پروفیسر خورشید احمد


بیسویں صدی میں اسلامی احیا کی تحریک نے مشرق اور مغرب کے ہر ملک میں زندگی اور بیداری کی نئی لہر دوڑا دی ہے۔ ہر ملک اور ہر علاقے کی اپنی اپنی خصوصیات اور اپنے اپنے تجربات ہیں لیکن ترکی اور ملایشیا دو ایسے ملک ہیں جہاں تجدید و احیا کی تحریک نے ایمان کو تازہ اور دلوں کو گرما دیا ہے۔

ملایشیا کی اسلامی تحریک کے قائدین سے میرے تعلقات کا آغاز اس وقت ہوا جب میں اسلامی جمعیت طلبہ کا ناظم اعلیٰ تھا اور ملایشیا ابھی برطانوی سامراج کی ایک کالونی اور صرف ملایا (Malaya)تھا۔ الاستاذ ابوبکر اس وقت اسلامی پارٹی کے سربراہ تھے اور ان موتمرات میں شریک ہوئے تھے جو قیام پاکستان کے فوراً بعد کراچی میں منعقد ہو رہی تھیں۔ ربط و تعلق کا یہ سلسلہ ۱۹۷۳ء سے بہت گہرا ہو گیا جب طلبہ انجمنوں کے عالمی اسلامی وفاق (IIFSO) اور مسلم نوجوانوں کی عالمی اسمبلی (WAMY) میں ملایشیا کے نوجوان قائد انور ابراہیم نے نمایاں کردار ادا کرناشروع کیا۔ انور اس وقت وہاں کی نوجوانوں کی تنظیم آبیم (ABIM) کے صدر اور ملایشیا کے افق پر ایک اُبھرنے والے سورج کی مانند تھے۔ ۱۹۷۳ء ہی میں مجھے  پہلی مرتبہ ملایشیا جانے اور ان کی پوری ٹیم سے ملنے کا موقع ملا۔ جن حضرات نے پہلی ہی ملاقات میں متاثر کیا ان میں فاضل نور بھی تھے جو اس وقت آبیم کے نائب صدر تھے۔ پھر اس کے صدر بنے۔ ملایشیا کی اسلامی تنظیم اور ایک اہم سیاسی قوت  پاس (Parti Islamic Malaysia) کے نائب صدر‘ رکن پارلیمنٹ‘ صدر اوربالآخر پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف منتخب ہوئے اور ۶۵ سال کی عمر میں ۳۲ سال کی سرگرم تحریکی اورسیاسی جدوجہد کے بعد ۲۳ جون ۲۰۰۲ء کو اپنے خالق سے جا ملے اور لاکھوں انسانوں کو سوگوار چھوڑ گئے--- انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

الاستاذ فاضل نور ۱۳ مارچ ۱۹۳۷ء کو ملایشیا کی ریاست کیداہ (Kedah) کے ایک مضافاتی علاقے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر ہی پر ہوئی۔ ان کے دادا توان گرو حاجی ادریس الجرمانی ملک کے نام ور علما میں سے تھے۔ انھوں نے اپنے پوتے کی تعلیم و تربیت پرخصوصی توجہ دی۔ ابتدائی تعلیم سرکاری مدرسے میں حاصل کرنے کے بعد ایک دینی مدرسہ مکتب محمود میں دینی تعلیم حاصل کی اور پھر ۱۹۶۳ء سے ۱۹۶۹ء تک جامع الازھر قاہرہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ واپسی پرکچھ عرصے مکتب محمود ہی میں تدریس کے فرائض انجام دے کر ملک کی مشہور ٹیکنیکل یونی ورسٹی (یو ٹی ایم) میں اسلامیات کے پروفیسر مقرر ہوئے جہاں ۱۹۷۸ء تک‘  جب ان کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے ملازمت سے فارغ کر دیا گیا‘یہ خدمات انجام دیتے رہے۔ فاضل نور نے عدالتی چارہ جوئی کی۔ گو کامیاب رہے لیکن پھر یونی ورسٹی کی ملازمت کو خیرباد کہہ کر ہمہ وقت سیاسی اور تحریکی زندگی میں سرگرم ہو گئے۔ ۱۹۸۰ء میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ ۱۹۸۹ء میں پاس کے صدر منتخب ہوگئے اور ۱۹۹۹ء میں ان کی قیادت میں پاس کی غیر معمولی کامیابیوں کے بعد جب قومی اسمبلی میں ان کو ۲۷ نشستیںحاصل ہوئیں تو ملک کی پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف مقرر ہوئے اور ملایشیا کے متوقع وزیراعظم کی حیثیت اختیار کرلی۔ فاضل نور کو دینی اورسیاسی ہرحلقے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور ان کو ایک اصول پسند‘ محنتی‘ بالغ نظر اور معتدل سیاسی لیڈر کی حیثیت حاصل تھی۔ ان کی مقبولیت کا اندازہ ان کے جنازے کے جلوس سے ہوتا تھا جس میں لاکھوں افراد نے شرکت کی‘ بار بار نماز جنازہ ادا کرنی پڑی۔ کوالالمپور سے ان کے جسم کو کیداہ میں ان کے آبائی گائوں میں سپرد خاک کیا گیا۔ مبصرین کی گواہی ہے کہ ملایشیا کی حالیہ تاریخ میں جنازے میں عوامی شرکت کی ایسی مثال نہیں ملتی   ع

ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر

امام احمد بن حنبل ؒ نے اپنے ابتلا کے دور کے بعد برسراقتدار برخود غلط حکمرانوں کو خطاب کر کے کہا تھا کہ ہمارے اور تمھارے درمیان فیصلہ موت کے وقت ہوگا (بینی وبینکم یوم الجنائز)۔  اس تاریخی جملے کے دونوں پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ اصل فیصلہ موت کے بعد اللہ کے حضور اور اس کے رد و قبول سے ہوگا لیکن ایک پہلو یہ بھی ہے کہ خدا کے فیصلے سے پہلے خود خلق موت پر کیسا خراج پیش کرتی ہے۔ فاضل نور کا جنازہ خلق کی طرف سے عقیدت‘ محبت اور قبولیت کابے مثال مظاہرہ تھا۔

الاستاذ فاضل نور قدیم اور جدید دونوں علوم کا مرقع تھے۔ عربی اور انگریزی دونوں پر قدرت رکھتے تھے۔ گو اپنے رفقاے کار الاستاذ عبدالہادی اوانگ (پاس کے نائب صدر ‘ ریاست ترنگانو کے وزیراعلیٰ اور اب فاضل نور کی جگہ   پاس کے صدر) اور الاستاذ نک عزیز (ریاست کلنتان کے وزیراعلیٰ) کی طرح شعلہ بیاں مقرر نہ تھے مگر اپنے خیالات کا اظہار بڑی روانی سے نہایت ٹھنڈے انداز میں اور دلیل کی قوت سے کرتے تھے اور اپنے مخاطبین کو قائل کرنے کا ملکہ رکھتے تھے۔ انھوں نے بڑے نازک موقع پر نوجوانوں کی تحریک آبیم کی قیادت سنبھالی۔ یہ وہ وقت تھا جب انور ابراہیم نے مہاتیر محمد کی دعوت پر   اومنو (Umno) میں شرکت کرلی اور ملایشیا کی اسلامی تحریک ایک اندرونی چیلنج سے دوچار ہوگئی۔ فاضل نور اس وقت آبیم کے نائب صدر تھے اور انور ابراہیم کے دست راست سمجھے جاتے تھے لیکن آبیم کا صدر منتخب ہوکر انھوں نے بڑی حکمت اور توازن سے معاملات کوسلجھایا اور انور کے مخالف اور حامی دونوں حلقوں میں نہ صرف اپنی ساکھ قائم کی بلکہ تحریک کو انتشار اور تقسیم سے بچا لیا۔ جب آبیم سے فارغ ہوئے تو سیدھے پاس میں شریک ہوئے اور اس کے نائب صدر اوربالآخر صدر منتخب ہوئے۔ آبیم اور پاس کو ایک دوسرے سے قریب رکھا اور انور ابراہیم جس حکمت عملی پر کاربند تھے اس کی راہ میں بھی کوئی رکاوٹ نہ بنے‘ گو اپنے اصولی موقف پر قائم رہے اور پاس کو ایک آزاد اور متبادل سیاسی قوت کی حیثیت سے مضبوط سے مضبوط تر کرتے رہے۔

خود پاس  میں ۱۹۸۰ء کے عشرے میں بڑی اندرونی کش مکش تھی۔ داتو موسیٰ عصری کے دور میں پاس پر ایک طرف ملائی قومیت اور تشخص کا غلبہ رہا تو دوسری طرف برسرِاقتدار جماعت اومنو سے اشتراک اقتدارکا تجربہ (۷۹-۱۹۷۸ء) ہوا جو خاصا متنازع رہا۔ تجربہ کامیاب نہ ہو سکا اور پھر پاس میں قیادت آہستہ آہستہ علما کے گروہ کوحاصل ہوئی جس میں الاستاذ عبدالہادی اوانگ اور ان کے رفقا کا بڑا کردار تھا۔ فاضل نور اسی مکتب فکر سے وابستہ تھے۔ بالآخر پارٹی کی قیادت پھر علما کوحاصل ہوئی۔ الاستاذ یوسف روا صدر بنے اور فاضل نور نائب صدر۔ یہ قیادت مسلسل محنت اور دعوت اور خدمت کے ذریعے پاس کو سیاست  کے قومی دھارے میں لانے میں کامیاب ہوئی۔ پہلے کلنتان کی ریاست میں کامیابی حاصل ہوئی اور پھر ترنگانو میں‘اور ۱۹۹۹ء میں مرکزی پارلیمنٹ میں ۲۰فی صد نشستیں جیت کر پاس اصل حزب اختلاف بنی۔ چونکہ یہ انتخاب متبادل فرنٹ کے نام پر لڑا گیا تھا اس لیے سب کو ساتھ لے کر چلے اور فاضل نور قائد حزب اختلاف منتخب ہوئے۔

الاستاذ فاضل نور کو میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ ۳۰ سال کے دوران ان سے درجنوں ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ علمی‘ انتظامی‘ سیاسی‘ اختلافی غرض ہر طرح کے امور پر دل کھول کر بات چیت کے مواقع ملے ہیں۔ میں نے ان کو ایک سلجھا ہوا انسان پایا۔ علمی حیثیت سے باوقار‘ سیاسی اعتبار سے متوازن اور صلح جو‘ اصول کے معاملے میں جری اور ثابت قدم لیکن سیاسی اورشخصی دونوں میدانوں میں ٹھنڈے اور معتدل۔ دوسرے کے نقطۂ نظر کوسننے‘ سمجھنے اور اس کا احترام کرنے والے اور تصادم کے مقابلے میں تعاون اور اختلاف کے باوجود متفق علیہ معاملات میں اشتراک کی روش اختیار کرنے والے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس نے تصادم سے بھرپور سیاسی فضا میں ان کو تعاون اور قدر مشترک کے متلاشی قائد کا مقام دیا۔ وہ جوڑنے والے تھے‘ کاٹنے والے نہیں‘ سعدی کے انسان مطلوب کا ایک عملی نمونہ:

تو براے وصل کردن آمدی
نے براے فصل کردن آمدی

انورابراہیم کے اومنو میں جانے اور پھر مہاتیر محمد کے غضب اور انتقام کا نشانہ بن کر طوق وسلاسل کے اسیر بننے کے دونوں ادوار میں فاضل نور نے بڑی حکمت‘ معاملہ فہمی‘ توازن و اعتدال‘ حقیقت پسندی‘ اصولوں سے وفاداری مگر شخصی معاملات میں احترام اور تعلق خاطرکے اہتمام کی بڑی اعلیٰ اور روشن مثال نہ صرف یہ کہ قائم کی بلکہ پوری تحریک اور دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی اس راہ پر لانے اور قائم رہنے میں گراں قدر خدمات انجام دیں۔ یہ ان کا خلوص اور قائدانہ صلاحیت ہی تھی جس نے ملایشیا کی اسلامی تحریک اور پوری قوم کو انصاف اور اعتدال کے راستے پر رکھا۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ ’’انصاف سب کے ساتھ ضروری ہے‘ سیاسی اتفاق اور اختلاف کو انصاف کے تقاضوں کو متاثر کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘‘۔

الاستاذ فاضل نور کی خدمات بے شمار ہیں لیکن یہ ان کا منفرد کارنامہ ہے کہ پاس میںعلما کی قیادت کے غلبے کے باوجود انھوں نے تحریک کو قدیم و جدید کی جنگ سے بچا لیا اورسب کو ساتھ لے کرچلے اور جماعت میں وحدت ‘ یک رنگی اور اعتماد باہمی کی فضا پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے۔

ملایشیا کی سیاست میں ایک نازک مسئلہ ملائی شناخت (Malay Identity) کا ہے۔ ایک کروڑ ۱۰لاکھ کی آبادی کے اس ملک میں ملائی شناخت کے لوگ بمشکل ۵۴ فی صد ہیں۔ چینی شناخت کے لوگوں کی تعداد ۳۰‘ ۳۵ فی صد ہے اور باقی کا تعلق ہندستان سے آنے والوں سے ہے جن میں ۹۰ فی صد ہندو یا سکھ ہیں۔ اس طرح تین بڑی قومیتیں اور پانچ بڑے مذہب اسلام‘ عیسائیت‘ چین کا روایتی مذہب‘ ہندومت اور سکھ ازم یہاں پائے جاتے ہیں۔

ملائی شناخت والے لوگ ۱۰۰ فی صد مسلمان ہیں اور شروع میں پاس کی شناخت صرف ملائی تھی۔ پھر اس کا ہدف اسلام کا اجتماعی نظام ہے۔ اس بنا پر قومی شناخت کا مسئلہ خاصا پیچیدہ ہو گیا تھا۔ الاستاذ یوسف روا اور پھر خاص کر الاستاذ فاضل محمد نور کے دور میں پاس اسلامی شناخت اور ملائی آبادی سے انصاف کے ساتھ باقی قومیتوں سے بھی قریب آئی ہے اور ایک قومی سیاسی قوت بن کر اُبھری ہے۔ آج بھی شریعت سے وفاداری ‘ اسلامی نظام کا قیام اور باقی تمام قومیتوں سے انصاف اور ان کے ساتھ شرکت اقتدار کے نازک ہدف کو حاصل کرنے کے لیے پاس سرگرم عمل ہے۔ جن دوریاستوں میں اسے حکمرانی کا اختیار حاصل ہے ان میں اس نے سب کو ساتھ لے کر چلنے اور اپنے اصولوں پر قائم رہنے کی بڑی روشن مثال قائم کی ہے۔ یہ فاضل نورکا وہ کارنامہ ہے جو ملایشیا کے مستقبل کی صورت گری کے لیے ایک تاریخی عمل کی حیثیت سے جاری و ساری رہے گا اور صرف پاس اور ملایشیا ہی نہیں‘ پوری اسلامی دنیا کے لیے ایک اچھا نمونہ بنے گا۔ میں  تحدیث نعمت کے طور پر یہ ذکر کر رہا ہوں کہ خود مجھے‘ الاستاذ یوسف قرضاوی‘ الاستاذ راشد غنوشی اور دوسرے ساتھیوں کو اس حکمت عملی کے دروبست سنوارنے میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی ہے اور یہ سب الاستاذ فاضل نور‘ الاستاذ عبدالہادی اوانگ‘ مصطفی علی اور نصرالدین جیسے ساتھیوں کی بالغ نظری اور معاملہ فہمی کی وجہ سے ممکن ہوا۔ ذٰلک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشاء۔

الاستاذ فاضل نور صرف ملایشیا ہی نہیں پوری اُمت مسلمہ اور انسانیت کے خادم تھے۔ فلسطین‘ کشمیر‘ بوسنیا‘ شیشان‘ کوسووا‘ منڈانو‘ پٹانی غرض جہاںبھی مسلمان آزادی‘ حقوق اور اسلامی اقدارکے تحفظ کی جنگ لڑ رہے ہیں اس میں استاذ فاضل نور کا وزن ہمیشہ اُمت کے پلڑے میں رہا اور اُمت کے ہر غم میں وہ برابر کے شریک رہے۔ افغانستان پر امریکہ کی بم باری ‘فلسطین میں اسرائیلی مظالم اور کشمیر میں بھارت کی مسلم کُشی کو وہ انسانیت کے خلاف جرائم قرار دیتے تھے اور امریکہ کے حالیہ عالمی کردار پرسخت گرفت کرنے والوں میں سے تھے۔

یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ جون ۲۰۰۲ء کے دوسرے ہفتے میں لسٹر میں اسلامک فائونڈیشن کی ایک کانفرنس میں عالم اسلام کے چند بہی خواہ ایک اہم علمی اجتماع میں شریک تھے جس میں ملایشیا سے محترم مصطفی کمال اورنصرالدین (پاسکے بین الاقوامی امور کے سربراہ اورسیکرٹری جنرل و ارکان پارلیمنٹ) شریک تھے۔ اس اجتماع کے بعد ہم سب کو ہالینڈ ایک دوسرے اجتماع میں جانا تھا کہ یہ خبر آئی کہ الاستاذ فاضل نور کے دل کا آپریشن ہواہے جو پوری طرح کامیاب نہیں رہا۔ مصطفی علی اور نصرالدین فوراً کوالالمپور کے لیے روانہ ہو گئے اور میں روزانہ ان سے جناب فاضل نور کی خیریت معلوم کرتا رہا۔ دو ہفتے زندگی اور موت کی کش مکش میں رہنے کے بعد ملایشیا کی اسلامی تحریک کا یہ سربراہ اور ہمارا عزیز دوست اور بھائی‘ الاستاذ فاضل نور ۲۳ جون ۲۰۰۲ء کو اس جہان فانی سے ابدی زندگی کی طرف لوٹ گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں اور خدمات کو قبول فرمائے‘ ان کی بشری کمزوریوں اور لغزشوں کو معاف فرمائے‘ ان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور جنت کے اعلیٰ مقامات سے نوازے ‘اوراُمت کو ان جیسے خادمانِ دین سے نوازے جوحلقہ یاراں میں رحماء بینھم اور معرکہ حق و باطل میں فولاد کا کردار ادا کریں۔ آمین!

میرے لیے ان کی وفات ایک ذاتی سانحہ ہے اورپوری اُمت مسلمہ کے لیے ایک عظیم خسارہ۔

انا للّٰہ وانا الیہ راجعون!

 

جنرل پرویز مشرف نے بالآخر وہی کیا جس کا خطرہ تھا۔ بے لوثی‘ پاک دامنی‘ اقتدار طلبی سے      بے اعتنائی‘ جنرل ایوب‘ جنرل یحییٰ اور جنرل ضیا الحق کے راستے سے اجتناب اور سابقہ سیاست دانوں کی روش سے نفرت کے تمام دعووں کے باوجود‘ اپنے ذاتی اقتدار کو مستحکم اور مستقل کرنے کے لیے وہ بھی وہی کچھ کر رہے ہیں جو ہر خودپسند اور جاہ طلب کرتا رہا ہے۔

پہلے رفیق تارڑ صاحب کو بیک بینی و دوگوش منصب صدارت سے فارغ کر کے ’’قومی مفاد‘‘ میں اس پر قبضہ کیا‘ بحیثیت سربراہ افواج اپنی مدت ملازمت میں خود ہی غیر محدود توسیع کی‘ اور پھر اپنے ہی بتائے ہوئے بحالیِجمہوریت کے نقشۂ کار سے یوٹرن (U-turn)کر کے ۵ اپریل ۲۰۰۲ء کو ریفرنڈم کا اعلان کر دیا۔ جنرل ضیا الحق کا مذاق اڑایا اور ان کے ۱۹۸۴ء کے ریفرنڈم کے سوالات اور ان کے پردے میں پانچ سالہ صدارت پر قبضے کو احمقانہ اور مضحکہ خیز قرار دیا اور پھر انھی کا اتباع کرتے ہوئے پانچ سوالوں کے شانوں پر اپنی مزید پانچ سالہ صدارت کی مسند بچھانے کا اہتمام کر ڈالا ۔

انھوں نے زعم کے ساتھ اعلان کر دیا ہے کہ ریفرنڈم ہونے سے پہلے ہی وہ ریفرنڈم جیت چکے ہیں۔ ان کو عوام کی آنکھوں میں اپنے لیے پیار اور ’’ہم خیالی‘‘ کے تالاب نظر آنے لگے ہیں جن کی پہلی قطار بھی ڈائس سے ۱۰۰ گز کے فاصلے پر رکھی جاتی ہے۔ پھر صرف یہی زعم نہیں ہے بلکہ یہ واشگاف اعلان بھی کر دیا ہے کہ اگر ریفرنڈم کا نتیجہ ان کے حق میں نہ ہوا تب بھی ان کا کرسی صدارت چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ گویا جو بات وہ پہلے فرما چکے ہیں کہ ان کا تقرر تو بلاواسطہ حکم الٰہی کا درجہ رکھتا ہے اور جس کے لیے وتعز من تشاء کے ارشاد الٰہی تک کا سہارا لینے کی جسارت وہ کر چکے ہیں‘ ریفرنڈم اسی ڈرامے کا تازہ ترین منظر ہے--- اس کے بعد یہ توقع کہ پاکستان ان کے ہاتھوں ’’مشرف بہ جمہوریت‘‘ ہو سکے گا اگر دم نہ توڑ دے تو اور کیا ہو۔ لیکن وتعز من تشاء کے ساتھ وتذل من تشاء کا قرآنی ارشاد ہر برخود غلط حکمران اور اقتدار پر قابض ہونے والے کے لیے ایک انتباہ اور کمزور انسانوں کے لیے اُمید کا پیغام ہے۔ عزت اور ذلت محض اقتدار پر براجمان ہونے اور وہاں سے ہٹا دیے جانے سے عبارت نہیں۔ مسنداقتدار پر تو اس ملک میں جنرل ایوب اور جنرل یحییٰ بھی جلوہ افروز ہوئے تھے اور وہ ہی نہیں دنیا میں کون کون نہیں رہا۔ ہٹلر‘ مسولینی اور اسٹالن سے لے کرنوری السعید‘ شاہ ایران‘ حفیظ اللہ امین اور ڈاکٹر نجیب تک سب ہی اپنے اپنے وقت میں تخت حکومت پر جلوہ افروز رہے ہیں اور اسے اپنے اپنے انداز میں خود کو ’’تعز من تشاء‘‘ ہی کا مصداق سمجھتے رہے ہیں لیکن عزت اور ذلت وہ دیرپا حقیقتیں ہیں جو بالآخر اللہ کے قانون کے تحت انسانوں کو نصیب ہوتی ہیں‘ جن کی کچھ جھلکیاں تو دُنیا میں نظر آجاتی ہیں مگر ان کا اصل اظہار آخرت ہی میں ممکن ہے۔

ریفرنڈم کے دستوری جواز کا مسئلہ سپریم کورٹ میں زیرغور ہے اور عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے‘ ریفرنڈم ہوتا ہے یا نہیں‘ اور اگر ہوتا ہے تو کس سوال پر اور کس شکل میں‘ اور اگر ہو جاتا ہے تو اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے‘ ان سطور کی اشاعت تک یہ سب باتیں سامنے آچکی ہوں گی‘ اس لیے ان کے بارے میں اندازے قائم کرنے کو ہم سعی لاحاصل سمجھتے ہیں۔ اس وقت جنرل پرویز مشرف‘ عدالت عالیہ اور پاکستان کی قوم ‘سب ہی وقت کی کسوٹی پر پرکھے جا رہے ہیں اور ان کے بارے میں بالآخر تاریخ کا قاضی جس کا محاکمہ بڑا سچا‘ بڑا بے لاگ اور بڑا محکم ہوتا ہے اپنا فیصلہ اسی طرح ضرور دے گا جس طرح ماضی میں دیتا رہا ہے اور جس کی ایک ادنیٰ مثال پہلی دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کے مسئلے پر مولوی تمیز الدین خاں کے مقدمے میں جسٹس محمد منیر کا فیصلہ تھا جسے قوم کے ضمیر اور تاریخ نے رد کر دیا اور بالآخر خود جسٹس محمد منیر کے مجرم ضمیر کو بھی اعتراف کرنا پڑا کہ وہ فیصلہ دستور‘ قانون اور اصولِ عدل پر مبنی نہ تھا بلکہ ایک سیاسی فیصلہ تھا اور جس کی سزا پوری پاکستانی قوم گذشتہ ۴۸برسوں سے بھگت رہی ہے۔ اس مقدمے میں مولوی تمیزالدین خاں کے وکیل نے عدالت کو خطاب کرتے ہوئے ایک تاریخی جملہ ادا کیا تھا کہ ’’آج ۱۹۳۵ء کے قانون کی تعبیر کرتے ہوئے آپ جو فیصلہ بھی کریں گے اس کے اثرات صرف اس مقدمے تک محدود نہیں ہوںگے بلکہ آنے والی نسلیں اس سے متاثر ہوں گی‘‘۔

اس فیصلے سے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کا جن بوتل سے نکلا جس نے پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ اور ۱۹۵۶ء‘ ۱۹۶۲ اور ۱۹۷۳ء کے دساتیر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ جمہوریت کے ارتقا کے سارے عمل کو درہم برہم کر دیا‘ قوم کو بانٹ کر رکھ دیا اور ریاست کے بنیادی اداروں مقننہ‘ انتظامیہ‘ عدلیہ‘ اورفوج کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر دیا اور جسٹس محمد منیر کو پاکستان کی عدالتی تاریخ کا ایک مجرم کردار بنا کر رکھ دیا--- آج بھی قوم ایک ایسے ہی نازک مقام پر کھڑی ہے۔ اس لیے ہم اپنی بحث کا مرکز ان بنیادی سوالات کو بنانا چاہتے ہیں جن پر ملک اور قوم کے مستقبل کا انحصار ہے--- اور جن کے صحیح یاغلط جواب پر کارفرما شخصیات کے لیے عزت اور ذلت کا فیصلہ تاریخ کا قاضی ایک دن ضرور دے گا۔

حکمرانوں کی غلط فہمی

بظاہر ریفرنڈم کا انعقاد ’’پالیسیوں کے تسلسل‘‘ کے نام پر کیا جا رہا ہے اور اس کے لیے جنرل پرویز مشرف اپنی صدارت کو ناگزیر ضرورت کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ہماری نگاہ میں خرابی کی اصل جڑ یہی ذہنیت ہے۔ تسلسل ایک اچھی چیز صرف اس وقت ہے جب وہ خیر‘ حق اور انصاف کا تسلسل ہو۔ یہ تسلسل بھی افراد پر منحصر نہیں ہوتا بلکہ اداروں‘ نظامِ کار اور جان دار عمل (process)کے ذریعے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنت اور بدعت کی کش مکش میں سنت مبنی بر خیر ہونے اور انفرادی اور اجتماعی زندگی میں تواترکے ذریعے جاری و ساری رہتی ہے اور بدعت کا مقابلہ اور قلع قمع کرتی رہتی ہے۔ جمہوریت اور آمریت میں یہی فرق ہے کہ جمہوریت میں دستور‘ قانون اور اداروں کے ذریعے تسلسل کو دوام بخشا جاتا ہے۔ افراد بھی جماعت اور اداروں کے ذریعے اس تسلسل کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں بلکہ اقتدار کے اعلیٰ مقامات پر کارفرما ہونے والے افراد کے لیے تومدت کی تحدید بھی کر دی جاتی ہے تاکہ افراد بدلتے رہیں لیکن تسلسل منقطع نہ ہو۔ آمریت میں استحکام کا انحصار ایک فرد پر ہوتاہے اور یہی صورت بادشاہت کے نظام میں ہوتی ہے۔ لیکن جمہوریت میں سیاسی قیادت ہی نہیں بلکہ اعلیٰ انتظامی اور عسکری مقامات کے لیے بھی افرادِ کار کے لیے متعین مدت (tenure)مقرر کر کے تسلسل کو افراد نہیں ادارے اورپروسیس کا رہین منت بنایا گیا ہے۔ فرانس کے اس وزیراعظم سے جس کی قیادت میں پہلی جنگ عظیم میں فرانس کو فتح ہوئی تھی جب یہ کہا گیا کہ آپ فرانس کے لیے ناگزیر ہیں تواس نے فوراً یہ کہہ کر کہ ’’قبرستان بہت سے ناگزیر افراد سے بھرا پڑا ہے‘‘ جمہوریت کی روح‘ اور تاریخ کے اہم سبق کی نشان دہی کر دی تھی۔ پاکستان کا المیہ ہی یہ ہے کہ یہاں ہر اس شخص نے جسے فوجی قوت یا عوامی تائید سے اقتدار نصیب ہوا‘ پالیسی کے تسلسل اوراستحکام کو اپنی ذات سے وابستہ کرنے کی کوشش کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہاں ادارے مضبوط نہ ہو سکے اور فرد کے ہٹتے ہی اس کے بنائے ہوئے سارے بظاہر مضبوط قلعے زمین بوس ہوگئے۔

اگر کسی پالیسی کو تسلسل حاصل ہو سکتا ہے تو وہ مبنی برحق ہونے کی بنیاد پر‘ اور پالیسی اور پالیسی سازوں کی سندِ جواز اور اداراتی استحکام سے حاصل ہو سکتا ہے‘ محض کسی بھی حکمران یا اس کے حواریوں کے برخود غلط زعم کی بنیاد پر کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔ لیکن اقتدار ایک ایسا دھوکا اور طلسم ہے کہ اس کے زیراثر اکثر لوگ ان حقائق کو بھول جاتے ہیں۔ ہفت روزہ اکانومسٹ نے جنرل مشرف کے ریفرنڈم کے راستے کو اختیار کرنے پر جو انتباہ کیا ہے وہ ایک آئینہ ہے جس میں جنرل صاحب اور ان کے رفقا کو اپنا حال اور مستقبل دیکھ لینا چاہیے۔ چند اقتباسات:

کسی کو بھی پاکستانی کابینہ کے اس متفقہ فیصلے پر حیرت نہیں ہوئی کہ ریفرنڈم کا انعقاد کیا جائے اور اس کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کی آیندہ پانچ سال کے لیے صدارت کے اُس منصب پر توثیق ہو جس پر انھوں نے خود ہی گذشتہ جون میں اپنا تقررکیا تھا۔

اس حقیقت نے کہ پاکستان کے دستور کے تحت صدر کو قومی اور چار صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے حلقے سے منتخب ہونا چاہیے‘ نہ کہ ہاں یا نہ والے ریفرنڈم کے راستے سے‘ جنرل اور اس کی اپنی چنی ہوئی کابینہ کو کسی تردد میں نہیں ڈالا۔ ایک آمر مطلق کی حیثیت سے اس نے ماضی میں بھی دستوری ترامیم کیں اور اگر ضرورت ہوئی تو یقینا آیندہ بھی کرے گا۔

جنرل اپنی فتح کو یقینی سمجھتا ہے۔ تاریخ سے ایک یاد دہانی مفید مطلب ہے۔ ۱۹۸۴ء میں ایک دوسرے فوجی غاصب جنرل ضیا الحق نے اپنے کو صدر کے عہدے پر فائز کرنے کے لیے ریفرنڈم کا راستہ اختیار کیا تھا۔

جنرل مشرف نے اپنے حربے خود تیار کیے ہیں۔ ان کاارادہ ہے کہ اس سوال کی ایک تمہید تیار کریں کہ ووٹر ان کو پانچ سال کے لیے صدر رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اس میں حکومت کے اب تک کے کارناموں کی فہرست شامل ہوگی‘ بشمول ان کے اقتدار کی نچلی سطح پر منتقلی کا پروگرام جس کے تحت حال ہی میں بلدیاتی حکومت کی مختلف سطحوں کے ۲ لاکھ ناظموں کا جوش و خروش سے انتخاب کیا گیا ہے۔ اب وہ دکھاوے کے جواز کے ساتھ صدر ہو سکتے ہیں اور پھر پارلیمانی انتخابات سے پہلے دستور میں ترمیم کر سکتے ہیں تاکہ آیندہ پارلیمنٹ اور منتخب وزیراعظم کے اوپر بالادست رہ سکیں۔

یہ ہوشیاری سے تیار کردہ ایک منصوبہ ہے مگر ایسے ہی منصوبے ۱۹۶۰ء میں جنرل ایوب خان اور ۱۹۸۴ء میں جنرل ضیا کے تھے۔ دونوں نے امریکہ کی منظوری سے ایک عشرے سے زیادہ حکومت کی لیکن کسی نے بھی عوام کی نظروں میں حقیقی جواز حاصل نہیں کیا اور دونوں کو رخصت ہونے کے بعد حقارت آمیز نگاہوں سے دیکھا گیا۔ انھوں نے پاکستان پر بغیر کسی دستوری استحقاق کے فریب دہی سے جو سیاسی نظام مسلط کیے تھے وہ ان کے جانے کے بعد باقی نہ رہے ۔ (اکانومسٹ‘ ۶اپریل ۲۰۰۲ء‘ ص ۶۱-۶۶)

تسلسل کی دلیل سے زیادہ بودی دلیل ممکن نہیں۔ یہ محض ایک دکھاوا اور بہروپ ہے جس کی آڑ میں ذاتی اقتدار اور ارتکازِ قوت کا کھیل کھیلا جا رہا ہے لیکن آج کے کھلاڑیوں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ جس طرح ماضی میں ایسے نقاب کبھی حقیقت کو چھپا نہیں سکے اسی طرح آج بھی نہ چھپا سکیں گے۔ جنرل صاحب کا ایک مداح اور ان کے سیکولر اور موڈرن وژن کا ان سے بھی بڑا علم بردار ہفت روزہ دی فرائی ڈے ٹائمز ان کے اس شاہکار میں ان کی کیا تصویر دیکھ رہا ہے:

مسئلہ ان کے ریفرنڈم کے منصوبوں سے شروع ہوا۔ یہ اس وقت مزید بگڑ گیا جب پریس نے ان کے جلسوں میں ہجوم کو کرائے پر لانے کے لیے سرکاری وسائل کے استعمال پر تنقید کی۔ یہ قدرتی نتیجہ تھا ان کے ایک صاف اور سچے سپاہی سے موقع پرست سیاست دان میں تبدیل ہونے کا‘ جس کے نتیجے میں ان کا صاف ستھرا دامن گندے سیاست دانوں سے لازماً آلودہ ہوگا جنھیں انھوں نے حال ہی میں گلے لگایا ہے۔ (دی فرائیڈے ٹائمز‘بحوالہ ایشین ایج‘ لندن‘ ۲۲ اپریل ۲۰۰۲ء)

دوست اور مخالف‘ ملکی اور غیر ملکی پریس‘ تجزیہ نگار اور کالم نویس سب جنرل صاحب کے اس نئے روپ اور کاروبارِ ریفرنڈم پر ششدر ہیں۔ ایک بزرگ اور قابل احترام صحافی‘ جو جنرل صاحب کو پانچ نہیں ۱۰سال ’’عشرہ مشرف‘‘ کے نام پر دینے کو تیار تھے‘ ریفرنڈم کے کرتبوں (antics) پر نوحہ کناں ہیںکہ ’’حیراں ہوں دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں‘‘ (جنگ‘ ۱۱ اپریل ۲۰۰۲ء)

غیر جمہوری کلچر کا فروغ

اندرون خانہ تیاریاں خواہ جو بھی ہوں جنرل پرویز مشرف کا اقتدار ایک اتفاقی حادثے کا مرہون منّت ہے۔ان کا اپنا بیان ہے کہ اگر نواز شریف صاحب نے ان کی برطرفی کا بھونڈا اور فوج اور ملک کے لیے ہتک آمیز اقدام نہ کیا ہوتا تو ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کا انتقالِ اقتدار کا واقعہ رونما نہ ہوتا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعدانھوں نے ایک ایجنڈا تصنیف فرما ڈالا اور اس طرح وہ سات نکاتی پروگرام وجود میں آیا جسے انھوں نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کیا۔ لیکن قوم نے ان کے اقتدار کو صرف اسی خاص پس منظر کی وجہ سے عارضی طور پر قبول کیا تھا اور فوری احتساب اور انتخاب کا مطالبہ پہلے دن ہی سے کیا تھا۔ یہی وہ پس منظر تھا جس میں سپریم کورٹ نے ان کو تین سال کی محدود اور متعین مہلت دی اور گند صاف کرنے اور نیا انتخاب کرانے کا مینڈیٹ دیا جس نے ان کے اقتدار کو مشروط قانونی جواز (legitimacy) دیا۔

انھوں نے صدر تارڑ کو ہٹا کر اس مینڈیٹ کی پہلی بڑی خلاف ورزی کی اور جو تھوڑا بہت جواز ان کو حاصل تھا اسے تباہ کرنے کا عمل شروع کر دیا۔ پھر اپنے عہدے کی توثیق اور انتخابات کا ایک شیڈول دینے کے بعد (جس میں ریفرنڈم کا کوئی ذکر نہ تھا) اب ریفرنڈم اور اس کے ذریعے اپنے لیے پانچ سال کی مہلت حاصل کرنے کا راستہ اختیار کر کے ملک کے سیاسی نظام کو تہ و بالا کرنے کا ایک خطرناک کھیل شروع کردیا ہے۔ اس کے لیے ان کو حوصلہ ایک دوسرے اتفاقی حادثے سے حاصل ہوا جو ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کو رونما ہوا اور جس کے بعد امریکہ کی دھمکی پر اس کے دامن سے اپنے کو وابستہ کر کے اور اس کے عالمی کھیل میں شریک اور معاون بن کرخود اپنے ملک اور اپنی قوم کی ’’اصلاح‘‘ کا نیا سودا ان کے سر میں سما گیا ہے۔ وہ جو ان کے ساتھ فوٹو کھچوانے کے سزاوار نہ تھے‘ ان کو فوجی ڈکٹیٹر اور اقتدار پر ناجائز قابض (usurper)قرار دیتے تھے ان کو بہترین دوست اور وفادار ساتھی قرار دینے لگے تو جنرل صاحب نے بھی نئے ایجنڈے اور ملک کے سیاسی نظام کی تشکیل نو (restructuring)کی باتیںشروع کر دیں۔

ان کو صاف نظر آ رہا تھا کہ یہ مقصد سیدھے سیدھے انتخابات اور بحالیِجمہوریت کے ذریعے ممکن نہیں‘ اس لیے ریفرنڈم کا جال بچھانے کا کھیل شروع کیا جس کا پہلا شکار ملک کا دستور اور قانون ہے۔ اس ریفرنڈم کے بڑے دُور رس اثرات پورے نظام حکومت پر مترتب ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس اقدام کے تمام مضمرات کا صحیح شعور اور ادراک بھی پیدا کیا جائے اور اس کا توڑ کرنے میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی جائے۔ آج اصل مسئلہ ملک کی آزادی‘ حاکمیت‘ دستور‘ جمہوریت‘ قومی وقار اور غیرت اور اسلامی مستقبل کے تحفظ کا مسئلہ ہے جو سب اس خطرناک کھیل کی زد میں ہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھنے کی ہے کہ اصل ایشو کسی قومی مسئلے پر عوام کی رائے معلوم کرنے کا نہیں بلکہ اس نظامِ کار کو تبدیل اور مسخ کرنے کا ہے جس پر ہماری آزادی‘ حاکمیت‘ جمہوریت اور اسلامیت کا انحصار ہے۔ اصل ایشو یہ ہے کہ:

__ کیا کسی فرد واحد کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بزعم خود دستور‘ قانون اور نظامِ مملکت کو تبدیل کر دے؟

__ کیا کوئی قوم یہ برداشت کر سکتی ہے کہ جس کو ملک کی حفاظت کا کام سونپا گیا تھا وہ ملک کا مالک بن جائے؟

__ کیا ایک فرد یا گروہ کی کسی ایسی کارروائی کو جو ملک کے دستور اور مملکت کے تاریخی کردار کے منافی ہو‘ اس لیے گوارا کیا جا سکتا ہے کہ وہ اس وقت اقتدار پر قابض ہے اور اپنے اپنے مفادات کی خاطر کچھ بیرونی قوتیں خصوصیت سے واحد سوپر پاور اسے اپناحلیف بنائے ہوئے ہے؟

جنرل پرویز مشرف کا اصل پاور بیس اس وقت فوج کی سربراہی اور امریکہ کی پشت پناہی ہے۔ سپریم کورٹ نے جو مینڈیٹ ان کو دیا تھا اس میں کسی نئے نظام کو لانے‘ دستور کی بنیادی  ہیئت (structure) سے کھل کھیلنے اور ملک پر اپنی آمریت قائم کرنے کی کوئی گنجایش نہیں تھی۔ صاف اور شفاف بحالیِ جمہوریت میں انھیں اپنے ان عزائم کی تکمیل کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اکانومسٹ نے ان کے کھیل کے اس پہلو کو بھی بہت صاف لفظوں میں بیان کیا ہے جسے ریکارڈ پر لانا مفید اور ضروری ہے:

کم سے کم جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے وہ بیرونی طاقتوں کی حمایت کے حوالے سے یقینا صحیح بات کہہ رہے ہیں۔ عالمی دہشت کے خلاف جنگ میں ایک وفادار حلیف کی جنرل کی حیثیت اس ہفتے پاکستان میں ابوزبیدہ کی گرفتاری سے مزید مضبوط ہوئی جسے القاعدہ گروپ کا تیسرا بڑا آدمی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی اہل کاروں نے یہ گرفتاری ایف بی آئی کے ایجنٹوں کے ساتھ کام کرتے ہوئے کی‘ جنھیں پاکستان میں کام کرنے کے لیے قابل لحاظ آزادی دی گئی ہے۔ یہ خصوصی طور پر اس لیے خوش آیند ہے کہ اس کے علاوہ القاعدہ کی قیادت ہاتھ نہیں آ رہی ۔

مگر امریکی جو بھی سوچیں‘ جنرل کی تازہ ترین چال بازی پر پاکستان میں کافی تنقید ہو رہی ہے۔ وہ لوگ جو ریفرنڈم کے حامی نہیں ہیں اور اس کی مخالفت کرنے یا بائیکاٹ کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں ان میں دو بڑی پارٹیاں (بے نظیر کی قیادت میں پیپلز پارٹی اور نوازشریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ‘ دونوں سابق وزراے اعظم ہیں)‘ ملک کی نمایاں مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کا چھ کا گروپ اور طلبا اور وکلا کی تمام نمایاں تنظیمیں شامل ہیں۔ پھر آخر کس طرح جنرل کو جیتنے کی اُمید ہے؟(How on earth does the General hope to win it?)  (اکانومسٹ‘ ۶ اپریل ۲۰۰۲ء)

ریفرنڈم جیتنے کا ایک ہی راستہ ہے--- جبر اور عیاری کی قوتوں کا بے روک ٹوک استعمال! نہ ووٹروں کی کوئی فہرست ہو‘ نہ مقابل میں کوئی امیدوار ہو‘ نہ سیاسی جماعتوں کو راے عامہ ہموار کرنے کا کوئی موقع دیا جائے‘ عدالتوں پر اثر ڈالا جائے‘ سرکاری مشینری اور وسائل کا بے محابا استعمال ہو‘ پریس اور سیاسی کارکنوں    پر لاٹھیاں چلائی جائیں‘ الیکٹرانک میڈیا کو گوبلز کے اصولوں پر استعمال کیا جائے‘ اور ان تمام عناصر کو      اعوان و انصار بنایا جائے جو اپنے اپنے مفادات کے تحفظ یا حصول کے لیے وفاداریاں بدلنے اور نوکریاں حاصل کرنے کے لیے تیار ہوں اور اس وقت یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔ اس پر غور کرنے کی کس کو ضرورت ہے کہ اس طرح کون سے سیاسی کلچر کو فروغ دیا جارہا ہے ؟

چند غور طلب پہلو

چند پہلو غور طلب ہیں اور سب لوگوں کو ٹھنڈے دل سے ان پر غور کرنا چاہیے‘ خواہ ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت یا نقطہء نظر سے ہو اور وہ زندگی کے کسی بھی سول یا عسکری شعبے سے متعلق ہوں۔

ریفرنڈم کا جواز: سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس اقدام کی کیا ضرورت ہے؟ اگر ہدف ملک میں جمہوریت کی بحالی اور نئی قیادت کو زمامِ کار سونپنا ہے تو اس کا واحد دستوری اور قابل عمل ذریعہ شفاف اور آزاد انتخابات ہیں‘ جن کا حکم سپریم کورٹ نے دیا ہے اور جن کا طریق کار دستور میں واضح طور پر مرقوم ہے۔ جسے بھی سیاست میں کوئی کردار ادا کرنا ہے اس کے لیے دستور کے مطابق اس عمل میں شریک ہونے کا حق اور موقع ہے۔ اس کے لیے دستور سے ہٹ کر‘ بلکہ اس کے منافی کوئی بھی راستہ اختیار کرنا جمہوریت کے قتل کے مترادف ہے اور کسی ایسے عمل کو کبھی بھی سندِجواز حاصل نہیں ہو سکتی۔ انتخابات کے لیے اکتوبر کی تاریخیں طے ہیں۔ انتخابات سے چند ماہ پہلے صدارت پرشب خون مارنے کے لیے چور دروازے اختیار کرنا بددیانتی اور قوم کے ساتھ ظلم ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ صدارت کے انتخاب کے لیے دستور میں ایک واضح طریقہ دفعہ ۴۱ میں طے ہے جس میں انتخابی حلقہ‘ طریق انتخاب اور انتخاب کے لیے میدان میں آنے والے افراد کی صفات بالکل واضح طور پر موجود ہیں۔ ریفرنڈم کی دفعہ کا تعلق صدر کے انتخاب سے نہیں‘ ملک کے مسائل کے بارے میں عوامی رائے معلوم کرنے سے ہے۔ اسی لیے اس کا ذکر دفعہ ۴۸ میں ہے جو صدر کے اختیارات کے بارے میں ہے اور جسے دستور کے تحت کسی بھی طرح انتخاب کا ذریعہ نہیں بنایا جا سکتا۔

سابق نظیر کا حوالہ: کہا جاتا ہے کہ اس کی نظیر موجود ہے اور جنرل ضیا الحق نے ۱۹۸۴ء میں ریفرنڈم کو انتخاب کا ذریعہ بنایا تھا یا ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۷ء میں وزیراعظم کے انتخاب کے لیے ریفرنڈم کا راستہ اختیار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا مگر یہ دونوں نظائر غلط اور غیر متعلق ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ جنرل ضیا الحق نے ایک شعبدہ کیا تھا مگر انھوں نے اور ۱۹۸۹ء میں قائم ہونے والی پارلیمنٹ‘ دونوں نے بالآخر اس بات کو تسلیم کیا کہ محض ریفرنڈم سے وہ صدر نہیں بن سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ دستور کی دفعہ ۴۱ میں شق (۷) کا اضافہ صرف جنرل ضیا الحق کی صدارت کو دستوری اور قانونی شکل دینے کے لیے کیا گیا جو اس امر کا اعتراف ہے کہ دفعہ ۴۸ (۶) کے تحت ریفرنڈم انتخاب کا ذریعہ نہیں ہو سکتا اور اگر اسے استعمال کیا گیا تھا تووہ غلط تھا جو ۴۱ (۷) کے بغیر غیرموثر اور باطل تھا۔ رہا بھٹو کا معاملہ تو وہاں بھی مسئلہ انتخاب کا نہیں تھا بلکہ اس وقت کے وزیراعظم کے لیے ایک قسم کے اعتماد کے ووٹ کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے دستوری دفعہ۹۶-اے کے طور پر دستور کی ساتویں ترمیم کی شکل میں لایا گیا تھا۔ ۹۵-۹۶ وزیراعظم پر عدم اعتماد کے اظہار سے متعلق ہیں اور دستور کی ساتویں ترمیم  پی این اے کی تحریک کے خاص پس منظر میں صرف چار ماہ کے لیے صرف ایک بار اختیار کرنے کے ارادے سے لائی گئی تھی جسے حزب اختلاف نے قبول نہیں کیا اور اس پر عمل نہ ہو سکا۔ وہ چار ماہ گزرنے پر آپ سے آپ ختم ہو گئی۔ البتہ اس ترمیم میں بھی یہ صراحت موجود تھی کہ یہ اعتماد کا ووٹ فہرست رائے دہندگان پرحاصل کیا جائے گا اور اگر اکثریت نے خلاف فیصلہ دیا تو وزیراعظم کو معزول کر دیا جائے گا۔ جنرل مشرف جو ریفرنڈم کرا رہے ہیں وہ غیر دستوری‘ غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہی نہیں اس میں تو فہرست رائے دہندگان کا تکلف بھی نہیں کیا گیا اور شکست کی صورت میں بھی معزولی کا کوئی تصور نہیں۔

پاکستان کے دستور میں صدر کے انتخاب کے لیے ریفرنڈم کی کوئی گنجایش نہیں۔ ریفرنڈم کسی سیاسی یا دستوری مسئلے پر تو ہو سکتا ہے لیکن کسی فرد کے انتخاب کے لیے صرف وہی طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے جو دستور میں اس کے انتخاب کے لیے طے کیا گیا ہے۔ اشتراکی ممالک نے انتخاب کے لیے واحد نمایندے کا طریقہ اختیار کیا تھا اور ہاں یا نہیں میں ووٹ دیا جاتا تھا اور اس کی روشنی میں چند دوسرے ممالک نے جہاں آمریت کا نظام ہے (مثلاً مصر) یہی راستہ اختیار کیا۔۔۔۔ کسی جمہوری ملک میں یہ طریقہ نہ کبھی اختیار کیا گیا ہے اور نہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ جن ممالک میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا وہاں کے دستور اور انتخابی قانون میں وہی راستہ طے تھا۔ اس لیے غیر جمہوری ہونے کے باوجود ان کے دستور کے مطابق تھا‘ جب کہ ہمارے دستور میں اس کی کوئی گنجایش نہیں۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کچھ وہ جماعتیں جو اِس وقت ریفرنڈم کی مخالفت کر رہی ہیں انھوں نے جنرل ضیاالحق کے ریفرنڈم کی مخالفت نہیں کی تھی اس لیے ان کا رویہ تضاد پر مبنی ہے۔ یہ بات بڑی سطحی اور غیر معقول ہے اس لیے کہ دونوں کے حالات میں بڑا فرق ہے۔ جنرل ضیا الحق کے وقت مسئلہ صدر کے انتخاب کا نہیں ملک کو مارشل لا سے نجات دلانے کا تھا تاکہ کسی طرح جمہوری عمل شروع ہو سکے۔ آج یہ صورت نہیں۔ ملک میں مارشل لا نہیں‘ دستوری حکومت ہے جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق دستور اور عدالتی جائزے (judical review) کے نظام کے اندر کام کر رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے میں تین سال میں انتخابات کرانے کا حکم ہے۔ انتخابات سے پارلیمنٹ‘ صوبائی اسمبلیوں اور صدر کا انتخاب‘ سب مراد ہیں۔ اس لیے دونوں صورتوں میں جوہری فرق ہے۔ دوسری بات یہ بھی سامنے رہے کہ گو جنرل ضیا الحق نے ریفرنڈم کرایا مگر دستور کی بحالی کے بعد ان کی صدارت کا انحصار ریفرنڈم پر نہیں دستور کی دفعہ ۴۱ (۶) پر تھا جس نے ریفرنڈم کے غلط اقدام کی غلطی واضح کی اور اس غلطی کی تصحیح کی۔ دوسرے الفاظ میں اس ترمیم کی وجہ سے اب یہ اصول بھی مسلّم ہوگیا کہ ریفرنڈم انتخاب کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔ تیسری بات یہ ہے کہ اگر ایک غلطی کسی انسان یا جماعت سے کسی وقت ہوگئی تو وہ آیندہ کے لیے نظیر نہیں بن سکتی۔ غلطی کے غلط ثابت ہو جانے کے بعد اس کا اعادہ کرنا پہلی غلطی سے بڑی غلطی بلکہ بددیانتی ہے۔

سیاسی نظام کی من مانی صورت گری: جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم میں ایک اور بڑا خطرناک پہلو پوشیدہ ہے ۔ وہ اپنی پالیسیوں کے تسلسل کے نام پر ایک ایسا اختیار حاصل کرنے کی کوشش ہے جسے وہ سیاسی تشکیلِ نوکے نام پر سیاسی نظام کی من مانی صورت گری کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ وہ پارلیمانی نظام کو تبدیل کر کے ایک نیا سہ فریقی نظام (triarchy)قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں اقتدار صدر‘ وزیراعظم اور بری فوج کے سربراہ میں تقسیم ہو۔ اس کے بڑے خطرناک اوردُور رس اثرات ہوں گے۔

اولاً: اس سے پارلیمانی نظام ختم ہو جائے گا اور پارلیمنٹ پر ایک بالاتر نظام وجود میں آئے گا جس میں پارلیمنٹ کے منتخب وزیراعظم اور وزرا کے ساتھ صدر اور فوج کا سربراہ‘ جو دستور کے تحت وزیراعظم کا نامزد اور سول انتظامیہ کے ماتحت ہے (دستوری دفعہ ۲۴۳‘ ۲۴۴‘ ۲۴۵) شریک اقتدار ہوگا۔ اس میں یہ گنجایش بھی پیدا کی جا رہی ہے کہ صدر‘ دستور کے تحت فوج کا سپریم کمانڈر ہونے کے ساتھ عملاً چیف آف سٹاف بھی ہو اور اس کے علاوہ فوج کا ڈپٹی چیف آف اسٹاف بھی سیکورٹی کونسل کا رکن ہو۔ اس نظام میں وزیراعظم اور پارلیمنٹ کی حیثیت ثانوی بلکہ نمایشی ہو جائے گی اور ملک کا نظام ایک قسم کی ایسی جمہوریت کی شکل اختیار کر لے گا جو  مستقل فوجی کنٹرول میں ہو۔ یہ آمریت کی ایک شکل ہے جیساکہ کمیونسٹ نظام میں روس اورچین میں تھا اور انڈونیشیا اور برما میں بھی جس پر عمل ہوا۔ اس نظام کو جمہوری اور وہ بھی پارلیمانی جمہوری نظام کہنا خلاف واقعہ ہوگا۔ سپریم کورٹ نے بھی دستور کے بنیادی نظام اور ہیئت کی حفاظت کی جو بات کی ہے اور دستور کو ایک نامیاتی اکائی (organic whole) قرار دیا ہے اس میں اس نوعیت کی کسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔

ثانیاً: اس نظام کا خاصا یہ ہوگا کہ فوج سیاست میں مکمل طور پر ملوث ہو اور ایک مستقل فریق کی حیثیت اختیار کر لے گی۔ یہ فوج‘ ملک اور سیاسی نظام تینوں کے لیے خطرناک ہے۔ فوج کی تربیت کچھ متعین مقاصد کے لیے ہوتی ہے اور اس کے اعلیٰ ترین افسر بھی صرف پیشہ ورانہ کام کے لیے موزوں ہیں مگر نظامِ سیاست کو چلانے کے اہل نہیں ہوتے۔ ان کا مزاج‘ تربیت‘ تجربہ بالکل دوسری نوعیت کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جہاں فوج نے سیاسی زمام کار سنبھالی ہو اور وہ ملک جمہوریت تودُور کی بات ہے‘ اچھی حکومت اور اچھی فوج ہی اسے نصیب ہوگئی ہو۔ لاطینی امریکہ اور افریقہ کے ممالک اس کی بدترین مثال ہیں۔ خود پاکستان اور ان مسلم اور عرب ممالک کے تجربے ایک عبرت ناک نمونہ پیش کرتے ہیں جہاں فوج نے سیاست میں مداخلت کی‘ نہ ملک ترقی کر سکا اور نہ فوج ہی اپنا پیشہ ورانہ کردار باقی رکھ سکی۔ اسرائیل کی چھوٹی سی   پیشہ ور فوج نے کئی عرب ممالک کی سیاست زدہ فوج کو بار بار عبرت ناک شکست دی ہے جو سب کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ جنرل ایوب سے لے کر جنرل ضیا الحق تک سب کا دور پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کے صحت مند ارتقا کی تاریخ میں تاریک باب اور ملک کے لیے کھوئے ہوئے سالوں (lost years)کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس سلسلے میں ترکی کی مثال دی جاتی ہے مگر وہ کسی حیثیت سے بھی ایک قابل تقلید نمونہ نہیں۔ اولاً ترکی کی تاریخ میں اور خصوصیت سے پہلی جنگ کے بعد ترکی کی جمہوریہ کے قیام میں جو کردار ترکی کی فوج نے ادا کیا وہ ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ کسی دوسرے مسلمان ملک میں فوج نے وہ کردار ادا نہیں کیا۔ چین کے انقلاب میں ماوزے تنگ اور ان کی لبریشن آرمی یا روس کے انقلاب میں کمیونسٹ پارٹی کے عسکری بازد (سوویت) کا خاص کردار رہاہے اور اسی مناسبت سے نئے نظام کا وہ حصہ بنے اور بالآخر ہر اس جگہ جہاں فوج کا اس نوعیت کا رول تھا فوجی آمریت پرمبنی نظام وجود میں آیا۔ پاکستان میں تحریک آزادی کی تاریخ اور پاکستان کے دستوری نظام دونوں میں اس کی کوئی گنجایش نہیں۔ پھر ترکی کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ فوج کا مستقل کردار وہاں بھی جمہوریت کے فروغ کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے۔ خصوصیت سے ایورین کے فوجی انقلاب کے بعد سے جو کردار فوج ادا کر رہی ہے وہ پیچیدگیاں پیدا کرنے کا باعث ہے اور ملک میں فوج کے کردار کے بارے میں نئی سوچ پروان چڑھ رہی ہے۔ یورپین یونین میںترکی کے داخلے کی راہ میں ایک رکاوٹ وہاں کے نظام میں فوج کا مستقل کردار بھی ہے۔ ترکی میں بھی یہ گنجایش نہیں کہ فوج کا حاضر سروس سربراہ صدرمملکت بن سکے۔ اس کا نیشنل سیکورٹی کونسل کا تجربہ بھی ہر لحاظ سے مفید قرار نہیں دیا جا سکتا۔ پاکستان کے حالات میں تو یہ اقتدار کی مساوات کو خراب کرنے اور فوجی آمریت کی راہ ہموار کرنے کا ہی ذریعہ بن سکتی ہے۔ لطف یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج کو سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہیے اور اس کے مستقل کردار کی بات بھی کرتے ہیں۔ یہ تضادِ فکر کا غماز ہے اور فوج کے لیے ایک ایسے مقام کے حصول کی کوشش ہے جو نہ فوج کے حق میں ہے اور نہ ملک کے حق میں۔ ایسے حالات میں کبھی بھی جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی۔

پھر اس بات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس سیاسی نظام میں جس میں فوج ایک حصہ بن جائے اور بری افواج کے سربراہ کا ایک خاص رول ہو‘ وہ فوج کبھی بھی اچھی دفاعی قوت نہیں بن سکتی۔ سیاست میں ملوث ہونے کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ خود مخصوص مفادات کی حامل بن جاتی ہے جو اس کی پیشہ ورانہ صلاحیت کو شدت سے متاثر کرتا ہے اور دوسری طرف ایسی فوج کو پوری قوم کی تائید حاصل نہیں ہوتی۔ وہ سیاست میں بلکہ اس کے مختلف گروہی اور حزبی نظام میں ایک شریک بن جاتی ہے۔ فوج جس کی بنیادی خصوصیت یک جہتی اور یک رنگی ہونی چاہیے وہ باقی نہیں رہتی اور سیاسی اختلاف اور پارٹیوں کے نظام کی وجہ سے اس کی شناخت پوری قوم سے نہیں اس کے کچھ حصوں سے ہونے لگتی ہے۔ اس سے فوج کی دفاعی صلاحیت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ فوج کے لیے ضروری ہے کہ اسے پوری قوم کی تائید اور تعاون بلکہ محبت حاصل ہو اور وہ کسی اعتبار سے بھی متنازع نہ بنے۔ جو نظام تجویز کیا جا رہا ہے ملک کے دفاع کے نظام کو درہم برہم کر دے گا اور قوم کبھی بھی فوج پرنہ وہ اعتماد کر سکے گی جو اس کا حق ہے اور نہ پوری یکسوئی کے ساتھ اسے وہ وسائل فراہم کر سکے گی جو اس کے غیر متنازع ہونے کی صورت ہی میں اسے حاصل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان اپنی زندگی کے پہلے لمحے سے جن بیرونی خطرات سے دوچار ہے ان میں فوج کو سیاست میں شریکِ کار بنانا ملک کی سالمیت کے لیے ایک خطرہ اور بڑے خسارے کا سودا ہے۔

اصولوں کی پامالی: ان تمام وجوہ سے ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف جس سیاسی ایجنڈے اور جس تسلسل کی بات کر رہے ہیں وہ ملک کی سالمیت اور سیکورٹی کے لیے خطرے کا ایک پیغام ہے اور اس راہ میں ایک قدم بھی بڑھاناسخت نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

جنرل صاحب کے ریفرنڈم کا ایک اور خطرناک پہلو یہ ہے کہ وہ قوم کو تقسیم کرنے کا ذریعہ بن رہا ہے۔ جارج بش نے جو آمرانہ رویہ اختیار کیا تھا کہ ’’یا تم ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے مخالف‘‘، جنرل پرویز مشرف کے اعلانات میں بھی اسی کی بازگشت سنی جا سکتی ہے۔ وہ قوم کو دو دھڑوں میں بانٹ رہے ہیں۔ زمین پر ایک لکیر کھینچ رہے ہیں اور اس بنیاد پر صف بندی فرما رہے ہیں۔ دیوار پر بیٹھنے والوں کو دعوت مبازرت دے رہے ہیں۔ ساتھ دینے والوں کو نہ صرف نواز رہے ہیں بلکہ آیندہ کے لیے بھی وعدے وعید کا بازار گرم فرما رہے ہیں۔ کھلے بندوں سرکاری افسروں‘اہل کاروں‘ اساتذہ‘ فوج اور پولیس کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ ریفرنڈم ایک دستوری عمل ہے۔ اگر دستور کے دائرے میں کسی کی ذات کے لیے تائید حاصل کرنے کے لیے نہیں بلکہ ایک ایشو پر قوم کی رائے معلوم کرنے کے لیے ہو تو دستور کا تقاضا یہ ہے کہ پارلیمنٹ اس کے لیے ایک قانون بنائے جس کے تحت ریفرنڈم ہو۔ یہ الیکشن کمیشن کا کام نہیں۔ پارلیمنٹ نے ایسا کوئی قانون آج تک نہیں بنایا اوریہی وجہ ہے الیکشن کمیشن کو اس کام کے لیے غلط طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک شدید قسم کی بدعنوانی ہے جس نے جسٹس طارق محمود کو مجبور کیا کہ الیکشن کمیشن سے مستعفی ہوں اور پھر مجبور ہو کر جج کے عہدے سے بھی استعفا دے دیں۔ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھی جس قسم کی بدعنوانی کر رہے ہیں وہ ایک دستوری جرم ہے اور ان کا اس بارے میں پورا پورا احتساب ہونا چاہیے۔

اسی طرح سرکاری مشینری‘ ریاست کے وسائل اور میڈیا کو جس طرح استعمال کیا جا رہا ہے اور بلدیاتی اداروں کے نظام کا جس طرح اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استحصال کیا جا رہا ہے وہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ ماضی کے غلط کار سیاست دانوں نے جو جو بدعنوانی کی ہے اور جس کے نتیجے میں ملک میں جمہوری نظام کا ارتقا متاثر ہوا آج کے حکمران وہ سب کچھ کر رہے ہیں اور پوری دیدہ دلیری سے کر رہے ہیں۔ سیاست کو بدعنوانی سے پاک کرنے اور انتظامیہ کو سیاست میں ملوث ہونے سے روکنے کے سارے دعوے پادر ہوا ہوگئے ہیں۔ جنرل صاحب فرماتے ہیں کہ ناظمین اور کونسلروں نے غیر سیاسی ہونے کا عہد کیا ہے اور اگر کسی سیاسی جماعت کے کہنے پر وہ ریفرنڈم میں عدم تعاون کریں گے تو حلف کی خلاف ورزی ہوگی لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کو اپنے انتخاب کے لیے استعمال کر کے سب سے پہلے وہ ان کو اپنے حلف کو توڑنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اگر انتخاب سیاسی سرگرمی نہیں تو پھر کیا ہے؟ صدر کی پارٹی‘ بلکہ ان تمام پارٹیوں کا کارندہ بننا جو صدر کا ساتھ دے رہی ہیں سیاست نہیں تو پھر ریفرنڈم سے اجتناب ہی کو سیاست کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ کیا لوکل باڈیز آرڈی ننس میں ریفرنڈم میں تعاون ان اداروں کی ذمہ داری ہے؟ ان کا دائرہ کار ان کے اپنے قانون کے تابع ہے اور اس کا کوئی تعلق ریفرنڈم سے نہیں چہ جائیکہ ایسے ریفرنڈم سے جسے صدارت کے انتخاب کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔

جنرل صاحب ناظمین کو تو حلف یاد دلا رہے ہیں لیکن کیا ان کو خود یاد ہے کہ ایک حلف انھوں نے بھی فوج کے افسر کی حیثیت سے اُٹھایا تھا جس کے الفاظ یہ ہیں:

میں ---------- صدق دل سے حلف اُٹھاتا ہوں کہ میں خلوص نیت سے پاکستان کا حامی اور وفادار رہوں گا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی حمایت کروں گا جو عوام کی خواہشات کا مظہر ہے ‘ اور یہ کہ میں اپنے آپ کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں مشغول نہیں کروں گا اور یہ کہ میں مقتضیات قانون کے مطابق اور اس کے تحت پاکستان کی بّری فوج (یا بحری یا فضائی فوج) میں پاکستان کی خدمت ایمان داری اور وفاداری کے ساتھ انجام دوں گا۔

اللہ تعالیٰ میری مدد اور رہنمائی فرمائے۔ (آمین)

ان کا دعویٰ ہے کہ وہ صاف اور سچے آدمی ہیں لیکن وہ دیکھیں کہ اس آئینے میں انھیں اپنی کیا تصویر نظر   آتی ہے۔

ریفرنڈم: جواز کی دستوری حیثیت

دستور جس ریفرنڈم کے لیے گنجایش فراہم کرتا ہے (دفعہ۴۸ (۶) ) اس کی دو خصوصیات ہیں۔ پہلی یہ کہ وہ قومی اہمیت کے کسی مسئلے کے بارے میں ہو‘ اور دوسری یہ کہ اس مسئلے کو ایسی شکل میں بیان کیا جا سکتا ہو کہ جس کا جواب سیدھے سادھے ہاں یا نہیں میں دیا جا سکتا ہو۔ ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ وہ سوال یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص ملک کا صدر ہو سکتا ہے یا نہیں یا بطور صدر مملکت وہ قبول ہے یا نہیں۔ اس لیے کہ صدر کے انتخاب کا ایک واضح اور متعین طریقہ دستور میں مرقوم ہے اور انتخاب صرف اسی طریقے سے ہو سکتا ہے۔ پھر اس انتخاب میں حصہ لینے والوں کی کچھ شرائط (qualifications) ہیں جن کو الیکشن کمیشن طے کرتا ہے کہ کسی شخص میں وہ پائی جاتی ہیں یا نہیں۔ یہ کام عوام کا نہیں۔ اسکریننگ کے بغیرکوئی شخص کسی بھی انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتا۔ صرف اسکریننگہی نہیں اس پر اعتراضات کا اہتمام بھی ضروری ہے تاکہ دوسرے افراد بھی ان شرائط پر کلام کر سکیں۔ تیسرے یہ کہ انتخاب میں ایک ہی شخص صرف اس وقت منتخب ہو سکتا ہے جب مقابلے پر کوئی دوسرا موجود نہ ہو‘ یعنی بلامقابلہ۔ لیکن انتخاب میں صرف ایک ہی فرد ہو اور کسی دوسرے کو مقابلے کا موقع ہی نہ ہو‘ یہ انتخاب کے دستوری تصور اور قانونی ضابطے کے صریح خلاف ہے۔ ریفرنڈم میں ان میں سے کوئی ایک صورت بھی ممکن نہیں۔ اس لیے ریفرنڈم کسی فرد کے صدر یا کسی بھی عہدے کے لیے انتخاب کا ذریعہ تو بن ہی نہیں سکتا۔ ورنہ کل وزیراعظم‘ چیف جسٹس‘ چیف آف آرمی اسٹاف سب ہی کا تقرر ریفرنڈم کے ذریعے ہونے لگے گا    جو مضحکہ خیز اور لغو ہے۔ اس لیے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ اگر ریفرنڈم کے پرچے میں کسی کے صدر بنائے جانے کے بارے میں رائے لی جائے تو وہ خلافِ دستور اور غیر قانونی ہوگی اور پورے ریفرنڈم کو غیر قانونی بنادینے کا ذریعہ ہوگی۔

جو بات پوچھی جا سکتی ہے وہ کسی مسئلے کے بارے میں موقف کا تعین ہے۔اس ریفرنڈم میں ایک اشکال یہ بھی ہے کہ پانچ سوال پوچھے جا رہے ہیں جن کا ایک ہی جواب ضروری نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص لوکل باڈیز کے مسئلے پر ایک رائے رکھتا ہو اور معاشی پروگرام کے بارے میں دوسری‘ نیز جسے فرقہ وارانہ انتہا پسندی کہا جا رہا ہے اس کے بارے میں اس کی رائے کچھ اور ہی ہو۔ ان میں سے ہر سوال میں شدید ابہام ہے۔ معاشی اصلاحات کی فہرست طویل ہے۔ ان میں کچھ چیزیں اچھی اورکچھ غلط ہو سکتی ہیں۔ معاشی اصلاحات اور حکومت کی تمام معاشی پالیسیاں ایک ہی بات نہیں ہیں۔ آج سیکڑوں معاشی معاملات کے بارے میں حکومت کی پالیسیاں جاری ہیں۔ سوال میں کون سی پالیسیاں مراد ہیں اور کون سی نہیں۔ ایسے مبہم‘ متعدد معنوں کی گنجایش والے معاملات پر ہاں اور نہیں میں جواب کیسے دیا جا سکتا ہے؟ کیا ایک سوال کا جواب ہاں اور دوسرے کا نہیں میں دیا جا سکتا ہے؟

اگر ایسا نہیں بلکہ سب کا ایک ہی جواب ہونا ہے تو یہ عقل کے خلاف ہی نہیں‘ دستور کی خلاف ورزی بھی ہے کہ دستور ایک متعین مسئلے پر ہاں یا نہیں کے جواب کی بات کر رہا ہے اور آپ پانچ سوالوں کے ایک جواب کی بات کر رہے ہیں اور جواب سے صدر کے انتخاب کا نتیجہ اسی طرح نکال رہے ہیں جس طرح مداری اپنی ٹوپی سے خرگوش نکال لیتا ہے:

ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہیے

آمریت کی طرف

ریفرنڈم کا سب سے زیادہ ہولناک پہلو وہ آمرانہ کلچر ہے جس میں یہ پوری مشق (exercise) روبہ عمل آ رہی ہے۔ جمہوریت کے روڈ میپ کو نظرانداز کر کے ۵ اپریل کو اچانک ریفرنڈم کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ سے رجوع کر کے پہلے معلوم نہیں کیا جاتا کہ یہ اقدام دستور کے مطابق ہے یا اس سے متصادم۔ پھر سرکاری خزانے سے اور سرکاری ملازموں کے ذریعے ایک ملک گیر مہم کا آغاز کیا جاتا ہے۔ مخالف آوازوں کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔ جلسے صرف آپ کر سکتے ہیں۔ آپ کے موقف کی مخالفت کرنے والوں کو منافق کہا جاتا ہے اور جلسے‘ جلوس ‘ میڈیا کسی بھی راستے کو ان کے لیے کھلا نہیں چھوڑا جاتا۔

صدر کا انتخاب ایک خالص سیاسی عمل ہے‘ کوئی دستوری مسئلہ نہیں۔ یہ عہدہ اپنے ساتھ تنخواہ اور مراعات رکھتا ہے۔ کسی کو حق نہیں کہ اپنے لیے عہدے کے حصول کے لیے سرکاری وسائل اور سرکاری مشینری استعمال کرے۔ کوئی مدمقابل نہ ہو اور پالیسی کے پہلوئوں پر بھی احتساب اور تنقید کی راہیں مسدود کی جائیں۔ تمام اہم سیاسی اور دینی جماعتیں مخالفت کررہی ہیں‘ تمام بار ایسوسی ایشین حتیٰ کہ بار کونسل اسے غیر دستوری قرار دے رہی ہے اور تمام ملک کے وکلا مجبور ہوئے ہیں کہ عدالت کا احتجاجاً بائیکاٹ کریں۔ اگر ایک معزز جج احتجاج کرتا ہے اور الیکشن کمیشن سے مستعفی ہو جاتا ہے تو اس پر بھی دبائو ڈالا جاتا ہے کہ بیان واپس لے حتیٰ کہ اعلیٰ عدالت کا جج اپنے عہدے تک سے استعفا دیتا ہے جسے جوشِ انتقام میں فوراً قبول کر لیا جاتا ہے۔اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس پر دبائو بھی استعمال ہوا اور محض کسی عمل کے دستوری ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ایک واضح رائے رکھنے اور اس کے اظہار پر ایک شخص کو آپ اعلیٰ عدالت تک سے فارغ کرنے پر تیار ہیں۔

پریس کو گالیاں دی جاتی ہیںبلکہ اس پر لاٹھیاں برسائی جاتی ہیں کہ حاضری کم بتا رہے ہیں۔ جس شہر میں جلسہ ہو وہاں کی بلکہ قریبی شہروں تک کی ساری سرکاری اور غیر سرکاری ٹرانسپورٹ پر زبردستی قبضہ کر لیا جاتا ہے اور جلسے کی رونق بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ سیاسی قائدین اور کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ سیاسی کاروان کے راستے روکے جا رہے ہیں‘ جلسوں پر لاٹھی چارج اور آنسوگیس کی بارش کی جا رہی ہے۔ اختلاف کے اظہار کے راستے بند کیے جا رہے ہیں مگر آزادی اور رواداری کے ڈھول بھی پیٹے جا رہے ہیں۔ مدمقابل کے ہاتھ پائوں باندھ کر دعوتِ مبارزت دینا کون سی شرافت‘ مردانگی اور شجاعت ہے؟ کیا یہی وہ بدعنوانی سے پاک نظام اور سیاسی کلچر ہے جسے آپ قائم کرنا چاہتے ہیں اور جس کے لیے آپ فوج اور سول انتظامیہ کو آلہ کار بنا رہے ہیں؟

جس نظام کا نام جمہوریت ہے اس میں تو جو شخص بلامقابلہ کامیاب ہونے کے لیے یہ سارے دھندے کرے وہ پہلے قدم پر ہی نااہل قرار دے دیا جاتا ہے۔

آپ ریفرنڈم جیتے نہیں ہیں پہلے ہی قدم پر شکست کھا گئے ہیں۔ پہلی شکست اس وقت ہوئی جب صدارت کے انتخاب کے دستوری طریقے کو اختیار کرنے کے لیے ایک غیر قانونی اور غیر اخلاقی چور دروازہ اختیار کیا گیا۔ پھر دوسری شکست اس وقت ہوئی جب آپ نے فہرست رائے دہندگان کی نفی کر دی اور اعلان عام فرما دیا کہ جو چاہے آئے ووٹ دے دے۔ پھر تیسری شکست اس وقت ہوئی جب آپ نے مخالف قوتوں کا منہ بند کیا اور ہاتھ پائوں باندھ دیے۔ یہ کیسا مقابلہ ہے کہ اکھاڑے میں صرف ایک پہلوان ہے۔ باقی سب کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ہیں اور دعویٰ ہے کہ دنگل ہو رہا ہے۔ پُرامن احتجاج‘ سیاسی جلسہ اور جلوس‘ ریلی اور کاروان‘ اخبارات کی آزادی اور ریڈیو اور ٹی وی پر تمام نقطہ ہاے نظر کا اظہار‘ سرکاری ذرائع کی مکمل غیر جانب داری--- یہ وہ کم سے کم چیزیں ہیں جو کسی انتخاب اور استصواب کے لیے ضروری ہیں۔ اگران سب سے آپ قوم اور اختلافی رائے رکھنے والوں کو محروم کر دیتے ہیں اور پھر دعویٰ کرتے ہیں کہ جمہوری عمل کو فروغ دیا جا رہا ہے اور عوام سے اعتماد کا ووٹ لیا جا رہا ہے تو اس سے بڑا جھوٹ روے زمین پر اور کون سا ہو سکتا ہے؟ جو شخص یہ راستہ اختیار کرتا ہے وہ ریفرنڈم میں پہلے ہی قدم پر اپنی شکست کا اعتراف کرتا ہے۔ اس کا نام مقابلہ سے فرار ہے‘ مقابلہ اور اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی فتح نہیں۔

درحقیقت آپ تو ایک ایسے انوکھے مقابلے کا اہتمام کر رہے ہیں جس کے بارے میں یہ تک کہہ دیا گیا ہے کہ اگر نتیجہ نفی میں رہا تو بھی آپ کی صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ جنرل ضیا الحق نے کم از کم اتنا توکہا تھا کہ اگر ریفرنڈم میں میرے خلاف اکثریت کا ووٹ ہواتو میں استعفا دے دوں گا لیکن آپ کا ریفرنڈم تو ایسا نرالا ریفرنڈم ہے کہ اگر نتیجہ حق میں ہو تو فتح اور اگر خلاف ہو تو بھی فتح--- اسے ریفرنڈم نہیںڈھونگ کہا جاتا ہے۔ ایک ایسا ڈھونگ جس پر قوم کا کروڑوں روپیہ اورہزاروں لاکھوں انسانوں کا وقت ضائع کیا جا رہا ہو اسے کون قومی مفاد کا نام دے سکتاہے۔ لیکن افسوس کہ آج قومی مفاد کے نام پر قوم سے یہ سنگین مذاق کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس سے جمہوریت کے احیا کی راہ ہموار ہوگی۔

اگر نیم کے درخت سے آم برآمد ہونے لگیں تو شاید ریفرنڈم سے بھی یہ کرشمہ صادر ہو جائے!

 

انسان نے سمندروں اور آسمانوں کو مسخرکر ڈالا ہے اور فطرت کی طاقتوں کو اپنی خدمت میں لگا لیا ہے۔ اس نے اپنے معاملات کے لیے وسیع اور پیچیدہ ادارے اور تنظیمیں قائم کر لی ہیں۔ بہ ظاہر وہ مادّی ترقی کے اوجِ کمال پر جا پہنچا ہے۔

انسان کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے کائنات میں اپنی حیثیت پر خوب اچھی طرح غور کر لیا ہے۔ اس نے اپنے حواس اور تجربات سے حاصل کیے ہوئے علم اور عقل کی روشنی میں حقیقت کی تعبیر کرنا شروع کر دی ہے۔ اپنی قوت استدلال اور سائنس اور ٹکنالوجی کی قوتوں میں نودریافت شدہ اعتماد نے اس کا رشتہ روایت سے‘ وحی کی صداقت سے‘ تجربے سے بالاتر معاملات سے غرض یہ کہ اپنے بارے میں ہدایت کی کسی بھی صورت سے توڑ دیا ہے۔

وہ اس اعلیٰ مقام سے دُنیا کو اپنے نظریات‘ اپنے رجحانات اور پسند کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے۔ لیکن یہ ’’عالم نو‘‘ جو اس نے پیدا کر لیا ہے زیادہ سے زیادہ انسانوں کو ایک انتہائی خطرناک فریب خوردگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ٹکنالوجی کی بے مثال ترقی اور مجموعی مادّی ترقی کے باوجود انسان کی حالت انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ طاقت ور کمزور کو دبا رہا ہے۔ امیر غریب پر مسلط ہے اور دولت کی ریل پیل کے باوجود غربت میں اضافہ ہو رہا ہے اور ستم یہ ہے کہ غریب ممالک غریب تر ہو رہے ہیں اور امیر ملکوں میں بھی غریبوں کی تعداد برابر بڑھ رہی ہے۔ نتیجتاً بے زر‘ زردار کے خلاف صف آرا ہیں۔ وہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ناانصافی اور استحصال کا بازار گرم پاتا ہے۔ وہ خاندان کی ٹوٹ پھوٹ‘ افراد کی معاشرے سے اجنبیت اور اس کے اداروں سے دُوری سے دوچار ہے۔ یہاں تک کہ انسان آج خود کو خود سے دُور دیکھ رہا ہے۔ وہ تمام انسانی دائروں اور سرگرمیوں میں اعتماد اور اختیار کے غلط استعمال کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ اگرچہ اس نے ہوا میں اُڑنے اور سمندرمیں مچھلیوں کی طرح تیرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ تو کر دیا ہے‘ تاہم وہ زمین پر ایک اچھے انسان کی طرح رہنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کی یہ ناکامی اس امر کو مشکوک بنادیتی ہے کہ وہ اپنے اجتماعی معاملات کو واضح رہنما خطوط کے بغیر چلا سکتا ہے۔

انسان اپنے آپ کو دونوں طرح سے مشکل میں پاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ وہ تہذیب و تمدّن کی معراج کو پہنچ چکا ہے لیکن بامِ عروج پر پہنچتے ہی وہ اپنے آپ کو ایک نئے اور بڑے خلا میں موجود پاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو اور اپنی تراشیدہ تہذیب کو اپنی ہی دریافت شدہ قوتوں سے خطرے میں پاتا ہے۔ وہ پریشان ہو کرایسے آسروں اور سہاروں کی تلاش میں لگ جاتا ہے جو اس کی زندگی کو تباہی سے بچا سکیں‘ اور وہ اپنے محبوب خوابوں کی تعبیرسے محروم نہ ہو۔ اسے احساس ہے کہ اس کا تصور جہاں ان واضح معیارات سے خالی ہے جو صحیح اور غلط کی تمیز کرنے میں اس کے ممد ومعاون ثابت ہوں۔ وہ سمجھ لیتا ہے کہ اس کا علم اورمہارت‘ اس کو وہ عالم گیر معیار یا میزان عطا کرنے میں ناکام ہیں جو اسے اچھے اور برے کا فرق بتا سکیں۔ وہ دیکھتا ہے کہ تبدیلی اور تبدیلی کی رفتارنے اس کے قدم اُکھاڑ دیے ہیں۔ اس کو اضافیت اور ثبات نے محرومی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے ۔ اب انفرادی یا اجتماعی اخلاقیات کی بنیاد کے طور پر کوئی ایسی چیز باقی نہیں رہی جو ٹھوس اور دائمی ہو۔ وقت کے بہتے دھارے کے ساتھ‘ انسان جس سمت کی طرف بہے جا رہا ہے ‘ وہ خود اس کے بارے میں مشکوک ہوتا جا رہا ہے۔ اسی مخمصے سے نجات حاصل کرنے میں ناکامی بلکہ احساسِ نااہلیت اسے مایوسی اور افسردگی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ انسان روز بروز خود غرض اور اپنے اہل و عیال اور انسانیت کی اجتماعی ضروریات سے لاپروا ہوتا جا رہا ہے۔ انسان کو ایک راستے کا انتخاب کرنا ہے: وہ اپنے کو حیوان کے علاوہ کچھ اورنہ سمجھے۔ اورافسردگی کے عالم میں اپنے کو ایک ’بے لباس بندر‘ قرار دے ‘یا پھر وہ سنجیدگی اور وقار کو ملحوظ رکھتے ہوئے انسان اور معاشرے کے لیے ایک نئے نمونے یا تصور (paradigm)کی تلاش میں لگ جائے۔

تہذیب کا بحران

اکیسویں صدی کے اس پہلے عشرے میں انسان اسی تکلیف دہ صورت حال سے دوچار ہے۔ بیسویں صدی کے بڑے بڑے فلسفی تاریخ دانوں: اوسوالڈ سپنگلر مغرب کا زوال‘ آرنلڈ ٹائن بی تاریخ کا مطالعہ اور پٹرم سوروکن معاشرتی و ثقافتی علومِ حرکیات اور ہمارے عہد کے بحران کا خیال ہے کہ مغرب کی غالب لادینی تہذیب ‘ انسان دوستی کے خوش نما سُر اور تال کے باوجود اورمادّی خوش حالی یا فوجی طاقت کی بے کراں وسعتوں کے باوجود ایک کرب ناک بحران میں مبتلا ہے۔ وہ طاقتیں جنھوں نے اس تہذیب کے عروج اور غلبے کے لیے راہ ہموارکی تھی‘ اپنی توانائی کھو چکی ہیں۔ اب انتشار اور تنزل کی طاقتیں قوت و استحکام کی طاقتوں پر حاوی ہوتی جا رہی ہیں۔ وہ لنگرگاہیں جو جہازوں کو تحفظ فراہم کرتی تھیں اب بے وزن ہو رہی ہیں۔ وہ اقدار جو لوگوں کو جوڑتی تھیں اب ابتری کی حالت میں ہیں۔ یہ روگ ایک یا چند علاقوں تک محدود نہیں ہے‘ بلکہ زندگی کا سارا دریا اسی آلودگی کا شکار ہو گیا ہے۔

جدید تاریخ کے ایک باشعور تجزیہ نگار جوزف اے کمیلیری (Joseph A. Camilleri)نے ہمارے وقتوں کے اس بحران کا منظرنامہ نہایت خوبی سے یوں بیان کیا ہے:

موجودہ انسانی بحران اتنا شدید اور ہمہ گیر ہے کہ اس کے تجزیے کی کوشش بھی ایک مشکل عمل ہے    چہ جائے کہ اس کا حل جو بظاہر ناممکن نظر آ رہا ہے۔ اس بحران کے سامنے انسانی عقل و فہم اور فکر کی قوتیں شکست کھاتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان دنوں وہ لاکھوں انسان اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں‘ جن کی غیر محفوظ ہستی غربت‘ پس ماندگی اور بھوک جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ انسانی زندگی کی یہ ناخوش گوار صورت حال ان اقوام کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے جو بیرونی حملے یا اندرونی انتشار کے خطرے کی زد میں ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات کا وسیع دائرہ ‘دہشت اور خوف کے خطرناک اور غیرمستحکم ’’توازن ‘‘ پر انتہائی نزاکت کے ساتھ استوار ہے ۔

وقت‘ خلا اورحرکت کے روایتی تصورات کو ٹکنالوجی کے انقلاب اور طاقت پسند استحصالی ثقافت نے اُلٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرتی فساد‘ نفسیاتی عدم تسلسل اور اخلاقی خلا پیدا ہوا ہے‘ جس نے ضمیر کا ایک شدید بحران ہی نہیں پیدا کیا بلکہ حقیقت سے بڑے پیمانے پر فرار اختیار کرنے کی راہ بھی سجھائی ہے۔

جو بحران اکیسویں صدی کے انسان کے سامنے ہے وہ واقعی عالم گیر حیثیت کا حامل ہے۔ نہ صرف اس وجہ سے کہ یہ لاتعداد مردوں اور عورتوں کو متاثر کرتا ہے بلکہ دُور رس معنی میں یہ تمام انسانی تعلقات اور اداروں کے تانے بانے میں بگاڑ پیدا کرتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ اس نے انسان کے فطرت کے ساتھ رشتے کو مسخ کردیا ہے۔ کوئی انسانی معاشرہ‘ کوئی فرد‘ کرئہ ارض کا کوئی گوشہ خواہ وہ کتنا ہی دُور افتادہ یا الگ تھلگ ہو‘ کتنا ہی طاقت ور یا خوش بخت ہو‘ اس بدنظمی کے اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔جو سارے کرہ ارض پر پھیلی ہوئی ہے۔ ہم اس عالم گیر بحران کو بنیادی عدمِ توازن کا نام دے سکتے ہیں‘ جو انسان کی اس کے ماحول کے ساتھ حیاتیاتی و ثقافتی مطابقت اور ربط کی صلاحیت کو محدود کر کے اسے تباہ کر دیتا ہے۔

جدید صنعتی معاشرے میں یہ مریضانہ رویے عام ہیں: کچھ ہونے یا کچھ بن جانے کے بجائے سب کچھ رکھنے اور حاصل کرنے کا رویہ‘ طاقت کا جنون‘ دوسروں کو آزاد کرنے کے بجائے ان پر غلبہ حاصل کرنے کا جنون ‘شراکت کی ایک وسیع تر معاشرتی حقیقت میں شرکت کے بجائے احساس اجنبیت کی طرف لپکنے کا رجحان‘ فراغت کو تخلیقی اور منفعت بخش مصروفیات میں صرف کرنے کے بجائے محض وقت گزارنے اور اسے ضائع کرنے کا رجحان‘ اندرون کی طرف توجہ کے بجائے بیرون میں مداخلت کا نفسیاتی مزاج جو جنس‘ نسل‘ مذہب یا قومیت کی بنیاد پر تفریق کو بڑھائے‘ تنازعات کو طاقت کے استعمال یا دھونس سے حل کرنے کا رجحان۔ ان سماجی امراض کو جدید صنعتی معاشرے میں دولت‘ طاقت اور علم کی تہ در تہ شکلوں میں اداراتی شکل دی گئی ہے۔ انسانی ضروریات پورا کرنے کو فوقیت دینے کے بجائے صنعتی پیداوار کی اجارہ داری قائم رکھنے سے مریضانہ رویوں کی اداراتی شکل اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ اب نہ صرف انسانی زندگی کا اعلیٰ معیار محفوظ نہیں‘ بلکہ اس کی بقا خطرے میں ہے--- اگر آج انسانی تہذیب کی زوال پذیر حالت کی صحیح تشخیص یہ ہے توپھر کوئی جستہ جستہ‘ یا عارضی یا محدود طریقہ علاج اسے دُور کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ نوعِ انسانی کے نامیاتی (organic) ارتقا کو قائم رکھنے کے لیے ایسی فضا فراہم کرنا اور ایسے جوابات تلاش کرنا ہوں گے جو اپنی اصل میں انقلابی اور عالمی ہوں۔

کونسل آف کلب روم کی تازہ ترین رپورٹ پہلا عالم گیر انقلاب (۱۹۹۱ء) جو اس سے پہلے والی رپورٹ ترقی کی حدود (۱۹۷۲ء) کے بعد منظرعام پر آئی ہے نہ صرف اس بحران کا تازہ ترین اشاریہ ہے‘ بلکہ ایک کھلی اپیل بھی ہے کہ اس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ ‘ انسانی فطرت کی بنیادی مبادیات کی طرف لوٹ کر تلاش کیا جائے۔

رپورٹ کا آغاز اس نکتے سے ہوتا ہے: نئی صدی کے آغاز پر بنی نوع انسان بے یقینی کی گرفت میں محسوس ہوتی ہے‘ بلکہ ہزاریے کا اختتام اپنی وسیع تر سرعت پذیر تبدیلی کے ساتھ بے یقینی کی زیادہ گہری کیفیت لا رہا ہے۔

یہ رپورٹ تسلیم کرتی ہے کہ باوجود بے مثال معاشی ترقی کے تقریباً ایک اعشاریہ تین ارب لوگ جوعالمی آبادی کے ۲۰ فی صد سے زیادہ ہیںشدید بیماری یا بھوک کا شکار ہیں۔ یہ رپورٹ معاشی ناہمواریوں‘ کھلی عدم مساوات‘  حددرجہ عام اور شدید غربت بہ مقابلہ دولت کی فراوانی‘ ہر قسم کے ذہنی و نفسیاتی دبائو اور چپقلشوںکو جو مختلف جغرافیائی علاقوں میں سر اٹھا رہی ہیں‘ غیر متنازعہ حقائق کے طور پر ریکارڈ پر لاتی ہے۔ یہ رپورٹ آج کی صورت حال کو اس حقیقت کی بڑھتی ہوئی آگہی کے طور پر پیش کرتی ہے کہ ’’نسل انسانی جس طرح مادی فوائد کے لیے فطرت کا استحصال کر رہی ہے‘ اس سے دراصل وہ اس سیارے کو تباہی کی طرف لے جا رہی ہے‘‘۔ انسانی بے اطمینانی کے حوالے سے رپورٹ بتاتی ہے:

’’پہلے عالم گیر انقلاب کی غیر معمولی تبدیلیوں کی پیدا کردہ صدماتی لہروں کی زد سے کوئی علاقہ یا معاشرہ نہیں بچ سکا ہے۔ اس اکھاڑ پچھاڑ نے ماضی سے ورثے میں ملے ہوئے سماجی تعلقات‘ عقائد اور انسانی رشتوں کو توڑ دیا ہے اور مستقبل کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل بھی نہیں دیا۔ شکوک اور مایوسی کی بہت سی وجوہ ہیں: اقدار اور حوالوں کا غائب ہو جانا۔ دنیا کی روز افزوں پیچیدہ اور غیر یقینی صورت حال‘ نئے عالم گیر معاشرے کے استدراک میں حائل مشکلات‘ نئے غیر حل شدہ مسائل مثلاً ماحولیاتی ابتری کا سلسلہ اور جنوبی ممالک کی انتہائی غربت اور پس ماندگی‘ نیزذرائع ابلاغ کے اثرات جو کسی سنگین حقیقت اور کسی ناگہانی مصیبت کے المیے کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔

اس چیلنج کی ماہیت اور وسعت کا نقشہ پیش کرتے ہوئے رپورٹ کہتی ہے:

اس سے پیش تر تاریخ میں انسان کبھی بھی اتنے خدشات و خطرات سے دوچار نہیں ہوا۔ اس کو بغیر کسی تیاری کے ایک پتھر یا گولے کی طرح دنیا میں پھینک دیا گیا ہے جہاں وقت اور فاصلے کا احساس ختم ہو چکا ہے۔ انسان کو ایک سمندری طوفان کے اندرکھینچ لیا گیا ہے جہاں اسباب و نتائج ایک ایسا جالا بنتے ہیں جس سے باہر نکلنا محال ہے۔ صدی کے اس آنے والے موڑ پر ہر جہت سے آنے والی مظاہر قدرت کی فراوانی نوع انسان پر چھا گئی ہے۔ حقیقت ان الفاظ سے زیادہ ہے کیونکہ روایتی ڈھانچے اور ادارے مسائل کی موجودہ پیچ درپیچ تہوں کا مقابلہ نہیں کر پا رہے۔ مزید خرابی یہ ہے کہ دقیانوسی اور غیر موزوں ڈھانچے حقیقی اخلاقی بحران میں رائج کیے جا رہے ہیں۔ آج معاشرے کو جس خلا کا سامنا ہے اس کی تصدیق نظامِ اقدار کی ٹوٹ پھوٹ‘ روایات پر شکوک و شبہات‘ نظریات کے انہدام‘ عالم گیر وژن کے فقدان اور جمہوریت کے رائج طریقوں کی محدودیت وغیرہ سے ہوتی ہے۔ افراد خود کو بے یارومددگار پاتے ہیں۔ کیوں کہ ایک طرف ان خطرات کا سامنا ہے اور دوسری طرف پیچیدہ مسائل کا بروقت جواب دینے اور برائی کی شاخوں کی جڑ پر وَار کرنے کی اہلیت وہ اپنے اندر نہیں پاتے۔

بڑی دل چسپ اور معلومات افزا بات یہ ہے کہ یہ رپورٹ ان مسائل کے حوالے سے بنی نوع انسان کو دعوت دیتی ہے کہ وہ قرآن پاک کی سورۃ العصر پر غور کرے:

وَالْعَصْرِ o اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ o اِلاَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْْحَقِّ لا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ o  (العصر ۱۰۳:۱-۳)

زمانے کی قسم! انسان درحقیقت بڑے خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے ‘جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔

اسلامی متبادل

تہذیب کے بحران کا معروضی تجزیہ یہ ضرور بتائے گا کہ نوعِ انسانی ایک نازک مقام پر کھڑی ہے۔ موجودہ صورت کے جاری رہنے میں تباہی لازمی ہے۔ اس کی بقا کا انحصار اس پر ہے کہ نوع انسانی کی اخلاقی بنیادوں کی بازیافت سے نیا آغاز کیا جائے‘ اور انسانوں اور معاشرے کے ایسے تصور کو تسلیم کیا جائے جو دنیا‘ نوعِ انسانی اور اس کی تقدیر کا ادراک اخلاقی بنیادوں پر کرے۔

اس مقام پر انسانوں کی ضرورت ہے کہ وہ اللہ کے کلام اور اس کی دی ہوئی ہدایت سے رشتہ استوار کریں۔ یہ انھیں ان کے خالق سے آگاہ کرتا ہے‘ اور انھیں ان کی تخلیق کا مقصد بتاتا ہے۔ اشرف المخلوقات کی حیثیت سے انسان کو اس کے مقام سے آگاہ کرتا ہے اور ایک بھرپور اور ثمرآور زندگی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ ان کو آخرت کے بارے میں بتاتا ہے۔ ان کو دوسرے انسانوں کی قدر و قیمت سے آگاہ کرتا ہے اور ہر چیز کو حق اور انصاف کے تابع کر دیتا ہے۔ یہ ان کو اس قابل بنا دیتا ہے کہ اپنے ساتھ‘ تمام مخلوق کے ساتھ اور اپنے خالق کے ساتھ سکون سے رہیں۔

اس حقیقی چیلنج کے پیش نظر جو آج بنی نوع انسان کو درپیش ہے یہ کہنا چاہیے کہ اصل مسئلہ محض کسی نئے اقتصادی نظام یا نئی عالم گیر سیاسی تنظیم کا نہیں ہے‘ بلکہ اس نئے عالمی نظام کا ہے جو انسان کے نئے تصور اور معاشرے اور انسان کی تقدیر کے متعلق ایک مختلف وژن پر مبنی ہو۔ اصلاح کے لیے جو کوشش عالمی مذاہب کے زیراثر عموماً‘ اور اسلام کے زیراثر خصوصاً کی جائے‘ اس کا آغاز یہ ہے کہ انسان کا اصل مسئلہ سمجھنے اور اس کے حل تک پہنچنے کے لیے اس تصور کو درست کرنے کی طرف پیش قدمی کی جائے۔

اصل ضرورت یہ نہیں ہے کہ بڑی ساختوں (superstructures) میں بعض تبدیلیاں لانے کے بارے میں کچھ رعایتیں تلاش کی جائیں بلکہ ضرورت یہ ہے کہ ان بنیادوں کو پرکھا جائے جن پر سارا معاشرتی ڈھانچہ اور معیشت کی عمارت تعمیر کی گئی ہے ۔ ان مقاصد کا جائزہ لیا جائے جو ثقافت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ معاشی‘ سیاسی اور معاشرتی تعلقات میں پایا جانے والا بحران‘ ان تصورات اور ان اداروں کا جو ان کے حصول کے لیے بنے‘ قدرتی نتیجہ ہے۔ اس لیے اسلام کا پیغام یہ ہے کہ نوعِ انسانی کے لیے افراد اور معاشرے کا درست وژن ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے حالات درست ہو سکتے ہیں۔ اس کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی سوچ میں بنیادی تبدیلی لائیں۔

تبدیلی کا طریقۂ کار اور حکمت عملی جیسی کہ یہ معاصر مغرب میں نشوونما پا رہی ہے اور روبہ عمل ہے ‘ اس سے یہ قیاس کر لیا گیا ہے کہ انسانوں میں انقلابی تبدیلی صرف اس صورت میں لائی جا سکتی ہے‘ جب ماحول اور اداروں کو تبدیل کر دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونی طور پرازسرنو تعمیر پر زور دیا جاتا ہے۔ اس طریقے کی ناکامی کی وجہ :انسانوں کو ‘ ان کے عقائد‘ ان کے محرکات‘ ان کی اقدار اور ان کی ذمہ داریوں کو مرکز توجہ نہ بنانا ہے۔ اس طریقے نے انسان کے دل و دماغ میں تبدیلی کو نظراندازکیا ہے اور اصل توجہ باہر کی دنیا میں تبدیلی پر مرکوز کی ہے۔ جو شے ضروری ہے وہ انسانوں کے اپنے اندر اور ان کی معاشرتی و معاشی کیفیت میں مکمل تبدیلی ہے۔ مسئلہ محض بناوٹ یا ساخت کا نہیں ہے لیکن ساختی انتظامات کو بھی نئی شکل دینا ہوگی۔ نقطہء آغاز انسانوں کے دل اور روح اور حقیقت (reality)کے تصور اور زندگی میں ان کے مقام اور مقصود زندگی کو ہونا چاہیے۔

معاشرتی تبدیلی کے اسلامی نقطۂ نظر میں ان تمام عناصر کو ملحوظ رکھا گیا ہے:

۱- معاشرتی تبدیلی مکمل طور پر پہلے سے طے شدہ تاریخی قوتوں کا نتیجہ نہیں ہے۔ اگرچہ بہت سی رکاوٹوں اور مشکلات کا وجود زندگی اور تاریخ کی ایک حقیقت ہے‘ مگر تاریخ میں کوئی جبر نہیں ہے۔ تبدیلی کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور پھر اسے بروے کار لایا جاتا ہے ۔ یہ تبدیلی بامقصد ہونی چاہیے‘ اور منزلِ مقصود کی جانب رواں رکھنے والی ہونی چاہیے۔

۲- انسان ہی تبدیلی کا سرگرم اور اصل عامل ہے۔ زمین پر اللہ کے نائب یعنی  خلیفہ فی الارض (viceregent) کی حیثیت سے تمام دوسری قوتیں ان کے تابع کر دی گئی ہیں۔ اس کائنات کے الوہی انتظام کے اندر اور اس کے قوانین کے تحت اپنی قسمت بنانے یا بگاڑنے کے ذمہ دار خود انسان ہی ہیں۔

۳- ضرورت ہے کہ تبدیلی صرف ماحول اور بیرونی نظام کی نہ ہو بلکہ مرد و زن تمام انسانوں‘ سب کے دل اور روح کے اندر بھی تبدیلی لائی جائے۔ یعنی ان کے رویوں میں‘ ان کے محرکات میں‘ ان کی وابستگیوں میں اور ان کے ارادوں میں کہ وہ اپنے اندر کو اور اپنے آس پاس سب کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے متحرک کر دیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقی تبدیلی وہی ہو سکتی ہے جس کی بنیاد ایمان اور اعتقاد پر ہو۔

۴-  زندگی باہمی تعلقات کا ایک تانا بانا ہے۔ تبدیلی کا مطلب ہے کہ بعض تعلقات بعض جگہوں پر منقطع ہوں۔ اس میں یہ خطرہ ہے کہ تبدیلی معاشرے میں افراد کے درمیان عدمِ توازن کا ایک آلۂ کار بن جائے۔ ایک حالت توازن سے بہتر ارتقائی حالت کی طرف‘ یا ایک عدم حالت توازن سے حالت توازن کی طرف لے جانے والی منظم اور مربوط‘ اسلامی معاشرتی تبدیلی کم سے کم انتشار اور عدمِ توازن کی کیفیت پیدا کرے گی۔لہٰذا ‘تبدیلی کو متوازن‘ بتدریج اور ارتقائی ہونا چاہیے۔ اختراع (innovation)کو انجذاب (assimilation)کے ساتھ ملانا ہے۔ یہ منفرد اسلامی طرز ہی ہے جو ارتقائی مدار پر انقلابی تبدیلیوں کی طرف لے جاتا ہے۔

اگر یہ بنیادی تبدیلیاں عمل میں لائی جائیں تو یہ نئے عالمی نظام کے مسائل سے نبٹنے کی ہماری حکمت عملی کو تبدیل کر دیں گی۔

اسلام اللہ کی آخری اور مکمل ترین ہدایت کا حامل ہے۔ یہ مجموعہ قوانین‘ زندگی کا عملی نمونہ ہے جو اللہ پاک نے ‘ جو خالق و مالک کائنات ہے‘ نسل انسانی کی رہنمائی کے لیے بذریعہ وحی نازل کیا ہے۔ اسلام انسانوں کا اللہ سے اور اس کی تخلیقات سے ایسا تعلق قائم کرتا ہے کہ وہ تمام موجودات سے تعاون کرتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ اس جہت (dimension)سے غفلت نے انسانی زندگی کو درماندہ کر دیا ہے اور نوع انسانی کی مادی فتوحات اورکامیابیوں کو بے معنی بنا دیا ہے۔ لادینیت کی گرفت نے انسانی زندگی کو اس کی روحانی اہمیت سے محروم کر دیا ہے‘ تاہم روحانی عظمت‘ پینڈولم کو دوسری انتہا کی طرف جھولا دینے سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ مادیت اور روحانیت کی یک جائی ہی سے مطابقت اور توازن پیدا کیا جا سکتا ہے۔ زندگی نام ہی جسم اور روح میں یک جائی کا ہے اور موت اس رشتے کے ٹوٹ جانے کا نام ہے۔ یہی معاملہ تہذیب کی زندگی اور بالیدگی کا ہے۔ نہ محض روحانیت پر مبنی نظام‘ زندگی کے مسائل کا حل ہے اور نہ صرف مادی اور طبعی عوامل پر مبنی۔ دونوں کا امتزاج اور یک جائی ہی انسانی زندگی میں توازن اور ہم آہنگی کے ضامن ہو سکتے ہیں۔

یہی راستہ ہے جس کی اسلام وکالت کرتا ہے۔ یہ انسانی وجود کی ساری وسعت کو روحانی اور مذہبی بناتا ہے۔ اس طرح یہ انسانی مرضی کو اللہ کی مرضی سے ہم آہنگ کرنے کی علامت بن جاتا ہے۔ کیونکہ اسی طریقے سے انسانی زندگی کو امن و سکون میسر آسکتا ہے۔ اللہ کے ساتھ تعلق کے رشتے کو دریافت کر کے ہی لوگ اپنی زندگی میں سکون پاتے ہیں۔ نیز فطرت کے ساتھ بھی بیرونی و اندرونی ہر طرح سے سکون اسی طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انسان اور فطرت ایک دوسرے کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں ہیں۔ وہ ایک مشترکہ جدوجہد میں ایک دوسرے کے شراکت دار ہیں تاکہ تخلیق آدم کے مشن کی تکمیل کریں۔ اس مربوط نقطہء نظر میں ماحول کی کارفرمائی سے غفلت کی کوئی گنجایش نہیں۔اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہم آج نئے عالمی نظام کی تلاش میں زندگی کے کسی ایسے نئے ڈھب کی جستجو کریںجوانسانی مسائل کو کچھ مختلف طریقوں سے سلجھائے ۔ یہ حل جو محض محدود قومی یا علاقائی مفادات کے تناظر میںنہ ہو‘ بلکہ اس کے پیش نظر یہ بھی ہو کہ کیا درست اور کیا نادرست ہے ؟ کس احسن طریقے سے ہم انفرادی‘ قومی اور عالمی سطحوں پر ایک منصفانہ انسان دوست عالمی نظام کی نشوونما کے لیے کوشش کر سکتے ہیں؟

یہ حقیقت کہ موجودہ نظام بے انصافی اور استحصال سے عبارت ہے ‘کسی شک و شبے کے بغیر ثابت ہو چکی ہے۔ اسلام کے مطابق‘ موجودہ نظام اس لیے ناکام ہے کہ یہ انسانوں کے آپس کے اور معاشرے‘ فطرت اور دنیا سے تعلقات کے غلط تصور پر مبنی ہے۔ نئے نظام کی تلاش ہم کو اس مقام پر لاتی ہے جہاں انسانوں اور ان کے کردار کے نئے تصور کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ عالمی مذاہب کے نقطۂ نظر سے عموماً اور اسلام کے  نقطۂ نظر سے خصوصی طور پر بحث کا مرکز‘ فرد اور معاشرے کے نئے وژن کی طرف مبذول ہونا چاہیے‘ جو انسانی شعور اور اقدار کی سطح پر تبدیلی لانے کے لیے ہو‘ جو نئی ثقافتی تبدیلی کی طرف لے جائے۔

اسلام معاشرتی تبدیلی کے لیے ایک تحریک ہے۔ یہ نہ صرف معاشرے کا واضح تصور دیتا ہے اور تاریخ میں مطلوبہ تبدیلی برپا کرنے کا لائحہ عمل مرتب کرتا ہے‘ بلکہ معاشرتی و معاشی پالیسی کے لیے واضح رہنما خطوط بھی مہیا کرتا ہے۔ وہ ایسے کلیدی ادارے قائم کرنے کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو اس پالیسی کے نفاذکے ضامن ہوںاورباقاعدہ لیڈرشپ کے تحت منظم جدوجہد کریں تا کہ یہ مقاصد زمان و مکان کے اندر حاصل ہوں۔

اُمت مسلمہ مذہب کے بارے میں تحریکی سوچ رکھتی ہے۔ سوچ کا یہ آہنگ انفرادی‘ معاشرتی اور عالمی یعنی تین سطحوں پر عمل کرتا ہے۔ انفرادی سطح پر جب تک افراد اپنے کردار کے بارے میں پختہ ایمان‘ نیا شعور اور نیا تصور نہ رکھتے ہوں‘ یہ تبدیلی برپا نہیں کی جا سکتی۔ دوسری سطح معاشرے کی ہے۔ اولاً یہ قومی سطح پر ہوگی‘ بعد میں ساری دنیا کو اس میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی حکمت عملی یہ ہے کہ یہ فرد کے اندر نئے شعور کی تخلیق سے آغاز کرتی ہے‘ جو اس کی اقدار کو اپنے اندر سمو لیتا ہے اور پھر صحیح زندگی کے قیام کے لیے کوشش کرتا ہے‘ جو وقتی مصلحت پر مبنی نہ ہواور نہ ذاتی یا گروہی مفادات کو اولیت دے بلکہ وہ  اسی پر پیش قدمی کرے جوسچ اور حق ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح ایک انفرادی مسئلے کو عالم گیر سطح پر دیکھا جائے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر ایک شخص ناحق قتل کیا جاتا ہے تو یہ گویا تمام نسل انسانی کے قتل کرنے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی ایک زندگی بچا لیتا ہے تو گویا وہ ساری نسل انسانی کو بچا لیتا ہے (المائدہ ۵:۳۲)۔ اس طرح ایک انفرادی واقعے کو ایک عالمی مسئلے اور ایک اصول میں تبدیل کر دیا جاتا ہے اور اس طرح ایک واقعہ اقدار کی قدروقیمت کی ایک پوری دنیا سامنے لے آتا ہے۔

اسلام موجودہ حالت (status quo) کا دفاع نہیں کرتا۔یہ انسانی زندگی پر‘ خود مسلمانوں کی زندگیوں پر اور مسلم معاشرے کی تنظیم پر تنقید کرتا ہے۔ موجودہ مسلم معاشرہ‘ اسلامی معیار کے حوالے سے بہت پست سطح تک گر چکا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ اس کی اصلاح اور تشکیل نو کرنی ہے تاکہ وہ معاشرتی‘ اقتصادی اور سیاسی قدریں اور ادارے قائم ہوں جو انسانی تعلقات میں انصاف کو قائم کر سکیں۔ اسلام سیاسی اقتدار کو اپنے اخلاقی تصورات کے تحت لانا چاہتا ہے۔ اسلام کے لیے برپا تحریکوں کے نتیجے میں ایسے معاشرے اور ایسی ہی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا۔ اسی طرح مسلمان دنیا میں اپنا نظریاتی کردار ادا کر سکیں گے۔ یعنی پہلے وہ اپنے گھر کو درست کریں‘ ایک مثالی معاشرہ بنانے کے لیے اپنے وسائل کو وقف کریں‘ جہاں ان کو سیاسی قوت حاصل ہو‘ اور پھر عدل و انصاف کی خاطر اس اصول پر عمل کرتے ہوئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے قحط زدہ لوگوں کی مدد کرتے ہوئے اپنایا تھا‘ (حالانکہ وہ سیاسی طور پر آپؐ کے ساتھ بحالت جنگ تھے) اس میں دوسروں کو شریک کریں۔

ذہنوں میں یہ بات بالکل واضح رہنی چاہیے کہ اسلامی ریاست کبھی بھی انسانوں کے ساتھ حالت جنگ میں نہیں رہی۔ اس کا مقابلہ ان اداروں اور ان قیادتوں سے رہا ہے جو جنگجو سیاسی قوت کی نمایندگی کرتے تھے۔ یہ بات ایک نئے مثالی عالمی نظام کی طرف رہنمائی میں نوعِ انسانی کی مددگار اور معاون ثابت ہو سکتی ہے‘ جہاں دوست دشمن سب کے ساتھ یکساں انصاف کیا جائے اور جہاں دولت میں ضرورت مند کا حصہ ہو‘ اس وجہ سے نہیں کہ یہ مصلحت کا تقاضا ہے بلکہ اس لیے کہ یہ انصاف کا تقاضا ہے۔

یہ عالمی نظام جن بنیادی اقدار پر قائم ہوتا ہے وہ درج ذیل ہیں:

۱- توحید (اللہ کی وحدانیت اور اقتداراعلیٰ): یہ وہ بنیاد ہے جس پر اسلام کا نظریہ کائنات اور زندگی کا نظام قائم ہے۔ یہ خدا کے انسانوں سے اور انسانوں سے انسانوں کے تعلقات کے اصول بیان کرتا ہے۔ توحید محض ایک مابعدالطبیعیاتی نظریہ نہیں ہے۔ معاشرتی حقیقت کے بارے میں انسانی فکر اس عقیدے کا جزو لاینفک ہے۔ انسانی تعلقات میں عدل کا قیام اس دین کا بنیادی مطالبہ ہے۔ عدل صرف اپنوں سے نہیں بلکہ دشمنوں اور محکوموں سے بھی ۔اللہ کی وحدانیت اور اس کے اقتدار اعلیٰ پر ایمان کا مطلب ہے کہ سب انسان برابر ہیں اور ان کے حقوق (حقوق العباد) دراصل اللہ کے حقوق (حقوق اللہ) کی فطری توسیع ہیں۔ جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہے:

]ترجمہ[تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے پر نہیں اُکساتا۔ پھر تباہی ہے ان نماز پڑھنے والوں کے لیے جو اپنی نماز سے غفلت برتتے ہیں‘ جو ریاکاری کرتے ہیں اور معمولی ضرورت کی چیزیں (لوگوں کو) دینے سے گریز کرتے ہیں۔ (سورہ الماعون ۱۰۷:۱-۷)

۲- استخلاف  (نیابت) : اسلام اس دنیا میں انسانوں کی حیثیت کا تعین بطور خلیفہ اللہ کرتا ہے‘ یعنی وہ اللہ کے ماتحت اس کے نمایندے اور زمین پر اس کی مرضی قائم کرنے کے لیے مامور ہیں۔ ہر وہ چیز جو وجود رکھتی ہے انسانوں کے تصرف میں دے دی گئی ہے‘ تاکہ وہ اپنے اس کردار کی تکمیل کر سکیں۔ تمام طبعی و دیگر وسائل ہمارے ہاتھوں میںقدرت کی ایک امانت ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم مالک نہیں بلکہ اللہ کے نمایندے ہیں‘ اور ہمارا پہلا فرض یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے آقا کی مرضی و منشا کو پورا کریں۔ کائنات کی ہرچیز کے‘ اپنی ذاتی صلاحیتوں اور تمام مقبوضات و مملوکات کے ہم امین ہیں۔ ہمیں امانت کی حدود کے اندر رہ کر تمام اقتدار و اختیار کو بروے کار لانا ہے ۔جو کچھ ہم کرتے ہیں ہم اس کے لیے جواب دہ ہیں۔ یہ اصول دنیا کے معاملات میں ہماری عملی شرکت کو شرط قرار دیتا ہے ‘تاکہ زندگی کی تکمیل کی راہ تلاش کی جائے۔ اس سے ہمیں یہ ترغیب ہوتی ہے کہ ہم تمام مخلوقات سے بحیثیت دشمن نہیں بلکہ بحیثیت ایک دوست اور شراکت دار پیش آئیں ‘جو انھی مقاصد کی تکمیل کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔

انسانوں کی مساوات و اخوت کا اسلامی تصور اور امت کی نظریاتی برادری اس خلافت‘ امانت اور قیادت کے لازمی عناصر ہیں۔

۳- انسانوں کے درمیان قیامِ عدل: انسانوں کے درمیان قیامِ عدل ان بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے ‘جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا اور اپنی رشد و ہدایت سے سرفراز کیا۔ سب انسانوں کو وہ حقوق حاصل ہیں جو اللہ نے دیے ہیں۔ اس طرح سب اللہ کی نعمتوں کے منصفانہ طور پر حصہ دار ہیں۔ ناداروں اور ضرورت مندوں کو امیروں کی دولت اور معاشرے پر حق حاصل ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ ان کی مدد کی جائے اور ان کو اس قابل بنا دیا جائے کہ وہ کوئی ہنر سیکھ لیں ‘تاکہ اپنی روزی باعزت طور پر کما سکیں۔

۴- سیاسی اور معاشی طاقت فی نفسہ برائی یا  شر نہیں: یہ خیر کے قیام کا ذریعہ اور ان حدود کی پابند ہیں جو خالق نے ان کے لیے مقرر کی ہیں۔ اس طرح یہ دین اسلام کے مشن کا حصہ ہے کہ سیاسی اور معاشی طاقت کو ہم کام میں لائیں‘ تاکہ اخلاقی مقاصد پورے ہوں۔ انھیں ظلم و استحصال کے آلۂ کار بننے سے بچانے کے لیے اس طرح استعمال میں لانا چاہیے کہ وہ عدل کے مقاصد کی خدمت کریں ‘نیکی اور اچھائی کو ترقی دیں ‘ شر اور برائی کو روکیں۔

۵-  اللّٰہ اور انسان کے درمیان فیصلہ کن امر‘ اللّٰہ کی ہدایت: انسان کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اس ہدایت کے بارے میں صحیح یا غلط رویے پر ہے۔ اللہ کی رہنمائی اس کی کتاب قرآن مجید اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی صورت میں موجود ہے۔ یہ دونوں واضح طور پر ان تصورات‘ اقدار اور اصولوں کو بیان کرتے ہیں جن کی ہمیں اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو حق اور انصاف کی بنیادپر تعمیر کرنے کے لیے ضرورت ہے۔ اس رہنمائی کے اندر ایک طے شدہ طریق کار موجود ہے ‘جو بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کو پورا کر سکتا ہے۔ اس کی حدود کے اندر ارتقا اور نشوونما ہوتا ہے۔ صرف الہامی ضابطہ حیات سے وابستگی ہی انسان کو خود روی اور ناانصافی میں دوبارہ مبتلا ہو جانے سے باز رکھنے کی سب سے بڑی ضمانت ہے۔

یہ ہیں وہ بنیادی اصول جن پر اسلام عالمی نظام کی تعمیرنو کرنا چاہتا ہے۔

اسلام نے صرف انفرادی اور اجتماعی زندگی اور ملکی اور عالمی نظام کے لیے بنیادی رہنمائی ہی فراہم نہیں کی ہے بلکہ نئے نظام کے قیام کے لیے ایک واضح حکمت عملی بھی دی ہے جو زمان و مکاں کی تحدیدات (limitations) سے بالا ہے۔

اس جہت میں اسلام کا پہلا احسان یہ ہے کہ وہ اس مسئلے کا جائزہ لینے کا طریق کار بتاتا ہے۔ اسلام حقیقت کی روحانی قدر پر مبنی کلی نقطۂ نظر اختیار کرتا ہے۔ یہ سب انسانوں کو ان کے مکمل وجود کے حوالے سے ان کے خالق اور اس کی ساری مخلوق سے تعلق کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ یہ مادی اور روحانی‘ طبعی اور اخلاقی ثنویت کا قائل نہیں۔ یہ دین کو دنیا سے جوڑ دیتا ہے اور زندگی کو ایک مربوط ہم آہنگ اکائی بنا دیتا ہے۔ یہ جنس (gender)کے کمپلیکس سے بھی آزاد ہے اور مرد و زن کو مساویانہ طور پر اللہ کے نائب سمجھتا ہے اور ان کے لیے یہاں اس دنیا میں اور آخرت میں کامیابی کے لیے ایک جیسا معیار رکھتا ہے۔

عصرحاضر کے تمام نظریات‘ اور جزوی تبدیلی پر مطمئن ہو جانے والے بعض مذہبی رویوں کے برخلاف اسلام مکمل تبدیلی کا علم بردار ہے۔ یہ فرد کی تطہیر و تزکیہ کرکے معاشرے کی تعمیرنو کرتا ہے اور اس طرح یہ فرد اور معاشرے کو مزید ارفع مقصد کے حصول کا اہل بناتا ہے ‘یعنی انسانوں کے درمیان قیام عدل کے ذریعے اللہ کی مرضی کو پورا کرنا۔

اسلام کا طریقہ اقدار پر مبنی ہے‘ نہ کہ انفرادی یا قومی مصلحتوں پر۔ پھر اس کا نقطۂ نظر مثبت اور تعمیری ہے‘ نہ کہ محض منفی یا تخریبی۔ یہ ہر انسان کی مکمل اخلاقی‘ معاشرتی اور معاشی بہبود چاہتا ہے۔ یہ انسانی زندگی کے تمام پہلوئوں میں عملاًانصاف کی عمل داری دیکھنے کا موقف رکھتا ہے۔ یہ عالم گیر بھلائی اور انصاف کے اصولوں کا علم بردار ہے اور انسانی برادری کو دعوت دیتا ہے کہ آئو اس کو قائم کرو۔ یہ افراد کی دیانت اور ان کے انسانی حقوق کو یقینی بناتا ہے جن کی ضمانت ان کے خالق نے انھیں دی ہے۔ اسلام اس جذبے کو اُبھارتا ہے کہ انسان ایسا معاشرتی نظام قائم کرے جس میں امن‘ عزت اور انصاف کا بول بالا ہو۔

ایسے عالمی نظام کے قیام کے لیے اسلام کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ رنگ‘ نسل‘ زبان‘ قومیت کا لحاظ رکھے بغیر تمام انسانوں کو یہ راستہ اختیار کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہ مشرق یا مغرب‘ شمال یا جنوب‘ ترقی یافتہ یا غیر ترقی یافتہ کے مفادات کی بولی نہیں بولتا۔ یہ نئے عالمی نظام کو دنیا کے تمام حصوں کے تمام انسانوں کے لیے قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس عالمی نقطۂ نظر کے ذریعے اسلام تصورات اور اصولوں کے ایک نئے شعور کو آگے لانا چاہتا ہے ‘جن پر انسانیت کی ازسرنو تعمیر کی جانی چاہیے ۔یہ نوعِ انسانی کو دعوت دیتا ہے کہ انسانی فکر اور عمل کی تعمیرنو کے لیے اس کے مضمرات پر غور کرے۔

اسلام ایک معاشرتی تحریک بھی برپا کر تا ہے۔ ایک ایسی بین الاقوامی تحریک جس میں ان تصورات اور اقدار کو تسلیم کرنے والے ایک نیا عالمی نظام قائم کریں۔ اسلام کا پرزورمطالبہ ہے کہ دنیا کے کسی حصے میں خلوص نیت کے ساتھ یہ نمونہ قائم کر لیا جائے۔ اگر مسلم دُنیا ان اصولوں پر نئے سرے سے اپنا معاشرتی نظام تعمیر کرلے تو اس کی جیتی جاگتی مثال بن سکے گی‘ تاہم مسلمانوں کی حقیقی صورت حال اس مثالی تصور سے بہت دُور ہے۔ ایک دفعہ یہ نمونہ (ماڈل) دنیا میں کہیں بھی ‘کسی بھی مقام پر قائم ہو جائے تو ہر کوئی اس سے اسی طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے جیسے دھوپ سے سب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس کے امکانات بڑی حد تک اس اسلامی تحریک پر منحصرہیں جو فقہی اور مسلکی تنگنائیوں کی دلدل میں پھنسنے کے بجائے نظامِ نو کے قیام کے لیے اس عالمی جدوجہد کی قیادت کر رہی ہے۔

اسلامی نشات ثانیہ اور نیا عالمی نظام

اسلامی احیا کی جدید تحریک اپنی آفاقیت اور گیرائی کے لحاظ سے بے مثال ہے۔ مسلم معاشروں میں سیاسی نظریات نے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی‘ مگر مختصر اور دکھاوے کی کامیابی کے بعد ناکام ہوئے۔ مصر کے صدر جمال عبدالناصر کی عرب قوم پرستی جس نے عرب دنیا کو سبز باغ دکھائے آخرکار ناکام ثابت ہوئی۔ شام اور عراق میں بعث پارٹی کی نام نہاد سوشلسٹ عرب قوم پرست حکومتیں بھی پورے طور پر ناکام رہی ہیں اور اگر کسی مسخ شدہ صورت میں موجود ہیں تو محض اس لیے قائم ہیں کہ وہ صرف ظلم و جبرکے سہارے قائم ہیں۔ آج ساری دنیا میں اشتراکی فریب کا پردہ چاک ہو چکا ہے‘ روس ہو یا مشرقی یورپ‘ لاطینی امریکہ ہو یا وسطی امریکہ یا افریقہ۔ دیوارِ برلن کا انہدام اور سوویت یونین کا انتشار سوشلزم کی قبر کا کتبہ بن گئے اور سوشلزم تاریخ کے پس منظر میں گم ہو گیا‘ تاہم اسلام نے مختلف براعظموں میں پھیلے ہوئے نسلی اور ثقافتی مختلف النوع لوگوں کو اکٹھا کر دیا ہے۔ یہاں کوئی عرب اسلام نہیں‘ نہ پاکستانی اسلام‘ نہ ایرانی اسلام اور نہ ترکی اسلام۔ یہاںصرف اسلام ہے۔ اس طرح اسلامی عالمیت میں وحدت تو ہے مگر یکسانیت (uniformity)  نہیں۔ اسلام میں   یہ وسعت ہے کہ وہ ایک طرف اپنے ابدی اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونے دیتا جو یک رنگی کا ذریعہ بنتے ہیں تو دوسری طرف اس کے لیے فریم ورک میں یہ گنجایش ہے کہ مقامی اور مخصوص ضرورتوں کو اسی طرح سمولیتا ہے جس طرح ایک باغ میں پھولوں کی مختلف روشیں اور پھلوں کے درختوں کی متنوع قطاریں۔

مسلمان عموماً اور حالیہ نشات ثانیہ کے بہت سے قائد خصوصاً نسلی طور پر مختلف ہیں لیکن وہ خود احتسابی سے گریز نہیں کرتے۔ مذہبی روایت میں موجود علامات و احوال کا وہ اجتہادی بصیرت کے ساتھ پھر سے جائزہ لینے کو تیار ہیں۔ اس کا مقصود اسلام کے ابدی اصولوں کے قیام کے لیے روحانی‘ سیاسی‘ معاشرتی و اقتصادی تصورات کی تعبیر اور تعمیرنوہے۔ اسے اسلامی احیا کی روح یعنی اسلام کی اصل بنیاد تک پہنچنا قرار دیا جا سکتا ہے۔

اپنے اصل ماخذ کی طرف اس مراجعت کو مسلمان ‘طاقت کے منبع سے وابستگی کی صورت میں دیکھتے ہیں مگر اہل مغرب اور سیکولر اشرافیہ اس پر ’’بنیاد پرستی‘‘ کا لیبل چپکا دیتے ہیں۔ عقائد کا احیا اور اقامت دین وہ لازمی بنیادیں ہیں جس پر اسلامی زندگی قائم ہوتی ہے۔ اس کا کسی نوع کی بھی مبینہ بنیاد پرستی سے کوئی واسطہ نہیں جو رجعت پسندی‘ تشدد اور تاریخی رومانویت سے عبارت ہے۔

یہ تازہ سوچ‘ ایک نیا عہد‘ توانائی‘ لچک اور (سب سے بڑھ کر) ایک ایسی اہلیت عطا کرتی ہے جس سے حالیہ مشکلات کا سامنا کیا جا سکتا ہے۔ بہت سے لوگ اسلام کو تہذیب و ثقافت کے سرچشمے اور معاشرے کی تشکیل نو کے ایک لازمی عنصر کی حیثیت سے ازسرنو دریافت کر رہے ہیں۔

اسلامی نشات ثانیہ کا موجودہ مرحلہ تقاضا کرتا ہے کہ مغربی نمونوں (models)کی غلامانہ نقالی سے  احتراز کیا جائے اور ایک چھان پھٹک والی بصیرت اختیار کی جائے کہ بیرونی تہذیب سے کیا لینا چاہیے اور کیا نہ لینا چاہیے۔ خذ ما صفا ودع ماکدر کی میزان پر یہ کام انجام دینا وقت کی ضرورت ہے۔ اس سے ثبات اور لچک دونوں کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ اسلامی معاشرہ بہت سے طریقوں سے مغربی تجربے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اجنبی ثقافتوں کے تسلط کو اپنی ثقافت کی قیمت پر جاری رکھا جائے۔

مبصرین اکثر یہ سوال اٹھاتے ہیں: کیا مسلم ممالک ترقی‘ ٹکنالوجی اور ایسے ہی دوسرے راستوں کو مسترد کر سکتے ہیں؟ صاف بات ہے وہ مسترد نہیں کرنا چاہتے۔ حقیقی سوال یہ ہے کہ کس قسم کی ترقی مطلوب ہے‘ اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟ مسلمانوں کو اندیشہ ہے کہ ان کی قوموں کو جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے وہ ماضی کے سامراجی منصوبوں کا ایک نیا ہیولا ہے۔ ماضی میں جسے ’’سفید فام نسل کی ذمہ داری‘‘ قرار دیا جا رہا تھا وہ آج  ’’نئے عالمی نظام‘‘ کے نام پر مغربی تہذیب و ثقافت کو باقی دنیا اور خصوصیت سے مسلم دنیا پر مسلط کرنا ہے۔   یہ سامراجی کھیل معاشی‘ اجتماعی‘ اخلاقی اور نظریاتی ترقی میں اضافے کا ذریعہ نہیں ہے بلکہ اُلٹا اسے نقصان   پہنچا دے گا۔ مسلمان‘ مسلمان ریاستوں کے باہمی تعلقات‘ وسیع تر سیاسی اور اقتصادی تعاون کے امکانات کے بارے میں پریشان ہیں۔ کیا مسلم ممالک‘ جن کو استعمار نے اپنے مفادات کے تحت نئی جغرافیائی شکل دی ہے‘ ازسرنو تشکیل پائیں گے یا اسی طرح قومی ریاستوں کی حیثیت سے ہی آگے بڑھیں گے؟

حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی تاریخ کے پہیے کو اُلٹا نہیں گھما سکتا۔ مسلمانوں کو اپنے آبا و اجداد کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز سے تخلیقی و تحقیقی صلاحیتوں کو ترقی دینا ہوگی۔ ایک نقطۂ آغاز کے طور پر قومی ریاست کو قبول کیا جا سکتا ہے۔ گو محدود قومی دائرے میں پابند رہنے کے جذبے کو اسلامی فکر سے ہم آہنگ قرار نہیں دیا جا سکتا‘ کیونکہ اسلام‘ ملّت کے تشخص کو اُبھارتا ہے‘ تاہم آج قومی ریاستوں کے جغرافیائی وجود کو سیاسی حقیقت کے طور پر اس لیے قبول کیا جائے گا کہ ان کو اگر بالجبر توڑا گیا تو اس سے سیاسی خلا پیدا ہو جائے گا جو لامحالہ فساد کا باعث ہوگا۔ اس کے لیے مسلم معاشرے یا امت میں ایک وحدت کا احساس پرورش کرنا ہوگا اور مسلم ریاستوں کے مابین زیادہ ربط و تعاون کی حوصلہ افزائی کرنی ہو گی۔ اسلامی نظریے کے مطابق ہر قومی ریاست آخرکار ایک نظریاتی ریاست کے طور پر ارتقا پذیر ہو جائے گی اور اس طرح مسلم علاقوں پر مشتمل اسلامی دولت مشترکہ کی ہیت تعمیر ہوگی۔

شاید اس تصور کا احساس مغرب کو بھی ہو گیا ہے ‘اس لیے غلط طور پر اس سے خوف زدہ ہو کر کوتاہ نظری کی وجہ سے وہ (مغرب) سوچتا یا سمجھتا ہے کہ :’’مسلمان ریاستوں میں اسلامی افکار کی اشاعت و ترویج  ’’ایک خطرہ‘‘ ہے اور ’’فساد ‘‘کا پیش خیمہ ہے جس کو روکنا ضروری ہے‘‘۔

مغرب عام طور پر اسلامی نشات ثانیہ کی ظاہری اور امکانی طاقت کا اندازہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس نے اسلامی تحریکات کے ارکان پر:’’بنیادپرست‘ انقلاب پسند‘ انتہا پسند‘ متعصب ‘ دہشت گرد‘ مغرب مخالف‘ عصرحاضر کے مخالف ‘‘وغیرہ کے لیبل لگا دیے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسی تنگ نظراور ناشائستہ اتہام بازی اور دشنام طرازی کبھی باہمی افہام و تفہیم میں معاون نہ ہو گی۔ مغرب وہی غلطیاں کر رہا ہے جو اس کے پیش روئوں نے نوآبادیات کے دور میں کی تھیں‘ یعنی یہ کہ معاشرتی و سیاسی منظرنامے کو دوسری تہذیبوں کے معاشرتی و سیاسی تنوع سے صرفِ نظر کر کے صرف اپنے سیاق و سباق کے حوالے سے بیان کرنا۔اسی طرح کا نقطۂ نظر نہ صرف مسلمانوں سے بلکہ انسانیت کے ساتھ بھی ناانصافی ہے۔ یہ رویہ مغرب کے اہل علم‘ پالیسی سازوں اور عامتہ الناس میں یکساں طور پر غلط فہمیوں کو بڑھاتا ہے۔ اسلامی نشات ثانیہ اپنی تاریخ کے ایسے دَور سے گزر رہی ہے جس کو اس کے حامی ایک اضطرابی دَور مانتے ہیں‘ تاہم یہ نقائص اسلامی احیا کی شناخت نہیں بن سکتے‘ نہ ایسا ممکن ہے کہ بدعنوانی اور فحاشی کی لپیٹ میں آئے ہوئے مسلم ممالک سے کوئی ہما آسمانِ اُمید پر محوپرواز ہوجائے۔

مسلمان سمجھتے ہیں کہ ان کی موجودہ تکلیف دہ صورت حال صرف معاشرتی‘ سیاسی اور معاشی برائیوں سے عبارت نہیں‘ بلکہ اس کا دائرہ کہیں وسیع تر ہے۔ ان کا تجزیہ گہرائی تک جاتا ہے اور اخلاقی انحطاط اور اقدار کے بگاڑ کا مسئلہ سامنے لاتا ہے۔ بعض لوگ اس آگاہی کا صاف صاف اور بعض کم واضح طریقے سے اظہار کرتے ہیں‘ تاہم افسوس کی بات ہے کہ اسلامی احیا کے مغربی تجزیے میں یہ عناصر موجود نہیں ہوتے۔ روحانیت کا پہلو اکثرنظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کے نزدیک یہی اصل مسئلہ ہے۔ اس پر کلام کرنے کے بجائے اسلامی نشات ثانیہ کو سادہ لوحی کے ساتھ‘ لوگوں کی مادی ترقی میںکمی کے باعث محرومی اور نااُمیدی کے احساس اور اسلام کے ذریعے اقتصادی اور تکنیکی ترقی کی اُمیدوں سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ ایسا یک طرفہ تجزیہ مسلم معاشرے کے مزاج سے لاعلمی اور ناواقفیت کو ظاہر کرتا ہے۔

اسی طرح یہ بھی غلط بات ہے کہ اسلامی احیا کو ترقی سے محروم مسلمانوں کی دولت مند مغرب کے مقابلے میں ناراضی کا ردّعمل قرار دیا جائے۔ یقینا استعماریت کے ورثے کے خلاف ردّعمل ایک کردار ادا کرتا رہا ہے ‘جس کا اظہار سیاسی غم و غصے میں زیادہ رہا ہے۔ اس ہنگامے یا اضطراب کی ان سب سے بڑھ کر وجہ یہ ہے کہ اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے نے مغرب سے تصورات اور اقدار درآمد کر کے انھیں عوام پر نافذ کرکے ایک عدم اطمینان کی فضا پیدا کر دی ہے۔ اشرافیہ کے یہ لوگ جو اداروں اور حکومتی نظام کو چلاتے ہیں‘ غیر ملکی قوانین اور قواعد زبردستی لوگوں پر ٹھونستے ہیں۔ مزیدبرآں مسلمان کم و بیش اپنی اکثر حکومتوں سے نالاں ہیں‘ کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ یہ اپنی تہذیب و ثقافت کو نظرانداز کر کے (مغربی لادینی اقدار اور نمونہ ہاے ترقی کو رائج کر کے) مغربی مفادات کو تحفظ دیتی ہیں۔

آج کی اسلامی تحریکات‘ قرآن اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کی سنت یا تعلیمات پر گہرے یقین اور اخلاص کا اظہار کرتی ہیں۔ اس یقین و اظہار کا منظر علاقے کے بیش تر سیاسی اداروں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اہل مغرب اپنی بوکھلاہٹ پر پردہ ڈالنے کے لیے اسے ’’اسلامی عفریت کی بیداری‘‘ کا نام دینے سے دریغ نہیں کرتے‘ جب کہ درحقیقت یہ دین اسلام کی اور اس کے وابستگان کی قسمت کی بیداری ہے۔ مسلم روحانیت اور تصور نے مسلمانوں کے اندر ایک نئی منزل کا نشان اور ذاتی قربانی سے بے نیاز ہو کر اپنی دنیا کی تعمیرنو کے لیے غیر متزلزل وفا کا احساس پیدا کر دیا ہے۔

نوآبادیاتی دور میں قیادت صرف ذاتی اغراض تک محدود تھی۔ اس ورثے نے مسلم دنیا کو پراگندہ کر دیا  تھا اور ان کے معاشرے اخلاقی اقدار سے محروم اور بدعنوانی کی آماج گاہ بن گئے تھے۔ استحصال معمول بن گیا تھا۔ مسلمانوں کی اس میں اپنی کمزوریاں بھی ہیں‘ جن کی وجہ سے ان کی تہذیب زوال پذیر ہوئی ‘لیکن ان کے درمیان آج کرپشن کا جو بازار گرم ہے یہ ایک نیاعمل ہے۔ عام طور پر مسلمان اس انحطاط کا ذمہ دار لادینی مغربیت کو قرار دیتے ہیں۔

جدیدیت کی بعض تعبیرات کی روشنی میں مسلم معاشرے کو لامذہب بنانے کی مہم کا آغاز کیا گیا اور کوشش کی گئی کہ آزاد روی یا لبرل ازم کو اسلامی اقدار پر حاوی کر دیا جائے۔ یوں ایک دھماکا خیز مرکب بنایا گیا جس نے اخلاقی اقدار سے سمجھوتہ کر کے سماجی زندگی کو مسخ کر ڈالا اور ایک خلا پیدا ہو گیا۔ ذاتی منافع خوری‘ ترقی اور معاشرتی و معاشی استحصال نے اقتصادی و مادی ترقی کے نام پر اس خلا سے خوب فائدہ اٹھایا۔

اسلامی احیا ایسے تباہ کن رجحانات سے بغاوت کا نام ہے۔ مثال کے طور پر یہ اسلامی اخلاقی اقدار پر ازسرنو ایمان لانے اور امت کے مادی و انسانی وسائل کو معاشرتی انصاف اور خود انحصاری کے لیے بروے کار لانے کا خواہاں ہے۔ احیاے اسلامی ‘مسلمانوں کی ایک مثبت نظریاتی تحریک ہے‘ جو مسلم دنیا کے معاشرتی و معاشی نظام کی اسلامی اقدار پر ازسرنو تعمیر کی علم بردار ہے۔ اس کے کوئی توسیع پسندانہ عزائم نہیں ہیں۔ اس کو لامحالہ بین الاقوامی برادری سے واسطہ پڑے گا جن میں سے بعض سے اس کے اختلافات بھی ہوں گے۔

مغربی تہذیب پر مسلم تنقید سیاسی مخالفت کا اظہار نہیں ہے۔ درحقیقت یہ دو تہذیبوں کے مابین ایک فکری اور عملی مقابلہ ہے ۔جن میں سے ایک اسلامی اقدار پر مبنی ہے اور دوسری مادّیت‘ قومیت اور آزاد روی پر قائم ہے۔ اب انسانی معاشروں کے سامنے انتخاب کی راہ واضح ہو گئی ہے: الہامی اصول یا لادین مادّی ثقافت۔ یہاں زور انتخاب پر ہے۔ لادینیت‘ خواہ سرمایہ دارانہ ہو یا سوشلسٹ اور قوم پرستانہ‘ کسی بھی نظریے پر اجارہ داری نہیں رکھتی۔ اسلامی احیا مادّیت کے دنیاوی شکنجوں سے رہائی کی راہ دکھاتاہے۔ یہ انسانیت کے انتخاب کو وسعت عطا کرتا ہے لہٰذا ‘اس کو ایک موقع اور ایک برکت کے طور پر دیکھنا چاہیے ‘ نہ کہ ایک دھمکی یا خطرے کے طور پر۔ (ترجمہ: قاضی محمد اقبال‘ اور مسلم سجاد)

اس ماہ کے اشارات مدیر ترجمان القرآن کی ایک تقریر کے ترجمے اور تلخیص پر مشتمل ہیں جو لسبن (Lisbon) پرتگال میں ایک عالمی کانفرنس میں کی گئی اور جس کا انگریزی متن امریکہ سے شائع ہونے والی کتاب World Faiths and the New World Order میں شائع ہوا ہے۔

 

معاملہ افراد کے درمیان ہو یا اقوام کے‘ اس کے ہمیشہ دو پہلو ہوتے ہیں‘ ایک خالص قانونی اور سیاسی اور دوسرے دعوتی اور نظریاتی۔ قانون اور سیاست کا دائرہ متعین ہے۔ ہر فرد اور ہر قوم کے لیے لازم ہے کہ اگر وہ تصادم‘ ٹکرائو اور جنگ و جدل کے راستے سے بچنا چاہتی ہے‘ تو ان دائروں کے اندر اپنے معاملات کو طے کرے۔ رہا معاملہ دعوتی اور نظریاتی میدان کا‘ تو اس میں تبلیغ‘ تذکیر‘ مذاکرہ اور افہام و تفہیم کے نہ ختم ہونے والے امکانات ہیں‘ بشرطیکہ ایک فریق دوسرے پر محض قوت اور اپنی بالادستی کے زعم میں اپنی رائے مسلط کرنے اور دوسروں کو اپنے رنگ میں رنگنے کے لیے مجبور نہ کرے۔ نظریاتی میدان میں بھی تصادم اس وقت رونما ہوتا ہے جب آزادیٔ فکرونظر اور افہام و تفہیم کے دروازوں کو بند کیا جائے یا دلیل اور ترغیب کی جگہ قوت اور تلوار لے لے۔

قرآن نے  لاَ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ج (البقرہ ۲: ۲۵۶) (دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات‘ غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے) کے ابدی اصول کے ذریعے اہل ایمان ہی کے لیے نہیں تمام انسانوں اور اقوام کے لیے ردوقبول ‘ اختیار و انکار‘ افہام و تفہیم اور جذب و انجذاب کا ایک ابدی ضابطہ مقرر کر دیا ہے ۔ پھر فرد اور قوم دونوں کو حدود انصاف کے احترام کا پابند کر کے انسانی معاشرے کو ایک طرف ترقی کے نہ ختم ہونے والے امکانات سے سرفراز کیا ہے۔ دوسری طرف ’’جنگل کے قانون‘‘ کے دور کو ختم کرکے انسانوں اور اقوام کو مہذب زندگی‘ مبنی بر انصاف امن اور ایک دوسرے کے حقوق و فرائض کی ادایگی کے لیے معروضی نظام کار فراہم کر دیا ہے:

اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ (النحل ۱۶:۹۰)

اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے ۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز وَاتَّقُوا اللّٰہَ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ م بِمَا تَعْمَلُوْنَ o (المائدہ ۵:۸)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو‘ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

مخالف سے بھی عدل اور اپنوں سے بھی‘ خواہ اس کی زد کسی پر بھی پڑتی ہو۔

وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی ج (الانعام ۶:۱۵۲)

اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو۔

افراد اور قوموں کے درمیان فتنہ و فساد اور ظلم و زیادتی کے در آنے کا بہت بڑا دروازہ یہی قوت کا بے جا استعمال اور عدل و انصاف سے روگردانی ہے۔ آج اگر دُنیا میں ظلم و طغیان کا دور دورہ ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہی ہے۔

قیام پاکستان کے مقاصد؟

تاریخ پر نظر ڈالیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ ہر دور میں استعماری قوتوں نے ان اصولوں کو پامال کیا تھا۔ ماضی میں ان استعماری قوتوں نے قوموں پر غلبہ پانے اور غلام بنانے کا ’’کارنامہ‘‘ انجام دیا تھا۔ بیسویں صدی کے نصف اول میں آزادی کی تحریکیں برگ و بار لائیں۔ استعماری طاقتوں نے اس لہر کا سامنا اس طرح کیا کہ اپنی مرضی سے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے‘ ان کے جغرافیے کو تبدیل کر دیا۔ اس کے نتیجے میں رونما ہونے والی نام نہاد قومی ریاستوں میں اپنی مرضی کے ایسے حکمرانوں کو مسلط کرنے کا راستہ اختیار کیا جنھیں اپنے عوام کی آزادی‘ ترقی اور تہذیبی استحکام کے بجائے مغربی آقائوں کی خوشنودی کی زیادہ فکر رہی۔ اور اب اکیسویں صدی کے آغاز میں یہی قوتیں ان ریاستوں کے نظریاتی اہداف متعین کرنے اور ان کے ایمان و ایقان کی وضع قطع ’’حسب ضرورت‘‘ بنانے کا کارنامہ انجام دے رہی ہیں۔ اسی حوالے سے گذشتہ چند مہینوں سے خصوصاً امریکی صدر‘ وزیرخارجہ‘ برطانوی وزیراعظم‘ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل تک قیام پاکستان کے مقاصد کی حسب توفیق تشریح کر رہے ہیں۔ وزرا اور سفرا کے ساتھ دانش ور‘ اہل قلم اور صحافی بھی مصروف جہاد ہیں‘ صدر بش صاحب افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے بعد‘ اب نت نئے ’’برائی کے چکر‘‘ ((axis of evil کی تلاش میں ہیں۔ مارگریٹ تھیچر صاحبہ بھی آنکھیں ملتی ہوئی بیدار ہو گئی ہیں اور ۱۲ فروری ۲۰۰۲ء کے امریکی برطانوی اخبارات میں ایک مقالہ خصوصی کے ذریعے ’’اسلامی انتہا پسندی‘‘ کو سردجنگ کے آغاز سے ’’اشتراکی خطرے‘‘ کا ہم پلہ قرار دے رہی ہیں۔ اس عالمی فضا میں پاکستان پر خاص نگاہ ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک لیڈر اہل پاکستان کو پاکستان کے اصل مقصد اور خصوصیت سے اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے تصور پاکستان کا درس دینا اپنا فرض منصبی سمجھ رہا ہے اور پھر اس سارے وعظ و نصیحت کی تان اس پر ٹوٹتی ہے کہ پاکستان کے لیے ترقی کا ایک ہی راستہ ہے وہ ہے۔ فعال‘ روشن خیالی‘ جدید اور سیکولر یعنی ’’غیر مذہبی پاکستان‘‘۔

امریکہ کی ہر سطح کی قیادت اس کارخیر میں سب سے پیش پیش ہے۔ وہ سینہ زوری سے کام لیتے ہوئے جمہوریت اور حقوق انسانی کے عالمی مشن کے نام پر دوسری قوتوں اور افراد پر اپنے تصورات مسلط کرنے کے درپے ہے اور اس طرح عالم گیر پیمانے پر مختلف اقوام کو سیاسی و معاشی محکومی میں لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ مسلمان ممالک بالخصوص اس ستم کا نشانہ ہیں اور پاکستان ’’نزلہ برعضو ضعیف‘‘ کے مصداق  خصوصی التفات کا ہدف ہے۔

یہ بات بالکل نئی بھی نہیں۔ ان اقوام کا رویہ ہمیشہ ہی سے معاندانہ تھا۔ برطانیہ نے قیام پاکستان کے وقت تقسیم ہندکے فارمولے میں عدم دیانت کا مظاہرہ کر کے مسئلہ کشمیر اور پانی کی غیرمنصفانہ تقسیم جیسے مسئلے کھڑے کر دیے۔ اقوام متحدہ نے مسئلہ کشمیر پر سخت غیر منصفانہ کردار ادا کیا۔ امریکہ نے جمہوریت کے نام پر ایک طرف تو پاکستان میں آمریتوں کی سرپرستی کی‘ اور دوسری طرف پاکستان کی معیشت کو اپنے کھلے چھپے ایجنڈے کی آکاس بیل سے چوس کر رکھ دیا اورقرضوں کے ایسے جال میں جکڑ دیا کہ اس مریض کو زندگی کے لیے مزید قرضوں کی ضرورت ہے۔ لیکن ۱۱؍ستمبر کے تناظر میں مسلم دُنیا‘ اسلامی تحریکات اور خصوصیت سے پاکستان ایک بار پھر مرکز توجہ بن گئے ہیں۔ ایک طرف سیاسی‘ معاشی اور عسکری گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف ایسی نظریاتی بحثیں شروع کر دی گئی ہیں جن کا تعلق مسلمانوں کے تصور دین اور مذہب‘ ریاست اور ملت کے سیاسی تصورات سے ہے۔ وہ تصورات جن سے ہمارا نظریاتی وجود ہے۔

جنرل مشرف صاحب کا نیوز ویک کو انٹرویو اور قائداعظم ؒکی۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر کو پورے شدومد سے انگریزی اخبارات اور ٹی وی کے مباحث میں اچھالنے کا پس منظر وہ سبق ہے جو امریکی دانش ور اور سفارت کار گذشتہ چند مہینوں سے بار بار دہرا رہے ہیں۔

پاکستان کا امریکی وژن

ایک ہی دن (۲۷ جون ۲۰۰۱ء) دو ایسے بیانات سامنے آئے‘ جو اسلام اور مسلمانوں کے دینی اور تہذیبی نقطہ نظر سے پاک امریکی تعلقات پر خصوصی روشنی ڈالتے ہیں۔ ہماری نظر میں ان بیانات کے دور رس مضمرات (implications)ہیں۔ ایک بیان پاکستان میں امریکہ کے سفیر جناب ولیم بی مائیلم کا تھا جو اپنی مدت سفارت پوری کر کے امریکہ واپس جا رہے تھے۔ انھوں نے پاکستان کے بارے میں پہلے کراچی میں اور پھر ۲۷ جون کو لاہور میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ان کا اسلوبِ بیان مسلّمہ سفارتی آداب سے بے نیاز تھا۔انھوں نے فلسفہ و تاریخ کا سہارا لیتے ہوئے پیش گوئی اور پیش بندی کے انداز میں نصیحت کی۔ جس دن مائیلم صاحب لاہور میں گوہر افشانی فرما رہے تھے اسی دن واشنگٹن میں امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنے‘ پاکستان کے لیے نامزد سفیرہ وینڈی چیمبرلین اپنے تقرر کی منظوری حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے بارے میں اپنے خیالات اور عزائم کا اظہار کر رہی تھیں۔ دونوں تقاریر کا مطالعہ اور تجزیہ پاکستانی عوام کے لیے ضروری ہے۔ اس لیے کہ ان سے امریکہ کا ذہن اور منصوبہ کار کھل کر سامنے آتا ہے اور صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکی سفارت کاروں اور کالم نگاروں کا قارورہ کس طرح مل رہا ہے۔ اس ’’ہم خیالی‘‘ کے نقش و نگار میں اس کھیل کے سارے کرداروں کے چہرے دیکھے جا سکتے ہیںاور اس سے یہ موقع بھی بجا طور پر پاکستانی قوم کو حاصل ہوتا ہے کہ اپنوں کا محاسبہ کرنے کے ساتھ امریکہ کے رول کا بھی ادراک کر سکے۔ نیز جو میزان انھوں نے پاکستان کو جانچنے کے لیے نصب کی ہے اس پر خود امریکہ کے کردار کو بھی پرکھا جائے ع

ہیں کواکب کچھ‘ نظر آتے ہیں کچھ

سابق سفیر مائیلم صاحب نے پاکستان کو اندر سے جاننے کا دعویٰ کیا کہ ان کا بچپن بھی یہاں گزرا ہے۔ وہ بڑے ہی پرآشوب دور میں وہ یہاں سفیر رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ ’’اسلام اور مذہبی تشدد‘‘ کے موضوع پر تقریریں کر چکے ہیں۔ پاکستان سے رخصتی کے وقت ان کے خطاب کا موضوع تھا: ’’کیا پاکستان ستاروں میں کھو گیا‘‘۔ یہ تقریر محض ایک دوست سفیر کی الوداعی نصیحت نہیں‘ امریکہ کے ایک اہم نمایندے کا ہماری تاریخ‘ کردار اور مستقبل کے بارے میں ایسا بیان ہے جس سے تعرض نہ کرنا ایک قومی جرم ہوگا۔

آیئے پہلے یہ دیکھیں کہ موصوف نے فرمایا کیا تھا؟

۱- امریکہ اور پاکستان دونوں محض جغرافیائی حقیقت نہیں بلکہ وژن رکھنے والی ریاستیں ہیں۔ البتہ وژن ایک عمومی رہنما ہو تو ترقی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں‘ لیکن اگر وژن آپ پر سوار ہو جائے اور اس کی تعبیر بھی کچھ لفظی ہو تو یہ بڑے تباہ کن نتائج نکالتا ہے‘ بلکہ دُنیا میں بڑی بڑی تباہیوں کی جڑ وژن کے ایسے ہی تصور میں تلاش کی جاسکتی ہے۔

۲-  امریکہ جس سامراجی قوت سے لڑ کر وجود میں آیا‘ اسی قوت سے پاکستان نے آزادی حاصل کی تھی۔ امریکہ کا وژن یہ تھا کہ صرف عوام کے نمایندوں کو ٹیکس لگانے کا حق ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ تمام انسان برابر ہیں۔ اسی وژن پر ۱۷۷۶ میں آزادی حاصل ہوئی۔ جمہوریت اور دستور کا قیام عمل میں آیا اور ۸۵ سال بعد خانہ جنگی نے اس انقلاب کو مکمل کر دیا۔ اب امریکہ دُنیا میں جمہوریت‘ حقوق انسانی اور مساوات کا علم بردار ہے۔

۳-  پاکستان بھی ایک عظیم جدوجہد کے بعد قائم ہوا۔ اس میں پاکستان کے قائد محمد علی جناح ؒکا وژن یہ تھا کہ مسلمانوں کو ایک ایسا مسکن (homeland)میسر آجائے جہاں ایک جدید ریاست قائم ہو‘ جس کی بنیاد سیکولر قوانین پر ہو اور جہاں غیر مسلموں کے قوانین اور رواج کا احترام کیا جائے۔ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پاکستان سنی‘ شیعہ‘ عیسائی‘ احمدی‘ پارسی اور دیگر گروہوں کی محنت سے قائم ہوا تھا۔

۴- ان کے خیال میں: ’’ایک قائداعظمؒ کا وژن ہے اور ایک قائد مخالف وژن‘‘۔ جو وژن قائداعظمؒ نے پیش کیا وہ مسلمانوں کے لیے ایک لبرل‘ روادار اور جدید ریاست کا تھا۔ ایسی جدید ریاست جہاں پر کوئی شخص پہلے پاکستانی ہے اور بعد میں کسی مذہب سے متعلق۔ ایک ایسا پاکستان جہاں سیکولر قوانین کی حکمرانی ہو۔ اور جو جناح مخالف وژن ہے‘ وہ قومی سرحدات کو مسترد کرتا ہے اور پاکستان کو عالم گیر مسلم امہ کے لیے ایک روشنی کے مینار اور محافظ اسلام ریاست کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس وژن کے مطابق پاکستان کا مقصد وجود انفرادی اور اجتماعی طور پر ترقی کے مقابلے میں بہت زیادہ وسیع ہے۔ اس لیے کہ مسلمان اکثریت میں ہیں‘اقلیت میں نہیں۔ یہی وژن مسلمانوں کے لیے خطرہ بنتی نظر آنے والی کسی بھی قوت کے خلاف جہاد میں پاکستان کو بطور ہوم بیس فراہم کرتا ہے‘‘۔

۵- ’’پاکستان کی خارجہ پالیسی خصوصاً کشمیر افغانستان میں سمت کے تعین میں جناح مخالف وژن زیادہ طاقت ور دکھائی دیتا ہے۔ ان کے لیے کشمیر ایک مقدس جنگ ہے۔

۶- مسٹر مائیلم نے اپنے استدلال کی بنیاد قائداعظمؒ مرحوم کی ۱۱ اگست ۱۹۴۷ء والی اسی تقریر پر رکھی‘ جو آج تک سیکولر حلقوں کے دعوے کی بنیاد ہے۔ لیکن موصوف ایک اور دور کی کوڑی لائے ہیں‘ جو دانش وروں کے اس طائفے کے لیے ایک نئی دلیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ وہ حلف ہے جو قائداعظمؒ نے بحیثیت گورنر جنرل اُٹھایا تھا۔ ان کا پیغام صاف ہے یعنی یہ کہ صحیح حلف وہی تھا جو تاج برطانیہ کے نمایندے کے طور پر دستور کے بننے سے پہلے بحیثیت گورنر جنرل لیا گیا کہ:

میں‘ محمد علی جناح‘ حلفیہ اقرار کرتا ہوں کہ بحیثیت گورنر جنرل پاکستان میں اپنے مقتدر شاہ جارج ششم کی پوری دیانت داری سے خدمت کروں گا‘ اور یہ کہ میں کسی خوف اور دبائو وغیرہ کے بغیر پاکستان کے قوانین اور رسم و رواج کے مطابق ہر طرح کے لوگوں سے صحیح سلوک کروں گا۔

انھیں بڑاصدمہ ہے کہ اب پاکستان کے صدر کے منصب کا حلف نامہ بھی اس سے بہت مختلف ہو گیا ہے جو جناح نے اٹھایا تھا۔

ہم ممنون ہیں کہ سفیر والامقام نے کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی اور سیکولرزم کا کیس کسی مصلحت اور ملمع سازی کے بغیر پیش کر دیا۔ ہم نے اس تقریر کو اس لیے بھی ذہنوں میں تازہ کیا ہے کہ بعد کے واقعات نے اس کی اہمیت کو دوبالا کر دیا ہے۔ جنرل پرویز صاحب کی ۱۲؍ جنوری ۲۰۰۲ء کی تقریر اور اس کے معاً بعد نیوز ویککو انٹرویو‘ اس سے پہلے افغان پالیسی پر یو ٹرن (U-turn)اور اب کشمیر پالیسی‘ دینی مدرسوں اور مسجدوں کی ضابطہ بندی اور جہاد اکبر اور جہاد اصغر کی لن ترانی ان سب سے اصل معنویت  واضح ہو جاتی ہے۔ نیز جو خیالات آج گردش کر رہے ہیں ان کا شجرہ نسب سامنے آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس کی ضرورت محسوس کی کہ اصل ماخذ پر بھی نگاہ ڈال لی جائے اور جہاں سے یہ ’’وحی‘‘ نازل ہو رہی ہے اس سرچشمے پر کھل کر بات کی جائے۔

امریکی سفیر کے فرمودات کا جائزہ

اس تقریر کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ : اب امریکہ کی دل چسپی محض جمہوریت اور بنیادی حقوق میں نہیں ہماری نظریاتی اساس میں بھی ہے۔ اس کی ناخوشی کا تعلق محض نیوکلیر صلاحیت اور الیکشن کے کاروبار سے نہیں‘ پاکستان کے مقصد وجود اور اس قوم کے اپنے بارے میں وژن ہی سے ہے۔ اس کی نگاہ میں مقبوضہ جموں وکشمیر کے لوگوں کے حق خود ارادیت کی پامالی اور وہاں پر بھارتی فوج کے ریاستی مظالم سے جمہوری اقدار اور انسانی حقوق پر کوئی حرف نہیں آتا__ بلکہ اصل خطرہ ان مجبور انسانوں سے ہے جو ظلم کے خلاف اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ انسانی مساوات‘ جمہوری اصولوں‘ اور قوموں کی آزادی کے یہ معنی نہیں کہ وہ اپنے عقائد اور اپنے تاریخی اور نظریاتی تشخص کی روشنی میں اپنا مستقبل طے کریں‘ بلکہ وہ امریکہ کے لیے قابل قبول صرف اس صورت میں ہو سکتے ہیں‘جب وہ اپنے دین و عقیدے اور اپنی تہذیب و روایات کو مکمل طور پر سیکولر نظام کے تابع کر دیں۔ ان کی خارجہ پالیسی ان کے اپنے قومی مفاد کی عکاس نہ ہو بلکہ ایک روایتی نیشن اسٹیٹ ]قومی ریاست[کی حدود میں رہ کر بس اپنے روٹی کپڑے کی فکر میں لگے رہیں۔

دوسروں کو جمہوریت اور سیکولرزم کا درس دینے والے یہ ناصح بھول جاتے ہیں کہ یہی وہ ذہنیت اور پالیسی ہے‘ جسے استعمار(imperialism) کی روح اور مظہر کہا جاتا ہے۔ اگر آپ نے اپنے لیے سیکولرزم کو پسند کیا ہے تو بڑے شوق سے اس پر کاربند رہیے‘ لیکن دوسروں پر سیکولرزم کو مسلط کرنے کا آپ کو کیا حق ہے؟ ہمیں ڈر ہے کہ آج سیکولرزم ایک ایسی آئیڈیالوجی کا روپ اختیار کر چکا ہے جو لوگوں کے عقیدے اور اپنے تصورات کے مطابق ایک نظام زندگی تشکیل دینے کی آزادی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ کیا اس سیکولرزم کے نام پر شخصی آزادی کے علم بردار مغربی ممالک میں مسلمان عورت کو سرڈھانپنے تک کی آزادی ہے؟ کیا ترکی میں اسی سیکولرزم کے نام پر عوام کے منتخب وزیراعظم کو بیک بینی و دوگوش اقتدار سے محروم نہیں کر دیا گیا تھا؟ بظاہر تو سیکولرزم انسانوں کو آزادی دلانے کا مدعی تھا‘ مگر اب وہ خود ایک استبدادی نظریہ بن کر انسانی آزادیوں اور اصول مساوات کا گلا گھونٹنے کی دھونس جما رہا ہے۔ دن کی روشنی میں دیکھا جائے تو امریکہ کا ہدف جمہوری آزادیوں اور حقوق انسانی کا فروغ نہیں‘ بلکہ سیکولرزم کا تسلط ہے اور سب اقوام کو مغرب کے فکری اور تہذیبی رنگ میں رنگنا ہے۔ یہ امپریلزم کی تازہ ترین یلغار ہے۔

پھر امریکی سفارت کار نے جس طرح قائد کے وژن اور مخالف جناح وژن کا تانا بانا بنا ہے‘ وہ علمی بددیانتی کی ایک منفرد مثال ہے۔ اس حلف (oath of office)کو جو: dominion statusکے لیے ایک سامراجی نظام کے لیے وضع کیا گیا تھا‘ اور جو آزادی کی طرف سفر کے دوران عبوری (transitional) لمحوں کے لیے ایک ناگزیر ضرورت تصور کیا گیا تھا۔ایک آزاد ملک کی جانب سے اپنا دستور بنا لینے کے بعد بھی‘ اسی حلف کو قائد کا ماڈل قرار دینے کی مضحکہ خیز جسارت وہی انسان کر سکتا ہے‘ جو اپنے تعصبات سے مغلوب ہو۔ پھر اس مسئلے کو اگر خالص قانونی انداز میں لیا جائے تو کیا یہ مطلب لیا جانا چاہیے کہ جوچیز ۱۹۴۷ء میں سامراجی ورثے میں دستور و روایات کا درجہ رکھتی تھی‘ وہی چیز پاکستان کا دستور اور اس کے تحت بننے والے قوانین بن گئی۔ اس سامراجی جبر کا قائداعظمؒ کے تصور پاکستان سے کیا تعلق؟ کیا اس حلف کا draft(مسودہ)قائداعظمؒ نے بنایا تھا؟ کیا وہی حلف بھارت میں لارڈ مائونٹ بیٹن نے نہیں اٹھایا تھا؟ اور کیا آسٹریلیا اور کینیڈا کے گورنر جنرلوں کے حلف ان کے دساتیر بننے سے پہلے اس سے مختلف تھے؟ کاش خارجہ تعلقات کے اس ماہر نے ایسی مضحکہ خیز بات کرنے سے پہلے ان پہلوئوں پر غور کرلیا ہوتا اور ہمیں یہ کہنے کی زحمت نہ ہوتی کہ:

پاپوش میں لگائی کرن آفتاب کی
پسلی پھڑک اٹھی نگہِ انتخاب کی

پھر انھوں نے بھی تمام سیکولر عناصر کی طرح قائداعظمؒ کی ۱۱ ؍اگست والی تقریر پر پورا قصر دانش تعمیر کیا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اپنے تصور پاکستان کے بارے میں قائداعظم ؒنے صرف یہی ایک تقریر کی تھی؟قیامِ پاکستان سے پہلے اور قیامِ پاکستان کے بعد سو سے زیادہ مواقع پر قائداعظمؒ نے کیا اپنے تصور پاکستان کے خدوخال بیان نہیں کیے تھے؟ آخر کس دلیل کی بنیاد پر محض اسی ایک تقریر کے چند جملوں کو‘ جن کا تعلق تقسیم ملک کے وقت رونما ہونے والے غیر انسانی فسادات کے پس منظر میں‘ نئے ملک کے تناظر میں شہریت کے اصول اور اقلیتوں کو ان کے حقوق کی ضمانت سے ہے‘ پورے وژن کا نمایندہ قرار دیا جائے؟

اقلیتوں کے حقوق اور مساوی شہری حقوق کی بات کوئی متنازع امر نہیں ہے۔ یہ خود اسلام کا تقاضا ہے‘ جیسا کہ قائداعظم ؒنے بار بار فرمایا ہے۔ لیکن کیا اقلیتوں کے حقوق کے یہ معنی بھی ہیں کہ اقلیت‘ اکثریت پر اپنے تصورات کو مسلط کرے اور اکثریت کے اس حق کو مسترد (ویٹو) کر دے کہ وہ اپنے عقائد اور نظریات کے مطابق اجتماعی زندگی کی صورت گری کرے؟ اور وہ بھی ایسی اکثریت جس نے ایک ملک گیر جمہوری جدوجہد محض اسی بنیاد پر برپا کی ہو کہ ہم اپنا جداگانہ نظریاتی‘ تہذیبی اور دینی تشخص رکھتے ہیں اور اس تشخص کی حفاظت اور ترقی کے لیے ہمیں اپناآزاد مسکن درکار ہے۔

انھی صاحب نے ایک اور دعویٰ کیا ہے کہ: ’’پاکستان عیسائیوں‘ احمدیوں ‘ پارسیوں اور دوسری اقلیتوں کی محنت سے قائم ہوا تھا‘‘۔ شکر ہے کہ انھوں نے ہندوئوں اور سکھوں کا ذکر نہیں کیا‘ حالانکہ قیام پاکستان کے وقت سب سے بڑی اقلیت تو ہندو تھے‘ جو مشرقی پاکستان میں آبادی کا پانچواں حصہ تھے۔ قیام پاکستان کی تحریک ایک نظریاتی تحریک تھی۔ اس تحریک کو برعظیم جنوب مشرقی ایشیا کے مسلمانوں نے اپنے خون سے سینچا۔ اس میں وہ مسلمان بھی شریک تھے جن کو پاکستان میں نہیں آنا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس‘ غیر مسلم ہندکی نمایندہ تھی اور آل انڈیامسلم لیگ‘ مسلم ہند کی نمایندگی کرتی تھی۔ یہ تھی بنیادی اور بالکل واضح صف بندی۔ اس میں عیسائیوں‘ احمدیوں اور پارسیوں کا کردار موصوف نے کہاں سے تلاش کر لیا۔ عیسائی تو بالعموم برطانوی سامراج کا ساتھ دے رہے تھے۔ پارسیوں نے کانگریس میں شرکت کی‘ اور مسلم لیگ کی تحریک میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ احمدی (قادیانی) بھی برطانوی سامراج کی ٹیم کا حصہ تھے۔ پاکستان کا قیام مسلمانان پاک و ہند کی جدوجہد کا حاصل ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران اور قیام پاکستان کے فوراً بعد بھی‘ قائداعظمؒ ہی نے نہیں بلکہ پوری قوم نے کہا کہ تحریک آزادی میں جس کا جو بھی رول رہا ہو‘ دو آزاد مملکتوں کے قیام کے بعد اکثریت اور اقلیت سبھی کو قانون کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہے اور جو بھی نئی مملکت سے وفاداری کا راستہ اختیار کرے اسے بطور شہری برابری اور ترقی کے مساوی مواقع کا حق ہے‘ لیکن نظام حکومت عوام کی اکثریت کے عقائد اور تصورات کے مطابق مرتب کیا جائے گا جس میں اقلیتوں کے حقوق کو مکمل تحفظ حاصل ہوگا۔

قائداعظمؒ کا وژن

قائداعظم ؒکے ساتھ اس سے بڑا ظلم کوئی اور نہیں ہو سکتا کہ ان کی اس تقریر کے چند جملوں کو توڑ مروڑ کر سیکولر ریاست کی تشکیل اور مذہب کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کرنے کی بنیاد بنایا جائے۔ قائداعظمؒ، مسلم لیگ کی پوری قیادت‘ اور سب سے بڑھ کر برعظیم کی ملّت اسلامیہ نے اپنی منزل اور مقصود کا اظہار بالکل واشگاف الفاظ میں کیا تھا۔ یہی وہ آدرش تھے جن کے حصول کے لیے ساری جدوجہد کی گئی اور بیش بہا قربانیاں دی گئیں۔ سیکولر قوانین کی بات کرنے والے کیا اس سے انکار کر سکتے ہیں کہ علامہ محمد اقبالؒ نے اپنے ۱۹۳۰ء کے خطبے میں جو استدلال پیش کیا تھا‘ اس کی بنیاد ہی دین و دُنیا کی وحدت پر ہے۔ ان کا دعویٰ ہی یہ ہے کہ اسلام کا ایک ایسا دین ہے جس کا اپنا اجتماعی نظام ہے‘ اس اجتماعی نظام کے بغیر وہ دین نامکمل اور مسلمان اس کی برکتوں سے محروم رہتے ہیں۔ قائداعظمؒ کے نام ۲۸ مئی ۱۹۳۷ء کے خط میں اقبال نے صاف لفظوں میں لکھا تھا:

اس ملک میں اسلامی شریعت کا نفاذ اور ترقی ایک آزاد مسلم ریاست یا ریاستوں کے بغیر ناممکن ہے۔ مجھے اس پر دیانت داری سے کئی برسوں سے مکمل یقین رہا ہے‘ اور میں اب بھی یہی یقین رکھتا ہوں کہ مسلمانوں کے لیے روٹی کا مسئلہ حل کرنے اور ایک پرامن انڈیا کی خدمت کرنے کے لیے یہی ایک واحد راستہ ہے۔

گویا کہ امن اور روٹی دونوں کے لیے آزاد مسلم ملک کا قیام اور شریعت کا نفاذ ضروری ہے۔ یہی  اصل ایشو تھا اور خود قائداعظمؒ نے اسے بار بار واضح کیا:

پاکستان کا مطلب صرف آزادی اور خودمختاری نہیں ہے بلکہ مسلم نظریے کا تحفظ بھی ہے جو ایک قیمتی تحفے اور خزانے کے طور پر ہمیں ملا ہے‘ اور ہمیں امید ہے کہ دوسرے اس میں ہمارے ساتھ تعاون کریں گے۔

دیکھیے‘ بات صرف مسلم نظریے ہی کی نہیں اس کے تحفظ و ترقی کی بھی ہے۔ مقصد اس کی تبلیغ اور دوسروں تک اس کو پہنچانا ہے‘ قائداعظمؒ جس کا اعلان کر رہے ہیں۔ سفیر صاحب اسی بات کو ’’مخالف جناح خارجہ پالیسی‘‘ کہہ رہے ہیں۔

غیرمسلم اکثریت اور غیر اسلامی نظریہ اگر مسلمانوں پر مسلط کیا جائے تو یہ کیسی جمہوریت ہوگی‘ خود قائداعظمؒ کے الفاظ میں سن لیجیے:

مجھے بتایا گیا کہ میں اسلام کو نقصان پہنچانے کا مجرم ہوں۔ اس لیے کہ اسلام تو جمہوریت میں یقین رکھتا ہے۔ جہاں تک میں نے اسلام کو سمجھا ہے‘ اسلام ایسی جمہوریت کی وکالت نہیں کرتا جو مسلمانوں کی تقدیر کا فیصلہ غیر مسلموں کی اکثریت کے ہاتھ میں دے دے۔ ہم ایک ایسا نظام حکومت قبول نہیں کر سکتے جس میں غیر مسلم محض اپنی عددی اکثریت کی بنا پر ہم پر غالب ہوں اور حکمرانی کریں۔ (تقریر علی گڑھ یونی ورسٹی‘ ۶ مارچ ۱۹۴۰ء)

لیکن مذکورہ امریکی ڈپلومیٹ اور ان کی ہم نوا سیکولر لابی کا تو دعویٰ یہ ہے کہ مسلمان ملک میں مسلمانوں کی اکثریت کے عقائد اور تصورات کو ترک کر کے ‘ محض غیرمسلم اقلیت کی خاطر ان پر سیکولرزم  مسلط کر دیا جائے۔ یہ ہے جمہوریت کی تازہ ترین تعبیر!

قائداعظمؒ نے بار بار فرمایا کہ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے‘ مسلمان ایک عقیدے اور دین پر مبنی قوم ہیں‘ قرآن ان کا قانون حیات ہے‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حقیقی قائد اور قانون دینے والے ہیں‘  قرآن و سنت مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی شیرازہ بندی کرنے والی قوت ہیں__ سیکولرزم اور یہ تصور حکمرانی ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ قائداعظمؒ کے نام پر ان کے تمام عہدوپیمان اور خطبات و ارشادات کو نظرانداز کر کے سیکولرزم کی بات کرنا‘ نرم سے نرم لفظوں میں‘ ایسی کھلی بددیانتی ہے جس کا ارتکاب بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔

تحریک پاکستان کے قائدین نے ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء قرارداد مقاصد پوری یکسوئی کے ساتھ منظور کی جوپاکستان کے دستور نظام حکمرانی اور اجتماعی پالیسی کی بنیاد ہے۔ اسے پوری قوم کی تائید حاصل ہے۔ قائداعظمؒ نے بہت صاف الفاظ میں یہ اصول بیان کر دیا تھا کہ پاکستان کا دستور کسی ایک شخص کی مرضی کا مظہر نہیں ہوگا پوری ملت اسلامیہ پاکستان اپنی دستور ساز اسمبلی کے ذریعے اسے طے کرے گی۔ ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء ہو یا ۱۲ جنوری ۲۰۰۲ء‘ کوئی فرد نہ دستور سے بالا ہے اور نہ دستور کو اپنی آواز بازگشت تصور کر سکتا ہے۔ دیکھیے قائداعظمؒ نے قوم سے کیا عہد کیا تھا:

جب آپ جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو مجھے شبہہ ہونے لگتا ہے کہ آپ نے اسلام کا مطالعہ نہیں کیا ہے جب کہ ہم نے تیرہ سو سال پہلے جمہوریت سیکھ لی تھی۔ آپ پاکستان کے طرزحکومت کے بارے میں میری ذاتی رائے معلوم کرنا چاہتے ہیں تو یہ کہتا ہوں کہ دستور ساز اسمبلی جیسے بااختیار ادارے کے فیصلے سے پہلے کوئی ذمہ دار شخص اپنی ذاتی رائے کا اظہار نہیں کرسکتا اور نہ اسے کرنا چاہیے۔ پاکستان کے لیے دستور بنانا‘ دستور ساز اسمبلی کا کام ہے‘‘ (پریس کانفرنس‘ ۱۴ جولائی ۱۹۴۷ء)

یہی وہ دستور ساز اسمبلی ہے جس نے ۱۲؍ مارچ کو قرارداد مقاصد منظور کر کے ریاست کے کردار کو ہمیشہ کے لیے طے کر دیا اور قانون کی زبان میں وہ بات ادا کر دی جس کا عہد قائداعظمؒ نے مسلمانان پاک و ہند سے کیا تھا:

مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہ توحید ہے‘ نہ وطن‘ نہ نسل۔ جب ہندستان کا پہلا فرد مسلمان ہوا تو وہ پہلی قوم کا فرد نہیں رہا تھا‘ وہ ایک الگ قوم کا فرد بن گیا تھا۔ آپ نے غور کیا کہ پاکستان کے مطالبے کا جذبہ محرک کیا تھا؟ اس کی وجہ نہ ہندوئوں کی تنگ نظری تھی نہ انگریزوں کی چال __ یہ اسلام کا بنیادی مطالبہ تھا۔ (مسلم یونی ورسٹی‘ علی گڑھ‘ خطاب ۸؍مارچ ۱۹۴۶ء)

قائداعظمؒ نے کراچی بار ایسوسی ایشن کو خطاب کرتے ہوئے ۲۵؍ جنوری ۱۹۴۸ء کو (اگست ۱۹۴۷ء والی تقریر کے پانچ مہینے بعد) یہ فرمایا تھا:

اسلام محض رسوم و روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ نہیں‘ اسلام ہر مسلمان کے لیے ضابطہ حیات بھی ہے‘ جس کے مطابق وہ اپنی روز مرہ زندگی‘ اپنے افعال و اعمال حتیٰ کہ سیاست اور معاشیات اور دوسرے شعبوںمیں بھی عمل پیرا ہوتا ہے۔ اسلام سب انسانوں کے لیے انصاف‘ رواداری‘ شرافت‘ دیانت اور عزت کے اعلیٰ ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ صرف ایک خدا کا تصور اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔ اسلام میں انسان انسان میں کوئی فرق نہیں۔ مساوات‘ آزادی اور اخوت اسلام کے اساسی اصول ہیں۔

۱۹۴۸ء ہی کی ایک تقریر میں انھوںنے اسلامی حکومت کے تصور کو بھی ان الفاظ میں بیان کر دیا تھا:

اسلامی حکومت کے تصور کا یہ امتیاز پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع اللہ کی ذات ہے جس کی تعمیل کا عملی ذریعہ قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی نہ کسی شخص اور ادارے کی۔ قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی کی حدود متعین کر سکتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اسلامی حکومت قرآن کے اصول و احکام کی حکومت ہے‘‘۔

اگر قائداعظمؒ نے یہ سب صاف لفظوں میں کہا تو پھر بتایا جائے کہ ان کے وژن میں سیکولرزم کہاں سے آگیا؟ جس تصور کو سفیر صاحب ’’خلاف جناح تصور‘‘ کہہ رہے ہیں‘ قائداعظمؒ تو چیخ چیخ کر اس کا اعلان کر رہے ۔ہیں وہ تصور ہی قرار داد پاکستان کی سطر سطر سے عیاں اور نمایاں ہے اور پورا دستور اس کا آئینہ دار ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ عوام کی مرضی‘ تحریری دستور کے واضح احکام اور قوم کی تاریخی روایات تو ایک ’’متشدد اقلیت‘‘ اور ’’خلاف جناح وژن‘‘ قرار پائیں اورایک غیر ملکی اور چند سیکولر دانش وروں کی یاوہ گوئی ‘جناح کا تصور پاکستان بن جائے۔

قائداعظمؒیا اقبالؒ کے تصور پاکستان کو اپنے من پسند مفہوم میں پیش کرنے والے سیکولر حضرات جو بھی استدلال برتتے ہیں‘ وہ اپنے داخلی تضاد کی وجہ سے بے نقاب ہو جاتا ہے۔ ایک جانب تووہ جمہوریت کے اصول کا علم بلند کرتے ہیں مگر دوسری جانب ایک تقریر‘ یا کسی ایک اقتباس کی بنیاد پر پوری قوم کے عزم اور willکو مسترد کرنے کا شاہانہ اختیار استعمال کرنے کی دہائی دیتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ حلقے جمہوریت کے ساتھ مخلص ہیں یا کسی ایک قوم کی بنیاد پر پوری قوم کی جدوجہد اور عزائم کو اپنی من پسند تعبیر کی سولی پرلٹکانے کے طرف دار۔ اس مسئلے پر بات کرنے سے پیشتر یہ اصولی بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ ایک مسلمان کے لیے بنیادی سرچشمہ ہدایت اور آخری معیار حق‘ قرآن اور سنت ِرسولؐ ہے۔ دیگر محترم سے محترم اور فاضل سے فاضل شخصیات کا مقام نہ صرف لازمی طور پر ان کے بعد میں آتا ہے‘ بلکہ ان کی آرا‘ افکار اور فیصلوں کو قرآن و سنت ہی کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا۔

سیکولرزم ‘ اقبالؒ اور قائداعظمؒ

مفتیان مغرب نے اسلامی احیائی تحریک کے بارے میں سب سے پہلے تو ’’بنیاد پرست‘‘ کی اصطلاح وضع کر کے مغالطہ پیدا کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ بتایا گیا ہے‘ جو فرد: ’’ترقی کا دشمن ہو‘ دور حاضر کے تقاضوں کو نظرانداز کرنے والا ہو یا اسلام کی کسی ایسی تعبیر سے چپکا ہو‘ جس کی بنا پر اسلام وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ نہ کر سکے‘ وہ بنیاد پرست ہے‘‘۔امر واقعہ کے اعتبار سے یہ انتہائی غلط‘ یک رخا‘ بدنیتی پر مبنی اور مبالغہ آمیز پروپیگنڈاہے۔ البتہ اب سے تین عشرے پہلے مغرب کے مستشرقین (orientalists)نے ایسے لوگوں کے لیے ’’مسلمان بنیاد پرست‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی: ’’جو یہ چاہتے ہیں کہ اسلام جیسا کہ وہ ہے اور جیسا کہ مسلمان اس کو سمجھتے ہیں‘ اسے اس کی بنیادی روح کے مطابق نافذ کر دیا جائے‘‘۔

مغرب یہ چاہتا ہے کہ اسلام کا نام تو چاہے رہے‘ جس طرح کہ عیسائیت کا نام باقی ہے لیکن فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ کی کتاب‘ الہامی ہدایت اور اسوہ رسولؐ آخر الزماںؐ کو حاصل نہ ہو۔ بلکہ انسان اپنی ذاتی مرضی‘ بدلتے ہوئے اغراض و مقاصد کی روشنی میں ان معاملات کو مغربی پیمانۂ فکر کے مطابق طے کرے۔ نیز یہ کہ جس چیز کو اہل مغرب پسند کرتے ہیں‘ بس آنکھیں بند کر کے وہ قبول کی جائے۔ اسی کے اندر مسلمان ڈھل جائے تو یہ ’’ترقی پسندی‘ تعمیر پسندی‘ دانش مندی اور میانہ روی‘‘ ہے۔ اور اگر قرآن و سنت کی بنیاد پر مسلمان اپنے اصول‘ اپنے نظریے‘ اپنی روایات‘ اپنی تاریخ اور خود اپنی تہذیب پر عمل کرنا چاہے تو یہ ’’بنیاد پرستی‘‘ ہے۔ یہ بات مغربی دانش وروں کی ان تمام تحریروں میں نمایاں ہے‘ جو آج مغرب سے آ رہی ہیں۔ مشہور مستشرق پروفیسر منٹگمری واٹ نے حال ہی میں بہت کھل کے یہ بات کی ہے: ’’دراصل جو لوگ اسلام کے اس روایتی تصور کو غالب کرنا چاہتے ہیں جو قرآن اور نبی پاکؐ نے پیش کیا ہے‘ وہی لوگ بنیاد پرست ہیں۔ اور جو لوگ اسلام کو مغرب کے معیار پر بدلنے اور ڈھالنے کے لیے تیار ہیں‘ وہ لبرل ہیں اور وہی ہمارے اصل دوست ہیں‘‘۔

اب یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ علامہ محمد اقبالؒ اور قائداعظم محمد علی جناح ؒکا موقف اس ذیل میں کیا تھا؟ علامہ اقبالؒ نے جدید اور قدیم دونوں علوم کے مآخذ سے استفادہ کیا اور پوری قوت ایمانی کے ساتھ یہ بات کہی کہ اسلام حق ہے اور مغرب جس بنیاد پر قائم ہے یعنی سیکولرازم ‘ نیشنلزم‘ ریشنلزم‘ سائنس پرستی… یہ بنیاد‘ بنیاد خام ہے۔

علامہ محمد اقبال نے اسلام کو ایک انقلابی تصور کی حیثیت سے پیش کیا۔ اس سلسلے میں اگر آپ اقبال  کی شاعری کو جو ان کے فکر کے اظہار کا اصل ذریعہ ہے‘ نظراندازبھی کر دیں تب بھی ان کا یکم جنوری ۱۹۳۸ء کا سال نو کا پیغام دیکھ لیجیے۔ اس میں انھوں نے کہا ہے کہ:

’’اس زمانے میں ملوکیت کے جبرواستبداد نے: جمہوریت‘ قومیت‘ اشتراکیت‘ فسطائیت اور نہ جانے کیا کیا نقاب اوڑھ رکھے ہیں۔ ان نقابوں کی آڑ میں دُنیا بھر میں حریت اور شرف انسانیت کی اقدار کی اس طرح مٹی پلید ہو رہی ہے کہ تاریخ عالم کا کوئی تاریک سے تاریک صفحہ بھی اس کی مثال پیش نہیں کر سکتا۔ وحدت صرف ایک ہی معتبر ہے اور وہ بنی نوع انسان کی وحدت ہے‘ جو رنگ‘ نسل اور زبان سے بالاتر ہے۔ جب تک اس نام نہاد جمہوریت‘ اس ناپاک قوم پرستی اور ذلیل ملوکیت کی لعنتوں کو مٹایا نہ جائے گا‘ جب تک انسان اپنے عمل کے اعتبار سے الخلق عیال اللّٰہ کے اصول کا قائل نہ ہو جائے گا‘ جب تک جغرافیائی وطن پرستی اور رنگ و نسل کے اعتبارات کو نہ مٹایا جائے گا‘ اس وقت تک انسان اس دُنیا میں فلاح و سعادت کی زندگی بسر نہ کرسکے گا اور یہ تصور اسلام کا تصور ہے‘‘۔

علامہ محمد اقبال نے اپنی کتاب The Reconstruction of Religious Thought in Islamکے آخری خطبے میں جدید قانون سازی اور قانون ساز اسمبلیوں پر اپنے خیالات پیش کیے ہیں۔ اس کے آخری حصے میں انھوں نے کسی لاگ لپیٹ کے بغیر برملا کہا ہے کہ ’’انسانیت کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مغرب ہے۔ اور یورپ کے دیے ہوئے تصورِحیات سے جب تک انسان نجات نہیں پاتا‘ انسانی مسائل حل نہیں ہو سکتے اور اسلام کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق کائنات کی نئی اخلاقی تعبیر‘ صاحب ایمان فرد کی دریافت اور اجتماعی عدل پر معاشرے کی تعمیر‘ یہ وہ بنیادیں ہیں جن پر دنیا کو قائم کرنا چاہیے‘‘۔ یہی علامہ اقبالؒ کا مشن تھا۔

اسی طرح بلاشبہہ قائداعظمؒ کا ایک دور وہ بھی تھا‘ جب وہ نہ صرف انڈین نیشنل کانگریس میں سرگرم عمل تھے‘ بلکہ اس کے مرکزی قائدین میں سے تھے۔ تب وہ ہندو مسلم اتحاد کے سفیر تھے۔ گاندھی جی اور مدن موہن مالویہ کے رفیق خاص تھے۔ لیکن اس کے بعد جب قائداعظمؒ نے برہمنی ذہنیت کا قریب سے مشاہدہ کرلینے کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیم نوکی اور ۱۹۳۶ء سے ۱۹۴۰ء تک مسلم انڈیا کے حالات کا بے لاگ تجزیہ کیا‘ تب وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ مسلمان اپنے دین کی بنیاد پر‘ اپنے اخلاق‘ اپنے عقیدے‘ اپنی تاریخ اور اپنی تہذیب و تمدن کی بنیاد پر ایک الگ قوم ہیں‘ محض ایک اقلیت نہیں ہیں۔ اور فکر اقبال کی روشنی میں ہندستان میں مسلمانوں کے مسئلے کا حل اس کے سوا کوئی نہیں ہے کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہے‘ وہاں ان کی آزاد اسلامی ریاست قائم ہو اور مسلمان اس ریاست کو اسلام کی بنیادوں پر اوراسلام کے دیے ہوئے اصولوں کے مطابق قائم کریں۔ میں اس سلسلے میں قائداعظمؒ کی آخری پانچ برس  کی تقریروں کی طرف توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں‘ جس سے معلوم ہوگا کہ قائداعظمؒ کا اس معاملے میں کیا موقف تھا۔

جہاں تک جدید اسلامی جمہوری ملک کا تعلق ہے‘ اس ضمن میں علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ جس بات کے حامی اور علم بردار تھے اور جس بات کے لیے انھوں نے بھرپور جدوجہد کی وہ قرآن و سنت کی لاثانی اور ابدی ہدایات کی روشنی میں ایک مسلمان معاشرے اور ایک مسلمان ریاست کا قیام عمل میں لانا تھا۔ ایسا معاشرہ جو عمرانی عدل (social justice)کے تقاضوںکو پورا کر سکے اور جس میں اسلام کا قانون جاری و ساری ہو۔ جس میں مسلمان مغربی اقوام کی غلامی اور ان کی نقالی کی بجائے اسلام کو بطور دین ہدایت اور مستقل کلچر کی حیثیت سے پیش کریں‘ یہ تھا بانیانِ پاکستان کا تصور__ وہ لوگ جو اس سے ہٹ کر چل رہے تھے ان پر علامہ اقبال اور قائد اعظمؒ نے گرفت کی اور خصوصیت سے ترکی پر‘ جو اپنے آپ کو یورپ کے سانچے میں ڈھالنے میں مصروف تھا۔

بالکل یہی وہ تصور ہے جس کو جماعت اسلامی نے پیش کیا ہے۔ ہم دراصل قرآن وسنت رسولؐ سے ماخوذ اور اسلام کے تابع فکر اقبال اور قائداعظمؒ کے تصور کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس اعتبار سے ہمارے اور بانیانِ پاکستان کے تصور میں کوئی فرق نہیں۔ بانیانِ پاکستان کے تصور سے وہ لوگ ہٹے ہیں‘ جنھوں نے اس ملک میں بے دینی‘ مادیت‘ مغرب پرستی اور اباحیت کو رواج دیا‘ یا سوشلزم کی راہ ہموار کی یا اس کے حاشیہ بردار رہے جنھوں نے سرمایہ داری کو فروغ دیا‘ اور جنھوں نے جاگیرداری کے ناسور کو بڑھنے اور پھلنے کے مواقع دیے۔ جو یہاں اسلامی قانون سے انحراف کے راستے تلاش کر رہے ہیں جنھوں نے یہاں علاقائی اور لسانی عصبیتیں پیدا کیں۔ ہم تو ان تمام کا مقابلہ اللہ تعالیٰ پر ایمان‘ دلیل اور یقین محکم سے کر رہے ہیں۔ ہم وہی لڑائی لڑ رہے ہیں جو علامہ اقبال اور قائداعظمؒ نے لڑی تھی۔ یوں ہمارے اور بانیان پاکستان کے درمیان کوئی فکری یا عملی تصادم اور تضاد نہیں ہے۔

تھیاکریسی اور اسلام

اسی طرح ایک بات تھیاکریسی کے بارے میں کہی جاتی ہے:

یہ امر واقعہ بھی ہے‘ اور اسی حقیقت کا اظہار علامہ محمد اقبال اور قائداعظم محمد علی جناحؒ دونوں نے کھل کر کیاہے کہ اسلام تھیاکریسی نہیں ہے۔ کچھ لوگ ان بیانات کا سہارا لے کر یہ بات کہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا کہ ہمارے اور ان کے موقف میں فرق ہے۔ حالانکہ وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ علامہ اقبال نے اس موضوع پر انگریزی خطبات میں بحث کی ہے۔ چھٹے خطبے میں انھوں نے یہ بات اس معنی میں فرمائی ہے کہ:

گویا بہ حیثیت ایک اصول‘ عمل توحید اساس ہے: حریت‘ مساوات اور حفظ نوع انسانی کی۔ اب اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ازروئے اسلام ریاست کا مطلب ہماری یہ کوشش ہوگا کہ یہ عظیم اور مثالی اصول زمان و مکان کی دُنیا میں ایک قوت بن کر ظاہر ہوں۔ گویا ایک آرزو ہے ان اصولوں کو ایک مخصوص جمعیت بشری میں مشہور دیکھنے کی۔ لہٰذا اسلامی ریاست کو حکومت الٰہیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے تو انھی معنوں میں۔ ان معنوں میں نہیں کہ ہم اس کی زمام اقتدار کسی ایسے سلطان ظل الٰہی کے ہاتھ میں دے دیں‘ جو اپنی مفروضہ معصومیت کے عذر میں اپنے جور و استبداد پر ہمیشہ ایک پردہ سا ڈال رکھے۔( Reconstruction‘۱۹۸۶ء‘ ص ۲۳-۱۲۲)

یعنی اسلام میں تھیاکریسی ان معنوں میں قطعی طور پر نہیں ہے کہ مذہب میں کوئی طبقہ اجارہ دار ہو اور بس وہی طبقہ اللہ کی مرضی کو جاننے کا واحد ذریعہ ہو۔ اسلامی تعلیمات اور اسلامی مزاج کی روشنی میں یہ فکر تھی علامہ اقبال کی۔

قائداعظمؒ نے یہ بات کہی ہے کہ تھیاکریسی کا میں مخالف ہوں‘ اس لیے کہ اسلام میں کسی ایسے طبقے کا تصور نہیں ہے جو دین کا اجارہ دار ہو جیسا کہ بدھ مذہب‘ عیسائیت‘ ہندومت میں اور یہودیت میں ایسا طبقہ پایا جاتا ہے۔ یہ بات اسی معنی میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اور جماعت اسلامی نے ہمیشہ اسی لہجے میں کہی ہے کہ ’’ہم تھیاکریسی کے مخالف ہیں۔ تھیاکریسی کا کوئی تعلق اسلامی نظام سے نہیں ہے‘‘۔ مولانا مودودی کی کتب سے اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ اب اگر کوئی پڑھا لکھا آدمی پڑھے بغیر محض مغرب کے عطا کردہ الزام‘ اور اتہام کو عین علم قرار دینا چاہتا ہے تو یہ اس کی جہالت اور تنگ نظری کا ثبوت ہے۔

اس نام نہاد جدید طبقہ کی ژولیدہ فکری کا تو یہ حال ہے کہ ایک طرف تھیوکریسی سے برأت کا اعلان ہوتا ہے تو دوسری طرف ارشاد ہوتا ہے کہ جو بھی اور جس طرح بھی مسنداقتدار پر آگیا وہ گویا خود خدا کا فرستادہ ہے اور اس کے لیے وتعز من تشاء  وتذل من تشاء  سے استشہاد کرنے تک کی جسارت میں کوئی باک محسوس نہیں کیا جاتا۔

ہم دعوے سے عرض کریں گے کہ تھیاکریسی کے باب میں بھی علامہ اقبالؒ، قائداعظمؒ اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کا موقف ایک ہے۔ جو افراد اس میں اختلاف ڈھونڈنے یا عملی سطح پر رخنہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ وہ علمی دیانت نہیں برت رہے یا ان کی معلومات خام ہیں یا پھر وہ حقائق کا کھوج لگانے کے بجائے سیکولر تعصب میں مبتلا ہیں۔ ایسے عناصر نہ تھیاکریسی کے مفہوم سے آشنا ہیں اور نہ انھیں اسلام کے اجتماعی‘ سماجی‘ معاشی‘ بین الاقوامی اور سیاسی تصورات سے کوئی شناسائی ہے۔ اس پہلو سے انھیں قومی سطح پر بھی اپنے نقطہ نظر کی اصلاح کرنی چاہیے‘ تاکہ جو پیغام علامہ اقبال نے دیا تھا اور جس کے لیے قائداعظمؒ نے جدوجہد کی تھی‘ آج ہم اس کو عملی طور پر ملک میں قائم کر سکیں۔ مولانا مودودی تو فکری سطح پر اس کے موید اور عملی طور پر اس کے نقیب تھے۔

قائداعظمؒ کی ۱۱؍اگست ۱۹۴۷ء کی تقریر کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے۔ یہ تقریر قائداعظمؒ نے بہت ہی مخصوص حالات میں کی تھی۔ پوزیشن یہ تھی کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس تھا‘ جس میں قائداعظمؒ کو صدرمنتخب کیا گیا اور اس انتخاب پر اظہارتشکر کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے یہ تقریر کی تھی۔

انھوں نے اپنے دل کے زخم قوم کے سامنے رکھے کہ آج برعظیم میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے‘ انسان‘ انسان کو قتل کر رہا ہے‘ بے گناہ انسانوں کا خون بہایا جا رہا ہے‘ حقوق پامال ہو رہے ہیں اور اس صورت حال میں ہم جو ریاست حاصل کر رہے ہیں‘ اس میں کسی کا کوئی بھی مذہب ہو‘ خواہ وہ اسلام ہو‘خواہ وہ ہندو مذہب ہو‘ ان سب کو برابر کے حقوق حاصل ہوں گے۔ اس تقریر میں مسئلہ ریاست کی نوعیت کا نہیں‘ بلکہ مسئلہ شہریوں کے حقوق اور جان اور مال کے تحفظ کا ہے۔ شہریت اور جان و مال کے تحفظ کے باب میں اسلام مسلمانوں اور غیر مسلموں کو برابر کا تحفظ اور برابر کے حقوق دیتا ہے۔ یہ روایت سیکولرزم کی نہیں‘ بلکہ اسلام کی ہے۔ اسی طرح قائداعظمؒ کے الفاظ Business of the Stateکو بہت اُچھالا جاتا ہے۔ یہ بھی علمی خیانت ہے کیونکہ بزنس آف دی اسٹیٹ کا مقصود و مطلوب Nature of the State نہیں ہوتا۔ بزنس آف دی اسٹیٹ سے مراد صرف انتظام و انصرام ہے۔ اس کے علاوہ اس کی کوئی اور تعبیر نہیں کی جا سکتی۔

جو لوگ اس تقریر کو سیکولرزم کے جواز کے لیے استعمال کرتے ہیں ان سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قائداعظمؒ نے اس تقریر سے پہلے اور اس تقریر کے بعد بھی پاکستان کے اسلامی تشخص اپنانے‘ اسلامی قانون کو بنیاد بنانے‘ قرآن و سنت کی روشنی میں یہاں کے نظام کو ترتیب دینے اور اسلامی عدل اجتماعی کی بنیاد پر معاشرے کو استوار کرنے کی ضرورت و اہمیت کو تسلسل کے ساتھ بلاانقطاع بیان فرمایا ہے اور اس سلسلے میں ان کی وہ تقریر حرف آخر ہے جو انھوں نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر جولائی ۱۹۴۸ء میں فرمائی ہے‘ اس میںبھی اور اس سال عید کے پیغام میں بھی انھوں نے کہا ہے کہ ’’ہم ملک میں اسلامی قانون نافذ کرنا چاہتے ہیں‘‘__ سوال یہ ہے کہ قائداعظمؒ کی محض ۱۱؍اگست والی تقریر ان کے باقی تمام اقوال کو نظرانداز کر کے کیسے لی جا سکتی ہے؟ اور وہ ان کی پہلے اور بعد والی تمام تقاریر و بیانات کو منسوخ کر دینے والی تقریر کیسے بنائی جا سکتی ہے؟ کیا فقط یہی ایک تقریر معتبر ہے اور ان کی باقی تمام تقاریر غیرمعتبر اورغیر متعلق ہیں؟ کسی شخص کے فکر اور تصور کو سمجھنے کے لیے کیا کسی ایک چیز کو اس کے سیاق و سباق سے نکال کر دیکھا جاتا ہے یا فیصلہ کرنے کے لیے اس کی ساری چیزوں کو سامنے رکھا جاتا ہے؟ اور اگر ساری چیزوں کو سامنے رکھا جاتا ہے اور رکھنا چاہیے تو قائداعظمؒ کا تصور اسلامی ریاست بھی بالکل واضح ہے۔

پھر کیا ان لوگوں کی نگاہ میںقائداعظمؒ اتنے بے اصول انسان تھے کہ قوم سے وعدہ تو انھوں نے  اسلامی نظام کا کیا اور کہا کہ میں تمھیں پاکستان کی جدوجہد میں شرکت کی اس لیے دعوت دے رہا ہوں کہ تم ایک نظریاتی قوم کی حیثیت سے‘ اسلامی نظام اور اسلامی قوانین کی علم بردار قوم کی حیثیت سے جدوجہد کرو۔ لیکن ابھی آزادی ملنے میں تین دن باقی ہیں کہ وہ اپنے سارے کیے کرائے کے اوپر پانی پھیر دیں‘ اس سے یک دم پیچھے ہٹنے کا اعلان کر دیں اور یہ کہہ دیں کہ میںتو ایک لادینی اور سیکولر اسٹیٹ کے لیے کام کرتا رہا ہوں۔ پھر اس کے بعد دوبارہ ایسی تضاد بیانی کا شکار ہوں کہ ستمبر ۱۹۴۷ء سے لے کر جولائی ۱۹۴۸ء تک جتنی تقاریر کریں‘ ان میں پھر وہ اسلام ہی کا اعادہ کریں اور پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانے کے دعوے کریں؟

لیکن معاف کیجیے قائداعظمؒ تضاد بیانی کے قائل نہ تھے۔ اسی طرح وہ کوئی بے اصول انسان بھی نہ تھے‘ نہ قائداعظمؒ پر کسی قسم کی ژولیدہ فکری کا الزام لگایا جا سکتا ہے اور نہ ان پر نفاق کی تہمت لگائی جا سکتی ہے۔ وہ ہمیشہ جرأت کے ساتھ اپنے موقف پر قائم رہے‘ جس بات کو درست سمجھا ہے اس کو برملا کہا ہے انھوں نے کبھی متضاد باتیں نہیں کی ہیں۔ قائداعظم ؒ کی اس تقریر کو ان کی باقی تقاریر کے پس منظرمیں دیکھنا ہوگا اور اسی کے مطابق تطبیق اور اس کی تعبیر کرنا ہوگی۔ ان کی یہ بات بالکل درست ہے کہ اسلام میں تھیاکریسی نہیں ہے اور اسلام میں شہریوںکے حقوق برابر ہیں۔ یہ بات اسلام کے مطابق ہے‘ جس میںمسلمان‘ غیر مسلم سب شہری یکساں حقوق کے مالک ہیں بشرطیکہ وہ اپنی شہریت کے تقاضے پورے کریں۔ اس کے ساتھ اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہیں کہ پاکستان ایک سیکولراسٹیٹ ہوگا یا پاکستان ایک ایسی اسٹیٹ ہوگا جس کا مذہب اور دین سے کوئی تعلق نہ ہو یا اسلامی قوانین جاری نہ ہوں __یہ اس تقریر کی غلط تعبیر ہوگی۔

قائداعظمؒ پر میری نگاہ میں یہ ایک الزام اور بہتان ہے۔ ان تمام الزاموں سے بڑا الزام اور بہتان ہے‘ جو قائداعظمؒ کے بڑے سے بڑے ناقد اور مخالف بھی ان پر لگانے کی جرأت نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن وہ لوگ جو قائداعظمؒ کی فکر کے علم بردار ہونے کا دعوے کر رہے ہیں‘ وہی دراصل قائداعظمؒ کے کردار کو گہنانے کے لیے یہ کام کر رہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ہم قائداعظمؒ کے خیالات کی جو تعبیر کر رہے ہیں‘ یہ وہی تعبیر ہے جو ان کے پورے کردارسے اور ان کے تمام ارشادات سے ہم آہنگ ہے اور جس میں بجا طور پر قائداعظمؒ کی ایک دیانت دارانہ‘ منصفانہ اور خود ان کی اُمنگوں کی ترجمان تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔

 

ریاست جموں و کشمیر میں جن اصحاب عزیمت نے تحریک مولانا اسلامی اور جدوجہد آزادی دونوں کی آبیاری اپنے خون اور پسینے سے کی‘ ان میں ایک نمایاں ترین شخصیت مولانا حکیم غلام نبی کی تھی جو ۳فروری ۲۰۰۲ء کو تقریباً ۸۰ سال کی مجاہدانہ زندگی گزار کر رب حقیقی سے جا ملے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!

قسمت نگر کہ کشتۂ شمشیر عشق یافت
مر گے کہ زاہداں بہ دعا آرزو کنند

عشق و محبت کی شمشیر سے گھائل ہونے والے کی خوش قسمتی دیکھیے کہ اُسے موت ایسی نصیب ہوئی جس کی آرزو زاہد کرتے ہیں۔

غلام نبی وادیٔ کشمیر کے ایک چھوٹے سے خوب صورت گائوں مولوچترگام (ضلع پلوامہ) میں ایک معروف دینی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان رشد و ہدایت کا سرچشمہ تھا۔ نوجوان غلام نبی نے بھی علم دین کے حصول ہی کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ کشمیر میں ابتدائی تعلیم کے بعد دہلی اور دیوبند کے علمی سرچشموں سے ۱۵ سال پیاس بجھائی۔ دیوبند سے سندفضیلت حاصل کی اور دہلی سے طب و جراحت کی ڈگری لی۔ اس کے ساتھ جدید تعلیم کے زیور سے بھی اپنے آپ کو آراستہ کیا اور ایف اے کی سند امتیازی شان سے حاصل کی۔ اس طرح نوجوان غلام نبی مولانا حکیم غلام نبی بن کر وادیٔ کشمیر لوٹا۔ عربی‘ انگریزی‘ فارسی اور اُردو پر عبور اور اس پر مستزاد صاف ستھرا علمی اور ادبی ذوق--- تقریر اور تحریر دونوں پر قدرت‘ بلکہ تقریر کا تو یہ عالم کہ: وہ کہیں اور سنا کرے کوئی!

علم دین‘ انگریزی تعلیم اور طب اور جراحی کی سندوں سے آراستہ یہ نوجوان دنیوی اعتبار سے ابھی اپنا مقام تلاش ہی کر رہا تھا کہ ایک اور ہی انقلاب اس کا منتظر تھا--- جموں و کشمیر میں تحریک اسلامی کی دعوت پہنچ چکی تھی اور چند سرپھرے نہ صرف خود دُنیا کو بدلنے کا خواب دیکھ رہے تھے بلکہ ہر مضطرب روح کو اس آدرش کی خدمت کے لیے سرگرم کرنے کو کوشاں تھے۔ مولانا غلام احمد احرار کے ذریعے مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کتاب خطبات اور دوسرے رسائل سے آشنا ہوئے۔ دیوبند کا یہ فارغ التحصیل پہلے تو اُردو کے ان رسالوں کی طرف ملتفت نہ ہوا لیکن جب ایک بار مطالعہ شروع کیا تو دل و دماغ میں ایک تلاطم برپا ہو گیا اور بقول حکیم صاحب:’’ان چھوٹی چھوٹی کتابوں نے تو میری کایا ہی پلٹ دی‘‘۔ مولانا سعدالدین امیر جماعت تھے۔ حکیم صاحب نے اپنے کو رکنیت کے لیے پیش کر دیا اور وہ دن اور ۳ فروری ۲۰۰۲ء کا دن‘ پوری زندگی تحریک اسلامی کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔

جماعت اسلامی کے قائم کردہ پرائمری اسکول کی مدرسی سے لے کر جماعت کی امارت اور تحریک آزادیٔ کشمیر کی قیادت تک--- ہر خدمت خلوص‘ تندہی اور استقامت سے‘ اور ہر معرکہ حکمت‘ جرأت اور مجاہدانہ شان سے سر کیا۔ ایثار اور قربانی کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی‘ پوری زندگی فقر کے عالم میں گزاری‘ اپنے پورے گھرانے کو دین اور تحریک کا خادم بنایا‘ ایک جوان بیٹے ذبیح اللہ نے جام شہادت نوش کیا‘ باقی چار بیٹے اور دو بیٹیاں اپنے اپنے انداز میں تحریک میں سرگرم ہیں۔ جس طرح اپنے گھرانے کی فکر کی اسی طرح کشمیر کے ہر گھر کو دعوت اسلامی کے نور سے منور کرنے کے لیے شب و روز سرگرم رہے اور ایک نسل کو اسلام کی خدمت اور آزادی کے حصول کے لیے بیدار کر دیا۔

حکیم صاحب نے دعوت و تبلیغ‘ سیاسی جدوجہد اور بھارت کے تسلط سے آزادی کے جہاد میں نمایاں کردار ادا کیا۔ قیدوبند کی صعوبتوں کو خوشگواری سے انگیز کیا۔ پہلی گرفتاری ۱۹۶۲ء میں سیدعلی شاہ گیلانی کے ساتھ ہوئی اور پھر یہ سلسلہ ۱۹۹۰ء کے عشرے تک چلتا رہا۔ آخری زمانے میں بیماری کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذور تھے مگر تحریک کو پیش آنے والے ہر معرکے اور ہر آزمایش میں استقامت کا پہاڑ بنے رہے۔

مجھے حکیم صاحب کے ساتھ ایک بڑے نازک مرحلے پر چند دن گزارنے کا موقع ملا۔ جن چیزوں کا نقش دل پر قائم ہے ان میں ان کا صاف ستھرا علمی ذوق‘ سادہ طبیعت‘ حسن اخلاق‘معاملہ فہمی اور تدبر‘ تحریکی اور سیاسی حالات کا گہرا ادراک‘ بڑے سے بڑے خطرے کو انگیز کرنے کی ہمت اور داعیہ اور یہ سب کچھ کمال درجے کے انکسار کے ساتھ۔ ان کی زندگی میں کشمیر کی اسلامی تہذیب کی پوری تصویر دیکھی جا سکتی تھی۔

حکیم غلام نبی صاحب نے جماعت اسلامی کی دعوت کو گھر گھر پھیلایا‘ نوجوانوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف رہے‘ اور بڑے نازک اور پرخطر حالات میں صبر واستقامت اور حکمت و تدبر سے اپنی ذمہ داریاں ادا کیں اور قدم قدم پر بیش بہا قربانیاں پیش کیں۔ قیدوبند‘ فقروفاقہ‘ گھر بار اور باغ و کھلیان کی تباہی‘ اولاد کی شہادت--- وہ کون سا زخم ہے جسے انھوں نے ہنستے ہوئے اور شکر کے جذبات کے ساتھ جسم کا زیور نہ بنایا:

خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

مولانا حکیم غلام نبی کے انتقال کی خبر پوری ملت کشمیر پر بجلی کی طرح گری اور ہر گھر سوگوار اور ہر چشم اشکبار تھی۔ ہزاروں افراد نے اس عالم دین‘ تحریک اسلامی کے قائد اور جدوجہد آزادی کے مجاہد کو اس شان سے الوداع کہا کہ جنازے کا جلوس ان عزائم اور اہداف کے حق میں ایک استصواب بن گیا جن کے لیے حکیم صاحب نے زندگی بھر جدوجہد کی تھی:

ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر
یہ اس کی دین ہے جسے پروردگار دے

 

امریکی صدر جارج بش نے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے قابل مذمت واقعات کا سہارا لے کر افغانستان ہی نہیں‘ پوری دنیا میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جن بودے ‘ شرم ناک اور ظالمانہ الزامات کے نام پر یہ کارروائی کی جا رہی ہے انھی کا بہانہ بنا کر اسرائیل اور اس کے فلسطینیوںکے خون کے پیاسے وزیراعظم ایرول شیرون نے غزہ اور فلسطین کے علاقے میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔ بالکل انھی مفروضوں کے بل پر بھارتی قیادت نے پاکستان پر جنگ تھوپنے کا سماں پیدا کر دیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف جو جارج بش کی دھمکیوں میں آکر ان کے زیردام آچکے ہیں‘ اب اس ابتدائی اور بنیادی غلطی (original sin)کی پاداش میں ایک کے بعد دوسری پسپائی اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ جنرل صاحب کی اَنا کو غذا فراہم کرنے کے لیے وہی مغربی قائدین اور صحافی جو انھیں ۱۱ ستمبر سے پہلے جمہوریت کا قاتل‘ فوجی ڈکٹیٹر اور عالمی محفلوں میں ناپسندیدہ شخص (persona non grata)قرار دے رہے تھے‘ اور صدر کلنٹن ان کے ساتھ اپنا فوٹو کھنچوانا اور ٹی وی پر ہاتھ ملاتے ہوئے دکھایا جانا بھی پسند نہیں فرماتے تھے‘ اب ان کو سینے سے لگا رہے ہیں‘ اور ایک سے ایک بڑھ کر ان کو بہادر‘ معاملہ فہم‘ بالغ نظر اور روشن خیال بنا کر پیش کر رہے ہیں اور اس ذہنی رشوت کے بدلے ان سے ہر روز نت نئی مراعات حاصل کرنے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

افغانستان کو تباہ کرنے‘ وہاں اپنی فوجوں کے قدم جمانے اور اپنی مرضی کی حکومت قائم کرنے کے بعد اب امریکہ کا ہدف کشمیر کا جہاد آزادی اور پاکستان اور عالم اسلام کی وہ تحریکات ہیں جو دین اسلام کو ایک مکمل نظامِ زندگی کی حیثیت سے قائم کرنے کی داعی ہیں۔ یہ مغرب کے استعمار کے خلاف سب سے بڑی مزاحم قوت ہیں۔ وہی جہاد جو کبھی آزادی اور اشتراکیت کے خلاف جنگ کا روشن نشان تھا ‘اب دہشت پسندی کا دوسرا عنوان قرار دے دیا گیا ہے۔ وہی مجاہد جن کا ۱۹۸۵ء میں صدر رونالڈ ریگن وہائٹ ہائوس میں استقبال کر رہے تھے اور ان کے چہروں پر فرشتوں کا نور دیکھ رہے تھے اور جن کے سروں پر امریکہ کی جنگ آزادی کی قیادت بشمول جارج واشنگٹن کا سایہ تلاش کر رہے تھے‘ اب انھیں زمین پر سب سے زیادہ قابل نفرت اور لائق مذمت گروہ سمجھ کر گردن زدنی قرار دیا جا رہا ہے۔

بات چلی افغانستان اور القاعدہ سے تھی‘ مگر اب فلسطین ہو یا کشمیر‘ شیشان ہو یا کوسووا یا فلپائن کے مورو __ ہر جگہ اپنی آزادی اور غیر ملکی تسلط کے خلاف مصروفِ جہاد قوتیں ہی اصل ہدف ہیں۔ ان قوتوں کو دبانے کے لیے عسکری قوت اور ملٹری بلیک میل کے ساتھ ان ملکوں کے حکمرانوں کو بھی استعمال کیا جا رہا ہے کہ دینی مدارس پر پابندیاں لگائیں‘ مسجد اور منبر کی آزادی کو لگام دیں‘ اور اس اُمت کے جسم و جاں کو روح جہاد سے محروم کرنے کا سامان کریں۔ مغربی استعمار نے اپنے اولیں دور میں بھی جہاد ہی کو نشانہ بنایا تھا اور خود مسلمانوں کے مختلف طبقوں میں ایسے افراد اور افکار کو فروغ دیا تھا جو جہاد کو منسوخ اور اسے فرسودہ اور خطرناک قرار دینے والے ہوں۔ خواہ جدید تعلیم یافتہ اور لبرل اور ماڈرنسٹ ہوں یا مذہبی لبادہ اوڑھنے    حتیٰ کہ نئی نبوت کی دستار زیب تن کرنے والے‘ سب ہی نے جہاد کو کالعدم کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تھا مگر اللہ کی بات جہاں تھی وہیں رہی اور وہ ناکام و نامراد ہوئے۔ اب نئے استعمار کے لیے زمین ہموار کرنے کے لیے بھی وہی ڈراما رچایا جا رہا ہے۔ خدا خیر کرے!

۱۲ جنوری کا خطاب

یہ ہے وہ پس منظر جس میں جنرل پرویز مشرف نے ۱۲ جنوری کا وہ خطاب فرمایا ہے جس کا چرچا تقریر سے پہلے ہی پوری دنیا میں تھا اور اس کے اساسی نکات کا اعلان اسلام آباد سے نہیں‘ واشنگٹن سے اور جنرل صاحب کے نفس ناطقہ کی زبان سے نہیں امریکی سینیٹ اور کانگریس کے ارکان کی زبان سے ہو رہا تھا۔

لشکر طیبہ اور جیش محمد پر پابندی لگا کر حکومت نے پہلے ہی اشارہ دے دیا تھا کہ  ہوا کا رُخ کیا ہے۔کس طرح کے اقدامات ان کے پیش نظر ہیں۔ تحریک جعفریہ اور سپاہ صحابہ پر پابندی کی خبریں بھی عام تھیں اور دونوں تنظیموں کو پہلے انتباہ بھی کیا گیا تھا۔ دینی مدارس اور مساجد کے بارے میں مغربی قوتیں ایک عرصے سے مہم چلا رہی تھیں اور ان کے زیراثر پاکستان کی سیکولر اور لبرل لابی اور یہاں کا انگریزی پریس اور انگریزی فیشن میگزین مدارس کی تعلیم و تربیت کے بارے میں عسکریت کے حوالے سے فیچر چھاپ کر مغربی طاقتوں کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے تھے۔ خود جنرل پرویز مشرف صاحب نے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ ہی اتاترک کو اپنا آئیڈیل قرار دے کر اپنے اصل عزائم کی ایک جھلک دکھائی تھی مگر فوری عوامی ردعمل سے گھبرا کر قدم پیچھے ہٹا لیے تھے۔ اب حالات کو سازگار سمجھ کر اور مغربی اقوام کی پشت پناہی حاصل کرکے‘ دبے لفظوں میں اور مغالطہ آمیز اعلان کے ساتھ دین و سیاست کی تفریق کی طرف قوم و ملک کو لے جانے کے لیے اولیں اقدام کر کے اصل ایجنڈے کی طرف آ رہے ہیں۔ ان کی تقریر میں دین و سیاست کو الگ رکھنے‘ مدارس اور مساجد کو رجسٹر کرنے اور پیشگی اجازت لیے بغیر کوئی نئی مسجد یا مدرسہ نہ کھولنے کے اعلانات اس سمت میں پہلا قدم ہیں۔

جہاں تک فرقہ وارانہ تعصبات اور فسادات کا تعلق ہے سبھی اسے ناپسند کرتے ہیں۔ ملک میں لسانی تعصبات اور علاقائی نفرتیں بھی عام ہیں۔ ان کے نتیجے میں جو فسادات ہوئے ہیں وہ زیادہ سنگین اور بڑے پیمانے پر تھے اور ملک کے لیے زیادہ نقصان دہ تھے۔ لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہی لسانی اور علاقائی تعصبات والے گروہ موجودہ حکومت کے حلیف ہیں کیونکہ انھیں بھی پرویز مشرف حکومت کی طرح مغربی طاقتوں کی پشتی بانی حاصل ہے۔ اس لیے وہ محفوظ ہیں اور سارا نزلہ مذہبی عناصر پر گرایا جا رہا ہے۔ بلاشبہہ ملک کے اندر فساد پھیلانے والی تنظیمیں چاہے وہ فرقہ وارانہ ہوں یا علاقائی اور لسانی ہوں ملک کی یک جہتی‘ امن و سکون اور معاشی ترقی اور خوش حالی کے لیے زہر قاتل ہیں لیکن اگر ان میں سے ایک ایک کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگاکہ ان کی اکثریت کو سرکاری سرپرستی حاصل رہی ہے۔ اس کے لیے مذہبی طبقات کو مورد الزام ٹھہرانا سراسر ظلم اور بے انصافی ہے۔ نیز فرقہ وارانہ قتل و غارت گری میں حقیقی اور موثر کردار اہل مذہب کا نہیں‘ ملکی اور بیرونی تخریبی عناصر اور ایجنسیوں کا تھا جس کا بار بار اعتراف خود سرکاری ذمہ داروں بشمول وزیر داخلہ نے کیا ہے۔ لیکن اب یہ سب پہلو نظرانداز کر دیے گئے ہیں اور ملبہ صرف کچھ مذہبی عناصر پر ڈالا جا رہا ہے۔

جنرل صاحب نے ایک ہی سانس میں پاکستان کو اسلامی ریاست بھی قرار دیا اور دین کو سیاست سے الگ رکھنے اور مسجد میں سیاست نہ کرنے کی بات کی ہے۔ انھوں نے علامہ اقبال کے تصور پاکستان کی باتیں بھی کی ہیں لیکن وہ بھول گئے کہ اقبال تو دین و دُنیا اور مذہب و سیاست کی یک رنگی کے قائل ہیں اور دُنیا کے پورے نقشے کی‘ بشمول ریاست و معیشت‘ دین کی بنیاد پر تشکیل نو کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اس کے قائل ہیں کہ:

جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

اقبال کا تو سارا پیغام ہی قوت کو دین کے تابع کرنے اور اسے حق کی حکومت کے لیے استعمال کرنے کا پیغام ہے:

لادیں ہو تو ہے زہر ہلاہل سے بھی بڑھ کر
ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاک

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھنے والا اور ان کے اسوئہ حسنہ کی پیروی کو فلاح اور کامیابی کا زینہ سمجھنے والا کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ دین اور سیاست الگ ہیں یامسجد میں سیاست کی بات نہیں کرنی چاہیے۔ پورا قرآن اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اخلاقی اور سیاسی تعلیمات کے حسین اور دل نشین امتزاج پر مشتمل ہے۔ حضور نبی کریم ؐ نے اسلامی حکومت قائم کی ہے۔ آئین اورقانون عطا کیا ہے۔ ایک مصرع میں علامہ اقبالؒ نے حضور نبی کریمؐ کی زندگی کا یہ حصہ کس خوب صورتی کے ساتھ بیان کر دیا ہے:

از کلید دیں در دنیا کشاد

یعنی انھوں نے دین کی چابی سے دنیا کا دروازہ کھولا۔ دین اور دنیا الگ نہیں ہیں۔ دین‘ دُنیا میں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ دین سیاست اوراقتدا کے بغیر نامکمل ہے اور سیاست دین کے بغیر گمراہی اور ظلم کا پلندا ہے۔

مسجد کے لیے پیشگی اجازت کی شرط لگا کر پرویز مشرف صاحب نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ مسجدیں تعمیر کرنے کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتے ہیں۔ لائوڈ اسپیکر کے استعمال پر بھی پابندی لگائی جا رہی ہے۔ اس طرح کی پابندی انگریز کے دور استعمار میں بھی علما اور اس اُمت نے قبول نہیں کی۔ آج بھی ناممکن ہے کہ مساجد کو اجتماعی مسائل کے حل کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ مطلق العنان حکومتوں کی ہر دور میں یہ خواہش رہی ہے کہ اس کے خلاف کہیں سے آواز نہ اٹھ سکے اور مسجد و منبر خاص طورپران کا نشانہ بنے ہیں لیکن مسجد کا مقصد ہی مسلمانوں کو عبادت کے ساتھ ساتھ تعلیم اور اجتماعیت کا درس دینا ہے۔ ان دونوں کے درمیان رشتہ منقطع نہیں کیا جا سکتا۔

جنرل پرویز مشرف صاحب نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ مذہبی جماعتوں میں سے کسی نے بھی افغانوں کی انسانی ضروریات پوری نہیں کیں۔ یہ کام مغربی ممالک کی این جی اوز نے کیا ہے یا عبدالستار ایدھی نے یہ خدمت انجام دی ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی اور دوسرے اسلامی فلاحی اداروں کی خدمات کا ذکر نہ کر کے انھوں نے صراحتاً حقائق سے چشم پوشی کی ہے اور قوم اور پوری دنیا کو گمراہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مظلوم افغانوں کی دست گیری کے لیے الرشیدیہ ٹرسٹ‘ اُمّہ تعمیرنو الخدمت اور اسلامک ریلیف کی خدمات یو این او کے خدمتی ادارے سے اگر زیادہ نہیں تو کسی صورت کم بھی نہیں۔ خود یو این او کا متعلقہ ادارہ ان مسلمانوںکے ذریعے اپنے بہت سے ریلیف پروگرام چلا رہا ہے کیوں کہ اس کے پاس زمینی سطح پر وہ کارکن اور انتظام نہیں جو اس کام کے لیے درکار ہے۔

اُمّت کا تصور

جنرل پرویز مشرف کی تقریر کا سب سے زیادہ قابل اعتراض حصہ وہ ہے جہاں انھوں نے پاکستانیوں کو دوسرے مسلمانوں کے معاملات سے الگ تھلگ رہنے کی تلقین کی ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ ہم خدائی فوج دار نہیں۔ بلاشبہہ ہم خدائی فوج دار نہیں‘ لیکن خدا کے سپاہی اور اُمت مسلمہ کے ارکان تو ہیں۔ یہ اُمت ایک اُمت ہے‘ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ اِنَّ ھٰذِہِ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَاحِدَۃً (الانبیاء ۲۱:۹۲) بلاشبہہ تمھاری یہ اُمت ایک اُمت ہے۔ موصوف کے یہ ارشادات دراصل پاکستان کے نظریے پر کاری ضرب لگانے کے مترادف ہیں۔ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے۔ اس کا نظریہ اسلام ہے۔ اس کی تشکیل میں برعظیم کے مسلمانوں نے حصہ لیا ہے۔ ۱۹۷۲ء میں مفتی اعظم فلسطین نے ایک تقریر مکہ مکرمہ میں کی تھی جس میں انھوں نے فرمایا تھا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد مسلمانوں کو ایک مرکز کی ضرورت تھی اور علامہ محمد اقبالؒ کی خواہش تھی کہ برعظیم میں مسلمان اکثریت کے علاقوں پر مشتمل ایک ایسا ملک وجود میں آجائے جو اُمت مسلمہ کو مرکز و محور عطا کرے۔ اس کے لیے برعظیم کے ان مسلمانوں نے بھی اس کی تشکیل میں حصہ لیا جن کو معلوم تھا کہ وہ خود اس میںشامل نہیں ہو سکیں گے۔

قائداعظم نے عالم اسلام کے تمام مسائل کو ہمیشہ اپنے مسائل کے طور پر پیش کیا اور خصوصیت سے مسئلہ فلسطین پر پوری مغربی دنیا کو ناراض کر کے فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ فلسطین ہو یا شیشان‘ بوسنیا ہو یا کوسووا‘ خلافت کا مسئلہ ہو یا الجزائر کی جنگ آزادی‘ پاکستان کے مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے بھائیوں کا ساتھ دیا اور یہی اسلام کی تعلیم ہے۔ آج ’’خدائی فوج دار‘‘ کی پھبتی کس کر اُمت کی وحدت اور مظلوموں کی اعانت سے دست کشی کی باتیں ہو رہی ہیں جو ایمان اور غیرت دونوں کے منافی ہیں۔ اور اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے وژن سے انحراف ہی نہیں‘ بغاوت کے مترادف ہیں۔ اقبال کا پیغام تو ’’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے‘‘ تھا۔ جنرل صاحب کون سے اقبال اور قائداعظم کی بات کر رہے ہیں؟

جنرل پرویز مشرف نے اگرچہ نام تو نہیں لیا لیکن ان کے ارشادات میں امریکی اور صہیونی اثرات کی چھاپ دیکھی جا سکتی ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں کا فلسطین سے قلبی لگائو ہے۔ مسئلہ فلسطین دُنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے موت و حیات کا مسئلہ ہے۔ پاکستان کو اُمت مسلمہ سے کاٹنا اور اُمت کا تصور ختم کرنا یہودی لابی کی سب سے بڑی آرزو ہے۔ امریکی اور مغربی اقوام اُمت کے تصور کو ختم کر کے مسلمانوں کو وطنیت اور لسانیت اور علاقائیت کی بنیاد پر تقسیم در تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ یہ استعماری ایجنڈا ہے۔ اگر آپ اقبال کو مفکر پاکستان مانتے ہیں تو پھر ان کے نظریہ قومیت کو بھی تسلیم کر لیں۔ اقبال نے اسرار و رموز میں مسلم فرد کی شخصیت کی پرورش اور مسلم اُمت کی تشکیل کے اصول و ضوابط پر روشنی ڈالی ہے اور اس طرح اسلام کے تصور قومیت کو واضح کیا ہے۔ پاکستانی مسلمانوںکو یہ کہنا کہ وہ دوسرے مسلمانوں کے معاملات سے بے فکر ہو جائیں‘قرآن و سنت کے واضح ارشادات ‘ نظریہ پاکستان اور مفکر پاکستان کی تعلیمات کے خلاف ہے۔

مغربی اقوام نے خلافت کو ختم کر کے عربوں اور ترکوں کو قومیتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے کا دشمن  بنا دیا اور یہی وہ تقسیم در تقسیم ہے جو اُمت کے زوال کا بنیادی سبب ہے۔ اس پس منظر میں یہ خدشہ بے بنیاد نہیں کہ ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ دینے کا مطلب یہی نہ ہو کہ پاکستانی قوم کو کل اسرائیل کو بھی تسلیم کرنے کے لیے آمادہ کیا جائے۔ امریکہ نوازسیکولر لابی مدت سے یہ پراپیگنڈا کر رہی ہے کہ پاکستان کو جب ضرورت پڑتی ہے تو کوئی مسلمان ملک اس کی حمایت کے لیے آگے نہیں آتا تو ہم کیوں ان کے مسائل کے لیے اپنے لیے مشکلات پیدا کریں۔

فلسطین کو عربوں کا مسئلہ قرار دینا یا اسے محض فلسطینیوں کا مسئلہ قرار دینا ہی بنیادی غلطی ہے۔ القدس مسلمانوں کا قبلہ اول اور تیسرا حرم ہے اور پاکستان کے مسلمانوں کے لیے یہ دوسروں کا نہیں خود ان کا اپنا مسئلہ ہے۔ اگر مسلمانوں کی دوسری حکومتیں ہمارا ساتھ نہیں دیتیں تو اس کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ مسلمانوں کی حکومتیں اپنی خارجہ پالیسی میںآزاد نہیں ہیں۔ اُمت مسلمہ کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ ان کی حکومتوں پر قابض گروہ‘ ان کی تمنائوں اور آرزوئوں کے ترجمان نہیں ہیں بلکہ غیر ملکی استعمار کے مفادات کے تابع ہیں۔

پرویز مشرف صاحب نے اپنی تقریر کا اختتام علامہ اقبالؒ کے اس شعر پر کیا:

فرد قائم ربط ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

لیکن ہم افسوس سے کہتے ہیں کہ جنرل صاحب اقبال کے پیغام کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ اقبال نے اس شعر میں ملّت اسلامیہ سے مربوط ہونے کی تلقین کی ہے۔ ملّت سے ان کی مراد مسلمانوں کی اُمت ہے اور قومیت کا اسلامی تصور ان کے پورے پیغام کی روح ہے۔ ان کی تو تعلیم ہی یہ ہے کہ:    ؎

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر

یہ تصورِ قومیت قرآن کریم کا پیغام اور حضورنبی کریمؐ کی سیرت کا اصل سبق ہے ۔ پاکستان کی ملّت اسلامیہ اس کے مقابلے میں کسی دوسرے تصورِ قومیت کو قبول نہیں کرے گی۔

یہ درست ہے کہ ہمیں دنیا کے مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے اپنے ملک کے اتحاد‘ دفاع اور استحکام کو اولیں اہمیت دینی چاہیے لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم استحکام پاکستان کے نام پر اس بنیادی تصورِ قومیت کی نفی کر دیں جس پر پاکستان بنا ہے۔

یہ پاکستان اگر مستحکم بن سکتا ہے اور متحد رہ سکتا ہے تو اسلام کے تصورِ قومیت کی بنیاد پر ہی متحد رہ سکتا ہے ورنہ علاقائی اور لسانی قومیتوں کے پرچارک مغربی آقائوں کی سرپرستی حاصل کر کے اس کے ٹکڑے کرنے کے درپے ہیں۔

تصورّ جہاد

جنرل پرویز مشرف صاحب نے ایک اور خطرناک مغالطہ خود جہاد کے تصور کے بارے میں دیا ہے۔ جس حدیث کا سہارا لے کر انھوں نے جہاد اکبر اور جہاد اصغر کی بات کی ہے اہل علم جانتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کے مفہوم کے معتبر ہونے کے باوجود اس کے الفاظ اور حضورؐ سے اس کی نسبت ثابت اور محکم نہیںنیز اس کی جو تعبیر موصوف نے فرمائی ہے وہ غلطیوں کا مجموعہ اور اسلام کے تصور جہاد کی ضد ہے۔ اس کا مطلب جہاد کا ختم ہونا نہیں‘ جہاد کی تمام جہات کا ادراک اور ان کی وحدت ہے۔ بلاشبہ اسلام کا تصور جہاد بڑا جامع اور منفرد تصور ہے۔ یہ انسانیت کو ظلم و طغیان اور فساد و افتراق سے محفوظ رکھنے اور اللہ کی رضا کے لیے اعلیٰ اخلاقی مقاصد کے حصول کے لیے جان اور مال کی بازی لگانے سے عبارت ہے۔ جہاد ایک عبادت ہے اور اللہ کے دیے ہوئے قانون اور شریعت کا ایک لازمی اور ناقابل تنسیخ اور اٹل حکم ہے۔ جہاد سب سے پہلے خود اپنے نفس کی اصلاح سے عبارت ہے تاکہ دل کا تقویٰ حاصل ہو اور انسان محض مال و متاع‘ قوت و اقتدار‘ زمین اور جاہ وحشم کے حصول کے لیے سرگرداں نہ ہو بلکہ اللہ کی رضا کا طالب‘ اس کے دیے ہوئے اخلاقی ضابطے کا پابند اور صرف ان مقاصد اور اہداف کے لیے سرگرم عمل ہو جنھیں اللہ نے معتبر قرار دیا ہے۔ جیساکہ اقبال نے کہا:    ؎

شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی

جہاد زبان اور قلم سے حق کی بات کو ادا کرنے اور عدل و انصاف اور اطاعت الٰہی کے نظام کے لیے دلوں کو مسخر کرنے کا نام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اکرمؐ نے ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق ادا کرنے کو افضل جہادقرار دیا ہے۔

اس کے ساتھ جہاد‘ ظلم اور باطل کی قوتوں سے ٹکر لینے کا نام ہے‘ تاکہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ٹھیک ٹھیک ادا ہو اور انسان جبرو ظلم کے نظام سے نجات پاسکے۔ یہ جہاد جسم و جان‘ مال و دولت اور شمشیر و سناں سب سے ہے۔ لیکن جہاد میں مصروف تلوار صرف حق کے دفاع اور مظلوم کی حفاظت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ کسی پر ظلم کرنے کا ذریعہ نہیں بنتی۔ اور اس سے جہاد اکبر اور جہاد اصغر یک رنگ ہو جاتا ہے۔

معلوم ہوا کہ جسے جہاد اکبر اور جہاداصغر کہا گیا ہے وہ دو الگ الگ چیزیں نہیں‘ ایک ہی حقیقت کے دو رُخ ہیں۔ جہاد اکبر قلب کی اصلاح‘ تزکیہ نفس‘ اعلیٰ اخلاقی صفات کی پرورش‘ اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کی پوری پوری پاسداری کا نام ہے ۔ جہاد بالسیف بھی بعینہٖ انھی مقاصد اور انھی اقدار کے حصول اور تحفظ کے لیے ضرورت کے وقت قوت کے استعمال کا نام ہے۔ میدان کارزار میں بھی تقویٰ اور تزکیہ ہی اصل ہتھیار ہیں۔ اللہ کی رضا کے لیے جان کی بازی لگا دینے کے لیے ہر لمحہ تیار رہنا ہی مسلمان کی شان ہے۔

اس پس منظر میں جنرل صاحب کا یہ ارشاد کہ ’’غزوئہ خیبر کے بعد حضورؐ نے فرمایا تھا کہ اب جہاد اصغر ختم ہو گئی ہے لیکن جہاد اکبر شروع ہے یعنی عسکری جہاد جو چھوٹی جہاد ہے وہ ختم ہے اور پس ماندگی اور جہالت کے خلاف جہاد جو کہ بڑی جہاد ہے‘ وہ شروع ہے۔ اس وقت پاکستان کو جہاد اکبر کی ضرورت ہے۔ ویسے بھی یاد رکھیں کہ عسکری جہاد صرف حکومت وقت کے فیصلے سے ہو سکتی ہے‘‘۔ جنرل صاحب کا اس تحدی کے ساتھ جہاد اصغرکے ختم ہوجانے کی بات کرنا ایک ایسی جسارت ہے جو کوئی مسلمان نہیں کر سکتا۔ لازماً ان کے یہ الفاظ کم علمی اور بے احتیاطی کا نتیجہ ہیں ورنہ جہاد اصغرکے ختم ہونے کی بات کسی مسلم کے قلم یا زبان سے نہیں نکل سکتی۔ یہ تو مستشرقین کا مشغلہ اور بہاء اللہ اور غلام احمد قادیانی جیسے دشمنانِ دین کا فکری شاخسانہ ہے ورنہ غزوئہ خیبر (۷ھ) کے بعد خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ سعادت میں غزوئہ موتہ (جمادی الاول ۸ھ)‘ فتح مکہ (رمضان المبارک ۸ھ)‘  غزوئہ حنین (شوال۸ھ)‘ محاصرہ طائف (شوال ۸ھ) اور غزوئہ تبوک (رجب ۹ھ) واقع ہوئے اور پھر عہد صدیقی (۱۱-۱۳ھ) سے لے کر آج تک جہاد مسلمانوں کا شعار اور اسلام کی قوت اور سطوت کا ضامن رہا ہے۔ یہی وہ تاریخی روایت ہے جسے اقبال نے ’’ترانہ ملّی‘‘ میں یوں پیش کیا ہے:

تیغوں کے سائے میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں
خنجر ہلال کا ہے‘ قومی نشاں ہمارا

جنرل صاحب جو اس فوج کے چیف آف اسٹاف ہیں جس کا موٹو ہی ’’ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘‘ ہے بزعم خود جہاد اصغر کے ختم ہونے کی باتیں کر رہے ہیں۔ اکبر اور اصغر ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں جو ’’ایمان‘ تقویٰ اور جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے حسین الفاظ میں مجسم کر دیے گئے ہیںاور ان کے درمیان کوئی فصیل حائل نہیں کی جا سکتی۔

جس عمل کی طرف اس حدیث میں اور قرآن و سنت کے دوسرے احکام میں متوجہ کیا گیا ہے اور جسے یہاں جہاد اکبر کہا گیا ہے‘ وہ تزکیہ نفس‘ اصلاح ذات‘ حصول تقویٰ‘ اخلاقی اور روحانی بالیدگی کا حصول ہے‘ تاکہ انسان کی تمام قوتیں اور صلاحیتیں اللہ کے دین کو سربلند کرنے کے لیے استعمال ہوں۔ بلاشبہہ پس ماندگی اور غربت کے خلاف جدوجہد اسلام کی تعلیمات کا ایک حصہ ہے ۔ دین اسلام‘ تمام انسانوں کے لیے روحانی اور اخلاقی اصلاح کے ساتھ مادّی ضرورتوں کی فراہمی اور حیات طیبہ کے حصول کی ضمانت دیتا ہے‘ تاکہ اَطْعَمَھُمْ مِنْ جُوعٍ وَآمَنَھُمْ مِنْ خَوْف کی کیفیت پیدا ہو سکے۔لیکن احادیث نبوی ؐ اور احکام شریعت کی تعبیر اور تشریح کا کام بڑی احتیاط اور ذمہ داری کا تقاضا کرتا ہے۔ خیبر سے واپسی پر جہالت اور پس ماندگی کے خلاف جہاد اصل ایشو نہ تھا بلکہ وسیع تر معنی میں تزکیہ نفس اور اخلاقی قوت کی تعمیر تھا۔ حدیث کو اسی معنی میں پیش کرنا چاہیے جو اس کا مدعا ہے۔ غربت اور جہالت کے خلاف جہاد کے لیے دوسرے احکام موجود ہیں۔ اس کے لیے اس حدیث کا استعمال صحیح نہیں۔

عسکری جہاد جسے جہاداصغر کہا گیاہے‘ اس کے ختم ہونے کا ارشاد تو صریح مداخلت فی الدین اور اسلام کے ابدی قانون کو منسوخ قرار دینے کی مذموم کوشش ہی سمجھی جائے گی خواہ یہ حرکت نافہمی ہی پر مبنی کیوں نہ ہو۔ جنرل صاحب کو یہ کس نے بتا دیا کہ عسکری جہاد کے اعلان کا صرف ایک طریقہ ہے۔ بلاشبہہ اسلامی ریاست کا یہ حق اور فریضہ ہے کہ جب حالات جہاد کا تقاضا کریں تو وہ جہاد کا اعلان کرے لیکن حالات کی مناسبت سے اس کی دوسری جائز اور مشروع شکلیں بھی ہیں۔ اگر اسلامی ریاست قائم نہ ہو تو اس کو قائم کرنے کے لیے بھی جہاد کیا جا سکتا ہے۔ اگر مسلمان کسی غیر مسلم حکومت کے جبری تسلط کے تحت ہوں تووہ اپنی آزادی کے لیے اپنے علما کے مشورے سے عسکری جہاد کرسکتے ہیں۔ امام ابن تیمیہؒ نے تاتاریوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا۔ شیخ یوسف القرضاوی اور علماے اُمت نے فلسطین اور کشمیر میں جہاد کا فتویٰ دیا۔ کوئی حکومت اعلان کرے یا نہ کرے‘ جہاد کا فیصلہ حالات کی روشنی میں شریعت کے اصولوں اور ضوابط کے مطابق کیا جاتا ہے۔ جس علم سے جنرل صاحب واقف نہیں اس پر کرم نہ فرمائیں تو ان کے لیے بھی بہتر ہے اور اس مظلوم اُمت کے لیے بھی اور سب سے بڑھ کر اسلام کے لیے بھی۔

یہ بھی پیش نظر رہے تو مناسب ہے کہ جہاد اسلامی مخالف قوتوں کی آنکھوں میں ہمیشہ کانٹے کی طرح کھٹکتا رہا ہے اور اس کی وجہ بھی واضح ہے کہ یہی وہ قوت ہے جس سے ان کے غلبے کو چیلنج کیا جا سکتا ہے اور ان کے ظلم و تعدّی کا مداوا ممکن ہے۔ دور جدید میں جب استعماری قوتوں نے مسلمانوں پر غلبہ حاصل کر لیا تو ان کے دو ہی ہدف تھے: ایک رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک اور دوسرا مسلمانوں کا تصور جہاد۔ حضورؐ کی ذات اور تعلیمات اس اُمت کی شناخت اور اس کے عالمی کردار کی صورت گر ہیں اور جہاد وہ قوت ہے جس کے ذریعے شیطانی نظام کو چیلنج کیا جاتا ہے اور انسانیت کو ظلم کے چنگل سے نکالنے کا سامان کیا جا سکتا ہے۔ یہی چیز غیروں کے غلبے اور تسلط کی راہ میں حائل ہے اور یہی ان کا ہدف ہے۔  اقبال نے ارمغان حجاز کی نظم ’’ابلیس کی مجلس شوریٰ‘‘ میں بتایا ہے کہ ساری سازش مسلمان کو جہاد ہی سے دست بردار کرنے کے لیے کی جاتی ہے۔

اس میں کیاشک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوے غلامی میں عوام


ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام


کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمان جدید؟
’ہے جہاد اس دور میں مرد مسلماں پر حرام‘

اقبال کی نگاہ میں دورِ حاضر میں ابلیس کی ساری حکمت عملی یہی ہے کہ مسلمان جہاد کو ترک کر دے اور دوسرے مشغلوں میں مصروف رہے۔ اس کا مشورہ یہی تھا کہ:

تم اسے بیگانہ رکھو عالم کردار سے
تابساطِ زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات!

خیر اسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہانِ بے ثبات

ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشاے حیات

ہر نفس ڈرتا ہوں اس اُمت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات

جہاد اسی احتساب کائنات کا دوسرا نام اور اس کا موثر ترین ذریعہ ہے اسی لیے ابلیس کا نسخہ یہ ہے کہ:

مست رکھو ذکر و فکر صبح گاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے

یہ تو ہے شیطان کی حکمت عملی جس کی آواز بازگشت آج بھی سنی جا سکتی ہے۔ اقبال نے ان ہدایات کا برملا اظہار کر دیا ہے جو ابلیس نے اپنے سیاسی فرزندوں کو دی ہیں:

وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتا نہیں ذرا
روح محمدؐ اس کے بدن سے نکال دو

افغانیوں کی غیرت دیں کا ہے یہ علاج
ملاّ کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو

اہل حرم سے ان کی روایات چھین لو
آہو کو مرغزارِ رختن سے نکال دو

اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو

جہاد کے بارے میں ضرب کلیم میں اقبال نے اپنے دور کے سارے مباحث کو چند شعروں میں بیان کر دیا ہے:

فتویٰ ہے شیخ کا یہ زمانہ قلم کا ہے
دُنیا میں اب رہی نہیں تلوار کارگر

لیکن جناب شیخ کو معلوم کیا نہیں؟
مسجد میں اب یہ وعظ ہے بے سود بے اثر

تعلیم اس کو چاہیے ترکِ جہاد کی
دُنیا کو جس کے پنجۂ خونیں سے ہو خطر

باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر

ہم پوچھتے ہیں شیخِ کلیسا نواز سے
مشرق میں جنگ شر ہے تو مغرب میں بھی ہے شر

اور پھر ’جہاد اکبر‘ اور ’جہاد اصغر‘ کے حسین امتزاج کی طرف اُمت کو بلایا ہے جو اسلام کی اصل تعلیم ہے:

سوچا بھی ہے اسے مرد مسلماں کبھی تو نے
کیا چیز ہے فولاد کی شمشیر جگردار

اس بیت کا یہ مصرِع اوّل ہے کہ جس میں
پوشیدہ چلے آتے ہیں توحید کے اسرار

ہے فکر مجھے مصرع ثانی کی زیادہ
اللہ کرے تجھ کو عطا فقر کی تلوار

قبضے میں یہ تلوار بھی آ جائے تو مومن
یا خالدؓ جانباز ہے یا حیدر کرارؓ!

حقیقی جہادی کلچر ہی آج ہمارے ایمان‘ ہماری آزادی اور ہماری سلامتی کا ضامن ہے۔

کشمیر پر موقف

جنرل پرویز مشرف صاحب نے دعویٰ کیا ہے کہ کشمیر کے بارے میں ان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور پاکستان‘ جموں و کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی تحریک کی اخلاقی‘ سیاسی اور سفارتی تائید حسب سابق جاری رکھے گا اور یہ بھی بجا طور پر کہا ہے کہ کشمیر ہمارے جسم میں خون کی طرح رواں ہے‘ لیکن دو جہادی تنظیموں پر پابندی لگا کر‘ ان کے سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر کے‘ جہادی فنڈ کو ضبط کر کے وہ عملاً کیا پیغام دے رہے ہیں؟ اگر امریکہ کے دبائو اور بھارت کے عسکری بلیک میل کے نتیجے میں وہ دبے لفظوں میں کہتے ہیں کہ پاکستان کی سرزمین کو کسی ’’دہشت گردی‘‘ کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اس سے بھارتی قیادت اور امریکی شاطر یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ تحریک آزادی کشمیر بھی اس کی زد میں آتی ہے تو جنرل صاحب کے پاس اس کا کیا جواب ہے۔ بجا‘کشمیر ہماری رگوں میں خون کی طرح گردش کر رہا ہے اور پاکستان میں اتنی بڑی فوج کا کوئی جواز ہے تو وہ کشمیر کی رِگ جان کی حفاظت اور بھارت کے توسیعی عزائم کے مقابلے ہی کے لیے ہے لیکن جو کچھ جہادی تنظیموں کے ساتھ اب کیا جا رہا ہے اور جس طرح جہاد اور جہادی کلچر کو ہدف تنقید و ملامت بنایا جا رہا ہے‘ اور اس سے جو پیغام مقبوضہ کشمیر میں جان کی بازی لگا دینے والے نوجوانوں کو دیا جا رہا ہے وہ تباہ کن ہے۔ اگر فی الحقیقت کشمیر ان رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے تو پھر اسے جہاد آزادی کو سیراب کرنے کا سامان کرنا چاہیے ورنہ :    ؎

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا‘ تو پھر لہو کیا ہے؟

جنرل پرویز مشرف صاحب کی تقریرمیں پسپائی کے بہت سے نشان صاف دیکھے جا سکتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کی قسمت کے فیصلے‘ شوریٰ اور ملک کے عوام اور ان کے قابل اعتماد نمایندوں کے ذریعے نہیں ہو رہے‘ ساری قوت چند ہاتھوں میں مرکوز ہے اور ایک فردِواحد نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری اوڑھ لی ہے کہ وہی قومی مفاد کا واحد شناسا اور محافظ ہے۔ آمریت بظاہر مضبوطی کی مدعی ہوتی ہے لیکن   فی الحقیقت اس سے زیادہ کمزور کوئی اور نظام نہیں ہوتا۔

جمہوریت کے تقاضے

اس وقت ہمارے ملک میں قومی مفاد اور مصلحت کا محافظ کون ہے؟ پارلیمنٹ موجود نہیں ہے‘ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اُٹھا کر دستورِ پاکستان کے بجائے جنرل پرویز مشرف سے وفاداری کا اعلانیہ اقرار کیا ہے۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنی ذات میں چیف آف آرمی اسٹاف کے علاوہ چیف ایگزیکٹو اور صدر کے مناصب بھی سمیٹ رکھے ہیں۔ فوج کے کور کمانڈروں اور جرنیلوں کے بارے میں انھوں نے فرانس میں بیان دیا کہ"I command and they follow"  (میں حکم دیتا ہوں اور وہ احکامات بجا لاتے ہیں)۔  کیا ایک ایسے فردِ واحد کے ہاتھ میں ملک کی تقدیر دینا جو اتفاقاً بری فوج کا چیف آف اسٹاف بن گیا اور جس کو کسی طرح کا عوامی مینڈیٹ حاصل نہیں ہے‘ ملک کے چودہ کروڑ عوام کی حق تلفی نہیں ہے؟

بد قسمتی سے اسی دور میں۱۱ ستمبر۲۰۰۱ء کے بعد وہ شدید بحرا ن پیدا ہو گیا  جس کے با رے میں خو د پرویز مشرف نے سیا ست دا نوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا: ملکی تا ریخ میں اس سے زیادہ خطرناک صو رت حا ل پہلے پیدا نہیںہو ئی اور یہ کہ صدر بش نے ہمیں کہا کہ سا تھ دے کر اکیسویں صدی میں  ترقی اورخو ش حا لی کے راستے پر جا نا چا ہتے ہو یا سا تھ دینے سے انکا ر کر کے پتھر کے زما نے کی طرف لو ٹنا چا ہتے ہو۔ اس مو قع پر امیر جماعت اسلامی پاکستان نے کہا کہ اگر بحران اتنا شدید ہے کہ آپ خود فرما رہے ہیں کہ ملکی تا ریخ میں اس سے شدید تربحران پہلے نہیں آیا تو اس بحران کا سا را بوجھ آپ نے صرف تنہا اپنے کندھوں پر کیوںاُٹھا رکھا ہے؟ اس کا کو ئی جواب جنرل پرویز صا حب سے بن نہیں پایا ۔

اس دورا ن میں افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بج چکی ہے۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے جن لوگوں کی سرپرستی کر کے افغا نستا ن میں حکمرانی دلوا ئی تھی‘نہ صر ف ہم ان کی تبا ہی میں شریک ہو ئے بلکہ جب طالبان کی حکومت ختم ہو ئی تودُنیا بھر کے سفا رتی آداب کے خلا ف اسی اسٹیبلشمنٹ نے طالبان کے سفیر براے پاکستان کو امریکی حکو مت کے حوا لے کردیا۔ اگر ملک میں کو ئی آئین ہو تا‘ آئینی ادارے ہو تے‘ ملک کے مفا دات اور مصلحتوں کی نگرا نی میں یہا ں کے چو دہ کروڑ عوام کا بھی کوئی حصہ ہوتا تو یہ بے حمیتی اور   بے مروتی ہماری قو م کے حصے میں نہ آتی۔ جیش محمد اور لشکر طیبہ کے مجا ہدین جنھو ں نے ہرمشکل محا ذ پر پاکستانی افوا ج کا سا تھ دیا ، آج امریکی حکم پر اسی فوجی حکومت کے زیر عتا ب ہیں۔ حافظ محمد سعید اور مولانا مسعود اظہربھا رت کی خوا ہش پر زیر حرا ست ہیں۔

۱۲جنوری کی تقریر میں جنرل پرویز مشرف صاحب نے جیش محمد اور لشکر طیبہ کے ساتھ سپاہ صحابہ‘ تحریک جعفریہ اور تحریک نفاذ محمدیؐ کو بھی کسی عدالت میں مجرم ثابت کیے بغیر خلاف قانون قرار دے دیا ہے اور ان کے سیکڑوں کارکنوں کو زیرحراست لے لیا ہے۔ ان پر جو الزامات تھے اور ان کے گرفتار شدگان پر جو مقدمات قائم ہیں ان کی سماعت اور عدل کے مطابق فیصلے سے انھیں کس نے روکا تھا؟ ان میں جن افراد نے واقعی جرم کیا ہے قانون‘ ضابطہ اور عدالت اس کے لیے قائم ہیں مگر یہ راستہ اختیار کرنے کے بجائے اندھادھند سبھی کو یوں جیلوں میں ٹھونس دینے کا کیا جواز ہے۔ امریکہ کا سیکرٹری آف اسٹیٹ دہلی جاتے ہوئے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں گرفتار شدگان کی تعداد: ۱۹۷۵ کا اعلان کرے تو یہ سمجھنا کہ یہ سب کچھ بڑی حد تک امریکہ کے دبائو اور بھارت کے عسکری بلیک میل کے تحت کیا جا رہا ہے‘ کوئی غلط بات نہیں۔ انھیں قوم کے آزاد فیصلے نہیں کہا جا سکتا۔

اخبا را ت شذرے لکھ رہے ہیں۔تجزیہ نگار اور کالم نویس لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں۔ اخبا ر کے قا رئین خطو ط لکھ رہے ہیں۔سیا ست دان آل پا رٹیز اجتماعات منعقد کر کے عبو ری قومی حکو مت‘ آزاد الیکشن کمیشن کے قیام اور آزادانہ انتخابات کے مطالبے کررہے ہیں‘ لیکن جنرل پر ویز مشرف صاحب بضد ہیں کہ وہ دستور میں اپنی مرضی کے مطا بق ترمیم بھی کر یں گے‘آیندہ کے لئے صدر بھی رہیں گے‘ سیکو رٹی کو نسل قا ئم کر کے پارلیمنٹ پر ایک با لا دست ادا رہ بھی قا ئم کر یں گے اور اقتدار اس وقت چھو ڑیں گے جب وہ اس پر مطمئن ہو ںگے کہ انھوں نے قوم کو ٹھیک کرنے کا اپنا کا م مکمل کر لیاہے۔

اگر اس صورت حال کے خلاف عوام میں آواز اٹھائی جاتی ہے تو بغاوت کا مقدمہ درج کیا جاتا ہے اور اگر فوج سے کہا جاتا ہے کہ: تمھی نے درد دیا ہے‘ تمھی دوا دینا___ تو کہا جاتا ہے کہ: تم فوج کو جانتے نہیں ہو اور فوج میں اختلاف پیدا کرنا چاہتے ہو‘ فوج تمھیں سبق سکھا دے گی۔ یعنی وہ مطلق العنان حکمران رہنا چاہتے ہیں اور اپنے ذاتی فیصلوں پر تنقید کو ’’فوج کے خلاف تنقید‘‘ کہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب فوج کا حکمران ملک کا چیف ایگزیکٹو اور صدر ہو (جو دونوں سیاسی عہدے ہیں) اور جب وہ فوج کی قوت اور قیادت کو اپنے سیاسی پروگرام کی اصل قوت متحرکہ کے طور پر استعمال کرے تو پھر اسے کیا حق ہے کہ وہ اپنے سیاسی اقدامات کو عوامی تنقید اور احتساب سے بالا رکھے یا فوج کے بنکر (پختہ مورچے) میں بیٹھ کر اور فوج کی چھتری استعمال کر کے سیاست کرے۔ فوج اور اس کی قیادت کو دستور کے تحت احتساب سے بالا نہ ہوتے ہوئے بھی ایک تحفظ حاصل ہے اور وہ ملکی دفاع کے لیے ضروری ہے لیکن یہ تحفظ صرف اس فوجی قیادت کے لیے ہے جو سیاست میں ملوث نہ ہو۔ جب آپ اس سیفٹی لائن کو پار کر کے سیاست کے سیاہ و سپید کے مالک بن بیٹھے ہیں تو پھر آپ میں تنقید اور احتساب کو برداشت کرنے کا حوصلہ بھی ہونا چاہیے۔ ہم تو ہمیشہ سے اس کے قائل ہیں کہ فوج کا اصل کام ملکی سرحدوں کی حفاظت ہے مگر اسے سیاست میں کھینچ کر متنازع بنایا جا رہا ہے جس کی ذمہ داری ان پر ہے جو فوج کو اس کی دستوری ذمہ داریوں سے ماورا استعمال کر رہے ہیں۔

اس صورت حال کو درست کرنے کے لیے جمہوری طریقہ کار یہی ہے کہ سیاست دان مل کر عوامی حقوق اور دستور کی بحالی کے لیے جدوجہد کریں اور جو مطالبات آل پارٹیز کانفرنس نے طے کیے ہیں ان کے لیے مشترکہ جدوجہد کریں۔ لیکن بدقسمتی سے سیاست دانوں نے خرابیِ بسیار کے باوجود بھی سبق نہیں سیکھا۔ ان میں سے کچھ لوگ تو شریک اقتدار ہونے کے لیے بے تاب ہیں۔ اس کے لیے وہ آسان راستہ یہی سمجھتے ہیں کہ جنرل مشرف صاحب کا قرب حاصل کیا جائے اور ان کی بے جا حمایت کی جائے۔جن لوگوں کو کوشش کے باوجود جنرل صاحب کا قرب نہیں ملتا اور وہ جنرل صاحب سے مایوس ہوگئے ہیں وہ بھی دینی اور مذہبی جماعتوں کے ساتھ بیٹھنے سے گریزاں ہیں کہ اس طرح امریکہ ناراض ہو جائے گا اور وہ اقتدار سے اور دُور ہو جائیں گے۔ جان لینا چاہیے امریکہ اور فوج کی رضامندی حاصل کر کے جو حکومت بنے گی وہ پچھلی حکومتوں کا تسلسل ہوگی۔ اس کے نتیجے میں ملک میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہو سکے گی‘ جبکہ ہمارے ملک میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

بحران سے نکلنے کا راستہ

ہمارا سول انتظامی ڈھانچا‘ معاشی نظام ‘ عدالتی نظام اور افواج پاکستان کا نظم برطانوی استعمار کے تربیت یافتہ گروہ کے ہاتھ سے نکل نہیں سکے ہیں۔ ملک میں ایک طرف غربت ہے اور ۳۰ فی صد سے زیادہ آبادی غربت کی لائن سے نیچے زندگی گزار رہی ہے یعنی مکمل غذا‘ علاج‘ تعلیم اور رہایش کی سہولتوں سے محروم ہیں جبکہ ایک کم تعداد لوگوں کی ایسی بھی ہے جو ملکی دولت کو لوٹ کر بیرون ملک جمع کر رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تعدادبڑے سول اور ملٹری بیورو کریٹس کی ہے۔ کرپشن کے خلاف ایک مسلسل تحریک کے نتیجے میں بے نظیر اور نوازشریف کی حکومتیں ختم ہوئیں اور اسی تحریک کے کندھوں پر سوار ہو کر جنرل پرویز صاحب برسرِاقتدار آئے‘ لیکن کرپشن کے خلاف احتساب کو بلیک میلنگ اور سیاسی سودے بازی کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ یہی پہلے ہوا اور یہی آج ہو رہا ہے۔ جو سیاست دان جنرل صاحب کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہو جائے وہ ہر طرح کی بدعنوانی کے الزام سے پاک و صاف ہو کر ہم خیال بن جاتا ہے اور جو ہم خیال بننے کے لیے تیار نہیں ہوتا اس پر کوئی بھی الزام نہ لگ سکے‘ پھر بھی پابجولاں ہو جاتا ہے۔ اس حالت میں ضرورت اس بات کی ہے کہ جتنے لوگ بھی ایسے مل سکیں جو امریکہ یا پرویز مشرف صاحب کی طرف دیکھنے کے بجائے عوام کو ساتھ ملا کر معاشرے کو ایک حقیقی اسلامی جمہوری عادلانہ رنگ میں رنگنے کا عزم اور حوصلہ رکھتے ہوں‘ وہ متحد ہو کر آگے بڑھیں اور عوام الناس کو ساتھ لے کر ان مطالبات کے لیے تحریک چلائیں‘ جس پر ملک کی تمام بڑی جماعتیں متفق ہیں‘ یعنی:

  • دستور کی بحالی اور قومی عبوری حکومت کا قیام
  •  آزاد اور بااختیار الیکشن کمیشن کا قیام
  •  دستور کا تحفظ اور غیر دستوری راستوں سے دستوری ترامیم کی مزاحمت
  •  پارلیمنٹ اور عوامی نمایندوں سے بالاتر کسی سیکورٹی کونسل کا کوئی جواز نہیں۔

ملک کے موجودہ بحران سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اوروہ مندرجہ بالا خطوط پر آزادانہ انتخابات کا انعقاد اور جمہوری عمل کے ذریعے ایک خدا ترس‘ عوام دوست ‘ لائق اور امین قیادت کو زمام کار سونپنا ہے۔ جماعت اسلامی پاکستان نے ۱۳ اکتوبر ۱۹۹۹ء ہی اپنی افواج اور ان کی قیادت سے یہ توقع ظاہر کی تھی کہ وہ پوری حکمت اور دانش مندی کے ساتھ اور کسی تاخیر کے بغیر وہ راستہ اختیار کریں گے‘ جس کے نتیجے میں ملک کا دستور‘ جو اسلام‘ جمہوریت اور اصول وفاق پر مبنی ہے‘ اپنی اصل روح کے مطابق موثر رہ سکے۔ مرکزی مجلس شوریٰ نے واضح الفاظ میں قوم اور قیادت سے کہا تھا:

’’جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ اپنے اس اصولی موقف کا اظہار ضروری سمجھتی ہے کہ ملک ماضی میں مارشل لا کے متعدد تجربات کر چکا ہے اور ہمارے مسائل کا حل مارشل لا نہیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی یہ اعلان بھی کرتی ہے کہ آزمائی ہوئی اور کرپٹ سیاسی قیادتوں کے درمیان محض چہرے بدلنے سے ہم مسائل کی اس دلدل سے نہیں نکل سکتے‘ جس میں ان مفاد پرست سیاسی بازی گروں نے ملک و ملّت کو دھنسا دیا ہے۔ اسی طرح محض ایسے ٹیکنوکریٹ بھی‘ جن کو عوام کی تائید حاصل نہ ہو اور جو ان کے سامنے جواب دہ نہ ہوں‘ صحیح قیادت فراہم نہیں کر سکتے۔ نیز فوجی قیادت کو ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس امر کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ ماضی کے دونوں حکمران یعنی بھٹو فیملی اور شریف فیملی جنھوں نے فسطائیت اور کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کیے‘ مارشل لا ادوار ہی کی پیداوار تھے اور اگر ایسے ہی کچھ لوگ ایک بار پھر آگے آتے ہیں تو نتائج اور عوامی ردّعمل ماضی سے مختلف نہیں ہو سکتا‘‘۔

جماعت اسلامی پاکستان کی مرکزی مجلس شوریٰ کا یہ تجزیہ حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوا ہے۔ افسوس کہ جنرل پرویز مشرف صاحب اور ان کی حکومت نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اب بھی اصلاح کا ایک ہی راستہ ہے اور جماعت کی مرکزی مجلس شوریٰ نے اپنے حالیہ اجلاس (۷ تا ۹ جنوری ۲۰۰۲ء) میں  ایک بار پھر بہت واضح الفاظ میں ملک کو خطرات اور مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے دستور کے تحفظ‘ انتخابی عمل کے آغاز‘ معتمدعلیہ حکومت کے قیام اور دستور کے مطابق اسلام‘ پارلیمانی جمہوریت اور فیڈریشن کے اصول پر ایک منصفانہ معاشرہ اور جمہوری سیاسی نظام کے قیام کی دعوت دی ہے۔ اس سلسلے میں شوریٰ نے جو مطالبات کیے ہیں‘ ان میں سے چند یہ ہیں:

    ۱-  حکومت پاکستان بیرونی دبائو میں آکر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ایک سیکولر ملک بنانے کی ناپاک سازش میں شرکت سے گریز کرے۔ پاکستان کے آئین اور تحریک پاکستان کے مقاصد اور وعدوں کے مطابق اسے حقیقی معنوں میں ایک مثالی اسلامی جمہوری ملک بنانے کے لیے عملی اقدامات کرے۔

    ۲-  ۱۹۷۳ء کے متفقہ آئین کو بحال کیا جائے۔ حکومت کو اس میں ترمیم کرنے کا سرے سے کوئی اختیار حاصل نہیں اور کسی عدالت کو بھی اسے یہ اختیار عنایت کرنے کا حق نہیں۔ حکومت کی جانب سے کوئی ایسا اقدام ملکی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ لہٰذا دستور میں بیان کردہ طریقہ کار سے ہٹ کر کوئی دستوری ترمیم کرنے سے اجتناب کیا جائے اور جمہوری اداروں پر بالادست کوئی ادارہ کسی بھی نام سے نہ بنایا جائے۔

    ۳- حکومت قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوںکے انتخابات کرانے کا عمل بلاتاخیر شروع کرے۔ یہ انتخابات آئین کے آرٹیکل ۶۲ اور ۶۳ کے مطابق متناسب نمایندگی کے اصول پر شفاف‘ منصفانہ اور غیر جانب دارانہ ہوں۔ سیاسی اور دینی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر بلاتاخیراہل‘ دیانت دار اور قابل قبول افراد پر مشتمل ایک آزاد اور کلیتاً خودمختار الیکشن کمیشن تشکیل دیا جائے۔ نیز صدر کا انتخاب بھی آئین میں درج طریق کار کے مطابق کرایا جائے۔

    ۴- انتخابات ایک ایسی عبوری سول حکومت کے تحت کرائے جائیں جو دیانت دار‘ امانت دار اور اہل افراد پر مشتمل ہو اور اس میں شریک افراد خود انتخابات میں حصہ نہ لیں۔

     ۵- سیاسی اور دینی جماعتوں پر عائد پابندیاں ہٹائی جائیں۔ عوام کے بنیادی حقوق بحال کیے جائیں۔ جماعتوں کو طے شدہ اصولوں کے مطابق اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔ قاضی حسین احمد‘ مولانا فضل الرحمن اور دیگر سیاسی راہنمائوں کو رہا کیا جائے۔

     ۶-  مسئلہ کشمیر کے بارے میں حکومت شکوک و شبہات کا ازالہ کرے اور اس بات کا کھل کر اعلان کرے کہ جموں و کشمیر کے مظلوم عوام کی حمایت ہمارا فرض ہے اور بھارت اپنی سات لاکھ جارح فوج کو فی الفور واپس بلائے جو برسوں سے دہشت گردی میں ملوث ہے۔

    ۷-  افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد امریکی فوجیوں کو پاکستان چھوڑنے پر مجبور کیا جائے اور جو ہوائی اڈے اور دوسری سہولتیں ان کو دی گئی ہیں وہ واپس لی جائیں۔ امریکہ میں جن پاکستانیوں کو حراست میں لیا گیا ہے ان کی فوری رہائی کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ نیز جو پاکستانی افغانستان میں پھنسے ہوئے ہیں ان کی واپسی کا اہتمام کیا جائے۔

     ۸- بھارت کے جنگی جنون کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم کو تیار کیا جائے اور معذرت خواہانہ رویہ اور اس کے مطالبات کو تسلیم کرنے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ بھارت سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ اپنی فوجیں اور جنگی سازوسامان سرحدوں سے پیچھے ہٹائے۔

مجلس شوریٰ کے اس اجلاس نے واشگاف الفاظ میں اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ کسی بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری قوم اپنے اختلافات کو بالاے طاق رکھ کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوگی۔ قوم کا بچہ بچہ افواج کے شانہ بشانہ دشمن کا مقابلہ کرے گا اور دشمن کو عبرت ناک شکست دے گا‘ ان شاء اللہ!

نیز مجلس شوریٰ نے ملک کی تمام محب وطن سیاسی اور دینی جماعتوں سے بھی ملکی سالمیت‘ بقا اور اسلامی نظام کے قیام اور خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے باہمی مشاورت اور تعاون کی اپیل کی ہے تاکہ ملک کو خطرات سے بچا کر ایک مرتبہ پھر جمہوری پٹڑی پر ڈالا جاسکے تاکہ پاکستان اقبال ؒ اور قائداعظمؒ کے خواب اور تحریک پاکستان کے مقاصد کے مطابق حقیقی معنوں میں ایک فلاحی‘ جمہوری اسلامی مملکت بن سکے۔


پاکستان کے معاشی‘ سیاسی ‘ اخلاق اور نظریاتی مستقبل کا انحصار صحیح جمہوری نظام کے قیام پر ہے لہٰذا جو بھی اس ملک کا حقیقی بہی خواہ ہے اسے اس کو ملک کو قبرستان بنا کر اس پر آمریت مسلط کرنے کی کوشش ترک کر دینی چاہیے۔ کسی کو بھی جمہوری عمل کے احیا کا راستہ نہیں روکنا چاہیے اور جلد از جلد جمہوری اور دستوری عمل کی بحالی کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔

عوامی قیادت کو عوام تک پہنچنے کے راستے کھول دینے چاہییں اور اداروں کے ذریعے مصنوعی قیادت تیار کرنے کا تجربہ کرنے کے بجاے فطری سیاسی قیادت پر پابندیاں ختم کر دینی چاہییں۔ ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ تمام محب وطن دینی اور سیاسی قوتوں کے تعاون اور اشتراک سے وہ اجتماعی جدوجہد قوت پکڑے گی جس کے نتیجے میں قوم اپنی منزل کو حاصل کر سکے گی۔

یہ عوامی جدوجہد ایک جمہوری اور نظریاتی تحریک ہے جو تعمیر اور اصلاح کی داعی ہے۔ یہ کسی طرح بھی فوج کے خلاف نہیں۔ بلکہ یہ افواج پاکستان کے استحکام اور قوت کا باعث بنے گی۔ جو اضافی بوجھ افواج پاکستان پر ڈالا گیا ہے اس سے انھیں نجات ملے گی اور افواج پاکستان اپنے اصل کام کی طرف توجہ دے سکیں گی۔ قوم جب بیدار اور متحد ہو تو اس کے تمام ادارے مستحکم ہوتے ہیں اور پوری قوم کے لیے باعث فخر ہوتے ہیں۔ ایک اچھا فوجی اپنی قوم کے منتخب نمایندوں اور اپنے ملک کے دستور‘ قانون اور ضابطوں کی پابندی کی فکر کرتا ہے۔ یہ اصرار کرنا کہ پارلیمنٹ اور عوامی نمایندوں کے بجائے فوجی افسران قوم کو آئین اور ضابطے عطا کریں گے ‘ بے جا اصرار ہے۔ افراد آتے جاتے ہیں لیکن قومی روایات اور مشترک اقدار مستقل اور دیرپا حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر جنرل پرویز مشرف صاحب اور ان کی ٹیم پاکستان کے متفقہ دستور کے سامنے جھک جائیں تو اس سے وہ سرخرو اور سرفراز ہوں گے اور اسے ان کی عالی ظرفی سمجھا جائے گا۔ اس سے کسی طرح بھی ان کی سبکی نہیں ہوگی۔ جنرل پرویز مشرف صاحب ان تجاویز اور مطالبات پیش کرنے والوں کو فوج میں اختلاف ڈالنے کاالزام نہ دیں بلکہ ان کے بارے میں حسن ظن رکھیںاور ملک و قوم کو اس وقت جو مشکلات درپیش ہیں‘ وہ دوسروں کو بھی ان مشکلات کا حل پیش کرنے کا حق دار سمجھیں۔

اگرچہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ملک کو زیادہ نقصان سیاست دانوں نے پہنچایا ہے یا سول اور ملٹری بیورو کریٹس نے‘ لیکن پاکستان کی تایخ سے یہ بات واضح ہے کہ پاکستان میں سیاسی عمل کو پنپنے کا موقع نہیں دیا گیا اور بار بار کی مداخلت سے فوج نے سیاسی عمل کو روکا ہے اور اپنی پسند کی قیادت کی پرورش کی ہے جس کے نتیجے میں سیاسی جماعتیں عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے بجائے بیرونی سرپرستی اور فوج کی سرپرستی پر تکیہ کرنے لگی ہیں۔ اس طرح ملک کے اندر ایک سیاسی انتشار اور فساد پھیل گیا ہے۔ اس بیماری کا مداوا عوام کی طرف رجوع کرنے اور دستوری نظام کو بحال اور متحرک کرنے میں ہے۔ جمہوریت میں جو بھی خامیاں ہوں لیکن جمہوریت کی خامیوں کا علاج جمہوری عمل ہی کے ذریعے ہوتا ہے‘ بادشاہت یا آمریت کے ذریعے نہیں۔ یہ جمہوریت کی خامیوں سے بھی بڑی بلا ہے جس سے ملک و قوم کو محفوظ رکھنا وقت کی بڑی ضرورت ہے اور یہ ضرورت تقاضا کر رہی ہے کہ محب وطن سیاسی کارکن‘ عوام الناس کو بیداری کی ایک ملک گیر جدوجہد کے لیے تیار کریں تاکہ عام انتخابات جلد از جلد منعقد ہوں اور ایک ایسی قیادت اُبھرے جس کے ہاتھوں ہمارے قومی دکھوں کا مداوا ہو سکے۔

 

افراد کی کامیابی اور ناکامی‘ فوجوں کی فتح و شکست‘ قوموں کے عروج و زوال‘ حکومتوں کے بنائو اور بگاڑ اور تہذیبوں کے غلبے اور پسپائی کے کچھ اٹل ‘طبعی اور اخلاقی قوانین ہیں جن کی کارفرمائی زندگی کے ہر میدان اور تاریخ کے ہر دور میں دیکھی جا سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کی نگاہیں صرف طبعی عوامل پر مرکوز ہوتی ہیں لیکن بالآخرطبعی عوامل کی تنگ دامانی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔ کچھ دوسرے افراد صرف اخلاقی عوامل کی بات کرتے ہیں لیکن یہ بھی تصویر کا صرف ایک رخ دیکھتے اور پیش کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک طبعی اور اخلاقی دونوں عوامل کا مکمل اور مربوط ادراک نہ ہو حقیقت پر پوری گرفت ممکن نہیں___ اسی طرح حالات کا ہر وہ تجزیہ نامکمل ہوگا جو صرف فوری عوامل اور اثرات تک محدود ہو اور جس میں نہ حقیقی اسباب کا صحیح ادراک ہو اور نہ مستقل اور دیرپا نتائج کا شعور۔ افغانستان میں بہ ظاہر امریکہ کو فوجی کامیابی حاصل  ہوئی ہے لیکن فی الحقیقت اسے تاریخ کی بدترین اخلاقی شکست ہوئی ہے۔ طالبان کی حکومت ختم کر دی گئی ہے اور ان کی بے سروسامانی‘ سیاسی تدبر کی کمی اور عسکری حکمت عملی کی خامیاں تو بیان کی جا سکتی ہیں لیکن اپنے اصول اور روایات کی پاس داری کے باب میں ان کی اخلاقی برتری سے انکار ناممکن ہے۔

افغانستان پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوج کشی کا پہلا مرحلہ اب مکمل ہوا چاہتا ہے۔ ۱۱ ستمبر کے واقعات نے جس طوفان کو جنم دیا تھا اور جس نے ۷ اکتوبر کو افغانستان کو اپنے شعلوں کی لپیٹ میں لے لیا تھا وہ ایک غریب‘ تباہ شدہ اور بدنصیب مگر غیرت مند ملک کو تقسیم کرنے کے بعد اپنی کامیابی کے شادیانے بجاتے ہوئے نئے سے نئے شکاروں کی تلاش میں کروٹیں لے رہا ہے۔ طالبان کی حکومت کو ختم کر کے امریکہ نے بون مذاکرات کے ذریعے ایک نیا سیاسی بندوبست قائم کر دیا ہے جسے وہ اپنے نقشے کے مطابق تصور کرتا ہے اور اسے اپنے اور اپنے اتحادیوں کی عسکری قوت کے سایے میں مستحکم کرنے کی اُمید رکھتا ہے۔ طالبان کی قوت بہ ظاہر منتشر ہو گئی ہے‘ اسامہ بن لادن ابھی تک عسکری اور سیاسی غلبہ پانے والوں کی گرفت سے باہر ہیں لیکن ان کی القاعدہ تنظیم کے کچھ مجاہد خاک و خون میں لوٹ چکے ہیں اور دربدر ہیں۔ امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ جنرل کولن پاول فخر سے اعلان کر رہے ہیں کہ: ہم نے افغانستان میں القاعدہ کو تباہ کر دیا ہے اور دہشت گرد سرگرمیوں کی پناہ گاہ کی حیثیت سے افغانستان کے کردار کو ختم کر دیا ہے۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘(آئی ایچ ٹی)‘ ۱۷ دسمبر ۲۰۰۱ء)۔ امریکی سیکرٹری دفاع خود اپنے تباہ کردہ کابل پر شاہانہ نزول کے موقع پر نہ صرف فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں اور اعلان کر رہے ہیں کہ ہم نے دہشت گردی کا افغانستان سے صفایا کر دیا ہے اور ان کو پناہ دینے والی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے بلکہ اس عزم کا اظہار بھی فرما رہے ہیں کہ نئی افغان حکومت آیندہ بھی ان کے عزائم میں شریک کار رہے گی: ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور میں یہ یقینی بنانا چاہتا ہوں کہ ہماری سوچ ایک ہی ہے۔ (دی گارڈین‘ ۱۷ دسمبر ۲۰۰۱ء)۔  اور امریکہ کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈالیزا رائس دوسرے شکاروں کی تلاش میں سرگرداں ہیں: کوئی بھی یہاں قبل از وقت فتح کا اعلان کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اور فتح صرف اسی وقت حاصل ہوگی جب ساری دنیا میں القاعدہ کا جال توڑ دیا جائے گا۔ (آئی ایچ ٹی‘ ۱۷ دسمبر ۲۰۰۱ء)

گویا ایک مرحلہ پورا ہو گیا‘ آگے کے مرحلوں کا انتظار کرو--- یہ ہے ۱۱ ستمبر کو اٹھنے والے طوفان کی آج تک کی خبر۔ لیکن اس مرحلے پر جب اب تک کے اقدامات کا اس پہلو سے جائزہ لیا جانا ضروری ہے کہ امریکہ‘ عالمی برادری اور افغانستان اور خود ۱۱ ستمبر کے ذمہ داروںنے اس سارے خونی عمل سے کیا پایا اور کیا کھویا___ تاکہ آگے کے اقدامات سے پہلے‘ اگر غوروفکر اور تحلیلی تجزیے کا کوئی کردار ہے تو اسے پالیسی سازی کے لیے مفید مطلب بنایا جا سکے۔ دنیا کی اقوام اور لوگ محض جذبات کی رو میں آگے بڑھتے نہ چلے جائیں بلکہ رک کر تھوڑا سا جائزہ بھی لے لیں اور انسانیت کو بگاڑ کے مقابلے میں بنائواور بہتری کی طرف لے جانے کی فکر کر سکیں۔ وہ کم از کم آنے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہی تیار ہو جائیں کہ خطرے کی خبر بھی خطرے سے بچنے اورپیش بندی کرنے میں مددگار ہوتی ہے۔

۱۱ ستمبر کے واقعات کا جو بھی ذمہ دار ہے (اور سارے خون خرابے کے باوجود دنیا ابھی تک شبہات کی دھند سے باہر نہیں آ سکی) اس نے عالمی سطح پر ایسے حالات کو پیدا ہونے کا موقع فراہم کردیا ہے جن کے نتیجے میں سیاست کا نقشہ بدل گیا ہے یا صحیح تر الفاظ میں: جس طرف مقتدر قوتیں اسے لے جانا چاہتی تھیں وہ ممکن ہو گیا ہے۔ اسی طرح طالبان کے فیصلوں پر بھی مدتوں بحث و گفتگو ہوگی کہ وہ اگر ایسا کرتے تو کیا ہوتا اور ایسا نہ کرتے تو کیا ہو سکتا تھا۔ آج تو صرف ان میں کیڑے نکالنے ہی کی خدمت انجام دی جارہی ہے اور ہر برائی ان کے کھاتے میں ڈالی جا رہی ہے۔ لیکن ان کے سات سالہ دور حیات اور پانچ سالہ دور اقتدار کے مثبت اور منفی دونوں پہلو ہیں جن کے بارے میں تاریخ کا قاضی اپنا بے لاگ فیصلہ ایک نہ ایک دن ضرور دے گا۔ بظاہر وہ آندھی کی طرح اٹھے اور دو سال میں افغانستان کے ۹۰ فی صد علاقے پر بڑے پیمانے کی جنگ و جدل کے بغیر چھا گئے۔ ۲۰۰۱ء کے آخری تین مہینوں میں دنیا کی سب سے طاقت ور سوپر پاور کی یلغار اور اپنوں کے دبائو (جنھوں نے ہوا کا رُخ دیکھ کر آنکھیں پھیر لیں) کے مقابلے میں ان کی مزاحمت دم توڑ گئی ___کچھ حلقوں میں ا ن کی اصول پرستی اور قبائلی روایات کی پاس داری کی باتیں ہوں گی تو کچھ کی نگاہ میں ان کی سیاسی ناپختگی اور عسکری بے تدبیری کی‘ بلکہ وہ اپنی تباہی کو خود دعوت دینے کے مرتکب بھی قرار پائیں گے۔ افغانستان کے تباہ شدہ کھنڈرات‘ بے یارومددگار لاشوں کے انبار اور بے گھر خاندانوں کے قافلے اپنی اپنی داستانیں سناتے رہیںگے جب کہ سوچنے والے سوچتے رہیں گے اور غم کرنے والے نوحہ کناں رہیں گے کہ:

غزالاں تم تو واقف ہو‘کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مر گیا‘ آخر کو ویرانے پہ کیا گزری

اگر طالبان محض ایک حکومت تھے تووہ ختم ہو گئے اور اگروہ فی الحقیقت ایک تحریک تھے تو تحریکیں محض سیاسی نشیب و فراز سے ختم نہیں ہوتیں۔ خود احتسابی کی یہاں بھی ضرورت ہے اور تاریخ ہر کسی کا احتساب برابر کرتی رہے گی۔ نئی حکومت کو بھی اپنے احتساب سے غافل نہیں ہونا چاہیے‘ نہ وہ انتظام ابدی تھا نہ یہ بندوبست مستقل ہو سکتا ہے: ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں۔ جس نوعیت کی کش مکش میں آج افغانستان بلکہ پوری امت مسلمہ مبتلا ہے اس میںوقتی تبدیلیاں اور فتح و شکست فیصلہ کن بھی ہو سکتی ہیںاور گمراہ کن بھی! جو بازی آج کھیلی جا رہی ہے اس کے بارے میں تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ

کبھی جیت کر نہ جیتی‘ کبھی ہار کر نہ ہاری

اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ نیویارک‘ واشنگٹن‘ مزار شریف‘ کابل‘ قندھار اور تورا بورا ہی تک نگاہ کو محدود یا مرکوزنہ رکھیں بلکہ پورے عالمی تناظر میں نگاہ ڈالیں ۔گویا انگریزی محاورے میںصرف درخت ہی نہیں اس جنگل پر بھی نظر رکھیں جس کے یہ شجر صرف چند ہی شریک کار ہیں یعنی Seeing the wood and not merely some of the trees ۔ اس جوار بھاٹے کی آغوش سے جو افغانستان سیاسی نقشے پر ابھرنے والا ہے‘ اور جن حالات کی طرف اسلامی دنیا ہی نہیں ‘ تیسری دنیا ‘ بلکہ صحیح تر الفاظ میں پوری دنیا کشاں کشاں بڑھ رہی ہے‘ اس کے ادراک کی ضرورت ہے۔ یہ حالات دنیا بھر کے امن پسند اور انصاف کے طالب انسانوں کے لیے ایک گراں قدر لمحہ فکریہ فراہم کررہے ہیں___ اور مسلمان ممالک اور اسلامی قوتوں کے لیے تو یہ فیصلے کی گھڑی ہے۔

نئے استعمار کی پیش رفت

۱۱ ستمبر کے بارے میں ایک جملہ میڈیا سے لے کر سیاسی قائدین اور کالم نگاروں تک سب ہی کی زبان اور نوک قلم پر گردش کر رہا ہے: ’’اس دن کے بعد دنیا بدل گئی اور زمانہ وہ نہیں رہا جو پہلے تھا‘‘۔ لیکن کیا کیا جائے کہ یہی جملہ اس سے پہلے بھی بہت سے تاریخی لمحات کے بارے میں کہا جاتا رہا ہے۔ ۱۹۸۹ء میں دیوار برلن کے انہدام پر‘ ۱۹۷۹ء میں انقلاب ایران کے موقع پر‘ ۱۹۱۷ء میں انقلاب روس کے غلغلے پر اور خصوصیت سے ۱۷۸۹ء کے انقلاب فرانس کے تاریخی لمحات کے بارے میں کثرت سے یہ جملہ دہرایا گیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انقلاب فرانس کے دو سوسال بعد چین کے دانش ور وزیراعظم چواین لائی نے برملا کہا تھا کہ انقلاب فرانس کے بارے میں ابھی یہ اظہار رائے ذرا قبل ازوقت ہی ہے! ابھی اور انتظار کرو۔ اس لیے ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء کے بارے میں تو پتا نہیں ابھی کتنے انتظار کی ضرورت ہوگی___ لیکن کچھ پہلو ایسے ہیں جن پر فوری غوروفکر اور بحث و گفتگو کی ضرورت ہے ۔

۱-  اس واقعے کے بعد جس طرح صدر جارج بش نے امریکہ میں لام بندی کی ہے‘ جذبات کو ایک خاص انداز میںا بھارا ہے اور دہشت گردی کے خلاف عالم گیر جنگ کی نفیر دی ہے‘ اس کا سب سے زیادہ فائدہ خود جارج بش کی ذات کو پہنچا ہے۔ ان کی صدارت جس طرح وجودمیں آئی‘ وہ اخلاقی اور ایک حد تک قانونی جوازسے محروم تھی۔ چار ارب ڈالر کی انتخابی مہم کے بعد بھی عام ووٹوں کی حد تک ان کو اپنے مدمقابل سے پانچ لاکھ ووٹ کم ملے تھے۔ انتخابی کالج کے سہارے فلوریڈا کی ریاست کے ووٹوں پر‘ جہاں خود ان کے بھائی گورنر تھے‘ ان کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار تھا۔ لیکن اس ریاست میں ووٹوں کی گنتی وجہ نزاع بن گئی۔ پھر تقریباً چھ ہفتے پر پھیلی ہوئی سیاسی اور عدالتی جنگ کا آغاز ہو گیا جس کے بارے میں بہت سی کہانیاں سامنے آئیںاور تیسری دنیا کے ممالک میں ہونے والے بہت سے کرتب اور معجزے امریکہ کی ترقی یافتہ جمہوریت کی قسمت کا فیصلہ کرتے نظر آنے لگے۔ بالآخر عدالت عالیہ کے ایک ووٹ کے سہارے ان کو صدارت مل گئی۔ یہ عدالت بھی ججوں میں اس طرح تقسیم تھی کہ ایک پارٹی کے دور کے نامزد جج ایک طرف اور دوسری پارٹی کے نامزد دوسری طرف۔ نتیجتاً صدر بش کی صدارت حلف صدارت کے باوجود حقیقی سندجواز کی تلاش میں تھی۔

۱۱ ستمبر نے وہ نادر موقع فراہم کر دیا اور چند گھنٹے زیرزمین اور چند گھنٹے آسمان کی فضائوں میں حفاظت کی تلاش کے بعد وہ واشنگٹن پر نازل ہوئے اور قوم کے جذبات کو ایک نئی جنگ کے لیے متحرک کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ۲۰ ستمبر کو دونوں ایوانوںکے خطاب نے ان کو ایک نئے فراز سے نوازااور جسے نصف سے کم ووٹوں کے نصف سے بھی کم کی تائید حاصل تھی وہ ۸۲ فی صد کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا اور اس تائیدی لہر پر دنیا بھر کو اپنے جھنڈے تلے لانے اور افغانستان پر حملہ کر کے قوم کے جوش انتقام کو سرد کرنے میں مصروف ہو گیا۔ان کے گرد عقابوں (hawks)کا دائرہ مضبوط تر ہوتا گیا اور ایک جرأت مند اور جنگجو صدر بلکہ فاتح صدر کی حیثیت سے ان کا سر بلند ہو گیا۔ ۱۱ ستمبر کے پیچھے جو ناکامیاں اور خصوصیت سے سیاسی اور خفیہ ایجنسیوںکی کوتاہیاں تھیں‘ ان سب پر پردہ پڑ گیا اور دنیا کے سب سے کمزور اور پس ماندہ ملک افغانستان‘ ایک فرد واحد (اسامہ بن لادن) اور اس کے چند سو یا چند ہزار ساتھیوں پردنیا کی واحد سوپر پاور نے اپنی تمام عسکری‘ تکنیکی‘ عددی‘ معاشی اور ابلاغی (media)قوت کے ساتھ حملہ کیا اور دو چار دن نہیں پورے دو مہینے میں اسے مغلوب کر دینے کا ’’تاریخی کارنامہ‘‘ انجام دیا۔ گویا مرے کو مارے شاہ مدار! اس ’’عظیم فتح ‘‘نے ماضی کی تمام ہزیمتوں کو دھو ڈالا اور امریکہ اور اس کے صدر کے لیے کامیابیوں اور عالمی بالادستی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا۔ یہ ہے وہ شے جسے American triumphalism  (فتح ہمیشہ امریکہ کی)کہا جا رہا ہے اور سوپر پاور خوشی اور فخر سے جامے میں پھولی نہیں  سما رہی !

۲-  ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کی تباہی سے جس ضرب پذیری کا اظہار ہوا تھا اس طرح اس کا تدارک بھی ہو گیا۔ گویا کمزوری اور زخم خوردگی کا احساس ختم ہوا اور امریکی قوت کا دبدبہ ایک بار پھر قائم ہوگیا۔پھر اس میںتین پہلو ایسے مزید سامنے آئے جن کی وجہ سے امریکہ کو بلاشرکت غیرے دنیا کی بالاترین قوت ہونے اور اپنی اس حیثیت کو ثابت کرنے کا موقع مل گیا۔ اولاً: دوسرے ۴۰‘۵۰ ملکوں کا     طوعاً وکرہاً امریکہ کے اشارے پر صف بند ہو جانا‘ ثانیاً: افغانستان کی جنگ میںایسی ٹکنالوجی کا استعمال جس نے فنی اعتبار سے امریکہ کو‘ افغانستان تو بے چارہ کس شمار قطار میں تھا‘ یورپ اور امریکہ کے ممالک کے مقابلے میں بھی ان سے انچوں نہیں گزوں بلند ہونے کے مظاہرے کا موقع مل گیا۔ لڑاکا طیارے ہوں یا جاسوسی کا نظام‘ بم ہوں یا جنگ کا دوسرا اسلحہ‘ ہر باب میں امریکہ نے گذشتہ دس سال میں جو غیر معمولی ترقی کی تھی اس کا بھرپور اظہار ہوا ۔ معلوم ہوا کہ افغانستان کی جنگ فلوریڈا سے بیٹھ کر لڑی جا سکتی ہے اور ایک ایک غار اور ایک ایک نشانے پر مار کرنے کا حکم آٹھ ہزار میل دُور سے دیا جا سکتا ہے۔ یہ بالکل ایک دوسری ہی قسم کی جنگ تھی جس نے روایتی جنگ کے سارے طور طریقے بدل کر رکھ دیے۔ اب نہ مدمقابل سے لڑنے کی ضرورت ہے‘ نہ زمینی فوجوں کی حاجت ہے۔ بس فضا سے آگ برساتے رہو اور مقابل قوت کو پارہ پارہ کر دو۔ دو دو ہاتھ کرنے کا جن کو شوق ہو‘ وہ شوق دھرے کا دھرا رہ جائے۔ حتیٰ کہ اگرجیل میں قیدیوں کو بھی زیر کرنا ہو تو اس کے لیے بھی آسمان ہی سے آگ برسائی جا سکے۔ انسانوں کے بغیر مشینوں کے ذریعے ساراکام لیا جائے‘ معلومات کا بھی اور بم برسانے کا بھی۔ اس سے جنگ کی پوری بساط ہی بدل جاتی ہے۔اب اس میدان میں بہ ظاہر امریکہ کا کوئی حریف نظر نہیں آ رہا۔ اس سے تیسرا پہلو  یہ ابھرا کہ اب لڑائی حملہ آور قوت کے لیے انسانی جانوں کی قربانی دیے بغیر فتح کا پیغام لا سکتی ہے۔ ساری جانی قربانی مقابل فریق کو دینی ہوتی ہے۔ جنگ بھی بڑی حد تک یک طرفہ ہوگی۔ اس طرح امریکہ کو صرف فوجی اور سیاسی فتح ہی نصیب نہیں ہوئی بلکہ فنی مہارت اور ٹکنالوجی کی بالادستی کا وہ مقام بھی حاصل ہو گیا جس نے اسے ایک بار پھر ناقابل تسخیر (invincible) ہونے کے زعم اور اعتماد سے نواز دیا۔

۳-  امریکہ نے دوسروں کو ساتھ رکھنے کا محض تکلف کیا ‘جب کہ دراصل یہ سارا کھیل امریکہ اور صرف امریکہ کا مرہون منت تھا۔ اولین فیصلہ بھی امریکہ نے تن تنہا کیا اور ساری سیاسی اور عسکری مہم بھی عملاً اس طرح چلائی کہ سب کچھ اس کے اشارہ چشم و آبرو کا کرشمہ تھا۔ ایسے نازک لمحات بھی آئے جب برطانیہ کو بھی جو ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘ کا کردار ادا کر رہا تھا‘ بار بار جھینپ کر قدم پیچھے ہٹانے پڑے اور فوجوں کو میدان میں اترنے کی ہدایات دے کر واپس بلانا پڑا۔ یہی کیفیت بون کے سیاسی مذاکرات کی میز پر بھی رہی اور یہی رنگ ڈھنگ کارزار جنگ کا تھا کہ نئے وزیراعظم کو امان دینے کے بعد امان تک واپس لینا پڑی۔ یوں ایک ہی ملک اور ایک ہی روایت کے دو کردار سامنے آ گئے‘ ایک نے امان کی خاطر ملک دے دیا اور دوسرے نے ملک کی خاطر امان کی فکر نہ کی۔ ایک امریکی سیاسی تبصرہ نگار چارلس کروتھامیر (Charles Kreuthammer) نے جو واشنگٹن پوسٹ میں مسلسل لکھتاہے امریکہ کے اس ’انا ولاغیری‘ والے کردار کی بڑے طمطراق سے عکاسی کی ہے۔ وہ آنے والے ۵۰ برسوں میں دنیا کی جو خاصی واضح تصویر دیکھ رہا ہے‘ ہمارے سامنے لاتا ہے: ایک ایسی دنیا جس میں کسی ملک کے شہریوں کو‘ سوائے امریکہ کے‘ جوہری حملوں یا ماحولیاتی نقصان سے تحفظ حاصل نہ ہو‘ ایک ایسی دنیا جہاں اگر نتائج امریکی مفادات کے خلاف ہوں تو جمہوریت کوئی معنی نہیں رکھتی‘ ایک ایسی دنیا جس میںان مفادات سے اختلاف کا اظہار دہشت گردی کا ٹھپا لگا دے ‘ اور نگرانی‘ ظلم و جبر اور ہلاکت کا جواز فراہم کرے۔ America  Rules OK)  دی گارڈین ۱۷ دسمبر ۲۰۰۱ء)

۴-  اس ذہنی فضا کو پیدا کرنے میں امریکی میڈیا نے بڑا کلیدی کردار ادا کیا ہے اور سیاسی قیادت اور میڈیا دونوں نے حب الوطنی کے جذبے کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ شدید جذباتی فضا پورے ملک میں قائم کی گئی ہے۔ دستور‘ قانون‘ اخلاق‘ انصاف ہر چیز کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور سیاسی اختلاف کو غداری کا نام دیا گیا ہے۔ میڈیا نے افغان جنگ کے صرف وہ مناظر دکھائے ہیں جن سے امریکی فتح کی نوید ملتی ہے۔ جو ظلم وہاں کے عوام پر ہوا ہے اور جس طرح ملک کو تباہ اور معصوم انسانوں کو ہلاک کیا گیا ہے ان مناظر کو پالیسی کے طور پر بلیک آئوٹ کیا گیا ہے حتیٰ کہ قلعہ جھنگی میں زیرحراست سیکڑوں انسانوں پر بم باری اور ان کے قتل عام کی ایک جھلک بھی ٹی وی اسکرین پر نہیں آنے دی گئی ہے۔امریکہ میں راے عامہ کو سیاسی مصالح کا قیدی بنا کر جمہوریت کے اس کرب ناک پہلو پر سے پردہ اٹھا دیا گیا ہے۔ ملک کو جس تقلید بالجبر (conformism) کی طرف لے جایا جا رہا ہے اور جسے عوامی تائید کا نام دیا جا رہا ہے وہ دراصل ایک مصنوعی اور سوچے سمجھے انداز میں راے عامہ کی تشکیل کا کارنامہ ہے جسے چومسکی نے manufactured consent (ساختہ رضامندی) کا نام د یا ہے۔ اس پر خود امریکہ کے لوگ اب دل گرفتہ اور نوحہ کناں ہیں۔

۵-  امریکی قیادت نے ایک اور کامیابی بھی گھریلو محاذ پر حاصل کی ہے۔ وہ یہ ہے کہ جو قانون سازی معرض التوا میں پڑی ہوئی تھی‘ خصوصیت سے دفاعی بجٹ کے سلسلے میں‘ وہ چشم زدن میں دونوںایوانوں سے منظور کرائی جاسکی ہے۔ بجٹ میں دفاع اور انٹیلی جنس کے لیے علی الترتیب اصل مطالبہ زر سے ۵۰ اور ۲۰ ملین ڈالر زیادہ حاصل کر لیے گئے ہیں۔ قومی دفاعی چھتری کا جو منصوبہ ڈانواںڈول تھا وہ بھی منظور کرا لیا گیا ہے۔ اے بی ایم کے جس عالمی معاہدے سے نکلنے کے لیے پر تولے جا رہے تھے‘ ان کو بھی عملی جامہ پہنا دیا گیا ہے۔ توانائی کے باب میں اس کی صنعت کے جو مطالبات تھے وہ بھی پورے ہو گئے ہیں اور ان کے بارے میں ساری مخالفت پادر ہوا ہوگئی ہے۔ تیل کی کمپنی Eron جس سے بش فیملی‘ ڈک چینی (نائب صدر) اور حکمران گروہ کے نصف درجن افراد وابستہ رہے ہیں وہ ملک کو ۷۰ ارب ڈالر کا نقصان پہنچا کر دیوالیہ ہو گئی لیکن کوئی شدید ردعمل نہیں ہوا ۔ یہ سب کچھ حب الوطنی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کی دھول میںگم ہو گیا ہے۔

جارج بش اور امریکی انتظامیہ کی یہ وہ بڑی بڑی کامیابیاں ہیں جو اسامہ بن لادن ‘ القاعدہ اور طالبان کے نام پر حاصل کی گئی ہیں۔ان کی بنیاد پر ’’تہذیب‘ آزادی‘ حقوق انسانی اور جمہوریت‘‘ کی خاطر ایک نئے عالمی سامراج کے دروبست تعمیر ہو رہے ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعات نے ان رکاوٹوں کو ہٹا دیا اور وہ سارے بند اس ریلے میں بہہ گئے جو امریکہ کے عالمی عزائم کے اظہار اور ان کے حصول کے لیے جارحانہ اقدام کی راہ میں حائل تھے۔ بہ ظاہر یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف ہے لیکن دراصل یہ دہشت گردی کے خلاف واویلے کی آڑ میں ایک نئی سامراجی جنگ کا آغاز ہے جس کا پہلے ہدف مسلمان ممالک اور خصوصیت سے اسلامی احیا کی تحریکیں ہیں۔ بالآخر اس کا مقصد دنیا کے سارے ہی ممالک پر مغربی اقوام اور خصوصیت سے امریکہ کی بالادستی کا قیام‘ ان کے وسائل پر مکمل قبضہ‘ مغربی اور صہیونی استعمارانہ نظام سرمایہ داری کے خلاف سیاسی آزادی کی تحریکوں اور سیاسی اور اداراتی احتجاج کی جدوجہد کو لگام دینا اور انھیں نئے عالمی نظام کے آگے سپر ڈالنے پر مجبور کرنا ہے۔ جو کچھ ہوا اور جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ایک بڑے منصوبے (grand design)کے سارے خدوخال دیکھے جاسکتے ہیں:

کھول کر آنکھیں مرے آئینۂ گفتار میں
آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ

دنیا کو درپیش نئے خطرات

امریکہ اور مغربی اقوام جو کچھ حاصل کر رہی ہیں یا کرنا چاہتی ہیں وہ اپنی جگہ‘ لیکن ان چند مہینوں میں تیزی سے رونما ہونے والے واقعات اور ان کے تانے بانے سے عالمی سیاست اور نئے نظام کا جو نقشہ اُبھر رہا ہے وہ اپنے دامن میں انسانیت کے لیے بڑے خطرات لیے ہوئے ہے۔ فتح کے شادیانوں کے جلو میں جو طوفان مغرب اور مشرق کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے‘ تہذیب و تمدن کے دفاع کے نام پر تہذیب و تمدن کو جن خطرات سے دوچار کیا جا رہا ہے اور امن و انصاف کے باب میں جو کچھ انسانیت نے بڑی جدوجہد کے بعد حاصل کیا تھااسے جس طرح معرض خطر میں ڈالا جا رہا ہے اس کا ادراک وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ مسلمان تو نشانہ خاص ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نئی یلغار کی زد میں پوری انسانیت ہے۔ آج امریکہ کے طاقت ور طبقات پوری دنیا کو‘ حتیٰ کہ خود اپنے اور یورپی ممالک کے عام انسانوں کو بڑے ہی پرفریب انداز میں ایک نئی غلامی کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر ان مہیب سایوں کا اس وقت ادراک نہ کیا گیا تو تاریکی پورے انسانی اُفق پر چھا سکتی ہے‘ ایک نئے تاریک دور (dark ages)کا آغاز ہو سکتا ہے اور مسلمان ہی نہیں‘ پوری دنیا کے امن و انصاف پسند انسان بڑے خسارے اور بڑی تباہی سے دوچار ہو سکتے ہیں۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جس چیز کو دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا نام دیا جا رہا ہے اور جس کا پہلے ہدف افغانستان بنا ہے اور القاعدہ کے ہاتھ نہ آنے والے کارکنوں کی تلاش میں جس طرح درجنوں ممالک کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندیاں ہو رہی ہیں وہ ایک ایسا جامہ ہے کہ جس کا نہیں سیدھا نہیں اُلٹا۔ جس چیز کے خلاف امریکہ لڑ رہا ہے اس کی کوئی واضح اور متفق علیہ تعریف موجود نہیں۔ اقوام متحدہ بار بار کوشش کے باوجود کسی ایک تعریف پر متفق ہونے میں ناکا م رہی ہے اور ابھی ۱۱ ستمبر کے بعد بھی جنرل اسمبلی ایک اور کوشش کر کے ناکام ہو چکی ہے۔ خود امریکہ کی ۲۰ سے زیادہ سرکاری دستاویزات کا تجزیہ کرنے والے شکایت کناں ہیں کہ ان میں کہیں بھی اس کی متعین تعریف نہیں دی گئی۔ مختلف دستاویزوں میں مختلف اعمال اور سرگرمیوں کو دہشت گردی کہا گیا ہے (ملاحظہ ہو روہینی ہینس مین (Rohini Hensman) کا مضمون Only Alternative To Global Terror  (Economic and Political Weeklyنومبر ۲‘ ۲۰۰۱ء‘ صفحہ ۴۱۸۴)

اسی طرح نیلسن منڈیلا نے ۷ اکتوبر کے حملوں کے بعد اقوام متحدہ میں کہا ہے کہ میں ایک زمانے میں دہشت گرد تھا اور اس کے بعد سربراہ مملکت۔ کون دہشت گرد ہے اور کون نہیں‘ کسی کو علم نہیں۔ آکسفورڈ ڈکشنری آف پالیٹکس کے مطابق امریکی ڈالروں پر شائع ہونے والی جارج واشنگٹن کی تصویر بھی آزادی کے سپاہی کی یا کسی دہشت گرد کی ہوتی ہے (ص ۴۹۳)۔ گویا لائے ہیں اس کی بزم سے یار خبر الگ الگ!

دراصل جو سوال پوری انسانیت کے لیے بڑا اہم ہے وہ یہ ہے کہ ایک ایسے معاملے میں جس کو  متفق علیہ طور پر متعین نہیں کیا گیا اورنہ بہ آسانی کیا جا سکتا ہے کسی ملک یا گروہ کو یہ اختیار کیسے مل جاتا ہے کہ جس پر چاہے حملہ آور ہو جائے اور جس فرد‘ گروہ‘ تنظیم ‘ حکومت حتیٰ کہ ملک کو تباہ کرنا چاہے کر ڈالے ۔ انسانیت کو اس سے زیادہ بڑا خطرہ اور کون سا ہو سکتا ہے!

دوسرا بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر دہشت گردی کا ایک مفہوم متعین بھی کر لیا جائے تو یہ کون طے کرے گا کہ دہشت گردی کیا ہے؟ کس نے اس کا ارتکاب کیا ہے اور اس پر گرفت کس طرح کی جائے؟ اور معقول اور متناسب سزا کیا ہو سکتی ہے؟مسئلہ ہر ملک کے اندر بھی ہو سکتا ہے اور عالمی سطح پر اور عالمی شراکت کے ساتھ بھی۔ ہر دو صورتوں میں کسے یہ اختیار ہے کہ کیا اقدام دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے کرے۔ ملک کے اندر یہ کام محض انتظامیہ کا نہیں بلکہ ملک کے قانون اور عدالتی نظام کا ہے جس میں انتظامیہ اپنا کردار ادا کرے اور عدالت جرم کی تحقیق اور سزا کا تعین کرے۔ دہشت گردی کا مقابلہ اگر دہشت گردی کے ذریعے کیا جائے تو معاشرہ اور بالآخر دنیا جہنم بن جائے گی۔ اگر دہشت گردی کی عالمی پہنچ ہو تو یہ کام کسی بین الاقوامی عدالتی نظام ہی کے ذریعہ ہو سکتا ہے۔ ہر کسی کو یہ اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ جسے چاہے دہشت گرد قرار دے کر اس کی گردن مارنا شروع کر دے۔

یہ تو پوری دنیا کو تباہی میں جھونکنے کی راہ ہموار کرنے کے مترادف ہوگا۔ عملاً امریکہ نے ۱۱ ستمبر کے بعد یہی سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ آج افغانستان کا جو حشر ہوا ہے کل وہی کسی اور ملک کا بھی ہو سکتاہے۔ امریکہ کی انتظامیہ کسی عدالتی کارروائی کے بغیر جس طرح تھوک کے بھائو سے افراد اور تنظیموں پر پابندیاں لگا رہی ہے اور دوسرے ممالک کو پابندیاں لگانے پر مجبور کر رہی ہے‘ وہ عالمی دہشت گردی کی ہولناک مثال ہے۔

نوام چومسکی نے اپنے حالیہ دورہ بھارت و پاکستان میں بار بار اس حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ بن لادن دہشت گرد ہے مگر اس کی دہشت گردی ابھی شبہے ہی کے زمرے میں ہے اور معروضی نظام کے تحت ثابت نہیں ہوئی مگر جو کچھ صدر بش نے کیا ہے وہ ثابت شدہ دہشت گردی اور بن لادن کی دہشت گردی سے بڑھ کر دہشت گردی ہے۔ بھارت کے جریدے  فرنٹ لائن کا رپورٹر لکھتا ہے:

جب چومسکی نے زور دے کر کہا کہ امریکی صدر‘ اسامہ بن لادن سے زیادہ بڑے دہشت گرد ہیں‘ اس لیے کہ اسامہ کے خلاف امریکی صدر کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے جب کہ افغانستان میں بے گناہ لوگوں کا قتل امریکی صدر کے خلاف ثبوت ہے تو ہال میں موجود لوگوں نے تالیاں بجائیں۔ (فرنٹ لائن‘ ۲۱ دسمبر ۲۰۰۱ء)

حقیقت ہے کہ جس طرح امریکہ نے دہشت گردی کو خارجہ پالیسی کے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا ہے وہ امپریلزم کی تاریخ میں ایک سیاہ اور ہولناک باب کا اضافہ ہے۔  امریکہ کی اس جارحانہ پالیسی نے پوری دنیا کے امن کے لیے شدید خطرات کو جنم دیا ہے اور صاف نظر آ رہا ہے کہ گو اس سلسلے کو روکنے کی کوئی موثر کوشش نہ ہوئی تو دنیا ایک عالمی عدم استحکام (Global destabilization)کی طرف دھکیلی جا رہی ہے۔ عالمی امن اور انسانوں اور اقوام کے درمیان انصاف کے قیام کے لیے جو بھی کوششیں پچھلی صدی میں ہوئی ہیں وہ معرض خطر میں ہیں۔ انسانیت ایک بار پھر بڑی تیزی سے ’’جنگل کے قانون‘‘ کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس ترقی معکوس کی سراسر ذمہ داری امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر ہے۔ ظلم کے خلاف جدوجہد‘ آزادی کے لیے جنگ‘ ایمان اور سلامتی کی حفاظت کے لیے مزاحمت‘ بیرونی قبضے کے خلاف لڑائی ‘ انسانیت کے بنیادی حقوق میںسے ہیں جو ظلم کے خلاف برسرپیکار ہونے کے لیے قانونی اور اخلاقی جواز فراہم کرتے ہیں جب کہ دہشت گردی کے شبہے اور احتمال کی بنیاد پر دوسروں پر حملہ انسانیت کے خلاف جرم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر حقیقی دہشت گردی اور ظلم کے خلاف مزاحمت میں فرق نہ کیا گیا تو پھر جو ظالم اور جابر ایک بار کسی ملک یا قوم پر مسلط ہوگیا اس سے نجات کی کیا راہ باقی رہ جائے گی۔ امریکہ نے جو کچھ افغانستان‘ طالبان اور اسامہ بن لادن کے خلاف کیا ہے اس کانہ قانونی جواز ہے اور نہ اخلاقی۔

۳-  دہشت گردی کے خلاف جنگ کی اصطلاح کا استعمال بھی ایک ناروا اقدام اور معروف قانونی اور سیاسی ضابطے کی خلاف ورزی ہے۔ جنگ کا بین الاقوامی تعلقات اور بین الاقوامی قانون میں ایک واضح تصورہے۔ استعارے کے طور پر غربت کے خلاف جنگ اور بیماری اور جہالت کے خلاف جنگ کا استعمال کیا جاتا ہے مگر فوج کشی کے معنی میں جنگ کا استعمال نہ ان میں سے کسی کے بارے میں جائز ہے اور نہ دہشت گردی کے لیے۔ دہشت گردی ایک جرم ہے اور اس کے خلاف اقدام قانون اور نظام انصاف (judicial process)کے مطابق ہی ہو سکتا ہے۔ اور خود امریکہ نے ‘خواہ ٹریڈ ٹاور میں ۱۹۹۳ء کی دہشت گردی کا معاملہ ہو یا اوکلاہاما کا ۱۹۹۵ء کا واقعہ جس میں ۱۶۰ افراد ہلاک اور ایک ہزار سے زیادہ زخمی ہو گئے تھے ‘یا اس کے اپنے بحری جہاز ایس ایس کول پر حملہ جس میں ۱۷فوجی ہلاک ہوئے‘ یا پان امریکن جہاز کا اغوا اور تباہی جس میں ۲۵۰ افراد مارے گئے___ ان سب جرائم کا تعاقب قانون کے مطابق عدالتوں کے ذریعے کیا گیا لیکن اب ایک من مانے انداز میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا اعلان کردیا گیا ہے۔ ایک آزاد اور خود مختار ملک کے خلاف جو اقوام متحدہ کا رکن ہے جنگی جارحیت کا ارتکاب کیا جا رہا ہے اور اس کی حکومت کو بہ زور بدلنے کا کام پوری ڈھٹائی کے ساتھ جاری ہے۔ یہ بین الاقوامی قانون کو بدلنے یا  re writeکرنے کی ایک مذموم اور تباہ کن کوشش ہے جو مستقبل میں عالمی امن کو تہ و بالا کرنے کا باعث ہوگی۔

۴-  بین الاقوامی قانون کی یہ خلاف ورزی صرف دہشت گردی کو جنگ قرار دے کر ہی نہیں کی جارہی بلکہ کم از کم آٹھ ایسے جرائم کا ارتکاب کیا گیا ہے جن میں سے ہر ایک انسانیت کے خلاف جرم کا درجہ رکھتا ہے۔

  •  محض شبہے کی بنا پر ‘ خواہ وہ کتنا ہی قوی کیوں نہ ہو‘ انصاف اور قانون کے عمل کو یکسر نظرانداز کر کے ‘ محض اپنی طاقت کے بل پر افراد‘ اقوام اور ممالک کو سزا دینا اور ان کے خلاف فوج کشی کرنا۔
  •   باقاعدہ اعلان جنگ کے بغیر ایک ملک پر حملہ کرنا اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے خلاف تنازعات کے پرامن حل کے راستے کو ترک کر کے قوت کا استعمال کرنا۔
  •   افراد کے جرائم (اگر جرائم ثابت ہو جائیں تب بھی) کی سزا کسی ملک‘ اس کی حکومت اور اس کے عوام کو دینا۔ یہ اصول انصاف اور بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے۔
  •  ذاتی دفاع یا قومی دفاع (self defense)کے معروف تصور کے برعکس اپنے دفاع کے نئے تصور کے نام پر ہزاروں میل دُور‘ ایک آزاد ملک پر حملہ کرنا اور اس طرح دوسرے ممالک کے لیے جارحیت اور جنگل کے قانون کا راستہ ہموار کرنا۔ امریکہ کے اس اقدام کا فوری اثر یہ ہوا ہے کہ اسرائیل نے اپنے دفاع ہی کے نام پر فلسطین اتھارٹی اور غزہ اور غرب اُردن کے علاقوں پر ایف-۱۶ ‘ گن شپس اور ٹینکوں سے حملے کیے ہیں اور امریکہ کی مثال کو بطور جواز پیش کیا ہے۔ اس پر بھارت بھی پرتول رہا ہے اور واجپائی اور ایڈوانی دونوں امریکہ کی افغانستان کی کارروائی کا سہارا لے رہے ہیں۔
  •  قانون کی ایک معروف اصطلاح collateral damage (ضمنی نقصان)کی نئی تعریف جس کے ذریعے ہزاروںانسانوں کی ہلاکت اور پورے پورے ملک کی تباہی کو بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کا ایک قابل قبول ثمر قرار دیا جا رہا ہے۔
  •  امریکہ نہ صرف خود دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا ہے بلکہ دہشت گردی کی ایک اور شکل یعنی خوف زدہ کرنے اور تشدد کی دھمکی (intimidation and threat of violence)کے ذریعے دوسرے ملکوں کو اپنی صف میں شامل کر رہا ہے۔ اور یہ فلسفہ کہ یا ہمارے ساتھ ہو ورنہ ہمارے مخالف ___ یا دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے حلیف بنو ورنہ تم خود دہشت گرد قرار دے دیے جائو گے--- یہ وہ شیطانی فلسفہ ہے جس نے ہٹلر کی جارحیت کو بھی مات کر دیا ہے۔ اس کا نشانہ پاکستان جیسے ملک ہی نہیں بنے یورپی ممالک کو بھی اسی طرح بل ڈوز کر دیا گیا ہے۔ ہالینڈ کے وزیر خارجہ کے بارے میںاخباری اطلاع ہے کہ جب جنرل پاول نے ان سے اس اصول کے مطابق تعاون مانگا تو انھوں نے باادب کہا :  Yes General!
  •  جرم و سزا اور جنگ کے باب میں انصاف کے اصولوں میں مرکزی اہمیت کے حامل: ضرورت (necessity) اور اس کا جواز (legitimacy) تو ہیں ہی‘ لیکن توازن اور تناسب بھی اس کا ایک اہم تقاضا ہیں۔ حالیہ ’’جنگ‘‘ میں ان میں سے ہر ایک کو پامال کیا گیا ہے۔
  •   افغانستان میں جو جنگی اسلحہ استعمال کیا گیا‘ کارپٹ بم باری اور ڈیزی کٹر بم کا استعمال‘ زیرحراست قیدیوں پر بم باری‘ ہتھیار ڈالنے پر جان کی امان دینے سے انکار‘ عام شہری ٹھکانوں‘ مساجد‘ ہسپتال اور ریڈکراس کے دفاتر پر بم باری‘ یہ سب جنگی جرائم (war crimes)کے زمرے میں آتے ہیں۔ لیکن محض طاقت کے گھمنڈ میں نہ صرف ان کا ارتکاب کیا گیا ہے بلکہ انھیں جرم بھی شمار نہیں کیا جا رہا۔ یہ بین الاقوامی قانون کو بالکل ہی بدل ڈالنے کی بدترین مثال ہے۔

۵-  امریکہ جس راستے پر چل پڑا ہے نظر آرہا ہے کہ افغانستان صرف پہلا قدم ہے۔ عراق‘ صومالیہ‘ یمن‘ شمالی کوریا‘ سوڈان کا تو کھلا کھلا ذکر کیا جا رہا ہے اور پرتولے جا رہے ہیں کہ اگلا نشانہ کون ہو۔ پھر سعودی عرب‘ شام‘ ایران اور پاکستان کی باتیں بھی دبی زبان سے ہو رہی ہیں۔ اس وقت یہ سب ملک کولیشن میں شمار کیے جا تے ہیں لیکن درپردہ ان سب کے بارے میں بڑی خطرناک منصوبہ بندی ہو رہی ہے جس کی کچھ جھلکیاں سامنے آ رہی ہیں۔ سعودی عرب کے خلاف ایک منظم پروپیگنڈا مہم جاری ہے اور ابھی واضح نہیں کہ اس کا مقصد وہاں کے نظام کی تبدیلی ہے یا صرف بلیک میل جیسا کہ ایران میں ۷۰ کے عشرے میں کیاگیا تھا۔ شام اور ایران بھی زد میں ہیں۔ پاکستان جس کو اس وقت دلیر ساتھی قرار دیا جارہا ہے اور اس کی فوجی حکومت اب جمہوریت دوست شمار کی جا رہی ہے لیکن اس کے نیوکلیر نظام و تنظیمات پر قبضے‘ نگرانی‘ اثر اندازی کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں اور فوج اور عوام میں اسلامی رجحانات کو لگام دینے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ فلپائن اور انڈونیشیا کا بھی ذکر ہے اور ۴۰ سے ۶۰ ممالک کو القاعدہ کے سلسلے میں ملوث کیا جا رہا ہے۔ بات صرف القاعدہ کی نہیں‘ ہر وہ ملک جس سے امریکہ کے مفاد کو کسی شکل میں بھی خطرہ ہو اسے دہشت گردی کے نام پر مطیع بنانے کی کوشش ہے۔

بات صرف دہشت گردی کی نہیں‘اب تو صاف کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردی کو پیدا کرنے والی سب سے اہم قوت نام نہاد مذہبی انتہا پسندی اور مذہبی تعلیم کا نظام ہے اور جب تک ان کو ختم نہیں کیا جائے گا دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ بڑی ہوشیاری اور سائنسی اندازسے اسلام‘ اسلامی احیا کی تحریکوں‘ اسلامی فلاحی اداروں اور دینی تعلیمی نظام کو ہدف بنایا جا رہا ہے اور وعظ کیا جا رہا ہے کہ اسلام میں ’اصلاح مذہب‘ (reformation)کی ضرورت ہے‘ مذہب اور سیاست کی تفریق وقت کی سب سے بڑی ضرورت اور ترقی کا اہم ترین ذریعہ ہے‘ سیکولرازم اور مغربی لبرلزم کے فروغ کے بغیر دہشت گردی سے نجات ممکن نہیں۔ یہ سارا کام ایک وسیع تر عالم گیریت اور جدیدیت کا حصہ ہے اور پوری دنیا کی نجات اس پیکج کو اختیار کرنے میں ہے ورنہ اسے اس پر مسلط کیا جائے گا اور یہ سب امریکہ کے اپنے دفاع (self defense) ہی کا ایک حصہ ہے۔

نئے سامراج کا ایجنڈا

نیوزویک‘ ٹائم‘ اٹلانٹک اور تمام اہم روزنامے تک ایسے مضامین‘ ادارتی تبصروں اور خطوط سے بھرے ہوئے ہیں جن میں جہادی کلچر‘ سیاسی اسلام (political Islam)اور اسلامی بنیاد پرستی (Islamic fundamentalism) پر کاری ضرب لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ نئے سامراج کا ایجنڈا ہے جس کے چار بڑے بڑے میدان ہیں:

ا - سیاسی اعتبار سے امریکہ کی بالادستی اور اس امر کا اہتمام کہ یہ بالادستی اکیسویں صدی میں قائم رہے اور اس کے لیے کوئی حریف رونما نہ ہونے پائے۔

ب- امریکہ کی فوجی برتری اور اس کو نہ صرف ناقابل تسخیر رکھنا بلکہ ساری دنیا میںاس کی موجودگی یا اس کے قائم مقاموں (surrogates)کی حفاظت جو اس کے آلہ کار کے طور پر کام کر سکیں اور دنیا کا نقشہ ان خطوط پر قائم رکھ سکیں جو امریکہ کو مطلوب ہے۔ نیز اس بات کی ضمانت کہ کسی شکل میں بھی ایسی عسکری صلاحیت دوسرے ملکوں میں پیدا نہ ہو جو امریکہ اور اس کے حواریوں خصوصیت سے اسرائیل کے لیے چیلنج بن سکے۔

ج- دنیا کے معاشی وسائل پر امریکہ‘ اس کے اتحادیوں اور اس کے زیراثر ملٹی نیشنل کارپوریشنوں اور این جی اوز کا قبضہ۔اس سلسلے میں فیصلہ کن تیل اور گیس کے تمام اہم ذرائع اور ترسیل کے راستوں پر قبضہ ہے۔

د - تہذیبی میدان میں مغربی کلچر اور ثقافت کا عالم گیر غلبہ اور دین و مذہب خصوصیت سے اسلام کی بنیاد پر اجتماعی زندگی کی شیرازہ بندی کے امکانات کو معدوم کرنا۔

نئے سامراج کا یہ ایجنڈا کسی پردے کے بغیر اب سرعام پیش کیا جا رہا ہے اوراس پر عمل کرانے کے لیے پروپیگنڈے سے لے کر عسکری قوت تک ہر حربہ استعمال کرنے کی منصوبہ بندی ہے۔

امریکی سامراج کے یہ عزائم تو پہلے بھی تھے مگر حالیہ دہشت گردی کے خلاف جنگ نے ان عزائم کو نئی زندگی اور ان پر عمل کو نئے امکانات فراہم کر دیے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں کہ کیا دہشت گردی کا آغاز ۱۱ ستمبر سے ہوا؟ اور کیا افغانستان اور القاعدہ کی تباہی سے دہشت گردی روے زمین سے فنا ہو جائے گی؟ جسے بنیاد پرستی کہا جا رہا ہے کیا اس کا وجود صرف مسلم دنیا میں ہے یا خود امریکہ میں بنیاد پرستوں کی ایک نہیں درجنوں تحریکیں کارفرما ہیں؟ کیا خود جارج بش کی صدارت کے پیچھے امریکی بنیاد پرستوں کا کوئی کردار نہیں؟ کیا اسرائیل کی لیکود پارٹی اور وزیراعظم شیرون صہیونی بنیاد پرستی کے بدترین مظاہر نہیں؟ کیا بھارت کی بی جے پی‘ آر ایس ایس اور وشوا پریشد ہندو بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے سوا کچھ اور ہیں؟ کون سا ملک ہے جہاں انتہا پرستی موجود نہیں اور کون سا دورہے جو انتہا پرستی سے پاک رہا ہے۔

پھر دہشت گردی کے خلاف تو بہت کچھ بخار نکالا جا رہا ہے مگر اس کی کوئی فکر نہیں کہ وہ حقیقی اسباب کیا ہیں جن کے نتیجے میں امریکہ اور مغربی اقوام کے خلاف نفرت کے طوفان امنڈ رہے ہیں‘ سرمایہ داری کے خلاف لاوا پک رہا ہے‘ مظلوم انسانوں کی ایک تعداد مایوس ہو کر اپنی جان تک پر کھیلنے کے لیے تیار ہورہی ہے۔ دہشت گردی ایک معمول کی کارروائی نہیں‘ ایک غیر معمولی رویے کی مظہر ہے‘ اس کو نہ سمجھا جاسکتا ہے اور نہ ختم کیا جا سکتا ہے جب تک ان اسباب کا کھوج نہ لگایا جائے جن کے بطن سے یہ جنم لیتی ہے۔ ان کے تدارک کے بغیر اس سے نجات ممکن نہیں۔ فلسطین ہو یا کشمیر‘ چیچنیا ہو یا فلپائن‘ اسپین ہو یا کیوبک (کینیڈا) ‘آئرلینڈ ہو یا تھائی لینڈ‘ سوڈان ہو یا صومالیہ‘ کیوبا ہو یا نکاراگوا‘ فی جی (Fiji) ہو یا ہیٹی‘ جاپان ہو یا کوسووا‘ جہاں بھی ظلم ہوگا ‘ اس کا ردعمل بھی رونما ہوگا جو جائز کے ساتھ ناجائز اور پرامن کے ساتھ خونی اور تشدد کے راستے بھی اختیار کر لیتا ہے ۔

جس طرح غربت خودکشی کی طرف لے جاتی ہے‘ اسی طرح مظلومیت اور محرومی تشدد اور دہشت گردی کے روپ بھی دھار لیتی ہے۔ جرم کا خاتمہ محض قانون اور جبر سے نہیں ہو سکتا۔ جرم کے اسباب جب ختم ہوں گے تو پھر جرم میں بھی کمی آئے گی اور حقیقی امن و آشتی کے امکانات روشن ہوں گے۔ سامراجی ذہن اس سامنے کی حقیقت کو سمجھنے اور سامراج کی آنکھ اس کو دیکھنے کے لیے تیار نہیں اور محض جبر اور طاقت سے اپنی بالادستی قائم رکھنے کے زعم میں مبتلا ہے۔ خدا کی زمین پر ظلم کی فراوانی اور انسانوں کے درمیان کش مکش اور شورش کی بڑی وجہ یہی ذہنیت اور یہی سیاست ہے۔ آج امریکہ اس ذہنیت اور سیاست کا سب سے بڑا علم بردار اور عالمی اقتدار کا ٹھیکے دار بن گیا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ اسی سامراجی ایجنڈے کا حصہ ہے۔

اصل ہدف : اسلامی تحریکات

امریکی سامراج اور مغربی تہذیب کا ہدف تو پوری دنیا ہے لیکن فوری طور پر پہلا ہدف اسلامی دنیا اور اسلامی احیا کی تحریکات اور ادارے ہیں اور ان پر ہی اس وقت اصل توجہ مرکوز ہے۔ نیوز ویک کا ڈائوس خصوصی ایڈیشن (دسمبر ۲۰۰۱ء - فروری ۲۰۰۲ء جو ’’۲۰۰۲ء کے مسائل‘‘ کے بارے میں ہے) اس عالمی ایجنڈے کا خلاصہ پیش کر رہا ہے۔ اس میں خصوصیت سے سیموئل ہنٹنگٹن‘ فرید زکریا اور فرانسس فوکویاما کے مضامین بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ہم صرف ایک اقتباس فوکویاما کے مضمون سے پیش کرتے ہیں:

پس اس طرح یہ محض دہشت گردوں کے خلاف ایک سادہ ’’جنگ‘‘ نہیں ہے جس کا امریکی حکومت قابل فہم انداز میں نقشہ کھینچتی ہے اور نہ جیسا کہ بہت سے مسلمانوں کا موقف ہے کہ فلسطین میں یا عراق کے ساتھ امریکہ کی خارجہ پالیسی اصل مسئلہ ہے۔ بدقسمتی سے ہمیں جو بنیادی تنازع درپیش ہے وہ بہت وسیع تر ہے اور دہشت گردوں کے ایک گروپ سے متعلق نہیں ہے بلکہ انقلابی اسلامسٹوں کے بڑے گروہ سے ‘ اور ان مسلمانوں سے متعلق ہے جن کی مذہبی شناخت دوسری تمام اور سیاسی اقدار کو مسترد کر دیتی ہے۔

ہم فوکویاما کے ممنون ہیں کہ اس نے بات کھول کر سامنے رکھ دی اور ڈپلومیسی کے پردوں کو چاک کر کے مغرب کے عزائم اور ان کی نگاہ میں تنازع کے اصل سبب--- یعنی دین اور سیاست کے رشتے کو صاف لفظوں میں یوں بیان کر دیا: اگر مغرب کی دوستی چاہتے ہو تو دین کے اثر سے سیاست اور تہذیب و تمدن کو پاک کر لو ورنہ ہماری تمھاری جنگ ہے:

نکل جاتی ہو جس کے منہ سے سچی بات مستی میں
فقیہ مصلحت بین سے وہ رند بادہ خوار اچھا

فیصلہ کن سوال

جنگ کا نقشہ ہمارے سامنے ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟ ایک راستہ تو بڑا آسان اور سادہ ہے جس کی دعوت مغرب کے دانش ور اور سیاسی قائدین دے رہے ہیں اور اسی کی آہنگ بازگشت خود اپنے جدیدیت کے دلدادہ افراد کی تحریروں اور ارشادات کی امتیازی شان ہے یعنی:

چلو تم ادھر کو‘ ہوا ہو جدھر کی

یہ وہ راستہ ہے جو زمانے کے پرستاروں نے ہر دور میں سجھایا ہے اور آسایش اور تن آسانی کے متوالوں نے آزادی‘ غیرت اور ایمان سب کی قربانی دے کر جسے اختیار کرنے کی دعوت دی ہے۔ لیکن کیا اہل ایمان اور مسلم امت کے لیے بھی نجات کی یہی راہ ہے؟ اقبال‘ اس کا جواب دیتے ہیں!

دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارا

اسلام تو نام ہی اس دین کا ہے جو طاغوت سے بغاوت اور اللہ کی بندگی سے عبارت ہے (فَمَنْ یَّکْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَیُؤْمِنْ م بِاللّٰہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی ق البقرہ۲:۲۵۶) یہ راستہ تو ہے ہی کفر‘ شرک اور طغیان سے کش مکش کا راستہ۔ اس میں طاقت اور تعداد اصل چیز نہیں‘ کہ دونوں حصول مقصد کا ذریعہ ہیں اور مطلوب بھی‘ مگر اصل ہدف وہ نصب العین اور وہ مقصود حیات ہے جو ایمان کا تقاضا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس دعوت کا علَم بلند کیا تو اُن کے کتنے ساتھی تھے اور انھیں کتنی قوت حاصل تھی؟ مگر نصب العین واضح اور منزل کے بارے میں یکسوئی تھی اور ساری مخالفتوں اور مزاحمتوںکے مقابلے میں ایک ہی جواب تھا کہ اگر میرے ایک ہاتھ پر سورج اور ایک پر چاند بھی رکھ دیا جائے تو اس راستے کو نہیں چھوڑوں گا‘ جدوجہد جاری رہے گی تاآنکہ یہ دین غالب آ جائے یا میری جان اس جدوجہد میں کام آ جائے۔ اکثریت اور اقلیت‘ طاقت اور کمزوری تبدیل ہونے والی چیزیں ہیں اور بالآخر تبدیل ہوتی ہیں۔ کل کی اقلیت آج کی اکثریت بن سکتی ہے اور آج کی اکثریت کل اقلیت میں بدل سکتی ہے۔ یہی معاملہ طاقت اور کمزوری کا ہے۔

مسلمانوں کے لیے اصل فیصلہ طلب سوال یہی ہے کہ آیا انھیں مسلمان رہتے ہوئے اپنی زندگی کی تشکیل و تعمیر کرنی ہے یا اسلام سے بے نیاز ہو کر دنیا طلبی کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ اگر مطلوب اسلام ہے توپھر اپنے ایمان ‘ اپنے نظریے‘ اپنے دین‘ اپنی تہذیب اور اپنی سیاست پر قائم رہنے اور مشکلات کا   مردانہ وار مقابلہ کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ بلاشبہ اس جدوجہد میں ایمان اور نظریے کی قوت اور اتحاد کے ساتھ‘ علم‘ تحقیق ‘ معاشی قوت‘ عسکری طاقت‘ ایجاد و اختراع اور ٹکنالوجی پر مہارت اور گرفت سب ضروری ہیں۔ لیکن سب سے اہم چیز وژن اور عزم ہے۔ اگر وژن موجود نہیں اور عزم و ارادے کا فقدان ہے تو پھر اُبھرنے اور ترقی کرنے کا کوئی امکان نہیں۔ لیکن اگر یہ موجودہیں تو پھر توفیق الٰہی سے تمام وسائل بھی حاصل ہو سکتے ہیں اور زمانے کا نقشہ اسی طرح بدلا جا سکتا ہے جس طرح ماضی میں بدلا گیا۔ کوئی طاقت ور اتنا مضبوط نہیں کہ ہمیشہ مضبوط رہے اور کوئی سوپر پاور ایسی نہیں جو ہمیشہ سوپر پاور رہی ہو۔

تاریخ ‘ایک نہیں درجنوں سوپر پاورز کا قبرستان ہے۔ خود ہماری زندگیوں میں برطانیہ اور روس دو سوپر پاورز کس بلندی سے کس پستی تک پہنچی ہیں۔ امریکہ آج طاقت ور ہے اور اس کا اعتراف ایک حقیقت کا اعتراف ہے لیکن یہ سمجھ لینا کہ اب ہمیشہ وہی غالب و حکمران رہے گا‘ تاریخ کے ساتھ مذاق اور انسانیت کے امکانات سے مایوسی ہے۔ اس لیے پہلا قدم اپنی منزل کا تعین اور اپنے مقاصدکی تفہیم ہے۔ پھر ان کے حصول کے لیے تیاری اور منصوبہ بندی ہے۔ جدوجہد کتنی ہی طویل ہو اور راہ کیسی ہی دشوار گزار ‘لیکن ہمیں سوچ سمجھ کر اپنی راہ طے کرنی ہے اور آستان یار سے وفاداری کے سوا کوئی راستہ ہمارے شایان شان نہیں:

جوئے خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا؟

جب ایک قوم خدا پر بھروسے کے ساتھ دانش مندی سے اپنی منزل حاصل کرنے کی جدوجہد کرتی ہے تو پھر نئے امکانات اُبھرتے ہیں اور حالات تبدیل ہوتے ہیں۔ ہماری تاریخ اس پر گواہ ہے کہ ہر نشیب کے بعد فراز اور ہر کمزوری کے بعد طاقت کا اُبھار واقع ہوا ہے بشرطیکہ ہمارا وژن واضح اور ہماری ہمتیں بلند رہیں۔ راستہ ایک ہی ہے اور وہ جدوجہد کا راستہ ہے:

زمانہ با تو نہ سازد‘ تو با زمانہ ستیز

دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا ہمیں مخالف قوتوں سے تصادم اور ٹکرائو کا راستہ اختیار کرنا چاہیے؟ بلاشبہ تصادم اور ٹکرائو تو اس راستے کے لازمی مراحل میں سے ہیں مگر دین نے جہاں ہمیں مستقبل کا ایک واضح وژن دیا ہے وہیں یہ بھی سکھایا ہے کہ جدوجہد کے مختلف مراحل ہوتے ہیں اور تیاری کے بغیر معرکے میں کودنا عقل مندی اور حکمت نہیں ‘حماقت ہے۔ صبر اور حکمت‘ یہ دونوں مومن کی میراث ہیں۔ ہماری جدوجہد طویل اور وقت طلب ہے۔ بلاشبہ ہمارا ہر لمحہ اصل منزل کی طرف پیش قدمی کی تیاری اور تحرک میں صرف ہونا چاہیے ‘ شارٹ کٹ کی تلاش اور جلدبازی کے اقدام دینی فراست کے خلاف ہیں۔ مقابلے کے لیے صحیح حکمت عملی کا تعین اور جدوجہد کے لیے مکمل تیاری بھی اسی طرح ایمان کا حصہ اور دین کا تقاضا ہیںجس طرح طاغوت کے آگے سپر ڈال دینے‘ دوسری تہذیبوں کی غلامی قبول کرنے اور شیطان کی دکھائی ہوئی راہ سے برأت لازم ہے۔ کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ جذباتیت سے مکمل احتراز کیا جائے اور حکمت اور محنت سے اجتہاد اور جہاد کے راستے کو اس طرح اختیار کیا جائے جو ان کا حق ہے۔

اصولی موقف : ۵ نکات

ان دو بنیادی امور کی تنقیح کے بعد اس بات کی ضرورت ہے کہ اس اصولی موقف کو بھی بالکل واضح الفاظ میں بیان کیا جائے جس کو اختیار کر کے آج پاکستان اور اُمت مسلمہ وقت کے چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔

امریکہ اور مغربی اقوام آج خواہ کتنی ہی قوی کیوں نہ ہوں‘ ان کی موجودہ بالادستی اور وسائل پر قدرت کے اعتراف کے ساتھ‘ اس عزم کا اعادہ بھی ضروری ہے کہ مسلمان اپنا جداگانہ تشخص رکھتے ہیں اور ان کی منزل اپنی آزادی اور اپنی تہذیب کی ترقی اور فروغ ہے جو دوسروں کی غلامی یا بالادستی کے تحت جاے پناہ پر قناعت سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ اگر امریکہ کا ایک سوپر پاور ہونا ایک حقیقت ہے تو مسلم امت کے ۳.۱ ارب نفوس بھی ایک حقیقت ہیں جنھیں نہ نظرانداز کیا جا سکتا ہے اور نہ محض طاقت سے غلام بنایا جاسکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تصادم سے پہلو بچاتے ہوئے اپنے گھر کی اصلاح‘ اپنے اتحاد کا حصول‘ اپنے وسائل کی ترقی اور اپنی قوت کا استحکام ہمارا اصل ہدف ہوں۔ اس کے لیے اپنے ایمان‘ اپنے دین اور اپنے نظریے پر مضبوطی سے قائم رہنا‘ وقت کے چیلنج کو سمجھنا اور اپنی بنیادوں کو استوار کر کے اس کا مقابلہ کرنے کی تیاری ہماری فکروسعی کا محور ہونا چاہیے۔

اس کام کو انجام دینے کے لیے ہمیں کچھ عالم گیر اصولوں کو اپنی دعوت اور حکمت عملی کی بنیاد بنانا چاہیے اور دنیا کے تمام انسانوں اور تمام عوام کو ان کی طرف لانے کی کوشش کرنا چاہیے۔ نہ ہمیں دوسروں کا کاسہ لیس ہونا چاہیے اور نہ ہر ایک سے الگ تھلگ اور مقاطعے کا راستہ صحیح راستہ ہو سکتا ہے۔ قدر مشترک کی تلاش اور اس پر تعلقات استوار کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ دنیا کے حالات بھی اس مقام پر ہیں کہ کچھ اصولوں اور مشترک اقدار پر سب کو لایا جا سکتا ہے اس لیے کہ اس میں تمام انسانوں کا بھلا ہے۔ بجائے اس کے کہ مسلمان محض دوسروں کے اقدامات پر ردعمل تک اپنے کو محدود رکھیں‘ ہمیں آگے بڑھ کر پوری انسانیت( بشمول مغربی اقوام) کو کچھ بنیادوں پر متفق کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اصول ہماری عالمی دعوت کا محور بن سکتے ہیں:

۱-  تمام اقوام کی آزادی‘ حاکمیت اور سلامتی کا تحفظ۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کی بنیاد تمام انسانوں کی برابری‘ تمام اقوام کی آزادی ‘ اور ان کا حق خود ارادیت ہے۔ اسلام نے اسی اصول کو انسانیت کے سامنے پیش کیا تھا اور یہ اصول امپریلزم کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔

۲- تکثیری نظام (pluralism)جس کے معنی ہیں کہ کسی ایک ملک یا تہذیب کی بالادستی ہی عالمی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ سب اس اصول کو تسلیم کریں کہ ہر قوم کو اپنی تہذیب و ثقافت کی پاس داری کا حق ہے اور دنیا کی یک رنگی فطرت کے خلاف اور انصاف کے تقاضوں سے متصادم ہے۔ اس لیے سب کو اپنے اپنے اصول و اقدار کی روشنی میں ترقی کے مواقع حاصل ہونے چاہییں۔

۳-  تمام انسانی معاملات کو دلیل اور مکالمے (dialogue)کے ذریعے حل کیا جائے اور قوت کے استعمال کو قانون اور عالمی انصاف کا تابع کیا جائے۔ ہر قسم کے تشدد کے خلاف عالمی راے عامہ کو منظم کیا جائے اور اس میں دہشت گردی کی ہر شکل میں مخالفت شامل ہو۔ نیز دہشت گردی اور آزادی کے حصول یا ملک و ملت کی حفاظت کے لیے جدوجہد کو اس سے ممتاز و ممیز کیا جائے اور قوت کے استعمال کی حدود اور اس کا ضابطہ کار متعین کیا جائے۔

۴- انصاف کے حصول کے لیے دنیا کے تمام انسانوں اور اقوام کو ایک منصفانہ عالمی نظام کا حصہ بنایا جائے۔ انصاف وہ مثبت بنیاد ہے جس پر عالمی امن قائم ہو سکتا ہے اور ظلم کی دراندازیوں سے انسانوں کو بچایا جاسکتا ہے۔

۵-  بین الاقوامی تعاون اور اشتراک کے ساتھ ساتھ قوموں یا ملکوں کے الحاق کی اجتماعی خود انحصاری کے اصول کا احترام۔ اس سے عالم گیریت کا ایک ایسا نظام وجود میںآ سکتا ہے جس کے تحت اگر ایک طرف انسانوں‘ مال تجارت‘ مالی اور دوسرے وسائل کی نقل و حرکت میں سہولت ہو تو دوسری طرف ایسے عالمی ادارے موجود ہوں جو دولت اور قوت کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے کمزوروں کو طاقتوروں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رکھ سکیں اور بالآخر دنیا میں قوت اور دولت کی منصفانہ تقسیم وجود میں آ سکے جس کے نتیجے میں سب کو خوش حالی ‘استحکام اور باعزت زندگی حاصل ہو سکے۔

یہ وہ پانچ بنیادیں ہیں جن کی طرف دنیا کے تمام انسانوں کو دعوت دے کر پاکستان اور اُمت مسلمہ ایک ایسے عالمی نظام کی داغ بیل ڈال سکتی ہے جو حقیقی امن و انصاف کا ضامن ہو سکے۔ آج کے طاقت ور اس کی راہ میں حائل ہوں گے لیکن دنیا کے تمام دوسرے ممالک کو منظم اور متحرک کر کے اور پرامن ذرائع سے عالمی رائے عامہ کو منظم کر کے اس قدر مشترک کو نئے نظام کی بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ نیز یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب دنیا کے ممالک دوسروں پر بھروسا کرنے کے بجائے اپنے اوپر بھروسا کر کے اپنے وسائل کو صحیح صحیح استعمال کرنے اور منظم کرنے کی جدوجہد کریں اور تعاون اور اشتراک کی منصفانہ شکلوں کو رواج دیں۔ جس طرح دنیا کے بہت سے ممالک میں‘ بشمول آج کے ترقی یافتہ مغربی ممالک‘ اندرون ملک دولت کی تقسیم اور قوت کے توازن کو حاصل کرنے کی کوشش ہوتی ہے اور اس میں ایک درجہ کامیابی بھی حاصل ہوتی ہے‘ اسی طرح عالمی سطح پر بھی ایک متوازن اور منصفانہ نظام کا قیام ممکن ہے‘ بشرطیکہ اس کے لیے صحیح طریقے پر مسلسل جدوجہد ہو۔

مسلم ملّت کے لیے خطوط کار

اس ایجنڈے کو عالمی سطح پر محض پیش کرنا مطلوب نہیں۔ اس ایجنڈے پر دنیا کو لانا اسی وقت ممکن ہوگا جب مسلمان ممالک خود اپنے گھر کو درست کریں اور اس کا آغاز خود احتسابی سے کریں۔

۱۱ ستمبر کے بعد جو کچھ ہو رہا ہے اسے ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ جو افراد یا ملک یہ سمجھتے تھے کہ امریکہ سے دوستی کے ذریعے ان کو حفاظت‘ عزت اور سلامتی مل جائے گی اور جو اپنی دولت اپنے ملکوں میں رکھنے کے بجائے امریکہ اور یورپ میں اسے محفوظ سمجھ رہے تھے اس ایک ہی ہلّے میں ان کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ انھوں نے کیسا کمزور سہارا تھاما تھا اور کس طرح خود کو دوسروں کے رحم و کرم پر ڈال دیا تھا۔ موسم کی ایک ہی تبدیلی نے ان کو بتا دیا کہ:

جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

نیز اس سے یہ سبق بھی حاصل کرنے میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے کہ مانگے کا اُجالا کبھی روشنی کی ضمانت نہیں دے سکتا اور خود انحصاری اور اپنی قوت کی تعمیرکے بغیر آپ اپنی آزادی‘ اپنے ایمان اور اپنی عزت کی حفاظت نہیں کر سکتے۔مقصد کسی سے لڑنا نہیں لیکن اپنے گھر کی تعمیر اور اپنے ممالک کی مضبوطی اور دوسروں پر محتاجی سے نجات قومی سلامتی کے لیے ازبس ضروری ہے۔

اس کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مسلم ممالک میں خود اپنے عوام پر اعتمادکی فضا پیدا کی جائے۔ شخصی اور سیاسی آزادیاں حاصل ہوں‘اختلاف کو برداشت کیا جائے‘ اور معیشت اور سیاست پر چند خاندانوں کی اجارہ داری کو ختم کیا جائے۔ اس میں اصحاب اقتدار کے لیے بھی خیر ہے اور مسلم عوام کے لیے بھی۔

کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے جہاں نظریہ اور قومی تشخص ضروری ہے وہیں سیاسی ‘ معاشی اور اداراتی نظام کا ایسا آہنگ درکار ہے جس میں سب کی شرکت ہو اور عوام اور حکمرانوںکے درمیان کش مکش کے بجائے تعاون اور اشتراک کا رشتہ قائم ہو۔ اسی طرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے: تمھارے بہترین حکمران وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور جو تم سے محبت کرتے ہیں اور بدترین حکمران وہ ہیں جن سے تم نفرت کرتے ہو اور جو تم سے نفرت کرتے ہیں۔

پھر اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ آزادی اور اشتراک کے ساتھ تعلیم‘ زندگی کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی‘ روزگار کے مواقع اور دولت کی منصفانہ تقسیم کو ملکی پالیسی میں مرکزیت کا مقام حاصل ہو‘ وقت کی ٹکنالوجی کو حاصل کیا جائے اور ایجاد و اختراع اور تحقیق و تفتیش کے ذریعے علم اور سائنس پر قدرت حاصل کی جائے۔ نیز معیشت اور ٹکنالوجی کے میدانوں میں بھی خود انحصاری کی پالیسی اختیار کی جائے۔ خود انحصاری نہ خود کفالت ہے اور نہ دنیا سے الگ تھلگ ہونا ۔ اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ ہمیں وسائل پر اتنی قدرت حاصل ہو کہ ہم اپنی پالیسیاں ‘اپنے مقاصداور اہداف کے مطابق خود طے کر سکیں اور دوسروں کی ایسی محتاجی نہ ہو کہ وہ ہماری پالیسی پر اثرانداز ہو سکیں۔ دنیا کے تمام ممالک سے تعاون اور تجارت سب کے لیے اسی وقت بہتری کا باعث ہو سکتے ہیں جب خود انحصاری کے ساتھ یہ تعاون ہو ورنہ یہی بین الاقوامی رشتے اور معاملات ظلم اور استحصال کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔

مسلمان ممالک کی تعمیر و ترقی میں یہ بات بھی سامنے رہے کہ یہ اُمت اُمتِ وسط ہے جس کا کام دنیا کے سامنے خدا کے پیغام کی شہادت ہے اور جو انصاف کے فروغ اور نیکیوں کی ترویج اور برائیوں سے نجات کی داعی ہے۔ اس اُمت میں اگر انتہا پسندی اور تشدد کی سیاست در آئی ہے تو یہ اس کے مشن اور مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی۔ اور اس کے اصل کردار پر ایک بدنما دھبہ ہے۔ انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی‘ اسلام تشدد اور اکراہ کا مخالف ہے اور محبت‘ بھائی چارے‘ رواداری اور تعاون و اشتراک کو فروغ دینا چاہتا ہے۔ جہاد کا مقصد انصاف کا قیام اور تمام انسانوں کے لیے آزادی‘ عزت اور عدل کی ضمانت ہے۔جہاد اپنی تمام صورتوں میں --- یعنی نفس کے ساتھ جہاد‘ زبان اور قلم سے جہاد‘ مال سے جہاد اور جان سے جہاد--- واضح اخلاقی حدود اور مقاصد کا پابند ہے اور ہر سطح پر اس کے تصور‘ تعلیم اور تبلیغ کی ضرورت ہے تاکہ جہاد کا صحیح فہم و ادراک ہو اور اس کی نعمتوں سے مسلمان اور غیر مسلم سب فیض یاب ہو سکیں۔ جہاد کے اس تصور کا فہم اور احترام ہر دور میں ضروری تھا مگر آج جب جہاد کو بدنام کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور جہادی کلچر کو تشدد اور دہشت گردی کے مترادف قراردیا جا رہا ہے‘ اس تفہیم اور جہاد کے آداب کے مکمل احترام کی ضرورت ہمیشہ سے زیادہ ہے۔ جہاد اسلام کی ابدی تعلیم اور اس کا رکن رکین ہے جس کے بارے میں کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا‘ لیکن جہاد ایک اخلاقی قوت اور تعمیر کی صورت ہے اور اس کا یہ کردارسب سے پہلے خود مسلمانوں کے سامنے ہونا چاہیے تاکہ غیر مسلم بھی اس کی گواہی دے سکیں۔

دور جدید میں تحریک اسلامی کی خدمات میں سے ایک نمایاں خدمت یہ ہے کہ ایک طرف اس نے جہاد اور روحِ جہاد کے احیا کا کارنامہ انجام دیا ہے تو دوسری طرف جہاد کے مقاصد‘ آداب اور ضابطہ کار کی وضاحت اور احترام کر کے اس کے اصل کردار پر توجہ مرکوز کی ہے اور مسلمانوں کو اس کا پابند بنانے کی کوشش کی ہے۔

مسلم ممالک کے درمیان معاشی‘ سیاسی‘ تعلیمی‘ ٹکنالوجی اور میڈیا کے میدانوں میں قریب ترین تعاون بلکہ اتحاد اور الحاق کی ضرورت ہے جو نظریے اور تاریخ کے اشتراک کے ساتھ مفادات کے اشتراک  اور سیاسی اور معاشی باہمی تکمیلات کی محکم بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے۔ یہ اب سب کی ایسی ضرورت ہے جسے موخر نہیں کیا جا سکتا۔ اس نظام میں تنازعات کے تصفییکا بھی مناسب انتظام ہونا چاہیے تاکہ حقیقت پسندی سے اتحاد کو مستحکم کیا جاسکے۔  عالمی سطح پر مسلم نقطہ نظر کو پیش کرنے کے لیے میڈیا کی موثر ترقی و تنظیم بھی ضروری ہے۔

اسلام کے عالمی کردار کی موثر ادایگی اسی وقت ممکن ہے جب تمام مسلمان ملک اور امت مسلمہ ان خطوط پر اپنی اجتماعی زندگی کی تشکیل کرے اور امت وسط کی حیثیت سے اللہ کی بندگی اور انسانوں کے لیے انصاف اور فلاح کے نظام کی داعی کی حیثیت سے اپنے گھر کی تعمیر کرے اور دنیا کے سامنے اس کا نمونہ پیش کرے۔

پاکستان کی ذمہ داری  :  ۱۰ امور

وقت کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان اور اہل پاکستان پر بھی ایک بڑی ذمہ داری آتی ہے۔ ۱۱ ستمبر کے بعد جو کچھ ہوا ‘وہ خواہ مجبوری کے تحت ہوا یا عاقبت نااندیشی کے تحت--- ہم اس پر تفصیل سے بحث کرچکے ہیں۔ افغانستان میں جو کچھ ہونا تھا وہ ہو گیا‘ بھارت اس سے جو فائدہ اٹھانا چاہ رہا ہے وہ واضح ہوتا جا رہا ہے اور جنگ کے مہیب سائے اُفق پر اُبھرتے چلے آ رہے ہیں۔ ہمارے اندرونی معاملات میں بیرونی دراندازیاں مشکلات میں اضافے اور آزادی اور خود مختاری کے لیے خطرات کا باعث ہیں۔ ان حالات کا تقاضا ہے کہ تصادم‘ عدم مشاورت اور وقت گزاری کی پالیسی ترک کر کے ایک ایسی پالیسی کو اپنایا جائے جس میں پاکستان‘ اس کے نظریے اور قوم کی سلامتی‘ اور ترقی کو یقینی بنائی جا سکے۔ اس کے لیے مندرجہ ذیل امور فوری توجہ کے طالب ہیں:

۱-  اللہ سے وفاداری اور اس پر بھروسے کو سب چیزوں پر اولیت دی جائے۔ اللہ کی طرف رجوع ہو اور اپنی غلطیوں اور کمزوریوں کا اپنے مالک کے حضور اعتراف کر کے اس سے طاقت اور رہنمائی طلب کی جائے۔ پوری قوم اور اس کی قیادت اپنے مالک کا دامن تھامے اور اس سے مدد مانگے۔

۲- عوام پر بھروسا کیا جائے ‘ان کو اعتماد میں لیا جائے اور موثر طورپر ان کو قومی سلامتی‘ ترقی اور تعمیرنو کے لیے متحرک کیا جائے۔

۳- نظریاتی کش مکش سے بچا جائے اور جس لاحاصل بحث میں مغربی میڈیا اور دانش ور ہمیں مبتلا کر دینا چاہتے ہیں‘ اس سے دامن بچایا جائے۔ بنیاد پرستی‘ انتہا پرستی اور فرقہ پرستی ہمارے مسائل نہیں۔ جدید اور قدیم کی بحثیں بہت پرانی ہیں اور ہم ان سے گزر چکے ہیں۔ اسلام کی بنیادی تعلیمات بہت صاف اور واضح ہیں۔ اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے جو بنیادی اخلاقی اقدار کی روشنی میں انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی تشکیل کرتا ہے۔ سیکولرزم ایک مردہ گھوڑا ہے اس پر سواری کے خواب دیکھنا ایک حماقت ہے۔ پاکستان کے دستور نے جن تین بنیادوں کو واضح طور پر پیش کر دیا ہے یعنی اسلام‘ جمہوریت اور وفاقی طرز‘ انھیں متفق علیہ بنیاد بنا کر قومی پالیسی کی تشکیل کی جائے اور ان طے شدہ امور کو ازسرنو بحث میں لانے کی جسارت نہ کی جائے ۔ اسلام اعتدال کا دین ہے۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ضرورت اس پر عمل کی ہے۔ ہمارا ایجنڈا ہماری تحریک آزادی اور ہماری قرارداد مقاصد ہمارے دستور میں طے ہے۔ اسے مضبوطی سے تھام لیجیے۔

۴-  ملک کی دفاعی قوت کی حفاظت کو اولیت حاصل ہے۔ امریکی فوجوں کی موجودگی اس کے لیے ایک خطرہ ہے۔ اسی طرح بھارت کے عزائم کا ادراک اور مقابلے کے لیے فوج اور قوم میں ہم آہنگی اور دونوں کا تحرک (mobilization)ضروری ہے۔

۵- کشمیر پالیسی کے بارے میں مکمل یکسوئی اور مضبوطی کی ضرورت ہے۔

۶- افغان پالیسی کی جلد از جلد تشکیل نو مطلوب ہے۔ اسٹرے ٹیجک گہرائی کے چکر سے نکلنے اور افغانستان میں ایک ایسی حکومت کے قیام میں ہماری دل چسپی ہونی چاہیے جسے افغان بھائی خود طے کریں اور جس سے افغانستان کا اتحاد باقی رہے اور وہ ایک ہمسایہ اور بھائی ملک کی حیثیت سے ترقی کرے۔ مفادات کے چکر سے بلند ہو کر افغان پالیسی کی تشکیل کی ضرورت ہے تاکہ ماضی کی غلطیوں کی تلافی ہو سکے۔ افغان عوام کے دل پاکستانی عوام کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور قیادتوں نے جوبھی غلطیاں اور ناانصافیاں کی ہیں ان سے متاثر ہو کر کسی قسم کی کش مکش یا جنبہ داری کا راستہ ہرگز اختیار نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہماری پالیسی کی بنیاد وہ رشتہ اشتراک ہونا چاہیے جو دین‘ تاریخ اور مشترک مفادات کی وجہ سے قائم ہے اور جس نے دلوں میں محبت اور معاملات میں تعاون کی روایت قائم کی ہے۔

۷- ملک میں جمہوری عمل کا احیا‘ دستور کو ذاتی پسند و ناپسند کے مطابق تبدیل کرنے سے مکمل احتراز اور دستور کے مطابق جمہوری نظام کی بحالی کے لیے فوری طور پر اجتماعی مشاورت‘ آزاد الیکشن کمیشن کے قیام اور اس سلسلے کے تمام ضروری انتظامات پرفوری توجہ کی ضرورت ہے۔

۸- معیشت کی بحالی کے لیے قومی مشاورت‘ تجارت‘ زراعت‘ صنعت اور محنت سے متعلق طبقات کے تعاون سے قومی خود انحصاری کے حصول اور معاشی ترقی اور سرگرمی کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کی طرف توجہ دینا۔

۹- مسلم ممالک سے تعلقات بڑھانے اور مشترک خطرات کے مقابلے کے لیے مشترک حکمت عملی کی تشکیل کی کوشش۔

۱۰-  ایران اور چین سے خصوصی تعاون اور ان کے ساتھ مشترک حکمت عملی وضع کرنے اور اس پر عمل کا نظام بنانے کی کوشش۔

یہ ۱۰ نکات فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ لیکن سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ہم حالات اور خطرات کا صحیح ادراک کریں۔ اپنے نظریے اور قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے خدا پر بھروسے اور ایک دلی جذبے کے ساتھ اصلاح احوال کی جدوجہد شروع کر دیں۔ اگر ہم ۱۱ ستمبر سے اب تک کے رونما ہونے والے واقعات کو ایک  خطرے کی گھنٹی سمجھیں ‘اب بھی بیدار ہو جائیں اور اٹھ کھڑے ہوں تو آگے کے مراحل زیادہ مشکل نہیں۔  واللّٰہ المستعان!

 

اللہ تعالیٰ نے اپنے تمام بندوں کو اور خصوصیت سے اہل ایمان کو جن نعمتوں سے نوازا ہے ان کا شمار ممکن نہیں۔ ان نعمتوں میں سے ایک خاص نعمت رمضان المبارک ہے جس میں ایک مہینہ مسلسل روزے کے ذریعے بندہ اپنے رب سے اپنے تعلق کو مضبوط تر کرتاہے۔ بھوک‘ پیاس‘ بے آرامی اور ضبط نفس کے ذریعے وہ روحانی اور اخلاقی قوت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اسے بہتر انسان اور اپنے مالک کا  تابع فرمان بندہ بننے کے قابل بناتی ہے‘ دوسروں کے غم اور دکھ جاننے کے لائق ہی نہیں بناتی بلکہ اس کا تجربہ کراتی ہے‘ جو ہر فرد میں اُمت کا حصہ ہونے کا احساس بیدار اور مستحکم کرتی ہے اور اللہ کی ہدایت اور رہنمائی سے اسے جوڑنے اور اس کی روشنی سے زندگی کو روشن کرنے کے لائق بناتی ہے۔

روزے کی برکتوں اور نعمتوں کی کوئی انتہا نہیں لیکن اس کے پانچ پہلو ایسے ہیں جو اس عبادت اور اللہ کی اس عنایت کو ایک منفرد حیثیت بنا دیتے ہیں:

  •  رجوع الی اللہ‘ کہ روزہ بندے کو رب سے جوڑتا ہے اور صرف رب کی رضا اور اس کے حکم کے آگے مکمل سپردگی کی تربیت دیتا ہے۔
  •  نفس اور اس کی تحریکات پر قابو۔ انسان کی دو ہی بنیادی خواہشات ہیں--- جسم کی پرورش کے لیے خوردونوش اور آرام و آسایش اور نسل کی حفاظت کے لیے جنس اور رشتہ ازدواج۔ روزہ ان دونوں کو رب کی مرضی کے تابع کرنے اور اس طرح انسان کو نفس کا بندہ بن جانے سے روکنے اور نفس کو رب کی مرضی سے پابند کرنے کی تربیت دیتاہے کہ یہی اصل تقویٰ ہے۔
  •  روزہ انسان کو دوسروں کی بھوک اور پیاس کے تجربے کا احساس دلاتا ہے اور انسانوں کے درمیان اجتماعیت‘ اور تکافل باہمی کا رشتہ استوار کرتا ہے ۔ اس میں اگر ایک طرف مساوات کے احساسات بیدار کرتا ہے تو دوسری طرف اخوت‘ ایثار‘ اشتراک اور وسائل حیات میں ایک دوسرے کے حق کی ادایگی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
  •  روزہ ایک انتہائی خفیہ اور نجی عبادت ہونے کے باوجود پوری اُمت مسلمہ میں ایک وحدت اور یک رنگی پیدا کرتا ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان ایک ہی چاند دیکھ کر روزے کا آغاز کرتے ہیں‘ اور ایک ہی چاند دیکھ کر عید کا اہتمام کرتے ہیں۔ پورے مسلم معاشرے میں اس مبارک مہینے میں ایک خاص فضا قائم ہوتی ہے اور اُمت کی وحدت اور انفرادی اور اجتماعی عبادات کے ذریعے وَاِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاِحدَۃً (الانبیاء ۹۲:۲۱‘  المومنون۲۳:۵۲) کی جیتی جاگتی تصویر بن جاتی ہے ۔
  •  روزہ فرد اور جماعت دونوں میں ایمان کے ساتھ احتساب کے عمل کو موثر اور متحرک کرتا ہے کہ اس عبادت کی روح ہی یہ ہے کہ غیر شعوری انداز میں فاقہ اور تراویح کی مشق نہ ہو بلکہ عبادت سے لے کر کھانے پینے اور سونے اور جاگنے کے معمولات سے لے کر زندگی کے تمام معاملات کو اس طرح انجام دیا جائے کہ زندگی شعور اور آگہی سے بھر جائے اور بندہ ہر کام ایمان اور خود احتسابی کی شان کے ساتھ انجام دے۔

رمضان اور خود احتسابی

رمضان تو ہر سال انھی احساسات و جذبات کی آبیاری اور اُمت مسلمہ کو اس کی منزل اور مشن کے شعور کی تجدید اور ان کے حصول کے لیے جدوجہد کی تحریک دینے کے لیے آتا ہے تاکہ سونے والوں کو بیدار کرے اور سرگرم عمل لوگوں کو تیز تر سرگرمی کے لیے مہمیز دے۔ لیکن اس سال جس فضا اور جن حالات میں اُمت مسلمہ رمضان سے بہرہ ور ہو رہی ہے وہ بہت غیر معمولی ہیں اور رجوع الی اللہ‘ ذاتی تربیت و تزکیہ اور اجتماعی صف بندی کی فکرمندی کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی زندگی کی خود احتسابی کے لیے ایک نادر موقع فراہم کر رہے ہیں۔ آج ہم عالمی پس منظر میں اس خود احتسابی کے ان چند پہلوئوں پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں جن کی طرف اس مبارک مہینے کی عبادات کے دوران توجہ نہ کرنا ایک خسارے کا سودا ہو سکتا ہے کہ روزہ تو ہے ہی اس لیے کہ ہر مسلمان مرد اور عورت اور بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ انفرادی اور اجتماعی تقویٰ حاصل کرے جو ہماری قوت کا اصل منبع ہے اور یہ سب اس لیے کہ اللہ کا کلمہ بلند و بالا ہو سکے۔

وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ (البقرہ ۲:۱۸۵) اور جس ہدایت سے اللہ نے تمھیںسرفراز کیا ہے‘ اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار اعتراف کرو اور شکرگزار بنو۔

ہدایت‘ فرقان اور تقویٰ کے اس منظر میں اللہ کی کبریائی کا اظہار و اعلان اُمت کو جس کام کے انجام دینے کے لیے اُبھار رہا ہے وہ اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے‘ اس کے دین کو قائم کرنے اور حق کو باطل پر غالب کرنے کی جدوجہد ہے۔

روزہ‘ تقویٰ اور جہاد اللہ کے کلمے کی بلندی اور بالادستی کے قیام کا راستہ ہیں اور نماز‘ روزے ‘ حج اور زکوٰۃ کا رشتہ ایمان اور احتساب سے کٹ جانا یا کمزور ہو جانا ہی اُمت مسلمہ کی کمزوری‘ بے بسی اور محکومی کا باعث ہے جیسا کہ حدیث نبویؐ میں انتباہ کیا گیا ہے:

جس طرح کھانے والے ایک دوسرے کو دسترخوان کی طرف دعوت دیتے ہیں اس طرح عنقریب ایسا ہوگا کہ (دشمن) حکومتیں (لقمہ تر سمجھ کر) تم پر ٹوٹ پڑیں گی۔ ایک شخص نے سوال کیا: کیا ایسا ہماری قلت تعداد کی بنا پر ہوگا؟ آپؐ نے فرمایا: ’’نہیں‘ بلکہ تم اس وقت تعداد میں بہت زیادہ ہو گے لیکن تمھاری حیثیت خس و خاشاک سے زیادہ نہ ہوگی۔ دشمنوں کے دلوں سے تمھارا رعب اٹھ جائے گا اور تمھارے اندر ’’وھن‘‘ کی بیماری پیدا ہو جائے گی۔ آپؐ سے سوال کیا گیا ’’وھن‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ نے فرمایا ’’دنیا کی محبت اور موت سے نفرت‘‘۔ (انتخاب حدیث ‘مولانا عبدالغفارحسن‘ص ۳۱۰)

آج ایک طرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ اور اس کے حواری افغانستان پر حملہ آور ہیں اور رمضان کے مقدس مہینے میں معصوم انسانوں کا خون بہا رہے ہیں اور دوسری طرف عالم یہ ہے کہ پوری اسلامی دنیا پر ایک سکتہ طاری ہے‘ کچھ سہمے ہوئے ہیں‘ کچھ منقار زیر ہیں‘ کچھ کانپ رہے ہیں‘ کچھ ہاتھ جوڑ کر دشمنوں کو کندھا فراہم کر رہے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو آگے بڑھ کر ظالموں کے دست و بازو بن رہے ہیں اور مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ بھی رنگ رہے ہیں اور مظلوموں کی لاشوں پر اپنے لیے تخت سجانے کے خواب دیکھ رہے ہیں--- تو کیا خود احتسابی کے لیے اس سے بھی زیادہ کسی سنگین لمحے کا انتظار کیا جا سکتا ہے؟

خود احتسابی ‘ ایک ذمہ داری

خود احتسابی کا آغاز اہل پاکستان کوخود اپنی ذات سے کرنا چاہیے۔افغانستان اور اُمت مسلمہ کے وسیع تر پس منظر میںخود احتسابی ہماری ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ عالمی سطح پر بھی خود احتسابی وقت کی ضرورت ہے۔ ان تینوں سطح پر خود احتسابی ہی سے وہ راہیں سامنے آ سکتی ہیں جن پر چل کر موجودہ بحران سے نکلا جا سکتا ہے اور ایک بہتر مستقبل کے لیے جدوجہد ممکن ہو سکتی ہے۔

پاکستانی قیادت نے امریکہ میں ہونے والے ۱۱ ستمبر کے اندوہناک واقعے کے بعد ایک سوپر پاور کی دھمکی اور دبائو کے تحت حق و انصاف‘ عالمی قانون و روایات(conventions)‘ اسلامی وحدت اور ملّی حقوق و فرائض کے احکام و آداب اور خود ملک کے حقیقی اور دیرپا مفادات سے صرفِ نظر ہی نہیں کیا ان کی خلاف ورزی کی اور ان سے بے وفائی کا ارتکاب کرتے ہوئے گھٹنے ٹیکے اور چشم زدن میں خارجہ پالیسی میں ایسی قلابازی (U-turn)کھائی کہ دوست دشمن بن گئے اور جن کی دوستی کبھی قابل بھروسا نہ تھی اور جن سے بار بار ملک چرکے کھا چکا تھا ایک بار پھر انھی کے دامن کو تھامنے‘ اسی ’’کوئے ملامت‘‘ کے طواف کی ذلت قبول کرنے‘ انھی ٹھکرانے والوں سے کچھ ڈالروں کی بھیک مانگنے اور ان کی چاکری میں اپنے ستم زدہ مسلمان بھائیوں اور ہمسایہ ملک پر آگ اور خون کی بارش کرنے کے لیے راستے کھولنے اور فضائیں ہموار کرنے کا ’’جرأت مندانہ‘‘ اور ’’مبنی برحکمت‘‘ کارنامہ انجام دیا۔

کسی بھی صاحب ایمان‘ خوددار اور باعزت فرد یا قوم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ محض دبائو میں آکر‘ حقائق کا صحیح تعین اور تجزیہ کیے بغیر اور خود اپنی قوم اور اپنے دوست ممالک کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی بھی بڑا فیصلہ کرے‘ چہ جائے کہ ایک ایسا فیصلہ جس کے بڑے دُور رس اثرات پوری قوم‘ ہمسایہ دوست ممالک‘ اُمت مسلمہ اور پوری انسانیت کے مستقبل پر مرتب ہونے والے ہوں۔ نیتوں کا علم تو اللہ تعالی ہی کو ہے لیکن قومی معاملات کے فیصلے رات کی تنہائیوںمیں بیرونی دھمکیوں کے تحت نہیں کیے جاتے۔ جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں نے ۱۴ ستمبر ۲۰۰۱ء کی رات کو جو اقدام کیا اور جس کے کچھ نتائج ان دس ہفتوں میں بھی سب کے سامنے آگئے ہیں اور نہ معلوم ابھی کیسے کیسے نتائج رونما ہونے والے ہیں اس کا بے لاگ احتساب ضروری ہے۔ سرکاری ذرائع اور درباری اہل قلم اس اقدام کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوڑی کا زور لگائے ہوئے ہیں لیکن حقائق اپنا لوہا منوا کر رہتے ہیں اور محض پروپیگنڈے کے گردوغبار سے تلخ حقیقتوں پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔

انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی‘ صحیح فیصلے وہی ہوتے ہیں جو آزاد فضا میں‘ بے لاگ غوروخوض ‘نفع و نقصان کے حقیقت پسندانہ ادراک‘ باہمی مشورے اور قوم کو اعتماد میں لے کر کیے جاتے ہیں کوئی فرد واحد عقل کل نہیں ہے اور چند افراد محض ’’ہم پر اعتماد کرو‘‘ کی بنیاد پر قوم کی قسمت سے نہیں کھیل سکتے۔ یہ تاریخ کا فیصلہ ہے اور خود ہمارا تجربہ۔ جب بھی بڑے بڑے فیصلے من مانے انداز میں ہوںگے‘ وہ بالآخر نقصان دہ اور تباہ کن ہوں گے۔ ۱۹۵۴ء کا امریکی حلقہ دفاع میں شرکت کا فیصلہ ہو یا ۱۹۶۶ء کا تاشقند کا معاہدہ‘ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کامشرقی پاکستان میں فوجی اقدام کا فیصلہ ہو یا ۱۶ دسمبر کا ہتھیار ڈالنے کا معاملہ‘ فروری ۱۹۹۹ کا اعلان لاہور ہو ‘ ۴ جولائی کا کارگل سے پسپائی کا فیصلہ اور ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو چیف آف اسٹاف کی برطرفی کا اعلان سب قوم کے لیے نشاناتِ عبرت ہیں۔

حکومتی فیصلے کا جائزہ

۱-  دباؤ کے تحت: یہ فیصلہ آزاد فضا میں اور مسئلے کے حسن و قبح کی بنیاد پر نہیں ہوا بلکہ ایک سوپر پاور کی دھمکی اور دبائو میں ہواہے۔ ہم کیسی ہی تاویلیں کریں لیکن اب سارے حقائق دو اور دو چار کی طرح کھل کر سامنے آگئے ہیں کہ ۱۱ ستمبر کے واقعے کے بعد امریکہ کے اصل مقتدر طبقے  (establishment) نے طے کر لیا تھا کہ اس موقع کو اپنے اسٹرے ٹیجک مفادات کے حصول کے لیے استعمال کرنا ہے اور اس کا آغاز اسامہ بن لادن‘ القاعدہ‘ افغانستان اور بالآخر اسلامی احیا کی تحریک کو (جسے کبھی سیاسی اسلام (political Islam)کہا جاتا ہے‘ کبھی اسلامی بنیاد پرستی (Islamic fundamentalism)اور کبھی عسکری اسلام (militant Islam)اور کبھی جہادی تحریک) دبانے اور اس کے لیے مقابلے کی قوتوں کو اُبھارنے سے کیا جانا ہے۔

اصل واقعے کی آج تک کوئی معروضی تحقیق نہیں ہوئی ہے اور نہ کرنے کا کوئی منصوبہ ہے۔ عدل و انصاف اور قانون کے مطابق مجرموں کے تعین اور سزا کی کوئی کوشش کی گئی ہے اور نہ اس کا کوئی ارادہ ہے۔ نیویارک کے عالمی تجارتی مرکز کے انہدام کے آدھ گھنٹے کے اندر اسامہ بن لادن کو گردن زدنی قرار دے دیا گیا اور پھر پروپیگنڈے اور جبروقوت کے ذریعے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کی ایک فضا بنا ڈالی گئی۔ کولن پاول نے اب صاف اعلان کر دیا ہے کہ ’’ہم نے ۱۳ ستمبر کو پاکستان کو الٹی میٹم دے دیا تھا کہ یا ہمارا ساتھ دو ورنہ تم کو بھی دہشت گرد ملک قرار دے کر تمھارے خلاف صف آرا ہو جائیں گے‘‘۔ جنرل پرویز نے ۲۴ گھنٹے کی مہلت مانگی مگر اس کے ختم ہونے سے پہلے ہی ۱۴ ستمبر کی رات ‘ صدر بش نے جنرل پرویز کو نیند سے بیدار کر کے الٹی میٹم کا جواب مانگا اور جنرل صاحب نے ’’تحویل قبلہ‘‘ کا کارنامہ معکوس انجام دیتے ہوئے ہتھیار ڈال دیے۔ اگر دہشت گردی کی تعریف (definition) کا کوئی متفق علیہ حصہ ہے تو وہ ’’سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے قوت یا قوت کے استعمال کی دھمکی‘‘ سے عبارت ہے اور اس تعریف پر صدر بش کی جنرل مشرف کو دھمکی اور ان سے اپنی مطلب براری مکمل طور پر صادق آتی ہے۔

کہا گیا کہ ’’یاتم ہمارا ساتھ دو ورنہ تم دہشت گردوں کی صفوں میں شمار کیے جائو گے‘‘۔ ساری دنیا کو من مانے انداز میں سفید اور سیاہ کے دو طبقوں میں بانٹ دیا گیا اور کہا گیا کہ ’’۲۱ وی صدی میں زندہ رہنا چاہتے ہو یا پتھروں کے عہد کی طرف لوٹنے اور کھنڈرات میں بدلنے کے لیے تیار رہو‘‘۔ ایسا نہیں ہے کہ سب نے اس دھمکی کے آگے سپر ڈال دی۔ دنیا کے ۱۸۹ ملکوں میں سے اکثریت نے صرف ان دو راستوں (options) آپشنز کو ماننے سے انکار کر دیا اور جن ممالک نے دہشت گردی کے خلاف محاذ میں شرکت پر آمادگی کا اظہار بھی کیا ان میں سے بھی بیش تر نے غیر مشروط تعاون کی حامی نہیں بھری۔ بلجیم کے وزیراعظم نے دھونس میں آنے سے انکار کر دیا اور اسے سیاسی دبائو (bullying)قرار دیا۔ برطانیہ کے پارلیمنٹ کے متعدد ارکان نے کھل کر بغاوت کی۔انڈونیشیا‘ ملائشیا‘ مصر‘ شام‘ ایران اور حتیٰ کہ سعودی عرب نے بھی اپنی زمین اور فضائی حدود استعمال کرنے سے انکار کر دیا اور ساری دھونس اور دبائو کے باوجود بمشکل ۴۵ ممالک نے امریکہ کے ساتھ مکمل یا جزوی طور پر اتحاد میں شرکت کی حامی بھری۔ان میں سے بھی اکثر کو اپنے اپنے ملکوں میں سخت مزاحمت سے سابقہ پیش آیا۔ آسٹریلیا اور جاپان کو دستور و قانون میں تبدیلی کرنا پڑی اور جرمنی حکومت کو اپنے وجود کے لالے پڑ گئے‘اعتماد کے ووٹ کا ڈراما رچانا پڑا اور حکومت چند ووٹوں سے ختم ہوتے ہوتے رہ گئی۔

ہمارے سامنے بھی صرف یہ دو ہی راستے نہیں تھے لیکن ہم نے ہر مشورے سے قبل اور کسی بھی نوعیت کی معلومات اور شہادتوں کے بغیر ۱۴ ستمبر کو امریکہ کے آگے سپر ڈال دی۔ نام نہاد مشاورت کا آغاز اس کے بعد ہوا ہے اور جنرل مشرف آن ریکارڈ ہیں کہ اس وقت تک کوئی معلومات اور شہادتیں ان کو نہیں دکھائی گئی تھیں۔بہ ظاہر جو بھی معلومات دی گئی ہیں (جو ناکافی اور حقائق سے زیادہ مفروضوں اور شبہات پر مبنی ہیں) وہ بھی خانہ پری کے لیے بعد میں دی گئی ہیں اور ہم نے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا رویہ اختیار کیا ہے۔ جنرل مشرف کی ۱۹ ستمبر کی تقریر کا ویڈیو موجود ہے۔ اگر جنرل صاحب خود بھی اس کو ایک بار دیکھ لیں تو ان کے چہرے کا رنگ بتا رہا ہے کہ ان کا فیصلہ دبائواور دھمکی کے تحت ہے ‘آزادانہ نہیں۔

۲-  قوم کی مرضی کے خلاف: یہ فیصلہ قوم کی مرضی کے بغیر ہوا اور اسے ہرگز قوم کی تائید حاصل نہیں۔ ان کا یہ دعویٰ کہ صرف ۱۰‘۱۵ فی صد عوام اس کے خلاف ہیں‘ حقائق پر مبنی نہیں۔ ۲۷ ستمبر کے نام نہاد یوم یک جہتی پر پوری سرکاری مشینری کی عوام کو اپنی تائید میں نکالنے کی بھرپور کوشش کے باوجود اسکول کے بچوں اور سرکاری ملازمین کے سوا کسی کو اپنی تائید میں میدان میں نہ لایا جا سکا۔ اس کے برعکس عوامی ہڑتالوں‘ ریلیوں‘ جلسوںاور جلوسوں کے ذریعے عوام کی بہت بڑی اکثریت نے پرُامن رہتے ہوئے اپنے جذبات کا اظہار ان کے اقدام کے خلاف کیا ہے ۔ افغانستان پر امریکہ کے ہوائی حملے کے بعد ۱۵ اکتوبر کے گیلپ سروے کے مطابق ۸۳ فی صد عوام نے طالبان سے یگانگت اور حملوں کی مذمت کی رائے کا اظہار کیا ۔یہی کیفیت ساری دنیا میں رائے عامہ کے جائزوں کی ہے حتیٰ کہ برطانیہ میں بھی مسلمانوں کی آرا کا تقریباً یہی تناسب ہے۔ ترکی‘ انڈونیشیا‘ ملایشیا‘ تھائی لینڈ بلکہ بھارت تک کے مسلمانوں کا یہی ردعمل ہے۔ اگر پاکستان میں بھی اس مسئلے پر عوامی ریفرنڈم ہو تو ۸۰ فی صد سے زیادہ لوگ امریکہ کے خلاف اور اس معاملے میں جنرل مشرف کے اس سے تعاون پر ناراض‘ نادم اور برافروختہ نکلیں گے۔

بلاشبہ یہ پالیسی عوامی تائید سے محروم ہے اور جن سیاسی لیڈروں نے مختلف وجوہ سے حکومت کی تائید کی ہے‘ ان کے اپنے پیروکاروں کی بڑی تعداد بھی اس مسئلے پر ان کے ساتھ نہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ یہ فیصلہ قوم کے اجتماعی ضمیر اور ملت اسلامیہ کی تاریخی روایات اور ایمانی کیفیات کے خلاف ہے۔ پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ جن حکومتوں نے اس معاملے میں بہ خوشی یا بہ جبر امریکہ کا ساتھ دیا ہے ان کے عوام کھلے بندوں ان کی اس روش سے برگشتہ ہیں اور برأت کا اعلان کر رہے ہیں۔ مجھے حال ہی میں (۹ تا ۱۱ نومبر ۲۰۰۱ء) آکسفورڈ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا جس میں امریکہ کے دو سابق سفیر اور انڈر سیکریٹری آف اسٹیٹ (نائب وزراے خارجہ) شریک تھے۔ دونوں نے باقی شرکا کے اس احساس کا اعتراف کیا کہ خواہ قاہرہ ہو یا اسلام آباد‘ حکومتوں کا موقف ایک تھا اور گلی کوچوں (street opinion) میں گونجنے والی رائے بالکل دوسری تھی۔ یہ کیفیت مسلم ممالک کی قیادتوں اور مسلم عوام کے جذبات و احساسات میں مکمل عدم مطابقت کی یہ ایک واضح مثال اور ان قیادتوں کے اپنے عوام سے دُور ہونے کا کھلا ثبوت ہے۔

۳- ظلم اور دہشت گردی سے تعاون: ہم نے ایک ایسا موقف اختیار کیا جو حق و انصاف کے خلاف ہے اور کھلے کھلے ظلم اور سامراجی دہشت گردی کا ساتھ دینے کے مترادف ہے۔ ۱۱ ستمبر کو امریکہ مظلوم تھا اور ساری دنیا نے اس سے ہمدردی کا اظہار کیا اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون پر خودکش حملے کی بھرپور مذمت کی۔ لیکن امریکہ نے اصل دہشت گردوں کے تعین اور ان کے احتساب اور گرفت کے لیے دستور‘ قانون‘ اخلاق‘ بین الاقوامی روایات کے فریم ورک میں اقدام کرنے کے بجائے ایک نئی عالمی جنگ کا بلاجواز اعلان کر دیا اور بین الاقوامی دہشت گردی کے ذریعے ایک نئے سامراجی دَور کا آغاز کر دیا اور اس طرح ایک بار پھر ایک ظالم اور سامراجی طاقت کا کردار ادا کیا۔ ہم اس سے پہلے دلائل اور شواہد سے (ملاحظہ ہو ترجمان القرآن‘ نومبر ۲۰۰۱ء) یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ دہشت گردی سے جنگ کے نام پر امریکہ جو کچھ کر رہا ہے وہ صریح ظلم‘ کھلی کھلی غنڈا گردی اور بدترین دہشت گردی ہے جس کا ارتکاب وہ خود اپنے دستور‘ قانون‘ اقوام متحدہ کے چارٹر‘ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے اور بین الاقوامی قانون‘ روایات اور اخلاق کوپارہ پارہ کر کے پوری ڈھٹائی سے انجام دے رہا ہے۔ اس نئی جنگ کا مقصد اس کے اپنے سیاسی مفادات اور مقاصد کا حصول ہے۔ وہ ۱۱ ستمبر کے واقعات کے نام پر دنیا کے غریب اور کمزور ممالک پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنا اور ان کے مزید وسائل پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔

اس خونی کھیل پر سے ہر روز پردے اُٹھ رہے ہیں اور امریکہ اور یورپ میں اہل فکرونظر‘ حق و انصاف کے اس طرح خون بہانے اور ظلم اور جارحیت کا نیا باب رقم کرنے پر سراپا احتجاج بن رہے ہیں۔ بات صرف مسلمانوں کی نہیں ‘امریکہ میں کم لیکن یورپ اور باقی تمام دنیا میں بشمول اسلامی دنیا اس کے خلاف بے زاری کی لہر اٹھ رہی ہے۔ ابھی ۱۸ نومبر کو لندن میں جنگ کے خلاف ایک تاریخی مظاہرہ ہواجس میں شدید سردی میں ایک لاکھ افراد نے شرکت کی اور اس جنگ کو محض مفادات کی جنگ قرار دیا۔ برطانیہ کے سابق وزیر ٹونی بین (Tony Ben)برطانوی پارلیمنٹ کے متعدد ارکان‘ اخبارات کے مدیر‘ کالم نگار اور ملائشیا کے ڈاکٹر چندرا مظفر اور سیکڑوں عمائدین نے اس میں شرکت کی اور امریکی عزائم کا پردہ چاک کیا۔ اہل علم و صحافت اور سیاسی شخصیات کی بڑی تعداد‘ حتیٰ کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر میںہلاک ہونے والوں کے اعزہ بھی پکار اٹھے ہیںکہ افغانستان کے غریب عوام پر ہولناک بم باری ایک ظلم ہے اور اس انتقامی کارروائی اور جنگ زرگری کے ذریعے ہمارے مرنے والوں کے خون کا سودا نہ کیا جائے۔ ٹونی بین نے اس عالمی احساس کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

ان کارروائیوں کو آغاز میں صلیبی جنگ قرار دیا گیا۔ اب ہم کو بتایا جا رہا ہے کہ یہ اسلام کے خلاف کوئی مقدس جنگ نہیں ہے۔ اگرچہ آرچ بشپ آف کنٹربری نے اپنے مشرق وسطیٰ کے حالیہ دورے میں اس کو منصفانہ جنگ قرار دیا ہے جس کی حمایت اچھے عیسائیوں کو کرناچاہیے۔

اسامہ بن لادن کو نیویارک کے واقعات کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے لیکن اس پر مقدمہ چلائے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔اس لیے کہ امریکہ کسی ایسے جنگی جرائم کے ٹربیونل کا مخالف ہے جس کو امریکی شہری پر مقدمہ چلانے کا اختیار ہو۔ بہرحال سابق صدر کلنٹن اور صدر بش پہلے ہی یہ احکامات جاری کر چکے ہیں کہ اسامہ بن لادن کو دیکھتے ہی گولی مار دی جائے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ امریکہ بن لادن کو عدالت میں کیوں نہیں لانا چاہتا۔ یقینا وہ اپنے دفاع میں بتائے گا کہ  افغانستان پر حملہ کے بعد روسیوں کو نکالنے کے لیے خود سی آئی اے نے اسے ایک حریت پسند (یا دہشت گرد) کی حیثیت سے اسلحہ اور رقم فراہم کی تھی۔

دہشت گردی کی مذمت میں سلامتی کونسل کی قرارداد سے قطع نظر‘ یو این چارٹر میں امن کو درپیش خطرات سے نمنٹنے کے لیے جو طریقۂ کار بیان کیا گیا ہے‘ اسے ترک کر دیا گیا ہے۔ نیٹو نے دفعہ ۵ کو متحرک کر کے اپنے کو ان ذمہ داریوں سے بری نہیں کر لیا ہے جو معاہدہ نیٹو میں یو این چارٹر کی پابندی کرنے کے حوالے سے اس پر عائد ہوتی ہیں--- موسم سرما کے قریب آنے پر ہزاروں لاکھوں افراد کے فاقوں اور سردی سے مرنے کے امکانات پیدا ہو رہے ہیںاور ہمیں یہ یقین دلایا جا رہا ہے کہ یہ منصفانہ جنگ ہے جو ہم جیت سکتے ہیں اور جیتنا چاہیے۔

شاید ہمیں اپنے آپ سے یہ پوچھنا چاہیے کہ کیا ہم اپنی خاموشی سے انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب میں شریک ہو رہے ہیںکیوں کہ وہ لوگ جو پہلے ہی بہت تکلیف اٹھا چکے ہیں اب پھر اپنی سرزمین پر تکلیف اٹھا رہے ہیں صرف اس لیے کہ کیسپین کا تیل امریکہ کی مارکیٹ میں لانے کے لیے ان کی زمین کی فوری ضرورت ہے۔ (دی ارجین لندن‘ ۱۲ نومبر ۲۰۰۱ء)

سر جان پلجر(Sir John Pilger) کئی کتابوں کا مصنف ہے اور بی بی سی ٹی وی اور روزنامہ مرر کا چیف بین الاقوامی نامہ نگار رہا ہے۔ وہ لکھتا ہے:

دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک کھلا دھوکاہے۔ افغانستان میں تین ہفتے کی بم باری کے بعد بھی امریکہ میں حملوں میں ملوث کوئی ایک دہشت گرد نہ گرفتار ہوا اور نہ ہلاک۔اس کے بجائے دنیا کی غریب ترین اقوام میںسے ایک اور سب سے زیادہ مصیبت زدہ قوم کو دنیا کی طاقت ور ترین قوم کے ذریعے دہشت گردی کا اس حد تک نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ کہ امریکی پائلٹوں کے لیے ’’غیر یقینی‘‘ فوجی اہداف ختم ہوگئے‘ اور اب وہ کچے گھروں‘ہسپتالوں‘ ریڈکراس کے گوداموں اور مہاجرین کو لے جانے والی بسوں کو تباہ کر رہے ہیں۔

۱۱ ستمبر کے سانحے میں جو افراد براہ راست ملوث ہیں‘ ان میں سے کوئی بھی افغانی نہیںہے۔ بیش تر سعودی ہیں جنھوں نے منصوبہ بندی اور تربیت بہ ظاہر جرمنی اور امریکہ میں حاصل کی۔ وہ کیمپ جن کے استعمال کی طالبان نے بن لادن کو اجازت دی تھی ایک ہفتہ قبل خالی ہو چکے تھے۔ طالبان خود امریکہ اور برطانیہ کے پرداختہ ہیں۔ ۱۹۹۰ء میں وہ قبائلی فوج جس نے انھیں تیار کیا اسے سی آئی اے نے فنڈ فراہم کیے اور ایس اے ایس نے انھیں روس سے لڑنے کے لیے تربیت دی۔

منافقت صرف یہیں تک نہ نہیں۔ جب طالبان نے ۱۹۹۶ء میں کابل پر قبضہ کیا تو واشنگٹن نے کوئی تبصرہ نہ کیا۔ کیوں؟ کیونکہ طالبان کے لیڈروں کو جلد ہائوسٹن‘ (ٹیکساس) میںان سے معاملہ کرنا تھا جہاں تیل کی کمپنی یونی کول کے اعلیٰ افسران کو ان کا استقبال کرنا تھا۔ امریکی حکومت کی خفیہ منظوری سے کمپنی نے انھیں تیل اور گیس کی فراہمی میں وافر منافع دینے کی پیش کش کی جو امریکہ سوویت وسطی ایشیا سے افغانستان تک پائپ لائن کی تعمیر کے ذریعے چاہتا تھا۔

ایک امریکی سفارت کار نے کہا: طالبان غالباً سعودیوں کی طرح ترقی کے راستے پر چل پڑیںگے۔ اس نے واضح کیا کہ افغانستان تیل کی ایک امریکی کالونی بن جائے گا‘ اس میں مغرب کے لیے بہت منافع ہوں گے۔ کوئی جمہوریت نہ ہو اور نہ خواتین کی کوئی قانونی حیثیت‘ ہم اس صورت حال میں گزارا کر سکتے ہیں۔

اگرچہ سودا ناکام رہا ‘ تاہم یہ جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ کی اہم ترین ترجیح رہی جو تیل کی صنعت میں ڈوبا ہوا ہے۔ بش کا خفیہ ایجنڈا کیسپین کی تہ میں تیل اور گیس کے ذخائر کا استحصال کرنا ہے جو دنیا کے محفوظ ذخائر میں سے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق امریکہ کی توانائی  کی بہت زیادہ بڑھی ہوئی ضروریات کے لیے آیندہ ایک نسل کے لیے کافی ہوں گے۔ یہ تب ہی ہو سکتا ہے اگر پائپ لائن افغانستان سے گزرے اور امریکہ کی امید بر آئے۔

عراقیوں اور فلسطینیوں اور افغانیوں کا المیہ ایک حقیقت ہے جو مغرب کے اکثر میڈیا میں ان کے خاکے کے برعکس ہے۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے مسلمان عالمی دہشت گرد تو کیا ہوتے‘ ان کی عظیم اکثریت خود اس کا شکار ہے۔ یہ اپنے ممالک یا قریبی علاقوں کے قیمتی قدرتی وسائل کے سبب مغرب کے استحصال کا شکار ہیں۔

یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف نہیں ہے۔اگر ایسا ہوتا تو رائل میرینز اور ایس اے ایس فلوریڈا کے ساحلوں پر حملہ آور ہوتے جہاں سی آئی اے کے پروردہ دہشت گردوں اور لاطینی امریکہ کے سابق آمروں اور سفاکوں کو دنیا کے کسی اور خطے کے مقابلے میں زیادہ پناہ دی جاتی ہے۔

تاہم بے طاقتوں کے خلاف طاقت ور کی جنگ نئے بہانوں‘ نئے خفیہ ایجنڈوں اور نئے جھوٹوں کے ساتھ جاری ہے۔ اس سے پہلے کہ کوئی اور بچہ تشدد سے یا فاقہ کشی کی وجہ سے خاموشی سے ہلاک ہو جائے‘ اس سے پہلے کہ مشرق ومغرب دونوں جگہ نئے جنونیوں کی تخلیق کی جائے‘ یہ وقت ہے کہ برطانیہ کے عوام اپنی بات کو بھرپور طریقے سے منوائیں اوراس پرفریب جنگ کو بند کروائیں۔ (دی مرر‘ ۲۹ اکتوبر ۲۰۰۱ء)

مغرب کے درجنوں دانشور اس ظالمانہ جنگ کو صریح ظلم اور سامراجی دہشت گردی قرار دی ہے۔ جگہ کی قلت کے باعث ہم صرف ان دو اقتباسات پر اکتفا کرتے ہیں۔ البتہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں ہلاک ہونے والے ایک سابق فوجی افسر کی بیوی امبرایمنڈسن کا خط ضرور پیش کرنا چاہتے ہیں جو ۷ اکتوبر کی بم باری کے بعد شائع ہوا ہے اور دکھی انسانیت کے دل کی آواز ہے۔وہ انسان خواہ مشرق میں ہو یا مغرب میں‘ افغانستان میں یا امریکہ میں۔ لیکن اس کی آواز نہ صدربش کے دل میں اتر رہی ہے اور نہ جنرل مشرف کے ضمیر کو جھنجھوڑ پا رہی ہے!

۱۱ ستمبر کو جب دنیا بے یقینی اور خوف کے عالم میں نظارہ کر رہی تھی‘ میرا شوہر کریگ اسکاٹ ایمنڈسن جو امریکہ کا فوجی افسرتھا پینٹاگون میں اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اپنے ۲۸ سالہ شوہر اور دو نوجوان بچوں کے باپ کو کھونا ایک تکلیف دہ اور الم ناک تجربہ ہے۔ اس کی موت عظیم قومی نقصان کا ایک حصہ ہے اور مجھے یہ جان کر سکون ہوتا ہے کہ اتنے بہت سے دوسرے میرے غم میں شریک ہیں۔ میں نے اس تاریخی المیے کے ایک حصے کے طور پر کریگ کو کھو دیا ہے‘لیکن میرا غم اس خوف سے بڑھ جاتا ہے کہ اس کی موت کو دوسرے معصوم مظلوموں کے خلاف تشدد کرنے کا جواز فراہم کرنے میں استعمال کیا جائے گا۔ میں نے قومی رہنمائوں سمیت کچھ امریکیوں کی غصے میں بپھری لفاظی سنی ہے۔ وہ رہنما جو مسئلے کے حل کے لیے بہت زیادہ انتقام اور سزا کا مشورہ دے رہے ہیں‘ میں ان رہنمائوں پر واضح کرنا چاہتی ہوں کہ مجھے اور میرے خاندان کو غم و غصے کے ان الفاظ سے کوئی سکون نہیں ملتا۔ اگر وہ اس ناقابل فہم سفاکی کا جواب دوسرے معصوم انسانوں کے خلاف تشدد برت کر دینا چاہتے ہیں تو انھیں میرے شوہر کے لیے انصاف کے نام پر ایسا نہیںکرنا چاہیے۔ ایسی لفاظی اور انتقام کے فوری اقدامات میرے خاندان کی تکلیف کو صرف بڑھا سکتے ہیں‘ اور ہم کو اپنے پیاروں کو اس طرح یاد رکھنے میں جو ان کے لیے قابل فخر ہو‘ محروم کر سکتے ہیں اور امریکہ کے ایک امن ساز قوت کی حیثیت کا تمسخر اڑاتے ہیں۔

کریگ اپنی موت کے انتقام کے لیے پرتشدد ردعمل ہرگز نہ چاہتا‘ اور میں نہیں سمجھ سکتی کہ اس سے کوئی خیر کیسے برآمد ہو سکتا ہے۔ ہم تشدد کا مسئلہ تشدد سے حل نہیں کر سکتے۔ انتقام ایک خود بخود چلنے والا چکر ہے۔ میں قوم کے رہنمائوں سے کہتی ہوں کہ ایسا راستہ اختیار نہ کریں جو زیادہ وسیع نفرتوں کی طرف لے جائے‘ جو میرے شوہر کی موت کو قتل و غارت کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کی وجہ بنا دے۔میں ان سے اپیل کرتی ہوں کہ اس ناقابل فہم المیے کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ حوصلہ لائیں جس سے تشدد کا یہ چکر توڑا جا سکے۔ میں ان سے کہتی ہوںکہ وہ اپنی توجہات دنیا میں امن و انصاف کے لیے کام کرنے پر مرکوز کریں۔ (انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون‘۱۳ اکتوبر ۲۰۰۱ء)

یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ یہ جنگ صریح ظلم پر مبنی ہے اور گذشتہ ۷ ہفتوں میں افغانستان میں جو کچھ ہوا ہے اس نے ثابت کر دیا ہے کہ اصل مقصد افغان عوام کی کمر توڑنا‘طالبان کے اقتدار کو ختم کرنا اور دنیا کے تمام ممالک اور اقوام کو دہشت زدہ کرنا ہے کہ یا ہمارے ساتھ رہو ورنہ تمھارا حشر بھی ایسا ہی کر دیا جائے گا۔ افغانستان پر اس وقت تک ۵ ہزار سے زیادہ ہوائی حملے ہو چکے ہیں جن میں ۵ لاکھ سے زیادہ بم گرائے جا چکے ہیں اور اس میں چپے چپے پر بم باری (Carpet bombing)کے علاوہ امریکی جنگی خزانے کا ایٹم بم کا برادر نسبتی Daisy Cutterبے دردی سے استعمال کیا گیا ہے جو ۱۵ ہزار پونڈ المونیم اور دوسرے کیمیاوی مواد کو زمین سے ۳ فٹ بلندی پر ۱۰ ہزار درجہ فارن ہائٹ گرمی پر ایک آتشیں ہیولے کی شکل میںجنم دیتا ہے اور یہ آگ کا بادل ایک میل تک اس کی زد میں آنے والی ہر شے کو بھسم کر دیتا ہے۔ جو انسان یا اشیا اس کی گرفت میں نہیںآتیں لیکن تپش کی زد میںہوتی ہیں وہ جگر کے سرطان یا سماعت سے محرومی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ یہ  تہذیب کے وہ تحفے ہیں جو امریکہ نے افغانستان کے عوام کو دیے ہیں ۔ اس جنگ میں ہم نے نہ صرف ان کی تائید کی ہے بلکہ ان کو فضائی حدود ہی نہیں زمینی سہولت بھی فراہم کی ہے اور مغربی اخبارات نے تفصیل سے بار بار لکھا ہے کہ کس طرح جنگی ہیلی کوپٹروں نے ہمارے فراہم کردہ ہوائی اڈوں سے پرواز کی ہے اور پاکستان کی زمین کو اپنی چھائونی کے طور پر استعمال کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ میں ہماری شرکت اثم و عدوان اور ظلم و بربریت میں تعاون کے مترادف ہے۔

۲۱ اور ۲۲ نومبر کے برطانیہ کے اخبارات نے اطلاع دی ہے کہ اب تک لاتعداد شہریوں کے علاوہ ۵سے ۱۰ ہزار طالبان شہید کیے جا چکے ہیں‘ جن میں ایک ہزار کے قریب پاکستانی‘ عرب اور دوسرے رضاکار بھی شامل ہیں اور مزار شریف ‘ کابل اور دوسرے مفتوحہ علاقوں میں شمالی اتحاد کے جنگ جو‘ جو ۴ سال تک ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہ کر سکے تھے اب امریکی بم باری اور امریکی فوجی مشیروں کی رہنمائی میں نصف سے زیادہ افغانستان پر قبضہ کر چکے ہیں اور ہر جگہ انتقام کی آگ بھڑکا رہے ہیں اور ہزاروں انسانوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔ ان کی لاشوں کا مثلہ کر رہے ہیں اور اپنے ان مسلمان اہل وطن کو بے گوروکفن سڑکوں اور کھلیان میں بے آبرو کر رہے ہیں۔ قندوز کے محاذ پر شمالی اتحاد کی قیادت ہی نہیں امریکی وزیر دفاع بھی کہہ رہے ہیں یا ہتھیار ڈالو ورنہ موت کے لیے تیار ہو جائو۔ ہتھیار ڈالنے پر بھی جان کی امان نہیں اور جنگی قیدی بھی بنانے کے لیے ہم تیار نہیں۔ اسلام توبہت اعلیٰ تعلیمات کا دین ہے۔ یہ تو مغرب کے جنگی قانون اور جنیوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے‘ یہ ظلم اور آتش انتقام کا وہ مقام ہے۔ جس پر جنرل پرویز بھی چیخ اٹھے ہیں اور اپنے کیے پر نادم ہوں نہ ہوں‘ اب ٹونی بلیر اور کولن پاول سے درخواستیں کر رہے ہیں کہ رحم کرو اور کم از کم باعزت انخلاء کا راستہ دو۔

۴-  قومی مفادات یا امریکی مفادات: جنرل پرویز نے اپنی اس پالیسی کے لیے ’’قومی مفاد‘‘ کے گھسے پٹے نعرے کا بھی سہارا لیا ہے اور یہ وہ مظلوم سہارا ہے جو برسرِاقتدار ہر گروہ اپنے ہر جائز و ناجائز اقدام کے لیے ہمیشہ کرتا چلا آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس ’’قومی مفاد‘‘ کا تعین کون کرے گا اور خود قوم کا بھی اس میںکوئی دخل ہے یا جس کا دائو چل جائے بس اس کو قومی مفاد کے نام پر اپنا کھیل کھیلنے کا حق ہے؟

کہا گیا ہے کہ ہم نے اپنی ایٹمی تنصیبات کی حفاظت‘ کشمیر کی جدوجہد کی بقا اور مکمل تباہی سے بچنے کے لیے یہ اقدام کیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا فی الحقیقت کوئی ایسا خطرہ تھا کہ امریکہ پاکستان پر حملہ کر دیتا؟ حقیقت یہ ہے کہ محض ایک دھمکی اور خوف کا منظر پیدا کر کے امریکہ نے اپنا مقصد حاصل کر لیا۔ ورنہ کیوبا جو امریکہ سے دو قدم پر ہے اس کو بھی بار بار دھمکیاں دی گئیں مگر اس کا بال بھی بیکا نہ کیا جا سکا۔ پاکستان پر حملہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ بھارت کو استعمال کیا جا سکتا تھا مگر نہ ہم اتنے کمزور اور بے یارومددگار ہیں اور نہ بھارت اتنا احمق اور عاقبت نااندیش ہے کہ اس آسانی سے خودکشی پر تیار ہو جاتا۔ بین الاقوامی سطح پر تنہائی کی دہائی بھی دی گئی ہے مگر یہاں بھی دنیا کے ممالک کی اکثریت نے امریکہ کا ساتھ نہیں دیا ہے اور دنیا کے ہر ملک میں امریکہ کی اس جارحیت کے خلاف تحریک اٹھ رہی ہے۔ ہم نے حق و انصاف کی بنیاد پر دنیا کی رائے اور ہم خیال ممالک کو متحرک کرنے کا سوچا بھی نہیں۔ پوری عرب دنیا اور تیسری دنیا کے تمام ممالک حتیٰ کہ یورپ کے کئی ممالک اس امریکی دہشت گردی اور محاذ آرائی کی پالیسی کے مخالف ہیں۔ مسلم عوام اور دنیا کے عام امن پسندانسان اس کے خلاف ہیں۔ ہم نے خود کو ان سب سے حتیٰ کہ اپنے عوام اور افغانستان میں اپنے دوستوں سے اپنے کو کاٹ کر تنہا کر لیااور خوش ہیں کہ ہمیں جرأت مندی کے تمغے دیے جا رہے ہیں اور وہ جو کل تک آپ کو گالیاں دے رہے تھے‘ آپ کے ساتھ فوٹو کھنچوانے تک کو تیار نہ تھے اور آپ کو دولت مشترکہ ہی نہیں مہذب برادری سے آپ کو‘ آپ کی وردی کی وجہ سے نکالنے کے لیے پر تول رہے تھے‘ وہ آج اپنے مفاد کی خاطر اب آپ کے ساتھ شیروشکر ہیں اور آپ کی پیٹھ تھپک رہے ہیں۔ یہ مفاد کا کھیل ہے‘ محبت نہیں۔ اب بھی ان کا رویہ یہ ہے کہ بقول آپ کے آپ کو یقین دہانی کرائی گئی کہ جنگ مختصر ہوگی لیکن دوسرے ہی دن آپ کی تردید کر دی گئی کہ کس نے یقین دہانی کرائی ہے؟ اور آپ بھی ’’جب تک ضرورت ہو‘‘ کا سجدہ سہو کرنے لگے۔ ایک بات شہری آبادی کی حفاظت اور محدود نشانوں کی بھی کہی گئی لیکن سب نے دیکھ لیا کہ نشانہ کون کون تھا--- شہری آبادی‘ ہسپتال‘ مسجدیں‘ مدرسے‘ ریڈ کراس کے گودام‘ اقوام متحدہ کے دفاتر‘ الجزیرہ ٹی وی کا مرکز :

ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں

ایک اور بات بڑے طمطراق سے یہ بھی ہوئی تھی کہ ہمیںضمانت دی گئی ہے کہ افغانستان میں ایسی وسیع البنیاد حکومت وجود میں آئے گی جس میں سب کی نمایندگی ہو اور یہ کہ شمالی اتحاد کو‘جو کھلے کھلے پاکستان کا مخالف اور روس کا حلیف ہے‘ فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔ لیکن ہوا وہی جس کا خطرہ تھا۔ ۱۰نومبر کو صدر بش اور جنرل مشرف مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کر رہے تھے کہ شمالی اتحاد کو کابل میں داخل نہیں ہونے دیا جائے گا مگر ۶نومبر کو شمالی اتحاد کو پیش قدمی کے لیے سبز جھنڈی دکھائی جا چکی تھی اور امریکی طیاروں کی چھائوں میں اور امریکی فوجی مشیروں کی رہنمائی میں وہ یہ بازی سر کر رہے تھے۔

یہ ایک ناخوش گوار حقیقت ہے کہ پاکستان نے جو کچھ۲۲سال کی قربانیوں سے حاصل کیا تھااسے ۲۲ گھنٹے میں امریکہ کے آگے جھک جانے کی ہمالہ سے بڑی غلطی نے پادر ہوا کر دیا۔ روس جو مقصد ۱۹۲۰ء سے ۱۹۸۹ء تک کی سیاسی اور عسکری کارروائیوں سے حاصل نہ کر سکا تھاوہ امریکہ کی ۷ اکتوبر کی فوجی یلغار کے باوجود حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اب افغانستان کی سیاست میں روس کا کردار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوگا۔ یہ خطرات افق پر منڈلا رہے ہیں کہ خدانخواستہ اب افغانستان میں ایک نہیں کئی بیرونی طاقتوں کے حلقہ اثر (areas of influence)وجود میںآئیں گے‘ کچھ حصے پر روس کا اثر غالب ہوگا‘ کچھ پرایران کا اور کچھ پر امریکہ کا۔ پاکستان جس strategic depth کے خواب دیکھ رہا تھا وہ قصہ پارینہ بن جائیں گے اور جس مغربی محاذ کی طرف سے مطمئن تھا وہ ایک بار پھر پریشانی کا باعث ہو سکتا ہے۔ اور پاکستان کی آیندہ کی سلامتی پالیسی کو مشرقی اور مغربی دونوں محاذوں کی فکر کرنا ہوگی۔ جس طوائف الملوکی کی طرف افغانستان جا رہا ہے‘ اس کے اثرات سے خود پاکستان کو محفوظ رکھنا ایک نیا دردسر بن جائے گا۔

ایک بات ماضی کی غلطیوں اور محرومیوں کی تلافی کی بھی ہوئی تھی مگر ایف-۱۶ کی بات کر کے دیکھ لیا گیا کہ کس طرح پاکستان کے منہ پر طمانچہ مارا گیا کہ ایف-۱۶ کی بات کرنے والے کون ہوتے ہو؟ معاشی امداد اور قرضوں کی معافی کے بھی بہت خواب دیکھے گئے اور پلائو پکائے گئے مگر حاصل کیا ہوا--- چند ملین ڈالر کی امداد‘ایک ارب کے پیکج کی نوید‘ اور ورلڈ بنک کا بیان کہ ہم سے ۵.۲ ارب کے ریلیف کی توقع نہ رکھو--- اور اس کے ساتھ ملک میں قیمتوں کا بڑھنا‘ بے روزگاری میں اضافے‘ سرمایہ کاری میں جمود‘ بلکہ جو برآمدات ہو رہی تھیں ان میں بھی تعطل اور زیرتکمیل آرڈ تک کا اتلاف جس کے نتیجے میں معیشت کو دو ڈھائی ارب ڈالر کے خسارے کا اندیشہ ہے۔ بجٹ کا خسارہ بھی بڑھ رہا ہے اور توازن ادایگی کا بھی--- خدا نہ کرے مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’’سو جوتے اور سو پیاز‘‘ دونوں ہی اس ’’جرأت مند‘‘ قیادت کے نتیجے میں قوم کی قسمت میں لکھے ہیں۔

ایٹمی تنصیبات کی بھی بات ہوئی ہے لیکن اگر امریکی اخبارات اور خصوصیت سے نیویارکر میں مشہور صحافی ہیسٹ (Heist)کی رپورٹ صحیح ہے تو ہماری ایٹمی تنصیبات تک رسائی اور حفاظت کے نام پر سارے انتظامات ان پر گرفت کے لیے کیے جا چکے ہیں اور جو فوجیں اس وقت افغانستان میں مصروف ہیںا ن کا کام وہاں تک محدود نہیں--- تیرے نشتر کی زد شریان قیس ناتواں تک ہے!

کشمیر کے بارے میںبہت کچھ کہا گیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے حکم پر بعض جہادی تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی اور ان کے حسابات کو منجمد کر دیا گیا ہے جب کہ لبنان تک نے امریکہ کے سارے دبائو کے باوجود حزب اللہ پر پابندی یا حسابات کی بندش سے صاف انکار کر دیا۔ امریکی وزیردفاع‘ قومی سلامتی کی مشیراور برطانوی وزیر دفاع تینوں نے بھارت کے خلاف دہشت گردی کے عنوان سے ایسی مبہم باتیں کی ہیں جو کان کھڑے کرنے والی ہیں۔ کشمیر میں بھارت کا ظلم اور دہشت گردی اس زمانے میں کئی گنا بڑھ گئے ہیں اور معصوم انسانوں اور مجاہدین کی شہادت اور آبادیوں کی تباہی میں اضافہ ہوا ہے۔سارے آثار یہ ہیں کہ فلسطین ہو یا کشمیر‘ باہر سے کسی حل کو مسلط کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ کیا یہی اسٹرٹیجک معاملات کاوہ تحفظ ہے جسے قومی مفاد کا نام دیا گیا ہے؟

طالبان کی خوبیاں اور کمزوریاں اپنی جگہ--- ہم طالبان سے کمزور تو کسی اعتبار سے بھی نہ تھے‘ مگر انھوں نے اپنی عزت اور اپنی روایات کے پاس میں جان کی بازی لگا دی اور کسی دبائو میں آنے سے انکار کر دیا۔ بجا‘ ان کو بڑے نقصانات اٹھانے پڑے اور واحد سوپر پاور کی یلغار کا ۳۷ دن مقابلہ کرنے کے بعد بہت سے علاقوں سے پسپا ہونا پڑا اور پتا نہیں کہ جن ۴‘ ۵ صوبوں پر ان کا قبضہ ہے اسے باقی رکھ سکیںگے یا نہیں اور کیا گوریلا جنگ ہوگی یا اس کا امکان نہ ہوگا‘ لیکن اتنی بات واضح ہے کہ انھوں نے جان اور مال پر عزت اور ایمان کو فوقیت دی۔ ان کے لیے خطرات ہم سے کہیں زیادہ تھے اور ان کی مشکلات اور مجبوریاں بھی ہم سے بہت بڑھ چڑھ کر تھیں مگر انھوں نے مقابلے کا‘ خواہ وہ محدود مقابلہ ہی کیوں نہ ہو‘ راستہ اختیار کیا‘ لیکن ظلم اور ظالم کا چہرہ سب کے سامنے بے نقاب کر دیا:

سودا قمار عشق میں خسرو سے کوہ کن
بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو دے سکا
کس منہ سے اپنے آپ کو کہتا ہے عشق باز
اے روسیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا


اسلامی تعلیمات کی تضحیک

اس پوری بحث میں بے چارے اسلام کی بھی اچھی خاصی گت بن گئی ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ ہم نے یہ فیصلہ عین اسلامی ہدایات اور تاریخی روایات کے مطابق کیا ہے ۔کچھ دلائل تو وہی گھسے پٹے ہیں جن میں مظلوم صلح حدیبیہ پر طبع آزمائی کی جاتی ہے اور بیچارے میثاق مدینہ کی گوشمالی کی جاتی ہے‘ لیکن کچھ دور کی کوڑیاں نئی لائی گئی ہیں جن میں حکمت اور چھوٹی برائی قابل ذکر ہیں۔ یہ اسلام اور مسلم اُمت پر ایک ظلم ہوگا کہ اس ظالمانہ کارروائی کے لیے اسلام کے نام پر جواز فراہم کرنے کی اس جسارت کو چیلنج نہ کیا جائے اور اس کے پاے چوبین کو بے نقاب نہ کیا جائے۔

۱- اُمت مسلمہ‘ حق کی گواہ : اسلام نے اس اُمت کو حق کا شاہد اور گواہ بنایا ہے اور اس کا فرض منصبی ہے کہ عدل و انصاف قائم کرے اور کسی حال میں بھی عدل وا نصاف کا دامن نہ چھوڑے‘ خواہ معاملہ اپنوں کا ہو یا حتیٰ کہ دشمن کا۔ قرآن کا حکم ہے: وَاِذَا حَکَمْتُمْْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط (النساء ۴: ۵۸) ’’جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو‘‘۔

ہم نے اس معاملے میں کھلے طور پر انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا‘ ظلم اور زیادتی کرنے والوں کا ساتھ دیا اور اپنے دوستوں کو چھوڑ کر ان پر حملہ کرنے والوں کی صف میں شامل ہو کر اللہ کے عذاب کو دعوت دی ہے۔

۲- قومی ریاست کا مقام: اسلام نے فرد یا ملک کے لیے مختلف شناختوں (identities) کی نفی نہیں کی بلکہ کچھ حدود میں ان کو نہ صرف باقی رکھا بلکہ معتبر قرار دیا ہے البتہ سب کو ایک بالاتر شناخت کے‘ جو ایمان اور تقویٰ سے عبارت ہے‘ تابع کیا ہے:

یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہَ اَتْقٰکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ o (الحجرات ۴۹:۱۳) لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے عزت والا وہ ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار رہے۔ یقینا اللہ سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔

آج کی قومی ریاست ایک جدید سیاسی اکائی ہے لیکن حبّ وطن اپنی اخلاقی اور نظریاتی حدود میں ایک اسلامی قدر ہے۔ اگر اُمت مختلف ملکوں میں بٹی ہوئی ہے تو ملک اور ملت دونوں کے حقوق میں ہم آہنگی اور پاس داری اسلامی اصولوں کے مطابق ممکن بھی ہے اور ضروری بھی۔ اس لیے کہ اس نئی اکائی کے باوجود اُمت کا ایک نظریاتی وجود ہے اور مسلمان عوام کا اجتماعی ضمیر اور ان کے قلوب کی دھڑکن کی مماثلت اس گئے گزرے دَور میں بھی اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ قرآن نے صاف کہا ہے کہ وَاِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاِحدَۃً وَّاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ o (المومنون ۲۳:۵۲) اور یہ اُمت ایک ہی اُمت ہے اور میں تمھارا رب ہوں پس مجھ سے ڈرو۔

یہی وجہ ہے کہ جہاد کے مسائل میں تمام ہی فقہی مکاتیب کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر کسی ایک اسلامی حصے پر غیر مسلم حملہ کریں تو دوسرے حصوں کے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ ان کی یاوری اور اعانت کے لیے اس طرح اٹھ کھڑے ہوں جس طرح خود اپنی آبادیوں کی حفاظت کے لیے اٹھتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہؒ نے موطا کی شرح میں لکھا ہے کہ اگر ایسی حالت پیدا ہو جائے کہ غیر مسلموں نے اسلامی ملکوں کا قصد کیا اور مسلمانوں اور کافروں میں لڑائی شروع ہوگئی تو جہاد فرض ہوگیا اور جب دشمنوں کی طاقت ان ممالک کے مسلمانوں سے زیادہ قوی ہوئی اور ان کی شکست کا خوف ہو تو یکے بعد دیگرے تمام مسلمانان عالم پر جہاد فرض ہو گیا‘ خواہ کوئی پکارے یا نہ پکارے ‘‘۔ (بحوالہ  مسئلہ خلافت از مولانا ابوالکلام آزاد)

قرآن و سنت کے ان تمام احکام کو بدقسمتی سے پاکستان کی قیادت نے یکسرنظرانداز کر دیا بلکہ ان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے کو امریکی حملہ آوروں کی صف میں شامل کر لیا۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!

۳- میثاق مدینہ کی مثال : امریکیوں سے احتلاف (coalition)کے لیے میثاق مدینہ کی مثال دی گئی ہے۔ جنرل مشرف نے اپنی ۱۹ ستمبر والی تقریر میں مدینہ کے پہلے ۶سال کی تاریخ یاد دلائی ہے لیکن کاش انھوں نے میثاق مدینہ کامطالعہ کر لیا ہوتا اور مدنی زندگی کے پہلے ۶ سالوں کی تاریخ پر سرسری نظر بھی ڈال لی ہوتی تو ایسی فاش غلط بیانی کے مرتکب نہ ہوتے۔ میثاق مدینہ دراصل مدینہ میں پہلی اسلامی ریاست کے دستور کا خاکہ ہے جس کا نصف مسلمان قبائل نصف یہودی قبائل کے بارے میں ہے۔ اس میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ریاست کا حاکم اور تمام فیصلوں کے لیے آخری سند تسلیم کیا گیا ہے۔ کیا امریکہ سے ہمارے عہد و پیمان اور صدر بش کی بنائی ہوئی کولیشن کی یہی حیثیت ہے؟ اصل حکم اور فیصلہ کرنے والا کون ہے؟ ہمارا شمار تو مصاحبین میں اور صرف حکم برداری کرنے والوں میں ہے۔ کیا میثاق مدینہ میں مسلمانوں کی یہی حیثیت تھی؟ کہا جا سکتا ہے کہ میثاق کا اصل مقصد قریش کے مقابلے کے لیے حفاظت اور مہلت کا حصول تھا۔ اگر محض دلیل کے لیے بھی یہ بات مان لی جائے تو سوال یہ ہے کہ ہم کس کے مقابلے کے لیے کمرہمت کس رہے ہیں۔ بھارت اس کولیشن کا رکن رکین ہے اور کشمیر میں مسلمانوں کے سینے پر مونگ دلنے میں مصروف ہے۔ کیا میثاق مدینہ میںکوئی ایسا بھی شریک تھا؟ کیا افغانستان کی حیثیت قریش والی ہے جن کے مقابلے کے لیے ہم امریکہ کے حلیف بن رہے ہیں؟

۶ سال کی تاریخ کا بار بار ذکر کیا گیا ہے لیکن کیا جنرل صاحب اور ان کے دینی مشیروں کو اس کا علم نہیں کہ ان ۶ سالوں میں میثاق مدینہ پر دستخط کرنے والے یہودیوں کا کردار کیا تھا۔ کیا شوال ۲ ہجری ہی میں غزوہ بنی قینقاع واقعہ نہیں ہوا جس میں معرکہ بدر کے فوراً بعد بنوقینقاع کے یہودیوں نے اعلان جنگ کیا‘ ۱۵ دن تک محاصرہ رہا اور بالآخر بنوقینقاع کے یہودی خود اپنے حلیف عبداللہ ابن ابی کی سفارش پر جلاوطن نہیں کیے گئے۔ پھر کیا ۳ ہجری میں بنونضیر کی طرف سے کش مکش کا آغاز نہیں ہوا جو ۴ہجری میں غزوہ بنونضیر پر منتج ہوا اور بالآخر بنونضیر بھی مدینہ چھوڑ گئے۔ پھر انھی ۶ برسوں میں تیسرے بڑے یہودی قبیلے بنوقریظہ نے بھی بدعہدی کی‘ معرکہ آرائی ہوئی اور بالآخر تلوار کو ان کا بھی فیصلہ کرنا پڑا۔ تاریخ کا آنا کانا مطالعہ ایک خطرناک جسارت ہے جس کے جنرل صاحب مرتکب ہوئے ہیں۔

۴- صلح حدیبیہ سے استدلال : صلح حدیبیہ بھی ہماری تاریخ کے ان مظلوم واقعات میں سے ایک ہے جسے ہر پسپائی اختیار کرنے والا اپنی بزدلی اور بے تدبیری کے لیے ڈھال بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ معاہدہ تاشقند ہو یا کیمپ ڈیوڈ اور اوسلو کا معاہدہ‘ کارگل ہو یا ۱۴ ستمبر کی پسپائی‘ سب ہی صلح حدیبیہ کا سہارا لیتے ہیں حالانکہ یہ صلح وہ ہے جسے قرآن نے فتح مبین کا پیش خیمہ قرار دیا ہے اور فی الواقع بھی وہ فتح کی باب کشا ثابت ہوئی۔ اس صلح کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جان نثاروںکے ساتھ بیت اللہ کے عمرہ کے لیے تشریف لائے تھے اور آپؐ نے رکاوٹ کو تلوار سے دُور کرنے کے بجائے اللہ کے حکم سے ایک سال کے بعد معاہدے کے ذریعے اس سعادت کو حاصل کرنے کی بات طے فرمائی--- اس فریم ورک کا امریکہ کے جال میں پھنسنے اور ایک مسلمان ملک کے خلاف ایسے الزامات کی تائید میں جوحقائق اور اصول انصاف کے مطابق ثابت نہیں ہوئے‘ فوج کشی کے لیے کندھا دے دینے کا کیا تعلق ہے؟ پھر سب سے بڑھ کر حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ وہ یہ معاہدہ اللہ کے حکم سے کر رہے ہیں۔ آج کس پر یہ وحی نازل ہوئی ہے اور کس دلیل کی بنیاد پر اسے اسلام کے لیے کسی فتح اور پاکستان کے لیے کسی کامیابی اور حصول عظمت کا زینہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

بلاشبہ حکمت دین کا بڑا اہم اصول اور پالیسی سازی کے لیے رہنما اصول ہے۔ لیکن حکمت اور حماقت اور حکمت اور بزدلی میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ حکمت عبارت ہے ایمان و فراست‘ صبرواستقامت‘ جرأت و قوت اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے یکسوئی اور مسلسل جدوجہد سے۔ ہم نے ۱۴ ستمبر کے بعد حکمت کے نام پر ان میدانوں میں کون سا تیر مارا ہے۔ ہماری حکمت کا تو یہ حال ہے کہ قدم قدم پر ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور جس جس بات کو ضمانت سمجھ رہے ہیں وہ ہمارے منہ پر ماری جا رہی ہے اور ہم ’’اسی تنخواہ پر کام کرنے‘‘ کی رضامندی کا اعادہ کیے جا رہے ہیں۔ اس کا نام حکمت نہیں اور نہ اس کا کوئی تعلق قومی غیرت اور آزادی و سلامتی سے ہے۔ اسے حکمت کا نام دینا حکمت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

۵- چھوٹی بڑی برائی کی منطق: آخری دلیل وہی چھوٹی اور بڑی برائی والی ہے۔ لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ یا تو ان ساری ترک تازیوں کو حکمت ‘ میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کے ہم پلہ قرار دیا جا رہا تھا اور کہاں پھسل کر چھوٹی برائی کا وعظ شروع ہو گیا۔ اگریہ حکمت اور قومی مفاد کا تقاضا تھا تو پھر چھوٹی برائی کیسی؟ اور اگر یہ چھوٹی برائی ہے تو پھر ان ارفع اصولوں کی مٹی کیوں پلید کی جا رہی ہے ؟ دوسروں کو جذباتی کہنا آسان ہے لیکن عقل کی بات کرنا بھی کوئی ایسا آسان نہیں!

ہم مان لیتے ہیں کہ اہون البلیتین ایک فقہی اصول ہے اور کچھ حالات میں اسے اختیار کرنا پڑتا ہے لیکن یہ اس وقت لاگو ہوتا ہے جب کوئی تیسرا راستہ ممکن نہ ہو۔ ہم بتا چکے ہیں کہ ایک اور راستہ ممکن تھا اور ایک نہیں ایک سو سے زیادہ ملکوں نے اسے اختیار کیا بلکہ مصر‘ ایران اور سعودی عرب تک نے وہ راستہ اختیار نہیں کیا جو ہم نے کیا۔ بھارت کی دہائی بے موقع ہے۔ جغرافیائی اعتبارسے ہماری پوزیشن اسٹرٹیجک تھی اور ہے۔ بھارت کی کوئی سرحد افغانستان سے مشترک نہیں۔ وہ ساری اچھل کودکے باوجود کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا تھا اور اگر ہم سے چھیڑ چھاڑ کرتا تو نہ صرف منہ کی کھاتا بلکہ عالمی جنگ کا نقشہ بدل جاتا اور چین‘ یورپ اور اسلامی ممالک کا رویہ بالکل دوسرا ہوتا۔ ان زمینی حقائق کی روشنی میں صدر بش کے اس کلیے کو تسلیم کر لینا کہ راستے صرف دو ہیں اور ان میں سے پسپائی کے راستے کو چھوٹی برائی قرار دے کر اختیار کر لینا فقہی اصول کے اعتبار سے ناقابل قبول اور ماروںگھٹنا پھوٹے آنکھ کے مترادف ہے۔

اس بحث کو ختم کرنے سے پہلے میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کی بات کرنے والوں کو تاریخ میں غیر مسلم طاقتوں سے معاہدات کے انجام کی یاد دلانا بھی ضروری محسوس ہوتا ہے۔ دورِ رسالت مآبؐ سے لے کر آج تک‘ اور خصوصیت سے دور جدید کی مغربی اقوام نے استعماری غلبے سے لے کر اب تک‘ جو کچھ مسلمان ممالک بلکہ تمام غیر مغربی اقوام اور خصوصیت سے کمزور ممالک کے ساتھ کیا ہے اس سے صرف نظر کرنا اور ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جاتے رہنا کوئی حکمت کا شاہکار نہیں۔ امریکہ نے اپنے گذشتہ پچاس سال میں جس طرح ہم سے اور دوسروں سے اپنی دوستی نبھائی ہے اس سے آنکھیں بند کرنا خود فریبی ہی نہیں خودکشی کا راستہ ہو سکتا ہے۔ ان کا حال تو یہ ہے کہ:

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

نئی قیادت ‘ نئی حکمت عملی

ہم دنیا سے کٹنے اور کسی قسم کی بھی تنہائیت (isolationism)کے قائل نہیں اور اچھے اور برے دنیا میںہر جگہ موجود ہیں۔ افغانستان پرامریکہ کی دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں مسلمانوں کے ساتھ بہت سے غیر مسلم اور مشرق ہی نہیں مغرب کے اہل علم و دانش‘ سیاست کاراور عوام بھی شامل ہیںاور ہم اس کی قدر کرتے ہیں لیکن امریکہ کی قیادت جو سیاسی کھیل کھیل رہی ہے اور یہود‘ ہنود‘ اور نصاریٰ جو چالیںتاریخ میںچلتے رہے ہیں ان کو نگاہ میں نہ رکھنا اور بڑی معصومیت سے ہر ٹھوکر پر میثاق مدینہ اور صلح حدیبیہ کی گردان کرنا بھی فراست اور دیانت کا راستہ نہیں۔ جس قرآن نے حکمت‘ دوستی‘ امن اور انسانیت کے لیے رحمت بننے کا درس دیا ہے اور اہل کتاب میں سے اچھے لوگوں کی قدر کی تعلیم دی ہے اسی میں یہ ابدی رہنمائی بھی موجود ہے کہ اپنی آنکھیں کھلی رکھو‘ اہل ایمان کے مقابلے میں کفار کو دوست نہ سمجھو‘ دوسروں کی چالوں کو ٹھیک ٹھیک سمجھو‘ اور حق و باطل کی کش مکش میں اپنا کردار اللہ کے دین کے مصالح کے مطابق ادا کرو۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ ط (النساء ۴:۱۴۴)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ مومنوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا رفیق نہ بنائو۔

وَلَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَھُوْدُ وَلاَ النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَھُْمْ ط (البقرہ ۲:۱۲۰)

اور یہ یہود و نصاریٰ تم سے ہرگز خوش نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔

اللہ تعالیٰ نے اس اُمت اور اس کی قیادتوں کو قیامت تک کے لیے متنبہ کر دیا ہے کہ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں‘ صرف اللہ سے وفاداری کارشتہ استوار کریں‘ سب سے معاملہ کریں مگرخدا اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہدایت اور روشنی کے مطابق کریں۔ دوستی اور دشمنی‘ الحاق اور انحراف‘ صلح اور جنگ‘ تعاون اور عدم تعاون سب کا فیصلہ اللہ کے دین کے احکام اور اُمت مسلمہ کے مصالح کے مطابق کریں اور مخالفین کی چالوں اور فتنہ سامانیوں سے خبردار رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تاریکی میں نہیں چھوڑا ہے‘ سب حالات کے لیے ہمیں رہنمائی سے نوازا ہے ___ اگر ہم اس ہدایت کو نظرانداز کر تے ہیں اور اپنی خواہشات یادوسروں کی ترغیبات کا شکار ہو جاتے ہیں تو ذمہ داری ہماری ہے اور اس کے نتائج بھی ہمیں ہی بھگتنا ہوں گے۔

جنرل مشرف اور ان کے ساتھیوں نے ۱۴ ستمبر کو امریکہ کے آگے سپر ڈال کر ملک و ملت کو ایک بہت ہی خسارے کے راستے پر ڈال دیا ہے جس کی قیمت اس قوم کو برسوں ادا کرنا پڑے گی۔ جن اُمیدوں پر انھوں نے یہ بازی لگائی وہ حباب کی مانند ہیں اور بہت سے حباب تو ان چند ہفتوں ہی میں پادر ہوا ہو چکے ہیں ۔  جس دلدل میں انھوں نے قوم کو پھنسا دیا ہے وہ زیادہ ہی تباہ کن ہوتی جا رہی ہے۔ اگر اس راستے میں کچھ وقتی اور جزوی فوائد بھی ہوں تب بھی نقصانات اور مفاسد کا پلڑا اتنا بھاری اور ان کی نوعیت اتنی گھمبیر ہے کہ اسے پاکستان کی ۵۴ سالہ تاریخ کا سب سے افسوس ناک اور نقصان دہ اقدام قرار دینا ہوگا۔ ۱۶ دسمبر ۱۹۷۱ء کے بعد یہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین فیصلہ ہے۔ ۱۶ دسمبر والے سانحہ کے بعد تو پاکستان اور بنگلہ دیش میں دوستی اور تعاون کا ایک نیا دَور شروع ہو گیا لیکن اس اقدام کے جو اثرات ہمارے ایمان کے ساتھ ہماری آزادی‘ سلامتی‘ معیشت‘ ایٹمی صلاحیت‘ کشمیر کی تحریک آزادی و الحاق پاکستان اور علاقے کے ممالک سے تعلقات پر مترتب ہوں گے ان کے تصور سے روح کانپ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہوئے ان مہیب خطرات کے ادراک اور ان کا مقابلہ کرنے کے لیے نئی حکمت عملی اورنئی قیادت کی دعا ہمارے دل کی آواز ہے۔ یہی وہ پکار ہے جس کی طرف ہم ملک کے عوام کو دعوت عمل دیتے ہیں۔

 

اگر ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون میں دہشت گردی کے سبب اکیسویں صدی کی تاریخ کا ایک سیاہ دن تھا تو ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء افغانستان جیسے غریب‘ تباہ حال اور مظلوم ملک پر امریکہ اور برطانیہ کی جارحانہ فوج کشی کے باعث ایک سیاہ تر دن بن گیا۔ ۱۱ ستمبر کے واقعے کے بعد دنیا کی ہمدردیاں امریکہ اور ان معصوم انسانوں کے ساتھ تھیں جو دہشت گردی کا نشانہ بنے تھے اور افغانستان کی طالبان حکومت سمیت دنیا بھر کے مسلمان‘ اہل امریکہ کے اس غم میں شریک ہوئے اور دہشت گردی کی مذمت بھی کی۔ غم و اندوہ کے یہ لمحات امریکی قیادت اور اس کی عسکری اور مالیاتی دراندازوں کے ستائے ہوئے مشرق و مغرب اور پس ماندہ و ترقی یافتہ سب ہی ممالک کے عوام ‘ اپنے رستے ہوئے زخموں کی کسک کو بھی بھول گئے۔ لیکن امریکہ کی قیادت پر رعونت‘ انتقام اور مخصوص مفادات کا غلبہ رہا اور اس نے بے لاگ‘ منصفانہ اور قانون کے نظام کے تحت ورلڈ ٹریڈ سنٹر اور پینٹاگون کی تباہی کے ذمہ داروں کے تعین اور اس دہشت گردی کے محرکات اور اسباب کے معروضی جائزے کے بجائے اس حکمت عملی کے تحت جس کی کھچڑی برسوں سے پکائی جا رہی تھی‘ افغانستان کے عوام کو کھلی جارحیت کا نشانہ بنایا اور محض طاقت کے بل پر اپنی بالادستی قائم رکھنے اور وسط ایشیا کے وسائل سے مالا مال علاقے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ریاستی دہشت گردی کے بدترین اور ظالمانہ منصوبے پر عمل شروع کر دیا۔

اس کے لیے دوسرے ممالک کو ترغیب اور ترہیب‘ رشوت اور دھونس اور دھمکی کے ہتھکنڈے استعمال کر کے ایک نام نہاد عالمی الحاق (world coalition) کا ڈھونگ رچایا۔ برطانیہ تو پہلے دن ہی سے امریکہ کی جھولی میں گر گیا تھا۔ یہ ملک جسے کئی صدیوں تک ایک عالمی طاقت کی حیثیت حاصل رہی‘ اب امریکہ کا باج گزار بن چکا ہے۔ بش اور بلیر اِس عالمی غنڈا گردی کے سرخیل ہیں۔ نیٹو کے ۱۸ ممالک کو بھی خواہی نہ خواہی اس آپریشن میں شامل کرلیا گیا اور نیٹو کی دفعہ ۵ کو بھی متحرک کر لیا گیا کہ نیٹو کے کسی ایک ملک پر حملہ تمام ملکوں پر حملہ تصور کیا جائے گا بلالحاظ اس کے کہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں اسے متعین کیا جائے کہ ’’جنگ‘‘ اور حملے کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔ ۱۱ ستمبر کے واقعات کو خود ساختہ ملزموں کی طرف سے ’’اعلان جنگ‘‘ قرار دے کر ایک نام نہاد جنگ ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا طبل بجا دیا گیا۔ باقی دنیا پر سیاسی دبائو اور بلیک میل کا ہر حربہ استعمال کیا گیا۔

یہ فسطائی فلسفہ بڑی ڈھٹائی سے پیش کیا گیا کہ دنیا دو کیمپوں میں منقسم ہے: ایک مہذب دنیا اور دوسری دہشت پسند اقوام۔ اور دنیا کی تمام اقوام کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ (option)نہیں کہ وہ یا امریکہ کے ساتھ ہوں یا اس کے مخالف--- یا اتحادی ہوں اور یا دہشت پسندوں کی حلیف شمار کی جائیں۔ جس طرح سرد جنگ کے زمانے میں دنیا کو سرخ اور سفید میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح اب دنیا کو سفید اور سیاہ میں تقسیم کردیا گیا۔ کمزور ملکوں پر بندوق تان کر ان سے پوچھا گیا کہ کس کے ساتھ ہو؟ گو دہشت گردی کی کوئی متفق علیہ تعریف موجود نہیں ہے (جیسا کہ خود اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ۱۱ستمبر کے بعد کے اجلاس کی بحث سے پتا چلتا ہے کہ وہ کسی تعریف پر متفق نہیں ہو سکی) اور اس کی بڑی وجہ قوت کے جائز اور ناجائز استعمال اور متعلقہ اقدام کے پیچھے کارفرما محرکات اور مقاصد کا اختلاف اور ان کا معتبر اور غیرمعتبر ہونا ہے۔ مگر کم از کم اس حصے کے بارے میں سب متفق ہیں کہ دہشت گردی (terrorism)کی روح سیاسی مقاصد کے لیے تشدد یا قوت کے استعمال کی دھمکی ہے۔

دہشت گردی کا مطلب خصوصاً سیاسی مقاصد کی خاطر پرُتشدد اور دھمکی آمیز طریقے اختیار کرنا ہے۔  (آکسفورڈ ریفرنس ڈکشنری)

امریکہ نے اس اتحادمیں کمزور ممالک کی ایک خاص تعداد کو جس طرح شامل کیا ہے۔اس تعریف کی روشنی میں ذرا بھی شبہہ نہیں کہ وہ خود دہشت گردی کی ایک قبیح مثال ہے۔ پاکستان سمیت بہت سے ممالک اس دھمکی کا نشانہ بنے ہیں اور جرأت اور بہادری کے بہت سے دعوے دار بش صاحب کی ایک ہی بھبکی پر سرنگوں ہو گئے‘ بقول غالب :

دھمکی میں مر گیا‘ جو نہ بابِ نبرد تھا
عشقِ نبرد پیشہ طلب گارِ مرد تھا

امریکہ اور جنرل مشرف کا موقف

افغانستان پر امریکہ کی جارحانہ فوج کشی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے اور اس کا کوئی تعلق ۱۱ستمبر کے واقعات سے نہیں۔ یہ اقدام سیاسی اخلاقیات ‘ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ صرف طاقت کی حکمرانی اور ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کی سیاست کی ایک مکروہ مثال ہے۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ یہ ایک نئے سامراجی دَور کی تمہید ہے۔ بہ ظاہر دعویٰ یہ ہے کہ:

     ۱- ۱۱ ستمبر کی دہشت گردی کا ذمہ دار اسامہ بن لادن اور ان کی تنظیم القائدہ ہے۔

     ۲- افغانستان کی طالبان حکومت نے ان کو اور ان کے گروہ کو پناہ دی ہوئی ہے۔ اس لیے طالبان ان کو بے چون و چراں امریکہ کے حوالے کر دیں ورنہ امریکہ طالبان کو طاقت کے بل پر تباہ و برباد کر دے گا۔

     ۳-  دہشت گردی کے ان مراکز کو ختم کر کے عالمی سطح پر دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ ہوگی۔

     ۴-  یہ امریکہ ہی نہیں پوری ’’مہذب دنیا‘‘ کے اہداف ہیں اور ان کے حصول کے لیے ان کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی تائید حاصل ہے۔

     ۵-  یہ دہشت گردی اور دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والے ممالک کے خلاف جنگ ہے‘ اسلام  یا مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ افغانستان کے عوام کے بھی خلاف جنگ نہیں ہے۔

جنرل مشرف نے اپنی ۱۹ ستمبر کی تقریر میں اور اس کے بعد کے بیانات اور انٹرویوز میں امریکہ کا ساتھ دینے کے فیصلے کے دفاع میں جو باتیں کہی ہیں‘ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ:

الف- فیصلے میں حق کی بالادستی ہونی چاہیے۔

ب- ملک کے مفاد کو اولیت حاصل ہو‘ یعنی اس کی سالمیت‘ معاشی ترقی اور عزت و وقار کی بلندی۔

ج- پاکستان دنیا میں تنہا نہ ہو بلکہ عالمی برادری کے ساتھ رہے۔

  د- اسلام کے عین مطابق ہونی چاہیے۔

یہ تقریر ۱۹ ستمبر کو ہوئی ہے لیکن امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ ۱۵ ستمبر ہی کو ہو گیا تھا۔ صدربش نے ۱۳ستمبر کو ’’اکیسویں صدی کی پہلی جنگ‘‘ کا اعلان کیا‘ ۱۴ ستمبر کو امریکی سینٹ نے دہشت گردی کے خلاف ہرممکن اقدام کا اختیار بش صاحب کو دیا اور ان کے پہلے ہی ٹیلی فون پر صدر مشرف نے ان کی تائید اور اس جنگ میں ان کے حلیف بننے کے ’’جرأت مندانہ‘‘ اور ’’دانش مندانہ‘‘ فیصلے کا اعلان کر دیا۔ فیصلہ ایک فردِ واحد کا تھا جس کی بہ ظاہر تائید ان کی اپنی نامزد کردہ کابینہ‘ سلامتی کونسل اور کورکمانڈروں نے کیا (اسے بھول جایئے کہ خود فوج میں اس کے ساتھ کیا اکھاڑ پچھاڑ کرنا پڑی اور اس کی کیا کیا داستانیں ملکی ہی نہیں ساری دنیا کی اخبارات میں آرہی ہیں) ۔پھر صدر صاحب کے بقول انھوں نے قومی زندگی کے مختلف رہنمائں سے مشورہ کیا اور اس طرح ان کے اس فیصلے کو اکثریت کی تائید حاصل ہو گئی۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ دلیل و برہان کی کسوٹی پر ان تمام دعووں اور خود امریکہ کے اہداف کا جائزہ لیا جائے اور حقائق اور صرف حقائق کی روشنی میں صحیح قومی اور ملی موقف کا تعین کیا جائے۔ ہمیں جنرل صاحب کی اس بات سے اتفاق ہے کہ قومی اُمور کا فیصلہ جذبات کی رَو میں بہہ کر نہیں کرنا چاہیے بلکہ  عقل و دانش‘ حکمت دین اور ملک و ملّت کے مفاد کو ہر چیز پر بالادستی ہونی چاہیے۔ البتہ ہم اس میں یہ اضافہ کریں گے کہ بیرونی دبائو اور خود اپنے سابقہ تجربات کو بھی فیصلہ کن مقام حاصل ہونا چاہیے۔ حضور پاکؐ کا ارشاد ہے کہ مومن فراست سے کام لیتا ہے اور ایک ہی سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا۔

تفتیش سے گریز

۱۱ ستمبر کے واقعات سے امریکہ کی اَنا پر جو بھی چوٹ پڑی ہو لیکن دنیا کے ۸۰ سے زیادہ ممالک کے ۶ہزار سے زائد معصوم انسانوں کی اس پیمانے پر ہلاکت ایک غیر معمولی واقعہ ہی نہیں انسانیت کے خلاف بھی ایک جرم ہے۔ جس طرح یہ اقدام امریکہ کے دستور اور بین الاقوامی قانون اور معاہدات کے تحت جرم ہے اسی طرح خود اسلامی قانون کے تحت بھی ایک جرم ہے۔ عالم اسلام کی تمام حکومتوں‘ تحریکوں اور علما نے شدید  اس کی مذمت کی۔ طالبان حکومت نے بھی اس کی اسی وقت مذمت کی اور خود اسامہ بن لادن نے اس سے لاتعلقی کا برملا اظہار کیا۔ اس کے باوجود اس حادثہ فاجعہ کے آدھ گھنٹے کے اندر سی این این نے اسامہ بن لادن کو ملوث کرنے کی کوشش کی اور ایک گھنٹے کے بعد اسرائیل کے سابق وزیراعظم باراک نے لندن میں بی بی سی کے ایک پروگرام میں ایک لکھی ہوئی تقریر میں اسامہ بن لادن اور عربوں کو ذمہ دار ٹھہرایا اور اس کے بعد سے کسی تحقیق‘ سائنسی تفتیش‘ قومی انکوائری یا جوڈیشیل کمیشن اور اس کی عدالتی کارروائی کے بغیر اُوپر سے نیچے تک سب نے ایک ہی راگ الاپنا شروع کر دیا کہ اس اقدام کی ذمہ داری اسامہ بن لادن اور القائدہ پر ہے اور افغانستان کی حکومت انھیں فی الفور غیر مشروط طور پر امریکہ کے حوالے کر دے۔

اس واقعے کو اب ۶ ہفتے ہو گئے ہیں لیکن اس ایک دعوے کے سوا‘ تحقیق و تفتیش کا کوئی دوسرا اقدام سامنے نہیں آیا ہے حالانکہ کینیڈی کی ہلاکت‘ اوکلاہاما کی تباہی‘ اور اسکول تک میں بچوں کے ہلاک کیے جانے کے واقعات کی باقاعدہ تفتیش ہوئی‘ کئی کئی کمیشن بنے ‘کھلی عدالتی کارروائی ہوئی‘ سینیٹ اور کانگرس کی کمیٹیوں نے اپنی اپنی تحقیقات کر کے ان کے نتائج پیش کیے لیکن ایک اتنے بڑے ‘ تباہ کن اور عالمی معیشت و سیاست کو متاثر کرنے والے واقعے کے اصل حقائق‘ اسباب و محرکات اور نتائج پر پردہ ڈالا جا رہا ہے اور سارا نزلہ اسامہ بن لادن پر گر رہا ہے جو اس سے اپنی برأت کا اظہار کر چکا ہے۔

اسامہ بن لادن اور اس کے رفقا پر دو مقدمے امریکی عدالتوں میں چل رہے تھے۔ ۵ سال سے اس کے خلاف وہ امریکی سراغ رساں ایجنسیاں سرگرم عمل ہیں جن پر ۵۰ بلین ڈالر سالانہ سرکاری خزانے سے خرچ کیا جا رہا ہے اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعے کی تیاری کم از کم دو سال سے ہو رہی تھی اور جہاز اغوا کرنے والوں (جو اب دنیا میں نہیں) کے علاوہ کم از کم ۵۰ مزید افراد اس میں شریک ہونے چاہییں مگر ان کا ابھی تک کوئی پتا نہیں۔ جن ۷۰۰ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ان سے بھی کوئی قابل ذکر چیز حاصل نہیں ہوئی ہے۔ جس مہارت‘ نظم و ضبط‘ اور ملک کے مختلف شہروں میں باہمی رابطے کے ذریعے یہ کام ہوا ہے وہ کسی باہر کے ادارے کے لیے کیسے ممکن ہے۔ خصوصیت سے ایسے ادارے کے لیے جو دس ہزار میل دُور ہو‘ جس کے لوگوں کی نقل و حرکت پر مسلسل نظر ہو‘ اور جس کی جڑیں اس ملک کے حساس اداروں میں نہ ہوں جہاں سے یہ کام ہوا ہے۔

انتھریکس کا الزام؟

حال ہی میں انتھریکس (Anthrax) کے معاملے میں بھی یہی ہوا کہ اسے پہلے اسامہ بن لادن کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کی گئی اور اب خود برطانوی حکومت کے کیبنٹ آفس سے حاصل کردہ ۱۶۰صفحات کی ایک رپورٹ  Deliberate Release of Chemical and Biological Agents سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ القائدہ کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔

خود بش ایڈمنسٹریشن کا داخلی سلامتی کا نیا ڈائرکٹر تھامس ایج کہتا ہے:

ایف بی آئی نے یہ معلوم کر لیا ہے کہ خطوط کہاں سے ڈاک میں ڈالے گئے تھے۔چونکہ انتھریکس کے لفافے ڈالنے کی کارروائی ۱۱ ستمبر کے قریب تھی‘ اس لیے شروع میں حکام نے یہ سمجھا کہ ان کا انتہاپسند مسلم بنیاد پرستوں غالباً اسامہ بن لادن اور اُن کی القائدہ تنظیم سے تعلق جوڑا جا سکتا ہے۔ لیکن گذشتہ چند دنوں میں رائے تبدیل ہو چکی ہے۔ تفتیش کار اس کے زیادہ قائل ہوتے جا رہے ہیں کہ کوئی ایک فرد یا گروہ جو امریکہ میں رہایش پذیر ہے‘ سفید پوڈر کا ذمہ دار ہے جس نے ایک برطانوی ایڈیٹر کی جان لے لی اور امریکی میڈیا کی سیاست اور معیشت کی سرگرمیوں کو جامد کر دیا۔ (دی انڈی پنڈنٹ‘ ۲۱ اکتوبر‘ ص ۱‘ ۳)

سوال یہ ہے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعے کی تحقیق کیوں نہیں ہو رہی۔ جتنے بھی امکانات ہیں ان سب کا جائزہ کیوں نہیں لیا جا رہا۔ سارا ملبہ صرف ایک شخص پر گرایا جا رہا ہے حالانکہ جو بھی شواہد سامنے آ رہے ہیں وہ اصل واقعے کو اور بھی پرُاسرار بنا رہے ہیں۔ اسامہ اور اس کے ساتھیوں کے پاس نہ وہ مہارت اور ٹکنالوجی تھی‘ نہ ملک میں ان کے اثرات اور ایسے اصحاب و اعوان تھے جو یہ کام انجام دے سکیں۔ خود امریکہ سے کوئی واضح  رابطے (linkages) سامنے نہیں آ رہے ہیں اور تازہ ترین رپورٹوں کی روشنی میں خود یورپ کے رابطے بھی غیرثابت شدہ ہیں۔ برطانیہ کے بارے میں تو ۲۳ اکتوبر کے گارجین نے واضح رپورٹ دی ہے کہ اس ملک میں القائدہ کا کوئی باضابطہ حلقہ یا گروہ موجود ہی نہیں۔ پھر جو سوالات مبینہ اغوا کنندگان کے بارے میں سامنے آئے ہیں اور جس طرح ان کی شناخت کو خود سعودی عرب کے سرکاری حلقوں نے چیلنج کیا ہے‘ نیز ان کے طرز بودوباش اور عیاشیوں اور بدکاریوں کے بارے میں جو شہادتیں سامنے آئی ہیں وہ القائدہ سے ان کے تعلق کے لیے کوئی جواز فراہم نہیں کرتیں۔ اسی طرح ایک نہیں کئی ماہرین نے جو سب امریکی ہیں چیلنج کیا ہے کہ چھوٹے سویلین جہازوں پر تربیت لینے والے شوقیہ پائلٹ ۷۵۷ جہازوں کو ہوا میں اڑتے ہوئے اصل ہوابازوں کو مار کر یا ہٹا کر قابو نہیں کر سکتے اور نہ اتنے ٹھیک ٹھیک نشانے سے نیویارک جیسے شہر میں اتنے چھوٹے ‘ متعین اور ہزاروں فلک بوس عمارتوں کے جنگل میں گھری ہوئی بلڈنگ سے ٹکرا سکتے ہیں۔ وہ انجینیرجو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی تعمیر میں شریک تھے ان کے بیانات انٹرنیٹ پر آئے ہیں کہ صرف جہاز سے ٹکرائو اور جہاز کے تیل کی آگ سے ان عمارتوں کی تباہی ممکن نہیں۔ اس پورے معاملے کے پیچھے کچھ اور ہے جس کی پردہ کشائی کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی۔ تمام متعلقہ ہوائی اڈوں کے واچ ٹاور سے اغوا شدہ جہازوں کی مانٹیرنگ اور پائلٹ سے کی جانے والی گفتگو بھی ایک معمّا ہے۔ بیشتر معلومات غائب ہیں۔ چار میں سے صرف ایک جہاز کا بلیک بکس ملا ہے ‘ باقی کے بلیک بکس غائب ہیں۔ ۶ ہزار افراد کے مرنے کی اطلاع ہے مگر لاشیں صرف ۶۰ کے قریب نکلی ہیں۔ بلڈنگ جس طرح تباہ ہوئی ہے یعنی اوپر سے نیچے اور ادھر ادھر نہیں گری‘ یہ بھی ایک معمّا بنا ہوا ہے۔ ملک میں کہرام ہے اور دنیا کو تہ و بالا کیا جا رہا ہے مگر ان معاملات کی کوئی تحقیق و تفیش نہیں کی جا رہی اور محض مفروضوں پر اسامہ بن لادن کو ملزم ٹھہرایا جارہا ہے۔ صدربش صاحب پوری رعونت سے کہتے ہیں کہ کسی تفتیش‘ کسی عدالتی عمل‘ کسی شہادت اور مقدمہ چلانے کی ضرورت نہیں۔ اسامہ مجرم ہے۔ ہم جانتے ہیں وہ guilty ہے۔ اسے ہمارے حوالے کرو ورنہ ہم تم کو تہس نہس کر دیں گے۔

اسامہ کے خلاف شواہد کی حقیقت

برطانوی وزیراعظم نے جو شواہد نامہ (evidence) پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا ہے وہ مضحکہ خیز ہے۔ ۲۳صفحات کی اس رپورٹ میں جو ۷۰ نکات پر مشتمل ہے پہلے ہی پیراگراف میں اعتراف ہے کہ

یہ دستاویز اسامہ بن لادن کے خلاف مقدمے کو کسی قانونی عدالت میں پیش کرنے کے لائق بناتی نظر نہیں آتی۔

رابرٹ فسک لکھتا ہے:

امریکیوں کو اسے مشرق وسطیٰ میں منوانے میں سخت دقت پیش آ رہی ہے۔ اس کا امکان نہیں ہے کہ برطانوی حکومت کی دستاویز‘ جس میں ۱۱ ستمبر کی ہلاکتوں کی ذمہ داری اسامہ بن لادن پر ’’ثابت‘‘ کی گئی ہے‘ عرب دنیا کو مغرب کی دہشت گردی کے خلاف جنگ پر مجتمع کر سکے۔ مذکورہ دستاویز میں ۷۰ میں سے صرف ۹ نکات عالمی تجارتی مرکز اور پینٹاگون پر حملوں سے متعلق ہیں اور اس میں بھی ’’قیاس‘‘ پر انحصار کیا گیا ہے نہ کہ شواہد پر ۔ (دی انڈنٹ پنڈنٹ‘ ۵ اکتوبر ۲۰۰۱ء)

روزنامہ گارجین ان شواہد کے بارے میں لکھتا ہے:

۱۱ ستمبر کی دہشت گردی کے بارے میں اسامہ بن لادن کے باقاعدہ مقدمے کا سامنا کرنے کا بعیداز امکان واقعہ اگر پیش آ بھی جائے تو اُس کے خلاف جو مقدمہ برطانوی حکومت نے گذشتہ دنوں شائع کیا ہے قانونی نقطہ نظر سے اس میں کوئی جان نہیں ہے۔ بش انتظامیہ کے اس اعلان کو کہ وہ بن لادن کے خلاف ’شواہد‘ پیش کرے گی (۵ اکتوبر ۲۰۰۱ء)۔حقیقت یہ ہے کہ مسٹر بلیر کا مقدمہ دو لفظوں پر ختم ہو جاتا ہے: ’’مجھ پر اعتماد کرو‘‘۔

اور لطف یہ ہے کہ اب بش انتظامیہ اپنے دعوے سے اعلانیہ پھر گئی ہے۔ اب اس کا موقف ہے کہ کسی  شہادت یا ثبوت کی ضرورت نہیں‘ حالانکہ خود کولن پاول نے وعدہ کیا تھا کہ شہادتیں عوام کو دکھائیں گے۔ اخبارات صاف لکھ رہے ہیں کہ کوئی شہادت موجود ہی نہیں‘ دکھائیں گے کیا؟

انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون (۸- اکتوبر)نے نیویارک ٹائمز کا اداریہ نقل کیا ہے کہ گواہی تو موجود نہیں مگر پھر بھی یہ کیس قابل یقین ہے‘ عنوان ہے:  "A Believable Case"  لیکن اداریے میں جن حقائق کو تسلیم کیا گیا ہے وہ یہ ہیں:

یہ رپورٹ کوئی ۱۰۰ فی صد یقینی ثبوت فراہم نہیں کرتی۔ ٹیلی فون پر ہونے والی گفتگو کا کوئی ایسا ریکارڈ موجود نہیں ہے جس میں مسٹر بن لادن نے حکم دیا ہو کہ امریکی جہاز اغوا کر لیے جائیں… مسٹربلیر نے ساری دنیا کو دعوت دی کہ میری بات پر یقین کر لیں اور خفیہ اداروں سے حاصل کردہ رپورٹیں قابل اعتماد ہیں…یہ برطانوی رپورٹ امریکی برطانوی خفیہ ایجنسیوں کے فراہم کردہ شواہد‘ مسٹر بن لادن کے پبلک اعلانات اور القائدہ کے ارکان کے خلاف ماضی کی عدالتی کارروائیوں سے مرتب کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ استغاثہ دائر کرنے کے لیے قانونی تقاضے پورے کیے جائیں۔

امریکی ہفت روزہ ٹائم کا مضمون نگار The Case Against Evidence کے عنوان سے ایک جائزہ پیش کرتے ہوئے بین السطور میں اس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ فی الحقیقت کوئی ثبوت موجود نہیں:

برطانیہ کے انڈی پنڈنٹ کے مدیر اس امر کی فیصلہ کن شہادت کے منتظر ہیں کہ اسامہ بن لادن نیویارک اور واشنگٹن پر ہولناک حملوں کے ذمہ دار ہیں۔ آبزرور لکھتا ہے: ہمیں یہ تسلیم کر لینا چاہیے معمولی سا شبہہ‘ جسے کوئی وزن دیا جا سکتا ہے‘ اسامہ بن لادن کی طرف اشارہ کر رہا ہے  لیکن پھر فوراً ہی یہ لکھا ہے کہ ’’شبہہ اور ثبوت کی ذمہ داری بہت مشکل مسئلے ہیں‘‘۔ ایڈورڈ سعید نے لی مانڈے میں لکھا ہے: ’’آج کے دن تک کوئی ثبوت موجود نہیں ہیں‘‘۔ واشنگٹن میں جرمنی کے سفیر نے گذشتہ ہفتے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ اپنے اتحادیوں کے سامنے بن لادن کے خلاف ثبوت پیش کرے۔ انھوں نے کہا: ’’تھوڑے سے ثبوت کی فراہمی بھی بہت زیادہ مفید ہوگی‘‘۔ (۸ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۹۸۰

جو ’’حقائق اور شواہد‘‘ برطانیہ کے وزیراعظم نے امریکہ کی سی آئی اے اور برطانیہ کی ایم آئی ۵ کی چار ہفتے کی تحقیق کے بعد پیش کیے ہیں اس کو گارجین کے کالم نگار جارج مون بیوٹ  اور انڈی پنڈنٹ کے سینیر مضمون نگار رابرٹ فسک نے تار تار کر دیا ہے۔ جارج مون بیوٹ تو یہاں تک لکھتا ہے کہ:

میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ خفیہ ایجنسیوں کے کارندوں نے اس کے خلاف پہلے ایک تھیوری جوڑ جاڑ کر بنائی اور پھر ان حقائق کو تلاش کیا جو اس میں فٹ ہونے کے لیے مطلوب ہیں--- میرا خیال ہے کہ بن لادن کے خلاف کچھ شبہہ پیدا کرنے والے نئے ثبوت طلب کرنے کا خاصا جواز ہے۔

مون بیوٹ صدر جارج بش کے عزائم کو صاف لفظوں میں یوں بے نقاب کرتا ہے کہ:

صدر بش نے عظیم الشان موت کا دستہ تیار کر کے روانہ کیا ہے تاکہ وہ ماوراے عدالت سزائے موت نافذ کر دے۔

ایک طرف تو یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف دیکھیے کیا منظر نامہ ہے۔

جنرل مشرف ایک فرد یا ایک جماعت نہیں‘ ایک پوری قوم کے سفاکانہ قتل میں جنرل مشرف نہ صرف شریک ہو گئے ہیں بلکہ یہ سرٹیفیکیٹ بھی عنایت فرما دیا ہے کہ وہی نام نہاد ثبوت جنھیں ساری دنیا کے غیر جانب دار قانون دان اور سیاسی مفکر اور مبصر ردّ کر رہے ہیں اور ثبوت کی جگہ محض شبہات قرار دے رہے ہیں وہ اسامہ بن لادن ہی نہیں طالبان کا جرم ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون اپنے اداریے میں جنرل مشرف کے اس طرز عمل پر تعجب بھری خوشی کا اظہار کیے بغیر نہیںرہ سکا‘ جو ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔

مسلم دنیا کے لیے یہ مسئلہ خصوصی طور پر بہت حساس ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کی پرزور ‘ کھلے عام توثیق بہت اہمیت رکھتی ہے۔ جمعرات کو مشرف حکومت برطانیہ سے بھی ایک قدم آگے بڑھ گئی اور اعلان کیا کہ جو ثبوت واشنگٹن نے دکھائے ہیں وہ کسی عدالت میں بن لادن کے خلاف مقدمہ چلانے کے جواز کے لیے کافی ہیں۔ (۸ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۱۲)

افسوس کا مقام ہے کہ ۱۰- اکتوبر کو اسلامی وزراے خارجہ کی کانفرنس میں قطر کے امیر شیخ محمدالثانی توبڑے ادب اور عجز سے کہتے ہیں کہ اسامہ بن لادن کے ۱۱ ستمبر سے تعلق کو ثابت کرنے کے لیے مزید ٹھوس ثبوت (more concrete evidence)ضرورت ہے جب کہ ہمارے جرنیل فرماتے ہیں کہ بس یہی ’’ثبوت‘‘ پڑھا دیا وہ ایک قوم کو سولی پر چڑھانے کے لیے کافی ہیں۔ اکانومسٹ کا یہ تبصرہ پاکستان کی قیادت کے منہ پر طمانچے سے کم نہیں۔

اب تک ۱۹ مردہ ہائی جیکرز سے ملنے والے سراغوں پر ۵۴۰ تفتیشی انٹرویو کیے گئے ہیں‘ ۳۸۷---- ۴ ہزار ۴ سو عدالتی سمن جاری ہوئے ہیں اور ۵۰۰ سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اور یہ وہ ہے جو امریکہ کی حدود کے اندر ہوا ہے۔ دیگر ۲۵ ملکوں میں مزید ۱۵۰ افراد گرفتار کیے گئے ہیں تاہم ہائی جیکروں اور اسامہ بن لادن کے درمیان کوئی ٹھوس رابطہ ابھی عوام کے سامنے آنا باقی ہے۔ (۶ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۵۲)

اب تک کی ساری گواہیوں اور قرائنی شہادتوں کا نتیجہ اکانومسٹ یہ بتاتا ہے کہ:

ان میں سے کوئی چیز بھی اسامہ بن لادن کو یقینی طور پر سب سے بڑا ولن نہیں بنا سکتی۔ ابھی تک کسی نے بھی کسی بات کا اعتراف نہیں کیا ہے۔

بھارت تو اسامہ بن لادن اور طالبان کے خلاف پیش پیش ہے۔ اس کے اخبارات اور رسائل بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں اور امریکی ایف بی آئی کی ۴۰ ہزار تفتیشی سراغوں اور ایف بی اے کے ۴ ہزار ایجنٹوںکی دن رات کی سرتوڑ کوشش کے باوجود کچھ زیادہ معلوم نہیں ہوسکا ہے۔ (still does not reveal much)

اسامہ کے ملوث ہونے کے بارے میں الزامات تو بہ افراط ہیں لیکن شواہد ناقابل ذکر حد تک شاذ ہیں۔ (اکنامک اینڈ پولٹیکل ویکلی‘ ۶ اکتوبر ‘ ص ۳۸۰۸)

اسی اشکال کا اظہار بھارت کے وقیع مجلے فرنٹ لائن کے مضمون نگار نے کیا ہے بلکہ پردین سوامی نے لی مانڈے کے حوالے سے مشہور فرانسیسی محقق اور افغانستان کے اُمور پر چوٹی کے ماہر اور کئی کتابوں کے مصنف کی یہ رائے نقل کی ہے:

اسامہ بن لادن ساری دنیا کی انقلابی اسلامی تحریکوں کا ماسٹر مائنڈ نہیں ہے۔ اس کو ایسے جنگجوئوں کو ٹریننگ دینے والا سمجھنا چاہیے جو بعد میں خود اپنے عمل کا میدان منتخب کرتے ہیں۔ (فرنٹ لائن‘ ۱۲ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۱۸)

اور یہی تجزیہ ہے مشہور مصری سیاسی مبصر اور سابق وزیر محمد ہیکل کا جو روزنامہ گارجین میں اسٹیفن موس نے انٹرویو کی شکل میں شائع کیا ہے۔

اس نے یہ سوال بھی کیا کہ آیا اسامہ بن لادن اور اس کا القائدہ نیٹ ورک ۱۱ ستمبر کے حملوں کے واحد ذمہ دار قرار دیے جا سکتے ہیں‘ جب کہ جو کچھ ثبوت پیش کیے گئے ہیں وہ کسی بھی طرح اطمینان بخش نہیں۔ ’’بن لادن اس پائے کی کارروائی کے لیے صلاحیت نہیں رکھتا۔ جب میں بش کو القائدہ کے بارے میں یہ کہتے ہوئے سنتا ہوں کہ جیسے یہ نازی جرمنی ہے‘ یا سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی ہے تو مجھے ہنسی آتی ہے‘ اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ حقیقت کیا ہے۔ بن لادن کئی برس سے زیرنگرانی ہے۔ اس کی ہر ٹیلی فون کال مانٹیر کی جاتی ہے۔ القائدہ کے نیٹ ورک میں امریکی‘ پاکستانی‘ سعودی اور مصری خفیہ ایجنسیاں گھسی ہوئی ہیں۔ جس کارروائی میں اس درجے کے نظم اور باریک بینی کی ضرورت ہو‘ وہ اس کو راز نہیں رکھ سکتے تھے‘‘۔ ہیکل ان باتوں کو بہت کم وزن دیتا ہے کہ منصوبہ بندی میں زیادہ مرکزی کردار بن لادن کے نائب مصری اسلامی جہاد کے قائد ایمان الزہراوی نے انجام دیا ہو۔ ’’وہ خطرناک آدمی ہے اور سادات کے قتل میں شریک تھا لیکن وہ کوئی بڑا سوچنے والا یا منصوبہ ساز نہیں ہے۔ سادات کے قتل میں بھی اس نے مرکزی کردار ادا نہیں کیا۔ اس منصوبے میں بھی سطحی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور یہ صرف خوش قسمتی کی وجہ سے کامیاب ہوا تھا۔ الجزیرہ سیٹلائٹ سے ان کے انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے کہ بن لادن اور زہراوی صرف اپنے وجدان پر انحصار کرتے ہیں‘‘۔ ہیکل کو یقین ہے کہ ۱۱ ستمبر کے سانحے کے بارے میں ابھی تک کئی وضاحتیں سامنے نہیں آئی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ حقیقت کچھ بھی ہو اب تک جو اسباب بیان کیے گئے ہیں وہ جلدبازی اور غیرمعمولی سہل پسندی کا مظہر ہیں اور غیر فیصلہ کن ہیں۔

’’میں سمجھتا ہوں کہ امریکی انتظامیہ کو امریکی عوام کے غیظ و غضب کو ٹھنڈا کرنے کے لیے فوراً ہی کوئی دشمن مطلوب تھا جس کو ہدف بنایا جا سکتا۔ مگر میری خواہش ہے کہ وہ واقعی کچھ حقیقی ثبوت لاتے۔ مسٹر بلیر نے دارالعوام میں جو کچھ کہا میں نے اسے بڑے غور سے پڑھا ہے۔ انھوں نے ایسی فضا بنائی کہ یہ محسوس ہو کہ وہ کوئی ثبوت پیش کرنے والے ہیں۔ لیکن یہ کوئی ثبوت نہیں ہے‘ کوئی نہیں۔ یہ سب اخذ کردہ نتائج ہیں۔ کولن پاول نے سب سے زیادہ دیانت داری کا مظاہرہ کیا۔ اس نے کہا کہ اگر ثبوت نہیں تو کوئی بات نہیں۔ اس نے دوسرے بہت سے ایسے جرائم کیے ہیں جن کی وجہ سے اس کے خلاف کارروائی کرنا ضروری ہے۔ لیکن یہ اس چینی ضرب المثل کی طرح ہے کہ اپنی بیوی کو ہر روز مارو‘ اگر تم وجہ نہیں جانتے‘ وہ تو جانتی ہے۔ آپ اس طرح نہیں کرسکتے‘‘۔ (گارجین‘ ۱۰ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۶)

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے پاس کوئی حقیقی شہادت موجود ہی نہیں ہے۔ جو کچھ شہادت کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے وہ صرف شبہات کا مجموعہ ہے اور اس کی جو مجموعی تصویر اُبھرتی ہے وہ پراگندہ‘ خام‘ تشنہ‘ مفروضوں پر مبنی‘ غیر مربوط‘ تضادات سے پرُ‘ ناقابل اعتماد اور محروم ثبوت ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ہم ساری معلومات ظاہر نہیں کر سکتے لیکن یہ اصول انصاف‘ بنیادی حقوق اور نظام قضا کے خلاف ہے۔ کسی کو یہ اختیار نہیں کہ مخدوش اور ناقابل چیلنج معلومات کی بنیاد پر‘ دفاع اور جرح و تعدیل کے حق کے بغیر کسی بھی شخص یا گروہ کو ملزم ہی نہیں مجرم قرار دے اور پھر خود ہی اسے سزا سنا کر اس سزا پر عمل بھی کر ڈالے۔ صرف اسی کو نہیں بلکہ یہ ظالمانہ دعویٰ بھی کرے کہ جو ممالک بھی اس کی نگاہ میں اس کے مطلوبہ افراد کو پناہ دیں گے۔ وہ ملک بھی گردن زدنی ہیں اور ان کے عوام بھی عمومی تباہی (mass destruction)کے ہتھیاروں کا نشانہ بنائے جائیں گے۔ سچی بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ جو کچھ معلومات باہر لائی گئی ہیں اس کے علاوہ کوئی پیش کیے جانے کے لائق معلومات یا شہادتیں ہیں ہی نہیں اور محض اپنی اَنا اور جذبہ انتقام کی تسکین‘ اپنے سلامتی اور خفیہ معلومات کے نظام کی ناکامی اور اپنے عوام کے جذبات کو غلط رخ پر ڈالنے کے لیے کشت و خون کا یہ بازار گرم کیا جا رہا ہے اور اس کے ذریعے کچھ دوسرے مقاصد ہیں جن کو حاصل کرنے کے لیے زمین ہموار کی جا رہی ہے ورنہ معقول راستہ صرف ایک تھا اور وہ یہ کہ اگر اسامہ بن لادن اور ان کے القائدہ کے بارے میں کوئی مسکت معلومات اور شواہد تھے تو فوری طور پر ایک پارلیمانی یا عدالتی کمیشن بنایا جاتا جو آزاد تحقیق و تفتیش اور کھلی سماعت کے ذریعے کیس کا جائزہ لیتا اور اگر کوئی ٹھوس شہادت سامنے آتی تو عدالتی عمل کے ذریعے ملزموں کو یا امریکہ کی کسی اعلیٰ عدالت میں مقدمے کے لیے تحویل ملزمان کے معروف بین الاقوامی ضابطے کے تحت حاصل کیا جاتا یا متعلقہ حکومتوں کے ذریعے کسی عالمی عدالت اور غیر جانب دار کی عدالتی کمیشن کے سامنے مقدمہ چلایا جاتا۔ طالبان نے بار بار شواہد کا مطالبہ کیا اور یہاں تک کہا کہ ہم غیر جانب دار مسلمان ممالک کی اعلیٰ عدالت یا اعلیٰ عدالتی کمیشن کے آگے اسامہ کو پیش کرنے کو تیار ہیں لیکن صدر بش کی ہٹ دھرمی‘ رعونت اور سامراجی عزائم نے انھیں کسی معقول راستے کی طرف آنے ہی نہیں دیا بلکہ ان کا ایک ہی جواب تھا:

جب میں کہتا ہوں: کوئی مذاکرات نہیں‘ میرا مطلب یہی ہوتا ہے: کوئی مذاکرات نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ وہ مجرم ہے۔ اسے حوالے کر دو۔ جرم یا بے گناہی پر گفتگو کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ (انڈی پنڈنٹ‘ ۱۵ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۱)

حالانکہ خود برطانوی پارلیمنٹ کے سینیر ارکان (مثلاً: ٹیم ڈی لییل جو پارلیمنٹ کے سب سے معمر ممبر ہیں اور دارالعوام کے فادر کہلاتے ہیں) کہہ رہے ہیں:

۱۱ ستمبر کو نیویارک میں دہشت گرد حملوں کا برطانیہ میں ٹھیک وہی ردّعمل ہوا جو اسامہ بن لادن چاہتا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف اینگلوامریکی پیش قدمی ساری دنیا میں برطانوی امریکی شہریوںپر حملوں کی صورت میں منتج ہو سکتی ہے۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو اقوام متحدہ کو سامنے لایا جائے اور اسے ایک طرف نہ رکھا جائے۔ اب بھی کوشش ہونا چاہیے کہ طالبان کو پیش کش کی جائے کہ اسامہ بن لادن کو اقوام متحدہ کے زیراہتمام کسی عدالت میں پیش کر دیں جس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں طرح کے جج ہوں۔ (دی نیوز انٹرنیشنل‘ ۹- اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۵)

بھارتی رسالے فرنٹ لائن نے بھی ادارتی کالموں میں اسے امریکہ کی غیر منصفانہ جنگ (American's Unjust War) قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ:

اس خوف ناک جرم کا صحیح ردّعمل یہ ہو سکتا تھا کہ ارتکاب جرم کرنے والوں کو سخت انصاف کے حوالے کرنے لیے ہر طرح کی کوشش کی جاتی۔ دنیا کو قائل کرنے کے لیے سب ثبوت تلاش کر کے سامنے لا کر‘قانون کی حکمرانی کے تحت اور قانونی عدالتوں کے ذریعے سامنے لائے جاتے‘ اقوام متحدہ کے اجتماعی ادارے کے ذریعے کارروائی کی جاتی۔ مگر اس طرح کے منصفانہ ردّعمل کا سوال ہی پیدا نہیں ہو رہا۔ امریکہ جو کچھ ہے‘ جو کچھ وہ کرنے کا عادی ہے‘ واحد سوپر طاقت ہونے کا اسے جو غرہ ہے اور اس کے بین الاقوامی کردار کی وجہ سے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہو رہا۔ (۱۲ اکتوبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۱۸)

دسیوں اخبارات و رسائل اور ان کے سیاسی مبصر اس رائے کا اظہار کر رہے ہیں لیکن صدر بش ‘ وزیراعظم بلیر اور ان کے شریک کار جنگ پر تلے ہوئے ہیں اور افغانستان پر آگ اور خون کی بارش برسا رہے ہیں۔ ایک ایسے ملک کو جس میں نہ سڑکیں ہیں اور نہ ریلوے لائن‘ جہاں بجلی‘ پانی اور خوراک کی سہولتیں بھی میسر نہیں‘ جن کی کوئی فضائیہ نہیں‘ ان پر اپنی فضائی برتری قائم کرکے فتح کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔ محدود و متعین نشانوں پر حملے (targetted bombing) کے نام پر شہر اور دیہات ہی نہیں‘ مساجد‘ مدرسے‘ شفاخانے اور یواین او اور ریڈکراس کے ڈپو تباہ کیے جارہے ہیں۔ بمباری کے اڑھائی ہفتوں میں تقریباً ڈیڑھ ہزار سے زیادہ بے بس انسان شہید ہو چکے ہیں لیکن آتش انتقام ہے کہ سرد ہونے کا نام نہیں لیتی۔ پاکستان کے جرنیل صدر اس خون ریزی میں برابر کے شریک ہیں۔ اس لیے کہ جس حملے کو وہ مختصر اور بہ ہدف (short and targetted) کہہ رہے تھے اور جس کی ضمانتوں کے وہ مدعی تھے اس کا پول پہلے ہی دن کھل گیا جب بش صاحب نے غضب ناک ہو کر کہا کہ صدر مشرف کو کس نے یہ ضمانت دی ہے۔ ہم جب تک چاہیں گے حملے کریں گے جو سردی‘ گرمی بلکہ کئی برسوں تک بھی پھیل سکتے ہیں۔ اس شاہی اعلان کے بعد ہمارے جرنیل  صدر ’’اسی تنخواہ پر‘‘ کام کرتے ہوئے بش صاحّ کی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔

افغانستان کا مبنی برحق موقف

دنیا کے ہر آزاد ملک کا حق ہے کہ اپنے کسی شہری کو یا جسے پناہ دے اسے مناسب عدالتی کارروائی کے بغیر کسی دوسرے ملک کے حوالے نہ کرے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے ملک کو مطلوب ہے تو اس کا ایک ہی جائز طریقہ ہے کہ اخلاق اور بین الاقوامی قانون اور ضابطے کے مطابق باقاعدہ عدالتی عمل کے ذریعے اسے طلب کیا جائے۔ اور اس صورت میں بھی جس ملک کے شہری کو طلب کیا جا رہا ہے اس کی عدالت فراہم کردہ شہادتوں کی بنیاد پر اپنا اطمینان کرنے کے بعدہی اسے منتقل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے کی مجاز ہوتی ہے۔ برطانیہ جو اس مہم میں امریکہ کا شریک ہے خود اپنے قانون اور روایات کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ چلّی کے سابق سربراہ جنرل پنوشے برطانیہ علاج کے لیے آئے تھے کہ اسپین نے ان کو انسانیت کے خلاف جرائم کی پاداش میں حوالے کرنے کا مطالبہ کردیا۔ دو بار مقدمہ اعلیٰ عدالتوں سے گزر کر ہائوس آف لارڈز میں گیا اور بالآخر لارڈز نے طے کیا کہ ان کو چلّی واپس بھیج دیا جائے‘ اسپین کے حوالے نہ کیا جائے۔ لطف یہ ہے کہ بن لادن کے لیے تو برطانیہ نے بھی امریکہ کے ساتھ اپنی فوج بھیج دی ہے اور پہلے ہی دن سے ہوائی حملوں میں شریک ہے جبکہ اپنے ملک میں آج بھی یہ کیفیت ہے کہ حقوق انسانی کے یورپین کنونشن کے تقاضوں کے پیش نظر ۱۱ ستمبر ہی کے ایک ملزم کو جو جہاز کے اغوا کے سلسلے میں مطلوب ہے اس لیے حوالے نہیں کر رہا کہ امریکہ میں موت کی سزا ہے جبکہ یورپی قانون کاتقاضا ہے کہ جس ملک میں موت کی سزا ہو وہاں کسی ملزم کو تحویل میں نہ دیا جائے۔ امریکہ اور برطانیہ میں اس پر ردّ و کد ہو رہی ہے۔ یورپ کے ایک نمایندے کا کہنا ہے کہ:

ہم اس لڑائی میں مکمل طور پر امریکہ کے ساتھ ہیں لیکن ہم سزاے موت کے مخالف ہیں اور اس میں کوئی استثنا نہیں ہے۔ (دی سنڈے ٹیلی گراف‘ ۷ اکتوبر ۲۰۰۱ء)

یورپ کے ممالک ’’مہذب‘‘ ہیں اس لیے ان کو حق ہے کہ اپنے قانون کی بالادستی قائم رکھیں مگر افغانستان‘ پاکستان اور دوسرے مشرقی ممالک ’’غیر مہذب‘‘ ہیں‘ ان کے ملکی قانون‘ مذہب اور روایات کی کوئی حقیقت نہیں۔ امریکہ کو حق ہے کہ پاکستان ہو یا فلپائن اپنے مطلوبہ افراد کو زور و زبردستی کے ذریعے حاصل کر لیں بلکہ پانامہ کے صدر کو ۲۵ ہزار فوج بھیج کر اغوا کر لے اور پھر اپنے ملک میں مقدمہ چلائے مگر دوسرے ممالک کسی امریکی پر اپنے ملک میں کسی جرم کی پاداش میں بھی مقدمہ نہ چلا سکیں۔ اگر اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت قائم ہونے والی عدالت کے ہر فیصلے کے احترام کو چارٹر کے ذریعے ارکان ممالک پر لازم کیا جائے تو امریکہ جب چاہے یہ کہہ کر ماننے سے انکار کر دے کہ ہم اس معاملے میں کورٹ کے دائرہ اختیار کو تسلیم نہیں کرتے جیسا کہ ۱۹۹۶ میں امریکہ نے نکاراگوا میں امریکی فوجی مداخلت کے سلسلے میں عدالت کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ صریح بین الاقوامی غنڈا گردی ہے۔ اسے کسی مہذب ملک کا طریقہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

افغانستان اپنے اقتداراعلیٰ (sovereign)کے اس حق کے لیے سینہ سپر ہے کہ جس شخص کو اس نے پناہ دی ہے اسے کسی واضح ثبوت اور عدالتی عمل کے بغیر محض امریکہ کے مطالبے پر امریکہ کے حوالے نہیں کیا جاسکتا۔

افغانستان کے خلاف امریکہ کی موجودہ جنگ ایک صریح جارحانہ کارروائی ہے جس میں صرف طاقت کے بل پر وہ اقوام متحدہ کے چارٹر‘ جنیوا کنونشن اور بین الاقوامی ضابطے اور اخلاقی اقدار کوپامال کر رہا ہے۔ ہم نے تفصیل سے ثابت کیا ہے کہ امریکہ بن لادن اور القائدہ کے خلاف کوئی قابل قبول اور معتبر شہادت پیش نہیں کر سکا ہے اور صرف دھونس اور تشدد کے ذریعے اسے حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جسے کسی صورت میں بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔

بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی

اس بہانے اس نے افغانستان پر جوفوج کشی کی ہے وہ صریح طور پر ریاستی دہشت گردی اور اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

قانون کا یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ کسی دوسرے فرد یا ریاست کو کسی اور کے جرم کی پاداش میں سزا نہیں دی جا سکتی خواہ وہ جرم ثابت بھی ہو چکا ہو۔ جرم میں اعانت (abetment)اور کسی کو پناہ دینا دو بالکل مختلف اُمور ہیں‘ خصوصیت سے جب کہ جرم ثابت بھی نہ ہوا ہو اور نہ کوئی فیصلہ کن شہادت موجود ہو۔ محض ایک ایسے شخص کا کسی ملک میں ہونا جو کسی دوسرے ملک کو مطلوب ہے‘ کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ ایک دوسرے ملک پر حملہ آور ہو جائے۔ انٹرنیشنل لا کمیشن نے اس سلسلے میں واضح قوانین وضع کیے ہوئے ہیں جو دنیا کے تمام ممالک بشمول امریکہ اور برطانیہ قبول کر چکے ہیں۔ اس قانون کی دفعہ ۱۱ کہتی ہے:

ایک فرد یا گروہ کا ایسا طرزعمل ‘ جو کسی ریاست کی جانب سے نہ ہو‘ بین الاقوامی قانون کے تحت ریاست کا اقدام نہیں سمجھا جائے گا۔

اس طرح‘ اس کی دفعہ ۱۴ میں کہا گیا ہے:

کسی ایسی باغی تحریک کے کسی حصے کا عمل‘ جو کسی ریاست کی حدود میں‘ یا اس کے زیرانتظام کسی دوسرے خطے میں ہو‘ بین الاقوامی قانون کے تحت ریاست پر الزام نہیں سمجھا جائے گا۔

ہم نے نکاراگوا کی حکومت کے امریکہ کے خلاف جس مقدمے کا ذکر اُوپر کیا ہے‘ اس میں چند اقدامات کے بارے میں امریکہ کو مورد الزام اور ذمہ دار قرار دیا گیا تھا مگر کچھ دوسرے معاملات میں عدالت نے امریکہ کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا تھا اور وہ اسی اصول کے تحت تھا۔ اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ:

عدالت کی رائے ہے کہ امریکہ نے نکاراگوا کی کی کنٹرا (contra) افواج میں ایک ہدایت نامہ تیار کر کے تقسیم کر کے ایسے اقدامات کی حوصلہ افزائی کی ہے جو انسان دوستی کے عمومی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ لیکن عدالت کوئی ایسی بنیاد نہیں پاتی کہ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ان اقدامات کو امریکہ کے اقدامات قرار دے سکے۔

ان اصولوں کی روشنی میں صاف ظاہر ہے کہ اگر افغانستان میں مقیم کسی فرد نے کوئی ایسا اقدام کیا ہے یا کوئی ایسا اقدام اس سے منسوب کیا جا رہا ہے جو انسانیت کے خلاف ایک جرم ہے تب بھی اس کی ذمہ داری افغانستان کی حکومت پر نہیںڈالی جا سکتی۔ واضح رہے کہ بین الاقوامی قانون کے ان اصولوں کو اس لیے مرتب کیا گیا ہے کہ کوئی بھی حکومت‘ خصوصیت سے جن کے پاس طاقت ہے‘ ایسے اقدامات کا سہارا لے کر افراد کے جرائم کے لیے ریاست کو طاقت کے من مانے استعمال (arbitrary use) کا نشانہ نہ بنا ڈالیں۔ اس راستے کو روکنے کے لیے یہ قوانین بنائے گئے ہیں لیکن امریکہ نے ان کو صریحاً نظرانداز کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر کے تقاضے

اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد ہی ریاستوں کی طرف سے یک طرفہ اور من مانی فوجی کارروائیوں کو روکنا تھا۔ چارٹر کی دفعہ ۵۱ میں خود حفاظتی (self defence) کا حق دیا گیا ہے لیکن اسے کسی بھی دلیل کے ذریعے دوسرے ممالک پر فوج کشی کے حق میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ اقوام متحدہ کا چارٹر حسب ذیل بنیادوں پر قائم ہے:

۱- آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے تحفظ دینے کے لیے۔

۲- مرد و زن اور بڑی یا چھوٹی اقوام کے مساوی حقوق۔

۳- بین الاقوامی قانون کے تحت معاہدات کے تفویض کردہ فرائض کا احترام (مقدمہ)۔

چارٹر کی دفعہ ۲۰ کی شق ۱‘۳ اور ۴ بہت واضح ہیں:

۱- ممبر ممالک کی خود مختار مساوات کا حصول (۲۰۱)

۲- تمام ممبران اپنے بین الاقوامی تنازعے پرامن ذرائع سے اس طرح طے کریں گے کہ بین الاقوامی امن اور سلامتی کو خطرہ نہ ہو۔(۲۰۳)

۳- تمام ممبران بین الاقوامی تعلقات میں کسی بھی ریاست کی جغرافیائی وحدت یا سیاسی آزادی کے خلاف طاقت کے استعمال‘ یا اس کی دھمکی سے‘ یا کسی بھی ایسے طریقے کو اختیار کرنے سے احتراز کریں گے جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مقاصد کے مطابق نہ ہو۔

پھر دفعہ ۳۳ میں یہ ضابطہ بہت صاف لفظوں میں بیان کیا گیا ہے کہ:

کسی تنازعے کے فریق جس کے جاری رہنے سے عالمی امن و استحکام کے برقرار رہنے کو خطرہ ہو‘ حل تلاش کرنے کے لیے سب سے پہلے مذاکرات ‘ مصالحت‘ ثالثی‘ عدالتی تصفیے‘ علاقائی تنظیموں سے اپیل‘ یہ سب یا اپنی پسند کے دوسرے پرامن ذرائع کا راستہ اختیار کریں گے۔

نیز دفعہ ۳۶ کے تحت یہ سلامتی کونسل کی ذمہ دری قرار دی گئی ہے کہ دفعہ ۳۳ کے تحت جو معاملہ بھی اس کے سامنے آئے‘ اس میں تنازع کے حل کے لیے ضروری اقدامات تجویز کرے۔ دفعہ ۳۷ کے تحت اگر ممبر ملک مذاکرات اور دوسرے پرامن ذرائع سے تنازع طے نہ کر سکیں تو ان کے لیے ضروری ہوگا کہ سلامتی کونسل کی طرف رجوع کریں جو دفعہ ۳۶ کے تحت ضروری کارروائی کرے گی۔

کسی ایک ملک کے خلاف کوئی دوسرا ملک ازخود کوئی کارروائی نہیں کر سکتا۔ دفعہ ۳۳‘ دفعہ ۳۶ اور  دفعہ ۳۷ کے تحت اقدامات کی ناکامی کی صورت میں سلامتی کونسل دفعہ ۴۱ کے تحت معاشی پابندیاں اور دفعہ ۴۲ کے تحت فوجی کارروائی کا فیصلہ کر سکتی ہے مگر ایسی فوجی کارروائی کوئی ملک خود نہیں کر سکتا اور نہ اقوام متحدہ کو نظرانداز کرکے کسی اتحاد (کولیشن) کے ذریعے کر سکتا ہے بلکہ یہ اقدام اقوام متحدہ کے ممبر ممالک کی فوجوں کے ذریعے دفعہ ۴۶ اور ۴۷ کے تحت اقوام متحدہ کی ملٹری اسٹاف کمیٹی کے تحت ہی ہو سکتے ہیں اور یہ کمیٹی سلامتی کونسل کے مشورے اور اجازت سے کوئی اقدام کر سکتی ہے۔

یہ ہے وہ ضابطہ کار جو اقوام متحدہ کے چارٹر میں مرقوم ہے۔امریکہ اور برطانیہ نے اس کی ہر ہر دفعہ کی کھلی خلاف ورزی کی ہے اور اپنی من مانی کر رہے ہیں۔ امریکہ نے دفعہ ۵۱ کا سہارا لیا ہے لیکن اس کا جواز صرف ایک صورت میں ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ جب کسی ملک پر کسی متعین ملک کی فوجوں نے عملاً حملہ کر دیاہو (armed attack) اور اس صورت میں بھی جو ملک خود دفاعی (self defence) کے اس حق کو استعمال کرے اس کا فرض ہے کہ فوری طور پر اس کی اطلاع سلامتی کونسل کو دے اور پھر وہ سلامتی کونسل کے اس حق میں کوئی مداخلت کرنے کا مجاز نہیں ہوگا جو امن کی بحالی کے لیے سلامتی کونسل کرے۔ چارٹر کی دفعہ ۹۴ کے تحت یہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا فرض ہے کہ اگر کوئی ملک چارٹر کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کا ازخود نوٹس لے اور سلامتی کونسل میں معاملے کو پیش کرے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی روشنی میں امریکہ اور برطانیہ کا رویہ مبنی برحق نہیں بلکہ صریحاً جارحانہ‘ ظالمانہ ‘ یک طرفہ‘ من مانا اور امن عالم کے لیے تباہ کن ہے۔ پاکستان کی حکومت نے اس بین الاقوامی دہشت گردی کے لیے اپنی زمینی اور اپنے فضائی راستے فراہم کر کے جرم میں شرکت اور شر اور فساد میں تعاون کے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ اس معاملے میں امریکہ کے جرائم متعین طور پر یہ ہیں:

(الف) کسی حتمی ثبوت اور شہادت کے بغیر اور کسی مبنی برانصاف عدالتی عمل کے بغیر ایک فرد‘ ایک گروہ اور ایک ملک کو مجرم قرار دیا اور اس کے خلاف راے عامہ اور ملکوں کی کولیشن قائم کی۔

(ب) بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی عدالتوں کے واضح فیصلوں کے علی الرغم‘ اس ملک‘ اس جماعت اور ان گروہوں کے خلاف اعلان جنگ کیا جن کا قانون کے تحت کسی جرم میں کوئی ہاتھ نہ تھا۔ اگر ان ممالک میں کچھ لوگ ایسے پناہ گزین تھے جن کا جرم عدالتی طریقے سے ثابت ہو تب قانون کے مطابق ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ تو ہو سکتا ہے مگر کسی فوجی اقدام یا اغوا کی کوشش کا کوئی قانونی جواز نہیں اور جن افراد کا جرم ثابت نہ ہوا ہو ان کے بارے میں تو مطالبے کا بھی کسی کو اختیار نہیں۔

(ج) اگر کوئی تنازع فی الحقیقت تھا بھی اور کوئی دوسرا ملک ایک جائز مطالبے کو پورا کرنے میں مزاحم ہو تو مذاکرات (negotiations) کا راستہ اختیار کرنا اقوام متحدہ کے چارٹر کی دفعہ ۳۳ کے تحت لازمی ہے۔ امریکی صدر نے مذاکرات سے انکار کیا اور معاملات کے تصفیے کے پرامن راستے کو درخور اعتنا ہی نہیں سمجھا اور اس طرح چارٹر کی خلاف ورزی کی اور عالمی امن کو تہ و بالا کیا۔

(د) فوجی کارروائی کے سلسلے میں بھی چارٹر میں طے کردہ راستے کو اختیار نہیں کیا گیا۔ سلامتی کونسل نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا جس میں بن لادن یا افغانستان کو مجرم قرار دیا گیا ہو یا ان کے خلاف کسی کارروائی کا کوئی فیصلہ کیا گیا ہو۔ ۲۸ ستمبر ۲۰۰۱ء کو جو قرارداد سلامتی کونسل نے منظورکی ہے اس میں اول تو دہشت گردی کی کوئی تعریف نہیں کی گئی اور نہ اس کا مخاطب کوئی ایک ملک ہے۔ اس میں تمام ممبر ممالک سے ۷ نکات کا مطالبہ کیا گیا ہے جن میں دہشت گردی کے مالیاتی وسائل کی روک تھام‘  دہشت گرد تنظیموں کے اثاثوں کی ضبطی‘ کسی فرد یا تنظیم کو دہشت گردوں کی مالی اعانت سے روکنا‘ ایسی تنظیموں میں نئے حامیوں کی بھرتی یا ان کو اسلحہ کی فراہمی ‘ دہشت گردی کے مرتکب افراد یا تنظیموں کو پناہ دینے والوں سے تعاون پر پابندی‘ سرحدوں پر کنٹرول اور دہشت گردی کے سلسلے کے جرائم کی تحقیق و تفتیش میں تعاون اور معلومات کا تبادلہ شامل ہے۔ اس میں نہ کوئی ملک متعین کیا گیا ہے اور نہ کسی کے خلاف فوجی کارروائی کرنے اور اس کارروائی میں مدد دینے کی کوئی بات ہے۔

صاف ظاہر ہے کہ جہاں تک کسی فوجی کارروائی کا تعلق ہے اسے اقوام متحدہ کی بلاواسطہ یا بالواسطہ تائید حاصل نہیں اور ایسا ہر قدم چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہے۔ فوج کشی کے دو ہفتے بعد بھی سلامتی کونسل کو باضابطہ اطلاع نہ دینا اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا متحرک نہ ہونا بھی چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے صاف معنیٰ یہ ہیں کہ جو فوجی کارروائی عالمی برادری کے نام پر ہو رہی ہے‘ اسے نہ عالمی برادری کی تائید حاصل ہے اور نہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت ہے۔ اس کی حیثیت محض ایک سوپر پاور کی ریاستی دہشت گردی کی ہے اور جو بھی‘ اس میں جس درجے میں تعاون کر رہا ہے وہ اس حد تک دہشت گردی میں شریک اور ایک مظلوم ملک کے خلاف جارحیت کا مرتکب ہے۔ دنیا کے ۱۹۸ ملکوں میں سے بمشکل ۴۰ امریکی دبائو یا ’’دوستی‘‘ کے سبب اس میں شریک ہوئے ہیں اور جو بظاہر شریک ہیں ان میں بھی اختلاف‘ اضطراب‘ تحفظات اور بے زاری کے آثار ہیں۔ افسوس اور شرم کا مقام ہے کہ چند مسلمان ملک جن میں پاکستان‘ ترکی اور ازبکستان قابل ذکر ہیں اس جارحیت کے لیے اپنا کندھا پیش کیے ہوئے ہیں اور حق و انصاف ہی کا خون نہیں کر رہے بلکہ اُمت مسلمہ کے مظلوم انسانوں کے خون سے بھی اپنے ہاتھ رنگ رہے ہیں۔ یہ وہ جرم ہے جسے نہ خدا معاف کرے گا اور نہ ملّت اسلامیہ۔ جو جس درجے کے ظلم کا مرتکب ہے اسے ان شاء اللہ ایک دن اس کا پورا پورا حساب دینا ہوگا:

جو چپ رہے گی زبان خنجر‘ لہو پکارے گا آستیں کا

 

۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ء امریکہ کی تاریخ میں ایک سیاہ‘ المناک اور ناقابل فراموش دن کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ جس طرح ۷۲ برس پہلے‘ ۱۹۲۹ء میں امریکہ کی حصص مارکیٹ کے بتاشے کی طرح بیٹھ جانے (The Great Crash) سے اور پھر ۶۰ برس پہلے ۱۹۴۱ء میں پرل ہاربر  پر اچانک جاپانی حملے سے جس میں تقریباً ڈھائی ہزار امریکی ہلاک ہوئے تھے‘ امریکہ کی معیشت‘ سیاست اور عالمی رول کی قلب ماہیت ہوئی‘ بالکل اسی طرح ۱۱ ستمبرکے اس سانحے نے امریکہ ہی نہیں پوری مغربی دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سرد جنگ کے بعد امریکہ اور سرمایہ داری کی عالمی اور بزعم خود ’’ابدی‘‘ بالادستی کا ڈھول پیٹا جا رہا تھا اور تاریخ تک کے اختتام (the end of history)کی نوید سنائی جا رہی تھی‘ وہ سارا قصہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دونوں میناروں کے انہدام کے ساتھ ہی زمین بوس ہو گیا ہے اور خطرہ ہے کہ صدربش نے جسے اکیسویں صدی کی پہلی جنگ کہا ہے وہ ایک نئی گرم اور سرد جنگ کا آغاز نہ بن جائے اور اس سے بھی بڑھ کر خطرہ ہے کہ وہ مغربی دنیا اور عالم اسلام کے درمیان نئی صلیبی جنگ کی ابتدا نہ ثابت ہو۔

۱۱۰ منزلہ یہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر جو ۲۳ سال پہلے ایک ارب ڈالر کی لاگت سے ۱۶ ایکڑ اراضی پر تعمیر ہوا تھا‘ جس نے نیویارک کو اس کا نیا تشخص دیا تھا ‘جس میں آج ۵۰ ہزار لوگ کام کرتے تھے اور جس کا سالانہ کرایہ اب تین ارب ڈالر سے متجاوز تھا‘ وہ اس صدی کے لیے امریکہ کی معاشی اور مالیاتی قوت کا نشان اور عالمی سرمایہ داری کی شان و شوکت کی علامت ہی نہیں اس کا مالیاتی دارالحکومت بن گیا تھا۔ اسی طرح واشنگٹن میں وزارت دفاع (Pentagon) ایک قلعہ بند شہر کا منظر پیش کرتی تھی‘ اس میں ۲۴ ہزار افراد کام کرتے تھے اور یہ  امریکہ کی عالمی عسکری قوت کا مظہر تھی--- یہ دونوں عمارتیں ایک گھنٹے کے دورانیے میں تین ہائی جیک شدہ امریکی ہوائی جہازوں کی زد میں آکر تہ و بالا ہو گئیں۔ ان دو عمارتوں کی تباہی اور ہزاروں افراد کی ہلاکت ہی کچھ کم سانحہ نہ تھے کہ اس کی زد آج کی واحد سوپر پاور ‘ جو صرف اپنے دفاع پر پوری دنیا کے مجموعی دفاعی اخراجات کا ۳۶ فی صد خرچ کر رہی تھی‘ کے وقار اور ساکھ پر کچھ اس انداز میں پڑی کہ اس کے ناقابل تسخیر  (invincible)ہونے کا طلسم پادر ہوا ہو گیا۔ کچھ وقت کے لیے امریکہ کا پورا نظام دفاع و حکمرانی ’’ٹک ٹک دیدم‘ دم نہ کشیدم‘‘ کی تصویر بن گیا اور ۲۴ گھنٹے تک تو یہ عالمی قوت جو اب شیر کی طرح دھاڑ رہی ہے عملاً کسی سربراہ مملکت کے بغیر تھی ۔صدر‘ نائب صدر اور کانگریس کا اسپیکر سب کبھی ہوا کے دوش پر دنیا کے خطرات سے تحفظ کے متلاشی تھے ‘کبھی زیرزمین پناہ گاہوں میں عافیت کے طالب تھے۔اس کی نظیر اس صدی کی تاریخ میں نہیں۔ اس حادثے کے بعد امریکہ کی قیادت جن کیفیات سے گزری اور اس کے چہروں اور اعلانات پر جو رنگ دیکھا جا سکتا ہے اسے حیرت و صدمہ (shock)‘ استخفاف (humiliation)‘ غم و غصہ (anger) طیش و غضب ناکی(wrath and fury)  اور پھر انتقام (retaliation and revenge) اور جنون کی کیفیات و واردات کی شکل میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

تشویش ناک رویے

ان سطور کے ضبط تحریر میں لاتے وقت اس حادثہ فاجعہ کو ۱۱ دن گزر چکے ہیں مگر امریکہ بلکہ پوری مغربی دنیا پر ایک ہیجانی کیفیت طاری ہے‘ غیر یقینی کے سایے منڈلا رہے ہیں اور اس جذباتی فضا میں ’’کچھ کرگزرنے‘‘ کے آثار خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔ بندر کی بلا طویلے کے سر کے مصداق عرب اور اسلامی دنیا کو ہدف بنایا جا رہا ہے‘ اسامہ بن لادن پر سارا نزلہ گر رہا ہے اور افغانستان پر فوج کشی کی تیاریاں ہیں۔ ہاتھی مچھر پر حملہ آور ہوا چاہتا ہے اور سارا ملبہ فردواحد پر گرا کر اپنی ناکامیوں اور نفرت اور بے اعتمادی کے اصل اسباب و محرکات سے توجہ ہٹانے کی ناروا کوشش کی جا رہی ہے۔

یہ بڑی تشویش ناک صورت حال ہے کہ ٹھنڈے دل ودماغ سے حق و انصاف کے اصولوں کی روشنی میں حالات کا جائزہ اور تجزیہ نہ ہونے کے برابر ہے (چند کمزور آوازوں کے سوا) ۔ جن کے ہاتھوں میں قوت ہے اور جن پر عالمی قیادت کا بار ہے وہ ایک زخمی درندے کی طرح جس پر بھی شبہ ہو‘ اسے نیست و نابود کرنے کے عزائم کا اظہار کر رہے ہیں اور اس کے لیے پرتولے بیٹھے ہیں۔ صدر بش کہتے ہیں کہ یہ دہشت گردی نہیں اعلانِ جنگ ہے لیکن یہ نہیں بتا سکتے کہ اس جنگ میں فریق ثانی کون ہے‘ مقابلہ کس ریاست یا قوت سے ہے اور یہ جنگ کس سرزمین پر ہو رہی ہے۔ پرل ہاربر کے موقع پر حملہ آور بھی معلوم تھا اور اس کا ٹھکانہ بھی۔ آج نہ یہ ثابت ہے کہ کس نے اس دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہے اور نہ یہ پتا ہے کہ خودکش حملے میں جاں بحق ہونے والوں کی پشت پر دراصل کون ہے اور وہ کہاں ہے؟ بات کو مزید اشتعال انگیزبنانے کے لیے اسے خود نفس تہذیب کے خلاف جنگ (war on civilization)کا نام دیا جا رہا ہے اور اس طرح دنیا کو دو حصوں میں بانٹنے کی مذموم کوشش ہو رہی ہے۔ گویا مغربی دنیا مہذب دنیا ہے اور باقی سب وحشت کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ صرف دہشت گردوں ہی کا قلع قمع نہ کیا جائے گا بلکہ ان ریاستوں کو بھی نابود کر دیا جائے گا جہاں ان کو پناہ حاصل ہے]اور یہ بھول گئے ہیں کہ آج تک خود امریکہ میں آئی آر اے (IRA)کے دہشت گردوں کو پناہ حاصل تھی اور کیوبا سے لے کر لاطینی امریکہ کے دسیوں ممالک اور عراق‘ لیبیا اور ایران وغیرہ میں دہشت گردی کرنے والے کتنے ہی مسلح گروہوں کے لیے امریکہ نہ صرف مامن تھا بلکہ  سی آئی اے اور مخصوص لابیاں کھلے بندوں ان کی تربیت اور ان کو مسلح کرنے کا انتظام کرتی رہی ہیں[۔ نائب صدر ڈک چینی اور سیکرٹری دفاع نے تو دو اور دو چار کی طرح کہہ دیا ہے کہ ہمارا ہدف ان ریاستوں ہی کو نیست و نابود کر دینا ہے جو دہشت گردی کو فروغ دیتی ہیں۔ دانش ور‘ اہل قلم اور میڈیا پر تبصرہ کرنے والوں کی ایک فوج ہے جو انتقام اور ریاستی تشدد کی تبلیغ کر رہی ہے۔ سابق سیکرٹری آف اسٹیٹ لارنس ایگل برگر فرماتے ہیں:

اس طرح کے لوگوں سے نبٹنے کی ابتدا کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہے: آپ کو ان میں سے کچھ کو ہلاک کر دینا ہوگا خواہ وہ اس معاملے میں فوری طور پر براہ راست متعلق نہ ہوں۔

امریکی خارجہ پالیسی کے گرو اور ویت نام ‘ کمبوڈیا‘ چلی اور نہ معلوم کتنے ممالک میں لاکھوں انسانوں کی نسل کشی (genocide)کے ذمہ دار ہنری کسنجر کا ارشاد ہے کہ گو یہ پتا نہیں کہ اس اقدام کے پیچھے فی الحقیقت بن لادن کا ہاتھ تھا یا نہیں مگر فوری تادیبی اقدام ضروری ہے اور وہ بھی ناکافی ہے۔ اصل ہدف اس پورے نظام (network)اور ان ممالک کے خلاف کارروائی ہے جہاں اس نظام کے کچھ بھی کل پرزے پائے جاتے ہیں:

لیکن حکومت کو ایک منظم ردّعمل کی ذمہ داری لینا چاہیے۔ امید کرنا چاہیے کہ یہ اسی طرح اختتام کو پہنچے جس طرح پرل ہاربر کا حملہ اختتام کو پہنچا تھا‘ یعنی اس نظام کی تباہی جو اس کا ذمہ دار ہے (واشنگٹن پوسٹ‘ ۱۲ ستمبر ۲۰۰۱ء)

موصوف نے یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ اگر دوسرے ممالک اس میں امریکہ کا ساتھ نہ دیں تو امریکہ کو یہ اقدام تن تنہا ہی کر ڈالنا چاہیے اور کسی اتفاق راے (consensus)کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ تو بڑے دانش ور اور ذمہ دار حضرات کا اندازبیان ہے۔ عمومی سطح پر جو انداز اختیار کیا جا رہا ہے اس کا اندازہ صرف ان تین مثالوں سے کیا جا سکتا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ میں رچ لوری ر قم طراز ہیں:

اگر ہم دمشق یا تہران یا جو کچھ بھی ہو‘ اس کا ایک حصہ ملیامیٹ کر دیں تو یہ بھی حل کا ایک جزو ہے۔ (۱۳ ستمبر ۲۰۰۱ء)

نیویارک پوسٹ میں اسٹیوڈیلوری لکھتے ہیں:

۲۱ ویں صدی کے اس پرل ہاربر کا جواب اتنا ہی سادہ ہونا چاہیے جتنا کہ تیز: بلاتاخیر حرامیوں کو قتل کر دو۔ آنکھوں کے درمیان گولی مار دو‘ ان کو ریزہ ریزہ کر دو‘ ضرورت پڑے تو زہر دے دو۔ اور وہ شہر اور ملک جو ان کیڑے مکوڑوں کی سرپرستی کرتے ہیں ان پر بم باری کر دو۔ (۱۲ ستمبر ۲۰۰۱ء)

نیویارک ڈیلی نیوز میں ایک محترمہ این کملٹر تو یہاں تک فرما رہی ہیں :

یہ اس کا وقت نہیں ہے کہ اس خاص دہشت گردی کے حملے میں براہ راست ملوث افراد کا ٹھیک ٹھیک احتیاط سے پتا چلایا جائے۔ ہمیں ان کے ممالک پر حملہ کر دینا چاہیے۔ ان کے لیڈروں کو قتل کر دینا چاہیے۔ ہم ہٹلر اور اس کے اعلیٰ افسروں کا پتا چلانے اور سزا دینے کے بارے میں رسمی ضوابط کے پابند نہیں تھے۔ ہم نے جرمن شہروں پر کارپٹ بم باری کی۔ ہم نے شہریوں کو ہلاک کیا۔ وہ جنگ تھی اور یہ بھی جنگ ہے۔ (۱۲ ستمبر ۲۰۰۱ء)

یہ وہ فضا ہے جو بنائی جا رہی ہے اور مسلمان اور عرب اس کا ہدف ہیں۔ صدر بش نے صلیبی جنگ کا لفظ استعمال کر کے جلتی پر تیل ڈالنے کی خدمت انجام دی ہے۔ اسلام کو ایک دہشت پسند مذہب اور مسلمانوں کو دہشت پسند گروہ کی حیثیت سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ ان ۱۱ دنوں میں امریکہ اور برطانیہ میں سیکڑوں واقعات رونما ہوئے ہیں‘ جن میں مساجد‘ مدارس‘ مسلمان مراکز‘ گھرانے‘ حتیٰ کہ راہ چلتی باپردہ خواتین نشانہ بنی ہیں۔ صرف امریکہ میں ۳۰۰ انتقامی کارروائیاں ہو چکی ہیں اوریہ سلسلہ جاری ہے۔ ستم ظریفی ہے کہ مسلمان تو مسلمان بیچارے سکھ بھی محض اپنی وضع قطع کے باعث مارے جا رہے ہیں--- کیا یہی وہ تہذیب اور اعلیٰ نظام زندگی ہے جس کے دہشت گردی سے معرض خطر میں ہونے کا واویلا ہے!

اسلامی تحریکوں کا موقف

امریکہ اور اہل مغرب کا رویہ خواہ کیسا بھی ہو اور اپنے جذبات کے اظہار کے لیے وہ کوئی بھی زبان استعمال کریں‘ بحیثیت مسلمان اور اُمت مسلمہ ہمارا رویہ حق‘ انصاف اور اعتدال پر مبنی ہونا چاہیے اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے بجائے ہمیںدلیل کی زبان اور حق پرستی کا مسلک اختیار کرنا چاہیے اس لیے کہ قرآن کا ہمارے لیے یہی حکم ہے کہ جب بھی انسانوں کے درمیان کلام کریں انصاف کے مطابق کریں:

وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط(النساء ۴:۵۸) اور جب لوگوں کے  درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔

یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰامِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ ز وَلاَ یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلاَّ تَعْدِلُوْا ط اِعْدِلُوْا قف ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ز (المائدہ ۵:۸)  اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔ کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو ‘ یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔

انسانی جان کا تحفظ اور احترام اسلام کی بنیادی تعلیم ہے اور اس میں مسلمان اور غیر مسلم‘ مرد اور عورت‘ دوست اور دشمن میں کوئی تمیز نہیں۔ سب کی جان برابر ہے اور بلاحق کسی کی بھی جان لینا  اللہ اور اس کے رسولؐ کے حکم کے خلاف بغاوت ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  لَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمْ‘ ہم نے تمام بنی آدم کو  محترم و مکرم بنایا ہے‘ محض مسلمانوں یا اہل کتاب کو نہیں۔ اسی طرح:

وَلاَ تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلاَّ بِالْحِقِّ ط (بنی اسرائیل ۱۷:۳۳) قتل نفس کا ارتکاب نہ کرو جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ۔

مَنْ قَتَلَ نَفْسًا م بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاط وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا ط (المائدہ ۵:۳۲) جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔

جس دین کی یہ تعلیم ہو‘ وہ بے گناہ انسانوں کی دہشت گردی کے ذریعے مظلومیت کی موت کو کیسے گوارا کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور یورپ کے مسلمانوں ہی نے نہیں پوری دنیا کے مسلمانوں‘ ان کی دینی تحریکوں اور تمام ہی مسلمان حکومتوں نے ۱۱ ستمبر کی دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں ہزاروں انسانوں کی موت پر خون کے آنسو بہائے ہیں۔ اس غم کو اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کیا ہے اور اس کی برملا مذمت کی ہے اور اصل مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہماری نگاہ میں یہ محض امریکہ کا نقصان نہیں پوری انسانیت کا نقصان ہے اور یہ غم تنہا کسی ایک قوم کے لوگوں کا غم نہیں پوری انسانی برادری کا غم ہے۔ اس نقصان اور اس غم کو ہمارے لیے جس چیز نے اور بھی اپنائیت کا روپ دے دیا ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں ہلاک ہونے والے ۵ ہزار سے زیادہ افراد میں‘جن کا تعلق ۶۳ ملکوں سے ہے اور جن میں سب مذاہب کے ماننے والے شامل ہیں‘ ایک ہزار سے زائد مسلمان تھے یعنی ہر پانچ میں ایک مسلمان تھا۔

دنیا کی اسلامی تحریکوں کے سو سے زیادہ قائدین اور عالم اسلام کے چوٹی کے علما اور مفکرین نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں ۱۲ ستمبر ہی کو اس قتل ناحق کی مذمت کی اور پھر ۱۸ ستمبر کو ایک اور بیان کے ذریعے اسلام اور اُمت مسلمہ کے موقف کو دو ٹوک انداز میں بیان کیا۔ انھوں نے جہاں قتل ناحق کی مذمت کی وہیں انتقام اور جوابی قتل ناحق کے خلاف بھی متنبہ کیا اور کمال حکمت اور پوری جراتٔ سے عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی کی بات کی۔ یہ بیان پوری اُمت کے جذبات کا ترجمان ہے:

ہم نیویارک اور واشنگٹن میں بزدلانہ دہشت گرد حملوں کی پرزور مذمت کر چکے ہیں جن کا نشانہ بننے والے تمام ممالک سے اور دنیا کے بڑے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔

اسلام انسانی جان کے تقدس کا علم بردار ہے۔قرآن کے مطابق ایک بے گناہ کو ہلاک کرنا ساری انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ ساری دنیا کے مسلمان اس جارحیت کے جانی نقصان پر غم زدہ ہیں کہ یہ امریکہ اور پوری دنیا کا مشترکہ نقصان ہے۔

ہم یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ دنیا کے تمام حصوں میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے ایسی ہی ہمدردی اور تشویش کے مستحق ہیں۔ جو لوگ انسانوں کی مساوات کے علم بردار ہیں انھیں دنیا کے سب حصوں میں دہشت گردی کی مذمت کرنا چاہیے اور اس کے خلاف لڑنا چاہیے۔

ہم اس اصول کے حامی اور علم بردار ہیں کہ انسانوں کے خلاف دہشت گردی کے جو بھی ذمہ دار ہیں--- افراد‘ گروپ یا حکومت‘ ان کو کٹہرے میں لانا چاہیے اور کسی ہمدردی یا امتیاز کے بغیر اس کی سزا دینا چاہیے۔ لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مشتبہ افراد کو کسی غیر جانب دار عدالتی طریقے سے ان کا جرم ثابت کیے بغیر‘ یک طرفہ طور پر سزا دینے کی کوشش بھی دہشت گردی ہی قرار پائے گی جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی گوارا کیا جا سکتا ہے۔

عدل وا نصاف اور فطری اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کا یہ کم سے کم تقاضا ہے کہ جرم کا غیر جانب دار واضح ثبوت ہو۔ اس لیے ہم دنیا کی تمام حکومتوں سے‘ خصوصاً امریکہ کی حکومت سے‘ اپیل کرتے ہیں کہ وہ صرف شبہے کی بنیاد پر طاقت کا یک طرفہ من مانا استعمال نہ کریں‘ اور مدعی‘ وکیل‘ جج اور جلاد سب کچھ خود ہی بننے کی کوشش نہ کریں۔ ہم‘ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور تمام عرب‘ مسلمان اور یورپی ممالک کے لیڈروں سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ دنیا کو بے جا خوں ریزی اور تشدد میں اضافے سے بچائیں جس سے اقوام عالم اور ریاستوں میں مزید جھگڑے اور تنازعات پیدا ہوں گے۔ دہشت گردی کا مقابلہ صرف ایسے ہی ذرائع سے کیا جاسکتا ہے جو منصفانہ اور عادلانہ ہوں‘ اور دنیا میں امن و سکون کا باعث بننے والے ہوں۔ ہمیں ایسے اقدامات میں فریق  یا خاموش تماشائی نہیں بننا چاہیے جن سے انتقام‘ رعونت اور بین الاقوامی دیوالیہ پن کی بو آتی ہو۔ آیئے سب لوگ انصاف کے لیے کھڑے ہو جائیں اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کے کارپردازوں کو قانون کے مطابق سزا دینے کے لیے اجتماعی کوشش کریں‘ اور دنیا میں دہشت گردی کی جڑمیں پائی جانے والی ناانصافیوں ‘ استحصالوں اور بالادستی کی پالیسیوں کو ختم کرنے کے لیے کوشش کریں!

یہ ہے اُمت مسلمہ کا اصولی اور حقیقی موقف ۔ تمام مسلمان حکومتوں اور تنظیموں کا فرض ہے کہ  اس نازک لمحے میں حکمت‘ دیانت اور جرأت کے ساتھ اپنے اس موقف پر ڈٹ جائیں ‘ محض قوت‘ دھونس اور جبر کے آگے ہتھیار نہ ڈالیں ‘اور نہ پروپیگنڈے کی یورش سے مغلوب ہوں اور نہ کسی ایسے جوابی ردّعمل کی راہ اختیار کریں جو حق وصواب سے دُور ہو۔

امریکی نظام کی شرم ناک ناکامی

جو سوال اس وقت سب سے اہم ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا اور اس کے اصل ذمہ دار کون ہیں؟ بات محض شبہہ اور انتقام کی نہیں‘ بے لاگ جستجو‘ تحقیق و تفتیش‘ نقد و احتساب اور حقیقت کی کھوج کی ہے۔ بدقسمتی سے اس سے توجہ ہٹائی جا رہی ہے اور سارے معاملات ایک ہیجانی انداز میں نمٹانے کی خطرناک غلطی کی جا رہی ہے۔ تعجب ہے کہ کوئی نہیں جو ہمت اور جرأت سے کہے کہ بادشاہ کو پہلے اپنے جسم پر نگاہ ڈالنی چاہیے کہ کہیں وہ لباس سے عاری تو نہیں؟

یہ ابھی تحقیق طلب ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کون تھے اور ان کے اصل مقاصد اور ان کے پشتی بان کون تھے۔ مگر پہلا سوال تو یہ ہے کہ امریکہ کے اپنے نظام حکومت اور خصوصیت سے اس کے قومی سلامتی ‘ جاسوسی اور پولیس کے نظاموں کی ناکامی اور اس ناکامی کے ذمہ داروں کے احتساب سے کلی اغماض کیوں برتا جا رہاہے؟ ایک ریل کا بھی حادثہ ہوتا ہے تو فوری اسباب کی تحقیق و تفتیش سے پہلے ادارے کے ذمہ داروں کا محاسبہ ہوتا ہے اور ان کو جواب دہی کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ امریکہ کا جاسوسی کا نظام دنیا کا عظیم ترین اور مہنگا ترین نظام ہے۔ صرف سی آئی اے کا سالانہ بجٹ ۳۰ ارب ڈالر ہے اور دنیا میں اس کے ایک لاکھ ہمہ وقتی کارکن ہیں۔ ایف بی آئی داخلی سلامتی کی ذمہ دار ہے ‘ اس کا سالانہ بجٹ ۳ ارب ڈالر ہے۔ اس کے امریکہ میں ۵۵ مراکز اور ۲۷ ہزار ۸ سو کارکن ہیں۔ اس کے نظام کار میں کل بجٹ کا پانچواں حصہ صرف معلومات جمع کرنے کے لیے مختص ہے اور یہ نگرانی (surveillance)کی جدید ترین ٹکنالوجی استعمال کر رہے ہیں۔ ایک اور ادارہ National Reconnaissance Office  ہے جو جاسوسی سیارچوں (Spy Satellites) کی مدد سے زندگی کے ہر پہلو کی ہمہ وقتی نگرانی کرتا ہے اور اس کا سالانہ بجٹ ۲.۶ ارب ڈالر ہے۔ ایک اور ادارہ National Security Authority  ہے جس میں ۲۱ ہزار افراد کام کرتے ہیں اور اس میں معلومات جمع کرنے کا دنیا کا اعلیٰ ترین انتظام ہے اور اس کے کارکن دنیا کی ہر اہم زبان کے ماہر ہیں۔ ان کے علاوہ نو مزید خفیہ معلومات حاصل کرنے والی ایجنسیاں ہیں جو فوج‘ وزارت خزانہ‘ وزارت مواصلات اوروزارت بجلی و پانی کے تحت کام کرتی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا بجٹ ایک ارب ڈالر سالانہ ہے۔ ان سب کے علاوہ ایک National Imagery and Mapping Agency ہے جس کا بجٹ ۲.۱ ارب ڈالر سالانہ ہے اور اس کا کام صرف یہ ہے کہ امریکہ کی زمین پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس کے نقشے محفوظ کرے۔ اس طرح صرف انٹیلی جنس اور نگرانی کے ادارے سالانہ ۵۰ ارب ڈالر کے بجٹ سے قومی سلامتی اور حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ ان کے علاوہ معلومات حاصل کرنے کی Non-Intelligence Agencies کا سالانہ بجٹ ۲۷ ارب ڈالر ہے۔ گویا صرف جاسوسی اور دوسری معلومات کے حصول کے لیے امریکہ سالانہ  ۷۷ ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے (ہفت روزہ گارجین ‘ ۲۰ تا ۲۶ ستمبر ‘ ص ۵)۔

اس کے باوجود اس پورے نظام کو ایک ایسے مربوط اور مختلف جہتی منصوبے کی کوئی سن گن تک نہیں لگی جس میں بقول امریکہ ۱۹ خودکش ہائی جیکر شامل تھے جنھوں نے دو مختلف ہوائی اڈوں سے کارروائی کا آغاز کیا‘ جس میں ان کے علاوہ کم از کم ۳۰ مزید افراد کے شامل ہونے کا اندازہ ہے‘ جو کئی مہینے سے اس اقدام کی منصوبہ بندی کر رہے تھے‘ بڑے شہروں میں رہ رہے تھے‘ کینیڈا اور جرمنی کے سفر کر رہے تھے‘ کلبوں میں شراب نوشی اور رقص و سرود کی محفلوں میں شریک تھے‘ جم خانوں میں تن سازی کر رہے تھے اور ہوائی پرواز کے اداروں کے باقاعدہ ممبر کی حیثیت سے ہوا پیمائی کی مشقیں کر رہے تھے۔ اگر اتنی خطیر رقم خرچ کر کے اور اتنے جدید اور ترقی یافتہ نظام کی موجودگی میں امریکہ کی قیادت کو ایسی سازشوں اور خوف ناک منصوبوں کی ہوا بھی نہیں لگتی تو پھر اس نظام کا احتساب نہ کرنا کس طرح قابل فہم ہو سکتا ہے۔ نہ سی آئی اے کے سربراہ نے استعفا دیا ہے‘ نہ ایف بی آئی کے سربراہ کو معطل کیا گیا ہے‘ نہ اٹارنی جنرل جو اس پورے نظام کا سربراہ ہے اس پر کوئی آنچ آئی ہے‘ بلکہ اٹارنی جنرل صاحب پوری دیدہ دلیری سے فرما رہے ہیں کہ اب سوال انصاف کا نہیں‘ جوابی کارروائی کا ہے! اصل ناکامی امریکہ کے اپنے نظام کی ہے--- محض اسامہ بن لادن اور افغانستان پر ملبہ گرانے سے امریکہ کے اپنے نظام کی ناکامی پر پردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔

یہ ناکامی اور بھی شرم ناک ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ دہشت گردی کے امکانات اور خطرات کے بارے میں بحث و گفتگو کا سلسلہ برابر جاری تھا۔ فروری ۱۹۹۳ء میں اسی ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں بم کا دھماکا ہو چکا تھا جس میں چھے افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اپریل ۱۹۹۵ء میں اوکلاہاما کا واقعہ ہوا تھا جو ایک امریکی دہشت گرد ٹموتھی لیکون کا کارنامہ تھا اور جس میں ۱۶۸ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ابھی دو ماہ پہلے لیکون کو رحم کی ملکی اور عالمی اپیلوں کے علی الرغم پھانسی دی گئی تھی اور اس گروہ کی طرف سے انتقامی کارروائی کا خطرہ موجود تھا۔ اگست ۱۹۹۸ء میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں میں ہونے والی دہشت گردی میں ۲۲۴ افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس کا مقدمہ چل رہا تھا۔ اکتوبر ۲۰۰۰ء میں امریکی بحری جہازUSS Cole کا واقعہ ہواجس میں ۱۷ افراد ہلاک ہوئے تھے اور اس کا مقدمہ بھی زیرسماعت تھا۔ اسی سال مارچ میں سینیٹ کے انٹیلی جنس کمیشن نے متوقع دہشت گردی سے متنبہ کیا تھا اور یہ رپورٹ حال ہی میں شائع ہو چکی تھی۔ ابھی تین ہفتے پہلے سی آئی اے نے ان دو افراد کے بارے میں تصویر شائع کر کے متوجہ کیا تھا جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ ۱۱ ستمبر کی ہائی جیکنگ میں شریک تھے۔۷ستمبر کو ایک اور وارننگ موصول ہوئی تھی--- ان سب کی موجودگی میں تمام خفیہ اور برسرزمین ایجنسیوں کی ناکامی اصل لمحہ فکریہ ہے--- لیکن اس کا کوئی ذکر نہ امریکی صدر کے بیانات میں ہے اور نہ میڈیا کی لفظی جنگ میں۔

اسامہ بن لادن؟

سارا زور ایک فرد اسامہ بن لادن پر ہے ‘ جو ۱۰ سال سے جلاوطنی اور خانہ بدوشی کی زندگی گزار رہا ہے  اورجس کے پاس نہ ٹیلی فون ہے اور نہ باہر کی دنیا سے رابطے کا کوئی اور ذریعہ ہے۔ وہ ایک ایسے ملک میں ہے جس پر برسوں سے شدید ترین نگرانی ہو رہی ہے‘ جس کے پاس نہ جدید ٹکنالوجی ہے اور نہ سفارتی یا ابلاغی سہولتیں‘ جس کے پاس کوئی عالمی میڈیا تو کیا انگریزی میں دنیا تک اپنی بات پہنچانے کی سہولت تک میسر نہیں‘ جس کے خلاف برسوں سے پابندیاں لگی ہوئی ہیں‘ مواصلات کا نظام غیر موثر ہے اورجس کے بنک بیرونی دنیا سے کوئی مالی معاملہ نہیں کر سکتے۔ پھر بھی یہی یقین دلایا جا رہا ہے کہ وہ افغانستان کے ایک غار سے یہ سب تماشے کر رہا ہے۔ اسامہ کی دولت کا بھی بڑا شور ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جن ۳۰ کروڑ ڈالر کا ذکر کیا جاتا ہے (اگر درست بھی ہو تو خود امریکہ کے صرف جاسوسی کے ۷۷ ارب ڈالر اور دفاعی بجٹ کے ۳۵۰ ارب ڈالر کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتے ہیں) ان کی بھی حقیقت یہ ہے کہ ۱۲ سال پہلے اسامہ بن لادن کو اپنے والد کی میراث میں ۳۰۰ نہیں‘ ۸ کروڑ ڈالر ملے تھے۔ ان میں سے جو کچھ اس کے پاس تھے اسے ۱۹۹۶ء میں سعودی شہریت ختم ہونے پر ساری دنیا میں منجمد کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ نہ کوئی سرمایہ کاری کر سکتا ہے ‘ نہ کسی بنک میں حساب رکھ سکتا ہے اور نہ کسی کاروبار میں عملاً شرکت ممکن ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر چند کروڑ ڈالر اس کے پاس تھے بھی‘ تو ان سے کیا کچھ اور کب تک کیا جا سکتا ہے۔ اکانومسٹ نے اپنے ادارتی مضامین میں اعتراف کیا ہے کہ بن لادن کی دولت کی بات میں بڑا مبالغہ ہے (۲۲ستمبر ‘ ص ۱۷)۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ بن لادن اور اس کے رفقا سخت مالی مشکلات میں مبتلا ہیں:

مشرقی افریقہ کے بم بازوں کے مقدمے میں ایک حالیہ گواہی سے بہرحال ایک شبہہ پیدا ہوتا ہے۔ بن لادن کے سابق رفقا نے بتایا ہے کہ وہ سرمائے کی کمی کا شکار ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اس کے آدمی پریشانی کا شکار ہیں اور ان کے درمیان مسلسل جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے ایک سابق اکائونٹنٹ کو‘ جو امریکہ کا سب سے بڑا گواہ ہے‘ جب قرض دینے سے انکار کیا گیا تو وہ القاعدہ سے باہر آگیا۔ (اکانومسٹ‘ ۱۵ ستمبر ۲۰۰۱ء‘ ص ۱۹)

اگرمالی وسائل کے بارے میں حقائق یہ ہیں تو پھر اسامہ کے خلاف ساری مہم سخن سازی نہیں تو اور کیا ہے۔ خود امریکی عدالت میں سفارت خانوں پر حملے کا جو مقدمہ چل رہا ہے اس میں اسامہ کے خلاف کوئی بات ثابت نہیں ہو سکی۔  اکانومسٹ اپنے اس مضمون میں اعتراف کرتا ہے کہ:

بہرحال سرکاری وکیل یہ ثابت نہیں کر سکے کہ مسٹر بن لادن نے حملوں کا حکم دیا۔

حملے کس نے کیے؟

اگر اسامہ بن لادن اور افغانستان کے لیے اس نوعیت کی منظم‘ ہمہ جہتی اور اعلیٰ منصوبہ بندی والی کارروائی ممکن نہیں اور نہ ہی اس کی توقع کسی اور عرب تنظیم سے کی جا سکتی ہے (اور بن لادن کے سوا کسی دوسرے گروہ کی طرف امریکی اور مغربی میڈیا اور حکومتیں کوئی اشارہ تک نہیں دے رہی ہیں) تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ہولناک کارروائی کا مرتکب کون ہو سکتاہے۔ ہم صرف تاریخی شواہد اور حالیہ قرائن کی بنیاد پرچند مفروضوں کی طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

پہلا امکان یہ ہے کہ یہ کارروائی کسی منظم امریکی گروہ کی طرف سے ہوئی جو معاشرہ کا باغی اور نظام حکمرانی سے برگشتہ ہو۔ حالیہ تاریخ میں ایسی بہت سی مثالیں سامنے آئی ہیں جو ان خدشات کو تقویت پہنچاتی ہیں۔ ملک میں جرائم کی توکبھی کمی نہیں تھی لیکن پچھلے دنوں اسکول کے بچوں کو منظم انداز میں ہلاک کرنے کے کئی واقعات رونما ہوئے جن میں کیلی فورنیا میں ایک ہی ہلّے میں اسکول کے ۱۲ طلبا کی ہلاکت کی یادیں تازہ ہیں۔ ٹموتھی میکوی نے اوکلاھاما میں ۲۶۸ افراد کو ہلاک کیا اور اس سے زیادہ کو ہلاک کرنے کی خواہش کا عدالت میں اظہار کیا۔ یہ واقعہ ٹموتھی کو پھانسی دینے کے دو ماہ کے اندر واقع ہوا ہے اور یہ دہشت گردی بھی ٹموتھی کے گروہ کا کارنامہ ہو سکتا ہے۔ ایک اور امریکی دہشت پرست گروہ صدر بش کی ریاست ٹکساس کا Jaco نامی منظم گروہ ہے جس نے ایک پورے قصبے کو آگ لگا کر تباہ کیا۔ڈیوڈ کوریش اور اس کے پیروکار بھی ایک باغی گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی طرف سے تخریب کاری کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

سوچنے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس سوال پر غور کیا جائے کہ اس کارروائی کا فائدہ کس کو ہو سکتا ہے۔ خود امریکہ میں ایسے عناصر ہیں جو ریاست کے اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتے ہیں اور جو آزادی اظہار وعمل پر مختلف قسم کی پابندیوں کے خواہاں ہیں۔ وہ ایسی فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ جمہوری آزادیوں کو لگام دی جا سکے اور ان غالب اور مفاد پرست طبقات کی گرفت ملک پر مضبوط ہو سکے۔ وہ ادارے بھی ہیں جو مزید سرکاری وسائل کے طلب گار ہیں جن میں سیکورٹی ایجنسیاں بھی ہیں۔ ملک کی عسکری صنعتی لابی کا بھی ایک کردار ہو سکتا ہے۔

اس خدشے کو ان معلومات سے تقویت مل رہی ہے جو اب حادثے سے قبل اسٹاک ایکسچینج کی غیرمعمولی سرگرمی کے بارے میں چونکا دینے والے اعداد و شمار سے حاصل ہو رہی ہیں۔ لندن کے روزنامہ انڈی پنڈنٹ کا تجارتی نمایندہ راوی ہے کہ۶ ستمبر کو (واضح رہے کہ ۸ اور ۹ ستمبر کو ہفتہ اور اتوار کی چھٹی تھی) امریکہ کی ان دونوں ہوائی کمپنیوںکے حصص کی فروخت میں غیر معمولی سرگرمی نظر آئی جن کے جہاز اس حادثے میں استعمال ہوئے ہیں اور جن کے حصص کی قیمت حادثے کے بعد ایک دم گر گئی ہے۔ اس وقت تو اسے نظرانداز کردیا گیا مگر اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟ ایک دن میں یونائٹیڈ ایرلائن کے دوہزار معاہدے ہوئے جو اس کے قبل کے یومیہ کاروبار کے اوسط سے ۲۸۵ گنا زیادہ تھا۔ اس دن ایک حصہ کی قیمت ۳۰ ڈالر تھی جو حادثے کے بعد گر کر ۱۸ڈالر رہ گئی۔ امریکن ایئرلائن کے حصص کی فروخت حادثے سے قبل دو تین دن میں اوسط سے ۶۰گنا زیادہ تھی۔ اسی طرح ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں کام کرنے والی دو اہم بین الاقوامی مالیاتی کمپنیوں یعنی Morgan Stanley  اور Marsh and McLennan کے حصص ان دنوں اوسط کے مقابلے میں ۲۵گنا اور ۱۰۰ گنا زیادہ فروخت ہوئے۔ سرمایہ کاری کے رجحانات کا ایک ماہر جون ناجارین (Jon Nagarian) ان غیر معمولی سودوں پر اپنے استعجاب کا اظہار یوں کرتا ہے:

جب ہم اتنے غیر معمولی سودے دیکھتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔ (انڈی پنڈنٹ‘  ۲۰ ستمبر ۲۰۰۱ء)

صاف معلوم ہوتا ہے کہ کچھ عناصرکو علم تھا کہ کچھ ہونے والا ہے اور انھوں نے اس سے کروڑوں ڈالر کمائے۔

لیکن اس ہولناک واقعے سے سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو ہوا جس نے اسے فلسطینیوں کو امریکہ کے غم و غصے کا نشانہ بنانے‘ اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے اور نام نہاد امن کے عمل کو سبوتاژ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ حادثے کے آدھے گھنٹے کے اندر ہنری کسنجر نے اسامہ بن لادن کا نام لیا اور پورے نیٹ ورک کو ختم کرنے کی بات کی۔ اسرائیل کے وزیراعظم شیرون نے حادثے کے فوراً بعد کہا کہ ’’عرفات ہمارا بھی لادن ہے‘‘ اور عرفات سے اپنی طے شدہ ملاقات منسوخ کر دی۔ انڈی پنڈنٹ کا نمایندہ یروشلم سے لکھتا  ہے:

اسرائیل‘ امریکہ کے اس المیے کو فلسطینیوں سے اپنے تنازعے میں سیاسی فائدے حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شیرون اور ان کے ساتھی عرفات کا اسامہ بن لادن سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ امریکی حملوں نے فلسطینیوں کو تنہا کر دیا ہے اور مغرب میں ان کے لیے جو بچی کھچی ہمدردی تھی‘ اسے بہا لے گئے ہیں۔ (۱۶ ستمبر‘ ۲۰۰۱ء)

یہ بھی ایک عجوبہ ہے کہ انٹرنیشنل ہیرالڈ ٹربیون نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں جن ۴۶ ممالک کے لوگوں کی ہلاکت کی خبر دی ہے ان میں اسرائیل کا کوئی ایک بھی شہری شامل نہیں ہے۔ نیویارک میں بہت زیادہ یہودیوں  کی رہایش ہے اور ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں ۴ ہزار سے زیادہ یہودی کام کرتے تھے مگر مرنے والوں کے بارے میں جو معلومات اب تک شائع ہوئی ہیں ان میں یہودیوں کا کوئی ذکر نہیں۔ ایک اطلاع ۵ ‘۶ اسرائیلیوں کی گرفتاری اور تفتیش کی شائع ہوئی تھی مگر اسے فوراً دبا دیا گیا۔ کینیڈا سے Stern Intel کی خبر ہے کہ امریکہ کے فوجی جاسوسی ذرائع کے مطابق اس میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کا ہاتھ ہے۔ ایران کے رہبر خامنائی نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ:

اس کا ثبوت موجود ہے کہ امریکہ کے بڑے شہروں میں حالیہ حملوں میں صیہونی ملوث تھے (تہران ٹائمز‘ ۱۹ ستمبر ۲۰۰۱ء)

اگر اسرائیل اور صیہونی تحریک کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو موساد کے کردارکے خدشے کو تقویت ملتی ہے۔دوسری عالمی جنگ کے دوران صیہونی دہشت گردوں نے خود یہودی تارکان وطن سے بھرے ہوئے ایک جہاز کو اس لیے ڈبو دیا تھا کہ برطانوی حکومت نے ان غیر قانونی یہودیوں کو فلسطین میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی تھی ۔ اس طرح انھوں نے عالمی رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لیے خونی ڈراما رچایا۔ بیت المقدس میں پرنس ایڈورڈ ہوٹل کی تباہی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ سے قبل خود امریکہ کی نیوی کے ایک جہاز USS Liberty کو اسرائیل نے میزائل مار کر ڈبو دیا تھا اس لیے کہ اس نے اسرائیل کے مصر پر اچانک حملے کی تیاریوں کو مانٹیر کر لیا تھا۔ اس پس منظر میں اور ان سیاسی فوائد کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے جو اسرائیل حاصل کر رہا ہے اور عربوں کو پوری مغربی دنیا میں نفرت اور انتقام کا نشانہ بنوا رہا ہے یہ شبہ کافی تقویت حاصل کرلیتا ہے کہ اس حادثے کے پیچھے اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کا ہاتھ ہے جو اس نوعیت کے آپریشن کی صلاحیت اور مہارت رکھتی ہے۔ ایسا ہی ڈراما روس میں شیشان کے خلاف حالیہ کارروائی سے پہلے ماسکو اور  ولگاڈونسک میں (۱۳ ستمبر ۱۹۹۹ء) میں دو آٹھ منزلہ عمارتوں میں بم کے دھماکوں کی شکل میں کیا گیا تھا جن میں ۳۰۰ افراد کی ہلاکت واقع ہوئی اور جسے بنیاد بنا کر شیشان پر نئی فوج کشی ہوئی تھی۔

انڈی پنڈنٹ کا مضمون نگار پیٹرک کوک برن نیویارک اور واشنگٹن کی حالیہ دہشت گردی کے پس منظر میں ماسکو سے اس واقعے کے بارے میں وہاں کی رائے عامہ کے حالیہ احساس کو یوں بیان کرتا ہے:

۱۰ میں سے صرف ایک کو یقین تھا کہ یہ چیچن کا کام ہے۔ صرف آغاز میں ہمارا یہ خیال رہا کہ یہ چیچن نے کیا ہے۔ اب ہم سمجھتے ہیں کہ کریملن کے لوگوں نے اقتدار میں رہنے کے لیے یہ کیا۔

یہ ہیں میکاولی سیاست کے طریق واردات۔ نیویارک اور واشنگٹن میں جو کچھ ہوا اس راز کا پردہ بھی ایک دن ضرور کھلے گا لیکن آثار تو اب بھی نظر آ رہے ہیں کہ ’’کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں!‘‘

جن افراد پر ہوائی جہازوں کو اغوا کرنے کا الزام ہے ان کے بارے میں جو متضاد باتیں سامنے آ رہی ہیں وہ سارے معاملے کو مخدوش بنا دیتی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ القاعدہ کے مجاہد تھے اور ساتھ ہی ان کی شراب نوشی‘ رقص و سرود اور گرل فرینڈز کے ساتھ رنگ رلیوں کی داستانیں بیان کی جاتی ہیں--- ایک طرف جہاد اور حوروں کی باتیں ہیں اور دوسری طرف یہ طرز زندگی‘ ان میں کیا مطابقت ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ اس سخن سازی کے ذمہ داروں کو اسلامی آداب جہاد اور شہادت کی الف بے سے بھی واقفیت نہیں۔ جن ۱۹ افراد کے نام آئے ہیں ان میں کم از کم ایک عیسائی ہے‘ کیا عیسائی بھی جہاد اور شہادت کا طلب گار تھا۔ ان میں سے کم از کم پانچ افراد کے بارے میں تو یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ وہ زندہ ہیں‘ سعودی عرب اور مراکش میں موجود ہیں اور ان کا کوئی تعلق ہوائی جہازوں کے اغوا سے نہیں۔ بلکہ ان میں سے تین نے تو کہا ہے کہ وہ امریکہ کے ابلاغ عامہ کے اداروںکے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ کریں گے۔ صاف ظاہر ہے کہ جو نام دیے جا رہے ہیں وہ  جھوٹے ہیں اور اصل مجرموں کا کسی کو پتا نہیں۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اوکلاہاما کے حادثے کے موقع پر بھی عربوں کومتہم کیا گیا تھا اور ان کے خلاف ملک گیر مہم شروع ہو گئی تھی۔ وہ تو اتفاقاً ٹموتھی میکوی گرفت میں آگیا اور معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ ایک امریکی دہشت گرد کا کیا دھرا تھا۔ مقدمے کے دوران یہ حقائق بھی سامنے آئے کہ اس کے گروہ میں ۵۰۰ تک افراد ہو سکتے ہیں لیکن گروہ اتنا منظم ہے کہ ٹموتھی کے ساتھ جو دو افراد گرفتار ہوئے تھے ان پر بھی ٹموتھی نے کوئی حرف نہ آنے دیا اور تمام قرائن (circumstantial evidence)کے باوجود ان کو بری کر دیا گیا۔ عدالت کے سامنے ٹموتھی کے بیانات بڑے اہم ہیں۔ اس نے اس دہشت گردی کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اسے حق بجانب قرار دیا اور صاف الفاظ میں کہا کہ میں امریکہ کو متنبہ کرنا چاہتا تھا اور زیادہ سے زیادہ افراد کو ہلاک کرنا میرا مقصد تھا۔ اس نے آخری وقت تک معافی نہیں مانگی بلکہ اپنی موت کے وقت جو نظم پڑھی اس میں اپنے کارنامے پر فخر کا اظہار کیا گیا ہے۔ ٹموتھی تنہا نہیں‘ اس کے اپنے گروہ میں سیکڑوں افراد ہیں اور اس جیسے دسیوں دہشت پرست گروپ امریکہ میں سرگرم عمل ہیں۔

۱۱ ستمبر کی تباہی جس منظم انداز میں‘ جس اعلیٰ صلاحیت کے ساتھ‘ اور جتنے باہمی ارتباط (coordination) کے ساتھ کی گئی وہ کسی بیرونی گروہ کا کام ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ تو اسی وقت ممکن ہے کہ جب اس میں امریکہ کے بہت ہی تربیت یافتہ‘ باصلاحیت‘ well-connected اور پورے نظام کے راز آشنا شریک ہوں۔ انھوں نے عربوں کے ناموں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا ہے اور حکومت اور میڈیا‘ اسامہ اور افغانستان کو قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کر کے اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے اور اصل مجرموں تک رسائی سے آنکھیں بند کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔یہ ایک مجرمانہ فعل اور عالم اسلام کے خلاف کھلی جارحیت کے مترادف ہے۔

ایک اصولی مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی ملزم پر جرم ثابت ہونے سے پہلے محض شبہہ کی بنیاد پر کوئی کارروائی صریح ظلم اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے۔ آج امریکہ طاقت کے نشے میں مست ہو کر محض شبہہ کی بنیاد پر افراد ہی نہیں اقوام اور ملک کو تباہ کرنے‘ انھیں پتھر کے دور کی طرف لوٹانے‘ اور نیست و نابود کرنے کی بات کر رہا ہے اور قانون کی حکمرانی ‘ عالمی انصاف اور ہوش و خرد کی بات کرنے والوں کو سّب و شتم کا نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ فطرت کے خلاف اور انسانیت کے لیے قطعاً ناقابل قبول ہے    ؎

وہی قاتل‘ وہی شاہد‘ وہی منصف ٹھہرا

اقربا میرے کریں خون کا دعویٰ کس پر

دہشت گردی کے اسباب

امریکہ اور مغربی ممالک کی قیادت کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جسے وہ دہشت گردی کہہ رہے ہیں اور اس کا قلع قمع کرنے کے لیے اکیسویں صدی کی سب سے لمبی اور ہمہ گیر جنگ کے لیے لنگرلنگوٹ کس رہے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے اور اس نوعیت کے مسائل و معاملات سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے۔

دہشت گردی کا جو پہلو ناقابل دفاع اور لائق مذمت و مزاحمت ہے وہ سیاسی اور مبنی برحق مقاصد کے حصول کے لیے ایسے طریقے اور راستے اختیار کرنا ہے جس کے نتیجے میں معصوم انسانوں کی جانیں ضائع ہوں۔ یہ ناقابل معافی جرم ہے اور اس سے لوگوں کو باز رکھنا انسانیت کی خدمت اور خود ان نادان انسانوں سے خیرخواہی ہے جو جان بوجھ کر یا محض حالات کی رَو میں ایسے جرائم کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ لیکن جو بات قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ اگر معاملات کی اصلاح کے جائز اور معقول راستے بند کر دیے جائیں گے ‘ اگر محض قوت اور ہٹ دھرمی‘ مفاد پرستی ‘ تعصب ‘ غرور ‘ مادی اور عسکری برتری اور علاقائی یا عالمی بالادستی کے مذموم مقاصد کے لیے دوسرے انسانوں کو ان کے حق سے محروم رکھا جائے گا اور اصلاح احوال کے امکانات کو معدوم کر دیا جائے گا تو اس کا فطری ردعمل رونما ہوتا ہے اور وہ صحیح کے ساتھ غلط راستے بھی اختیار کر لیتا ہے۔ اس لیے تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ظلم اور ناانصافی کی موجودگی میں اور ان کی سرپرستی کے ساتھ اور ان اسباب سے صرف نظر کر کے جو افراد‘ گروہوں اور اقوام کو تشدد پر مبنی جدوجہد کی راہ پر ڈالتے ہیں‘ اس سے حالات کی اصلاح ممکن نہیں۔ امریکہ اور عالمی سرمایہ داری کے خلاف جو نفرت اور بے زاری ہے وہ عالمی حقائق ہیں اور محض عسکری اقدامات سے دہشت گردی کا خاتمہ ناممکن ہے۔ برطانوی ممبر پارلیمنٹ جارج گیلرے نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب میں صحیح کہا ہے کہ اگر آپ ایک بن لادن کو ماردیں گے تو ایک ہزار بن لادن پیدا ہو جائیں گے۔

اصل مسئلہ ان اسباب کی کھوج اور ان کی اصلاح ہے جن کے نتیجے میں دنیا کے بیشتر علاقوں میں بشمول امریکہ اور یورپ بغاوت اور بے چینی کی لہریں اٹھ رہی ہیں اور مظلوم انسان اپنی جان پر کھیل جانے کے لیے مجبور ہو رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ بموں‘ میزائلوں اور انسانی بستیوں پر آگ برسانے سے نہیں لڑی جا سکتی۔ یہ جنگ تو اسی نوعیت کی جنگ ہے جو غربت‘ افلاس‘ بیماری اور جہالت جیسے فتنوں کے خلاف لڑی جاتی ہے۔ یہ غصہ اور طاقت سے نہیں‘ حکمت اور تدبیر سے لڑی جا سکتی ہے۔ انسانی مسائل کی گرہ کشائی کا راستہ ترک کر کے محض عسکری قوت سے جب بھی انسانوں کو دبانے کی کوشش ہوئی ہے وہ ناکام رہی ہے۔ تشدد کو بڑھانے اور ظلم میں اضافہ کرنے کا اس سے زیادہ موثر کوئی اور طریقہ نہیں کہ انتقام کی آگ میں جل کر عوامی تحریکوں کو قوت سے کچلنے کی کوشش کی جائے۔

عالمی استعمار نے ۲۰۰ سال یہ جنگ لڑی اور بالآخر آزادی کی تحریکات سے معاملہ کرنا پڑا اور کل کے دہشت گرد آج کے سیاسی قائد اور حکمران بن گئے۔ امریکہ اس کا تجربہ ویت نام‘ چلی اور کمبوڈیا میں کر چکا ہے۔ روس نے افغانستان میں یہی کھیل کھیلا اور پھر بھی سبق نہ سیکھا اور آج شیشان میں پھر اسی حماقت اور ظلم کا ارتکاب کر رہا ہے۔ برطانیہ نے ساری دنیا میں شکست کھانے کے بعد بالآخر شمالی آئرلینڈ میں ۲۰ سال کی عسکری جنگ کے بعد اسی شین فین سے معاملات طے کیے جس کا نام لینا اور جس کی قیادت کی آواز اور تصویر بھی ریڈیو اور ٹی وی پر ممنوع تھی۔ اسرائیل فلسطین میں یہی کھیل کھیل رہا ہے اور بھارت جموں و کشمیر اور ۱۶دوسرے علاقوں میں سیاسی مسائل کے عسکری حل کی ناکام کوشش میں گرفتار ہے۔ مسئلے کے حل کا کوئی راستہ اس کے سوا نہیں کہ ٹھنڈے دل سے امن و آشتی کو تہ و بالا کرنے والے عناصر اور اسباب پر غور ہو اور دہشت گردی کی طرف لے جانے والے عوامل سے نجات پائی جائے۔

خود احتسابی کی ضرورت

مغرب میں بھی جن کی نگاہ زندگی کے حقائق اور تاریخ کے پیغام پر ہے وہ یہی بات کہہ رہے ہیں۔ روزنامہ انڈی پنڈنٹ کا مشہور سیاسی تبصرہ نگار روبرٹ فسک (Robert Fisk)حالیہ سانحے پر مشرق وسطیٰ کے المیے کے تناظر میں جن خیالات کا اظہار کرتا ہے وہ امریکی قیادت ہی نہیں‘ دنیا کے سب حکمرانوں کے لیے بڑا چشم کشا ہے:

اب بات یہاں تک آگئی ہے۔ مشرق وسطیٰ کی مکمل جدید تاریخ‘ سلطنت عثمانیہ کا زوال‘ اعلان بالفور‘ لارنس آف عریبیہ کی کذب بیانیاں‘ عرب بغاوت‘ ریاست اسرائیل کا قیام‘ عربوں اور اسرائیل کے درمیان چار جنگیں اور عربوں کی سرزمین پر اسرائیل کے وحشیانہ قبضے کے ۳۴ سال… سب کچھ چند گھنٹوں میں مٹ گیا جب پسے ہوئے اور ذلیل کیے گئے لوگوں کی نمایندگی کا دعویٰ کرنے والوں نے ایسی مرعوب کن بے رحمی اور چالاکی سے پلٹ کر حملہ کیا جو وہی لوگ کرتے ہیں جو یقینی تباہی سے دوچار ہوں۔ کیا یہ مناسب اور اخلاقی رویہ ہوگاکہ اس کے بارے میں اس قدر جلدی لکھ دیا جائے جب کہ کوئی ثبوت نہیں‘ گواہی میں معمولی سی بات موجود نہیں‘ اور بربریت کا آخری واقعہ جو اوکلاہاما میں ہوا تھا وہ اپنے ہی گھر کے پروردہ امریکیوں کا کیا دھرا تھا؟ میرا خدشہ ہے کہ ایسا (اب بھی) ہے۔ امریکہ حالت جنگ میں ہے اور اگر میں فاش غلطی نہیں کر رہا تو مشرق وسطیٰ میں کئی ہزار لوگ مزید مارے جائیں گے اور شاید امریکہ میں بھی۔ ہم میں سے کچھ لوگ ’’آنے والی تباہ کاری‘‘ سے خبردار کرتے رہے لیکن ہم نے اس ڈرائونے خواب کا سوچا بھی نہ تھا۔

مگر یہ جمہوریت اور دہشت گردی کی جنگ نہیں ہے جس کا یقین آیندہ گھنٹوں اور دنوں میں دنیا کو دلایاجائے گا۔ یہ ان امریکی میزائلوں کے بارے میں بھی ہے‘ جو فلسطینیوں کے گھروں پر گرتے ہیں۔ ان واقعات کے بارے میں بھی ہے جب امریکی ہیلی کاپٹروں نے ۱۹۹۶ء میں لبنانی ایمبولینس پر میزائلوں سے حملہ کیا تھا اور اس کے چند دن بعد ’قانا‘ نامی گائوں میں امریکہ نے گولے داغے تھے‘ امریکہ کے اتحادی‘ اسرائیل کی پروردہ لبنانی ملیشیا نے مہاجر بستیوں میں قتل و غارت‘ لوٹ مار اور عصمت دری کا بازار گرم کیا تھا۔ نہیں‘ کوئی شبہ نہیں کہ امریکہ میں جو کچھ ہوا ہے وہ ناقابل بیان شر ہے۔ ۲۰ ہزار یا ۳۵ ہزار معصوم لوگوں کی ہلاکت کے سانحے پر فلسطینیوں کا جشن منانا صرف اُن کی مایوسی کا مظہر نہیں ہے بلکہ سیاسی عدم بلوغ کا بھی ہے اس لیے کہ وہ اپنے دشمن اسرائیل پر اسی قسم کے الزامات عائد کرتے رہتے ہیں یعنی غیرمتناسب کارروائی۔

مگر ہمیں متنبہ کر دیا گیا تھا: زوردار تقریروں کے کئی سال‘ امریکہ کے قلب پر حملے کرنے کے عہد‘ ’’امریکی سانپ‘‘ کا سر کچلنے کے اعلان۔ ہم انھیں خالی خولی دھمکیاں سمجھتے رہے۔ قدامت پسند‘ غیر ترقی یافتہ‘ غیر جمہوری اور بدعنوان حکمرانوں کے گروہ اور چھوٹی سی اشتعال انگیز تنظیمیں اسی طرح کے بے بنیاد دعوے کس طرح پورے کر سکتے ہیں! اب ہم جان چکے ہیں۔ گذشتہ روز کی تباہی و بربادی کے چند گھنٹوں کے بعد‘ میں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں پر ہونے والے اُن بڑے اور غیرمعمولی حملوں کا سوچنے لگا‘ جو گذشتہ روز کے واقعے کے بعد بہت ہی ہیچ اور معمولی محسوس ہونے لگے ہیں۔ ۲۳ اکتوبر ۱۹۸۳ء کو خودکش بم بازوں نے ۲۴۱ امریکی ملازمین اور ۱۰۰ فرانسیسی چھاتہ برداروں کو ہلاک کر دیا تھا‘ اُس وقت تک ایسے حملوں کی کوئی نظیر موجود نہ تھی۔ بحریہ پر حملے اور فرانسیسیوں کی تباہی کے درمیان سات سیکنڈ کا وقفہ ہوا تھا۔ اس کے بعد سعودی عرب میں قائم امریکی اڈوں پر حملے ہوئے تھے اور پچھلے برس عدن میں امریکی بحری جہاز کو ڈبونے کی کوشش تقریباً کامیاب ہو گئی تھی۔ ہم مشرق وسطیٰ کے نئے ہتھیار: مایوس لیکن جان پر کھیل جانے والے خودکش بم باز کو پہچاننے میں بالکل ناکام رہے جس کی برابری امریکی یا دوسرے یورپی نہیں کرسکتے۔ عرب کہیں گے کہ امریکہ کی ساری طاقت‘ دولت اور گھمنڈ بھی آج تک کی دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا اس تباہی سے دفاع نہ کر سکے۔

اب لازمی اور فطری طور پر‘ بالکل غیر اخلاقی طرز اختیار کرتے ہوئے گذشتہ ایام کی تاریخی غلطیوں‘ ناانصافیوں اور خون ریزیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی جو کل کے اس المیے کی پشت پر ہیں۔ ہمیں بتایا جائے گا کہ یہ بے مغز (mindless) ’’دہشت گردی‘‘ ہے۔ ’’بے مغز‘‘ قرار دینا بہت ضروری ہے۔ اگر ہم اس حقیقت کو سمجھنے کے قابل نہیں ہیں کہ تین عظیم مذاہب کی سرزمین میں امریکہ سے کس قدر نفرت کی جاتی ہے تو بے مغز کہنا ضروری ہے۔ ایک عرب سے معلوم کریں کہ وہ ۲۰‘ ۳۰ ہزار معصوم افراد کی موت کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ عرب مرد یا عورت‘ مہذب اور باشعور شہریوں کی طرح اسے ایک ناقابل برداشت جرم قرار دے گا لیکن وہ یہ ضرور جاننا چاہیں گے کہ آخر ہم نے یہ الفاظ اُس وقت کیوں استعمال نہیں کیے جب پابندیوں کے باعث عراق میں ۵ لاکھ بچے ہلاک ہو گئے۔ جب لبنان میں‘ ۱۹۸۲ء میں اسرائیل نے ۱۷ ہزار ۵ سو شہری حملہ کر کے ہلاک کر دیے۔ ہم نے مشرق وسطیٰ میں ایک قوم کو یہ حق کیوں دیا کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو نظرانداز کر دے اور اُن تمام ممالک پر پابندیاں عائد کر دیں جنھوں نے انھیں نظرانداز کیا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ گذشتہ ستمبر میں مشرق وسطیٰ میں جو شعلے بھڑک اُٹھے اُس کی کیا وجوہات تھیں۔ عرب علاقوں پر اسرائیل کا تسلط ‘ فلسطینیوں کی علاقہ بدری‘ اسرائیل کے ٹارچر‘ ریاست کے کرائے گئے قتل‘ ان سب معاملات کو چھپانا چاہیے کہ کوئی واقعہ بھی گذشتہ دن کی اجتماعی تباہ کاری کے لیے وجہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اسرائیل پر کوئی الزام عائد نہیں کیا جا سکتا--- ہم یقین کر سکتے ہیں کہ صدام حسین جیسے احمق آمر اس کا دعویٰ کریں گے لیکن تاریخ کے برے اثرات اور اس میں ہمارا کردار‘ کٹہرے میں خودکش بم بازوں کے شانہ بشانہ کھڑا کیا جائے۔ ہمارے اپنے وعدوں سے انحراف‘ یہاں تک کہ سلطنت عثمانیہ کی تباہی‘ اس المیے پر منتج ہوئی۔ اسرائیل کے جنگی اخراجات اتنے طویل عرصے سے امریکہ کی جانب سے ادا ہو رہے ہیں کہ وہ اسے مفت ہی سمجھتا ہے۔آیندہ یہ سلسلہ نہیں چلے گا۔ یہ اقدام غیر معمولی حوصلہ مندی اور دانش کا مظہر ہوگا اگر امریکہ ایک لمحے کے لیے ٹھہر کر دنیا میں اپنے کردار پر‘ عربوں کی تکالیف پر امریکی حکومت کی بے حسی‘ اور اپنے موجودہ صدر کی بے عملی پر غور کرے۔

بے شک امریکہ یہ چاہتا ہے کہ وہ ’’عالمی دہشت گردی‘‘ کے خلاف جوابی کارروائی کرے‘ اُنھیں کون الزام دے سکتا ہے؟ ’’دہشت گردی‘‘ کے اشتعال انگیز اور کبھی کبھار نسل پرستی والے لفظ کے استعمال پر کون ہے جو امریکہ پر انگلی اٹھا سکتا ہے۔ لوگ مل جائیں گے جو ہر اُس تجویز کو فوراً ردّ کر دیں گے جس میں عالم گیر پیمانے پر ہونے والی اس دہشت گردی کے عمل کی حقیقی تاریخی وجوہات تلاش کرنے پر زور دیا گیا ہو۔ لیکن اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہم ایسے زبردست بحران کا شکار ہو جائیں گے جو ہم نے ہٹلر کی موت اور جاپان کی شکست کے بعد نہیں دیکھا ہے۔ کوریا اور ویت نام کی اہمیت تو اب مقابلتاً کچھ بھی نہیں رہی ہے۔

آٹھ سال قبل‘ میں نے ٹیلی وژن پر ایک سلسلہ وار پروگرام کیا تھا اور یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی کہ مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد مغرب سے نفرت کیوں کرتی ہے۔ گذشتہ رات‘ مجھے وہ مسلمان یاد آئے جن کے حالات ریکارڈ کیے گئے تھے۔ جن کے گھر امریکہ کے بنائے ہوئے بموں اور ہتھیاروں سے تباہ ہو گئے تھے‘ وہ کہہ رہے تھے کہ خدا کے سوا کوئی ہماری مدد کو نہ آئے گا۔ مذہب‘ ٹکنالوجی کے مدمقابل ہے۔ خودکش بم باز‘ جوہری طاقت سے نبرد آزما ہے۔

واشنگٹن پوسٹ میں ایک امریکی پروفیسر رابرٹ جی کیویان (Robert G. Kavian) نے بھی بڑے واشگاف انداز میں خود احتسابی کی دعوت دی ہے۔ یہ تبصرہ جسے ہفت روزہ   گارجین (۲۰-۲۶ستمبر ۲۰۰۱ء ‘ ص ۳۰)نے اپنی تازہ ترین اشاعت میں شائع کیا ہے ‘ سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے:

ہمارے سیاسی رہنمائوں میں سے کسی نے بھی ان اہم سوالات سے بحث نہیں کی ہے جو ہماری نئی حیثیت سے اٹھے ہیں۔ ملک اپنی خوش حالی میں مگن اور مطمئن ہے۔ باہر کی دنیا سے یا کہیں اور سے ناخوش گوار خبروں کو ہم نظرانداز کرتے رہے۔ مگر ہماری طاقت کی حد اور حیثیت کیا ہے؟ اس کا ادراک ہمیں گذشتہ ہفتے ہوا‘ اگرچہ خاصی تکلیف اٹھا کر--- ہم دنیا کی رہنما عالمی طاقت ہیں لیکن ہم بہت کم دنیا کی رہنمائی کرتے ہیں۔ جب ہم کرتے ہیں تو یہ عسکری صورت حال میں ہوتا ہے‘ جیسے خلیج کی جنگ یا کوسووا۔ حالیہ تاریخ میں کون سا سنگین مسئلہ ہے جو امریکہ کی پہل کاری کی وجہ سے حل ہوا ہو۔ دنیا کے مفلس ترین لوگوں کی مدد کے لیے ہم دوسرے صنعتی ملکوں کے مقابلے میں فی کس بہت کم دیتے ہیں۔ بہت سے ایسے مسائل پر جس پر دوسرے سمجھتے ہیں کہ اجتماعی اقدام ضروری ہے‘ ہم الگ کھڑے ہوتے ہیں‘ مثلاً بارودی سرنگوں پر پابندی اور جوہری تجربات کی آزمایش سے لے کر ماحول میں گرین ہائوس گیسوں کے اخراج تک۔

--- بڑی طاقتوں کو جس معاشرتی ماحول میں وہ کام کرتی ہیں اس کی بھی فکر کرنا چاہیے۔ ایک دشمن معاشرتی ماحول ایک باوسائل دشمن کی طرح کسی بڑی طاقت کے نیچے سے موثرانداز سے زمین سرکا سکتا ہے۔ امریکیوں کونوٹس لینا چاہیے کہ ان کے لیے ماحول بگڑ رہا ہے۔ مثال کے طور پر  ہمیں احساس ہے کہ غربت سے پیدا ہونے والی بیماریاں جو تقریباً ختم ہو گئی تھیں‘ مثلاً تپ دق خود ہمارے اپنے ملک میں انتقامی انداز میں پھر حملہ آور ہو رہی ہیں۔ ایڈز کی وبا بھی ایک مصیبت کی علامت ہے۔ ہم اس سے بھی واقف ہیں کہ دنیا کے محروم لوگ مال دار ممالک میں دولت کمانے کے لیے غیر قانونی داخلے کے لیے کیا کچھ خطرات مول لیتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ منشیات کی تجارت کو روکنے کے لیے ہم نے جو بھی رکاوٹیں عائد کیں‘ انھیں عبور کر لیا گیا۔

نئے عالمی نظام کا ایک پہلو فاصلے کا ختم ہونا ہے۔ اب زمین پر کوئی بھی جگہ دُور نہیں رہ گئی ہے۔ عالمی گائوں میں غریب جانتے ہیں کہ وہ کتنے غریب ہیں‘ اور امیر کتنے بہتر حال میں ہیں۔ وسائل رکھنے والے غریب اپنی حیثیت کو خاموشی سے قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ اسے تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان میں سے لاکھوں ان مقاصد کے حصول کے لیے امریکہ میں گھس آئے ہیں‘ جیسا کہ گذشتہ ہفتے کے حملہ آور۔ یقینا یہ ایک مختلف زمرے سے تعلق رکھتے ہیں: ایسے مظلوم جو اپنے پر ظلم کو ہضم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ ( ہفت روزہ گارجین‘ ۲۰-۲۶ ستمبر ۲۰۰۱ء)

یہ دو طویل اقتباس خود مغربی دنیا کے سوچنے سمجھنے والے عناصر کی فکرکی عکاسی کرتے ہیں۔

حقائق تسلیم کرنے کی ضرورت

امریکی اور یورپی قیادت جب تک مندرجہ ذیل حقائق کو تسلیم نہیں کرتی‘ فساد اور تباہی سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں۔

(الف) دہشت گردی صرف ایک علامت اور مظہر ہے‘ جب تک اس کے اسباب تک رسائی نہ حاصل کی جائے اور ان عوامل کا سدباب نہ کیا جائے جو اس کی طرف لے جانے والے ہیں‘ حالات درست نہیں ہو سکتے۔

(ب) دہشت گردی محض ایک جگہ اور ایک واقعے سے عبارت نہیں۔ ظلم جہاں بھی ہو‘ انسانیت کے لیے ایک خطرہ ہے۔ محض نیویارک اور واشنگٹن ہی میں مظلوموں کا خون نہیں بہا‘ یہ خون ساری دنیا میں بہہ رہا ہے‘ اور اس باب میں انسانوں کے درمیان تمیز و تفریق (discrimination) خود دہشت گردی کے فروغ کا ایک سبب ہے۔

(ج) دہشت گردی اپنی ہر شکل میں قابل مذمت ہے۔ خواہ اس کے مرتکب افراد ہوں‘ یا گروہ یا حکومتیں۔

(د) بڑی طاقتوں اور حکمرانوں کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔ وہ دہشت گردی کا شکار نہیں‘  اس کے اصل مرتکب ہیں۔جب تک وہ اپنا رویہ اور پالیسی تبدیل نہیں کرتے حالات کی اصلاح ممکن نہیں۔

(ھ) تشدد کا جواب تشدد نہیں اور نہ دلیل کی جگہ لفاظی (rhetoric)  لے سکتی ہے۔ اصلاح کا راستہ مشکل بھی ہے اور جاں گسل بھی۔ مگر اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔

(و)  حالات کی اصلاح کے لیے سب کو تیار ہونا چاہیے‘ وہ بھی جو اصحاب اقتدار ہیں اور قوت و سطوت کے مالک ہیں اور وہ بھی جو مظلوم ‘ مجبور اور محکوم ہیں مگر اپنے حق کے حاصل کرنے کے لیے سینہ سپر ہیں۔ لیکن اصلاح کا دارومدار حکمران عناصر اور بڑی طاقتوں پر زیادہ ہے۔ ان کو سمجھنا چاہیے کہ:

جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوامشکل ہے

 

پروفیسر فتح محمد ملک کے کالموں کا پہلا مجموعہ‘  کشمیر کی کہانی :عالمی ضمیر سے چند سوالات کے نام سے حال ہی میں شائع ہوا ہے۔ کتاب دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے’’کشمیر تیمور نہیں‘‘ اور ’’مشرقی تیمور کشمیر نہیں‘‘۔ ۳۸ شذرات کا یہ مرقع بہ ظاہر کشمیر میں جدوجہد آزادی اور حق خود ارادیت کے مسلمہ اصول کے بارے میں مغربی اقوام اور خصوصیت سے امریکہ کی دوغلی پالیسی کے مختلف پہلوئوں پر کلام کرتاہے لیکن فی الحقیقت یہ دورحاضر میں اسلامی احیا کی جدوجہد‘ تحریک پاکستان کی روح اور اہداف‘ اسلام مخالف قوتوں کے اصل عزائم اور ریشہ دوانیوں اور سب سے بڑھ کر خود ملّت اسلامیہ پاکستان کے مختلف کرداروں کے رول کا‘ ایک سچے مسلمان اور ایک پکے پاکستانی کی نگاہ سے بے لاگ اور بصیرت افروز محاکمہ ہے۔ ان میں حقائق کا صحیح ادراک‘ واقعات کا نظرافروز تجزیہ‘ عالمی سازشوں کی حقیقت پسندانہ عکاسی‘ پاکستانی قیادت اور ہر سطح کے نام نہاد ترقی پسندوں کے کارناموں کا محاسبہ ہے جو بڑے جچے تلے‘معقول اور معتدل انداز میں دردمندی‘ اصلاح اور اُمت کو بیدار کرنے کے جذبے کے ساتھ کیا گیا ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ مشکل کام اس خلوص اور دیانت سے انجام دیا گیا ہے کہ دل گواہی دیتا ہے کہ تبصرہ نگار سخن فہم ہے‘ غالب کا طرف دار نہیں!

جہاد کشمیر کے اسلامی تشخص اور ۱۹۳۱ء کی تحریک کشمیر سے لے کر آج کی جدوجہد تک کے نظریاتی نقوش کتاب کے ہر صفحے پر نمایاں ہیں۔ ان مختصر تحریروں کے آئینے میں اس تاریخی اور نظریاتی کش مکش کی صحیح تصویر دیکھی جا سکتی ہے جسے سمجھے بغیر نہ تو تحریک پاکستان کو سمجھا جا سکتا ہے نہ جہاد حریت کشمیر کو‘ اور نہ پاک بھارت کش مکش کے اصل اسباب کو‘اور نہ امریکہ بھارت دوستی کے حقیقی محرکات کو۔ یہ مسلمانان پاکستان کے لیے ایک دعوت فکر وعمل ہے کہ وہ اس خواب سے بیدار ہوں جس میں مغرب کے جادوگروں اور لادینیت اور ترقی پسندی کے متوالوں نے خواب آور گولیاں کھلا کر ان کو بستر نشین کر دیا ہے۔ جہاد کی پکار اور اقبال کے بیداری کے پیغام کا اعادہ بڑے دل نشین انداز میں کیا گیا ہے اور آج کے تناظر میں اس طرح کیا گیا ہے کہ ماضی کی یہ قم باذن اللّٰہ کی پکار آج کے پاکستانی کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا پیغام بن گئی ہے۔ یہ کتاب محض نوحہ غم نہیں‘ جہاد کی پکار ہے جو علمی متانت اور ادبی حسن کے ساتھ دی گئی ہے۔ یہ کتاب ایک پیغام ہے جو گذشتہ تین سال کے اہم واقعات کے پس منظر میں تحلیل و تجزیے کے ساتھ اہل وطن کو دعوت دیتی ہے کہ اپنے ملک‘ اس کے اسلامی تشخص اور مجاہدین کشمیر کی سرفروشانہ جدوجہد کو اس کی کامیابی تک پہنچانے کے لیے سرگرم عمل ہو جائیں‘ امریکہ کے اصل عزائم اور کھیل کو سمجھیں۔ خود پاکستان میں امریکہ کے آلہ کار جو کردار ادا کر رہے ہیں ‘ اسے ناکام بنانے اور اپنی اصل منزل کی طرف بڑھنے کی فکر کریں۔ اس میں ایوب خان اور محمد شعیب سے لے کر بے نظیر اور نواز شریف تک سب کی اصل تصویر دیکھی جا سکتی ہے۔ تاشقند سے شملہ‘ شملہ سے لاہور‘ لاہور سے کارگل اور کارگل سے واشنگٹن پسپائی اور غداری کے سارے منظر آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ افغانستان میں کیا ہو رہا ہے‘ انڈونیشیا کو کیسے پارہ پارہ کیا جا رہا ہے‘ چین کے بارے میں کیا عزائم ہیں‘ امریکہ اور بھارت گٹھ جوڑ کی حقیقی شکل و صورت کیا ہے--- ہلکے پھلکے انداز میںلیکن صداقت اور حقیقت پسندی کے ساتھ پورانقشہ جنگ سامنے آجاتا ہے۔ کل ’’پان اسلامزم‘‘ کا ہّوا کھڑا کیا تھا آج اسلامی بنیاد پرستی اور تشدد کا راگ الاپا جا رہا ہے۔ مقصد ایک ہی ہے : مسلمان کے دل سے ’’روح محمدؐ   ‘‘ کو نکالنا اور امریکہ اور مغرب کی ذہنی‘ تہذیبی‘ معاشی اور سیاسی غلامی میں جکڑ دینا--- خواہ اس کی شکل کیسی ہی ریشمی اور پرکار ہو!

نواز شریف اور بے نظیر نے جس طرح امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیکے‘ بھارت سے معاملہ کرنے کی کوشش کی‘ کشمیر کے جہاد سے بے وفائی کی‘ ان کا بے لاگ احتساب‘ اور جہاد کشمیر کی تائید و معاونت اور طالبان سے آزمایش کی اس گھڑی میں یگانگت و ہم آہنگی کا اظہار جس سلیقے سے کیا گیا ہے وہ ملک صاحب کی سیاسی بصیرت اور قوت ایمانی کا مظہر ہے۔ بے نظیر کی امریکہ نوازی اور ذوالفقار علی بھٹو کی امریکہ بے زاری کا جس طرح موازنہ کیا ہے وہ چشم کشا اور خود پیپلز پارٹی اور لبرل عناصر کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ملک صاحب کا بھٹو کے لیے نرم گوشہ کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں جس کا اظہار بار بار اس کتاب میں بھی ہوتا ہے۔ میری رائے میں یہ ہر صاحب الرائے شخص کا حق ہے لیکن اس کے ساتھ جس دیانت اور ملی غیرت سے انھوں نے بے نظیر اور ترقی پسندوں کے پورے ہی طبقہ زہاد پر گرفت کی ہے وہ ان کے اخلاص‘ غیر جانب داری اور اصابت رائے کا  ثبوت ہے۔

ملک صاحب لکھتے ہیں:

یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہمارے دانش ور‘ ہماری افسر شاہی اور ہمارے سیاست دانوں میں ایسے عناصر کی کمی نہیں جو امریکی خوشنودی اور بھارت دوستی کی خاطر اپنا نظریاتی وجود مٹا دینے کو ترقی پسندی‘ روشن خیالی‘ اور امن دوستی کی علامت سمجھتے ہیں۔ میں ایسے عناصر کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کا جغرافیائی وجود پاکستان کے نظریاتی وجود سے برآمد ہوا تھا اور اگر آج ہم اپنے نظریاتی وجود کو بھارت سے دوستی کی بھیک وصول کرنے اور امریکہ سے روشن خیالی کی سند پانے کی خاطر مٹا دیں گے تو پھر کل ہمارا جغرافیائی وجود بھی قائم نہیں رہ سکے گا۔ (ص ۴۲)

کشمیر کی تحریک آزادی کے نظریاتی تشخص کے خلاف بھارت اور امریکہ کا رویہ تو جارحانہ ہے ہی‘  بے نظیر اور نواز شریف جیسے لوگ بھی معذرت خواہانہ رویہ اختیار کر کے مغرب سے اپنی روشن خیالی کا سرٹیفیکیٹ لینا چاہتے ہیں ۔لیکن ملک صاحب صاف لکھتے ہیں:

اس طرزفکر کی بنیادی خامی یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کی غالب اکثریت کے علاقوں میں عوام اپنے دینی عقائد پر قائم رہتے ہوئے اپنی کلچرل روایات کے مطابق زندہ رہنے کا عوامی‘ جمہوری‘ انسانی حق مانگتے ہیں تو اس میں خرابی کی کیا بات ہے؟ (ص ۹۶)

پھر مغرب اور اس کے مسلمان حواریوں کے بارے میں لکھتے ہیں:

مغربی ذرائع ابلاغ پوری دنیا میں ایک موثر کردار کے حامل ہیں۔ خود مسلمان ملکوں کے اہل علم و دانش ان ذرائع سے پھیلائے جانے والے طرزفکر و احساس کو اپنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ چنانچہ پاکستانی دانش ور بھی ان ہی مغربی مفروضوں کی جگالی کرتے پائے جاتے ہیں۔ وہ ترقی پسند اور سابق انقلابی دانش ور بھی جو لاطینی امریکہ کے گوریلا مجاہدچی گویرا کے مقلد ہونے پر نازاں رہتے ہیں‘ کشمیر میں مسلمانوں کی گوریلا جنگ کو ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی گالی دیتے ہیں۔ اپنے اس رویے کو روشن خیالی کا ثبوت بنا کر پیش کرتے پھرتے ہیں۔ یہ کتنا بڑا ستم ہے کہ خود مسلمان دانش ور اپنی اسلامی شناخت پر معذرت خواہ ہیں۔ (ص ۹۷)

اسی طرح مغرب کے رویے کے بارے میں اپنے استعجاب کا اظہار یوں کرتے ہیں:

حیرت تو یورپ کے اور امریکہ کے ارباب فکر و دانش پر اور ارباب بست و کشاد پر ہے جو اس وقت تک مسلمانوں کو انسانی حقوق دینے پر آمادہ نہیں ہوتے جب تک مسلمان اپنی اسلامی شناخت سے دست بردار ہونے پر تیار نہ ہوں۔ کشمیری مسلمان اپنی اسلامی شناخت روز بروز نمایاں سے نمایاں تر کرتے چلے آرہے ہیں‘ اس لیے دنیاے مغرب ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنے والی فاشسٹ قوت کی عملی دست گیری اور نظریاتی حمایت سے حقوق انسانی کی پامالی میں مصروف ہے۔ (ص ۹۷)

یہ تو امریکہ اور یورپ کا تاریخی کردار ہے‘اس لیے ہمیں اگر حیرت ہے تو ملک صاحب کی اس حیرت پر ہے!

بھارت کی ثقافتی یلغار پر بھی ملک صاحب نے بھرپور گرفت کی ہے۔ بسنت کے موقع پر بھارتی وفد کی سربراہ وکرم ساہنی کے اس ارشادکا کہ:’’ پاکستان اور بھارت کا کلچر اور مٹی ایک ہے‘‘ ملک صاحب نے بہ ایں الفاظ تعاقب کیا ہے:

تحریک پاکستان کے دوران بھی متحدہ ہندستانی قومیت کے علم برداروں نے برعظیم کے مخلوط کلچر کی آواز بہت زور شور کے ساتھ اٹھائی تھی اور ’’ایک کلچر ایک ملک‘‘ کی سیاست چمکائی تھی مگر اس زمانے میں اقبال کی فکر ہماری رہنما تھی‘ اور ہم مخلوط ہندستانی کلچر کے بجائے جداگانہ مسلمان کلچر کے علم بردار بن کر ایک جداگانہ مسلمان مملکت کے قیام کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ چنانچہ ’’ایک کلچر ایک مٹی‘‘ کی سی باتیں ہمیں ایک سامراجی جال معلوم دیتی تھیں۔ نتیجہ یہ کہ ہم اس جال سے بچ کر چلے اور قیام پاکستان کی منزل تک پہنچنے میں کامران ہوئے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ آزادی کے ۵۰سال بعد نئے شکاری وہی پرانے جال لے کر ہمارے حکمران طبقے کی میزبانی کے لطف اٹھا رہے ہیں اور حکمران طبقہ پلٹ کر یہ نہیں کہتا کہ دوستی اپنی جگہ مگر کلچر جداگانہ مسلمانی شناخت رکھتا ہے۔ کیونکہ یہ منفرد مسلمان کلچر اسلام کے تصور کائنات سے پھوٹا ہے۔ ہمارا یہ جداگانہ کلچر اکھنڈ بھارت میں خطرات کی زد میں آنے والا تھا‘ اس لیے اس کی بقا اورتحفظ و ترقی کی خاطر ہم نے عوامی جمہوری جدوجہد سے اپنی جداگانہ مملکت پاکستان حاصل کی۔ (ص ۱۵)

ملک صاحب نے صحیح انتباہ کیا ہے کہ:

ہمارے ارباب اختیار کو یہ حقیقت کبھی فراموش نہ کرنی چاہیے کہ ہندو ذہن کے مطابق تاریخ کی سب سے بڑی غلطی پاکستان کا قیام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم پر دبائو ڈالا جا رہا ہے کہ بس کے بجائے ٹینک پر بیٹھ کر پاکستان جائیں۔ اس ضمن میں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ہندو انتہا پسندوں کے نزدیک برعظیم میں مسلمانوں کا وجود بھی ایک تاریخی غلطی ہے۔ چنانچہ یہ ایجنڈا پاکستان کی تباہی پر ہی بس نہیں کرے گا بلکہ میری‘ آپ کی اور ہم سب کی فنا پر تمام ہوگا۔ اس لیے ابھی وقت ہے کہ ہم بھارت سے کہیں کہ بس بھئی بس! (ص ۱۶)

نواز شریف کے دور میں ’’جنگ سلسلہ اخبارات‘‘ کے توسط سے سرکاری پلان اور اخراجات پر منعقد ہونے والی کانفرنس پر‘جو ’’انڈوامریکن لابی‘‘ کا کارنامہ تھی‘ تبصرہ کرتے ہوئے ملک صاحب نے پورے پاک بھارت اور کشمیری تناظرکو جس طرح بیان کیا ہے وہ ایک سچے پاکستانی اور مسلمان کے دل کی آواز ہے:

بھارتی سیاست دانوں اور صحافیوں نے پاکستان کی سرزمین پر پاکستان کی نظریاتی بنیادوں پر اوچھے وار کیے۔ پاکستان کے حکمران مسکراتے رہے۔ اس تجربے سے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے موجدوں اور سرمایہ داروں نے سوچا کہ اب اعلان لاہور کی گھڑی آپہنچی۔ چنانچہ اعلان لاہور داغ دیا گیا کہ بھائی ڈرو نہیں ہم پہلے انسان ہیں اور بعد میں مسلمان۔ وہ جو اوّل مسلمان ہیں اور آخر مسلمان--- ظاہر بھی مسلمان ہیں اور باطن بھی مسلمان۔انھوں نے اعلان لاہور پر وہ کہرام مچایا کہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ واجپائی کو لاہور کی سڑکوں پر قدم دھرنے کی اجازت نہ دینے والوں میں سے جو لوگ جیلوں میں ڈالے گئے وہ ابھی جیلوں سے رہا بھی نہ ہوئے تھے کہ ان کے جنون پسند ساتھیوں نے کارگل کی چوٹیوں سے بانگ انا الحق بلند کر دی۔ (ص ۴۴)

جہادی تنظیموں کے خلاف امریکی اور بھارتی یلغار کا پردہ ملک صاحب نے بار بار چاک کیا ہے اور اقبال کے پیغام جہاد میں آزادی‘ ایمان اور عزت کی تلاش کی یاد دہانی کرائی ہے۔ نیز مولانا ابوالکلام آزاد کا ایک طویل اقتباس بھی دیا ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ:

یہی وہ اسلام ہے جس کو قرآن جہاد فی سبیل اللہ سے تعبیر کرتا ہے اور کبھی اسلام کی جگہ جہاد اور جہاد کی جگہ اسلام‘ کبھی مسلم کی جگہ مجاہد اور کبھی مجاہد کی جگہ مسلم بولتا ہے… میں جہاد کو صرف ایک رکن اسلامی‘ ایک فرض دینی‘ ایک حکم شرعی بتلاتا ہوں حالانکہ میں تو صاف صاف کہتا ہوں کہ اسلام کی حقیقت ہی جہاد ہے‘ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ اسلام سے اگر جہاد کو الگ کر لیا جائے تو وہ ایک ایسا لفظ ہوگا جس میں معنی نہ ہوں ‘ ایک اسم ہوگا‘ جس کا مسمّٰی نہ ہو۔

کشمیر کی کہانی میں بلاشبہ عالمی ضمیر کے لیے بہت سے چبھتے ہوئے سوال ہیں لیکن خود مسلمانوں کے ارباب بست و کشاد اور لبرلزم اور ترقی پسندی کے دعوے دار دانش وروں‘ صحافیوں اور سیاست دانوں کے لیے ان سے بھی زیادہ تیکھے سوال ہیں۔ کاش کہ وہ ان کا جواب اس ضمیر میں تلاش کرنے کی کوشش کریں جسے افیون پر افیون دے کر مردہ کیا جا رہا ہے۔ ملک صاحب کی اس کتاب کی آخری سطریں ایک انتباہ بھی ہیں اور امید کی ایک کرن بھی۔

افغانستان میں طالبان حکومت کو ختم کرنے اور کشمیر میں جہادی تحریکوں کو ناکام بنانے کی خاطر ابلیس کے سیاسی فرزندوں کی سیاسی دست گیری کرنے والے اہل سیاست و دانش کی حکمت اور حکمت عملی کو اقبال کی نظم ]اشارہ ہے ’’روح محمدؐ  ‘‘ اور ملا کو کوہ و دمن سے نکالنے والی نظم[ کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔

ساتھ ساتھ اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا بھی لازم ہے کہ بقول اقبال:

بھروسا کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ دنیا میں فقط مردان حُر کی آنکھ ہے بینا

کشمیر کی کہانی حسن طباعت کے اعتبار سے بھی ایک کامیاب پیش کش ہے۔ زبان و بیان کی نزاکتیں میرا میدان نہیں لیکن monsterکا ترجمہ ’’جن‘‘ (ص ۶۳) کچھ کھٹکا۔ عفریت‘ بھوت یا دیو شاید بہتر رہتا۔ انگریزی الفاظ کے اسپیلنگ اور ترتیب مسئلہ بنی رہتی ہیں‘ یہاں بھی صحت کے غیر معمولی اہتمام کے باوجود غلطیاں موجود ہیں (مثلاً صفحہ ۹۱ پر proxy)۔

محترمہ بے نظیر صاحبہ نے جس طرح امریکہ کی آواز میں آواز ملائی ہے اور جس طرح وہ بھارت نوازی میں نواز شریف سے بھی بڑھ کر پیش پیش ہیں‘ اس پر ملک صاحب نے بجاطور پر بھرپور گرفت کی ہے اور بے نظیر اور ذوالفقار بھٹو کے بیانات کو جس طرح آمنے سامنے کھڑا کر دیا ہے‘ وہ خاصے کی چیز ہے۔ باپ بیٹی اور پی پی پی کے دو سربراہوں کے متضاد موقف ایک طرح سے پاکستانی سیاست پر جان دار تبصرے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ البتہ امریکہ‘ بھارت اور جمہوریت کے بارے میں ذوالفقار بھٹو کے تضادات کی کوئی جھلک نہیں آسکی‘ بلکہ بین السطور بھٹو صاحب کے سلسلے میں ایک خفی رومانیت کا  شبہ ہوتا ہے۔ بھٹو صاحب کی چین پالیسی‘ خارجہ امور پر گہری نظر اور معیشت میں بنیادی صنعتوں کو اہمیت دینے کا میں بھی قائل ہوں لیکن امریکہ اور بھارت کے بارے میں جو قلابازیاں اوروں نے کھائی ہیں بھٹو صاحب کا دامن بھی اس سے پاک نہیں۔ تاشقند کے راز فاش کرنے کے سلسلے میں تو ملک صاحب کی توقعات بھی نامراد ہی رہیں۔

مصنف نے جہاں بجاطور پر سیاسی قائدین پر گرفت کی ہے کہ وہ امریکہ سے اپنے جواز کی سند لانے کے لیے لین ڈوری لگاتے رہے ہیں‘ وہاں اس قافلہ عاشقاں میں قاضی حسین احمد کا ذکر مبنی برانصاف نہیں۔ جس نے بھی لاہور اور اسلام آباد اور واشنگٹن اور نیویارک میں قاضی صاحب کے بیانات کا کسی تعصب کے بغیر مطالعہ کیا ہے وہ گواہی دے گا کہ ہر جگہ انھوں نے امریکہ اور اس کی قیادت کی آنکھوں سے آنکھیں ملا کر بات کی ہے‘ انھوں نے ہمیشہ پاکستان ‘فلسطین اور عالم اسلام کے بارے میں امریکہ کے رویے پر بھرپور گرفت کی ہے۔ باعزت تعاون کی راہیں تو ضرور کھلی رکھی ہیں لیکن اپنے رویّے میں مداہنت یا التفات طلبی کا کوئی شائبہ بھی نہیں آنے دیا    ؎

پروازہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور

] کشمیر کی کہانی: عالمی ضمیر سے چند سوالات‘ از پروفیسر فتح محمد ملک۔ دوست پبلی کیشنز‘    اسلام آباد۔ صفحات: ۱۶۴‘ قیمت: ۱۲۰ روپے۔[