تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ حکومت کمزور ہے اور جو تھوڑی بہت گنجایش موجود تھی‘ ایک اقلیتی فرقے کے وزیراعظم کی وجہ سے وہ اور بھی کم ہوگئی ہے۔ کانگریس کی صدر بھی بھارت نژاد نہیں۔ سونیا گاندھی کی وزارت عظمیٰ کا راستہ روکنے کے لیے بی جے پی کی مرکزی قیادت نے جس طرح حلف برداری کی تقریب کے بائیکاٹ سے لے کر بڑی بڑی سورما خواتین کے استعفوں‘ سر کے بال منڈوانے اور ماتمی اجتماع کی دھمکیاں دیں‘ ان سے بی جے پی کی سیاست کے طریق واردات کو سمجھا جا سکتا ہے۔ واجپائی نے بھی ایک ہی سانس میں دوستی اور جنگ دونوں کی باتیں کی تھیں۔ اب کشمیر کے مسئلے کے منصفانہ حل کی مشکلات بڑھ گئی ہیں اس لیے کہ حکومت کی کمزوری اور اپوزیشن میں ہندو سیاست کے چیلنجوں کونظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ کانگریس کی حکومت کے ترجمانوں کی طرف سے دو اعلان بڑے اہم اور معنی خیز ہیں۔ ایک شملہ معاہدے کا اعادہ اور دوسرے دیوارِ برلن کے گرنے کی بات۔ من موہن سنگھ صاحب کا حافظہ خطا کر رہا ہے۔ دیوار برلن تو پندرہ سال پہلے گرچکی تھی اور اس کے گرنے کا تصور نہ ہونا تو بہت پہلے کی بات ہے۔ لیکن دیوار برلن کی تلمیح میں کن عزائم کا ڈھکا چھپا اعلان ہے؟ وہی جو پنڈت نہرو‘ کانگریس ورکنگ کمیٹی اور اچاریہ کرپلانی نے بھارت اور پاکستان کے دوبارہ ملنے کی توقعات کی شکل میں کیا تھا اور جن کی طرف ایڈوانی صاحب کنفیڈریشن کی بات کرکے اشارے کر رہے تھے؟ آغاز ہی ان اعلانات سے ہواہے‘ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

مذاکرات ضرور کیجیے۔ ہم سب اس کے حق میں ہیں لیکن ان سے کسی قسم کی توقع رکھنا ایک حماقت ہوگی اور ان کی توقع پر متبادل راستوں اور حکمت عملیوں سے صرفِ نظر کرنا مجرمانہ اور بھیانک غلطیوں کے ارتکاب کے مترادف ہوگا۔ پورے منظرنامے کو سامنے رکھ کر گہرے سوچ بچار اور ضروری حکمت عملیاں تیار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ کشمیر میں اگر سیاسی اور مزاحمتی دبائو ذرا بھی کم ہوتا ہے تو مذاکرات کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ آخر سورن سنگھ بھٹو مذاکرات  بھی کانگریس ہی کے زمانے میں ہوئے تھے۔ ڈکشٹ صاحب اسلام آباد میں سفیر بھی رہ چکے ہیں۔ جامع مذاکرات(composite dialouge) کا آغاز بھی کانگریس ہی کے زمانے میں ہوا تھا جوآگے نہ بڑھا تھا۔ اب بھی امن کے قیام اور معنی خیز مذاکرات کے انعقاد کی ہرکوشش کرنا ہمارا فرض ہے مگر سمجھ داری‘ صبر‘ متانت اور قومی وقار کے ساتھ۔ اس موقع پر قائداعظم کے دو ارشادات اگر سامنے رہیں اور ان سے کچھ روشنی بھی حاصل کرلی جائے تو بڑا مفید ہوگا۔ قائداعظم نے ۱۵ اکتوبر ۱۹۳۷ء کو مسلم لیگ کے لکھنؤ کے اجلاس میں بڑی پتے کی بات کہی تھی:

کمزور فریق کی جانب سے امن و صلح کی پیش کش کا مطلب ہمیشہ کمزوری کا اعتراف اور جارحیت کو حملہ کرنے کی ترغیب ہوتا ہے۔ تمام تحفظات اور معاہدات‘ اگر ان کی پشت پر طاقت نہ ہو‘ محض کاغذ کے پرزے ہوتے ہیں۔ سیاست کا مطلب انصاف کے نعروں یا رواداری یا خیرسگالی کی چیخ پکار پر بھروسا کرنا نہیں۔ سیاست کا مطلب ہے طاقت اور صرف طاقت۔

۱۱ مارچ ۱۹۴۸ء کو سوئٹزرلینڈ کے صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے قائداعظم نے جو بات کہی وہ آج ۱۹۴۸ء سے بھی زیادہ بامعنی اور برمحل ہے۔

سوال: کیا امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان اور بھارت کبھی اپنے اختلافات اور تنازعات پُرامن طور پر حل کرلیں گے؟

جواب: بشرطیکہ بھارتی حکومت احساسِ برتری ختم کر دے‘ پاکستان کو برابر کی حیثیت دے اور اصل حقائق کا سامنا کرے۔

سوال: کیا بین الاقوامی معاملات میں پاکستان اور بھارت مل جل کر کام کریں گے اور کیا بیرونی حملے کی صورت میں بّری اور بحری محاذوں پر مشترکہ دفاع کریں گے؟

جواب: مجھے ذاتی طور پر ذرا بھی شبہہ نہیں کہ ہمارے اعلیٰ ملکی مفادات کا تقاضا یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کو بین الاقوامی معاملات میں اپنا اہم کردار انجام دینے کے لیے مل جل کر کام کرناچاہیے۔ دو آزاد اور خودمختار مملکتوں کی حیثیت سے پاکستان اور بھارت کو بیرونی حملے کا مقابلہ باہمی تعاون سے کرنا چاہیے۔ لیکن اس کا دارومدار سراسر اس بات پرہے کہ پاکستان اور بھارت پہلے اپنے اختلافات اور تنازعات ختم کرلیں۔ اگر ہم پہلے اپنے گھر کو مضبوط اور استوار کرلیں   تو پھر اس قابل ہوسکتے ہیں کہ بین الاقوامی معاملات میں ثابت قدمی سے بہت زیادہ حصہ    لے سکیں۔

قائداعظم کے دونوں اقوال ان زریں اصولوں کی نشان دہی کرتے ہیں جن پر عمل کرنے سے ہماری پاک بھارت دوستی کی بنیادیں استوار ہوسکتی ہیں۔ ان کو نظرانداز کرکے جذباتی اندازمیں یا بیرونی دبائو کے تحت سیاست کاری ملک و ملّت کے لیے مہلک ہے۔

یہ وقت ہے کہ پارلیمنٹ اور تمام سیاسی اور دینی قوتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور ٹھوس بنیادوں پر خارجی اور داخلی پالیسی تشکیل دیں۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کی ٹیم کی اب تک کی کارگزاری ہر اعتبار سے سخت مایوس کن اور مستقبل کے لیے اپنے دامن میں مہیب خطرات لیے ہوئے ہے۔ کشمیر کا مسئلہ ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اور ان انتخابات کے جو اثرات اس پر مرتب ہوں گے ان کے فوری اور گہرے جائزے کی اور ایسی حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے جس سے تحریک مزاحمت کو صحیح پیغام پہنچے۔ جلدبازی میں اور وقتی مصالح یا بیرونی دبائو میں بنائی جانے والی پالیسیاں تارِعنکبوت کی طرح ہوتی ہیں۔ اس جال سے ہم جتنی جلد نکل جائیں ہمارے لیے بہتر ہے۔

مولاناابوالکلام آزاد نے ایک تقریر میں تاج محل کی تعریف میں رطب اللسان اور اس کے حسن اور دلآویزی سے مبہوت انسانوں کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ اس حسن مجسم کی جتنی تعریف چاہے کرلو لیکن یہ نہ بھولو کہ اس کی شان و شوکت اور دلربائی مرہون منت ہے ان نظر نہ آنے والے پتھروں پر جو اس کی بنیاد میں پیوستہ ہیں اور فنِ تعمیر کے اس عجوبے کو اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہیں--- کشمیر کی تحریکِ آزادی کا معاملہ بھی کچھ اس سے مختلف نہیں۔ ۱۹۸۰ء کے وسط میں مقبوضہ کشمیر میں جو تحریکِ مزاحمت شروع ہوئی‘ اور ۱۹۸۹ء کے انتخابی معرکے کے بعد جس سیاسی جدوجہد نے جہاد آزادی کا روپ دھارا‘ اس کی قیادت اگر حزب المجاہدین اور دوسری جہادی تنظیمیں کر رہی ہیں‘ اور اس کی سیاسی رہنمائی کی سعادت سید علی گیلانی اور ان کے   رفقاے کار کو میسر آئی ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے پیچھے کئی اہم شخصیات کی وہ مساعی ہیں جو تاج محل کی نیو کے پتھروں کا درجہ رکھتی ہیں اور اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ اس تاریخی تحریک کی   صورت گری میں ان کا بڑا حصہ ہے--- اور ان کا مقام اس سے اور بھی بلند ہوجاتا ہے کہ انھوں نے ساری خدمات اللہ کے لیے اور اپنی مظلوم قوم کی آزادی کے حصول کے لیے انجام دیں اور ہر نام و نمود سے بالا ہوکر!

مولانا عبدالباری مرحوم اس تحریکِ مزاحمت و جہاد کے گم نام بانیوں میں سب سے نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ مولانا عبدالباری ہی نے اس جدوجہد کی سرپرستی کے لیے مولانا سعدالدین مرحوم کو آمادہ کیا۔ ۱۹۸۰ء میں انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں تین ہفتے گزارے۔ کام کا ایک نقشہ ان کے ذہن میں تھا۔ وہاں اسلامی جمعیت طلبہ کے نوجوانوں اور جماعت اسلامی کی قیادت سے تحریکِ آزادی کے لیے ایک نئی حکمت عملی پر افہام و تفہیم کی فضا پیدا کی۔ نئے خطوطِ کار مرتب کیے گئے۔ نوجوانوں نے کام شروع کر دیا۔ پھر ۱۹۸۳ء میں مولانا سعدالدین پاکستان تشریف لائے اور تحریک آزادی کے سلسلے میں اعلیٰ ترین سطح پر مشورے ہوئے اور بالآخر چار پانچ سال کی تیاری کے بعد ۱۹۸۸ء میں تحریک نے نئی کروٹ لی--- نوجوانوں میں ڈاکٹر ایوب ٹھاکر‘ ڈاکٹر غلام نبی فائی‘ تجمل حسین اور ان کے رفقا کا کردار سب سے اہم تھا تو بزرگوں میں مولانا سعدالدین‘ سید علی گیلانی اور اشرف صحرائی کا--- اور ان سب کے پیچھے جس شخص نے خاموشی‘ حکمت اور لگن کے ساتھ اس تحریک کے دروبست کی شیرازہ بندی کی وہ مولانا عبدالباری تھے‘ جو اس تحریک کو خاک و خون کی منزلیں طے کرتے دیکھتے ہوئے اور اس کے لیے دعائیں کرتے ہوئے ۲۶ فروری ۲۰۰۴ء کو اس دارفانی سے اپنے رب حقیقی کی طرف رخصت ہوگئے--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون۔

مولانا عبدالباری نے اکتوبر ۱۹۱۹ء میں وادی کشمیر کی تحصیل باندی پور (بارہ مولہ) کے ایک معزز دینی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ۱۸ سال کی عمر میں جموں و کشمیر کی آزادی کی تحریک میں شرکت اختیار کی‘ آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس میں شرکت کی‘ اور تحریک کے ہرمرحلے میں   مردانہ وار شریک رہے۔ ۱۹ جولائی ۱۹۴۷ء کو جس اجلاس میں الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کی گئی ‘اس میں وہ بھی شریک تھے۔ ۱۹۴۷ء کے آخری ایام میں پاکستان ہجرت کی۔ بالاکوٹ میں چند سال قیام کے بعد راولپنڈی منتقل ہوگئے۔

جماعت اسلامی سے ذہنی اور عملی رفاقت کے ساتھ ساتھ مسلم کانفرنس آزاد کشمیر سے وابستگی جاری رکھی اور اس کے سینیرنائب صدر اور مجلس عاملہ کے فعال رکن رہے۔ ۱۹۷۴ء میں جب جماعت اسلامی آزاد کشمیر قائم ہوئی تو اس کے صدر منتخب ہوئے اور یہ ذمہ داری۱۹۸۱ء تک انجام دی۔ جس لگن سے امیرجماعت کی حیثیت سے کام کیا‘ اسی لگن سے کرنل رشید عباس اور عبدالرشید ترابی کی امارت میں بحیثیت رکن خدمات انجام دیں۔ ۱۹۹۴ء میں کار کے ایک حادثے کے نتیجے میں صاحبِ فراش ہوگئے مگر اسلام‘ تحریک اسلامی اور تحریک آزادی کشمیر کے لیے اسی طرح فکرمند رہے اور آخری سانس تک اپنے رب سے وفاداری کا جوعہد کیا تھا اس پر قائم رہے۔

مجھے مولانا عبدالباریؒ سے ملنے کا پہلا موقع ۱۹۷۸ء میں ملا جب میں انگلستان سے اسلام آباد منتقل ہوا۔ ۱۹۷۹ء میں ایران کے دورے میں بھی ساتھ رہے۔ ان کے انگلستان اور سعودی عرب کے دوروںمیں بھی‘ مجھے ان کے ساتھ وقت گزارنے کا بھرپور موقع ملا۔ تحریکی مشاورتوں اور اجتماعات میں بھی ایک دوسرے کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں نے اس پورے عرصے میں مولانا عبدالباریؒ کو ایک بڑا صاف ستھر انسان پایا۔ اسلام کی دعوت‘ تحریک اسلامی کی خدمت‘ دینی تعلیم خصوصیت سے مساجد اور مدرسوں کی کفالت‘اور سب سے بڑھ کر جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کی جدوجہد‘ ان کے شب و روز کا مرکزومحور تھے۔ اس کے ساتھ اولاد کی تربیت اور ان کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اسلام اور تحریکِ اسلامی کے رنگ میں ڈھالنے کی کامیاب کوشش‘ ان کی مساعی کا حاصل ہیں۔ سیاسی معاملات میں ان کی رائے بڑی صائب اور خصوصیت سے کشمیر کے حالات کا تجزیہ بڑا چشم کشا ہوتا تھا۔ خود مجھے تحریکِ آزادی کشمیر میں  سراپا کھینچ لانے میں ان کا بھی حصہ ہے۔گو اس سلسلے میں مرحوم ڈاکٹر ایوب ٹھاکر‘ برادرم الیف الدین ترابی اور عزیزی حسام الدین کا بھی بڑا ہی موثر کردار رہا ہے۔

مولانا عبدالباری سے ۲۵ سالہ تعلق میں‘ میںنے محسوس کیا کہ ان کی زندگی میں تین چیزیں بڑی نمایاں ہیں۔ سب سے پہلی چیز ان کا اسلام اور تحریکِ اسلامی سے کمٹ منٹ ہے۔ انھوں نے اسلام کو ایک عقیدے اور نظامِ عبادت کے طور پر ہی قبول نہیں کیا تھا بلکہ اسے زندگی کا مشن بنالیا تھا۔ اس کے لیے جدوجہد‘ قربانی اور اس پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچانے کی تڑپ اور جذبہ‘ ان کی پہچان بن گیا تھا۔ دین کو ہر شعبۂ زندگی میں خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی‘ مساجد اور مدارس کا قیام ہو یا دعوت و تحریک کی مساعی‘ صحافت ہو یا خطابت‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو جو بھی صلاحیتیں ودیعت کی تھیں اور جو بھی وسائل عطا کیے تھے‘ ان کو انھوں نے پوری دیانت اور دلجمعی کے ساتھ اللہ کی راہ میں صرف کیا اور بڑی کشادہ دلی کے ساتھ کیا۔ اور جب قضاے الٰہی سے وہ ایک حادثے کی بناپر صاحبِ فراش ہوگئے‘ تب بھی صبروشکر کی کیفیت میں ذرا فرق نہ آیا۔ انھوں نے ہمت نہ ہاری اور ان کا دل‘ ان کے ہاتھ‘ ان کی آنکھ اور ان کی زبان‘ اللہ کے ذکر میں مصروف رہی۔

دوسری چیز پاکستان سے ان کی محبت اور شیفتگی تھی اور یہ محبت محض وطن کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ وہ پاکستان کو اسلام کا گھر اور قلعہ سمجھتے تھے اور مسجد کی طرح اس کی حفاظت اور خدمت کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے تھے۔

مولانا عبدالباری ؒکے عشق کا تیسرا مرکز و محور کشمیر اور خصوصیت سے اس کی آزادی کی تحریک اور پاکستان سے اس کے الحاق کی خواہش اور کوشش تھی۔ یہ چیز ان کو اپنی زندگی سے بھی زیادہ عزیز تھی‘ اور میں نے ان کو اس سے کبھی ایک لمحے کے لیے بھی غافل نہ پایا خواہ اس کا تعلق کشمیر کاز کو سفارتی‘ سیاسی اور اخلاقی حمایت فراہم کرنا ہو یا جہادی قوت کو متحرک کرنا ہو کشمیر کی آزادی کے لیے ان کی خدمات ایک زریں مثال کا درجہ رکھتی ہیں۔

ان تینوں مقاصد کے حصول کے لیے انھوں نے اپنی زندگی کو وقف کر دیا اور اپنی اولاد اور اپنے دوستوں‘ ساتھیوں اور رفقا کو آمادہ اور متحرک کیا۔ یہ کام انھوں نے ہمت اور بالغ نظری سے انجام دیا۔ انھوں نے اپنے مقصد کے لیے جدوجہد کرنے کے باب میں بے پناہ جرأت کا مظاہرہ کیا۔ کتنا ہی مضبوط دشمن ہو اور راہ کی مشکلات کیسی ہی کٹھن کیوں نہ ہوں‘ وہ اپنے مشن کے لیے جدوجہد میں سرگرم رہے۔ وہ مخالفتوں کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند تھے۔ انھیں اپنے اللہ پر اور اپنے مشن کی صداقت پر بھروسا تھا اور یہی ان کی طاقت اور استقامت کا راز تھا۔  اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو شرف قبولیت سے نوازے اور انھیں اپنے جوارِرحمت میں جگہ دے۔آمین!

(۲)

۱۱ فروری ۲۰۰۴ء کو جب میں آکس برج کے ہسپتال میں برادرم حاشر فاروقی اور برادرم کمال ھلباوی کے ساتھ انتہائی نگہداشت کے شعبے میں اپنے عزیز بھائی اور تحریک آزادی کشمیر کے عظیم مجاہد ڈاکٹر ایوب ٹھاکرسے ملا‘ تودل ایک خطرے کے احساس سے کانپ رہا تھا اور زبان ارض وسما کے مالک سے التجا کر رہی تھی کہ اسلام کے اس سپاہی کو نئی زندگی دے اور اس مقصد کے حصول کی جدوجہد کے لیے مزید مہلت دے جس میں اس نے اپنی طالب علمی‘ اپنی جوانی اور اپنی پوری زندگی وقف کر دی تھی۔ ایوب ٹھاکر زبان سے کچھ کہنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے مگر اصرار کر کے کاغذمنگوایا اور کانپتے ہاتھوں سے مجھے گواہ بناکر لکھا کہ میری زندگی کا مقصد اسلام‘ پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر ہے--- آکسیجن لگی ہوئی تھی لیکن قلب و نگاہ انھی مقاصد پر مرکوز تھے۔ ہاں‘ یہ بھی لکھا کہ میرے بیٹے مزمل کا خیال رکھنا‘ اسے اس راہ میں آگے بڑھنے کے لیے تربیت اور رہنمائی کی ضرورت ہے۔

ایوب ٹھاکر مرحوم سے میری پہلی ملاقات ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ کے بنگلہ دیش میں منعقد ہونے والے ایک تربیتی کیمپ میں ۱۹۸۰ء میں ہوئی‘ جب وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ تھے اور سری نگر میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ اس نوجوان نے اپنے خلوص‘ اپنی فکری اصابت اور مقصد سے اپنی لگن کے باب میں مجھے تحریک آزادی کشمیر سے وابستہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس سلسلے میں نوجوان ایوب ٹھاکر سے  یہ پہلی ملاقات اہم سنگ میل ہے۔ ہم جتنے دن ساتھ رہے‘ ایک ہی موضوع ہماری گفتگو کا محور تھا--- کشمیر کے لیے کیا کیا جائے اور پاکستان اور عالمِ اسلام کو اس کے لیے کیسے متحرک کیا جائے؟ اس پہلی ملاقات ہی میں ان کا جو نقش دل و دماغ پر مرتسم ہوا وہ اقبال کے اس جوان کا تھا جس کے بارے میں انھوں نے کہا تھا   ؎

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

یہ ایوب ٹھاکر اور ان جیسے نوجوان ہی تھے جنھوں نے مجھے یہ یقین دیا کہ کشمیر کے مسلمان بھارت کی غلامی پر کبھی قانع نہیں ہوں گے‘ اور ان شاء اللہ ایک دن ان زنجیروں کو توڑکر رہیں گے جن میں انھیں پابندسلاسل کردیا گیا ہے۔ ایوب ٹھاکر کا وژن بہت صاف اور نقشۂ راہ بالکل واضح تھا۔ انھوں نے خود اس پر چل کر کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو اپنے خون اور پسینے سے سینچا اور عالمی سطح پر کشمیرکاز کو پیش کرنے میں جتنی خدمت انجام دی وہ دوسری کسی جماعت‘ گروہ‘ بلکہ مملکت کی خدمت سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ ایوب ٹھاکر کے وژن میں کشمیر کی آزادی‘ پاکستان سے اس کی وابستگی اور صرف اسلام کی بالادستی‘ ایک ہی حقیقت کے تین روپ اور ایک ہی منزل کے تین نشان تھے۔ اس سلسلے میں‘ میں نے ان کو کبھی کسی کنفیوژن کا شکار نہیں پایا۔ جس قوم نے ایوب ٹھاکر جیسا نوجوان‘ مجاہد اور مفکر پیدا کیا وہ ان شاء اللہ کبھی غلام نہیں رہ سکتی--- آزادی اور عزت کی زندگی اس کا مقدر ہے‘ وقت جتنا بھی لگے!

ڈاکٹر ایوب ٹھاکر مرحوم مقبوضہ کشمیر کے قصبہ شوپیاں (اسلام آباد) میں ۱۹۴۹ء میں پیدا ہوئے۔ اسلامی جمعیت طلبہ جموں و کشمیر کے ناظم اعلیٰ رہے۔ کشمیر یونی ورسٹی سے نیوکلیرفزکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر کے تدریس کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ سری نگر میں مسئلہ کشمیر پر ایک عالمی کانفرنس کے انعقاد کے ’جرم‘ میں گرفتار ہوئے اور ملازمت سے برطرف کیے گئے۔ ۱۹۸۱ء میں جدہ کی عبدالعزیز یونی ورسٹی میں استاد کی حیثیت سے ان کی تقرری ہوئی اور پھر وہاں انھوں نے پانچ سال خدمات انجام دیں جس کے بعد  ۱۹۸۶ء میں انگلستان منتقل ہوگئے جہاں تن‘ من دھن سے آزادی کشمیر کی جدوجہد میں شب و روز مشغول ہوگئے۔ مجھے یہ سعادت حاصل ہے کہ میری ہی دعوت پر وہ انگلستان آئے‘ انٹرنیشنل سینٹر فار کشمیر اسٹڈیز قائم کیا‘ پھر ورلڈ کشمیر فریڈم موومنٹ کے بانی صدر بنے‘ مرسی انٹرنیشنل اور جسٹس فائونڈیشن انھی کی محنتوں کا ثمرہ تھے۔ انگلستان‘ یورپ اور پوری دنیامیں کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے موثر خدمات انجام دیں۔ خود مقبوضہ کشمیر میںتحریک کو پروان چڑھانے اور مضبوط کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔

وہ عالمی سطح پر تحریک کے دماغ تھے اور دست و بازو بھی خود ہی فراہم کرتے تھے۔ ہندستانی حکومت نے ایک جھوٹے مقدمے میں ان کو گھیر لیا تھا (جس میں مجرموں کی فہرست میں میرا نام بھی شامل تھا)‘ اور اسی بنیاد پر ان کا پاسپورٹ بھی ضبط کرلیا گیا تھا‘ نیز بی جے پی کے دور حکومت میں ایل کے اڈوانی ان کے بطور قیدی واپسی (repatriation)کے لیے ذاتی طور پر کوشش کرتا رہا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کی دسترس سے محفوظ رکھا۔ برطانیہ میں سیاسی‘ سفارتی اور علمی حلقوں میں انھوں نے بے پناہ کام کیا اور بڑی عزت کا مقام بنایا۔ مسلم کمیونٹی کو بھی متحرک کرنے میں ان کا بڑا کردار تھا۔ امریکہ‘ یورپ اور عرب دنیا‘ ہر جگہ انھوں نے تحریکِ آزادی کشمیر کو متحرک کیا اور اس کی قیادت کی ذمہ داریاں ادا کیں۔

ڈاکٹر ایوب ٹھاکرمرحوم بہت سلجھی ہوئی فکر کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو اعلیٰ ذہنی اور تنظیمی صلاحیتوں سے نوازا تھا جن کو انھوں نے اپنے مقصد کی خدمت کے لیے بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ ادارہ سازی (institution making) کا بھی ان کو ملکہ حاصل تھا۔ وہ دوسروں کو ساتھ لے کر چلنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ مقصد کے لیے قربانی اور اَن تھک محنت ان کی شخصیت کے دلآویز پہلو تھے۔ تحریکِ اسلامی کے وفادار سپاہی تھے اور نازک سے نازک وقت پر بھی ان کی وفاداری پر کوئی آنچ نہ آئی   ع

یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے

اللہ تعالیٰ اپنی حکمتوں کو خود ہی خوب جانتا ہے اور اس کا ہر فیصلہ قبول‘ لیکن ایک پختہ کار  انسان کی حیثیت سے ۵۵ سال کی عمر میں جدوجہد کے اس عالم میں جب کشتی بالکل منجدھار میں تھی‘ ان کا ۱۰ مارچ ۲۰۰۴ء کو رخصت ہو جانا‘ ایک ایسا نقصان ہے جس کا تصور بھی نہیں کیاتھا اور ان کے رخصت ہو جانے سے ایک ایسا خلا واقع ہوگیا ہے جس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ   ؎

مصائب اور تھے پر دل کا جانا

عجب ایک سانحہ سا ہوگیا ہے

جس رب السمٰوٰت والارض نے یہ نعمت دی تھی‘ اس نے واپس لے لی ہے اور اس سے ہی دعا ہے کہ اس خلا کو پر کرے اور اس نقصان کی تلافی کا سامان بھی اپنے قبضۂ قدرت سے فرمائے اور اپنے اس مخلص اور وفادار بندے کی خدمات کو قبول فرمائے‘ اسے جنت الفردوس میں جگہ دے‘ اور جس مظلوم قوم کی آزادی کی جدوجہد میں اس نے اپنی جان آفریں کے سپرد کی اس قوم کی اس جدوجہد کو کامیاب فرمائے کہ اس کی خاطر لاکھوں جانیں تلف ہوگئی ہیں اور ہزاروں جوانیاں لُٹ گئی ہیں۔میں نے ایوب ٹھاکر کو کبھی مایوس نہ پایا۔ وہ ہر حال میں اچھے مستقبل کی امیداور امنگ رکھتے تھے کہ    ؎

گھبرائیں نہ ظلمت سے گزرنے والے

آغوش میں ہر شب کے سحر ہوتی ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فکرمودودیؒ کی روشنی میں

بیسویں صدی میں اسلامی فکر کی تشکیل نو اور اسلامی احیا کی جدید تحریکیں ایک زندہ حقیقت ہیں۔ ان تحریکوں کے ظہور اور نشووارتقا کی تاریخ میں چند شخصیات بہت نمایاں نظر آتی ہیں‘ اور ہر معروضی اور منصفانہ جائزے میں ان کی حیثیت مرکزی اور کلیدی ہے‘ ان میں سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کو ایک منفرد اور ممتاز مقام حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ربع صدی میں مشرق اور مغرب‘ برعظیم پاک و ہند‘ عالمِ عربی‘ جنوب مشرقی ایشیا‘ یورپ اور امریکا سے اسلام اور عالمِ اسلام کے بارے میں جو بھی اہم کتاب یا تحقیقی مقالہ شائع ہوا ہے‘ اس میں سید مودودیؒ کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس تحقیق و تالیف کا مقصد کیا ہے؟ سید مودودیؒ کی عظمت و خدمات اور ان کے کارناموںکا اعتراف یا انھیں تنقید و ملامت کا ہدف بنانا۔

۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے واقعے کے جلو میں کتابوں کا جو ریلا آرہا ہے یا پھر ’اسلامی بنیاد پرستی‘، ’مسلم انتہا پسندی‘، ’سیاسی اسلام‘، ’عسکری اسلام‘ حتیٰ کہ ’اسلامی دہشت گردی‘ کے حوالوںسے جوفکری یورش جاری ہے‘ اس میں بھی ہر صاحب ِ قلم اپنے اپنے مقاصد اور تجزیوں اور جائزوں کے مطابق سید مودودی کو نشانہ بنانے میں کوئی کوتاہی نہیں کر رہا۔یہاں مقصد ان فکری حملوں اور قلم کاریوں کا احتساب کرنا نہیں ہے بلکہ صرف اس طرف توجہ دلانا ہے کہ آج اسلام کی تہذیبی قوت اور مسلمانوں کی احیائی تحریکوں پر یلغار کرنے والے حلقے عالمِ اسلام کی جن شخصیات کو بحث کا مرکز و مداربنا رہے ہیں‘ان میں سید مودودیؒ سرفہرست ہیں۔ ایک طرف مغربی یا مغرب زدہ مخالفین ان کے افکار کو فتنے کی جڑ قرار دے رہے ہیں‘ تو دوسری طرف اسلام کے بہی خواہ جس تبدیلی پر فخرکررہے ہیں اور جس سرمایے کی حفاظت کے لیے کوشاں ہیں ‘وہ گواہی دیتے ہیں کہ اس قیمتی امانت کو اُمت کے لیے حرزجاں بنانے میں سید مودودیؒ کی خدمات کتنی بھرپور اور فیصلہ کن ہیں۔

ترجمان القرآن کی اس اشاعت ِ خاص کی مناسبت سے ہم نے مناسب سمجھا کہ کچھ وقت اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں صرف کریں کہ بیسویں صدی میں احیاے اسلام کی جدوجہد میں دوسرے احیائی مفکرین اورمصلحین کے ساتھ‘ سید مودودیؒ کا اصل کارنامہ کیا ہے۔ وہ کارنامہ کہ جس نے اِس صدی کے آغاز اور اس کے اختتام کے حالات میں اتنا بنیادی اور انقلابی فرق پیدا کر دیا کہ دشمن جس اُمت کو بیمار اور بے کار سمجھ کر اس کی ’تجہیزوتکفین‘ کی تیاریاں کررہے تھے‘ وہ ایک بار پھر ایک ’عالمی خطرہ‘ تصور کی جا رہی ہے۔ جن سامراجی قوتوں نے سمجھ لیا تھا کہ اب دنیا ان کی چراگاہ ہے۔ انھیں اب ’تہذیبوں کے تصادم‘ کاخطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ چنانچہ وہ نئی استعماری یلغار اور صلیبی جنگوں (Crusades)کا آغاز کرتے ہوئے‘ بارود‘ جھوٹ اور تباہی کی پوری قوت کے ساتھ عملاً میدان میں کود پڑے ہیں۔

مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے۔ علم اور عمل دونوں میدانوں میں انھوں نے تاریخ ساز خدمات انجام دی ہیں۔ ایک شخص کی ذات میں فکروتحقیق‘ تدبیرو اصلاح اورتنظیم و قیادت کی صلاحیتوں کا جمع ہونا اللہ تعالیٰ کے خاص انعامات میں سے ہے۔ معروف شاعر ابونواس کہتا ہے:

وَمَا عَلَی اللّٰہِ بِمُسْتَنکَرٍ

اَن یَجْمَعَ العَالَمَ فِی وَاحِدٖ

اللہ کی ذات سے بعید نہیں کہ وہ ایک عالم ]کی ساری خوبیاں [کسی فردِ واحد میں جمع کر دے۔

ہمارے دور میں سیدمودودیؒ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص کرم تھا جس کے نتیجے میں اُمت کو نئی زندگی ملی۔

فکری میدان میں ان کے کام پر بہت پیش رفت ہوئی ہے اور اس سے زیادہ مستقبل میں ہوگی۔ بحیثیت مفسرقرآن (تفہیم القرآن ‘ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘ رسائل و مسائل)‘ حدیث کے خادم (سنّت کی آئینی حیثیت‘ تفہیم الحدیث‘تفہیمات) سیرت نگار (سرورِعالمؐ، نشری تقریریں) فقیہ (تفہیم القرآن‘ رسائل ومسائل) متکلم اور عصرحاضر کے اجتماعی علوم کے ناقد اور ان میدانوں میں اسلامی فکر کے شارح اور ترجمان کی حیثیت سے انھوں نے سیکڑوں چراغ روشن کیے ہیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے اپنے عہد کی فکر کو صرف متاثر ہی نہیں کیا‘ بلکہ ایک نیا رخ دینے کی کامیاب کوشش کی ہے‘ جس کے نتیجے میں آج دنیا کے گوشے گوشے سے ان کے افکار کی صداے بازگشت سنی جا سکتی ہیں۔

اس وقت مقصد ان پہلوئوں پر گفتگو نہیں‘ بلکہ سیدمودودیؒ کے پورے لٹریچر کو سامنے رکھ کر ہم ان کے مرکزی کارنامے (contribution ) پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔ اس مناسبت سے صرف چند کلیدی امور پر اور وہ بھی ان کے مجموعی وژن اور اس نئے مثالیے (paradigm ) کا تعین و تشریح موضوع ہوگا‘ جس کی تشکیل اور ترویج میں سید صاحب کا مرکزی کردار رہا ہے۔ بلاشبہہ بیسویں صدی میں علامہ اقبال ؒ،مولانا ابوالکلام آزادؒ اور مولانا اشرف علی تھانویؒ سے  لے کر حسن البناؒ، سید قطب ؒاور مالک بن نبیؒ تک مفکرین نے اپنے اپنے انداز میں اس وژن‘ اس فکر اور اس مثالیے کی تشکیل و تکمیل میں اپنا اپنا حصہ بٹایا‘ لیکن سچی بات یہی ہے کہ   ع

کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

اس مطالعے میں ہم پہلے مختصراً یہ تعین کریں گے کہ سید مودودیؒ نے فکری میدان میں اصل کارنامہ کیا انجام دیا‘ تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ ان کے اصلاحی کام کے بنیادی خدوخال    کس فکری اساس کے برگ و بار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی پس منظر میں یہ دیکھیں گے کہ اکیسویں صدی اور خصوصیت سے ۱۱ستمبر کے بعد کی دنیا اور اس میں اُمت مسلمہ کو درپیش چیلنجوںسے   عہدہ برآ ہونے کے لیے سید مودودی کے روشن کردہ چراغ کیا روشنی فراہم کرتے ہیں اور اسلامی تحریکات اور ان کے قائدین کو بالخصوص جو مسائل درپیش ہیں۔ سیدمودودیؒ کے فکر اور اصلاحی حکمت عملی کی روشنی میں انھیں کس طرح اور کس رخ پر آگے بڑھتے ہوئے حل کیا جاسکتا ہے۔ سیدمودودی کے خیالات حرفِ آخر نہیں ہیں اور ہماری یہ کوشش بھی ایک جسارت سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی ہے۔ اس کے باوصف ہم یہ متعین کرنے کی ایک طالب علمانہ کاوش کررہے ہیں کہ بیسویں صدی میں تو سید مودودی نے جو کچھ خدمت انجام دی ہے اس کی عظمت اپنی جگہ‘ لیکن ان کی فکر اور تجربے سے بھرپور رہنمائی (inspiration) لیتے ہوئے ہمیں اکیسویں صدی میں کیا کرنے کی ضرورت ہے؟

ہم ابتدا ہی میں یہ بات کہہ دینا چاہتے ہیں کہ مولانا مودودی ایک انسان تھے اور کسی انسان کی فکر یا عمل ہمیشہ کے لیے نمونہ نہیں بن سکتے۔ یہ مقام تو صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے جن کی رہنمائی اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں: وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی o اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُّوْحٰی - (النجم: ۵۳:۳-۴)،’’وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا‘ یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے‘‘۔اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ خود مولانا مودودی نے جو تربیت ہمیں دی‘ اس میں سب سے نمایاں پہلو یہی تھا کہ انھوں نے نہ خود کو تنقید واحتساب سے بالا رکھا اور نہ ہمیں شخصیت پرستی کی راہ پر ڈالا۔

شروع ہی میں یہ وضاحت کر دینا بھی ضروری ہے‘ کہ ’فکرمودودی‘ خود کوئی مستقل بالذات چیز نہیں ہے‘ بلکہ مولانا مودودیؒ کی اصل کوشش یہ تھی کہ قرآن و سنت کی تعلیم کو اس کی اصل روح کے مطابق عصری حالات و ظروف کے پس منظرمیں پیش کریں اور اُمت کا رشتہ قرآن وسنت سے جوڑیں۔

مولانا مودودیؒ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے قرآن و سنت کو تحریک اور اُمت کے لیے ہدایت اور روشنی کے منبع کے طور پر پیش کیا اور اس کسوٹی پر حال اور ماضی کی ہر کوشش کو پرکھنے کا درس دیا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریکِ اسلامی کوئی مذہبی فرقہ یا مسلک نہیں ہے‘ بلکہ اس نے سب فرقوں اور مسلکوں کو قرآن و سنت کی بنیاد پر ایک متحرک قوت میں ڈھال دینے کی کوشش ہے۔ بلاشبہہ‘ اللہ تعالیٰ ہر دور میں انسانوں ہی کو اپنے پیغام کی تجدید اور تنفیذ کے لیے ذریعہ بناتا ہے۔ چنانچہ اس حد تک ان ایسے برگزیدہ انسانوں کا ذکر اور ان کی خدمات کا اعتراف بھی فطری امر ہے جو اس کارعظیم میں انسانوں کو اٹھانے‘ منظم و متحرک کرنے اور پھر ایک متعین راہِ عمل پر گامزن ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ اس لیے ہماری توجہ کا مرکز بھی ان رجال کار کی ذات سے زیادہ دین اسلام کی تفہیم‘ اس کے مقام اور سربلندی کے لیے ان کی کوششیں ہوں گی۔

علمی وفکری خدمات کا مختصر جائزہ

مولانا مودودیؒ کے اس علمی اور فکری کام کے لیے چار پہلو اہم ہیں: پہلا دین کا وہ تصور جسے انھوں نے اجاگر کیا۔ دوسرا وہ ’طرزِفکر‘ جس کے ذریعے اس کام کو انجام دیا گیا۔ تیسرے تبدیلی احوال اور احیاے دین کے لیے وہ ’حکمت عملی‘ جو اپنے زمانے کے حالات کی روشنی میں انھوں نے مرتب کی۔ چوتھے وہ عملی جدوجہد‘ اس کے اصول وضوابط اور تنظیمی ڈھانچے اور راستے جن پر عملاً انھوں نے اپنی جدوجہد کو مرکوز کیا۔

ہم اس مضمون میں زیادہ توجہ مولانا مودودی کے ’طرزِفکر‘ پر مرکوز کرنا چاہتے ہیں اور باقی تینوں کے بارے میں صرف مختصر اشارات پر اکتفا کریں گے اور یہ اس لیے کہ اکیسویں صدی کے لیے مولانا مودودی کے پیغام کا استنباط کرنے کے لیے توجہ کا مرکز ’فکر‘ سے بھی زیادہ ’طرزِفکر‘ ہی کو ہونا چاہیے۔

مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی تصنیفی زندگی کے ساٹھ برسوں میں چھوٹی بڑی تقریباً ڈیڑھ سو کتب کی تصنیف و تالیف کی خدمت انجام دی‘ اور کئی سو تقاریر کے ذریعے اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچایا۔ ان ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے مواد کو چند سطروں میں سمیٹنا اور محاکمہ کرنا کوئی آسان کام نہیںہے۔ تاہم‘ اگر ہم سید صاحب کے طرزِفکر کے بنیادی گوشوں اور پہلوئوں کی نشان دہی کریں تو شاید انھیں مندرجہ ذیل نکات میں بیان کیا جا سکتا ہے:

۱-  حق‘ حق ہے اور اسے کسی دوسرے سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اللہ حق ہے‘ اللہ کا رسولؐ حق ہے‘ اللہ کی کتاب حق ہے‘ اللہ کا دین حق ہے‘ اوراللہ کا وعدہ یعنی آخرت ‘جنت اور جہنم حق ہیں۔ ان سب کو ہمیں صرف حق ہونے کی حیثیت ہی سے قبول کرنا چاہیے۔ یہ ان کے حق ہونے کا تقاضا ہے۔ اس لیے کہ حق خود سب سے بڑی طاقت ہے--- ایمان حق کو حق تسلیم کرنے ہی سے عبارت ہے۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ اسے یکسوئی کے ساتھ قبول کیا جائے اور زندگی کی تمام وسعتوں میں یک رنگی اور وفاداری کا ثبوت پیش کیا جائے‘ اور حق کے غلبے کی جدوجہد میں  تن‘ من‘ دھن سے جُت جائیں: قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o لاَ شَرِیْکَ لَہٗج (الانعام ۶:۱۶۲-۱۶۳)،  ’’کہو‘ میری نماز‘ میرے تمام مراسمِ عبودیت‘ میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں‘‘۔ گویا حق کے غلبے کی جدوجہد بھی حق ہی کا ایک حصہ ہے جسے صاحبِ حق کے بتائے ہوئے طریقے ہی سے جاری و ساری رکھا جاسکتا ہے۔ یہ طریقہ اسوہ انبیا علیہم السلام اور منہج رسالتؐ ہے اور اس کا آخری اور مکمل ترین ماڈل محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ کامل ہے۔

۲-  تاریخِ انسانی میں انسان کے سامنے صرف دو ہی راستے ہوسکتے ہیں--- ایک اللہ کی ہدایت اور اللہ کے رسولوں اور انعام یافتہ پیروکاروں کا راستہ‘ اور دوسرا انسانوں کا اپنا اختراع کردہ راستہ‘ خواہ اس کا نام‘ شکل اور زمانہ کچھ بھی ہو۔ بنی نوع انسان کا اصل مسئلہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ وہ اللہ کا ہدایت کردہ راستہ اختیار کریں یا انسان کا اپنا خودساختہ راستہ--- آج بھی انسان کا بنیادی مسئلہ یہی ہے اور ہمیشہ رہے گا: ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے‘ تو جو لوگ میری اس ہدایت کی پیروی کریں گے‘ اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا‘ اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے‘ وہ آگ میں جانے والے ہیں‘ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔( البقرہ ۲:۳۸-۳۹)

۳-  انبیا علیہم السلام کے بتائے ہوئے طریقے کا نام دین اسلام ہے۔ کائنات کا پورا نظام اللہ کے قانون کے مطابق چل رہا ہے‘ لیکن اس فرق کے ساتھ کہ کائنات کی ہر شے اللہ کے قانون کی پابند ہے۔ البتہ انسانوں کو آزادی کی نعمت سے نوازا گیا ہے اور ان کو دعوت دی گئی ہے کہ وہ بہ رضا و رغبت اللہ کے قانون (دین) کو قبول کر کے اپنی فطرت اور کائنات کے نظام سے ہم آہنگ ہوجائیں--- یہ سپردگی ہی اسلام ہے اور اسی کے ذریعے دل کا چین اور زندگی اور کائنات میں امن و سکون میسرآسکتا ہے۔

۴- زندگی ایک ناقابلِ تقسیم وحدت ہے‘ اور دین اسلام نام ہے زندگی کے پورے نظام کو اللہ کی بندگی میں لانے کا۔مراسم عبادت سے لے کر انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو کو اللہ کے رنگ میں رنگا ہونا چاہیے: (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِط (البقرہ۲:۲۰۸)، ’’اے ایمان لانے والو‘ تم پورے کے پورے اسلام میں آجائو اور شیطان کی پیروی نہ کرو‘‘۔ اور صِبْغَۃَ اللّٰہِج وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللّٰہِ صِبْغَۃًز (البقرہ۲:۱۳۸)، ’’کہو:اللہ کا رنگ اختیار کرو۔ اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہوگا‘‘۔ یہ ہدایت زندگی کے ہر شعبے اور سرگرمی کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ دین کامل اور مکمل ہے۔ اس ابدی ہدایت کا ایک معجزاتی پہلو یہ ہے کہ جہاں اس میں ہر زمانے کے لیے زندگی کی جملہ ضروریات کے لیے رہنمائی موجود ہے‘ وہیں اس کے نظامِ کار میں وہ گنجایش بھی موجود ہے جو مرورزمانہ کی تبدیلیوں اور ضروریات کے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ گویا ثبات اور تغیر کا ایک حسین امتزاج ہے جو اس کے نظام کا حصہ ہے۔ جو تبدیلی اور تسلسل کے لیے ایک خودکار انتظام کا بندوبست کر دیتا ہے۔

۵-  یہ دین اعتدال‘ انصاف‘ توازن اور راہِ وسط کی نشان دہی کرتا ہے: وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ (البقرہ۲:۱۴۳) ، ’’اور اسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک ’اُمت وسط‘ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو‘‘۔دین اسلام فطرت سے ہم آہنگ ہے‘ عدل اورفلاح کا ضامن ہے‘ حشووزوائد سے پاک ہے‘ آزادی اور ترقی کا علم بردار ہے۔ یہ دین جسم و جاں‘ روح و بدن‘ مادی اور روحانی‘ اخلاقی اور دنیوی ہر ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ یہ ’وسطیہ‘ اس کی شان ہے (خیرالامور اوسطھا) جو اس کا حصہ (built-in) اور شناخت ہے اور کہیں باہر سے نہیں لائی جاتی۔ خود ساختہ اعتدال کے نام پر کسی تراش خراش کی اسے حاجت نہیں۔ اعتماد‘ رواداری‘ استقامت اور حکمت اس کے اپنے اصول اور شناخت کے ذرائع ہیں۔

یہ حق‘ یہ ہدایت‘ یہ دین بھی آپ سے آپ نافذ نہیں ہوتا‘بلکہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایمان‘ عمل اور جدوجہد کا راستہ تعلیم فرمایا ہے اور انبیاے کرام ؑنے اپنے عمل اور اپنی تحریک سے اس کے لیے نقشہ راہ (road map) فراہم کر دیا ہے‘ جو یہ ہے:

                ۱-            اسے پورے یقین کے ساتھ قبول کرو (ایمان)

                ۲-            اس پر خود عمل کرو اور استقامت کے ساتھ کرو۔ (اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا - الاحقاف ۴۶:۱۳)

                ۳-            تمام انسانوں کو اس کی دعوت دو۔ (وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ  وَعَمِلَ صَالِحاً- حم السجدہ ۴۱:۳۳)

                ۴-            اس دین کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تعمیرنو کرو--- اسے پوری زندگی پر غالب اور حکمران کر لو۔ (ھُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّـہٖ - الصف ۶۱:۹)

ایمان اس کا نقطۂ آغاز ہے‘ عمل اس ایمان کا اولین تقاضا ہے‘ عبادت اور اللہ کی اطاعت اور بندگی اس کا فطری مظہر اور اللہ کی رضا اس کا مطلوب و مقصود ہے۔ یہ عبادت محض مراسم عبادت تک محدود نہیں بلکہ پوری زندگی کو اللہ کے قانون اور ہدایت کے مطابق ڈھالنے اور سنوارنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ پھر ایمان ہی کا یہ تقاضا ہے کہ اس شمع کو روشن کیا جائے اور اس نور کو پھیلانے کے لیے انفرادی اور اجتماعی جدوجہد کی جائے ایک مسلسل‘ جاں گسل‘ نہ ختم ہونے والی جدوجہد۔

اسی جدوجہد کا نام جہاد ہے‘ جو نفس کے خلاف جہاد سے شروع ہو کر اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کے قیام اور اس کے دیے ہوئے قانونِ حیات کے نفاذ کے ہر کوشش اور ہر قربانی سے عبارت ہے اور یہی عبادت کی معراج ہے۔ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ میں بتائوں تم کو وہ تجارت جو تمھیں عذاب الیم سے بچا دے؟ ایمان لائو اللہ اور اس کے رسولؐ پر‘ اور جہاد کرو اللہ کی راہ میں اپنے مالوں سے اور اپنی جانوں سے۔ یہی تمھارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو‘‘۔(الصف ۶۱:۱۰-۱۱)

دعوت اور جہاد ایک ہی جدوجہد کے مختلف رخ ہیں۔ اس میں جبر اور دہشت گردی کا کوئی شائبہ بھی نہیں۔ (لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِلا،دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔البقرہ ۲:۲۵۶) یہ پیغام دلیل‘ مباحثے اور مجادلے‘ دعوت اور ڈائیلاگ‘ محبت‘ دردمندی اور خدمت سے انسانوں تک پہنچایا جاتا ہے لیکن اگر اسے قوت سے دبانے اور روکنے کی کوشش کی جائے تو پھر ظلم اور طغیان کا مردانہ وار مقابلہ اور جان اور مال کی قربانی بھی اسی جدوجہد کے اعلیٰ مراحل میں شامل ہے۔ اسی دعوت اور جدوجہد کے نتیجے میں مسلمان فرد (مرد و عورت) مسلم خاندان‘ مسلم معاشرہ‘ اسلامی ریاست و حکومت اور انصاف پر مبنی عالمی نظام وجود میں آتے ہیں۔

۶-  یہ ساری جدوجہد انفرادی ذمہ داری بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ ہرمسلمان‘ اُمت مسلمہ کا حصہ ہے ۔ یہ اُمت ایک صاحب مشن اور صاحب شریعت اُمت ہے۔ جس کا مقصد وجود اور فرضِ منصبی ہی دین حق کی شہادت‘اللہ کی بندگی کی دعوت‘ امربالمعروف اور نہی عن المنکر‘ قیام انصاف‘ مظلوموں کی مدد و اعانت اور پوری انسانیت کو اس کے رب کی بندگی کی طرف بلانا اور بندگی رب کے نظام کو قائم کرنا ہے۔ (کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِط- اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو‘ بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔(اٰل عمرٰن ۳:۱۱۰)

۷-  اس مشن (قولی اور عملی شہادت‘ انفرادی اور اجتماعی شہادت‘ اقامت دین) کے لیے جو راستہ ‘اللہ کے رسولؐ نے طے کر دیا ہے وہ ہے:

اپنی اصلاح --- اجتماعیت کی اصلاح--- اخلاق و کردار اور علم و تقویٰ کی قوت کے ساتھ وسائل و ذرائع کا موثر ترین استعمال‘ قوت کے منبع کی تسخیر‘ بہترین صلاحیت اور استطاعت کا حصول اور طاقت کی ہر شکل کو اللہ کا مطیع اور اس کے پیغام کو پھیلانے کی خدمت کا آلہ کار بنانا‘ تاکہ عدل و انصاف قائم ہوسکے‘ حق حق دار کو مل سکے اور ظلم و استحصال کا خاتمہ ہو سکے۔ چنگیزیت سے انسانیت کو محفوظ رکھنے کا یہی طریقہ ہے اور یہ بھی عبادت ہی کی ایک شکل ہے۔ (وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ - الانفال ۸:۶۰‘  لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبِ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِج - الحدید۵۷:۲۵)

اس کے لیے بیک وقت تین چیزوں کی ضرورت ہے:

اولاً: ایمان‘ اخلاقی برتری‘ اعلیٰ کردار اور تقویٰ اور خدا ترسی کی زندگی۔

ثانیاً: فکری قوت اور قیادت۔

ثالثاً: اجتماعی قوت--- اخلاقی‘ معاشی‘ مادی‘ سیاسی‘ سائنسی‘ عسکری--- مقابلے کی قوت‘ تاکہ وقت کے تقاضوں اور عصری حالات کا مقابلہ کیا جا سکے۔

یہ کام اللہ سے تعلق‘ فکری گہرائی اور اجتماعی طاقت تینوں کے بیک وقت حصول اور مقابلے کی طاقت کی فراہمی ہی سے انجام دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے ایمان‘ اجتہاد اور جہاد ہی وہ ستون ہیں جن پر دین کی عمارت کی تعمیر ممکن ہے اور انھی پر اس کے استحکام کا انحصار ہے۔

سیاسی مغلوبیت‘ ذہنی انتشار‘ اخلاقی خلفشار‘ اور تہذیبی پراگندگی کے ماحول میں سیدابوالاعلیٰ مودودی کی یہ آواز ایک نئے وژن کا پیغام دیتی تھی۔ سید مودودیؒ کی یہ پکار قرآن کی طرف رجوع کرنے (back to the Quran) اور قرآن کی صداقت پر کامل ایمان کے ذریعے پیش قدمی کرنے (forward with the Quran)کی دعوت تھی۔ سید مودودی کی یہی وہ فکر تھی جس نے اُمت کی مضطرب روحوں کو روشنی کا پیغام دیا‘ دلیل اور تعین کے ساتھ دین کا اصل وژن پیش کیا۔ یہی وہ دعوت تھی جس نے اُمت کونئے اعتماد‘ ولولے اور اُمید سے شادکام کیا۔ ایک طرف اسلام کی شاہراہ عمل کو صاف لفظوں میں پیش کیا تو دوسری طرف انھیں انفرادی اور اجتماعی جدوجہد کا راستہ دکھایا۔ اسلام کو مسلم معاشرے کی ایک کارفرما قوت بنانے کی دعوت دی اور اسلام کو ایک عالمی پیغام اور زندگی کے دھارے کو بدلنے والی تحریک کے طور پر صرف روشناس ہی نہیں کرایا‘ بلکہ فکری اور عملی و تنظیمی جدوجہد کے ذریعے ایک ملک گیر اور بالآخر عالمی جدوجہد میں منظم کر دیا۔

اُمت کی نبض پر ہاتھ

سید مودودیؒکے کارنامے پر نگاہ ڈالی جائے تو صاف نظرآتا ہے کہ انھوں نے پہلے دن سے یہ محسوس کر لیا تھا کہ ان کے دور کے مسلمانوں کی سب سے پہلی ضرورت تصورِ دین کی اصلاح ہے۔ مختلف داخلی اور خارجی اسباب کے نتیجے میںخود مسلمانوں نے بھی زندگی کو مختلف خانوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ انھوں نے دین کو گھر‘ مسجد اور زیادہ سے زیادہ مدرسے اور چند مذہبی رسوم و رواج تک محدود کر لیا تھا اور اسی پر قانع ہوگئے تھے۔ دین کے اس تصور پر ضرب کاری لگانا وقت کی اہم ضرورت تھی‘ تاکہ قرآن کا تصورِ دین اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برپا کردہ انقلاب کا تصور ایک بار پھر کسی کمی بیشی کے بغیر ان کے سامنے رکھا جا سکے اور انھیں توحید اور عبادت کا صحیح مفہوم سمجھایا جا سکے۔

پھر قول و فعل کا تضاد مسلمانوں کو کھائے جا رہا تھا‘ جس نے اسلام کی برکتوں سے ان کی زندگیوں کو محروم کر دیا تھا۔ سید مودودیؒ نے ایمان اور عمل‘ عبادت اور زندگی کے تمام شعبوں سے اس کے ربط کو واضح کیا۔ اسی طرح اجتماعی زندگی اور نظام کا بگاڑ‘ قیادت کا غلط ہاتھوں میں چلا جانا اور مسلمانوں کا قوت اور اقتدار سے محروم ہو کر‘ ایک محکوم قوم بن جانا تھا۔ یہ وہ اسباب تھے جن کے نتیجے میں مسلمان اپنے اصل مشن اور کردار سے غافل ہوگئے تھے اور چھوٹے چھوٹے مفادات کے پجاری بن گئے تھے۔ سید مودودی نے زوال اور کمزوری کے ان تمام اسباب کو ٹھیک ٹھیک متعین کرکے ان کا موثر سدباب کرنے کا بیڑا اٹھایا اور اپنی اور اُمت کی ساری توجہ کو جزوی اور وقتی مسائل اور معاملات سے ہٹاکر چند مرکزی نکات پر مرکوز کیا‘ جنھیں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے:

  •  خود شناسی‘ یعنی مغرب کی اندھی تقلید اور غیروں کے غلبے کے نتیجے میں خود فراموشی کے رویے کو ترک کر کے اپنی حقیقت‘ اپنی اصل‘ اپنی شناخت کی بازیافت کرنا۔
  • خودشناسی کے نتیجے میں ایک خوداعتمادی پیدا کی جس کا یہ اثر ہوا کہ وہ اپنے ورثے پر فخر کرنے لگے اور ان میں اپنی راہ خود نکالنے یعنی خودانحصاری کا داعیہ پیدا ہوا ۔
  • خوداعتمادی اور خودانحصاری کے ساتھ خوداحتسابی ‘تاکہ اپنی کمزوریوں کا تعین کیا جاسکے‘ اور ان کمزوریوں کو دُور کر کے اپنے مشن اور مقام کے حصول کے لیے تیاری کی جاسکے۔
  •  خودشناسی‘ خوداعتمادی‘ خودانحصاری اور خوداحتسابی کے ساتھ ضروری تھا کہ اپنے دور کے تقاضوں اوراپنے زمانے کے مسائل ومعاملات اور مدمقابل کی قوتوں کے عزائم‘ وسائل اور ان کی قوت کے سرچشموں کا ادراک ہو‘ تاکہ دانش مندی سے ان کا    موثر مقابلہ ہوسکے۔ اس کے لیے زمانہ شناسی ضروری ہے کہ مستقبل کی کوئی بھی تعمیر ان حالات اور ظروف سے بے نیاز ہوکر نہیں کی جا سکتی جن سے اُمت دوچار ہے۔ حقیقت پسندی کا راستہ حالات کی صحیح آگہی ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔
  • ان چار امورکا لازمی تقاضا خودسازی ہے‘ کہ تیاری کے بغیر مقابلہ حماقت اور خودفریبی کے سوا کچھ نہیں۔ اسی لیے سید مودودی نے قوم کو جذباتیت اور فوری ردعمل کے بجاے اپنی قوت کے سرچشموں کی بنیاد پر مناسب اور موثر تیاری کی دعوت دی‘ تاکہ صحیح وقت پر صحیح طریقے سے مقابلہ کیا جا سکے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ تیاری ہمہ پہلو ہونی چاہیے۔ ایمان و اعتقاد‘ فکروعمل‘ انفرادی اور اجتماعی زندگی‘ اخلاقی اور مادی قوت‘ سیاسی‘ معاشی‘ عسکری‘ فنی‘ تکنیکی میدانوں میں مقابلے کی قوت اور تنظیم کا حصول بنیادی تقاضے ہیں۔ اس طرح انھوں نے اصلاح اور تعمیرنو کا ایک واضح اور دور رس پروگرام مرتب کیا۔ وہ اس پروگرام پر عمل کے لیے خود بھی سرگرم عمل ہوئے اور اس دعوت پر لبیک کہنے والوں کو بھی مصروف کار کیا۔
  •  واضح رہے کہ یہ سب کچھ ایک واضح ہدف کو سامنے رکھ کر کیا گیا‘ تاکہ دین کو ایک بار پھر غالب قوت بنایا جا سکے‘ اُمت ایک بار پھر اپنے اصل مشن کی علم بردار بن کر اُٹھے‘ اپنے گھر کی اصلاح کرے اور پھر انسانیت تک اس آبِ حیات کو پہنچانے کا کارنامہ انجام دے‘ جس میں سب انسانوں کی فلاح ہے۔ گویا زمانہ سازی اس کی جدوجہد کا اصل ہدف ہو۔

یہ چھ نکات ہیں جن پر سیدمودودی علیہ الرحمہ نے اُمت مسلمہ کو جمع کرنے اور بیسویں صدی کی اسلامی جدوجہد کو ان کے مطابق مرتب کرنے کی سعی کی۔

سید مودودیؒ کا طرزِ فکر

میں جس چیز کو سید مودودی کی ’طرزِفکر‘ کہتا ہوں اس کا پہلا نکتہ دین کا یہ تصور‘ دین کی دعوت اور اقامت کا یہ وژن اور اس وژن کے مطابق اُمت کو متحرک کرنے کے لیے وہ تنظیمی اقدام ہے‘ جو جماعت اسلامی اور اس کی برادر تنظیموں کی شکل میں‘ ان کی قیادت اور رہنمائی میں وجود میں آئیں۔ لیکن سیدمرحوم کے ’طرزِفکر‘ کا پورا احاطہ صرف اس مرکزی نکتے کی شکل میں نہیں کیاجاسکتا۔ اس کے لیے ان اصولوں اور ضابطوں کی نشان دہی بھی ضروری ہے جو سید مودودیؒ کو اس مرکزی نکتے تک لائی اور جس کے لیے انھوں نے اپنی ساٹھ سالہ جدوجہد میں اپنے ساتھیوں ہی کو نہیں‘ پوری اُمت کو بھی تلقین اور وصیت کی۔ اس رہنمائی کے مرکزی نکات یہ ہیں:

ا -  اسلامی فکروعمل کی آبیاری کہ اُمت اور اس کے ایک ایک فرد کی قوت کا اصل منبع اللہ سے تعلق اور ایمان‘ رب کی پہچان ہے۔ صرف اسی خالق و مالک کے دامن کو تھامنے کا نام ایمان کامل ہے۔ عقل اور وسائل کا اپنا مقام ہے اور بہت اہم مقام ہے‘ لیکن اولین چیز اللہ پر ایمان اور اس کے صحیح تقاضوں کا شعور ہے۔ پھر اللہ پر بھروسا اور صرف اس سے استعانت ہی مسلمانوں کی قوت کا اصل منبع ہے۔ توحید کی حقیقت کو پانا زندگی کے تمام معاملات کے حل کے لیے شاہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔

ب-  قرآن و سنت اس اُمت کی رہنمائی کا اصل سرچشمہ ہیں۔ فقہ‘ تاریخ‘ مسلمانوں کے افکار‘ اجتہادات اور تجربات سب اپنے اپنے مقام پر ضروری ہیں۔ ماضی سے رشتہ اور روایت کا احترام‘ تہذیبی شناخت اور تسلسل کے لیے ضروری ہیں‘ لیکن ہدایت کے ماخذ کی ترتیب میں قرآن سب سے اولین ہے اور سنت اس کا لازمی حصہ۔ اسلاف سے محبت‘ ان سے تعلق‘ ان کا احترام ازبس ضروری ہے‘ لیکن حق کا معیار صرف اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اور طریقہ ہے۔ اولین دور میں مسلمانوں کی ترقی کا اصل سبب اللہ سے رشتہ اور اللہ کی کتاب سے تعلق اور اللہ کے رسولؐ کو یہ مرکزی حیثیت دینا تھا۔ افسوس کہ بعد میں یہ ترتیب بدل گئی۔

فقہ کا بڑا اہم کردار ہے اور رہے گا‘ لیکن ہر دور میں اور خصوصیت سے آج کے دور میں تمدن کے احوال و ظروف کی ہر سطح پر ایسی بنیادی تبدیلیاں واقع ہوگئی ہیں کہ زندگی سے دین کی مفید مطلب مطابقت (relevence )کو دوبارہ منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام اسی وقت ممکن ہے کہ الاول فالاول کے اصول پر قرآن و سنت کو مرکزی حیثیت دی جائے اور ان کے سائے تلے فقہ اور روایت سے استفادہ کیا جائے ‘اور خصوصیت سے نئے مسائل کے حل کے لیے اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولؐ کی سنت ہی کو اولین سرچشمہ بنایا جائے۔ اجتہاد اور فکری آزادی پر جو خودساختہ اور ناروا پابندیاں لگ گئی ہیں‘ ان سے چھٹکارا پایا جائے۔ یہ کام نہ درایت سے بغاوت کے انداز میں ہو اور نہ روایت کا اسیر بن کر کیا جائے۔ فکری اور عملی جدوجہد کے لیے بھی اور تعلیم کے پورے نظام میں بھی اعتدال کے ساتھ صحیح ترتیب کا احیا ضروری ہے۔

ج-  اس کام کو انجام دینے کے لیے اصول اور فروع‘ مقصد اور پالیسی کے فرق‘ نصب العین اور اقدار اور ضابطوں اور طریق کار کا تعلق‘ بنیاد اور تفصیل میں تمیز‘ منصوص اور غیرمنصوص اور مسنون اور غیرمسنون کے مراتب کا لحاظ اور سنت اور بدعت کی حقیقی تفہیم ضروری ہے۔ تقلید کے لمبے دور میں ان ترجیحات‘اور بنیادی اصولوں اورضابطوں کو نظرانداز کر دیا گیا تھا اور آج تجدید و احیا کا کام انجام دینے کے لیے ان کی پاس داری ضروری ہے۔

ان تمام پہلوئوں پر کھل کر بحث ہو‘ ترجیحات کا صحیح تعین ہو اور تقدیم و تاخیر اور راجع ]رجوع کرنے والی[ اور غیر راجع کی حدود اور شکلوں کا صحیح شعور پیدا کیا جائے۔ نیز عصری حالات کے مطابق لیکن قرآن وسنت سے مکمل وفاداری کے ساتھ‘ روایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے‘ وقت کے تقاضوںکے مطابق اسلام کو زندگی کا رہنما بنایا جائے‘ تاکہ جمود کو توڑ کر صحت مند حرکت کو پھر حقیقت کا روپ دیا جائے۔ ایسی ہی حرکت میں برکت ہے۔

د-  اس کام کو انجام دینے کے لیے زمانے کے حالات‘ مسائل اور ان تبدیلیوں کا تنقیدی مطالعہ اور تجزیہ بھی نہایت ضروری ہے۔ درحقیقت یہ اتنا ہی ضروری ہے جتنا اپنے اصل نصب العین‘ اصول و اقدار‘ قانون واحکام‘ ترجیحات اور مطلوبہ خطوط کار کے تنفیذی عمل کا اطلاق۔ ایک طرف اُمت مسلمہ کی موجودہ حالت (status quo) اور روایت پر ہونا چاہیے تو دوسری طرف دورِحاضر کی غالب تہذیب اور اس کے زیراثر پوری دنیا کے نظام اور طریق واردات کا محاکمہ ہونا چاہیے۔ہماری اپنی تہذیبی ترقی کے سلسلے کا جو انقطاع واقع ہوا ہے‘ اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور جو خلا واقع ہوا ہے‘ اسے پورا کرنے کے لیے اجتہادی بصیرت کی ضرورت ہے‘ جو نہ غالب تہذیب کی نقالی سے ممکن ہے اور نہ خود اندھی تقلید پر انحصار کرنے سے کچھ خیر رونما ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے خیروشر میں تمیز اور اپنے تجربات میں سے مفید کو جاری رکھنا اور راہ کی رکاوٹوں کو دُور کرنا اور غالب تہذیب کا بھی ایسی ناقدانہ نگاہ سے مطالعہ کرنا کہ اس کے ان پہلوئوں سے استفادہ ممکن ہو جو ترقی کے اصل اسباب ہیں اور ان تمام برائیوں اور خباثتوں سے اجتناب کرنا کہ جو انسانی زندگی کو بگاڑ اور فساد کی جہنم میں دھکیل رہے ہیں۔ خذما صفا ودع ما کدر۔

ہ-  اس پورے کام کو انجام دینے میں ایک اور پہلو کی فکر ضروری ہے۔ وہ پہلو‘ وہ مقصد اور نظریے سے حقیقی معنوں میں مکمل وفاداری (کمٹ منٹ) کے ساتھ حقیقت پسندی (realism) اور اپنے دین کے اصولوں کا نئے حالات میں اطلاق اور اس کے لیے جس دانش و بصیرت (practical wisdom) کی ضرورت ہے‘ اس کا ٹھیک ٹھیک استعمال ہے۔ سید مودودی نے اس سلسلے میں بار بار حکیم حاذق کی مثال دی ہے جو بزرگوں کے نسخوں کا آنکھیں بند کر کے استعمال نہیں کرتا‘ بلکہ مریض کے حال اور دوائوں کی خاصیت کو سامنے رکھ کر طب کے ابدی اصولوں کا ہر ہر مریض پر الگ الگ اطلاق کرتا ہے۔ سید مودودی نے صاف لفظوں میں کہا تھا :’’ حقیقی  مصلح کی تعریف یہ ہے کہ وہ اجتہاد وفکر سے کام لیتا ہے اور وقت اور موقعے کے لحاظ سے جو مناسب ترین تدبیر ہوتی ہے‘ اسے اختیار کرتا ہے‘‘۔ یہ زاویہ نظر سید مودودیؒ کے ’طرزِفکر‘ کا اہم حصہ ہے۔

و-  اس اصول کی روشنی میں سید مودودیؒ نے بڑے غوروفکر کے بعد اصلاح کے لیے جس طریق کار کی نشان دہی کی‘ اس کے اہم اجزا یہ ہیں:

  • ایمان کا احیا اور تقویت

  •  فکر کی تشکیل نو --- یعنی اسلامی افکار کی تشکیل و تعمیر میں وقت کے مسائل اور رجحانات کو ملحوظ رکھنا‘ اپنے دور کے افکار کا مطالعہ اور ان پر تنقیدی نظر اور نئے حالات اور مسائل کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل تلاش کرنا۔
  •  افراد کار کی تلاش‘ تیاری اور تنظیم و تربیت۔
  •   تدریج کے اصول کے مطابق انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل نو کی کوشش اور اس میں کھلے انداز میں‘ آزادانہ بحث و مباحثہ‘ دعوت‘ تعلیم اور تعلم کا طریقہ--- خفیہ طریقوں‘ جبر‘ غیرقانونی اور غیراخلاقی طریقوں سے اجتناب‘ جمہوری عمل اور راے عامہ کی تبدیلی کے ذریعے اسلامی انقلاب برپا کرنے کی جدوجہد۔ ہر اس طریقے سے اجتناب جو فساد فی الارض کا باعث ہو۔
  •  صحیح طریقے سے اجتماعی جدوجہد--- اور وہ بھی ایک تربیت کے ساتھ‘ گھر سے آغاز ہو‘ اپنے معاشرے کی اصلاح اور اپنے ملک میں اسلامی نظام کے قیام کی جدوجہد ہو‘ اُمت مسلمہ کا اتحاد اور اُمت کی اسلامی بنیادوں پر تعمیروترقی کا شعور ہو‘ پوری دنیا کے سامنے اسلام کی دعوت کو پہنچانے اور اللہ کی بندگی کی طرف بلانے کا ذوق اور کوشش ہو اور انصاف پر مبنی عالمی نظام کے قیام کی فکر۔
  •  اس پورے کام کو قرآن و سنت کے ابدی اصولوں اور ہدایات کے مطابق انجام دینا۔ اپنے وقت کے تمام جائز اور مفید ذرائع اور وسائل کو اس دعوت کی خدمت میں استعمال کرنا اورمقابلے کی قوت حاصل کرنا--- وقت کا تقاضا ہے کہ اسلام کے پیغام کو آج کی زبان میں‘ آج کے حالات اور مسائل سے مربوط شکل میں پیش کیا جائے اور اس سلسلے میں کسی تغافل یا تعصب کا شکار نہ ہوا ہوجائے۔ سارے وسائل اللہ کی دین ]گفٹ[ ہیں اور انھیں اللہ کے دین (اسلام) کی خدمت میں استعمال کرنا‘ ان کا صحیح ترین استعمال ہے۔ یہ وسعت اور جدیدکاری اسلام کے مزاج کا حصہ اور وقت کی ضرورت ہے۔
  • دعوت دین اور اقامت دین کا یہ کام پتھر کی طرح جامد (monolithic) نہیں ہے۔ اس میں تنوع اور تکثیر (plurality) ممکن ہی نہیں بلکہ ناگزیر بھی ہے۔ نیز یہ کام عجلت میں انجام نہیں دیا جاسکتا۔ یہ بڑا صبرآزما اور دیرپا کام ہے۔ اس میں منزل تک پہنچنے کا کوئی مختصر راستہ (short cut) نہیں ہے۔ اس وژن کا ثبات افرادِکار کی تیاری‘ عمل اور جدوجہد میں استقامت‘ تجربات سے سبق سیکھنے اور بندگلی سے راستہ نکالنے‘ اپنے مشن اور مقصد پر اعتماد‘ اللہ پر بھروسا اور مسلسل قربانی پیش کرنے میں ہے--- گویا ایمان‘ اجتہاد اور جہاد کے عملی اظہار کے بغیر احیاے اسلام کی منزل سر نہیں کی جا سکتی۔
  • اس کام کی انجام دہی کے لیے ایک نئی قیادت کا اُبھرنا ضروری ہے‘ اور یہ قیادت محض فکری اور محدود دینی میدان ہی میں نہیں‘ بلکہ زندگی کے ہر میدان: فکروفن‘ سائنس اور ٹکنالوجی ‘معاشرت اور معیشت‘ ادب اور ثقافت‘ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں ہو۔

یہ وہ مرکزی نکات ہیں جن سے سید مودودی کا ’طرزِفکر‘ عبارت ہے۔ اس میں مقصد کا شعور‘ اور دین کے سرچشموں سے وفاداری بھی ہے اور اس کے ساتھ آزادی فکر‘ شوریٰ‘ نئے تجربات‘ عصری ضروریات کا شعور‘ مقابلے کی قوت کی فراہمی اور مردان کار کی تیاری سب شامل ہیں۔ سید مودودی نے نئے حالات میں نئی حکمت عملی اختیار کرنے اور نئے تجربات کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اور یہ بھی ان کے ’طرزِفکر‘ کا ایک اہم پہلو ہے۔

اسلامی تحریک کا احیا اور ارتقا

سیدمودودیؒ کے طرزِفکر کے مختلف گوشوں پر کلام کرنے کے بعد‘ اس موضوع پر بات کرنا مناسب ہوگا کہ اکیسویں صدی کے اوائل میں پاکستان ہی نہیں‘ پوری دنیا میں آج تحریکِ اسلامی کس مرحلے میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فکری میدان میں اسلام کے ایک مکمل اور جامع دین اور نظریۂ حیات ہونے اور اس نظریے کو غالب کرنے کے لیے انفرادی جدوجہد کے ساتھ اجتماعی تحریک کی ضرورت تو اب روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔

اسلامی تحریکوں کے مؤسسین نے (اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں بارش کرے) یہ کام بڑی خوبی کے ساتھ انجام دیا ہے اور ان کے اخلاص سے اجتماعی جدوجہد کا آغاز ہوگیا ہے--- لیکن ہمارے خیال میں یہ صرف آغاز ہوا ہے‘ تکمیل کی منزل ابھی بہت دُور ہے اور ہمیں اور پوری اُمت کو مسلسل دعوت عمل دے رہی ہے۔ اس آغاز نے جہاں مسلمانوں کو نیاجذبہ‘ نئی روشنی‘ نئی اُمنگ اور زندگی کے لیے ایک خوب صورت ہدف فراہم کیا ہے‘ وہیں مخالفین کے لیے بھی خطرے کی گھنٹیاں بج گئی ہیں۔ اسی لیے وقت کے فرعونوں اور ہامانوں کی زبان سے ’کروسیڈ‘ کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور مختلف عنوانوں سے اسلامی احیا کو اصل نشانہ اور خطرہ بناکر پیش کیا جارہا ہے۔ ہاروڈ یونی ورسٹی کے امریکی پروفیسر سیموئیل ہنٹنگٹننے اپنی کتاب The Clash of Civilizations (تہذیبوں کا تصادم) میں بہت صاف الفاظ میں مغرب کے نقشۂ جنگ کو پیش کر دیا ہے:

مغرب کا حقیقی مسئلہ اسلامی بنیاد پرستی نہیں ہے‘ بلکہ خود اسلام ہے۔ اسلام جو ایک مختلف تہذیب ہے جس کے ماننے والے اپنے تشخص کی فوقیت کے علاوہ طاقت کی کمزوری کا شکار ہیں۔ ادھر اسلام کے لیے‘ سی آئی اے یا امریکی محکمہ دفاع اصل مسئلہ نہیں ہیں‘ بلکہ خود مغرب مسئلہ ہے‘ جو ایک مختلف تہذیب ہے۔ ایسی تہذیب‘ جس کے ماننے والے اپنی ثقافت کی آفاقیت کے قائل ہیں‘ اور اپنی ثقافت کو پوری دنیا پر حاوی کرناچاہتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی عوامل ہیں‘ جو اسلام اور مغرب کے درمیان تصادم کو فروغ دے رہے ہیں۔(حوالہ بالا‘ ص ۲۱۷-۲۱۸)

مغربی مفکرین اسلام کو ہوّا اور دشمن بناکر پیش کر رہے ہیں اور اس کی روشنی میں نقشۂ جنگ بنانے میں مصروف ہیں‘ جب کہ مسلمان اُمت اور اسلامی تحریکوں کا اصل مسئلہ کسی سے جنگ یا مقابلہ نہیں‘ بلکہ اپنے گھر کی اصلاح اور تعمیرہے۔ افکار و نظریات کا تبادلہ اور رد و قبول انسان کا بنیادی حق ہے‘ جسے جنگ سے منسلک نہیں کرنا چاہیے۔ اہلِ مغرب کے دانش وروں اور ان کے اہلِ حل و عقد کا مرض بھی اس اقتباس سے واضح ہے کہ وہ طاقت کی بنیاد پر یہ اپنا حق سمجھتا ہے کہ اپنے تصورات اور کلچر کو دوسروں پر مسلط کرے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ بگاڑ کی جڑ اسلام یا مسلمانوں کی بے بسی نہیں‘ مغرب کا یہ فاسد نظریہ ہے۔ لیکن آج مسلمان اس سے غافل ہیں کہ اپنی پوزیشن کو دلیل کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں اور مغربی میڈیا نے عام لوگوں کے ذہنوں کو جس طرح مسموم کر دیا ہے‘ اس کا بھرپور مقابلہ کر سکیں۔

یہ مقابلہ کسی ادھورے عمل اور قریبی یا مختصر راستے (shortcut) سے نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے تو وہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا‘ جو بیسویں صدی کے آغاز میں ساری کمزوریوں کے باوجود احیاے اسلام کی تحریکات کے مؤسسین نے اختیار کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بیسویں صدی کے آغاز اور اکیسویں صدی کے اوائل میں بہت سی مماثلتیں دیکھ رہے ہیں۔ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد افغانستان اور عراق پر امریکا کی وحشیانہ فوج کشی اور ساری دنیا میں نام نہاد ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کے نام پر فکری‘ ابلاغی‘ سیاسی اور عسکری میدانوں میں خونیں جارحیت نے صورت حال کو اور بھی گمبھیر بنا دیا ہے۔ اس وقت محض جذباتی انداز میں کوئی فوری انتقامی کارروائی اسلام اور مسلمانوں کے حقیقی مقاصد اور اہداف کی خدمت نہیں کرسکتی۔ اس لیے ضروری ہے کہ بیسویں صدی کے فکر اور تجربات کی روشنی میں‘ اکیسویں صدی کے لیے مسلمان اور خصوصیت سے اسلامی تحریکیں اپنی حکمت عملی وضع کریں۔

اُمت کو درپیش چیلنج

اس وقت جو بنیادی چیلنج مسلم اُمہ کو درپیش ہیں ان کے دو بڑے بڑے محاذ ہیں: ایک دفاعی اور دوسرا تعمیری۔ ان دونوں کے بارے میں کچھ معروضات پیش کی جا رہی ہیں:

جس طرح بیسویں صدی کے آغاز میں یورپی استعمار‘مسلم دنیا پر مسلط تھا‘ اسی طرح اب اکیسویں صدی کے آغاز میں ہمارا واسطہ امریکی استعمار سے ہے‘ لیکن جوہری فرق کے ساتھ۔

اس وقت امریکا عسکری اعتبار سے واحد سوپر پاور ہے۔ اس کا جنگی بجٹ باقی تمام دنیا کے تمام ممالک کے مجموعی بجٹ کے برابر ہے۔ اس کی معاشی صلاحیت دنیا کی معیشت کا ایک چوتھائی ہونے کے باوجود ایسی نہیں ہے کہ بہت لمبے عرصے تک وہ محض عسکری قوت کے بل پر دنیا کے بڑے حصے کو اپنے قابو میں رکھ سکے۔

ہرچند کہ امریکا کی کوشش ہے اور یہی اس کی موجودہ قیادت کا اعلان شدہ ہدف بھی یہ ہے کہ وہ آیندہ پچیس پچاس سال تک واحد سوپر پاور رہے اور کوئی مدمقابل اُبھرنے نہ پائے۔ لیکن یہ دھونس اور دعویٰ‘ قدرت کے قانون کے خلاف ہے۔ البتہ عسکری قوت کے ساتھ ابلاغی قوت ایک ایسے مقام پر ہے کہ دنیا کی آبادی کے بڑے حصے کے ذہنوں کو اس سے مسموم اور خائف کیا جاسکتا ہے اور کیا جا رہا ہے۔ تاہم‘ اس میدان میں بھی یہ قوت اور اختیار غیرمحدود نہیں ہے اور صحیح معلومات کو چھپانے اور دنیا کو دھوکے میں رکھنے کی ایک حد ہے--- جیساکہ عراق پر حملے کے اسباب کے سلسلے میں سامنے آیا ہے۔ پھر دنیا کے دوسرے ممالک‘ خصوصیت سے یورپ کے بڑے ملک‘ چین اور ایک حد تک روس ابھی امریکا کو چیلنج نہیں کر رہے‘ لیکن پوری طرح   اس کے ساتھ بھی نہیں ہیں۔ امریکا کی اس کھلی دھونس کے خلاف ان معاشروں میں اضطراب اور بے چینی کی لہریں ابھر رہی ہیں۔بے اطمینانی کی یہ لہر ساری دنیا میں اور خاص طور پر یورپ حتیٰ کہ امریکا میں عوامی قوت کی صورت میں ابھر رہی ہے۔

عالم گیریت(globalization) کے بہت سے نقصانات اور خطرات ہیں‘ لیکن اس کے کچھ مثبت پہلو بھی ہیں اور ان میں سے ایک گہرا جذبہ بغاوت ہے جو روز بروز بڑھ رہا ہے اور عالمی سطح پر ایک مثبت پہلو ہے ۔ آج کی دنیا کا سب سے پریشان کن پہلو عسکری‘ سیاسی‘ معاشی اور فنی سطح پر قوت کی عدمِ مساوات ہے--- لیکن اس کے خلاف متبادل اضطرابی لہروں (countervailing powers) کا رونما ہونا بھی ایک فطری عمل ہے۔ اس کے لیے صبر اور حکمت سے کام کرنے‘ فوری تصادم سے بچنے‘ صحیح تیاری کرنے‘ عالمی سطح پر اقدام کے لیے مناسب امکان کو تلاش کرنا ضروری ہے۔

عالمی صورت حال

عالمی تناظر کا تجزیہ بڑی تفصیلی بحث چاہتا ہے۔ البتہ ہم اس پورے تناظر کا خلاصہ کچھ اس طرح بیان کرسکتے ہیں:

۱-  اکیسویں صدی کا سب سے اہم پہلو ’عالم گیریت‘ ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں‘ کہ تمام ناہمواریوں کے باوجود اب پوری دنیا ایک اکائی بنتی جا رہی ہے اور کسی کے لیے بھی اس سے الگ تھلگ رہنا ممکن نہیں رہا۔ اب صرف اپنی دنیا میں بند رہنے کا راستہ قابلِ عمل نہیں رہا۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں‘ دنیا کا ہر واقعہ آپ کو متاثر کر رہا ہے۔ تجارت اور سرمایہ کاری ہی نہیں‘ سرمایہ‘ اشیا‘ انسانوں اور معلومات کی برق رفتار نقل و حرکت کی وجہ سے حالات میں جوہری فرق واقع ہوچکا ہے‘ جس نے بے شمار خطرات اور مسائل کو جنم دیا ہے‘ اور ساتھ ہی بے پناہ امکانات کا دروازہ بھی کھول دیا ہے۔

ماضی میں تحریکِ اسلامی کے لیے ممکن تھا کہ اس کے اولین اور اصل مخاطب صرف مسلمان ہوں‘ لیکن آج یہ ممکن نہیں رہا۔ اس لیے جو کچھ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے‘ اسے ساری دنیا میں سنا جا رہا ہے اور نتائج اخذ کیے جا رہے ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہوگیا ہے کہ اسلام کے علم بردار صرف خود کلامی تک دعوت کو محدود نہ رکھیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ فکری سرحدیں بہت دُور دُور تک پھیل گئی ہیں۔ اس لیے غیرمسلموں سے خطاب اور ان تک دعوت کو موخر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بڑا بنیادی فرق ہے جسے ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

۲-  مشرق اور مغرب اس طرح شیروشکر ہوگئے ہیں کہ دونوں کے الگ الگ مسائل ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے جملہ پہلوئوں سے صرفِ نظر کرکے کلام ممکن نہیں رہا۔ بلاشبہہ مسلم دنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ خدا پر ایمان‘ اللہ کے رسولؐ سے وابستگی اور اسلام سے ایمانی‘ جذباتی اور ثقافتی تعلق موجود رہے ‘مگر دین کے صحیح اور مکمل تصور اور دین کے انفرادی اور اجتماعی تقاضوں کی تکمیل اور احترام میں کمی کے نتیجے میں یہ ہدف نہیں پایا جاسکتا۔ اس لیے اسلامی احیا کے ساتھ ایمان کا تعلق اجتماعی نظام زندگی کے لیے حقیقی چیلنج بن جاتا ہے۔

دوسری طرف مغربی دنیا میں اجتماعی زندگی متعدد خوبیوں اور وسائل سے مالا مال ہے‘ جن میں قانون کی حکمرانی‘ رائے کی آزادی‘ انصاف کے حصول میں سہولت‘ دولت کی فراوانی‘ تعلیم و تحقیق‘ اور ایجاد و اختراع کا عام ہونا قابل ذکر ہیں۔ لیکن دولت اور وسائل کی ارزانی میں اخلاقی اقدار کی پامالی‘ انسانی تعلقات کی تباہی‘ خاندانی نظام کا انتشار‘ جرائم اور ظلم واستحصال کی بہتات اور سب سے بڑھ کر دل کا چین‘ روح کا سکون اور اللہ سے تعلق کا فقدان‘ زندگی کو اجیرن بنائے ہوئے ہے۔ اس پس منظر میں بات صرف نظام کے اصلاح و احوال کی نہیں‘ دل کی اصلاح اور اللہ سے تعلق کی یافت کی ہے۔ ہر اس تعلق کی بنیاد پر اخلاقی اقدار کے احیا اور ہر سطح پر انصاف کے حصول کی خواہش کا جذبہ ہے۔ یہ دونوں پس منظر اب دو الگ الگ دنیا میں نہیں ہیں‘ بلکہ ایک ہی میدان کے دو محاذ ہیں۔ تحریکِ اسلامی اس جوہری فرق کو نظرانداز نہیں کرسکتی۔

۳-  پھر اس نئے عالمی تناظر میں ایک عالمی طاقت کا ہمہ پہلو غلبہ ہے اور اس کے نتیجے میں سیاسی‘ مادی اور تہذیبی میدانوں میں وسائل‘ قوت اور اختیارات میں ایک شدید عدمِ توازن رونما ہوگیا ہے۔ یہ ایک ایسے معاشی اور سیاسی نظام کا غلبہ ہے جو ساری دنیا کے وسائل کو ایک محدود اقلیت کی خدمت اور چاکری کے لیے وقف کر رہا ہے۔ سرمایہ داری کا نیا روپ اور منڈی کی معیشت (مارکیٹ اکانومی) کے نام پر مغربی اقوام اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا دنیا پر غلبہ آج ایک دوسرے میدانِ جنگ کا منظر پیش کرتے ہیں۔ مخصوص استعماری مقاصد کی حامل نام نہاد این جی اوز کا ایک خاص کردار ہے اور ریاستی قوت (state power)کے ساتھ ملٹی نیشنل کارپوریشن اور این جی اوز اس معاشی اور نظریاتی عالمی میدان کے اصل کردار ہیں‘ جن سے معاملہ کرنا وقت کا اہم چیلنج ہے۔

۳-  ماضی کے سامراج کے لیے صحیح لفظ نوآبادیت (colonialism )تھا‘ جس میں سامراجی قوتیں دوسرے ممالک پر قبضے (occupation )کے ذریعے ان کے وسائل پر تسلط جماتی تھیں۔ آج کے سامراج نے بالکل ایک دوسرا روپ دھار لیا ہے۔ اب قبضہ بھی ایک حربہ ہے لیکن اصل حربہ وسائل کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا اور عملاً دوسرے ممالک پر قبضے کے بغیر ان کے وسائل اور مردانِ کار کو اپنی گرفت میں لے لینا ہے۔ جس کے لیے میڈیا سے لے کر معاشی تسلط اور سیاسی دخل اندازی‘ دھوکا دہی اور وفاداریوں کی خرید کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ بالادستی حاصل کرنے کے سامراجی ہدف نے نقشۂ جنگ کو بالکل بدل دیا ہے۔

۵- فکری غلبہ اور ثقافتی اور تہذیبی تسلط ہمیشہ سے اہم تھے مگر آج کے میڈیا اور انفارمیشن  ٹکنالوجی کے انقلاب میں ابلاغ کے ذرائع اور مائیکروچپ (micro-chip) نے ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اثروتاثیر کی یہ قوتیں غالب اقوام کو وہ مدد دے رہی ہیں جو اس سے پہلے کبھی حاصل نہیں تھیں۔ اب اس نئے حربے سے فوج کشی کے بغیر ملکوں‘ علاقوں اور قوموں کو فتح کیا جاسکتا ہے اور ان کی سیاسی‘ معاشی اور تہذیبی زندگی ہی کو متاثر نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان کے ذہنوں کو بھی مسموم ‘ مفلوج اور محکوم بنایا جا سکتا ہے۔

۶-  اس تناظر میں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس وقت مغربی اقوام اور خصوصیت سے امریکا کی قیادت ان عناصر کے ہاتھوں میں ہے جو ایک نئی قدامت پسند تحریک(neo-con)  سے وابستہ ہیں۔ جس میں عیسائی مذہبی قوتوں کے ساتھ عالمی صہیونی طاقت بھی شریک ہے (اور اسے برہمنیت کی بھی تائید حاصل ہے)۔ اس قوت کا گٹھ جوڑ امریکا کے بم باز اور ہلاکت پرور حکمرانوں سے ہوگیا ہے۔ یہ اتحاد عالمی دراندازیوں کی حکمت عملی وضع کر رہا ہے۔ یہ اسلام اور مسلمانوں کو اپنے اصل ہدف اور مقابل کی حیثیت سے سامنے رکھے ہوئے ہیں۔ اصل ہدف جیساکہ ہم نے سیموئیل ہنٹنگٹن کے اقتباس سے پیش کیا ‘اسلام ہے‘ محض نام نہاد دہشت گردی نہیں۔ جنگ صرف سیاسی محاذ پر نہیں‘ فکری اور تہذیبی محاذ پر بھی مسلط کی گئی ہے۔

یہ ہے اکیسویں صدی کا وہ تناظر جس میں اسلامی تحریکات کو اپنی داخلی اور عالمی حکمت عملی وضع کرنی ہے۔ ان حالات کا صحیح اور گہرا ادراک اولین ضرورت ہے۔

مقابلے کی حکمت عملی اور تقاضے

آج ’زمانہ شناسی‘ یا وقت کی نبض اور رفتار کو سمجھنے کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ یہ کام پوری دیانت‘ علمی گہرائی‘ حقیقت پسندی اور انصاف کے ساتھ کیا جائے اور ہر تعصب سے بالا ہوکر کیا جائے۔ تنقید کرنے سے پہلے تفہیم کی ضرورت ہے۔ تفہیم ہی سے یہ متعین ہوسکے گا کہ کیا قابلِ قبول ہے اور کیا ناقابلِ قبول۔ کہاں کوئی اشتراک ممکن ہے اور کہاں مقابلہ ناگزیر ہے۔ اور مقابلہ بھی مناسب تیاری‘ صحیح حکمت عملی ‘ طویل اور مختصر مدت کی ترجیحات کے تعین اور اپنی قوت کے صحیح اندازے کے ساتھ ہونا چاہیے۔

ان حالات سے خوف زدہ ہونے یا امریکا اور وقت کی غالب قوتوں کا کاسہ لیس بن جانے اور ان کی چھتری تلے پناہ لینے سے اُمت مسلمہ کو احتراز کرنا چاہیے۔ تصادم نہ اس وقت ممکن ہے اور نہ مطلوب۔ لیکن حاشیہ برادری بھی کوئی غیرت مندانہ راستہ نہیںہے۔ عزت اور وقارکا راستہ ہی محتاط  مزاحمت  کا راستہ ہے‘ اور مقابلے کے لیے اس جنگ میں تمام ہی حلیفوں سے سیاسی ‘ریاستی اور عوامی سطح پر تعاون ضروری ہے۔ مسلمان اُمت اور ممالک کے لیے تنہائی (isolation) سے بچنا ضروری ہے۔ آپس کے تعاون اور اتحاد کی بھی اشد ضرورت ہے۔ موثر ڈپلومیسی ہی کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ اور مستقبل کی منصوبہ بندی ہوسکتی ہے۔ ہمیں خود اور دوسروں سے مل کر انسانی حقوق‘ آزادی اور قانون کی حکمرانی کے لیے کھلے دل سے کام کرنا چاہیے۔ بین الاقوامی قانون کے احترام‘ حقیقی جمہوری قدروں کے تحفظ اور انصاف کے حصول کے لیے عالمی جدوجہد میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان سب قوتوں سے تعاون کرنا اور تعاون حاصل کرنا چاہیے جن سے جزوی طور پر ہی سہی مقاصد کا اشتراک ممکن ہے۔

ان تمام خطرات کے پورے پورے شعور کے باوجود ہماری نگاہ میں امریکہ سمیت‘ تمام مغربی اقوام سے مکالمے (dialogue)کی ضرورت ہے‘ جس کے تین پہلوہیں:

۱- حکومتوں سے بات چیت اور افہام و تفہیم

۲-  ان ممالک کے عوام اور اہل دانش تک رسائی اور اپنی بات پہنچانے کی کوشش

۳-  پھر ان ممالک میں ایسے تمام عناصر سے ربط اور تعاون کی راہوں کی تلاش‘ جن سے کلی یا جزوی اشتراک عمل ممکن ہے۔

یہ نہ توسمجھوتے کا راستہ ہے اور نہ کسی کمزوری کی علامت ہے۔ یہ حقیقت پسندی کا تقاضا‘ اور دعوت کا راستہ ہے۔

اس سلسلے میں مسلمان حکمرانوں سے بھی ربط کی ضرورت ہے اور ان میں برے اور   کم برے میں تمیز کرنا ہوگا۔ بلاشبہہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اُمت کے عوام اور حکمرانوں میں بعدالمشرقین ہے اور ان کے درمیان نہ صرف ایک خلیج حائل ہے ‘بلکہ دونوں کے عزائم‘ جذبات‘ اہداف اور مفادات تک میں ایک واضح تفاوت بلکہ تضاد ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ کے ہم نوا‘ اس پر اعتماد کرنے والے اور اس کے حلیف حکمران بھی دل کے کسی نہ کسی گوشے میں یہ احساس رکھتے ہیں کہ کسی وقت بھی وہ ان کو دھوکادے سکتا ہے۔ ان حالات میں ان حکمرانوں کا اپنا مفاد بھی اسی میں ہے کہ اپنے عوام سے قریب ہوں اور ان سے تصادم کی جگہ ایسا رشتہ قائم کریں کہ مل جل کر سب کے مفاد کا تحفظ ہوسکے۔ یہ نازک اور مشکل کام ہے لیکن اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ اسلامی تحریکات کو سمجھنا چاہیے کہ ان کی اصل طاقت اللہ پربھروسے کے بعد عوام کی طاقت ہی ہوسکتی ہے اور انھیں وہ راستہ اختیار کرنا چاہیے جس سے وہ عوام کو ساتھ لے کر اپنے ملک اور اُمت مسلمہ کے مفاد کا بھی تحفظ کرسکیں۔ اس مقصد کے لیے جس حد تک اور جس طرح مسلمان حکمرانوں پر اثرانداز ہونا ممکن ہو‘ اس کی فکر کرنی چاہیے۔

اس کے ساتھ ان عالمی مسائل پر ایک واضح موقف اختیار کرنا ضروری ہے جو آج انسانیت کے مرکزی مسائل ہیں۔ ان میں انسانی حقوق‘ عدل اجتماعی‘ معاشی ترقی اور دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم‘ خاندان کے نظام کا انتشار‘ طبقاتی تصادم‘ مظلوم اقوام کی دادرسی اور دنیا کو ظالم حکمرانوں اور سرمایہ پرستوں کی گرفت سے نجات سرفہرست مسائل ہیں۔

عالمی سطح پر ہماری نگاہ میں آج سب سے بڑا مسئلہ ’ورلڈ میڈیا‘ میں مسلمانوں اور خصوصیت سے اسلامی تحریکات کے لیے جگہ حاصل کرنا اور اپنی بات کو دنیا تک پہنچانے کے لیے راستہ نکالنا ہے۔ آج میڈیا کی قوت‘ عسکری قوت سے کسی طرح کم نہیں۔ اسلامی تحریکات نے حرف مطبوعہ (printed word)کو تو ذریعہ بنایا ہے‘ لیکن جدید ابلاغی ذرائع میں جو چیزیں سب سے اہم ہیں‘ یعنی الیکٹرانک میڈیا اور ڈیجیٹل پاور بڑی حد تک یہ ذرائع ابھی ہماری دسترس سے باہر ہیں اور یہ ہماری بہت بڑی کمزوری ہے۔ اس میدان میں خلا کو پُر کرنا اولین اہمیت کا حامل ہے۔

اسی طرح ساری کمزوریوں اور مشکلات کے باوجود‘ مسلمان ملکوں کا اتحاد‘ ان کا مشترک محاذ‘ اور متعین مسائل کے بارے میں ایک مشترک موقف‘ معاشی اور سرمایہ کاری کے میدان میں تعاون اور بالآخر عسکری تعاون اور ہم آہنگی بھی وقت کی ضرورت‘ اور سب کے مفاد میں ہیں۔

مسلم ممالک کا تعاون اسلام اور اُمت کے تصور کا تقاضا تو ہے ہی‘ لیکن آج تو یہ ہر ملک‘ حتیٰ کہ اس کے حکمرانوں کی بھی ایک ضرورت بن گیا ہے۔ اس لیے اسلامی تحریکات کو عالمی سطح کی حکمت عملی بناتے وقت ان پہلوئوںکو سامنے رکھنا چاہیے۔

داخلی چیلنج اور لائحہ عمل

دفاعی اور عالمی معاملات میں صحیح حکمت عملی کے ساتھ ہمارا اصل چیلنج داخلی ہے اور فکرِمودودیؒ کی روشنی میں یہی وہ میدان ہے جس کے بارے میں اسلامی تحریکات کو گہرے سوچ بچار اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس پہلو سے چند نکات قابلِ توجہ ہیں:

دین کا مجموعی تصور اور بنیادی اصولوں کی تشریح کے باب میں مؤسسین نے بڑا قیمتی اور راہ کشا کام کیا ہے‘ لیکن اس سلسلے میں چند اہم کام ہیں جن کی طرف توجہ وقت کا تقاضا ہے۔

  • پہلی چیز اس فکری اور دعوتی کام کو جاری رکھنا اور وقت کی ضرورتوں سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ فکری محاذ ایک نہایت اہم محاذ ہے اور عملی جدوجہد کے مختلف میدانوں میں انہماک کی وجہ سے اس محاذ پر کمزوری بڑی نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ اہلِ مغرب کے ہاں فکری میدان میں جو کام ہو رہا ہے حتیٰ کہ اسلام پر اور اسلام کے پیغام کو مسخ کرنے کے لیے جو کچھ ہو رہا ہے اس پر نظرڈالتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی تحریکات اس میدان میں ان سے بہت پیچھے ہیں۔ سیدمودودیؒ نے تن تنہا وہ کام کیا جو کئی ادارے مل کر بھی نہیں کر سکتے تھے۔ آج ضرورت ہے کہ محققین اور اہلِ علم کی ایسی ٹیمیں تیار کی جائیں اور ایسے اعلیٰ تحقیقی ادارے قائم کیے جائیں جو اس کام کو جاری رکھ سکیں اور آگے بڑھائیں۔ جب تک ہر دور کے اٹھائے ہوئے مسائل اور معاملات پر اسلام کے اصل سرچشموں سے استفادہ کر کے نیا لٹریچر تیار نہ ہو‘ ہم علمی بالادستی حاصل نہیں کرسکتے اور اس کے بغیر تہذیبی مقابلے کے میدان میں قدم نہیں جما سکتے۔

مولانا مودودیؒ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا ایک اہم ذریعہ اس علمی کام کو جاری رکھنا‘ آگے بڑھانا اور نئے تقاضوںکو پورا کرنا ہے جس کا آغاز انھوں نے ۸۰ سال پہلے کیا تھا۔

پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اصولی اور مرکزی تصورات تو مؤسسین نے واضح کردیے ہیں‘ لیکن ان میں مزید وسعت پیدا کرنا‘ تفصیلات کا تعین کرنا‘ خصوصیت سے زندگی کے مختلف شعبوںمیں اسلام کی رہنمائی کو فکری (conceptional) پہلو کے ساتھ اطلاقی (applied) شکل میں مرتب کرنا جو ایک متوازن پالیسی کی صورت گری کر سکے‘ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نیز ہر میدان میں نئے علمی چیلنجوں کا موثر مقابلہ بھی علمی اور تحقیقی پروگرام کا حصہ ہونا چاہیے۔

اس کے ساتھ یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ مؤسسین کے مخاطب بالعموم مسلمان تھے اور وہ بھی اپنے اپنے ملک اور خطے کے لوگ‘ جیسا کہ ہم نے پہلے اشارہ کیا۔ آج دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ اسلام‘ مشرق اور مغرب میں موضوعِ گفتگو ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ غیرمسلموں کی ذہنی اور تہذیبی سطح سامنے رکھ کر اور دنیا کے تمام انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے اسلام کے پیغام کو آج کی زبان میں اور آج کے ایشوزکی روشنی میں پیش کیا جائے۔ یہ پیغام  ان زبانوں میں پیش کیاجائے جن کے ذریعے ہم دنیا کی بڑی آبادی تک پہنچ سکیں۔ اس سلسلے میں انگریزی زبان نے خصوصی اہمیت اختیار کر لی ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

مغربی تہذیب اور اس کی اہم تحریکوں‘ سوشلزم اور سرمایہ داری کے بارے میں مؤسسین نے بڑی وقیع علمی تنقید اور احتساب کا اہتمام کیا ہے۔ لیکن انسانی علوم کی اسلامی بنیادوں پر تشکیلِ نو اور آج کے سیاسی‘ معاشی‘ سماجی‘ سائنسی مباحث کی روشنی میں اسلام کی تعلیمات کی صحیح ترجمانی اور خصوصیت سے سیکولرزم اور موڈرنزم کی نئی تشکیلات‘ سرمایہ داری کی جدید شکل‘ لبرلزم اور تحریک نسواں کی جدید شکل اور مسلم ممالک کے معاشی‘ سیاسی‘ سماجی‘ علاقائی‘ لسانی مسائل اور اقلیتوں کے کردار کے سلسلے میں بے شمار امور اور معاملات ہیں‘ جن پر غوروفکر‘ تحقیق و جستجو اور بحث و مباحثے کے بعد مثبت طور پر ہمیں اپنا موقف پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ساری ضرورتیں صرف مؤسسین کی علمی خدمات کی تحسین اور صرف انھی کے آثار کی طباعت سے پوری نہیں ہوسکتیں۔ اس کے لیے تووہی کام جاری رکھنا ہوگا جو اسلامی تحریک کے مؤسسین نے شروع کیا تھا۔

  • دوسرا بڑا مسئلہ مسلم دنیا میں ہمارے اپنے تاریخی اور روایتی اداروں کی تحلیل اور ان کی جگہ مغرب سے درآمد شدہ اداروں کے تسلط سے متعلق ہے۔ اسلامی اداروں کی تشکیلِ نو اور ان کا قیام ایک بڑا بنیادی تہذیبی چیلنج ہے۔ زندگی کا قانون ہے کہ خلا زیادہ دیر باقی نہیں رہتا۔ ہمارا مسئلہ تو یہ ہے کہ خاندان کے سوا (اور وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے) کوئی ادارہ باقی نہیں رہا اور نئے ادارے جو باہر سے لاکر مسلط کیے گئے ہیں وہ نئی تباہ کاریوں کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ تعلیم‘ معاشرہ ‘مدرسہ‘ تجارت‘ معاشرت‘ قانون‘ سیاست سب اسی کش مکش کی آماج گاہ بنے ہوئے ہیں۔ روایتی ادارے اپنی پرانی شکلوں میں بحال نہیں ہو سکتے۔ درآمد شدہ نئے ادارے ہماری اقدار‘ روایات اور ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ لیکن تشکیلِ نو کا عمل بڑی تحقیق‘ محنت‘ تجربے‘  بالغ نظری اور اختراعیت (creativity)چاہتا ہے۔ مؤسسین نے اپنے زمانے میں اپنے انداز میں ابتدائی کام کیا‘ لیکن صرف اسی پر قناعت سے مستقبل میں کام نہیں چل ہوسکتا۔ اس چیلنج کا بھرپور مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
  • تیسرا مسئلہ نئی قیادت بروے کار لانے کا ہے۔ آج کا دور علمی مہارت اور اخلاقی بالیدگی کے ساتھ پیشہ ورانہ گرفت اور اپنے اپنے میدان کار میں اختصاص کا تقاضا کرتا ہے۔ ہرمیدان میں مردانِ کار کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے بڑی پتّا ماری کے ساتھ افراد سازی کی ضرورت ہے اور وہ بھی اس انداز میں کہ جدید علوم اور مختلف النوع صلاحیتوں اور قابلیتوں کے ساتھ اسلامی اصولوں‘ اقدار اور حسّا سیات (sensitivities)کا بھی مکمل ادراک ہو‘ مقصد کی لگن اور کردار کی خوبیوں سے بھی یہ قیادت آراستہ ہو۔ اس کے لیے وژن‘ پروگرام‘ اداروں اور وسائل کی ضرورت ہے۔ مؤسسین کے کام کو آگے بڑھانے کے لیے اس چیلنج کا جواب بھی ضروری ہے۔
  • چوتھا مسئلہ سیاست میں تحریکِ اسلامی کے کردار کا ہے۔ بلاشبہہ یہ اسلامی تحریکات کا منفرد کارنامہ ہے کہ اس نے نظامِ حکومت کی اصلاح اور سیاسی قوت اور قیادت کو نظریے کی خدمت کا ذریعہ بنانے کے اسلامی اصول اور اسلوب کو منوا لیا ہے۔ لیکن اب چیلنج عملاً تبدیلی کا ہے۔ چونکہ اس کے لیے جمہوری طریقہ اختیار کیا گیا ہے اس لیے عوامی تائید کا حصول‘ عوام کی تائید اور وابستگی کو برقرار رکھنا‘ ان کی توقعات کو پورا کرنا‘ اور سیاست کی معروف خرابیوں کی اصلاح کرنا--- یہ بڑے بڑے چیلنج ہیں۔

اس سلسلے میں جو تجربات اب تک ہوئے ہیں‘ ان کے جائزے اور احتساب کی ضرورت ہے۔ اتحاد اور الحاق کے فوائد اور مضمرات پر بھی غوروفکر کی ضرورت ہے۔ ایران‘ پاکستان‘ ملایشیا‘ ترکی‘ الجزائر‘ سوڈان‘ یمن جہاں بھی مفید تجربات ہوئے ہیں‘ ان کے گہرے اور ناقدانہ مطالعے اور تجزیے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہہ تبدیلی کے عمومی عمل کی تو نشان دہی کر دی گئی ہے‘ مگر اس کی  عملی تفصیلات اور اس کے گوناگوں تقاضوں پر کام کی ضرورت ہے۔ اقتدار کو متاثر کرنا‘ اقتدار میں بامعنی شرکت‘ اقتدار پر دسترس‘ غرض کتنے ہی پہلو ہیں جن کے بارے میں اسٹرے ٹیجک غوروفکر کی اشد ضرورت ہے۔ اسی طرح مختلف ملکوں میں سیاسی تجربات کے جو نتائج نکلے ہیں اور جو مسائل و مشکلات سامنے آئی ہیں‘ وہ بڑے وسیع پیمانے پر مطالعے‘ بحث مباحثے‘ شوریٰ اور نئے اقدامات کے متقاضی ہیں۔

  • پانچواں مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت مسلم معاشرے اور ممالک جن مسائل سے دوچار ہیں‘ ان میں علم و فن‘ سائنس اور ٹکنالوجی‘ معاشی ترقی‘ سیاسی استحکام‘ بیوروکریسی اور فوج کے کردار‘ صحافت اور میڈیا کے کردار‘ نوجوانوں کے مسائل‘ عالم گیریت کے اثرات اور چیلنج‘ عورتوں کے مسائل اور کردار‘ جرائم اور تعصبات کی کیفیت مرکزیت اختیار کرچکے ہیں--- ان سب امور پر ازسرنو غور کرنے‘ مسائل کا حل تلاش کرنے‘ نئی پالیسیاں وضع کرنے‘ تیاری کے ساتھ تجربات کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف یہ کہنے سے کام نہیں چلے گا:’’تمام مسائل کا حل اسلام میں موجود ہے‘‘۔ اب تو اسلام کی روشنی میں مسئلے کا واضح حل پیش کرنے‘ پورا نقشہ بنانے اور اس پر عمل کرکے دکھانے کا مرحلہ ہے۔ بلاشبہہ یہ پہلے مرحلے سے زیادہ مشکل مرحلہ ہے۔ ساتھ ہی یہ مسئلہ روز بروز اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ ہم اپنے نظریاتی اور اخلاقی وزن کو سیاسی وزن میں کیسے منتقل کریں اور کیسے اس کی اپنی اس حیثیت کو برقرار اور پاے دار (sustain) رکھیں ۔ یہ سارے مسائل اور معاملات نئی فکر‘ نئی جدوجہد‘ اور نئے تجربات کا تقاضا کر رہے ہیں۔ اور یہی وہ کوشش ہے جس سے ہم اپنے گھر کو اور اُمت مسلمہ بحیثیت مجموعی مسلم دنیا کو درست کر سکے گی--- کہ آگے کے عالمی مراحل کا انحصار خود اُمت مسلمہ کی اخلاقی اور مادی قوت کی صحیح حنابندی پر ہے۔
  • چھٹا مسئلہ اسلام کے پیغام اور مسلم ممالک کے تجربات کے صحیح ابلاغ (communication) کا ہے۔ ہم اس سلسلے میں پہلے بھی اشارہ کر چکے ہیںکہ یہ اندرونی مسئلہ بھی ہے اور بیرونی بھی۔ تعلیم اور ذرائع ابلاغ کی صحیح سمت میں ترقی اور تشکیلِ نو اور مغرب کے ایجنڈے کے مقابلے میں اپنے ایجنڈے کے مطابق ان دائروں کی اصلاح اور تقویت وقت کی ضرورت ہے۔

ہمارا مقصد بیرونی اور اندرونی‘ دفاعی اور داخلی‘ تعمیری میدانوں کے تمام مسائل کا احاطہ نہیں ہے۔ ہم صرف یہ توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ ان دونوں میدانوں میں جو مسائل اور معاملات آج درپیش ہیں‘ ان کے حل کے لیے بیسویں صدی کی اسلامی فکر میں ایک اصولی رہنمائی تو موجود ہے لیکن وقت کی اصل ضرورت اس ’طرزِفکر‘ کی روشنی میں آج کے مسائل کے لیے فکری اور عملی جدوجہد ہے۔ اس کام کی انجام دہی کے لیے ضروری ہے کہ قرآن و سنت ہی کو اصل ماخذ بنایا جائے۔ مؤسسین کی فکر سے اسی طرح استفادہ کیا جائے جس طرح انھوں نے اپنے پیش رووں کے قیمتی کام سے استفادہ کیا ‘لیکن اسی پر قناعت کیے رکھنا خود ان کے ساتھ  بڑی ناانصافی ہوگی۔

  • اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ نئے حالات اور چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تنظیمی میدان میں اور تعلیمی اور تربیتی نظام میں کن تبدیلیوں اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔ کیا سارے کام یا بیش تر کام ایک ہی تنظیمی چھتری کے تحت کیے جا سکتے ہیں یا ان کے لیے الگ الگ انتظامات کی ضرورت ہے جو اپنے اپنے اہداف کو پیشہ ورانہ اہلیت کے ساتھ حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہوسکیں؟تحریکی اداروں کے ساتھ باقی اداروں اور تنظیموں سے کس طرح معاملہ کیا جائے؟ ملکی سطح کے ساتھ ملّی سطح پر کام کی نوعیت کیا ہو؟ اور اداروں کا نظام اور ان کے درمیان تعاون کی کیا کیفیت ہو؟ پھر اس سے بھی بڑھ کر تحریک کے جو مختلف دائرے ہیں‘ ان میں سے ہر دائرے کے اندر‘ اور ایک دائرے کا دوسرے دائرے سے تعلق اور کاموں کی تقسیم اور  ترقی کی کیا کیفیت ہو؟ اس سلسلے میں تحریکِ اسلامی کے اندر اور اس کے اپنے متعلقہ ادارے سب سے پہلا اور اساسی دائرہ ہیں۔ پھر تحریکِ اسلامی اور پورا ملک‘ اور ملّت اسلامیہ دوسرا دائرہ ہیں اور تیسرا دائرہ تحریکِ اسلامی‘ ملّت اسلامیہ اور پوری انسانیت ہے۔ ان میں سے ہرایک کے سلسلے میں اندرونی اور بیرونی دونوں محاذوں پر کیا اہداف ہوں‘ کیا حکمت عملی وضع کی جائے‘ اور کون سے ادارے قائم کیے جائیں‘ کیا پالیسیاں اور پروگرام مرتب ہوں اور پھر ہردائرے کا دوسرے دائروں سے کیا تعلق ہو؟ یہ سارے امور غوروفکر‘ بحث و مجادلے اورمناسب منصوبہ بندی کا انتظار کررہے ہیں۔

ہماری نگاہ میں سید مودودیؒ کا اصل پیغام اکیسویں صدی کے لیے یہ ہے کہ وژن‘ مقصد اور اصول پر یکسوئی کے ساتھ قائم رہا جائے۔ اپنے پیش رووں کی فکر اور خدمات سے احترام اور وفاداری کے ساتھ استفادہ کرتے ہوئے‘ جدید اور نئے مسائل اور معاملات سے صرفِ نظر نہ کیا جائے بلکہ پوری قوت سے ان سے نبردآزما ہونے کی سعی کی جائے۔ فکر کے ساتھ ’طرزِفکر‘ کو  توجہ اور نئی جدوجہد میں مرکزی اہمیت دی جائے۔ جس روش اور طریق کار (methodology) سے مؤسسین نے کام کیا اس میں بہتری اور تازگی پیدا کی جائے‘ نئے حالات اور مسائل کے لیے پوری شدومد سے اسے روبہ عمل بھی لایا جائے۔ اس فکر کو وسعت اور عمق دونوں میدانوں میں آگے بڑھایا جائے۔ لیکن اس کے ساتھ نئی فکر‘ نئی ٹکنالوجی ‘ نئی مہارت‘ اور نئے تجربات کے بارے میں اسی شوق اور جذبے سے جدوجہد کی جائے جس سے پیش رووں نے اپنے زمانے میں کی تھی اور ہمارے لیے روشن نقوشِ راہ مرتب کیے تھے --- کہ آگے بڑھنے اور نئی دنیا تلاش کرنے کا یہی طریقہ ہے     ؎

شاید کہ زمیں ہے وہ کسی اور جہاں کی

تو جس کو سمجھتا ہے فلک اپنے جہاں کا

بیسویں صدی نے تاریخ کے اوراق پر تباہی اور شکست و ریخت کے بڑے ہولناک نقوش ثبت کیے ہیں‘ لیکن اس کے ساتھ‘ فکری اور تعمیری حوالے سے بھی‘ اس کے دامن میں چند مثبت کارنامے اور بعض افادی پہلو نظرآتے ہیں۔

اُمت مسلمہ ایک طرف بدترین استحصال کا شکار ہوئی تو دوسری جانب اسے استعمار کی غلامی سے نجات بھی ملی اور تیسری جانب اس کے اندر ایسی تحریکیں برپا ہوئیں‘ جنھوں نے اُمت کے اندر دینی بیداری اور اسلامی شعور پیدا کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔ ان تحریکوں کے بعض داعیوں اور رہنمائوں نے مسلمانوں کو بحیثیت اُمت سربلندی اورعظمت کی طرف لے جانے میںاہم کردارادا کیا۔ ایسی شخصیات میں ایک نام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا بھی ہے۔

زیرنظر مضمون میں مولانا مودودیؒ کی زندگی کے فکری پہلوئوں پر جو معروضات پیش کی جارہی ہیں ان کا ماحصل یہ ہے کہ مولانا مودودی کی شخصیت اور ان کے فکری وعملی کارناموں کی روشنی میں ہم بھی ایمان‘ دانش اور عمل کی راہوں کو کشادہ کرتے ہوئے‘ اپنے زمانے کے درپیش چیلنجوں اوربحرانوں کا مقابلہ کریں۔ دورِ جدید کی تاریخ میں حق و باطل کی کش مکش کا جب بھی ذکر ہوگا‘ تو اس میں اس دور کی زمانہ ساز شخصیات اور تحریکوں کا بھی لازمی طور پر تذکرہ ہوگا۔ اس تذکرے میں مولانا مودودیؒ کی کاوشوں کو ایک مرکزی اور کلیدی حیثیت حاصل ہے     ؎

ایں سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشد خداے بخشندہ

  • پہلا حصہ ۱۹۲۰ء سے لے کر ۱۹۲۸ء تک‘مولانا مودودیؒ کے فکر کا تشکیلی دور ہے۔ اسے ان کی صحافتی زندگی کا زمانہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہ زمانہ ملکی اور بین الاقوامی سیاست کے بارے میں ان کے مطالعے اور تحقیق کا زمانہ ہے۔ ایک لحاظ سے اس زمانے کو ان کے دورِ طالب علمی کا تسلسل بھی کہا جا سکتا ہے۔ ان کے مختصر خودنوشت شذرات (notes) کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں ان کا مطالعہ‘ زیادہ تر قرآن پاک‘ حدیث نبویؐ اور تاریخ کے علاوہ دورِ جدید کے علمی اور ادبی لٹریچر پرمشتمل تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلم اُمت کو تہذیبی‘ سیاسی اور معاشی سطح پر ایک کش مکش کا سامنا تھا‘ مولانا کو اس کش مکش کا صحیح ادراک اسی دور (۱۹۲۰ئ-۱۹۲۸ئ) میں ہوا‘ جس کا ثبوت ان کے وہ مضامین ہیں جو اس زمانے میں انھوں نے الجمعیۃ میں لکھے۔ اس علمی اور صحافتی سرمایے کو خلیل احمد حامدی مرحوم و مغفور نے چار جلدوں (آفتاب تازہ‘ بانگِ سحر‘ جلوۂ نور اور صداے رستاخیز)میں جمع کر کے محفوظ کر دیا ہے۔
  • ۱۹۲۸ء سے ۱۹۳۲ء تک کے زمانے کو میں دوسرے دور کا حصہ سمجھتا ہوں۔ اس لیے کہ الجہاد فی الاسلام کی تسوید کا کام ۲۶-۱۹۲۵ء سے شروع ہوگیا تھا۔ ۱۹۲۷ء کے آخر تک اس کا پہلا مسودہ تیار ہوا تھا۔ اس کے بعد مولانا مودودیؒ صحافت کو چھوڑکر محقق‘ مفکر‘ مصنف اور مصلح کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ اس دور میں انھوں نے تاریخ اور ثقافت سے لے کر  حدیث اور فقہ کے مباحث پر بڑی عرق ریزی سے کلام کیا۔ اس زمانے میں انھوں نے اسلام کے انقلابی تصور کو اس کی تمام جہتوں سمیت دلیل کی قوت سے واضح کیا‘ اور اس کے ساتھ ہی عصرجدید کے تصورات پر بھرپور گرفت بھی کی۔ اس دور میں مولانا نے قرآن و سنت کے ابدی پیغام کی شرح و بسط کے ساتھ ترجمانی کی‘ اور یہ ترجمانی اس خوبی اور عمدگی اور اس شان سے کی کہ مولانا سید سلیمان ندویؒ اور مولانا عبدالماجد دریابادیؒ جیسے بزرگوں نے ان کو’ ترجمانِ اسلام‘ قرار دیا۔ یوں ۱۹۲۸ء سے لے کر ۱۹۴۱ء تک یہ ساری علمی اور قلمی جدوجہد وہ تن تنہا کرتے رہے۔

یہی زمانہ تھا جب ان کے ہم خیال‘ جاںنثار دوستوں‘ حلیفوں اور ہم سفروں پر مشتمل  ان کے حلقۂ احباب میں وسعت پیدا ہو رہی تھی۔ مولانا مودودیؒ اسلامیانِ ہند (خصوصاً مسلم اُمہ اور بالعموم پوری نوعِ انسانی) کے مستقبل کے بارے میں جو تصور اور وژن (vision) رکھتے تھے اور جو تبدیلی وہ لانا چاہتے تھے‘ وہ تن تنہا بروے کار نہیں لائی جاسکتی۔ اس مطلوبہ تبدیلی کا تقاضا تھا کہ ایک منظم اور مربوط اجتماعی جدوجہد کی جائے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۳۶ء کے لگ بھگ سید مودودیؒ کو یہ احساس ہوگیا تھا کہ بلاشبہہ دورِ جدید میں اسلام کے احیا کے لیے فکری کام بھی ضروری ہے‘ لیکن اس فکر کو بروے کار لانے کے لیے کسی عملی جدوجہد اور اجتماعی تحریک کے بغیر‘یہ عظیم کام نتیجہ خیز نہیں ہو سکتا۔ تجدید و احیاے دین اور مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش جیسی تصانیف ان کے اس ذہنی سفر کی عکاس ہیں‘ جو بالآخر ایک صالح جماعت کی ضرورت پر منتج ہوا۔

  • اگست ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کے قیام کے ساتھ ہی اِس منظم اجتماعی جدوجہد کا دور شروع ہوتا ہے۔ البتہ اس سے پہلے ۱۹۳۸ء میں علامہ محمد اقبال مرحوم کی دعوت پر حیدرآباد دکن سے دارالاسلام (پنجاب) منتقلی‘ اور وہاں ادارہ دارالاسلام کا قیام‘ دراصل اس بڑے کام کا ابتدائی مرحلہ (spade work) تھا‘ جب کہ اس کی دہلیز(threshold)اگست ۱۹۴۱ء ہے۔ اس تین سالہ عرصے (۱۹۳۸ئ-۱۹۴۱ئ) میں وہ اُمت کی تعمیر اور اس کے اندر مطلوبہ تبدیلیوں کے لیے ایک متبادل شعور (alternative vision)کی پرورش کرتے رہے اور پھراس کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے ایک ہمہ جہت اجتماعی جدوجہد کا آغاز کیا۔ تیسرا دور ۱۹۴۱ء سے وفات  (۱۹۷۹ئ) تک کا ہے‘ جب وہ رفیق اعلیٰ کے بلاوے پر ہم سے رخصت ہوئے۔ یہ ان کی زندگی کا سب سے زیادہ ہنگامہ خیز اور انقلابی دور تھا۔ جس میں سید مودودیؒ کا وژن بھی کھلی کتاب کی طرح سب کے سامنے تھا۔ اس وژن کے مطابق زندگی کے نقشے کو ازسرنو تعمیر کرنے کی اجتماعی جدوجہد کے سارے خدوخال بھی صفحۂ قرطاس ہی پر نہیں‘بلکہ رنگ و بو کی اس دنیا میں اپنی تمام تر رعنائیوں اور تفصیلات کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔ ایک چھوٹے سے مجلے (ترجمان القرآن)سے شروع ہونے والی یہ جدوجہد نہ صرف برعظیم ہی کے طول و عرض میں تہلکہ مچانے کا باعث بنی‘ بلکہ ایک عالم گیر انقلابی تحریک کا روپ دھار گئی‘ اور اس چومکھی لڑائی میں سید مودودیؒ کا عالم یہ تھا کہ    ؎

ایک دل ہے اور ہنگام حوادث اے جگر

ایک شیشہ ہے کہ ہر پتھر سے ٹکراتا ہوں میں

اس طرح میں ان کی زندگی کو ان تین حصوں میں تقسیم کر کے غور کرتا ہوں۔

مولانا مودودیؒ بحیثیت صحافی

اولیں دورِ صحافت میں بالکل نوعمری ہی میں مولانا مودودیؒ نے بحیثیت ایک صاحبِ قلم اور بحیثیت ایک وسیع النظر صحافی کے اپنی منفرد اور غیرمعمولی صلاحیتِ کار کا لوہا منوایا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ انھوں نے تاج‘ مسلم اور جمعیت العلما کے پرچے الجمعیۃ میں لکھا‘ بلکہ اس کے ساتھ نگار ‘مدینہ‘ بجنور اور لاہور کے ہمایوں میں بھی مضامین لکھے۔ حیرت ہوتی ہے کہ ۲۱‘۲۲ برس کے نوجوان کو مسلمانوں کی اس وقت کی ایک اہم تنظیم جمعیت العلما کے سرکاری ترجمان کی ادارت مکمل ذمہ داری کے ساتھ سونپی گئی جو مولانا مودودیؒ کی غیرمعمولی ذہانت اور ان کے کردار کی پختگی کے ساتھ جمعیت علماے ہند کے قائدین کی مردم شناسی کا مظہر بھی تھی۔ خصوصاً مفتی کفایتؒ اللہ اور مولانا احمدسعیدؒ اس نوجوان سے بے حد متاثر تھے۔ دوسری طرف مولانا محمدعلی جوہرؒ بھی چاہتے تھے کہ مولانا مودودی ؒان کے معاون کے طور پر‘ ان کے تاریخ ساز اخبار ہمدرد کے عملۂ ادارت میں شامل ہوجائیں۔ مراد یہ ہے کہ اس زمانے میں بحیثیت ایک صاحبِ قلم اور صحافی کے‘ انھوں نے اپنی غیرمعمولی صلاحیتوں کا لوہا منوا لیا تھا۔ اس زمانے میں مولانا نے ترجمے بھی کیے ہیں اور متعدد مضامین بھی لکھے ‘لیکن ان کا پہلا کارنامہ صحافت ہے۔

مولانا مودودی کے اس دورِ صحافت میں ہمیں پانچ چیزیں بڑی نمایاں نظرآتی ہیں:

  • پہلی بات یہ ہے کہ نوجوانی کے باوجود‘ ان کی تحریر میں بڑی پختگی ہے۔ الجمعیۃ کے زمانے کے مضامین اور بعد کی تحریروں کو دیکھیں تو زبان‘ اسلوب‘ اظہارخیال‘ حسن بیان اور رعنائی خیال میں بہت کم فرق نظر آئے گا۔ مجھے یہ بات کہنے میں ذرا بھی باک نہیں کہ تحریر میں اتنی کم عمری میں ایسی پختگی‘ بڑی منفرد اور امتیازی خصوصیت ہے۔ اس سے قبل ہمیں یہ خوبی مولانا ابوالکلام آزادؒ اور علامہ شبلی نعمانی ؒمیں نظر آتی ہے اور بعدازاں یہ چیز ہمیں سید مودودیؒ میں بحیثیت ایک نوجوان صحافی کے نظرآتی ہے۔ البتہ آزاد اور شبلی کے برعکس مولانا مودودی کے ہاں ایک وسعت نظر‘ فکر میں ٹھیرائو اور زیادہ کھلے پن کا احساس ہوتا ہے۔
  • دوسری حیرت انگیز بات ان کے ہاں مطالعے کی ہمہ گیری اور حکمت و دانش کے متنوع ذخیروں سے اخذ و اکتساب کے لیے حیرت انگیز محنت وکاوش نظرآتی ہے۔ دنیا کے حالات سے باخبری‘اور نہ صرف گوناگوں موضوعات پر اظہار خیال‘ بلکہ راے کی پختگی کے نمونے اس زمانے کی تحریروں میں فراواں دکھائی دیتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مولانا مودودیؒ خود   اپنی فکر کو سنوار اور نکھار رہے تھے۔ ان کا وژن اسلام کا سرچشمۂ قوت کے مضامین    کے ذریعے ہمارے سامنے آتاہے۔ یہ لہجہ اور وسعت بیان ان کی تحریروں کے چار مجموعوں (آفتاب تازہ‘ بانگ سحر‘ جلوہ نور اور صداے رستاخیز) میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

ان مضامین میں وہ پوری شرح وبسط سے بیان کرتے ہیں کہ اسلام ایک مکمل دین اور انسانیت کے لیے ایک آفاقی پیغام ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انقلابی تحریک بھی ہے۔ ان مضامین میں مولانا کے ہاں زبان و بیان کی صحت اور اثرانگیزی کے ساتھ ساتھ فکر کی پختگی اور وسعت تہہ در تہہ نظرآتی ہے۔ ایک سہ روزہ اخبار میں خبروں کے انتخاب اور ترجمے کے ساتھ اداریہ نویسی اور کالم نویسی بذات خود بڑاجاںگسل کام تھا‘ جب کہ معاونت کے لیے اس کا عملہ بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس متفرق نویسی کے ساتھ وہ اعلیٰ درجے کے علمی وفکری مضامین بھی لکھتے رہے۔ یہ چیز تحریر وتصنیف پر ان کی ماہرانہ دسترس اور ان کی غیرمعمولی دماغی قابلیت کا پتا دیتی ہے۔

  • تیسری چیز جس نے مجھے سحر زدہ کیا‘ وہ مولانا مودودیؒ کی شخصیت میں دماغ اور دل کا نہایت متوازن تعلق ہے۔ دماغ علامت ہے تفکر اور تدبر کی اور دل نمایندہ ہے جذبات‘ احساسات‘ توقعات اور خواہشات کا۔ ان میں جب بھی تصادم اور تضاد ہو تو انسان بھٹک کر رہ جاتا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کا غلبہ ہو اور دوسرا معدوم ‘تو شخصیت کا عدم توازن رونما ہوتا ہے۔ لیکن اگر ان کے درمیان ایک صحیح توازن ہو تو متوازن شخصیت اُبھرتی اور معتدل فکر رونما ہوتی ہے۔ میں نے اس زمانے میں مولاناؒ کی تحریروں کا جو تجزیہ کیا ہے‘ اس میں کہیں کہیں فکر پر جذبے کا غلبہ نظر توآتا ہے‘ جو ان کی عمر اور اس عہد (age) کے مسائل و مصائب اور حالات کا فطری تقاضا تھا‘ اس کے باوجود مجھے کہیں بھی عقل کا دامن ان کے ہاتھ سے چھوٹتا نظر نہیں آیا۔

مثال کے طور پر ہندستان کے صنعتی زوال اور اس کے اسباب ۱۶۰۰ئ-۱۹۲۴ء کے موضوع پر قومی نقطۂ نظر سے‘ مگر معتدل و متوازن انداز سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے‘ سیدمودودیؒ اپنے مضمون میں لکھتے ہیں: ’’کسی ملک کی اقتصادی و تمدنی حالت پر غور کرتے وقت‘ سب سے زیادہ توجہ کے قابل یہ امر ہوتا ہے کہ اس کا نظامِ حکومت کیسا ہے؟ یہ کلیہ قاعدہ ہے کہ قوموں کے بننے بگڑنے میں بڑا حصہ حکومت کا ہوا کرتا ہے۔ کبھی کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی جب تک اس کا نظامِ حکومت درست نہ ہو‘ اور اسی طرح کوئی قوم تباہ نہیں ہو سکتی‘تاوقتیکہ اس کا نظام حکومت خراب نہ ہو‘‘(ماہ نامہ نگار‘ اکتوبر ۱۹۲۴ئ)۔ اس مضمون میں انھوں نے ہم وطنوں کی اقتصادی بدحالی کا مفصل نقشہ پیش کیا ہے۔ اس وقت ان کی عمر محض ۲۱ برس تھی مگر اس مضمون میں انھوں نے ایک سیاسی مدبر اور ماہر اقتصادیات کی سی پختہ فکر کے ساتھ خرابی کی اصل جڑ کی نشان دہی کی ہے۔ بعدازاں ۱۹۳۹ء میں انھوں نے زیادہ واضح اور دو ٹوک انداز میں یہ مشہور جملہ لکھا:’’حکومت کی خرابی‘ تمام خرابیوں کی جڑ ہے‘‘۔حکومت کے کردار کے بارے میں یہ وژن سیدمودودیؒ سے پہلے ابن خلدون کے مقدمۂ تاریخ میں بھی نظر آتا ہے۔

اسی زمانے کی شاہکار تصنیف الجہاد فی الاسلام ان کی علمیت‘ پُرزور استدلال اور توازنِ فکر کی دلیل ہے۔ اسی کتاب کی تصنیف کے دوران انھوں نے عملی صحافت کا میدان چھوڑ دیا۔ صحافت میں موضوع کا کینوس اور دائرہ تخاطب بالعموم محدود ہوتا ہے اور فطری طور پر اس میں وقتی ردعمل اور جذبات کا عنصر غالب ہوتا ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ سید مودودیؒ نے اپنے مزاج کی مناسبت سے اس میں اپنا مستقبل نہیں دیکھا۔ وہ دل و دماغ کے اس امتزاج کی طرف جانا چاہتے تھے کہ جہاں قلب حرکت‘ جدوجہد اور ترغیب کا کام تو انجام دے‘ لیکن عقل اور فکر جس طرف لے جانا چاہتی ہے‘ وہ کسی حیثیت سے بھی نگاہوں سے اوجھل نہ ہو جائے یا اس کے اوپر کوئی پرچھائیں یا سایہ نہ پڑجائے۔ اس زمانے کی تحریروں کو پڑھتے ہوئے ہمیں نظرآتا ہے کہ وہ ایک کش مکش سے گزر رہے تھے۔ وہ ایک فیصلہ کرنا چاہتے تھے اور بالآخر انھوں نے ریل کا کانٹا بدلا اور جس پٹڑی پر چاہتے تھے‘ اسی پر وہ آگئے اور ہزاروں‘ لاکھوں انسانوں کو بھی لے آئے۔ اس سے بھی زیادہ فیصلہ کن اقدام ان کی صحافتی زندگی میں ہمیں نمایاں نظر آتا ہے‘ جس کے تحت وہ ضمیر کی بیداری‘ خودداری اور حریت کو اولیت دیتے ہیں۔ گویا صحافی‘ صحافت کو محض قلم کاری نہ سمجھے بلکہ قلم کوفکر اور علم کی ترویج اور فروغ کے لیے ایک ایسا ہتھیار خیال کرے‘ جو دیانت کے ساتھ استعمال ہو تاکہ وہ دوسروں کی چاکری اور کاسہ لیسی کا آلۂ کار نہ بنے۔

جمعیت العلما‘ مسلمان علما کی ایک ایسی قابلِ قدر جماعت تھی‘ جو اسلامیانِ ہند کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کی کوشش کر رہی تھی۔ بنیادی طور پر یہ کوئی علمی تنظیم نہیں تھی بلکہ ایک عوامی تحریک تھی‘ جس کی قیادت چند جیّد علما کے پاس تھی۔ تاہم یہی وہ زمانہ تھا کہ جب آہستہ آہستہ جمعیت کی اس وقت کی قیادت کا ایک بڑا حصہ انڈین نیشنل کانگریس کی فکر کی طرف بڑھ رہا تھا۔

ہندستان میں مسلمان اُمت کو جو بنیادی مخمصہ (dilemma)درپیش تھا‘ اس کا فہم حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مولانا مودودیؒ کی فکر اور ان کے حقیقی کارنامے کو ذرا وسیع تناظر میں دیکھا جائے۔ جمعیت العلماء کی قیادت کے بڑے حصے نے وہ راستہ اختیار کرلیا‘ جس میں اسلام کی جگہ آزادی کو اولیت حاصل ہوگئی۔ یہاں اس چیلنج کو سمجھنا چاہیے جو اس وقت اُمت مسلمہ کو درپیش تھا ‘اور تاریخ کے مختلف ادوار میں بار بار پیش آتا رہا۔ اس چیلنج کو سمجھنے کی سنجیدہ کوشش ہی سے ہم علامہ اقبال اور سید مودودی کو سمجھ سکتے ہیں۔ اور برعظیم کے سیاسی منظرنامے ہی کو نہیں‘ بیسویں صدی کی پوری مسلم اُمت کی فکر اور سیاست کا بہتر فہم حاصل کرسکتے ہیں‘ بلکہ اب اکیسویں صدی میں جن حالات‘ مسائل اور چیلنجوں سے ہمیں سابقہ درپیش ہے ‘ان کا صحیح ادراک اور ان کے مقابلے کے خطوط کار متعین کرنے میں بھی مدد اور رہنمائی مل سکتی ہے۔

اس میں پہلا مسئلہ سب سے زیادہ گمبھیر تھا۔ وہ یہ کہ ہجرت مدینہ کے بعد سے اٹھارہویں صدی تک‘ اسلام کا تہذیبی‘تاریخی اور عالمی کردار درحقیقت ایک تاریخ ساز اور عالمی طاقت کا کردار رہا ہے جس میں ایک طرف قلب کی اصلاح اور کردار کی تطہیر اور تزکیہ ہے‘ دوسری طرف معاشرے اور تاریخ و تہذیب کی تبدیلی کا عمل۔ اسلام کا مزاج پہلے دن ہی سے یہی رہا ہے کہ اس نے طاقت کو محض سیاسی اقتدار سے عبارت نہیں کیا‘تاہم سیاسی اقتدار‘ اس کی طاقت کا ایک اہم عنصر ضرور رہا ہے۔ اسلام نے ایمان‘ دین اور طاقت کے درمیان ایک تعلق قائم کیا۔ اس تعلق کا اظہار صرف سیاسی طاقت ہی میں نہیں بلکہ معاشرے کے سارے اداروں میں ہوا‘چنانچہ خاندان سے لے کر ریاست تک‘ یعنی نظامِ قانون‘ نظامِ قضا اور نظامِ معیشت‘ سب کو اس کا حصہ بنایا۔

خلافت راشدہؓ کے فوراً بعد مسلمانوں کو یہ مسئلہ پیش آیا کہ قوت تو اسلام کے پاس موجود تھی‘ لیکن اس کے لیے جو نظام اور جو ڈھانچا اسلام نے بنایا تھا‘ وہ متاثر ہونے لگا تھا۔ اس زمانے میں مسلمانوں نے اقتدار کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اسلامی قانون‘ اور فقہ کی تشکیل میں بھی بڑی محنت کی۔ فکرمودودی کی روشنی میں یہ کہنا ضروری ہے کہ فقہ کی تدوین اور نظام قضا پر علما کی دسترس‘ملوکیت کی انحرافی رو (deviationist wave) کے مدمقابل معاشرے میں ایک ایسے خودکار نظام کو فروغ دینا ایسا تاریخی کارنامہ تھا جس کے نتیجے میں معاشرے اور تہذیب و تمدن پر اسلام غالب رہا اور ریاست بھی اسلام کی گرفت میں رہی۔ سید مودودیؒ نے اس تاریخی کارنامے کو خلافت و ملوکیت میں پیش کیا ہے اور اس میں ہماری تاریخ اور تدوین فقہ کی تحریک کا ایک ایسا پہلو سامنے آیا ہے جسے مورخین اور مفکرین نے بالعموم نظرانداز کر دیا تھا۔ بلاشبہہ بارہ سو سالہ اس دور میں اتارچڑھائو بھی آتے رہے تھے ‘ لیکن اٹھارہویں کے اواخر اور انیسویں صدی کے شروع میں یہ بات واضح ہوگئی کہ عالمی قیادت میں اب مسلمانوں کا کردار مضمحل بلکہ ختم ہو رہا ہے۔ انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں ان کا یہ کردار کم ہو کر بالکل نچلی سطح کو چھونے لگا۔

اس طرح تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ صورت پیدا ہوئی کہ مسلمان سیاسی اور عسکری طور پر بے وقعت ہونے کے بعد ایک قابلِ ذکر قوت کے طور پر عالمی سیاست کی بساط سے یکسر باہر ہوگئے۔ گویا اقتدار پر ان کی گرفت ختم ہوگئی اور عالمی قیادت میں ان کا مقام اور وقار سرنگوں ہوگیا۔ جب ترکوں نے ۱۹۲۴ء میں خلافت عثمانیہ کو ختم کر دیا‘ تو علامتی سطح پر بھی ان کی رہی سہی حیثیت کا خاتمہ ہوگیا۔اب یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جو حضرات جذباتی ردعمل رکھتے تھے‘ ان کی ساری توجہ خلافت کو بچانے اور ساری قوت خلافت کو بحال کرنے میں صرف ہوئی۔ لیکن مولانا مودودیؒ، علامہ اقبالؒ اور اسلامی تحریکات کی فکر کا تجزیہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ انھوں نے خلافت کے احیا کو اصل ایشو نہیں بنایا‘ بلکہ اسلام کے احیا‘ اسلامی سوسائٹی کے قیام‘ اور اسلامی ریاست کے حصول و قیام کو اپنا ہدف قرار دیا۔ اس طرح انھوں نے رسمی خلافت کے بجاے خلافت کے جوہر (essence) اور اس کے حقیقی مقصد اور ہدف کو اپنی منزل قرار دیا۔

اب ایک بڑا المیہ یہ ہوا کہ سیاسی قوت کے چھن جانے کے نتیجے میں مسلمان دوسروں کے غلام ہوگئے اور ایک دوسری تہذیب ان پر غالب ہوگئی۔ یہ تہذیب جن بنیادوں پر استوار تھی وہ اسلامی بنیادوں کی ضد تھی۔ اس طرح ایک تہذیبی کش مکش شروع ہو گئی جو مسلمانوں کے تصورجہاں‘ اقدارِحیات‘ سماجی ادارات‘ انفرادی کیرکٹر اور اجتماعی مزاج کو متاثر کررہی تھی۔ اس تہذیبی کش مکش سے نکلنے کے لیے صرف جذباتی ردعمل کافی نہیں تھا‘ بلکہ ٹھوس فکر اور سوچے سمجھے انداز میں ایک متبادل لائحہ عمل‘ واضح نشانِ منزل اور ایک منظم و مربوط جدوجہد درکار تھی۔ ایک طبقے کے نزدیک اولین ہدف غیرملکی استعمارسے آزادی حاصل کرنا تھا۔ اس طبقے نے اصل ہدف سیاسی آزادی کو قرار دیا۔ اس کے مقابلے میں اسلامی احیا کے داعیوں کی سوچ یہ تھی کہ غیرملکی استعمار سے نجات کے لیے جتنی ضروری سیاسی جدوجہد اور آزادی ہے‘ اتنی ہی بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ ان کے فکری اور تہذیبی غلبے کے خلاف پیکار ایک لازمی مرحلہ ہے۔ اوراگر استعمار کے اس فکری اور تہذیبی غلبے کو نظرانداز کیا گیا تو سیاسی جدوجہد بالآخر غیرموثر رہے گی۔ اس لیے  اصل ضرورت یہ ہے کہ اُمت کو دین حق کی بنیاد پر اسلام کی بالادستی کے قیام کے لیے تیار کیا جائے‘ اور اسی جدوجہد کو استعمار کے خلاف مزاحمت کا ذریعہ بھی بنایا جائے۔

یوں اسلام اور مسلمانوں کو بہت سے بنیادی چیلنجوں کا سامنا تھا۔

اس سیاسی‘ تہذیبی اور فکری پس منظر میں برعظیم کے مسلمانوں کا خیال تھا کہ برطانیہ نے چونکہ اقتدار ہم سے لیا ہے‘ اس لیے آزادی کے بعد بھی اقتدار ہمارا حق ہے۔ تحریک مجاہدین سے لے کر ہجرت اور ترکِ موالات کی تحریک تک اور جمعیت علماے ہند سے دیگر انگریز مخالف تحریکوں تک کا تجزیہ کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان تحریکوں کی قیادت مسلمانوں کے پاس تھی‘ اور وہی ان میں فعال اور فیصلہ کن حصہ لے رہے تھے۔ درحقیقت مسلمانوں کے دماغ میں یہی چیز تھی کہ آزادی ملنے پر فطری طور پر ہم اقتدار کے وارث ہوں گے۔ لیکن وہ اس جوہری فرق کو نظرانداز کر رہے تھے جو جمہوریت کے تصور پر مبنی اداروں کے قائم ہونے سے یہاں ووٹ کی قوت کے باعث متعارف ہوچکا تھا۔ مسلمانوں کے برعکس ہندو اس کھیل کو بڑی کامیابی سے کھیل رہا تھا۔ اس چیز کو نظرانداز کرکے جمعیت العلماء نے جدوجہد آزادی کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا۔ انھوں نے اپنی دانست میں یہی سمجھا کہ آزادی کا حصول ہی مسلمانوں کا سب سے بڑا اور واحد مسئلہ ہے۔

دوسری جانب مولانا مودودیؒ اور علامہ اقبالؒ کی فکر یہ تھی کہ فقط مسلمانوں کی آزادی نہیں بلکہ اسلام کی آزادی اصل مسئلہ ہے‘ اور مسلمانوں کو آزادی اگر اسلام کی آزادی کے بغیر ملتی ہے تووہ غلامی ہی کی دوسری شکل ہوگی۔ اس لیے اسلام کی آزادی اور مسلمانوں کی آزادی دو ہی طرح ممکن ہے۔ یا تو مسلمان اتنے قوی ہوں کہ پورے برعظیم کی باگ ڈور سنبھال سکیں‘ جو بظاہر ممکن نہیں ہے۔ ورنہ پھر انھیں کوئی ایسا راستہ نکالنا پڑے گا جس میں وہ اپنے جداگانہ تشخص کو محفوظ رکھ سکیں اور آزادی کے ساتھ ساتھ اپنے دین کی منشا اور اپنی ثقافت کے تحفظ کا بھی ٹھیک ٹھیک   حق ادا کر سکیں۔ جس بات کو عرفِ عام میں ’دو قومی نظریہ‘ کہا جاتا ہے‘ اس کی فکری بنیاد یہ ہے کہ مسلمان اور غیرمسلم دو جداگانہ نظریہ ہاے حیات کے علم بردار ہیں‘ اور آزادی کا وہی مفہوم انصاف کے تقاضے پورے کر سکتا ہے‘ جس میں ہر نظریے اور تہذیب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملے۔ اس کے لیے سیاسی‘ قانونی‘ ثقافتی‘ غرض ہر میدان میں ایک نئے دروبست کی ضرورت ہوگی۔

مولانا مودودیؒ کی اس زمانے کی تحریروں میں آزادی‘ مسلمان اُمت اور ہندستان کے متعلق مسائل و معاملات پر مباحث ملتے ہیں۔ مولانا کا زاویۂ نگاہ اس وقت بھی بڑا واضح تھا کہ اسلام کی آزادی اور مسلمان اُمت کی آزادی اسی وقت ممکن ہے‘ جب وہ اسلامی تشخص سے وابستگی کو شرط اول قرار دے۔ اس تشخص کی وضاحت اور اس کے حصول کے لیے مولانا ہرلمحے سرگرداں اور پریشان نظرآتے ہیں۔ برعظیم ان کی توجہ کا اولین مرکز ہے لیکن اس مرکز کا بیرونی حلقہ (circumference) بڑا وسیع اوردنیابھر کے مسلمانوں پر محیط ہے‘ چاہے وسط ایشیا میں کمیونسٹ زاروں کے ہاتھوں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے المناک واقعات ہوں‘ یا افریقی ممالک میں ظلم و زیادتی کا معاملہ ہو‘ یا ہندستان میں ہندو انگریز گٹھ جوڑ سے مسلمانوں پر قافیۂ حیات تنگ کرنے کاشیطانی کھیل ہو‘ وہ ہر مسئلے کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کے احیا کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ وہ مغربی استعمار کے حلیف مسلمانوں کی فکری اور عملی حماقتوں کا بھی پردہ چاک کرتے ہیں جو مسلمانوں اور اسلام کو نقصان پہنچانے کے لیے دشمن سے بھی زیادہ بدتر کردار ادا کر رہے تھے۔ دوسری طرف اسی زمانے میں جمعیت کانگرس کے ساتھ مل کر اس راستے کو اختیار کرچکی تھی جسے وہ ’سوراج‘ کہتے تھے۔ نتیجتاً علاقائی یا وطنی قوم پرستی ان کی نگاہ میں گوہرِمطلوب بن گیا تھا۔ بالکل یہی سوچ غیرمسلموں کی بھی تھی‘ اور مسلمان آزادی کی اس جدوجہد میں محض ایندھن کے طور پر استعمال کیے جارہے تھے۔ یہ وہ کش مکش تھی جس میں مولانا مودودیؒ نے اپنے لیے الگ راستے کا انتخاب کیا۔ اس لیے کہ وہ اپنے قلم کو اپنے ضمیر سے جدا نہیں کر سکتے تھے۔ یہ ان کی صحافت کا چوتھا امتیازی پہلو تھا۔

  • ان کی صحافت کا پانچواں پہلو وہ ہے جس کی مثال ہمیں اخبار تاج ‘ جبل پور] ۱۹۲۰ئ[کے زمانے میں ملتی ہے۔ تاج میں نام بطور مدیر تاج الدین صاحب کا آتا تھا‘ لیکن اسے مرتب سیدمودودیؒ کیا کرتے تھے۔ اس حوالے سے مولانا مودودیؒ بتاتے ہیں:’’تاج کچھ مدت تک   ہفتہ وار نکلتا رہا‘ اور پھر روزانہ ہوگیا۔ میں تنہا اس کو چلاتا تھا… بدقسمتی سے میرے ایک مضمون پر حکومت نے گرفت کی۔ چونکہ اخبار کے ایڈیٹر‘پرنٹر اور پبلشر کی حیثیت سے تاج الدین کا نام شائع ہوتا تھا‘ اس لیے ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ گو‘اس طرح میں حکومت کی گرفت سے بچ گیا‘ لیکن مجھے اس بچنے میں کوئی خوشی نہ تھی‘ اور آیندہ کے لیے میں نے عہد کرلیا کہ دوسروں کی ذمہ داری      پر اخبار نویسی نہ کروں گا‘ بلکہ اپنی ہر جنبشِ قلم کی ذمہ داری اپنے سرلوں گا‘‘۔(تذکرہ سید مودودی‘ج ۲‘ ص ۱۲۸-۱۲۹)۔ یہ بڑے اُونچے کردار اور جرأت کی بات ہے۔ خاص طور پر اس لیے کہ اس وقت مولاناؒ ابھی صرف ۱۸ سال کے نوجوان تھے۔ یہ واقعہ ان کے ضمیر کی بیداری اور ان کے کردار کے رخ کو متعین کرتا ہے۔

بحیثیت صحافی یہ امور مولانا مودودیؒ کے زمانۂ صحافت میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ اس کے بعد کے دور میں بھی اگرچہ مولاناؒ ان معنوں میں تو صحافی رہے کہ ایک ماہنامے کے مدیر تھے اور ایک ماہ نامے کا مدیر بھی صحافی ہوتا ہے اور وہ خود بھی اپنے آپ کو صحافی کہتے تھے‘ تاہم اب ان کی تحریر‘ ان کی سوچ‘ اور ان کے انداز میں ایک تبدیلی آئی اور ان کے اہداف‘ اب صحافت کے دائرے سے نکل کر ایک زیادہ اہم‘ مشکل اور کٹھن میدان میں داخل ہوگئے۔ یہ میدان تھادین کی صحیح تعبیر‘ فکر اسلامی کی تشکیلِ جدید اور عالمی استعماری تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب کے کردار کی بازیافت کا۔ انسان سازی اور تاریخ کے دھارے کو تبدیل کرنے کے لیے جن عناصر اور قوتوں کی ضرورت ہے‘ ان کے لیے فکرمندی مولانا مودودیؒ کے طرزفکر اور اسلوبِ زندگی کا ایک مستقل حصہ بن گئی۔ اب وہ ایک مفکر‘مصلح‘ مدبر اور قائد کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔

مولانا کی نگارشات میں فکر کی گہرائی کے ساتھ ادب کی چاشنی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے    اور کہیں کہیں ادب کی یہ جولانیاں شاعرانہ اسلوب کی حدوں کو بھی چھوتی نظر آتی ہیں۔ انھوں نے اخلاقیات اجتماعیہ اور اس کا فلسفہ پر بھی لکھا۔ اسی زمانے میں مشہور مصری دانش ور مصطفی کامل پاشا کی کتاب المسئلۃ الشرقیہ کا ترجمہ کیا۔

ان تمام تحریروں میں وہ اپنے مزاج اور موضوع کی مناسبت سے ادبیت اور مقصدیت کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ مولانا کی تحریروں میں ابتدائی زمانے ہی سے ادب کی مٹھاس‘  صحتِ زبان‘ حسنِ بیان اور رعنائی خیال کا ایسا امتزاج پایا جاتا ہے‘ جو ان کے طرزِ نگارش کو  ایک انفرادی آہنگ عطا کرتا ہے۔ اولین دور میں مولانا مودودی کے ہاں دو زیریں لہریں (under currents)ہمیں متوجہ کرتی ہیں اور وہ دونوں ایک دوسرے سے نبردآزما بھی نظر آتی ہیں: ایک شبلی کا اسلوب تحریر‘ دوسرا ابوالکلام آزاد کا انداز نگارش۔ ایک کی خصوصیت گنگا جمنا کی میدانی علاقوں میں پُرسکون روانی ہے‘ اور دوسرے میں پہاڑی آبشار اور پتھروں کو بہا لے جانے والے پانی کے پُرشور دھاروں کا جوش و خروش۔ ان دونوں اسالیب سے مولانا نے استفادہ کیا ہے۔ دونوں کے کچھ نہ کچھ اثرات مولانا کے اسلوب پر نظرآتے ہیں۔ لیکن مولانا نے دونوں میں سے کسی کی تقلید نہیں کی اور نہ کسی ایک کے رنگ میں اپنے آپ کو رنگنے کی کوشش کی۔ ایک مرتبہ میرے سوال کے جواب میں فرمایا: ’’میں نے خود نیا رنگ لیا‘‘۔ ان کا یہ اسلوب‘ دورصحافت میں تشکیل پا چکا تھا۔ اس لیے میری نگاہ میں الجھاد فی الاسلام مولانا مودودی کے بنیادی فکر ہی کا آئینہ ہے‘ بلکہ اس کتاب میں مولانا کے اندازِ تحریر اور اسلوبِ نگارش کی امتیازی صورت دیکھی جا سکتی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ الجھاد فی الاسلام  کے لیے تحقیق اور اس کی تحریر وتسوید     مولانا مودودی ؒکی زندگی میں ایک کلیدی موڑ اور امکانات کے وسیع افق روشن کرنے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس میں ایک طرف تو انھیں اسلام کے تصورِ کائنات کو بالکل واضح حقیقت کے طور پر سمجھنے اور سمجھانے کا موقع ملا۔ دوسری طرف جو معذرت خواہانہ روایت مسلمانوں کی فکر میں جڑ پکڑ چکی تھی‘ اس کو انھوں نے بالکل ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیا اور پوری متکلمانہ شان کے ساتھ اسلام پر اعتراضات کا دفاع کیا‘ان کا جواب دیا اور اس سے بڑھ کر مثبت طور پر اسلام کی ایک جامع تصویر پیش کی۔ اس عمل میں انھوں نے ایک نیا اسلوب بھی اختیار کیا۔ اس علمِ کلام کی اصل خود اسلام میں موجود ہے۔ الجھاد فی الاسلام‘ مولانا مودودی ؒکی زندگی کے رخ کو متعین کرنے والی کتاب ہے‘ اور یہ حسب ذیل تین حوالوں سے ہے:

اول: اسلام کے صحیح تصورِ حیات و کائنات کی بازیافت۔

دوم: یہ نکتہ کہ یہ تصورِ حیات فکری طور پر حق و باطل کی ایک عالم گیر کش مکش کی طرف لے جاتا ہے‘ جس میں اسلام کا تاریخی‘ بنیادی اور فطری کردار ہے۔ اس سے اسلام کا تحریکی تصور اُبھرتا ہے جو بالآخر بیسویں صدی میں اسلامی تحریکات کی صورت گری کا ذریعہ بنا ہے۔

سوم: یہ کہ اس تقاضاے دین کی بجاآوری اور غلبۂ اسلام کی جدوجہد میں ایک مرحلہ پر طاقت کے استعمال کا ایک متعین کردارہے‘ وہیں صرف طاقت یا جنگ اس کا واحد ذریعہ نہیں ہے۔ بلاشبہہ یہ ایک ناگزیر پہلو ہے‘ لیکن ہر دور کے مسائل‘ معاملات اور زمینی حقائق کی روشنی میں  غلبۂ اسلام کے لیے ایسی حکمت عملی وضع کرنا ضروری ہے‘ جو اس مقصد کے لیے مددگار ثابت ہو اور اس میں مداہنت و پسپائی یا رخصت و دل شکنی کا شائبہ تک نہ پایا جائے۔ مکی دور میں بھی    غلبۂ اسلام مقصود تھا‘لیکن یہ دور تیاری کا دور تھا۔ جس کی تکمیل اور تنفیذ ہجرت اور اس کے بعد ہوئی لیکن مکہ اور مدینہ دونوں اس تحریک کے لازمی مرحلے ہیں ‘جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ حرا سے لے کر شعب ابی طالب تک‘ معراج سے ہجرت تک‘ بدر سے حنین تک‘ حدیبیہ سے فتح مکہ تک‘ سب اس وسیع تر حکمت عملی کے پہلو ہیں اور اس نمونے سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اُمت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ ہر دور میں حسبِ ضرورت ایک نیا نقشۂ کار مرتب کرے۔ مدینہ کی ریاست کے قیام سے لے کر خلافتِ راشدہ تک کا دور ہی اصل اسلامی مثالیہ (paradigm )ہے۔

پھر سوال یہ پیدا ہوا کہ زمانۂ خلافت کے بعد غلبۂ اسلام کی کیا حکمت عملی ہو؟ یہ کیسے ہونا چاہیے؟ کیونکر ہونا چاہیے؟ گو‘ اس پہلو کو مولانا مودودی ؒکتاب میں لے آئے‘ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت مولانا مودودیؒ پر یہ پوری طرح واضح نہیں تھا کہ یہ کام کیسے کرنا ہے؟ ۱۹۲۸ء سے ۳۹-۱۹۳۸ء تک کا زمانہ مولانا کے فکر کے نکھار کا زمانہ ہے۔ اسی زمانے میں انھوں نے مستقبل کے لیے اُمت کے سامنے ایک حکمت عملی پیش کی اور پھر اسے بروے کار لانے کا آغاز کیا۔ ان سنگ ہاے میل اور پیش آمدہ چیلنجوں کے خدوخال مولانا مودودیؒ کی تحریروں میں دیکھے جا سکتے ہیں۔

بحیثیت مصنف اور ادیب

اس دور کے بھی کئی حصے ہیں۔ ابتدائی چار سال تک تو انھوں نے خاموشی سے‘ مگر جم کر اور پوری یکسوئی سے مطالعہ اور تحقیق کے لیے اپنے آپ کو وقف رکھا۔ اس عرصے میں کچھ کتابیں بھی لکھیں‘ اورمستقبل کے منصوبے بھی بنائے۔ ان کے اپنے عزائم کو پختگی حاصل ہوئی اور رجحانات کی واضح صورت گری ہوئی۔ پھر ۳۳-۱۹۳۲ء میں یکسو ہو کر وہ اپنی زندگی کے اصل  مشن کے لیے جہاد زندگانی کے وسیع میدان میں سرگرم عمل ہوگئے۔ میری نگاہ میں اس جہادِزندگانی کے شروعات کا بہترین اظہار ترجمان القرآن کے پہلے سات برسوں کے ’اشارات‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ اظہار مولانا کی شخصیت‘ وژن اور فکرکے ارتقا اور مولانا کے مستقبل کے تاریخی کردار کے سلسلے میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ ترجمان کی ادارت سنبھالتے ہی انھوں نے جو پہلی چیز لکھی وہ اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی کے مضامین ہیں۔بعدازاں تنقیحات‘ سود‘ پردہ‘ اسلام اور ضبطِ ولادت‘ تفہیمات کے مباحث ہیں۔مولانا کے دوسرے دورِ حیات تک کی یہ مختصر سی جھلک ہے۔

۱۹۳۰ء کے عشرے میں ہم دیکھتے ہیں کہ کلامی‘ الٰہیاتی اور سائنسی موضوعات پر کلام کرتے ہوئے وہ مضبوط منطقی استدلال اختیار کرتے ہیں‘ لیکن جب معاملہ آتا ہے احساسات کو اُبھارنے کا‘ تو بعض تحریروں میں انھوں نے جھنجھوڑنے والا انداز بھی اختیار کیا۔ اس زمانے کی تحریروں میں مولانا کے ہاں انگریزی اور عربی کے الفاظ نسبتاً زیادہ ملتے ہیں‘ لیکن ۱۹۴۰ء کے عشرے میں ان کے اسلوب میں آسان زبان اور عام فہم انداز فروغ پذیرہوتا ہے۔ اس سادہ نویسی کا شاہکار تفہیم القرآن اور خطبات ہیں۔ پھر آخری زمانے تک مولانا کا یہی انداز رہا ہے۔ گویا کہ ادیب کی حیثیت سے بھی مولانا کے ہاں ہمیں ایک ارتقا نظر آتا ہے۔ زمانۂ صحافت میں انھوں نے دوسروں کے کچھ اثرات بھی قبول کیے‘ اور یہ بالکل فطری بات تھی‘ لیکن پھر ان کا    اپنا طرزِنگارش اُبھر کر سامنے آتا ہے۔

مولانا مودودیؒ کے طرزِنگارش کا اگر کسی دوسرے صاحب اسلوب فرد کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے تو وہ برٹرینڈرسل ہے۔ اس کے ہاں بھی الٰہیاتی‘ سائنسی اور تہذیبی موضوعات پر بحث ملتی ہے‘ جس کو وہ بڑی خوب صورت انگریزی نثر میں پیش کرتا ہے‘ اور صحتِ بیان اور سہل اسلوب کے ساتھ اظہار خیال کرتا ہے ۔ بحیثیت ادیب‘ مولانا کی یہ بڑی قابلِ قدر خدمت ہے کہ انھوں نے اُردو زبان کو علمی‘ دینی‘ تہذیبی‘ سیاسی اور معاشرتی موضوعات سے مالا مال کرتے ہوئے اظہار کی ایک شان دار روایت قائم کی۔ ادب صرف افسانہ نگاری اور شاعری تک محدود نہیں‘ بلکہ وہ زندگی کے سارے سنجیدہ موضوعات کو مختلف ادبی پیرایہ ہاے اسالیب میں زیربحث لاتا ہے۔ مقالے اور الٰہیاتی مضامین بھی ادب کے دائرے میں آتے ہیں۔

مولانا مودودی لکھتے وقت الفاظ کے انتخاب میں کسی تکلف میں نہیں پڑتے۔ وہ اپنی توجہ موضوع پر مرکوز کرتے ہیں‘ الفاظ خود بخود موزوں ہو جاتے ہیں۔ دینی فکر اور معاشرتی علوم کو انھوں نے نہایت خوب صورت زبان میں پیش کیا ہے۔ وہ صنائع اور بدائع کے استعمال میں بھی ایک انفرادیت رکھتے ہیں۔ اگر ان کی نثرکا تجزیہ کیا جائے تو وہ کلاسیکی زمرے میں آتی ہے۔ یہ چیزیں تو اظہرمن الشمس ہیں‘ اس کے ساتھ جو چیز نئی ہے وہ یہ کہ انھوں نے قرآنی اصطلاحات‘ قرآنی محاورے اور قرآنی پیغامات کو اُردو زبان میں اس طرح سمو دیا ہے کہ وہ اردو زبان و ادب کا ایک حصہ بن گئے ہیں۔ یہ مولانا کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔

مولانا مودودیؒ کی فکری اور ادبی تخلیقات روایتی مذہبی تحریروں سے بڑی مختلف ہیں۔ ان میںفکر کے عمق کے ساتھ زندگی کی حرارت اور ادب کی چاشنی ہے‘ جس نے ان تخلیقات کو بولتی ہوئی تحریریں بنا دیا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر ان میں دعوت کی روح اس طرح سرایت کر گئی ہے کہ وہ حرکت کے لیے مہمیز کا کام کرتی ہیں۔ وہ خود بھی بیدار ہیں اور دوسروں کو جگانے کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ ان کا اسلوب قاری کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے اور پھر عمل اور حرکت پر اکساتا ہے۔ مولانا نے  طنزاور مزاح کو بھی بڑی مہارت کے ساتھ استعمال کیا ہے‘ ان کی تحریر میں بلا کی شوخی ہے جو ان کی خوش ذوقی ہی کا ثبوت نہیں‘ بلکہ ادبی صنعت کاری کا بھی ایک نادر نمونہ ہے۔

آج کل مغرب کے زیراثر ’’اسلام کی اصلاح‘‘کرنے والوں کے لیے ترکی کے  مصطفی کمال پاشا کا نام ایک رول ماڈل ہے۔ مولانا مودودیؒ نے ۱۹۴۰ء میں اتاترک پر لکھی گئی ایک کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے‘ ایسے لوگوں کی ذہنیت کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا: ’’]کتاب اتاترک کے[ مصنف نے ازراہ انکسار اس کتاب کو اتاترک کی سوانح عمری قرار دیا ہے۔ لیکن اگر وہ اسے ’’قصیدۂ نعتیہ درشانِ اتاترک علیہ السلام‘‘ کے نام سے موسوم کرتے تو زیادہ موزوں ہوتا۔ کتاب پڑھنے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ترکی میں ایک نبی مبعوث ہوا تھا… یہ مبالغہ جس شخص کے حق میں کیا گیا ہے اسے مرے ہوئے ابھی کچھ بہت زیادہ دن بھی نہیں گزرے کہ ماضی کے دھندلکے سے فائدہ اُٹھا کر اسے دیوتا بنا ڈالا جائے۔ پرانے زمانے کے مچھر کو آج ہاتھی بنایا جا سکتا ہے‘ مگر ہم عصروں کی آنکھوں میں کہاں تک خاک جھونکیں گے... ]کتاب کے مصنف کے بقول‘ اتاترک[ نے مذہب ]اسلام[ کی اصلی روح کو برقرار رکھتے ہوئے درویشوں اور مولویوں کی اجارہ داری کو ختم کر دیا۔ مذہب اسلام میں دنیاوی ترقیوں کا ساتھ دینے کی پوری پوری صلاحیت ہے‘ اس میں اگر کوئی کمزوری ہے تو وہ درویشوں اور مولویوں کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہے۔ اسی خیال کے ماتحت ترکی کی سرزمین کو اتاترک نے ملائوں کے وجود سے پاک کیا‘ اور فی الحقیقت اتاترک کا یہ اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ مذہبی اصلاح کی تاریخ میں اس کی نظیرنہیں ملتی--- بے معنی الفاظ کا کتنا عجیب مجموعہ ہے۔ ان لوگوں کے ’’لچک دار اسلام‘‘کی کیا تعریف کی جائے‘ ] ان کے نزدیک[ اس کم بخت میں اس غضب کی لچک موجود ہے کہ دنیاوی ’’ترقیوں‘‘ کی خاطر قرآن کا قانون منسوخ کردینے تک کی گنجایش اس میں نکل آتی ہے۔ اور اس ’’مذہب اسلام کی اصل روح‘‘ کا تو پوچھنا ہی کیا ہے۔ ملا اور درویش کو سامنے رکھ کر اس طرح ڈائنامائیٹ سے اڑایئے کہ قرآن و سنت بھی ساتھ ساتھ اڑ جائیں۔ اس کے بعد جو کچھ بچ رہے اس کا نام ’خالص روحِ اسلام‘ ہے‘‘۔ (ترجمان القرآن‘ مئی-جون ۱۹۴۰ئ‘ ص ۳۲۲-۳۲۷)

مولانا مودودیؒ مقصد سے لگن رکھنے والے ایک ایسے ادیب اور مفکر ہیں جنھیں اپنے مخاطبین کے دل میں پیغام اتارنے اور ان کی شخصیت کو بدلنے سے غرض ہے۔ مگر وہ اس غرض کے لیے زور زبردستی کا ویسا رویہ اختیار نہیں کرتے‘ جو عموماً سیاسی یا مذہبی عناصر کے طرزِ تخاطب کی پہچان اور ان کا عیب ہوتا ہے۔

ادب نام ہے اثرانگیزی کا اور یہ اثرانگیزی مولانا کی تحریر میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اگر ہم انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے شروع کے دینی ادب کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ ہمارے علما نے تفسیر‘ حدیث‘ سیرت‘ فقہ اور تاریخ پر بڑی گراں قدر کتب تصنیف کیں۔ لیکن ان کے اسلوب کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی تعلق اس دنیا سے نہیں ہے‘ جسے وہ مخاطب کر رہے ہیں۔ بعض مستثنیات کے سوا ان کی زبان اتنی ادق اور محاورے اتنے بوجھل اور مثالیں ایسی ہوش ربا ہیں کہ آپ ان میں سے کچھ مواعظ کو تو محفل میں بیٹھ کر بآواز بلند پڑھ نہیں سکتے۔ لیکن اُس زمانے میں دینی کتابوں کا کلچر یہی تھا۔ تاریخ پر مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی کی کتاب بڑی عمدہ ہے‘ لیکن اگر آپ جملے کی طوالت دیکھیں تواندازہ نہیں ہوتا کہ کہاں جاکر ختم ہوگا۔ یہی صورت دوسرے علما کی تحریروں کی ہے حتیٰ کہ مولانا مناظراحسن گیلانی  ؒتک کا طرزِ تحریر اس روایت سے جان نہ چھڑا سکا۔ اس فضا میں مولانا نے دینی موضوعات پر تحریر و نگارش کا اسلوب بدل کر رکھ دیا۔  صاف نظر آتا ہے کہ دینی ادب کی زبان اور اسلوبِ بیان پر مولانا مودودیؒ کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیںاور بحیثیت مجموعی علماے دین کی زبان و بیان اور ان کے اسلوبِ تحریر میں ایک واضح تغیر واقع ہوا ہے‘ مثلاً تفسیر میں مولانا عبدالحقؒ کی تفسیرحقانی اور مولانا ابوالکلام آزادؒ کی تفسیر ترجمان القرآن کا مطالعہ کیجیے‘ اور پھر پیر کرم شاہ صاحبؒ کی ضیاء القرآن دیکھیے‘ ان کے اسلوب میں زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ اس اسلوب نگارش اور اندازِ تحریر کو جس شخص نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے‘ وہ سید مودودیؒ ہیں۔ بحیثیت ادیب مولانا کا یہ بڑا منفرد پہلو ہے‘ جس کا قرار واقعی اعتراف نہیں کیا گیا۔ اگر انصاف سے کوئی نقاد تحقیق و تجزیہ کرے تو وہ دواور دو چار کی طرح دکھا سکتا ہے کہ کیا فرق واقع ہوا ہے۔

بحیثیت مفکر‘مصلح اور مدبر

ایک مفکر(thinker)‘ مصلح (reformer) اور مدبّر (statesman) کی حیثیت سے مولانا مودودی ؒکی شخصیت کو زیربحث لانا ایک اہم موضوع ہے۔

جب اسلامی فکریات کے وسیع ذخیرے کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بیسویں صدی کی اسلامی فکرپر سب سے زیادہ جس شخص نے نہایت گہرے اثرات مرتب کیے‘ وہ مولانا مودودی ؒہیں۔ ان کی اثرپذیری کا دائرہ اپنی وسعت اور عمق کے اعتبار سے‘ اور اپنی اصابت فکر اور اپنے اثرات کے اعتبار سے منفرد مقام کا حامل ہے۔

بلاشبہہ دوسرے مفکرین اور خادمانِ دین نے بھی بیسویں صدی میں اسلامی فکر کو مالا مال (enrich) کرنے کے لیے بڑی خدمت انجام دی ہے‘ اور ان کی حیثیت کہکشاں کے روشن ستاروں کی سی ہے اور اس میں ان کے ہاں ایک دوسرے سے اثرپذیری بھی نظرآتی ہے ۔ تاہم میری نگاہ میں مولانا مودودیؒ کو جس بنا پر منفرد مقام حاصل ہے‘ وہ یہ ہے کہ انھوں نے وہی کام کیا جو دوسری صدی ہجری سے چھٹی صدی ہجری تک اس وقت کے حالات کی روشنی میں اسلامی فکریات کے قائدین نے انجام دیا تھا۔(ملاحظہ ہو‘ میرا مضمون ’’دینی ادب‘‘ مشمولہ: تاریخ ادبیات پاک و ہند‘ ج ۱۰‘ ص ۲۶۱-۳۷۶‘ پنجاب یونی ورسٹی‘ لاہور)

اس کی ایک مثال اسلام کے لیے ’تحریک‘ کے لفظ کا استعمال ہے‘ جو بیسویں صدی میں اسلامی احیا کی علامت اور پہچان بن گیا۔ اس اصطلاح کی کچھ وہی حیثیت ہے جو دوسری صدی اور اس کے بعد کے زمانے میں ’شریعت‘ کی اصطلاح سارے دینی لٹریچر میں دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ ایک دل چسپ حقیقت ہے کہ  قرآن پاک میں لفظ ’شریعت‘ راستے اور طریقے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ البتہ ہماری فکری تاریخ میں لفظ ’شریعت‘ دوسری صدی میں داخل ہوتا ہے‘ جب اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلام کے پھیلائو اور نئے تہذیبی مسائل میں اسلام کی اُبھرتی ہوئی قوت کو پیش آمدہ مسائل کا کیسے جواب دینا ہے؟ اسلامی دعوت‘ اسلامی حکومت‘ اسلامی سوسائٹی‘ اسلامی اداروں کو کس طرح اپنا کردار ادا کرنا ہے؟ سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں اسلامی نظامِ زندگی کیسے پیش کیا جائے؟ اصول فقہ اور فقہ دونوں کی نشوونما‘ ترقی اور ارتقا دراصل اس ضرورت کو پورا کرنے کی بروقت‘ مؤثر اور کامیاب کوشش تھی۔ اس عظیم کارنامے نے اگلے ۱۲۰۰ برسوں میں اسلامی تہذیب اور اسلامی ثقافت اور خود دین اسلام‘ اور اسلام کے سیاسی نظام کو ایک ایسا بنیادی ڈھانچا عطا کیا‘ جس سے وہ ہر طوفانی تھپیڑے اور ہر سیاسی نشیب و فراز کا مقابلہ کر سکا اور اس کے ذریعے وہ ہردور میں مسلمانوں کو اسلام سے وابستہ کرسکا۔ یہی وہ زمانہ ہے جب کہ شریعت بحیثیت اصطلاح‘ اسلام کے فکری اثاثے میں شامل ہوئی۔

فقہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ محض عبادات پر مشتمل نہیں ہے‘ بلاشبہہ عبادات اس کا اولین موضوع ہیں‘پھر خاندان اور عائلی زندگی وغیرہ کے معاملات۔ یہ دونوں موضوعات فقہی کتب کے تقریباً دو تہائی حصے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اس کے بعد فقہ میں مالی معاملات‘ معاشی احکام‘ تجارتی احکام‘ پھر قانون صلح و جنگ‘معاہدات‘ سزائیں‘ تعزیر‘ حد اور سیر کے ابواب ہیں۔ سیر (قانون بین الاقوام) کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کے دوسرے ممالک سے کس طرح معاملہ کریں اور غیرمسلموں کے حقوق کی کیا صورت ہے؟ یہ تمام ابواب فقہ کے ہیں اور فقہ کا یہ نشوونما اور شریعت کا یہ وسیع تر نظام‘ دراصل قرآن و سنت کی دعوت کا فطری مظہر تھا۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جو دعوت پیش کی گئی تھی‘ جس نے ایک سوسائٹی‘ ایک تحریک‘ ایک ریاست اور ایک تاریخی رو کو پروان چڑھایا تھا‘ اس چیلنج کو نظریاتی‘ اخلاقی‘ قانونی اور اداراتی سطح پر ایک     ہیکل اساسی (infra-structure)کی ضرورت تھی۔ ان فقہا نے اسے دو اور دو چار کی طرح  واضح کیا تاکہ آنے والے کل کے مراحل کو طے کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ بادشاہت کے باوجود قانون بادشاہوں کی مرضی کے تابع نہیں تھا بلکہ شریعت کا قانون تھا ۔ کم و بیش ہر بادشاہ شریعت کے قانون اور قاضی کے حکم کے تابع تھا۔ اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ جب تحریک ایک حقیقت تھی تو اس کے ماحصل کو محفوظ و مستحکم کرنے کے لیے فقہ اور شریعت کی تدوین کی ضرورت تھی اور اس تاریخی عمل نے شریعت کی مرکزیت کو برگ و بار عطا کیے۔

پہلی اور دوسری صدی میں درپیش حالات کی طرح کا چیلنج اُمت مسلمہ کو دوبارہ انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کے شروع میں بڑی شدت کے ساتھ پیش آیا‘ لیکن ایک فرق کے ساتھ۔ تب فقہ توموجود تھی لیکن وہ نظام باقی نہیں رہا جس کو چلانے کے لیے وہ فقہ مدون کی گئی تھی۔ شریعت کا وہ ڈھانچا تو موجود تھا لیکن شریعت کہیں بھی قانون ارضی (law of land) کے طور پر موجود نہیں تھی۔ مغربی سامراج نے مسلم ممالک پر قبضہ جما رکھا تھا۔ ممالک پر ہی نہیں بلکہ ذہنوں پر بھی‘ سیاسی نظام پر بھی‘ عدالتی نظام پر بھی‘ اجتماعی نظام پر بھی‘ معاشی نظام پر بھی‘ تعلیم پر بھی‘ حتیٰ کہ خاندان اور فرد پر بھی اس کی گرفت مضبوط تھی۔ اس منظرنامے میں یہ ایک ادھوری بات تھی کہ بس ’’خلافت بحال کر دو‘‘۔ جو شخص بھی اسلام کے مزاج کو سمجھتا تھا اور وقت کے بحران اور اس کی اصلاح کا صحیح نقشۂ کار اس کے سامنے واضح تھا‘ اسے یہ بات بڑی سطحی اور غیرفطری لگتی تھی۔ ہم یہ دیکھتے ہیںاس موقع پر اُمت کے لیے ایک نقشۂ کار اور ایک واضح حکمتِ عملی متعین کرنے کا جو کام مولانا مودودیؒ نے کیا‘ وہ کم و بیش اسی نوعیت کا ہے جو دوسری صدی میں ہوا۔ تب ہم ایک نئی اصطلاح سے روشناس ہوئے اور وہ ہے لفظ ’تحریک‘۔

جس طرح اولین دور میں لفظ ’شریعت‘ نہیں تھا لیکن اسلام کے منشا کو بیان کرنے کے لیے ’شریعت‘ کا جامع لفظ آیا۔ آج اگر کوئی سوال کرے کہ اسلام کیا ہے؟ تو اس کا فوراً جواب ملے گا ’’شریعت ِاسلامی‘‘۔ گویا شریعت‘ اسلام کے نظام کار کی مجسم کی صورت میں اس زمانے میں آئی‘ جب اسلام ایک غالب اور ایک تاریخ ساز قوت تھا۔ وہ قوت‘ اپنی اخلاقی اور تہذیبی برکت کے ساتھ دنیا کے شمال‘ جنوب‘ مشرق اور مغرب میں کارفرما نظر آرہی تھی۔ اس زمانے میں اس کی حرکت کے پہلو کو یوں بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن جب حرکت اور پھیلائو کا وہ سلسلہ منقطع ہوگیا‘ اور اُمت جمود ہی کا شکار نہیں ہوئی‘ بلکہ اس کے ایک دوسری تہذیب کے سانچے میں ڈھل جانے کی نوبت آگئی‘ تو نئی ضرورتیں اُبھریں۔ اب اسلام صرف اقتدار ہی سے محروم نہ تھا‘بلکہ وہ ادارے جو اسلامی تہذیب و تمدن اور معاشرت اور ریاست کے ستون تھے اور اس کی پوری عمارت کو تھامے ہوئے تھے‘ ایک ایک کر کے منہدم ہوگئے‘ اور ان کی جگہ ایک دوسری تہذیب سے درآمد شدہ اداروں کو مسلمانوں کی سرزمین پر مسلط کر دیا گیا تو ایک بالکل نئی صورت حال پیدا ہوگئی۔ اب شریعت کو دوبارہ زندگی کی رہنما قوت بنانے کے لیے ایک نئے وژن اور نئی اجتماعی تحریک اور نئی قیادت کی ضرورت تھی۔ اس بات کی ضرورت تھی کہ اسلام کا صحیح وژن‘ایمانی دانش اور متوازن بصیرت کے ساتھ بیان کیا جائے‘ اس بصیرت کی وسعتیںاس کے اہداف کے ساتھ آشکارا کی جائیں ‘ اس کو بروے کار لانے کے لیے قوت عمل‘ اس کے نظامِ کار کی منہج اور اس کے لوازمات کی فکر کی جائے۔ اور پھر عملاً وہ جدوجہد برپا کی جائے جو دین کی اقامت کا ذریعہ بن سکے۔

یہی وہ چیز تھی جس کے اظہار کے لیے مولانا مودودی ؒنے دین و دعوت اور نظامِ زندگی اور قانونِ حیات کے تصورات کو ایک مربوط شکل میں پیش کیا۔ انھوں نے قوی دلائل کے ساتھ اسلام کا جو انقلابی تصور پیش کیا وہ ’تحریک‘ کے لفظ میں ڈھل گیا۔ ان کے فکر کا اصل آہنگ یہ پیغام ہے کہ: اسلام ایک دین‘ ایک مکمل نظامِ زندگی ہے جو عقیدے اور عبادت کے ساتھ ساتھ قانون‘ ثقافت‘ طرزِمعاشرت‘ معیشت‘ سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کو ایک منطقی ربط کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اسلام محض ایک نظری فلسفہ نہیں‘ بلکہ عقیدہ‘ اخلاق‘ قانون‘ معاشرت‘  تہذیب و تمدن اور اقدارحیات کا ایک ایسا امتزاج ہے جو انفرادی اور اجتماعی زندگی کا صورت گر بھی ہے اور اس طرح وہ ایک تاریخی قوت ہے‘ جس کے داخلی وجود میں یہ صلاحیت کار ہے کہ وہ اپنے کو نافذ کرنے کے لیے لوگوں کو ترغیب دے‘ انھیں متحرک اور منظم کر کے ایک جدوجہد کا  موج در موج حصہ بنا دے۔ دوسرے یہ کہ اسلام‘ دین کے ساتھ ساتھ‘ ایک پیغام‘ ایک دعوت‘ ایک تبدیلی کا عمل ہے۔ جب دین کی ان تینوں جہتوں کے ساتھ‘ عقیدہ‘ عبادت‘ نظامِ زندگی اور قانون اور معاشرت اور پھر پیغام‘ دعوت‘ جدوجہد اور نفاذ کی منظم کوشش کی جائے تو سب مل کر اسلام کی حقیقی منشا بن جاتی ہے‘ جسے ’تحریک‘ کی اصطلاح سے سمجھا اور سمجھایا جا سکتا ہے۔

بعض علما نے مولانا مودودیؒ کی اس پکار کو ’بدعت‘ قرار دے کر ناگواری کا اظہار کیا‘کچھ نے بالکل ہی مسترد کر دیا‘ مگر ان افراد کے نامناسب ردعمل نے بہت جلد اپنی اپیل کھو دی۔ آج اُن پیشوائوں کے ارادت مند بھی انھی اصطلاحوں میں بات کرتے ہیں‘ جنھیں وہ کل مذموم قرار دے کر مولانا مودودیؒ کے خلاف فتووں کی بارش کر رہے تھے۔ گویا وقت اور حالات کی مناسبت سے مولانا مودودیؒ نے اسلام کے اصل پیغام کو اس کے جوہر سے جوڑنے‘ بیان کرنے اور دل و دماغ اور قول و عمل میں انقلاب برپا کر کے اس کو ایک زندہ تحریک بنانے کا کام کیا۔ مولانا مودودی ؒاور اس دور میں احیائی فکر کے علم بردار مفکرین کا اصل کارنامہ یہی ہے کہ انھوں نے بیسویں صدی میں وہی کام کیا جو دوسری صدی ہجری میں اس وقت اُمت کے قائدین نے   انجام دیا تھا۔ اس وقت ایک چلتے ہوئے نظام کو مستحکم کرنے اور انحراف کی یورش کے مقابلے کے لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کو ضابطے اور قانون کا پابند کرنا اصل ضرورت تھی‘ اور اب    قانون اور ضابطے کا ایک مثالیہ تو موجود تھا مگر وہ قوتِ قاہرہ مفقود تھی‘ کہ جس کے ذریعے نظریات نظامِ حیات بن جاتے ہیں۔

اب اگر آپ اس کی تہ میں جانا چاہیں توسمجھ سکتے ہیں کہ خلافت و اسلامی ریاست دراصل اس تحریک ‘ اس جدوجہد اور تبدیلی کا نتیجہ ہوگی۔ اس کے لیے فکر کی تبدیلی‘ فکر کے ساتھ کردار کی تبدیلی اور کردار کے ذریعے معاشرے کی تشکیلِ نو کرنا ہوگی۔ اس مقصدکے لیے منظم جدوجہد کی اہمیت محتاجِ بیان نہیں‘ جو بالآخر اسلامی معاشرے‘ اسلامی تہذیب و ثقافت‘ اسلامی حکومت‘ اسلامی ریاست اور حکومت الٰہیہ کے قیام پر منتج ہوگی۔ دیکھیے کہ خلافت کی اصطلاح جس نے ۱۹۲۴ء میں ایک خاص انداز میں پوری اُمت کو صدمے سے دوچار کیا تھا‘ اس کے زیادہ  جان دار متبادل کے طور پر حکومت الٰہیہ‘اقامت دین‘ اسلامی نظام کے قیام کی تڑپ اور پیاس اپنے نئے روپ اور نئے وژن کے ساتھ کس طرح اس مقام تک آپہنچی ہے۔

علامہ اقبال ؒاور مولانا مودودیؒ کے سامنے دراصل یہ بنیادی ایشو تھا۔ علامہ نے اپنے انداز و اسلوب اور اپنے دائرے میں اور اشاروں میں اور مولانا مودودیؒ نے تفصیل‘ وضاحت اور تسلسل کے ساتھ اس کا جواب دیا۔مولانا مودودیؒ کی نگاہ میں اصل مسئلہ خلافت کے کسی روایتی ادارے یا symbolکا قائم ہوجانا نہیں‘بلکہ خلافت تو اس وژن اور اس نئے عمل اور اس تہذیب کی سرتاج ہے جس کے لیے ہمیں اپنی توجہ مرکوز کرنی ہے‘ یعنی استخلاف فی الارض کی ذمے داری کو پورے شعور کے ساتھ ادا کرنا۔

آج کے دور اور حالات میں خلافت اور اقامت دین کے لیے مطلوب بنیادوں اور لائحہ عمل کے جو خدوخال سیدمودودی ؒنے پیش کیے ہیں‘ اس ضمن میں سب سے پہلی چیز فکر اور فکرمیں بھی اسلامی فکر کی تشکیل جدید‘ وقت کی غالب فکر پر گرفت‘ تنقید و تنقیح اور ایک نئے انسان کو تیار کرنا ہے۔ ایساانسان جس کا وژن‘ اخلاق‘ کردار‘ صلاحیت کار‘ تعلیم‘ وسائل اور اوقات کار کے نئے تقاضوں کو پورا کر سکے۔ اس کے بعد دوسری چیز ایک منظم اور اجتماعی جدوجہد ہے۔ چونکہ یہ کام محض انفرادی طور پر انجام نہیں پاسکتا‘ اس کے لیے ایک منظم اجتماعی جدوجہد ضروری ہے۔ ایسے تمام اچھے انسانوں کو منظم کر کے اجتماعی جدوجہد میں لگا دینا‘ تاکہ اسلام وقت کی غالب قوت بن کر انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلا سکے۔ اس مطلوبہ قوت کا جو وژن سامنے آتا ہے وہ ہے تبدیل شدہ انسان اور اس کے ذریعے ایک اچھے معاشرے کا قیام۔ اس کے ادارات میں تعلیم‘ معاشرت‘ معیشت شامل ہے اور جس کا موثر ترین پہلو انقلاب قیادت اور اسلامی ریاست کا قیام ہے۔ صرف ایک خطے میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر اسلام کو ایک کارفرما اور قائد کی حیثیت سے سامنے لانا ہے۔

فکرِاسلامی کی تشکیلِ نو

سید مودودی کے علمی کارنامے کا احاطہ اور جائزہ وقت کی اہم ضرورت ہے‘ مگر اس جائزے کے تقاضوں کو کماحقہ پورا کرنا بڑا مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ بہرحال مندرجہ بالا معروضات کی روشنی میں کسی قدر غوروفکر اور مزید تحقیق و تحلیل (analysis) کے طور پر چند نکات مرتب کرنے کی جسارت کر رہا ہوں:

سید مودودیؒ کے علمی کارنامے کی صحیح تفہیم کے لیے دو بنیادی باتوں کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے: اول یہ کہ ہماری تاریخ کی پہلی پانچ صدیاں اسلامی فکر کی تشکیل و تعمیر اور اسلامی تہذیب و تمدن کی صورت گری اور استحکام اور ترقی کے باب میں اسلام کی اجتہادی اور انقلابی قوت کا ایک ایسا ماڈل پیش کرتی ہیں جو اسلام کے مزاج اور تاریخی کردار کو سمجھنے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ تفصیل میں جائے بغیر ہم عرض کریں گے کہ دورِ رسالت مآبؐ اور دورِ خلافت راشدہ نہ صرف اسلام کے معیاری ادوار ہیں‘ بلکہ ہمیشہ کے لیے اسلامی مثالیے کے خدوخال متعین کردیتے ہیں ۔ اس کے بعد کے ساڑھے چار سو سال کے سیاسی نشیب و فراز سے اگر صرفِ نظر بھی کرلیا جائے تو صاف نظرآتا ہے کہ یہ دور علوم اسلامی کی تدوین کا زریں زمانہ ہے۔ تفسیر‘ حدیث‘ اصولِ فقہ‘ کلام‘ فلسفہ‘ تصوف‘ ان سب کے لیے یہ تعمیری اور تشکیلی دور ہے۔ اور امام غزالی ؒ

کی ذات اور کام میں اس دور کا حاصل دیکھا جا سکتا ہے۔

امام غزالی ؒنے فقہ‘ کلام اور تصوف کے تینوں دھاروں کو اپنے وقت کے فکری اور تہذیبی چیلنجوں کی روشنی میں اپنی مجتہدانہ بصیرت کے ساتھ ایک نامیاتی اکائی (organic whole)میں مرتب اور منضبط کرنے کی بڑی راہ کشا اور کامیاب کوشش کی۔ پھر ایسی ہی ایک کوشش بارھویں صدی میں شاہ ولی اللہ مرحوم و مغفور کے کام میں نظر آتی ہے۔

سید مودودیؒ کے کام کو بیسویں صدی کے فکری اور تہذیبی چیلنج کے پس منظرہی میں سمجھا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ فکری اعتبار سے ان کا کام غزالیؒ، ابن تیمیہؒ اور شاہ ولی ؒ اللہ کے کام کا تسلسل اور اس علمی روایت کے بیسویں صدی میں احیا کی ایک شان دار مثال ہے۔

دوسری چیز وہ فکری اور تہذیبی ماحول ہے جس میں سید مودودی ؒنے یہ کام انجام دیا۔ اس میں مسلمانوں کا ۲۰۰ سال کا فکری جمود‘ مغرب میں نشاۃ ثانیہ(renaissance)‘ روشن خیالی (enlightenment) اور لبرل اور اشتراکی تحریکوں کا فروغ‘ صنعتی انقلاب‘ مغربی استعماری اور سرمایہ دارانہ قوتوں کا عالمی کردار پوری دنیا بشمول مسلم دنیا پر ان تسلط تھا۔ اس پس منظر میں شروع شروع میں مسلمانوں میں دو رجحان رونما ہوئے۔ ایک تحفظ اور اپنی میراث کو بچانے کے لیے قدامت پسندی اور جدید سے عدمِ تعاون اور اجتناب کا رویہ تھا‘ اور دوسری جانب اپنے تشخص اور روایت سے بے نیاز ہوکر غالب قوت سے ہم آہنگی اور ہم رنگی اختیار کرنے اور لبرلزم اور ماڈرنزم کے نام پر عملاً مغربی تہذیب‘ طرزفکروعمل‘ سیاسی اور ثقافتی اداروں سے نئی ٹکنالوجی اور طرزمعیشت کو بلاتفریق وامتیاز (indiscriminately)اختیار کرنے کا۔

روایتی مذہبی طبقات پہلے راستے میں نجات دیکھ رہے تھے‘ اور جدید تعلیم یافتہ اور مراعات حاصل کرنے والے طبقات دوسرے کو ترقی کا زینہ قرار دے رہے تھے۔ ان دو انتہائوں کے درمیان ایک وسیع خلیج تھی جسے پُر کرنے کے لیے کئی موثر کوششیں ہوئیں‘ جن میں سب سے اہم اسلام اور مسلم تہذیب و تاریخ پر مسلمانوں کے اعتماد کو بحال کرنے کی وہ کاوش تھی‘ جو سید امیرعلی‘ شبلی نعمانی اور ندوۃ العلما اور دارالمصنفین نے انجام دی۔

اس پس منظر کے ساتھ برعظیم پاک و ہند میں دو آوازیں اُبھریں جو اپنی تازگی‘ وسعت اور انفرادیت (originality) کے اعتبار سے بظاہر اپنے ماحول میں اجنبی‘ لیکن دراصل اسلام کے پہلے ۵۰۰سال کی روایت کے احیا کی نقیب تھیں---ایک‘ اقبال اور دوسرے ابوالکلام آزاد۔ اپنے اپنے انداز میں دونوں نے اسلام کی راہ وسط کو اجاگر کیا اور قدیم اور جدید کے درمیان راہِ صواب کی نشان دہی کی۔ لیکن صرف اس حد تک کہ جمود پر ضرب لگائی‘ مغربیت کے طلسم کو چیلنج کیا اور اسلام کے حقیقی پیغام اور مشن کی طرف مراجعت کی دعوت دی--- جس شخص نے اس نقشے میں رنگ بھرا اور اس دعوت کو فکروعمل دونوں میدانوں میں ایک حقیقی اور موثر تحریک بنانے کے لیے شب و رز وقف کر دیے‘ وہ سید مودودیؒ ہیں۔ جنھوں نے یہ کام روایت سے بغاوت کے ذریعے نہیں بلکہ روایت کو تجدید کے عمل کا حصہ بناکر‘ اور جدید کو نظرانداز کر کے نہیں‘ بلکہ جدید کو اپنی تہذیبی اقدار کی کسوٹی پر پرکھ کر اور خذما صفا ودع  ما کدر (جودرست ہے اس کو قبول کرلو اور جو نادرست ہے اس کو رد کر دو) کے اصول کے مطابق انجام دیا۔ ان کے   اس کام کے تین اہم پہلو ہیں:

                ۱-            فکر اسلامی کی تشکیلِ نو

                ۲-            اُمت کی کمزوری اور زوال کے اسباب کی تعین و تشخیص اور اصلاح احوال کے   خطوطِ کار کی نشان دہی۔

                ۳-            اصلاح کے نقشے کے مطابق تبدیلی اور تعمیرنو کی جدوجہد کا عملی آغاز

یہی وہ تین کام ہیں جس کے باعث بیسویں صدی کی تاریخ میں سید مودودیؒ ایک مفکر‘ ایک مصلح اور ایک مدبر کی حیثیت سے بڑا منفرد مقام رکھتے ہیں۔

اسلامی فکر کی تشکیلِ نو کے سلسلے میں اپنی تصنیفی زندگی کے ۶۰برسوں میں سیدمودودیؒ نے تقریباً ڈیڑھ سوکتب کی تصنیف و تالیف کے ذریعے خدمت انجام دی۔ انھوں نے تفسیرقرآن‘ تشریح احادیث‘ تعلیم فقہ کے ساتھ اجتہادی بصیرت سے دورِحاضر کے جملہ اہم علوم اور مسائل کے بارے میں اسلامی فکر کے اساسی اصول پیش کیے۔ ان کے اجتہادی کام کا دائرہ چند گنے چنے مسائل تک محدود نہیں ہے‘ بلکہ اصل ماخذ اور تاریخی روایت کے ساتھ‘ پوری فکرِاسلامی کی روشنی اور تسلسل میں تعمیر اور تشکیلِ نو ہے۔ مولانا مودودیؒ کے اس کام کی انفرادیت‘ وسعت اور گہرائی پر برسوں نہیں صدیوں تحقیق ہوگی اور اس سے آنے والی نسلیں روشنی حاصل کریں گی۔

اس سلسلے میں سید مودودیؒ کا سب سے بنیادی کام عقیدے کی تشریح اور توضیح ہے۔ سیدصاحبؒ کی فکر کو سمجھنے کے لیے سب سے کلیدی تصور‘ توحید کے عقیدے کی تشریح اور اس کے تقاضوں کی تعلیم ہے۔ قرآن نے الٰہ اور رب کا جو تصور پیش کیا ہے‘ اس دور میں اس کی واضح ترین تعلیم سید مودودی ؒکا سب سے بڑا فکری کارنامہ ہے۔ توحید کے تصور کو شرک کی تمام آلایشوں سے پاک کرنا اور اللہ کو الٰہ ماننے کے مضمرات کو جس طرح سیدمودودیؒ نے بیان کیا ہے‘ وہ اظہارمدعا کی دنیا میں ایک انقلابی کارنامہ ہے۔ اللہ صرف خالق اور پالنہار ہی نہیں ہے‘ بلکہ وہ حاکم‘ آقا‘ مطاع اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ ایمان کے معنی ایک طرف اپنے پیدا کرنے والے کو پہچاننا اور اس کے دامن میں پناہ لینا ہے تو دوسری طرف اس سے عہداطاعت کرنا ہے کہ پھر زندگی کے ہر شعبے میں اس کی رضا کا حصول‘ اس کے احکام اور ہدایت کی اطاعت اپنے آپ کو اور اپنے پورے معاشرے کو صبغۃ اللہ کے رنگ میں رنگ لینا ہی کمال ترقی و کامیابی ہے۔

یہ تصور ایک طرف روایتی مذہبی جمود کو پارہ پارہ کر دیتا ہے تو دوسری طرف زندگی کو خانوں میں تقسیم کرنے اور الہامی ہدایت سے بے نیاز ہوکر محض عقل‘ تاریخ اور تجربے کے سہارے زندگی گزارنے والے تمام طریقوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتا ہے۔ عبادت صرف مخصوص اسلامی مظاہر (rituals) کا نام نہیں‘ بلکہ پوری زندگی کو منصوص عبادات کی ادایگی اور ان کی رمزیت اور اثرانگیزی کی قوت سے اللہ کی بندگی میں دینے اور اس کی ہدایت کے مطابق زندگی گزارنے کا نام ہے۔ اور اسلام ہے ہی وہ دین جو ایک طرف انسان کی پوری زندگی کا احاطہ کرتا ہے تو دوسری طرف انسان کو خالق کائنات کی مرضی سے ہم آہنگ (harmonize)کرنے کا وہ طریقہ ہے جس پر پوری کائنات عامل ہے۔ پوری کائنات اللہ کی مسلم ہے کہ اس کے بنائے ہوئے قانون کے مطابق عمل پیرا ہے۔ جب انسان اسلام کے دائرے میں داخل ہو کر اللہ کے قانون کی اپنے ارادے سے پابندی کرتا ہے تو وہ پوری کائنات سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جس سے اسے حقیقی امن و سلامتی حاصل ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے رب‘ اپنی ذات اور فطرت‘ اور پوری کائنات کے ساتھ ہم آہنگی اور اطمینان کا رشتہ استوار کر لیتا ہے۔ اسلام کے معنی یہی سپردگی ہے جو اطمینان‘ امن اور سلامتی پر منتج ہوتی ہے (اَلَا بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ o الرعد ۱۳:۲۸)۔

توحید کے اس تصور کی وضاحت کے بعد سیدمودودیؒ اسی توحید کی بنیاد پر پوری انسانی فکر اور زندگی کے ہر شعبے کے لیے اسلامی تعلیمات کی ترتیب و تدوین کا کام انجام دیتے ہیں۔ وہ  قرآن و سنت اور اسوئہ رسولؐ سے ثابت کرتے ہیں کہ اسلام ہی مکمل دین ہے اور زندگی کے ہرشعبے کے لیے کافی و شافی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اسلام کے نظامِ حیات کے ہرایک پہلو کو انھوں نے شرح و بسط کے ساتھ پیش کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کا وہ کیا نقشۂ کار ہے جو قرآن و سنت کی تعلیمات کی بنیاد پر ظہور پذیر ہوتا ہے‘ اور ایک متوازن فکرانسانی اور علوم عمرانی کی تشکیلِ نو کس طرح ان بنیادوں کے اوپر انجام دی جا سکتی ہے۔ قانون‘ سیاست‘ معیشت‘ معاشرت‘ تعلیم‘ حقوقِ انسانی‘ عالمی نظام‘ غرض ہر پہلو پر انھوں نے اخلاقی دیانت‘ اجتہادی بصیرت اور عمیق تحقیق کے ساتھ اسلامی فکر کی تشکیلِ نو کی خدمت انجام دی ہے۔ فردِواحد نے وہ کام کردکھایا‘ جو بڑے بڑے ادارے اور محققین کی بڑی بڑی جماعتیں بھی بمشکل انجام دے پاتی ہیں۔

سید مودودیؒ نے تاریخ میں اسلام اور جاہلیت کی کش مکش کی تصویرکشی کے ذریعے انسانی زندگی کے اصل ایشوز کو مرتب کیا ہے اور بتایا ہے کہ آفرینش کے آغاز سے تاریخ دو ہی قوتوں کی پیکار کی آماجگاہ ہے‘ ایک اسلام ہے اور دوسری جاہلیت (یعنی اللہ سے بے نیاز ہوکر زندگی کا نقشہ بنانے کی کوشش خواہ اس کا نام اور آہنگ کیسا ہی کیوں نہ ہو)۔ یہی وہ کش مکش ہے جس میں انسان کو استخلاف فی الارض کی ذمہ داری سونپی گئی ہے‘ جو اُمت مسلمہ کا مشن‘ یعنی شہادت حق اور امربالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اور جس کے لیے نفس سے جنگ سے لے کر کارزارحیات میں شر‘ ظلم اور فساد کے خلاف جہاد ہی اللہ کے بندوں کی اصل ذمہ داری ہے۔ تزکیہ نفس سے لے کر قتال فی سبیل اللہ تک‘ یہ سب اس نقشۂ راہ کے مراحل ہیں۔ حق کے غلبے کی جدوجہد ہی ایمان کا اصل تقاضا اور ثمرہے۔

سید مودودیؒ نے اسلام کے اس وژن کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے جو کام کیا‘ اس کے تجزیے سے ان کے علم الکلام کے خدوخال مرتب کیے جاسکتے ہیں۔ انھوں نے محسوس کیا کہ اسلام کے اولین دور میں وژن کی صحت اور جدوجہد کی قوت کا سرچشمہ قرآن سے براہِ راست رہنمائی اور سنت رسولؐ پر مضبوطی سے قائم رہنا تھا۔ بڑھتی ہوئی اسلامی قلمرو اور دنیا بھر میں مسلمانوں کے پھیل جانے سے جو نئے مسائل پیدا ہوئے تھے‘ ان کے حل کے لیے اسلامی فقہ کی تدوین اجتہاد اور اجتہادی فیصلوں کی تنفیذ وقت کی سب سے بڑی ضرورت تھی۔ لیکن مرورزمانہ کے ساتھ فکر‘ تعلیم اور معاملات کا کچھ ایسا آہنگ بن گیا کہ فقہ اور روایت کو اولیت حاصل ہوگئی اور قرآن و سنت سے بلاواسطہ ربط و رہنمائی میں اضمحلال آگیا۔ جن نام نہاد مصلحین نے فقہ اور روایت سے بغاوت کی بات کی‘ وہ اسلام کی روح اور اس کے مشن سے ناواقف تھے۔ لیکن فقہ اور روایت سے رہنمائی اور تعلق کو منقطع کیے بغیر احیاے اسلام کے لیے ضروری ہے کہ قرآن اور سنت سے رشتہ استوار کیا جائے اور نئے حالات میں رہنمائی کے لیے ترتیب وہی قائم کی جائے جو دورِاول میں تھی--- یعنی قرآن‘ پھر سنت اور پھر اجتہاد۔ جس میں سلف کے اجتہاد اور اس کے نتیجے میں ظہورمیں آنے والی فقہ سے اصولوں کے مطابق استفادہ ہے۔ پھر جس طرح اصولین نے اپنے زمانے میں اپنے وقت کے علوم اور مسائل کو سامنے رکھ کر اسلام کی رہنمائی کو متعین کیا‘ اسی طرح آج کا ماحول اس پورے علمی اثاثے کو سامنے رکھ کر لیکن جدید علوم اور عصری مسائل کے حقیقی ادراک کے ساتھ غوروفکر اور اجتہاد واستنباط کے سلسلے کو آگے بڑھانا ہے۔ اس کے لیے سائنس‘ عمرانی علوم اور دورِ جدید کے اس ’عرف‘ کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے‘ جو مقاصد شریعت سے  ہم آہنگ اور احکام اسلام سے متصادم نہ ہو۔

تحقیق‘تجزیے ‘ استنباط اور اطلاق کی یہ وہ حکمت عملی ہے جو سیدمودودیؒ نے اختیار کی۔ اسی طرح ان کے علم الکلام میں دورِ جدید کے تقاضوں اور ضرورتوں کو سامنے رکھ کر اسلامی علوم و افکار کی تشکیل جدید ہی نہیں بلکہ فکرِانسانی کی تشکیلِ نو کے اس عمل کو انجام دیا جانا چاہیے۔ اس کے خطوطِ کار کا تعین اور اس کے استعمال سے حاصل شدہ نتائج کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ گویا فکر اور فکری عمل کو آگے بڑھانے کے راستے اور طریقے بتاکر‘ ان دونوں میدانوں میں بھی سیدمودودی نے نئے چراغ روشن کیے اور مستقبل میں کام کرنے والوں کے لیے تابندہ نقوشِ راہ چھوڑے۔ ان کے سارے کام کا ہدف اللہ سے بندوں کو اللہ سے قریب کرنا اور ان کے اندر اپنے رب سے مغفرت کی طلب بڑھانا  تھا۔ لیکن فرد کی اصلاح‘ فکر کی تشکیلِ نو‘ وقت کے فتنوں اور چیلنجوں کا جواب‘ اسلامی زندگی‘ مسلم معاشرہ‘ اسلامی ریاست اور اسلام کے عالمی نظام کے خدوخال کی وضاحت کے ساتھ ان کی توجہ ایک اور کلیدی نکتے پر مرکوز رہی‘ اور وہ یہ کہ اچھے انسانوں کی تیاری کے ساتھ اجتماعی جدوجہد اور معاشرے کی تعمیروتشکیل کے ذریعے انقلابِ قیادت کا معرکہ کیونکر سر کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے عملاً مربوط و منظم جدوجہد کی کہ دین کے قیام‘ اسلامی معاشرے اور ریاست کے قیام اور ہرسطح پر قیادت کی تبدیلی اور فاسد قیادت سے زمامِ کار‘   صالح قیادت کی طرف منتقل کرکے انسانیت کی قیادت اہلِ خیر کے ہاتھوں میں لائی جاسکے۔ سیدمودودیؒ کی فکر کا مرکزی نکتہ توحید کے تصور کی وضاحت ہی نہیں ہے بلکہ توحید کے تصور کی بنیاد پر انسان سازی اور زمانہ سازی کا عمل ہے۔ یہ کام انھوں نے فکر کے میدان میں بھی انجام دیا اور پھر ایک مصلح کی حیثیت سے عملاً اس جدوجہد کو برپا کرنے کی سعادت بھی حاصل کی۔

یہ بات بھی سمجھنا ضروری ہے کہ مولانا مودودیؒ ایک دیدہ ور مفکر تھے‘ جن کے ہاں فکری ارتقا جاری رہا۔ وہ تحقیق اور دلیل کی بنیاد پر اپنی آرا پر نظرثانی کے لیے کھلا دل اور ضروری لچک رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر ابتدا میں پہلے تحدید ملکیت زمین کے بارے میں مولانا کا کم و بیش وہی نقطۂ نظر تھا‘ جس پر فقہا عامل تھے۔ تاہم‘ جماعت اسلامی کا منشور تیار کرنے کے مختلف مراحل (۱۹۵۱ء تا ۱۹۷۰ئ) میں وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر لامحدود ملکیت زمین ظلم اور انسانی سماج میں شدید عدم توازن کا باعث بن جائے توزمین کی حد مقرر کی جاسکتی ہے۔ اس میں ناجائز ملکیتی زمینوں کو بحقِ سرکار ضبط کر کے ضرورت مند کاشت کاروں میں تقسیم کیا جانا چاہیے اور جائز ملکیتوں میں زرعی اور بارانی زمینوں کو ایک حد سے زیادہ کی صورت میں‘ ریاست خرید کر مستحق افراد کو دے سکتی ہے۔ ان کے ہاں یہ تحدید کمیونسٹوں کے قومیانے والے تصور سے بالکل مختلف اور عدل پر مبنی ہے۔

مولانا مودودی کے ہاں جمود نہیں ہے‘ وہ سوچ کر رائے قائم کرتے تھے لیکن اپنی رائے پر قفل نہیں لگاتے تھے۔ شوریٰ میں تو میں نے دیکھا کہ مولانا نے لوگوں کو گھنٹوں بحث کرنے کا موقع بھی دیا ہے اور اپنی آرا کو تبدیل بھی کیا ہے۔ ہم سب ان کے شاگردوں اور خوردوں میں سے ہیں لیکن وہ ہماری رائے کو بھی پوری توجہ سے سنتے تھے‘ نوٹس لیتے تھے‘ جواب میں دلیل دیتے تھے اور پھر قائل کرنے اور قائل ہونے کے لیے تیار رہتے تھے۔ ایسے بلندپایہ انسان کا ایسے  کھلے انداز میں شورائی آداب پر عمل کرنا‘ حقیقت یہ ہے کہ مولانا مودودیؒ ہی کا حصہ تھا۔

زندگی کے نئے مسائل اور نئی اُلجھنوں پر جب بھی سوچنے کا مرحلہ آتا تو مولانا اس پر ازسرنو غور کرتے تھے۔ جس چیز کے ایک سے زیادہ حل ہو سکتے تھے‘ ان میں ترجیح قائم کرتے تھے۔ مجھے مرکزی شوریٰ میں دو دن تک جاری رہنے والی وہ بحث اچھی طرح یاد ہے جس میں جداگانہ انتخابات کے مسئلے پر بات ہوئی تھی۔ یہ بحث محض نظریاتی نہیں تھی‘ بلکہ یہ اخلاقی اور اصولی حوالے کے ساتھ ساتھ عملی سیاست کے گہرے ادراک پر مبنی تھی۔ اس پر شوریٰ میں دو آرا موجود تھیں۔ مولانا نے ایسے امور کو بڑی نزاکت سے نبھایا اور شوریٰ میں بالآخر زیادہ سے زیادہ اتفاق راے (near consensus) کی کیفیت پیدا کی۔

میدانِ عمل میں رہنما خطوط کا تعین

مولانا مودودیؒ ایک مصلح کی حیثیت سے محض ایک نظریہ ساز (theorist) نہیں ہیں‘ بلکہ ایک عملی مصلح (active reformer) کی حیثیت سے ان کی نگاہیں ہمیشہ زمینی حقائق پر مرکوز رہتی ہیں۔ ایک ہمدرد معالج کے طور پر وہ مریض کو صحت یاب دیکھنے کے متمنی نظرآتے ہیں اور مریض کی حالت کے مطابق نسخے میں ترمیم و تبدیلی بھی کرتے ہیں۔

عملیت پسند مولانا مودودیؒ میں خوداعتمادی تو بلا کی تھی‘ مگر خودپسندی کا کوئی شائبہ بھی ان کی زندگی میں نہ تھا۔ وہ نئے حالات میں‘ دین کی روشنی میں‘ نئے تجربات اور نئے راستے نکالنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ برصغیر پاک و ہند اور پورے عالمِ اسلام کی اصلاح کا انھوں نے بیڑا اٹھایا ‘اور اس عملی جدوجہد میں اپنا صحیح کردار ادا کرنے اور قیادت کرنے کا فریضہ انجام دیا۔ جتنا بڑا کارنامہ انھوں نے فکری حیثیت میں انجام دیا‘ اتنا ہی بڑا کارنامہ انھوں نے عملی سطح پر بھی انجام دیا۔ اس کے لیے انھوں نے ایک جماعت بنائی مگر جماعت اسلامی کا قیام بھڑوں کے چھتے کو چھیڑ دینے کے مترادف ثابت ہوا۔ جوں ہی انھوں نے جماعت بناکر دعوتِ عام دی تو وہ لوگ بھی جو ان کو ’ترجمانِ اسلام‘ کہتے تھے نہ صرف پیچھے ہٹ گئے‘ بلکہ ان کے ناقد بن گئے۔ مولانا نے نئے حالات میں اسلامی فکر کے احیا اور تشکیلِ نو تک اپنی مساعی کو محدود نہیں رکھا‘ بلکہ دنیا کو بدلنے کی‘ مسلمانوں کو بیدار کرنے کی‘ اُمت کو شہداء علی الناس کا کردار ادا کرنے‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکرکی ذمہ داری نبھانے اور اقامت دین کی ذمے داری اٹھانے کے لیے سرگرم کر دیا۔ ان کی ذات میں مفکر اور مصلح‘ داعی اور منتظم‘ قائد اور مدبر کی صلاحیتوں کا اجتماع تھا۔ یہی وہ پہلو ہے جو ان کے کردار کو انفرادیت عطا کرتا ہے۔

l جدید خطوط پر تنظیم سازی :مولانا مودودیؒ نے اپنے عہدکی سرکردہ تنظیموں کے تنظیمی ڈھانچوں اور نظاموں کا گہری نظر سے مطالعہ کیا اور وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اسلام کو ایک انقلابی تحریک کی ضرورت ہے جو محض ایک سیاسی تنظیم نہ ہو۔ اس تناظرمیں جماعت اسلامی کا وجود دراصل ایک نظریاتی تحریک کا روپ ہے۔ بنیادی پہلو یہ ہے کہ مولانا نے جماعت کے دستور میں پہلے ہی دن سے جو بنیادی چیز رکھی ہے‘ وہ اس کا وژن ہے‘ جس میں لا الٰہ الا اللّٰہ محمدرسول اللہ کا تصور‘ اور اس کے تقاضے جماعت اسلامی کا محور ہیں۔ جماعت کے دستور کا سب سے اہم حصہ یہی ہے۔ اس میں پہلی بنیادی چیز اللہ کی حاکمیت‘ دین کی اقامت‘ حکومت الٰہیہ کا قیام اور زندگی کے پورے نظام کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت پر ازسرنو مرتب کرنے کا عزم اور سرگرم جدوجہد کا عہدہے۔ اس میں دوسری بنیادی چیزیہ ہے کہ ہرانسان قابلِ احترام ہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی معیارِ حق نہیں۔ اصل کسوٹی اور معیار اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ باقی سب کو اسی میزان پر پرکھا جائے گا اور جو جتنا اس معیار سے قریب ہوگا ‘وہ اتنا ہی محترم ہوگا۔ جماعت کے قیام میں یہ اصول بھی کارفرما رہا کہ اس کی رکنیت بلاامتیاز تمام مسلمانوں کے لیے کھلی ہے۔ لیکن رکن وہ بنے گا جو شعوری طور پر اس ذمہ داری کو قبول کرے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کا عہد کرے۔

مسلم تاریخ میں بیعت‘ امیر کے ہاتھ پر ہوتی تھی اور امیر کے مرجانے کے بعد دوسرے فرد سے بیعت ہوتی تھی۔ لیکن مولانا مودودیؒ نے نظامِ تنظیم کو بدل کر رکھ دیا۔ انھوں نے کہا: دعوت نہ تو امیر کی طرف ہے اور نہ بیعتِ امیر کی طرف‘ بلکہ دعوت بھی جماعت میں متعین کردہ نصب العین کی طرف ہے اور بیعت بھی جماعت کے ساتھ ہے‘ جسے حلفِ رکنیت کی شکل دی گئی۔ امیر پر نظام کو چلانے کی ذمہ داری ہے‘ وہ اس کی قیادت تو کرے گا‘ اور بحیثیت امیر‘ نظام جماعت کے تحت اس کی اطاعت فی المعروف بھی ضروری ہے‘ لیکن امیر بھی اسی طرح دستور کا پابند ہے جس طرح ایک رکن۔ اسی طرح اطاعت نظام امر کی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دعوت امیر کی طرف نہیں‘ جماعت اوراس کے مشن کی طرف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جماعت کا نظام معروف میں اطاعت اور منکر میں احتساب سے عبارت ہے۔ یہ جماعت کے اجزاے لاینفک ہیں۔ میرے علم کی حد تک مسلمانوں کی اجتماعیت کی تاریخ میں مولانا مودودیؒ نے پہلی مرتبہ تحریری دستور کے اندر احتساب کے حق کو حق ہی نہیں‘ ذمہ داری قرار دیا ہے۔ ہر رکن‘ شوریٰ اور پورا نظام امر‘ احتساب کے عمل میں شامل ہے۔ ہر رکن یہ عہد کرتا ہے کہ میں جہاں کہیں کوئی برائی دیکھوں گا ‘اس کی اصلاح کی کوشش کروں گا۔ مراد یہ ہے کہ رکنیت کے وجود میں احتساب کا حق ہی نہیں فرض بھی شامل ہے۔ دستور میں شوریٰ کے منصبی فرائض میں بھی احتساب شامل ہے۔ یہ اصول تو بڑی جمہوری پارٹیوں میں بھی نہیں ہے۔ پاکستان کی چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں اور مذہبی جماعتوں کے نظام کار کا جائزہ لیجیے‘ تو نظر آتا ہے کہ یا تو وراثت کا نظام کارفرما ہے‘ یا جس فرد کا وراثت‘ دولت اور اقتدار کے بل پر پارٹی پہ قبضہ ہے‘ وہی حرف اول ہے اور وہی حکم آخر۔

اس کے بعد ہے اختلاف راے کا حق۔ مولانا مودودیؒ نے اسے بھی ایک دستوری حق قرار دیا ہے‘ یعنی آپ پالیسی سے اختلاف رکھ سکتے ہیں‘ عقیدے سے نہیں۔ امیر سے اختلاف رکھ کر بھی آپ جماعت کے رکن رہ سکتے ہیں اور ایک وقت کی طے شدہ پالیسی کو بدلنے کے لیے افہام و تفہیم اور معروف شورائی ذرائع سے کوشش کرسکتے ہیں۔ جماعت کے دستور میں بھی شورائی نظام کا ارتقا ہوا ہے‘ اورایک تدریجی عمل سے گزر کر جماعت نے ایک طرف امیر کو قیادت اور رہنمائی کا اختیار دیا ہے تو دوسری طرف پالیسی کو شوریٰ کے فیصلے کا پابند کیا ہے‘جب کہ آخری فیصلہ شوریٰ یا اجتماع ارکان کا استحقاق ہے۔ اس عمل سے شوریٰ کی برتری زیادہ مستحکم ہوئی ہے۔

l نظام کی تبدیلی کا طریق کار اور حکمت عملی: مولانا مودودیؒ نے ملکی نظام میں تبدیلی کا جو طریق کار پیش کیا ہے‘ وہ افکار کی تبدیلی‘ کردار کی تعمیراور راے عامہ کی ہمواری کے لیے جمہوری‘ قانونی اور دستوری طریقے کی نشان دہی کرتے ہیں۔ جماعت کے دستور میں اس طریق کار کو دو ٹوک انداز میں پیش کیا گیا اور عملاً ملک کی سیاست میں دستوریت (constitutionalism) اور جمہوری ذرائع سے تبدیلی کی جدوجہد کی مثال قائم کی گئی۔ وہ سختی سے اس راستے پر کاربند رہے اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو بھی اس کی دعوت دی۔ انھوں نے کھلے الفاظ میں کہا: خفیہ جماعتوں کا طریقہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔ عرب ممالک میں چونکہ یہ رجحان گڈمڈ تھا‘ اسی لیے عرب نوجوانوں سے مولانا مودودیؒ نے خطاب کرتے ہوئے یہی فرمایا کہ میں آپ کوتلقین کرتا ہوں کہ آپ ان طریقوں کو اختیار نہ کریں جو فساد فی الارض کا ذریعہ بنتے ہیں۔ البتہ مسلمان جہاں پر محکوم ہیں اور غیروں کی غلامی میں ہیں‘ اور ان کے لیے سیاسی جدوجہد کا دروازہ بند کر دیا جاتا ہے۔ وہاں آزادی کے لیے ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ جاتا کہ وہ جہادکی راہ اختیار کریں تو یہ ان کا حق ہے۔ لیکن جن معاشروں میں آزادی ہے اور تبدیلی کے کچھ بھی جمہوری ذرائع موجود ہیں‘ وہاں آئینی اور جمہوری طریقے سے تبدیلی لانا ہی مولانا کی نگاہ میں اور جماعت کے دستور کے تحت تبدیلی کا صحیح طریقہ ہے۔

یہاں ہمیں مولانا مودودیؒ مرحوم کی فکر کا یہ بڑا اہم نکتہ ملتا ہے‘ جسے علم السیاست میں ارتقائی عمل اور انقلابی عمل کہا جاتا ہے۔ مولانا نے بالکل ایک بیچ کا راستہ نکالا ہے‘ اور وہ یہ ہے کہ ان کے تمام مقاصد تو انقلابی (revolutionary) ہیں‘ لیکن ان کے حصول کے لیے طریقۂ کار ارتقائی (evolutionary) ہے۔ اسلامی انقلاب ہمارا مطلوب ہے‘ لیکن اس انقلاب کی منزل تک پہنچنے کے لیے کوئی مختصر راستہ (short cut)نہیں ہے اور نہ جبر کا کوئی طریقہ اس منزل کے حصول کے لیے ممدومعاون ہوسکتا ہے۔ مولانا مودودیؒ ذہنوں‘ معاشرے اور کردار کی تیاری کے ذریعے راے عامہ کو قائل کرتے اور اس طرح قیادت کی تبدیلی کا راستہ بتاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: قیادت کی تبدیلی کا لازمی تقاضا یہی ہے۔ پہلے مولانا کا خیال تھا کہ اسلامی ریاست میں سیاسی پارٹیاں نہیں ہونی چاہییں۔ لیکن بعد میں انھوں نے محسوس کیا کہ اگر سیاسی پارٹیاں ان حدود کی پابندی کریں‘ جو شریعت نے اجتماعی زندگی کے لیے مرتب کی ہیں تو وہ اس ریاست کے نظام کار کو چلانے کے لیے نہ صرف معاون بلکہ ضروری ہیں۔ خاص طور پر سیاسی آزادی اور اختلاف راے کو اداراتی اور منظم شکل دینے کے لیے اس کو قبول کیا۔ اسی طرح ایک خاص مقصد کے لیے ایک خاص طرز پر جماعت کو تبدیلی کا صورت گربنایا۔ پھر انھوں نے جماعت کے ساتھ‘ معاشرے کے ہر طبقے کو فعال طور پر ساتھ لے کرچلنے کے لیے برادر تنظیموں کا ایک وسیع نظامِ کار وضع کیا۔

ایک اور مثال ہے‘ ان کا لیکچر : اسلام کا نظریۂ سیاسی ‘جو تقسیم ہند سے ۱۰برس قبل شائع ہوا تھا۔ اس میں مولانا نے امیر کے لیے زندگی بھر مامور رہنے اور شوریٰ کے مقابلے میں حق استرداد کو خلافت راشدہ کے تعامل سے لیا تھا۔ جیساکہ میں نے عرض کیا ہے کہ مولانا کے ہاں ہمیں دیانت اور علمی توسُّع کی بہترین مثالیں ملتی ہیں۔ انھوں نے اپنی بات کو ہمیشہ دلیل اور  اعتماد سے پیش کیا ہے۔ لیکن ساتھ ہی افہام و تفہیم اور دلیل سے اپنی رائے بدلنے پر آمادہ رہے ہیں۔ ایسے ہر مشاہدے سے مولانا کی عظمت کا نقش گہرا ہوا ہے۔ جب اسلامی دستور کی تدوین کا مرحلہ آیا اور میں نے مولانا کی اسلامی قانون کی تدوین والی تقریر کو Islamic Law & Constitution میں شامل کر کے اس کتاب کو مرتب کرنے کے لیے کام شروع کیا تو اس موقع پر مولانا ظفراحمد انصاری‘ چودھری غلام محمد اور غلام حسین عباسی صاحب کے ہمراہ‘ مولانا مودودیؒ سے ان معاملات پر گفتگوئیں ہوئیں۔ مولانا بہت کھلے دل سے ہماری گزارشات پر غور فرمایا اور اس مکالمے کے نتیجے میں متعدد امور میں انھوں نے اپنی رائے میں ترمیم کی۔ مثال کے طور پر‘ امیر کے سلسلے میں مولانا نے رائے تبدیل کی اور کہا کہ دورِ امارت مقید ہوسکتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ خلفاے راشدینؓ توتقویٰ ‘ کردار اور اپنی خدمات کے اعتبار سے بہت اونچے مقام پر تھے‘ پھر وہ محض منتخب سربراہ ہی نہیں تھے بلکہ تحریک اسلامی کے ستون اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ اور افضل ترین حضرات تھے‘ اس لیے ان کے اوپر یہ بھروسا کیا جا سکتا تھا لیکن‘ اگر آج ایک آدمی اختیار اور اقتدار کے سرچشموں پر قابض ہو جاتا ہے تو سوال یہ ہے کہ اسے ہٹانے کا راستہ کیا ہوگا۔

اسی طرح امیر یا لیڈر کو بھی شوریٰ کی رائے کا پابند ہونا چاہیے۔ مولانا مودودیؒ کے ہاں اس میں بھی ایک ارتقا ہے‘ جس کا نقطۂ عروج تفہیم القرآن میں سورہ شوریٰ وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْص ( ۴۲:۳۸)پر تفسیری نوٹ ہے‘ جو پورے تفسیری لٹریچر میں منفرد شان کا حامل ہے۔ اس میں مولانا نے لکھا ہے: ’’مشاورت اسلامی طرزِ زندگی کا ایک اہم ستون ہے‘ اور مشورے کے بغیر اجتماعی کام چلانا نہ صرف جاہلیت کا طریقہ ہے بلکہ اللہ کے مقرر کیے ہوئے ضابطے کی صریح خلاف ورزی ہے… جس معاملے کا تعلق دو یا زائد آدمیوں کے مفاد سے ہو‘ اس میں کسی ایک شخص کا اپنی راے سے فیصلہ کر ڈالنا‘ اور دوسرے متعلق اشخاص کو نظرانداز کر دینا زیادتی ہے… اگر وہ کسی بہت بڑی تعداد سے متعلق ہو تو ان کے معتمدعلیہ نمایندوں کو شریک مشورہ کیا جائے… جن معاملات کا تعلق دوسروں کے حقوق اور مفاد سے ہو‘ ان میں فیصلہ کرنا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ کوئی شخص جو خدا سے ڈرتا ہو‘ اور یہ جانتا ہو کہ اس کی کتنی سخت جواب دہی اسے اپنے رب کے سامنے کرنی پڑے گی‘ کبھی اس بھاری بوجھ کو تنہا اپنے سر لینے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ اس طرح کی جرأتیں صرف وہی لوگ کرتے ہیں جوخدا سے بے خوف اور آخرت سے بے فکر ہوتے ہیں… اسلامی طرزِزندگی یہ چاہتا ہے کہ مشاورت کا اصول ہر چھوٹے بڑے اجتماعی معاملے میں برتا جائے۔ گھر کے معاملات ہوں تو ان میں میاں اور بیوی باہم مشورے سے کام کریں اور بچے جب جوان ہوجائیں تو انھیں بھی شریک مشورہ کیا جائے… خاندان کے معاملات ہوں تو ان میں کنبے کے سب عاقل و بالغ افراد کی راے لی جائے… ایک پوری قوم کے معاملات ہوں تو ان کے چلانے کے لیے قوم کا سربراہ سب کی مرضی سے مقرر کیا جائے… اگروہ اپنے معاملات کی سربراہی میں کوئی غلطی یا خامی یا کوتاہی دیکھیں تو اس پر ٹوک سکیں‘ احتجاج کرسکیں‘ اور اصلاح نہ ہوتی دیکھیں تو سربراہ کاروں کو بدل سکیں۔ لوگوں کا منہ بند کرکے‘ اور ان کے ہاتھ پائوں کس کر‘ اور ان کو بے خبر رکھ کر ان کے اجتماعی معاملات چلانا صریح بددیانتی ہے‘‘ (تفہیم القرآن‘ ج ۴‘ ص ۵۰۸-۵۰۹)۔ یہی چیز امیر اور لیڈر کے لیے ہے۔ اکثریت کی راے کو قبول کرنا اور اجماع پسندیدہ امر ہے۔ یہ آثار اپنے ارتقا کے ساتھ ان کی تحریروں میں موجود ہیں۔

پھر جب تقسیم ہند کے بعد پاکستان میں جماعت اسلامی کے دستور کی تشکیلِ نو ہوئی تو اس میں امیر کی مدت پانچ سال مقرر کر دی گئی۔ یہ وہی وقت ہے جب ہم نے دستور میں سربراہ حکومت کے لیے پانچ سال کی مدت تجویز کی تھی‘ جسے مولانا نے قبول کر لیا تھا۔ اسی طرح جماعت کے پہلے دستور میں شوریٰ کا ادارہ موجود تھا‘ لیکن ان ارکان شوریٰ کو امیران افراد کی قابلیت‘ بصیرت‘ خدمات اور تقویٰ کی بنیاد پر نامزد کرتا تھا۔ اس کے بعد شوریٰ کو منتخب کرنے کا ضابطہ بنایا گیا۔ شوریٰ منتخب کرنے کے لیے بھی دو نوعیت کے حلقے بنائے گئے۔ ایک کل پاکستان سطح پر انتخاب رکھا گیا‘ جس میں پانچ افراد کا انتخاب تھا اور باقی تمام ارکان شوریٰ کو علاقائی حلقوں کی بنیاد پر منتخب کرنے کا ضابطہ مقرر کیا گیا تھا۔ پھر ۱۹۵۷ء کے دستورِ جماعت میں کل پاکستان بنیاد پر انتخاب کی الگ سے شق ختم کر دی گئی اور تمام علاقوں سے منتخب ارکان کی شوریٰ مقرر کی گئی۔ پھر۱۹۵۲ء کے دستور میں شوریٰ کے بارے میں یہ شق تھی کہ امیر اور شوریٰ اتفاق راے سے کام کریں گے۔ لیکن اگر شوریٰ اور امیر میں نزاع ہو تو کچھ امور میںشوریٰ‘ امیر کی رائے مان لے گی خصوصیت سے جن کا تعلق نصوص کی تعبیر سے ہو‘ اور کچھ امور میں امیر‘ شوریٰ کی رائے کو فوقیت دے گا خصوصاً انتظامی معاملات کے بارے میں۔ لیکن جب معاملات میں شوریٰ امیر کی بات ماننے کے لیے تیار نہ ہو تو پھر معاملہ ارکان میں بھیجا جائے گا اور اگر ارکان جماعت‘ شوریٰ کی رائے کو مان لیں تو پھر امیرمستعفی ہوجائے گا‘ اور اگر ارکان امیر کی رائے کو مان لیں توشوریٰ مستعفی ہوجائے گی۔ پھر ۱۹۵۷ء کے دستور جماعت میں یہ بات لائی گئی کہ امیر اور شوریٰ اتفاق راے سے کام کریں گے لیکن اگر اختلاف ہو تو امیر کو یہ حق ہوگا کہ وہ ایک سیشن کے لیے فیصلے کو موخر کر دے‘ اور اگلے سیشن میں شوریٰ جو بھی فیصلہ کرے اسے امیر مان لے۔ یہاں بھی وہی مشاورت‘ افہام و تفہیم اور شوریٰ کی بالادستی کا ارتقا ہے۔

اسی طرح مولانا کی رائے تھی کہ عورتوں کی شوریٰ الگ ہونی چاہیے اور مردوں کی الگ۔ لیکن جب عملی مشکلات اور بعض مختلف فیہ امور پر افہام و تفہیم کے پہلو پر مولانا سے تبادلۂ خیال ہوا تو انھوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ عورتیں بھی شوریٰ کی ممبر بن سکتی ہیں۔ اسی طرح غیرمسلموں کے بارے میں مولانا کی پہلے رائے یہ تھی کہ انھیں انتظامی امور میں مشورے میں شریک ہونا چاہیے اور ان کی شوریٰ الگ بنائی جائے۔ لیکن جب مولانا سے اس سلسلے میں تفصیل سے گفتگو ہوئی تو اس میں مولانا نے غوروفکر کے لیے خاصا وقت لیا۔ بالآخر وہ خود اس نتیجے پر پہنچے کہ اگر دستور میں قرآن و سنت کی بالادستی ہو اور کوئی قانون سازی اسلام کے خلاف نہ ہو‘ اور اسمبلی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہو تو ایسی صورت میں غیرمسلم بھی پارلیمنٹ کے ممبر بن سکتے ہیں جہاں وہ سارے معاملات میں رائے دیں گے اور راے دہی میں بھی شریک ہوں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔

اُمت کو منزل مقصود پر پہنچانے کے لیے مولانا مودودیؒؒ نے وسعت اور کشادہ روی کا انقلابی‘ جمہوری اور شورائی راستہ دکھایا۔ ان کے ذہن میں یہ تھا کہ پہلے ایک ملک میں تبدیلی آنی چاہیے ‘پھر وہی ملک دوسرے ممالک میں تبدیلی لانے کے لیے ماڈل بنے گا۔ ان کی دعوت کا اولین ہدف اپنا وطن ہے‘ لیکن روے سخن پوری دنیا کی طرف ہے۔ عربی اور انگریزی میں اہم تصانیف اور تحریروں کے تراجم کا کام مولانا نے جماعت کے قیام کے ساتھ ہی شروع کروا دیا تھا۔ جماعت کی رودادوں میں ایک لمبی فہرست ملتی ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا نے اپنی بات اور اپنی آواز دنیا کے مختلف خطّوں اور علاقوں تک پہنچانے کے لیے کیا کوشش کی ہے گویا کہ پورا عالم (global reach) ابتدا ہی سے ان کے پیش نظر رہا ہے۔

  • تحریک اور تنظیم کا فرق: ۱۹۴۷ء میں تقسیمِ ہندکے نتیجے میں بھارت اور پاکستان میں جماعت اسلامی الگ الگ ہوگئی۔ مولانا کی پیش کردہ دعوت قبول کرنے والے بعض اصحاب نے سری لنکا‘ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیرمیں بھی اپنے طور پر جماعت بنالی۔ پھر مشرقی پاکستان کے تسلسل میں بنگلہ دیش میں بھی جماعت قائم ہوئی۔ جنوب مشرقی ایشیا میں ان     چھے جماعتوں کے مابین کسی درجے میں بھی کوئی تنظیمی تعلق نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مولانا نے کہیں بھی جماعت اسلامی کو قائم کرنے کی اجازت نہیں دی۔ ۱۹۶۴ء میں جب ہم جیل میں تھے تو ہمیں جیل میں معلوم ہوا کہ برطانیہ کے کچھ مخلص مگر جذباتی نوجوانوں نے جماعت اسلامی کے نام سے کام شروع کر دیا ہے۔ تب ہم نے مولانا مودودیؒ کی ہدایت پر جیل ہی سے ان کو یہ ہدایت بھیجی کہ: ’’آپ جماعت کے نام سے کام نہ کریں‘ بلکہ آپ کا جو نام وہاں پہلے سے تھا‘ اسی کے تحت کام کریں‘ اور مقامی قانون کے تحت کام کریں۔ نہ جماعت آپ کی ذمہ داری لے سکتی ہے اور نہ آپ کے لیے یہ مناسب ہے کہ آپ اس نام سے وہاں کام کریں‘‘۔ یہی اصول مولانا کا رہا ہے۔

اس طرح تحریک وتنظیم کے مابین ایک فرق بھی ہمارے سامنے آیا کہ اسلامی انقلاب کے لیے تحریکات تو ساری دنیا میں برپا ہوں‘ لیکن تنظیم ہر جگہ وہاں کے حالات کے مطابق الگ‘ آزاد اور اپنے قول و فعل کے لیے خود جواب دہ ہو۔ دنیا بھر میں اسلام کے لیے کام کرنے والی تحریکیں گویا کہ وسیع ترعالم گیر اسلامی تحریک کا حصہ ہیں‘ لیکن ان میں سے کسی کے ساتھ  جماعت اسلامی پاکستان کے نظم کا اور قانونی اور دستوری تعلق (link) نہیں ہے۔ آج بھارت‘ کشمیر‘ سری لنکا اور بنگلہ دیش میں جماعت کے نام سے کام ہو رہا ہے‘ فکر کی یکسانیت بھی ہے‘ لیکن طریق کار‘ حالات‘ ضروریات‘ دستور اور قیادت ہر مقام نے اپنے طور پر متعارف کرائے ہیں۔ یہ مولانا کی عملیت پسندی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

  • جماعتی تشخص اور اشتراکِ عمل: اسلامی انقلاب اور اسلامی تبدیلی کے لیے عملی سطح پر اور میدانِ کار میں مولانا مودودیؒ کے ہاں ایک لچک‘ خودبینی اور وسعت پائی جاتی ہے‘ جس میں دوسرے ہم مقصد افراد اور عناصر سے تعاون کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ پاکستان میں ۱۹۴۹ء میں سول لبرٹیز یونین کا قیام عمل میں آیا‘ تو اس میں کمیونسٹ پارٹی بھی شامل تھی۔ بعدازاں متحدہ حزب اختلاف (COP)‘ پاکستان تحریک جمہوریت (PDM)‘ جمہوری مجلس عمل (DAC)‘ متحدہ جمہوری محاذ (UDF) اور پھر پاکستان قومی اتحاد (PNA) کا قیام ہے۔ اس عمل میں مولانا مودودیؒ نے اپنی جماعت کے تشخص کو محفوظ رکھتے ہوئے‘ مشترک نکات پر دوسرے سیاسی‘ مذہبی اور سماجی عناصر کو ساتھ ملا کر چلنے کی مثال پیش کی ہے۔

مولانا مودودیؒ ہی کی قیادت میں جماعت اسلامی نے اسلامی دستور کی جدوجہد کا آغازکیا۔ ’قرارداد مقاصد‘ کی منظوری (مارچ ۱۹۴۹ئ) کے وقت بلاشبہہ مولانا مودودیؒ، سنٹرل جیل ملتان میں تھے‘ لیکن اگر مولانا نے اسلامی قانون کے موضوع پر پنجاب یونی ورسٹی لا کالج‘ میں تقریر نہ کی ہوتی‘ اور وہ چار نکاتی پروگرام پوری قوم کے سامنے پیش نہ کیاہوتا تو قرارداد مقاصدکبھی پاس نہ ہوتی۔ یہ مولانا کی فکر‘ وژن اور جدوجہد تھی‘ جسے قبولیتِ عام حاصل ہوئی۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مولانا شبیراحمد عثمانی مرحوم‘ مولانا ظفراحمد انصاری مرحوم اور چودھری غلام محمد مرحوم کی کوشش سے ’قرارداد مقاصد‘ کا جو مسودہ پہلی دستورساز اسمبلی نے منظور کیا‘ یہ مسودہ اسمبلی میں پاس ہونے سے قبل ملتان جیل میں مولانا مودودیؒ کو دکھایا گیا اور ان کی رضامندی کے بعد ہی وہ اسمبلی کے فلور پر پیش اور پھر منظور ہوا تھا۔

۱۹۵۱ء میں علما کے ۲۲ نکات کی منظوری کے تاریخی لمحات کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ اس وقت میں اسلامی جمعیت طلبہ میں تھا۔ اس سلسلے میں علما کی جو نشست ہو رہی تھی‘ اس میں راجہبھائی ]ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری[ ‘خرم بھائی اور میں ان بزرگوں کے خادم کی حیثیت سے شریک تھے۔ جب پہلا اجلاس ہوا تو اس میں دھواں دھار تقریریں ہوئیں۔ مگر کسی کے سامنے یہ بات واضح نہیں تھی کہ ہم نتیجے پر کیسے پہنچ پائیں گے۔ ان دھواں دھار تقاریر کے آخر میں مولانا ظفراحمد انصاری صاحب نے تجویز دیتے ہوئے کہا کہ: ’’ اس طرح کی تقریروں میں تو ہم کئی دن صرف کر دیں گے اور کچھ نتیجہ نہیںنکل سکے گا۔ ہم ایسا کرتے ہیں کہ اس اجلاس کو موخر کردیتے ہیں۔ اجلاس کے شرکا میں سے ہر شخص تحریر کر دے کہ اسلامی ریاست کے بنیادی اصول کیا ہونے چاہییں۔ اس کے بعد ایک کمیٹی بنا دی جائے جس کے سربراہ مولانا سید سلیمان ندوی ؒہوں‘ ان کے سیکرٹری کی حیثیت سے میں ان تجاویز کی روشنی میں ایک مسودہ تیار کرلیتا ہوں‘ اور پھر اس مسودے پر بحث کرکے کسی متفقہ لائحہ عمل کو منظور کرلیں گے‘‘۔ سب نے اس تجویز کو بڑا پسند کیا۔

ہر ایک عالم دین کو سادہ کاغذدے دیے گئے‘ بیش ترنے لکھا۔ سب سے طویل مضمون مولانا راغب احسن مرحوم نے لکھا‘ لیکن وہ مضمون لفاظی اور جذبات سے بھرا ہوا تھا۔ ان سب کے برعکس مولانا مودودیؒ نے پنسل سے فل اسکیپ کا ڈیڑھ صفحہ لکھا‘ جس میں انھوں نے منطقی ربط کے ساتھ‘ بڑے اختصار اور جامعیت سے بھرپور نکات بنا کر دیے کہ یہ اور یہ چیزیں ہونی چاہییں۔ چنانچہ علما کے ۲۲نکات کی بنیاد وہی مسودہ بنا‘ تاہم آخری مسودہ مولانا ظفراحمد انصاریؒ نے اپنے قلم سے لکھا۔ مولانا انصاری مرحوم کا مسودہ کم و بیش مولانا مودودیؒ کی تحریرہی پر مبنی تھا۔ اس دوران مولانا سلیمان ندویؒ استراحت فرما رہے تھے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے‘ انھوں نے دوتین جگہ جزوی ترمیم و اضافہ کیا۔ پھر اجتماع بلایا گیا۔ اس اجتماع میں سب سے پہلے اس کو پورا پڑھا گیا‘ پھر ایک ایک نکتے کی خواندگی ہوئی اور بالکل جس طرح حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام قبائل کے سربراہوں کو حجراسود اٹھا کر دیوارِ کعبہ میں نصب کرنے میں شریک کر لیا تھا‘ اس طرح اس شرکت سے الحمدللہ یہ نکات متفقہ طور پر منظور ہوئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خاتم الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی مولانا مودودیؒ اور مولانا انصاریؒکا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔

جب علما کی دستوری ترامیم اور سفارشات آئیں تو اس میں متفقہ طورپر جو چیزیں مرتب ہوئیں ان میں بھی مولانا مودودیؒ کا سب سے زیادہ تعمیری اور تحریری حصہ تھا‘ تاہم اس میں دو‘تین اختلافی نوٹ بھی تھے اور وہ بہت معمولی نوعیت کے تھے۔ پھر جب ۱۹۶۱ء میں فیلڈمارشل صدر ایوب خاں کے زمانے میں متنازع فیہ عائلی قوانین کا آرڈی ننس (MFLO) آیا تو مولانا مودودیؒؒ ہی نے اس پر تنقید لکھی اور اس تنقید پر علما نے دستخط کیے‘ اور سب کی طرف سے وہ تنقید قوم کے سامنے آئی۔ اسی طرح ایوب خان کے دستوری کمیشن کے سوال نامے کا جواب بھی مولانا مودودیؒ نے لکھا‘ اور پھر تمام علما اور سیاست دانوں نے اس کو دیکھا اور اس کو اپنا لیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو غیرمعمولی صلاحیت دی تھی۔ یہ ہماری تاریخ کے مختلف سنگ میل ہیں اور ان میں سے ہرسنگ میل پر مولانا مودودیؒ کا نام اور کام ثبت ہے۔

  • جمہوریت پسندی:خاص طور پر دینی حلقوں میں بھی اور پھر سیاسی حلقوں میں بھی ایک روایت بن چکی ہے کہ دینی حلقوں میں گدی اور سیاست میں بھی قیادت موروثی چلتی ہے۔ اور تو اور خود اب امریکہ میں بھی بڑے بش کے بعد چھوٹا بش برسرِاقتدار ہے۔ اس فضا اور رواج میں مولانا نے قیادت میں تبدیلی کی مثال قائم کی۔ انھوں نے جماعت اسلامی کے قیام کے فوراً بعد فرمایا: ’’مجھے ایک لمحے کے لیے اپنے بارے میں یہ غلط فہمی نہیں ہوئی کہ میں اس عظیم الشان تحریک کی قیادت کا اہل ہوں‘ بلکہ میں تو اس کو ایک بدقسمتی سمجھتا ہوں کہ اس وقت‘ اس کارِعظیم کے لیے آپ کو مجھ سے بہتر کوئی آدمی نہ ملا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اپنے فرائض امارت کی انجام دہی کے ساتھ میں برابر تلاش میں رہوں گا کہ کوئی اہل تر آدمی اس کا بار اٹھانے کے لیے مل جائے… نیز ہمیشہ ہر اجتماع عام کے موقع پر جماعت سے بھی درخواست کرتا رہوں گا کہ اگر اب اس نے کوئی مجھ سے بہتر آدمی پا لیا ہے تو وہ اسے اپنا امیر منتخب کرلے۔ ان شاء اللہ‘ اپنی ذات کو کبھی خدا کے راستے میں سدِّراہ نہ بننے دوں گا‘‘۔ (روداد جماعتِ اسلامی ‘اول‘ ص۳۳)

اس کے بعد دستور میں درج مستقل نظام کے تحت متعین وقت پر انتخاب امیر کے لیے انتخابات منعقد کرائے۔ پھر جب ۱۹۷۲ء میں انھوں نے محسوس کیا کہ اب صحت اس ذمے داری کو مزید اٹھانے کی اجازت نہیں دیتی توانھوں نے رفقا ے جماعت سے کہا: اب آپ میری زندگی میں اپنا نیا لیڈر منتخب کرلیں۔ ان کے الفاظ تھے: ’’میں چاہتا ہوں کہ میری زندگی میں جماعت نئے امیر پر مجتمع ہوجائے‘‘۔ یہ ایک ایسی منفرد مثال ہے کہ جس کے اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے گہری بصیرت کی ضرورت ہے۔ وہ شخص جو اپنی ذاتی جاگیر قائم کرنا چاہتا ہو‘ گدی قائم کرنا چاہتا ہو‘ یا سیاست میں اس کا کوئی ذاتی مشن ہو‘ وہ کبھی ایسا جرأت مندانہ اقدام نہیں کر سکتا۔ سچی بات ہے کہ جماعت کے لیے زندگی‘ تطہیر‘ قیادت‘ شورائیت اور صحیح راستے پر قائم رہنے کے لیے اس مثال میں بڑی عظیم رہنمائی موجود ہے جسے سید مودودیؒکی تاریخ ساز اور عہدآفریں شخصیت نے پیش کیا۔

  • شورائیت اور اجتماعی اجتہاد: مولانا کی حکمت کار میں ایک بڑی اہم چیز رچی ہوئی ہے اور وہ ہے مشورے‘ اجتماعیت‘ اختلاف راے اور بحث و مباحثے کی آزادی۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا نے خود اجتہاد کے بارے میں بھی کئی بار کہا ہے کہ اس کے لیے شوریٰ کا نظام اور اجتماعی اجتہاد کی سبیل پیدا ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ آج کے دور میں کسی ایک فرد کے لیے بڑا مشکل ہے کہ وہ ان تمام علوم پر جامع انداز سے گرفت رکھتا ہو‘ جو روز مرہ اور عصرِحاضر میں   پیش آمدہ امور پر فقہی چیلنجوں کا جواب دینے کے لیے ضروری ہیں۔ اگر ایک فرد سے یہ نہیں ہوسکتا توپھر اس بات کی ضرورت ہے کہ مختلف صلاحیتیں رکھنے والے افراد مل کرباہم مشاورت اور افہام و تفہیم (interaction) سے معاملات کو طے کریں۔

علامہ اقبالؒ نے اس مسئلے پر بحث کی ہے اور مولانا مودودیؒ بھی اس میں بہت گہرائی تک گئے ہیں۔ مولانا مودودیؒ نے عصری تجربات‘ خصوصیت سے پارلیمنٹ کے وجود‘ انتخابی عمل‘ دستوری انداز‘ قانون سازی کے اسلوب‘ عدلیہ کی آزادی اور افراد کی آزادی اور حقوق--- غرض ان تمام چیزوں کو بڑے واضح انداز میں پیش کیا ہے۔ پھر اسلامی راسخ العقیدگی اور قرآن و سنت سے وابستگی قائم رکھتے ہوئے  نہ صرف دوسروں کو ان پر کاربند ہونے کا نہ صرف راستہ دکھایا‘ بلکہ خود بھی انھیں قبول کر کے دکھایا ہے۔ مولانا مودودیؒ کی فکر کا یہ حرکی اور لچک دار رویہ‘ عصرحاضرکے مسائل و معاملات میں ہوا کا تازہ جھونکا اور فکرودانش کے گلستان کا بہار آفریں منظر پیش کرتا ہے۔

مولانا مودودیؒ کا ایک اور بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے ہمیں ایک منفرد علم الکلام   دیا ہے۔ اسی ذیل میں مولانا مودودیؒ نے مسلم تاریخ کا محاکمہ (critique) لکھا ہے جو   محض محاکمہ نہیں ہے‘ بلکہ تاریخ کو دیکھنے کا ایک منفرد اسلوب اور زاویہ ہے۔ مولانا مودودیؒ تجدید و احیاے دین‘ خلافت و ملوکیت‘ سلاجقہ اور تحریک آزادی ہند اور مسلمان کے علاوہ تفہیم القرآن کے اوراق میں ہمیں رہنمائی دیتے ہیں کہ ہمیں تاریخ کو کیسے دیکھنا چاہیے اور ہم اس کی تعبیر کیسے کریں؟ ہم محبت یا نفرت کے جذبے سے مغلوب ہونے کے بجاے اپنے اندر عدل کی حس کو بیدار کریں۔ تاریخ کے اوراق اور ادوار میں تعمیروتخریب‘ اطاعت و انحراف‘ ظلم اور عدل‘ سنت اور بدعت کی موجودگی ہمیں نظرآئے‘ تاکہ ہر موقع پر کھلے ذہن کے ساتھ  قوسِ قزح کے سب رنگ دیکھے جا سکیں۔ جہاں کہیں بنیادی اصول میں کوئی ایسا انحراف نظرآئے جو محل نظر ہو‘ یا قرآن و سنت کے مزاج سے مناسبت نہ رکھتا ہو‘ تو پھر اس پر تنقید بھی ہوسکے اور اس کی تصحیح بھی۔ اس کو مولانا مودودیؒ کے علم الکلام کا ایک حصہ تصور کیا جائے‘ یااپنی جگہ ایک مستقل علمی کارنامہ‘ بہرحال یہ بھی مولانا کی ایک بڑی شان دار اور ناقابلِ فراموش خدمت ہے۔

اسلامی انقلاب کا ایک منفرد ماڈل

یہ امر واقعہ ہے کہ مولانا مودودیؒ نے فکر بھی دی اور فکر کے ساتھ سوچنے کا اسلوبِ بھی دیا۔انھوں نے اُمت مسلمہ کی ذمہ داری اور اس کا مشن متعین کیا‘ اس کے لیے اسے بیدار کیا اور آگاہ کیا کہ ہم محض معاشی ترقی حاصل کرنے والی ایک قوم نہیں ہیں‘ بلکہ ہم ایک صاحبِ مشن اور صاحب شریعت قوم ہیں۔ اس صاحبِ مشن قوم کو ملکی اور پھر عالم گیر سطح پر کامیاب کرانے کے لیے حکمت کاراور حکمتِ عملی کو پیش کیا۔ اسی حکمت کار کا ایک حصہ جماعت اسلامی کا قیام ہے جس میں فکر ہے‘ اور عمل کا وسیع دائرہ ہے۔ اس طرح مولانا مودودیؒ نے اسلامی انقلاب کا بالکل نیا ماڈل دیا‘ اور نہ صرف ماڈل دیا‘ بلکہ اس کے اوپر عمل کرکے بھی دکھایا۔

مولانا کے علمی کام میں سب سے بڑا کارنامہ تفہیم القرآن ہے۔ تجدید و احیاے دین کے تصور میں قرآن کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ بات خود مولانا نے مجھ سے فرمائی ہے: ’’جب جماعت قائم ہوئی تو اس کے بعد میں نے ضروری سمجھا کہ اس جماعت کا تعلق قرآن سے قائم کروں اور جو کچھ میں نے قرآن سے سمجھا ہے‘ اسے اس طریقے سے بیان کروں کہ جماعت اور پوری قوم قرآن کی روشنی کے دائرے میں آجائے‘ اور وہ قرآن سے تعلق قائم کرکے اس میں شریک ہو سکے‘ تاکہ جو تبدیلی میرے پیشِ نظر ہے اور جس کا ماخذ‘ جڑ اور بنیاد قرآن ہے اس تک رسائی حاصل کی جاسکے‘‘۔ یہ وہی کام ہے جو شاہ ولی اللہ مرحوم نے اپنے دور میں کیا۔ اس طرح مولانا کی احیائی فکر کے اندر تفہیم ایک پیمانے کی حیثیت رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تفہیم کی شکل میں جتنی بڑی نعمت اللہ تعالیٰ نے مولانا مودودیؒ کے ذریعے اس دور میں اس اُمت کو دی ہے‘ اس پر اپنے خالق و مالک کا جتنا شکر ادا کیا جائے وہ کم ہے۔ تفہیم القرآنمولانا کے فکری کام کا سب سے مرکزی اور سدابہار کارنامہ (ever-lasting) ہے۔ یہ مولانا کے علم الکلام کا بھی بہترین مرقع ہے۔ اس میں مولانا کی چند اوّلیات بھی ہیں جن میں ترجمے کی جگہ ترجمانی‘ ہر سورہ کا مقدمہ اور پھر ترجمے میں پیراگراف بندی قابلِ ذکر ہیں۔۱؎

مولانا کے فکری اور علمی اثاثے میں ایک اور چیز ان کے ہاں پائی جانے والی تازگی اور تخلیقیت (originality) ہے۔ انھوں نے اپنے دور کے اور ماضی کے لکھنے والوں سے بھی استفادہ کیا‘ لیکن وہ دوسروں کے خیالات کے اسیر نہیں بنے‘ بلکہ جس طرح ایک صحت مند انسانی جسم‘ غذا کو ہضم کر کے نیا خون بناتا ہے‘اسی طرح اپنے دور اور ماقبل کے افکار سے استفادہ کر کے انھوں نے قرآن و سنت کے فہم کی روشنی میں خود تشکیلِ نو کا کام انجام دیا ہے۔

اس سلسلے میں ان کا ایک اور منفرد کارنامہ اسلام اور جاہلیت کے مابین فرق کو واضح کرنا ہے جس کے آئینے میں وہ انسانیت کی پوری تاریخ میں برپا معرکے کو پرکھتے ہیں۔ دورحاضر میں جن مفکرین نے بھی ’جاہلیت‘ کے تصور پر کلام کیا ہے‘ انھوں نے یہ کام مولانا مودودیؒ ہی کی جلائی ہوئی شمع کی روشنی میں کیا ہے۔ مولانا کی فکر میں جاہلیت ‘علم کے معدوم ہونے کا نام نہیں بلکہ اللہ کی ہدایت کے بغیر انسانی زندگی--- فکروعمل کو منظم و مرتب کرنے کے مثالیہ(paradigm) سے عبارت ہے۔ اسلامی فکر کی تفہیم اور حق و باطل کی تاریخی کش مکش کو سمجھنے کے لیے مولانا کا یہ تصور ایک شاہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے۔

قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ان کی ایک نہایت بنیادی کتاب ہے جس میں انھوں نے قرآن کی بنیادی اصطلاحات الٰہ‘ رب‘ عبادت اور دین کا صحیح مفہوم اخذ اور متعین کرکے ایک قسم کی شاہ کلید فراہم کردی ہے‘ جس سے پوری اسلامی فکر کی تاریخ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کتاب کی روشنی میں ہمیں قرآن فہمی کے لیے ایک روشن اور کشادہ راستہ مل جاتا ہے۔

مولانا مودودیؒ نے مغربی تہذیب کے بارے میں بھی بڑا متوازن رویہ اختیار کیا۔ بحیثیت مجموعی مسلم دنیا میں اگر ایک طرف مغرب کے مکمل استرداد (rejection) کا رویہ پایا جاتا تھا تو دوسری جانب عملاً آنکھیں بند کر کے سپرڈالنے اور معذرت خواہانہ انداز میں دین کی توجیہہ کرنے والے تھے۔ مولانا مودودیؒ نے مغربی تہذیب‘ اس کے اصولوں‘ اس کی بنیادوں‘ اس کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ کیا اور تقلید یورپ اور اندھی غلامانہ ذہنیت کو مسترد کر دیا‘ مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ مغرب میں ہر چیز غلط نہیں اور اس کی ترقی کے کچھ حقیقی (genuine) اسباب ہیں۔ ان اسباب سے صرفِ نظر کر کے محض اندھی مخالفت کوئی صحت مند رویہ نہیں ہے۔ ساتھ ہی واضح کیا کہ مغرب سے مرعوبیت‘ اس کی فکری بنیادوں کو بلاتنقید قبول کر لینا اور ’’چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی کا رویہ نہ عادلانہ ہے اور نہ عاقلانہ۔ مولانا مودودیؒ نے درمیان کا راستہ نکالا۔ دیگر علما اور مولانا مودودیؒ میں یہی بنیادی فرق ہے۔

مولانا کے ہاں جو بالغ نظری‘ مغربی تہذیب کا فہم اور حقیقت پسندانہ طریق کار ہے‘ اسی وجہ سے عصرِحاضر میں تحریک اسلامی نے مسائل کو حل کرنے کے لیے متوازن رویہ اختیار کیا ہے۔ مولانا مودودیؒ نے یہ رویہ صرف مغربی تہذیب کے بارے میں اختیار نہیں کیا‘ بلکہ مسلمانوں کی فکریات کے بارے میں بھی ان کا رویہ یہی رہا ہے۔ بحیثیت مجموعی انھوں نے حنفی مکتب فکر کو ترجیح دی اور قبول کیا ہے۔ عبادات میں اسی طریقے پر عمل کیا ہے۔ معاملات کی حد تک ان کا ذہن یہی تھا کہ چاروں مکاتب فکر کا مطالعہ کرنا چاہیے اور خصوصیت کے ساتھ جدید معاملات اور مسائل کا حل نکالنے کے لیے ان کے دائرے کے اندر جو رہنمائی جہاں سے بھی میسر آئے‘ اس سے استفادہ کرنا چاہیے۔ انھوں نے ان مسلمہ مکاتب فکر میں سے کسی کو مسترد یا باطل قرار نہیں دیا‘ بلکہ اِن کے ہاں اس علمی اور عملی اختلاف راے کو محترم تصور کرنے کا رویہ نمایاں طور پر موجود ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے شیعہ مکتب فکر سے بھی تہذیبی حد تک ربط رکھا اور اُمت کی وحدت کے لیے کوشاں رہے۔

اسی تسلسل میں اتحاد اُمت مسلمہ کے لیے ان کے ہاں ایک خاص انداز فکر پایا جاتا ہے‘ جس میں وہ کہتے ہیں کہ اس اتحاد کی بنیاد بہرحال اسلام ہی کو ہونا چاہیے۔ مسلمان ملکوں کے مفادات کی بنیاد پر اگر آپ یہ کوشش کریں گے توکامیابی محال ہے۔ مفادات کا ایک جائز مقام ہے‘ لیکن مفادات‘ اسلامی مفاد اور تشخص کے تابع ہونے چاہییں۔ اس اتحادکی کوئی ایک لگی بندھی شکل نہیں ہے۔ جیساکہ اقبالؒ نے بھی کہا ہے کہ ابتدائی مرحلے میں یہ ایک قسم کی مسلم دولت مشترکہ ہوسکتی ہے جس میں آہستہ آہستہ تعاون بڑھتا رہے اور بالآخر کوئی زیادہ مضبوط ومستحکم چیز بن سکے۔ اس سلسلے میں سعودی فرماں روا شاہ فیصل مرحوم کی ’تضامن اسلامی‘ کی تحریک اور پہلے مسلم سربراہی اجتماع ]رباط‘مراکش -۱۹۶۹ئ[ کے موقع پر اُمت مسلمہ کے اتحاد کے لیے جو  نقشۂ کار انھوں نے پیش کیا‘ وہ ایک تاریخی دستاویزہے‘ جس میں نظریاتی اتحاد اور عملی مسائل کے اجتماعی حل کے لیے موثر تدابیر اور انتظامات کی نشان دہی کی گئی۔

اس حوالے سے یہ وضاحت ضروری ہے کہ مولانا مودودیؒ نے صرف مسلمانوں کے مفاد کے لیے ہی کام نہیں کیا ہے‘ بلکہ عملی اور فکری سطح پر اُن کی نگاہ‘ بلاتخصیصِ رنگ و نسل اور بلاتفریق مشرق و مغرب‘ تمام انسانوںپر رہی ہے۔ وہ تمام انسانوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے‘ تمام انسانوں کو جہنم کی آگ سے بچانے اور دنیا بھر کو فتنہ و فساد سے محفوظ رکھنے اور نظامِ عدل      قائم کرنے کی جہانی دعوت دیتے رہے ہیں۔ تہذیبی‘ فکری اور ثقافتی سطح پر مولانا مودودیؒ کے مثالی اسلوبِ کار کا تجزیہ کریں تو اسے عالم گیریت یا آفاقیت پر مبنی اسلوبِ کار کا نام دیا جاسکتا ہے جس کا مقصد بنی نوع انسان کی فوزوفلاح‘ بہبود اور ان کی نجات ہے۔ اسی طرح اللہ سے انسانوں کے رشتے کو جوڑنا اور انسانوں کے درمیان انصاف اور اخوت کی بنیاد پر معاشرتی‘ معاشی اور بین الاقوامی معاملات کوحل کرنا ہے۔ جو افراد مولانا مودودیؒ کے افکار کے صرف کسی ایک جزو کو لیتے ہیں‘ تو ان کے ہاں الجھنیں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن اگر مولانا کی پوری فکر کو لیا جائے تواس کی حیثیت ایک ایسے گلدستے کی سی ہے جس کے سارے پھول اپنے اپنے مقام پر ہیں‘ اور اس گلدستے کی تصویر اُبھرتی ہی اس کے مجموعی (macro) وجود سے ہے۔

مولانا مودودیؒؒ بہرحال ایک انسان تھے اور ماسوا انبیاے کرام‘ کوئی انسان غلطی سے مبرا نہیں ہے۔ مولانا مودودیؒؒ نے کبھی دعویٰ نہیں کیا اور نہ اس زعم میں رہے کہ ان کی راے ہی صحیح ہے۔ اس کے برعکس ہمیشہ انھوں نے مکالمے اور بحث کو پسند کیا‘ اختلاف کو دبایا نہیں۔ اس بات کا نہ صرف اظہار کیا‘ بلکہ اس پر عمل کرکے دکھایا۔ کسی موقع پر اگر ان کی کسی غلطی یا دلیل کی کوئی کمزوری سامنے لائی گئی تو انھوں نے کھلے دل کے ساتھ اس سے رجوع کرلیا۔ ان کی کتاب رسائل و مسائلکا مطالعہ کریں تو اس میں ایک نہیں‘ دسیوں مقامات ہیں جہاں مولانا نے اپنی رائے سے رجوع کیا ہے۔ کسی صاحبِ علم کے متوجہ کرنے پر انھوں نے مسئلے یا معاملے کو چھپایا نہیں‘اس کی تصحیح کی ہے اور اس تبدیلی کو خود ریکارڈ کیا ہے۔

مولانا مودودیؒ اپنے فکری ارتقا میں‘ دورِصحافت سے دورِ تصنیف کی طرف اور پھر    دورِ اصلاح و جدوجہد کی طرف بڑھے۔ ان میں سے ہر دور کے مسائل اور حالات الگ الگ تھے‘ جن کی مناسبت سے انھوں نے غورو فکر جاری رکھا اور اصل سے رشتے کو مضبوط رکھتے ہوئے قرآن و سنت کے نصوص پر سمجھوتا یا انحراف کیے بغیر‘ مشکلات کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ ان کی اجتہادی بصیرت‘ علمی دیانت اور مسائل و معاملات کے صحیح شعور و ادراک کا ثبوت ہے۔ مولانا کے افکار و خدمات اپنی انفرادیت‘ وسعت اور گہرائی کی بنا پر‘ برسوں نہیں‘ صدیوں تحقیق کے محتاج ہیں اور آنے والی نسلیں اس سے روشنی حاصل کریں گی---!

اللہ تعالیٰ مولانا مودودیؒ کی خدمات کو شرفِ قبولیت اور فیضانِ عام بخشے اور ہمیں     ان کے مشن کو صحیح خطوط پر آگے بڑھانے کی توفیق دے۔ آمین!

موت‘ توسب ہی کا مقدر ہے لیکن مرنے کے بعد بھی زندہ وہ رہتے ہیں جو اعلیٰ مقاصد کے حصول اور خیروفلاح کے فروغ کے لیے شب و روز صعوبتیں جھیلتے‘دشمنوں کے وار سہتے اور مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں تاکہ دنیا سے تاریکیاں چھٹیں‘ ماحول روشن ہو اور انسانوں کی زندگی اللہ کی بندگی اور اللہ کے بندوں کی خدمت اور ان کے لیے دنیوی اور اخروی فلاح کے حصول کی جدوجہد کی تابناکی سے معمور ہوسکے۔ یہ نفوس قدسیہ زمین کے نمک‘ اور پہاڑی کے چراغ کی حیثیت رکھتے ہیں اور دنیا سے رخصت ہوجانے کے باوجود ان کے کارنامے مشعل راہ اور ان کی زندگی روشنی کا مینار بن جاتی ہے۔ وہ چلے جاتے ہیں لیکن ان کے نقوشِ راہ آنے والوں کے لیے سنگ میل ہوتے ہیں‘ اور اس طرح وہ مرکر بھی شہیدوں کی طرح زندہ ہی رہتے ہیں۔ قاہرہ کے ایک گوشے میں جمعۃ المبارک ۹ جنوری ۲۰۰۴ء کو ایسے ہی ایک ۸۳سالہ مرد مجاہد نے عارضی زندگی سے ابدی زندگی کی طرح سفر کیا اور اس شان سے کیا کہ اپنے اور غیر‘ سب پکار اٹھے کہ اس نے اپنے رب سے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔۱؎ یہ مرد مجاہد عالمِ عرب کی سب سے اہم اسلامی تحریک اخوان المسلمون کا چھٹا مرشدعام محمد مامون الہضیبی تھا--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!

بیسویں صدی میں اُمت مسلمہ پر اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سب سے نمایاں انعام  عالمِ عرب میں حسن البنا شہیدؒ اور ان کی قیادت میں قائم ہونے والی اسلامی تحریک        اخوان المسلمون‘ اور برعظیم پاک و ہند میں برپا ہونے والی تحریک جماعت اسلامی اور اس کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہیں۔ ان تحریکوں نے لاکھوں انسانوں کی زندگیوں کو ایمان کے نور سے منور کیا اور ان کو غلبۂ حق کی جاں گسل جدوجہد میں زندگی کا لطف پانے کا سلیقہ سکھا دیا۔

محمدمامون الہضیبیؒ نے ایک ایسے گوشے میں آنکھ کھولی جو علم و عرفان اور زہد و تقویٰ کا گہوارا تھا۔ ان کے والد حسن الہضیبیؒ ایک نامور قانون دان اور اخوان المسلمون کے دوسرے مرشدعام ]۷۳-۱۹۵۱ئ[ تھے‘ جن کو حسن البنا شہیدؒکی جا نشینی کا شرف حاصل ہوا اور جنھوں نے تحریک کے مشکل ترین دور میں اس کی قیادت کی ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیا۔ اس خاندان کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ حسن الہضیبیؒ کی گود میں پلنے والا مامون‘ اخوان المسلمون کا چھٹا مرشدعام منتخب ہوا‘ گو اسے یہ خدمت انجام دینے کے لیے مہلت صرف ۱۴ مہینے کی مل سکی۔

محمد مامون الہضیبیؒ ۲۸ مئی ۱۹۲۱ء کو قاہرہ میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۱ء میں کلیۃ الحقوق سے گریجویشن کرنے کے بعد پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں امتیازی کامیابی حاصل کر کے مصر کی عدالت استغاثہ (appellate court)میں بحیثیت جج تقرر حاصل کیا۔ وہ یہ خدمت ۱۹۶۵ء تک انجام دیتے رہے۔ ۱۹۶۵ء میں اخوان المسلمون کے باقاعدہ رکن نہ ہوتے ہوئے بھی ان کو پوری بے دردی سے جیل میں پھینک دیا گیا اور وہ چھے سال قیدوبند اور ظلم وتشدد کی مشقت خندہ پیشانی سے برداشت کرتے رہے‘ اور اس دور میں تزکیہ نفس‘ روحانی ارتقا اور تحریکی شعور کی دولت سے مالا مال ہوتے رہے۔ ۱۹۷۱ء میں رِہا ہوئے اور جلد ہی باقاعدہ رکنیت اختیار کرکے تحریک میں سرگرم ہوگئے۔ الاستاذ عمرتلمسانیؒ (تیسرے مرشدعام: ۸۶-۱۹۷۳ئ) الاستاذ حامدابونصرؒ (چوتھے مرشدعام: ۹۶-۱۹۸۶ئ) اور مجاہد کبیرمصطفی مشہورؒ (پانچویں مرشدعام: ۱۹۸۶ئ-۲۰۰۲ئ) کے زمانے میں اخوان کے ترجمان (spokesman) اور پھر نائب مرشدعام کی ذمہ داریاں ادا کیں اور نومبر ۲۰۰۲ء میں مصطفی مشہور کی وفات کے بعد چھٹے مرشدعام منتخب ہوئے۔    مامون الہضیبیؒ کو ۱۹۷۱ء میں رہائی کے بعد ان کے عہدہ قضا پر بحال نہیں کیا گیا۔ تقریباً ۱۰سال انھوں نے سعودی عرب میں بحیثیت قانونی مشیر صرف کیے اور ۱۹۸۷ء میں مصر کی پارلیمنٹ میں سرکاری مخالفت کے باوجود آزاد امیدوار مگر عملاً اخوان کے نمایندے کے طور پر منتخب ہوکر قائد حزب اختلاف کا کردار ادا کیا۔ ۲۰۰۰ء کے انتخابات میں پھر منتخب ہوئے اور وفات کے وقت تک حزبِ اختلاف کے قائد تھے۔

مجھے محترم مامون الہضیبیؒ سے پہلی بار ملنے کا موقع ۱۹۷۴ء میں اس وقت حاصل ہوا جب ایک اہم تحریکی سلسلے میں برادرم خلیل احمد حامدیؒ کے ہمراہ پہلی بار قاہرہ گیا۔ شیخ عمر تلمسانیؒ (مرشدعام) سے بھی اس موقع پر ملاقات ہوئی۔ اس وقت مامون الہضیبیؒ صرف ایک پختہ کار قانون دان کی حیثیت سے جانے جاتے تھے اور تحریک میں کوئی نمایاں مقام نہیں رکھتے تھے۔ اس کے برعکس سیف الاسلام (حسن البنا شہیدؒ کے صاحبزادے) اپنی نوجوانی کے باوجود اس وقت بھی توجہ کامرکز تھے۔ پھر ۱۹۸۵ء میں اور اس کے بعد دسیوں بار قاہرہ‘ استنبول‘ انگلستان اور    نہ معلوم کہاں کہاں ان سے ملنے اور گھنٹوں مشاورت میں شریک ہونے کا موقع ملا۔

مامون الہضیبیؒ بڑے دھیمے مگر موثرانداز میں اپنی بات پیش کرتے تھے۔ انگریزی میں بھی اپنا مافی الضمیرخوش اسلوبی سے ادا کر لیتے تھے۔ دینی امور پر مجھے اُن سے زیادہ گفتگو کا موقع نہیں ملا لیکن سیاسی اور تحریکی معاملات پر میں نے ان کی فکر کو بہت واضح‘ پختہ اور سلجھا ہوا پایا۔ وہ جمہوری ذرائع سے تبدیلی کے سختی سے حامی تھے اور سیاسی نظام اور عمل (process)کو تحریک اسلامی کے ایک اہم موثر میدانِ کار کے طور پر استعمال کرنے کو ضروری سمجھتے تھے۔ ان کی تقریر میں منطقی ربط اور ٹھوس مواد ہوتا تھا اور وہ دلیل سے قائل کرنے اور دلیل سے قائل ہونے کی روایت کو مستحکم کرنے پر ہمیشہ کاربند رہے۔ مجھے ان کے ساتھ مصرکی پیشہ ورانہ تنظیموں کے اجتماعات میں بھی شرکت کا موقع ملا اور نوجوانوں کے تربیتی کیمپوں (مخیّم) میں بھی۔ میں نے ہرموقع پر ان کو صاحب الرائے اور توازن و اعتدال پر قائم پایا۔ وہ شوریٰ کے آدمی تھے اور ان کے ساتھ بحث و گفتگو ہمیشہ فکرکشا ہوتی تھی۔

اخوان کا ابتدائی دور برطانوی استعمار سے کش مکش کا دور ہے اور اس میں دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ کش مکش اور جہاد (خصوصیت سے فلسطین کے محاذ پر) کا بھی بڑا نمایاں دخل ہے۔ حسن الہضیبیؒ کا دور ابتلا اور آزمایش کا دور ہے‘ جو کسی نہ کسی صورت میں اب تک چل رہا ہے۔ لیکن شیخ عمرتلمسانی ؒکے دور سے سیاسی نظام کے اندر دستوری اور جمہوری ذرائع سے تبدیلی کا منہج آہستہ آہستہ نمایاں ہوتا گیا اور تقویت پاتا رہا ہے۔ حتیٰ کہ مصطفی مشہورؒ کے دور میں وہ تبدیلی کا ماڈل بن گیا۔ اس منہج کو فکری اور عملی دونوں محاذوں پر تقویت اور رواج دینے میں محمدمامون الہضیبیؒ کا بڑا نمایاں حصہ ہے۔ مرشدعام منتخب ہونے کے بعد مامون الہضیبیؒ ہرہفتہ اخوان    کے ہفت روزہ بلیٹن میں مضمون لکھتے تھے اور ان کی ان تحریروں کا نمایاں پہلو ان کا دین کے گہرے نہج کے ساتھ مصر اور دنیا کے حالات اور تحریک اسلامی کو درپیش مسائل اور معاملات کا حقیقت پسندانہ ادراک تھا۔

اگرچہ ان کی شخصیت کے اور بھی ایمان افروز پہلو ہیں‘ لیکن اب سے چند ماہ پہلے جب میں نے اسلامی تحریکوں سے وابستہ بزرگوں اور دوستوں کو خط لکھا کہ‘ مولانا مودودی مرحوم کی  یاد میں ترجمان القرآن کی خصوصی اشاعت کے لیے مضمون لکھیں‘ تو دنیا بھر میں جس فرد نے  سب سے پہلے‘ اور میرا خط ملنے کے آٹھویں روز مضمون عطا فرمایا‘ وہ محمد مامون ہی تھے۔ ’’اشاعت خاص‘‘ میں قارئین نے وہ مضمون ملاحظہ کیا ہوگا۔ عمر‘صحت‘ مصروفیات اور عرب مسلم دنیا پر امریکی یلغار کی اس فضا میں ایسا تجزیاتی اور محبت بھرا مضمون پڑھ کر اندازہ ہوا کہ وہ مولانا مودودیؒ سے کتنی عقیدت اور ان کے بارے میں کتنی گہرائی سے معلومات رکھتے تھے۔

اخوان کی تحریک کا ایک بڑا نمایاں پہلو قرآن سے شغف‘ باہمی محبت و الفت اور انسانی تعلقات میں گرمی اور مٹھاس کا عنصر ہے۔ مامون الہضیبیؒ کے ۳۰ سالہ دور میں جو نقش سب سے نمایاں ہے‘ وہ ان کا ذاتی تعلق اور اپنائیت کا رویہ ہے‘ جو دل کو موہ لینے کا باعث ہوتا تھا۔ وہ اپنے رب کو پیارے ہوگئے لیکن ان کا مقام میرے جیسے ہزاروں نہیں لاکھوں انسانوں کے دل میں ہے اور یہی ان کی عظمت کی دلیل اور ان کے نہ ختم ہونے والے فیضان کی نشانی ہے     ؎

بعد از وفات تربتِ ما در زمیں مجو

درسینہ ہاے مردمِ عارف مزارِ ماست

جب ہمارا انتقال ہو جائے تو ہماری قبر زمین میں تلاش نہ کرو‘ ہمارا مزار اہل معرفت کے دلوں میں ہے۔

بلاشبہہ خالد اسحاق نے قانون کی دنیا میں بڑا نام پیدا کیا اور دستوری اور قانونی امور پر ان کی نگارشات‘ مقدمات اور بیانات ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہیں اور ان کی رہنمائی میں اچھے قانون دانوں اور ججوں کی ایک ٹیم بھی ہماری عدالتوں کی زینت ہے۔ لیکن میری نگاہ میں ان کی اصل شناخت اسلام سے ان کی گہری وابستگی اور اسلامی اقدار کے مطابق زندگی گزارنے کی خواہش اور کاوش ہے۔ وہ بڑے پائے کے قانون دان تھے۔ اللہ بخش بروہی اور خالد اسحاق اپنے اپنے طور پر منفرد مقام رکھتے ہیں اور برسوں یاد کیے جائیں گے۔ ان شاء اللہ پاکستان میں آیندہ بھی اچھے وکیل اور کشادہ ذہن مفکرین کی کھیپ تیار ہوتی رہے گی‘ لیکن جو چیز خالد اسحاق کو سب سے ممتاز کرتی ہے‘ وہ ان کی شخصیت کی ہمہ گیری اور فکر کے عمق اور وسعتوں کے ساتھ اسلام سے گہری وابستگی‘ اس کے پیغام کا فہم اور انسانی فکر میں اسلام کی مرکزیت کا شعور ہے۔ انھوں نے ساری زندگی اس مشن کے لیے خلوص‘ دیانت اور محنت سے جدوجہد کی ایک تابناک مثال قائم کی۔

خالد اسحاق اسلامی روایت کے جلو میں پاکستان کی دو علاقائی روایات کا سنگم تھے۔ ان کا خاندان پنجاب سے سندھ آیا تھا۔ ان کے والد سندھ میں سول سروس کے اعلیٰ منصب پر    فائز تھے‘ ان کی ساری تعلیم سندھ میں ہوئی اور وہ اُردو‘ پنجابی اور سندھی یکساں روانی سے بولتے تھے۔ انگریزی اور عربی پر بھی قدرت حاصل تھی‘ بلکہ دل چسپ بات یہ ہے کہ گو قانون ان کا اوڑھنا بچھونا تھا مگر ان کا ایم اے عربی زبان میں تھا۔

۱۹۲۶ء میں پیدا ہونے والے اس ہونہار بچے نے ۱۹۴۸ء میں تعلیم سے فراغت حاصل کی اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔ ۱۹۵۸ء میں مغربی پاکستان کا ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور ۱۹۶۳ء میں ہمار ی تاریخ کا سب سے نوعمر ایڈووکیٹ جنرل بنا۔ اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (IRI) کے شعبہ قانون سے کئی برس وابستہ رہے اور قانون کی اسلامی تشکیلِ نو کے سلسلے میں تحقیق اور نگران  کی خدمات انجام دیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے بھی دو بار رکن بنے اور سیکڑوں قومی اور    بین الاقوامی کانفرنسوں میں شرکت کی اور نہایت خوبی اور عمدگی کے ساتھ اسلام کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کی۔ ان کا رویہ خود اعتمادی اور ان کے فکر کا منہج قرآن سے وفاداری کے ساتھ دورِ جدید کے مسائل اور افکار کی روشنی میں اسلامی فکر کی ترجمانی کا تھا۔ دینی امور کی تعبیر میں ان کی آرا سے تو میں نے بارہا اختلاف کیا‘ لیکن ان کو کبھی اسلا م کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے نہیں پایا۔ اللہ‘ اللہ کی کتاب اور اللہ کے رسولؐ سے ان کی وابستگی پختہ اور ناقابل سمجھوتہ تھی اور یہی چیز ان کی شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ہے اور ان کی امتیازی شناخت اسی سے عبارت ہے۔

مجھے خالد اسحاق سے سب سے پہلے ۱۹۶۲ء میں ملنے کا موقع ملا اور یہ بھی ہمارے مشترک دوست اور اس وقت کے (یعنی ایوبی دور کے) قومی تعمیرنو بیورو کے نائب ڈائرکٹر مجیب انصاری مرحوم کے توسط سے ہوا۔ ماہ نامہ چراغِ راہ ہمارے اس ابتدائی تعارف کا ذریعہ بنا۔ پھر یہ تعلق دوستی اور اخوت کی سمت بڑھتا رہا۔ ڈاکٹر فضل الرحمن مرحوم اور ڈاکٹر اسماعیل فاروقی اسلامک ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں آگئے اور ان کے ساتھ خالداسحاق سے روز و شب ملاقاتیں ہونے لگیں۔ ان ملاقاتوں میں گرما گرم بحثیں ہوتیں اور یوں اتفاق اور اختلاف کے ساتھ یہ تعلقات بتدریج گہرے ہوتے گئے۔

خالد اسحاق کے کردار کا سب سے متاثر کن پہلوان کی سادگی اور صاف گوئی تھی اور اختلاف کے باوجود ان کے ہاں برداشت کا وصف تھا۔ اس زمانے میں ان پر غلام احمد پرویز کے بھی اثرات تھے اور ان سے ذاتی تعلقات بھی تھے لیکن وہ پرویزکے ہم قافلہ کبھی نہ تھے۔چند موضوعات کو چھوڑ کر ان کی اسلامی فکر ‘توازن کا بہترین امتزاج تھی۔ مولانا مودودیؒ کی تصانیف اور خدمات کا انھوں نے گہرائی سے مطالعہ کیا تھا اور ان کے دل سے قائل تھے‘ اگرچہ چند امور پر ان کے اپنے تحفظات تھے۔ جب صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے جماعت اسلامی کو خلافِ قانون قرار دیا تو یہ مسئلہ مغربی پاکستان ہائی کورٹ میں پیش ہوا۔ خالداسحاق نے ایڈووکیٹ جنرل ہوتے ہوئے بھی اس کیس میں حکومت کے موقف کی تائید سے اجتناب کیا۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے جب سوال کیا کہ آپ سرکار کے وکیل کا کردار ادا کررہے ہیں یا استغاثہ کا ‘ تو انھوں نے جرأت ایمانی کا اظہار کرتے ہوئے ایڈووکیٹ جنرل کے عہدے سے استعفا دے دیا لیکن اپنے ضمیر کے خلاف مظلوم کو ظالم ثابت کرنے سے انکار کردیا۔

انگلستان کے قیام کے دوران بھی میرا ان سے گہرا ربط رہا۔ اسلامک کونسل آف یورپ کے پلیٹ فارم سے ہم نے جن دسیوں بین الاقوامی کانفرنسوں کا اہتمام کیا‘ وہ شریک ہوئے۔ انٹرنیشنل ڈیکلرنس آف اسلامک ہیومن رائٹس جس کا اعلان یونیسکو کے پلیٹ فارم سے کیا گیا تھا‘ اس کے مرتب کرنے میں انھوں نے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ اسلامی معاشیات پر ہمارے پروگراموں میں بھی شریک رہے۔ مگر مجھے یہ قلق ہے کہ آخرِ عمر میں ربا کے مسئلے پر وہ کچھ اشکالات کا شکار ہوگئے‘ ورنہ ہم نے بڑی ہم آہنگی سے اسلام کی معاشی حکمت عملی اور خصوصیت سے عدل اجتماعی کے قیام کے لیے اسلام کے کردار پر مل کر کام کیا۔

خالد اسحاق اور ان کی اہلیہ محترمہ دونوں کو بالکل شروع ہی سے میں نے نماز کے معاملے میں بڑا ہی باقاعدہ اور مضبوط پایا۔ بیرونی کانفرنسوں میں‘ حتیٰ کہ ان کانفرنسوں میں بھی‘ جن کا اہتمام مغربی ادارے کرتے تھے‘ انھوں نے کبھی نماز قضا نہیں کی اور ہر محفل میں اسے وقت پر ادا کرنے کی مثال قائم کی۔ یہ اپنے دین پر اعتماد اور اپنے طریقے کے بارے میں معذرت خواہانہ رویوں سے پاک ہونے کی دلیل ہے۔

خالد اسحاق صاحب کی زندگی کا یہ پہلو سب کے سامنے ہے کہ انھوں نے ٹیکس کے بارے میں کبھی نادہندگی یا غلط گوشوارے دینے کا رویہ اختیار نہیں کیا‘ اور شاید وہ بڑے بڑے صنعت کاروں سے بھی زیادہ ٹیکس ادا کرتے تھے۔ یہ ان کی دیانت اور قانون کی پاسداری کی روشن مثال ہے۔ اس سے بھی زیادہ جو چیز میرے لیے متاثرکن تھی‘ وہ ان کا جذبۂ انفاق ہے۔ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ بہت سے غریب خاندان ان کے تعاون سے عزت کی زندگی گزار رہے تھے اور کتنے ہی لائق مگر وسائل سے محروم نوجوانوں نے ان کی مدد سے تعلیم کی منزلیں طے کیں۔   اللہ تعالیٰ ان کی ان مساعی کو قبول فرمائے اور ان کو اجرعظیم سے نوازے۔آمین!

خالد اسحاق کی لائبریری بھی ایک افسانوی اور مثالی (legendary) حیثیت رکھتی ہے۔ میں نے اس لائبریری کو ایک کمرے سے بڑھ کر کئی کوٹھیوں اور فلیٹوں تک پھیلتے ہوئے  بچشم سر دیکھا ہے۔ کتاب خالد اسحاق کی بہترین رفیق اور اصل جذبہ یا خبط (passion)تھی۔ میرے اندازے کے مطابق ۲لاکھ سے زاید کتب ان کے کتب خانے میں تھیں اور بلاشبہہ یہ پاکستان میں سب سے بڑی نجی لائبریری تھی۔ اے کے بروہی صاحب کے پاس بھی بڑی اچھی لائبریری تھی مگر کتب کی تعداد۴۰ یا۵۰ ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ میری اپنی لائبریری میں بھی پاکستان اور لسٹرمیں ملا کر۲۵ ہزار تک کتابیں ہیں‘ لیکن خالد اسحاق اس معاملے میں ہم سب سے آگے تھے بلکہ شاید پوری مسلم دنیا میں سرفہرست تھے۔

خالد اسحاق کے گھر منعقد ہونے والی ہفتہ وار علمی نشست بھی کراچی کی ثقافتی زندگی کا ایک ناقابلِ فراموش حصہ تھی۔ فضل احمد کریم فضلی نے ماہانہ مشاعرے کی طرح ڈالی تھی اور خالداسحاق نے ہفتہ وار علمی نشست کی۔ یہ وہ ثقافتی روایت تھی جو کبھی برعظیم کی مسلم ثقافت کی پہچان تھی۔ کاش! دلی کے آخری مشاعرے کی طرح خالد اسحاق کی علمی محفل خواب و خیال نہ ہو جائے۔

خالد اسحاق نے جو خدمات ۱۹۷۳ء کے دستورسازی کے دور میں اور پھر ۱۹۷۶ء میں پاکستان قومی اتحاد (PNA)کی دستوری اور قانونی جدوجہد میں ادا کیں‘ وہ بھی ہماری تاریخ کا ایک اہم باب ہیں۔ وہ اور جناب عامر رضا ایڈووکیٹ اصل قانونی دماغ تھے‘ جس کا توڑ ذوالفقار علی بھٹو صاحب اور ان کی ٹیم سر توڑ کوششوں کے باوجود نہ کر سکی۔

خالداسحاق نے بڑے قیمتی مضامین لکھے ہیں۔ غالباً کتابیں تو ان کی دو تین ہی شائع ہوئی ہیں۔ Constitutional Limitation اور Islamic Principles of Economic Management  ان میں نمایاں ہیں لیکن ان کے مضامین بلاشبہہ کئی سو ہونے چاہییں۔ ان کے احباب کا فرض ہے کہ ان کو مرتب کر کے شائع کرنے کا اہتمام کریں۔ ان کی لائبریری کی حفاظت کے لیے قومی سطح پر اقدام کیا جائے تاکہ یہ صدقہ جاریہ ضوفشاں رہے۔ ان کی زندگی اور کارناموں کو نئی نسل سے روشناس کرایا جائے ‘ اس لیے کہ وہ بلاشبہہ ایک نمونے کی حیثیت (role-model) کا درجہ رکھتے ہیں۔

خالداسحاق ۹ فروری ۲۰۰۴ء کو ہم سے رخصت ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے--- اناللّٰہ وانا الیہ راجعون! لیکن وہ اپنے افکار‘ اپنی خدمات اور اپنی یادوں کا ایسا خزانہ چھوڑ گئے کہ بقول میرؔ    ؎

باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا

جو کہتے کسی کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا

بسم اللہّٰ الرحمٰن الرحیم

جنرل پرویز مشرف نے بالآخر ۱۷ جنوری ۲۰۰۴ء کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلا س سے خطاب کرکے وہ دستوری قرض اتار دیا جو ۱۴ماہ سے ان پر واجب تھا اور وہ مختلف بہانوں کے سہارے اس ذمہ داری کی ادایگی سے مسلسل گریز کرتے آرہے تھے--- کبھی اسمبلی کو ’غیرمہذب‘ گردان کر اور کبھی اس دستوری ضرورت کو غیرضروری بتلا کر--- یا شاید سب سے زیادہ ایک مجرم ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر کہ جس ریفرنڈم پر ان کے قصرصدارت کی دیواریں اٹھائی گئی تھیں اس کی اصل حقیقت سے خود ان سے زیادہ کون واقف تھا؟ لیکن اللہ کی اپنی حکمتیں ہوتی ہیں کہ شاید اس تاخیر کے ذریعے قدرت کو سب کو یہ یاد دہانی کرانا مطلوب ہو کہ جب تک ۱۷ویں دستوری ترمیم کے ذریعے ان کی صدارت کو کسی نہ کسی درجے میں سندجواز میسرنہ آجائے‘ پارلیمنٹ کی تکمیل اور سیاسی عمل کا حقیقی اجرا نہ ہو سکے گا۔ شکر ہے کہ یہ مرحلہ اب گزر گیا ہے لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا جنرل صاحب اور ان کے رفقاے کار نے دستوری بحران کے اس جاں گسل دور سے کوئی سبق سیکھا ہے؟ اور کیا وہ فی الحقیقت ایک نئے اور صحیح معنی میں جمہوری اور دستوری عمل (process)   کا حصہ بننے کو تیار ہیں؟یا اس سب کے باوجود حسب سابق فوج کی کمین گاہ میں بیٹھ کر ہی    کاروبارِ سیاست و حکومت چلانے پر مصر رہیں گے؟ کیا وہ کابینی حکومت کے صدر کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں یا چیف ایگزیکٹو نہ ہوتے ہوئے بھی اسی حیثیت کے تسلسل کا ڈراما رچانا چاہتے ہیں؟

یہ خطاب ان کے لیے ایک آزمایش اور امتحان ہی نہ تھا بلکہ ان کو ایک تاریخی موقع بھی فراہم کر رہا تھا جس کے ذریعے وہ ایک نئے دور کے آغاز کی نوید قوم کو سنا سکتے تھے۔ لیکن ہم بڑے تاسف سے اس حقیقت کااظہار کرتے ہیں کہ انھوں نے ایک بڑے نادر موقع کو ضائع کر دیا اور ایک ایسی گھسی پٹی اور بے جان تقریر کا اپنے نامۂ اعمال میں اضافہ کر لیا جو نہ دستور کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے‘ نہ پارلیمانی روایات کی امین ہے اور نہ اس تبدیلی کی نوید اپنے دامن میں رکھتی ہے جس کی قوم منتظر تھی مگر  ع

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

دستور کی دفعہ ۵۶ (۳) کے مطابق قومی اسمبلی کے ہر نئے انتخاب اور پارلیمنٹ کے ہر نئے سال کے آغاز پر صدرمملکت کے لیے ضروری ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرے۔ اس دفعہ کا مقصد یہ ہے کہ صدر‘ کابینہ کے ایما پر اس خطاب کے ذریعے پارلیمنٹ کے سامنے حکومت کی پالیسی اور نقشہ کار کو رکھے جس پر دونوں ایوانوں میں بحث ہو اور اس طرح    سال بھر کے کام کا ایک واضح پروگرام وجود میں آسکے۔ بالعموم اس خطاب کے تین حصے ہوتے ہیں‘ ایک حکومت کی سالِ گذشتہ کی کارگزاری کا جائزہ‘ دوسرے سالِ رواں کے درپیش مسائل کے بارے میں حکومتی موقف اور تیسرے سال کے دوران پارلیمنٹ کے کرنے کے کاموں کی نشان دہی بشمول قانون سازی۔ جنرل صاحب کی ۳۵ منٹ کی اس تقریر میں ’در مدح خود می گوید‘ کے کچھ سُر اور تال تو ضرور موجود ہیں‘ اسی طرح کچھ وعظ اور پندونصیحت کی نوع کی باتیں بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر اپنے زعم میں کچھ چیلنجوں کی بھی انھوں نے نشان دہی فرمائی ہے‘ لیکن جمالی حکومت کی کارکردگی‘ آیندہ کے منصوبے‘ بنیادی امور کے بارے میں پالیسی اور سال بھر کی قانون سازی کا پروگرام‘ ان سب کے ذکر سے وہ خالی ہے۔ گویا     ؎

ہم گئے تھے عرض کرنے مدعا

اور عرض مدعا ہی رہ گیا

سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ جس بات کو انھوں نے درپیش چیلنجوں کا نام دیا ہے وہ دراصل بیرونی دنیا کے اعتراضات اور شاہکار الزامات ہیں جنھیں نہ معلوم کس خوف یا مصلحت سے انھوں نے کسی محاسبے اور نقدوجائزے کے بغیر اپنے اور اپنے ملک و قوم کے سر منڈھ دیا ہے اور ان کا بھرپور جواب دینے سے کلی اجتناب کرکے دنیا کے سامنے اپنے قومی موقف کے اعلان کا ایک سنہری موقع انھوں نے گنوا دیا ہے۔ ان کے جن مشیروں نے بھی ان کے ساتھ یہ ہاتھ کیا ہے ‘اس سے ان کو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے۔

ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ ۱۷ ویں ترمیم کے سلسلے میں اپنے تحفظات کے باوصف متحدہ مجلسِ عمل نے جس بالغ نظری کا مظاہرہ کیا تھا اور اپنے سارے شور شرابے کے باوجود اے آرڈی اور دوسری جماعتیں جس طرح اب کم از کم پارلیمنٹ کی کارروائی میں شریک ہوگئی تھیں‘ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھیں ایک قومی مفاہمت کی دعوت دینی چاہیے۔ یہ موقع تھا کہ جنرل صاحب    بالغ نظری کے ساتھ وسعت ِ قلب کا مظاہرہ کرتے اور قوم کو بیرونی حالات اور اندرونی مسائل کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک قومی اتفاق رائے کی طرف بلاتے۔ دل بڑا کر کے یہ کہتے کہ گذشتہ    چار سال میں جو کچھ کرسکتا تھا‘ میں نے کیا اور اب ملک میں منتخب پارلیمنٹ ہے اور نئے عزم اور نئے انتظام کی ضرورت ہے۔ سب جماعتوں اور سب افراد کو میں ایک نئے آغاز اور ایک نئے اجماع کی دعوت دیتا ہوں تاکہ صحیح اور مستحکم جمہوری عمل شروع ہو سکے‘ تاکہ دستور کی بالادستی ہو‘ پارلیمنٹ کی حاکمیت مستحکم ہو‘ برسرِاقتدار جماعتیں اور حزبِ اختلاف کم از کم سب ایک قدر مشرک پر جمع ہوں اور پاکستان کا جو حقیقی وژن ہے--- یعنی ایک مثالی اسلامی‘ جمہوری‘ فلاحی فیڈرل نظامِ حکومت کا قیام--- اس کے لیے سب اپنے اپنے انداز میں سرگرمِ عمل ہوں۔ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر مستقبل کی تعمیرکے لیے ہر ایک کو اس کا کردار ادا کرنے کی دعوت دیتے۔ صاف کہتے کہ فوج کے سیاسی کردار کا دور اب ختم ہوگیا ہے اور فوج اپنی دفاعی ذمہ داریوں کی ادایگی کے لیے پوری یکسوئی کے ساتھ سرگرمِ عمل ہو رہی ہے اور سیاسی نظام اب قوم کے منتخب نمایندوں کے ہاتھوں میں امانت ہے۔ اس امانت کا تقاضا یہ ہے کہ منتخب نمایندے جو ملک کی آزادی اور سالمیت‘ اس کے نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی حفاظت‘ اس کی معاشی اور سماجی ترقی اور عوام کے مسائل اور اُمت مسلمہ کی امنگوں کی تکمیل کے لیے سرگرمِ عمل ہوجائیں۔ میں صدر کی حیثیت سے جو ریاست اور وفاق کی علامت ہے‘ دستور کے تحت اپنے فرائض کی انجام دہی اور جواب دہی کا راستہ اختیار کر رہا ہوں اور اب      نظامِ حکومت کو چلانے کی ذمہ داری وزیراعظم‘ کابینہ اور پارلیمنٹ کی ہے جس کا میں بھی ایک حصہ ہوں۔ آیئے !ہم سب مل کر دستور کی بالادستی‘ قانون کی حکمرانی‘ اداروں کے استحکام اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اپنے اور قوم کے تمام وسائل کو دیانت اور محنت کے ساتھ استعمال کریں اور اس طرح ہم سب مل کر اس عظیم مشن کے حصول کے لیے تن‘ من ‘دھن سے سرگرم ہو جائیں۔

یہ تھی وقت کی اصل ضرورت!--- لیکن جنرل صاحب کی تقریر میں ہمیں کیا ملتا ہے--- چند دعوے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں‘ چند الزامات اور اتہامات جن کو انھوں نے خود اوڑھ لیا ہے۔ یہ کسی کی کوئی خدمت نہیں‘ اور کچھ وعظ و نصیحت‘ جس کا کوئی محل نہ تھا۔ اس تقریر سے قطعاً یہ اندازہ تک نہیں ہوتا کہ ملک میں انتخابات کے بعد کوئی نئی تبدیلی واقع ہوئی ہے‘ کوئی منتخب حکومت وجود میں آئی ہے‘ اس کا کوئی منشور اور مستقبل کا وژن ہے جسے حقیقت کا روپ دینے کے لیے اس کے پاس کوئی پروگرام ہے‘ کچھ اہداف ہیں‘ کچھ پالیسی کے خطوط کار ہیں‘ کوئی واضح نقشہ راہ ہے۔ قانون سازی کا کوئی ایجنڈا ہے۔ وزیراعظم‘ کابینہ‘پارلیمنٹ‘ منصوبے‘ پالیسیاں‘ قانون سازی--- ان سب کے ذکر سے تقریرخالی ہے۔ خارجہ پالیسی‘ معاشی پالیسی‘ تعلیمی پالیسی‘ صحت اور اجتماعی بہبود کے نشانِ راہ‘ اخلاقی اور نظریاتی تشکیلِ نو کے مسائل کا کوئی پرتو اس میں نظرنہیں آتا۔ وزیراعظم ظفراللہ جمالی کا تو وزنِ بیت کے لیے بھی نام تک نہیں آیا چہ جائیکہ انھوں نے وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد جو تقریر کی تھی اور اس میں ایک پروگرام اپنے کرنے کے کاموں کے عنوان سے قوم کے سامنے رکھا تھا اس کا کوئی جائزہ پیش کیا جاتا کہ کیا حاصل کیا جا سکا ہے اور کیا ابھی حاصل کرنا ہے۔ پوری تقریر ایک بالکل دوسری ہی wave length پر انڈیل دی گئی ہے اور ہمیں معاف رکھا جائے اگر عرض کریں کہ پوری تقریر پر خوف‘ دبائو اور ایک گونہ بے بسی کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی شدید دبائو میں خیالات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کوئی وژن‘ کوئی حوصلہ‘ کوئی پیغام‘ کسی منزل کے نشان اس میں موجود نہیں--- یہ ایک سانحہ ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے‘ کم ہے۔


اس وقت بین الاقوامی سطح پر کئی بڑے اہم مسائل اور ایشوز پر دنیا کے سارے ہی ملک‘ اقوام اور اہلِ نظر گفتگو کر رہے ہیں۔ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد دنیا کے پورے سیکورٹی سسٹم کا نقشہ بدل گیا ہے۔ عالمی برادری نے جو کچھ دو سو سال کی جمہوری جدوجہد سے حاصل کیا تھا وہ معرض خطرمیں ہے۔ اقوامِ متحدہ کی حیثیت اور کردار کے بارے میں اقوامِ عالم پریشان ہیں‘ بین الاقوامی قانون کے مسلّمات تک کو غیرمحکم بنایا جا رہا ہے‘ بلاجواز آزاد اور خودمختار ممالک کو مختلف شکنجوں میں کسنے کی کوششیں ہو رہی ہیں‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر قانون‘ اصول‘ روایات سب    پامال کیے جا رہے ہیں‘ ثبوت کے بغیر تعزیر کو رواج دیا جا رہا ہے‘ قیادت کی تبدیلی اور محض موہوم اور ناقابلِ التفات خطرات کے سہارے اقوامِ عالم پر فوج کشی کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ ان تمام حالات میں ایک آزاد ملک کا رویہ کیا ہو اور وہ کس طرح دوسرے تمام امن پسند اور خوددار ممالک کے ساتھ مل کر نئی عالمی سامراجیت کے چنگل سے خود بچنے اور دوسروں کو بچانے کے لیے کیا راستہ اختیار کریں۔ عالمی برادری کس طرح عوامی سطح پر بنیادی انسانی اقدار اور آزادیوں کے تحفظ کے لیے ہاتھ پائوں مار رہی ہے اور ورلڈ سوشل فورم کے انداز میں کس طرح عوامی سطح پر سامراجیت اور لاقانونیت کے خلاف انسان منظم ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس صورت حال میں ایک     آزاد ملک کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کو کیا راستہ اختیار کرنا چاہیے؟اس کا کوئی شعور جنرل صاحب کے خطاب میں نظرنہیں آتا۔

آج دنیا میں اس وقت جو تہذیبی کش مکش کا راگ الاپا جا رہا ہے اور اس کا ہدف کس طرح دنیابھر میں اسلام اور مسلمانوں کو بنایا جا رہا ہے؟ اس چیلنج کا ہم کس طرح مقابلہ کرسکتے ہیں؟ کیا دوسروں کے لیے لگائے ہوئے الزامات کو ہم خود اپنے سر منڈھ لیں اور دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اپنے تصورات اور عقائد تک کو قطع و برید کا نشانہ بنائیں یادلیل اور شرافت لیکن ہمت اور قوت کے ساتھ اپنے دفاع اور اپنے تصورات کی تشریح و توضیح کی خدمت انجام دیں۔ اس سلسلے میں بھی تقریر خاموش ہے اور کوئی وژن اور کوئی پیغام جنرل صاحب کی تقریر میں دُور دُور نظرنہیں آتا۔

دنیا کی اقوام پر عالم گیریت (گلوبلائزیشن) کے نام پر جو ظلم کیا جا رہا ہے‘ دولت کا ارتکاز جس طرح چند ملکوں اور چند ہاتھوں میں ہو رہا ہے‘ آزاد تجارت کے نام پر ترقی پذیر ممالک اور   پس ماندہ اقوام کو جس طرح معاشی ترقی اور صنعت و حرفت کے میدانوں میں پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا چند سامراجی ممالک کی بالادستی کا شکار ہوکر ان کی چراگاہ بنتی جا رہی ہے‘ اس سے کیسے بچا جائے؟ ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں دولت کی نسبت جو ۱۹۵۰ء میں ایک اور تیس (۳۰:۱) تھی اور جو ۱۹۸۰ء تک ایک اور ساٹھ (۶۰:۱) ہوگئی تھی اب ایک اور پچاسی (۸۵:۱) تک پہنچ گئی ہے اس کا انجام کیا ہوگا؟ اور کیا وقت نہیں آگیا کہ سب مل کر ان حالات کو بدلنے کی سعی کریں اور ایک منصفانہ عالمی نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کریں۔ یہ سارے مسائل خارجہ پالیسی اور عالمی تعلقات کے دروبست کو ازسرنو منظم کرنے کا تقاضا کر رہے ہیں لیکن کیا ان کا کوئی احساس اور شعور ہماری قیادت کو ہے؟

ابھی سارک کانفرنس اسی اسلام آباد میں منعقد ہوئی ہے (۶ جنوری)۔ پاک بھارت تعلقات کے سلسلے میں ایک غیرمعمولی صورت حال رونما ہوئی ہے۔ بھارت‘ امریکہ اور اسرائیل کی اسٹرے ٹیجک پارٹنرشپ بالکل واضح ہے۔ علاقے میں بھارت کے ایک عالمی طاقت کے طور پر اُبھرنے اور اس کو اُبھارنے کے لیے بہت کچھ ہو رہا ہے۔ امریکہ نے بھارت کو اٹیمی اور میزائل ٹکنالوجی میں شریک کرنے کا اعلان کیا ہے اور یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر وہ این پی ٹی پر دستخط کردے توجو مقام امریکہ کی پالیسی میں اسرائیل کا ہے‘ وہی بھارت کو دیا جا سکتا ہے۔ ادھر روس سے دو بلین ڈالر کی دفاعی خریداری کی جا رہی ہے جس میں نیا ہوائی جہاز بردار پانی کا جہاز ایڈمرل گورشکوف اور مگ ۲۹کا ایک انبوہ شامل ہے جس سے علاقے کا توازنِ قوت شدید متاثر ہوا ہے۔ مگر یہ سب جنرل مشرف کی تقریر کا موضوع نہیںبن سکے۔ کیا یہ سب امور اس بات کے متقاضی نہ تھے کہ صدر کے خطاب میں ان کا احاطہ کیا جائے‘ تجزیہ کیا جائے‘ اور پارلیمنٹ کو نہ صرف اعتماد میں لیا جائے بلکہ پارلیمنٹ کو دعوت دی جائے کہ وہ اس سلسلے میں ضروری پالیسی خطوط کار مقرر کرے لیکن ان تمام معاملات کی کوئی پرچھائیں تک تقریر میں نظر نہیں آئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ ۶جنوری اور ۱۷جنوری میں کوئی ربط و تعلق ہی نہیں۔

اسی طرح کشمیر کا مسئلہ جو ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اس کا کوئی ذکر موجود نہیں۔ بس ایک جملے میں بھارت کے موقف کی اپنے الفاظ میں جگالی کر دی گئی ہے جو سہل انگاری کی انتہا ہے۔ پاک افغان تعلقات‘ پاک بھارت تعلقات‘ پاک چین تعلقات اور سب سے بڑھ کر خود پاک امریکہ تعلقات گہرے غوروفکر اور بحث و مباحثے کے محتاج ہیں۔ پاکستان نے یک طرفہ طور پر بھارت کو جو رعایتیں دی ہیں اور ان کا جو جواب ادھر سے ملا ہے کہ کشمیر میں تشدد بڑھ گیا ہے اور بھارتی فوج پوری بے خوفی کے ساتھ معصوم انسانوں اور آزادی کے متوالوں کے سروں کی فصل کاٹ رہی ہے‘ لائن آف کنٹرول پر لوہے کے کانٹوں کی باڑ لگا رہی ہے اور ہم کشمیریوں کی آزادی کی اس جدوجہد سے یک جہتی تک کا کوئی پیغام دینے سے گریزاں ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ ہو یا شیشان کا یا کوئی اور مسلم مسئلہ‘ ہم خاموش ہیں اور صرف واشنگٹن کے اشارہ چشم و آبرو پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ کیا اسی کا نام قومی مفاد کی پاسداری اور اولیت ہے؟


جنرل پرویز مشرف نے بڑی دیدہ دلیری سے دعویٰ کیا ہے کہ ’’قوم سے کیے گئے تمام وعدے پورے ہوگئے ہیں‘ جس میں حقیقی جمہوریت کا قیام شامل ہے‘‘۔ چوری اور سینہ زوری کی اس سے بڑھ کر بھی کوئی مثال ہو سکتی ہے؟ جمہوریت کی بحالی کی پہلی شرط دستور کی بحالی اور پارلیمنٹ کی بالادستی کا قیام ہے۔ ۱۷ویں دستوری ترمیم کے ذریعے ملک کو دستور اور جمہوریت کے راستے کی طرف لانے کے لیے ایک قدم--- صرف ایک قدم--- اٹھایا گیا ہے لیکن پارلیمنٹ کااصل کام تو  باقی ہے کہ فوجی دور کے ساڑھے تین سو قوانین اورفرامین کا جائزہ لے کر ان کو دستور اور جمہوری اصولوں کے مطابق بنائے۔اس کے لیے ایک ۱۲ رکنی کمیٹی کے قیام کا فیصلہ بھی پارلیمنٹ نے وزیراعظم کی تحریک پر کر لیا ہے مگر اس کا اور اس کے کرنے کے کام کاکوئی ذکر تقریر میں موجود نہیں حالانکہ جمہوریت کی بحالی کے لیے اس کی حیثیت فیصلہ کن ہے۔ اس کے بعد‘ جنرل صاحب کو فوج کی سربراہی سے جلد از جلد فارغ ہوکر پوری یکسوئی کے ساتھ سویلین صدر کی حیثیت سے دستور کے تحت اپنے فرائض انجام دینے کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اختیارات میں جو عدمِ توازن پیدا کر دیا گیا ہے اسے دُور کیا جانا ہے تاکہ ملک کا ہر ادارہ بشمول فوج دستور کے مطابق اپنے اپنے دائرہ کار میں مصروفِ عمل ہو سکے۔

معیشت کے بارے میں بھی جو دعوے کیے گئے ہیں ان کو صرف جزوی طور پر ہی قبول کیا جاسکتا ہے۔ کلاں معاشی اشاریے (macro economic indicators) معیشت کی پوری تصویر پیش نہیں کرتے۔ وہ صرف ایک حصے کی عکاسی کرتے ہیں۔ دوسرے حصے بھی اتنے ہی یا اس سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ اس وقت کیفیت یہ ہے کہ افراطِ زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ابھی اسٹیٹ بنک آف پاکستان نے جو مالیاتی پالیسی بیان جاری کیا ہے (۲۰ جنوری ۲۰۰۴ئ) اس کی رو سے اگست ۲۰۰۳ء کے بعد افراطِ زر میں برابر اضافہ ہو رہا ہے اور خاص طور پر تیل‘ ٹرانسپورٹ اور سب سے بڑھ کر اشیاے خوردنی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ دسمبر ۲۰۰۲ء کے مقابلے میں دسمبر ۲۰۰۳ء میں گندم کی قیمت میں ۴.۱۹ فی صد‘ گوشت میں ۲۲ فی صد اور ترکاریوں میں ۵.۱۵ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح بے روزگاری جو دس سال پہلے لیبر فورس کے صرف ۳ فی صد تک محدود تھی اب بڑھ کر ۹ فی صد تک پہنچ گئی ہے اور غربت جو ۱۹۸۰ میں آبادی کے صرف ۲۰ فی صد کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے تھی‘ اب بڑھ کر ۴۰ فی صد تک پہنچ گئی ہے۔ سرکاری اعداد وشمار میں بے شمار تضادات ہیں اور وزارتِ خزانہ ۳۲ اور ۳۳ فی صد کی آبادی کی غربت کی بات کر رہی ہے لیکن آزاد ماہرین تجارت اور ایشین ڈویلپمنٹ بنک اور دوسرے بیرونی ادارے ۴۰ فی صد کی خبر دے رہے ہیں جو زمینی حقائق سے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل صاحب نے تصویر کا صرف ایک رخ پیش کر کے نہ اپنے ساتھ انصاف کیا ہے اور نہ قوم کے ساتھ۔


جنرل پرویز مشرف نے اپنی تقریر میں جو سب سے بڑا ظلم اس قوم کے ساتھ کیا ہے‘ وہ یہ ہے کہ ہمارے مخالف ہم پر جو الزامات اور اتہامات لگا رہے ہیں نہ معلوم کس مصلحت سے انھوں نے ان کو من و عن تسلیم کر کے خود اپنے اوپر اوڑھ لیا ہے۔ بجاے اس کے کہ ان اعتراضات کا بے لاگ جائزہ لیتے۔ ان میں اگر کسی حد تک کوئی بات درست تھی تو اس کی اصلاح کا پروگرام قوم کے سامنے رکھتے۔ ان میں جو باتیں صراحتاً غلط اور اتہام کا درجہ رکھتی ہیں ان کی بھرپور تردید کرتے اور اصل حقائق کو دلیل اور قوتِ بیان کے ساتھ پیش کرتے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ صدربش کے جھوٹ کے سیلاب میں جنرل صاحب بھی خس و خاشاک کی طرح بہہ گئے ہیں۔ اگر امریکہ کے دائیں بازو کے بنیاد پرست (neo-cons) مسلمانوں کو دہشت گرد کہہ رہے ہیں تو جنرل صاحب بھی انھی کی آواز میں آواز ملانے لگتے ہیں۔ اگر اسرائیل اور بھارت اپنے وطن کی آزادی اور اپنے دین و ایمان اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگا دینے والوں کو دہشت گرد کہتے ہیں تو ہمارے صدرصاحب کی تقریر میں بھی انھی کی آواز بازگشت سنائی دیتی ہے حتیٰ کہ اب جو بات جنرل صاحب ۱۷جنوری کو کہی ہے توفوراً ہی ۱۸ جنوری کو اس کی داد ایڈوانی صاحب نے خوشی کے شادیانے بجا کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آگرہ میں جنرل صاحب نے یہ کہہ دیا ہوتا تو سارے معاملات کبھی کے طے ہوچکے ہوتے‘ یعنی ان کا قصہ ہی تمام ہوجاتا۔ سنیے‘ لال کشن ایڈوانی کرنال میں آل انڈیا فورسزکی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کیا فرماتے ہیں:

یہ بہت اچھا بیان ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ پاکستان کے اس موقف سے علاقے میں دہشت گردی کے پھیلائو کا روکنا یقینی ہوجائے گا۔ ان بیانات نے علاقے کی صورت حال کو یکدم بدل دیا ہے۔ جہاد یا کسی اور نام پر دہشت گردی کا مقابلہ تمام اقوام کو اجتماعی طور پر کرنا ہے۔ (دی نیوز‘ ۱۹ جنوری ۲۰۰۴ئ)

کل تک یہی جنرل صاحب فرماتے تھے کہ جنگِ آزادی اور دہشت گردی الگ الگ ہیں‘ جہاد کو کبھی دہشت گردی نہیں کہا جا سکتا اور کشمیر میں وہاں کے مظلوم مسلمان اپنے ایمان اور آزادی کے لیے استعماری تسلط (occupation)کے خلاف صف آرا ہیں۔ آج وہی مجاہد دہشت گرد بن گئے اور جو زبان واجپائی اور ایڈوانی استعمال کر رہے تھے وہ صدرِ پاکستان ۶ جنوری کے مشترکہ اعلامیہ کے بعد اب ۱۷ جنوری کے پارلیمنٹ سے خطاب میں بھی ارشاد فرما رہے ہیں اور اس پسپائی اور یوٹرن کا نام ’’حکمت ‘‘اور ’’لچک‘‘ رکھا گیا ہے۔

بھارتی‘ صہیونی اور امریکی انتہا پسند پاکستانی معاشرے کو غیرمعتدل اور پُرتشدد معاشرہ کہتے ہیں تاکہ ہمیں ناقابلِ اعتبار ٹھیرائیں اور ہمارے جوہری سرمایے کو غیرمحفوظ قرار دیں۔ جنرل پرویز مشرف صاحب بھی اپنی تقریر میں پاکستان کی وہی تصویر پیش کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے ہیں۔ اسلام بلاشبہہ اعتدال‘ امن اور اخوت کا مذہب ہے لیکن کون سا معاشرہ ہے جو انسانی کمزوریوں سے پاک ہے۔ کیا امریکہ میں تشدد‘ غنڈہ گردی اور عدم رواداری موجود نہیں۔ کیا رنگ‘ نسل زبان اور اندازِ بودوباش کی بنیاد پر وہاں انسانوں کے درمیان تمیز اور تفریق عام نہیں۔ کیا کالے امریکی جو امریکہ کی آبادی کا پانچواں حصہ ہیں اور ہسپانیہ اور میکسیکو سے آکر آباد ہونے والے لوگ جو اس وقت امریکہ کی آبادی کا ایک چوتھائی ہوچکے ہیں‘ اسی طرح برائون نسل کے لوگ--- کیا ان سب کے خلاف تعصب کا معاملہ نہیں کیا جا رہا؟ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ آج امریکہ میں آبادی کے تناسب سے جیلوں میں محبوس لوگوں کی تعداددنیا کے بیشترممالک سے زیادہ ہے؟ نیز ان میں بھی کالے امریکی تعداد کے لحاظ سے آبادی میں اپنے تناسب سے دوگنا ہیں؟ کیا دنیا میں امریکہ   سول آبادی میں سب سے زیادہ اسلحہ رکھنے والا ملک نہیں؟ اقوامِ متحدہ کے ہیومن رائٹس کمیشن کے سابق صدراور آئرلینڈ کی سابق صدر میری روبسن نے ابھی جنوری ۲۰۰۴ء میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکہ دنیا کا سب سے پُرتشدد (violent)ملک ہے۔

دنیا میں ۶۳۹ ملین کی تعداد میں چھوٹا اسلحہ ہے اور ۱۶ بلین بارودی یونٹ ہر سال استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے ۴۰ فی صد یعنی ۲۵۰ ملین ہتھیار صرف امریکہ میں ہیں‘ جب کہ امریکہ کی آبادی دنیا کی آبادی کا صرف ۸.۵ فی صد یعنی ۶ فی صد سے بھی کم ہے۔ امریکہ کی گن لابی مضبوط ترین لابی ہے اور خود امریکی دستور کی ضمانت کا سہارا لیتی ہے۔ میری روبسن کہتی ہیں کہ ۱۱ستمبر کے بعد صورت حال اور بھی خراب ہوگئی ہے۔(دی نیوز‘ ۴ جنوری ۲۰۰۴ئ)


جنرل پرویز مشرف نے چار چیلنجوں کا ذکر کیا ہے جن پر کھل کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ ’’سب سے پہلے تو منفی تاثرات کو کیسے زائل کیا جا سکتا ہے؟‘‘ پھر کمالِ سادگی سے وہ ہر منفی پروپیگنڈے کو‘ اس کی صحت و عدمِ صحت پر کلام کیے بغیر قبول کرلیتے ہیں اور اس کے خلاف جہاد کا علَم بلند کرنے کا اعلان فرما دیتے ہیں۔

ان کی نگاہ میں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ’’ہمیں اپنے سرحدی علاقوں میںایسے غیرملکی عناصر کے خلاف جو ہمارے ملک کے اندر اور افغانستان میں دہشت گردی کا باعث بن سکیں‘ بھرپور طاقت سے کارروائی کرنا ہوگی‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد جن مجبوریوں کے باعث بھی ہم نے امریکہ کا ساتھ دیا‘ کیا وہ اب ہمیشہ کے لیے ہمارے پائوں کی بیڑیاں بن گئی ہیں۔ آج ہر عرب القاعدہ ہے اور ہر افغانی طالبان بن گیا ہے۔ یہ امریکہ کا خبط (phobia) ہے جس کا نہ زمینی حقائق سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہمارے مصالح اور حالات سے اس کو کوئی نسبت ہے۔

عرب ہمارے اچھے دوست ہیں اور افغانی اور پاکستانی دین ‘ جغرافیہ‘ تاریخ اور ثقافت کے دیرینہ رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں۔ ہم اپنے دوستوں کو دوسروں کی ناروا نازبرداریوں کی خاطردشمن بنانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ افغانستان پر امریکی سامراجی فوج کشی کے لیے کندھا فراہم کرنے کا ہم نے یہ جواز دیا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور امریکہ ہمارا ساتھ دے گا‘ ہمارے ایٹمی اثاثے محفوظ ہوجائیں گے‘ افغانستان میں جو حکومت بنے گی وہ ہمارے مشورے سے بنے گی‘ شمالی اتحاد کو اقتدار نہیں دیا جائے گا اور علاقے میں ہمارا کردار بڑھے گا‘ افغانستان میں جنگ لمبی نہیں ہوگی بلکہ محدود اور مختصر وقت میں معاملات طے ہوجائیں گے--- لیکن ہوا کیا؟

افغانستان کے زمینی حقائق کو نظرانداز کر کے امریکہ اپنے مقاصد کے لیے جو دروبست بنارہا ہے ہم تابع مہمل کی طرح اس کے آلہ کار بن رہے ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی جس ڈیونڈر لائن کی حفاظت نہیں کرسکتے ‘انھیں ہم سے اس کی حفاظت کرنے کے مطالبے کا کیا حق ہے؟ شمالی علاقہ جات کی ایک تہذیب اور روایات ہیں‘ اپنا نظام ہے اور قائداعظم نے پوری بالغ نظری سے اس انتظام کا اہتمام کیا تھا۔ آج ہم نے خود اپنی شمالی سرحدوں کو غیرمحفوظ بنا دیا ہے اور ۷۰ ہزار فوج وہاں تعینات ہے اور ایک دلدل میں پھنستی چلی جا رہی ہے--- اور کس کے فائدے کی خاطر؟ امریکہ کا حال یہ ہے کہ جنرل صاحب کی تعریف تو وہ ضرور کرتا ہے لیکن ہماری ہرخدمت اور چاکری کے بعد ھل من مزید کی پکار لگاتا ہے اور مزید کے لیے بلیک میل کرتا ہے۔ افغانستان میں بھارت کا اثر بڑھ رہا ہے اور ہم نے گذشتہ ربع صدی میں جو نیک نامی اور محبت و احترام حاصل کیا تھا‘ وہ خاک میں مل گیا ہے۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ ہم ایمان داری سے افغانستان کے معاملات کو افغانوں پر چھوڑ دیں اور فی الحقیقت کسی قسم کی بھی مداخلت کا راستہ ترک کردیں۔ امریکہ سے صاف کہہ دیں کہ جو کچھ ہم کرسکتے تھے ہم نے کر دیا۔ اب آپ اور افغان عوام خود اپنے معاملات کو سنبھالیں۔ ہمارے لیے سب افغانی برابر ہیں اور ہماری زمین سب کے لیے امن اور اخوت کا گھر ہے۔ ہمیں نہ عربوں سے خطرہ ہے اورنہ افغانوں سے--- امریکہ کی خاطر ہم اپنے دوستوں کو دشمنوں کی صف میں کیوں دھکیل رہے ہیں؟

افغانستان ہو یا عراق‘ ان ممالک کے مسائل کا حل افغانستان اور عراق سے امریکی اور اس کے اتحادیوں کی فوجوں کی جلد از جلد واپسی اور وہاں کے لوگوں کا باہم افہام و تفہیم سے اپنے معاملات سنبھالنے میں ہے۔ ہم کسی بھی دھڑے کی تائید یا مخالفت نہ کریں اور ساری توجہ اپنے حالات کی اصلاح پر صرف کریں اور یہ معاملات پوری طرح شفاف انداز میں انجام پائیں۔ البتہ امریکہ کو یہ پیغام جلد جانا چاہیے کہ دہشت گردی کے انسداد کے نام پر جو دہشت گردی وہ دنیا بھر میں کرتا پھر رہا ہے اس کی ایک حد ہے۔ اب ہمارے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ’’ بہت ہوگیا!‘‘ (enough is enough)کی بنیاد پر خارجہ پالیسی میں نئی راہیں اختیار کریں۔


جنرل صاحب کے دوسرے چیلنج کا تعلق کشمیر سے ہے۔ ان کا ارشاد ہے:

کشمیر کے حوالے سے ہمارے اوپر جو الزامات ہیں ان سے نبٹنے کا واحد راستہ کشمیر کا پُرامن اور منصفانہ حل ہے۔ اس سلسلے میں جو پیش رفت ہوئی ہے‘ اسے نیک نیتی کے ساتھ اور کشمیریوں کی امنگوں کے ساتھ حل کی طرف لے جانا ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ الزام کیا ہے اور وہ کہاں تک درست ہے؟ یہ تو بھارت کی چال ہے کہ اس نے ریاست جموں و کشمیر پر جھوٹ اور دھوکے اور قوت کے ذریعے قبضہ کیا‘ اور اپنے سارے عہدوپیمان کو توڑ کر وہاں کے عوام کی امنگوں کا خون کر رہا ہے بلکہ ان کی رائے معلوم کرنے تک کی ضرورت کا منکر ہے۔ پاکستان اور تمام کشمیری خواہ وہ مقبوضہ کشمیر میں ہوں‘ آزاد کشمیر میں ہوں‘ پاکستان میں ہوں یا دنیا کے کسی اور علاقے میں ہوں‘ اس کے فریق ہیں۔ مسئلہ کسی زمین کے ٹکڑے کا نہیں‘ سوا کروڑ انسانوں کے حق خودارادیت کا ہے جو بین الاقوامی قانون‘ اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کے تحت ایک مسلّمہ حق ہے۔ کشمیر کی جنگِ آزادی ایک قومی تحریکِ مزاحمت ہے جس کے سیاسی اور عسکری دونوں پہلو ہیں اور جو ان کا حق ہیں۔ اقوامِ متحدہ کا چارٹر آزادی کی جنگ کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس حق کو تسلیم کیا ہے۔ غیر جانب دار ممالک کے چارٹر نے اسے مانا ہے۔ ابھی حال ہی میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پاکستان ہی کی قرارداد کے ذریعے عظیم اکثریت سے ایک بار پھر اس حق کا اعادہ کیا ہے۔ اس جدوجہد کی تائید ہمارا قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی حق ہی نہیں‘ فرض بھی ہے۔ کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں تازہ ترین معلومات کے مطابق ۸۷ ہزار ۶ سو ۷۸ افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں سے ۶ ہزار ۷ سو کو زیرحراست شہید کیا گیا ہے۔ ۹ہزار سے زیادہ دخترانِ کشمیر کی اجتماعی آبروریزی کی گئی ہے اور ایک لاکھ سے زائد مکانات‘ باغات اور دکانیں مسمار کی جا چکی ہیں۔ لائن آف کنٹرول کے ساتھ آہنی کانٹوں کی باڑ لگائی جا رہی ہے اور جس طرح سیاچن پر قبضہ کر کے شملہ معاہدے میں کیے جانے والے status quo تبدیل نہ کرنے کے معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہے اسی طرح باڑ لگا کر نئی خلاف ورزی کی جا رہی ہے؟

پاکستان نے اپنی اصولی پوزیشن کو جس پر قومی اتفاق رائے تھا‘ بیرونی دبائو کے نتیجے میں تبدیل کردیا ہے اور مسلسل پسپائی اختیار کر رہا ہے۔ ہمارا موقف تھا کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے سوا کوئی حل ممکن نہیں‘ اس سے ہم ہٹ گئے ہیں۔ ہمارا دعویٰ تھا کہ یہ سہ فریقی مسئلہ ہے اور پاکستان‘ بھارت اور کشمیر کے نمایندے ہی بات چیت کا حق رکھتے ہیں‘ اس سے بھی ہم ہٹ گئے ہیں۔ پھر ہماری حکمت عملی تھی کہ بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانا‘ کشمیر کے مرکزی اور محوری مسئلے (core issue) کے حل کے بغیر ممکن نہیں۔ اب ہم بھارت کے موقف پر آگئے ہیں کہ پہلے تعلقات کی بحالی اورکشمیر پر بات چیت بھی (چہ جائیکہ مسئلے کاحل) بعد میں! اور سب سے بڑھ کر اب جنگِ آزادی‘ جہادِ کشمیر اور دہشت گردی کے فرق کو بھی ہم بھول گئے ہیں جس کا پرچار ہم آگرہ تک کرتے رہے ہیں اور جنرل صاحب نے خود بھارت کے میڈیا کے سامنے جرأت سے اس موقف کو پیش کیا تھا۔ لیکن اب کارگل کی پسپائی کی طرح وہ ہر محاذ سے پسپائی اختیار کر رہے ہیں اور کشمیر کے مجاہدوں اور سیاسی تحریک کو جو پیغام دے رہے ہیں وہ انتہائی مایوس کن ہی نہیں‘ قومی مفادات کے یکسرمنافی ہے۔

جنرل صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ انصاف اور حق کے حصول کے لیے بھیک نہیں مانگی جاتی۔ یہ تاریخ کا سبق ہے جو قوم اپنے حق کے حصول کے لیے قربانی اور جدوجہد کا راستہ ترک کردیتی ہے‘ اپنی آزادی کی حفاظت کے لیے کمربستہ نہیں ہوتی اور جو دشمن کے ہر مطالبے کے آگے سرتسلیم خم کر دیتی ہے وہ اپنی آزادی کا تحفظ بھی نہیں کر سکتی اور محکومی اور غلامی اس کا مقدر ہوجاتی ہے۔

اگر بھارت کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات کے لیے کسی درجے میں تیار ہوا ہے‘ تووہ کشمیریوں کی جنگِ آزادی اور قربانیوں کی وجہ سے ہوا ہے‘ کسی انصاف پسندی اور دوست نوازی کی وجہ سے نہیں۔ اگر یہ دبائو باقی نہیں رہتا تو کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکے گا۔پھر جس طرح ہم کشمیری عوام کو مایوس کر رہے ہیںاورمحض دوطرفہ انداز میں معاملات کو نمٹانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ وہ نہایت غیرحقیقت پسندانہ ہے۔ اگر ہندستان کی ہزارسال کی تاریخ اور کشمیر پر مذاکرات کی ۵۶سال کی داستان سامنے رہے‘ تو اس سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ جس نیک نیتی کی بات جنرل صاحب کر رہے ہیں وہ بھارتی قیادت کے طریق اور اس کے تاریخی کردار سے مکمل اغماض پر مبنی ہے اور ایسی ہی نیک نیتی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اس کا انجام تباہی ہوتا ہے۔ (Hell is paved with good intentions)


جوہری ہتھیاروں کے عدمِ پھیلائو کے بارے میں جنرل صاحب نے بیرونی الزام اور دبائو کا ذکر کیا ہے۔ ہم ان کے اس اعلان کا تو خیرمقدم کرتے ہیں کہ پاکستان اپنی ایٹمی صلاحیت کی حفاظت کرے گا اور اسے مزید ترقی دے گا۔ آزادی اور عزت کی حفاظت کا یہی راستہ ہے لیکن عملاً جس کمزوری کا مظاہرہ وہ اور ان کی حکومت ایٹمی سائنس دانوں کے سلسلے میں عالمی ایٹمی ایجنسی (IAEA) کے نام نہاد خط کے باب میں کر رہی ہے وہ نہایت تشویش ناک اور شرمناک ہے۔ پاکستان کسی این پی ٹی کا رکن نہیں اور اس پر کوئی قانونی پابندی نہیں۔ امریکہ کے ذریعے جو جوہری پھیلائو دنیا میں ہوا ہے وہ ایک کھلا راز ہے۔ جرمنی‘کینیڈا‘ فرانس نے اپنے اپنے ممدوحین کے لیے جو کچھ کیا ہے‘ وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ ہم آخرکیوں ہر چیز اپنے اوپر اوڑھ لیں اور اپنے ہی قومی ہیروز کی بے عزتی پر تل جائیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ ایران کے نائب وزیرخارجہ اور کرنل قذافی کے صاحبزادے سیف الاسلام خود کہہ رہے ہیں کہ ہم نے پاکستان یا کسی مسلمان ملک کا نام نہیں لیا اور ہم ہیں کہ امریکی‘ صہیونی اور بھارتی پروپیگنڈے سے خائف ہوکر اپنی ہی جڑوں پر کلہاڑی چلانے پر تلے ہوئے ہیں۔ یہ ڈی بریفنگ کس بلا کا نام ہے؟ اپنے معزز سائنس دانوں سے آپ شرافت سے بات چیت کرسکتے ہیں۔ گرفتاریاں‘ راتوں کو گھروں سے اٹھانا‘ اہلِ خانہ سے ربط و تعلق کی اجازت نہ دینا‘ آپس میں مشورہ اور وکیل تک رسائی کے انسانی حق سے محرومی--- یہ کس مہذب معاشرے کے طور طریقے ہیں۔ یہ راستہ ایٹمی قوت کے استحکام کا نہیں‘ اس کو تباہ کر دینے کا ہے اور قوم کسی کو اس کی اجازت اور موقع نہیں دے گی۔

معاشرے میں انتہا پسندی اور عدمِ اعتدال کے الزام کو بھی جنرل صاحب نے ایک چیلنج کی حیثیت سے پیش کیا ہے اور یہاں بھی وہ خود انصاف اور توازن کی راہ اختیار نہیں کرسکے۔ اسلام ہے ہی اعتدال کا نام اور اس امت کو قرآن نے اُمت وسط ہی قرار دیا ہے۔ ہر معاشرے میں کچھ نہ کچھ بے اعتدالی رونما ہوتی رہتی ہے اور اس کا علاج تعلیم و تلقین‘ اچھی مثال‘ آزاد مکالمے و مجادلے اور افہام و تفہیم ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اس کے لیے بگاڑ کی تشخیص اور اس کے اسباب کو رفع کرنا بھی ضروری ہے۔ پھر جہاں ایسی چیزیں کچھ خاص سیاسی‘ گروہی‘ علاقائی‘ لسانی یا فرقہ وارانہ مفادات کی بنا پر ظہورپذیر ہوں وہاں‘ ان تمام حالات کا ادراک اور اصلاح ضروری ہے۔ پاکستان میں ملّی یک جہتی کونسل اور متحدہ مجلسِ عمل نے یہی راستہ اختیار کیا اور الحمدللہ حالات کو مثبت انداز میں متاثر کیا۔ بات سخت ہے لیکن حقیقت ہے کہ تشدد مسلکی نام پر ہو یا لسانی اور نسلی‘ اس کو طرح دینے میں ملکی ایجنسیوں اور بیرونی سازشوں کا بڑا دخل ہے اور یہ تمام معلومات سرکاری ریکارڈ میں ہیں اور پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کے سامنے پیش کی جانے والی شہادتوں اور پریس میں طبع ہونے والی معلومات کی بنیاد پر مستند (authenticated) ہیں۔ اس مسئلے پر بھی نہ الزام کو آنکھیں بند کرکے اپنے سر اوڑھنے کی ضرورت ہے اور نہ خرابی جتنی ہے اور جن وجوہ سے ہے ان کو نظرانداز کرنا ہی صحیح ہے۔ خود جنرل صاحب کو جس طرح نشانہ بنایا گیا ہے اس کے بارے میں قوی خدشہ ہے کہ یہ کام ان لوگوں کا ہے جو ان کو‘ فوج کو‘ اور حکومت کو دینی اور جہادی قوتوں کے خلاف برسرِکار کرنا چاہتے اور ملک میں فساد اور تصادم کی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان تمام پہلوئوں کونظرانداز کرکے بس انتہاپسندی کے خلاف جہاد کی باتیں کرنا بڑی سطحی بات ہے اور معکوس نتائج دے سکتی ہے۔ اصول پرستی اور انتہاپسندی میں فرق اسی طرح ضروری ہے جس طرح جہاد اور دہشت گردی ہیں۔

یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ مغربی میڈیا میں پاکستانی معاشرے میں تشدد کی بات کو حد اور تناسب سے بڑھا کر (out of proportion) پھیلانے اور اس کا ڈھول پیٹنے کی    ایک وجہ یہ ہے کہ وہ پاکستانی قوم کو غیرذمہ دار ثابت کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ دعویٰ کرسکیں کہ ہماری ایٹمی صلاحیت قابلِ اعتماد ہاتھوں میں نہیں۔ یہ بڑا خطرناک کھیل ہے اور ہمیں اس سے باخبر ہونا چاہیے اور کسی ایسے جال میں نہیں پھنسنا چاہیے۔ اصلاحِ احوال ضروری ہے‘ مگر حقائق کو ہر مبالغے سے محفوظ رکھتے ہوئے۔

اگر ان چند افسوس ناک واقعات کی بنیاد پر جو پاکستان میں ہوئے ہیں‘ اس ملک اور اس کے معاشرے کو انتہاپسند اور تشدد پر مبنی قرار دیا جا سکتا ہے تو پھر بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے اور صرف کشمیر ہی نہیں ۱۶ دوسری آزادی کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے کیا جا رہا ہے‘ مسلمانوں‘ دلت اورعیسائیوں کو جس طرح قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور پوٹا (POTA) جیسے قوانین کے ذریعے ہزاروں انسانوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے‘ اسے کیا کہیں گے۔ بات صرف بھارت تک محدود نہیں‘ امریکہ کے معاشرے کا کیا حال ہے۔ کیا وہاں امریکی دہشت پسند گروہوں کی کمی ہے؟ Ku Klux Klanسے لے کر اوکلاہاما کی تباہ کاری کے ذمہ دار گروہوں تک کا انکار کیا جا سکتا ہے؟ کیا امریکہ میں ہر آٹھ منٹ پر ایک قتل نہیں ہوتا؟ کیا امریکہ کے اہم ترین شہروں میں سڑکیں ہی نہیں‘ گھربلکہ ہوٹل تک محفوظ ہیں؟ جو بھی فائیوسٹار ہوٹلوں میں ٹھیرے ہیں‘ جانتے ہیں کہ وہاں جاتے ہی ہوٹل کا عملہ اپنی حفاظت آپ کرنے کے لیے کیا کچھ ہدایات نہیں دیتا۔ لاطینی امریکہ کے ملکوں کا حال تو اور بھی تباہ ہے لیکن کسی ملک کا سربراہ اس طرح اپنے ملک میں تشدد اور بے اعتدالی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتا اور یہ تاثر نہیں دیتا کہ اس کا ملک انتہاپسندی اور تشدد کے فروغ کا ذریعہ بن رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ایک پُرامن ملک ہے اور اگر کچھ ناخوش گوار واقعات یہاں ہوئے ہیں‘ تو وہ خاص حالات کی پیداوار ہیں جن میں بیرونی ہاتھ اور ایجنسیوں کے کردار سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا۔ بلاشبہہ جو بھی کمزوری ہمارے ملک میں ہے اس کی اصلاح کی ضرورت ہے اور اس کا کوئی جواز نہیں ہو سکتا لیکن محض دوسروں کے کہنے پر ایسے الزامات کو اوڑھ لینا اور انھیں حقیقت سمجھ کر پورے معاشرہ اور ملک کو بدنام کرنا‘ یہ دشمنوں کا کھیل ہے جس میں ہمیں کسی کا آلہ کار نہیں بننا چاہیے۔

جس طرح جنرل پرویز مشرف نے اس پوری بات کو چیلنج قرار دے کر پیش کیا ہے‘ وہ مصنوعی ہے اور حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔


پاکستان کی فوج قوم کا قیمتی اثاثہ اور دفاع وطن کے باب میں ہماری متاع ہے لیکن جنرل پرویز مشرف نے فوج کے بارے میں بھی جو اندازِ بیان اختیار کیا ہے‘ اسے صحت مندقرار نہیں دیا جا سکتا۔ فوج کی خدمات بیش بہا ہیں اور ہم سب کو ان پر فخر ہے لیکن فوج تنقید و احتساب سے بالا نہیں اور فوجی قیادت نے سیاست میں مداخلت کر کے اور ہماری تاریخ کے ۵۶ برسوں میں سے تقریباً نصف مدت ملک کے سیاہ و سفید کا مالک ہو کر جو غلطیاں کی ہیں اور ان کے نتیجے میں جو تباہ کاریاں واقع ہوئی ہیں ان کی ذمہ داری سے فوج کی ان قیادتوں کو کیسے بری قرار دیا جاسکتا ہے جو اقتدار پر قابض تھیں۔

اس مسئلے کے دو پہلو ہیں: سپریم کورٹ کا فیصلہ چشم کشاہے۔ دوسرا پہلو فوج کی عظیم خدمات اور دفاع وطن کے لیے قربانیاں ہیں لیکن اس کے ساتھ انسانی سطح پر کچھ اہم میدانوں میں فوجی قیادتوں کی غلطیاں بلکہ بھیانک غلطیاں بھی ایک حقیقت ہیں۔ دنیا میں ہر جگہ فوج کی بحیثیت ادارہ تحفظ اور قدرومنزلت کے ساتھ انفرادی فوجی اقدامات یا اجتماعی کوتاہیوں پر احتساب بھی کیا جاتا ہے اور اسے غلط محرکات اور فوج کو بدنام کرنے کے نام پر نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ صحیح راستہ درمیان کا راستہ ہے۔ فوج بھی باقی سب اداروں کی طرح محترم ہے اور اس کا احتساب بھی قانون کی بالادستی کا ایک حصہ ہے۔ کوئی بھی مقدس گائے نہیں اور کسی کو بھی قانون سے بالا ہونے کا مقام نہیں دیا جا سکتا۔

فوج کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مکمل طور پر صرف دفاعِ وطن کے لیے مخصوص ہو اور سیاست میں دراندازی کر کے اپنے کو متنازع نہ بنائے۔ اور اگر فوج سیاست میں دخیل ہوگی تو پھر اس کا بھی اسی طرح جائزہ لیا جائے گا جس طرح سیاسی جماعتوں‘ عناصر اور قیادتوں کا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری نگاہ میں اس وقت ملک کو جو اہم اندرونی چیلنج درپیش ہیں‘ ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کسی طرح جلد از جلد فوج کو صرف دفاع وطن کی ذمہ داری کے لیے مخصوص کر دیا جائے اور اس کے سیاسی کردار کو ختم کیا جائے تاکہ وہ متنازع نہ بنے اور قوم کے احترام اور تعاون کی مستحق رہے۔

ایک بڑا اہم پہلو سیاسی استحکام‘ سیاسی اداروں کا مؤثر ہونا‘ اور قوم کو اعتماد میں لے کر اندرونی سیاسی مضبوطی کا حصول ہے۔ جنرل صاحب نے استحکام کے دو ستونوں‘ یعنی فوج اور معیشت کا ذکر تو کیا ہے لیکن تیسرے ستون‘ یعنی سیاسی استحکام‘ حقیقی جمہوریت کا مؤثر اور معتبر ہونا‘ قانون کی حکمرانی اور انصاف پر مبنی نظام کا فروغ اور چوتھے ستون‘ یعنی نظریاتی‘ اخلاقی اور تہذیبی تشخص کی مضبوطی کا ذکر نہیں کیا۔ قومیں اپنے نظریات اور اپنے عزائم کی بنیاد پر بڑے بڑے معرکے سر کرتی ہیں اور بڑی بڑی آزمایشوں کا مقابلہ کرتی ہیں۔ اخلاقی قوتیں مادی قوتوں کی تقویت کا باعث ہوتی ہیں اورمادی قوت اخلاقی اور نظریاتی قوت اور استحکام کے بغیر اپنی اصل استعداد کو حاصل نہیں کر سکتی۔ اس لیے اندرونی محاذ کی مضبوطی کے لیے معاشی اور دفاعی قوت کے ساتھ ساتھ سیاسی اور جمہوری استحکام اورنظریاتی اور تہذیبی محاذ کی تقویت ازبس ضروری ہے۔ ان میں سے کسی ایک کوبھی نظرانداز کرنا مہلک ہو سکتا ہے۔ سیاسی‘ معاشی‘ دفاعی ہر میدان میں نشیب و فرازممکن ہیں اور تاریخی حقیقت ہیں لیکن اصل فیصلہ کن قوت ایمان‘ نظریاتی اعتماد‘ اخلاقی قوت اور مستقبل کا وژن ہے۔ جنرل صاحب کی تقریر میں یہ دوسرے پہلو مفقود ہیں‘ جب کہ سیاسی ‘ معاشی اور دفاعی میدان میں تسلسل اور بقا کے لیے یہ فیصلہ کن ہیں۔ جنگیں عسکری ہوں یا نظریاتی‘ ان کا اصل انحصار قومی ارادے (national will) اور خودی کی قوت پر ہوتا ہے اور اگر یہی پہلو ہمارے پالیسی ساز افراد اور اداروں کے سامنے نہ ہوں تو اس سے بڑا المیہ ممکن نہیں۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ قوم کو تیار کیا جائے اور فیصلے افرادنہ کریں بلکہ ادارے کریں اور قوم کے عزائم اور امنگوں کی روشنی میں کریں۔ خوف کے تحت کیے جانے والے فیصلے صرف پسپائی اور شکست پر ہی منتج ہوسکتے ہیں‘ کبھی بھی فتح کی نوید نہیں لا سکتے۔


آخر میں ہم پارلیمنٹ کے ارکان سے یہ استدعا کرتے ہیں کہ پارلیمانی روایات کے مطابق صدر کے خطاب پر دونوں ایوانوں میں مفصل بحث ہونی چاہیے اور جن امور کا انھوں نے ذکر کیا ہے اور جن سے وہ پہلوتہی کرگئے ہیں‘ان سب پر پوری تیاری کے ساتھ بات ہونی چاہیے تاکہ پارلیمنٹ ملکی اور غیرملکی مسائل کی روشنی میں کوئی نقشہ راہ قوم اور حکومت کے سامنے پیش کرسکے۔ آج جس طرح اسلام‘ دینی مدارس‘ جہاد اور قومی اقدار و روایات کو پوری دنیا میں  نشانۂ تنقید بنایا جا رہا ہے‘ اس کا تقاضا ہے کہ پورے تدبر اور تحمل لیکن مکمل اعتماد کے ساتھ اپنے موقف کو پیش کیا جائے۔ اگر ہمارے عمل میں کوئی خرابی اور کمزوری ہے تو اس کی اصلاح کی بھی پوری فکر کی جائے لیکن محض پرائے شگون پر ناک کٹوانے کی حماقت کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ اقبال اور قائداعظم نے جس یقین‘ تدبر اور بالغ نظری سے اسلام اور مسلمانوں کے مقدمے کو پیش کیا اور بالآخر مقدمہ جیت گئے اسی طرح آج بھی اپنے مقدمے کو پیش کرنے اور اپنی قوم کو تیار کرکے حالات کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دشمن کو گالی دینے سے کام نہیں چلے گا لیکن دوست اور دشمن میں صحیح صحیح تمیز کے بغیر بھی ہم اپنے مفادات کا تحفظ اور اپنے مقاصد کا حصول نہیں کرسکتے۔ ۱۹۳۰ء کے تاریخی خطبے میں علامہ اقبال نے بڑی پتے کی بات کہی تھی جس کا ادراک آج اور بھی ضروری ہے۔ انھوں نے کہا تھا:

ایک سبق جو میں نے تاریخِ اسلام سے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ آڑے وقت میں اسلام ہی نے مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا ہے۔ مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی‘ اسلام نے مسلمانوں کی حفاظت کی ہے۔ اگر آج آپ اپنی نگاہیں پھر اسلام پر جما دیں اور اس کے حیات بخش تخیل میں رچ بس جائیں تو آپ کی منتشر اور پراگندہ قوتیں ازسرِنو جمع ہو جائیں گی اور آپ کا وجود ہلاکت و بربادی سے محفوظ ہوجائے گا۔

تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان اسی جدوجہد کا ثمرہ ہے۔ آج پھر اسی سبق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ قائداعظم نے اسی کے سہارے پاکستان بنا دیا اور ہم اسی کے سہارے پاکستان کی حفاظت کرسکتے ہیں اور ترقی کی منزلیں طے کر سکتے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے معزز ارکان اور خود صدر صاحب کو قائداعظم کے وژن کی یاد دہانی کرا دی جائے تاکہ آگے کے سفر کے بارے میں ان کا دکھایا ہوا راستہ ایک بار پھر ہماری نگاہوں کے سامنے ہو۔ ۱۹۴۸ء میں مسلم لیگ کے اجلاس منعقدہ کراچی سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:

وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسدِواحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے جس سے اس اُمت کی کشتی محفوظ کردی گئی ہے؟ وہ رشتہ وہ چٹان‘ وہ لنگرخدا کی کتاب قرآنِ کریم ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھتے جائیں گے‘ ہم میں زیادہ سے زیادہ اعتماد پیدا ہوتا جائے گا… ایک خدا‘ ایک رسولؐ، ایک کتاب‘ ایک اُمت۔

اس وقت میدانِ سیاست میں ہندو مسلمانوں کی جنگ ہو رہی ہے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ فتح یاب کون ہوگا۔ علمِ غیب خدا کو ہے لیکن میں ایک مسلمان کی حیثیت سے    علی الاعلان کہہ سکتا ہوں کہ اگر ہم قرآن مجید کو اپنا آخری اور قطعی رہبر بناکر شیوہ   صبر و رضا پر کاربند ہوجائیں اور اس ارشادِ خداوندی کو کبھی فراموش نہ کریں کہ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں تو ہمیں دنیا کی کوئی طاقت یا کئی طاقتیں مل کر بھی مغلوب نہیں کرسکتیں۔ ہم تعداد میں کم ہونے کے باوجود فتح یاب ہوں گے جس طرح مٹھی بھر مسلمانوں نے ایران و روم کی سلطنتوں کے تحت الٹ دیے تھے۔

۱۴ فروری ۱۹۴۷ء کو شاہی دربار سبی (بلوچستان) میں دو ٹوک انداز میں فرمایا:

میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ پر چلنے میں ہے جو قانون عطا کرنے والے پیغمبراسلامؐ نے ہمارے لیے بنایا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں۔

۱۳ جنوری ۱۹۴۸ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے واشگاف الفاظ میں فرمایا:

ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔

۱۴ فروری ۱۹۴۸ء کو اپنے ایک پیغام میں فرمایا:

میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطۂ حیات پر عمل کرنا ہے جو پیغمبراسلامؐ نے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہییں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور وسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔

اقبال اور قائداعظم کا وژن بالکل واضح ہے‘ کیا ہم اس وژن کے مطابق پاکستان کی تعمیرکے لیے جدوجہد کرنے اور اس جدوجہد کا حق ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟

بسم اللہّٰ الرحمٰن الرحیم

اکتوبر۲۰۰۲ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں (دسمبرمیں) جو پارلیمنٹ وجود میں آئی تھی‘ اس نے اپنا پہلا سال جوں توں کرکے مکمل کرلیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف اور ظفراللہ جمالی کے   نام نہاد اشتراک اقتدار پرمبنی حکومت کے پہلے سال کو جنرل صاحب کے تین سالہ بلاشرکت غیرے اقتدار کا تسلسل ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن اور خصوصیت سے متحدہ مجلس عمل کی ساری کوشش اور کاوش کے باوجود جنرل پرویز مشرف کی ہٹ دھرمی‘ جمالی حکومت کی کمزوری اور علاقے کے بارے میں امریکی پالیسی کے باعث پارلیمنٹ اپنی بالادستی قائم نہ کر سکی۔ اس طرح پورا سال ایک ایسی  کش مکش کی نذر ہوگیا جس کے نتیجے میں جمہوری سفر صحیح معنوں میں شروع ہی نہیں ہوسکا۔ یہ ایک ایسا سانحہ ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔

اس صورت حال سے ملک کی فوجی اور سیاسی قیادت کی معاملہ فہمی کی جو تصویر قوم کے سامنے آتی ہے وہ اپنے اندر تشویش کے بے شمار پہلو رکھتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور اللہ تعالیٰ جو بھی مواقع قوم کو دے رہا ہے‘ اس کی قیادت ان کو ضائع کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب عالمی طاقتیں پوری مسلم دنیا پرشدید یورش کر رہی ہیں اور ہماری آزادی‘ حاکمیت‘ دینی تشخص اور ملّی وقار سب اس کی زد میں ہیں‘ ہماری قیادت خطرناک حد تک عاقبت نااندیشی کی روش پر گامزن ہے بلکہ اس مہلک راستے پر چلنے پر مصر ہے۔

سالِ گذشتہ (۲۰۰۳ئ)کے آخری مہینے کے وسط میں (۱۷ دسمبر کے آس پاس) تین واقعات ایسے ظہور پذیر ہوئے ہیں جن پر سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ اگر بصیرت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو بظاہر آزاد اور مستقل بالذات (self-contained) ہونے کے باوجود ان واقعات میں واضح طور پر باہمی ربط و تعلق نظر آتا ہے۔

پہلا واقعہ ۱۸ دسمبر سے شروع ہونے والی مجلسِ عمل کی عوامی تحریک ہے جو اگرچہ ایل ایف او کے بارے میں حکومت کے مسلسل لیت ولعل اور سردمہری کے نتیجے میں رونما ہوئی ہے لیکن دراصل اب وہ پاکستان اور اُمت مسلمہ کو جو خطرات اس وقت درپیش ہیں اور جن کے بارے میں حکومتِ وقت تجاہل اور تغافل ہی کی مجرم نہیں بلکہ عملاً ان کو اور بھی گمبھیر کرنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہے‘ ان کا مقابلہ کرنے کے لیے قوم کو بیدار اور منظم کرنے کا عنوان بن گئی ہے۔ تحریک کے شروع ہوجانے کے بعد حکومت نے ایل ایف او کی حد تک مجلسِ عمل سے طے شدہ معاملات کو پارلیمنٹ میں دستوری ترمیمی بل کی شکل میں لانے کے لیے کچھ سرگرمی دکھائی ہے (ان سطور کے ضبطِ تحریر میں لاتے وقت تک کچھ پیش رفت کے آثار نظر آ رہے ہیں گوبعد از خرابیِ بسیار)۔ لیکن ایم ایم اے نے افہام و تفہیم اور معاملہ فہمی کی اعلیٰ صفات کا مظاہرہ کرتے ہوئے دستوری تنازعے کا حل نکالنے کے لیے ایک بار پھر دستِ تعاون بڑھایا ہے مگر اس واضح اعلان کے ساتھ کہ دستوری گتھی کو سلجھانے میں تعاون کو کسی صورت میں بھی اقتدار میں اشتراک یا جنرل پرویز مشرف پر کسی درجے میں بھی اعتماد کے اظہار سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا اور اس کی بنیادی وجہ جنرل صاحب کی خارجہ‘ داخلہ‘ ثقافتی اور نظریاتی پالیسیوں سے مجلس کا شدید اختلاف ہے ۔ ملک کی تعمیرِنو کے لیے مجلس اپنے ایجنڈے پر کسی سمجھوتے کے لیے قطعاً تیار نہیں۔

مجلسِ عمل نے ایک طرف پوری بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دستوری تنازعے کے حل کی ایک اور کوشش پر آمادگی کا اظہار کیا ہے (اور ہماری دعا ہے کہ یہ کوشش کامیاب ہو اور ماضی کی کوششوں کی طرح درمیان میں تعطل کی نذر نہ ہو جائے) تو دوسری طرف پاکستان اور اُمت مسلمہ کو درپیش معاملات کے سلسلے میں اسے جنرل صاحب کی پالیسیوں سے جو اصولی اور جوہری اختلاف ہے‘ اس پر پوری استقامت دکھا کر تعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعانوا علی الاثم والعدوان (نیکی اور تقویٰ کے معاملات میں تعاون کرو مگر گناہ اور زیادتی و بے انصافی کے باب میں ہرگز تعاون نہ کرو) کے قرآنی اصول کے مطابق اپنی پالیسی پر ثابت قدم رہنے کی اعلیٰ مثال قائم کی گئی ہے۔

ہم اس امر کا بار بار اظہار کرچکے ہیں کہ ایل ایف او کا مسئلہ محض کوئی نظری مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس پر پورے نظام کے جواز (legitimacy)کا انحصارہے اور اس کے ساتھ ہی ملک کے مستقبل کے جمہوری نظام کے ارتقا کا دارومدار بھی اسی پر ہے۔ ایل ایف او کے تحت انتخابات میں شرکت ایک ناگزیر برائی اور ایک وقتی ضرورت تھی کہ اس کے بغیر جمہوری عمل شروع نہیں ہوسکتا تھا اور پارلیمنٹ اپنا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں آسکتی تھی۔ لیکن ایک بار جب پارلیمنٹ وجود میں آگئی اور سول حکمرانی کے دور کا آغاز ہوگیا تو اولین اہمیت اس چیز کو حاصل تھی کہ دستوری اور جمہوری مسلمات کے سلسلے میں ایل ایف او کے بنیادی انحرافات‘ کی تصحیح کر دی جائے اور وہ یہ ہیں:

                ۱-            دستوری ترمیم کا حق کسی ایک فرد کو حاصل نہیں ہے اور نہ سپریم کورٹ کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ خود دستوری ترمیم کرے یا کسی کو کرنے کا اختیار دے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تمام دستوری ترامیم منتخب پارلیمنٹ کے سامنے لائی جائیں اور وہ ان میں سے جن کو مناسب سمجھے قبول کرے اور جن کو ملک اور قوم کے مفاد کے خلاف سمجھے انھیں رد کر دے۔

                ۲-            جمہوریت کا سب سے بنیادی اصول عوامی نمایندوں کا یہ اختیار ہے کہ وہ دستور کی حفاظت کریں۔ دستور کے مطابق حکومت سازی کا فریضہ انجام دیں‘ قانون سازی اور پالیسی سازی کا منبع عوام کا منتخب ایوان ہو اور حکومت اور اس کے سارے کارپرداز (سول ہوں یا فوجی) اس کے سامنے جواب دہ ہوں اور اس کی طے کردہ پالیسی پر گامزن!

                ۳-            دستور‘ پارلیمنٹ اور منتخب نمایندوں پر کسی فرد یا گروہ کو بالادستی حاصل نہ ہو اور جس طرح سول انتظامیہ اور باقی تمام ادارے دستور کے مطابق سول حکومت کے ماتحت ہوتے ہیں‘ اسی طرح فوج بھی سول حکومت کے ماتحت ہو۔

                ۴-            ۱۹۷۳ء کے دستور میں اسلامی‘ پارلیمانی اور وفاقی نظام کا جو نقشہ قوم کے مکمل اتفاق سے وضع کیا گیا ہے اسے بحال کیا جائے اور پوری دیانت سے اس پر عمل کیا جائے۔ اگر یہ مقصد ایک جست میںحاصل نہ ہو تب بھی اقساط میں اور تدریج کے ساتھ اس ہدف کو حاصل کرنے کی جدوجہد کی جائے۔

بنیادی طور پر یہی چار چیزیں ہیں جن کے تحفظ کے لیے ایل ایف اوکے اوپر سارے مذاکرات ہوئے اور اس کی ۲۹ دفعات میں سے ۲۲ کو مصلحتاً قبول کر کے باقی سات میں ایسی ترامیم کرانے کی کوششیں کی گئیں جو دستور کو ان چاروں اصولوں سے کم سے کم حد تک ہم آہنگ کرسکیں۔ بلاشبہہ جو معاہدہ مجلسِ عمل اور حکومت کے درمیان ہوا ہے وہ معیاری نہیں‘ صرف گوارا حد تک قابلِ قبول ہے لیکن یہ حکمت کا تقاضا تھا کہ سیاسی تعطل سے نکلنے کے لیے کوئی راستہ بنایا جائے اور کم از کم حد تک جمہوری عمل کو شروع کردیا جائے تاکہ رخ تبدیل ہو‘ اور آیندہ زیادہ سیاسی قوت حاصل کر کے دستوری نظام اور سیاسی پالیسیوں کو مزید جمہوری بنایا جائے۔ گاڑی کو پٹڑی پر لانا پہلی ضرورت ہے۔ پھر اس کو اچھی رفتار سے چلانے اور منزل تک پہنچنے کے بہترین طریقوں پر گامزن کرنے کی سعی و جہد ہوسکتی ہے۔

یہی وہ مصلحت ہے جس کی بنا پر مجلسِ عمل نے کم سے کم قابلِ قبول پیکج کو قبول کرنے اور ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کو بھی واضح کر دیا ہے کہ ہمیں جنرل پرویز مشرف اور جمالی حکومت کی بیشترپالیسیوں سے شدید اختلاف ہے اور ہم ان کو اعتمادکا ووٹ کسی قیمت پر نہیں دے سکتے۔ ہم حزبِ اختلاف کا کردار ادا کرتے ہوئے ان پالیسیوں کو تبدیل کرانے کی جمہوری اور عوامی جدوجہد جاری رکھیں گے اور حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔

یہ حکمت کی شاہراہِ وسط ہے اور ہماری دعا ہے کہ حکومت اس اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے لیے اب کوئی اور چال نہ چلے اور جلد از جلد پارلیمنٹ میں دستوری ترامیم کا بل لاکر نئے سال کا آغاز ایک بہتر جمہوری فضا کو ہموار کرنے سے کرے۔ ہم علی وجہ البصیرت اس راستے کو اختیار کررہے ہیں اور ایک خاص لابی کی طرف سے ’’بی ٹیم‘‘ اور ’’ملا-ملٹری اتحاد‘‘ کی سطحی پھبتیوں سے آمریت سے جمہوریت کی طرف لوٹنے کی راہ کھوٹی نہیں کی جاسکتی۔ البتہ دو باتیں بہت صاف ہیں اور ان کے بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے۔

اولاً :ہم نے یہ دستوری پیکج وقت کی نزاکت اور ضرورت کے مطابق قبول کیا ہے اور اسے کم سے کم آخری حد(bottom line) کے طور پر اختیارکیا ہے۔ یہ ہماری حکمت عملی کا پہلا قدم ہے۔ جیسے جیسے ہمیں مزید عوامی تائید حاصل ہوگی اور دوسری سیاسی قوتوں کا تعاون ملے گا ہم مزید دستوری ترامیم کے ذریعے اپنے تصور کے مطابق اصلاحات کرنے کے لیے جدوجہد جاری رکھیںگے اور دستور کو ۱۹۷۳ء کے اصل دستور کی دفعات اور روح کے مطابق ایک حقیقی اسلامی پارلیمانی اور وفاقی دستور بنانے اور اس میں مزید بہتری لانے کی کوشش جاری رکھیں گے‘ نیز جہاں جہاں اور جس حد تک اس سے انحراف ہوا ہے اس کی تصحیح کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ موجودہ حالات میں دستوری اصلاح کا عمل ایک ہی ہلّے میں مکمل نہیں ہو سکتا۔

دوسری چیز یہ ہے کہ خارجہ اور داخلہ میدانوں میں جو غلط پالیسیاں جنرل صاحب نے اختیار کی ہیں اور جن کی طوعاً وکرہاً جمالی حکومت تائید کر رہی ہے‘ ان پر گرفت کرنے اور انھیں تبدیل کرنے کے لیے پارلیمانی اور عوامی جدوجہد ہم جاری رکھیں گے اور جہاں جتنی قوت ہمیں حاصل ہے اس کو ہر غلطی کی اصلاح کے لیے استعمال کریں گے۔ ہم عوامی قوت کو اس طرح منظم و موثر بناناچاہتے ہیں کہ پاکستان کی اسلامی اور جمہوری شناخت مضبوط تر ہو‘ ملک پر امریکی سامراجی اقتدار کی گرفت سے نجات حاصل کی جائے اور اپنی آزادی‘ حاکمیت‘ معاشی خودانحصاری‘ دفاعی صلاحیت اور نظریاتی اور تہذیبی تشخص کی مکمل حفاظت ہو‘ قومی کشمیرپالیسی اور ملت اسلامیہ سے ہماری وفاداری اور اس کے تمام مسائل کے بارے میں پوری یکسوئی کے ساتھ حق وانصاف کی مکمل پاس داری کرتے ہوئے ہم اپنا مثبت کردار ادا کرسکیں۔ دنیا کے تمام ممالک سے‘ بھارت سمیت‘ ہم دوستی کے قائل ہیں مگر یہ دوستی عزت اور حق وا نصاف کی بنیادوں پر ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ تاریخ کا یہی فیصلہ ہے کہ قوموں اور گروہوں کے درمیان دوستی اور تعاون اسی وقت پایدار ہوسکتے ہیں‘ جب وہ ہر قسم کے جبر‘ دبائو اور ناانصافی سے پاک ہوں۔ مجلسِ عمل اور تمام دینی اور جمہوری قوتیں ان شاء اللہ ان مقاصد کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی۔ ہماری جدوجہدکسی تصادم کے لیے نہیں ہے بلکہ ان مقاصد کے لیے عوام کو بیدار کرنے‘ ان کو منظم کرنے اور تمام دینی اور جمہوری قوتوں کو ملک و قوم کی آزادی اور اس کے اجتماعی مقاصد کے حصول کے لیے مسلسل سرگرم عمل رکھنے کے لیے ہے۔ یہ کام ہمیں حکمت اور استقامت کے ساتھ اور پورے تسلسل سے انجام دینا ہے۔ یہ کوئی وقتی کام نہیں بلکہ ایک مستقل ذمہ داری ہے جو جہدِمسلسل ہی سے پوری کی جا سکتی ہے۔


اس مہینے کا دوسرا اہم واقعہ راولپنڈی کے حساس علاقے میں لئی نالہ پُل کو پانچ بموں سے اڑانے سے متعلق ہے جس کا بظاہر ہدف جنرل پرویز مشرف کا قافلہ تھا۔ اس واقعے کی مذمت ہم نے بروقت کی اور تمام دینی اور سیاسی قوتوں نے اسے ایک مجرمانہ اور ناقابلِ معافی فعل قرار دیا ہے۔ ہم تشدد کی سیاست کے ہمیشہ سے مخالف ہیں اور اسے صحت مند معاشرے کے لیے ایک عظیم خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ ہم آج نہیں کہہ رہے بلکہ تحریکِ اسلامی کا پہلے دن سے یہ موقف ہے کہ تبدیلی کا صحیح طریقہ دعوتی‘ جمہوری اور دستوری طریقہ ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے اپنے دستور میں بڑے واشگاف الفاظ میں یہ کہا ہے‘ہمیشہ اس پر عمل کیا ہے اور سب کو اس کی دعوت دی ہے:

جماعت اپنے پیش نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی‘ یعنی تبلیغ و تلقین اور اشاعتِ افکار کے ذریعے سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور راے عامہ کو ان تعمیرات کے لیے ہموار کیا جائے جو جماعت کے پیشِ نظر ہیں۔ جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔(دفعہ ۵)

نیزقائدِ تحریک مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے دنیا کی تمام اسلامی تحریکات کو مخاطب کرتے ہوئے صاف لفظوں میں تلقین کی کہ اسلامی انقلاب کی راہ سازش اور تخریبی حربوں سے ہموار نہیں کی جاسکتی۔ ان کا ارشاد ہے:

اس سلسلے میں اسلامی تحریک کے کارکنوں کو میری آخری نصیحت یہ ہے کہ انھیں خفیہ تحریکیں چلانے اور اسلحے کے ذریعے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہیے۔ یہ بھی دراصل بے صبری اور جلدبازی ہی کی ایک صورت ہے اور نتائج کے اعتبار سے دوسری صورتوں کی بہ نسبت زیادہ خراب ہے۔ ایک صحیح انقلاب ہمیشہ عوامی تحریک ہی کے ذریعے برپا ہوتا ہے۔ کھلے بندوں عام دعوت پھیلایئے‘ بڑے پیمانے پر اذہان اور افکار کی اصلاح کیجیے۔ لوگوں کے خیالات بدلیے‘ اخلاق کے ہتھیاروں سے دلوں کو مسخر کیجیے اور اس کوشش میں جو خطرات اور مصائب پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ کیجیے۔ اس طرح بتدریج جو انقلاب برپا ہوگا‘ وہ ایسا پایدار اور مستحکم ہوگا جسے مخالف طاقتوں کے ہوائی طوفان محو نہ کرسکیں گے۔ جلدبازی سے کام لے کر مصنوعی طریقوں سے اگر کوئی انقلاب رونما ہو بھی جائے تو جس راستے سے وہ آئے گا اسی راستے سے وہ مٹایا بھی جا سکے گا۔ (’’دنیاے اسلام میں اسلامی تحریکات کے لیے طریق کار‘‘، تفہیمات‘ جلد سوم‘ ص ۳۶۲-۳۶۳)

مولانا مودودیؒ نے جنرل محمد ایوب کو بھی متنبہ کیا تھا کہ انھوں نے فوجی انقلاب کا راستہ اختیار کر کے قوم کو بہت غلط راستے پر ڈالا ہے۔ اسی طرح عالمِ اسلامی میں فوج کے سیاسی کردار پر انتباہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھاکہ ’’یاد رکھیے جو تبدیلی بندوق کی نالی سے آتی ہے وہ بندوق کی نالی ہی سے تبدیلی کا خطرہ مول لیتی ہے‘‘۔ اس اصولی پوزیشن کی روشنی میں راولپنڈی کے واقعے کو گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے جو باتیں سامنے آتی ہیں ان میں سے چند پر ٹھنڈے غوروفکر کی ضرورت ہے۔ یہ غوروفکر قوم کے تمام عناصر کے لیے بشمول اس ملک کی فوجی قیادت ضروری ہے ۔

پہلی بات یہ ہے کہ کسی بھی ملک یا قوم میں اصل استحکام اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب اس میں اولاً مکمل طور پر دستور اور قانون کی حکمرانی ہو‘ اور ثانیاً افراد کے مقابلے میں اداروں کے استحکام کی فکر کی جائے۔ حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت جو بات سیدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہی تھی وہ تاریخ کا روشن ترین سبق ہے۔ اُمت غم و اندوہ میں نڈھال تھی اور حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابی تک نے یہ کہہ دیا تھا کہ جو کہے گا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں‘ اس کا سر قلم کر دوں گا‘ لیکن دین حق اور مزاجِ نبوت کے شناسا حضرت ابوبکرؓ نے قرآن کی آیات تلاوت کر کے یاد دلایا کہ کوئی انسان ہمیشہ نہیں رہ سکتا۔ حی و قیوم صرف اللہ کی ذات ہے اور جس نے اللہ کے دین کو تھاما وہ استحکام کی راہ پر گامزن ہوا۔ یہی بات خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ علیکم بسنتی وسنۃ خلفاء الراشدین ‘یعنی مسلمانوں کے لیے صحیح راستہ اللہ کے رسول اور اس کے راشد خلفا کی سنت کی پیروی ہے ۔ گویا اللہ کا رسول اللہ کو پیارا ہوا لیکن اس کی سنت اور اس کے راستے پر چلنے والوں کی سنت ابدی ہے اور استحکام اور تسلسل کی ضامن ۔

لہٰذا استحکام قانون کی حکمرانی اور اداروں کے دوام سے حاصل ہوتا ہے۔ یہی وہ خیر ہے جسے دنیانے بھی تجربات سے سیکھا ہے۔ قومی معاملات میں استحکام اداروں کے مستحکم ہونے سے آتا ہے اور جہاں کسی نظام کا انحصار محض افراد پر ہو وہ بہت ہی بودا اور کمزور ہے۔ فرانس کے اس وزیراعظم کا مشہور واقعہ ہے جس کی قیادت میں فرانس نے جنگ عظیم اول میں کامیابی حاصل کی تھی کہ کوئی انسان ناگزیر نہیں۔ جب کسی نے کہا: جناب وزیراعظم! آپ فرانس کے اقبال کے لیے ناگزیر ہیں‘ تو اس نے یہ تاریخی جملہ کہا کہ ’’قبرستان ناگزیر انسانوں سے بھرا پڑا ہے‘‘۔ اور جب دوسری جنگ کے دوران ونسٹن چرچل سے پوچھا گیا کہ فتح کے بارے میں تمھارے اعتماد کی بنیاد کیا ہے تو اس نے کہا کہ اگر انگلستان کی عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تو انگلستان کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔

ہمارا اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ ہم نے اداروں کے استحکام کو نظرانداز کیا ہے اور ہر مدعی نے یہی ڈھونگ رچایا ہے کہ ملک کی سالمیت اور ترقی کا انحصار میری ذات پر ہے‘ میں ہی عقل کل اور ہر دستور اور قانون سے بالا ہوں۔ ملک غلام محمد نے بھی یہی کھیل کھیلا اور دستور ساز اسمبلی اور قانون کی حکمرانی کا تیا پانچہ کرڈالا۔ جنرل ایوب خان نے بھی یہی کیا اور جب ان پر دل کا دورہ پڑا تو  ٹی وی پر آکر چل پھر کر انھیں دکھانا پڑا کہ وہ زندہ ہیں۔ ایوب کا اپنا بنایا ہوا دستور ان کی زندگی میں ہی ان کا ساتھ نہ دے سکا اور خود انھوں نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کی جگہ مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف جنرل یحییٰ خاں (مارچ ۱۹۶۹ئ) کو اقتدار سونپ دیا۔ ایوب ہوں یا یحییٰ‘ ذوالفقارعلی بھٹو ہوں یا نواز شریف‘ جنرل ضیا الحق ہوں یا جنرل پرویز مشرف‘ سب اس مغالطے کا شکار اور اداروں کی کمزوری‘ تباہی اور عدمِ استحکام کے مجرم ہیں۔ اس واقعے کا اصل سبق یہ ہے کہ دستور‘ قانون اور اداروں کی فکر کی جائے اور انھیں مستحکم کیا جائے۔

دوسری بات سوچنے کی یہ ہے کہ کسی سطح پر بھی سیاست میں قوت اور گولی کے استعمال کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔ جس طرح سے یہ چیز افراد اور گروہوں کے لیے غلط ہے اسی طرح یہ ان لوگوں کے لیے بھی غلط ہے جن کو قوم اور ملک کی حفاظت اور اس کے دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم اور قوم کے تمام عناصر کو بشمول فوج اور پولیس اس پر غور کرنا چاہیے کہ ہر ایک اپنے اپنے دستوری دائرے میں رہ کر اپنا کردار ادا کرے۔ ’’قانونِ ضرورت‘‘ کے نام پر جس سیاسی دہشت گردی اور فوجی مداخلت کا دروازہ ہماری عدالتوں نے کھول دیا ہے‘ اب اسے ہمیشہ کے لیے بند ہوجانا چاہیے۔ سطحی انداز میں ایک دہشت گردی کی مذمت اور آئینی دہشت گردی کے دوسرے تمام اسالیب سے اغماض حالات کو سدھارنے کا راستہ نہیں۔ ہم پوری دیانت اور دردمندی سے دہشت گردی کے ہر راستے کو بند کرنا چاہتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ اس پر قوم کا اجماع ہو۔ سب کے لیے ضروری ہے کہ خلوصِ دل سے اپنی غلطیوں کا اعتراف کریں اور ان حدود کی پاسداری کا عہد کریں جو اداروں کے استحکام‘ دستوری نظام کی پرورش اور ترقی‘ قانون کی بالادستی اور حقوق کی مکمل پاسداری کی راہ ہموار کرسکے۔

اس افسوس ناک واقعے پر جنرل صاحب کے ممدوح ملک امریکہ کے ایک روزنامے واشنگٹن ٹائمز نے جو اداریہ لکھا ہے‘ اس کے کچھ حصے اس لائق ہیں کہ جنرل صاحب خود اور ان کے وہ ساتھی جو ہر روز جنرل صاحب کے ہاتھ مضبوط کرنے کے راگ الاپتے ہیں (اور درحقیقت وہ اداروں کو کمزور کرنے کی پالیسی پر عامل ہیں) ذرا غور سے پڑھیں:

قاتلانہ حملے کے واقعات عجیب اور حیرت انگیز ہیں۔ جس نے بھی بم نصب کیے اس نے بڑے حیرت انگیز طور پر کیا ہوگا اس لیے کہ ۸۰۰ سے ۱۰۰۰ پونڈ تک کے بم خفیہ طور پر اتارے اور نصب نہیں کیے جاسکتے۔ خاص طور پر اس لیے کہ یہ بم فوج کی دسویں کور کے ہیڈکوارٹر سے آدھے میل کے فاصلے پر اور ملک کے محفوظ ترین علاقے میں واقع پُل پر نصب کیے گئے تھے۔ امکانات یہ ہوسکتے ہیں کہ مشرف کے اندرونی حلقے میں سے کوئی اس کے خلاف سازش کر رہا ہے‘ یا اس کو ڈرامائی انداز سے تنبیہہ کر رہا ہے۔ غیر یقینی تفصیلات سے قطع نظر‘ قاتلانہ حملہ اس ضرورت کو واضح کرتاہے کہ پاکستان کو اپنے موجودہ صدر کے بغیر‘مستقبل کے لیے جمہوریت کو اندرونی طور پر مضبوط کرنے کی تیاری کرنا چاہیے۔ پاکستان میں کیا ہوتا اگر اس بم نے مشرف کو قتل کر دیا ہوتا؟ اس کے بارے میں اندازے لگائے جاسکتے ہیں۔ مگر اب اس پر سوچنا چاہیے۔ صدارتی قتل کے نتیجے میں سینیٹ کے چیئرمین محمد میاں سومرو اور وائس چیف آف آرمی اسٹاف جنرل یوسف اقتدار سنبھالیں گے۔ دونوں سیاسی طور پرکمزور شخصیات ہیں اور ان کی قیادت عدمِ استحکام اور غیریقینی صورت حال ---ایک فوجی انقلاب تک لے جائے گی۔ (اداریہ واشنگٹن ٹائمز‘ مشرف پر حملہ‘ ۱۸ دسمبر ۲۰۰۳ئ)

بات صرف واشنگٹن ٹائمز ہی کی نہیں۔ جب خود جنرل صاحب سے ۱۸ دسمبر والے انٹرویو میں رائٹر کے نمایندے نے اس مسئلے سے ان کا سامنا کرایا تو جنرل صاحب کا جواب شنید اور ان کے چہرے کی کیفیات دیدنی تھیں۔ ڈان اخبار کی رپورٹ ملاحظہ ہو:

بہت سے غیرملکی سرمایہ کاروں اور مغربی سفارت کاروں کو اندیشہ ہے کہ اگر جنرل مشرف جانشینی کے کسی واضح نظام کے بغیر مر گئے تو پاکستان عدمِ استحکام اور انتشار کا شکار ہوجائے گا۔ انھوں نے اس سے اتفاق کیا کہ نظام اور اداروں کو ابھی قائم ہونا ہے۔ جب اصرار کیا گیا کہ جانشینی کا نظام کیسے چلے گا؟ تو جنرل مشرف نے غیریقینی کا اظہار کیا: ’’میں نہیں سمجھتا کہ یہ کسی دوسرے جنرل کا مسئلہ ہے۔ میرے خیال سے یہ نظام کی بات ہے۔ ارے! میں نے تو اس پر درحقیقت سوچا ہی نہیں‘‘۔ پوچھا گیا کہ اتوار کے واقعے میں بال بال بچ جانے کے بعد‘ اس ممکنہ واقعے کے بارے میں اب سوچنا چاہیے تو انھوں نے اتفاق کیا: ’’ہاں‘ یہ کرنا چاہیے‘‘۔(رائٹر‘ ڈان‘ ۱۹ دسمبر ۲۰۰۳ئ)

ہم جنرل صاحب کے قافلے پر حملے کی ایک بار پھر مذمت کرتے ہیں اور اس رجحان کو قوم اور ملک کے لیے تباہ کن سمجھتے ہیں۔ لیکن ہم اُتنا ہی ضروری اس امر کا اظہاربھی سمجھتے ہیں کہ ملک کی سب سے بڑی ضرورت اداروں کا استحکام‘ دستور کا احترام‘ قانون کی بالادستی اور انصاف پر مبنی امن اور احترامِ باہمی ہے۔ اس سے ہٹ کر جو بھی راستہ اختیار کیا جائے گا وہ تباہی کا راستہ ہے اور اس سے ملک اور قوم کو بچانا اس کے تمام بہی خواہوں کا فرض ہے۔ واشنگٹن ٹائمز اور خود رائٹر کے نمایندوں نے جو سوال اٹھائے ہیں اور جنرل صاحب نے جو جواب دیے ہیں‘ کیا یہی وہ مستحکم جمہوریت (sustainable democracy) ہے جس کے عطا کرنے کا دعویٰ جنرل صاحب نے کیا ہے؟


اس مہینے کا تیسرا اہم واقعہ کشمیر پر جنرل پرویز مشرف کا افسوس ناک ہی نہیں شرم ناک یوٹرن (U-turn) ہے۔ ۱۸دسمبر کو رائٹر کو دیے جانے والے انٹرویو ہی میں انھوں نے ۵۶سالہ قومی پالیسی کو دریابرد کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کی قراردوں کو ایک طرف رکھ کر استصواب کے متبادل سرابوں کی بات کی ہے اور اسے ’’لچک‘‘ اور ’’میانہ روی‘‘سے تعبیرکیا ہے‘ اور اس خطرے کا بھی اظہار کر دیا ہے کہ اگر بھارت ان کی اس half-way پسپائی کا خیرمقدم نہیں کرتا تو پاکستان میں انتہا پسندوں کو اُبھرنے کا موقع مل جائے گا۔

جنرل صاحب کے الفاظ ان کے ذہن اور منصوبوں کو سمجھنے کے لیے سامنے رکھنا ضروری ہیں:

ہم اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے حق میں ہیں لیکن اب ہم نے ان کو ایک طرف رکھ دیا ہے۔ ہرچیز‘ خود عسکریت پسندی میں کمی بنیادی طور پر مکالمے کے عمل کی طرف آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر یہ سیاسی مکالمہ واقع نہیں ہوتا‘ تو کون جیتے گا اور کون ہارے گا؟ یہ اعتدال پسند ہیں جو ہاریں گے اور انتہاپسند ہیں جو جیتیں گے اور ٹھیک یہی دراصل واقع ہو رہا ہے۔

جنرل صاحب نے اتنے کھل کر یہ بات پہلی بار کہی ہے لیکن صاف نظر آ رہا تھا کہ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعے اور اس کے بعد امریکہ کی گرفت میں جکڑے جانے کے بعد وہ آہستہ آہستہ اس مقام کی طرف پسپائی اختیار کر رہے ہیں۔ انھوں نے لچک کی بات بار بار کی۔ پھر وہ چار نکاتی فارمولے کا راگ الاپتے رہے جس میں سیاست خارجہ کا ایک مضحکہ خیز اصول انھوں نے وضع کیا کہ ہر وہ حل ترک کر دیا جائے جو کسی بھی فریق کے لیے قابلِ قبول نہ ہو۔ اس کا نتیجہ بندگلی کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ پھر انھوں نے جنگِ آزادی اور حق خوداختیاری کے لیے جدوجہد اور دہشت گردی کے فرق کو عملاً نظرانداز کرنا شروع کر دیا‘ حتیٰ کہ بھارت کی نام نہاد سرحد پار دہشت گردی کے الفاظ تک کی بازگشت خود ان کے بیانوں میں سنائی دینے لگی۔ پھر اعتماد قائم کرنے والے اقدامات (CBMs)کے گن گائے جانے لگے۔

اس کے بعد وہ قلابازی لگائی گئی جو بھارت کی ۵۶سالہ سرحدی خلاف ورزیوں کا خود بھارت کے لیے ایک انعام تھی‘ یعنی خلاف ورزیوں کا نشانہ بننے والوں کی طرف سے سیزفائر اور اسے سیاچن تک پھیلا دینا! اس کے بعد ایک ہی اور بم ہو سکتا تھا اور وہ جنرل صاحب نے خود ہی ۱۸دسمبر کو ۱۹۷۱ء کے ۱۶دسمبر کا ماتم کرنے والی قوم پر داغ دیا۔ بھارت برابر اعلان کررہا تھا کہ اقوامِ متحدہ کی قرردادیں بے کار اور غیرمتعلق ہوچکی ہیں۔ اس بارے میں جنرل صاحب نے یہ کہہ کر کہ ہم اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے رضاکارانہ طور پر دستبردار ہوتے ہیں ایسے صدمے سے دوچار کیا ہے قوم سکتے کے عالم میں ہے۔ جمالی صاحب کہہ رہے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں ہی کشمیر کے مسئلے کا حل ہوسکتی ہیں۔ وزیرخارجہ معذرتیں کر رہیں کہ جنرل صاحب کا مفہوم یہ نہیں‘ وزیراطلاعات اپنے ردے چڑھانے کی مشق فرما رہے ہیں۔ وزارتِ خارجہ کا ترجمان سرکھجلا رہا ہے‘ مگر جنرل صاحب نے وہ اعلان کر ڈالا جس سے بھارت کی قیادت کی باچھیں کھل گئیں اور ان کے ایوانوں میں گھی کے چراغ جلائے گئے اور امریکہ اُچھل پڑا کہ بالآخر پاکستان نے ریفرنڈم سے دستبرداری کا اعلان کر دیا۔

بات بہت واضح ہے اور وزیرخارجہ‘ وزیراطلاعات اور دفترخارجہ کی یاوہ گوئیاں اس پر پردہ نہیں ڈال سکیں۔ امریکہ اور بھارت نے اپنا مقصد بظاہر حاصل کرلیا ہے۔ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان رچرڈ بوشر (Richard Boucher) کے الفاظ قابلِ غور ہیں:

امریکہ صدر مشرف کی تجویز کا خیرمقدم کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کشمیر کی حیثیت متعین کرنے کے لیے ریفرنڈم کے مطالبے کو ترک کرنا ایک تعمیری قدم ہے۔

اس پر بھارت کا ردعمل بھی قابلِ غور اور ہماری قیادت کے لیے مقامِ عبرت ہے۔ جنرل صاحب کے اعلانِ پسپائی پر نہ صدرِ مملکت گویا ہوئے اور نہ بھارتی وزیراعظم۔ کابینہ کی سلامتی کی کمیٹی نے باقاعدہ اس پر غور کیا (ہمارے وزیراعظم کو تو بیان کا علم بھی نہ تھا) اور وزیرخارجہ یشونت سنہا نے کہا:

اگر کشمیر کے بارے میں پاکستان کے موقف میں تبدیلی آگئی ہے یا اس میں کوئی اصلاح اور ترمیم کی گئی ہے تو بھارت اس کا خیرمقدم کرے گا۔ سخت گیر موقف پاکستان نے اختیار کر رکھا تھا اور وہ مذاکرات میں کشمیر کو مرکزی حیثیت دینے پر اصرار کرتا تھا ‘ جب کہ ہم نے ہمیشہ لچک کا مظاہرہ کیا۔

اور پھر اس لچک کی ایک جھلک کشمیر کے اخبار کشمیر ایج کو انٹرویو دیتے ہوئے یشونت سہنا نے دکھائی:

پاکستان کشمیر میں عسکریت پسندی کی حمایت ترک کر دے کیونکہ کشمیر میں انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہو رہی۔ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے جس سے ہم کسی صورت دستبردار نہیں ہوسکتے۔

ستم ظریفی ہے کہ پاکستان کے کمانڈو صدر جنرل پرویز مشرف کے اس اعلان کے صرف پانچ دن پہلے نئی دہلی میں امریکہ کی سابق وزیرخارجہ مینڈلین آل برائٹ نے تو بھارتی قیادت کی موجودگی میں اور پاکستان کی ایک سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے مصالحتی بیانات پر ٹھنڈا پانی انڈیلتے ہوئے کہا تھا :

میرا خیال ہے کہ استصواب یا ریفرنڈم ہی کشمیری عوام کی مرضی معلوم کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ میں نہیں سمجھتی کہ اس کا کوئی اور راستہ بھی ہے۔

لیکن اپنے ہی جرنیل صاحب نے جو کارگل کے ہیرو بھی سمجھے جاتے ہیں‘ استصواب رائے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا اور اسے لچک‘ آدھا رستہ طے کرنا اور اعتدال کا رویہ قرار دیا  ع اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے --- گویا اب ہر پسپائی بہادری اور جرأت مندی ہے۔ اصولوں سے ہر انحراف کا نام اعتدال اور ماڈریشن ہے‘ حق پر اصرار انتہاپسندی ہے اور آزادی اور خودمختاری کی بات تشدد اور دہشت گردی کے مترادف ہیع

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے!

جنرل صاحب کا یہ اعلان درحقیقت اس بگاڑ کا ایک مظہر ہے جو شخصِ واحد کی حکمرانی اور ایل ایف او کے نام پر انھیں مختارِ کل بنا دینے کا نتیجہ ہے۔ جب ایک شخص پورے نظام کا کرتا دھرتا بن جائے اور ہر جواب دہی اور احتساب سے بالا ہو‘ نہ اسے کابینہ کی ضرورت کا احساس ہو‘ اور نہ اس کی رائے کا خیال ہو اور نہ پارلیمنٹ کی ہم نوائی اور تائید اس کے لیے کوئی اہمیت رکھتی ہو‘ اور نہ قوم کے احساسات‘ جذبات اور عزائم کی اس کی نگاہ میں کوئی وقعت ہو تو پھر قومیں ایسے ہی انحرافات اور حادثات سے دوچار ہوتی ہیں۔ مشرقی پاکستان ہم نے اس کے نتیجے میں کھو دیا۔ فلسطین کے معاملے میں یاسرعرفات نے یہی کیا۔ عراق میں صدام یہی کھیل کھیلتا رہا اور بالکل اسی طرح اب کرنل قذافی نے بھی ہر احتساب سے بالاہو کر اپنی دفاعی صلاحیت کو خود ہی دریابرد کر دیا ہے اور کوئی نہیں جو تباہی کے اِنھی ہتھیاروں کے بارے میں اسرائیل کا نام بھی لے! آمریت اور فردِ واحد کی حکمرانی کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ دراصل یہ اس نظام کا بگاڑ ہے جس میں قوم‘ پارلیمنٹ‘ کابینہ‘ سب غیرمتعلق ہو کر رہ جاتے ہیں۔

ہمارا سب سے پہلا اعتراض یہی ہے کہ جنرل صاحب کو اس اعلان کا حق اور اختیار کس نے دیا؟ انھوں نے دستور‘ قانون‘ روایات‘ قومی احساسات و عزائم‘ ہر چیزکی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور قوم کی قسمت سے کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی صدارت آج تک آئینی و اخلاقی جواز سے محروم ہے۔ چیف آف اسٹاف بھی وہ محض خود اپنے دعوے اور خود اپنی مدت ملازمت کو توسیع دینے سے بنے ہوئے ہیں جس کا کوئی قانونی اور دستوری جواز نہیں۔ خارجہ پالیسی ہو یا داخلی معاملات‘ دستور کے تحت صدر وزیراعظم کی ہدایت (ایڈوائس) کا پابند ہے‘ بجز ان معاملات کے جہاں دستور نے اس کو اختیار (discretion) دیا ہو۔ لیکن جنرل صاحب خود کو کسی دستور‘ قانون اور ضابطے کے پابند نہیں اور یہ دستوری نظام سے ایسا انحراف ہے جس کی کسی کو اجازت نہیں دی جاسکتی۔

دوسری بات یہ ہے کہ کشمیر کا معاملہ پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اسے قائداعظم نے شہ رگ قرار دیا تھا اور اسے قیامِ پاکستان کے نامکمل ایجنڈے کی حیثیت حاصل ہے۔ کشمیر کا تنازع محض پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی سرحدی تنازع نہیں ہے جیسا کہ بے نظیربھٹو نے بھارت اور چین کے سرحدی تنازعے کے مماثل قرار دے کر کیا ہے۔ یہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا مسئلہ ہے جس کے بڑے حصے پر بھارت نے ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے اور اس قبضے کو پاکستان ہی نہیں‘ اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی قانون کے تحت ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ جموں و کشمیر کے عوام نے اس غاصبانہ قبضے کو قبول نہیں کیا اور اس کے خلاف سرگرمِ جہاد ہیں اور بیش بہا قربانیاں دے رہے ہیں۔ پاکستان کی سلامتی اور معاشی وجود ریاست جموں و کشمیرکے مستقبل سے وابستہ ہے۔ پاکستان کے دستور میں دفعہ ۲۵۷ موجود ہے جو کشمیر کے مستقبل کو استصواب رائے سے وابستہ کرتی ہے۔ یہ ہمارا قومی موقف ہے اس میں تبدیلی کا کسی کو اختیار نہیں۔

یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ کشمیر کے مسئلے پر ہمارا اور کشمیری عوام کا موقف جس قانونی‘ سیاسی اوراخلاقی بنیاد پراستوار ہے وہ اقوام متحدہ کی قراردادیں ہی ہیں۔ بھارت نے یہ دعویٰ کیا کہ ڈوگرہ مہاراجا نے بھارت سے الحاق کی دستاویز پر دستخط کر دیے ہیں (جس کا کوئی ثبوت نہیں)۔ پھر ایک نام نہاد دستور ساز اسمبلی نے اس الحاق کی توثیق کر دی اور اس طرح وہ بھارت کا اٹوٹ انگ بن گیا۔ اقوامِ متحدہ نے بھارت کے اس دعوے کو غلط قرار دیا اور بالآخر خود بھارت نے تسلیم کیا کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ہونا باقی ہے جو وہاں کے عوام کی مرضی کو استصواب کے ذریعے معلوم کر کے کیا جائے گا۔

وقت کے گزرنے سے اس مسئلے کے قانونی‘ سیاسی اور اخلاقی کسی بھی پہلو پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یورپی استعمار کئی صدیوں تک درجنوں ممالک پر قابض رہے مگر اس سے ان کے آزادی کا حق متاثر نہیں ہوا۔ میکائوکا چینی علاقہ ۵۰۰ سال استعمار کے قبضے میں رہا لیکن اس پر چین کا حق ثابت رہا اور بالآخروہ چین کو حاصل ہوگیا۔ ہانگ کانگ ۱۰۰سال برطانیہ کے قبضے میں رہا لیکن پھر چین کی طرف لوٹا۔ مرورزمانہ کا ان معاملات پر کبھی اثر نہیں پڑتا لیکن ظلم ہے کہ جس طرح برطانوی سامراج نے کشمیری عوام کو نظرانداز کرکے ڈوگروں کے ہاتھوں انھیں فروخت کر دیا تھا اسی طرح ہم اقوامِ متحدہ کی قراردادوں سے دستبردار ہوکر خود اپنے اور کشمیری عوام کے قانونی موقف پر خاک ڈال رہے ہیں۔ اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ہٹا دیا جائے تو پھر ڈوگرہ مہاراجا کی دستاویز الحاق کے سوا کیا چیز باقی رہ جاتی ہے؟

اقوامِ متحدہ کی قراردادوں میں بہت کچھ ہے اور چند باتوں کا تعلق استصواب کے  طریق کار کی تفصیلات سے ہے جو جزوی اور ضمنی ہیں۔جوہری باتیں صرف تین ہیں‘ یعنی:

                ۱-            جموں و کشمیر کی ریاست کے مستقبل کا مسئلہ متنازع اور غیرتصفیہ شدہ ہے اور اس امر کو ابھی طے ہونا ہے کہ ریاست کے مستقبل کی حیثیت (status) کیا ہوگی؟

                ۲-            ریاست کے مستقبل کا فیصلہ ریاست کے عوام اپنی آزاد مرضی سے کریں گے۔

                ۳-            یہ فیصلہ بین الاقوامی انتظام میں آزاد استصواب رائے کے ذریعے ہوگا جس میں بھارت یا پاکستان کسی کی مداخلت نہ ہو‘ اور وہاں کے عوام شفاف طریقے سے اپنا مستقبل طے کر لیں۔

یہ کوئی سرحدی تنازع نہیں اور نہ کوئی فرقہ وارانہ مسئلہ ہے جیسا کہ بھارت دعویٰ کرتا ہے۔ اب ذرا غور کیجیے کہ جن قراردادوں کو ایک طرف رکھ دینے کی بات جنرل صاحب نے کی ہے وہ کیا اصول طے کر رہی ہیں اور ان کو ایک طرف رکھنے سے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔

سب سے اہم مرکزی قرارداد ۵ جنوری ۱۹۴۹ء کی ہے۔ UNCIP کی یہ قرارداد اہم قانونی بنیاد ہے جس میں یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ:

ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کا مسئلہ ایک آزادانہ اور غیرجانبدار استصواب کے جمہوری ذریعے سے طے کیا جائے گا۔

یہ قرارداد ۱۳؍اگست ۱۹۴۸ء کی قرارداد پر مبنی ہے جس میں پاکستان اور بھارت نے اس اصول کو تسلیم کیا تھا یعنی:

حکومتِ ہندستان اور حکومتِ پاکستان اپنی اس خواہش کا ازسرنو اعلان کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر کی ریاست کے مستقبل کی حیثیت کا تعین عوام کی رائے کے مطابق کیا جائے اور اس مقصد کے لیے طے شدہ شرائط کے مطابق دونوں حکومتیں کمیشن کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر رہی ہیں تاکہ ایسے منصفانہ اور معتدل حالات پیدا کیے جاسکیں جن میں آزادانہ اظہار یقینی ہو۔

جب بھارت نے کشمیر میں نام نہاد دستور ساز اسمبلی کے ذریعے ان قراردادوں سے نکلنے کی کوشش کی تو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے ۲۴ جنوری ۱۹۵۷ء کو دو ٹوک الفاظ میں یہ طے کیا:

The Security Council,

Having heard statements from representatives of the Governments of India and Pakistan concerning the dispute over the State of Jammu and Kashmir,

Reminding the Government and authorities concerned of the principle embodied in its resolutions of 21 April 1948 (S/726), 3 June 1948, March 1950 (S/1469) and 30 March 1951 (S/2017/Rev,1), and the United Nations Commission for India and Pakistan resolutions of 13 August 1948 (S/1100, Para 75) and 5 January 1949 (S/1196, Para 15),that the final disposition of the State of Jammu and Kashmir will be made in accordance with the will of the people expressed through the democratic method of a free and impartial plebiscite conducted under the auspices of the United Nations,

1. Reaffirms the affirmation in its resolution of 30 March 1951 and declares that the  convening of a Constituent Assembly as recommended by the General Council of the "All Jammu and Kashimr National Conference" and any action that Assembly may have taken or might attempt to take to determine the future shape and affiliation of the entire State or any part thereof, or action by the Assemby, would not constitute a disposition of the State in accordance with the above principle;

2. Decides to continue its consideration of the dispute.

(Resolution Adopted by the Security Council, 24 January 1957 (S/3779).

واضح رہے کہ اقوامِ متحدہ اور اس کے متعلقہ اداروں نے کشمیر کے مسئلے پر ۱۸ قراردادیں منظور کی ہیں اور کشمیر کا مسئلہ آج بھی اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے پر موجود ہے۔

ہم یہ بات بھی بڑے دکھ سے کہنے پر مجبور ہیں کہ جس طرح جنرل صاحب قِسم قِسم کے بیانات کی چاند ماری کر رہے ہیں اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیاست خارجہ کے بنیادی اصولوں اور اسالیب تک سے ناواقف ہیں۔ ایسے اعلانات کر کے وہ خود اپنی قوم کے پائوں پر کلہاڑی ما رہے ہیں۔

یہ بھی سفارت کاری کا ایک اصول ہے کہ مذاکرات شروع ہونے سے پہلے کوئی کھلاڑی اپنے بہترین پتے میز پر نہیں ڈالتا لیکن جنرل صاحب کا انداز ایک ماہر سفارت کار کا نہیں ایک اناڑی جواری کا سا ہے جس کے مقدر میں اپنی دولت لٹانے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔

بھارت کی قیادت سے معاملہ کرنے کا گر کسی کو سیکھنا ہو تو قائداعظم سے سیکھے جنھوں نے کانگریس کی قیادت سے پچاس سال چومکھی لڑی اور بالآخر پاکستان حاصل کر کے رہے۔ نہرو اور بھارتی صحافت ان پر پھبتی کستے تھے کہ جناح کے پاس کیا دھرا ہے وہ ایک ٹائپ رائٹر کے سہارے اپنی لڑائی لڑ رہے ہیں لیکن قائداعظم نے قوم کو ساتھ لے کر دو دشمنوں کا مقابلہ کیا یعنی انگریز حکمران اور کانگریس قیادت۔

۱۹۰۶ء میں جداگانہ انتخاب کے مطالبہ سے لے کر ۱۹۴۶ء میں مشرقی اور مغربی پاکستان کے لیے راہداری کے مطالبے تک وہ کانگریس کی قیادت سے جان دار سفارت کاری کے ذریعے اپنے مطالبات منواتے رہے‘ اور ہر کامیابی کے بعد نئے مطالبات پر بات چیت کے لیے اسے مجبور کرتے رہے‘ جب کہ ہماری قیادت کایہ حال ہے کہ نیوکلیر پاور ہوتے ہوئے بھی صرف رعایتیں دے رہے ہیں‘ بھارتی مطالبات مان رہے ہیں‘ مسلسل پسپائی اختیار کررہے ہیں اور پھر بھی ابھی تک ان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی بھیک ہی مانگ رہے ہیں۔ سفارت کاری کا یہ اسلوب ذہنی شکست اور سیاسی اور مادی کمزوری کا مظہر ہے۔ جنرل صاحب نے یہ راستہ اختیار کرکے پوری قوم کا منہ کالا کیا ہے اور ہمارے قومی مفاد پر ضرب کاری لگائی ہے۔ امریکہ کے آگے تو انھوں نے گھٹنے ٹیکے ہی تھے اور اب بھارت کے آگے بھی ہتھیار ڈالتے نظر آرہے ہیں۔ کیا قوم نے اس ملک کی فوج کو اپنا پیٹ کاٹ کر اسی ذلّت کے لیے منظم اور مضبوط کیا تھا؟

ہم صاف کہنا چاہتے ہیں جنرل صاحب نے جو کچھ کہا ہے ‘وہ ان کی ذاتی پسپائی تو ہو سکتی ہے پاکستان کی قوم کی پالیسی اور موقف نہیں ہو سکتا اور جموں و کشمیر کے غیور مسلمان بھی اس سے برأت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اپنی آزادی‘ ایمان اور تہذیبی شناخت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے۔ وہ سیاسی جدوجہد سے اپنا حق حاصل کرنے کے لیے لڑرہے ہیں اور ان شاء اللہ ایک دن اسے حاصل کر کے رہیں گے۔ بھارت کی سات لاکھ فوج ان کے عزم و ایمان اور جذبۂ جہاد کو مضمحل نہ کرسکی۔ موجودہ پاکستانی قیادت کی بے وفائی بھی ان شاء اللہ ان کی ہمتوں کو پست نہیں کر سکتی اور ان کو یقین ہے کہ پاکستانی قوم ان کے ساتھ ہے اور سب سے بڑھ کر وہ جن کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت ان کا اصل سہارا ہے۔ پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ کشمیر پالیسی کا ایک بار پھر صاف الفاظ میں اعلان کرے اور جنرل صاحب کا احتساب کرے تاکہ وہ یا کوئی اور طالع آزما قوم کے اصولی موقف سے ہٹ کر کوئی بات نہ کہہ سکے۔

کشمیر کا مسئلہ پوری قوم کا مسئلہ ہے اور بھارت ہی نہیں پوری دنیا کو اس حقیقت کو سمجھ لینا چاہیے کہ امن وہی دیرپا ہو سکتا ہے جو انصاف پر قائم ہو۔ ظلم اور مجبوری کی خاموشی یا محکومی ہمیشہ عارضی ہوتی ہے اور حق بالآخر غالب ہوکر رہتا ہے۔ پاکستانی قوم اور جموں و کشمیر کے مسلمان ان ۸۰ ہزار شہیدوں کے خون سے کبھی غداری اور بے وفائی نہیں کریں گے جنھوں نے حق اور اصول کی خاطر اپنی جانیں دی ہیں۔ سیاسی جدوجہد ہو یا فوجی مقابلے--- ان میں نشیب و فراز توآسکتے ہیں اور آتے رہتے ہیں لیکن جو قوم اپنی آزادی اور ایمان کی حفاظت کے لیے جان کی بازی لگانے کا عزم کرلیتی ہے پھر اسے کوئی محکوم نہیں کر سکا۔ عزت اور آزادی وہ چیزیں ہیں جن کا سودا نہیں کیا جاتا اور حق وہ شے ہے جو اپنی ذات میں حق ہے۔ وہ اعتدال‘ سمجھوتے اور انتہاپسندی کی اصطلاحوں سے بالاتر شے ہے۔ نہ وہ کسی تراش خراش کا متحمل ہوتا ہے اور نہ اسے کسی جھوٹے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کی بیساکھیوں کا محتاج نہیں‘ بلکہ خود اپنی بنیادوں پر قائم ہوتا ہے اور بالآخر باطل پر غالب رہتا ہے۔ جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقًا۔

آج پاکستانی قوم کے سامنے اصل سوال یہ نہیں ہے کہ امریکہ اور بھارت کی خوشنودی حاصل کرکے کیا اور کہاں کہاں لچک دکھائے بلکہ اصل ایشو یہ ہے کہ اپنی آزادی‘ اپنا ایمان‘     اپنا دین‘ اپنی تہذیب‘ اپنی معیشت اور اپنی عزت کی حفاظت کے لیے کس طرح سینہ سپر ہوجائے تاکہ باہرسے دبائو ڈالنے والوں اور اندر سے دبنے والوں دونوں کا مقابلہ کر کے اپنا اصل مقام حاصل کرے۔ استقامت اور حکمت ہی ہمارا اصل زادِ راہ ہیں اور سب سے بڑھ کر اللہ پر بھروسا اور اس سے مدد اور نصرت کی طلب!

جوئے خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے

آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا؟