اس معاملے میں سب سے پہلی بات جو سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ جس چیز کا نام اسلامی نظام ہے وہ کسی بے ایمان اور بدکردار حکومت کے ہاتھوں سے نہیں چل سکتا۔ کوئی خدا سے بے خوف بیوروکریسی اسے نہیں چلا سکتی۔ کسی ایسی آبادی میں وہ ٹھیک طور پر نہیں چل سکتا جس کی اخلاقی حالت بالعموم خراب ہو اور خراب کی جاتی رہی ہو....
عام مسلمانوں کے دلوں میں اگر خدا پر ایمان، رسولؐ پر ایمان، قرآن پر ایمان اور آخرت پر ایمان مضبوطی کے ساتھ نہ بٹھایا گیا تو محض قوانین کو بدلنے سے کام نہ چلے گا.... اسلامی قانون صحیح طور پر کیسے نافذ ہوگا، جب کہ اس کو نافذ کرنے والی مشینری ہی بگڑی ہوئی ہے۔ قوانین اسلامی کے نفاذ کی تدبیریں کرنے کے ساتھ موجودہ حکومت کے لیے بھی اور آیندہ آنے والے حکمرانوں کے لیے بھی یہ ضروری ہے کہ ملک کی انتظامیہ کو بھی درست کریں۔ تعلیم کے نظام کی بھی اصلاح کریں اور ملک کے تمام ذرائع و وسائل کو اس بات پر صَرف کردیں کہ مسلمانوں کے دلوں میں ایمان بٹھایا جائے۔ ان کے اخلاق درست کیے جائیں اور ان کے اندر خدا کا خوف پیدا کیا جائے۔
اس کے ساتھ اسلام یہ بھی چاہتا ہے کہ معاشرہ ایسا ہو جس کے لوگ ایک دوسرے کے ہمدرد اور غم گسار ہوں، ایک دوسرے کی مصیبت میں کام آنے والے ہوں۔ ہرشخص انصاف کا حامی اور بے انصافی کا مخالف ہو۔ ہرشخص اپنے اُوپر پیٹ بھرنا حرام سمجھے اگر اس کو معلوم ہو کہ اس کا ہمسایہ بھوکا سو رہا ہے۔ پھر اسلام ایک ایسا معاشی نظام بھی قائم کرتا ہے جس میں سو د حرام ہو، زکوٰۃ فرض ہو، حرام خوری کے دروازے بند کردیے جائیں۔ رزقِ حلال کمانے کے لیے تمام مواقع لوگوں کے لیے کھول دیے جائیں اور کوئی آدمی اپنی ضروریاتِ زندگی سے محروم نہ رہنے پائے۔ ان تدابیر کے بعد ڈنڈے کا مقام آتا ہے۔ ایمان، اخلاق، تعلیم، انصاف، اصلاح معیشت، اور ایک پاکیزہ راے عام کے دبائو سے بھی جو آدمی درست نہ ہو تو وہ ڈنڈے ہی کا مستحق ہے۔ اور ڈنڈا پھر اس پر ایسی بے رحمی کے ساتھ علی الاعلان چلایا جائے کہ ان تمام لوگوں کے دماغ کا آپریشن ہوجائے جو جرائم کے رجحانات رکھتے ہوں۔
اب ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہمارے ہاں انتخابات میں دھونس، دھوکے، دھاندلی، علاقائی، مذہبی یا برادری کے تعصبات، جھوٹے پروپیگنڈے، گندگی اُچھالنے، ضمیر خریدنے، جعلی ووٹ بھگتانے اور بے ایمانی سے انتخابی نتائج بدلنے کے غلط طریقے استعمال نہ ہوسکیں۔ انتخابات دیانت دارانہ ہوں، لوگوں کو اپنی آزاد مرضی سے اپنے نمایندے منتخب کرنے کا موقع دیا جائے۔ پارٹیاں اور اشخاص جو بھی انتخابات میں کھڑے ہوں، وہ معقول طریقے سے لوگوں کے سامنے اپنے اصول، مقاصد اور پروگرام پیش کریں، اور یہ بات ان کی اپنی راے پر چھوڑ دیں کہ وہ کسے پسند کرتے ہیں اور کسے پسند نہیں کرتے۔ ہوسکتا ہے کہ پہلے انتخاب میں ہم عوام کے طرزِفکر اور معیارِ انتخابات کو بدلنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہوسکیں۔ لیکن اگر انتخابی نظام درست رکھا جائے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب نظامِ حکومت پورے کا پورا ایمان دار لوگوں کے ہاتھ میں آجائے گا۔ اس کے بعد پھر ہم نظامِ انتخاب پر نظرثانی کرسکتے ہیں اور اس مثالی نظامِ انتخابات کو ازسرِنو قائم کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں جو اسلامی طریقے کے عین مطابق ہو۔ بہرحال آپ یک لخت جست لگاکر اپنی انتہائی منزل تک نہیں پہنچ سکتے۔ (نبی اکرمؐ کا نظامِ حکومت اور پاکستان میں اس کا نفاذ، ص ۱۹-۲۷)
تمام مسلمان ملکوں کا مستقبل منحصر ہے اس بات پر کہ آخرکار یہاں اسلام کے بارے میں کیا رویہ اختیار کیا جائے گا۔ اگر اسلام کے بارے میں منافقانہ طرزِعمل کی صورت مسلمان ملکوں میں جاری رہی اور یہ معاندانہ رویہ اسی طرح روا رکھا جاتا رہا تو مجھے ڈر ہے کہ مسلمان قوم زیادہ دیر تک اپنی آزادی کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔ پھر دوبارہ غلام ہوگی اور پہلے سے بدتر پوزیشن میں ڈالی جائے گی۔البتہ اب بھی اگر ان لوگوں کو عقل آجائے جو مسلمان قوموں کے معاملات چلا رہے ہیں اور مسلمان ملکوں میں صحیح قسم کی جمہوریت قائم ہوجائے، مسلمان قوموں کو یہ اختیار مل جائے کہ وہ اپنی مرضی سے لوگوں کو منتخب کرکے ان کو اقتدار سونپیں اور یہاں اسلام کے منشا، اس کی تہذیب اور اصولوں کے مطابق نظامِ حکومت، نظامِ معیشت اور نظامِ تعلیم رائج کیا جائے، تو میرا خیال ہے کہ بہت جلدی مسلمان قومیں بہت بڑی طاقت بن جائیں گی۔ نہ صرف یہ کہ طاقت حاصل کرلیں گی بلکہ دنیا میں ان کی ایک فیصلہ کن طاقت ہوگی۔ مسلمان ملکوں کا بلاک کوئی معمولی بلاک نہیں ہے۔ انڈونیشیا سے مراکو تک مسلسل مسلمان قوموں کا اتنا بڑا بلاک جس کے پاس اس قدر وسیع ذرائع و وسائل اور جس کی اتنی آبادی (man power) ہے، اگر سارے کا سارا اسلام کے اصولوں پر کام کرے اور اسلام کے اُوپر متحد ہو، تو دنیا کی کون سی طاقت ہے جو اس کے سامنے ٹھیرسکتی ہے۔
اب دوسرا سوال جو میں نے آپ کے سامنے چھیڑا ہے، اس کا جواب میں چند الفاظ میں دوں گا۔ سوال یہ تھا کہ اسلام اس زمانے میں دنیا میں غالب آسکتا ہے یا نہیں؟ دنیا کی قومیں اس کو قبول کرسکتی ہیں یا نہیں؟ کرسکتی ہیں تو کیسے؟ اور اسلام اس زمانے میں قابلِ عمل ہے یا نہیں؟ یہ سوال آج کل بڑی کثرت سے چھیڑا جاتا ہے۔
میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ کسی زمانے میں بھی زمانے نے خود آگے بڑھ کر نہیں کہا تھا کہ میں اسلام کو قبول کرنے کو تیار ہوں۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عرب کی جاہلی سوسائٹی میں اسلام کی دعوت دی تھی تو کب زمانے نے اُٹھ کر، پکار کے یہ کہا تھا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم تمھاری اس دعوت کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اصل انحصار تو اس طاقت ور اور مضبوط داعی پر ہوتا ہے جو یہ کہے کہ ’’اے زمانے! اگر تو مجھ سے موافقت نہیں کرتا تو میں تجھے موافق بنا کر چھوڑوں گا‘‘....
اسی طرح یہ سوال بھی بالکل لغو ہے کہ اسلام آج قابلِ عمل ہے یا نہیں؟ اسلام ہر زمانے میں قابلِ عمل تھا، آج بھی ہے اور قیامت تک قابلِ عمل رہے گا۔ اصل سوال جس پر انحصار ہے وہ یہ ہے کہ کیا کوئی قوم دنیا میں ایسی موجود ہے کہ جو پورے کے پورے اسلام کو اپنانے کے لیے تیار ہو؟ جیساکہ میں نے آغاز میں بتایا تھا کہ ہماری تاریخ کا آغاز ہی اس چیز سے ہوا تھا کہ عرب کی پوری کی پوری قوم اس بات کے لیے تیار ہوگئی تھی کہ اپنے پورے معاشرتی، معاشی، سیاسی اور تمدنی نظام کو اسلام پر قائم کرے، اپنی انفرادی سیرتوں اور اجتماعی احوال کو اسلام کے مطابق ڈھالے۔ اس نے عہد کیا تھا کہ دنیا میں اسلام کی علَم بردار بن کر اُٹھے گی، اسی کے لیے جیے گی اور اسی کے لیے مرے گی۔
جب ایک ایسی قوم دنیا میں پیدا ہوگئی تو دیکھ لیجیے کہ کس طرح وہ دنیا پر بم کی طرح پھٹی! اور کس طرح دنیا پر اس کے اثرات آج تک موجود ہیں۔ اگر اس طرح سے کوئی قوم پوری طرح سے اسلام کو اپنائے اور اپنا پورا نظامِ زندگی اس کے مطابق چلائے اور اسی کے لیے جینے اور مرنے کو تیار ہو، تو میرا خیال ہے کہ آج دنیا اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔
لوگوں کے لیے ناممکن ہے کہ چلتے پھرتے اسلام کو دیکھیں اور اس کو قبول نہ کریں۔ البتہ اگر آپ زبانی تقریروں اور کتابوں کے ذریعے سے اسلام پھیلانے کی کوشش کرتے رہیں گے تو قیامت تک آپ یہ’شغل‘ جاری رکھیے، دنیا کو اس بات پر قائل کرنا مشکل ہوگا کہ اسلام قابلِ عمل بھی ہے۔
اب آخر میں دل کی بات بھی آپ سے عرض کیے دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے چونکہ مجھے اس قوم میں پیدا کیا ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ وہ قوم، یہی قوم ہی ہو۔ میری سیاست ہے تو یہی ہے، میرا مذہب ہے تو یہی ہے، میری ساری کوششوں کا مدعا یہی ہے کہ یہ قوم جس کے اندر میں پیدا ہوا ہوں، پوری طرح سے اسلام کو اپنا لے اور اپنی زندگی میں چلتا پھرتا اسلام دکھا دے۔ (اسلام عصرِحاضر میں، ص ۵۰-۵۳)
اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو انتخاب اور ارادے کی آزادی بخشی ہے، اور اسی آزادی کے استعمال میں اُس کا امتحان ہے۔ اِس حقیقت کو اگر آپ ذہن نشین کرلیں تو آپ کو یہ سمجھنے میں کوئی زحمت پیش نہ آئے گی کہ کسی ملک یا قوم یا زمانے کے انسانوں میں اگر کوئی دعوتِ باطل فروغ پاتی ہے، یا کوئی نظامِ باطل غالب رہتا ہے، تو یہ اُس دعوت اور اُس نظام کی کامیابی نہیں بلکہ اُن انسانوں کی ناکامی ہے جن کے اندر ایک باطل دعوت یا نظام نے عروج پایا۔ اِسی طرح دعوتِ حق اور اس کے لیے کام کرنے والے اگر اپنی حد تک صحیح طریقے سے اصلاح کی کوشش کرتے رہیں اور نظامِ حق قائم نہ ہوسکے تو یہ نظامِ حق اور اس کے لیے کام کرنے والوں کی ناکامی نہیں، بلکہ ان انسانوں ہی کی ناکامی ہے جن کے معاشرے میں صداقت پروان نہ چڑھ سکی اور بدی ہی پھلتی پھولتی رہی۔
دنیا میں حق اور باطل کی کش مکش بجاے خود ایک امتحان ہے، اور اس امتحان کا آخری نتیجہ اِس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں نکلنا ہے۔ اگر دنیا کے انسانوں کی عظیم اکثریت نے کسی قوم، یا ساری دنیا ہی نے حق کو نہ مانا اور باطل کو قبول کرلیا تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام اور باطل کامیاب ہوگیا، بلکہ اس کے معنی دراصل یہ ہیں کہ انسانوں کی عظیم اکثریت اپنے رب کے امتحان میں ناکام ہوگئی جس کا بدترین نتیجہ وہ آخرت میں دیکھے گی۔ بخلاف اس کے وہ اقلیت جو باطل کے مقابلے میں حق پر جمی رہی اور جس نے حق کو سربلند کرنے کے لیے جان و مال کی بازی لگا دی، اِس امتحان میں کامیاب ہوگئی اور آخرت میں وہ بھی اپنی اِس کامیابی کا بہترین نتیجہ دیکھ لے گی۔ یہی بات ہے جو نوعِ انسانی کو زمین پر اُتارتے وقت اللہ تعالیٰ نے صاف صاف بتادی تھی کہ فَاِمَّا یَاْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لاَ ھُم یَحْزَنُوْنَ o وَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ o (البقرہ ۲:۳۸-۳۹) ’’پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمھارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میری اُس ہدایت کی پیروی کریں گے، اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا، اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے، وہ آگ میں جانے والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے‘‘۔
اس حقیقت کو آپ جان لیں تو یہ بات بھی آپ کی سمجھ میں بخوبی آسکتی ہے کہ اہلِ حق کی اصل ذمہ داری یہ نہیں ہے کہ وہ باطل کو مٹا دیں اور حق کو اس کی جگہ قائم کر دیں، بلکہ ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی حد تک باطل کو مٹانے اور حق کو غالب و سربلند کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ صحیح اور مناسب و کارگر طریقوں سے کوشش کرنے میں کوتاہی نہ کریں۔ یہی کوشش خدا کی نگاہ میں ان کی کامیابی و ناکامی کا اصل معیار ہے۔ اس میں اگر ان کی طرف سے دانستہ کوئی کوتاہی نہ ہو تو خدا کے ہاں وہ کامیاب ہیں، خواہ دنیا میں باطل کا غلبہ ان کے ہٹائے نہ ہٹے اور شیطان کی پارٹی کا زور اُن کے توڑے نہ ٹوٹ سکے۔
بسااوقات آدمی کے ذہن میں یہ اُلجھن بھی پیدا ہوتی ہے کہ جب یہ دین خدا کی طرف سے ہے، اور اس کے لیے کوشش کرنے والے خدا کا کام کرتے ہیں، اور اس دین کے خلاف کام کرنے والے دراصل خدا سے بغاوت کرتے ہیں، تو باغیوں کو غلبہ کیوں حاصل ہوجاتا ہے اور وفاداروں پر ظلم کیوں ہوتا ہے؟ لیکن اُوپر جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس پر غور کرنے سے آپ اس سوال کا جواب بھی خود پاسکتے ہیں۔ درحقیقت یہ اُس آزادی کا لازمی نتیجہ ہے جو امتحان کی غرض سے انسانوں کو دی گئی ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوتی کہ زمین میں صرف اس کی اطاعت فرماں برداری ہی ہو اور سرے سے کوئی اس کی رضا کے خلاف کام نہ کرسکے، تو وہ تمام انسانوں کو اُسی طرح مطیعِ فرمان پیدا کردیتا جس طرح جانور اور درخت اور دریا اور پہاڑ مطیعِ فرمان ہیں۔ مگر اس صورت میں نہ امتحان کا کوئی موقع تھا اور نہ اس میں کامیابی پر کسی کو جنت دینے اور ناکامی پر کسی کو دوزخ میں ڈالنے کا کوئی سوال پیدا ہوسکتا تھا۔
اس طریقے کو چھوڑ کے جب اللہ تعالیٰ نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ نوعِ انسانی اور اس کے ایک ایک فرد کا امتحان لے، تو اس کے لیے ضروری تھا کہ ان کو انتخاب اور ارادے کی (بقدرِ ضرورتِ امتحان) آزادی عطا فرمائے، اور جب اُس نے ان کو یہ آزادی عطا فرما دی تو اب یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اُوپر سے مداخلت کرکے زبردستی باغیوں کو ناکام اور وفاداروں کو غالب کردے۔ اس آزادی کے ماحول میں حق اور باطل کے درمیان جو کش مکش برپا ہے اس میں حق کے پیرو، اور باطل کے علَم بردار اور عام انسان (جن میں عام مسلمان بھی شامل ہیں)، سب امتحان گاہ میں اپنا اپنا امتحان دے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وفاداروں کی ہمت افزائی اور باغیوں کی حوصلہ شکنی ضرور کی جاتی ہے، لیکن ایسی مداخلت نہیں کی جاتی جو امتحان کے مقصد ہی کو فوت کردے۔ حق پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کو غالب کرنے کے لیے کہاںتک جان لڑاتے ہیں۔ عام انسانوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق کے علَم برداروں کا ساتھ دیتے ہیں یا باطل کے علَم برداروں کا۔ اور باطل پرستوں کا امتحان اس میں ہے کہ وہ حق سے منہ موڑ کر باطل کی حمایت میں کتنی ہٹ دھرمی دکھاتے ہیں اور حق کی مخالفت میں آخرکار خباثت کی کس حد تک پہنچتے ہیں۔ یہ ایک کھلا مقابلہ ہے جس میں اگر حق اور راستی کے لیے سعی کرنے والے پِٹ رہے ہوں تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حق ناکام ہورہا ہے اور اللہ تعالیٰ خاموشی کے ساتھ اپنے دین کی مغلوبی کو دیکھ رہا ہے، بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ حق کے لیے کام کرنے والے اللہ کے امتحان میں زیادہ سے زیادہ نمبر پا رہے ہیں۔ اُن پر ظلم کرنے والے اپنی عاقبت زیادہ سے زیادہ خراب کرتے چلے جارہے ہیں، اور وہ سب لوگ اپنے آپ کو بڑے خطرے میں ڈال رہے ہیں جو اس مقابلے کے دوران میں محض تماشائی بن کر رہے ہوں، یا جنھوں نے حق کا ساتھ دینے سے پہلوتہی کی ہو، یا جنھوں نے باطل کو غالب دیکھ کر اس کا ساتھ دیا ہو۔
یہ خیال کرنا صحیح نہیں ہے کہ جو لوگ مسلمانوں میں شمار ہوتے ہیں وہ اس امتحان سے مستثنیٰ ہیں، یا محض مسلمان کہلایا جانا ہی اس امتحان میں ان کی کامیابی کا ضامن ہے، یا مسلمان قوموں اور آبادیوں میں دین سے انحراف کا فروغ پانا اور کسی فاسقانہ نظام کا غالب رہنا کوئی عجیب معمّا ہے جو حل نہ ہوسکے اور ذہنی اُلجھن کا موجب ہو۔ خدا کی اس کھلی امتحان گاہ میں کافر، مومن، منافق، عاصی اور مطیع، سب ہی ہمیشہ اپنا امتحان دیتے رہے ہیں اور آج بھی دے رہے ہیں۔ اس میں فیصلہ کُن چیز کوئی زبانی دعویٰ نہیں بلکہ عملی کردار ہے۔ اور اس کا نتیجہ بھی مردم شماری کے رجسٹر دیکھ کر نہیں بلکہ ہرشخص کا، ہر گروہ کا اور ہر قوم کا کارنامۂ حیات دیکھ کر ہی ہوگا۔ (رسائل و مسائل، پنجم، ص ۳۲۷-۳۳۱)
اسلام کی دعوت جب عرب میں پیش کی گئی تھی، اس وقت اس کی مخاطب آبادی تقریباً ۱۰۰فی صد اَن پڑھ تھی۔ قریش جیسے ترقی یافتہ قبیلے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں صرف ۱۷ افراد پڑھے لکھے تھے۔ مدینے میں اس سے بھی کم لوگ تعلیم یافتہ تھے اور باقی عرب کی حالت کا اندازہ آپ ان دو بڑے شہروں کی حالت سے کرسکتے ہیں۔ قرآن مجید اس ملک میں لکھ کر نہیں پھیلایا گیا تھا بلکہ وہ لوگوں کو زبانی سنایا جاتا تھا۔ صحابہ کرامؓ اس کو سن کر ہی یاد کرتے تھے اور پھر زبانی ہی اسے دوسروں کو سناتے تھے۔ اسی ذریعے سے پورا عرب اسلام سے روشناس ہوا۔ پس درحقیقت لوگوں کا اَن پڑھ ہونا کوئی ایسی دشواری نہیں ہے جس کی وجہ سے اسلام کی تبلیغ نہ ہوسکتی ہو۔
آغازِ اسلام میں اس دین کی تبلیغ اَن پڑھ لوگوں ہی میں کی گئی تھی اور یہ محض زبانی تبلیغ و تلقین ہی تھی جس سے ان کو اس قدر بدل دیا گیا۔ ایسا زبردست انقلاب ان کے اندر برپا کردیا گیا کہ وہ دنیا کے مصلح بن کر کھڑے ہوگئے۔ اب آپ کیوں یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ۸۰ فی صد اَن پڑھ آبادی میں اسلام کی دعوت نہیں پھیلائی جاسکتی؟ آپ کے اندر ۲۰فی صد تو پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں۔ وہ پڑھ کر اسلام کو سمجھیں، اور پھر باقی ۸۰ فی صد لوگوں کو زبانی تبلیغ و تلقین سے دین سمجھائیں۔ پہلے کی بہ نسبت اب یہ کام زیادہ آسان ہوگیا ہے۔
البتہ فرق جو کچھ ہے وہ صرف یہ ہے کہ اس وقت جو شخص بھی اسلام کی تعلیمات کو سن کر ایمان لاتا تھا وہ ایمان لاکر بیٹھ نہیں جاتا تھا، بلکہ آگے دوسرے بندگانِ خدا تک ان تعلیمات کو پہنچانا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ اس کی تمام حیثیتوں پر مبلغ ہونے کی حیثیت غالب آجاتی تھی۔ وہ ہمہ تن ایک تبلیغ بن جاتا تھا۔ جہاں جس حالت میں بھی اسے دوسرے لوگوں سے سابقہ پیش آتا تھا، وہ ان کے سامنے اللہ اور اس کے رسولؐ کی ہدایات بیان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا۔ وہ ہروقت اس تلاش میں لگا رہتا تھا کہ کس طرح اللہ کے بندوں کو جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم کی روشنی میں لائے۔ جتنا قرآن بھی اسے یاد ہوتا وہ اسے لوگوں کو سناتا، اور اسلام کی تعلیمات جتنی کچھ بھی اسے معلوم ہوتیں ان سے وہ لوگوں کو آگاہ کرتا تھا۔ وہ انھیں بتاتا تھا کہ صحیح عقائد کیا ہیں جو اسلام سکھاتا ہے اور باطل عقیدے اور خیالات کون سے ہیں جن کی اسلام تردید کرتا ہے۔ اچھے اعمال اور اخلاق کیا ہیں جن کی اسلام دعوت دیتا ہے، اور برائیاں کیا ہیں جن کو وہ مٹانا چاہتا ہے۔ یہ سب باتیں جس طرح پہلے سنائی اور سمجھائی جاتی تھیں، اسی طرح آج بھی سنائی اور سمجھائی جاسکتی ہیں۔ ان کے لیے نہ سنانے والے کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے، نہ سننے والے کا۔ یہ ہروقت بیان کی جاسکتی ہیں اور ہرشخص کی سمجھ میں آسکتی ہیں۔
اسلام نے کوئی ایسی نرالی چیز پیش ہی نہیں کی ہے جس سے انسانی طبائع مانوس نہ ہوں اور جن کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے بڑے فلسفے بگھارنے کی ضرورت ہو۔ یہ تو دینِ فطرت ہے۔ انسان اس سے بالطبع مانوس ہے۔ اسے پڑھے لکھے لوگوں کی بہ نسبت اَن پڑھ لوگ زیادہ آسانی سے قبول کرسکتے ہیں، کیونکہ وہ فطرت سے قریب تر ہوتے ہیں، اور ان کے دماغ میں وہ پیچ نہیں ہوتے جو جاہلیت کی تعلیم نے ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کے دماغوں میں ڈال دیے ہیں۔
لہٰذا آپ اَن پڑھ آبادی کی کثرت سے ہرگز نہ گھبرائیں۔ ان کی ناخواندگی اصل رکاوٹ نہیں ہے، بلکہ آپ کے اندر جذبۂ تبلیغ کی کمی اصل رکاوٹ ہے۔ ابتداے اسلام کے مسلمانوں کی طرح ہمہ تن مبلغ بن جایئے اور تبلیغ کی وہ لگن اپنے اندر پیدا کرلیجیے جو ان کے اندر تھی۔ اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ اسلام کی دعوت پھیلانے کے بے شمار مواقع آپ کے منتظر ہیں جن سے آپ نے آج تک اس لیے فائدہ نہیں اٹھایا کہ آپ اپنے ملک کی آبادی میں ۱۰۰ فی صد خواندگی پھیل جانے کے منتظر رہے۔ (تصریحات ، ص ۲۸۳-۲۸۵)
ذرا سی عقل یہ بات سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ انسان کسی ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک قوم کا نام نہیں ہے۔ تمام دنیا کے انسان بہرحال انسان ہیں۔ تمام انسانوں کو جینے کا حق ہے۔ سب اس کے حق دار ہیں کہ ان کی ضرورتیں پوری ہوں۔ سب امن کے، انصاف کے، عزت اور شرافت کے مستحق ہیں۔ انسانی خوش حالی اگر کسی چیز کا نام ہے تو وہ کسی ایک شخص یا خاندان یا قوم کی خوش حالی نہیں، بلکہ تمام انسانوں کی خوش حالی ہے، ورنہ ایک خوش حال ہو اور دس بدحال ہوں تو آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ انسان خوش حال ہے۔ فلاح اگر کسی چیز کو کہتے ہیں تو وہ تمام انسانوں کی فلاح ہے نہ کہ کسی ایک طبقے کی یا ایک قوم کی۔ ایک کی فلاح اور دس کی بربادی کو آپ انسانی فلاح نہیں کہہ سکتے۔
اس بات کو اگر آپ صحیح سمجھتے ہیں تو غور کیجیے کہ انسانی فلاح اور خوش حالی کس طرح حاصل ہوسکتی ہے۔ میرے نزدیک اس کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ انسانی زندگی کے لیے قانون وہ بنائے جس کی نظر میں تمام انسان یکساں ہوں۔ سب کے حقوق انصاف کے ساتھ وہ مقرر کرے جو نہ تو خود اپنی کوئی ذاتی غرض رکھتا ہو اور نہ کسی خاندان یا طبقے کی یا کسی ملک یا قوم کی اغراض سے اس کو خاص دل چسپی ہو۔ سب کے سب اس کا حکم مانیں۔ جو حکم دینے میں نہ اپنی جہالت کی وجہ سے غلطی کرے، نہ اپنی خواہش کی بنا پر حکمرانی کے اختیارات سے ناجائز فائدہ اٹھائے، اور نہ ایک کا دشمن اور دوسرے کا دوست، ایک کا طرف دار اور دوسرے کا مخالف، ایک طرف مائل اوردوسرے سے منحرف ہو۔ صرف اسی صورت میں عدل قائم ہوسکتا ہے۔ اسی طرح تمام انسانوں ، تمام قوموں، تمام طبقوں اور تمام گروہوں کو اُن کے جائز حقوق پہنچ سکتے ہیں۔ یہی ایک صورت ہے جس سے ظلم مٹ سکتا ہے۔
اگر یہ بات بھی درست ہے تو پھر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا دنیا میں کوئی انسان بھی ایسا بے لاگ، ایسا غیرجانب دار، ایسا بے غرض، اور اس قدر انسانی کمزوریوں سے بالاتر ہوسکتا ہے؟ شاید آپ میں سے کوئی شخص میرے اس سوال کا جواب اثبات میں دینے کی جرأت نہ کرے گا۔ یہ شان صرف خدا ہی کی ہے۔ کوئی دوسرا س شان کا نہیں ہے۔ انسان خواہ کتنے ہی بڑے دل گردے کا ہو، بہرحال وہ اپنی کچھ ذاتی اغراض رکھتا ہے، کچھ دل چسپیاں رکھتا ہے۔ کسی سے اس کا تعلق زیادہ ہے اور کسی سے کم ، کسی سے اس کو محبت ہے اور کسی سے نہیں ہے۔ ان کمزوریوں سے کوئی انسان پاک نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں خدا کے بجاے انسانوں کے حکم کی اطاعت کی جاتی ہے، وہاں کسی نہ کسی صورت میں ظلم اور بے انصافی ضرور موجود ہے۔
یہ چند مثالیں میں نے محض اشارے کے طور پر دی ہیں۔ تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔ میں صرف یہ بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں جہاں بھی انسان نے قانون بنایا ہے، وہاں بے انصافی ضرور ہوئی ہے۔ کچھ انسانوں کو ان کے جائز حقوق سے بہت زیادہ دیا گیا ہے اور کچھ انسانوں کے حقوق نہ صرف پامال کیے گئے ہیں، بلکہ انھیں انسانیت کے درجے سے گرا دینے میں بھی تامل نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ انسان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ جب کسی معاملے کا فیصلہ کرنے بیٹھتا ہے تو اس کے دل و دماغ پر اپنی ذات، یا اپنے خاندان، یا اپنی نسل، یا اپنے طبقے یا اپنی قوم ہی کے مفاد کا خیال مسلط رہتا ہے۔ دوسروں کے حقوق اور مفاد کے لیے اس کے پاس وہ ہمدردی کی نظر نہیں ہوتی جو اپنوں کے لیے ہوتی ہے___ مجھے بتایئے، کیا اس بے انصافی کا کوئی علاج اس کے سوا ممکن ہے کہ تمام انسانی قوانین کو دریا بُرد کردیا جائے، اور اس خدا کے قانون کو ہم سب تسلیم کرلیں جس کی نگاہ میں ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ فرق اگر ہے تو صرف اس کے اخلاق، اس کے اعمال، اور اس کے اوصاف کے لحاظ سے ہے، نہ کہ نسل یا طبقے یا قومیت یا رنگ کے لحاظ سے۔ ( اسلامی نظام زندگی اور اس کے بنیادی تصورات، ص ۷۰-۷۳)
قربانی کا مسئلہ متفق علیہ مسائل میں سے ہے۔ پہلی صدی ہجری کے آغاز سے آج تک مسلمان اس پر متفق رہے ہیں۔ اسلامی تاریخ کی پوری پونے چودہ صدیوں میں آج تک اس کے مشروع اور مسنون ہونے میں اختلاف نہیں پایا گیا ہے۔ اس میں آئمۂ اربعہ اور اہلِ حدیث متفق ہیں۔ اس میں قدیم زمانے کے مجتہدین بھی متفق تھے اور آج کے سب گروہ بھی متفق ہیں۔ اب یہ تفرقہ و اختلاف کا شیطانی ذوق نہیں تو اور کیا ہے کہ کوئی شخص ایک نرالی بات لے کر اُٹھے اور اس متفق علیہ اسلامی طریقے کے متعلق بیچارے عام مسلمانوں کو یہ یقین دلانے کی کوشش کرے کہ یہ تو سرے سے کوئی اسلامی طریقہ ہی نہیں ہے۔ (مسئلہ قربانی، ص ۴)
اب ذرا اقتصادی اعتراضات کو بھی جانچ لیجیے۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ اضاعت ِ مال ہے۔ مگر قرآن کہتا ہے: لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ اور فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ [الحج ۲۲:۳۶] ’’اس میں تمھارے لیے بھلائی ہے‘‘ اور ’’اس سے میں خود بھی کھائو اور مانگنے والے غریب اور مانگنے والے سائل کو بھی کھلائو‘‘۔ آج آپ کے اپنے ملک میں لاکھوں اللہ کے بندے ایسے ہیں جنھیں ہفتوں اور مہینوں اچھی قوت بخش غذا نصیب نہیں ہوتی۔ کیا اُن کو صدقہ اور ہدی اور نُسک کے ذریعے سے گوشت بہم پہنچانا آپ کی راے میں اصولِ معیشت کے خلاف ہے؟ لاکھوں انسان اور گلہ بان ہیں جو سال بھر تک جانور پالتے ہیں اور بقرعید کے موقع پر اُن سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ کیا ان کی روزی کا دروازہ بند کرنا آپ کے نزدیک بے روزگاروں کو روزگار مہیا کرنا ہے؟ ہزارہا غریب ہیں جن کو قربانی کی کھالیں مل جاتی ہیں اور ہزارہا قصائی ہیں جن کو ذبح کرنے کی اُجرت مل جاتی ہے۔ کیا یہ سب آپ کی قوم سے خارج ہیں کہ آپ ان کی رزق رسانی کو فضول بلکہ مُضر اور داخلِ اسراف سمجھتے ہیں؟
پھر یہ کیا معاملہ ہے کہ آپ کو تمام قومی ضروریات اور سارے فوائد و منافع صرف اسی وقت یاد آتے ہیں جب خدا کے کسی حکم کی پابندی میں روپیہ صرف ہورہا ہو؟ گویا کہ بنکوں کا قیام اور قومی ادارات کا فروغ اور اعتقاد و اخلاق کی اصلاح اور یتیموں اور بیوائوں کی پرورش کا سارا کام صرف قربانی ہی کی وجہ سے رُکا پڑا ہے۔ اِدھر یہ بند ہوئی اور اُدھر قومی اداروں پر روپیہ برسنا شروع ہوجائے گا۔
اور اگر آپ کی قومی تنظیم ایسی ہی مکمّل ہے کہ سارے [ملک] کا روپیہ جمع کرکے آپ ہرسال ایک تجارتی بنک کھول سکتے ہیں تو ذرا سی تکلیف گوارا کرکے پہلے ملک بھر کے سینما ہالوں اور قحبہ خانوں اور بدکاری و اسراف کے دوسرے اڈوں پر تو اپنے ایجنٹ مقرر فرمایئے تاکہ مسلمانوں کا جس قدر روپیہ وہاں ضائع ہوتا ہے وہ قومی فنڈ میں وصول ہونا شروع ہوجائے۔ اس طرح آپ ہر سال نہیں ہر روز ایک تجارتی بنک کھول سکیں گے۔
پھر اگر آپ میں کچھ تعمیری قوت ہے تو قربانی کی تخریب کے بجاے آپ اُسے زکوٰۃ کی تعمیر ہی میں کیوں نہیں صرف فرماتے کہ تنہا اسی ایک چیز سے آپ وہ تمام قومی ضروریات پوری کرسکتے ہیں جن کی خاطر قربانی بند کرنے کی تبلیغ آپ نے شروع کی ہے۔
آخری گزارش یہ ہے کہ اگر ایک دفعہ مسلمانوں میں یہ ذہنیت پیدا ہوگئی کہ جن جن مذہبی مراسم میں روپیہ صرف ہوتا ہے اُن کو بند کر کے وہ روپیہ قومی اداروں اور تجارتی بنکوں پر صرف ہونا چاہیے، تو معاملہ صرف قربانی ہی پر رُکا نہ رہ جائے گا۔ کل کوئی اور بندۂ خدا اُٹھ کر کہے گا کہ یہ حج، جس پر کروڑوں روپیہ ہر سال خرچ ہور ہا ہے، اور جس کا کوئی فائدہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا، اِسے بند ہونا چاہیے، اور اس روپے سے تجارتی بنک کھلنے چاہییں! سارا معاملہ اصل میں اقدار ہی کا ہے۔ جب ایک دفعہ معیارِ قدر بدل گیا، پھر آج قربانی بند ہوگی اور کل خواہ آپ نے چاہا یا نہ چاہا، حج کی باری آکر رہے گی۔(تفہیمات، دوم، ص ۲۴۱- ۲۴۲)
دراصل اس وقت قربانی کی جو مخالفت کی جارہی ہے اس کی بنیاد یہ نہیں ہے کہ کسی نے علمی طریقے پر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا ہو اور اس میں قربانی کا حکم نہ پایا جاتا ہو، بلکہ اس مخالفت کی حقیقی بنیاد صرف یہ ہے کہ اس مادہ پرستی کے دَور میں لوگوں کے دل و دماغ پر معاشی مفاد کی اہمیت بُری طرح مسلط ہوگئی ہے اور معاشی قدر کے سوا کسی چیز کی کوئی دوسری قدر ان کی نگاہ میں باقی نہیں رہی ہے۔ وہ حساب لگاکر دیکھتے ہیں کہ ہرسال کتنے لاکھ یا کتنے کروڑ مسلمان قربانی کرتے ہیں اور اس پر اوسطاً فی کس کتنا روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ اس حساب سے ان کے سامنے قربانی کے مجموعی خرچ کی ایک بہت بڑی رقم آتی ہے اور وہ چیخ اُٹھتے ہیں کہ اتنا روپیہ محض جانوروں کی قربانی پر ضائع کیا جا رہا ہے، حالانکہ اگر یہی رقم قومی اداروں یا معاشی منصوبوں پر صرف کیا جاتا تو اس سے بے شمار فائدے حاصل ہوسکتے تھے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ یہ ایک سراسر غلط ذہنیت ہے جو غیراسلامی اندازِفکر سے ہمارے اندر پرورش پارہی ہے۔ اگر اس کو اسی طرح نشوونما پانے دیا گیا تو کل ٹھیک اسی طریقے سے استدلال کرتے ہوئے کہا جائے گا کہ ہرسال اتنے لاکھ مسلمان اوسطاً اتنا روپیہ سفرِحج پر صرف کردیتے ہیں جو مجموعی طور پر اتنے کروڑ روپیہ بنتا ہے، محض چند مقامات کی زیارت پر اتنی خطیر رقم سالانہ صرف کردینے کے بجاے کیوں نہ اسے بھی قومی اداروں اور معاشی منصوبوں اور ملکی دفاع پر خرچ کیا جائے۔ یہ محض ایک فرضی قیاس ہی نہیں ہے بلکہ فی الواقع اسی ذہنیت کے زیراثر ترکیہ کی لادینی حکومت نے ۲۵سال تک حج بند کیے رکھا ہے۔ پھر کوئی دوسرا شخص حساب لگائے گا کہ ہرروز اتنے کروڑ مسلمان پانچ وقت نماز پڑھتے ہیں اور اس میں اوسطاً فی کس اتنا وقت صرف ہوتا ہے جس کا مجموعہ اتنے لاکھ گھنٹوں تک جاپہنچتا ہے۔ اس وقت کو اگر کسی مفید معاشی کام میں استعمال کیا جاتا تو اس سے اتنی معاشی دولت پیدا ہوسکتی تھی لیکن بُرا ہو اُن ملّائوں کا کہ انھوں نے مسلمانوں کو نماز میں لگاکر صدیوں سے انھیں اس قدر خسارے میں مبتلا کررکھا ہے۔ یہ بھی کوئی فرضی قیاس نہیں ہے بلکہ فی الواقع سوویت روس [سابق سوویت یونین] میں بہت سے ناصحین مشفقین نے وہاں کے مسلمانوں کو نماز کے معاشی نقصانات اِسی منطق سے سمجھائے ہیں۔ پھر یہی منطق روزے کے خلاف بھی بڑی کامیابی کے ساتھ استعمال کی جاسکتی ہے۔ اور اس کا آخری نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان نری معیشت کی میزان پر تول تول کر اسلام کی ایک ایک چیز کو دیکھتا جائے گا اور ہراس چیز کو ’ملّائوں کی ایجاد‘ قرار دے کر ساقط کرتا چلا جائے گا جو اس میزان میں اس کو بے وزن نظر آئے گی۔ کیا فی الواقع اب مسلمانوں کے پاس اپنے دین کے احکام کو جانچنے کے لیے صرف ایک یہی معیار رہ گیا ہے؟ (ایضاً، ص ۲۶۰-۲۶۲)
قرآن کی تلاوت اور نماز قائم کرنا یہی دو چیزیں ایسی ہیں جو ایک مومن میں وہ مضبوط سیرت اور وہ زبردست صلاحیت پیدا کرتی ہیں جن سے وہ باطل کی بڑی سے بڑی طغیانیوں اور بدی کے سخت سے سخت طوفانوں کے مقابلے میں نہ صرف کھڑا رہ سکتا ہے بلکہ ان کا منہ پھیر سکتا ہے۔ لیکن تلاوتِ قرآن اور نماز سے یہ طاقت انسان کو اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے، جب کہ وہ قرآن کے محض الفاظ کی تلاوت پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کی تعلیم کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اپنی روح میں جذب کرتا چلا جائے، اور اس کی نماز صرف حرکاتِ بدن تک محدود نہ رہے بلکہ اس کے قلب کا وظیفہ اور اس کے اخلاق و کردار کی قوتِ محرکہ بن جائے....
اس پوزیشن کو سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مختصر سے فقرے میں بہترین طریقے پر یوں واضح فرمایا ہے کہ القراٰن حجّۃ لک او علیک، ’’قرآن حجت ہے تیرے حق میں یا تیرے خلاف‘‘ (مسلم)۔ یعنی اگر تو قرآن کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتا ہے تو وہ تیرے حق میں حجت ہے۔ دنیا سے آخرت تک جہاں بھی تجھ سے بازپُرس ہو، تو اپنی صفائی میں قرآن کو پیش کرسکتا ہے کہ میں نے جو کچھ کیا ہے اس کتاب کے مطابق کیا ہے۔ اگر تیرا عمل واقعی اس کے مطابق ہوا تو نہ دنیا میں کوئی قاضیِ اسلام تجھے سزا دے سکے گا اور نہ آخرت میں داورِ محشر ہی کے ہاں اس پر تیری پکڑ ہوگی۔ لیکن اگر یہ کتاب تجھے پہنچ چکی ہو، اور تو نے اسے پڑھ کر یہ معلوم کرلیا ہو کہ تیرا رب تجھ سے کیا چاہتا ہے، کس چیز کا تجھے حکم دیتا ہے اور کس چیز سے تجھے منع کرتا ہے، اور پھر تو اس کے خلاف رویّہ اختیار کرے تو یہ کتاب تیرے خلاف حجت ہے۔یہ تیرے خدا کی عدالت میں تیرے خلاف فوجداری کا مقدمہ اور زیادہ مضبوط کردے گی۔ اس کے بعد ناواقفیت کا عذر پیش کرکے بچ جانا یا ہلکی سزا پانا تیرے لیے ممکن نہ رہے گا۔(تفہیم القرآن، جلدسوم، ص ۷۰۴-۷۰۵)
[ترتیل قرآن سے مراد یہ ہے کہ] تیز تیز رواں دواں نہ پڑھو، بلکہ آہستہ آہستہ ایک ایک لفظ زبان سے ادا کرو اور ایک ایک آیت پر ٹھیرو، تاکہ ذہن پوری طرح کلامِ الٰہی کے مفہوم و مدعا کو سمجھے اور اس کے مضامین سے متاثر ہو۔ کہیں اللہ کی ذات و صفات کا ذکر ہے تو اس کی عظمت و ہیبت دل پر طاری ہو۔ کہیں اس کی رحمت کا بیان ہے تو دل جذباتِ تشکر سے لبریز ہوجائے۔ کہیں اس کے غضب اور اس کے عذاب کا ذکر ہے تو دل پر اس کا خوف طاری ہو۔ کہیں کسی چیز کا حکم ہے یا کسی چیز سے منع کیا گیا ہے تو سمجھا جائے کہ کس چیز کا حکم دیا گیا ہے اور کس چیز سے منع کیا گیا ہے۔ غرض یہ قرأت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کردینے کے لیے نہیں بلکہ غوروفکر اور تدبر کے ساتھ ہونی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کا طریقہ حضرت انسؓ سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ آپ الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے۔ مثال کے طور پر انھوں نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر بتایا کہ آپ اللہ، رحمن اور رحیم کو مدّ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے (بخاری)۔ حضرت اُم سلمہؓ سے یہی سوال کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ حضوؐر ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے اور ہر آیت پر ٹھیرتے جاتے تھے، مثلاً: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ پڑھ کر رُک جاتے، پھر اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پر ٹھیرتے اور اس کے بعد رُک کر مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ کہتے (مُسنداحمد، ابوداؤد، ترمذی)۔ دوسری ایک روایت میں حضرت اُم سلمہؓ بیان فرماتی ہیں کہ حضوؐر ایک ایک لفظ واضح طور پر پڑھا کرتے تھے (ترمذی، نسائی)۔حضرت حُذیفہ بن یمانؓ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں رات کی نماز میں حضوؐر کے ساتھ کھڑا ہوگیا تو آپ کی قرأت کا یہ انداز دیکھا کہ جہاں تسبیح کا موقع آتا وہاں تسبیح فرماتے، جہاں دُعا کا موقع آتا وہاں دعامانگتے، جہاں اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا موقع آتا وہاں پناہ مانگتے (مسلم، نسائی)۔ حضرت ابوذرؓ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ رات کی نماز میں جب حضوؐر اِس مقام پر پہنچے اِنْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَھُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (اگر تو انھیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں، اور اگر تو ان کو معاف فرما دے تو تو غالب اور دانا ہے) تو اسی کو دُہراتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی (مُسنداحمد،بخاری)۔ (تفہیم القرآن، ج۶، ص ۱۲۶-۱۲۷)
نماز کی یہ خوبی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے، اس کے دو پہلو ہیں: ایک اس کا وصفِ لازم ہے، یعنی یہ کہ وہ فحشاء اور منکر سے روکتی ہے، اور دوسرا اس کا وصفِ مطلوب، یعنی یہ کہ اس کا پڑھنے والا واقعی فحشاء اور منکر سے رُک جائے۔ جہاں تک روکنے کا تعلق ہے، نماز لازماً یہ کام کرتی ہے۔ جو شخص بھی نماز کی نوعیت پر ذرا سا غور کرے گا وہ تسلیم کرے گا کہ انسان کو برائیوں سے روکنے کے لیے جتنے بریک بھی لگانے ممکن ہیں ان میں سب سے زیادہ کارگر بریک نماز ہی ہوسکتی ہے۔ آخر اس سے بڑھ کر مؤثر مانع اور کیا ہوسکتا ہے کہ آدمی کو ہر روز دن میں پانچ وقت خدا کی یاد کے لیے بلایا جائے اور اس کے ذہن میں یہ بات تازہ کی جائے کہ تو اِس دنیا میں آزاد و خودمختار نہیں ہے بلکہ ایک خدا کا بندہ ہے، اور تیرا خدا وہ ہے جوتیرے کھلے اور چھپے تمام اعمال سے، حتیٰ کہ تیرے دل کے ارادوں اور نیتوں تک سے واقف ہے، اور ایک وقت ضرور ایسا آنا ہے جب تجھے اُس خدا کے سامنے پیش ہوکر اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہوگی۔ پھر اس یاد دہانی پر بھی اکتفا نہ کیا جائے بلکہ آدمی کو عملاً ہرنماز کے وقت اس بات کی مشق کرائی جاتی رہے کہ وہ چھپ کر بھی اپنے خدا کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ کرے۔
نماز کے لیے اُٹھنے کے وقت سے لے کر نماز ختم کرنے تک مسلسل آدمی کو وہ کام کرنے پڑتے ہیں جن میں اس کے اور خدا کے سوا کوئی تیسری ہستی یہ جاننے والی نہیں ہوتی کہ اس شخص نے خدا کے قانون کی پابندی کی ہے یا اسے توڑ دیا ہے، مثلاً اگر آدمی کا وضو ساقط ہوچکا ہو اور وہ نماز پڑھنے کھڑا ہوجائے تو اس کے اور خدا کے سوا آخر کسے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ وضو سے نہیں ہے۔ اگر آدمی نماز کی نیت ہی نہ کرے اور بظاہر رکوع و سجود اور قیام و قعود کرتے ہوئے اذکار نماز پڑھنے کے بجاے خاموشی کے ساتھ غزلیں پڑھتا رہے تو اس کے اور خدا کے سوا کس پر یہ راز فاش ہوسکتا ہے کہ اس نے دراصل نماز نہیں پڑھی ہے۔ اس کے باوجود جب آدمی جسم اور لباس کی طہارت سے لے کر نماز کے ارکان اور اذکار تک قانونِ خداوندی کی تمام شرائط کے مطابق ہر روز پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نماز کے ذریعے سے روزانہ کئی کئی بار اس کے ضمیر میں زندگی پیدا کی جارہی ہے، اس میں ذمہ داری کا احساس بیدار کیا جا رہا ہے، اسے فرض شناس انسان بنایا جا رہا ہے، اور اس کو عملاً اس بات کی مشق کرائی جارہی ہے کہ وہ خود اپنے جذبۂ اطاعت کے زیراثر خفیہ اور علانیہ ہرحال میں اُس قانون کی پابندی کرے جس پر وہ ایمان لایا ہے، خواہ خارج میں اس سے پابندی کرانے والی کوئی طاقت موجود ہو یا نہ ہو اور خواہ دنیا کے لوگوں کو اس کے عمل کا حال معلوم ہو یا نہ ہو۔
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ نماز صرف یہی نہیں کہ آدمی کو فحشاء و منکر سے روکتی ہے بلکہ درحقیقت دنیا میں کوئی دوسرا طریق تربیت ایسا نہیں ہے جو انسان کو برائیوں سے روکنے کے معاملے میں اس درجہ مؤثر ہو۔ اب رہا یہ سوال کہ آدمی نماز کی پابندی اختیار کرنے کے بعد عملاً بھی برائیوں سے رُکتا ہے یا نہیں، تو اس کا انحصار خود اس آدمی پر ہے جو اصلاحِ نفس کی یہ تربیت لے رہا ہو۔ وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی نیت رکھتا ہو اور اس کی کوشش کرے تو نماز کے اصلاحی اثرات اس پر مترتب ہوں گے، ورنہ ظاہر ہے کہ دنیا کی کوئی تدبیر اصلاح بھی اس شخص پر کارگر نہیں ہوسکتی جو اس کا اثر قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہ ہو، یا جان بوجھ کر اس کی تاثیر کو دفع کرتا رہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے غذا کی لازمی خاصیت بدن کا تغذیہ اور نشوونما ہے، لیکن یہ فائدہ اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب کہ آدمی اسے جزوِ بدن بننے دے۔ اگر کوئی شخص ہرکھانے کے بعد فوراً ہی قے کر کے ساری غذا باہر نکالتا چلا جائے تو اس طرح کا کھانا اس کے لیے کچھ بھی نافع نہیں ہوسکتا۔ جس طرح ایسے شخص کی نظیر سامنے لاکر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ غذا موجب ِ تغذیہ بدن نہیں ہے کیونکہ فلاں شخص کھانا کھانے کے باوجود سوکھتا چلا جا رہا ہے، اسی طرح بدعمل نمازی کی مثال پیش کر کے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ نماز برائیوں سے روکنے والی نہیں ہے کیونکہ فلاں شخص نماز پڑھنے کے باوجود بدعمل ہے۔ ایسے نمازی کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ درحقیقت نماز نہیں پڑھتا جیسے کھانا کھاکر قے کر دینے والے کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ درحقیقت کھانا نہیں کھاتا۔
ٹھیک یہی بات ہے جو متعدد احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض اکابر صحابہ و تابعین سے مروی ہوئی ہے۔ عمران بن حُصَینؓ کی روایت ہے کہ حضوؐر نے فرمایا: ’’جسے اس کی نماز نے فحش اور بُرے کاموں سے نہ روکا اس کی نماز نہیں ہے‘‘ (ابن ابی حاتم)۔ ابن عباسؓ حضوؐر کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: ’’جس کی نماز نے اسے فحش اور بُرے کاموں سے نہ روکا اس کو اس کی نماز نے اللہ سے اور زیادہ دُور کر دیا‘‘(ابن ابی حاتم، طبرانی)۔ یہی مضمون جناب حسن بصریؒ نے بھی حضوؐر سے مرسلاً روایت کیا ہے (ابن جریر، بیہقی)۔ ابن مسعودؓ سے حضوؐر کا یہ ارشاد مروی ہے: ’’اس شخص کی کوئی نماز نہیں ہے جس نے نماز کی اطاعت نہ کی، اور نماز کی اطاعت یہ ہے کہ آدمی فحشاء و منکر سے رُک جائے‘‘۔(ابن جریر، ابن ابی حاتم)
اسی مضمون کے متعدد اقوال حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، عبداللہ بن عباسؓ، حسن بصری، قتادہ اور اعمش وغیرہم سے منقول ہیں۔ امام جعفرؒ صادق فرماتے ہیں: ’’جو شخص یہ معلوم کرنا چاہے کہ اس کی نماز قبول ہوئی ہے یا نہیں، اسے دیکھنا چاہیے کہ اس کی نماز نے اسے فحشاء اور منکر سے کہاں تک باز رکھا۔ اگر نماز کے روکنے سے وہ برائیاں کرنے سے رُک گیا ہے تو اس کی نماز قبول ہوئی ہے‘‘ (رُوح المعانی)۔ (تفہیم القرآن، جلد۳، ص ۷۰۶-۷۰۷)
آزادی کا لفظ جب ہماری زبان پر آتا ہے تو ہمارا ذہن فوراً سیاسی اِستقلال اور اجنبی تسلُّط سے آزادی کی جانب منتقل ہوجاتا ہے۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سیاسی آزادی بھی اللہ تعالیٰ کی ایک خاص نعمت ہے جس کی اسلام کی نگاہ میں بہت بڑی اہمیت ہے، کیونکہ اسلام جس نظریۂ حیات اور جس نظامِ زندگی کو دنیا میں برپا کرنا چاہتا ہے، اس کے قیام و استحکام کے لیے مسلم معاشرے کا بااختیار اور بیرونی اثرونفوذ سے آزاد ہونا بالکل ناگزیر ہے۔ لیکن یہیں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام کے نقطۂ نظر سے مسلمانوں کے ذہن و فکر کا دوسروں کی غلامی سے آزاد ہونا اوّلین مقصدی اہمیت رکھتا ہے اور سیاسی آزادی کی جتنی بھی اہمیت ہے اسی وجہ سے ہے کہ وہ فکروعمل کے استقلال کا ایک ناگزیر ذریعہ ہے۔
[۶۳] سال قبل ہم پاکستان کے مسلمان دُہری غلامی میں مبتلا تھے۔ ہم سیاسی حیثیت سے بھی غیروں کے محکوم تھے اور ذہنی حیثیت سے بھی۔ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اغیار کی سیاسی محکومی سے تو آزاد کر دیا لیکن ان کی ذہنی غلامی اور ان کی غیراسلامی اَقدار کے تسلُّط اور ان کی فکری محکومی میں جس طرح پہلے ہم مبتلا تھے، افسوس ہے کہ ابھی تک ہمیں اس سے رُستگاری نصیب نہ ہوسکی۔ ہماری درس گاہیں، ہمارے دفاتر، ہمارے بازار، ہماری سوسائٹی، ہمارے گھر، حتیٰ کہ ہمارے جسم تک زبانِ حال سے شہادت دے رہے ہیں کہ ان پر مغرب کی تہذیب، مغرب کے افکار، مغرب کی اقدار اور مغرب کے اخلاقی تصورات اور علمی نظریات حکمران ہیں۔ ہم مغرب کے دماغ سے سوچتے ہیں، مغرب کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، مغرب ہی کی بنائی ہوئی راہوں پر چلتے ہیں، خواہ اس کا شعور ہمیں ہو یا نہ ہو۔ یہ مفروضہ ہمارے دماغوں پر مسلّط ہے کہ صحیح وہ ہے جسے مغرب نے صحیح سمجھا ہے اور غلط وہ ہے جسے مغرب نے غلط قرار دیا ہے۔ حق، صداقت، تہذیب، اخلاق، شائستگی، ہرشے کا معیار ہمارے نزدیک وہی ہے جو مغرب نے مقرر کر رکھا ہے۔
سیاسی آزادی کے باوجود آخر اس ذہنی غلامی کا سبب کیا ہے؟ اس کا سبب یہ ہے کہ ذہنی آزادی اور غلبہ و تفوق کی بنا دراصل فکری اجتہاد اور علمی تحقیق پر قائم ہوتی ہے۔ جو قوم اس راہ میں پیش قدمی کرتی ہے،وہی دُنیا کی رہنما اور قوموں کی امام بن جاتی ہے اور اسی کے افکار دنیا پر چھاجاتے ہیں۔ اور جو قوم اس راہ میں پیچھے رہ جاتی ہے اسے مقلّد اور متّبع ہی بننا پڑتا ہے۔ اس کے افکار اور معتقدات میں یہ قوت باقی نہیں رہتی کہ وہ دماغوں پر اپنا تسلُّط قائم رکھ سکیں۔ مجتہد اور محقق قوم کے طاقت ور افکار و معتقدات کا سیلاب انھیں بہا لے جاتا ہے اور ان میں اتنا بل بُوتا نہیں رہتا کہ وہ اپنی جگہ پر ٹھیرے رہ جائیں۔
مسلمان جب تک تحقیق و اجتہاد کے میدان میں آگے بڑھتے رہے، تمام دنیا کی قومیں ان کی پیرو اور مقلّد رہیں۔ اسلامی فکر ساری نوعِ انسانی کے افکار پر غالب رہی۔ حُسن اور قُبح، نیکی اور بدی، غلط اور صحیح، شائستہ اور غیرشائستہ کا جو معیار اسلام نے مقرر کیا وہ تمام دنیا کے نزدیک معیار قرار پایا اور قصداً یا اِضطراراً دنیا اپنے افکار و اعمال کو اسی معیار کے مطابق ڈھالتی رہی۔ مگر جب مسلمانوں میں اربابِ فکر اور اصحابِ تحقیق پیدا ہونے بند ہوگئے، جب انھوں نے سوچنا اور دریافت کرنا چھوڑ دیا، جب وہ اِکتسابِ علم اور اجتہادِ فکر کی راہ میں تھک کر بیٹھ گئے تو گویا انھوں نے خود دنیا کی رہنمائی سے اِستعفا دے دیا۔ دوسری طرف مغربی قومیں اس راہ میں آگے بڑھیں۔ انھوں نے غوروفکر کی قوتوں سے کام لینا شروع کیا، کائنات کے راز ٹٹولے اور فطرت کی چھپی ہوئی طاقتوں کے خزانے تلاش کیے۔ اس کا لازمی نتیجہ وہی ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔ مغربی قومیں دنیا کی راہنما بن گئیں اور مسلمانوں کو اسی طرح ان کے اقتدار کے آگے سرِتسلیم خم کرنا پڑا جس طرح کبھی دنیا نے خود مسلمانوں کے اقتدار کے آگے خم کیا تھا۔
اب اسے بدقسمتی کے سِوا اور کیا کہیے کہ مغربی تہذیب نے جس فلسفے اور سائنس کی آغوش میں پرورش پائی وہ پانچ چھے سو سال سے دہریت، الحاد، لامذہبی اور مادّہ پرستی کی طرف جا رہا ہے اور جس صدی میں یہ نئی تہذیب اپنی دہریت اور مادّہ پرستی کی انتہا کو پہنچی، ٹھیک وہی صدی تھی جس میں مراکش سے لے کر مشرقِ بعید تک تمام اسلامی ممالک مغربی قوموں کے سیاسی اقتدار اور فکری غلبے سے بیک وقت مفتُوح اور مغلوب ہوئے۔ مسلمانوں پر مغربی تلوار اور قلم دونوں کا حملہ ایک ساتھ ہوا۔ جو دماغ مغربی طاقتوں کے سیاسی غلبہ سے مرعوب اور دہشت زدہ ہوچکے تھے ان کے لیے یہ مشکل ہوگیا کہ مغرب کے فلسفہ و سائنس اور ان کی پروردہ تہذیب کے رُعب داب سے محفوظ رہتے۔
اس میں شک نہیں کہ مسلمانوں کا سوادِاعظم اب بھی اسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے اور مسلمان رہنا چاہتا ہے لیکن دماغ مغربی افکار اور مغربی تہذیب اور اس کی رُوح اور اس کے اُصولوں سے متاثر ہوکر اسلام سے منحرف ہورہے ہیں۔ ملکی آزادی اور سیاسی اِستقلال کے باوجود مغرب کا ذہنی اور تہذیبی تسلُّط ہمارے ذہنوں کی فضا پر چھایا ہوا ہے اور اس نے نگاہوں کے زاویے اس طرح بدل دیے ہیں کہ دیکھنے والوں کے لیے مسلمانوں کی نظر سے دیکھنا اور سوچنے والوں کے لیے اسلامی طریق پر سوچنا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ حالت اس وقت تک دُور نہ ہوگی جب تک مسلمانوں میں آزاد اہلِ فکر پیدا نہ ہوں گے۔ اب ایک اسلامی نشاتِ ثانیہ کی ضرورت ہے۔ اگر ہم دوبارہ دنیا کے رہنما بننا چاہتے ہیں تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکّر اور محقِّق پیدا ہوں جو فکرونظر اور تحقیق و اِکتشاف کی قوت سے ان بنیادوں کو ڈھا دیں جن پر مغربی تہذیب کی نظریاتی عمارت قائم ہوئی ہے۔ اسلام کے بنائے ہوئے طریق فکرونظر پر آثار کے مشاہدے اور حقائق کی جُستجو سے ایک نئے نظامِ فلسفہ کی بنا رکھیں، ایک نئی حکمت ِ طبیعی (Natural Science) کی عمارت اُٹھائیں جو کتاب و سنت کی ڈالی ہوئی داغ بیل پر اُٹھے۔ مُلحدانہ نظریے کو توڑ کر خدا پرستانہ نظریے پر فکروتحقیق کی اَساس قائم کریں اور اس جدید فکروتحقیق کی عمارت کو اس قوت کے ساتھ اُٹھائیں کہ وہ تمام دنیا پر چھا جائے اور دُنیا میں مغرب کی مادّی تہذیب کے بجاے اسلام کی حقّانی تہذیب جلوہ گر ہو۔(مکاتیب سیدابوالاعلٰی مودودی، جلد اوّل، مرتبہ: عاصم نعمانی، ص ۲۴۲-۲۴۶)
اولین چیز جس کی ہدایت ہمیشہ سے انبیا ؑ اور خلفاے راشدینؓ، اورصلحاے اُمت ہر موقع پر اپنے ساتھیوں کو دیتے رہے ہیں، وہ اللہ سے ڈرنے اور اس کی محبت دل میں بٹھانے، اور اس کے ساتھ تعلق بڑھانے کی ہدایت ہے۔ میں نے بھی اسی کے اتباع میں ہمیشہ اپنے رفقا کو سب سے پہلے یہی نصیحت کی ہے اور آیندہ بھی جب کبھی موقع ملے گا اسی کی نصیحت کرتا رہوں گا۔ کیونکہ یہ وہ چیز ہے جس کو ہر دوسری چیز پر مقدم ہی ہونا چاہیے۔ عقیدے میں اللہ پر ایمان مقدم ہے۔ عبادت میں اللہ سے دل کا لگائو مقدم ہے۔ اخلاق میں اللہ کی خشیت مقدم ہے۔ معاملات میں اللہ کی رضا کی طلب مقدم ہے۔ اور فی الجملہ ہماری زندگی ہی کی درستی کا انحصار اس پر ہے کہ ہماری دوڑ دھوپ اور سعی و جہد میں رضاے الٰہی کی مقصودیت ہر دوسری غرض پر مقدم ہو۔ پھرخصوصیت کے ساتھ یہ کام جس کے لیے ہم ایک جماعت کی صورت میں اُٹھے ہیں، یہ تو سراسر تعلق باللہ ہی کے بل پر چل سکتا ہے۔ یہ اتنا ہی مضبوط ہوگا جتنا اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق مضبوط ہوگا، اور یہ اتنا ہی کمزور ہوگا جتنا، خدانخواستہ اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق کمزور ہوگا۔
ظاہر بات ہے کہ آدمی جو کام بھی کرنے اٹھتا ہے، خواہ وہ دُنیا کا کام ہو یا دین کا، اس کی اصل محرک وہ غرض ہوتی ہے جس کی خاطر وہ کام کرنے اٹھا ہے، اور اس میں سرگرمی اسی وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ اس غرض کے ساتھ آدمی کی دل چسپی میں گہرائی اورگرمجوشی ہو۔ نفس کے لیے کام کرنے والا خود غرضی کے بغیر نفس پرستی نہیں کر سکتا، اورنفس کی محبت میں جتنی شدت ہوتی ہے، اتنی ہی سرگرمی کے ساتھ وہ اس کی خدمت بجالاتا ہے۔ اولاد کے لیے کام کرنے والا اولاد کی محبت میں دیوانہ ہوتا ہے تب ہی وہ اپنے عیش و آرام کو اولاد کی بھلائی پر قربان کرتا ہے اور اپنی دنیا ہی نہیں، اپنی عاقبت تک اس غرض کے لیے خطرے میں ڈال دیتا ہے کہ اس کے بچے زیادہ سے زیادہ خوش حال ہوں۔ قوم یا وطن کے لیے کام کرنے والا ملک و قوم کے عشق میں گرفتار ہوتا ہے تب ہی وہ قوم و ملک کی آزادی، حفاظت اور برتری کی فکر میں مالی نقصان اٹھاتا ہے، قید وبند کی سختیاں جھیلتا ہے، شب و روز کی محنتیں صرف کرتا ہے، اور جان تک قربان کر دیتا ہے۔ اب اگر ہم یہ کام نہ اپنے نفس کے لیے کر رہے ہیں، نہ کوئی خاندانی غرض اس کی محرک ہے، نہ کوئی ملکی و قومی مفاد اس میں ہمارے پیش نظر ہے، بلکہ صرف ایک اللہ کو راضی کرنا ہمیں مطلوب ہے اور اُسی کا کام سمجھ کر ہم نے اسے اختیار کیا ہے، تو آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ جب تک اللہ ہی سے ہمارا تعلق گہرا اور مضبوط نہ ہو، یہ کام کبھی نہیں چل سکتا، اور اس میں سرگرمی آ سکتی ہے تو اسی وقت، جب کہ ہماری ساری رغبتیں اعلاے کلمۃ اللہ کی سعی میں مرکوز ہو جائیں۔ اس کام میں جو لوگ شریک ہوں ان کے لیے صرف اتنی بات کافی نہیں ہے کہ ان کا تعلق اللہ سے بھی ہو، بلکہ ان کا تعلق اللہ سے ہی ہونا چاہیے۔ اسے تعلقات میں سے ایک تعلق نہیں، بلکہ ایک ہی اصلی اور حقیقی تعلق ہونا چاہیے، اورانھیں ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہنی چاہیے کہ اللہ سے ان کا تعلق گھٹے نہیں بلکہ روز بروز زیادہ بڑھتا اور گہرا ہوتا چلا جائے۔
اس معاملے میں ہمارے درمیان دورائیں نہیں ہیں کہ تعلق باللہ ہی ہمارے اس کام کی جان ہے۔ جماعت کا کوئی رفیق، الحمد للہ اس کی اہمیت کے احساس سے غافل نہیں ہے۔ البتہ جو سوالات اکثر لوگوں کو پریشان رکھتے ہیں وہ یہ ہیں کہ تعلق باللہ سے ٹھیک مراد کیا ہے؟ اس کو پیدا کرنے اور بڑھانے کا طریقہ کیا ہے؟ اور آخر کس طرح یہ معلوم کریں کہ ہمارا تعلق واقعی اللہ سے ہے یا نہیں، اور ہے تو کتنا ہے؟ ان سوالات کاکوئی واضح جواب معلوم نہ ہونے کی وجہ سے میں نے اکثر یہ محسوس کیا ہے کہ لوگ گویا اپنے آپ کو ایک بے نشان صحرا میں پا رہے ہیں جہاں کچھ پتا نہیں چلتا کہ ان کی منزل مقصود ٹھیک کس سمت میں ہے اور کوئی اندازہ نہیں ہوتا کہ اُنھوں نے کتنا راستہ طے کیا اور اب کس مرحلے میں ہیں اور آگے کتنے مراحل باقی ہیں۔ اسی وجہ سے بسا اوقات ہمارا کوئی رفیق مبہم تصورات میں گم ہونے لگتا ہے، کوئی ایسے طریقوں کی طرف مائل ہو جاتا ہے جو موصل الی المقصود نہیں ہیں، کسی کے لیے مقصود سے قریب کا تعلق اور دور کاتعلق رکھنے والی چیزوں میں امتیاز کرنا مشکل ہو رہا ہے، اور کسی پر حیرت کا عالم طاری ہے۔ اس لیے آج میں صرف تعلق باللہ کی نصیحت ہی پر اکتفا نہ کروں گا بلکہ اپنے علم کی حد تک ان سوالات کا بھی ایک واضح جواب دینے کی کوشش کروں گا۔
اِنَّ صَلٰوتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنo (الانعام۶:۱۶۲) میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔
وَمَا اُمِرُوْا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَـآئَ (البینہ ۹۸:۵) انھیں نہیں حکم دیا گیا مگر یہ کہ اللہ کی بندگی کریں اس کے لیے دین خالص کرکے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اپنے ارشادات میں اس تعلق کی ایسی تشریح فرما دی ہے کہ اس کے مفہوم و مدعا میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا ہے۔ حضوؐر کے بیانات کا تتبع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلق باللہ کے معنی ہیں:
خَشْیَۃِ اللّٰہِ فِی السِّرِّ وَالْعَلَاتِیَۃِ، کھلے اور چھپے ہر کام میں اللہ کا خوف محسوس کرنا۔
اور یہ کہ
اَنْ تَکُوْنَ بِمَا فِیْ یَدَیِ اللّٰہِ اَوْثَقَ بِمَا فِیْ یَدَیْکَ، اپنے ذرائع و وسائل کی بہ نسبت تیرا بھروسا اللہ کی قدرت پر زیادہ ہو۔
اور یہ کہ
مَنِ الْتَمَسَ رِضَی اللّٰہِ بِسَخَطِ النَّاسِ، آدمی اللہ کو راضی کرنے کے لیے لوگوں کو ناراض کر لے۔
پھر جب یہ تعلق بڑھتے بڑھتے اس حدکو پہنچ جائے کہ آدمی کی محبت اور دشمنی اور اس کا دینا اور روکنا جو کچھ بھی ہو اللہ کے لیے اور اللہ کی خاطر ہو، اور نفسانی رغبت و نفرت کی آگ اس کے ساتھ لگی نہ رہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نے تعلق باللہ کی تکمیل کرلی:
مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَ اَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطٰی لِلّٰہِ وَ مَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانِ، جس نے اللہ کے لیے دوستی کی، اور اللہ کے لیے دشمنی کی، اور اللہ کے لیے دیا اوراللہ کے لیے روک رکھا، اس نے اپنے ایمان کو مکمل کر لیا۔
پھر یہ جو آپ ہر روز رات کو اپنی دُعاے قنوت میں پڑھتے ہیں، اس کا لفظ لفظ اس تعلق کی نشان دہی کرتا ہے جو آپ کا اللہ کے ساتھ ہونا چاہیے۔ اس کے الفاظ پر غور کیجیے اور دیکھتے جائیے کہ آپ ہر رات اپنے اللہ کے ساتھ اس قسم کا تعلق رکھنے کا اقرار کیا کرتے ہیں:
اَللّٰھُمَّ انَّا نَسْتَعِیْنُکَ وَنَسْتَھْدِیَکَ وَنَسْتَغْفِرُکَ وَنُؤْمِنُ بِکَ وَنَتَوَکَّلُ عَلَیْکَ وَنُثْنِیْ عَلَیْکَ الْخَیْرَ کُلَّہٗ ،نَشْکُرُکَ وَلَا نَکْفُرُکَ وَنَخْلَعُ وَ نَتْرُکُ مَنْ یَّفْجُرُکُ ط اَللّٰھُمَّ اِیَّاکَ نَعْبُدُ، وَلَکَ نُصَلِّیْ وَنْسْجُدُ وَاِلْیکَ نَسْعٰی وَ نَحْفِدُ وَنَرْجُوْا رَحْمَتَکَ وَنَخَشْیٰ عَذَابَک اِنَّ عَذَابَکَ الْجِدَّ بِالْکُفَّارِ مُلْحِق، خدایا، ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں، تجھ سے رہنمائی طلب کرتے ہیں، تجھ سے معافی چاہتے ہیں، تجھ پر ایمان لاتے ہیں، تیرے ہی اوپر بھروسا رکھتے ہیں، اور ساری تعریفیں تیرے ہی لیے مخصوص کرتے ہیں۔ ہم تیرے شکر گزار ہیں ‘ کفرانِ نعمت کر نے والے نہیں ہیں۔ہم ہر اس شخص کو چھوڑ دیں گے جو تیری نافرمانی کرے۔ خدایا ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں، تیرے ہی لیے نماز پڑھتے اور سجدہ کرتے ہیں اور ہماری ساری دوڑ دھوپ تیری طرف ہی ہے۔ ہم تیری رحمت کے اُمید وار ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں، یقینا تیرا سخت عذاب ان لوگوں کو پہنچنے والا ہے جو کافر ہیں۔
پھر اسی تعلق باللہ کی تصویر اس دُعا میں پائی جاتی ہے جو نبیؐ رات کو تہجد کے لیے اٹھتے وقت پڑھا کرتے تھے۔ اس میں آپؐ اللہ کو خطاب کرکے عرض کرتے ہیں:
اَللّٰھُمَّ لَکَ اَسْلَمْتُ وَبِکَ اٰمَنْتُ وَ عَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْکَ اَنْبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَ اِلَیْکَ حَاکَمْتُ، خدایا! میں تیرا ہی مطیع فرمان ہوا اور تجھی پر ایمان لایا اور تیرے ہی اوپر میں نے بھروسا کیا اور تیری ہی طرف میں نے رجوع کیا، اور تیری ہی وجہ سے میں لڑا اورتیرے ہی حضور اپنا مقدمہ لایا۔
یہ ہے ٹھیک نوعیت اس تعلق کی جو ایک مومن کو اللہ سے ہونا چاہیے۔ اب دیکھنا چاہیے کہ اس تعلق کو پیدا کرنے اور بڑھانے کا طریقہ کیا ہے۔
اس کو پیدا کرنے کی صورت ایک ہے، اور وہ یہ کہ آدمی سچے دل سے اللہ وحدہٗ لاشریک کو اپنا اور ساری کائنات کا مالک، معبود اور حاکم تسلیم کرے۔ الہٰیت کی تمام صفات اور حقوق اور اختیارات کو اللہ کے لیے مخصوص مان لے، اور اپنے قلب کو شرک کے ہر شائبے سے پاک کردے۔ یہ کام جب آدمی کر لیتا ہے تو اللہ سے اس کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔
رہا اس تعلق کا نشوو نما، تو وہ دو طریقوں پر منحصر ہے۔ ایک فکر و فہم کا طریقہ اور دوسرا عمل کا طریقہ۔
مثال کے طور پر ایک نسبت آپ کے اور اللہ کے درمیان یہ ہے کہ آپ عبد ہیں اور وہ آپ کا معبود ہے۔ دوسری نسبت یہ ہے کہ آپ زمین پر اس کے خلیفہ ہیں اور اس نے اپنی بے شمار امانتیں آپ کے سپرد کر رکھی ہیں۔ تیسری نسبت یہ ہے کہ آپ ایمان لاکر اس کے ساتھ ایک بیع کا معاہدہ طے کر چکے ہیں جس کے مطابق آپ نے اپنی جان و مال اس کے ہاتھ بیچی ہے، اور اس نے جنت کے وعدے پر خریدی ہے۔ چوتھی نسبت آپ کے اور اس کے درمیان یہ ہے کہ آپ اس کے سامنے جواب دہ ہیں اور وہ آپ کا حساب صرف آپ کے ظاہر ہی کے لحاظ سے لینے والا نہیں ہے بلکہ آپ کی جملہ حرکات و سکنات، بلکہ آپ کی نیتوں اور ارادوں تک کا ریکارڈ اس کے پاس محفوظ ہورہا ہے۔ غرض یہ اور دوسری بہت سی نسبتیں ایسی ہیں جو آپ کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان موجود ہیں۔ بس انھی نسبتوں کو سمجھنے محسوس کرنے، یاد رکھنے اور ان کے تقاضے پورے کرنے پر اللہ کے ساتھ آپ کے تعلق کا بڑھنا اور قریب ترہونا موقوف ہے۔ آپ جس قدر ان سے غافل ہوں گے اللہ سے آپ کا تعلق اتنا ہی کمزور ہوگا اور جس قدر زیادہ ان سے خبردار اور ان کی طرف متوجہ رہیں گے اسی قدر آپ تعلق گہرا اورمضبوط ہوگا۔
اس طرز عمل کو اختیار کرنا درحقیقت کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ ایک نہایت دشوار گزار گھاٹی ہے جس پر چڑھنے کے لیے بڑی طاقت درکار ہے اور یہ طاقت جن تدبیروں سے آدمی کے اندر پیدا ہو سکتی ہے وہ یہ ہیں:
۱- نماز: نہ صرف فرض اور سنت، بلکہ حسب استطاعت نوافل بھی۔ دیگر یاد رکھیے کہ نوافل زیادہ سے زیادہ اخفا کے ساتھ پڑھنے چاہییں تاکہ اللہ سے آپ کا ذاتی تعلق نشوونما پائے اور اخلاص کی صفت آپ میں پیدا ہو… نفل خوانی کا اور خصوصاً تہجد خوانی کا اظہار بسا اوقات ایک خطرناک قسم کار یا اور کبر انسان میں پیدا کر دیتا ہے جونفس مومن کے لیے سخت مہلک ہے۔ اور یہی نقصانات دوسرے نوافل اور صدقات اور اذکار کے اظہار و اعلان میں بھی پائے جاتے ہیں۔
۲- ذکر الٰھی: جو زندگی کے تمام احوال میں جاری رہنا چاہیے۔ اس کے وہ طریقے صحیح نہیں ہیں جو بعد کے ادوار میں صوفیا کے مختلف گروہوں نے خود ایجاد کیے یا دوسروں سے لیے، بلکہ بہترین اور صحیح ترین طریقہ وہ ہے جو نبیؐ نے اختیار فرمایا اور صحابہ کرامؓ کو سکھایا۔ آپ حضوؐر کے تعلیم کردہ اذکار اور دُعائوں میں سے جس قدر بھی یاد کر سکیں یاد کر لیں۔ مگر الفاظ کے ساتھ ان کے معانی بھی ذہن نشین کیجیے، اورمعافی کے استحضار کے ساتھ ان کو وقتاً فوقتاً پڑھتے رہا کیجیے۔ یہ اللہ کی یاد تازہ رکھنے اور اللہ کی طرف دل کی توجہ مرکوز رکھنے کا ایک نہایت موثر ذریعہ ہے۔
۳- روزہ: نہ صرف فرض، بلکہ نفل بھی۔ نفل روزوں کی بہترین اور معتدل ترین صورت یہ ہے کہ ہر مہینے تین دن کے روزوں کا التزام کر لیا جائے، اور ان ایام میں خاص طور پر تقویٰ کی اس کیفیت کو حاصل کرنے کی کوشش کی جائے جسے قرآن مجید روزے کی اصل حقیقت بتاتا ہے۔
۴- انفاق فی سبیل اللّٰہ: نہ صرف فرض، بلکہ نفل بھی، جہاں تک آدمی کی استطاعت ہو۔ اس معاملے میں یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ اصل چیز مال کی وہ مقدار نہیں ہے جو آپ خدا کی راہ میں صرف کرتے ہیں، بلکہ اصل چیز وہ قربانی ہے جو اللہ کی خاطر آپ نے کی ہو۔ ایک غریب آدمی اگر اپنا پیٹ کاٹ کر خدا کی راہ میں ایک پیسہ صرف کرے تو وہ اللہ کے ہاں اس ایک ہزار روپیہ سے زیادہ قیمتی ہے جو کسی دولت مند نے اپنی آسایشوں کا دسواں یا بیسواں حصہ قربان کرکے دیا ہو۔ اس کے ساتھ یہ بھی آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ صدقہ ان اہم ترین ذرائع میں سے ہے جو تزکیہ نفس کے لیے اللہ اور اس کے رسولؐ نے بتائے ہیں۔ آپ اس کے اثرات کا تجربہ کرکے اس طرح دیکھ سکتے ہیں کہ ایک دفعہ اگر آپ سے کوئی لغزش سرزد ہو جائے تو آپ صرف نادم ہونے اور توبہ کر لینے پر اکتفا کریں۔ اور دوسری مرتبہ اگر کسی لغزش کا صدور ہو توآپ توبہ کے ساتھ خدا کی راہ میں کچھ صدقہ بھی کریں۔ دونوں حالتوںکا موازنہ کرکے آپ خود اندازہ کر لیں گے کہ توبہ کے ساتھ صدقہ آدمی کے نفس کو زیادہ پاک اوربرے میلانات کے مقابلے کے لیے زیادہ مستعد کرتا ہے۔
یہ وہ سیدھا سادہ سلوک ہے جو قرآن اور سنت نے ہمیں بتایا ہے۔ اس پر اگر آپ عمل کریں تو ریاضتوں اور مجاہدوں اور مراقبوں کے بغیر ہی آپ اپنے گھروں میں اپنے بال بچوں کے درمیان رہتے ہوئے اور اپنے سارے دنیوی کاروبار انجام دیتے ہوئے اپنے خدا سے تعلق بڑھا سکتے ہیں۔
اس کے بعد یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ ہم کیوں کر یہ معلوم کریں کہ اللہ کے ساتھ ہمارا تعلق کتنا ہے، اور ہمیں کیسے پتا چلے کہ وہ بڑھ رہا ہے یا گھٹ رہا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ اسے معلوم کرنے کے لیے آپ کو خواب کی بشارتوں اور کشف و کرامت کے ظہور، اور اندھیری کوٹھڑی میں انوار کے مشاہدے کا انتظار کرنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ اس تعلق کو ناپنے کا پیمانہ تو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے قلب ہی میں رکھ دیا ہے۔ آپ بیداری کی حالت میں اور دن کی روشنی میں ہر وقت اس کو ناپ کر دیکھ سکتے ہیں۔ اپنی زندگی کا، اپنے اوقات، اپنی مساعی کا اور اپنے جذبات کا جائزہ لیجیے۔ اپنا حساب آپ لے کر دیکھیے کہ ایمان لا کر اللہ سے بیع کا جو معاہدہ آپ کر چکے ہیں اسے آپ کہاں تک نباہ رہے ہیں؟ آپ کے اوقات اور محنتوں اور قابلیتوں اور اموال کا کتنا حصہ خدا کے کام میںجا رہا ہے اور کتنا دوسرے کاموں میں؟ آپ کے اپنے مفاد اورجذبات پر چوٹ پڑے تو آپ کے غصے اور بے کلی کا کیا حال ہوتا ہے اور جب اﷲ کے مقابلے میں بغاوت ہو رہی ہو تو اسے دیکھ کر آپ کے دل کی کڑھن اور آپ کے غضب اور بے چینی کی کیا کیفیت رہتی ہے؟ یہ اور دوسرے بہت سے سوالات ہیں جوآپ خود اپنے نفس سے کر سکتے ہیں۔ اور اس کا جواب لے کر ہر روز معلوم کر سکتے ہیں کہ اللہ سے آپ کا تعلق ہے یا نہیں، اور ہے تو کتنا ہے، اور اس میں کمی ہور ہی ہے یا اضافہ ہو رہا ہے۔ رہیں بشارتیں اور کشوف و کرامات اور انوار و تجلیات، تو آپ ان کے اکتساب کی فکرمیں نہ پڑیں۔ سچی بات یہ ہے کہ اس مادی دنیا کے دھوکا دینے والے مظاہر میں توحید کی حقیقت کو پالینے سے بڑا کوئی کشف نہیں ہے۔ شیطان اور اس کی ذریت کے دلائے ہوئے ڈراووں اور لالچوں کے مقابلے میں راہ راست پر قائم رہنے سے بڑی کوئی کرامت نہیں ہے۔ کفر و فسق اور ضلالت کے اندھیروں میں حق کی روشنی دیکھنے اور اتباع کرنے سے بڑا کوئی مشاہدۂ انوار نہیں ہے۔ اور مومن کو اگر کوئی سب سے بڑی بشارت مل سکتی ہے تو وہ اللہ کو رب مان کر اس پر جم جانے اور ثابت قدمی کے ساتھ اس پر چلنے سے ملتی ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمْ الْمَلٰئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَ اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ o (حٰم السجدۃ ۴۱:۳۰) جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، یقینا ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ’’نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جائو اس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔ (روداد جماعت اسلامی، ششم)
(کتابچہ دستیاب ہے، ۳۰۰ روپے سیکڑہ، منشورات، منصورہ، لاہور)
مَیں تحریک اسلامی کے مستقبل کے بارے میں بے حد پُرامید ہوں۔ حق و باطل کی جو قوتیں آج برسرِ پیکار ہیں، جب ہم ان کو دیکھتے ہیں اور ان کے حالات کا موازنہ کرتے ہیں، تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ حالات اسلام کی کامیابی اور سربلندی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ مَیں جن وجوہ کی بنا پر یہ بات کہتا ہوں، وہ یہ ہیں:
۱- اسلام کے علاوہ جتنے بھی نظریات ہیں ان سب کو دورِحاضر میں جانچ اور پرکھ کر دیکھا جاچکا ہے اوروہ سب ناکام رہے ہیں۔ باطل قوتوں کے پاس آج کوئی نظریہ باقی نہیں رہا ہے۔ لہٰذا اب ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس میں فی الواقع لوگوں کے لیے کشش ہو۔ ہم اِس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ انھیں اسلام کا لبادہ اوڑھ کر آنا پڑتا ہے۔ ان کے کھوکھلے پن کا اس سے واضح ثبوت اور کیا ہوگا۔
۲- اِس ملک میں جتنے بھی گروہ اور جتنی بھی قوتیں موجود ہیں، وہ ایک ایک کر کے آزمایش کے مقام پر آتا چلا جا رہا ہے، اور اپنی نااہلی اور نالائقی ثابت کرتا چلا جا رہا ہے۔ خواہ آپ سیاسی گروہوں کو لیں، خواہ دوسرے طبقات کو، ہر ایک آزمایش کی کسوٹی پر کھوٹا ثابت ہوا ہے اور ہورہا ہے۔ اس کے نتیجے میں قوم ان میں سے ایک ایک سے مایوس ہوتی جارہی ہے اور ایک وقت آئے گا کہ وہ ان سے بالکل مایوس ہوجائے گی۔ اور قوم میں خود ہی کسی قابلِ اعتماد عنصر کے لیے پیاس پیدا ہوگی، بلکہ ان حضرات کی کارگزاریوں کی وجہ سے پیدا ہونی شروع بھی ہوگئی ہے۔ جیسے جیسے یہ پیاس بڑھے گی___ اور اسے لازماً بڑھنا ہے ___ ویسے ہی ویسے ان شاء اللہ تحریکِ اسلامی کے لیے مواقع پیدا ہوتے جائیں گے۔
۳- باطل کی قوتیں اگر متحد ہوتیں تو پھر شاید کچھ خطرناک ہوتا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سب کو ایک دوسرے کا حریف اور دشمن بنا دیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی طاقت کو توڑنے اور اس کے اعتماد کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ ان کی مخالفت میں بہت سا کام جو تعمیری قوتوںکو کرنا تھا یہ حضرات خود اپنے ہی ہاتھوں کر رہے ہیں۔ اس نے تحریکِ اسلامی کی قوت کو بڑھا دیا ہے۔
۴- جن حالات سے آج ہمیں سابقہ پیش ہے اور جس سمت میںاس ملک کو لے جایا جا رہا ہے، وہ ہمارے لیے بے شمار مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ خصوصیت سے معاشرے میں جو بگاڑ راہ پارہا ہے اور جس تیزی سے بڑھ رہا ہے، وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ ہمارے پاس اس وقت وہ ذرائع موجود نہیں جن سے ہم اس کو روک سکیں۔ لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ ان شاء اللہ اس بگاڑ کے باوجود تحریکِ اسلامی کا مستقبل نہایت روشن ہے۔ ہم اس مفروضے پر تو کام کر نہیں رہے کہ شیطان کو معزول کردیا جائے اور ہمیں کھلی چھٹی مل جائے گی، یا تحریک اسلامی کے لیے کوئی ایسا مخصوص میدان ہے جہاں شیطان کا عمل دخل نہ ہو۔ ہم اِس قسم کی کوئی توقع نہیں رکھتے اور انھی حالات میں اپنے لیے راہ نکال رہے ہیں اور ان شاء اللہ اس میں کامیاب ہوں گے۔
جو لوگ حالات کے بگاڑ سے مایوس ہوجاتے ہیں، مَیں ان سے کہتا ہوں کہ کیا یہ ایک حقیقت نہیں کہ اِس سے بدرجہا زیادہ خراب حالات کے باوجود اور انتہائی جبروتشدد کے استعمال کے باوجود آج تک [اشتراکی] روس سے اسلام کو خارج نہیں کیا جاسکا [بلکہ آج وسطی ایشیا کی مسلم ریاستیں روس کے چنگل سے نکلنے کے بعد آزاد ریاستیں ہیں]۔ ترکی میں اسلام کو غیرمؤثر بنانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا گیا؟ لیکن نتیجہ کیا ہوا؟ وہاں آج بھی اسلام کے ساتھ دل چسپی اسی طرح ہے۔ یہ ان قوموں کا حال ہے جہاں دین سے انحراف اور معاشرتی بگاڑ کے خلاف کوئی جوابی چیز موجود نہ تھی، جہاں لوگوں کے لیے دُور دُور تک اُمید کی کوئی شعاع نہ تھی لیکن اس کے باوجود وہ اسلام سے وابستہ رہے اور کوئی طاقت اسلام کو مٹا نہ سکی۔ ہمارے ملک میں ایک مثبت جوابی تحریک موجود ہے۔ یہ مسلسل کام کر رہی ہے۔ لوگوں کو ایک سہارا نظر آتا ہے۔ اس لیے بگاڑ کی رفتار خواہ کتنی ہی تیز کیوں نہ ہو مجھے مایوسی کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی، بلکہ جب خود اسلامی تحریک کی ترقی اور اس کے اثرات کا ہم جائزہ لیتے ہیں تو ہمارے سر خدا کے حضور شکر سے جُھک جاتے ہیں۔ میرے دل میں ایک لمحے کے لیے بھی مایوسی کے جذبات نہیں پیدا ہوتے۔ مَیں حالات کو ہر لحاظ سے اُمیدافزا سمجھتا ہوں۔
۵- پھر مجھے اِس بات پر مکمل یقین ہے کہ اگر کسی حق بات کے لیے موزوں طریقے پر کام کیا جائے، اور کام کرنے والے بھی موزوں ہوں، اور کام بھی حکمت و دانش مندی کے ساتھ کیا جائے تو ناکامی کی کوئی وجہ نہیں بلکہ کامیابی ناگزیر ہے۔ حق کی فطرت میں کامیابی ہے۔ ضرورت جس امر کی ہے وہ موزوں طریقے پر صحیح آدمیوں کے ذریعے اور حکمت و تدبر کے ساتھ کام کرنا ہے اور الحمدللہ یہ کام ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مَیں تحریکِ اسلامی کے مستقبل کے بارے میں ہمیشہ پُرامید رہا ہوں اور آج بھی پُرامید ہوں۔ ان شاء اللہ اسلام غالب ہوکر رہے گا۔ (مولانا مودودی کے انٹرویو، اوّل، ص ۲۰۲-۲۰۴)
آج سے چار ہزار برس پہلے کی بات ہے کہ عراق کی سرزمین میں ایک شخص پیدا ہوا تھا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انسانی تاریخ پر اپنا ایک مستقل نشان چھوڑ گیا ہے۔ جس زمانے میں اس نے آنکھیں کھولیں اس وقت تمام دنیا شرک اور بت پرستی میں مبتلا تھی۔ جس قوم میں وہ پیدا ہوا وہ ایک ستارہ پرست قوم تھی۔ چاند، سورج اور دوسرے سیّارے اس کے خدا تھے اور شاہی خاندان انھی خدائوں کی اولاد ہونے کی حیثیت سے اہلِ ملک کا رب مانا جاتا تھا۔ جس خاندان میں وہ پیدا ہوا، وہ پروہتوں کا خاندان تھا اور اپنی قوم کو ستارہ پرستی کے جال میں پھانسے رکھنے کا اصل ذمّہ دار وہی تھا۔
ایسے زمانے، ایسی قوم اور ایسے خاندان میں یہ شخص پیدا ہوا۔ دنیا کی عام روش پر چلنے والا ہوتا تو وہ بھی اسی راستے پر جاتا جس پر اس کے خاندان کے لوگ، اس کے ملک کے لوگ اور اس کے زمانے کے لوگ چلے جارہے تھے۔ کوئی ایسی روشنی بظاہر اس وقت دنیا میں کہیں موجود بھی نہ تھی جو کسی دوسرے راستے کی طرف رہنمائی کرنے والی ہو۔ اور اس کے ذاتی و خاندانی مفاد کا تقاضا بھی یہی تھا کہ وہ کسی اور راستے کا خیال بھی اپنے دل میں نہ لاتا، کیونکہ اس کے خاندان کی مذہبی دکان تو اسی ستارہ پرستی کے بل پر زور شور سے چل رہی تھی لیکن وہ ان انسانوں میں سے نہ تھا جو بے شعور خس و خاشاک کی طرح اسی رُخ پر اُڑنے لگتے ہیں جدھر کی ہوا ہو۔ وہ موروثی تعصب کی بنا پر باپ دادا اور قوم کے طریقے کو بے چون و چرا قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اس نے ہوش سنبھالتے ہی یہ تحقیق کرنا ضروری سمجھا کہ جن عقیدوں اور اُصولوں پر اس کے بزرگوں نے اور اس کی ساری قوم نے اپنی زندگی کی عمارت قائم کر رکھی ہے، وہ بجاے خود صحیح بھی ہیں یا نہیں۔ اس آزادانہ تحقیقات کے سلسلے میں اس نے سورج، چاند، زُہرہ اور ان سب معبودوں پر نگاہ ڈالی جن کی خدائی کے چرچے وہ بچپن سے سنتا آیا تھا۔ ایک ایک کو جانچ کر دیکھا کہ اس پر خدائی کا گمان کہاں تک سچا ہے، اور آخرکار یہ بے لاگ راے قائم کی کہ دراصل یہ سب بندے ہیں، خدائی صرف اس ایک ہستی کی ہے جس نے زمین و آسمان کو پیداکیا ہے۔
پھر جب یہ حقیقت اس پر منکشف ہوگئی تو اس نے اُن لوگوں کی سی روش اختیار نہیں کی جو ایک بات کو حق جاننے اور سمجھنے کے باوجود اسے قبول نہیں کرتے۔ اس نے حق کو حق جاننے کے بعد اسے ماننے میں ایک لمحے کی بھی دیر نہ کی۔ فوراً اقرار کیا کہ ’’میں جھک گیا اُس خدا کے آگے جو زمین اور آسمانوں کا خالق ہے‘‘۔ اور اس اقرار کے ساتھ اپنی برادری اور قوم کے سامنے یہ اعلان بھی کردیا کہ میرا راستہ تم سے الگ ہے، میں اس شرک اور بت پرستی میں تمھارے ساتھ نہیں ہوں___ یہ اُس شخص کی پہلی قربانی تھی۔ یہ پہلی چھری تھی جو اس نے باپ دادا کی اندھی تقلید پر، خاندانی اور قومی تعصبات پر، اور نفس کی ان تمام کمزوریوں پر پھیر دی جن کی وجہ سے آدمی اپنے ضمیر کی آواز کے خلاف ایک راستے پر صرف اس لیے چلتا رہتا ہے کہ برادری اور قوم اور دنیا اسی پر چلی جارہی ہے۔
اس اقرار و اعلان کے بعد یہ شخص خاموش نہیں بیٹھ گیا۔ اس پر یہ حقیقت کھل گئی تھی کہ کائنات کی اصل حقیقت توحید ہے اور شرک سراسر ایک بے بنیاد چیز ہے۔ اس حقیقت کو جان لینے کے بعد وہ خود ہی یہ بھی جان گیا تھا کہ وہ سب انسان جو توحید کے بجاے شرک کے عقیدوں اور مشرکانہ اُصولوں پر اپنے مذہب، اخلاق اور تمدن کی عمارت قائم کیے ہوئے ہیں، انھوں نے دراصل ایک ایسی شاخِ نازک پر آشیانہ بنا رکھا ہے جو سخت ناپایدار ہے۔ اس احساس نے اس کو بے چین کردیا۔ وہ پورے احساسِ فرض کے ساتھ کھڑا ہوگیا کہ اپنی قوم کو شرک سے روکے اور توحید کی طرف دعوت دے۔ اسے معلوم تھا کہ قومی مذہب کے خلاف اس طرح کی علانیہ تبلیغ کرکے وہ خود پروہت کی گدّی سے محروم ہوجائے گا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کا خاندان اگر قومی مذہب سے پھر گیا تو وہ ساری وجاہت ختم ہوجائے گی جو اسے ملک میں حاصل ہے۔ اس کو یہ بھی خبر تھی کہ اس تبلیغ کی وجہ سے ساری قوم کا غصہ اس پر بھڑک اُٹھے گا۔ وہ اس بات سے بھی بے خبر نہ تھا کہ یہ تبلیغ اسے حکومت کے عتاب میں مبتلا کر دے گی کیونکہ شاہی خاندان کے اقتدار کی بنیاد ہی وہاں یہ عقیدہ تھا کہ وہ دیوتائوں کی اولاد ہے اور اس بنا پر توحید لازماً حکومت کے بنیادی نظریے سے ٹکراتی تھی۔ یہ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ اپنا فرض ادا کرنے کے لیے اُٹھا، اپنے باپ کو، اپنے خاندان کو، اپنی قوم کو اور بادشاہ تک کو اس نے شرک سے باز آنے اور توحید کا عقیدہ قبول کرنے کی دعوت دی، اور جتنی زیادہ اس کی مخالفت کی گئی اتنی ہی زیادہ اس کی سرگرمی بڑھتی چلی گئی۔ آخرکار نوبت یہ آگئی کہ ایک طرف وہ تنِ تنہا انسان تھا اور دوسری طرف اس کے مقابلے میں بادشاہ، ملک، برادری، خاندان، حتیٰ کہ اس کا اپنا باپ تک صف آرا تھا۔ اب پورے ملک میں کوئی اس کا دوست نہ تھا۔ ہرطرف دشمن ہی دشمن تھے۔ ایک ہمدردی کی آواز بھی اس کے حق میں اٹھنے والی نہ تھی۔ اس پر بھی جب اس نے ہمت نہ ہاری اور توحید کی دعوت پیش کرنے سے اس کی زبان نہ تھکی تو فیصلہ کیا گیا کہ برسرِعام اسے زندہ جلا دیا جائے مگر اس ہولناک سزا کا خوف بھی اسے باطل کو باطل اور حق کو حق کہنے سے باز نہ رکھ سکا۔ اس نے آگ کے الائو میں پھینکا جانا گوارا کرلیا مگر یہ گوارا نہ کیا کہ جس حقیقت پر وہ ایمان لاچکا تھا، اس سے پھر جائے اور اسے حقیقت کہنا چھوڑ دے___ یہ اس کی دوسری عظیم الشان قربانی تھی۔
نہ معلوم کس طرح خدا نے اُسے آگ میں جلنے سے بچا لیا۔ اس خطرے سے بخیریت گزر جانے کے بعد اس کے لیے ملک میں ٹھیرنا غیرممکن تھا۔ آخرکار اس نے جلاوطنی کی زندگی اختیار کی۔ آس پاس کے سارے ملک جن میں وہ جا سکتا تھا اُس وقت بت پرست تھے۔ کہیں کوئی ایسی چھوٹی سے چھوٹی برادری یا سوسائٹی بھی موجود نہ تھی جو توحید کی قائل ہوتی، جس کے پاس وہ پناہ لے کر امن کی زندگی پاسکتا۔ اس حالت میں امن پانے کی صرف یہی ایک صورت تھی کہ وہ اپنے ملک سے نکل جانے کے بعد دعوتِ توحید سے زبان بند کرلیتا۔ انفرادی طور پر اگر ایک اجنبی آدمی کسی مذہب کا پیرو ہو تو دوسرے ملکوں کے لوگ اسے خواہ مخواہ چھیڑنے کی تکلیف کیوں کرنے لگے تھے، بلکہ انھیں یہ معلوم ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس کا مذہب کیا ہے، مگر یہ خدا کا بندہ دوسرے ملکوں میں بھی جاکر خاموش نہ رہا۔ جہاں بھی گیا اس نے خدا کے سب بندوں کو یہی دعوت دی کہ دوسروں کی بندگی چھوڑو اور صرف اُسی ایک خدا کے بندے بن کر رہو جو حقیقت میں تمھارا خدا ہے۔ اس تبلیغ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے ملک سے نکل کر بھی اسے کہیں چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہوا۔ کبھی شام میں ہے تو کبھی فلسطین میں، کبھی مصر میں ہے تو کبھی حجاز میں۔ غرض ساری عمر یوں ہی ملک ملک کی خاک چھانتے گزر گئی۔ اس کو آرام کے ٹھکانے کی طلب نہ تھی۔ اس کو گھر اور کھیت اور مویشی اور کاروبار کی طلب نہ تھی۔ اس کو دنیا کے عیش اور زندگی کے سروسامان کی طلب نہ تھی۔ اسے صرف اس چیز کی طلب تھی کہ جس حق پر وہ ایمان لایا ہے اس کا کلمہ بلند ہو، اور اس کے بنی نوع گمراہی کو چھوڑ کر اس سیدھی راہ پر چلنے لگیں جس میں ان کا اپنا بھلا ہے۔ یہی طلب اسے جگہ جگہ لیے پھرتی تھی اور اسی طلب کے پیچھے اس نے اپنے ہر مفاد کو تج دیا___ یہ اس کی تیسری قربانی تھی۔
اس خانہ بدوشی اور بے سروسامانی کے عالم میں پھرتے پھرتے جب عمر تمام ہونے کو آئی تو خدا نے اُسے ایک بیٹا دیا۔ اس بچے کو پالا پوسا یہاں تک کہ وہ اس عمر کو پہنچا جب اولاد والدین کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹانے اور زندگی کی دوڑ دھوپ میں ان کا ساتھ دینے کے قابل ہوتی ہے۔ بیٹا اور وہ بھی اکلوتا بیٹا، پھر عنفوانِ شباب کو پہنچا ہوا، اور باپ زندگی کے اُس مرحلے میں جب کہ آدمی جوان اولاد کے سہارے کا سب سے بڑا محتاج ہوتا ہے۔ ہرشخص اس صورت حال کا تصور کرکے اندازہ کرسکتا ہے کہ اس باپ کو وہ بیٹا کیسا کچھ عزیز ہوگا، مگر مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ اسے خدا اور اس کی مرضی سے بڑھ کر کوئی چیز بھی عزیز نہ ہو۔ اس لیے وہ ساری قربانیاں بھی کافی نہ سمجھی گئیں جو یہ بندہ اپنے خدا کے لیے ساری عمر کرتا رہا تھا۔ ان سب کے بعد اس کا آخری امتحان لینا ضروری سمجھا گیا اور وہ یہ تھا کہ یہ بندۂ مسلم اپنے اس عزیز ترین بیٹے کی محبت کو بھی خدا کی محبت پر قربان کرسکتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ یہ امتحان بھی لے ڈالا گیا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ بوڑھا انسان اپنے خدا کا صریح حکم نہیں، محض ایک اشارہ پاتے ہی اکلوتے نوجوان بیٹے کو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ یہ اور بات ہے کہ خدا نے عین ذبح کے وقت لڑکے کی جگہ مینڈھے کو قبول کرلیا، کیونکہ خدا کو لڑکے کا خون مطلوب نہ تھا، محض محبت کی آزمایش مقصود تھی، لیکن اس سچے مسلمان نے اپنی نیت کی حد تک تو اپنا لختِ جگر اپنے خدا کے اشارے پر قربان کر ہی دیا تھا___ یہ تھی وہ آخری اور سب سے بڑی قربانی جسے اس شخص نے اپنے اسلام اور ایمان، اور خدا کے ساتھ اپنی وفاداری کے ثبوت میں پیش کیا تھا۔ اسی کے صلے میں خدا نے اسے تمام دنیا کے انسانوں کا امام بنایا اور اپنی دوستی کے مرتبے پر سرفراز کیا۔
آپ سمجھے کہ یہ کس شخص کا ذکر ہے؟ یہ اُس ذاتِ گرامی کا ذکر ہے جسے آج ہم سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام سے جانتے ہیں، اور یہی وہ قربانی ہے جس کی یادگار آج دنیا بھر کے مسلمان جانوروں کی قربانی کر کے مناتے ہیں۔ اس یادگار کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان کے اندر قربانی کی وہی روح، اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اور خدا کے ساتھ محبت ووفاداری کی وہی شان پیدا ہو جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی پوری زندگی میں کیا ہے۔ اگر کوئی شخص محض ایک جانور کے گلے پر چھری پھیرتا ہے اور اس کا دل اس رُوح سے خالی رہتا ہے تو وہ ناحق ایک جان دار کا خون بہاتا ہے۔ خدا کو اس کے خون اور گوشت کی کوئی حاجت نہیں۔ وہاں تو جو چیز مطلوب ہے وہ دراصل یہ ہے کہ جو شخص کلمہ لا الٰہ الا اللہ پر ایمان لائے، وہ مکمل طور پر بندۂ حق بن کر رہے۔ کوئی تعصب، کوئی دل چسپی، کوئی ذاتی مفاد، کوئی دبائو اور لالچ، کوئی خوف اور نقصان، غرض کوئی اندر کی کمزوری اور باہر کی طاقت اس کو حق کے راستے سے نہ ہٹا سکے۔ وہ خدا کی بندگی کا اقرار کرنے کے بعد پھر کسی دوسری چیز کی بندگی قبول نہ کرے۔ اس کے لیے ہرتعلق کو قربان کر دینا آسان ہو، مگر اُس تعلق کو قربان کرنا کسی طرح ممکن نہ ہو جو اس نے اپنے خدا سے قائم کیا ہے۔ یہی قربانی اسلام کی اصل حقیقت ہے اور آج ہر زمانے سے بڑھ کر ہم اس کے محتاج ہیں کہ یہ حقیقت ہماری سیرتوں میں پیوست ہو۔ مسلمانوں نے جب کبھی دنیا میں چوٹ کھائی ہے اسلام کی اسی حقیقت سے خالی ہوکر کھائی ہے(اکتوبر ۱۹۴۷ء)۔ (نشری تقریریں، ص ۹۷-۱۰۴)
پاکستان میں نفاذِ شریعت کے امکانات کیا ہیں؟ ....[اس] سوال کے دو جواب ہیں:
ایک جواب یہ ہے کہ انسان پیہم اور مسلسل سعی کرے اور سوچ سمجھ کر سعی کرے، بیوقوفوں کی طرح نہیں، سوچ کر عقل مندی کے ساتھ، تو وہ بڑے سے بڑے پہاڑوں کے اندر سرنگ پیدا کرسکتا ہے۔ وہ سمندروں کے نیچے سے سرنگ نکال سکتا ہے، سمندروں کے اندر سے تیل نکال سکتا ہے، وہ چاند کے اُوپر پہنچ سکتا ہے۔ جب انسان یہ کچھ کرسکتا ہے تو انسان کو اللہ تعالیٰ نے ایسی عظیم طاقتیں دی ہیں کہ اگر وہ اللہ کا نظام نافذ کرنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہوا تو اس کو بھی نافذ کرسکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے جان لڑانی ہے، محنت کرنی ہے، عقل مندی کے ساتھ کام کرنا ہے اور مسلسل جان کھپانی ہے، اور اس کام کو وہ لوگ کرسکتے ہیں جو یہ شرط نہ لگائیں کہ ہم اس کو اپنے سامنے نافذ ہوتے دیکھیں، اس لیے کہ نہ معلوم کتنوں کو اس کے نفاذ کی کوشش میں پہلے ہی جان دینی پڑے۔ بدر میں جن لوگوں نے شہادت پائی، اگر وہ جان نہ دیتے اور یہ کہتے کہ ہمیں تو اس وقت کے لیے زندہ رہنا ہے جب اس نظام کو نافذ ہوتے دیکھیں گے، دنیا پر غالب ہوتے دیکھیں گے تو دنیا پر اسلام غالب نہیں ہوسکتا تھا۔ یہ غالب ہوا اس طرح کہ بکثرت لوگ اپنی جانیں قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔ انھوں نے اس بات کی فکر نہیں کی کہ یہ نافذ ہوسکے گا یا نہیں۔ انھوں نے یہ دیکھا کہ یہ ہمارا فرض ہے، ہمیں اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنی ہے، جس کے نتیجے میں شہادت آتی ہے تو اس سے بڑی کوئی کامیابی نہیں۔ اس نظریے کے ساتھ، اس سوچ کے ساتھ وہ آئے اور انھوں نے آکر کام کیا اور ان کی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ پہلے ہی قبول کرنے والا تھا، وہ قبول ہوگئیں، لیکن جو جان لڑانے والے تھے اور بچ رہے، اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ ایسا دین غالب کیا کہ دنیا کے بڑے حصے پر چھا گیا، تو امکان یہ بھی ہے۔
اس امر کا بھی امکان ہے کہ آپ تمام عمر جدوجہد کریں اور پھر یہ نظام نافذ نہ ہو، اور اس کی وجہ اس نظام کی کمزوری نہیں ہوگی، اگر آپ اس نظام کے لیے سعی کرنے کا حق ادا کریں تو آپ کی بھی کمزوری نہیں ہوگی، وہ [اُس] قوم کی بدبختی ہوگی جو ایسے لوگوں کا ساتھ نہ دے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو وہ چیز نہیں دیتا جس کا وہ اپنے آپ کو اہل ثابت نہیں کرتی۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ یہ قوم اپنے آپ کو فساق وفجار کے لیے تیار کرے اور اس پر راضی ہوجائے اور چاہے کہ فساق و فجار ہی ان کے اُوپر معاملات چلانے والے ہوں، تو اللہ تعالیٰ ان کو صالحین اور متقی نہیں دیں گے۔ یہ نہیں ہوتا۔ وہ لوگ جنھوں نے ایسی قوموں میں کام کیا اور اپنی عمریں ان کے اندر کھپا دیں اور ان کی قوم سیدھے راستے پر نہ آئی تو وہ ناکام نہیں تھے۔ وہ قوم ناکام تھی۔ حضرت لوط علیہ السلام کے قصے میں آتا ہے کہ جس وقت فرشتے قومِ لوط پر عذاب دینے کے لیے بھیجے گئے تو انھوں نے کہا: فَمَا وَجَدْنَا فِیْھَا غَیْرَ بَیْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِیْنَ___ پوری قوم میں ایک مسلم گھر تھا۔ اس کے لوگوں سے کہا، نکل جائو اور حضرت لوط علیہ السلام سے کہا کہ بیوی کو چھوڑ جائو۔ یہ عذاب میں پکڑی جائے گی، یعنی اس گھر میں بھی کافرہ موجود تھی اور وہ بھی پورے کا پورا مومن نہیں تھا۔ ان کو چھوڑ دیا گیا اور اس کے بعد جو عذاب لایا گیا وہ آپ جانتے ہیں کہ قرآن پاک میں واضح ہے، تو ایک قوم نہ چاہتی ہو کہ ان کے اُوپر اسلامی نظام نافذ ہو، ایک قوم اگر نہ چاہتی ہو کہ اس کے معاملات ایمان دار اور خدا ترس لوگ چلائیں، ایک قوم خود بددیانت اور بے ایمان کو چاہتی ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو زبردستی نیک لوگ نہیں دیتا۔ ان نیک لوگوں کا اجر اللہ کے پاس ہے۔ وہ ناکام نہیں ہیں۔ اگر ان کی بات نہ چلے تو وہ ناکام نہیں ہیں، ناکام وہ قوم ہے۔
اس پہلو کو نگاہ میں رکھ کر کام کیجیے، اور یہ سمجھ کر نہ کیجیے کہ اس کا امکان ہو تو ہم کام کریں۔ یہ سوال جو لوگ کرتے ہیں کہ کیا امکان ہے، تو ان سے میں پوچھتا ہوں کہ بھائی فرض کرو کہ اس کا امکان نہیں ہے تو کیا آپ یہ رائے رکھتے ہیں کہ جس چیز کا امکان ہے اس کے لیے کام کریں۔ یہ تو پھر مومن کا کام نہیں ہے۔
مومن کا کام تو یہ ہے کہ اگر اس کے نافذ ہونے کا ایک فی صد امکان نہ ہو بلکہ ایک فی ہزار بھی امکان نہ ہو تب بھی وہ اس کے لیے جان لڑائے۔ اس راستے میں کوشش کرتے ہوئے جان دے دینا کامیابی ہے اور کسی غلط راستے پر جاکر وزیراعظم یا صدراعظم بن جانا بھی کامیابی نہیں، کھلی ناکامی ہے۔
اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لیجیے کہ امکان کی شرط کے ساتھ آپ کو یہ کام نہیں کرنا بلکہ یہ سمجھتے ہوئے کرنا ہے کہ یہ ہمارے کرنے کا کام ہے اور اس کے سوا ہمارے کرنے کا کوئی کام نہیں۔ مثلاً اگر ایک آدمی کے سامنے یہ سوال آئے کہ پیشاب بھی پینے کی چیز ہے تو جو آدمی طہارت کی ذرہ برابر بھی حِس رکھتا ہو تو وہ سوچ ہی نہیں سکتا کہ یہ بھی کوئی پینے کے قابل چیز ہے۔ وہ برابر اسی تلاش میں رہے گا کہ اسے پینے کے لیے صاف پانی ملے لیکن کبھی اس کا ذہن اس طرف نہیں جائے گا کہ پیشاب بھی کوئی پینے کے قابل چیز ہے۔ اسی طرح وہ آدمی جو اسلام کا سچے دل سے قائل ہے وہ یہ سوچ نہیں سکتا کہ دوسرے جن راستوں میں آسانیاں ہیں، جن راستوں میں سہولتیں ہیں، عیش ہے،لذتیں ہیں، فائدے ہیں ان کی طرف جائے کہ ان کا امکان ہے اور اسلام کا کوئی امکان نہیں۔ اس کے سوچنے کے قابل بھی وہ چیز نہیں۔ وہ کبھی حسرت بھری نگاہ بھی نہیں ڈالے گا ان کے محلات پر، ان کی کوٹھیوں پر، ان چیزوں پر، وہ کبھی یہ نہیں سوچے گا کہ کاش! یہ دولت میرے پاس آئے۔ اس وجہ سے صرف وہ لوگ اس کام کو کرسکتے ہیں جو ’امکان ہے‘ کو چھوڑ کر یہ دیکھیں کہ ہمارا فرض کیا ہے۔ اور اس فرض کو ادا کرنے کے لیے ہرتکلیف، ہر مصیبت اور ہر مشکل برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہی ان کے کرنے کا کام ہے اور اگر اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگ پیدا کردیے اور انھوں نے پوری ہمت کے ساتھ اس کے لیے کام کیا تو میں یہ نہیں سمجھتا کہ کون سی طاقت یہاں ایسی ہے جو انھیں آگے بڑھنے سے روک سکے۔ اللہ نے چاہا تو اس میں کامیابی ہی ہوگی۔
میں نے دوسرا پہلو آپ کے سامنے پیش کیا وہ اس لیے کہ کامیابی کی شرط کے ساتھ آپ کام نہ کریں۔ میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ اگر اس ملک کے اندر ایک مٹھی بھر تعداد ایسے لوگوں کی موجود ہو جو پوری تنظیم کے ساتھ، پورے ڈسپلن کے ساتھ، عقل و ہوش کے ساتھ اور دیوانگی کے ساتھ، دونوں چیزیں ساتھ چاہییں، یہ کام کریں، اس میں جان لڑائیں اور مسلسل جان لڑاتے جائیں اور ہرتکلیف اور خطرے کو انگیز کرنے کے لیے تیار ہوں، تو وہ لوگ جو اس وقت ایک غیراسلامی نظام کو چلاتے ہیں وہ ایسی طاقت نہیں رکھتے کہ ان کے سامنے ٹھیرسکیں۔
واقعہ یہ ہے کہ آپ اس بات کو دیکھیے کہ جو لوگ اس نظام کو چلا رہے ہیں ان کی حالت کیا ہے۔ ان میں سے کوئی دو آدمی ایک دوسرے سے مخلص نہیں ہیں۔ ان کی دوستیاں بے غرضی پر مبنی نہیں، بے لوثی پر مبنی نہیں،قلبی محبت پر نہیں مفاد پر مبنی ہیں، جس کے ساتھ ہیں اس کا ساتھ بھی دے رہے ہیں اور دل میں گالیاں بھی دے رہے ہیں، بلکہ وہ اپنی پرائیویٹ مجلسوں میں جب دیکھتے ہیں کہ بات نہیں پہنچے گی تو وہ ان مجلسوں میں بھی کھلم کھلا کہتے ہیں۔ باطل نظام بظاہر بڑے زور کے ساتھ نافذ ہوتا ہے لیکن اصل میں کھوکھلا ہوتا ہے ٹھوس نہیں ہوتا۔ اس میں قائم رہنے کی طاقت نہیں ہوتی۔ جب تک اللہ تعالیٰ کی مشیت ہے کہ ایسے لوگوں کو موقع دیا جائے تو ایسے لوگوں کو موقع ملتا ہے۔ وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے عقل مندی کرکے وہ تمام راستے بند کردیے ہیں جن سے خطرہ آسکتا ہے، لیکن ایک راستہ اللہ تعالیٰ نے ایسا رکھ چھوڑا ہے جدھر سے اس کو خطرہ لانا ہوتا ہے، وہ اس راستے کو بند نہیں کرسکتے۔ اس طرح سے ایسے نظام قائم ہوتے ہیں، وہ بار بار جمتے اور اکھڑتے ہیں۔ اور لوگ اس انتظار میں ہیں کہ کوئی ایسا گروہ آئے جو ایک مضبوط بنیاد پر ان کے لیے ایک نظامِ حق قائم کرے۔ جب تک ایسا گروہ سامنے نہیں آئے گا اور اس مرحلے تک نہیں پہنچ جائے گا کہ وہ نظامِ حق کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرسکے، اس وقت تک یہاں کھوکھلے نظام قائم ہوتے اور بدلتے رہیں گے۔ آدمی بدلیں گے وہ کھوکھلا نظام جوں کا توں رہے گا۔ صرف اشخاص بدلتے چلے جائیں گے۔
آپ دیکھیے یہاں جو نظام [برسوں] سے چلا آرہا ہے اس میں صرف اشخاص بدلتے گئے، قسم ایک ہی رہی ہے، نظام کی نوعیت ایک ہی رہی ہے، اس کی فطرت ایک ہی رہی ہے۔ یہی صورت حال جاری رہے گی اس انتظار میں کہ کب وہ لوگ آتے ہیں۔ اگر وہ لوگ نہ آئے تو نہیں معلوم اس قوم کا کیا حشر ہوگا کہ یہ مسلسل انقلابات کو برداشت بھی کرسکے گی یا نہیں، اور یہ مسلسل انقلابات کے لیے زندہ بھی رہ سکے گی۔ یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس قوم کو کوئی بھی چیز بچاسکتی ہے تو یہی نظامِ حق ہے، وہ یہاں مضبوط بنیادوں پر قائم ہو۔ قبل اس کے کہ خدا کا عذاب فیصلہ کردے کہ اس قوم کو زندہ نہیں رہنا چاہیے۔ (جمعیت اتحاد العلما کے زیراہتمام راولپنڈی میں منعقدہ نفاذِ شریعت کانفرنس سے خطاب۔ ہفت روزہ ایشیا ،۱۴ مارچ ۱۹۷۶ء)