دسمبر ۲۰۰۳

فہرست مضامین

صدر بش کا جہادِ جمہوریت! ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں

پروفیسر خورشید احمد | دسمبر ۲۰۰۳ | شذرات

Responsive image Responsive image

صدربش بڑے باہمت لوگوں میں سے ہیں اور اگر ان کے ایک غبارے میں سے ہوا نکل جاتی ہے تو فوراً ہی دوسرا غبارہ فضا میں لے آتے ہیں۔ انتخاب سے پہلے انھوں نے قوم اور دنیا کو یہ امید دلائی تھی کہ امریکہ کے لیے صحیح رویہ انکساری اور غرور و تکبر سے پرہیز ہے لیکن صدر بننے کے بعد اور خصوصیت سے ۱۱ستمبر۲۰۰۱ء کے واقعے کے بعد غرورو تکبر ان کی پہچان اور امریکی پالیسی کا مزاج بن گئے‘ اور جس فرعونیت کا انھوں نے مظاہرہ کیا ہے اس نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے۔ پھر انصاف کے نام پر انتقام کی روش پر وہ گامزن ہو گئے اور افغانستان کو تہس نہس کر ڈالا۔ پھرعمومی تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں(WMD)کی تلاش ان کا ہدف بن گیا اور وہ ہاتھ دھو کر عراق اور صدام کے پیچھے پڑ گئے۔ اس زمانے میں کروسیڈز (صلیبی جنگیں)کا شوق بھی ان کو لاحق ہو گیا۔ عالمِ اسلام کی منفی رائے کی روشنی میں وہ اس لفظ کے استعمال کے باب میں محتاط ہو گئے لیکن عملاً وہ اور ان کے ساتھی امریکہ ہی نہیں پوری دنیا میں کروسیڈز میں مصروف ہیں اور ہدف مسلمان اور عرب ممالک ہیں۔ پھر بش ڈاکٹرائن(Bush Doctrine) نے جنم لیا اور اس میں پیش بندی کے طور پر حملے اور حکومتوں کی تبدیلی کے اہداف مرکزیت اختیار کر گئے۔ امریکہ نے ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود عراق پر فوج کشی کی اور اب ایک ایسی دلدل میں پھنس گئے ہیں جو امریکیوں کو ویت نام کے خوف ناک خواب (nightmare)کی یاد دلا رہی ہے۔

عراق میں گئے تھے اس دعوے کے ساتھ کہ تباہی کے ہتھیاروں کا پردہ چاک کر دیں گے لیکن پردہ ان کے دعویٰ کا چاک ہوا۔ نہ کوئی عمومی تباہی کے ہتھیار وہاں سے ملے اور نہ ان کو تیار کرنے کی صلاحیت کا کوئی ثبوت وہ پاسکے۔ پھر ان کا خیال تھا کہ عراقی عوام ان کو اپنا نجات دہندہ سمجھیں گے اور سر پر بٹھائیں گے لیکن عملاً عراقی عوام نے ان کے قبضے کو سامراجی قبضہ قرار دیا اور اس کے خلاف مزاحمت کی تحریک روز بروز طاقت پکڑ رہی ہے‘ اور امریکی عوام روزانہ اپنے فوجیوں کی لاشوں کے تحفے وصول کر رہے ہیں۔ اس نے ملک کے طول و عرض میں بے چینی اور اضطراب پیدا کردیا ہے اور بش مخالف رجحان کو تقویت دی ہے۔ ان حالات میں        بش صاحب اپنی فوج کشی کے لیے ایک نئے جواز اور عالمی کروسیڈ کے لیے ایک نئے ہدف کی تلاش میں ہیں۔ قرعہ فال اس دفعہ ’’جمہوریت کے عالمی فروغ‘‘ کے نام نکلا ہے۔ ۶نومبر کو National Endowment for Democracy  کے ایک اجتماع میں ایک اہم پالیسی خطاب میں صدربش نے کہا کہ امریکہ کی ۶۰سالہ پالیسی جس کے تحت سیاسی آزادیاں نہ دینے والی حکومتوں کی حمایت کی گئی ناکام ہوگئی ہے۔ اس پالیسی نے امریکہ کو کوئی تحفظ فراہم نہیں کیا کیونکہ آزادی کی قیمت پر استحکام حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ انھوں نے خصوصیت سے پورے مشرق وسطیٰ کے لیے جمہوریت کی ضرورت پر زور دیا اور جمہوریت کی کمی کو تشدد اور دہشت گردی کا ایک اہم سبب قرار دیا اور آمریت اور تھیاکریسی (ملائیت) کو خصوصیت سے تنقید کا ہدف بھی بنایا۔ کچھ ممالک کو نام لے کر نشانہ بنایا اورکچھ کے بارے میں واضح اشارے دیے۔ اب اس تقریر کو عراق میں فوج کشی جاری رکھنے کے لیے وجہِ جواز بنایا جا رہا ہے اور آیندہ کی جولانیوں کے لیے فضا ہموار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

آزادی اور جمہوریت دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کو عزیز ہے لیکن اس لیے نہیں کہ امریکہ ان کے لیے جمہوریت کی کوئی شکل فراہم یا مسلط کرے۔ یہ ان کا داخلی معاملہ ہے اور اپنے سیاسی نظریات اور تہذیبی روایات کی روشنی میںوہ اپنے نظام کی اصلاح اپنی ذمہ داری سمجھتی ہیں۔ امریکہ جمہوریت کے بارے میں کتنا مخلص ہے اس کا اندازہ اس کے تاریخی کردار کے علاوہ آج کے سامراجی عزائم سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کی پالیسی منافقت اور دوغلے پن پر مبنی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ ان کے دعووں کو خود امریکی عوام اب تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ تازہ ترین عوامی جائزوں کے مطابق امریکی عوام کے ۵۰ فی صد سے زیادہ یہ سمجھتے ہیں کہ امریکی قیادت نے ان سے غلط بیانی کی اور عراق پر حملے کے لیے کوئی حقیقی جواز موجود نہیں تھا۔

حال ہی میں ٹائم یورپ نے ایک عالمی سروے کیا جس میں ۷ لاکھ افراد نے حصہ لیا۔ سوال یہ تھا کہ دنیا کو آج سب سے زیادہ خطرہ کس سے ہے؟ اس کے جواب میں ۸۷ فی صد نے کہا :امریکہ۔ شمالی کوریا کو خطرہ سمجھنے والے صرف ۷.۶ فی صد تھے اور ایران کو ۳.۶۔

صدر جارج بش نے امریکہ کے دستور اور جمہوری روایات کو بری طرح پامال کیا ہے۔ آج قانون کی حکمرانی کا اصول جو جمہوریت کی روح ہے‘ خود امریکہ میں ہزاروں انسانوں کے لیے توڑا جا رہا ہے۔ عدالتی حکم اور جرم کے ثبوت کے بغیر انسانوں کو آزادیوں سے محروم کرنا جمہوریت نہیں جنگل کا قانون ہے۔ امریکہ اس پر گامزن ہے۔ گوانٹاناموبے میں دو سال سے سیکڑوں افراد ہر قسم کی قانونی دادرسی سے محروم پڑے ہوئے ہیں اور امریکہ دنیا کو جمہوریت کا وعظ پلا رہا ہے۔ حب الوطنی کے نام پر شہریوں کے پرائیویسی کے حق کو پامال کیا جا رہا ہے۔ امیگریشن قوانین کو انسانوں کے درمیان بدترین امتیازکے لیے بے محابا استعمال کیا جا رہا ہے۔ میڈیا نئے قسم کے موثر thought control(سوچ پر پابندی) کا آلہ بن گیا ہے اور فکری آزادی کو زنجیریں پہنانے کے لیے امریکہ کے ایوانِ نمایندگان نے ۲۱ اکتوبر کو ایک ایسا قانون (HR 3077) عظیماکثریت سے منظور کر لیا ہے جس کی رو سے جامعات میں تعلیم اور تحقیق کی آزادی کو محدود کیا جا رہا ہے اور خصوصیت سے شرق اوسط کے بارے میں نصابات‘ اساتذہ اور تحقیق کو بیڑیاں پہنائی جا رہی ہیں۔

امریکہ نے خود اپنی سرزمین پر بسنے والے اصل باشندوں سے جنھیں ریڈ انڈین کہا جاتا ہے‘ کیا سلوک کیا۔ اپنی سیاہ فام آبادی جسے اب ایفرو امریکن کہا جاتا ہے اور جو آبادی کا پانچواں حصہ ہے‘ اس کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا اور زیادہ ’مہذب‘ (sophisticated) شکلوں میں آج بھی ہو رہا ہے۔ اسے اگر نظرانداز بھی کر دیا جائے اور صرف جارج بش کے دورِاقتدار کے جمہوریت کش اقدامات کا جائز ہ لیا جائے توجمہوریت اور آزادیوں کا حال صدر بش کے امریکہ میںدگرگوں ہے--- دنیا کو جمہوریت کا سبق سکھانے سے پہلے اگر وہ خود اپنے گھر کی کچھ فکر کرلیں تو امریکہ کے لیے بہتر ہوگا۔

صدربش کی تقریر سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اب جمہوریت کے عنوان کو وہ اپنے سامراجی عزائم کے فروغ کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان کو اس میں بھی اسی طرح ناکامی ہوگی جس طرح افغانستان اور عراق میں ہوئی ہے۔ ہمیں خطرہ ہے کہ جس طرح دہشت گردی کے خلاف ان کی نام نہاد جنگ مزید دہشت گردی کو فروغ دینے کا ذریعہ بن رہی اسی طرح جمہوریت کے فروغ کی جنگ جمہوریت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوگی    ؎

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو