پروفیسر خورشید احمد


جمہوریت کی برکات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حکومتوں کو عوام کی خواہشات اور ضروریات کا کچھ نہ کچھ خیال رکھنا پڑتا ہے اور اگر جواب دہی کا موثر نظام موجود ہو تو یہی چیز وسائل کے بروقت استعمال اور عوام کی مشکلات کے حل کا اہم ذریعہ بن سکتی ہے۔ آمریت کے ادوار میں تو ساری توجہ ورلڈبنک ‘ آئی ایم ایف اور فوجی اور سول بیوروکریسی کی دل پسند ترجیحات پر مرکوز رہتی ہے‘ لیکن جیسے ہی الیکشن کے آثار رونما ہوتے ہیں فوجی حکومت بھی عوام کے لیے سہولتوں کی باتیں (کم ازکم باتیں) کرنے لگتی ہے اور الیکشن کے نتیجے میں رونما ہونے والی حکومتیں تو بڑھ چڑھ کر عوام کے مسائل ہی کو اپنی ترجیح بتاتی ہیں۔ اعلانات کی بارش شروع ہو جاتی ہے۔ یہ اسی وقت خوش آیند ہے جب ان پر عمل ہو اور صرف نمایشی اقدامات پر قناعت نہ کی جائے‘ بلکہ حقیقی مسائل کو وسائل کے موثر استعمال‘ صحیح ترجیحات اور بدعنوانی کو لگام دے کر حل کیا جائے۔

اس پس منظر میں پنجاب کی صوبائی حکومت کا اپنی کابینہ کے پہلے ہی اجلاس میں (۴جنوری ۲۰۰۳ئ) یہ اعلان کہ صوبے میں میٹرک تک سرکاری اور ضلعی اداروں میں تعلیم مفت ہوگی۔ تازہ ہوا کا ایک خوش گوار جھونکا ہے۔ سرحد کی حکومت نے بھی اپنی دوسری اصلاحات کے ساتھ جن میں وی آئی پی کلچر کا خاتمہ اور فحاشی اور بے راہ روی پھیلانے والے چند اقدامات پر گرفت اور اُردو کو سرکاری زبان بنانا شامل ہے ‘میٹرک تک مفت تعلیم کا اعلان (۲۱ جنوری ۲۰۰۳ئ) کر دیا ہے۔ ہم ان اقدامات کا خیرمقدم کرتے اور انھیں مستقبل کے لیے ایک نیک فال تصور کرتے ہیں۔ ہم اس توقع کا اظہار بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ باقی دو صوبوں کی حکومتوں کو بھی اس سلسلہ میں جلد اقدام کرنا چاہیے‘ تاکہ پورے ملک میں سرکاری اور ضلعی حکومت کے تحت چلنے والے تعلیمی اداروں میں میٹرک تک تعلیم مفت ہو اور ملک کے طول و عرض میں کم از کم اس محدود میدان میں یکسانی پیدا ہو۔ ہم ان اقدامات کی خوش الحانی پر مایوسی کا کوئی سایہ ڈالنا نہیں چاہتے لیکن صرف امر واقعہ کے طور پر یہ بات ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں کہ ۱۹۷۲ء میں جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے نام نہاد عوامی دور کا آغاز جن چند اقدامات سے کیا تھا‘ ان میں ملک بھر میں میٹرک تک مفت تعلیم بھی شامل تھی لیکن یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوا۔ اصل میزان عمل ہے‘ اعلان نہیں اس لیے اب ان منتخب حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ اس فیصلہ پر لفظ و معنی ہر دو اعتبار سے پورا پورا عمل کروائیں۔

اس اقدام کی تحسین کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ان حکومتوں کو اس طرف متوجہ کیا جائے کہ تعلیم کا اصل مسئلہ کیا ہے؟ سرکاری اسکولوں میں پرائمری تعلیم مفت ہے اور میٹرک تک تعلیم کے لیے ۵ روپے ماہانہ سے ۲۰ روپے ماہانہ تک فیس ہے۔ اس رقم کا بوجھ غریب عوام کی پشت سے اگر کم ہو جائے تو یہ اچھا ہے لیکن اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ فروغ تعلیم کے لیے یہ اقدام مشکل کشا ہوگا تو بڑا گمراہ کن ہوگا۔ غریب بچوں پر سرکاری اسکولوں میں فیس کے علاوہ سب سے زیادہ بوجھ کتابوں اور اسٹیشنری کا ہے جو فیس سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال ہر بچے کے والدین پر آٹھ سو سے ایک ہزار روپے تک کا بوجھ اس عنوان سے پڑتا ہے۔ پھر یونیفارم کا مسئلہ ہے‘ ہم نصابی سرگرمیوں کے لیے چندہ ہے‘ پورے دن کے اسکولوں میں بچوں کی خوراک بھی ایک مسئلہ ہے۔ مفت تعلیم اسی وقت مفت ہو سکتی ہے جب ان سب کی ذمہ داری ریاست اور معاشرہ لے جو اس کا فرض ہے۔ بنیادی تعلیم ایک حق ہے جسے کاروباری ذہن سے ادا نہیں کیا جا سکتا۔

یہ سب بجا‘ لیکن سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری اداروں میں تعلیم کا معیار اتنا پست اورتعلیمی سہولتوں (بلڈنگ‘ صفائی‘ روشنی‘ پانی‘ لائبریری‘ اچھا استاد وغیرہ) کی فراہمی ایسی زبوں حالی کی تصویر پیش کرتی ہے کہ اس کا تصور بھی مشکل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نجی اداروں کی جو ریل پیل ہے اس کی اصل وجہ سرکاری اور ضلعی انتظام میں چلنے والے تعلیمی اداروں کی بدحالی ہے۔ غریب سے غریب انسان بھی اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے لیے ان اداروں کو قتل گاہیں سمجھتا ہے اور پیٹ کاٹ کر اور قرض لے کر اپنے بچوں کو پرائیویٹ اداروں میں بھیجنے کی فکر کرتا ہے۔ اصل مسئلہ سرکاری تعلیمی اداروں کے معیار‘ ان کی بلڈنگ اور سہولتوں اور سب سے بڑھ کر اچھے تربیت یافتہ اور  جذبے سے بھرپور اساتذہ کی فراہمی ہے۔ جب تک اس لحاظ سے صورتِ حال درست نہیں ہوتی عوام کا رجوع سرکاری تعلیمی اداروں کی طرف نہیں ہو سکتا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ محکمہ تعلیم تک کے افسر اپنے بچوں کو سرکاری تعلیمی اداروں میں بھیجنا پسند نہیں کرتے؟ اصل مسئلہ سرکاری تعلیم اور نجی تعلیمی اداروں کے تعلیمی معیار کے تفاوت کو دُور کرنا ہے اور جب تک آپ سرکاری تعلیمی اداروں کو اتنا پُرکشش نہیں بناتے کہ والدین نجی اداروں کا رُخ نہ کریں‘ تعلیم کا مسئلہ علیٰ حالہ باقی رہے گا اورگمبھیرنہ ہوتا جائے گا۔

پھر تعلیمی پالیسی کے مسائل بھی فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ نجی تعلیمی اداروں کو قومی تعلیمی پالیسی کے فریم ورک میں لانا‘ ان کے لیے نگرانی کا‘ خصوصیت سے نظریاتی اور ثقافتی معاملات میں بہت ضروری ہے۔ آج ہمارے ملک میں ایک نہیں کئی کئی تعلیمی نظام چل رہے ہیں‘ کچھ اشراف اور متمول گھرانوں کے لیے اور کچھ مجبور اور بے وسیلہ طبقوں کے لیے۔ یہ چیز قوم کو نظریاتی‘ اخلاقی‘ معاشی اور ثقافتی حیثیت سے ٹکڑوں میں بانٹ رہی ہے ۔ اس سے طبقاتی تفاوت ہی پیدا نہیں ہو رہا‘ طبقاتی جنگ کے لیے بھی زمین ہموار ہو رہی ہے۔ نجی اداروں میں بے مہار انداز میں پبلک اسکول‘ اور کونونٹ اسکول ہی کم مصیبت نہ تھے کہ انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم بنانے اور بیرونی تعلیمی نظاموں (او لیول/ اے لیول) سے رشتہ جوڑنے کے نتیجے میں ہمارے تعلیمی ادارے ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جن کے فکرونظر اور جذبات و احساسات کا رشتہ ملک سے باہر جڑ رہا ہے۔ وہ اپنے وطن اور اپنے گھر میں اجنبی بنتے جا رہے ہیں۔ تعلیمی معیار اور تعلیمی پالیسی کے یہ مسائل فوری توجہ کے محتاج ہیں اور ہم توقع رکھتے ہیں مرکزی اور صوبائی حکومتیں ان کی طرف فوری توجہ دیں گی۔

پاکستان کی سیاست میں ایجنسیوں کا عمل دخل

مرکز اور صوبہ سندھ میں آنکھ مچولی کے مختلف کھیلوں کے بعد بالآخر ایم کیو ایم نے جنرل پرویز مشرف کی ذاتی مداخلت کے نتیجے میں اپنا گورنر مقرر کرا لیا اور صوبائی حکومت پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ اس وقت ہمارا موضوع ایم کیو ایم کا کردار نہیں‘ بلکہ ملک کی سیاست میں فوجی ایجنسیوں کا کردار ہے جس کا سب سے نمایاں سرٹیفیکیٹ خود جناب الطاف حسین نے اپنے گورنر کے تقرر اور سندھ کی حکومت بننے پر ان الفاظ میں دیا ہے۔ انھوں نے نام لے کر اپنی اس کامیابی کا سہرا جنرل پرویز مشرف (چیف آف اسٹاف)‘ جنرل احسان الحق (آئی ایس آئی کے ڈائرکٹرجنرل)‘ میجر جنرل احتشام ضمیر (آئی ایس آئی کے ڈپٹی ڈائرکٹر) اور جنرل مشرف کے بیوروکریٹ معاون طارق عزیز کے سر باندھا ہے اور ان کا نہ صرف شکریہ ادا کیا ہے بلکہ انھیں اس عظیم خدمت پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ اور ہمیں اس کا اعتراف ہے کہ کم از کم اس بات کی حد تک الطاف حسین صاحب نے اصل حقائق کو بلاکم و کاست کھلم کھلا بیان کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ آج وہ اس پر ممنونیت کا اظہار کر رہے ہیں اور کل وہ انھی ایجنسیوں کو سب و شتم کا نشانہ بنا رہے تھے اور ان کے خون کے پیاسے تھے۔ صرف ریکارڈ کی خاطر عرض ہے کہ ایم کیو ایم کی سرکاری ویب سائٹ پر فوج‘ اس کی قیادت اور آئی ایس آئی کے ذمہ دار حضرات کے بارے میں گذشتہ سالوں بلکہ مہینوں تک میں جو کچھ آتا رہا ہے‘ اس پر سرسری نظر بھی ڈالی جائے تو    ایم کیو ایم نے اپنے اس نظریاتی موقف کے ساتھ کہ:

ہندستان کی تقسیم انسانیت کی تاریخ کی عظیم ترین غلطی تھی۔

نام لے کر فوج اور اس کے اداروں کو اپنا دشمن قرار دیا ہے اور فوج اور پولیس کے ۴۸ اعلیٰ افسروں کو "most wanted people" قرار دیا۔ اس فہرست میں آئی ایس آئی‘ آئی بی اور ایف آئی اے کے نام سب سے اُوپر تھے۔ ان ناموں میں لیفٹیننٹ جنرل مظفرعثمانی‘ لیفٹیننٹ جنرل نصیراختر‘ لیفٹیننٹ جنرل اسعد درانی‘ میجر جنرل نصیراللہ بابر‘ کرنل عبید اور خفیہ ایجنسیوں کے طارق لودھی ‘ مسعود شریف اور رحمان ملک خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جس آئی ایس آئی کے ڈائرکٹر اور ڈپٹی ڈائرکٹر جنرل کو آج پھول پہنائے جا رہے ہیں اس آئی ایس آئی کے بارے میں ان کی ویب سائٹ کا فتویٰ یہ ہے:

آئی ایس آئی بدنام زمانہ ہے۔ اسے ریاست در ریاست قرار دیا جاتا ہے یا پاکستان کی نہ دکھائی دینے والی حکومت۔ اس نے بھارتی کشمیر میں مسلمان باغیوںکو اسپانسر کیا ہے‘ اور طالبان کو کھڑا کیا ہے اور افغانستان میں اس کے باطن عرب مہمانوں کی سرپرستی کی ہے--- گو یہ ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ اس کے پنجے پاکستانی سیاست‘ عدالت اور روز مرہ زندگی تک گڑے ہوئے ہیں۔ سب اس سے ڈرتے ہیں۔ کسی آئی ایس آئی افسر کی ایک زہریلی سرگوشی کسی کے کیریر کے تباہ کرنے‘ گرفتار کرنے یا اس سے بھی بدتر انجام تک پہنچانے کے لیے کافی ہے۔

ایم کیو ایم کو مبارک ہو کہ اس ’’زہریلی سرگوشی‘‘سے اب وہ گورنری اور وزارتوں پر متمکن ہے اور ’’تھا جو ناخوب‘‘ وہ خوب بلکہ خوب تر ہوگیا۔

ایم کیو ایم‘ جس کے بارے میں واقفانِ حال جانتے ہیں کہ اس کا قیام بھی اسی ’’سرگوشی‘‘کا رہینِ منت ہے‘ اور اس کی خون آشام جولانیاں بھی اس کی سرپرستی اور حفاظتی  چھتری میں کراچی اور حیدرآباد کو خون کی ہولی کھلاتی رہی ہیں اور پھر اس کا دور ابتلا بھی انھی سرپرستوں کو آنکھیں دکھانے کی پیداوار تھا اور اب اس کا نیا ہنی مون بھی انھی کی کرشمہ سازی ہے--- یہ سب بجا‘ لیکن کیا یہ سب قوم اور تمام سیاسی جماعتوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں! کیا ایجنسیوںکا ہماری زندگی میں اس طرح دخیل ہونا اور کھل کھیلنا گوارا کیا جا سکتا ہے؟ کیا  حاضرسروس فوجی اور سول حکام کو اسی طرح سیاسی جوڑ توڑ اور بنائو بگاڑ کی کارفرمائی کی چھوٹ ملی رہنا چاہیے؟ کیا وقت نہیں آگیا کہ سب مل کر ’’بس بہت ہو چکا‘‘ (enough is enough)کہہ دیں تاکہ سول نظام فی الحقیقت سول اور جمہوری نظام کی صورت اختیار کرسکے۔

یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہی نہیں‘ فیصلہ کن وارننگ بھی ہے:

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا!

سگریٹ نوشی --- خودسوزی ہی نہیں خودکشی!

ورلڈ بنک کی ایک تازہ رپورٹ میں جو ۱۹۹۹ء کے حالات کے جائزے پر مشتمل ہے یہ وحشت ناک حقائق دنیا کے سامنے پیش کیے گئے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں ۱۹۹۹ء میں ۱۷۵ ارب سگریٹ کام و دہن کو دھواں دار کرنے کا باعث ہوئے لیکن پاکستان‘ اس علاقے کی آبادی کا صرف دس فی صد ہونے کے باوجود‘ سگریٹ نوشی میں ۳۲ فی صد حصہ بٹانے والا ملک ہے۔ (دی ڈیلی ٹائمز‘ ۲۵ دسمبر ۲۰۰۲ئ)۔ ۱۵ سال کی عمر سے بڑے افراد کا تناسب اگر نکالا جائے تو اگرچہ علاقے کا اوسط ۱۵ پیک فی کس ہے لیکن پاکستان میں ۳۰ پیک فی کس سے متجاوز ہے۔ تپ دق اور سرطان جیسے موذی مرض اس کا عطیہ ہیں۔ پورے علاقے میں سگریٹ سے پیدا ہونے والے امراض میں ہر سال خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ مردوں میں اس کا استعمال اور سگریٹ نوشی پر مبنی امراض سے اموات کا تناسب عورتوں میں کہیں زیادہ ہے۔ اس تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سگریٹ نوشی کے فروغ میں سب سے اہم کردار سگریٹ کے اشتہارات کا ہے۔ بھارت نے ان پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے لیکن پاکستان میں اس کی کوئی فکر نہیں۔ اور ذرا سی آمدنی (ریونیو) کے لیے سگریٹ سے خودسوزی کی بلا کو پروان چڑھایا جا رہا ہے جو قومی خودکشی کے مترادف ہے۔ پاکستان ٹوبیکو کمپنی نے اپنے طور پر اشتہارات پر کچھ پابندیاں عائد کر کے اچھا اقدام کیا ہے مگر اسے بھی پبلسٹی کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ ملک کی نئی جمہوری حکومت کو خودسوزی کے اس عمل کو لگام دینے کے لیے جلد موثر تدابیر اختیار کرنا چاہییں۔

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

امریکہ نے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر دنیا کے طول و عرض میں دہشت گردی کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اور ایک مہم کی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور توجہ ہٹانے کے لیے نت نئے اہداف کو نشانہ بنانے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اس نے پوری دنیا کے چین اور سکون کو پامال کر دیا ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ وہ انسانیت کو امن و انصاف سے کوسوں دور لے جانے اور دنیا کی بیشتر اقوام کو ایک نئے سامراجی نظام کے شکنجے میں کسنے کے راستے پر گامزن ہوگیا ہے۔ طاقت کے نشے نے اسے ایسا بدمست کر دیا ہے کہ صدر جارج بش اور ان کے رفقا‘ نہ اپنے ملک کے اصحاب علم و بصیرت کی بات پر کان دھر رہے ہیں اور نہ عالمی رائے کی آہ و بکا کی انھیں کوئی پروا ہے۔ واشنگٹن اور نیویارک سے لے کر لندن‘ برلن‘ کوپن ہیگن‘ استنبول‘ سیول اور لاہور تک عوام جنگ کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں‘ لیکن افغانستان کو تباہ کرنے اور اپنی گرفت میں لے لینے کے بعد امریکہ عراق پر فوج کشی کے لیے تلا ہوا ہے اور ایران‘ سعودی عرب‘ پاکستان‘ شمالی کوریا سمیت۱۸ ممالک کو ضربِ کاری (hit list) کی زد پر رکھے ہوئے ہے‘    بین الاقوامی قانون کو عملاً ہی نہیں‘ نظری طور پر بھی rewrite کیا جا رہا ہے اور عالمی سلامتی کے لیے جو بھی برا بھلا نظام اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کے تحت قائم ہونے والے اداروں‘ معاہدات اور ضوابط کی شکل میں بنایا گیا ہے اسے تہہ و بالا کرنے پر تلا ہوا ہے۔ صدربش کسی شرم و حیا اور تکلف کے بغیر صاف کہہ رہے ہیں کہ:

امریکہ اپنے دشمنوں پر پیش بندی کے طور پر حملہ کرنے سے نہیں ہچکچائے گا خواہ اسے بین الاقوامی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے۔ وہ اپنی فوجی بالادستی کو خطرے میں پڑنے کی ہرگز اجازت نہیں دے گا۔عقل عام اور خود اپنے دفاع کا تقاضا یہ ہے کہ امریکہ اس طرح کے ابھرنے والے خطروں کے خلاف ان کے مکمل شکل اختیار کرنے سے پہلے اقدام کرے۔(دی گارڈین ویکلی‘ ۲۶ ستمبر تا ۲ اکتوبر۲۰۰۲ئ)

گویا:    ؎

ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن نہ تھی تری انجمن سے پہلے

سزا خطاے نظر سے پہلے عتاب جرم سخن سے پہلے

بش صاحب یہ بھی فرما چکے ہیں کہ:

یا تو عراق اپنے عمومی تباہی کے ہتھیاروں کو غیر مسلح کر دے یا امریکہ عراق کو اقوام متحدہ کی حمایت یا بغیر حمایت کے غیر مسلح کر دے گا۔

بات صاف ہے ‘ اب نہ کوئی قانون ہے اور نہ ضابطہ‘ صرف طاقت کے ذریعے فیصلے ہونے ہیں اور پوری دنیا امریکہ کی باج گزار ہے۔

دنیا امریکہ کی اس سامراجی یلغار اور استعماری مملکت سازی (empire building) کی دراندازیوں پر ششدر‘ مضطرب اور ان سے متنفرہے۔ راے عامہ کے امریکی ادارے PEW Research کے تازہ ترین جائزے کے مطابق‘ جس میں دنیا کے ۴۶ ملکوں میں ۳۸ ہزار افراد سے ۶۳ زبانوں میں انٹرویو کیے گئے‘ یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ دنیا کے ہر علاقے کے عوام امریکہ سے نالاں ہیں اور ان کی امریکہ سے خفگی اور نفرت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ ممالک جو بظاہر اس نام نہاد جنگ میں امریکہ کے ساتھ ہیں ان کے عوام بھی اپنی حکومتوں سے نالاں اور امریکہ کے جنگی عزائم کے مخالف ہیں۔ امریکہ کے ان عالمی تصورات اور اثرات سے اگر برطانیہ کے ۵۰ فی صد عوام غیرمطمئن اور متفکر ہیں اور ان کو منفی سمجھتے ہیں تو جرمنی میں یہ تناسب بڑھ کر ۶۷ فی صد‘ روس میں ۶۸ فی صد‘ فرانس میں ۷۱ فی صد‘ ترکی میں ۷۸ فی صد‘ پاکستان میں ۸۱ فی صد اور مصر میں ۸۴ فی صد ہو جاتا ہے۔ برطانیہ میں ۴۴ فی صد‘ جرمنی میں ۵۴ فی صد اور فرانس میں ۷۵ فی صد افراد نے اس سے اتفاق کیا ہے کہ عراق پر حملے کی اصل غایت شرق اوسط کے تیل کے چشموں پر قبضہ ہے۔ ترکی کے ۸۳ فی صد عوام عراق پر حملے کے لیے ترکی کے اڈوں کو استعمال کرنے کے خلاف ہیں۔ لبنان میں ۷۳ فی صد‘ اُردن میں ۴۳ فی صد‘ بنگلہ دیش میں ۴۴ فی صد اور نائیجیریا میں ۴۷ فی صد عوام خودکش حملوں کی تائید میں ہیں۔

لندن کے اخبار گارڈین کا مقالہ نگار پیٹرپرسٹن اس پر پکار اٹھتا ہے کہ:

This is alienation on the grandest scale.

یہ عظیم ترین پیمانے پر بیزاری ہے (دی گارڈین‘ لندن ۹ دسمبر ۲۰۰۲ئ‘ ص ۱۹)

راے عامہ کے اس جائزے کا خلاصہ بھی گارڈین کے اسی شمارے میں ہے۔ مکمل جائزے کے لیے دیکھیے: What The World Thinks in 2002.

Website: www.people.press.org

جرمنی‘ترکی‘ بحرین‘ مراکش‘ پاکستان‘ ارجنٹائن اور جنوبی کوریا کے انتخابات میں عوام نے   ہوا کے جس رخ کا اظہار کیا ہے وہ اس عالمی رائے کا ایک مظہر ہے۔

ایک طرف دنیا کے عوام کی بے چینی اور اضطراب کا یہ عالم ہے اور دوسری طرف امریکہ کی قیادت کی رعونت اور انسانیت کو جنگ میں جھونک دینے کے عزائم روز افزوں ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جس سے مجبور ہو کر امریکہ کا سابق صدر جیمی کارٹر ۲۰۰۲ء کے نوبل انعام کو وصول کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے (۱۰ دسمبر ۲۰۰۲ئ) کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ انسانیت نئے ہزاریے میں ایک ایسے عالم میں داخل ہو رہی ہے جسے کسی صورت میں بھی امن و آشتی کی حالت نہیں کہا جاسکتا۔ کارٹر کے الفاظ میں:

The World is now, in many ways, a more dangerous place

حقیقت یہ ہے کہ دنیا مختلف پہلوئوں سے آج ایک بڑی خطرناک جگہ بن گئی ہے۔

وہ صاف اشاروں کے ذریعے اپنی قوم کو متنبہ کرتا ہے کہ نہ یہ صورت حال طویل عرصے جاری  رہ سکتی ہے اور نہ کوئی بھی طاقت ور ملک پیش بندی کے طور پر جنگ (pre emptive war) کا راستہ اختیار کر کے اس کے خطرناک اثرات سے محفوظ رہ سکتا ہے۔

امریکہ کی یہ پالیسی پوری دنیا اور خصوصیت سے عالم اسلام کو شدید خطرات سے دوچار کررہی ہے۔ اس نے اپنے استعماری اہداف کو حاصل کرنے کے لیے جن خطوطِ کار پر کام شروع کر دیا ہے‘ ان کو سمجھنا اور حکمت اور فہم و فراست کے ساتھ ان کا مقابلہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ گذشتہ تین ماہ میں جو اہم دستاویزات امریکہ کے فیصلہ ساز اداروں نے جاری کی ہیں ان کا مطالعہ اور تجزیہ بے حد ضروری ہے۔ ان میں سب سے اہم قومی حکمت عملی کی دستاویزات (ستمبر ۲۰۰۲ئ) (US National Strategy Papers) ہیں۔ اس کے ساتھ  Nuclear Posture Review اور تازہ ترین دستاویز: عمومی تباہی کے ہتھیاروں کے مقابلے کی قومی حکمت عملی (دسمبر ۲۰۰۲ئ) کا مطالعہ کیا جائے تو یہ اہم ترین نکات سامنے آتے ہیں:

۱-  امریکہ کی انتظامیہ اب نہ اقوام متحدہ کو عالمی سلامتی اور صلح و جنگ کے لیے ایک بالاتر ادارہ تسلیم کرتی ہے اور نہ عالمی راے عامہ کو کوئی اہمیت دیتی ہے حتیٰ کہ خود اپنے دستور سے بھی اپنے کو بالارکھنے کا عزم کرچکی ہے۔ جنگ اور کسی دوسرے ملک کے خلاف قوت کے استعمال کے بارے میں جو پابندی امریکی دستور نے لگائی ہے اسے بھی ضروری اقدام کے لیے عمومی اجازت کا مبہم سہارا لے کر جنگ کے اہداف‘ وقت اور نوعیت طے کرنے اور فوج کشی کرڈالنے کے سارے مطلق اختیار امریکی صدر نے خود ہی اپنے ہاتھوں میں  نہایت بے باکی سے بے جا طور پر لے لیے ہیں۔ یہ صاف لفظوں میں نئے استعمار اور استبداد کا راستہ ہے۔

۲-  گذشتہ کئی صدیوں سے عالمی صلح و جنگ کا نظام جن دو اصولوں پر چل رہا تھا‘ یعنی طاقت کا توازن اور ردِ جارحیت‘ وہ دونوں اب ازکار رفتہ ہوگئے ہیں۔ اب نیا اصول پہلے ہی فوجی اقدام ہے جس کا خود دفاعی (self defence) کے نام پر جواز فراہم کیا جا رہا ہے۔ اس کی حد پوری دنیا ہے‘ کوئی بھی افراد‘ گروہ‘ اقوام اور ممالک۔ امریکہ جہاں چاہے اور جس انداز میں چاہے‘ اس بنیاد پر حملہ آور ہو سکتا ہے اور اس میں روایتی جنگ کے ساتھ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کو بھی روا رکھا جا سکتا ہے۔ غیر ایٹمی ممالک پر بھی کیمیاوی یا گیس کے ہتھیاروں کے بہانے ایٹمی حملہ کیا جا سکتا ہے۔

۳-  پچھلے چار سو سال سے عالمی نظام جس قومی حاکمیت اعلیٰ (national sovereignty) کے تصور پر قائم تھا وہ اب غیرمتعلق ہو گیا ہے۔ امریکہ کی ستمبر۲۰۰۲ء کی  قومی سلامتی کی ان دستاویزات میں صاف کہہ دیا گیا ہے کہ:

امریکہ کے فوجی اور متعلقہ سول اداروں میں یہ صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ عمومی تباہی کے ہتھیاروں سے مسلح دشمنوں کے خلاف اپنا دفاع کرسکیں بشمول اس کے کہ جہاں ضرورت ہو پیش بندی کے طور پر دیگر اقدامات کریں۔ اس کے لیے اپنے دشمن کے عمومی تباہی کے ہتھیاروں کے ذخائر کا پتا چلانا‘اس سے پہلے کہ انھیں استعمال کیا جائے اور انھیں تباہ کرنے کی صلاحیت کا ہونا ضروری ہے۔

واضح رہے کہ اس میں فوجی اور سول دونوں ایجنسیوں کو ان اختیارات سے مسلح کیا گیا ہے۔

۴-  اس اختیار کے تحت امریکی صدر نے سی آئی اے کو صاف الفاظ میں یہ اختیار بھی دے دیا ہے کہ دوسرے ممالک میں اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کے لیے ریاست کے سربراہوں تک کو قتل کر سکتی ہے۔ اس کے لیے امریکہ میں ایک نیا سیکورٹی نظام قائم کیا گیا ہے جس کا بجٹ ۳۹ارب ڈالر ہے اور جس میں ۲ لاکھ کے قریب عملہ ہوگا۔ ۱۸ ملکوں کو‘ جن میں ۱۷ مسلمان ممالک ہیں‘ ممکنہ دہشت گرد ملک سمجھ کر‘ ان کے شہریوں کے لیے امریکہ میں داخلے پر امتیازی طریق کار اختیار کیا گیا ہے اور مستقل نگرانی کا نظام وضع کیا گیا ہے۔اس فہرست میں سعودی عرب اور پاکستان کا اضافہ سارے احتجاج کے باوجود ابھی دسمبر۲۰۰۲ء میں کیا گیا ہے۔ وزارتِ دفاع میں ایک نیا شعبہ آگاہی اطلاعات (Information Awareness Office) کے نام سے قائم کیا گیا ہے جس کے ذریعے عالمی سطح پر جاسوسی کا ایک ایسا نظام قائم کیا جا رہا ہے جس کی بنیاد پر پیش بندی کے نام پر اقدامات کا کاروبارچلے گا۔

افسر برائے آگاہی اطلاعات‘ ایسی اطلاعی ٹکنالوجیوں کے بارے میں سوچنے‘ ان کو نشوونما دینے‘ اُن کو بروے کار لانے‘ ان کو منضبط کرنے‘ اُن کی وضاحت کرنے اور اُن کی ترسیل کا ذمہ دار ہوگا۔ اس طرح کی مکمل آگاہی پیش بندی‘ قومی سلامتی کے لیے تنبیہات اور فیصلہ سازی میں مفید ہوگی اور ہر طرح کے خطرات کا سدباب کرنے کا باعث ہوگی۔

اس کام کے لیے جن زبانوں کو فوری طور پر high terrorist risk زبانیں قرار دیا گیا ہے وہ عربی‘ پشتو‘ فارسی‘ دری اور مسلم ممالک میں بولی جانے والی دوسری زبانیں ہیں۔ اس ادارے کے ویب پیج پر جو تصویر دی گئی ہے وہ ایک باحجاب (اسکارف پہنے ہوئے) خاتون کی ہے جو فارسی میں ایک امریکی فوجی سے ہم کلام ہے۔ صرف اس ایک ادارے کے لیے      ۲۰۰ ملین ڈالر مختص کیے گئے ہیں اور مشہور زمانہ سابق ایڈمرل جان پوائن ڈیکسٹر اس کے سربراہ مقرر ہوئے ہیں جو صدر ریگن کے زمانے میں ایران کے معاملات کے سلسلے میں سزایافتہ ہیں اور امریکی کانگریس کے سامنے غلط بیانی اور اسے گمراہ کن معلومات فراہم کرنے کے سلسلے میں پانچ الزامات پر مجرم قرار دیے جا چکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو‘ دی گارڈین ویک اینڈ‘ ۱۴ دسمبر ۲۰۰۲ئ)

۵-  ایک محاذ جو اسی حکمت عملی کا حصہ ہے اس کا عنوان ’’جمہوریت کا فروغ‘‘ رکھا گیا ہے‘ خصوصیت سے عالم اسلام اور عرب دنیا میں۔ یہ کثیرجہتی پروگرام ہے جس میں ایک طرف ان ممالک میں اخبارات‘ رسائل اور میڈیا کو متاثر کیا جائے گا‘ تربیتی نظام قائم کیے جائیں گے اور متعلقہ افراد اور اداروں کو مالی وسائل اور دوسرے ذرائع فراہم کیے جائیں گے تاکہ امریکہ کے نقطۂ نظر کو عام کیا جا سکے اور راے عامہ کو اپنا ہم نوا بنایا جا سکے۔ دوسری طرف ان ممالک کے تعلیمی اداروں کو ’’نئی روشنی‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ ان ممالک میں انسانی حقوق‘ عورتوں کی بیداری اور معاشرتی ترقی کے منصوبوں کو امریکی جمہوریت کے فروغ کے لیے استعمال کیا جائے گا‘ این جی اوز اس کا خصوصی آلہ کار ہوں گی۔ ان ممالک میں حکومتوں کو ’’زیادہ جمہوری‘‘ بنانے کے لیے وہاں کی ’’ہم خیال‘‘ قوتوں کو مضبوط کیا جائے گا۔عراق میں جمہوریت لانے کے لیے وہاں کی حزب اختلاف کو لندن میں حال ہی میں جو منظم کیا گیا ہے وہ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

یہ عمل ان تمام ممالک کے لیے اختیار کیا جائے گا جہاں امریکہ تبدیلی ٔ قیادت کو ضروری سمجھتا ہے۔ اب تک جمہوریت کے معنی یہ تھے کہ ملک کے عوام اپنی مرضی کی قیادت منتخب کریں۔ اب جمہوریت کے معنی یہ ہوں گے کہ فوجی یا سیاسی عمل کے ذریعے دنیا کے ممالک میں ان قیادتوں کو ہٹا دیا جائے جو امریکہ کے لیے ناقابلِ قبول ہیں اور ان کو زمام کار سونپی جائے جو امریکہ کے لیے قابلِ قبول ہیں۔ فلسطین میں یاسرعرفات کا معاملہ ہو یا عراق‘ ایران‘ پاکستان‘ سعودی عرب یا کسی بھی ملک میں سیاسی قیادت کا--- اب امریکہ کو جمہوریت کے نام پر اپنی من پسند قیادت اوپر لانے کا اختیار ہے اور جسے وہ ناپسند کرے اسے ہٹانے کے لیے جو حربہ بھی وہ استعمال کرنا چاہے وہ جائز اور روا ہے۔ سیاسی نقشے کو تبدیل کرنا بھی اس حکمت عملی کا حصہ ہے۔ جس طرح پہلی جنگ عظیم کے بعد شرق اوسط اور دوسری جنگ کے بعد افریقہ کا سیاسی نقشہ استعماری قوتوں نے بنایا جس کی سزا یہ عوام آج تک بھگت رہے ہیں اسی طرح اب امریکہ نیا نقشہ بنائے گا۔ جنگ‘ سیاست‘صحافت‘ ڈپلومیسی‘ یہ سب اس کے ہتھیار ہیں۔ افغانستان میں جو کچھ کیا گیا‘ اس سے پہلے بوسنیا اور کوسووا میں جو تجربہ ہوا ‘ اور اب عراق میں جو کچھ کیا جانے والا ہے وہ سب اسی حکمت عملی کے شاخسانے ہیں۔

گارڈین کا مضمون نگار ٹموتھی ایش اس کا پورا نقشہ کھینچتا ہے:

یہ نیا جمہوری اور خوشحال عراق اپنے پڑوسیوں کے لیے ایک نمونہ اور مقناطیس ہوگا جس طرح کہ مغربی جرمنی اور مغربی برلن سردجنگ کے زمانے میں اپنے غیرآزاد پڑوسیوں کے لیے تھے… پیش بیں سوچنے والے ایران کو جمہوری بنانے کے لیے نرم انقلاب کی بات کرتے ہیں۔ پھر امریکہ کا مال دار‘ استبدادی دوست و حلیف سعودی عرب ہے‘ جس کے وہابی اسلام کے چشموں سے--- تیل کے چشموں کے ساتھ ساتھ‘ نفرت کے ان چشموں سے--- بہت سے دہشت گرد نکلے جنھوں نے ۹ستمبر کو امریکہ پر حملہ کیا۔ انتظامیہ میں کوئی بھی اس بات کو کھل کر کہنا نہیں چاہتا مگر عراق کو جمہوری بنانے کا واضح منطقی تقاضا سعودی عرب کو جمہوری بنانا ہے۔ اگر آپ اسلامی مچھروں سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان جوہڑوں کو خشک کرنا ہوگا جہاں وہ پرورش پاتے ہیں۔ گو کھلے طور پر نہیں‘ لیکن اقتدار کے بغلی کمروں اور راہداریوں میں اب لوگ یہ باتیں کر رہے ہیں کہ پورے شرق اوسط کو نئے نقشے کے طابق بنانے کے لیے ولسن جیسے منصوبے پر عمل کیا جائے جس کا موازنہ تصور کی بلندی میں صرف یورپ کے لیے ۱۹۱۹ء اور ۱۹۴۹ء کے منصوبوں سے کیا جا سکتا ہے۔ (دی گارڈین‘ ۱۲ دسمبر ۲۰۰۲ئ)

اس نقشہ جنگ کے مختلف پہلو ہیں: عسکری‘ سیاسی‘ سفارتی‘ ابلاغی‘ نظریاتی اور تہذیبی۔ دوسرے پہلوئوں کے بارے میں پہلے بھی گفتگو ہوچکی ہے اور اس تحریر میں بھی اس کے واضح اشارات موجود ہیں۔ البتہ جس پہلو کے بارے میں ہم ذرا کھل کر بات کرنا چاہتے ہیں وہ نظریاتی اور تہذیبی ہے ‘ بالخصوص عالم عرب اور عالم اسلام کے بارے میں۔

ہزار کہا جائے کہ امریکہ کی یہ جنگ صرف تشدد کے خلاف ہے‘ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نہیں‘ لیکن حقیقت یہی ہے کہ آج اگر بنیاد پرستی‘ انتہا پسندی اور تشدد کی کوئی علامت ہے تو وہ اسلام اور مسلمان ہیں۔ نہ بھارت کی جنتا پارٹی‘ ہندو بنیاد پرستی‘ تشدد اور خون آشامی کوئی مسئلہ ہے‘ نہ اسرائیل کی لیکود (likud) پارٹی کے شیرون کی فسطائیت کوئی قابلِ قدر مسئلہ ہے اور نہ شیشان میں روس کا ظلم و ستم ہی کسی زمرے میں آتا ہے بلکہ بھارت امریکہ کی اسٹرے ٹیجک دوستی ہمیشہ سے زیادہ مستحکم ہے۔ اسرائیل امریکہ کا اسی طرح چہیتا ہے۔ اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے  اقوام متحدہ کے مبصروں کی ہلاکت پر سلامتی کونسل میں مذمت کی قرارداد کو ۱۵ میں سے۱۲ ووٹ حاصل ہوئے اور دو کے غیر جانب دار ہونے کی پروا نہ کرتے ہوئے امریکہ ویٹو کرکے اس ظلم میں شرکت اور اس کی سرپرستی کا اعزاز حاصل کر رہا ہے‘ اور سارے ظلم و زیادتی کے باوجود  اسرائیل کو روس کے صدر پیوٹن کی آشیرباد حاصل ہے۔ ان حالات میں اگر عالم اسلام یہ نتیجہ نکالے کہ امریکہ کا یہ ساراکھیل صرف مسلمانوں کے لیے ہے‘ یعنی اصل نشانہ اسلام اور مسلمان ہیں تو اسے کسی طرح خلافِ حقیقت قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اُمت مسلمہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھی طرح سمجھ لے کہ اس جنگ کا اصل ہدف مسلمان اور اسلام ہیں۔ اس بارے میں کسی غلط فہمی میں رہنا تباہ کن ہو سکتا ہے۔ اگر اس سلسلے میں کوئی پردہ تھا تو وہ صدربش کے قریب ترین مشیروں کے ہاتھوں تار تار ہو چکا ہے۔ ان کا ایک پالیسی ایڈوائزر کینتھ ایڈلمین ہے جو وزارتِ دفاع کے دفاعی پالیسی کے بورڈ کا رکن رکین ہے‘ وہ صاف کہہ رہا ہے کہ صدربش نے جو اسلام کو ایک ’’امن پسند دین‘‘ کہا ہے وہ قبول کرنا ممکن نہیں۔ اس کے الفاظ میں:

To call Islam a peaceful relegion is increasingly hard argument to make.

اسلام کو ایک پُرامن مذہب قرار دینا ایک ایسی دلیل ہے جسے دینا مشکل ہوتا جارہا ہے۔

اس کا اعلان ہے کہ اسلام عسکریت پسند (militriastic) ہے۔ وہ یہاں تک کہہ گیا ہے کہ:

بہرحال اس کے بانی محمدؐ ایک جنگجو تھے‘مسیحؑ کی طرح امن کے علم بردار نہیں تھے۔

ایک دوسرے مشیرخاص ایلیٹ کوہن جو Johns Hopkin School of International Studies کے پروفیسرہیں اور اسی بورڈ کے رکن ہیں وہ بھی فرماتے ہیں کہ امریکہ کا اصل دشمن ’’دہشت گردی‘‘ نہیں ’’عسکری اسلام‘‘ (millitant islam)ہے۔

جارج بش کا دوست اور مشہور عیسائی خطیب پیٹ رابرٹسن تو دریدہ دہنی کی اس انتہا تک جاتا ہے کہ: ایڈولف ہٹلر برا تھا لیکن مسلمان یہودیوں کے ساتھ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ اس سے بھی زیادہ برا ہے۔

جیری فال ویل رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’دہشت گرد‘‘ (نعوذ باللہ) کہنے کی جسارت کرتا ہے اور بلی گراہم کے صاحبزادے فرینکن گراہم جنھوں نے صدربش کی  افتتاحی تقریب میں بائبل پڑھی تھی اسلام کو "evil" قرار دیتے ہیں۔ ہم نے دل پر جبر کر کے یہ تمام حوالے اس لیے دیے کہ مسلمانوں کے سامنے امریکہ کی نظریاتی جنگ کا صحیح نقشہ آسکے اورڈپلومیسی کی زبان کے پیچھے جو اصل عزائم کارفرما ہیں ان کو سمجھنے میں کوئی التباس باقی نہ رہے۔

ایک طبقہ وہ ہے جو اس طرح کھل کر اسلام اور مسلمانوں کو ہدف بنا رہا ہے اور امریکہ اور مغرب کی قیادتوں کو یقین دلا رہا ہے کہ اصل دشمن قوت اسلام ہے تو دوسرا زیادہ سمجھ دار طبقہ اس سے ذرا ہٹ کر یہ راستہ اختیار کر رہا ہے کہ اسلام اور موڈریٹ اسلام میں فرق کی ضرورت ہے۔ اسلام کو کھلے کھلے ہدف بنانا خلافِ حکمت اور ناقابلِ عمل ہے۔ ڈیڑھ ارب مسلمانوں سے ان کے دین کو اس طرح چیلنج کر کے معاملہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں کو بانٹنے‘ ان کے درمیان انتشار اور افتراق ڈالنے اور خود ان کو عسکری اور امن پسند‘ انتہا پسند اور معتدل‘ انقلابی اور موڈریٹ کے خانوں میں بانٹا جائے اور اندر سے نقب لگا کر ان کو اپنے رنگ میں رنگنے اور عالمی اقدار‘ جمہوریت اور آزاد روی (liberalism) کے نام پراپنے مفید مطلب کردار کے لیے تیار اور آمادہ کیا جائے۔ یہ اسلام پر سامنے سے   حملہ آور ہونے کے بجائے اسے اندر سے سبوتاژ کرکے اور مسلم معاشرے کو آپس میں بانٹنے اور لڑانے کا منصوبہ ہے۔ اس میں انھیں اپنے اعوان و انصار کے طور پر خود مسلمانوں میں سے بھی کمزور ایمان و اخلاق والے عناصر اور ان افراد اور گروہوں کے تعاون کی توقع ہے جو مغربی استعمار اور تہذیبی یلغار میں اپنی دینی اور تہذیبی جڑوں سے کٹ گئے ہیں اور مغرب کے تہذیبی تصورات اور طور طریقوں کے دلدادہ بن چکے ہیں۔

اس جنگ کا ایک فکری محاذ ہے۔ اسلام کے بارے میں وہ سارے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جن کا پچھلی صدی میں کافی و شافی جواب دیا جا چکا ہے۔ دوسری طرف دینی تعلیم کے نظام کو ہدف بنایا جا رہا ہے تاکہ علم دین اور تہذیبی روایت کے یہ محافظ ڈانواڈول ہو سکیں۔ معاشی ترقی اور مادی سہولتوں کے نام پر ایسے منصوبے فروغ دیے جا رہے ہیں جو ایک مفاد پسند طبقے کو جنم دے سکیں اور وہ مغربی استعمار کا آلۂ کار بن سکے۔ اسلام کو مسجد اور گھر کی چار دیواری میں محصور کرنے اور دین و سیاست کے دائروں کو الگ الگ کرنے کا سبق پڑھایا جارہا ہے اور یہ سب کچھ اسلام ہی کے ایک مطلوب کی حیثیت سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اسلامی اداروں اور تحریکوں کو مادی اور مالی وسائل سے محروم کیا جا رہا ہے اور ساری دنیا میں خوف و ہراس کی ایک ایسی فضا بنا دی گئی ہے اور اسے مزید مستحکم کیا جا رہا ہے کہ اسلامی سرگرمیوں کو مالیات فراہم کرنے کے آزاد ذرائع مفقود ہو جائیں اور صرف وہ میدان میںرہیں جو سرکار دربار کے ہم نوا ہیں۔ ہم اس سلسلے میں چند اہم حوالے صرف ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے دے رہے ہیں جو اب بھی امریکہ کی قیادت اور مغربی کوچہ گردوں سے کسی خیر کی توقع رکھتے ہیں۔

امریکہ کے نائب وزیر دفاع پال وال فووٹز نے لندن کے انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرے ٹیجک اسٹڈیز میں ابھی پچھلے مہینے اپنے خطاب میں سارے پتے کھول کر میز پر رکھ دیے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:

جدید ترکی اس امر کا مظہرہے کہ ایک جمہوری نظام یقینا اسلام کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے اور ریاست سے مذہب کو جدا کیا جا سکتا ہے جو انفرادی نیکی کے ساتھ مکمل موافقت رکھتا ہے۔

اس خطبے میں موصوف نے یہ بھی فرما دیا ہے کہ:

اسلام کی ایک اصلاح شدہ اور معتدل شاخ جمہوریت پر مبنی آفاقی اقدار کے نظام کی ایک شاخ کے طور پر سامنے آئے گی۔ اگر اقدار آفاقی ہوں گی تو تہذیبوں کا کوئی تصادم نہیں ہوگا۔

موصوف کو کون یاد دلائے کہ ترکی میں فوج سیکولرزم کے نام پر جمہوری قوتوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہی ہے‘ کس طرح انھیں کان سے پکڑ کر پارلیمنٹ اور سیاست سے باہر کر رہی ہے اور پورے نظام کو اپنے فوجی بوٹ تلے دبائے ہوئے ہے۔ رہا معاملہ آفاقی اقدار کا‘ تو اگر موصوف اس میں ’’مغربی‘‘ کا اضافہ کر دیتے تو بات صاف ہو جاتی!

سارا مسئلہ ہی اسلام کو غیر سیاسی بنانے کا ہے جو خالص مغربی تصور ہے۔ اسلام تو اس کی ضد ہے  ع

جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

لیکن مغرب کا اسلامی دنیا میں ہدف یہی دین و سیاست کی تفریق ہے۔ امریکی نائب وزیرخارجہ کرسٹیناروکا کے لیے امریکہ کی سفیرصاحبہ کے گھر پر منعقد ایک تقریب میں سفیرصاحبہ نے ساری بات ایک جملے میں ادا کردی ہے۔ ارشاد ہوا ہے کہ ’’ہم پاکستان کو ایک روادار‘ سیکولر ملک کے طور پردیکھنا چاہتے ہیں‘‘ (نوائے وقت‘ ۱۷ دسمبر ۲۰۰۲ئ)۔ پس یہی کانٹے کی بات ہے۔

تھامس فریڈمین امریکہ کے ان صحافیوں میں سے ہے جو سیاست دانوں سے زیادہ اہم ہے۔ سعودی ولی عہد نے فلسطین کے بارے میں اپنے خیالات اسی کے ذریعے امریکہ اور دنیا کے سامنے پیش کیے تھے۔ وہ مسلسل لکھ رہا ہے کہ ہماری اصل جنگ اس اسلام سے ہے جو جہاد کے تصور کو دین کا حصہ سمجھتا ہے۔ وہ صاف لکھتا ہے کہ:

اگر پاکستان جیسی قومیں غربت میں زندگی گزارتی رہیں‘ اگر اُن کے عوام صرف ان مذہبی مدارس کے مصارف ہی برداشت کر سکتے ہوں جو صرف قرآن کی تعلیم دیتے ہیں تو پھر ہم خوف ہی کے عالم میں زندگی گزاریں گے۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘  آئی ایچ ٹی‘ ۹ دسمبر ۲۰۰۲ئ:  Cause to worry)

اور اس سے بھی کھل کر اس نے نیویارک ٹائمز اور انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون میں بالی کے واقعے کے بعد صدربش کی طرف سے مسلم ممالک کے تمام قائدین کے نام ایک فرضی خط کی شکل میں امریکہ کے پورے نقشۂ جنگ کو پیش کر دیا تھا۔ مسلمانوں کی قیادت کو مطعون کرنے کے بعد بش کی زبان سے موصوف یوں گویا ہوتے ہیں:

آپ کہتے ہیں کہ یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ہم اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں--- میرا خیال ہے کہ اس کا تعلق آپ کے درمیان اسلام کی ایک شدید  غیرروادار قسم کے عروج سے ہے جو محض اسرائیل کے خلاف ایک ردعمل نہیں ہے بلکہ آپ کی ناکام ریاستوں‘ تیل کی ضائع شدہ دولت‘ شکستہ نظریات (ناصرازم) اور نسل درنسل آمریت اور ناخواندگی کا جواب ہے۔ یہ سخت گیر بنیاد پرستی جو مسلح اور ناراض ہے ایسا لگتا ہے کہ اب اعتدال پسند مسلمانوں کو بھی خوف زدہ کر رہی ہے۔ لیکن جن اقدار کی یہ تبلیغ کرتی ہے ‘ یہ آپ کے لیے تباہی لائیں گی اور ہمارے ساتھ تنازع کا باعث بنیں گی۔ جیسا کہ کیٹو (CATO) ادارے کے برنک لنٹسے نے نیشنل ریویو میں لکھا ہے: ’’کوئی مذہب جو قدیم کتابوں کا رٹا لگائے‘ ناقدانہ تجسس اور اختلاف کو دبائے‘ خواتین کو محکوم رکھے‘ اقتدار کے آگے غلاموں کی طرح جھکنا سکھائے‘ تہذیبی زوال کے علاوہ کسی چیز کا نسخہ نہیں ہے۔ وسط میں موجود شائستہ لیکن غیرسرگرم مسلمانوں کو اس سخت بنیاد پرستی کے خلاف جنگ کرنا چاہیے۔

اور اس خط کو یوں ختم کرتا ہے:

دوستو! جب تک تم خود اپنی تہذیب کے اندر جنگ نہیں کرتے تو ہماری تہذیبوں کے درمیان جنگ ہوں گی۔ ہم ا س سے صرف ایک اور ۹ ستمبر کے فاصلے پر ہیں۔ اس لیے آیئے ہم تہیہ کرلیں کہ آیندہ برس ہم اپنے درمیان عدم روادری کے خلاف لڑیں گے تاکہ ہمارے باہمی تعلقات قائم رہ سکیں۔ (دی ایشین ایج‘ ۳۰ نومبر ۲۰۰۲ئ‘ ص ۱۴)

اصل ایشو کیا ہے؟ اس کا اس سے واضح بیان اور کہاں سے حاصل ہوگا۔ اگر اس    پس منظر میں سعودی وزیرداخلہ کے اس بیان کو پڑھا جائے جو پچھلے ایک مہینے میں انھوں نے دو بار دیا ہے اور اخوان المسلمون کو اپنے سارے عتاب کا نشانہ بنایا ہے تو بات سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ اس لیے کہ سعودیوں کو بھی امریکہ کی قیادت اور صحافت نے ہر طرف سے گھیر رکھا ہے اور ہر ہفتے کوئی نہ کوئی نیا وار کر کے وہ اسے حواس باختہ کیے ہوئے ہیں۔ اصل ہدف محض نام نہاد اور نامعلوم ’’دہشت گردوں‘‘ کی مالی معاونت نہیں‘ اس ’’موڈریٹ اسلام‘‘ کی تلاش ہے۔

امریکہ کے ایک دانش ور جن کا پالیسی ساز اداروں پر بڑا اثر ہے جم ہوگ لینڈ ہیں‘   وہ صاف لفظوں میں لکھتے ہیں کہ:

دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی جنگ اور پیٹروڈالر کے وافر ذخائر کے غائب ہونے نے سعودی حکمرانوں کو فیصلے کی نازک گھڑی میں لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ اکیسویں صدی میں اپنی بقا کے لیے اُن کو دہشت گردوں اور رقمیں وصول کرنے والوں کے کام کو سرگرمی سے بند کرنا چاہیے بجائے اس کے کہ اُن کو تحفظ دیں اور رقم فراہم کریں۔ سب سے بڑی تبدیلی اپنے گھر میں آنی چاہیے۔ آل سعود کو وہابی فرقے کے ساتھ اپنے عہدکو ختم کر دینا چاہیے جس کو بادشاہت کی حمایت کے بدلے میں مملکت کے اجتماعی‘ اقتصادی اور سیاسی زندگی میں غیرمعمولی غلبہ حاصل ہے۔ وہابی علما نے اسلامی خیرات کو شرق اوسط اور وسط ایشیا میں دہشت گردی نفرت پھیلانے کے لیے آڑ کے طور پر استعمال کیا۔ سعودی بادشاہت کو انتہا پسندوں سے دست کش ہوجانا چاہیے اور اُن کا جواز ختم کر دینا چاہیے… یا دنیا سے نیست و نابود ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ امریکیوں کو سعودیوں کو دیانت داری سے بتا دینا چاہیے کہ کیا ہو رہا ہے اور کیسے اس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب کو حقیقی تحفظ فراہم کرنے کی یہ واحد صورت ہے۔(آئی ایچ ٹی ‘۲ دسمبر ۲۰۰۲ئ)

چلیے سعودی عرب کا تو قصہ پاک ہوا۔ اب باقی عالم اسلام کو لے لیجیے۔ ایک اور مشہور مفکر اور کالم نگار ولیم یف ’’اسلام اور مغرب‘‘ کے عنوان سے صورت حال کی یوں نقشہ کشی کرتے ہیں:

مبصرین جب اسلامی دنیا میں جدیدکاری کے بحران پر گفتگو کرتے ہیں تو دراصل وہ تنازعے کی حقیقی وجہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ وجہ اسلامی معاشرے کی اور جدید مغرب کی اقدار میں عدم مطابقت ہے۔

مغرب کا غلبہ اور مادی رفتارِ ترقی ایک ایسے نظام اقدار سے علیحدہ نظر نہیں آتا جس کا مطالبہ ہے کہ مسلمان اپنے اخلاقی تشخص کو ترک کر دیں۔ ایک تازہ کتاب میں برطانوی مصنف ریجر سکروٹن یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ہم اسلام کو مغربی ٹکنالوجی‘ مغربی ادارے اور مذہبی آزادی کے مغربی تصورات کو رد کرنے کی کوشش کرنے کا الزام کیوں دیں جب کہ ان میں ان تصورات کو مسترد کیا گیا ہے جن پر اسلام کی بنیاد ہے: اللہ کا ناقابل تغیرفرمان جو اُن کے نبی پر نہ تبدیل ہونے والے مجموعہ قانون کی شکل میں ایک ہی دفعہ ہمیشہ کے لیے نازل کیا گیا۔

آخر مغرب نے خود ہی سے کیوں یہ سمجھ لیا ہے کہ اسلامی معاشرے کے موجودہ مذہبی تصورات کو بہ زور ختم کر دیا جائے‘ صرف اس لیے نہیں کہ وہ مغرب کو موافق نہیں آتے بلکہ اس لیے کہ مغرب یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ خودمسلمانوں کے لیے بھی مناسب حال نہیں۔

اسلامی حکومتوں پر مسلسل مغربی دبائو ہے کہ وہ انسانی حقوق کے مغربی تصورات کے مطابق ہو جائیں اور آزادانہ اور ناقدانہ مذہبی فکر کی حوصلہ افزائی کریں۔ (آئی ایچ ٹی‘ ۱۲ دسمبر ۲۰۰۲ئ)

ہمیں اعتراف کرنا چاہیے کہ اصل ایشو ہی یہ ہے کہ عالم اسلام اپنا تشخص اسلامی رکھنا چاہتا ہے یا ’’ماڈرن اسلام‘‘ کے عنوان تلے اپنے کو مغرب کے رنگ میں رنگنے اور اس کے تہذیبی اور معاشی مفادات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے تیار ہے۔ یہ اصل جنگ ہے جو سیاست اور عسکری میدانوں میں لڑی جا رہی ہے اور فکری‘ تہذیبی‘ معاشی اوراخلاقی میدانوں میں بھی۔ امریکہ اور اس کے کارندے ہر محاذ پر سرگرم ہیں۔ بات افغانستان پر فوج کشی اور نام نہاد امن فوج کی کارگزاریوں کی ہو یا عراق پرحملہ اور عمومی ماس کے ہتھیاروں کو تباہ کرنے کی مہم جوئی کی‘ پاکستان کے جوہری وسائل کا تعاقب ہو یا ایران پر جوہری صلاحیت کے حصول کے الزامات--- یہ سب تو سیاسی اور عسکری دبائو کا حصہ ہیں لیکن ان کے ساتھ معاشی ترغیبات و ترہیبات اور ثقافتی‘ تعلیمی اور ابلاغی جارحیت اس ہمہ جہتی جنگ کے اہم پہلو ہیں۔ آسٹریلیا کی نیشنل یونی ورسٹی کے دفاعی اور اسٹرے ٹیجک مطالعات کے شعبے کے ڈائرکٹر ایل ڈنیورٹ نے جنگ کے اس محاذ کی یوں نقشہ کشی کی ہے:

ایک ایسی جنگ مذہبی مدارس اور ان کے ہوسٹلوں میں لڑی جانی چاہیے جو مستقبل کے انتہا پسندوں کی پرورش گاہ (incubator) ہیں۔ یہ جنگ جنوب مشرقی ایشیا کے ظہور پذیر سول سوسائٹی کے مدیران جرائد‘ اسکولوں کے اساتذہ‘ مذہبی رہنمائوں‘ سیاست دانوں‘ غیر حکومتی انجمنوں اور دیگر عناصر کو لڑنا چاہیے اور معتدل مسلمانوں کو اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ (آئی ایچ ٹی‘ ۱۷ دسمبر ۲۰۰۲ئ)

نقشہ جنگ آپ کے سامنے ہے۔ ’’موڈریٹ اسلام‘‘ کی تلاش بالکل اسی نوعیت کی کوشش ہے جیسی برطانوی استعمار نے اپنے عروج کے زمانے میں جہاد کے خلاف محاذ قائم کیا اور ایسی نبوتوں کی افزایش کی کوشش کی جو جہاد کو منسوخ قرار دیں تاکہ اس طرح برطانوی استعمار کے سائے میں زندگی کو عین اسلامی قرار دینے کی سعادت حاصل ہو لیکن جس طرح وہ حکمت عملی ناکام رہی اسی طرح یہ حکمت عملی بھی بارآور نہیں ہو سکتی۔

اصل نقشۂ جنگ کو سمجھنے کے بعد سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ہماری جوابی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟ اس پر آیندہ شمارے میں اظہارِ خیال کیا جائے گا۔

 جس کی بہار یہ ہو‘ اس کی خزاں نہ پوچھ!

خدا خدا کر کے جمہوری عمل شروع ہوا۔ ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو انتخابات ہوئے‘ نتائج آنا شروع ہوئے تو اس طرح کہ جو علاقہ جتنا دُور تھا اس کا نتیجہ اتنا ہی جلدی آگیا اور جو جتنا قریب تھا وہاں کا نتیجہ آنے میں اتنی ہی دیر لگی اور شکوک و شبہات کا ایک دفترکھل گیا۔ جن علاقوں میں حزب اختلاف کو کامیابی حاصل ہوئی وہاں ووٹوں کی تعداد ملکی اوسط کے قریب تھی اور جہاں سے سرکاری لیگ کو کامیابی حاصل ہوئی وہاں ڈبوں سے نکلنے والے ووٹوں کا اوسط ایک دم زیادہ تھا اور ریفرنڈم کی یاد تازہ کر رہا تھا۔ اس بار انجینیری  زیادہ سمجھ داری سے کی گئی۔

لیجیے نتائج مکمل ہو گئے مگر پارلیمنٹ کی ولادت ہے کہ مسلسل تاخیر کا شکار ہے۔ تاریخ کا اعلان ہونے کے بعد بھی التوا کا نیا دور شروع ہو گیا۔ پھر ووٹوں کی خرید وفروخت‘ لوٹوں کی آمدورفت‘ گھوڑوں کی تلاش و تجارت‘ پارٹیوں کی شکست و ریخت‘ غرض سارے ہی جتن پورے ہوئے اور بالآخر قومی اسمبلی کا اجلاس ہوگیا اور انتخاب کے ۶ ہفتے کے بعد مرکزی حکومت قائم ہوگئی خواہ ایک ووٹ کی اکثریت سے اور وزارت میں لوٹوں کی بھرمار کے ساتھ!

صوبہ سندھ کا معاملہ سب سے اہم اور جمہوریت کے مستقبل کے لیے فیصلہ کن تھا۔ سرحد میں جیسے تیسے اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کی حکومت بن گئی۔ پنجاب میں بھی جیسی بھی تھی اکثریت واضح تھی اور بڑی پارٹی ہی کی حکومت بنی۔ لیکن سندھ میں ساری کوشش تھی کہ سب سے بڑی پارٹی کی حکومت نہ بننے پائے اور اس کے لیے وہ وہ جتن ہوئے کہ شیطان بھی امان پائے۔ جوڑ توڑ‘ دھونس دھاندلی‘ وفاداریوں کی تبدیلی‘ نیب اور عدالتوں کے سزا یافتہ افراد سے معانقہ‘  جو نوگوایریا تین سال سے نظر نہیں آ رہے تھے ان پر یورش‘ جو عدالتوں کو مطلوب تھے ان کو سیاست کا چاند تارا بنانے کی سازش‘ فارورڈ بلاک کی تشکیل‘ نامزدگیوں کے وقت میں غیر قانونی تبدیلیاں‘ اسمبلی پر پولیس کی یورش اور ۱۰ گھنٹے کا محاصرہ‘ رکن اسمبلی کی اسمبلی کے احاطے میں گرفتاری اور ارکان اسمبلی بشمول خواتین ارکان کی مارپیٹ‘ جعلی ڈگریوں کی بازگشت‘ فوج کے باوردی اعلیٰ افسروں اور سول سروس کے سیاست میں دخل اندازی نہ کرنے کا حلف لینے والے ملازمین کی کھلی یوریش--- یہ سب ہوا اور بالآخر سندھ کی اسمبلی بھی وجود میں آگئی اور وزارت اعلیٰ کا ہُما ایک اقلیتی جماعت کے فرد کے سر پر آبیٹھا--- لیکن اس سارے معاملے میں جمہوریت کی جو تصویر اُبھر کر آئی وہ ایسی مکروہ تھی کہ اسمبلی کے درودیوار بھی شرمندہ ہوگئے ۔ چلتے پھرتے سیاست دانوں اور ان کی باگ ہلانے والے فوجی اور سول افسران کو شرم نہ آئی‘ ان کی غیرت کا رونا روتے ہوئے بے جان ایوان کی بجلیاں ضبط نہ کر سکیں اور شرم سے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ کہا تو یہی گیا کہ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے اسمبلی تاریکی میں ڈوب گئی--- تاریکی تو ایسی جمہوریت کامقدر ہے لیکن اس اسمبلی کے درودیوار نے اس طرح اپنا احتجاج ریکارڈ کرا دیا جس نے ۵۵ سال پہلے اسی ہال میں پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا پورا اجلاس دیکھا تھا اور پاکستان زندہ باد کی گونج سنی تھی۔

کیا یہی وہ جمہوریت کا جوہر (substance)ہے جس کی نوید جنرل پرویز مشرف نے دی تھی۔ کیا یہ اس "sham democracy" سے بدتر نہیں جس کی مذمت کرتے جنرل صاحب تھکتے نہ تھے۔ کیا جمہوریت کی بحالی کا یہی وہ وعدہ ہے جس کے ایفا کے اعلانات جنرل صاحب اور ان کے نامزد وزیراعظم کر رہے ہیں  ع

جس کی بہار یہ ہو اس کی خزاں نہ پوچھ!

لاہور کے قریب مناواں میں ڈاکٹر احمد جاوید خواجہ اور ان کے خاندان کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کا تعلق صرف ایک فرد یا خاندان سے نہیں بلکہ پوری قوم اور اس کی بنیادی اقدار کی پامالی سے ہے۔ یہ ایک آئینہ ہے جس میں آج کے پاکستان کا اصل چہرہ دیکھا جا سکتا ہے۔

واقعات کی پوری تصویرکشی اخبارات میں ہو چکی ہے۔ کس طرح نصف شب پولیس اور کسی دوسری سرکاری ایجنسی کے کارپرداز بیرونی ایجنٹوں کے ہمراہ ایک معزز گھرانے پر حملہ آور ہوتے ہیں‘ چوکیدار کا سر پھاڑ کر گھر میں داخل ہو جاتے ہیں‘ عورتوں کو ایک کمرے میں بند کرا دیتے ہیں‘ تمام مردوں کو ہتھکڑیاں لگاکر اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں۔ تلاشی کے بہانے نقدی اور قیمتی اشیا پر قبضہ کر لیتے ہیں اور یہ سب اسی طرح کہ نہ وزیراعلیٰ کو خبر ہے اور نہ وزیراعظم کو اطلاع---! چار افراد کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دو کا ریمانڈ لیا جاتا ہے‘ باقی سب بھی غیرقانونی تحویل میں ہیں اور پولیس مزاحمت‘ ناجائز اسلحہ‘ فساد اور نامعلوم کس کس جرم کی ایف آئی آر کاٹنے میں مشغول ہے۔

اس شرم ناک واقعے پر جتنا بھی احتجاج کیا جائے کم ہے۔ جماعت اسلامی‘ متحدہ مجلس عمل‘ ڈاکٹروں کی تنظیم سب ہی نے احتجاج کیا ہے اور قائداعظم لیگ کے پارلیمانی لیڈر نے بھی صاف الفاظ میں مذمت کی ہے۔ معاملہ عدالت میں بھی چلا گیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کے چند اصولی پہلوئوں کی طرف ملک و قوم کی توجہ مبذول کرائیں۔

ایک مہذب معاشرے کی پہچان اس کے شہریوں کی جان‘ مال اور عزت و آبرو کی حفاظت ہے۔ لیکن پاکستانی معاشرے کا آج یہ حال ہے کہ کسی کی جان‘ مال اور آبرو محفوظ نہیں۔ ابھی ایک ماہ پہلے ڈاکٹر عامر عزیز کا اغوا ہوا اور چار مہینے زبردست احتجاج کے بعد رہائی عمل میں آئی۔ اسی زمانے میں کوئٹہ میں ایک غیرملکی ڈاکٹر کو ناجائز حراست میں رکھا گیا اور ہائی کورٹ نے اس پر سخت نکیر کی۔ اور اب بھی اسی قسم کا واقعہ لاہور میں ایک اور معزز ڈاکٹر اور اس کے اہل خانہ کے ساتھ ہوا۔

یہ سب کیا ہے؟ کیا اس ملک میں کوئی قانون نہیں؟ یہ حق کس کو ہے کہ جب چاہے کسی کے گھر میں داخل ہو جائے‘ عورتوں کو کمرے میں محصور کر دے‘ مردوں کو بے عزت کرے اور گرفتار کر لے۔ وارنٹ کے بغیر لے جائے اور غیرملکیوں کے سامنے تفتیش کے لیے پیش کر دے۔ اسلامی تو کیا کوئی مہذب معاشرہ بھی اس کا روادار نہیں ہو سکتا۔

دوسرا پہلو ہمارے اندرونی معاملات میں امریکہ کا عمل دخل ہے۔ اس کا تعلق ہماری آزادی اور قومی غیرت سے ہے۔ ایف بی آئی کا ایک ایجنٹ ہو یا ایک سو‘ ہمارے معاملات میں ان کی اس طرح کی مداخلت‘ قومی آزادی کے لیے ایک چیلنج ہے اور اسے ایک لمحے کے لیے بھی گوارا کرنا ممکن نہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ اس پر پردہ ڈالنے اور حقائق کو چھپانے کے بجائے سیدھے سیدھے اقدام کرے اور امریکہ کو بتا دے کہ خفیہ اطلاعات میں تعاون ایک چیز ہے اور سی آئی اے اور ایف بی آئی کا ملکی معاملات میں عمل دخل بالکل دوسری شے۔ یہ دراندازی فوراً رکنی چاہیے اور قومی اسمبلی اور اعلیٰ عدالتوں کو اس کا فوری نوٹس لینا چاہیے۔ چودھری شجاعت حسین نے جو بات اپنے جذبات کے اظہار کی شکل میں کہی ہے ان کا اور ان کی حکومت کا فرض ہے کہ اسے عملاً نافذ کرے۔ یہ دراندازی امریکہ کے لیے بھی بہت مہنگی پڑے گی اور اس سے اس کے خلاف نفرت کے شعلے اور بھی بلند ہوں گے۔

تیسری بات کا تعلق ہماری پولیس اور ایجنسیوں کے رویے اور طریق واردات سے ہے۔ اگر کسی فرد سے پوچھ گچھ کرنا بھی ہے تویہ کام ایک شائستہ انداز میں بھی ہو سکتا ہے۔ قانون کے تقاضے پورے ہونے چاہییں۔ دن کے وقت آپ کے افسر متعلقہ اشخاص سے ربط قائم کرسکتے ہیں اور ضروری معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ کیا طریقہ ہے کہ آدھی رات کو سوتے ہوئے افراد پر حملہ آور ہوا جائے۔ سیدھے سیدھے ربط قائم کرنے کی بجائے دروازے توڑنے (gate crash) کا راستہ اختیار کیا جائے۔بدتمیزی اور بے تہذیبی کا ہر حربہ استعمال ہو۔ بچے اور بوڑھے میں تمیز نہ ہو۔ چور‘ ڈاکو اور مہذب شہریوں میں فرق نہ کیا جائے۔ یہ سارے ہتھکنڈے کسی بھی مہذب معاشرے میں ایک لمحے کے لیے قابلِ برداشت نہیں۔

اسی طرح پولیس کا یہ رویہ کہ جھوٹی ایف آئی آر درج کی جائیں‘ اپنی ہرزیادتی کے لیے بطور بہانہ مقابلہ اور مزاحمت کی داستانیں گھڑی جائیں--- یہ کھیل ۵۰ سال سے کھیلا جا رہا ہے‘ اب اسے ختم ہونا چاہیے۔

نہ صرف پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی اور اس کا نوٹس لینا چاہیے بلکہ شہریوں کی تنظیموں کو بھی ان مسائل کو اٹھانا چاہیے اور سب کی عزت و تحفظ کے لیے مناسب ضابطہ کار تسلیم کرائے اور نافذ کرائے جانے چاہییں۔

سود کے بارے میں ایک تصور یہ بھی ہے کہ ماضی کے ساہوکاری نظام میں تو یہ ظلم کا آلہ تھا مگر آج کے جدید بنک کاری نظام میں یہ خیر ہی خیر کا باعث ہے۔ اگر گہرائی میں جا کر موجودہ نظام کا مطالعہ کیا جائے تو سود آج بھی اسی طرح آلۂ ظلم ہے جس طرح ماضی کے ادوار میں رہا ہے۔ اس کا اندازہ انگلستان کے ایک تحقیقی ادارے Jubilee Research کی ایک تازہ رپورٹ سے کیا جا سکتا ہے جو ترقی پذیر ملکوںکے سودی قرضوں کے بارے میں ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ۱۹۷۰ء میں تمام ترقی پذیر ملکوں پر امیر ملکوں کا مجموعی قرض ۷.۷۲ ارب ڈالر تھا۔ اس میں اس وقت کا کل قرض اور جمع شدہ سود دونوں شامل تھے۔ ۳۰ سال میں یہ قرض ۷.۷۲ ارب سے بڑھ کر ۵.۲۵۲۷ ارب ڈالر ہو گیا ہے‘ جب کہ اس پورے عرصے میں یہ ممالک قرض کی اقساط بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ ۳۰ سال میں یہ اضافہ ۳۵گنا ہے۔ آج کا قرضہ ان ممالک کی کل قومی پیداوار کے ۳۷ فی صد کے برابرہو گیا ہے۔ ۱۹۷۰ء میں ۷.۷۲ ارب ڈالر کے کل قرضوں کے مقابلے میں ۱۹۹۰ء میں‘ یعنی ۲۰ سال کے بعد صرف سود اور اداے قرض کی مد میں یہ ممالک ۸.۱۶۳ ارب ڈالر سالانہ ادا کر رہے تھے جو اب سنہ ۲۰۰۰ء میں بڑھ کر ۹.۳۹۸ ارب ڈالر ہو گیاہے۔ گویا ۲۰ سال بعد اصل قرض سے ڈھائی گنا رقم صرف سالانہ سود ادا کرنے کی نذر ہو رہی تھی۔ ۲۰۰۰ء کے بارے میں یہ حقیقت بھی سامنے رہے کہ اس سال بیرونی امداد کے نام پر جو رقم تمام ترقی پذیر ملک وصول کر رہے تھے وہ صرف ۶۵ ارب ڈالر تھی‘ جب کہ اس سال جو سود اور ادایگی قرض انھوں نے امیرملکوں کو کیا وہ اس سے ۷ گنا زیادہ تھا ‘یعنی ۹.۳۹۸ ارب ڈالر۔

کیا اس کے بعد بھی اس میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ سودی قرضوں کا نظام دراصل ایک نیا غلامی کا نظام ہے جس کے ذریعے امیر ملکوں نے غریب ملکوں کو اپنے شکنجے میں کس لیا ہے اور وہ ان کا خون چوس رہے ہیں۔

کل کے ساہوکارکو ہر کوئی نفرت کی نظر سے دیکھتا تھا اور اسے ظالم سمجھتا تھا مگر آج کا ساہوکار محسن بن کر آیا ہے‘اور احسان جتا کر قرض لینے والے ملکوں کو لوٹ رہا ہے اور آہستہ آہستہ معاشی جال میں پھنسا کر ان کی سیاسی آزادی پر بھی اپنی گرفت مضبوط کرتا جا رہا ہے۔ جس معاشی ترقی کی خاطر قرض کا یہ سلسلہ چلا تھا‘ وہ ناپیدہے۔ افریقہ کے ممالک کی مجموعی پیداوار ان ۳۰ سالوں میں کم ہوئی ہے۔ غربت ہر جگہ بڑھی ہے۔ قرضوں کا بوجھ ہمالیہ صفت ہو گیا ہے۔ ان ممالک کی اشیاے پیداوار کی قیمتیں گر رہی ہیں اور سود اور قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سیاسی عدم استحکام بڑھ رہا ہے۔ کیا وہ وقت اب بھی نہیں آیا کہ سودی بنیاد پر قائم پوری معاشی حکمت عملی پر ازسرنو غور ہو اور معاشی ترقی کا کوئی ایسا راستہ اختیار کیا جائے جو فی الحقیقت غربت و افلاس کو دُور کر سکے اور عوام کے لیے حقیقی خوش حالی ممکن ہو سکے۔

______________

قارئین کرام کی خدمت میں

ترجمان القرآن کا جو شمارہ اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے اس میں آپ صوری اور معنوی دونوں اعتبار سے کچھ تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں۔ آج سے ۷۰ برس پہلے ترجمان القرآن کا جو قدوقامت اس کے مؤسس مدیر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ترتیب دیا تھا اس پورے عرصے میں اس پر قائم رہنے کی کوشش کی گئی۔ کاغذ اور فن طباعت نے اس زمانے میں جو بھی کروٹیں لیں ترجمان ان سے متاثر نہ ہوا۔رسالے کا سائز وہی رہا ‘صفحات میں کمی اور اضافے کا سلسلہ ہوتا رہا۔ اب اس سلسلے میں ایک فیصلہ ناگزیر ہوگیا۔ جس سائز پر اب تک یہ شائع کیا جاتا رہا ہے اس میں کاغذ کی دستیابی کے علاوہ طباعت کی جدید سہولتوں کے حوالے سے بھی مشکلات پیش آ رہی تھیں۔ اس لیے ادارے نے طے کیا کہ سائز میں تبدیلی کر دی جائے لیکن مطالعے کے لوازمے کی مقدار کو نہ صرف باقی رکھنے بلکہ اس میں کچھ اضافہ کرنے کے لیے صفحات کو بڑھا دیا جائے۔ اس لیے اس شمارے کا سائز پہلے سے چھوٹا ہے اور ہر صفحے پر ۲۵ کے بجائے ۲۳سطریں ہیں۔ ضخامت کے اعتبار سے ۸۸ صفحات کے بجائے ۱۱۲ صفحات پیش خدمت ہیں۔اس طرح سابقہ قیمت پر ہی ۲۴ صفحات کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔

ترجمان القرآن کے اشارات کا بھی ایک اپنا ہی آہنگ ہے۔ اس کی ابتدا سید مودودیؒ نے ۷۰ سال پہلے کی تھی اور پھر برادران محترم نعیم صدیقی‘ عبدالحمید صدیقی اور خرم مراد نے اپنے اپنے دور میں اپنے اپنے انداز میں اسے برقرار رکھا اور پروان چڑھایا۔ میں نے بھی مقدور بھر اسی کی کوشش کی اور دوستوں کے مختصر نگاری کے مطالبوں کے باوجود اپنی ہی ڈگر پر چلتا رہا کہ    ؎

ہم رونے پہ آ جائیں تو دریا ہی بہا دیں

شبنم کی طرح سے ہمیں رونا نہیں آتا

اس اسلوب کا ایک نقصان یہ ہوا کہ مہینے میں ایک ہی مسئلے پر بات ہوسکی اور بہت سے موضوعات جو دعوت کلام دیتے تھے رہ جاتے تھے۔ اب ایک جدت یہ کی جا رہی ہے کہ اشارات کے بعد چند شذرات کا اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس عنوان کے تحت مدیر یا رفقاے ادارہ مختلف موضوعات پر نقدوتبصرہ کرسکیں گے۔ اس سے تنوع میں اضافہ ہوگا اور دوسرے لکھنے والے بھی ادارتی صفحات میں اظہار خیال کر سکیں گے۔ اس طرح ترجمان القرآن کی کہکشاں پر چاند اور تاروں کا سماں پیدا ہو سکے گا۔

یہ دونوں تبدیلیاں صوری اور معنوی اعتبار سے جدت کی طرف ایک قدم ہیں لیکن درحقیقت روایت ہی کے تسلسل کی علامت ہیں۔ گویا    ؎

فصل بہار آئی ہے لے کر رت بھی نئی‘ شاخیں بھی نئی

سبزہ و گل کے رخ پر لیکن رنگ قدامت آج بھی ہے

توسیع اشاعت کے سلسلے میں

اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ترجمان القرآن کی اشاعت کی توسیع کے سلسلے میں چند باتیں آپ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں۔

ترجمان القرآن روزاول سے ایک پیغام کا علم بردار رسالہ ہے۔ اس کے پڑھنے والوں نے ہمیشہ اس کے پیغام کو پھیلایا اور آگے بڑھایا ہے۔ آج جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا میں حقیقی اسلام کے احیا کی جو لہر اٹھی ہوئی ہے اس کا آغاز اس صدی میں سید مودودی ؒکے رسالے ترجمان القرآن نے کیا۔

۱۴۲۳ھ کے آغاز پر ہم نے اسے توسیع اشاعت کا سال قرار دیا اور اپنے سب خیرخواہوں کو متوجہ کیا کہ اس پیغام کی وسیع سے وسیع تر حلقے میں اشاعت کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کریں۔ ۱۴۲۳ھ کے اختتام میں صرف دو ماہ رہ گئے ہیں‘ ہم ایک دفعہ پھر توجہ دلانا چاہتے ہیں کہ تمام رفقا نظم کی ہر سطح پر خصوصی منصوبہ بندی کر کے ممکنہ حد تک جو کچھ کر سکتے ہیں اس میں کمی نہ کریں۔

دورانِ سال کا ہمارا تجربہ اور تاثر یہ ہے کہ دل چسپی لینے والوں نے جہاں بھی کوشش کی اس کے نتائج بڑے مثبت آئے۔ ایک ایک جگہ ۵۰ سے زائد خریدار بنائے گئے۔ جب مرکزی منصوبے میں ۲۵ فی صد اضافے کا ہدف دیا گیا ہے تو ہرسطح پر اس کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ کوشش کی جانی چاہیے اور جائزہ لینا چاہیے (ایک آسان نسخہ کاغذ پر لکھنے کی حد تک تو یہ ہے کہ ہر خریدار ایک نیا خریدار بنا دے تو اشاعت دگنی ہو جائے گی)۔ ایسے فرد بھی موجود ہیں جو ۵۰۰ پرچہ لے کر فروخت کردیتے ہیں‘ لیکن اس سے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا پورے پاکستان میں‘ تمام شہروں اور قصبات میں جہاں تحریک کا کام ہے‘ ایسے ۶۰ آدمیوں کے برابر کام ہو رہا ہے؟

جب ارادہ ہوتا ہے تو راستہ بھی نکل ہی آتا ہے۔ کرنے کے دس طریقے اور نہ کرنے کے سو بہانے۔ اس پرچے کو ایسے ہر شخص تک پہنچانا جو اس کا قدردان اور امکانی خریدار ہو سکتا ہے۔ متعلقہ افراد اور نظم کی ذمہ داری ہے۔ کوشش ہوگی تو اللہ تعالیٰ ضرور نتائج دے گا۔ اس کا وعدہ ہے۔ تربت جیسے ضلع اور آزاد کشمیر کی ایک یونین کمیٹی میں ۵۰ خریدار بن سکتے ہیں تو زیادہ آباد‘ اور زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ باشعور شہروں اور قصبات میں ہزاروں کیوں نہیں بن سکتے؟

متحدہ مجلس عمل کی کامیابی نے بھی ایک خداداد موقع فراہم کیا ہے۔ اس وقت پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اور ملک کے ہر گھرانے میں مجلس عمل موضوع ہے۔ جہاں ہم خود پہنچنے کا تصور نہیں کرسکتے تھے‘ اسلام موضوع بن گیا ہے۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم اسلام کی صحیح تصویر پہنچائیں تاکہ وہ ہماری کارکردگی صحیح معیار سے جانچیں۔ یقینا  ترجمان القرآن کا مطالعہ اس میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

حسن اتفاق سے ۲۰۰۳ء میں سید مودودی علیہ الرحمہ کی پیدایش کو صدسال مکمل ہو رہے ہیں۔ ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے دو ماہ میں ان کے رسالے ترجمان القرآن کا نئے حلقوں میں تعارف کروانے اور نئے خریدار بنانے کے لیے خصوصی کوشش کریں۔ یاد کریں کہ ۷۰ سال قبل جب انھوں نے ترجمان القرآن کا آغاز کیا تھا تو اس کی اشاعت کس کس طرح اور کس جذبے اور محنت سے کی تھی۔ آج اس پرچے کو ہر طالب حق تک پہنچانا ہمارا فرض ہے۔ یہ ایک چیلنج ہے‘ آیئے اس چیلنج کو قبول کریں اور اپنی ذمہ داری ادا کرنے کے لیے کوشش میں کوئی کمی نہ چھوڑیں۔

ترکشِ مارا خدنگِ آخریں

برعظیم پاک و ہند کے علمی اور دینی اُفق کو درخشاں کرنے والے تمام ستارے ایک ایک کر کے ڈوب گئے ہیں--- !

علامہ اقبال گئے‘ مولانا اشرف علی تھانوی گئے‘ مولانا ابوالکلام آزاد گئے‘ مولانا شبیراحمد عثمانی گئے‘ سید سلیمان ندوی گئے‘ مفتی محمد شفیع گئے‘ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی گئے‘ ڈاکٹر فضل الرحمن گئے‘ مولانا امین احسن اصلاحی گئے‘ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی گئے--- اور اب مشرق سے اُبھرنے والے اس سنہری سلسلے کا آخری تارہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ مغرب کی آغوش میں ہمیشہ کی نیند سو گیا--- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

محمد حمیدؒاللہ ۱۶محرم الحرام ۱۳۳۶ھ بمطابق ۱۹ فروری ۱۹۰۸ء حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ دولت آصفیہ ہی میں ابتدائی سے اعلیٰ تعلیم تک کے مراحل طے کیے اور عثمانیہ یونی ورسٹی سے‘ جو برعظیم کی تاریخ میں اُردو کے محوری کردار اور اپنی اعلیٰ علمی روایات کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتی تھی ایم اے اور ایل ایل بی کی سندات امتیازی شان سے حاصل کر کے اسی جامعہ میں تدریس کی ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ تقسیم ملک سے کچھ قبل اعلیٰ تعلیم کے لیے جرمنی گئے اور بون (Boun) یونی ورسٹی سے بین الاقوامی قانون کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈی فل کی سند حاصل کی۔ ڈاکٹر حمیدؒاللہ کی یہی تحقیق تھی جو بعد میں ضروری اضافوں کے ساتھ ان کی شہرہ آفاق تصنیف Muslim Conduct of State بنی۔جرمنی سے فرانس منتقل ہو گئے اور سوربون (Sorbonne) یونی ورسٹی سے عہدنبویؐ اور خلافت راشدہ  میں اسلامی سفارت کاری کے موضوع پر مقالہ لکھ کر ڈی لٹ کی سند حاصل کی۔

اس زمانے میں سقوطِ حیدرآباد (۱۹۴۸ئ) کا سانحہ رونما ہوا ۔ اس کے بعد پھر ڈاکٹر حمیداللہ پیرس ہی کے ہو کر رہ گئے۔ میرے استفسار پر ایک بار بتایا کہ میں دولت آصفیہ کے پاسپورٹ پر یورپ آیا تھا۔ پھر میری غیرت نے قبول نہ کیا کہ بھارت کا پاسپورٹ حاصل کروں۔ فرانسیسی شہریت بھی ساری عمر حاصل نہ کی۔ پناہ گزیں کی حیثیت پر تمام عمر قانع رہے اور محض وثیقہ راہ داری (travel documents) کے ذریعے عالمی سفر کرتے رہے جس کے تحت چھیماہ کے اندر اندر انھیں فرانس واپس آنا پڑتا تھا۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ کسی ملک کے بھی شہری نہ تھے بلکہ ذہنی اور مادی ہر دو اعتبار سے اس دنیا ہی کے شہری نہ تھے۔ ۷۰ سال بغیر پاسپورٹ کے گزارے اور بالآخروہاں چلے گئے جہاں کسی دنیوی پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی--- ہاں ان کے پاس ایمان‘ عمل صالح اور علم و تحقیق اور دعوت و تبلیغ کے لیے وقف کی جانے والی زندگی کا سرمایہ تھا اور یہی سب سے کام آنے والی چیز ہے۔

ڈاکٹر حمیداللہ مشرق اور مغرب کی نو زبانوں پر قدرت رکھتے تھے اور چار میں (اُردو‘ انگریزی‘ فرانسیسی‘ عربی) بلاواسطہ تحریر و تقریر کی خدمت انجام دیتے تھے۔ مطالعہ اور گفتگو کی اعلیٰ استعداد جرمنی‘ اطالوی‘ فارسی‘ ترکی اور روسی زبانوں میں بھی حاصل تھی۔ پیرس کے مشہور تحقیقی مرکز Centre National  de la Researche Scientifiqueسے ریٹائرمنٹ تک وابستہ رہے۔

علم و تحقیق اور دعوت و تبلیغ سے ایسا رشتہ باندھا کہ رشتہ ازدواج کی فکر کی مہلت بھی نہ ملی اور امام ابن تیمیہؒ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے گھربار کے جھگڑے سے آزاد رہے اور صرف    علم کا ورثہ چھوڑا۔ عالم اسلام کی چوٹی کی جامعات میں تدریس کے فرائض انجام دیے‘ خصوصیت سے جامعہ استنبول سے طویل عرصے تک متعلق رہے۔ وہ ہر سال چند ماہ وہاں گزارتے تھے۔ جامعہ اسلامیہ بہاول پور میں بھی ۱۲ خطبات دیے جوخطبات بہاول پور کے عنوان سے شائع ہوئے اوران کا خوب صورت انگریزی ترجمہ ڈاکٹر افضل اقبال نے کیا اور   یہ The Emergence of Islam کے نام سے شائع ہوئے۔

میری نگاہ میں ڈاکٹر محمدحمیداللہ مسلمانوں میں پہلے اور آخری مستشرق (orientalist) تھے۔ مستشرق میں ان کو اس لیے کہہ رہا ہوں کہ انھوں نے مستشرقین کے طریق تحقیق (methodology) پر ایسی ہی قدرت حاصل کر لی تھی جیسی غزالی نے یونانی فلسفے پر۔ وہ تحقیق اور طریق تالیف کے باب میں مستشرق ہوئے لیکن اس پہلو سے مستشرقین سے مختلف تھے کہ ان کا قبلہ درست تھا۔ ان کے اصل مآخذ قرآن و سنت اور مسلمانوں کے معتبر اہل علم کی تصانیف تھیں۔ انھوں نے اسلام کو‘ جیساکہ وہ ہے‘ دنیا کے سامنے پیش کیا۔ البتہ تحقیق و تصنیف‘ تلاش و جستجو‘ نقد و احتساب کے ان تمام ذرائع کو کامیابی اور قدرت کے ساتھ استعمال کیا جو مستشرقین کا طرۂ امتیاز سمجھے جاتے ہیں اور اس طرح علمی میدان میں اہل مغرب کا جو قرض مسلمانوں پر تھا‘ اسے فرض کفایہ کے انداز میں ڈاکٹر صاحب نے چکا دیا اور ساتھ ساتھ وہ کیا جسے انگریزی محاورےpaying in the same coin کہا جاتا ہے۔ الحمدللہ!

ڈاکٹر حمیداللہ فکرونظر کے اعتبار سے ٹھیٹھ مسلمان تھے۔ انھوں نے سلف کے نقطۂ نظر کو پوری دیانت سے جدید زبان اور استشراق کے اسلوب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیش کیا اور ایک حد تک یہ کہنا درست ہوگا کہ اسلامی علوم اور دورِ جدید کے طلبا اور محققین کے درمیان ایک پُل بن گئے۔

ڈاکٹر حمیداللہ کی علمی دل چسپیوں کا دائرہ بڑا وسیع تھا اور اس حیثیت سے ان کا کام  کثیرجہتی (multi dimensional) تھا۔ انھوں نے تحقیق کے مختلف میدانوں میں بڑے معرکہ کی چیزیں پیش کیں لیکن شاید ان کی سب سے زیادہ دین (contribution) مسلمانوں کے بین الاقوامی قانون کے میدان میں ہے جس میں انھوں نے علمی دنیا سے یہ منوا لیا کہ بین الاقوامی قانون کے اصل بانی مسلمان فقہا اور علما ہیں‘ سترھویں صدی کے مغربی مفکرین نہیں۔ تدوین حدیث کے باب میں بھی ان کا کام بڑا وقیع ہے اور صحیفہ ھمام ابن مُنبّہ کی تالیف اور اشاعت ان کا بڑا کارنامہ ہے جس نے یہ ثابت کر دیا کہ حدیث کی کتابت دور رسالت مآبؐ اور دور خلافت راشدہ ہی میں شروع ہو گئی تھی۔ یہ مسودہ ان کو جرمنی کی ایک لائبریری سے ملا جس کو مناسب انداز میں تدوین کرکے اور یہ دکھا کر کہ اس اولین مسودے میں لکھی ہوئی احادیث اور بعد کے مجموعوں میں پائی جانے والی احادیث میں کوئی فرق نہیں ‘ہے انھوں نے بڑے سائنسی انداز میں حدیث کی صحت کو منوانے میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاسی زندگی‘ آپؐ کے غزوات‘ سفرہجرت‘ خطوط اور وثائق کی تلاش اور ترتیب--- ان سب میدانوں میں ڈاکٹر حمیداللہ نے تحقیق اور تسوید کے وہ نقوش قائم کیے ہیں جو تادیر چراغ راہ رہیں گے۔

اسلامی فقہ کی تدوین اور خصوصیت سے امام ابوحنیفہؒ کی methodology پر ان کا کام راہ کشا حیثیت رکھتا ہے۔اسلامی قانون اور قانون روما کے فرق کو بھی انھوں نے بڑے قاطع دلائل سے ثابت کیا اور مستشرقین کے اس غبارے سے ہوا نکال دی کہ اسلامی قانون دراصل قانون روما سے ماخوذ ہے۔دنیا کی مختلف زبانوں میں قرآن پاک کے ترجموں کی معلومات کو جمع کرنا بھی ان کا ایک پسندیدہ موضوع تھا اور اس سلسلے میں ان کی کاوش  اساسی اور بنیادی کوشش کا مقام رکھتی ہے۔ ان کے طرزِ تحقیق میں صرف کتابی محنت ہی شامل نہ تھی۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرہجرت کی تحقیق میں انھوں نے پاپیادہ اور گھوڑے اور اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ کر اس راستے پر عملاً سفر کیا جس سے حضورپاکؐ نے ہجرت فرمائی تھی اور اس طرح اس شاہراہ کو متعین کیا جو روایات میں دھندلی ہوگئی تھی۔ قرآن پاک اور سیرت مبارکہ ان کی زندگی کے صورت گر ہی نہ تھے‘ ان کی علمی دل چسپی کا بھی محور تھے۔

فرانسیسی زبان میں قرآن پاک کا ترجمہ اور فرانسیسی زبان ہی میں دو جلدوں میں سیرت پاکؐ کی تدوین بھی ان کے نمایاں کاموں میں سے ایک ہے۔ سیرت کی کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی ڈاکٹر صاحب نے خود ہی کیا ہے جو شائع ہو گیا ہے۔ ۱۰۰ سے زیادہ مقالے اور مضامین   ان کے قلم سے نکلے اور اہل علم کی تشنگی دُور کرنے کا ذریعہ بنے۔ یقینا ان کی چھوٹی بڑی کل کتب کی تعداد ۱۵۰ سے زیادہ ہے۔

ڈاکٹر حمیداللہ سے میری پہلی ملاقات اس زمانے میں ہوئی جب میں ابھی طالب علم تھا اور اسلامی جمعیت طلبہ میں سرگرم تھا اور وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو اسلامی دستور سازی میں مدد دینے کے لیے پاکستان آئے ہوئے تھے۔ وہ مولانا سید سلیمان ندوی‘ مفتی محمد شفیع اور مولانا ظفراحمد انصاری کے ساتھ مجلس تعلیمات اسلامی کے رکن تھے اور اسمبلی کی عمارت ہی کے ایک حصے میں ان کا دفتر تھا۔ ان کے علم کی وسعت اور اس کے رعب کے تحت میرے ذہن نے ان کی ایک تصویر بنا لی تھی لیکن ان کو دیکھ کر مجھ کو ایک دھچکا سا لگا۔ میں نے ان کو ایک دبلاپتلا اور سادہ سا فقیرمنش انسان پایا۔ اکہرا بدن‘ لمباقد‘ صاف رنگ‘ کتابی چہرہ‘ اوسط لمبائی کی مگر غیرکفی ڈاڑھی‘ پُرنور آنکھیں--- اور ان سب سے بڑھ کر انکسار کا مجسمہ‘ تواضع کا پتلا‘ سادگی کا پیکر اور جس چیز نے سب سے زیادہ حیران کیا وہ یہ تھی کہ اسمبلی کے دفتر میں کرتے پاجامے میں ملبوس اور پائوں میں کھڑاوں--- پتا نہیں آج کی نسل اس شے سے واقف بھی ہے یا نہیں۔ ہمارے بچپن میں وضو کے لیے لکڑی کی سادہ سی چپل ہوتی تھی جسے کھڑاوں کہتے تھے اور جو بالعموم غسل خانے میں رکھی جاتی تھی۔ میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ تصور نہ آ سکتا تھا کہ کوئی اسمبلی کے دفتر میں کھڑاوں پہنے بیٹھا ہوگا۔

حیرانی کی یہ کیفیت چند ہی لمحات میں ان کی شفقت اور پیار سے بھری باتوں سے دُور ہو گئی اور تبحرعلمی کے ساتھ ان کا انکسار دل پر نقش ہوگیا۔ بات آہستہ آہستہ دھیمے لہجے میں‘ کچھ کچھ رک کر اور سر ہلا ہلا کر کرتے تھے مگر اس طرح کہ دل میں اتر جاتی تھی۔

پھر ڈاکٹر صاحب نے اس وقت مجھے چونکا دیا جب چراغ راہ کے اسلامی قانون نمبر کی اشاعت پربالکل غیر متوقع طور پر ان کا تین صفحے کا خط موصول ہوا۔ اور تین صفحے بھی ایسے کہ ان میں ۱۰ صفحوں کا لوازمہ موجود تھا‘ کیونکہ ڈاکٹر صاحب ہلکے کاغذ پر چھوٹے حروف میں اس طرح لکھتے تھے کہ مختصرحاشیے کے سوا ہر جگہ بھری ہوتی تھی۔ اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی بات ان کی محنت تھی۔ اسلامی قانون نمبر پر بہت خوش تھے۔ بڑی فراخ دلی سے اس کی تعریف کی لیکن ساتھ ہی بڑے انکسار سے لکھا کہ آپ کو زحمت سے بچانے کے لیے دوسرے ایڈیشن کے لیے کتابت کی غلطیوں کی نشان دہی کر رہا ہوں--- اور اس طرح صفحہ اور سطرکے تعین کے ساتھ تین صفحوں میں انھوں نے میری اور میرے ساتھیوں کی بے احتیاطی کی تلافی کا سامان کر دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب سے خط و کتابت کا سلسلہ ۴۰ سال پر پھیلا ہوا ہے مگر کس دل سے لکھوں کہ اس کا بیشتر حصہ محفوظ نہ رہ سکا! آخری خط میری مختصر کتاب Family Life of Islam کے فرانسیسی ترجمے پر ان کی تصحیح و تنقید سے عبارت تھا۔

ڈاکٹر صاحب نے ۱۹۴۸ء میں جو فلیٹ پیرس میں کراے پر لیا تھا‘ وہ ایک ایسی عمارت کی چوتھی منزل پر تھا جس میں لفٹ نہ تھی۔ انھوں نے پیرس کے قیام کے آخری ایام تک اسی میں سکونت رکھی۔ اس فلیٹ کا ایک ایک کونہ بشمول باورچی خانہ کتابوں سے بھرا ہوا تھا اور یہی ان کی سب سے بڑی دولت تھی۔ زندگی اتنی سادہ کہ کپڑے کے چند جوڑوں اور کھانے کے چند برتنوں کے سوا ان کے گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔ کھانے کے بارے میں بھی اتنے محتاط تھے کہ حلال گوشت نہ ملنے کے باعث زمانہ طالب علمی میں ہی گوشت کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ سبزی اور پنیر پر گزارا کرتے تھے اور جب یہ شبہہ ہوا کہ پنیر میں بھی جانورکی آنتوں کی چربی استعمال ہوتی ہے تو اس سے بھی دست کش ہوگئے۔ علم و تقویٰ ‘ قناعت اور سادگی میں سلف کی مثال تھے۔

میں نے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ متعدد علمی مذاکرات میں شرکت کی ہے لیکن سب سے زیادہ یادگار وہ مخیّم (تربیتی کیمپ) تھا جو فرانس میں ایک دیہاتی علاقے میں فرانس کی مسلمان طلبہ کی اسلامی تنظیم (UMSO) کے تحت منعقد ہوا تھا اور جس میں پانچ دن رات ہم نے ساتھ گزارے۔ ڈاکٹر صاحب بھی عام طلبہ کی طرح زمین پر سوتے اور اپنے برتن اپنے ہاتھ سے دھوتے تھے۔ مجھے یہ سعادت بھی حاصل ہوئی کہ کمالِ التفات سے ڈاکٹر صاحب نے میری تقاریر کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ فرمایا۔ جزاھم اللّٰہ خیرا الجزائ۔

وقت کی پابندی میں بھی ڈاکٹرصاحب اپنی مثال آپ تھے۔ اس کی کوئی دوسری مثال اگر میں دے سکتا ہوں تو وہ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کی ہے۔ یہاں اس واقعے کا ذکر بھی شاید غیرمتعلق نہ ہو (اور اس کے راوی ڈاکٹر صاحب کے دیرینہ ساتھی اور میرے بزرگ دوست احمد عبداللہ المسدوسی مرحوم ہیں) کہ حیدرآباد کا نوجوان حمیداللہ اپنی پوری طالب علمی کے دور میں صرف ایک بار کلاس میں تاخیر سے پہنچا (غیرحاضری کا تو سوال ہی نہ تھا) اور یہ وہ دن تھا جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا۔ تدفین کے بعد یہ نوجوان سیدھا جامعہ گیا اور کلاس میں شریک ہوگیا    ؎

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندا طبع لوگ

افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

ڈاکٹر حمیداللہ صرف علم و تحقیق ہی کے مرد میدان نہ تھے‘ دعوت و تبلیغ میں بھی ڈوبے ہوئے تھے۔ پیرس کی جامع مسجد میں ایک مدت تک تعلیم و تدریس کی خدمت انجام دیتے رہے۔ انفرادی ملاقاتوں سے لے کر تبلیغی دورے اور ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسیں--- ہر جگہ انھوں نے دعوت کا کام انجام دیا۔ فرانس میں وہ صرف شمالی افریقہ کے مسلمانوں کا ہی مرجع نہ تھے بلکہ فرانسیسی مسلمانوں کا بھی ایک حلقہ ان کے گرد قائم تھا۔ طلبہ اورنوجوانوں میں وہ بے حد مقبول تھے۔ وہ ان کو وقت دینے میں بے پناہ فراخ دل تھے۔

ڈاکٹر حمیداللہ سیاسی آدمی نہ تھے۔ اربابِ حکومت نے ان کو قریب لانے کی کوشش کی لیکن وہ ہمیشہ ان سے کنارہ کش رہے۔ علمی اور ادبی اعزازات سے ان کا پیچھا کیا لیکن وہ ہمیشہ ان سے دامن کش رہے۔ مجھے علم ہے کہ فیصل ایوارڈ میں ان کا نام آیا لیکن انھوں نے معذرت کرلی۔ پاکستان نے ہجری ایوارڈ ان کو پیش کیا مگر انھوں نے رسمی طور پر قبول کرنا پسند نہ کیا اور رقم اسلامک یونی ورسٹی کے لیے وقف کر دی۔ سیاسی نہ ہوتے ہوئے بھی ان کی دینی حس اتنی بیدار تھی کہ آزاد حیدر آباد دکن سے یورپ جانے کے بعد مقبوضہ حیدر آباد دکن کبھی واپس نہ آئے بلکہ جب میں نے اصرار کیا کہ اسلامک فائونڈیشن لسٹر کے پروگرام میں شریک ہوں تو بڑے دکھے دل سے کہا کہ میں اس انگلستان کی سرزمین پر قدم رکھنا پسند نہیں کرتا جس نے میرے آزاد ملک کو بھارت کی غلامی میں دے دیا۔ وہ کبھی برطانیہ نہ آئے۔

ڈاکٹرحمیداللہ اس وقت تک تصنیف و تالیف اور تحریر و تقریر میں مصروف رہے جب تک قویٰ نے ساتھ دیا۔ جب بیماریوں نے اس طرح آلیا کہ یہ کام جاری نہ رکھ سکے تو اپنی جان سے قیمتی لائبریری علمی کاموں کے لیے وقف کر دی اور خود امریکہ میں اپنے عزیزوں کے پاس چلے گئے۔ جب مجھے ایک اعلیٰ پاکستانی افسر اور سید حسین نصر کے توسط سے ان کی اس حالت کا علم ہوا تو میں نے کوشش کی کہ وہ پاکستان تشریف لے آئیں اور اس سلسلے میں صدرمملکت کو میں نے ایک خط بھی لکھا جس کا مثبت جواب ملا۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے اپنے اعزہ کی پیش کش کو ترجیح دی اور فلوریڈا منتقل ہو گئے۔ افسوس پاکستان ان کے اس آخری دور میں ان کی خدمت کی سعادت سے محروم رہا۔ ۲۰۰۲ء کے دسمبر کے تیسرے ہفتے میں ایک صدی (۹۵ سال) اس عالم ناپایدار میں گزار کر‘ علم و دعوت کی سیکڑوں شمعیں روشن کر کے‘ اللہ کا یہ بندہ اپنے رب کی طرف مراجعت کر گیا تاکہ عبادالرحمن کے ابدی مسکن کو پا لے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے‘ ان کی بشری لغزشوں سے صرفِ نظر کرے اور انھیں جنت کی بہترین وادیوں میں جگہ دے ع

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

پاکستان کی تاریخ میں دو ہی بار پارلیمنٹ کو یہ شرف حاصل ہوا ہے کہ اسے رمضان المبارک کے رحمتوں‘ برکتوں اور مغفرتوں سے بھرپور مہینے میں حلف لینے کی سعادت میسر آئی ہو۔ پہلی بار یہ مبارک گھڑی ۱۰ اگست ۱۹۴۷ء (۲۳ رمضان) کو میسر آئی تھی جب پہلی دستور ساز اسمبلی نے تحریک پاکستان کی سات سالہ جاں گسل جدوجہد اور بیش بہا قربانیوں کے بعد آزادی کی صبح صادق اور ایک نئے عہد کے آغاز کے موقع پر حلف لیا۔دوسری بار ۵۵ سال کے بعد حالیہ پارلیمنٹ نے ۱۶ نومبر ۲۰۰۲ء (۱۰ رمضان المبارک ۱۴۲۳ھ) کو حلف لے کر فوجی حکومت کے چوتھے صبرآزما دور سے نکلنے اور جمہوری اور دستوری نظام کی بحالی کی طرف ایک فیصلہ کن قدم بڑھایا۔

ان دونوں مواقع پر صرف رمضان کی آغوش ہی قدر مشترک نہیں۔ تاریخ کا ہر طالب علم صاف محسوس کرے گا کہ جس طرح اگست ۱۹۴۷ء کی کامیابی ایک بڑی آزمایش اور امتحان تھی جسے قائداعظم نے ایک عظیم achievement and challenge (کارنامے اور چیلنج) کے الفاظ میں بیان کیا تھا‘ اسی طرح نومبر ۲۰۰۲ء میں پارلیمنٹ کی بحالی بھی جہاں ایک کامیابی اور واضح پیش رفت ہے‘ وہیں اگر ایک طرف یہ ہے تو دوسری طرف ایک زریں موقع  (golden opportunity) ۔ ایک تاریخی چیلنج اور امتحان کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لیے ہم اس موقع پر  اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ضروری سمجھتے ہیں کہ پوری قوم کو امتحان اور آزمایش کے پہلو پر غوروفکر کی دعوت دیں اور خصوصیت سے جنرل پرویز مشرف‘ پارلیمنٹ کے ارکان اور پوری سیاسی قیادت کو اس طرف متوجہ کریں کہ ہم سب تاریخ کے ایک بڑے نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ ماضی کے ۵۵ سال گواہ ہیں کہ پہلی دستورساز اسمبلی اور قائداعظم اور قائدملت کے بعد زمامِ کار سنبھالنے والی قیادت نے ملک و ملت کو مایوس کیا‘ مسلمانان پاک و ہند کی تاریخی جدوجہد سے بے وفائی کی اور اپنے ذاتی‘ گروہی‘ علاقائی اور حزبی مفادات کی خاطر دورحاضر کے پہلے آزاد مسلمان ملک کو اس کے تاریخی کردار سے محروم کر کے اس مقام پر پہنچا دیا کہ دشمن اسے خاکم بدہن ایک ’’ناکام ملک‘‘ کہنے لگے۔

آج قوم کو پھرایک نیا موقع ملا ہے۔ ہمارے سامنے سیاسی قیادتوں اور فوجی قیادتوں کے زمانی اعتبار سے تقریباً برابر برابر کے دو ناکام دور (۲۷ سالہ فوجی اقتدار اور ۲۸ سالہ سیاسی دور) ہیں اور ملک کے دولخت ہونے اور ایک بار پھر معاشی اور سیاسی اعتبار سے سامراجی قوتوں کی کھلی اور چھپی گرفت میں آجانے کے سانحات بھی۔ اکتوبر ۲۰۰۲ء میں قوم نے ایک بار پھر ایک سیاسی قیادت کو اُبھارا ہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کو ایک اہم سیاسی قوت کے طور پر اپنے اعتماد سے نوازا ہے۔ اب یہ ذمہ داری نئی سیاسی قیادت اور اس کے تمام عناصر ترکیبی (صدر‘ قومی اسمبلی‘ سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں) کی ہے کہ وہ ملک و قوم کو اس دلدل سے نکالے اور اسلام‘ جمہوریت اور دستوری نظام حکومت کی شاہراہ کی طرف گامزن کرے تاکہ تحریک پاکستان کے اصل مقاصد حاصل ہو سکیں اور عوام ایک حقیقی اسلامی‘ شورائی اور عادلانہ نظام کی برکتوں سے فیض یاب ہو سکیں۔

رمضان المبارک کے دوسرے عشرے کی مناسبت سے جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلّم کے الفاظ میں مغفرت کا عشرہ ہے‘ ہم سب سے پہلے خود اپنے کو‘ ملک کی سیاسی قیادت کو‘ اور پوری قوم کو یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ مسلمان خدا کی زمین پر خدا کے خلیفہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا فرض منصبی استخلاف ہے (اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ط  البقرہ ۲:۳۰) اور اس استخلاف کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے مالک نے  عبادات کے پورے نظام کا اہتمام کیا تاکہ اللہ کا ذکر اور اس کی قربت حاصل ہو‘ ضبط نفس اور تقویٰ میسر آئے۔ رب کی ہدایت کا امین بنا جا سکے‘ اس کے کلمے کو بلند کرنے اور اس کے طریقے کو رائج کرنے کے لیے جہاد کیا جا سکے اور بالآخر اس کا دین غالب اور حکمران بن سکے تاکہ خدا کی زمین پر خدا کا قانون جاری و ساری ہو جائے اور بندہ اپنے رب اور اس کی جنت کی طرف راہی سفر ہو سکے۔ رمضان کا خصوصی تعلق زندگی اور جدوجہد کے ان سب ہی پہلوئوں سے ہے اور قرآن نے بڑے بلیغ اشاروں میں ان کی نشان دہی کی ہے۔ یہ عبادت تم کو تقویٰ کی دولت سے مالا مال کرنے کے لیے ہے (لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ - البقرہ ۲:۱۸۳)۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں (الَّذِیْ ٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ …… وَالْفُرْقَانِ - البقرہ ۲:۱۸۵)۔ اور یہ سب کچھ اس لیے کہ جس ہدایت سے اللہ نے تمھیں سرفراز کیا ہے‘ اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کرو اور شکرگزار بنو (وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ o  البقرہ ۲:۱۸۵)۔ تقویٰ‘ ہدایت‘ فرقان‘ اللہ کی کبریائی اور بڑائی کا اظہار اور شکر یہی وہ پانچ چیزیں ہیں جو رمضان المبارک کا اصل پیغام اور ہدف ہیں۔ رمضان المبارک میں پارلیمنٹ کے حلف میں یہ رمزیت مضمر ہے کہ آج قوم کو اور اس کی قیادت کو انھی صفات اور اہداف کی ضرورت ہے اور انھی کے سہارے آگے کے مراحل کو طے کیا جا سکتا ہے۔

اصل چیلنج اور مقابلے کی حکمت عملی

اس بات کو سمجھنے اور اس کا شعور عام کرنے کی ضرورت ہے کہ اس وقت ملک و ملت کے سامنے اصل چیلنج کیا ہے اور اس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے کس نوعیت کی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی تاریخ کے ۵۵ برسوں کا اگر گہری نظر سے جائزہ لیا جائے اور اس وقت جس صورت حال میں ہم گرفتار ہیں اس کا صحیح صحیح تعین کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ملک میں جمہوریت کو پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ نہ سول حکمرانی کے دور میں جمہوریت جڑپکڑ سکی اور نہ فوجی حکمرانی کے ادوار میں‘ کہ وہ تو جمہوریت کی ضد ہی ہوتے ہیں۔ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ہماری نگاہ میں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انتخابات کے نمایشی اقدام کے باوجود اقتدار عوام کی طرف منتقل نہیں ہوا اور اقتدار کی باگ ڈور عملاً ایک مختصر ٹولے کے ہاتھوں میں رہی جس میں کلیدی کردار بیوروکریسی‘ فوجی قیادت اور چند سیاسی خاندانوں نے ادا کیا۔ تاش کے پتوں کی طرح رل مل کر یہی باون پتے ہماری قسمت سے کھیلتے رہے کبھی درپردہ اور کبھی بالکل کھل کر--- اب اس پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ اقتدار کو عوام اور عوام کے نمایندوں کی طرف منتقل کرانے کا کام حکمت اور صبر لیکن مکمل یک سوئی کے ساتھ بے خوف و خطر انجام دینے کی کوشش کرے۔

اس وقت بھی صورت حال یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف بحالی جمہوریت کے دعووں‘ سپریم کورٹ کے فیصلے کی پاسداری اور خود اپنے تمام وعدوں کے پورا کرنے کی دہائی کے باوجود اصل قوت اپنے ہاتھوں میں رکھنے پر مصر ہیں اور پارلیمنٹ کو ایک نمایشی ادارہ بنانے کی مذموم کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ چونکہ کبھی کبھی سچی بات ان کی زبان پر آجاتی ہے اس لیے ان کے سیاسی اقدامات پر جو ملمع چڑھانے کی کوشش ان کے مشیر کرتے ہیں اس کے باوجود ان کے اصل چہرے کی کچھ جھلک نظر آجاتی ہے۔ستمبر۲۰۰۲ء میں واشنگٹن کے دورہ کے موقع پر ایک پریس کانفرنس میں جنرل صاحب کے دل کی بات زبان پر آگئی تھی کہ: میں پورے نظام پر جمہوریت کا لیبل لگا دوں گا۔

I will put a label of democracy on the system.

اس طرح ان کا یہ ارشاد کہ:

اگر مستقبل کی پارلیمنٹ نے ان ترامیم کو واپس لینا چاہا‘ خصوصاً وہ جو قومی سلامتی کونسل سے متعلق ہیں‘ تو یا ان کو جانا ہوگا‘ یا میں چلا جائوں گا۔

موصوف یہ بھی فرما گئے ہیں کہ:

میں نے ایل ایف او (LFO) کو دستور کا حصہ ان اختیارات کی رُو سے بنایا ہے جو مجھے سپریم کورٹ نے دیے ہیں اور مجھے اسمبلی کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔

جنرل صاحب کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسئلہ عنوانوں (labels) کا نہیں جمہوریت کے اصل جوہر (substance)کا ہے۔ جمہوریت اور فردِواحد کی حکمرانی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ سول صدارت اور فوج کی سربراہی کا تاج ایک سر پر نہیں رہ سکتا۔ پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کے سامنے یہی سب سے بنیادی سوال ہے کہ آیا دستور اپنی اصل شکل میں بحال ہوتا ہے اور پارلیمنٹ اصل اقتدار کی امین بنتی ہے یا نہیں؟

بنیادی مسئلہ اقتدار کی منتقلی کا ہے‘ محض شراکت نہیں! اس لیے ایم ایم اے نے صاف لفظوں میں کہہ دیاہے کہ اقتدار کی منتقلی اس وقت تک مکمل نہیں ہوتی جب تک فوجی قیادت اس دہرے رول سے دست بردار نہیں ہوجاتی۔ ہماری دلی خواہش اور مسلسل کوشش ہے کہ یہ عمل بحسن و خوبی انجام پذیر ہو‘ کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو‘ کوئی ڈیڈلاک رونما نہ ہو‘ کوئی بدمزگی نہ ہو‘ افہام و تفہیم سے سارے مراحل طے ہوں لیکن یہ ایشو وہ ہے جس پر سمجھوتا یا کوئی درمیان کا راستہ ممکن نہیں۔ جنرل صاحب اور فوج کی قیادت کو سمجھ لینا چاہیے کہ عوام کے مینڈیٹ کے نتیجے میں پارلیمنٹ کے وجود میں آجانے کے بعد ان کا اصل مقام فوجی بیرک اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت ہیں‘ ایوان ہاے سیاست نہیں۔ جنرل صاحب کو سپریم کورٹ کے مئی ۲۰۰۲ء کے فیصلے کا سہارا اب ترک کر دینا چاہیے اور اصل سیاسی اور دستوری حقائق کو تسلیم کرلینا چاہیے۔ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابات میں قوم کے ۷۵ فی صد نے ان کے پروگرام پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے اور عوام کے اس مینڈیٹ سے فرار صرف جمہوریت کی نفی ہی نہیں بلکہ اپنے اندر خطرناک مضمرات رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے ارباب کار کو معقولیت کا راستہ اختیار کرنے کی توفیق دے اور قوم کو آزمایش اور کش مکش سے بچالے۔ یہی ملک کے لیے بہتر ہے اور سب سے زیادہ یہی فوج کے لیے کہ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر قوم اور فوج کے درمیان اعتماد اور محبت کا رشتہ باقی رہ سکتا ہے۔ ہم بہت دکھی دل کے ساتھ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ماضی کے فوجی ادوار کی ناکامیوں پر عوام نے فوجی حکمرانوں کو ہدفِ ملامت بنایا مگر اب حالت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ فوج بحیثیت ادارہ ہدف بننے لگی ہے۔قوم سے اس کے رشتہ محبت و اعتماد کے لیے بھی بہتر ہے۔

ماضی کے تجربات سے سیاسی قیادت کو بڑے اہم سبق سیکھنے چاہییں اور اپنے پیش روئوں کی غلطیوں اور حماقتوں کے اعادے سے پرہیز کرنا چاہیے ‘اسی طرح فوجی قیادت کو بھی تجربات کی اس کھلی کتاب کے پیغام کو پڑھ لینا چاہیے۔ اس میں اس ملک کی اور ہم سب کی خیر ہے۔ جنرل پرویز مشرف کا اصل امتحان اب شروع ہو رہا ہے اور اسی طرح خود پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت بھی ایک بڑی آزمایش کی کسوٹی پر پرکھی جا رہی ہے۔ دونوں کو بالغ نظری کے ساتھ‘ کسی تصادم اور تعطل کا شکار ہوئے بغیر‘ اس دلدل سے نکلنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس کے لیے سیاسی گفت و شنید کے ساتھ کھیل کے قواعد کے احترام کا حوصلہ پیدا کرنا ضروری ہے۔ اب تک حکمران اپنی مرضی اور مفاد کے لیے کھیل کے قواعد کو تبدیل کرتے رہے ہیں اور جنرل پرویز مشرف نے اس سلسلے میں گذشتہ آٹھ مہینے میں یعنی اپریل کے ریفرنڈم سے اس وقت تک  پرانے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور وہ جو ان کی ایک شہرت تھی کہ صاف گو (straight forward) آدمی ہیں‘ اس سیاسی کھیل میں وہ ’’عزت سادات‘‘ بھی خاک میں مل گئی ہے۔ اب ان کی اخلاقی ساکھ پارا پارا ہو چکی ہے اور اگر وہ خود اور ان کے رفقا اس بنیادی حقیقت کو نظرانداز کریں گے تو یہ عاقبت نااندیشی کا ایک شاہکار ہوگا جس کا خمیازہ بالآخر ان کو اور پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا۔اس لیے ہم پورے خلوص سے ان سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ پچھلے تین سالوں میں جو کچھ ہوا ‘اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے نئے زمینی حقائق کو محسوس کریں اور اب قوم کو مزید آزمایشوں میں ڈالنے سے احتراز کریں۔

اب سب کے لیے ایک ہی معقول راستہ ہے اور وہ یہ کہ افہام و تفہیم کے ذریعے پارلیمنٹ کی بالادستی کو قائم کریں۔ جنرل صاحب چیف آف اسٹاف کے عہدے سے استعفیٰ کے اس وعدے کو پورا کریں جو ہاورڈ یونی ورسٹی میں سیمی نار کے موقع پر عالمی راے عامہ سے انھوں نے کیا تھا اور جو عقل و انصاف اور دستور و اخلاق ہر ایک کا تقاضا ہے۔ وہ قوم اور فوج دونوں کو اس آزمایش میں نہ ڈالیں کہ ایک طرف وہ بحیثیت صدر ملک کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوں اور دوسری طرف بری فوج کے چیف آف اسٹاف کی حیثیت سے باقی دونوں افواج کے سربراہوں کی طرح وزیراعظم‘ اور وزیردفاع کے ماتحت ہوں۔ ایک طرف وہ حلف اٹھائیں کہ میں دستور کا پابند اور محافظ ہوں گا (دفعہ ۴۲) اور دوسری طرف ایک فوجی افسر کی حیثیت سے اس حلف کی بھی پاسداری فرمائیں کہ ’’میں اپنے آپ کو کسی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں مشغول نہیں کروں گا‘‘ (دفعہ ۲۴۴)۔ دستوری صدر بھی ہوں جس کے لیے ضروری ہے کہ کسی بھی سروس آف پاکستان کا نہ صرف یہ کہ رکن نہ ہو بلکہ اس کے ریٹائرمنٹ پر دو سال بھی گزر چکے ہوں اور دوسری طرف عملاً فوج کے سربراہ کی ذمہ داریاں ادا کرنے کے مدعی بھی ہوں۔ یہ دستور‘ قانون‘ پارلیمنٹ‘ قوم اور خود فوج کے ساتھ ایک کھلا مذاق اور اپنے نتائج کے اعتبار سے بڑا ہی نقصان کا سودا ہے۔ ضرورت ہے کہ سب عقل کے ناخن لیں اور اپنی ذات نہیں بلکہ وہ جو بار بار کہا جاتا ہے کہ ’’سب سے پہلے پاکستان ‘‘اس کا کچھ عملی پاس بھی کریں ورنہ سارا کھیل صرف ’’سب سے پہلے میں‘‘ بن کر رہ جائے گا۔

سپریم کورٹ کے مئی ۲۰۰۲ء کے فیصلے کا ہر مدعی نے سہارا لیا ہے اور بدقسمتی سے خود اعلیٰ عدالتوں نے بھی ایسی آنکھ مچولی کھیلی ہے جس نے ان کے اپنے وقار ہی کو مجروح نہیں کیا بلکہ ملک کو بھی بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ کے وجود میں آجانے کے بعد صاف الفاظ میں ہر ادارے کی حدود کو عملاً واضح ہی نہیں‘ متعین کر دیا جائے۔ عدالت کا کام دستور کی تعبیر ہے‘ دستور کی ترمیم‘ تنسیخ یا تسوید نہیں۔ جو اختیار عدالت کو خود حاصل نہیں وہ کسی اور کو کیسے دے سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دستور سے انحراف (deviation)کے تصور کا سہارا لیا گیا ہے اور قانون ضرورت (law of necessity) کی بنیاد پر دستور میں وقتی اور جزوی ترمیم کا اختیار فوجی حکمرانوں کو ماضی میں بھی دیا گیا اور مئی ۲۰۰۰ء کے فیصلے میں بھی اس کا اعادہ کیا گیا‘ لیکن متعدد شرائط کے ساتھ‘ جن کا جنرل پرویز مشرف نے کوئی خیال نہیں رکھا۔

عدالت کے موقف کی مختلف تعبیرات ہوسکتی ہیں لیکن اب اس بحث کا وقت نہیں اور نہ اس کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پارلیمنٹ اپنے اختیار کا اثبات کرے اور جس طرح جنرل ضیاء الحق مجبور ہوئے تھے کہ احیاے دستور کے حکم نامے کو پارلیمنٹ کے زیرغور لائیں اور ۳۸ دن کی کھلی بحث کے بعد آٹھویں ترمیم کے ذریعے اس میں سے ۸۰ فی صد کو قربان کر کے باقی ماندہ کو بشمول دفعہ ۲۷۰ کے تحت indeminty دے کر پارلیمنٹ کے فیصلے کے تحت دستوری دفعہ ۲۳۹-۲۳۸ کے تحت دستور کا حصہ بنائیں۔ اسی طرح نام نہاد ایل ایف او کو بھی پارلیمنٹ میں زیربحث لایاجائے اور اس کے قابل قبول حصوں کو مناسب دستوری ترمیم کے ذریعے دستور کا حصہ بنا لیا جائے اور ناقابل قبول حصوں کو رد کر دیا جائے۔ مئی ۲۰۰۰ء اور ۳۰ ستمبر ۲۰۰۲ اور ۳اکتوبر ۲۰۰۲ء کے سپریم کورٹ کے فیصلوں کا بھی یہی تقاضا ہے۔ اگر اپنی من مانی نہ کی جائے اور ان فیصلوں کو ایمان داری سے لیا جائے تو اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ ممکن نہیں۔ صرف ریکارڈ کی خاطر یہ چند اقتباسات پیش کیے جاتے ہیں:

یہ کہ ۱۹۷۳ء کا دستور اس وقت بھی ملک کا سپریم قانون ہے‘ اس شرط کے ساتھ کہ اس کے بعض حصے ریاستی ضرورت کے تحت معطل کر دیے گئے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کے اقدام کو سندجواز فراہم کرتے ہوئے عدالت نے صاف لفظوں میں کہا تھا کہ یہ ماورائے دستور (extra constitutional)اقدام ہے لیکن اس کے باوجود ان کو قانون سازی کا اختیار چند حدود کے اندر حاصل ہوگا یعنی:

یہ کہ ایسے تمام اقدامات کرنے کا اور قانون نافذکرنے کا جو نیچے بیان کیے گئے ہیں‘ یعنی:

(i)  (الف)  تمام اقدامات یا قانونی فیصلے کرنا جو ۱۹۷۳ء کے دستور کے مطابق ہیں یا اس کے تحت کیے جا سکتے ہیں بشمول اس میں ترمیم کے اختیار کے۔

(ب)  وہ سب اقدامات جو عوام کی بھلائی کی پیش رفت کی طرف لے جاتے ہیں یا اسے بڑھاتے ہیں۔

(ج)  ایسے تمام اقدامات جو کاروبارِ مملکت کو معمول کے مطابق چلانے کے لیے ضروری ہیں۔

(د) ایسے تمام اقدامات جو چیف ایگزیکٹو کے اعلان کردہ مقاصد کو حاصل کرنے‘ یا حاصل کرنے کی طرف لے جانے والے ہوں۔

(ii)   چیف ایگزیکٹو کی جانب سے دستور میں ترامیم صرف اسی صورت میں کی جا سکتی ہیں جب  دستور اُن کے اعلان کردہ مقاصد کے حصول کے لیے کوئی حل پیش کرنے سے قاصر ہو۔ مزید یہ کہ دستور میں ترمیم کا اختیار بمطابق دفعہ ۶‘ ذیلی دفعہ (۱) (الف) ایضاً اسی دفعہ کی ذیل دفعات ب‘ ج اور د سے مشروط ہے۔

(iii)  دستور کے بنیادی خصائص (salient features) یعنی عدلیہ کی آزادی‘ وفاقیت‘ پارلیمانی طرزِحکومت بشمول اسلامی دفعات میں کوئی ترمیم نہیں کی جائے گی۔

اس کے ساتھ عدالت نے یہ اصولی بات بھی صاف لفظوں میں کہہ دی تھی کہ سول نظام میں فوج کی مداخلت اور شمولیت ملک اور فوج کے لیے نقصان دہ ہے اور اسے کم سے کم مدت میں ختم ہو جانا چاہیے۔

بہرحال‘ سول معاملات میں فوج کی طویل شرکت کے نتیجے میں فوج کے سیاست زدہ ہونے کا سنگین خطرہ ہے جو قومی مفاد میں نہیں ہوگا۔ اس لیے اعلان شدہ مقاصد حاصل کرنے کے بعد‘ جس نے فوج کے اختیار سنبھالنے کو ضروری بنایا ملک میں سول حکومت کم سے کم ممکنہ وقت میں بحال کر دی جائے۔

سپریم کورٹ کے فل بنچ نے ۳۰ ستمبر کو نواب زادہ بلوچ مری کی درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے یہ اصول بیان کر دیا ہے کہ:

عارضی دستور کا حکم نامہ (پی سی او) کے تحت انتظامی مقتدرہ نے جو قوانین نافذ کیے ہیں ان کی کوئی قانونی یا دستوری حیثیت نہیں ہے جب تک کہ آنے والی منتخب پارلیمنٹ ان کو جائز قرار نہ دے دے۔ (دی نیوز‘ یکم اکتوبر ۲۰۰۲ء)

پھر اپنے ۳ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے ایک فیصلے میں جو ایل ایف او کے سلسلے میں تھا (مدعی ظفراللہ خان) یہ اہم نکتہ واضح کیا کہ ایل ایف او کی حیثیت دستوری تجاویز برائے ترمیم دستور کی ہے۔ اسپیشل بنچ جس میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منیراے شیخ‘ جسٹس ناظم حسین صدیقی‘ جسٹس افتخار احمدچودھری اور جسٹس قاضی محمد فاروق تھے‘ کو جب مدعی نے درخواست دی کہ عدالت صرف اتنا کہہ دے کہ LFO پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد ہی قابلِ نفاذ ہے۔ جسٹس منیراے شیخ نے کہا:

دفعہ ۲۳۹ دستور میں موجود ہے اور ممبران اسمبلی اس کو روبہ کار لا سکتے ہیں۔

آپ جو کچھ طلب کرتے ہیں ہم اس سے آگے جا رہے ہیں۔ (ہفت روزہ انڈی پنڈنٹ‘ ۲۱-۲۷نومبر ۲۰۰۲ء)

اس سب کے باوجود ہماری سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ اب مسئلے کا فیصلہ پارلیمنٹ کے ایوان میں ہونا چاہیے۔ عدالت کو مزید زحمت دینے کی نہ ضرورت ہے نہ اس کا وقت ہے۔ نیز پارلیمنٹ کو چاہیے کہ اس مصیبت ِ جان ’’نظریہ ضرورت‘‘کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دے اور بقول شہنشاہ عالمگیر اتنا گہرا دفن کرے کہ پھر کبھی مردہ قبر سے باہر نہ آ سکے!

آزادی اور حاکمیت کی بحالی

دوسرا بنیادی مسئلہ ملک کی آزادی‘ خودمختاری اور معاشی اور سیاسی معاملات میں حاکمیت کا ہے۔ جنرل پرویز صاحب کے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد کے اقدامات کے نتیجے میں ہماری آزادی ایسے سمجھوتوں کی زد میں آگئی ہے‘ جو قومی سلامتی کے لیے اپنے اندر بڑے مضمرات رکھتی ہے اور قوم کی نئی سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ محض تسلسل کے نام پر (under the cloak of continuity) اس جال میں پھنسی نہ رہے بلکہ ایک ایسی خارجہ اور معاشی پالیسی وضع کرے جو آزاد اور متوازن ہو اور جو پاکستان اور اُمت مسلمہ کے مفادات کی ضامن ہو‘ امریکہ کے عالمی استعماری مقاصد کی آلہ کار نہ ہو۔ یہ دوسرا بڑا چیلنج ہے اور اس پر ملک کی آزادی اور سالمیت کا انحصار ہے۔ہمیں یقین ہے کہ پوری قوم کی طرح اس ملک کی فوج بھی ملک کی پاک سرزمین پر امریکی اڈوں کے وجود اور امریکی ایجنسیوں کے عمل دخل پر اتنی ہی دل گرفتہ اور پریشان ہو گی جتنی باقی قوم۔ ماضی میںجو بھی مجبوریاں ہوں مگر اب امریکہ کا عالمی کھیل بالکل عیاں ہو گیا ہے اور پوری دنیا میں بشمول امریکہ‘ اور یورپ کے عوام‘ اس کے خلاف کھل کر بغاوت کر رہے ہیں۔ سارے پاپڑ بیلنے کے باوجود امریکہ کو آج تک عراق پر فوجی اقدام کرنے کے لیے یو این او اور خود مغربی اقوام تک کی تائید حاصل نہیں ہوسکی ہے اور جارج بش یہ کہنے پر مجبور ہوا ہے کہ ’’یو این او تائید کرے یا نہ کرے امریکہ اپنی مرضی پوری کرے گا‘‘۔ یہ بش کا اعتراف شکست ہی نہیں‘ پوری دنیا کے خلاف اعلانِ جنگ بھی ہے۔ ۲۴ نومبر ۲۰۰۲ء کو صدربش کی موجودگی میں روسی صدر نے پاکستان اور سعودی عرب کے بارے میں کھلے الفاظ میں اضطراب کا  اظہار کیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک کی ان رپورٹوں کے بعد جن میں پاکستان اور شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے ڈانڈے ملائے گئے ہیں خطرہ سر سے اونچا ہوتا نظر آتا ہے۔ اب بھی امریکی صدر کے ذاتی اعتماد کے ارشادات پر بھروسا قومی سلامتی اور اُمت کے مستقبل کے لیے خطرناک مضمرات کا حامل ہے۔

وقت آگیا ہے کہ پاکستانی قوم‘ اُمت مسلمہ کے ایک اہم حصے کے طور پر‘اپنی آزادی اور حاکمیت کو بحال کرنے کی جدوجہد کرے اور تشدد کے خلاف جنگ کے نام پر جو تشدد دنیا کے مظلوم افراد اور اقوام پر کیا جا رہا ہے اس سے اپنی برأت کا اعلان کر دے۔ اس کے لیے سیاسی ہی نہیں معاشی پالیسیوں کے میدان میں بڑی بنیادی تبدیلیاں کرنا ہوں گی اور اب یہ نئی پارلیمنٹ اور سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ اس چیلنج کے مقابلے میں پوری حکمت اور دانش مندی سے اور قومی مفادات کو پوری طرح محفوظ کر کے انجام دے۔ نیزہماری سرحدوں ہی کو نہیں ہماری جوہری صلاحیت کو جو خطرات درپیش ہیں ان کے تحفظ کا بھرپور اہتمام کرے اور پوری قوم کو اس جہاد آزادی اور تحفظ قومی سلامتی میں معاون و مددگار بنائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ فوج سیاست سے مکمل طور پر دست بردار ہو جائے اور اسے دفاع کے تقاضوں کو مکمل یکسوئی کے ساتھ پورا کرنے کا موقع دیا جائے۔


اس پس منظر میں جنرل پرویز مشرف کا ۲۰ نومبر کا قوم سے خطاب بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی اہمیت دوگونا ہے‘ یعنی وہ باتیں جن کا انھوں نے اظہار کیا ہے اور وہ باتیں جن کے اظہار سے وہ کنی کترا گئے ہیں۔ یہ دوسری چیز بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی وہ باتیںجو انھوں نے اپنے ۳ سالہ ریکارڈ اور اپنے زعم میں مستقبل کی پالیسی کے باب میں کہی ہیں۔

جن باتوں کا انھوں نے ذکر نہیں کیا‘ ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ یہ کسی سربراہ مملکت کی ایسے نازک موقع پر‘ پہلی تقریر ہے جس میں پاکستان کے تصور اور وژن کے بارے میں اور اس کے نظریاتی اور اسلامی کردار کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی گئی۔ حتیٰ کہ علامہ اقبال (جن کا یہ سال ہے) اور قائداعظم تک کا کوئی ذکر اس میں نہ تھا۔ یہ محض علامتی (symbolic) شے نہیں۔ اس ارادی حذف (omission) کونظرانداز کرنا قومی مفاد سے متصادم ہوگا۔

پارلیمنٹ کے وجود میں آجانے کے بعد جن سیاسی تبدیلیوں کا تقاضا قوم کر رہی ہے اور جن کی بازگشت پارلیمنٹ کے پہلے ہی اجلاس میں سنی جا سکتی ہے ان سے بھی جنرل صاحب نے مکمل اغماض برتا۔ نہ  ایل ایف او کا ذکر تھا اور نہ چیف آف اسٹاف کے عہدے سے فارغ ہونے کا۔ جن لوگوںکو یہ توقع تھی کہ اس تقریر میں وہ حقیقی انتقالِ اقتدار کی بات کریں گے‘ وہ سخت مایوس ہوئے ہوں گے۔ اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ جنرل صاحب بدلے ہوئے حالات کا صحیح ادراک نہیں رکھتے اور ابھی تک اپنی ہی دنیا میں گم ہیں جو مستقبل کے لیے اچھا شگون نہیں۔ ان کا یہ خطاب سیاسی اسٹرے ٹیجی سے عاری تھا جو پارلیمنٹ اور نئی قیادت کی مشکلات میں اضافے کا باعث ہے۔ لیکن اس سے زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔ مکمل  انتقالِ اقتدار وقت کی ضرورت ہے اور وہ جتنے خوش اسلوبی سے واقع ہوجائے اتنا ہی ملک و ملت اور فوج اور قیادت سب کے لیے بہتر ہے۔

معاشی ترقی کے دعووں کی حقیقت

جنرل صاحب نے سارا زور اپنی معاشی کامیابیوں پر دیا ہے اور یہ پیغام بھی دے دیا ہے کہ وہ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی مسلط کردہ معاشی حکمت عملی ہی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں اور غالباً اس کے لیے اپنے ان پسندیدہ افراد کو نئے نظام میں لانے اور اصل مردانِ کار کے مقام پر فائز رکھنے کی کوشش کریں گے۔ خدا کرے ہمارا خدشہ غلط ہو لیکن آثار ایسے ہی نظر آتے ہیں جو ملک و قوم کے لیے کوئی اچھا پیغام نہیں۔ جناب ظفراللہ جمالی صاحب نے قائد ایوان منتخب ہوتے ہی اعلان کر دیا ہے کہ ’’تسلسل ہی کاروبار زندگی ہے‘‘ (continuity is the name of the game) --- اللہ خیر کرے۔

ہماری نگاہ میں اس دور کی معاشی پالیسیوں اور ان کے نتائج کا بے لاگ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جنرل صاحب نے معاشیات پر بھی ایک لیکچر دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اصل چیز کلی معاشیات (macro economics) ہے اور اسی سے سرمایہ حاصل ہوتا ہے جو ترقی کا ذریعہ ہے۔ہمیں افسوس ہے کہ ان کے جن مشیروں نے ان کو یہ سبق پڑھایا انھوں نے جنرل صاحب کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ بلاشبہ کلی معاشیات کی ایک اہمیت ہے لیکن جنرل صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ خرد معاشیات (micro-economics) اور micro-finance میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ کلی معاشیات کی اصل بنیاد خرد معاشیات ہی ہے جو پیدا آوری عمل کا اصل محل (seat of economic activity) ہے۔ پیداوار ہی وہ بنیاد ہے جس پر پوری معیشت کا نظام استوار ہوتا ہے۔ فرد‘ فرم‘ مارکیٹ‘  عوامل پیداوار کی کارکردگی یہ خرد معاشیات کا دائرہ ہیں اور جب تک خرد معاشیات صحیح بنیادوں پر استوار نہ ہو کلی معاشیات کوئی جادو کی چھڑی نہیں کہ حالات کو درست کر دے۔ ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ کلی معاشیات کا تو تصور ہی ۱۹۳۰ء کے عشرے میں رونما ہوا جب سرمایہ داری کی ان خرابیوں اور بے اعتدالیوں کو درست کرنے کے لیے جو آزاد معیشت نے پیدا کی تھیں ریاستی کردار کی نئی دریافت ہوئی اور جان مینارڈکینس کے زیراثر کلی معاشیات کو علمِ معیشت اور معاشی پالیسی کا ایک حصہ تسلیم کیا گیا۔ ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کی حکمت عملی میں کلی استحکام (macro stability) کو دوسرے عوامل کی قیمت پر اہمیت دی گئی ہے جو ایک غیر متوازن پالیسی ہے اور ہماری معیشت آج اسی کا شکار ہے اور پاکستان ہی نہیں جہاں بھی ورلڈ بنک کی اسٹرے ٹیجی پر عمل ہوا ہے نتیجہ یہی رہا ہے جس کے خلاف خود ورلڈ بنک کے سابق چیف اکانومسٹ اور نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات جیفرے ساکس (Jeffrey Sachs) نے اپنی تازہ ترین کتاب Globalization and its Dincontentments میں بھانڈا پھوڑا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ جن دو چیزوں کو اس دور کا اصل حاصل کہا جا رہا ہے یعنی خارجہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور افراطِ زر کی شرح میں کمی ان کو ملک کی معیشت کی اساس یعنی پیداوار ‘شرح پیداوار اور عوام کی قوتِ خرید سے الگ کر کے دیکھنا ہمالیہ سے بھی بڑی غلطی ہے۔

مبادلہ خارجہ کے ذخائر میں اضافہ ایک حقیقت ہے۔ یہ اضافہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بعد واقع ہواہے اس لیے کہ اس سے پہلے ذخائر۷.۱ بلین ڈالر تھے جو گذشتہ ۱۰ سال کے اوسط سے مختلف نہیں۔اصل اضافہ گذشتہ ۱۵ مہینے میں ہوا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اضافہ کس طرح اور کن ذرائع سے ہوا ہے۔ اگر یہ اضافہ ملک میں پیداوار کے بڑھنے اور بیرونی تجارت خصوصیت سے برآمدات کے اضافے سے ہوتا تو بلاشبہ ایک بڑا کارنامہ ہوتا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ پیداواری عمل مندی کا شکار ہے‘ ترقی کی شرح ۱۹۶۰ء سے ۱۹۹۰ء تک کے اوسط سے نصف سے بھی کم رہی ہے۔ بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق (جو خود محل نظر ہیں) لیبر فورس کے ۵ فی صد سے بڑھ کر بے روزگاری اب ۸فی صد پر پہنچ گئی ہے۔ ہر سال تقریباً ۵ لاکھ افراد کا بے روزگاری کی صف میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں غربت میں اضافہ ہوا ہے اور اس کا اعتراف بھی عالمی مالیاتی ادارے بھی کر رہے ہیں جن کی پالیسیاں  جنرل صاحب کی ٹیم لے کر چل رہی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کی تازہ ترین رپورٹ (جولائی ۲۰۰۲ء) اس کا منہ بولتا ثبوت ہے جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ:

مالی سال ۱۹۹۳ء میں غربت کی شرح ۶.۲۶ فی صد سے بڑھ کر مالی سال ۱۹۹۹ء میں ۳.۳۲ فی صد ہو گئی‘ اور اس دورانیے میں غریبوں کی تعدادمیں ایک کروڑ ۲۰ لاکھ کا اضافہ ہو گیا۔مالی سائل ۱۹۹۹ء کے بعد معاشی نمو مزید سست ہوگئی ہے‘ ترقیاتی اخراجات میں کمی کا تسلسل برقرار رہا ہے‘ اور ملک کو شدید خشک سالی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس لیے یہ بہت زیادہ قرین قیاس ہے کہ پاکستان میں غربت کی شرح آج مالی سال ۱۹۹۹ء کے مقابلے میں غیرمعمولی طور پر زیادہ ہے (Poverty in Pakistan‘ایشیا ترقیاتی بنک‘ جولائی ۲۰۰۲ء‘ ص ۱)۔

ایک اندازے کے مطابق گذشتہ ۳ سالوں میں مزید ۸۰ لاکھ افراد غربت کی لکیرکے نیچے زندگی گزارنے والوں کی صف میں شامل ہو گئے ہیں۔ ان تین برسوں میں روپے کی بیرونی منڈیوں میں قدر میں ۱۸ فی صد کی کمی ہوئی ہے اور بجٹ کے خسارے میں سارے دعووں کے باوجود کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔یہ گذشتہ سال بھی قومی پیداوار (GDP) کا ۱.۷ فی صد رہا گو شماریاتی دھوکے (statistical deception) کے شاہکار کے طور پر ایک نئی اصطلاح وضع کی گئی ہے کہ یہ اضافہ  one term expenditureکی وجہ سے ہے ورنہ خسارہ تو ۵ فی صد ہے۔ حالانکہ خود ورلڈ بنک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس one term expenditure کا اعادہ بھی ہوسکتا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے اگست ۲۰۰۲ء کے  پاکستان اکانومک اپ ڈیٹ (جنوری ۲۰۰۲ء-جولائی ۲۰۰۲ء) کے مطابق زراعت میں ۲۰۰۱ء میں پیداوار منفی رہی اور کمی کی شرح ۶.۲ فی صد تھی جب کہ ۲۰۰۲ء میں صرف ۴.۱ فی صد اضافہ ہوا۔ صنعت میں ۲۰۰۰ء میں اضافے کی شرح ۳.۱ فی صد‘ ۲۰۰۱ء میں ۱.۳ فی صد اور ۲۰۰۲ء میں ۸.۲فی صد رہی (صفحہ۴)۔ جب کہ ماضی میں یہ اضافہ اس سے دو‘ تین اور چار گنا زیادہ رہا ہے۔ بجلی اور گیس میں ان تین برسوں میں برابر (value added) میں کمی واقع ہوئی (صفحہ ۶)۔ اور ملکی بچت میں کمی ہوئی یعنی ۲۰۰۱ء میں ۶.۱۶ فی صد سے کم ہو کر ۲۰۰۲ء میں ۷.۱۴ فی صد رہ گئی جو ہماری تاریخ میں کم ترین شرح ہے اور جنوب ایشیا کے ممالک میں بھی سب سے کم شرح ہے۔ ان حالات میں اگر افراطِ زر کی شرح کم رہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں لوگوں کی قوتِ خرید کم ہوئی جو افراطِ زر کو کم رکھنے کا بدترین طریقہ ہے۔ افراطِ زر کی شرح میں کمی میں شماریاتی کرشموں کا دخل بھی ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بنک کے پاکستان اکنامک  اپ ڈیٹ (ص ۸) کے مطابق گذشتہ سال کی ۵.۳ فی صد کے اوسط کے مقابلے میں افراطِ زر کی شرح مالی سال ۲۰۰۲ء میں ۴.۴ فی صد رہی ہے۔ اس سلسلے میں حکومت کا سبسڈی کا نظام غربت دشمن (anti-poverty) رہا ہے۔ نیز بلاواسطہ ٹیکس  کے کم کیے جانے اور بالواسطہ ٹیکس خصوصیت سے سیلز ٹیکس کی وجہ سے عوام کی قوتِ خرید کم ہوئی ہے۔ غریب طبقوں پر ٹیکس کے بوجھ میں ۸.۳ فی صد کا اضافہ ہوا ہے اور امیروں پر ٹیکس کے بوجھ میں ۲۰ فی صد کی کمی ہوئی ہے۔ (ملاحظہ ہو ڈاکٹر اے آر کمال کا خطبہ صدارت۔ پاکستان سوسائٹی آف ڈویلپمنٹ اکانومکس کی ۱۷ویں سالانہ کانفرنس جنوری ۲۰۰۲ء۔ صفحہ ۹)

بجلی‘ گیس‘ تیل کی قیمتوں میں اس پورے دور میں بحیثیت مجبوعی ۴۰ فی صد اضافہ ہوا ہے جس نے عام آدمی کی زندگی ہی کو اجیرن نہیں کیا خود پیداواری لاگت میں اضافے کے باعث ملکی مصنوعات کی مسابقت کی پوزیشن بھی متاثر کی ہے۔ اسی معاشی ریکارڈ پر فخر کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔

مبادلہ خارجہ میں اضافہ ایک اچھی چیز ہے لیکن اس کی وجہ معیشت کی کارکردگی نہیں بلکہ بیرون ملک سے رقوم کی ترسیل میں تین گنا اضافہ‘ قرضوں کی ادایگی میں سہولت اور اسٹیٹ بنک کی یہ پالیسی ہے کہ اس نے کھلی منڈی سے ہر سال ۲ بلین ڈالر تک خرید کر ڈالر کی قیمت کو مصنوعی طور پر قائم رکھا ہے۔ اگر اس کا نام macro-management ہے جس پر جنرل صاحب فخر کر رہے ہیں‘ تو اس پر ورلڈ بنک کے ان داتا تو شاید داد دے دیں مگر غربت کے مارے اور بے روزگاری کے ستائے عوام کیسے چین کا سانس لے سکتے ہیں۔

ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

جنرل صاحب نے کرپشن کے خاتمے کی بھی بات کی ہے اور اپنی پاک دامنی کا بھی بڑا ڈھنڈورہ پیٹا ہے۔ ہم ان کی ذات کے بارے میں کوئی بات نہیں کہنا چاہتے لیکن اتنا کہے بغیر بھی نہیں رہ سکتے کہ کرپشن صرف مالی فائدے اٹھانے کا نام نہیں بلکہ اختیارات کا غلط استعمال بھی اس کا ایک اہم حصہ ہے۔ جہاں تک ملک میں کرپشن کا تعلق ہے عام تاثر یہی ہے کہ بالکل اُوپر کی سطح پر کھلے انداز میں کرپشن ماقبل کے ادوار سے کم ہوئی ہے اور اس کا جتنا کریڈٹ جنرل صاحب لینا چاہیں لے لیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ کسی بھی دور کی اصل حقیقت اس دور کے بعد ہی سامنے آتی ہے۔ اس وقت بھی ۲۰۰۱ء-۲۰۰۰ء کے بارے میں جو آڈیٹر جنرل کے دفتر کی رپورٹیں سامنے آرہی ہیںوہ کوئی اچھی تصویر پیش نہیں کر رہی ہیں۔ صرف ریلوے کے محکمے بارے میں ‘۲۰۰۲ء کی رپورٹ میں ‘جو ۲۰۰۱ء کے بارے میں ہے‘ ۴۱.۳۳ کروڑ کی مالی بے ضابطگیوں اور ۱۱ارب ۹۰ کروڑ روپے کا خسارہ کی خبر دی گئی ہے۔ جب موجودہ دور کا کچا چٹھا سامنے آئے گا تو اصل تصویر نظرآئے گی۔ ایچ یو بیگ صاحب کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے جب ۱۹۹۹ء کے بعد کے ادوار کا جائزہ لینا شروع کیا تو اسے جس طرح برطرف کر دیا گیا وہ بڑے سوالات کو جنم دیتا ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس طرح اوپر کی سطح کے بارے میں کچھ بہتر تاثر ہے اسی طرح درمیانے اور نیچے کے حالات کے بارے میں بڑے پیمانے پر یہ شکایت ہے کہ کرپشن نہ صرف حسب سابق ہے بلکہ بڑھ گئی ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوس اور تکلیف کی بات یہ ہے کہ اس میں فوجی افسروں کے حصے کی بات بھی زبان زد خاص و عام ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ سے بہت زیادہ سہارا نہیں لیا جاسکتا اس لیے کہ ان کی رپورٹ صرف بیرونی تاجروں کے تاثر پر مبنی ہے اور اس میں بھی جو بہتری ہے وہ صرف برائے نام ہے یعنی پہلے ۱۰ میں سے ہمارے نمبر ۲.۲ تھے جو اب ۶.۲ ہوگئے ہیں۔

نیب نے کام کا آغاز کیا تھا لیکن پھر جس طرح اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور مخصوص افراد کے احتساب کے اسی طریقہ کو رائج کر دیا گیا جو ماضی کے نظاموں کا وطیرہ تھا‘ وہ ایک ایسا المیہ ہے جس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ حالیہ انتخابات کے موقع پر بادشاہ کی پارٹی کے نمایندوں کو احتساب کی زد سے نکالا گیا‘ مقدمات کو اِدھر اُدھر کیا گیا‘ زیرسماعت مقدمات کو دفن کیا گیا‘ سزا یافتہ لوگوں کو معاف کیا گیا‘ لوگوں کی پارٹیوں کی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں۔ ایک اندازے کے مطابق ۳۶ ارکان اسمبلی صرف اس عمل کے نتیجے میں وفاداروں کی صف میں شامل کیے گئے ہیں۔ یہ اگر کرپشن نہیں تو اسے کس نام سے پکاریں؟ نیز ایک اطلاع کے مطابق جو نئی ’’پاک دامن‘‘ کابینہ بنائی گئی ہے اس میں ماشاء اللہ تین افراد نیب کو مطلوب ہیں اور چھ وفاداریاں تبدیل کر کے خلعتِ وزارت سے شادکام ہوئے ہیں! (نوائے وقت‘ ۲۵ نومبر ۲۰۰۲ء)

وعدے پورے کر دیے ؟

جنرل صاحب نے قرآن کی آیات کا سہارا لے کر بڑی دیدہ دلیری سے اعلان کیا ہے کہ انھوں نے اپنا وعدہ پورا کر دیا۔ لیکن انھی آیات کے حوالے سے ان سے پوچھا جائے گا کہ ’’اور پورا کرو اپنے وعدوں کو‘ بے شک ان وعدوں کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا‘‘۔

آپ نے وعدہ کیا تھا کہ میں تین سال میں اقتدار منتقل کروں گا لیکن گذشتہ پورا ایک سال آپ نے صرف اس عمل کے لیے صرف کیا کہ کسی طرح اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں مرکوزکرلیں‘ اپنے کو بھی قوم پر مسلط رکھا‘ اور کلیدی اختیارات بھی اپنے ہی ہاتھ میں رکھے۔ کیا اسی کا نام انتقالِ اقتدار ہے؟

آپ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا آپ نے پاس کیا لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۲ء تک انتقالِ اقتدار کا عمل مکمل ہونا چاہیے اور اس سے ۹۰ دن پہلے عمل شروع ہوجائے۔ آپ نے اس عمل میں اتنی تاخیر کی کہ ان سطور کے لکھتے وقت ۲۵ نومبر تک یہ عمل مکمل نہیں ہوا ہے اور ابھی صوبائی اسمبلیوں کے آغاز اور سینیٹ کا انتخاب باقی ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ دستوری ترمیم صرف اسی وقت ممکن ہے جب کسی مسئلے کا حل دستور کے اندر موجود نہ ہو اور رفع حرج کے لیے یہ ناگزیر ہو اور پھر بھی دستوری ڈھانچے میں تبدیلی نہیں ہو سکتی لیکن آپ نے انتقالِ اقتدار سے صرف دو ماہ قبل اگست ۲۰۰۲ء میں مستقبل میں اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے دستور میں ۳۶ ترامیم کیں جس سے اس کا ڈھانچہ درہم برہم ہو گیا اور اب ان ترامیم کو پارلیمنٹ کے اختیار سے بھی باہر رکھنے پر مصر ہیں۔ کیا یہی عہد پورا کرنا ہے؟

سپریم کورٹ کے فیصلے کی رو سے آپ کی صلاحیت کار ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو ختم ہو جاتی ہے لیکن آپ نے اس کے بعد چار ہفتوں میں ۳۰ سے زیادہ قوانین بذریعہ آرڈی ننس جاری کیے جو ملکی زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں ہیں اور اس کا کوئی لحاظ نہیں کیا کہ یہ نئی پارلیمنٹ کا کام ہے کہ وہ قانون سازی کرے۔ کیا وعدے اسی طرح پورے ہوتے ہیں؟

آپ نے اس زمانے میں الیکشن کے عمل میں بالواسطہ ہی نہیں بلاواسطہ مداخلت کی اور ایسے ایسے آرڈی ننس جاری کیے جن کا ہدف متعین افراد تھے ___ کون آسکتا ہے اور کون نہیں آسکتا۔ منتخب ہونے کے بعد آزاد ارکان کو پارٹیوں میں شامل کرنے کے لیے تین دن اور فاٹا کے ارکان پر پابندی کہ وہ شامل نہیں ہو سکتے‘ فارورڈ بلاکوں کی سیاست‘ الیکشن فارم داخل کرنے کے لیے متعلقہ شخص کی بذات خود موجودگی‘دو مرتبہ وزیراعلیٰ بننے والے کے لیے وزارت عظمیٰ کا دروازہ کھولنا‘ تین سال تک نوگو ایریا آپ کو اور آپ کے وزیرداخلہ کو نظر نہ آئے‘ چند ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان کو نہ صرف ختم کرنا بلکہ رینجرز کی سرپرستی میں ان علاقوں کو ایک خاص گروہ کے قبضے میں دینا --- کیا یہ سب ’’امانتیں اہل امانت کو سونپنے‘‘ اور ’’وعدہ پورا کرنے‘‘ کے ذیل میں آتا ہے؟

اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ‘ ذرا بند قبا دیکھ

نقشہ کار

حالات کا یہ بے لاگ تجزیہ اس لیے ضروری ہے کہ حقائق سامنے رہیں اور جو چیلنج درپیش ہے‘ اس کے بارے میں کوئی ابہام نہ رہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کے ارکان کو جہاں اپنی ذمہ داری کو کماحقہ ادا کرنا چاہیے وہاں انھیں یہ کام حکمت اور تدبر سے انجام دینا چاہیے۔ سرکاری پارٹی نے جس طرح اپنی اکثریت بنائی ہے وہ ایک معلوم حقیقت ہے لیکن اس کے باوجود اس کا اتحاد کانچ کا گھر ہے جو بڑا ہی کمزور اور بودا ہے۔ حزب اختلاف دو بڑے گروپوں میں منقسم ہے جن کے درمیان نظریاتی اختلاف ہی نہیں ہے سیاسی مصالح کے ادراک میں بھی بڑا فرق ہے۔ جوڑ توڑ کی جس سیاست کا اسپیکر‘ڈپٹی اسپیکر اور قائد ایوان کے انتخاب سے قبل دور دورہ تھا وہ کوئی نیک شگون نہیں۔ ان حالات میں متحدہ مجلس عمل کی قیادت کو بہت بالغ نظری کا ثبوت دینا ہوگا اور ہر نفع عاجلہ سے دامن بچاتے ہوئے اس ملک کی گاڑی کو پٹڑی پر ڈالنے کے لیے اپنی ساری توانائیاں صرف کرنا ہوں گی اور اس جدوجہد میں حکمت اور قربانی کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنا ہوگا۔

قوم نے ایم ایم اے پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے اس کا تقاضا ہے کہ جہاں ہمیں اکثریت حاصل ہے وہاں اچھی حکومت بنائیں اور حکمرانی کا ایک نیا نمونہ پیش کریں جو اصول پرستی‘ عوام کی خدمت اور قانون کی حکمرانی سے عبارت ہو۔ اور مرکزی سطح پر ہماری ساری کوشش یہ ہو کہ: دستور اپنی اصل شکل میں بحال ہو اور افہام و تفہیم کے ذریعے قابلِ قبول ترامیم کو دستوری طریقہ سے حصہ دستور بنایا جائے اور کتاب قانون کو باقی حشوو زواید سے پاک کیا جائے۔ نیز یہ کہ حقیقی انتقالِ اقتدار کو ممکن بنایا جائے ۔ جنرل صاحب کو بھی جو جائز رعایات دی جا سکتی ہیں دے دی جائیں تاکہ وہ ایک حقیقی سول صدر مملکت‘ دستور کے مطابق بن کر‘ دستور کے فریم ورک میں اپنا کردار ادا کریں اور اس سے باہر کسی کردار کا تصور ذہن سے نکال دیں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی ضروری ہے اور اس کے ساتھ دستور میں ایسی ترامیم بھی کی جائیں جن سے آگے کے لیے بگاڑ کے دروازے بند ہو سکیں۔ نیز ملک میں ایسی قانون سازی اور پالیسی سازی ہو جو عوام کی مشکلات کو دور کرنے‘ ان کے مسائل حل کرنے‘ ملک کی آزادی اور سالمیت کی حفاظت اور بیرونی عناصر کی دراندازیوں سے محفوظ رکھ سکے اور یہاں اسلام کا جمہوری عادلانہ نظام قائم ہو سکے۔ اس حوالے سے یہ امور اہمیت رکھتے ہیں:

۱-  عدلیہ کی حقیقی آزادی کا اہتمام کیا جائے اور ججوں کی تقرری کا وہ نظام رائج کیا جائے جس سے عدالت کو سیاست کے تابع کرنے کاکھیل ختم ہو سکے۔ عدالت میں تقرریوں کے سلسلے میں مشہور زمانہ ججوں کے فیصلے میں جو اصول طے کیے گئے تھے انھیں دستوری تحفظ دیا جائے اور ان پر عمل درآمد ہو۔

۲- دفعہ ۸۹ میں ترمیم کر کے انتظامیہ کے آرڈی ننس جاری کرنے کے اختیارات کو ختم کیا جائے۔ پارلیمنٹ کی حاکمیت پر یہ سب سے بڑی تلوار ہے جسے ختم ہونا چاہیے تاکہ قانون سازی پارلیمنٹ کرے۔

۳- (SRO) Statutory Regulatory Orders کے نظام کو ختم کیا جائے تاکہ اس طرح delegated legislation کے نام پر جو شب خون مسلسل پارلیمنٹ پر مارا جاتا رہا ہے اسے ختم کیا جاسکے۔

۴- کمیٹی سسٹم کو متحرک اور مستحکم کیا جائے اور ارکان پارلیمنٹ نظام حکمرانی میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اپنے آپ کو ہمہ وقت مصروف کریں اور محض مراعات کے چکر میں نہ پڑیں۔

۵- اہم بین الاقوامی معاہدات کو سینیٹ میں توثیق کے لیے لایا جائے۔ محض کابینہ کو یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ جو معاہدات چاہے کرے اور جس طرح چاہے قوم کو باندھ دے۔

۶- اہم تقرریوں کے لیے دستور کے مطابق مناسب قانون سازی کی جائے تاکہ کسی کو بھی صوابدیدی اختیار حاصل نہ ہو۔ ہر کام میرٹ پر اور ضابطوں کے مطابق ہو اور public scrutiny کا دروازہ کھولا جائے تاکہ معاملات میں شفافیت آسکے۔

۷- احتساب کا ایک آزاد‘ بالاتر نظام قائم ہو جو بالکل کھلے انداز میں تمام ارباب اختیار کا احتساب کر سکے خواہ ان کا تعلق پارلیمنٹ اور حکومت سے ہو‘ تجارت سے ہو‘ یا عدالت اور فوج سے ہو۔ یہ کام مکمل طور پر آزاد اور غیر جانب دارانہ اور بالکل شفاف ہو تاکہ قوم کے تمام مجرم کیفرکردار کو پہنچ سکیں اور محض سیاسی مقاصد کے لیے مخصوص لوگوں کے احتساب(selective accountability) کا نظام ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے۔

۸- پریس اور الیکٹرانک میڈیا کو آزادی دی جائے اور قومی ضابطہ اخلاق باہم مشورے سے بنایا جائے جس کا سب احترام کریں۔

۹-  وزارت اطلاعات کا خاتمہ کیا جائے جو تاریخی اعتبار سے جنگی دور میں حکومت کی ضرورتوںکی پیداوار ہے اور جسے سیاست کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے بجائے کلچر کے فروغ اور قومی رہنمائی کے لیے مناسب انتظام کیا جائے۔

۱۰- آزادی اطلاعات (Freedom of Information) کا قانون جلد از جلد نافذ کیا جائے تاکہ کھلی حکومت کی روایت قائم ہو سکے۔

۱۱- صوبائی خود اختیاری کا جو نقشہ دستور میں طے کر دیا گیا ہے اسے ایک متعین مدت کے اندر (جو چند ماہ سے زیادہ نہ ہو) عملاً نافذ کیا جائے۔ یہ انتقال اختیار صرف وزارتوں اور قانون سازی ہی کے باب میں نہ ہو بلکہ مالی معاملات میں بھی ہو تاکہ اختیار حقیقی ہو اور اس میں جواب دہی کا نظام بھی موثر ہو سکے۔

۱۲- اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹوں پر پارلیمنٹ فی الفور غور شروع کرے اور ان کی روشنی میں قانون سازی اور پالیسی سازی کا کام کیا جائے۔

۱۳- دستور میں مرقوم حکمت عملی کے اصولوں (دفعہ ۲۹ تا ۴۰) کو قانون سازی کے لیے بنیاد بنایا جائے اور ایک مرحلہ وار انداز میں ان کو عدالتی دائرے میں لایا جائے۔

۱۴- دستور کی دفعہ ۲۲۷ تا ۲۳۰ کے مطابق سات سال کے اندر اسلامی قوانین کی ترتیب و تدوین اور تمام قوانین کو اسلامی احکام کے مطابق ڈھالنے کا کام مکمل کرنے کا جو دستوری ہدف تھا اور جو آج تک پیدا نہیں ہو سکا ہے اسے حاصل کرنے کے لیے فوری اقدام کیے جائیں۔

۱۵- معاشی پالیسی کی تشکیل نو ہو اور سود سے معیشت کو پاک کرنے کے لیے جو حکمت عملی اسلامی نظریاتی کونسل اور سپریم کورٹ نے اپنے ۱۹۹۹ء کے فیصلے میں دی ہے اس کے مطابق عمل کا نقشہ بنایا جائے  اور تمام تاخیری حربوں سے نجات پائی جائے۔ پارلیمنٹ اس کام کی نگرانی کرے یا پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی مستقل طور پر اس کام کی نگرانی کے لیے قائم کی جائے۔ نیز ملک ایک   ترقی پذیر اور عادلانہ معاشی نظام کی طرف پیش قدمی کر سکے۔

۱۶- ریاست جموں و کشمیر کی آزادی‘ کشمیر کے مسئلے کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل اور اس کے لیے عالمی راے عامہ کو متحرک کرنے کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے اور خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی پالیسی کے ذمہ داروں سے اسے مربوط کیا جائے۔

۱۷-   ملک کی معیشت کو خود انحصاری کی بنیاد پر منظم کیا جائے اور اس کے لیے ایک اعلیٰ اختیارات کی حامل کمیٹی تشکیل دی جائے جو نئی معاشی حکمت عملی بنانے اور اس کے نفاذ کی نگرانی کا کام انجام دے۔ منصوبہ بندی کمیشن کو اس کمیٹی کی رہنمائی میں کام کرنے کی ہدایت دی جائے۔ نیز معاشی ترقی کو ناپنے کے لیے نئے معیارات (norms) متعین کیے جائیں جن میں پیداوار میں اضافہ‘ شرح پیداوار میں اضافہ کے ساتھ عام آدمی کے معیارِ زندگی اور بنیادی ضروریات کی فراہمی کی کیفیت کو شامل کیا جائے۔ نیز دوسروں پر انحصار میں کمی اور خودانحصاری میں اضافے کو بھی اس میں شامل کیا جائے تاکہ معاشی ترقی عوام کی خوش حالی اور قوم کی معاشی آزادی کا ذریعہ بن سکے۔

۱۸-  وفاقی شرعی عدالت کے دائرے سے جن چیزوں کو باہر رکھا گیا ہے وہ ختم کیا جائے ‘ عدالت کے ججوں کو عدالت عالیہ کے نظام کے مطابق تحفظ دیا جائے اور ان کی مستقل مدت اسی طرح ہو جس طرح باقی عدالت عالیہ کی ہے۔ تمام امتیازی دفعات کو ختم کیا جائے۔

۱۹- ان تمام دستوری اداروں کو قائم کیا جائے اور اپنے اپنے دائرہ کار میں متحرک کیا جائے جو دستور نے وفاق اور صوبوں کے درمیان معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کرنے کے لیے تجویز کیے ہیں یعنی مشترکہ مفادات کی کونسل‘ قومی اقتصادی کونسل‘ مالیاتی کمیشن اور بجلی اور گیس کے نظام کی منصفانہ کارکردگی کے لیے مناسب اختیارات۔

۲۰- اُردو کو قومی زبان کی حیثیت سے ملک کے تمام کاموں کو انجام دینے کے لیے نافذ کیا جائے‘ دفتری زبان اُردو ہو اور ذریعہ تعلیم کے طور پر بھی اسے رائج کیا جائے۔

آج تک پاکستان کی پارلیمنٹ نے اپنا حقیقی کردار ادا نہیں کیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ پارلیمنٹ حقیقی معنی میں پارلیمنٹ بنے‘ ایک ہمہ وقتی ادارے کے طور پر کام کرے‘ عوام کے حقوق کی محافظ ہو‘ حکومت پر نگرانی کا کام انجام دے تاکہ حاکمیت کے عوام تک منتقل ہونے کا دروازہ کھلے اور عوام اپنے معاملات کے کرتا دھرتا بن سکیں۔

متحدہ مجلس عمل کی ذمہ داری ہے کہ پارلیمنٹ اور حکمرانی کے اس تصور کو حقیقت بنانے کے لیے   تن من دھن کی بازی لگا دے۔

 

موت سے کس کو مفر ہے اور اللہ کا فیصلہ ہر ذی روح کے لیے محکم ہے--- لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے لیے دل یہی کہتا ہے کہ اے کاش! انھیں اور مہلت مل جاتی‘ اور اے کاش! ہماری زندگی بھی ان کو مل جاتی۔ الاستاذ مصطفی مشہورؒ ان ہی چند نفوسِ قدسیہ میں سے تھے لیکن بالآخر وہ بھی ہمیں ہی نہیں ایک دنیا کو سوگوار چھوڑ کر ۸ رمضان المبارک ۱۴۲۲ھ مطابق ۱۴ نومبر ۲۰۰۲ء کو اپنے رب حقیقی سے جاملے--- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

الاخوان المسلمون کا مرشدعام اور لاکھوں انسانوںکے دلوں پر حکومت کرنے والا ۸۳ سالہ نوجوان تقریباً ۷۰ سال کی پُرآشوب تحریکی زندگی میں طوفانوں سے کھیلنے اور ظلم کے ستم زدہ انسانوں کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن کرنے کے بعد ابدی نیند سو گیا لیکن اس طرح کہ ۱۴ سال کی عمر میں جس تحریک سے روشناس ہوا تھا اور جس عظیم مجاہد امام حسن البنا شہیدؒ سے قرب حاصل کیا تھا‘ اور پھر ۱۹ سال کی عمر میں جو عہد امام شہیدؒ سے کیا تھا اس پر زندگی بھر سختی سے قائم رہا‘ قیدوبند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں‘ تشدد اور تعذیب کے زیورات سے بھی آراستہ ہوا‘ دعوت و تبلیغ کی مہمیں بھی سر کی‘ تحریر و تقریر کے معرکوںمیں بھی شادکام ہوا اور تنظیم و تربیت کے تمام ہی مراحل سے گزرا اور ہزاروں انسانوں کو گزارا اور بالآخر اپنا وہ عہد سچ کر ڈالا جو اپنے پیدا کرنے والے سے اپنے ایک چاہنے والے کے ہاتھ پر بیعت کر کے کیا تھا: مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ ج فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ ز وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلاً o لِّیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِھِمْ--- (الاحزاب ۳۳:۲۳-۲۴) ’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنھوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کردکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کر چکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انھوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ (یہ سب کچھ اس لیے ہوا) تاکہ اللہ سچوں کو ان کی سچائی کی جزا دے‘‘۔

اکتوبر کے آخری دنوں میں ‘ میں نے اپنے عزیز بھائی اور ساتھی ڈاکٹر احمد العسال کے اعزاز میں اسلام آباد میں ایک عشائیے کا اہتمام کیا تھا۔ اس موقع پر ڈاکٹر احمدالعسال نے اطلاع دی کہ ۲۹ اکتوبر کو مرشدعام الاستاذ مصطفی مشہور پر دل کا حملہ ہوا ہے اور وہ ہسپتال میں بے ہوشی کے عالم میں ہیں۔ اسی لمحے ان کے لیے خصوصی دعائوں کا اہتمام کیا۔ پھر عمرہ کے موقع پر مکہ اور مدینہ میں اللہ کے حضور ان کی صحت یابی کے لیے دعائیں کیں‘ میں نے ہی نہیں ان کے ہزاروں مداحوں نے--- لیکن امر ربی ہر چیز پر غالب ہے۔ مدینہ ہی میں اطلاع ملی کہ ۸ رمضان المبارک کو ہمارے محبوب بھائی اور اُمت کے کاروان کے قائد اپنے رفیق اعلیٰ سے جا ملے--- اللہ تعالیٰ ان کو اپنی مغفرت و رحمت کی آغوش میں لے لے‘ ان کی خدمات کو قبول فرمائے‘ ان کی بشری کمزوریوں سے درگزر فرمائے اور انھیں جنت کے اعلیٰ مقام میں جگہ دے--- آمین!

الاستاذ مصطفی مشہورؒ ۱۹۱۹ء میں منہیا القمح السعدین (مشرقی مصر) میں پیدا ہوئے۔ آرٹس کالج قاہرہ سے فلکیات‘ رصدکاری میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ حکومت مصر کے شعبہ فلکیات میں ملازمت اختیار کی اور پھر جوانی ہی میں شب و روز تحریک اخوان المسلمون کی خدمت میں وقف کر دیے۔ تحریک سے ابتدائی تعارف ۱۹۳۳ء میں ہوا۔ پانچ سال تحریک کو سمجھنے اور اپنے کو اس کے لیے تیار کرنے میں لیے اور ۱۹۳۸ء میں امام حسن البنا شہیدؒ سے عہدِوفا باندھا۔ کچھ عرصہ تحریک کے نظام خاص سے وابستہ رہے۔ پہلی گرفتاری ۱۹۴۸ء میں شاہ فاروق کے دور میں ہوئی جو ۱۹۵۱ء تک جاری رہی۔ پھر ۱۹۵۴ء میں جمال عبدالناصر کے دور میں گرفتار ہوئے اور بدترین انسانی تعذیب کا نشانہ بنے مگر صبروثبات کا مجسمہ رہے۔ یہ دور ۱۹۶۴ء میں ختم ہوا لیکن پھر ۱۹۶۵ء میں انورالسادات کے دور میں تیسرا دور ابتلا شروع ہوا جو ۱۹۷۱ء تک جاری رہا۔ جوانی کے ۲۰ سال قیدوبند کی نذر ہوئے لیکن یہی دور اُن کی روحانی ترقی‘ قرآن سے شغف‘ اور مقصدِحیات پر محکمی سے قائم رہنے کا دور ثابت ہوا اور وہ اس طوفان سے نایاب گوہر بن کر نکلے۔

مجھے الاستاذ مصطفی مشہورؒ سے ملنے کی سعادت ۸۱-۱۹۸۰ء میں حاصل ہوئی جب وہ تحریک کے بیرونی کام کے انچارج اور عالم اسلام کی اسلامی تحریکات سے ربط کے ذمہ دار تھے۔ کویت‘ پیرس‘ استنبول‘ لندن‘ میونخ‘ قاہرہ‘ پاکستان‘ نہ معلوم کتنی جگہ اور کتنی مرتبہ ملنے کا موقع ملا۔ لیکن اس طرح کہ ’’وہ جب ملے ہیں تو ان سے ہر بار کی ہے الفت نئے سرے سے!‘‘

مصطفی مشہورؒ کی شخصیت میں بلا کی کشش بلکہ مقناطیست تھی۔ میانہ قد‘ گٹھا ہوا بدن‘ واضح نقوش‘ آنکھوں میں ذہانت اور محبت کی چمک اور ہاتھوں میں فولاد کی سی مضبوطی مگر ریشم کی سی نرمی --- ان کی پوری شخصیت اخوت اور محبت کی گرمی اور لطافت کا مرقع تھی! گفتگو آہستہ آہستہ ٹھنڈے انداز میں کرنے کے عادی مگر جب تقریر کرتے تو عربوں کی خطابت کا جادو جگاتے۔ تحریر اور تقریر دونوں میں ادبی نفاست کے حامل صاحب ِطرز ادیب‘ ۱۷ کتابوں کے مصنف‘ سیکڑوں مقالات ان کے قلم سے نکلے جو عالم اسلام کے عربی رسائل خصوصیت سے الدعوۃ اور الاخوان المسلمون میں شائع ہوئے اور نوجوانوں کے دلوں کو گرماتے رہے۔ مصطفی مشہورؒ سب ہی حلقوں میں مقبول تھے مگر سب سے زیادہ نوجوانوں میں مقبول تھے جو ان کے گرویدہ رہتے ۔اور کیوں نہ رہتے کہ ان کی باتوں میں ایمان کا نور ہی نہیں جوانوں کا سا عزم اور جہاد اور غلبۂ دین کی خوشخبری ہوتی تھی۔

مجھے ان کے ساتھ تربیتی پروگراموں میں بھی شرکت کا موقع ملا اور تنظیمی اجتماعات میں بھی‘ عوامی ریلیز میں بھی اور بین الاقوامی علمی کانفرنسوں میں بھی۔ میں نے مصر میں ان کے ساتھ نوجوانوں کے ان اجتماعات میں بھی شرکت کی جہاں وہ نوجوانوں کے ساتھ نشید اسی شوق سے گاتے تھے جس سے نوجوان گاتے تھے۔ دریاے نیل میں ان کے ساتھ کشتی میں بھی سفر کیا اور اسکندریہ میں انجینروں کے حلقے کے کیمپ میں بھی قیام کیا۔ یورپ میں بھی ان کے ساتھ رہنے اور سفرکرنے کا موقع ملا اور پاکستان میں پشاور‘ اسلام آباد اور لاہور میں ساتھ وقت گزارا۔ ان کی شفقت اور محبت کے نقش دل پر مرتسم ہیں۔ اس ۲۰ سالہ تعلق میں ہر ملاقات کے بعد ان کی عظمت کا نقش اور بھی گہرا ہوا۔ ان کے خلوص اور محبت نے ان کا گرویدہ بنا لیا‘ ان کے جذبۂ جہاد اور شوق دعوت نے اسلاف کی یاد تازہ کی اور جس پیار اور گرمی اخوت سے انھوں نے ہمارے ساتھ ہمیشہ معاملہ کیا اس کا بیان مشکل ہے:

ساز دل چھیڑ کے بھی‘ توڑ کے بھی دیکھ لیا
اس میں نغمہ ہی نہیں کوئی محبت کے سوا

الاستاذ مصطفی مشہورؒ اخوان کے تیسرے مرشدعام شیخ عمرتلمسانی  ؒ کے دور میں بیرونی کام کے   ذمہ دار ہوئے اور اخوان کی عالمی تنظیم قائم کرنے اور چلانے پر مامور ہوئے۔ اسی حیثیت سے وہ ہمارے ساتھ بھی مربوط ہوئے اور ہم نے اسلامی تحریکات کے درمیان تعاون و تنسیق کی جو کوششیں بھی کیں وہ ان کی رہنمائی اور معیت میں کیں۔ اس زمانے میں ‘ میں جماعت کے بیرونی شعبے کا انچارج تھا۔ اس لیے ان سے بہت ہی قریبی ربط و تعلق رہا۔ پھر ۱۹۸۶ء میں الاستاذ مصطفی مشہورؒ اخوان کے چوتھے مرشدعام استاد ابوحامد ابونصرؒ کے نائب مرشدعام اول بنے۔ یہ ذمہ داری انھوں نے ۱۰ سال نبھائی۔ ۱۹۹۶ء میں استاذ ابونصرؒ کے انتقال پر انھوں نے مرشدعام کی ذمہ داری سنبھالی جسے وہ آخری لمحے تک نبھاتے رہے اور اس طرح انجام دیتے رہے کہ پچھلے چند سال سے نقل و حرکت پر پابندی تھی‘ تقریر پر قدغن تھی لیکن وہ ایک لمحہ چین سے نہ بیٹھے۔ ہر ہفتے مضمون لکھتے رہے‘ ہر روز بلاناغہ دفتر جاکر بیٹھتے رہے تاکہ ایک دن کے لیے بھی نظم سے رشتہ کمزور نہ ہونے پائے۔ مجھ سے دوستوں کے ذریعے ربط آخری دنوں تک رہا۔

اخوان المسلمون کا ایک عظیم کارنامہ اُمت کو اور خصوصیت سے اس کے نوجوانوں کو قرآن سے جوڑنا ہے۔ جو تعلق ایک عام اخ کا قرآن سے ہے وہ قابل رشک ہے اور مصطفی مشہورؒ تو فنا فی القرآن تھے۔ ان کے پیچھے نماز پڑھنے اور قرآن سننے میں وہ لطف آتا تھا کہ کبھی کبھی تو یہ گمان ہوتا تھا کہ قرآن نازل ہو رہا ہے۔ سبحان اللہ!

مصطفی مشہورؒ کی شخصیت میں بلا کی دل آویزی تھی۔ تحمل اور بردباری‘ معاملہ فہمی اور اصابت رائے میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ بارہا تجربہ ہوا کہ دو تحریکوں کے کارکنوں کے درمیان اگر کہیں کوئی مسئلہ پیش آیا ہے تو مصطفی مشہورؒ نے ہمیشہ انصاف کے ساتھ اور ہر حزبی جذبے سے بالا ہو کر اسے طے کیا۔ میں خود اس معاملے میں کئی بار پڑا اور خوش گوار تجربہ ہوا۔ جزاھم اللّٰہ جزا الخیر۔

مصطفی مشہورؒ کی خدمات کا احاطہ کرنا مشکل ہے مگر میری رائے میں ان کے تین کارنامے ایسے ہیں جو اس صدی میں تحریک اسلامی کی‘ خصوصیت سے عرب دنیا میں تحریک کی‘ تاریخ میں نمایاں رہیں گے۔

سب سے پہلے یہ کہ انھوں نے بڑے پُرآشوب دور میں تحریک کے پیغام ہی نہیں اس کے نظام کو عالمی بنیادوں پر استوار کیا اور وہ ہزاروں اخوان جو ہجرت کر کے دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچ گئے تھے ان کو پھر تحریک کے شیرازے میں منسلک کیا۔ یورپ‘ امریکہ‘ افریقہ‘ جنوب مشرقی ایشیا غرض ہر جگہ وہ گئے‘ لوگوں کو منظم و مجتمع کیا اور عالمی تحریک سے وابستہ کیا۔  ربط و اتصال کا مستقل نظام بنایا اور اس طرح عالمی اسلامی احیا کے موجودہ دور کی شیرازہ بندی کی۔ انھوں نے دعوت اور تنظیم دونوں میدانوں میں اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور بڑے خاموش اور منکسرانہ انداز میں۔ ان کی باتوں میں گلوں کی خوشبو اور شہد کی مٹھاس تھی اور انھی ہتھیاروں سے انھوں نے تمام ہی انسانوں مگر خصوصیت سے تحریکی نوجوانوں کو نظم سے جوڑا اور نیا ولولہ دیا۔

ان کی دوسری عظیم خدمت وہ حکمت عملی اور طریق کار کی تبدیلی ہے جو ان کی قیادت میں مصر میں تحریک اخوان المسلمون میں آخری ۳۰ سال میں واقع ہوئی۔ بلاشبہہ اس میں وہ اکیلے نہیں تھے لیکن اس زمانے میں انھوں نے تحریک کو دعوت و تربیت کے ساتھ اجتماعی نظام میں جمہوری ذرائع سے تبدیلی اور دوسری سیاسی اور اجتماعی قوتوں کے ساتھ تعاون اور الحاق کے ذریعے تحریک کے لیے راستہ بنانے کی کوشش کی۔ اخوان پرآج بھی مصر میں پابندی ہے مگر یہ ان کی حکمت عملی تھی کہ پیشہ وارانہ تنظیموں ہی کے ذریعے نہیں بلکہ مقامی کونسلوں اورپارلیمانی سیاست میں بھی اخوان کا ایک کردار نمایاں کر دیا۔ آج بھی ساری دھاندلیوں کے باوجود مصری پارلیمنٹ میں اخوان کے ۱۷ ارکان ہیں جو سب سے بڑی حزب اختلاف ہے۔ انھوں نے تشدد کے راستے سے کلی اجتناب کیا اور خصوصیت سے مصر میں برپا تحریکوں جن میں حزب التحریر اور جماعت تکفیر وہجرہ اہم ہیں سے ہٹ کر تحریک اسلامی کے مخصوص طریق کار کو نمایاں اور مستحکم کیا۔ اس باب میں     وہ فکری اعتبار سے بالکل یکسو تھے اور حالات کی صورت گری میں ان کا بڑا نمایاں کردار رہا ہے۔

تیسری چیز نوجوانوں سے ان کی محبت اور نوجوانوں کو اپنی طرف کھینچنے اور تحریک میں سمو دینے کی ان کی صلاحیت تھی۔ میں نے ان کو ۸۳ سالہ نوجوان ان کے اسی خاص وصف کی بنیاد پر کہا۔ آج اخوان کی قیادت ۶۰ اور ۷۰ سال بلکہ اس سے بھی زیادہ عمر کے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے مگر اخوان کی اصل قوت وہ ہزاروں لاکھوں نوجوان ہیں جو تحریک کے دست و بازو ہیں۔مصر کے اسکولوں‘ کالجوں اور یونی ورسٹیوں ہی میں نہیں ہر جگہ‘ قاہرہ کے ہوٹلوں کے ویٹرز میں بھی اخوان ہی کے نوجوانوں سے بات چیت کا موقع ملا اور مجھے یقین ہو گیا کہ جس ملک اور قوم کے نوجوانوں میں یہ دعوت رچ بس گئی ہے وہ ایک دن ضرور اسلامی انقلاب کی آماجگاہ بنے گی--- ان شاء اللہ!

مغربی میڈیا کو اس پر حیرت ہے کہ الاستاذ مصطفی مشہورؒ کے جنازے میں جن لاکھوں انسانوں نے شرکت کی ان کی اکثریت ۱۵ سے ۲۵ سال کے نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ مجھے اس پر ذرا بھی حیرت نہیں بلکہ  یہ عین اس مشاہدے کے مطابق ہے جو میں نے خود قاہرہ اور اسکندریہ کے گلی کوچوں میں کیا۔

الاستاذ مصطفی مشہورؒ کی شخصیت ایک عہدساز شخصیت تھی۔ انھوں نے ۶۰ سال سے زیادہ تحریک اسلامی کی خدمت کی۔ جہاد افغانستان میں روحانی ہی نہیں جسمانی شرکت کی۔ اُمت کے ہر مسئلے پر انھوں نے مضبوط موقف اختیار کیا اور اپنے نقطۂ نظر کا برملا اظہار کیا۔ اُمت مسلمہ کا ہر مسئلہ ان کا اپنا مسئلہ تھا۔ فلسطین‘ کشمیر‘ شیشان‘ بوسنیا‘ فلپائن‘ اریٹریا‘ غرض ہر مسئلہ انھوں نے اس طرح اٹھایا جس طرح اس کے اٹھائے جانے کا حق ہے۔ وہ ایک ملک کے نہیں‘ پوری دنیا کے شہری تھے۔ وہ ایک تحریک کے نہیں تمام اسلامی تحریکات کے قائد تھے۔ وہ زمین پر نہیں دلوں پر حکمرانی کرتے تھے۔ ان کے اٹھ جانے سے ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا ہے جسے صرف رب اعلیٰ ہی پورا کر سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرے اور اُمت کو ان جیسے خادموں سے نوازے تاکہ یہ قافلہ اپنی منزل مراد کی طرف کشاں کشاں پیش قدمی کر سکے۔ آمین!

 

۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء کے انتخابی نتائج ایک آئینہ ہیں جن میں پاکستانی قوم کی مجموعی فکر کا عکس صاف صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ ان انتخابات کو نہ مکمل طور پر شفاف کہا جا سکتا ہے اور نہ ان قواعد و ضوابط اور انتظامات کو مبنی برعدل قرار دیا جا سکتا ہے جن کے تحت یہ انتخاب منعقد ہوئے۔ اس لیے کہ دستوری ترامیم‘ انتخابی قواعد اور الیکشن کے انتظامات میں اس امر کی پوری کوشش کی گئی کہ برسراقتدار انتظامیہ اپنے مفید مطلب نتائج حاصل کرلے اور اپنے پسندیدہ عناصر کو کامیاب کرا لے۔ لیکن ان تمام تحدیدات (limitations) کے باوجود پاکستانی عوام نے بحیثیت مجموعی اپنے جذبات و عزائم کے اظہار کا راستہ نکال لیا اور پنجاب اور سندھ کے متعدد حلقوں اور بلوچستان کے چند مقامات پر کھلی دھاندلی‘ سرکاری مداخلت اور زورآور گروہوں کی دراندازی کے باوجود عوام نے اپنا پیغام اور فیصلہ ارباب اقتدار اور عالمی راے عامہ دونوں کو کسی لاگ لپیٹ کے بغیر پہنچا دیا ہے۔

اب ملک کے مستقبل اور یہاں جمہوریت کے فروغ اور امن و ترقی کے حصول کا انحصار اس پر ہے کہ جنرل پرویز مشرف‘ فوجی قیادت اور سیاسی جماعتیں سب اپنے اپنے تحفظات کے علی الرغم عوام کے اس فیصلے کو قبول کریں اور اس پر اس اسپرٹ کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں جو انتخابی نتائج سے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اس میں نہ کسی کی فتح ہے اور نہ شکست۔ اس میں سب کی بھلائی اور سب سے بڑھ کر ملک و ملت کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اگر اس سے ہٹ کر کوئی اور راستہ اختیار کیا گیا۔ جیساکہ کچھ عناصر--- جن میں ملک کی کچھ کھلی اور مخفی قوتیں اور ان کے بیرونی سرپرست شامل ہیں--- ڈھکے چھپے ہی نہیں نیم وا انداز میں حکمرانوں کو اس خطرناک راستے پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ تو یہ ملک کے لیے تباہی کا راستہ ہوگا۔کچھ لوگ ’’فاتح افغانستان‘‘ جنرل ٹامی فرینکس کے دورۂ پاکستان (۱۸ اکتوبر ۲۰۰۲ء) اور حکومت افغانستان کے ایک نمایندے اور بھارتی وزیرخارجہ کے اظہاراضطراب (concern) کو اسی پس منظر میں دیکھ رہے ہیں۔ لیکن بیشتر پاکستانی اخبارات کے ادارتی تبصرے‘ کالم نگاروں کے واضح اشارات اور قومی جماعتوں کے نمایندوں کے واضح اور متوازن بیانات اس امر پر شاہد ہیں کہ ان حالات میں ملک اور اس کی قیادت کے لیے ایک ہی معقول راستہ ہے اور وہ یہ کہ کسی اینچ پینچ کے بغیر‘ انتخابی نتائج کو تسلیم کرے اور بلاتاخیر ان پر ان کی اسپرٹ کے مطابق عمل درآمد کرے۔

جنرل پرویز مشرف اور ملک کی فوجی قیادت ‘جس نے گذشتہ تین سال سے حکمرانی کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی تھی اور جو عدالت عالیہ کی دی ہوئی مہلت کے مطابق جمہوری عمل کے احیا کی پابند ہے‘ اور امریکہ‘ دولت مشترکہ اور مغربی اقوام جو ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے مختلف انداز میں دبائو ڈالتے رہے ہیں‘ اب آزمایش کی کسوٹی پر جانچے جا رہے ہیں کہ وہ عوام کے فیصلے کو قبول کرتے ہیں یا خدانخواستہ اسے ناکام کرنے کے لیے چال بازی اور کسی نئے سیاسی کھیل کا خطرناک راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ہم اس امر کا برملا اظہار کرنا چاہتے ہیں کہ حکمرانوں اور قومی قیادت ‘دونوں کو خود اپنے ملک کے ماضی کے تجربات اور تاریخ کے وسیع تر مگر‘ ناقابل تردید شواہدکی روشنی میں وہی راستہ اختیار کرنا چاہیے جو معقول بھی ہے اور مثبت نتائج کا ضامن بھی--- یعنی عوام کی رائے کا مکمل احترام اور ان کے فیصلے پر پوری سپردگی کے ساتھ عمل۔ ہماری دعا ہے کہ جنرل مشرف اور ان کے رفقا قوم کے پیغام (message) کو بے چون و چرا قبول کریں‘ اور اس طرح اپنی عزت میں اضافہ کریں‘ ماضی کی خود اپنی اور دوسروں کی غلطیوں کی تلافی کا کچھ سامان کریں‘ ایک بہتر مثال قائم کرنے کی سعادت حاصل کریں اور ملک کو جمہوریت اور دستور اور قانون کی حکمرانی کے راستے میں آگے بڑھنے کا سامان فراہم کریں۔

عوامی مینڈیٹ اور اس کے تقاضے

اس امر کے واضح ہو جانے کے بعد کہ اب ملک و قوم کے لیے ایک ہی جائز اور مبنی برحق راستہ عوام کے مینڈیٹ کا‘ جیسا بھی وہ ہے‘ احترام اور اس پر عمل ہے‘ یہ بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ ذرا تفصیل میں جاکریہ متعین کیا جائے کہ وہ مینڈیٹ کیا ہے اور اس پر عمل کے کیا تقاضے ہیں؟ معلق پارلیمنٹ اور منقسم مینڈیٹ کے الفاظ بہ کثرت استعمال ہو رہے ہیں اور ان کے بین السطور سیاسی عدم استحکام کے اندیشے اور بیرونی سرمایے اور سیاسی تائید سے محرومی کے اشارے بھی کچھ خاص حلقوں کی طرف سے دیے جا رہے ہیں۔ اس لیے اس بات کو اچھی طرح سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جمہوریت کی ۲۰۰ سالہ تاریخ میں نہ معلق پارلیمنٹ کوئی نئی چیز ہے اور نہ منقسم مینڈیٹ۔ تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ دنیا کے بیشتر جمہوری ممالک کو کسی نہ کسی دور میں اس نوعیت کے نتائج سے سابقہ پڑتارہا۔ امریکہ‘ فرانس‘ اٹلی‘ ہالینڈ‘ جاپان‘ کون سا ملک ہے جسے کبھی نہ کبھی  اسی نوعیت کی صورت حال سے سابقہ پیش نہ آیا ہو۔ مخلوط حکومت بھی کوئی اجنبی چیز نہیں۔ اس سے متوحش ہونے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مینڈیٹ کی اصل حقیقت کو‘ ملکی حالات اور پالیسیوں کے معروضی پس منظر میں‘ ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے اور اس پر عمل کے لیے خطوط کار متعین کیے جائیں۔

۱-  سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ان انتخابات میں عوام نے جنرل پرویز مشرف کے تین سالہ دورِ حکومت اور اندازِ حکمرانی کے بارے میں ایک واضح فیصلہ دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جن چیزوں کو وہ اپنی اصلاحات کا نام دے رہے ہیں‘ وہ عوام کی نگاہ میں مطلوبہ اصلاحات نہیں ہیں۔ عوام نے جنرل صاحب کے حامی عناصر کو ساری سرکاری سرپرستی‘ گورنروں کے الطاف و انعامات‘ انتظامیہ کی ترغیبات و ترہیبات ‘ ناظمین کے التفات و توجہات اور انتخابی مشینری کی نوازشات اور سہولیات کے باوجود حکمرانی اور تسلسل کا اختیار نہ دے کر صاف پیغام دے دیا ہے کہ وہ تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ اب ساری توجہ اس تبدیلی کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے ہونی چاہیے جو عوام کو مطلوب ہے۔ کسی فرد‘ گروہ یا جماعت کو عوام پر اپنی رائے مسلط کرنے کا حق اور اختیار نہیں۔

۲-  عوام نے فوج کو بھی ایک واضح پیغام دے دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اسے اب اپنی بیرکوں کا رخ کرنا چاہیے۔ سیاست میں کسی مستقل کردار کی تلاش ایک نئی کش مکش کو جنم دینے کا باعث ہو سکتی ہے۔ ہم شروع سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ ملک کی فوج کی حقیقی ضروریات کو پورا کرنا قوم کی ذمہ داری ہے۔یہ کام باہم مشورے سے اور عزت و احترام کے ساتھ ہونا چاہیے تاکہ فوج مضبوط ہو اور قوم کے اعتماد اور محبت و عقیدت کا مرکز و محور بنے۔ وہ سیاست میں فریق بن کر متنازع نہ بنے۔ اس کی ساری توجہ اعلیٰ ترین درجے کی پیشہ ورانہ مہارت کے حصول پر مرکوز رہے۔ ملک اور فوج دونوں کا مفاد اسی میں ہے۔ ۱۰ اکتوبر کے انتخابات نے بڑے کھلے انداز میں فوج اور اس کی قیادت کو یہ پیغام دے دیا ہے جس پر جتنی جلد عمل ہو‘ اتنا ہی سب کے لیے بہتر ہے۔

۳-  ان انتخابات سے یہ بات بھی سامنے آگئی ہے کہ پاکستانی قوم ایک آزادی پسند اور باغیرت قوم ہے اور خود کو اُمت مسلمہ کا ایک باوقار حصہ سمجھتی ہے۔ وہ دنیا کے تمام ممالک اور خصوصیت سے آج کی بڑی طاقتوں بشمول امریکہ سے ‘جو اب واحد عالمی قوت ہے‘ دوستانہ تعلقات چاہتی ہے‘ لیکن اپنی آزادی‘ قومی وقار اور پاکستان اور اُمت مسلمہ کے حقیقی مفادات کے فریم ورک میں۔ اس کے بڑے اہم مضمرات ملک کی خارجہ اور داخلی پالیسیوں‘ خصوصیت سے معاشی پالیسیوں کے لیے ہیں۔ ملک کی سیاسی قیادت کو پوری دیانت‘ حکمت اور بالغ نظری کے ساتھ ان تقاضوں کو متعین کرنے اور ان کے حصول کے لیے صحیح منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ البتہ یہ کام بڑے سوچے سمجھے انداز میں اور ٹھنڈے غوروفکر کے ساتھ انجام دیا جانا چاہیے۔

۴-  یہ بات بھی واضح ہو گئی ہے کہ قوم کی نگاہ میں تبدیلی اور قیادت پر فائز کرنے کا صحیح راستہ بیلٹ (رائے کی پرچی) ہے بولیٹ (بندوق کی قوت) نہیں‘ خواہ اس کا استعمال کرنے والے عناصر سویلین ہوں یا وہ فوجی جن کو قوم نے بندوق بطور امانت دی ہے اور جسے دشمن کی جارحیت کے خلاف استعمال کرنے کے لیے مختص ہونا چاہیے۔

۵-  یہ واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے اور وہ عناصر جو سیکولرزم اور لبرلزم کے نام پر یہاں مغربی تہذیب و ثقافت کی ترویج چاہتے ہیں‘ وہ اس کے حقیقی نمایندے نہیں۔ یہ عناصر ملک کو نظریاتی کش مکش میں مبتلا کرنے کا ذریعہ بنے ہیں۔ ان کے دورِ حکمرانی کے ثمرات بجز بگاڑ اور تباہی کے کچھ نہیں۔ عوام کے اصل مسائل حل کرنے میں بھی یہ قیادتیں ناکام رہی ہیں اور اخلاقی ‘تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے بھی ملک کو پیچھے ہی لے گئی ہیں۔ قوم اب ان آزمائی ہوئی قیادتوں سے نجات چاہتی ہے۔

۶-  جس طرح سیکولر اور لبرل قیادتیں ناکام ہوئی ہیں اسی طرح محض علاقے‘ نسل‘ زبان اور مقامی مفادات کی علم بردار قوتوں نے بھی ملک ہی نہیں خود اپنے علاقے‘ نسل اور زبان بولنے والوں کے لیے بھی کچھ نہیں کیا۔ بحیثیت مجموعی علاقائی قوتوں کی تائید میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور لوگ قومی سوچ رکھنے والی جماعتوں کو قیادت کی ذمہ داریاں سونپنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

۷-  عوام دو جماعتی نظام کے چنگل سے نکلنے کے لیے بھی بے چین ہیں۔ جن دو بڑی جماعتوں نے خاص طور پر گذشتہ ۱۵‘ ۲۰ سال سیاسی باگ ڈور باری باری سنبھالی‘ بحیثیت مجموعی عوام اُن سے مایوس ہیں اور ایک تیسری متبادل قوت کے متلاشی ہیں۔ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی جمہوری تحریک ایسے ہی مراحل سے گزری ہے اور بظاہر پاکستان کے عوام بھی اب ایک تیسری قوت کو آزمانا چاہتے ہیں جس کے لیے وہ دینی جماعتوں کے اتحاد کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

۸-  متحدہ مجلس عمل کا ایک تیسری قوت کے طور پر نمایاں ہو کر سامنے آنا ان انتخابات کا بہت ہی واضح اور مثبت حاصل ہے۔ متحدہ مجلس عمل کو سرحد اور بلوچستان میں جو پاکستان کی حالیہ تاریخ میں غیرمعمولی اہمیت حاصل کر چکے ہیں‘ نمایاں کامیابی ہوئی ہے۔ سرحد میں‘ قومی اسمبلی کے لیے ۳۳ میں سے ۲۸ نشستیں اور صوبائی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر کے اور صوبہ بلوچستان کی قومی اسمبلی کی اکثر نشستوں پر کامیاب ہوکر اور صوبائی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت اختیار کر کے وہ قومی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آگئی ہے۔ سرحد اور بلوچستان کے علاوہ اسلام آباد‘ لاہور‘ کراچی اور حیدر آباد سے نمایاں کامیابی نے بھی اسے ایک موثر ملک گیر قوت بنا دیا ہے۔ پارلیمنٹ میں اسے ایک فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ یہ پاکستان کے نظریاتی مستقبل اور نظام حکومت اور اندازِ حکمرانی کے باب میں اُس بنیادی تبدیلی کی طرف پہلا قدم ہے جو آزادی کے تقاضوں اور تحریک پاکستان کے اصل مقاصد کے حصول کی طرف پیش قدمی کے لیے ضروری ہے۔ یہ تبدیلی قومی سوچ کی مظہر اور مستقبل کی ایک جھلک ہے اور اس حیثیت سے ان انتخابات کا سب سے اہم اور دُور رس اثرات کا حامل پہلو ہو سکتی ہے۔

البتہ یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ یہ اس اتحاد‘ اعتدال‘ مقصدیت اور پاک دامنی کا ثمرہ ہے جس کی علامت متحدہ مجلس عمل اس انتخابی مہم میں بن گئی ہے۔ یہ سیاست کا ایک نیا نمونہ (model) ہے جو عوام کے سامنے آیا ہے۔ بلاشبہہ مجلس کی کامیابی میں اس کی اسلامی شناخت اور ملکی آزادی اور وقار کے باب میں اس کے جرأت مندانہ اور واضح موقف کا بڑا دخل ہے۔ لیکن اس کے ساتھ دینی قوتوں کا ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا‘ سیاسی پارٹیوں کی تقسیم در تقسیم کے پس منظر میں چھ جماعتوں کا یک رنگ ہو کر ایک جھنڈے تلے ایک قومی موقف پر جم جانے اور مخالفین کی ساری سازشوں اور دراندازیوں کے باوجود اپنی وحدت‘ یک جہتی اور بے لوث تعاون پر آنچ نہ آنے دینے کا بڑا دخل ہے۔

اس مثال نے تاریکیوں کے ماحول میں عوام کے سامنے امیداور روشنی کی ایک کرن کا منظر پیش کیا اور عوام نے ہر مفاد سے بالا ہو کر اس کو اپنی تائید سے نوازا۔ کھمبا نوچنے والوں کی کمی نہیں اور کوئی اس میں ’’خفیہ ہاتھ‘‘ دیکھنے کی کوشش کر رہا ہے اور کوئی اس کا سہرا ’کتاب‘ کے نشان پر باندھنے کی کوشش کر رہا ہے حالانکہ خفیہ ہی نہیں صاف نظر آنے والے ہاتھ جن کی پشت پر تھے وہ کوئی راز نہیں۔ کتاب کے نشان پر ۱۹۸۵ء سے آج تک مختلف جماعتیں انتخاب لڑتی رہی ہیں لیکن یہ معجزہ اس سے پہلے کبھی واقع نہیں ہوا۔ اصل چیز وہ پیغام اور منشور ہے جو مجلس عمل نے قوم کے سامنے پیش کیا‘ وہ اتحاد ہے جس کو انھوں نے ایک حقیقت بنا دیا اور کردار کا وہ فرق ہے جو چشم سر سے دیکھا جا سکتا ہے۔ دینی جماعتوں کا اتحاد اور کامیابی   اب ایک ایسی سیاسی حقیقت ہے جو پاکستان کے مستقبل کی صورت گری میں ان شاء اللہ روز افزوں کردار ادا کرے گی۔ یہ ان جوہری تبدیلیوں کا پیش خیمہ ہے جن کی طرف یہ انتخابی نتائج اشارہ کر رہے ہیں۔

۹-  ان انتخابات کا ایک پیغام یہ بھی ہے کہ ملک میں کوئی ایک جماعت یا قوت تن تنہا نظام کو نہ چلائے بلکہ سیاسی قوتوں کے لیے ضروری ہے کہ افہام و تفہیم اور تعاون اور اشتراک کا راستہ اختیار کریں۔ ملک تصادم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ جس طرح دینی جماعتوں نے افہام و تفہیم اور تعاون و اشتراک کے ذریعے ایک روشن مثال قائم کی ہے اسی طرح تمام سیاسی قوتوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اگر وہ    عوام کے مینڈیٹ کا احترام کرنا چاہتی ہیں تو کھلے دل سے اسلامی نظریے‘ قومی آزادی ‘ ملکی مفاد اور عوام کی فلاح و ترقی کے لیے اپنے جماعتی اور گروہی مفادات سے بلند ہو کر مشترک قومی اہداف کے حصول کے لیے صف بندی کریں تاکہ کسی کو یہ زعم نہ ہو کہ ہم تنہا جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ یہی وہ ذہن تھا جس کے نتیجے میں سول حکومتیں آمرانہ نظام میں تبدیل ہو گئیں اور خود جمہوریت کے لیے خطرے کا باعث ہوئیں۔ عوام اس کھیل سے تنگ ہیں اور چاہتے ہیں کہ سیاسی قوتوں میں برداشت اور ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنے کا جذبہ پیدا ہو۔ اگر اب بھی دیانت دارانہ عمل کے راستے کو ترک کیا گیا یا کرایا گیا اور سازشوں، ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ سیاسی رشوتوں اور بلیک میل کے ذریعے غیر فطری اکثریت بنانے کی کوشش کی گئی تو یہ بات جمہوریت کے لیے سمِ قاتل ثابت ہوگی اور عوام کے مینڈیٹ کو ناکام کرنے کی مذموم کوشش ہوگی۔ البتہ ان ناپاک سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حقیقت پسندی اور حکمت کے ساتھ لیکن بالکل صاف شفاف انداز میں اشتراکِ عمل کی راہیں تلاش کی جائیں۔ ہر سیاسی قوت کے اصل وزن کے مطابق اسے اہمیت دی جائے اور مشترک مقاصد اور اہداف کے لیے بالکل کھلی سیاست کے ذریعے ملک کو اس دلدل سے نکالنے کی کوشش کی جائے جس میں ماضی کی حکومتوں‘ (بشمول جنرل پرویز مشرف کی حکومت) نے ملک کو ڈال دیا ہے۔

ہماری نگاہ میں اس وقت اصل چیلنج یہ ہے کہ انتخابی نتائج کی قوسِ قزح میں جو عوامی مینڈیٹ رونما ہوا ہے اس کی روشنی میں سب سے پہلے انتقال اقتدار‘ نہ کہ محض شراکت اقتدار کا عمل مکمل کیا جائے۔ پہلا اور سب سے اہم مسئلہ جمہوری اداروں کی بحالی‘ ۱۹۷۳ء کے دستور کو برسرِعمل (operational)شکل دینا‘ پارلیمنٹ کی بالادستی اور عوام کے حقوق کی بحالی ہے۔ وہ تمام عناصر جو اس عمل پر یقین رکھتے ہیں ان کا فرض ہے کہ ملک کو تصادم سے بچاتے ہوئے تبدیلی کے اس عمل کو اولیت دیں۔ قومی اہداف اور پالیسیوں کا تعین اور تغیر اسی وقت ممکن ہے جب یہ انتقال اقتدار واقع ہو جائے۔ ان دونوں میں خلط مبحث بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے اولین اہمیت اقتدار کی تبدیلی اور دستور کے تحت پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کی ہے۔ فوج کی اس کے اصل کردار کی طرف مراجعت اس کا اہم ترین حصہ ہے۔ یہ کام حکمت کے ساتھ انجام دینے کی ضرورت ہے۔ عوام نے جن جماعتوں کو نمایندگی کی ذمہ داری سونپی ہے ان کی واضح اکثریت ۱۹۷۳ء کے دستور کے تحت جمہوری عمل کی قائل ہے اور جن جماعتوں نے انتقالِ اقتدار نہیں بلکہ شراکت اقتدار کا عندیہ دیا تھا ان کو بھی سمجھ جانا چاہیے کہ عوام شراکت نہیں‘ انتقال کے متلاشی ہیں اور انھیں بھی عوام کی خواہش کے مطابق اپنے موقف میں تبدیلی کرنا چاہیے تاکہ سب مل کر جمہوری عمل کو موثر بنانے میں کامیاب ہو سکیں۔

۱۰-  انتخابات کا ایک اور پیغام یہ ہے کہ مرکز اور صوبوں میں ضروری نہیں کہ ایک ہی جماعت کی حکومت ہو۔ فیڈریشن کے اصول کا لازمی تقاضا حکمران جماعتوں کی تکثیر(pluralism) ہے۔ پاکستان کی بہت سی مشکلات کی جڑ مرکز اور صوبوں میں مختلف جماعتوں کا حکومت کے بارے میں عدم برداشت کا رویہ ہے۔ جو سلسلہ مشرقی پاکستان میں ’’جگتو فرنٹ‘‘ کی حکومت کو برداشت نہ کرنے سے شروع ہوا تھا وہ بالآخر ملک کی تقسیم پر منتج ہوا۔ پاکستان کے دوسرے دور میں بھی یہی سلسلہ جاری رہا۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے سرحد اور بلوچستان کی حکومتوں کے ساتھ جو کچھ کیا‘ پھر بے نظیرصاحبہ اور میاں نواز شریف کے ادوار میں پنجاب‘ سندھ اور سرحد میں جو کھیل کھیلا گیا اس نے سیاست کو گندا ہی نہیں کیا بلکہ ملک میں فیڈریشن کے تجربے کو ناکام کرنے اور مرکز گریز رجحانات کو تقویت دینے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان انتخابات سے صاف ظاہر ہے کہ سرحد اور بلوچستان میں متحدہ مجلس عمل‘ پنجاب میں قائداعظم لیگ اور سندھ میں پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کو سبقت حاصل ہے۔ اگر کسی بھی غیر فطری انداز میں ان زمینی حقائق کو بدلنے یا ان کو نظرانداز کرکے کوئی اور دروبست قائم کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ تباہی کا راستہ ہے۔

فیڈریشن کے اصل اصول اور اسپرٹ کے مطابق عوامی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے دستور کے دائرے میں ہر ایک کو اس کے حق کے مطابق حکمرانی کا اختیار اور موقع ملنا چاہیے۔

ہماری نگاہ میں ۱۰ اکتوبر کے انتخابات کے مندرجہ بالا ۱۰ پہلو ایسے ہیں جن کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ عوام کا مینڈیٹ ان تمام پہلوئوں پر حاوی ہے اور جنرل پرویز مشرف‘ فوجی قیادت اور سیاسی جماعتوں کو ان کا احترام کرنے اور ان کے مطابق معاملات طے کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ یہ وقت ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے اور پرانے حساب چکانے کا نہیں۔ مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ذریعے عوام کے مینڈیٹ پر اس کی روح کے مطابق عمل ہی میں سب کی نجات ہے۔یہ مرحلہ طے ہو جائے تو پھر پالیسی کے معاملات اور حکومت سازی سے بڑھ کر ملک سازی کا مرحلہ آتا ہے۔ بلاشبہہ بڑا چیلنج ملک سازی کا ہے اور اپنے اپنے منشور کے مطابق ہر سیاسی قوت کو اس کے لیے تیاری اور محنت کرنی چاہیے لیکن انتقالِ اقتدار کے مراحل کو طے کیے بغیر اور اس کام کو بخوبی انجام دیے بغیر اس طرف پیش رفت ممکن نہیں۔ وقت کم ہے اس لیے دونوں مرحلوں کو ٹھیک ٹھیک طے کرنے کی فکر وقت کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ البتہ ترتیب اور ترجیحات کا احترام ضروری ہے:  الاقدم فالاقدم!

متحدہ مجلس عمل: کامیابی اور ذمہ داریاں

متحدہ مجلس عمل کی قیادت اور اس کے کارکنوں کو جہاں ہم ان کی اس تاریخی کامیابی پر دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتے ہیں‘ وہیں یہ بھی ضروری سمجھتے ہیں ہم خود کو اور اپنے تمام ساتھیوں کو یاد دلائیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک خصوصی انعام ہے۔ قیادت کا وژن اور کارکنوں کی محبت اور قربانیاں سب اپنی جگہ‘ لیکن اصل چیز اللہ تعالیٰ کی اعانت اور نصرت ہے اور اس کے ہر انعام کی طرح یہ کامیابی بھی ایک عظیم آزمایش اور کڑا امتحان ہے۔ قرآن نے جو اصول اس باب میں بیان کیا ہے وہ یہ ہے کہ وَاِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَ زِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌo  (ابراہیم ۱۴:۷) ’’اور یاد رکھو تمھارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکرگزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے‘‘۔

اس آیت کریمہ پر غور کرنے سے تین باتیں خاص طور پر سامنے آتی ہیں:

اول: ہر نعمت اور ہر کامیابی اللہ اور صرف اللہ کی طرف سے ہے۔ انسانی کوشش‘ صحیح منصوبہ بندی‘ جان ماری سے جدوجہد‘ ایثار اور قربانی سب ضروری ہیں اور قدرت کے بنائے ہوئے قانون کا لازمی حصہ--- لیکن مسبب الاسباب صرف اللہ کی ذات ہے اور جو کچھ بھی انسان کو حاصل ہوتا ہے وہ عطیہ الٰہی ہے۔ اس لیے سب سے پہلے اپنے مالک اور آقا کا احسان ماننا‘ اس سے اپنی نسبت کو مزید مستحکم کرنا‘ ہر قسم کے غرور اور تعلی سے گریز اور اپنے رب کی رحمت اور نعمت نوازی کا شعور ہے۔ کافر کامیابیوں کو اپنی فتح سمجھتا ہے اور مسلمان اسے اپنے رب کا انعام--- اور یہی چیز اسے شکر اور عجز کی راہ اختیار کرنے کا شرف بخشتی ہے۔

دوم: جس بابرکت ہستی نے ایک عظیم نعمت سے ہمیں نوازا ہے اس کا تقاضا ہے کہ اس نعمت پر شکر کے ساتھ یہ ادراک کیا جائے کہ اب اس نعمت کا کیا حق ہے۔ یہ نعمت خود مطلوب نہیں‘ بلکہ ذریعہ ہے ان مقاصد اور اہداف کے حصول کے لیے جو رب نے ہر نعمت کے ساتھ مقرر فرما دیے ہیں۔ اگر رزق میسر آیا ہے تو وہ اس لیے کہ ہم جسم و جان کے لیے وہ سامان فراہم کریں جن کے ذریعے یہ جسم و جان مالک کی رضا کے حصول‘ اس کے دین کے قیام اور اس کے کلمے کی سربلندی کے لیے سرگرم عمل ہوسکیں۔ اگر دولت حاصل ہوئی ہے تو وہ صرف ہماری ذات کی افزایش کے لیے نہیں‘ ان مقاصد حیات کی ترویج کے لیے دی گئی ہے جن سے زندگی عبارت ہے۔ اگر سیاسی اثر و رسوخ اور قوت و اقتدار حاصل ہوا ہے تو وہ خود مطلوب نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے حصول کے لیے اس کے دین کے قیام اور اس کے بندوں کی خدمت کا ایک موقع ہے۔ اس لیے ہر انعام ایک آزمایش ہے اور دل اورزبان کے مالک کے احسان و انعام کے اقرار و اعتراف کے بعد اس نعمت کے حق کو پہچاننا شکر کا دوسرا مرحلہ ہے۔

سوم: اس نعمت کا استعمال بھی شکر ہی کا ایک پہلو ہے۔کفران نعمت صرف زبان سے نعمت سے انکار نہیں‘ نعمت کا غلط استعمال یا اصل مقصد سے ہٹ کر کسی اور طرح اور کسی اور طرف اس کا استعمال بھی کفرانِ نعمت ہی  کی ایک شکل ہے۔ نعمت کے حق کو سمجھنے کے بعد اس سے اگلا مرحلہ اس نعمت کے صحیح استعمال کا ہے۔ معاملہ رزق کی فراوانی کا ہو‘ یا علم کی نعمتوں سے مالا مال ہونے کا‘ یا قوت و اقتدار کے حصول کا--- ہر نعمت کا صحیح استعمال اور احکام الٰہی کے مطابق اصل مقاصد کے حصول کے لیے اس نعمت سے استفادہ بھی شکر ہی کے مفہوم میں داخل ہے۔

یہیں سے یہ بات واضح ہے کہ نعمت الٰہی اور اللہ کے احکام اور ان کے اتباع میں بڑا قریبی اور ناقابل انقطاع تعلق ہے۔ نعمت ایک صلاحیت ہے اور اس صلاحیت کا جائز اور مطلوب مصرف احکامِ الٰہی کا اتباع اور نفاذ ہے۔

اگر مومن ہر نعمت اور ہر انعام پر شکر کا راستہ اختیار کرتا ہے تو مالک السموات والارض نعمتوں اور انعام کی بارش فرماتا ہے اور یہ سلسلہ برابر بڑھتا ہی جاتا ہے۔ اور اگر غرور اور تکبر کا شکار ہو جاتا ہے‘ غفلت اور خود فریبی میں مبتلا ہو جاتا ہے‘ خیروشر کے امتیاز کو نظرانداز کرتا ہے‘ سب کچھ اپنی محنت کا حاصل سمجھنے لگتا ہے‘ دوسروں کے حقوق کو پامال کرتا ہے اور اللہ کے احکام سے صرفِ نظر کرنے لگتا ہے تو پھر یہی انعام سخت بازپرس اور پکڑ کا وسیلہ بن جاتا ہے اور انسان فراز سے پستی کی طرف لوٹ جاتا ہے۔

اس اصول کی روشنی میں متحدہ مجلس عمل کے تمام کارکنوں کا فرض ہے کہ سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اپنے رب کے شکر کا راستہ اختیار کریں اور اس شکر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کمربستہ ہوجائیں۔ اسمبلیوں کی رکنیت ہماری منزل نہیں۔ اقتدار بھی ہمارا اصل ہدف اور مقصود نہیں۔ یہ سب ذریعہ ہیں اللہ کی رضا کے حصول کے لیے جدوجہد کا‘ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو پھیلانے اور سربلند کرنے کا‘ اللہ کے بندوں کی خدمت اور ان کو رب کی عبادت کی راہ پر لگانے اور مستحکم کرنے کا--- کہ مسلمان کی شان یہ ہے کہ وہ حکومت اور دولت کو ‘مطلوب نہیں‘ اصل مطلوب کے حصول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔ بلاشبہہ یہ ذریعہ بھی ضروری ہے لیکن یہ ذریعہ ہے‘ مقصود و مطلوب نہیں۔ اس لیے جو بھی کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ مزید جدوجہد کے لیے ایک موقع اور آگے کے مراحل کی طرف پیش قدمی کا زینہ ہے۔ ابھی جو کچھ ہمیں حاصل ہوا ہے وہ اس جدوجہد کے لیے فتح باب کا درجہ رکھتا ہے‘ منزل مراد کا نہیں۔ یہ تو پہلا قدم ہے‘ عشق کے اصل امتحان تو اب شروع ہو رہے ہیں۔ جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ اللہ کی نصرت ہے‘ اور اللہ کی نصرت کا مزید حصول اللہ سے وفاداری‘ اپنے مقاصدِ حیات کی خدمت کے لیے مزید تیاری اور جدوجہد اور اللہ کے بندوں کو دین حق کی برکات سے شادکام کرنے کے لیے قربانی اور مسلسل سعی سے ممکن ہے۔ جہاں ہمیں جتنا اختیار حاصل ہو اسے اللہ کی بتائی ہوئی حدود کے اندر‘ اللہ کے بندوں کے لیے زندگی کو آسان بنانے اور اللہ کے دین کی اطاعت کو کاروبار حیات بنانے کے لیے استعمال کرنے میں ہماری کامیابی ہے۔ یہی شکر کی اصل راہ ہے۔

ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ جو کام ہمیں انجام دینا ہے وہ حکمت اور بردباری کے ساتھ تحمل و رواداری‘ ایثار و قربانی اور خدمت اور جفاکشی کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ قوم نفس کے پجاریوں کے کرتوتوں کی ستم زدہ ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے کارکنوں کو ہر سطح پر اعلیٰ کردار اور بے لوث خدمت کی نئی مثالیں قائم کرنا ہے تاکہ      دنیا پرستوں اور دین کے نام لیوائوں کا فرق ان کے سامنے آسکے اور آپ کی اچھی مثال سے روشنی کے  نئے چراغ روشن ہوں۔ جو کچھ آج حاصل ہوا ہے کل اس سے کہیں زیادہ کامیابیاں آپ کا مقدر ہو جائیں اور یہ مظلوم قوم ترقی اور کامرانی کی راہوں کو استوار کر سکے اور عزت کا مقام حاصل کر سکے۔ حکمت اور تدریج‘ انصاف اور حق پرستی‘ عجزوانکسار اور جہدمسلسل ہی کامیابی کا راستہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس انعام پر اس کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے ۔ضروری ہے کہ قلب و نظر سے شکرادا کرنے کے ساتھ ساتھ ہم سب اس لائحہ عمل پر سختی سے قائم ہو جائیں جو اس شکر کا لازمی تقاضا ہے۔ ملک شدید خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ ہمیں اپنی قوت اور اثرات کو بھی بڑھانا ہے اور ملک کو بھی ان مشکلات سے نکالنا ہے جن کی گرفت میں وہ ہے‘ یہ مشکلات اندرونی بھی ہیں اور بیرونی بھی۔ ان سے مرحلہ وار ہی نبردآزما ہوا جا سکتا ہے۔ اس لیے جہاں وژن کے باب میں مکمل یکسوئی اور استقامت ضروری ہے وہیں تدبیر منزل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی اور بروقت اقدام بھی ضروری ہیں۔ خود کو اس عظیم کام کے لیے فرداً فرداً اور اجتماعی طور پر بھی تیار کرنا ضروری ہے تاکہ مسائل کے عقدے حل ہو سکیں اور عوام اسلام کی وفاشعار قیادت اور محض دنیاپرست قیادتوں کے فرق کو محسوس کر سکیں اور اچھی قیادت کے ہاتھوں اچھی حکومت اور خادم خلق طرزحکمرانی کے ثمرات سے فیض یاب ہو سکیں۔

متحدہ مجلس عمل کی اس پہلے مرحلے کی کامیابیوں سے ملک کے کچھ حلقوں میں اور اس سے بھی زیادہ بیرونی دنیا میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں۔ ہمیں نہ ان کو نظرانداز کرنا چاہیے اور نہ ان سے خائف ہونے کی کوئی وجہ ہے۔ پھر یہ کوئی نئی چیز بھی نہیں۔ اسلامی قوتوں کو ہر دور میں اور ہر مقام پر انھی مراحل سے گزرنا پڑا ہے۔ البتہ ہمیں صبرواستقامت کے ساتھ حلم و حکمت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ تیاری کے بغیر تصادم بہادری نہیں‘ حماقت ہے۔ میدانِ جنگ سے فرار جرم ہے تو جنگ کے وقت‘ میدان‘ صلاحیت اور آداب ہر ایک کے باب میں صحیح حکمت عملی‘ مناسب تیاری اور بروقت اقدام کے اہتمام سے اغماض بھی کچھ کم جرم نہیں۔ سیاست کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں کہ جہاد محض میدان جنگ کی جدوجہد کا نام نہیں بلکہ زندگی کی تمام وسعتوں میں دین کے پیغام کو پہنچانے اور اللہ کی مرضی کو اللہ کے بندوں پر قائم کرنے کی جدوجہد کا نام ہے۔ اگر ہماری سیاست اللہ کے دین کے قیام کے لیے ہے تو یہ بھی جہاد ہی کا ایک حصہ ہے۔

راے عامہ کی تبدیلی سے لے کر راے عامہ کے ذریعے تبدیلی اسی جدوجہد کے مختلف مراحل ہیں۔ اس لیے ہم متحدہ مجلس عمل سے وابستہ تمام ساتھیوں کو جہاں مسلسل نفس کے تزکیے اور اللہ سے تعلق اور استعانت کی نصیحت کرتے ہیں‘ وہیں یہ درخواست بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ اپنی حکمت عملی پورے غوروفکر اور باہمی مشاورت سے مرتب کریں اور پوری جانفشانی اور محنت سے پارلیمانی نظام کے ذریعے تبدیلی لانے کے لیے خود کو تیار کریں اور قوم کے سامنے ایک نیا اور اعلیٰ نمونہ قائم کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔

حالات پر اثرانداز ہونے کا جو موقع میسر آئے اور خدمت کی جو صورت بھی بن پڑے اس میں ہمارا کردار منفرد ہونا چاہیے۔ دینی قوتوں کے اتحاد کو قائم رکھنا اور مزید مستحکم کرنا اور تمام اچھے انسانوں کو اپنے ساتھ ملانا وقت کی ضرورت ہے۔ مرکز اور صوبوں میں‘ جہاں جو شکل بھی بنے‘ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ایک نئے دور کے نقیب بن جائیں اور ایک ایسے طرزِحکمرانی کو رائج کرنے کا ذریعہ بنیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں انصاف کا بول بالا ہو‘ لوگوں کے دکھ کم ہوں‘ اور جو خواص (elitist) کا معاشرہ قائم ہو گیا ہے اس کی جگہ ایک ایسا سماج وجود میں آئے جس میں کمزور کو وہ قوت فراہم کی جا سکے کہ اس کا حق اسے مل سکے اور دوسروں کا حق مارنے والوں پر ایسی گرفت ہوسکے کہ وہ دوسروں کے مال‘ جان‘ آبرو پر دست درازی کی ہمت نہ کرسکیں۔ دنیا ہمیں ہمارے دعووں سے نہیں ہمارے عمل اور نمونے سے جانچے گی۔ اب ہم جتنا بہتر نمونہ پیش کریں گے‘ آگے کی منزلیں اتنی ہی آسان ہو سکیں گی۔ آپ زمین کا نمک اور پہاڑی کا چراغ بنیں گے تو یہ زمین نعمتیں اگلنے والی زمین بنے گی اور یہ معاشرہ تاریکیوں سے نکل کر روشنی کا گھر بن سکے گا۔

۱۰ اکتوبر کے انتخابات کے نتیجے میں تبدیلی اور اصلاح کا ایک بند دروازہ کھلا ہے۔ ہماری جدوجہد اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو رہی ہے۔ اس دور کے تقاضوں کو سمجھنا اور ان کو پورا کرنے کے لیے نئے عزم سے سرگرم عمل ہونا آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے   ع

ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا

 

میں پرنسٹن یونی ورسٹی میں ایک سیمی نار میں شرکت کے لیے گھر سے نکلنے ہی والا تھا کہ برادرم مسلم سجاد کا فیکس موصول ہوا: ’’نعیم صدیقی بھی اللہ کو پیارے ہوئے--- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون‘‘۔ میں ایک لمحے کے لیے سکتے میں آگیا۔ موت تو برحق ہے اور ہر لمحہ ہم سب کا تعاقب بھی کرتی رہتی ہے لیکن کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو ہمیشہ زندہ ہی دیکھنے کو دل چاہتا ہے اور نعیم صاحب بھی ایسے چنیدہ افراد میں سے ایک تھے۔ میرے لیے ذاتی تعلقات کی نسبت سے ایک بڑے بھائی‘ فکری میدان میں رہنما‘ تحریکی زندگی میں قائد‘ علمی اور ادبی میدان میں ایک عہدساز شخصیت!

برادر محترم نعیم صدیقی کے انتقال کی خبر سے دل پر ایک اور پہلو سے بھی چوٹ لگی جس کا قلق مجھے ہمیشہ رہے گا۔ اگست کے تیسرے ہفتے میں‘ میں آئی ایل ایم کے بورڈ آف گورنرز کی میٹنگ کے لیے لاہور گیا۔ بعد میں جب اسلام آباد کے لیے روانہ ہو رہا تھا توکسی نے اطلاع دی کہ نعیم صاحب ایک حادثاتی چوٹ کی وجہ سے ہسپتال میں ہیں۔ اتنا وقت نہ تھا کہ میں ان کو دیکھنے کے لیے جاسکتا۔ اس وقت ارادہ کیا کہ اگر ستمبر میں لاہور جانا ہوا تو ان سے ضرور ملوں گا۔ مجھے کیا خبر تھی کہ اب اس ملاقات کا کوئی موقع باقی نہیں رہے گا۔ ان سے آخری ملاقات چند ماہ قبل منصورہ میں سید مودودی انسٹی ٹیوٹ کی مجلس اعلیٰ کی میٹنگ میں ہوئی تھی۔ وہ محترم چودھری رحمت الٰہی صاحب اور میری درخواست پر علالت کے باوجود شرکت کے لیے تشریف لائے اور اپنے ساتھ ۵۰ برس کی یادوں کی سوغات بھی لائے۔ جماعت اسلامی سے قانونی رشتہ منقطع کرنے کے بعد بھی‘ وہ ہمارے لیے ویسے ہی محترم اور محبوب رہے جیسے پہلے تھے اور ان کی شفقت میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ یہی وہ چیز ہے جس نے ان کو دل کا مکین بنا دیا تھااور صرف ان کی علمی‘ ادبی اور تحریکی خدمات ہی نہیں بلکہ ان کی ذاتی صفات اور برادرانہ محبت کا میرے ہی نہیں ‘سیکڑوں افراد کے دلوں پر ایسا نقش ہے کہ ان کی وفات پر بے ساختہ یہ کہنے کو دل چاہتا ہے کہ    ؎

بعد از وفات تربت ما در زمین مجو
درسینہ ہاے مردم عارف مزار ما ست

ہماری وفات کے بعد ہمیں زمین کے اندر قبروں میں مت تلاش کرو۔ ہم اہل معرفت کے دلوں میں رہتے ہیں۔

نعیم صاحب سے میرا پہلا تعارف جمعیت کے ابتدائی دور میں ہوا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کا پہلا مطبوعہ تعارف‘ جس سے مجھے جمعیت کو سمجھنے کا موقع ملا‘ ان ہی کا لکھا ہوا تھا۔ تعارف میں نے کراچی ہی میں پڑھ لیا تھا اور جب سالانہ اجتماع میں شرکت کے لیے لاہور گیا تو فطری طور پر مولانا مودودی اور مولانا اصلاحی کے بعد جس شخص سے ملنے کا شوق تھا وہ نعیم صاحب تھے۔ اس لیے بھی کہ مولانا مودودی کی گرفتاری کے زمانے میں ترجمان القرآن کی ادارت انھوں نے کی تھی اور ان کے ’’اشارات ‘‘نے ہم سب کو بے حد متاثر کر رکھا تھا۔ خرم‘ ظفر اسحاق اور میں اپنے پہلے ناظم اعلیٰ ظفراللہ خان کے ساتھ نعیم صاحب سے ملنے گئے۔ پہلا تاثر ملا جلا تھا۔ ان کی تحریروں کو پڑھنے سے ایک بھاری بھرکم شخصیت کا تصور ذہن نے بنا لیا تھا۔ ملا تو اپنے سامنے ایک دبلے پتلے اور چہرے مہرے سے شرمیلے بزرگ کو پایا۔ لیکن تھوڑی ہی گفتگو میں ان کے جوہر کھلے۔ علمیت‘ متانت‘ جمعیت سے محبت اور نوجوانوں کے دل موہ لینے والے حسنِ بیان نے اپنا جادو چلا دیا اور یہ کیفیت ہو گئی کہ  ع

وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

پھر نعیم صاحب کو کراچی میں جہانگیر پارک کے ایک تاریخی اجتماع میں سنا جس میں دو گھنٹے کی تقریر میں انھوں نے ’’معاشی ناہمواریوں کا اسلامی حل‘‘ پیش کیا۔ یہ تقریر علم اور خطابت کا شاہکار تھی اور یہی تقریر اس کتاب کی بنیاد بنی‘ جو اسی نام سے بعد میں شائع ہوئی۔ چراغ راہ سے بھی اسی زمانے میں رشتۂ ارادت استوار ہوا اور اس طرح نعیم صاحب بحیثیت مصنف‘ مقرر‘ ادیب‘ شاعر‘ تحریکی قائد ہمارے دل و دماغ پر چھاگئے۔ پھر جب میں ۱۹۵۷ء میں مرکزی شوریٰ کا رکن منتخب ہوا تو اس وقت سے ۲۰۰۲ء تک نعیم صاحب سے بڑا قریبی تعلق رہا جس کی حسین یادیں میرا بہترین سرمایۂ حیات ہیں۔ یہ ان کی عظمت تھی کہ علم‘ عمر‘ تحریک‘ ہر اعتبار سے فوقیت رکھنے کے باوجود ہمارا تعلق دوستانہ اور برادرانہ رہا۔ ان کے ساتھ علمی اور تحریکی دونوں محاذوں پر کام کرنے اور ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ لیکن ہمیشہ انھوں نے اتنی عزت سے معاملہ کیا کہ خوردو بزرگ کا فرق باقی نہیں رہا۔

ہم تو انھیں صرف نعیم صدیقی ہی کے طور پر جانتے تھے۔ یہ عقدہ بعد میں کھلا کہ ان کا اصل نام فضل الرحمن ہے۔ ان کی پیدایش خان پور‘ تحصیل چکوال‘ ضلع جہلم میں ہوئی (۴ جون ۱۹۱۶ء)۔ جماعت اسلامی کے بانی ارکان میں سے تھے اور ۱۹۴۱ء ہی میں بستر بوریا لے کر اور مدرسے کی تعلیم نامکمل چھوڑ کر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی دارالاسلام کی خانقاہ میں داخل ہو گئے اور پھر علم و ادب‘ تحقیق و صحافت‘ نظم و نثر ہر میدان میں اپنا لوہا منوا لیا۔ نعیم صاحب ِایک صاحب طرز ادیب اور مشکل کُشا مفکر تھے۔

بلاشبہہ مولانا مودودی کو انھوں نے اپنا استاد‘ مرشد اور رول ماڈل بنایا لیکن اپنی تخلیقی انفرادیت (originality) کی بنا پر ہر میدان میں اپنا منفرد مقام بھی بنایا۔ تصنیف و تالیف کے میدان میں انھوں نے گراںقدر خدمات انجام دیں۔ ان کا سب سے بڑا علمی کارنامہ محسن انسانیتؐ ہے جو سیرت نگاری میں ایک نئی روایت کی بنیاد ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر ہر پہلو ہی سے کام ہواہے لیکن نعیم صاحب نے محسن انسانیتؐ کے ذریعے وہی خدمت انجام دی ہے جو تفسیرکے میدان میں مولانا مودودیؒ نے  تفہیم القرآن کی شکل میں انجام دی--- یعنی نبی کریمؐ کی زندگی بحیثیت داعی‘ قائدتحریک اسلامی اور عالمی انقلاب کے بانی۔ واقعات وہی ہیں جو ہر سیرت کی کتاب میں ملتے ہیں لیکن انھوں نے ان کی معنویت کو دورنبویؐ ہی نہیں آج کے دور سے ان کی نسبت اور مطابقت کے حوالے سے ایک نئی جہت دی ہے۔ ان کی یہ کتاب حق کے طالبان اور سیرت پر کام کرنے والوں کے لیے برسوں روشن چراغ رہے گی۔

انھوں نے اجتماعی علوم اور معاشرت و سیاست کے دسیوں موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور ہر میدان میں فکر اور اسلوب دونوں اعتبار سے پختگی کے ساتھ جس تخلیقی انفرادیت کا مظاہرہ کیا ہے وہ انھی کا حصہ ہے۔ نعیم صاحب کا کمال ہے کہ ایک گھسے پٹے موضوع کو بھی زندہ جاوید بنا دیتے ہیں اور ایک جانی بوجھی بات کو بھی اس طرح بیان کرتے ہیںکہ اس میں ندرت اور تازگی محسوس ہوتی ہے۔

افسانہ‘ رپورتاژ اور ادبی تنقید کے میدان میں بھی انھوں نے اپنا مقام پیدا کیا۔ وہ تحریک ادب اسلامی کے سرخیل کا درجہ رکھتے ہیں۔ شعر کے میدان میں بھی وہ بڑا اونچا مقام رکھتے ہیں۔ ان کا پہلا شعر جس نے مجھے چونکا دیا تھا وہ وہ تھا جو چراغ راہ کی بندش کے بعد شائع ہونے والے شمارے کی لوح پر رقم تھا    ؎

گر ایک چراغ حقیقت کو گل کیا تم نے
تو موج دود سے صد آفتاب ابھریں گے

ان کی نظم ’’ہم لوگ اقراری مجرم ہیں‘‘ ایک زمانے تک ہم سب کے جذبات کی ترجمان رہی۔  نعیم صاحب کے یہاں حسن خیال اور حسن بیان دونوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے اور حرکت‘ جدوجہد‘  کش مکش اور روح جہاد ان پر مستزاد۔ وہ ایک اچھے شاعر ہی نہیں‘ ایک تحریکی شاعر بھی ہیں۔ جس طرح فیض احمد فیض کے یہاں شعری حسن کے ساتھ تحریکیت (گو ایک دوسرے پس منظر سے) پائی جاتی ہے‘ اسی طرح اسلامی انقلابیت کے پس منظر میں نعیم صاحب کا شعر ایک پیغام اور تبدیلی کی دعوت لیے ہوئے ہے۔ نعت کے میدان میں ان کی نعتیہ نظم ’’میںایک نعت کہوں سوچتا ہوں کیسے ہوں؟‘‘ ایک منفرد کاوش اور روح کو تڑپا دینے والی چیز ہے:  محسن انسانیتؐ کا شعری خلاصہ!

مجھے ان کے ساتھ سب سے زیادہ قریب سے کام کرنے کا موقع  سیارہ ڈائجسٹ کے قرآن نمبر کی ترتیب کے وقت میسر ہوا۔ اس کی پہلی دو جلدیں ہماری مشترک کوشش ہیں اور آخری جلد صرف نعیم صاحب کی مرتب کردہ ہے۔ میں نے اپنے ذوق کے مطابق بس ایک علمی خزینہ مرتب کرنے کی کوشش کی (محمود فاروقی مرحوم‘ معروف شاہ شیرازی اور نثاراحمد میرے معاون تھے)۔ لیکن نعیم صاحب نے اپنی محنت سے اس پورے مجموعے کو چار چاند لگائے اور ادبی اور علمی دونوں اعتبار سے بیش بہا اضافے کیے۔

مرکزی شوریٰ کی قراردادیں پہلے مولانا محترم سید ابوالاعلیٰ مودودی خود مرتب فرمایا کرتے تھے۔ پھر یہ سعادت نعیم صاحب اور مجھے حاصل ہوئی۔ لیکن میں نے نعیم صاحب کو ایک استاد کا درجہ دیا اور وہ تھے بھی اس کے مستحق۔ میں نے اس زمانے میں ان سے بہت کچھ سیکھا (شاید طول نویسی سمیت--- جو ہم دونوں میں مشترک رہی!)۔

نعیم صاحب کا وہ دور ہمارے لیے بہت روحانی کرب کا باعث رہا جو جماعت سے ان کے قانونی تعلق کے ٹوٹ جانے پر منتج ہوا۔ الحمدللہ اس دور میں بھی اور اس کے بعد بھی ہمارا ذاتی تعلق کبھی متاثر نہ ہوا۔ جماعتی حیثیت سے بھی ان کا احترام اور ان کی فکر سے استفادہ اسی طرح جاری رہا بلکہ استعفے کے بعد چودھری رحمت الٰہی صاحب اور میں امیر جماعت کے مشورے سے ان کے گھر جاکر ان سے ملے اور ذاتی ہی نہیں‘ تحریکی تعلق کو بھی جس شکل میں بھی ممکن ہو‘ جاری رکھنے کی درخواست کی۔ اس ملاقات میں انھوں نے خاص طور پر برادرم حفیظ الرحمن احسن کو بھی مدعو کیا۔

برادر محترم نعیم صدیقی ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور ذاتی شرافت اور بزرگانہ شفقت کے ساتھ علمی‘ ادبی‘ ثقافتی‘ ہر میدان میں انھوں نے ایسی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جن کے اثرات ایک مدت تک جاری رہیں گے۔ وہ علم و ادب دونوں کے شہسوار تھے۔ تحقیق‘ تحریر‘ تقریر‘ مجلسی گفتگو‘ ہرمیدان میں ان کا ایک منفرد مقام تھا۔ اپنے ۵۰ سالہ تعلق پر نظرڈالتا ہوں تو میرتقی میرکی زبان میں ان کی روح کو گنگناتے ہوئے محسوس کرتا ہوں کہ     ؎

باتیں ہماری یاد رہیں‘ پھر باتیںایسی نہ سنیے گا
جو کہتے کسی کو سنیے گا‘ تو دیر تلک سر دھنیے گا

اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے‘ ان کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے‘ ان کے جلائے ہوئے چراغوں کو ہمیشہ ضوفشاں رکھے‘ ان کی بشری کمزوریوں سے درگزر فرمائے‘ انھیں جنت کے اعلیٰ مقامات پر جگہ دے‘ ان کے لواحقین کو صبرجمیل سے نوازے اور اس اُمت کو ان جیسے خادمان دین سے کبھی محروم نہ کرے۔ آمین!

 

۱۰ اکتوبر ۲۰۰۲ء پاکستان کی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ بن سکتا ہے۔ اب پوری قوم کے سامنے بالکل کھل کر آگیا ہے کہ کل کا سیاسی اور نظریاتی نقشہ کیا ترتیب دیا جا رہا ہے۔ اصل ایشو یہ ہے کہ اس مرحلے پر قوم کی منزلِ سفر حقیقی اسلامی اور فلاحی جمہوریت ہوگی یا ایک ایسی ’’ٹیسٹ ٹیوب جمہوریت‘‘ جس میں فیصلہ کن اختیار فوج کے سربراہ کو حاصل ہوگا‘ خواہ اس نظام پر پارلیمنٹ کا ملمع ہی کیوں نہ چڑھایا گیا ہو۔

اس پہلو سے یہ انتخابات کچھ اسی قسم کی اہمیت اختیار کر گئے ہیں جیسے ملّت اسلامیہ پاک و ہند کی تاریخ میں ۱۹۴۶ء کے انتخابات اور پھر پاکستان کی تاریخ میں ۱۹۷۰ء کے انتخابات۔ اول الذکر میں قائداعظم کی قیادت میں قوم نے صحیح فیصلہ کیا اور انگریز حکمران اور کانگریس دونوں کی مخالفت کے باوجود پاکستان کی آزاد اسلامی مملکت وجود میں آئی اور آخرالذکر میں غلط فیصلے کے نتیجے میں بالآخر قائداعظم کا پاکستان دولخت ہوا اور آج تک ملک اندرونی کش مکش ‘ غربت اور قرضوں کی محتاجی اور سول بیورو کریسی‘ فوجی بیورو کریسی اور جاگیردار سرمایہ دار گٹھ جوڑ کی گرفت میں ہے۔

جنرل پرویز مشرف سیاسی قیادت کی خودغرضی‘ بے تدبیری اور عاقبت نااندیشی کا فائدہ اٹھا کر برسرِاقتدار آئے اور احتساب اور صاف ستھری جمہوریت کا عہد کر کے عدالت عالیہ کی بیساکھیوں کے سہارے تین سال سے حکومت کر رہے ہیں۔ جو وعدے انھوں نے قوم سے کیے تھے وہ ماضی کے حکمرانوں کے وعدوں سے زیادہ مختلف ثابت نہ ہوئے اور آہستہ آہستہ انھوں نے ایک ایسا سیاسی نقشہ وضع کر ڈالا جس کا مقصود ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے‘ اپنے اقتدار کو طول دینا‘ نظامِ حکومت کو اپنی منشا کے مطابق قطع و برید کا نشانہ بنانا اور فوج کو سیاسی نظام میں ایک مستقل کردار دے کر جمہوری قبا میں جرنیلوں کی حکومت کو دوام بخشنا بن گیا ہے۔

جنرل صاحب جس سمت میں اس ملک کو لے جانا چاہ رہے ہیں اس کے خدوخال پچھلے دو سال میں آہستہ آہستہ بالکل نمایاں ہوگئے ہیں۔ صدارت کا حصول‘ ریفرنڈم کا ڈھونگ‘ لیگل فریم ورک کی گل افشانیاں‘ وحدت حکم (unity of command) کا فلسفہ‘ احتساب کی جانب داریاں‘ کنگز پارٹی کی جولانیاں اور اب ۱۳ ستمبر کو نیویارک کے خطاب میں اس ارشاد کے بعد کہ ’’مجھے سات سال دیں‘ میں پاکستان میں سیاست کا نقشہ اور کلچر تبدیل کر دوں گا‘‘ (ڈان‘ ۱۴ ستمبر ۲۰۰۲ء) تو کوئی پردہ باقی رہا ہی نہیں ہے کہ وہ اس ملک و قوم کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں۔ اس پورے عمل میں اگر کوئی امید کی کرن ہے تو وہ ۱۰اکتوبر کے انتخابات ہیں جب قوم کو انتخابی عمل کے حکمرانوں کے حسب منشا ’انتظام‘ کے خطرات کے باوجود کسی نہ کسی درجے میں یہ موقع مل رہا ہے کہ اس خطرناک سفر کو لگام دے دے اور ملک کو ایک ناقابل تلافی تباہی سے بچالے۔

پاکستان کی ۵۵ سالہ تاریخ اپنے اندر سب کے لیے عبرت کا بہت سامان رکھتی ہے۔ جہاں صرف سات سال کی تاریخ ساز جدوجہد کے نتیجے میں قائداعظم کی مخلصانہ قیادت نے ملّت اسلامیہ کے حقیقی مزاج‘ عزائم اور ارمانوں کے مطابق سیاسی تحریک کے ذریعے مسلم دنیا کے سب سے بڑے آزاد ملک کے قیام کے خواب کو حقیقت بنا کر دکھا دیا‘ وہاں خلوص اور صلاحیت سے عاری مفاد پرست سیاسی قیادت‘ سول بیوروکریسی اور جرنیلوں کی حکمرانی نے ملک و قوم کو ایک بحران کے بعد دوسرے بحران میں مبتلا کیا۔ غربت میں اضافہ ہو گیا‘ تعلیم اور خوش حالی کا خواب پریشاں تر ہو گیا۔ مشرقی پاکستان ہاتھ سے گیا اور کشمیر میں آگ اور خون کی ہولی جاری ہے‘ ملک پر قرضوں کا بار بڑھ رہا ہے اور اب تو آزادی اور خودمختاری کے بھی لالے پڑ رہے ہیں۔ قوم کی قسمت کے فیصلے بیرونی دبائو‘ دھمکیوں اور ’کوئی دوسرا راستہ نہیں‘ (no-option) کے تاریک سایوں کے تحت ہو رہے ہیں۔ سول حکمرانی کے ۲۸ سال اور فوجی حکمرانی کے ۲۷ سال دونوں اپنے اپنے انداز حکمرانی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ سیاست‘ معیشت‘ تعلیم‘ صحت‘ توانائی‘ معاشرتی عدل‘ قانون کی حکمرانی‘ اخلاقی استحکام‘ قومی سلامتی غرض جس پہلو سے بھی حالات کا جائزہ لیا جائے اور نفع و نقصان کا بے لاگ میزانیہ بنایا جائے توچند مثبت پہلوئوں کے باوجود منفی پہلوئوں اور بگاڑ اور فساد کا پلّا بھاری ہے۔ قراردادمقاصد‘ ۱۹۷۳ء کا دستور‘ نیوکلیر صلاحیت کا حصول سنگ میل ہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر سول حکومت نے قوم کو مایوس کیا اور ہر فوجی حکمران نے حالات کو اور زیادہ بگاڑا ___ یہ دونوں تجربے اس لیے ناکام رہے کہ کسی نے بھی دستور کی پابندی‘ قانون کی بالادستی‘ انصاف کے قیام اور قواعد و ضوابط کے احترام کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ جو قیادت خود دستور اور قانون کو توڑنے کی مجرم ہو‘ وہ دوسروں سے دستوراور قانون کی پاسداری کا مطالبہ یا توقع کیسے کر سکتی ہے؟ ہماری ساری خرابیوں کی جڑ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے ہوئے وعدوں کی خلاف ورزی‘ دستور‘ قانون اور مسلمہ اصولوں سے انحراف‘ عوام اور ان کی ضرورتوں‘ خواہشوں اور تمنائوں سے روگردانی ‘مفادات اور ذاتی اغراض کے لیے قومی اور عوامی مصالح کی قربانی ہے اور احتساب کے نظام کا فقدان ہے۔ جمہوری عمل کو بار بار سبوتاژ کرنے کا نتیجہ یہی ہوسکتا تھا۔

ان حالات میں انتخابات کا انعقاد ایک ایسا موقع ہے جس سے عوام اپنے صحیح کردار کے ذریعے سیاسی عمل کی گاڑی کو پٹڑی پر ڈالنے کی کامیاب کوشش کر سکتے ہیں۔

ان عمومی حالات کے پس منظر میں ۱۰ اکتوبر کے انتخابات نے غیر معمولی اہمیت اس لیے اختیار کر لی ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے تین سالہ دور اور ان کے اگلے پانچ اور سات سالہ عزائم نے قوم کودرپیش خدشات اور خطرات کو ہزارچند کر دیا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کے اظہار میں کوئی باک نہیں کہ سول قیادتوں اور سیاسی جماعتوں نے‘ خصوصیت سے برسراقتدار نام نہاد بڑی جماعتوں نے‘ عوام کو بے حد مایوس کیا ہے اور ان کا ریکارڈ شرم ناک ہے۔ لیکن یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ جرنیلوں کی حکومتوں نے اور سول اور ملٹری بیورو کریسی کے گٹھ جوڑ نے بھی اس سے کچھ بڑھ کر ہی مایوس کیا ہے۔ چونکہ فوج کے سیاست میں ملوث ہو کر ناکام ہونے سے سیاست اور معیشت ہی متاثر نہیں ہوتی‘ قومی سلامتی اور خود فوج کا غیر متنازع قومی کردار بھی بری طرح مجروح ہو جاتا ہے‘ اس لیے یہ سودا زیادہ ہی خسارے کا سودا ہے۔ اب قوم کو یکسو ہو جانا چاہیے کہ جمہوری سیاسی عمل ہی اپنی ساری خرابیوں کے باوجود بہتر طریق کار ہے۔ اسی راستے پر آگے بڑھنے اور اس کی خرابیوں کو دور کرنے میں ہی بھلائی اور سلامتی ہے‘ جمہوری سیاسی عمل کی بساط لپیٹ کر فوج کی قیادت کے سیاست کی باگ ڈور سنبھالنے یا سیاست کا حصہ بن کر یا پیچھے سے ڈور کھینچنے میں نہیں۔

پانچ اہم مسائل

اس وقت قوم کو جو گمبھیرصورت حال درپیش ہے اس کے پانچ پہلو اکتوبر کے انتخابات کو اہم تر بنادیتے ہیں:

فوج کا کردار: پہلا مسئلہ ملکی سیاست میں فوج کے کردار کا ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب اب کھل کر یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ فوج کا ایک واضح کردار‘ بلکہ فیصلہ کن کردار ہونا چاہیے۔ ہماری نگاہ میں یہ تباہی کا راستہ ہے۔ ماضی میں سیاست دانوں نے جوبھی غلطیاں کی ہیں اور جس جس نے بھی بلاواسطہ یا بالواسطہ فوج کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوشش کی وہ ایک عظیم غلطی تھی جو فوج کے مستقل کردار کے لیے وجہ جواز نہیں بن سکتی۔فوجی حکومتوں کا ریکارڈ‘ بشمول جنرل پرویز مشرف کی حکومت‘ کچھ زیادہ ہی مایوس کن رہا ہے اور پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کا تجربہ یہ بتا رہا ہے کہ فوج کی قیادت‘ اپنی تربیت‘ صلاحیت کار‘ ذہنی ساخت اور تجربات کی بنا پر سیاسی نظام کو چلانے اور جمہوری طرزحکمرانی کے تقاضوں کو پورا کرنے کی اہل نہیں ہوتی۔ اس سے اس کی توقع بھی عبث ہے۔ بلکہ ستم یہ ہے کہ اسے اس کا ادراک بھی نہیں ہو پاتا جس کا تازہ ترین ثبوت وہ واقعہ ہے جو جنرل پرویز مشرف کے امریکہ کے ۹ ستمبر کے ہاورڈ یونی ورسٹی کے خطاب کے دوران پیش آیا۔ جنرل صاحب نے وہاں کے اساتذہ اور طلبا کے سامنے فرمایا کہ:

I am extremely democratic, you have to  believe  me.

میں انتہائی جمہوریت پسند ہوں‘ آپ کو مجھ پر اعتبار کرنا پڑے گا۔

جس پر پورا ہال قہقہہ سے گونج اٹھا۔ اس پر اس شعر سے بہتر کیا تبصرہ کیا جا سکتا ہے جو اقبال نے بالِ جبریل میں سرفہرست رکھا ہے    ؎

پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر

یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ فوج کا مزاج اور جمہوری نظام کا مزاج ایک دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتے اور اگر فوج کے لیے ’وحدت حکم‘ ضروری ہے تو جمہوریت کے لیے تنوع اور اختلاف رائے جوہر کا درجہ رکھتے ہیں۔ محض ڈنڈے سے نظام حکمرانی کے تقاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سیاست میں ملوث ہونے کے بعد فوج ایک اچھی فوج نہیں رہ سکتی۔ اس کی صلاحیت ِ کار (professionalism) بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ یہ کہ فوج پوری قوم کے اعتماد کا مرکز و محور نہیں رہ سکتی بلکہ سیاست میں آنے کے بعد متنازع بھی ہو جاتی ہے اورفطری طور پر تنقید و احتساب کا ہدف بھی بنتی ہے۔

ان انتخابات میں یہ بات طے ہو جانی چاہیے کہ فوج کا مقام سول نظام کے تحت ملک کا دفاع ہے‘ ملک کا نظام چلانا نہیں۔

ملک کا نظریاتی تشخص: دوسرا اہم مسئلہ ملک کے نظریاتی تشخص اور اخلاقی و تہذیبی شناخت کا ہے۔ جنرل پرویز مشرف صاحب کے دور میں ’’کمال ازم‘‘ اور ’’سیکولرازم‘‘ سے لے کر ’’انتہا پسندی‘‘ کے خلاف جنگ‘ مدارس میں دراندازی‘ جہادی کلچر سے برأت اور ترقی پسندی اور لچک (flexibility) کے اظہار تک ایسی باتیں بار بار کہی گئی ہیں‘ اس تسلسل سے کہی گئی ہیں اور عملاً تعلیم‘ میڈیا‘ کلچر اور دوسرے میدانوں میں ایسے اقدام کیے گئے ہیں جن سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ وہ اور ان کے قریبی رفقا ملک کو اس کی تاریخی اسلامی بنیادوں سے ہٹا کر مغربیت اور سیکولر کلچر کی راہ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جو اس قوم کے مزاج اور عزائم‘ اس کی تاریخی جدوجہد اور اس کے اہداف اور اس کے ایمان کے تقاضوں سے متصادم ہے۔ ان انتخابات کے ذریعے یہ بات بھی طے ہو جانی چاہیے کہ یہ قوم مسلمان ہے‘ اس کی منزل اسلامی فلاحی ریاست ہے اور یہ اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کے چلن کوعام کرنا چاہتی ہے۔ یہاں کوئی دوسرا نظام اور نظریہ کبھی نہیں چل سکتا‘ خواہ اس پر کیسے ہی پردے کیوں نہ ڈالے جا رہے ہوں۔

امریکہ کے عالمی استعماری عزائم: تیسرا اہم مسئلہ امریکہ کے عالمی استعماری عزائم کے باب میں ہمارا کردار اور مقام ہے۔ فوجی حکمرانی کے ہر دور میں پاکستان امریکہ سے قریب آیا ہے اور امریکہ نے ہمیشہ بے وفائی اور مطلب براری کا رویہ اختیار کیا ہے۔ ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد امریکہ نے عالمی تسلط کا جو پروگرام شروع کیا اس میں پاکستان ایک آلۂ کار بن گیا ہے اور یہ جنرل پرویز مشرف صاحب کی سیاست کا شاہکار ہے کہ انھوں نے امریکہ کو یہ حق دیا ہے کہ پاکستان کے کندھوں پر رکھ کر اپنی بندوق سے مسلمانوں کو نشانہ بنائے۔ جنرل صاحب سینے پر ہاتھ رکھ کر دعوے کر رہے تھے کہ افغانستان میں امریکہ کی کارروائی مختصر ہو گی‘ چند متعین اہداف تک محدود ہوگی اور جلد امریکہ واپس چلا جائے گا۔ آج یہ حقیقت سب کے سامنے ہے کہ نہ یہ کارروائی مختصر ہونی تھی اور نہ محض افغانستان تک محدود۔ یہ ایک عالمی جنگ کا حصہ ہے اور اس کا سب سے بڑا ہدف مسلمان ممالک اور ملّت اسلامیہ بلکہ خود اسلام ہے۔ اب پاکستان کے ساتھ اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ اس جال سے کیسے نکلے۔ امریکہ سے ہماری کوئی جنگ نہیں اور ہم اس سے دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں بشرطیکہ ہماری آزادی‘ ہماری اقدار اور ہمارے مفادات محفوظ ہوں لیکن امریکہ کا آلہ کار بننا اور پھر امریکہ اور بھارت کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کے بارے میں پسپائی یہ قوم کبھی برداشت نہیں کرسکتی۔ جنرل صاحب کے بیانات سے بھی ظاہر ہے کہ وہ ایک جال میں پھنس گئے ہیں اور نکلنے کا راستہ نہیں پارہے ہیں۔ ادھر امریکہ‘ جمہوریت اور فروغ جمہوریت کے بارے میں اپنے تمام دعوئوں کے باوجود آمریت سے سمجھوتے اور آمروں سے دوستی کا جو کھیل کھیل رہا ہے وہ جنرل صاحب کے مفید مطلب ہے۔ اس لیے وہ کشمیر پر اچھے بیانات کے ساتھ جو عملی اقدامات خارجہ پالیسی اور داخلی سیاست کے میدانوں میں کر رہے ہیں وہ امریکہ کے ہاتھ مضبوط کرنے والے اور اس کے پائوں اس علاقے میں‘ بشمول پاکستان میں گاڑ دینے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اس لیے ان انتخابات میں یہ بھی طے ہونا ہے کہ امریکہ سے ہماری دوستی کی حدود کیا ہیں اور ہماری اپنی آزادی‘کشمیر کے مسئلے کے منصفانہ اور باوقارحل اور اُمت مسلمہ کے مفادات کی حفاظت کے سلسلے میں پاکستان کا کردار کیا ہوگا۔

معیشت کی بحالی: چوتھا مسئلہ ملک کی معیشت اور اس کو ورلڈ بنک کے چنگل سے آزاد کرانے کا ہے۔ جنرل صاحب کے دور میں ہماری معیشت پر عالمی مالیاتی اداروں‘ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور بیرونی کارپوریشنوں کی گرفت مضبوط تر ہوئی ہے جس کے نتیجے میں غربت بڑھی ہے‘ بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے‘ پیداواری عمل میں تیزی مفقود ہے‘ دولت کی عدم مساوات اور زیادہ غیرمنصفانہ ہوگئی ہے‘ تعلیم اور صحت کی سہولتوں کی نج کاری کے نام پر عوام کی زندگی تلخ تر ہو گئی ہے۔ کاشتکار اپنی پیداوار کی جائز قیمت سے محروم ہے۔ ملکی صنعت خودانحصاری سے دُور ہو رہی ہے اور مارکیٹ اکانومی کے نام پر بیرونی دنیا پر ہمارا انحصار بڑھ رہا ہے اور صنعتی استعداد محدود ہو رہی ہے‘ قرضوں کا بوجھ بڑھ رہا ہے اور ظلم و استحصال کا دور دورہ ہے۔ حکومت اور عوام‘ حکمران اور تاجر‘ کسان اور مزدور برسرِپیکار ہیں۔ ضروریات زندگی مہنگی ہو رہی ہیں اور بجلی‘ پانی‘ گیس‘ پٹرول وغیرہ جیسی ضروریات کی قیمت بڑھ رہی ہے جس کے نتیجے میں مصارف زندگی اور مصارف پیداوار دونوں بڑھ رہے ہیں۔ ملک معاشی استحکام سے محروم ہے‘ عوام اور تاجر ٹیکسوں کی بھرمار سے جاں بلب ہیںاور ملک و قوم کی خود انحصاری کا خواب ایک پریشان خواب بنتا جا رہا ہے۔یہ انتخاب اس امر کا بھی موقع فراہم کر رہا ہے کہ قوم ورلڈ بنک اور اس کے ہرکاروں کی دست برد سے آزاد ہو اور ہم پاکستان کی معیشت کی خودانحصاری کی بنیاد پر ترقی اور عوام کی خوش حالی کے حصول کے لیے نئی معاشی حکمت عملی بنا سکیں۔ مسلم دنیا میں بیشتر ممالک کی صنعت ورلڈ بنک کے ہاتھوں گروی (mortgage) ہے اور اس سے نجات کے بغیر حقیقی معاشی اور سیاسی آزادی محال ہے۔ جنوبی امریکہ کے ایک زمانے کے ترقی پذیر ممالک امریکہ اور ورلڈ بنک کی حکمت عملی اور قرضوں کی سیاست کے نتیجے میں آج نشانِ عبرت بن گئے ہیں۔ یہی حال انڈونیشیا کا ہے۔ اس انجام سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ خود انحصاری کا راستہ ہے‘ پرویز مشرف اور شوکت عزیز کا مسلط کردہ راستہ نہیں۔

جمہوری اقدار کا احترام: پانچواں مسئلہ اندرونی اور نظام حکمرانی سے متعلق ہے۔ جمہوریت کے لیے انتخابات ایک ضروری اور ناگزیر شرط ہیں لیکن محض انتخابات کو جمہوریت کے لیے کافی (sufficient) قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دستور کا احترام‘ قانون کی پاسداری‘ بنیادی آزادیوں کی ضمانت‘ حقوق کا تحفظ‘ اختلاف کا حق اور موقع‘ عدالت کی آزادی اور بالادستی‘ فوج کی عدم مداخلت‘ کسی بھی فردِواحد کی دراندازیوں سے تحفظ‘ انتخابات میں سب کو برابر کے مواقع کا حصول‘ نیز انتخابات میں ہر قسم کی سرکاری مداخلت اور سرکاری سرپرستی میں ’’چہیتوں‘‘ اور ’’ہم خیالوں‘‘ کی حوصلہ افزائی سے محفوظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ جنرل صاحب نے ریفرنڈم سے جس سلسلے کا آغاز کیا ہے وہ نت نئی شکلوں میں جاری ہے۔ پھردستوری ڈھانچے کو تباہ کرنا‘ اختیارات کا اپنے ہاتھوں میں ارتکاز‘ کنگز پارٹی کا قیام‘ گورنروں‘ سیکرٹریوں اور آئی ایس آئی کا سیاست میں ملوث ہونا‘ یہ سب جمہوریت کے لیے سم ّ قاتل ہیں۔ جن افراد نے بھی قوم کے سرمایے کو لوٹا اور اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ان کا تعلق خواہ ارباب سیاست سے ہو‘ یا انتظامیہ سے‘ یا فوج اور عدالت سے‘ ان کا بے لاگ احتساب ضروری ہے‘ لیکن من مانا احتساب اور جزوی اور جانب دارانہ احتساب دراصل احتساب کی نفی اور کرپشن کی ایک بدترین شکل ہے۔ انتخابات کو اپنے عزائم کے مطابق منعقد (manage)کرنا جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے اور جنرل صاحب‘ ان کا احتساب بیورو‘ ان کا ادارہ قومی تعمیرنو‘ ان کے گورنر اور دوسرے اہل کار اسی راستے پر چل پڑے ہیں۔ بلاشبہہ انتخابی نتائج پر اس کا اثر پڑ سکتا ہے اور اس کے خلاف جتنا بھی احتجاج کیا جائے کم ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود انتخابات ہی وہ ذریعہ ہیں جن سے ان تمام کوششوں کے علی الرغم اس منہج کے خلاف جدوجہد ہو سکتی ہے۔ انتخابات کی اپنی حرکیات (dynamics) ہیں جو ساری تدبیروں کو بہا کر لے جا سکتی ہیں۔ ۱۰اکتوبر کے انتخابات کو اس پہلو سے بھی ایک سنگ میل بنایا جا سکتا ہے کہ سرکاری مداخلت کو ہمیشہ کے لیے رد کر دیا جائے اور حقیقی معنوں میں ’’سلطانیِ جمہور‘‘ کی راہ ہموار ہوسکے۔

یہ وہ وجوہ ہیں جن کی بنا پرہماری نگاہ میں ۱۰ اکتوبر کے انتخابات غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ ہم پاکستانی قوم کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان انتخابات میں ۱۹۴۶ء والی حکمت اور جرأت کا مظاہرہ کریں اور ۱۹۷۰ء والی غلطی سے ملک و ملّت کو محفوظ رکھنے کے لیے جان اور مال کی بازی لگا دیں۔

ووٹ کا حق اور اس کا استعمال

اکتوبر کے انتخابات کی اس خصوصی اہمیت کے ساتھ ہم یہ بات بھی قوم کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں کہ ووٹ کا صحیح استعمال ایک دینی‘ اخلاقی اور سیاسی فریضہ ہے اور ایک مسلمان قوم کے لیے تو اس کی اہمیت محض دنیاوی مقاصد و اہداف کے لیے نہیں بلکہ آخرت کی جواب دہی اور قضا و قدر کے اخلاقی اور آفاقی قانون کی پاسداری کے لیے بھی ضروری ہے۔ دینی اور اخلاقی اعتبار سے ووٹ اگر ایک شہادت اور گواہی ہے تو دوسری طرف ایک قومی امانت اور نظامِ حکومت کے چلانے کے لیے آپ کی طرف سے اپنا وکیل اور نمایندہ مقرر کرنے کی ذمہ داری ہے جس کے غلط استعمال کے نتائج صرف سیاسی اور دنیاوی اعتبار ہی سے  تباہ کن نہ ہوں گے بلکہ آخرت کی جواب دہی اور گناہ و ثواب کے باب میں بھی بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس سلسلے میں ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ اپنے ان تمام بھائیوں اور بہنوں کو جو ووٹ کا حق رکھتے ہیں‘ مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع مرحوم کے اس شرعی فتوے کی یاد دہانی کرائیں جس میں انھوں نے اس حق کو استعمال کرنے کی فرضیت اور اس کے صحیح استعمال کے اصول و آداب کی نشان دہی کی ہے۔ ہر مسلمان تک اس پیغام کو پہنچانا چاہیے تاکہ وہ اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو سنوارنے کے لیے ووٹ کا صحیح استعمال کرے۔ مفتی محمد شفیع  ؒ نے لکھا ہے کہ:

انتخابات میں ووٹ کی شرعی حیثیت کم از کم ایک شہادت کی ہے‘ جس کا چھپانا بھی حرام ہے اور اس میں جھوٹ بولنا بھی حرام۔ اس پر کوئی معاوضہ لینا بھی حرام ہے۔ اس کو محض ایک سیاسی ہار جیت اور دنیا کا کھیل سمجھنا بھی بھاری غلطی ہے۔ آپ جس امیدوار کو ووٹ دیتے ہیںشرعاً آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ یہ شخص اپنے نظریے اور علم و عمل اور دیانت داری کی رو سے اس کام کا اہل اور دوسرے امیدواروں سے بہتر ہے‘ جس کام کے لیے یہ انتخابات ہو رہے ہیں۔ اس حقیقت کوسامنے رکھیں تو اس سے مندرجہ ذیل نتائج برآمد ہوتے ہیں:

                ۱- آپ کے ووٹ اور شہادت کے ذریعے جو نمایندہ کسی اسمبلی میں پہنچے گا‘ وہ اس سلسلے میں جتنے اچھے یا برے اقدامات کرے گا ان کی ذمہ داری آپ پر بھی عائد ہوگی۔ آپ بھی اس کے ثواب یا عذاب میں شریک ہوں گے۔

                ۲- اس معاملے میں یہ بات خاص طور پر یاد رکھنے کی ہے کہ شخصی معاملات میں کوئی غلطی بھی ہو جائے تو اس کا اثر بھی شخصی اور محدود ہوتا ہے‘ ثواب و عذاب بھی محدود۔ قومی اور ملکی معاملات سے پوری قوم متاثر ہوتی ہے۔ اس کا ادنیٰ نقصان بھی بعض اوقات پوری قوم کی تباہی کا سبب بن جاتا ہے‘ اس لیے اس کا ثواب و عذاب بھی بہت بڑا ہے۔

                ۳- سچی شہادت کا چھپانا ازروے قرآن حرام ہے۔ اس لیے آپ کے حلقہ انتخاب میں اگر کوئی صحیح نظریے کا حامل اور دیانت دار نمایندہ کھڑا ہے تو اس کو ووٹ دینے میں کوتاہی گناہ کبیرہ ہے۔

                ۴- جو امیدوار نظام اسلامی کے خلاف کوئی نظریہ رکھتا ہے اس کوووٹ دینا ایک جھوٹی شہادت ہے‘ جو گناہ کبیرہ ہے۔

                ۵- ووٹ کو پیسوں کے معاوضے میں دینا بدترین قسم کی رشوت ہے‘ اور چند ٹکوں کی خاطر اسلام اور ملک سے بغاوت ہے۔ دوسروں کی دنیا سنوارنے کے لیے اپنا دین قربان کردینا‘ کتنے ہی مال و دولت کے بدلے میں ہو‘ کوئی دانش مندی نہیں ہو سکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ وہ شخص سب سے زیادہ خسارے میں ہے جو دوسرے کی دنیا کے لیے اپنا دین کھو بیٹھے۔ (جواہر الفقہ‘ ج ۲‘ ص ۳۰۰-۳۰۱‘ مکتبہ دارالعلوم‘ کراچی)

مفتی صاحب قبلہ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ گویا قرآن پاک کے ان احکام کی تشریح و توضیح ہے کہ:

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰی اَھْلِھَا لا وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِط اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًام بَصِیْرًا o (النساء۴:۵۸)

اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو‘ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘ اللہ تم کو نہایت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ سنتا اور دیکھتا ہے۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِز وَلاَ یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْاط اِعْدِلُوْاقف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰیز وَاتَّقُوا اللّٰہَط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (المائدہ ۵:۸)

اے ایمان والو! خدا کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے اٹھ کھڑے ہو جایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو‘ کچھ شک نہیں کہ خدا تمھارے سب اعمال سے باخبر ہے۔

حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ المستشار موتمن(جس سے مشورہ لیا جائے اسے امانت دار ہونا چاہیے۔  سنن ابی داؤد)۔ اسی طرح  بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں لوگوں سے کچھ بیان کر رہے تھے کہ ایک اعرابی آپؐ کے پاس آیا اور اس نے پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ آپؐ نے فرمایا:جس وقت امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔ اس نے پوچھا: امانت کا ضائع کرنا کس طرح ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: جب کام نااہل لوگوں کے سپرد کیا جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔ صَدَقَ رَسُولؐ اللّٰہ!

ہم اپنی قوم کے ہر بھائی اور بہن سے سوال کرتے ہیں کہ آج ملک و ملّت جس قیامت کی گرفت میں ہے کیا وہ انھی احکام الٰہی کی خلاف ورزی کا نتیجہ نہیں؟ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم ۱۰ اکتوبر کے انتخابات کو تلافی مافات کا ذریعہ بنائیں۔

کارکنوں کی ذمہ داری

متحدہ مجلس عمل کے ہر کارکن سے ہم کہنا چاہتے ہیں کہ بلاشبہہ انتخابات ہمارے لیے سیاسی نظام کی اصلاح‘ تبدیلی ٔ قیادت اور ملک کو ظلم اور ناانصافی سے بچانے کا ایک اہم ذریعہ ہیں لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ خود ہمارے اور ہماری قوم کے لیے خوداحتسابی‘ اور دین کی تفہیم اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے کے عزم کی تجدید کا موقع ہیں۔ ہمارے لیے انتخابات دعوت کا بہترین موقع ہیں۔ ہمارا مقصد وجود پوری انسانیت کو اور خصوصیت سے اپنی قوم کو اللہ کے دین اور اس کے رسولؐ کے طریقے کی طرف بلانا ہے۔ انتخابات ہمیں یہ موقع فراہم کر رہے ہیں کہ محض جلسوں اور جلوسوں کے ذریعے نہیں بلکہ ایک ایک گھر تک رسائی حاصل کرکے اور ایک ایک فرد سے مل کر اسے اصلاح ذات کے ساتھ اصلاح نظام کی طرف بلائیں اور ووٹ کی اہمیت اورووٹ کے ذریعے تبدیلی کے لیے اس کو صحیح کردار ادا کرنے کی دعوت اور ترغیب دیں۔ ہمیں اپنی قوم میں یہ احساس بھی پیدا کرنا ہے کہ ہم محض خاموش تماشائی نہ بنیں بلکہ اپنی اور اپنے ملک کی قسمت کو بدلنے کے لیے عملی جدوجہد کریں۔ ہمیں ان کو یہ دعوت بھی دینی ہے کہ بگاڑ صرف سیاست اور اجتماعی نظام اور ادارے ہی میں نہیں خود ہم میں بھی ہے اور ہم سب کو اپنی اور اپنے ملک کے نظام کی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔ یہ قومی احتساب کا بھی ایک بڑا اہم ذریعہ ہے تاکہ ہرقیادت یہ جان جائے کہ عوام محض کالانعام نہیں بلکہ رد و اختیار کا آخری حق ان کے پاس ہے جسے وہ موثر انداز میں استعمال کر کے حالات کی رو کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ یہی حقیقی جمہوریت ہے اور یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم اللہ کے عتاب سے بچ سکتے ہیں اور اس کی رحمتوں کے مستحق بن سکتے ہیں۔ اگر اس نیت اور جذبے سے ہم انتخابی مہم میں جان کھپا دیں تو یہ عبادت بھی ہے اور اصلاح احوال کا تیر بہدف نسخہ بھی۔ اللہ کی یاد‘ اس سے استعانت کی طلب اور اس کے بندوں کو خیر کی راہ پر لگانے اور حسنات کے حصول کی جدوجہد میں شریک کرنے کی نیت اور جذبے سے اگر آپ انتخابی مہم میں کام کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کی اس جدوجہد پر اپنی برکتیں نازل فرمائے گا‘ دلوں کو آپ کی بات کے لیے کھول دے گا اور بند دروازے ان شاء اللہ وا ہو جائیں گے۔ یہی کامیابی کی راہ ہے۔

آپ کا فرض

آپ کا کام کوشش کرنا اور بھرپور انداز میں کوشش کرنا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ان انتخابات کو متاثر کرنے اور مفید مطلب نتائج حاصل کرنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے جا رہے ہیں‘ کیا کیا منصوبے بنائے جارہے ہیں‘ کیا کیا کرتب دکھائے جائیں گے۔ لیکن ان میں سے کوئی چیز بھی ہم پر اثرانداز نہیں ہونی چاہیے۔ انسانوں میں خیر اور شر دونوں کی صلاحیت رکھ دی گئی ہے۔ آپ ان کی نیکی کی صفت کو اپیل کریں اور اس زبان میں کریں جسے وہ سن سکیں اور سمجھ سکیں۔ آپ انسانوں کو دوستوں اور مخالفوں کی صفوں میں نہ بانٹیں بلکہ سب تک پہنچیں اور سب کو دعوت دیں کہ حق کا ساتھ دیں۔ آپ کا رویہ اور آپ کی ساری مہم ان اخلاقی حدود کے اندر ہو جو شریعت نے ہمارے لیے رکھی ہیں۔ آپ کوشش بھی کریں اور دعا بھی کریں‘ پھر دیکھیں کہ کیا اثرات رونما ہوتے ہیں۔ آپ کا رویہ خدمت اور بھلائی کا ہونا چاہیے اور آپ کو اپنی دعوت اور پیغام کو لوگوں کے حقیقی مسائل اور مصائب سے مربوط کر کے پیش کرنا چاہیے۔ آپ انھیں اللہ کی طرف بلائیں اور ساتھ ہی آپ انھیں بتائیں کہ اسلام محض ایک نظریہ یا خوش آیند خواب نہیں بلکہ ہماری مشکلات کا حقیقی حل بھی ہے۔

آپ اپنے علاقے کے خصوصی مسائل پر توجہ صرف کریں اور آپ کے نمایندے لوگوں کو بتائیں کہ ان کے سامنے آپ کی خدمت اور آپ کی مشکلات کو حل کرنا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہر شخص کو انصاف ملے‘ اس کی حقیقی ضروریات عزت کے ساتھ پوری ہوں‘ یہاں کوئی بھوکا‘ننگا اور بے سہارا نہ ہو۔ ہر بچے کو دینی اور دنیوی تعلیم ملے‘ ہر مریض کے لیے دوا دارو کا بندوبست ہو‘ ہر محنت کش کو اس کا حق ملے‘ ہر کسان کو اس کی پیداوار کی صحیح قیمت موصول ہو‘ ہر بیوہ اور یتیم کا کوئی ولی و وارث ہو۔ اس طرح بحیثیت مجموعی اس ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کا بندوبست ہو‘ اسے قرضوں کی لعنت سے نجات ملے‘ یہ سود سے پاک ہو سکے‘ اس کے قومی دفاع کو مضبوط تر کیا جائے‘ کشمیر کی تحریک آزادی کی بھرپور حمایت و تائید ہو‘ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑانے اور ان کے خلاف صف آرا کرنے کی ہر سازش کا پردہ چاک کیا جائے اور قومی وقار اور آزادی کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے۔ نیز ملک کے تمام شہریوں کے درمیان‘ بلالحاظ رنگ و نسل و مذہب‘ رواداری‘ تعاون باہمی اور حقوق و فرائض کی ادایگی کا اہتمام ہو۔ نفرتیں ختم کی جائیں اور محبت کے ذریعے‘ جو فاتح عالم ہے‘ دلوں کو جوڑنے اور حقیقی بھائی چارا پیدا کرنے کی سعی کی جائے۔

متحدہ مجلس عمل کا منشور انھی اہداف کو قوم کے سامنے لایا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس پیغام کو گھرگھر پہنچائیں اور اللہ کے بندوں کو ان اہداف کو حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل کریں اور ایسے لوگوں کو زمام کار سونپنے کے لیے قوم کو آمادہ کریں جو اپنی ذات کے مقابلے میں اپنی قوم ‘اپنے ملک اور اپنے دین کے مفاد کے حصول کے لیے ہر قربانی دینے کا داعیہ رکھتے ہوں۔ اگر ہمارے عوام زبانِ حال سے یہ کہہ رہے ہیں کہ     ؎

ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

تو ہمارا بھی فرض ہے کہ ان کے دکھ کے مداوے کے لیے اجتماعی جدوجہد کریں اور خود ان کو اس میں شریک کرنے کی کوشش کریں۔ انتخابات دراصل اسی جدوجہد کا ایک حصہ ہیں۔ ہماری نگاہ انتخابات پر بھی ہے‘ مگرانتخابات کے بعد بھی اسی جدوجہد کو تیز تر کرنے کی ضرورت ہے۔ نتائج خواہ کچھ ہوں‘ یہ کوشش خود اپنا انعام ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم سچی نیت اور خدمت خلق کے جذبے سے‘ اصلاح احوال کے لیے‘ تن‘ من‘ دھن سے کوشش کریں گے تو ان شاء اللہ بہتر نتائج ضرور نکلیں گے لیکن مومن کی نگاہ نتائج سے زیادہ مقاصد پر ہوتی ہے اور وہ جانتا ہے کہ :

یہ بازی عشق کی بازی ہے جو چاہے لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا‘ ہارے بھی تو بازی مات نہیں

موثر انتخابی مہم

بلاشبہہ یہ انتخابات چند در چند تحدیدات (limitations) کے دائرے میں منعقد کیے جا رہے ہیں۔ وہ تمام حربے استعمال کیے جا رہے ہیں جن سے انتخابات سے پہلے ہی پسندیدہ عناصر اور جماعتوں کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ اس میں حلقہ بندیوں سے لے کر نمایندوں کی منظوری اور نامنظوری اور انتخابی مہم کو موثر لہر نہ بننے دینے کے تمام اقدامات شامل ہیں۔ ان تمام مشکلات کے باوجود ہمارا فرض ہے کہ عوام تک پہنچیں‘ ووٹروں کو گھروں سے نکلنے اور اپنا حق استعمال کرنے اور انھیں صحیح فیصلے کرنے کے لیے ہر ممکن مدد و اعانت فراہم کریں۔ انھیں اصل ایشو سمجھانے‘ اصل خطرات سے آگاہ کرنے اور اصل امکانات سے فائدہ اٹھانے کے لیے متحرک کریں۔ اس سلسلے میں ان باتوں کا خصوصی خیال رکھنے کی ضرورت ہے:

۱-  ہمارا اپنا رویہ مثبت ہو جو اخلاقی اقدار کی پاسداری‘ مخالفت میں بھی حدود کے احترام اور عوام کی حقیقی خیرخواہی سے عبارت ہو۔

۲-  بینر‘ پوسٹر‘ جلسے‘ جلوس‘ سب اہم ہیں لیکن سب سے زیادہ اہم‘ نمایندے اور کارکنوں کا گھر گھر جاکر ایک ایک فرد تک پیغام پہنچانا ہے۔ بلالحاظ اس کے کہ وہ علاقہ یا گھرانہ کس سے وابستہ ہے اور کہاں تک ہمارا موید و معاون ہے‘ ہر شخص تک پہنچنا ہمارا ہدف ہونا چاہیے تاکہ دعوت کا حق ادا ہو سکے۔

۳-  اپنے نمایندے کی خدمات کا ذکر اچھے انداز میں ہو اور اس کے ساتھ پوری کوشش اپنے منشور اور پیغام اور ان انتخابات کی خصوصی اہمیت اور اس میں عوام کو اس بات پر آمادہ کرنے پر ہو کہ وہ پرانے اور آزمائے ہوئے لوگوں کی جگہ اچھی اور نئی قیادت کو سامنے لانے کی کوشش کریں۔

۴-  نمایندوں کا تعارف ضروری ہے لیکن ملک بھر میں کتاب کے نشان کو متعارف کرانا اور کتاب سے ووٹر کی وابستگی پیدا کرنے کی کوشش بھی ضروری ہے۔ بیلٹ پیپر پر نمایندے کی تصویر نہیں ہوگی‘ نام اور کتاب کا نشان ہوگا۔ اس لیے کتاب کو نمایاں کرنا ضروری ہے۔

۵-  اپنے علاقے میں کام کا منصوبہ تقسیمِ کار کی بنیاد پر بنائیں اور انتخابی مہم کے آخری دن تک ہرفرد تک پہنچنے کی کوشش کریں۔

۶-  علاقے کے اہم افراد‘ دھڑوں‘ برادریوں‘ قبیلوں وغیرہ سے ربط قائم کریں اور ان کو اپنے ساتھ ملائیں۔ جہاں ضروری ہو نظم کے اعتماد اور رہنمائی کے ساتھ مقامی سطح پر معاملہ کریں۔

۷-  الیکشن کے دن ووٹر کو گھر سے پولنگ اسٹیشن پر لانے کا خاص اہتمام کریں۔ جو افراد گھر میں بیٹھے رہ جاتے ہیں وہ دراصل غلط افراد کے آگے آنے کے ذمہ دار ہیں۔ انھیں یہ احساس دلائیں کہ ان کا ایک ووٹ بھی فیصلہ کن ہو سکتا ہے۔

۸-  الیکشن کے دن سے پہلے ہر پولنگ اسٹیشن کے لیے فعّال ایجنٹوں کا انتخاب‘ ان کی تربیت اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی مکمل منصوبہ بندی ضروری ہے۔ الیکشن اور پولنگ ایجنٹ کے لیے قواعد کا علم‘ علاقے اور اس کے افراد سے واقفیت‘ اپنے حقوق کا ادراک اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے حکمت اور جرأت سے کام کا سلیقہ ضروری ہے۔

۹-  الیکشن کے پورے عمل میں خواتین کی اہمیت مسلمہ ہے۔ پوری مہم کے دوران اس پر توجہ رہے۔ تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ خواتین کا تعاون حاصل کیجیے خصوصاً پولنگ کے دن کے لیے ہر لحاظ سے اطمینان بخش منصوبہ بندی کیجیے۔

۱۰-  الیکشن میں غلط طریقوں کے استعمال کو روکنے اور رکوانے کے لیے مناسب تیاری کیجیے۔

۱۱-  الیکشن کے نتائج ضابطے کے مطابق حاصل کرنے اور آخری وقت تک موجود رہنے کا اہتمام کیجیے۔

۱۲-  باہر کے نظام سے ربط رکھیے اور ضروری معلومات کی ترسیل اور اگر ضرورت ہو تو نمایندے یا دوسرے اہم افراد سے مدد کے نظام کو موثر رکھیے۔

۱۳-  ہر اشتعال سے اپنے کو محفوظ رکھیے اور اپنے کام کو سلیقے سے انجام دینے اور سب کو قانون اور ضابطے کے احترام کے لیے ترغیب دینے کی کوشش کیجیے۔

۱۴-  ہر قسم کے نتائج کا مقابلہ کرنے کے لیے ذہنی اور اجتماعی طور پر تیار رہیے۔ ہماری جدوجہد طویل ہے۔ انتخابات منزل نہیں‘ راہ کے سنگ میل ہیں۔ اس لیے ہماری حکمت عملی کو الیکشن سے پہلے‘ الیکشن کے دن اور الیکشن کے بعد کے تینوں مراحل پر محیط ہونا چاہیے۔

یہ چند امور بطور مثال پیش کیے گئے ہیں۔ الیکشن کے تمام تقاضوں کا ادراک اور ان کے لیے مناسب منصوبہ بندی آپ کی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تدبیر اور حکمت کو بھی اتنی ہی اہمیت دی ہے جتنی اصول اور نظریے کو۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ انتخابات میں آپ کو صرف نظریاتی ووٹ ہی نہیں  ہرووٹ کی ضرورت ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کیجیے۔

اس سب کے ساتھ سب سے اہم چیز اللہ سے اپنا رشتہ مضبوط رکھنا‘ اس سے ہر لمحہ دعا کرنا اور اس کی اعانت کو اپنی اصل قوت سمجھنا تحریک اسلامی کے کارکنوں کی اصل پہچان اور ہمارے لیے اس جدوجہد کی جان ہے۔ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھامے رکھیے‘ اس کی مدد پر یقین رکھیے‘ اپنی سی کوشش کر ڈالیے اور نتائج اس پر چھوڑ دیجیے۔ السعی منا والاتمام من اللّٰہ تعالٰی --- کوشش ہمارا کام ہے اور نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔


(تقسیم عام کے لیے دستیاب ہے‘ ۱۷۵ روپے سیکڑہ۔ منشورات‘ منصورہ‘ لاہور)

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء ایک یادگاردن اور ایک تاریخی موڑ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے!

ستمبر کی اس تاریک صبح کے خونی واقعات کے نتیجے میں امریکہ ہی نہیں‘ پوری دنیا میں ایک ہل چل مچ گئی ہے۔ نیویارک کا فلک تاز ورلڈ ٹریڈ سنٹر دو گھنٹے میں زمین بوس ہوگیا‘ پینٹاگون کی ناقابل تسخیر دیواریں منہدم ہو گئیں‘ اور دنیا کے ۲۸ ملکوں سے تعلق رکھنے والی ۲۸۹۰ قیمتی جانیں آناًفاناً میں لقمہ اجل بن گئیں--- ایک دنیا ورطۂ حیرت میں تھی کہ دنیا کے سب سے زیادہ طاقت ور ملک کے سیاسی اور تجارتی مراکز میں یہ سب کچھ کیسے ہو گیا--- اور آج ایک سال گزرجانے کے باوجود‘ اور امریکہ کے ایک بپھرے ہوئے شیر کی حیثیت سے ساری دنیا میں تہلکہ مچا دینے‘ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے‘ القاعدہ اور طالبان کی سرزنش کے نام پر ہزاروں معصوم انسانوں کو تہ و تیغ کردینے اور’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر پوری دنیا کو ایک نئے تصادم کی آگ میں جھونک دینے کے باوجود‘ دنیا کی حیرت کا عالم وہی ہے جو ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ء کو تھا‘ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ! اتنا تو بلاخوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ ۱۱ستمبرکے واقعے کے بعد

ع  نکلے جو میکدے سے تو دنیا بدل گئی

لیکن یہ ہنوزایک معما ہے‘ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا‘ کہ جو کچھ ہوا ‘کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ کس نے کیا؟ کس نے کیاحاصل کیا؟ اور اب ہم سب کہاں جا رہے ہیں؟ یہی وہ سوالات ہیں جو آج ایک سال کے بعد بھی دنیا کے تمام سوچنے سمجھنے والے انسانوں کی نیند حرام کیے ہوئے ہیں اورمسئلہ محض انسانوں کی نیند کا نہیں انسانیت کے مستقبل اور دنیاے تہذیب کے آیندہ نقشے کا ہے۔ بات صرف ایک واقعے‘ ایک حادثے‘ ایک سانحے اور ایک المیے کی نہیں‘ خواہ وہ کتنا ہی اہم کیوں نہ ہو--- بلکہ پوری انسانی بستی کے دروبست کی ہے‘ اور عالمی بساط پر امریکہ کے کردار اور نئے عالمی نظام کے رخ اور روش کی ہے جس کی لپیٹ میں تمام ہی اقوام عالم آتی جا رہی ہیں۔ سیاست اور عالمی حکمرانی کے نقشے میں جو تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور افق پر جو نئے خطرات ابھرکر سامنے آگئے ہیں ان کو نظرانداز کرنا اورصرف خاموش تماشائی کا کرداراختیار کرلینا انسانی تہذیب و تمدن اور اقوام عالم کی آزادی اورحاکمیت کے ایک نئے تاریک دور کی گرفت میں آجانے کا سبب بن سکتا ہے۔ امریکہ کی قیادت نے جو راستہ اختیار کیا ہے اور اس کے صدر جارج بش اور ان کی ٹیم جس سمت میں بگ ٹٹ دوڑ رہی ہے وہ خود امریکہ‘ پوری انسانی برادری اور خصوصیت سے اُمت مسلمہ اور پاکستان کے لیے بے پناہ خطرات کا پیغام ہے۔ بظاہر ہدف ’’عالمی دہشت گردی‘‘ ہے لیکن جس طرح ۱۱ستمبر کے واقعات کو بنیاد بنا کر امریکی بالادستی کا ایک نیا سامراجی نظام قائم کیا جا رہا ہے‘ اس نے ان واقعات اور ان کے جلو میں اختیار کی جانے والی حکمت عملی اور عالمی جنگ و جدل کے بارے میں بڑے بنیادی سوالات اٹھا دیے ہیں جن پر غور کرنا ہماری اور انسانیت کی بقا اوردرپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے صحیح حکمت عملی اوراقدامات کی تیاری کے لیے ضروری ہے۔ ۱۱ ستمبر کی اس پہلی برسی پر ہم اختصار سے یہ جائزہ لینے کی کوشش کریں گے کہ امریکہ نے جس طرح ان واقعات کا سہارا لے کر اپنی عالمی پالیسی کی صورت گری کی ہے۔ اس کے آئینے میں ۱۱ ستمبر کا کیا چہرہ نظر آتا ہے اور عالمی سیاسی بساط (global political chessboard) میں اس واقعے کا کیا مقام متعین کیا جا سکتا ہے۔ اس کے کیااثرات خود امریکہ‘ عالمی نظام‘ اُمت مسلمہ اور پاکستان پر پڑ رہے ہیں۔ سمجھنے کی ضرورت یہ ہے کہ دنیا کہاں جا رہی ہے اور ہم سب کن حالات سے دوچار ہوگئے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ خطرات کس نوعیت کی حکمت عملی اور تیاری کا تقاضا کررہے ہیں۔

تفتیش کیوںنہیں؟

سب سے پہلا سوال جس نے ہمیں اور دنیا کے سوچنے سمجھنے والے انسانوں کو پریشان کر رکھا ہے یہ ہے کہ اتنے بڑے واقعہ کے بارے میں اصل حقائق کو جاننے‘ بے لاگ اور شفاف انداز میں اعلیٰ عدالتی تفتیش کے ذریعے صحیح صورت حال کو محقق کرنے‘ اس کے اسباب و محرکات کا تجزیہ کرنے‘ اور ملکی اور بین الاقوامی سطح پر کسی ایسی متفقہ حکمت عملی (consensus strategy) کو وضع کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی جس کے اختیار کرنے سے انصاف کے تقاضے پورے ہو سکتے ‘سب کو اطمینان حاصل ہوتا‘ جبر کے بجائے رضامندی سے لائحہ عمل طے ہوتے اورانسانیت مستقبل میں ایسے خطرات اور حادثات سے بچ سکتی۔ امریکہ کی قیادت نے جس سہل انگاری‘ جس جلدبازی ‘ جس رعونت اور جس سطحیت کے ساتھ اس گمبھیرچیلنج کے بارے میں اصل سوالات سے بچنے اور اسے اپنے سامراجی مقاصد و مفادات کے لیے استعمال کیا ہے؟ اس نے اس قیادت کی صلاحیت ہی نہیں اس کی نیت اور عزائم کے بارے میں بڑے قوی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ سارا ملبہ ایک شخص --- اسامہ بن لادن پر‘ یا زیادہ سے زیادہ اس کے چند سو یا چند ہزار ساتھیوں (القاعدہ) پر ڈالا جا رہا ہے اور پوری دنیا میں دہشت گردی کا ایک نیا بازار گرم کیا جا رہا ہے حالانکہ ننگی طاقت کے ذریعے اس قسم کے معاملات و مسائل کو کبھی بھی حل نہیں کیا جا سکتا۔

آج تک کوئی سنجیدہ اور تسلی بخش کوشش اس امر کی نہیں ہوئی کہ اصل واقعے کی مناسب تحقیق ہو‘ تمام حقائق کو بے لاگ انداز میں مرتب کیا جائے اور تجزیہ کر کے متعین کیا جائے کہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ کس نے کیا؟ کس حد تک کون کون ذمہ دار ہے؟ ان واقعات کے پیچھے کارفرما اسباب وعوامل کیا ہیں اور ان کے ادراک‘ اصلاح‘ تدارک اور مستقبل کے لیے پیش بندی کے لیے کیا کچھ مطلوب ہے؟ غصہ اور انتقام‘ تحقیق‘ تجزیہ اور تدبیر کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ چھوٹے سے چھوٹے واقعے کے لیے تحقیقی کمیشن بنائے جاتے ہیں اور اسباب کا کھوج لگایا جاتا ہے اور اصلاح احوال کی تدابیر مرتب کی جاتی ہیں لیکن اتنے بڑے واقعے کے بارے میں ایسی کوئی کوشش نہیں کی جاتی اور دلیل کے بجائے صرف دعوے کو پالیسی کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ خفیہ معلومات کے نظام کی ناکامی کو بادل ناخواستہ تسلیم کیا جاتا ہے مگر نہ کہیں ذمہ داری کا تعین ہوتا ہے نہ کسی کے خلاف اقدام ہوتا ہے۔ امریکہ کے اپنے سیکورٹی کے اداروں کا ‘ جو ۱۳ اہم ایجنسیوں پر مشتمل ہے‘ جس پر سالانہ ۶۷ ارب ڈالر خرچ ہوتا ہے اور جن میں صرف ایک جو قومی اداروں کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہے‘ جس کا سالانہ بجٹ ۷.۶ بلین ڈالر ہے اور جس میں ۳۰ ہزار افراد کام کر رہے ہیں۔ اس میں سی آئی اے جس کا بجٹ ۳۰ بلین ڈالر سالانہ ہے اور جو ہے ہی باہر کے ممالک سے آنے والے خطرات کی سراغ رسانی کے لیے‘ ان میں سے کسی کا بھی کوئی احتساب نہیں ہوا۔ حالانکہ اب یہ معلومات بھی سامنے آچکی ہیں کہ اس پورے زمانے میں طالبان سے امریکہ کے مختلف اداروں کا اعلیٰ ترین سطح پر رابطہ تھا‘ اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں معلومات کا ایک ذخیرہ تھا جو مختلف ذرائع سے سی آئی اے ہی نہیں‘ خود وائٹ ہائوس تک میں موجود تھا اور ۱۰ ستمبر تک ایسی معلومات میزوں پر موجود تھیں جن سے بہت کچھ سراغ مل سکتے ہیں‘ بشرطیکہ یہ سب کچھ اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کا کیادھرا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ کے اہم ترین ادارے اپنا فرض ادا نہیں کر سکے تو ان کے خلاف کیا کارروائی ہوئی اور ذمہ داری کے تعین کے لیے کیا کچھ کیا گیا؟ کیا یہ سب پردہ داری اس لیے ہے کہ اسامہ بن لادن اور القاعدہ ایک ڈھال (smoke screen) کی حیثیت رکھتے ہیں اور تحقیقات اور احتساب سے اغماض ایک نوعیت کا cover-up ہیں؟ انتظامیہ نے اس موضوع پر خود کانگریس کی کارروائی (congressional hearing) کو ناپسند کیا ‘ اس کو رکوانے کی کوشش کی‘ اور جب رکوا نہ سکی اورخفیہ ایجنسیوں کی معلومات کے بارے میں کارروائی شروع ہوئی تو پہلے معلومات دینے کی مزاحمت کی‘ پھر جومعلومات دی وہ ادھوری تھی‘ اور اس سے بھی بڑھ کر خود سینیٹ کی کمیٹی کی کارروائی کی خفیہ ریکارڈنگ کی جس پر کمیٹی نے توہین کی کارروائی کی دھمکی تک دی۔ کسی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کا کوئی مواخذہ نہیں ہوا بلکہ انٹیلی جنس کے مجموعی بجٹ میں ۲۰ ارب ڈالر کا اضافہ کر دیا گیا اور نئی سیکورٹی ایجنسی قائم کی جا رہی ہے جو ملک میں روسی طرز کا نگرانی کا نظام بنانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اور یہ سب کچھ اس پس منظر میں ہو رہا ہے کہ حکومت کی کارکردگی پر تنقید کو حب الوطنی کے خلاف قرار دیا جا رہا ہے (یہ بات شاید تعجب خیز ہے کہ چند ہی لوگ افغان مہم پر تنقید کر رہے ہیں۔ تنقید کو حب الوطنی کے خلاف سمجھا جا رہا ہے۔ نیوز ویک‘ ۱۹ اگست ۲۰۰۲ء‘ ص ۱۲)۔ بنیادی سوالات اٹھانے والوں کا منہ بندکیا جا رہا ہے‘ پروپیگنڈے کے ذریعے ایک جذباتی فضا بنا دی گئی ہے اور آزاد تحقیق اور حقائق کی تلاش کی کوششوں کو شدت اور قوت سے دبایا جا رہا ہے۔ آزاد تحقیق کرنے والے آج بھی اسامہ بن لادن اور اس کے ساتھیوں کی صلاحیت کار کے بارے میں شکوک کا اظہار کر رہے ہیں۔

فرانس سے شائع ہونے والی دو کتابوں نے بڑے بنیادی سوال اٹھائے ہیں اور علمی اور سیاسی حلقوں میں ان کتابوں میں پیش کردہ حقائق سے ایک تہلکہ سا مچا ہوا ہے مگرامریکی میڈیا اور حکومت ان تمام چیزوں کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ فرانسیسی مصنف تھیری میساں (Thierry Meyssan) کی دو کتابوںکا بڑا چرچا ہے۔ ایک (The Horrible Hie) L'Effroyable Imposture جس میں اس نے پینٹاگون پر جہاز کے حملے کا انکار کیا ہے اور بلڈنگ کے نقصان کا تجزیہ کر کے ثابت کیا ہے کہ کسی جہاز کے گرنے سے یہ واقع نہیں ہوسکتا بلکہ میزائل کے ذریعے ہواہے جس کا تانا بانا کسی القاعدہ سے نہیں جڑتا بلکہ کسی اور ہی گروہ یا ایجنسی کا کام ہے۔ اس مصنف کی دوسری کتاب Pentagate اسی ماہ آئی ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ امریکہ نے ۱۱ستمبر کی دہشت گردی کے حقائق اور اسباب سے توجہ ہٹا کر اسے اپنے معاشی اور اسٹرے ٹیجک مفادات کے لیے استعمال کیا ہے اور اصل شہادت کو سامنے نہیں لایا گیا یا تباہ کردیا گیا ہے۔

فرانس کے دو دوسرے اہل قلم جین چارلس بریسورو (Jean-Charles Brisoro) اور گلیام  ڈیسکوائر (Guillaum Dasquire) کی کتاب Forbidden Truth (ممنوعہ سچائی) پہلے فرانس سے اور اب امریکہ سے شائع ہوتے ہی ‘عالمی سطح پر ’’سب سے زیادہ فروخت ہونے والی‘‘ (best seller) بن گئی ہے۔ اور اس میں نہ صرف ۱۱ ستمبر کے واقعات کے پیچھے خفیہ قوتوں کی نشان دہی کی گئی ہے بلکہ پورے معاملے کو اس کے سیاسی تناظر میں رکھ کر دکھایا گیا ہے کہ امریکہ کے سیاسی اور معاشی کارفرما افراد اور ادارے کس طرح اپنے بنائے ہوئے نقشے کے مطابق ایک گھنائونا کھیل کھیل رہے تھے اور اب اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے دوسروں کو نشانہ ستم بنا رہے ہیں۔ اس کتاب میں دکھایا گیا ہے کہ امریکہ کے کھلاڑیوں کی اپنی چالیں کس طرح خود ان کے خلاف پڑ گئیں۔ نیز سارے کھیل کے پیچھے اصل مقصد اور ہدف یہ رہا ہے کہ روس کے زوال کے بعد کسی طرح وسط ایشیا کے وسائل تک رسائی اور افغانستان کے ذریعے اس علاقے پر پورا کنٹرول حاصل کیا جائے۔ یہ مقصد اب امریکہ اور افغانستان کے معصوم انسانوں کی لاشوں پر حاصل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

کتاب کے انگریزی ایڈیشن کا تعارف The Secret History of CIA کے مصنف   جوزف ٹرنٹو نے لکھا ہے اور صاف کہا ہے کہ امریکہ کی قیادت اس پورے معاملے کی سنجیدہ تحقیق گوارا نہیں کر سکتی کہ اس کا اپنا دامن پاک نہیں اور اس میں بہت سے ’’پردہ نشینوں‘‘کے نام آتے ہیں:

ایف بی آئی اور سی آئی اے نے ایک دوسرے کو الزام دینے کی کوشش کی۔ ۱۱ ستمبر کے حملوں کے اگلے ہی دن نائب صدر ڈک چینی نے سینیٹ کے اکثریتی لیڈر ٹام ڈیشے سے بات کر کے یہ کوشش کی کہ وہ خفیہ معلومات کی ناکامی کو کوئی مسئلہ نہ بنائیں۔ کوئی سنجیدہ تفتیش اس لیے نہیں ہو سکتی کہ کوئی بھی سیریس تفتیش بالآخر یہ ظاہر کر دیتی کہ سعودی عرب یا امریکہ کی حفاظت سے زیادہ اہم رقم اور تیل ہیں۔ ایک سنجیدہ تفتیش ظاہر کر دے گی کہ شرق اوسط اور رقم اب بھی بش خاندان کے لوگوں کی پشتیبانی اوران کی مدد کرتے ہیں۔(Forbidden Truth‘ص ۱۲)

مذکورہ کتابوں کے مندرجات ہمارا اصل موضوع نہیں۔ہم اس بارے میں بھی کچھ نہیں کہہ سکتے کہ خود ان میں کہاں تک حقائق کی پردہ کشائی ہے اور کہاں افسانوی داستانیںشامل کر دی گئی ہیں۔ ہماری دل چسپی اس امر سے ہے کہ امریکہ کی قیادت نے تحقیق اور احتساب کے راستے سے کیوں اجتناب کیا اور مسلسل کر رہی ہے۔ ساری توجہ نہ اصل حقائق پر ہے اور نہ واقعے کے پیچھے پائے جانے والے اسباب اورمحرکات سے--- بلکہ نت نئے انداز میں اپنی پسند کے ’’بکروں‘‘ (scape goats) کو نشانہ بنا کر امریکی قیادت ایک ایسے راستے پر چل پڑی ہے جس کے نتیجے میں امریکی دستور‘ اقوام متحدہ کے چارٹر‘ بین الاقوامی قانون اور قانون کی حکمرانی‘ قوموں اور ممالک کی حاکمیت (sovereignty) اور ان تمام اقدار اوراصولوں کو‘ جو برسوں نہیں صدیوں کی جدوجہد کا حاصل ہیں‘ پامال کیا جا رہا ہے اور دنیا کی اقوام پر امریکہ کی سیاسی اورمعاشی بالادستی (hegemony)کوقائم کر کے ایک نئے عالمی سامراج کے دروبست تعمیر کیے جا رہے ہیں۔ سستے اہداف کی تلاش ایک جاری عمل ہے۔ پہلے اسامہ بن لادن‘ پھر القاعدہ‘ پھرطالبان‘ پھر افغانستان‘ پھر ۳۰ ممالک میں القاعدہ کے حامی‘ پھر عراق‘ایران‘ سوڈان‘ شمالی کوریا‘ اور اب خود سعودی عرب‘ دنیا بھر کی اسلامی اورخدمتی تنظیمیں‘ دینی مدارس اوران سب کا تعاقب کرنے کے لیے نئے نئے اصول بنا کر سلامتی‘ حفاظتی اقدام اور خطرے کے پہلے مقابل کو نشانہ بنانے‘ فوج کشی کرنے اور حکومتوں کو بدلنے کا اختیار گویا

ع   سزا خطاے نظر سے پہلے‘ عتاب جرم سخن سے پہلے

یہی وہ سوالات ہیں جو سوچنے سمجھنے والے انسانوں کو پریشان کر رہے ہیں۔ امریکہ کے ۶۰ دانش وروں نے‘ جن میں کئی نوبل انعام یافتہ اصحاب شامل ہیں‘ اپنے اضطراب کا اظہار کیا ہے جو لندن کے اخبار دی گارڈین نے جون ۲۰۰۲ء میں شائع کیا ہے۔ اس میںانھوں نے بڑی اقوام کی‘ دوسرے ملکوں میں موہوم خدشات کی بنیاد پر‘ فوجی مداخلت کی مذمت کی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی پر تشویش کااظہار کیا ہے‘ بلامقدمہ لوگوں کی گرفتاری اور ان کو اپنے دفاع کے حقوق سے محروم کرنے پر اضطراب ظاہرکیا ہے۔ بش انتظامیہ نے دنیا پر جو جنگ مسلط کی ہے اسے ’’غیر منصفانہ‘ غیر اخلاقی اور ناجائز‘‘ قرار دیا ہے اور دنیا کے لوگوں کو اس کے خلاف جدوجہد کی دعوت دی ہے اور اس جدوجہد میں اپنی شرکت کا عندیہ دیا ہے۔ اس بات پر بھی گرفت کی ہے کہ ۱۱ستمبر اور اس کے بعد کے پورے معاملے کو بڑی سادگی سے ’’محض اچھائی اور برائی کی جنگ‘‘ بنا کر پیش کیا گیا ہے‘ اور پھر میڈیانے حکومت کا آلہ کار بن کر یہی ڈھول پیٹنا شروع کر دیا ہے۔ یہ پوچھنا کہ آخر یہ خوف ناک واقعات کیوں رونما ہوئے‘ غداری کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔اس لیے اس پر کوئی گفتگو نہیں ہونی چاہیے۔ جوکچھ امریکہ نے کیا ہے اور کر رہا ہے اس کی سیاسی اور اخلاقی حیثیت پر کوئی سوالات نہیں اٹھائے گئے جب کہ ہر بات کا عملی جواب بس یہ اختیار کر لیا گیا ہے کہ ’’گھر کے باہر جنگ اور گھر کے اندر جبروظلم کے حربے‘‘۔

حال ہی میں جرمنی کے ۸۰ دانش وروں نے امریکہ کی مسلسل تنبیہات اور یورپی اقوام پر دبائو سے تنگ آکر ایک اعلانیہ جاری کیا ہے جس میں صاف الفاظ میں کہاہے کہ امریکی قیادت جس چیز کو ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کہہ رہی ہے وہ ایک ’’صریح ظلم اور اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے ناقابل معافی جرم ہے‘‘۔ جرمن دانش وروں نے امریکہ کے اس موقف کو ماننے سے انکار کر دیا ہے جو وہ افغانستان میں اور دنیا کے دوسرے مقامات پر ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کے نام پر کر رہا ہے۔ ان کا اعلان ہے کہ اسے ’’مبنی برحق جنگ‘‘ (just war)نہیں کہا جا سکتا ہے۔ امریکہ کو یہ حق نہیں کہ وہ انسانی اقدار کی من مانی تاویل کرے اور اپنے کو ان کا اجارہ دار بنا ڈالے(monopolisation of universal values)۔ جرمن دانش وروں نے کہا ہے کہ:

کوئی ایسی اقدار عالمی سطح پر تسلیم شدہ نہیں ہیں جوہمارے ملک میں قتلِ عام (۱۱ ستمبر کے دہشت گرد حملے) کو (افغانستان میں) دوسرے قتلِ عام کا جواز مہیا کریں (دی نیشن‘ ۱۰ اگست ۲۰۰۲ء)۔

برطانیہ کے نومنتخب آرچ بشپ آف کنٹربری ڈاکٹرویلز نے برطانیہ اور دنیا کو متنبہ کیا ہے کہ عراق پر امریکہ کی فوج کشی کا کوئی جواز نہیں۔ اس کے الفاظ میں ’’عراقی حکومت خواہ کتنی ہی ظالم کیوں نہ ہو‘ برطانیہ عراق کے خلاف امریکی ممکنہ حملے کی ہرگز تائید نہ کرے۔ یہ حقیقت نہایت افسوس ناک ہے کہ دنیا کی مضبوط ترین طاقت جنگ اور جنگ کی دھمکی کو خارجہ پالیسی کا ہتھیار بنا کر استعمال کر رہی ہے۔ یہ نہ صرف اقوام متحدہ کے اصولوں کے منافی ہے بلکہ عیسائیت کے مسلمہ پیغام کے بھی برعکس ہے۔ امن حاصل کرنے اور اسے قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ناانصافی کا خاتمہ کیا جائے اور انسانوں کو نظرانداز کرنے کی سیاست کے انجام سے بچاجائے‘‘۔ (دی انڈی پنڈنٹ‘ لندن‘ ۲۴ جولائی ۲۰۰۲ء‘ بحوالہ نوائے وقت‘ ۷ اگست ۲۰۰۲ء)

یورپ کے بیش تر ممالک‘ چین‘ روس اور فطری طور پر تمام عرب اور مسلمان ممالک امریکہ کے اس منصوبے پر اپنی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں لیکن امریکی قیادت نت نئے اصول بنا کر دنیا پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ سب ۱۱ستمبر کی چھتری تلے کرنے کی کوشش ہے۔

اسامہ بن لادن‘ القاعدہ اور طالبان کے خلاف جو ظالمانہ اور برخود غلط کارروائیاں امریکہ نے کی ہیں‘ ان میں پاکستان کی حکومت نے اس کا ساتھ دے کر‘ خواہ جبرواکراہ ہی کی وجہ سے ہوا‘ جو ظلم اپنے اور اپنی قوم پر کیا ہے‘ وہ ناقابل معافی ہے۔ مگر جنرل مشرف نے بھی اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں جو نیویارک کے نمایندے کو دیا گیا ہے اس شبہے کا اظہار کیا ہے کہ کیا فی الواقع ۱۱ستمبر کے حملے کا بلاواسطہ تعلق اسامہ بن لادن سے تھا؟ مشرف نے کہا:

ہو سکتا ہے کہ اسامہ حملے کی منصوبہ بندی اور اس کے لیے مالیات فراہم کرنے میں شریک رہا ہو۔ شاید اسامہ اس میں براہِ راست ملوث نہ ہو (ڈان‘ ۹ اگست ۲۰۰۲ء)۔

اس پر امریکی وزیر دفاع رمز فیلڈ برافروختہ ہوگئے مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا الزام ایک دعویٰ ہے جس کے لیے دلیل یا شہادت آج تک فراہم نہیں کی گئی اور اس کے فراہم کرنے کی ضرورت سے بھی انکار اور اغماض برتا جا رہاہے۔ اور یہی وہ سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ آخر ایسا کیوں ہے؟

عالمی سیاست کا نیا نقشہ

اصل واقعے کا ذمہ دار جو بھی ہو امریکہ کی قیادت نے جس طرح اس کو استعمال کیا ہے وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ امریکہ کی سیاسی قیادت اور اس کی فوجی اور معاشی انتظامیہ کسی ایسے ہی واقعے کی تاک میں تھی جس سے وہ امریکہ میں اپنی گرفت مضبوط کرلے‘ قوم کو حب الوطنی کے نام پر ایک جذباتی اور ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر دے‘ اور سردجنگ کے بعد کے اس دور کو ایک نئی لام بندی کے لیے مسخر کر کے دنیا کو امریکی مفادات کے تابع لانے کی کوشش کرے۔ امریکہ کو اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ایک دشمن کی ہمیشہ ضرورت ہوتی ہے۔ روس کی کمر ٹوٹنے اور اشتراکیت کے منتشر ہوجانے کے بعد اسے ایک نئے دشمن کی ضرورت تھی۔ اسرائیلی لابی اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے فضا ہموار کر رہی تھی۔ علمی مباحث اور میڈیا کی جولانیاں اس کے لیے وقف تھیں لیکن بات بن نہیں رہی تھی۔ ۱۱ستمبر نے یک قلم وہ فضا بنا دی اور ساری توجہ اسلام‘ مسلمان‘ جہاد‘ دینی مدارس‘ شریعت‘ عرب سرمایہ‘ حتیٰ کہ مغرب کے ہم ساز و ہم راز عرب حکمران--- سب ہی ہدف بن گئے اور بین الاقوامی قانون اور روایات‘ جمہوری اصول و اقدار‘ تاریخی رشتے اور تعلقات سب غیرموثر ہوگئے۔

سیاست کا جو نیا نقشہ وجود میں آ رہا ہے‘ اس کے اہم خدوخال یہ ہیں:

۱- امریکہ دنیا کی واحد سوپر پاور ہے اوراسے حق ہے کہ اپنے مفادکے لیے اپنی مرضی کے مطابق جو اقدام چاہے کرے۔ دوسرے مجبور ہیں کہ اس کا ساتھ دیں۔ اگر وہ بخوشی ساتھ دیں تو فہو المراد‘ورنہ انھیں مجبوراً ساتھ دینا ہوگا یا پھر ان کے علی الرغم امریکہ جو مناسب سمجھتا ہے وہ کرے گا۔ یہی رویہ امریکہ کے ’’فطری حلیفوں‘‘ اسرائیل اور بھارت کا ہے جو امریکہ کے اقدام کا سہارا لے کر اس کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ یہ دونوں بالکل انھی خطوط پر کارروائیاں کر رہے ہیں اور اسی زبان میں اپنے جارحانہ اور ظالمانہ اقدام کا جواز پیش کر رہے ہیں۔

امریکہ کے اس متکبرانہ موقف کا صاف لفظوں میں اظہار صدر بش کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈولیزا رائس نے اس طرح کیا ہے:

بش انتظامیہ قومی مفادات کی مضبوط بنیاد سے آگے بڑھے گی نہ کہ ایک جھوٹی نام نہاد عالمی برادری کے مفاد کے تحت۔

اس کی وجہ نیویارک کے ’مرکز براے دستوری حقوق‘ کے صدر مائیکل رٹیز کی نگاہ میں یہ ہے کہ:

دنیا میں امریکہ کے خلاف کوئی زیادہ مزاحمت نہیں ہے۔ اس کے پاس بہت سزا دینے اور لالچ دینے کے لیے بہت گاجریں اور ڈنڈے ہیں۔ کچھ ممالک خفیہ اقدام چاہے کریں‘ لیکن امریکہ اس وقت اتنا طاقت ور ہے کہ ہمیں روکنے کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

امریکن یونی ورسٹی کے تاریخ کے پروفیسر ایلن لچمین امریکی صدر کے بارے میں یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ:

خارجہ امور میں وہ جوکچھ بھی کرنا چاہے عملاً کر سکتا ہے۔ امریکہ کی طاقت اور اس کے صدر کے اقدامات کو روکنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔

ان کا نتیجہ ہے کہ امریکہ ایک ہائپر (hyper) طاقت بن گیا ہے اور اپنے کو تمام اصول و ضوابط اور اقدار اور روایات سے بالا تصور کرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو امریکہ اور اس کے صدر کو عالمی امن اور انسانی معاشرے میں انصاف اور آشتی کے لیے ایک خطرہ بنائے ڈال رہی ہے۔ امریکہ کے مشہور تھنک ٹینک Cato Institute کی جین ہیلی بھی پکار اٹھی ہے کہ:

یہ بات کہ ایک آدمی تنہا اتنی بڑی جنگ شروع کرنے کا اختیار رکھے گا‘ دستور بنانے والوں کو اپنی قبروں میں بے چین کر دے گا۔

۱۱ ستمبر کے نتیجے میں امریکہ اور اس کی قیادت نے جو روپ دھارا ہے‘ وہ امریکہ اور پوری دنیا کے لیے ایک خطرہ ہے اور یہ خطرہ محض ایک خیالی خطرہ نہیں‘ بلکہ اس نے عملاً پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔

۲-  امریکہ جس بین الاقوامی معاہدے اور میثاق سے نکلنا چاہتا ہے‘ یک طرفہ طور پر نکل رہا ہے اور جس کا راستہ روکنا چاہتا ہے اسے روکنے کی بے دریغ کوشش کر رہا ہے۔ ماحولیات کے بین الاقوامی معاہدہ کویوٹو پر دستخط کرنے کے بعد اس سے منحرف ہو گیا ہے۔ بیلسٹک میزائل کے بین الاقوامی کنونشن (ICBM) سے بھی منحرف ہو گیا ہے اور روس کو مالی امداد کی رشوت دے کر اس کا منہ بند کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

۳-  بین الاقوامی فوج داری عدالت (International Criminal Court) کے قیام کے لیے ۶ سال تک شریک مشاورت رہنے اور اپنے مفید مطلب دسیوں ترامیم کرانے کے بعد امریکہ نے اس عدالت کے قیام کو رکوانے کی سرتوڑ کوشش کی اور جب مطلوبہ ممالک نے معاہدے کی توثیق کر دی تواسے غیرموثر بنانے کے لیے اقوام متحدہ میںاوراب اقوام متحدہ کے باہر دو طرفہ معاہدات کے ذریعے سرگرم ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب پر امریکہ اور اس کی افواج پرگرفت نہ کی جاسکے۔ ایک طرف دعویٰ ہے کہ تمام انسان برابر ہیںاور تمام اقوام مساوی درجہ رکھتی ہیں (اقوام متحدہ کا چارٹر‘ یونی ورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس اور خود امریکہ کا دستور ان اصولوں پر مبنی ہے) اور دوسری طرف امریکہ یہ چاہتا ہے کہ کسی دوسرے ملک میں کیے جانے والے انسانیت کے خلاف کسی جرم پر بھی کسی امریکی فوجی کا مواخذہ نہیں ہونا چاہیے۔ امریکہ ہر ملک پردبائو ڈال رہا ہے کہ اگر امریکی افواج کواستثنا نہ دیا گیا تو ان ممالک کی فوجی اور معاشی امداد بند کر دی جائے گی۔ یہ عالمی سطح پر ایک قسم کی نسلی اور سیاسی تفریق (apartheid) کا نظام قائم کرنے کی مذموم کوشش ہے۔

۴-  امریکہ دنیا کوآزاد تجارت کا درس دیتا ہے لیکن خود ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اصولوں کی خلاف ورزی کر رہاہے۔ حال ہی میں یورپ اور باقی دنیا کی مخالفت کے باوجود اسٹیل کی درآمد پر ۳۰ فی صد ڈیوٹی لگائی ہے‘ زرعی پیداوار کے لیے زرتلافی دے رہا ہے جس سے دنیا کے غریب ملکوں کی زراعت کی برآمدات متاثر ہو رہی ہیں اور اس طرح وہ تیسری دنیا کے ملکوں کے لیے معاشی امداد کے تمام اہداف سے روگردانی کررہا ہے بلکہ اس سلسلے کی کوششوں کو عملاً سبوتاژ کرنے سے بھی گریز نہیں کر رہا۔

۵-  خود امریکہ میں شخصی آزادیوں کی تحدید کی جا رہی ہے اور دستور کے خلاف ہزاروں انسانوں کو بلاثبوت‘ بلاوارنٹ گرفتار کیا گیا ہے‘ خصوصیت سے عربوں اور مسلمانوں کو --- بارہ سو کے قریب افراد ایک سال سے بلامقدمہ جیلوں میں محبوس ہیں‘ جب کہ متعدد افراد کی پوچھ گچھ کے دوران موت تک واقع ہو چکی ہے۔ ان لوگوں پر مقدمہ چلانا اور جرم کو ثابت کرنا تو کجا ان کے نام تک نہیں بتائے جا رہے ہیں اور اس سلسلے میں حقوق انسانی کے اداروں نے جوبھی کوششیں کی ہیں سب ناکام رہی ہیں حتیٰ کہ اب کچھ جج حضرات یہ کہنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ حکومت کا یہ رویہ عدل و انصاف اور جمہوری نظام کے اصولوں کے منافی ہے اور اسے کم از کم ان کے نام ظاہر کرنے چاہییں (ملاحظہ ہو‘ ڈسٹرکٹ جج گلیڈیز کینلر کا ۲۶ اگست ۲۰۰۲ء کا فیصلہ جس میں حکومت سے کہاہے کہ ۱۵ دن کے اندر ان لوگوں کے ناموں کا اعلان کیا جائے جو بلامقدمہ جیلوں میں محبوس ہیں۔ حالانکہ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۱ء اور نیویارک ٹائمز نے اپنی ۱۰ نومبر ۲۰۰۱ء کی اشاعت میں ادارتی نوٹ کے ذریعے ان معلومات کو عام کرنے کا مطالبہ کیا تھا)۔

۱۱ ستمبر کا سہارا لے کر امریکہ کی حکومت نے قرون وسطیٰ کے جابرانہ نظام کو آبادی کے ایک حصے پر مسلط کر دیا ہے۔ اس کا خاص نشانہ مسلمان‘ عرب اور پاکستان ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تین سو سے زیادہ پاکستانی اس آزمایش میں مبتلا ہیں۔

۶-  جاسوسی کا ایک نظام ملک میں رائج کیا جا رہا ہے جس کے تحت ٹیلی فون ٹیپ کرنا‘ ڈاک بند کرنا‘ انٹرنیٹ تک رسائی اور پرائیویسی کی تمام حدود کو پامال کیا جا سکتا ہے۔ آبادی میں مخبروں کا ایک نظام جاری کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے جس پر پریس اور کانگرس کے ارکان چونک اٹھے ہیں۔

۱۱ ستمبر کو حکومت ایک قسم کی پولیس اسٹیٹ ملک پر مسلط کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے جس پر لندن کے روزنامہ ڈیلی مرر نے امریکہ کے یوم آزادی (۴ جولائی ۲۰۰۲ء) پر اپنے پہلے صفحے پر جلی حروف میں لکھا ہے:  "Mourn on the 4th July"  (۴ جولائی کو سوگ)

اور اس میں نوحہ کیا ہے کہ:

"The US is now the world's leading rogue state".

اب امریکہ دنیا کی سب سے نمایاں غنڈا ریاست ہے۔

بین الاقوامی سطح پر پہلے افغانستان پر حملہ کیا گیا‘ نہ اسامہ پکڑا گیا اور نہ ملا عمر۔ لیکن امریکی فوج نے کم سے کم اندازے کے مطابق اپنے جنگی معرکوں میں طالبان اور القاعدہ کی ہلاکتوں کے علاوہ (جو ۱۰ ہزارسے زیادہ ہیں) خالص سول آبادیوں پر بم باری کے ذریعے نیو ہمپشائر یونی ورسٹی کے ایک پروفیسر کے ڈیٹابیس کے مطابق ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء سے جون ۲۰۰۲ء تک ۳۶۲۰ معصوم مردوں‘ عورتوں اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ نیز جو مظالم شمالی اتحاد کے جنگجوئوں نے طالبان اور القاعدہ کے نام پر افغانیوں پر کیے ہیں اور جو امریکی افواج کی آنکھوں کے سامنے ہوئے ہیں ان کی ذمہ داری سے بھی امریکہ کو بری نہیںکیا جا سکتا۔ افغانستان کے بعد عراق کو فوج کشی کا ہدف بنانے کے لیے فضا بنائی جا رہی ہے اور افواج اور اسلحہ کو علاقے میں پہنچایا جا رہا ہے‘ سان ڈیاگو اور قطر کے اڈوں کو تیار کیا جا رہا ہے۔ خود عراق میں افغانستان کی طرح طفیلی قیادت ابھارنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ عراق کے بعد ایران اور پھر پاکستان‘ سوڈان اور شام فہرست میں ہیں۔ سعودی عرب کو بھی اب کھل کر ہدف بنایا جارہا ہے۔ وہاں کے حکمرانوں کو بلیک میل کیا جا رہا ہے‘ اندرونی بغاوت کی سازشیں ہورہی ہیں۔ یہی کھیل سوڈان میں کھیلا جا رہا ہے--- آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟

امریکہ کی قیادت نے بین الاقوامی قانون اور روایات کو تار تار کرکے نئے اصول وضع کیے ہیں جن کے تحت جس ملک سے ناراض ہوں اس میں قیادت کی تبدیلی (regime change) کو اس نے اپنا حق بنا کر پیش کیا ہے۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف پیش بندی(preemptive)  کے طور پر مداخلت کی باتیں کی جا رہی ہیں جس پر کسنجرجیسا ’’شریک کار‘‘ بھی چیخ اٹھاہے:

حکومت کی تبدیلی فوجی مداخلت کا مقصد بنانا ۱۶۴۸ء کے معاہدئہ West philes کے قائم کردہ عالمی نظام کے لیے چیلنج ہے۔ اس معاہدے نے دوسری ریاستوں کے داخلی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول کو قائم کر دیا تھا۔ پیش بندی کے طور اقدام کرنے کا جواز جدید بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے جو طاقت کے استعمال کو صرف اپنے دفاع میں حقیقی اقدام نہ کہ امکانی دھمکیوں کے خلاف جائز قرار دیتا ہے (ہنری کسنجر‘ لاس اینجلس ٹائمز‘ سنڈیکیٹ‘ ڈان‘ ۱۱اگست ۲۰۰۲ء)۔

ہنری کسنجر نے یورپی اقوام‘عرب ممالک اور چین کے تحفظات کا ذکر کیا ہے اور پھر پاکستان کے لیے یہ وارننگ بھی دی ہے کہ اس اصول کو مان لیا جائے تو بھارت کیا کچھ گل کھلا سکتا ہے:

بہت دل چسپ لیکن بے حد خطرناک ردعمل بھارت کا ہو سکتا ہے جو پیش بندی کے طور پر اقدام کے اصول کا اطلاق پاکستان کے خلاف کرنے کے لیے کشش محسوس کرے گا۔

کسنجرنے متنبہ کیا ہے کہ امریکہ کواس نام نہاد اصول کو پروان نہیں چڑھانا چاہیے اور بین الاقوامی قانون پاس کرنا چاہیے لیکن بظاہر اس ’’گرو‘‘ کی بات بھی صدا بصحرا ہی معلوم ہوتی ہے۔

امریکہ نے جنگ اور جنگی قیدیوں کے بارے میں بین الاقوامی قوتوں اور جنیوا کنونشن کی کھلی    خلاف ورزی کی ہے اور بین الاقوامی اداروں اور یورپ اور تیسری دنیا کے اخبارات اور دانش وروں کی تنقید کے باوجود اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ افغانستان میں ہتھیار ڈالنے والوں کا کھلا قتل عام کیا گیا‘ لاشوں کا مثلہ کیا گیا‘ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی سول آبادیوں بلکہ شادی کی محفلوں پر بم باری کی گئی اور اسے چھپانے (cover-up) اور شہادتیں مٹانے کا کام کیا گیا۔ پھر جنگی قیدیوں کو کیوبا کے فوجی بیس گنٹانامو لے جایاگیا تاکہ امریکی قانون ان پر لاگو نہ ہو سکے۔ ان قیدیوں کو جس طرح پابند سلاسل کیا گیا اور جو جومظالم ان پر ہوئے‘ اس کے نتیجے میں کئی اموات واقع ہوچکی ہیں۔ یہ سب جنیوا کنونشن کے خلاف ہے۔ آٹھ ماہ کے بعد بھی ان پر کوئی جرم ثابت نہیں ہو سکا اور ساری تفتیش کا حاصل خود امریکی اخبارات کی اطلاع کے مطابق ان میں سے ایک بھی القاعدہ کا ذمہ دار فرد نہیں نکلا ہے۔ ان میں ۳۰ سے زیادہ پاکستانی بھی ہیں مگر ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ امریکہ اپنے کو ہر قانون سے بالا سمجھتا ہے۔

اس پورے عمل میں اگر کسی کو فائدہ پہنچا ہے تو خود صدر جارج بش ہیں جن کا صدارتی انتخاب مشتبہ تھا مگر اب وہ اندھی تائید حاصل کر رہے ہیںاور سارے معاشی اسیکنڈلوں پر پردہ ڈال کر سیاسی محاذ آرائی کے ذریعے اپنی صدارت چمکا رہے ہیں۔ پھر اس کا بڑا فائدہ فوج اور اسلحہ سازی کی صنعت کو ہو رہا ہے جس کا بجٹ ۴۰۰ بلین ڈالر تک بڑھا دیا گیا ہے۔ نیوزویک کے تازہ ترین جائزے کے مطابق امریکہ جو دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ کا تاجر ہے‘ اس کی اسلحہ کی تجارت ۲۰۰۰ء سے نیچے جا رہی تھی۔ اب اس کی صنعت کو حکومت کی طرف سے نئے آرڈر مل رہے ہیں۔ انرجی کی صنعت بھی فائدہ اٹھا رہی ہے۔ یہی وہ عناصر ہیں جو دنیا کی اس سب سے بڑی اور طاقت ور ’’جمہوریت‘‘ کی پشت پر کارفرما اصل عناصر ہیں۔ صدر آئزن ہاور نے اپنی صدارت کے خاتمے پر آخری خطاب میں امریکی قوم کو جس قوت کے بارے میں متنبہ کیا تھا وہی اس پورے عمل میںسب سے زیادہ فائدے میں رہی ہے اور مضبوط تر ہو رہی ہے بلکہ اس وقت تو ملک کے اندرونی معاملات میں قومی سلامتی کے نام پر فوج کے کردار کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں جن پر کانگرس اور لبرل حلقے سخت تشویش کااظہار کر رہے ہیں۔

آئزن ہاور کے الفاظ ۱۱ ستمبر کے بعد رونما ہونے والے تناظر میں غیرمعمولی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ ۱۷ جنوری ۱۹۶۱ء کے اس خطاب میں آئزن ہاور نے کہا تھا:

ایک بہت بڑی فوجی انتظامیہ اور اسلحے کی ایک بہت بھاری صنعت کا یک جا ہونا امریکی تجربہ ہے۔ اس کا مجموعی اثر--- معاشی‘ سیاسی حتیٰ کہ روحانی --- ہر شہر ہر ریاست اور وفاقی حکومت کے ہردفتر میں محسوس کیا جا رہا ہے۔ ہم کو حکومت کے مشاورتی اداروں میں بلاروک رسوخ کے حصول کے خلاف چوکنا رہنا چاہیے‘ خواہ یہ فوجی اور صنعتی کمپلیکس اس کو طلب کرے یااس کو طلب نہ کرے۔بے محل اختیارات میں خطرناک اضافے کا امکان موجود ہے اور موجود رہے گا۔ فوجی صنعتی کمپلیکس کو ہرگز یہ اجازت نہ ہونا چاہیے کہ وہ ہماری آزادیوں اور جمہوری عمل کو خطرے میں ڈالے۔ ہمیں اس لحاظ سے مطمئن نہ ہوناچاہیے۔ ( Eisenhower: Soldier & President اسٹیفن ایمرون‘ سائمن اینڈ شسٹر‘ نیویارک‘ ص ۵۳۶-۵۳۷)

۱۱ ستمبر اور اس کے بعد کی امریکی پالیسی پر اسی فوجی‘ صنعتی گٹھ جوڑ کی چھاپ دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ جن بوتل سے باہر آگیا ہے اور خود امریکی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کر رہا ہے۔ وہ جمہوری عمل‘ وہ آزادیاں‘ وہ تہذیبی اقدار جن کو صدیوں کا حاصل قرار دیا جا رہا ہے‘ آج معرض خطر میں ہیں۔ عالمی سطح پر بھی‘ اور خود امریکہ میں بھی۔ عام شہری ایک شدید تنائو میں زندگی گزار رہا ہے۔

۱۱ ستمبر کے بعد امریکی شہریوں کی نفسیات اور ذہنی کیفیات پر جو اثرات مترتب ہوئے ہیں ان پر جو بھی تحقیقی کام ہوا ہے‘ وہ بہت نظر کشا ہے۔ ولیم شیلنگرنے ۲ ہزار ۲ سو ۷۳ امریکیوں کے سروے کی بنیاد پر اپنی تحقیق کے نتائج امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کے جرنل کے تازہ شمارے میں شائع کیے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت حال سے پوری آبادی پر ذہنی دبائو‘ بے یقینی‘ خوف اور انتشار فکری کی کیفیت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے لیے اس نے PTSDکی اصطلاح وضع کی ہے‘ یعنی Post-Traumatic Stress Disorder ۔ ہر قسم کے ٹراما کے مقابلے میں جس میں جبری آبروریزی سے لے کر طوفان‘ زلزلہ حتیٰ کہ اوکلاہوما کی دہشت گردی سمیت تمام حادثات اور سانحات شامل ہیں‘ ۱۱ ستمبر کے واقعے کے اثرات کہیں زیادہ ہیں۔ ملک کی ذہنی صحت کا جو نقشہ(profile) اس جائزے سے سامنے آتا ہے ۱۱ ستمبر کے واقعے کے ایک سے دو ماہ بعد تک PTSDکی سطح میں پوری امریکی قوم کے لیے اوسطاً ۴ فی صد اور نیویارک کی آبادی کے لیے ۱۱فی صد اضافہ ہوا اور اس کے اثرات وقتی نہیں بلکہ تاحیات رہنے کا خطرہ ہے جس کے نتیجے میں بقول ولیم شیلنگر:

عوام کی صحت کے لیے قابل لحاظ خطرہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ایک دوسرے جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس نے جتنا زیادہ ٹی وی دیکھا ہے‘ اتنا ہی زیادہ وہ  اس سے متاثر ہے۔ چار گھنٹے ٹی وی دیکھنے والوں کا اوسط اگر ۵.۷ فی صد تھا تو ۱۲ گھنٹے دیکھنے والوں کا اوسط   ۱۸فی صد تک بڑھ جاتا ہے۔ بات صرف ۱۱ ستمبر کے اثرات ہی کی نہیںاس کے بعد بھی خوف کا عفریت نت نئی شکلوں میں آبادی کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کرتا رہا ہے‘ خواہ انتھراکس کا خطرہ ہو یا دہشت گردی کی کسی نئی کارروائی کا۔ غرض پوری قوم ایک نئے ذہنی انتشار اوردبائو کا شکار ہو گئی ہے اور ملکی قیادت ہے کہ اس نام نہاد جنگ کو کرہ ارض کے طول و عرض تک پھیلانے پر تلی ہوئی ہے اور کسی کو اس پر غور کرنے کی فکر نہیں کہ دہشت گردی اور اس کے اسباب کا سدباب نہ میڈیا وار سے ہو سکتا ہے اور نہ فوج کشی اور نامعلوم دشمن کی تلاش میں عام انسانوں پر گولہ باری اور میزائل اندازی سے۔ خود اپنے ملک کی ابادی کو بھی بے یقینی اور خوف کے جہنم میں جھونکا جا رہا ہے اور دنیا کے دوسرے ممالک کے باسیوں کو بھی‘ اور اب تو کھلے بندوں یہ تیاری ہو رہی ہے کہ چھوٹے ایٹم بم (mini nukes) بنائے جائیں جو متعین اہداف کو نشانہ بنا سکیں اس کے لیے تیزی سے کام شروع ہو گیا ہے اور NPT اور CTBT سب کی گرفت سے آزاد ہو کر تباہی کے ان ہتھیاروںکو دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے لیے موثر ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے لیے فضا ہموار کی جا رہی ہے۔ دوسروں کو بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں (WMD)سے محروم کرنے کے لیے فوج کشی کے منصوبے ہیں اور خود ایسی ہی تباہی کے ہتھیاروں کے انبار ہی نہیں لگا رہے‘ ان کو بے دریغ استعمال بھی کر رہے ہیں اور آیندہ استعمال کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں اور تیاریاں بھی کررہے ہیں۔ اس ظلم اور دھاندلی پر بھی اگر دنیا آپ کو نفرت کا نشانہ نہ بنائے تو کیا کرے؟ بڑی معصومیت سے پوچھا جاتا ہے کہ ’’لوگ ہمارے خلاف کیوں ہو رہے ہیں؟‘‘ اور ’’دنیا امریکہ سے نفرت کیوں کررہی ہے؟‘‘ اور ایک لمحہ بھی اس سوال پر کوئی غور کرنے کو تیار نہیں کہ معصوم انسان اور عام لوگ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر احتجاج اور انتقام کے لیے کیوں اُٹھ رہے ہیں اور خطرات انگیز کر رہے ہیں۔

’’دہشت گردی‘‘ کے اسباب

دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ دونوں انسانیت کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہیں اور ۱۱ ستمبر سے جو حقیقی سبق سیکھا جا سکتا تھا‘ اسے امریکی قیادت اور اس کی نکیل تھامنے والی صہیونی لابی نے امریکی قوم اور پوری دنیا کی آنکھوں سے اوجھل کرنے کی بڑی منظم اور عالم گیر جدوجہد کی ہے اور مغربی میڈیا نے اس سلسلے میں بڑاہی کلیدی کردارادا کیا ہے۔ دہشت گردی ایک اخلاقی اور انسانی جرم ہے لیکن ہر جرم کی طرح اس کا مقابلہ جرم کے اسباب اور تائیدی عوامل کے تعین اور تجزیے کے بغیر ممکن نہیں۔ ۱۱ ستمبر کے دل ہلا دینے والے واقعے نے بھی امریکی قیادت کی آنکھیں نہیںکھولیں اور اس نے حالات اور معروضی جائزہ اور حقیقت پسندانہ ردعمل کی جگہ جذباتی اور ہیجانی انداز میں اس انسانی تباہی کو بھی اپنے سیاسی اور معاشی مقاصد اور مفادات کے حصول کے لیے بے دردی سے استعمال کیا ہے۔ یہ ناکامی خود ۱۱ ستمبرکے حادثے کی تباہ کاری سے بھی بڑی تباہی کا باعث ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ مسئلے کی اصل نوعیت کوسمجھا جائے اور کم از کم ان تمام انسانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی جائے جو مفاد کے بندے نہیں اور جنھیں حق و انصاف اور انسانی فلاح و سلامتی عزیز ہے۔

تین چیزوں میں فرق ضروری ہے۔ ایک انسانی معاملات میں قوت (force)کا استعمال‘ دوسرے تشدد(violance)اور تیسرے دہشت گردی (terrorism)۔ قوت کا استعمال حق اور ناحق‘ صحیح اور غلط‘ حصول انصاف اور ظلم دونوںکے لیے ہو سکتا ہے۔ انسانی معاشرے میں امن وسلامتی کے قیام‘ عدل و انصاف کے حصول اور قانون کی بالادستی اور نظم و انضباط پر مبنی معاشرے کے فروغ کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے  کہ ہر سطح کی اتھارٹی کے لیے ڈسپلن اور ایک درجے میں قوت کا استعمال ضروری ہے۔ ریاست کی تعریف ہی  coercive power سے کی جاتی ہے اور کسی بھی معاشرے کو انارکی سے پاک رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے۔ ملکی نظام کے اندر سزا اور تعزیر اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے جنگ و جہاد اسی نظام کا حصہ ہیں۔ بلاشبہہ قوت کو اعلیٰ اقدار و مقاصد‘ متفقہ قومی اہداف‘ اخلاقی اصولوں اور قانون کا پابند ہوناچاہیے اور نفاذِ قانون کے لیے قوت بطور ایک آلہ کار کے طور پر اس کا اصل جواز ہے۔ خیر اور حقوق کی حفاظت کے لیے قوت کا استعمال ایک نعمت ہے لعنت نہیں۔ یہ لعنت اس وقت بنتی ہے جب اس کا رشتہ اخلاق‘ اقدار اور قانون سے  کٹ جائے۔ اقبال نے اسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:    ؎

اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں
سو بار ہوئی حضرتِ انساں کی قبا چاک
تاریخ امم کا یہ پیام ازلی ہے
صاحب نظراں! نشۂ قوت ہے خطرناک
لادیں ہو تو ہے زہرِ ہلاہل سے بھی بڑھ کر
ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک

قوت کا استعمال ‘ تشدد اس وقت بن جاتا ہے جب وہ دینی و اخلاقی اورقانون و ضوابط سے بے نیاز ہوکر ذاتی مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال ہو۔ قتل و غارت گری‘ لوٹ مار‘ ظلم و زیادتی اس کا نتیجہ ہیں اور اس لیے تشدد جرم اور قابل مواخذہ ہے۔ دہشت گردی‘ قوت اور تشدد دونوں سے مختلف ہے۔ یہ محرومی اور    بے بسی کے جواب میں سیاسی مقاصد کے لیے قوت کا ایسا استعمال ہے جس کا ہدف کوئی ذاتی فائدہ حاصل کرنا نہ ہو بلکہ مقابل قوت کو متوجہ بلکہ خائف کرنے کے لیے کوئی ایسی چونکا دینے والی کارروائی کرنا ہے جو نقصان بھی پہنچائے اور توجہ کو اس مقصد کی طرف مبذول کرانے کا ذریعہ بنے جس کے لیے تشدد کا ارتکاب کیا گیا ہے۔  اسی لیے اسے طاقتور کے مقابلے میں کمزور کا ہتھیار کہا گیا ہے (ملاحظہ ہو‘ ہن ٹنگٹن کی کتاب Clash of Civilizations)۔

بات اس کے جواز اور عدم جواز کی نہیں۔ مسئلے کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ دہشت گردی ایک برائی اور قابل مذمت اقدام ہے مگر دہشت گردی کا مقابلہ تشدد‘ جنگ اور ظلم و زیادتی میں اضافے سے نہیں ہوسکتا۔ یہ تاریخ کا واضح سبق ہے اور گذشتہ دو سو سال کی تاریخ بھی اس پر گواہ ہے۔ سامراج کے مظالم‘ بیرونی قبضے اورسماجی‘ معاشی اور سیاسی حقوق کُشی کے ردعمل میں رونما ہونے والی تحریکوں کو‘ خواہ وہ تشدد اور دہشت گردی کے حربوں کواستعمال کرنے پر ہی کیوں نہ اتر آتی ہوں‘ محض قوت کے استعمال سے ختم نہیں کیا جا سکا اور ساری جنگ آزمائی کے بعد بالآخر معاملات کی اسی وقت اصلاح ہو سکی اور تصادم اور کشت و خون کا خاتمہ ممکن ہوا جب اصل اسباب کو دُور کرنے کی کوشش ہوئی اور مسائل کا سیاسی حل تلاش کیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اس نوعیت کی جنگ ہے اور ہو سکتی ہے جسے غربت کے خلاف جنگ‘ یا بیماری اور خوف کے خلاف جنگ!

دہشت گردی کا سدباب صرف اس وقت ممکن ہے جب ان اسباب کا سدباب کیا جائے جو دہشت گردی کو جنم دیتے ہیں۔ اصل سوال ہے ہی یہ کہ وہ کیا عوامل ہیں جو معصوم انسانوں کو اپنی جان تک دینے پر مجبور کرتے ہیں؟ برطانوی وزیراعظم کی اہلیہ شیری بلیر نے فلسطینی خودکش حملہ کرنے والوں کے بارے میں کہا تھا کہ جب تک ان اسباب و عوامل کی فکر نہ کی جائے جو نوجوانوں کو اپنے پرخچے اڑانے پر مجبور کرتے ہیں‘ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا لیکن بش اور شیرون اس زعم میں مبتلا ہیں کہ محض قوت اور تشدد کے ذریعے وہ مجبور انسانوں کو ہمیشہ کے لیے اپنے حق کے لیے لڑنے سے روک سکتے ہیں تو یہ خام خیالی ہی نہیں‘ جنگ و جدال اور مزید تشدد اور دہشت گردی کے فروغ کا تیر بہ ہدف نسخہ ہے۔ برطانوی رکن پارلیمنٹ جان گالووے نے اس بات کو لندن کے دی گارڈین میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں یوں بیان کیا ہے:

یہ ایک مسلسل جنگ اور عالمی ہل چل کی ترکیب (recipe) ہے۔ یہ دہشت گردی پھیلانے کی بھی ترکیب ہے۔ اور پوری مسلم دنیا اور اس کے باہر بھی بن لادن کے لیے اسلحہ خانے پیداکرنے کی ترکیب (دی گارڈین‘ دی نیوز‘ ۱۳ اگست ۲۰۰۲ء)

امریکہ کے دفاعی اطلاعات کے مرکز کے محقق مارک برگس نے امریکی صدر کے اعلان جنگ کے بارے میں درست ہی کہا ہے کہ:

بن لادن کے خلاف صدر کا صلیبی جنگ کا اعلان بن لادن کے تصورِ جہاں کے عین مطابق ہے اورمیں یہ نہیں کرنا چاہتا۔

رینڈ کرپوریشن کے اسکالر پارچینی کا یہ بیان حال ہی میں امریکی اخبارات میں شائع ہوا ہے کہ:

اگر آپ دہشت گردی کی اس صورت حال کو دیکھیں تو آپ اسے ایک سادہ ‘یک رخا سیاسی فیصلے کی حیثیت سے نہیں دیکھتے۔ عوامل کا ایک مجموعہ اسے متحرک رکھتا ہے۔

فلپائن کے صدر کے ایک مشیر Jose T. Almonte نے  انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون کے جولائی ۲۰۰۲ء کے آخری ہفتے کے ایک شمارے میں بہت کام کی بات لکھی ہے:

دہشت گردی کو جڑسے اکھاڑنے کے لیے ناگزیر طور پر سفارتی‘ سیاسی‘ معاشی‘ مالیاتی اور ثقافتی اقدامات بشمول پولیس اور فوجی اقدام کے کرنا ہوں گے۔ ترقی پذیر دنیا کے بیش تر حصوں میں سیکولر ریاست اپنی سیاسی‘ آزادی‘ معاشی خوش حالی اور عدل و انصاف کے وعدوں کو پورا نہیں کرسکی ہے۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘ خلیج ٹائمز‘ ۳۰ جولائی ۲۰۰۲ء)

بات درست ہے لیکن آل مونٹے نے آدھی بات کہی ہے۔ سیکولرزم کی ناکامی اور سماجی انصاف سے محرومی کے ساتھ سیاسی ظلم اور غیرملکی قبضے بھی ایک اہم سبب ہے۔ فلسطین‘ کشمیر‘ منٹارانو‘ شیشان اور متعدد مقامات پر سیاسی غلامی اور استبداد اوردنیا کے مختلف علاقوں میں امریکی فوجی تسلط اور مداخلت بھی نفرت اور انتقام کی آگ کوہوا دے رہے ہیں۔ صدر بش کی زبان سے بھی ۱۱ ستمبر اور دہشت گردی کے اسباب کے سلسلے میں یہ الفاظ نکل ہی گئے جو خودکسنجر نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں نقل کیے ہیں کہ:

یہ اس کے بغیر ممکن نہیںتھا کہ ان ممالک کی خاموش حمایت کا تعاون حاصل ہوتا جو جارج ڈبلیو بش کے الفاظ میں ’’دہشت گردی‘‘ کی مخالفت کرتے ہیں لیکن اس نفرت کو انگیز کرتے ہیں جو دہشت گردی کرتی ہے (لاس اینجلز ٹائمز‘ سنڈیکیٹ‘ ڈان‘ ۱۱ اگست ۲۰۰۲ء)۔

بش اور کسنجر یہاں تک تو آئے مگر اس پر غور نہ کیا کہ اس نفرت (hatred) کوپیدا کرنے والے عوامل کیا ہیں؟ کسنجرنے اعتراف کیا ہے کہ:

امریکی حکمت عملی کو ان ناراضیوں کی جائز وجوہات کو دُور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے

لیکن اس سانس میں پھر سارا زوراسی بات پر ہے کہ ان افراد اور حکومتوں کو سبق سکھائو جہاں یہ دہشت گرد پائے جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ مفاد اور غیظ و غضب اور عناد نے آنکھوں پر بالکل پٹی باندھ دی ہے ورنہ یہاں تک آنے کے بعد دوسرا اور فطری سوال یہی تھا کہ ان اسباب کو دُور کرنے کی فکر کی جائے جو معصوم انسانوں کو اس انتہا کی طرف لے جا رہے ہیں۔ اصل سبب ظلم اور ناانصافی کا وہ نظام ہے جس میں فلسطین پر اسرائیل ناجائز طور پر قابض ہو کر وہاں ریاستی دہشت گردی کر رہاہے‘ کشمیر پربھارت کا تسلط ہے اور وہ ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ شیشان پر روس کا فوجی کنٹرول اور مینڈانائو پر فلپائن کی حکومت کی فوج کشی ریاستی دہشت گردی ہے۔ گویا عالمی سطح پر امریکہ کے بالادستی کے منصوبے اورپوری عسکری‘ سیاسی‘ معاشی اور ثقافتی یلغار ہی وہ اصل سبب ہے جس نے مجبورانسانوں کو بغاوت اور پھر خود تشدد پر ابھارا ہے۔

اس بنیادی حقیقت کو نہ سمجھنا یا جانتے بوجھتے ہوئے اسے نظرانداز کرنا سارے فساد کی جڑ اور پوری دنیا کو شدید بحران میں مبتلا رکھنے کا ذریعہ ہے۔ فلسطین ہویا کشمیر‘افغانستان ہو یا شیشان‘ باسک (اسپین) ہویا مینڈانائو (فلپائن) مسئلہ ایک ہی ہے۔ عوام کے احساسات کا عدم ادراک‘ ناانصافیوں اور مظالم سے بے نیازی‘ نفرت اور بے چینی کے اسباب سے لاتعلقی اور محض علامات اور ظاہری عوامل کا خبط (obsession) جب کہ زمینی حقائق اور زیرزمین کام کرنے والے حقیقی محرکات واسباب سے صرف نظر آج کی قیادتوں کا مسئلہ اور مرض ہے۔ افغانستان میں القاعدہ کے خلاف جنگ اور اس کے اثرات و نتائج اس کی ایک نمایاں مثال ہیں۔ ۱۱ستمبر کے ’’مجرموں‘‘ کو سزادینے کے لیے اقدام کیا گیا اور اسامہ بن لادن ’’زندہ یامردہ‘‘ کوہدف بنایا گیا--- طالبان اس لیے گردن زدنی ٹھہرے کہ اسامہ افغانستان میں پناہ گزین تھا۔ آزادی کے نام پر افغانستان تباہ ہو گیا لیکن اس کی آزادی کا یہ حال ہے کہ امریکہ کے لائے ہوئے صدر کی حفاظت کے لیے بھی امریکی میرین درکار ہیں۔ افغان اپنے صدر کو بھی تحفظ فراہم نہیں کر سکتے۔ ملک ایک بار پھر اقتدار کے ٹکڑوں اور حلقوں میں بٹا ہوا ہے۔ ہر روز دو طرفہ کارروائیاں ہو رہی ہیں اورامن و سکون ناپید ہیں۔ تعمیرنو کا کہیں دور دور پتا نہیں اورامریکی کمانڈر کہہ رہے ہیں کہ ہمارا افغانستان میں قیام‘ کوریا کی طرح مستقل اور لامتناہی ہے۔ القاعدہ جن کو ساری برائیوں کا مرجع اور جامع قرار دیا جا رہا ہے وہ امریکہ کے کتنے ہی مبغوض کیوں نہ ہوں‘ افغان عوام کے آج بھی ہیرو ہیں۔ اگر امریکہ اور اس کے ہمراہی بشمول جنرل پرویز مشرف ان حقائق کو نہیں دیکھ سکتے تو اسے کورچشمی ہی کہا جا سکتا ہے۔

ع  جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ توسارا جانے ہے

پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں القاعدہ کے خلاف کارروائیوں میں ۱۰ پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے‘ اس کی جوروداد ٹائم کے ۲۹ جولائی کے شمارے میں شائع ہوئی ہے وہ چشم کشا ہے۔ عبدالرئوف نیازی جو پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے کا افسر اورامریکی تلاش القاعدہ مہم کا رہبر تھا اس تصادم میں مارا گیا۔ مگر جب اس کی لاش اس کے گھر لائی گئی تو دیکھیے خود اس کا باپ ‘ جس کا وہ لخت جگر تھا اور جسے اس نے نہ معلوم کن کن تمنائوں کے ساتھ پالا اور دفاع وطن کے لیے پاکستانی افواج کے سپرد کیا تھا‘ کیا کہتا ہے:

نیازی کا اپنا باپ اپنے بیٹے کومسلمانوں کا غدارسمجھتا ہے۔ اس نے اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا: ’’بش آئے اور میرے بیٹے کے لیے دعا کرے‘ میں نہیں کروںگا‘‘ (ٹائم‘ ۲۹ جولائی ۲۰۰۲ء‘ ص ۱۵)۔

افغانستان میں القاعدہ کے شہدا کے بارے میں افغانستان کے عام مسلمانوں کا آج بھی کیا رویہ ہے اس کے بارے میں رابرٹ فسک کی تازہ ترین رپورٹ جو اس وقت افغانستان کا دورہ کر رہا ہے اور لندن کے اخبار انڈی پنڈنٹ میں اپنی روداد سفر شائع کر رہا ہے ‘پڑھنے کے لائق ہے۔ امریکہ کے ذریعے طالبان سے ’’آزادی‘‘ کے آٹھ مہینے کے بعد ۱۳ اگست ۲۰۰۲ء کی صورت حال یہ ہے۔ یہ رابرٹ فسک شہداے القاعدہ کے ایک قبرستان کا منظر یوں بیان کرتا ہے:

ان کی ولیوں کی طرح عزت کی جاتی ہے۔ ڈھیروں مٹی کے نیچے القاعدہ کے شہدا آرام کررہے ہیں۔ یہ عرب ہیں‘ پاکستانی ہیں‘ چیچن ہیں‘ قاذق ہیں اور کشمیری ہیں۔اگر آپ پروپیگنڈے پر یقین کریں تو یہ قندھار کے پشتونوں کی نفرت کا نشانہ ہیں۔ یہ سچ نہیں ہے۔ جس وقت امریکی اسپیشل فورس کے جواں اس سرحدی گرم شہر کی سڑکوں پر گشت کرتے ہیں‘ اس وقت قندھار کے لوگ سیکڑوں کی تعداد میں ان مزاروں پر آتے ہیں۔ جمعہ کے دن میلوں سفر کرکے ہزاروں کی تعداد میں آتے ہیں۔ یہاں آنے والوں کے لیے قندھار کا قبرستان مذہبی کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی سبق بھی ہے۔ غیر ملکی حیران ہوتے ہیں کہ انھیں کس چیز کی کشش یہاں لا رہی ہے۔ شفا کی افواہیں اور روایات؟ یہ بات کہ انھوں نے غیر ملکیوں کا آخر دم تک مقابلہ کیا؟ ہتھیار ڈالنے پر جان دینے کو ترجیح دی؟ غیر افغانی شہدا افغانیوں کی طرح لڑے؟ اچھا ہی ہے کہ امریکی خصوصی افواج کے افراد یہاں نہیں آتے۔ وہ ایسے مناظر دیکھیںگے جو ان کو پریشان کریں گے اور پریشان کرنا چاہیے۔ (دی انڈی پنڈنٹ‘ دی نیشن‘ ۱۳ اگست ۲۰۰۲ء)

صرف امریکی فوجی ہی اس حقیقت کو دیکھنے سے نہیں گھبراتے ہیں‘امریکی قیادت اور خود پاکستان کی قیادت بھی اس جرم میں برابر کی شریک ہے‘ لیکن کیا کبوتر کے آنکھیں بند کرنے سے حقائق بدل جاتے ہیں اور خطرات ٹل جاتے ہیں؟ فاعتبروایااولی الابصار۔

ان زمینی حقیقتوں کے بیان اور مسئلے کے اصل اسباب و عوامل کی نشان دہی کے سلسلے میں رابرٹ فسک تنہا نہیں ہے۔  نیوزویک (۱۹ اگست ۲۰۰۲ء)میں بھی القاعدہ پر ایک مفصل مضمون شائع ہوا ہے۔ اس میں بھی یہ اعتراف موجود ہے۔ اس بار سرزمین پاکستان کی ہے مگر جان دینے والے وہی امریکہ کا دردسر بننے والے مجاہد ہیں۔ ایک معرکے میں ۱۰ مجاہد شہید ہوئے ہیںاور ۶ فوجی جوان مارے جاتے ہیں۔ مرنے والے فوجیوں کی خبرلینے والا تو کوئی نہیں تھا مگر شہدا کی قبریں چشم زدن میں مرجع خاص و عام بن گئیں۔  نیوزویک کی رپورٹ ہے:

۱۰ شہدا کے مزار ایک مقدس جگہ بن گئے ہیں۔ بینرز لگے ہوئے ہیں: القاعدہ زندہ باد‘ طالبان زندہ باد۔ یہ لوگ مقدس شہدا ہیں۔ ایک زائر نے نیوزویک کو بتایا: اس جگہ کی زیارت سے مجھے امریکہ دشمنی کے جذبات ملے ہیں۔ (نیوز ویک‘ ۱۹ اگست ۲۰۰۲ء‘ ص ۱۴)

زیرزمین لاوا پک رہا ہے۔ نفرتوں کے طوفان بادلوں کے سینوں میں منتظر ہیں۔ زمینی حقائق ناقابل انکار ہیں۔ اسباب و عوامل بے چینی‘ اضطراب‘ بغاوت اور انقلاب کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ ان حقائق کو نظرانداز کر کے محض قوت کے زعم میں ‘ گولہ بارود کے ذریعے‘ انقلاب کی لہروں کو روکا نہیں جا سکتا۔ امریکی قیادت کے تصورات اور دعووں--- اور عوامی جذبات ‘ احساسات‘ عزائم اور امنگوں کے درمیان ایک عظیم خلیج حائل ہے جو حقیقت پسندی پر مبنی حکمت عملی اور پالیسی کی راہ استوار ہونے میں اصل رکاوٹ ہے۔ دنیا کا کون سا مسئلہ ہے جس کا حل ممکن نہیں لیکن مسائل کے حل کے لیے بھی ضروری ہے کہ حقیقت پسندی سے اصل احوال و عوامل کا جائزہ لیا جائے اور حقیقی اسباب تک رسائی حاصل کر کے ان کے سدباب کی کوشش کی جائے۔ طاقت کے نشے میں حواس کا توازن منتشر ہے اور پروپیگنڈے کی دھول میں بصارت دھندلا گئی ہے۔ علامتوں اور مظاہر پر ساری توجہ ہے اور اسباب اور عوامل سے کلی صرفِ نظر کیا جا رہا ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جو خطرات کو بڑھا رہی ہے اور انسانیت کو آگ اور خون کی طرف دھکیل رہی ہے۔ افسوس ہے کہ امریکہ کی قیادت نے ۱۱ستمبر کے چشم کشا واقعات سے کوئی سبق نہ سیکھا۔ حالانکہ ۱۱ستمبر کا اصل پیغام صرف ایک ہی ہے: تشدد اور دہشت گردی کا خاتمہ تشدد اور دہشت گردی سے نہیں کیا جاسکتا۔ لوگوں کی بے چینی‘ نفرت اور بغاوت کے اسباب کی تفہیم اور حالات کی ایسی اصلاح ہی امن و سلامتی کے ضامن ہو سکتے ہیں جس کے نتیجے میں ظلم ختم ہو‘ لوگوں کو انصاف اور جائز حقوق میسر آئیں۔ آزادی اور عزت کے ساتھ وہ اپنے معاملات طے کر سکیں اور امیر اور غریب‘ قوی اور کمزور‘ بڑے اور چھوٹے‘ سب دوستی اور بھائی چارے کی فضا میں تعاون اور افہام و تفہیم کے ساتھ باوقار زندگی گزارسکیں۔

یاد رکھیے امن اور ظلم‘ سلامتی اور سامراج‘ آزادی اور چند کی بالادستی ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ آزادی کی ضمانت اسی وقت ممکن ہے جب سب کے لیے آزادی ہو‘ اہل ثروت اسی وقت محفوظ رہ سکتے ہیں جب سب کو دو وقت کی روٹی میسر ہو۔ چین اور آشتی ممکن ہی اس حالت میں ہیں جب قانون سب کے لیے ایک ہو اور انصاف کی میزان میں کوئی کسی سے بڑا اور مختلف نہ ہو۔ ۱۱ ستمبر کے واقعات نے امریکہ کی قیادت کو جس رخ پر ڈال دیا ہے اور پوری دنیا ان کی جن ستم کاریوں کی آماجگاہ بن گئی ہے ‘ امن‘ سلامتی اور انصاف کا راستہ نہیں‘ وہ صرف اور صرف سب کی تباہی کا راستہ ہے۔ اس تباہی سے بچنے کی ایک ہی صورت ہے کہ اب بھی آنکھیں کھول لی جائیں‘حقائق کو کھلے ذہن سے تسلیم کیا جائے‘ سطحی ردعمل کی جگہ گہرائی میں جا کر حالات کا تجزیہ کیا جائے اور بگاڑ کے اسباب کا سدباب کیا جائے (فلسطین کی صورت حال کے بارے میں چنبٹ ریڈنگ نے ایک جملے میں ایک گمبھیر مسئلے کا تجزیہ اور حل بیان کر دیا ہے جو نوٹ کرنے کے لائق ہے اور تمام متنازعہ امور کے بارے میں ایک مثبت نقطۂ نظر کی نمایندگی کرتا ہے۔ اس نے لکھا ہے: ’’اگر اسرائیلی حکومت لوگوں کو ان کا حق دینے کے لیے تیار نہیں تو اسے خودکش بم حملوں کے رکنے کی توقع نہیں کرنی چاہیے‘‘۔ نیوزویک ۱۲ اگست ۲۰۰۲ء)۔ انسانیت کے حقیقی بہی خواہ‘ بلالحاظ اس کے کہ ان کا تعلق کس مذہب ‘ کس علاقے اورکس طبقے سے ہے‘ بڑا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ خود اُمت مسلمہ اور پاکستان کی بڑی ذمہ داری ہے لیکن ان کا حال بھی اتنا ہی تشویش ناک ہے جتنا امریکہ کی قیادت کا--- افسوس‘ صدافسوس!

کر سکتے تھے جو اپنے زمانے کی امامت
وہ کہنہ دماغ اپنے زمانے کے ہیں پیرو

پھر بھی ہم مایوس نہیں‘ اس لیے کہ:

ایسی بھی کوئی شب ہے جس کی سحر نہ ہو