فی الواقع بکثرت لوگ اِس اُلجھن میں پڑ گئے ہیں، کہ آیا جمہوری طریقوں سے یہاں کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے یا نہیں، اور ایک اچھی خاصی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ ایسے حالات میں غیرجمہوری طریقے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ یہ بجاے خود ہمارے حکمرانوں کی بہت بڑی نادانی ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اِس طرح سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ لیکن ہم اس پوری صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے اور اُس کی پیداکردہ تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اس راے پر قائم ہیں کہ اسلامی نظام، جسے برپا کرنے کے لیے ہم اُٹھے ہیں، جمہوری طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت سے برپا نہیں ہو سکتا، اور اگر کسی دوسرے طریقے سے برپا کیا بھی جاسکے تو وہ دیرپا نہیں ہوسکتا۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے آپ جمہوری طریقوں کا مطلب واضح طور پر جان لیں۔ غیرجمہوری طریقوں کے مقابلے میں جب جمہوری طریقوں کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ نظامِ زندگی میں جو تبدیلی بھی لانا، اور ایک نظام کی جگہ جو نظام بھی قائم کرنا مطلوب ہو، اسے زور زبردستی سے لوگوں پر مسلط نہ کیا جائے، بلکہ عامۃ الناس کو سمجھا کر اور اچھی طرح مطمئن کر کے اُنھیں ہم خیال بنایا جائے اور اُن کی تائید سے اپنا مطلوبہ نظام قائم کیا جائے۔ اس کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ عوام کو اپنا ہم خیال بنا لینے کے بعد غلط نظام کو صحیح نظام سے بدلنے کے لیے ہر حال میں صرف انتخابات ہی پر اِنحصار کرلیا جائے۔ انتخابات اگر ملک میں آزادانہ و منصفانہ ہوں اور ان کے ذریعے سے عام لوگوں کی راے نظام کی تبدیلی کے لیے کافی ہو، تو اس سے بہتر کوئی بات نہیں۔ لیکن جہاں انتخابات کے راستے سے تبدیلی کا آنا غیرممکن بنا دیا گیا ہو، وہاں جبّاروں کو ہٹانے کے لیے راے عامہ کا دبائو دوسرے طریقوں سے ڈالا جاسکتا ہے، اور ایسی حالت میں وہ طریقے پوری طرح کارگر بھی ہوسکتے ہیں، جب کہ ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بھاری اکثریت اس بات پر تُل جائے کہ جبّاروں کا من مانا نظام ہرگز نہ چلنے دیا جائے گا اور اُس کی جگہ وہ نظام قائم کرکے چھوڑا جائے گا جس کے صحیح و برحق ہونے پر لوگ مطمئن ہوچکے ہیں۔ نظامِ مطلوب کی مقبولیت جب اِس مرحلے تک پہنچ جائے تو اس کے بعد غیر مقبول نظام کو عوامی دبائو سے بدلنا قطعاً غیر جمہوری نہیں ہے، بلکہ ایسی حالت میں اُس نظام کا قائم رہنا سراسر غیر جمہوری ہے۔
اس تشریح کے بعد یہ سمجھنا کچھ مشکل نہ رہے گا کہ ہم اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری طریقوں پر اس قدر زور کیوں دیتے ہیں۔ کوئی دوسرا نظام مثلاً کمیونزم لوگوں پر زبردستی ٹھونسا جاسکتا ہے، بلکہ اس کے قیام کا ذریعہ ہی جبر اور جبّاریت ہے، اور خود اس کے اَئمہ علانیہ یہ کہتے ہیں کہ انقلاب بندوق کی گولی ہی سے آتا ہے۔ اِستعماری نظام اور سرمایہ داری نظام اور فسطائی نظام بھی راے عام کی تائید کے محتاج نہیں ہیں، بلکہ راے عام کو طاقت سے کچل دینا اور اس کا گلا گھونٹ دینا ہی ان کے قیام کا ذریعہ ہے۔
لیکن اسلام اس قسم کا نظام نہیں ہے۔ وہ پہلے لوگوں کے دلوں میں ایمان پیدا کرنا ضروری سمجھتا ہے، کیونکہ ایمان کے بغیر لوگ خلوص کے ساتھ اُس کے بتائے ہوئے راستوں پر نہیں چل سکتے۔ پھر وہ اپنے اُصولوں کا فہم اور اُن کے برحق ہونے پر اطمینان بھی عوام کے اندر ضروری حد تک، اور خواص (خصوصاً کارفرمائوں) میں کافی حد تک پیدا کرنا لازم سمجھتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر اُس کے اصول و احکام کی صحیح تنفیذ ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ وہ عوام وخواص کی ذہنیت، اندازِفکر اور سیرت و کردار میں بھی اپنے مزاج کے مطابق تبدیلی لانے کا تقاضا کرتا ہے، کیونکہ یہ نہ ہو تو اس کے پاکیزہ اور بلندپایہ اصول و احکام اپنی صحیح روح کے ساتھ نافذنہیں ہوسکتے۔ یہ جتنی چیزیں میں نے بیان کی ہیں، اسلامی نظام کو برپا کرنے کے لیے سب کی سب ضروری ہیں، اور اِن میں سے کوئی چیز بھی جبراً لوگوں کے دل و دماغ میں نہیں ٹھونسی جاسکتی، بلکہ اِن میں سے ہر ایک کے لیے ناگزیر ہے کہ تبلیغ، تلقین اور تفہیم کے ذرائع اختیار کر کے لوگوں کے عقائد و افکار بدلے جائیں، ان کے سوچنے کے انداز بدلے جائیں، ان کی اَقدار (values) بدلی جائیں، ان کے اخلاق بدلے جائیں، اور ان کو اس حد تک اُبھار دیا جائے کہ وہ اپنے اُوپر جاہلیت کے کسی نظام کا تسلط برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جس کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ جمہوری طریقوں کے سوا اُس کے حصول کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے اور آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اسلامی نظام کو عملاً برپا کردینے کے لیے کوئی اقدام اُس وقت تک نہیں کیا جاسکتا جب تک اس مقصد کے لیے کام کرنے والوں کو اِس نوعیت کی عوامی تائید حاصل نہ ہوجائے۔
شاید آپ میری یہ باتیں سن کر سوچنے لگیں گے کہ اس لحاظ سے تو گویا ابھی ہم اپنی منزل کے قریب ہونا درکنار، اس کی راہ کے صرف ابتدائی مرحلوں میں ہیں، لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ اَفراط و تفریط سے بچتے ہوئے اپنے آج تک کے کام کا حقیقت پسندانہ جائزہ لیں۔ جمہوری طریقوں سے کام کرتے ہوئے آپ پچھلے [برسوں] میں تعلیم یافتہ طبقے کی بڑی اکثریت کو اپنا ہم خیال بنا چکے ہیں، اور یہ لوگ ہر شعبۂ زندگی میں موجود ہیں۔ نئی نسل، جو اَب تعلیم پاکر اُٹھ رہی ہے، اور جسے آگے چل کر ہر شعبۂ زندگی کو چلانا ہے، وہ بھی جاہلیت کے علَم برداروں کی ساری کوششوں کے باوجود زیادہ تر آپ کی ہم خیال ہے۔
اب آپ کے سامنے ایک کام تو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقے میں اپنے ہم خیالوںکی تعداد اِسی طرح بڑھاتے چلے جائیں، اور دوسراکام یہ ہے کہ عوام کے اندر بھی نفوذ کر کے ان کو اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تیار کرنے کی کوشش کریں۔ پہلے کام کے لیے لٹریچر کا پھیلانا آج تک جتنا مفید ثابت ہوا ہے اس سے بدرجہا زیادہ آیندہ مفید ثابت ہوسکتا ہے، اگر آپ اپنے ہم خیال اہلِ علم کے حلقے منظم کرکے مختلف علوم کے ماہرین سے مسائلِ حیات پر تازہ ترین اور محققانہ لٹریچر تیار کرانے کا انتظام کریں۔ اور دوسرے کام کے لیے تبلیغ و تلقین کے دائرے وسیع کرنے کے ساتھ اصلاحِ خلق اور خدمتِ خلق کی ہرممکن کوشش کیجیے۔ آپ صبر کے ساتھ لگاتار اس راہ میں جتنی محنت کرتے چلے جائیں گے اتنی ہی آپ کی منزل قریب آتی چلی جائے گی۔
رہا یہ سوال کہ جب تمام جمہوری اداروں کی مٹی پلید کر دی گئی ہے، شہری آزادیاں سلب کرلی گئی ہیں اور بنیادی حقوق کچل کر رکھ دیے گئے ہیں، تو جمہوری طریقوں سے کام کیسے کیا جاسکتاہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کا کام کرنے کے لیے کھلی ہموار شاہراہ تو کبھی نہیں ملی ہے۔ یہ کام تو جب بھی ہوا جبروظلم کے مقابلے میں ہر طرح کی کڑیاں [سختیاں] جھیل کر ہی ہوا، اور وہ لوگ کبھی یہ کام نہ کرسکے جو یہ سوچتے رہے کہ جاہلیت کے علَم برداروں کی اجازت، یا ان کی عطا کردہ سہولت ملے تو وہ راہِ خدا میں پیش قدمی کریں۔ آپ جن برگزیدہ ہستیوں کے نقشِ پا کی پیروی کر رہے ہیں، اُنھوں نے اُس ماحول میں یہ کام کیا تھا جہاں جنگل کا قانون نافذ تھا اور کسی شہری آزادی یا بنیادی حق کا تصور تک موجود نہ تھا۔ اس وقت ایک طرف دل موہ لینے والے پاکیزہ اخلاق، دماغوں کو مسخر کرلینے والے معقول دلائل، اور انسانی فطرت کو اپیل کرنے والے اصول اپنا کام کر رہے تھے اور دوسری طرف جاہلیت کے پاس اُن کے جواب میں پتھر تھے، گالیاں تھیں، جھوٹے بہتان تھے اور کلمۂ حق کہتے ہی انسانوں کی شکل میں درندے خدا کے بندے پر ٹوٹ پڑتے تھے۔ یہی چیز درحقیقت اسلام کی فتح اور جاہلیت کی شکست کا ذریعہ بنی۔
ظلم و جور کا ماحول جہاں بھی ہو اس کے مقابلے میں حق پرستی کا علَم بلند کرنے اور بلند رکھنے سے یہ تینوں نتائج لازماً رونما ہوں گے۔ اس لیے یہ تو حق کی کامیابی کا فطری راستہ ہے، آپ اسلامی نظام برپا کرنے کے لیے جمہوری اداروں کی مٹی پلید ہونے اور شہری آزادیاں سلب ہوجانے اور بنیادی حقوق کچل دیے جانے کا رونا خواہ مخواہ روتے ہیں۔ (تصریحات، ص ۳۲۰-۳۲۴)
اس لائحہ عمل [تطہیر افکار و تعمیر افکار‘ صالح افراد کی تلاش‘ تنظیم اور تربیت‘ اجتماعی اصلاح کی سعی‘ اور نظامِ حکومت کی اصلاح] کو اگر آپ اس نصب العین [اقامت دین‘ حکومتِ الٰہیہ یا اسلامی نظامِ زندگی کا قیام] کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو آپ بیک نظر محسوس کرلیں گے کہ یہ لائحہ عمل اس نصب العین کا فطری تقاضا ہے اور اس کا ایک ایک جز اس کے ایک ایک گوشے پر ٹھیک ٹھیک منطبق ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس جماعت کا وہ نصب العین ہو‘ اس کا یہی لائحہ عمل ہونا چاہیے اور یہی ہوسکتا ہے۔ اس کے سوا اس کا کوئی اور لائحہ عمل ہو ہی نہیں سکتا۔
اس کے چاروں اجزا آپس میں ایسا منطقی ربط رکھتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا تقاضا کرتا ہے‘ ہر ایک دوسرے سے تقویت پاتا ہے‘ اور جس کو بھی ساقط کردیا جائے‘ اس کے سقوط سے ساری اسکیم خراب ہوجاتی ہے۔ جماعت کے نصب العین کا حصول اگر ممکن ہے تو ان چاروں اجزا پر بیک وقت متوازی کام اورمتوازن طریقے پر کام کرنے ہی سے ممکن ہے۔ آپ اس کے جس جز کو بھی الگ کردیںگے‘ باقی اجزا کا کام نہ صرف کمزور اور بے اثر ہوجائے گا‘ بلکہ اپنے نصب العین کے لیے آپ کی جدوجہد ہی لاحاصل ہوکر رہ جائے گی۔
اب خود سوچیے کہ یہ سارے کام کرنے کا فائدہ کیا ہے اگر آپ ان کاموں سے حاصل ہونے والے نتائج کو اصل مقصد کی طرف پیش قدمی کرنے کے لیے ساتھ ساتھ استعمال نہ کرتے چلے جائیں۔ آپ کا اصل مقصد آخرکار جس کام کے ذریعے سے حاصل ہونا ہے‘ وہ یہی چوتھا کام ہی تو ہے۔ یہ آپ کے پروگرام میں شامل نہ ہو تو پہلے تین کام ایک سعی بے حاصل کے سوا کچھ نہ ہوں گے‘ اور انھیں کر کے آپ زیادہ سے زیادہ بس مبلغوں کی ایک جماعت بن کر رہ جائیں گے جن کی پہلے بھی اس ملک میں کوئی کمی نہ تھی۔ اس طرح کی تبلیغ و تلقین اور اصلاح اخلاق کی کوششوں سے جاہلیت کا سیلاب نہ پہلے رُکا تھا‘ نہ اب رُک سکتا ہے۔
اس تجزیہ وتشریح سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جس نتیجۂ مطلوب کے لیے جماعت اسلامی کی یہ ساری اسکیم بنائی گئی تھی‘ وہ لائحہ عمل کے ان چاروں اجزا پر بیک وقت کام کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر وہ نتیجہ فی الواقع آپ کو مطلوب ہے تو پھر اس پورے مرکب ہی پر آپ کو ایک ساتھ کام کرنا ہوگا۔ اس کے اجزا کا باہمی ربط توڑ کر‘ یا اس میں کمی و بیشی کر کے‘ یا ان میں سے بعض کو مقدم اور بعض کو مؤخر کرکے آپ اپنی تحریک کی ناکامی کے سوا اور کچھ حاصل نہ کریں گے۔ (تحریک اسلامی کا آیندہ لائحہ عمل‘ ص ۴۴-۴۶)
سنت کے متعلق لوگ عموماً یہ سمجھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ اپنی زندگی میں کیا ہے وہ سب سنت ہے۔ لیکن یہ بات بڑی حد تک درست ہونے کے باوجود ایک حد تک غلط بھی ہے۔ دراصل سنت اس طریق عمل کو کہتے ہیں جس کے سکھانے اور جاری کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو مبعوث کیا تھا۔ اس سے شخصی زندگی کے وہ طریقے خارج ہیں جو نبیؐ نے بہ حیثیت ایک انسان ہونے کے یا بہ حیثیت ایک ایسا شخص ہونے کے جو انسانی تاریخ کے خاص دور میں پیدا ہوا تھا‘ اختیار کیے۔ یہ دونوں چیزیں کبھی ایک ہی عمل میں مخلوط ہوتی ہیں اور ایسی صورت میں یہ فرق و امتیاز کرنا کہ اس عمل کا کون سا جز‘ سنت ہے اور کون سا جز عادت‘ بغیر اس کے ممکن نہیں ہوتا کہ آدمی اچھی طرح دین کے مزاج کو سمجھ چکا ہو۔
اصولی طور پر یوں سمجھیے کہ انبیا علیہم السلام انسان کو اخلاقِ صالحہ کی تعلیم دینے اور زندگی کے ایسے طریقے سکھانے کے لیے آتے رہے ہیںجو فِطْرَۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا [الروم ۳۰:۳۰] کے ٹھیک ٹھیک منشا کے مطابق ہوں۔ ان اخلاقِ صالحہ اور فطری طریقوں میں ایک چیز تو اصل و روح کی حیثیت رکھتی ہے اور دوسری چیز قالب و مظہر کی حیثیت۔بعض امور میں روح اور قالب دونوں اسی شکل میں مطلوب ہوتے ہیں جس شکل میں نبی اپنے قول و عمل سے ان کو واضح کرتا ہے اور بعض امور میں روح اخلاق و فطرت کے لیے نبی اپنے مخصوص تمدنی حالات اور اپنی مخصوص افتاد مزاج کے لحاظ سے ایک خاص عملی قالب اختیار کرتا ہے اور شریعت کا مطالبہ ہم سے صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم اس روحِ اخلاق و فطرت کو اختیار کرلیں‘ رہا وہ عملی قالب جو پیغمبر نے اختیار کیا تھا تو اسے اختیار کرنے یا نہ کرنے کی شرعاً ہم کو آزادی ہوتی ہے۔ پہلی قسم کے معاملات میں سنت روح اور قالب دونوں کے مجموعے کا نام ہے‘ اور دوسری قسم کے معاملات میں سنت صرف وہ روحِ اخلاق و فطرت ہے جو شریعت میں مطلوب ہے نہ کہ وہ عملی قالب جو صاحبِ شریعت نے اس کے اظہار کے لیے اختیار کیا۔
مثال کے طور پر دین کا منشا یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کا ذکر کریں۔ اس کے لیے نبی نے بعض اعمال تو ایسے اختیار کیے جن کی روح اور عملی قالب دونوں سنت ہیں اور دونوں کی پیروی ہم پر لازم ہے‘ مثلاً نماز‘ روزہ‘ حج‘زکوٰۃ وغیرہ اور بعض طریقے آپ نے ایسے اختیار کیے جن کی روح تو ہمارے اعمال میں ضرور پائی جانی چاہیے لیکن قالب کی ہوبہو پیروی کرنا لازم نہیں ہے‘ بلکہ ہم کو آزادی دی گئی ہے کہ ہم اس روح کے ظہور کے لیے جو عملی قالب مناسب سمجھیں اختیار کریں‘ مثلاً دعائیں اور وہ عام اذکار جو حضوؐر وقتاً فوقتاً کرتے تھے۔ ہم پر یہ لازم نہیں ہے کہ ہم بعینہٖ انھی الفاظ میں دعائیں مانگیں جن الفاظ میں حضوؐر مانگتے تھے‘ البتہ سنت کی پیروی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان دعائوں کے طرز اور ان کی معنوی خصوصیات کو ملحوظ رکھیں اور جن الفاظ میں بھی دعائیں مانگیں‘ ان کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائوں کی روح موجود ہو۔
اسی طرح اذکار میں سنت صرف یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے مختلف حالات واعمال میں خدا کو یاد کرتارہے‘ اس سے استعاذہ کرے‘ اس سے مدد مانگے‘ اس کا شکر ادا کرے اور اس سے طلبِ خیر کرے۔ اس سنت کو حضوؐر نے اپنی عملی زندگی میں اُن مختلف اذکار کے ذریعے سے ظاہر اور جاری کیا جو حدیث میں مذکور ہیں۔ اگرکوئی شخص ان اذکار کو لفظ بلفظ یاد کر کے اسی طرح ان کا التزام کرے جس طرح حدیث میں بیان ہوا ہے تو یہ مستحسن یا مستحب تو ہوسکتا ہے لیکن اسے اتباع سنت کا لازمی تقاضا نہیں کہا جاسکتا۔ اگر کوئی شخص اس سنت کواچھی طرح ذہن نشین کرکے کسی دوسرے طریقے سے اس پر عمل درآمد کرے اور اس کے لیے دوسرے الفاظ اختیار کرلے تب بھی وہ بدستور متبع سنت رہے گا اور اس پر خلاف ورزیِ سنت کا الزام عائد نہ ہوگا۔
یہی فرق تمدنی اور معاشرتی حالات میں بھی ہے‘ مثلاً لباس میں جن اخلاقی و فطری حدود کو قائم کرنا نبیؐ کے مقاصدبعثت میں تھا وہ یہ ہیں کہ لباس ساتر ہو‘ اس میں اسراف نہ ہو‘ اس میں تکبر کی شان نہ ہو‘ اس میں تشّبہ بالکفار نہ ہو‘ وغیرہ۔ اس روحِ اخلاق و فطرت کا مظاہرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس لباس میں کیااُس میں بعض چیزیں توایسی ہیں جن کی پیروی جوں کی توں کرنی چاہیے‘ جیسے ستر کے حدود اور اسبالِ ازار سے اجتناب اور ریشم وغیرہ کے استعمال سے پرہیز‘ اور بعض چیزیں ایسی ہیں جو حضوؐر کے اپنے شخصی مزاج اور قومی طرزِ معاشرت اور آپ کے عہد کے تمدن سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کو سنت بنانا نہ تو مقصود تھا‘ نہ ان کی پیروی پر اس دلیل سے اصرار کیا جاسکتاہے کہ حدیث کی رُو سے اس طرزِ خاص کا لباس نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہنتے تھے‘ اور نہ شرائع الٰہیہ اس غرض کے لیے آیا کرتی ہیں کہ کسی شخصِ خاص کے ذاتی مذاق یا کسی قوم کے مخصوص تمدن‘ یا کسی خاص زمانے کے رسم و رواج کو دنیا بھر کے لیے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سنت بنا دیں۔
سنت کی اس تشریح کو اگر ملحوظ رکھا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ جو چیزیں اصطلاحِ شرعی میں سنت نہیں ہیں ان کو خواہ مخواہ سنت قرار دے دینا مِن جملہ ان بدعات کے ہے جن سے نظامِ دینی میں تحریف واقع ہوتی ہے۔ (رسائل و مسائل‘ حصہ اوّل‘ ص ۱۹۶-۱۹۷)
اسلام کی دعوت جب عرب میں پیش کی گئی تھی‘ اس وقت اس کی مخاطب آبادی تقریباً ۱۰۰فی صد اَن پڑھ تھی۔ قریش جیسے ترقی یافتہ قبیلے کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں صرف ۱۷ افراد پڑھے لکھے تھے۔ مدینے میں اس سے بھی کم لوگ تعلیم یافتہ تھے اور باقی عرب کی حالت کا اندازہ آپ ان دو بڑے شہروں کی حالت سے کرسکتے ہیں۔ قرآن مجید اس ملک میں لکھ کر نہیں پھیلایا گیا تھا بلکہ وہ لوگوں کو زبانی سنایا جاتا تھا۔ صحابہ کرامؓ اس کو سن کر ہی یاد کرتے تھے اور پھر زبانی ہی اسے دوسروں کو سناتے تھے۔ اسی ذریعے سے پورا عرب اسلام سے روشناس ہوا۔ پس درحقیقت لوگوں کا اَن پڑھ ہونا کوئی ایسی دشواری نہیں ہے جس کی وجہ سے اسلام کی تبلیغ نہ ہوسکتی ہو۔
آغازِ اسلام میں اس دین کی تبلیغ اَن پڑھ لوگوں ہی میں کی گئی تھی اور یہ محض تبلیغ و تلقین ہی تھی جس سے ان کو اس قدر بدل دیا گیا۔ ایسا زبردست انقلاب ان کے اندر برپا کردیا گیا کہ وہ دنیا کے مصلح بن کر کھڑے ہوگئے۔ اب آپ کیوں یہ سمجھنے لگے ہیں کہ ۸۰ فی صد اَن پڑھ آبادی میں اسلام کی دعوت نہیں پھیلائی جاسکتی؟ آپ کے اندر ۲۰فی صد تو پڑھے لکھے لوگ موجود ہیں۔ وہ پڑھ کر اسلام کو سمجھیں ‘ اور پھر باقی ۸۰ فی صد لوگوں کو زبانی تبلیغ و تلقین سے دین سمجھائیں۔ پہلے کی بہ نسبت اب یہ کام زیادہ آسان ہوگیا ہے۔ البتہ فرق جو کچھ ہے وہ صرف یہ ہے کہ اس وقت جو شخص بھی اسلام کی تعلیمات کو سن کر ایمان لاتا تھا وہ ایمان لاکر بیٹھ نہیں جاتا تھا بلکہ آگے دوسرے بندگانِ خدا تک ان تعلیمات کو پہنچانا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ اس کی تمام حیثیتوں پر مبلغ ہونے کی حیثیت غالب آجاتی تھی۔ وہ ہمہ تن ایک تبلیغ بن جاتا تھا۔ جہاں جس حالت میں بھی اسے دوسرے لوگوں سے سابقہ پیش آتا تھا‘ وہ ان کے سامنے اللہ اور اس کے رسولؐ کی ہدایات بیان کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا۔ وہ ہر وقت اس تلاش میں لگا رہتا تھا کہ کس طرح اللہ کے بندوں کو جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم کی روشنی میں لائے۔ جتنا قرآن بھی اسے یاد ہوتا وہ اسے لوگوں کو سناتا‘ اور اسلام کی تعلیمات جتنی کچھ بھی اسے معلوم ہوتیں ان سے وہ لوگوں کو آگاہ کرتا تھا۔ وہ انھیں بتاتا تھا کہ صحیح عقائد کیا ہیں جو اسلام سکھاتا ہے اور باطل عقیدے اور خیالات کون سے ہیں جن کی اسلام تردید کرتا ہے۔ اچھے اعمال اور اخلاق کیا ہیں جن کی اسلام دعوت دیتا ہے‘ اور برائیاں کیا ہیں جن کو وہ مٹانا چاہتا ہے۔ یہ سب باتیں جس طرح پہلے سنائی اور سمجھائی جاتی تھیں اسی طرح آج بھی سنائی اور سمجھائی جاسکتی ہیں۔ ان کے لیے نہ سنانے والے کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے نہ سننے والے کا۔ یہ ہروقت بیان کی جاسکتی ہیں اور ہرشخص کی سمجھ میں آسکتی ہیں۔
اسلام نے کوئی ایسی نرالی چیز پیش ہی نہیں کی ہے جس سے انسانی طبائع مانوس نہ ہوں اور جن کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے بڑے فلسفے بگھارنے کی ضرورت ہو۔ یہ تو دین فطرت ہے۔ انسان اس سے بالطبع مانوس ہے۔ اسے پڑھے لکھے لوگوں کی بہ نسبت اَن پڑھ لوگ زیادہ آسانی سے قبول کرسکتے ہیں‘ کیونکہ وہ فطرت سے قریب تر ہوتے ہیں‘ اور ان کے دماغ میں وہ پیچ نہیں ہوتے جو جاہلیت کی تعلیم نے ہمارے پڑھے لکھے لوگوں کے دماغوں میں ڈال دیے ہیں۔
لہٰذا آپ اَن پڑھ آبادی کی کثرت سے ہرگز نہ گھبرائیں۔ ان کی ناخواندگی اصل رکاوٹ نہیں ہے‘ بلکہ آپ کے اندر جذبہ تبلیغ کی کمی اصل رکاوٹ ہے۔ ابتداے اسلام کے مسلمانوں کی طرح ہمہ تن مبلغ بن جایئے اور تبلیغ کی وہ لگن اپنے اندر پیدا کرلیجیے جو ان کے اندر تھی۔ اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ اسلام کی دعوت پھیلانے کے بے شمار مواقع آپ کے منتظر ہیں جن سے آپ نے آج تک اس لیے فائدہ نہیں اٹھایا کہ آپ اپنے ملک کی آبادی میں ۱۰۰ فی صد خواندگی پھیل جانے کے منتظر رہے۔ (ترجمان القرآن‘ جلد ۸۳‘ عدد ۳‘ مئی ۱۹۷۵ء‘ ص۱۳۶-۱۳۷)
آج سے ۴ ہزار برس پہلے کی بات ہے کہ عراق کی سرزمین میں ایک شخص پیدا ہوا تھا جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انسانی تاریخ پر اپنا ایک مستقل نشان چھوڑ گیا ہے۔ جس زمانے میں اس نے آنکھیں کھولیں اس وقت تمام دنیا شرک اور بت پرستی میں مبتلا تھی۔ جس قوم میں وہ پیدا ہوا وہ ایک ستارہ پرست قوم تھی۔ چاند‘ سورج اور دوسرے سیارے اس کے خدا تھے‘ اور شاہی خاندان انھی خدائوں کی اولاد ہونے کی حیثیت سے اہلِ ملک کا رب مانا جاتا تھا۔ جس خاندان میں وہ پیدا ہوا وہ پروہتوں کا خاندان تھا اور اپنی قوم کو ستارہ پرستی کے جال میں پھانسے رکھنے کا اصل ذمّہ دار وہی تھا۔ ایسے زمانے ‘ ایسی قوم‘ اور ایسے خاندان میں یہ شخص پیدا قہوا۔ دنیا کی عام روش پر چلنے والا ہوتا تو وہ بھی اسی راستے پر جاتا جس پر اس کے خاندان کے لوگ‘ اس کے ملک کے لوگ اور اس کے زمانے کے لوگ چلے جارہے تھے۔ کوئی ایسی روشنی بظاہر اس وقت دنیا میں کہیں موجود بھی نہ تھی جو کسی دوسرے راستے کی طرف رہنمائی کرنے والی ہو۔ اور اس کے ذاتی و خاندانی مفاد کا تقاضا بھی یہی تھا کہ وہ کسی اور راستے کا خیال بھی اپنے دل میں نہ لاتا‘ کیونکہ اس کے خاندان کی مذہبی دکان تو اسی ستارہ پرستی کے بل پر زور شور سے چل رہی تھی لیکن وہ ان انسانوں میں سے نہ تھا جو بے شعور خس و خاشاک کی طرح اسی رُخ پر اُڑنے لگتے ہیں جدھر کی ہوا ہو۔
وہ موروثی تعصب کی بنا پر باپ دادا اور قوم کے طریقے کو بے چون و چرا قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اس نے ہوش سنبھالتے ہی یہ تحقیق کرنا ضروری سمجھا کہ جن عقیدوں اور اُصولوں پر اس کے بزرگوں نے اور اس کی ساری قوم نے اپنی زندگی کی عمارت قائم کر رکھی ہے‘ وہ بجاے خود صحیح بھی ہیں یا نہیں۔ اس آزادانہ تحقیقات کے سلسلے میں اس نے سورج‘ چاند‘ زُہرہ اور ان سب معبودوں پر نگاہ ڈالی جن کی خدائی کے چرچے وہ بچپن سے سنتا آیا تھا۔ ایک ایک کو جانچ کر دیکھا کہ اس پر خدائی کا گمان کہاں تک سچا ہے۔ اور آخرکار یہ بے لاگ رائے قائم کی کہ دراصل یہ سب بندے ہیں‘ خدائی صرف اس ایک ہستی کی ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے۔
پھر جب یہ حقیقت اس پر منکشف ہوگئی تو اس نے اُن لوگوں کی سی روش اختیار نہیں کی جو ایک بات کو حق جاننے اور سمجھنے کے باوجود اسے قبول نہیں کرتے۔ اس نے حق کو حق جاننے کے بعد اسے ماننے میں ایک لمحے کی بھی دیر نہ کی۔ فوراً اقرار کیا کہ ’’مَیں جھک گیا اُس خدا کے آگے جو زمین اور آسمانوں کا خالق ہے‘‘۔ اور اس اقرار کے ساتھ اپنی برادری اور قوم کے سامنے یہ اعلان بھی کردیا کہ میرا راستہ تم سے الگ ہے‘ میں اس شرک اور بت پرستی میں تمھارے ساتھ نہیں ہوں۔
یہ اُس شخص کی پہلی قربانی تھی۔ یہ پہلی چھری تھی جواس نے باپ دادا کی اندھی تقلید پر‘ خاندانی اور قومی تعصبات پر‘ اور نفس کی ان تمام کمزوریوں پر پھیر دی جن کی وجہ سے آدمی اپنے ضمیر کی آواز کے خلاف ایک راستے پر صرف اس لیے چلتا رہتا ہے کہ برادری اور قوم اور دنیا اسی پرچلی جارہی ہے۔
اس اقرار و اعلان کے بعد یہ شخص خاموش نہیں بیٹھ گیا۔ اس پر یہ حقیقت کھل گئی تھی کہ کائنات کی اصل حقیقت توحید ہے اور شرک سراسر ایک بے بنیاد چیز ہے۔ اس حقیقت کو جان لینے کے بعد وہ خود ہی یہ بھی جان گیا تھا کہ وہ سب انسان جو توحید کے بجاے شرک کے عقیدوں اور مشرکانہ اُصولوں پر اپنے مذہب‘ اخلاق اور تمدن کی عمارت قائم کیے ہوئے ہیں‘ انھوں نے دراصل ایک ایسی شاخِ نازک پر آشیانہ بنا رکھاہے جو سخت ناپایدار ہے۔ اس احساس نے اس کو بے چین کردیا۔
وہ پورے احساسِ فرض کے ساتھ کھڑا ہوگیا کہ اپنی قوم کو شرک سے روکے اور توحید کی طرف دعوت دے۔ اسے معلوم تھا کہ قومی مذہب کے خلاف اس طرح کی علانیہ تبلیغ کرکے وہ خود پروہت کی گدی سے محروم ہوجائے گا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کا خاندان اگر قومی مذہب سے پھرگیا تو وہ ساری وجاہت ختم ہوجائے گی جو اسے ملک میں حاصل ہے۔ اس کو یہ بھی خبر تھی کہ اس تبلیغ کی وجہ سے ساری قوم کا غصہ اس پر بھڑک اُٹھے گا۔ وہ اس بات سے بھی بے خبر نہ تھا کہ یہ تبلیغ اسے حکومت کے عتاب میں مبتلا کردے گی کیونکہ شاہی خاندان کے اقتدار کی بنیاد ہی وہاں یہ عقیدہ تھا کہ وہ دیوتائوں کی اولاد ہے اور اس بنا پر توحید لازماً حکومت کے بنیادی نظریے سے ٹکراتی تھی۔
یہ سب کچھ جاننے کے باوجود وہ اپنا فرض ادا کرنے کے لیے اُٹھا۔ اپنے باپ کو‘ اپنے خاندان کو‘اپنی قوم کو اور بادشاہ تک کو اس نے شرک سے باز آنے اور توحید کا عقیدہ قبول کرنے کی دعوت دی‘ اور جتنی زیادہ اس کی مخالفت کی گئی اتنی ہی زیادہ اس کی سرگرمی بڑھتی چلی گئی۔ آخرکار نوبت یہ آگئی کہ ایک طرف وہ تنِ تنہا انسان تھا اور دوسری طرف اس کے مقابلے میں بادشاہ‘ ملک‘ برادری‘ خاندان‘ حتیٰ کہ اس کا اپنا باپ تک صف آرا تھا۔ اب پورے ملک میں کوئی اس کا دوست نہ تھا۔ ہر طرف دشمن ہی دشمن تھے۔ ایک ہمدردی کی آواز بھی اس کے حق میں اٹھنے والی نہ تھی۔ اس پر بھی جب اس نے ہمت نہ ہاری اور توحید کی دعوت پیش کرنے سے اس کی زبان نہ تھکی تو فیصلہ کیا گیا کہ برسرِعام اسے زندہ جلا دیا جائے مگر اس ہولناک سزا کا خوف بھی اسے باطل کو باطل اور حق کو حق کہنے سے باز نہ رکھ سکا۔ اس نے آگ کے الائو میں پھینکا جانا گوارا کرلیا مگر یہ گوارا نہ کیا کہ جس حقیقت پر وہ ایمان لاچکا تھا اس سے پھر جائے اور اسے حقیقت کہنا چھوڑ دے___ یہ اس کی دوسری عظیم الشان قربانی تھی۔
نہ معلوم کس طرح خدا نے اُسے آگ میں جلنے سے بچا لیا۔ اس خطرے سے بخیریت گزر جانے کے بعد اس کے لیے ملک میں ٹھیرنا غیرممکن تھا۔ آخرکار اس نے جلاوطنی کی زندگی اختیار کی۔ آس پاس کے سارے ملک جن میں وہ جا سکتا تھا اُس وقت بت پرست تھے۔ کہیں کوئی ایسی چھوٹی سے چھوٹی برادری یا سوسائٹی بھی موجود نہ تھی جو توحید کی قائل ہوتی‘ جس کے پاس وہ پناہ لے کر امن کی زندگی پاسکتا۔ اس حالت میں امن پانے کی صرف یہی ایک صورت تھی کہ وہ اپنے ملک سے نکل جانے کے بعد دعوتِ توحید سے زبان بند کرلیتا۔ انفرادی طور پر اگر ایک اجنبی آدمی کسی مذہب کا پیرو ہو تو دوسرے ملکوں کے لوگ اسے خواہ مخواہ چھیڑنے کی تکلیف کیوں کرنے لگے تھے‘ بلکہ انھیں یہ معلوم ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس کا مذہب کیا ہے۔ مگر یہ خدا کا بندہ دوسرے ملکوں میں بھی جاکر خاموش نہ رہا۔ جہاں بھی گیا اس نے خدا کے سب بندوں کو یہی دعوت دی کہ دوسروں کی بندگی چھوڑو اور صرف اُسی ایک خدا کے بندے بن کر رہو جو حقیقت میں تمھارا خدا ہے۔
اس تبلیغ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے ملک سے نکل کر بھی اسے کہیں چین سے بیٹھنا نصیب نہ ہوا۔ کبھی شام میں ہے تو کبھی فلسطین میں‘ کبھی مصر میں ہے تو کبھی حجاز میں۔ غرض ساری عمر یونہی ملک ملک کی خاک چھانتے گزر گئی۔ اس کو آرام کے ٹھکانے کی طلب نہ تھی۔ اس کو گھر اور کھیت اور مویشی اور کاروبار کی طلب نہ تھی۔ اس کودنیا کے عیش اور زندگی کے سروسامان کی طلب نہ تھی۔ اسے صرف اس چیز کی طلب تھی کہ جس حق پر وہ ایمان لایا ہے اس کا کلمہ بلند ہو اور اس کے بنی نوع گمراہی کو چھوڑ کر اس سیدھی راہ پر چلنے لگیں جس میں ان کا اپنا بھلا ہے۔ یہی طلب اسے جگہ جگہ لیے پھرتی تھی اور اسی طلب کے پیچھے اس نے اپنے ہرمفاد کو تج دیا___ یہ اس کی تیسری قربانی تھی۔
اس خانہ بدوشی اور بے سروسامانی کے عالم میں پھرتے پھرتے جب عمر تمام ہونے کو آئی تو خدا نے اُسے ایک بیٹا دیا۔ اس بچے کوپالا پوسا یہاں تک کہ وہ اس عمر کو پہنچا جب اولاد والدین کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹانے اور زندگی کی دھوڑدھوپ میں ان کا ساتھ دینے کے قابل ہوتی ہے۔ بیٹا اور وہ بھی اکلوتا بیٹا۔ پھر عنفوانِ شباب کو پہنچا ہوا‘ اور باپ زندگی کے اُس مرحلے میں‘ جب کہ آدمی جوان اولاد کے سہارے کا سب سے بڑا محتاج ہوتا ہے۔ ہرشخص اس صورتِ حال کا تصور کرکے اندازہ کرسکتا ہے کہ اس باپ کو وہ بیٹا کیسا کچھ عزیز ہوگا۔ مگر مسلمان کی تعریف یہ ہے کہ اسے خدا اور اس کی مرضی سے بڑھ کر کوئی چیز بھی عزیز نہ ہو۔ اس لیے وہ ساری قربانیاں بھی کافی نہ سمجھی گئیں جو یہ بندہ اپنے خداکے لیے ساری عمر کرتا رہا تھا۔
ان سب کے بعد اس کا آخری امتحان لینا ضروری سمجھا گیا اور وہ یہ تھا کہ یہ بندئہ مسلم اپنے اس عزیز ترین بیٹے کی محبت کو بھی خدا کی محبت پر قربان کرسکتا ہے یا نہیں۔ چنانچہ یہ امتحان بھی لے ڈالا گیا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ وہ بوڑھا انسان اپنے خدا کا صریح حکم نہیں‘ محض ایک اشارہ پاتے ہی اکلوتے نوجوان بیٹے کو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ یہ اور بات ہے کہ خدا نے عین ذبح کے وقت لڑکے کی جگہ مینڈھے کو قبول کرلیا‘ کیونکہ خدا کو لڑکے کا خون مطلوب نہ تھا‘ محض محبت کی آزمایش مقصود تھی‘ لیکن اس سچے مسلمان نے اپنی نیت کی حد تک تو اپنا لختِ جگر اپنے خدا کے اشارے پر قربان کر ہی دیا تھا۔ یہ تھی وہ آخری اور سب سے بڑی قربانی جسے اس شخص نے اپنے اسلام اور ایمان‘ اور خدا کے ساتھ اپنی وفاداری کے ثبوت میں پیش کیا تھا۔ اسی کے صلے میں خدا نے اسے تمام دُنیا کے انسانوں کا امام بنایا اور اپنی دوستی کے مرتبے پر سرفراز کیا۔
آپ سمجھے کہ یہ کس شخص کا ذکر ہے؟ یہ اُس ذاتِ گرامی کا ذکر ہے جسے آج ہم سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نام سے جانتے ہیں۔ اور یہی وہ قربانی ہے جس کی یادگار آج دُنیا بھر کے مسلمان جانوروں کی قربانی کرکے مناتے ہیں۔
اس یادگار کے منانے کا مقصدیہ ہے کہ مسلمان کے اندر قربانی کی وہی روح‘ اسلام و ایمان کی وہی کیفیت اور خدا کے ساتھ محبت ووفاداری کی وہی شان پیدا ہوا جس کا مظاہرہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی پوری زندگی میں کیا ہے۔ اگر کوئی شخص محض ایک جانور کے گلے پر چھری پھیرتا ہے اور اس کا دل اس رُوح سے خالی رہتا ہے تو وہ ناحق ایک جان دار کا خون بہاتا ہے۔ خدا کو اس کے خون اور گوشت کی کوئی حاجت نہیں۔
وہاں تو جو چیز مطلوب ہے وہ دراصل یہ ہے کہ جو شخص کلمۂ لا الٰہ الا اللہ پر ایمان لائے وہ مکمل طور پر بندئہ حق بن کر رہے۔ کوئی تعصب‘ کوئی دل چسپی‘ کوئی ذاتی مفاد‘ کوئی دبائو اور لالچ‘ کوئی خوف اور نقصان‘ غرض کوئی اندر کی کمزوری اور باہر کی طاقت اس کو حق کے راستے سے نہ ہٹاسکے۔ وہ خدا کی بندگی کا اقرار کرنے کے بعد پھر کسی دوسری چیز کی بندگی قبول نہ کرے۔ اس کے لیے ہرتعلق کو قربان کردینا آسان ہو‘ مگر اس تعلق کو قربان کرنا کسی طرح ممکن نہ ہو جو اس نے اپنے خدا سے قائم کرلیا ہے___ یہی قربانی اسلام کی اصل حقیقت ہے اور آج ہر زمانے سے بڑھ کر ہم اس کے محتاج ہیں کہ یہ حقیقت ہماری سیرتوں میں پیوست ہو۔ مسلمانوں نے جب کبھی دنیا میں چوٹ کھائی ہے‘ اسلام کی اسی حقیقت سے خالی ہوکر کھائی ہے (اکتوبر ۱۹۴۷ئ)۔ (نشری تقریریں‘ ص ۹۷- ۱۰۳)
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی پہلی نظربندی کے دوران ۶ اکتوبر ۱۹۴۹ء کو ایک خط اپنی اہلیہ محترمہ کو لکھا۔ یہ خط سنسر میں روک لیا گیا۔ اب ایک کرم فرما کے توسط سے دستیاب ہوا ہے۔ ہم یہ خط قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ (ادارہ)
ایک مدتِ دراز کے بعد آپ کا خط ملا۔ مگر اس کی کچھ شکایت نہیں۔ میں خود بھی زیر نگرانی خط و کتابت سے بیزار ہوں۔ گھر کا حال بچوں کے خطوں سے معلوم ہوتا رہتا ہے۔ بس یہی کافی ہے۔
آپ کا یہ خیال صحیح ہے کہ دستور ساز اسمبلی میں قرار داد مقاصد پاس ہو جانے کے بعد اصولی حیثیت سے‘ ہماری یہ ریاست ایک اسلامی ریاست ہو گئی ہے، اور آپ کا یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ میں بھی یہی چاہتا تھا، لیکن آپ کے اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں ہے کہ پھر حکومت نے مجھے اور میرے ساتھیوں کو کیوں نظر بند کررکھا ہے۔ میں اس کے وجوہ سے پہلے بھی لا علم تھا اور اب بھی لاعلم ہوں۔ قرار داد مقاصد کے بعد تو خیر معاملہ ہی دوسرا ہو گیا ہے کہ اب اس ریاست کی وفاداری و خیر خواہی ہمارے ایمان کا تقاضا ہو گئی ہے، لیکن میں نے تو اُس سے پہلے بھی یہ بات اچھی طرح واضح کر دی تھی کہ اس ریاست کو مسلمان بنانے کے لیے ہم جو کچھ بھی کوشش کریں گے، پر امن جمہوری طریقوں سے ہی کریں گے اور کوئی ایسا طریق کار ہرگزا ختیار نہیں کریں گے جس سے پاکستان کے وجود کو کوئی نقصان پہنچ جائے، آخر کون مسلمان یہ سوچ سکتا ہے کہ ہندستان میں ہم پر جو تباہی آ چکی ہے، وہی اب پاکستان میں بھی ہم پر اور ہمارے بال بچوں پر نازل ہو جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم نہ تو اپنی گرفتاری ہی کے راز کو جانتے تھے اور نہ اس معمے ہی کو کچھ سمجھ سکے ہیں کہ قرار داد مقاصد کے بعد ہماری نظر بندی میں پہلی توسیع کیوں ہوئی تھی اور اب یہ دوسری توسیع کیوں ہوئی ہے۔ ممکن ہے حکومت ہمارے متعلق کچھ ایسی باتیں جانتی ہو جو ہم خود اپنے متعلق نہیں جانتے۔ میں نے براہِ راست مغربی پنجاب کی حکومت کو بھی اس بارے میں ایک چٹھی لکھی ہے۔
یہ معلوم کر کے افسوس ہوا کہ آپ کی صحت برابر گرتی جا رہی ہے۔ میں آپ کی تکلیف کم کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا، سواے اس کے کہ رضا بقضا اور توکل علی اللہ کی نصیحت کروں۔ یہ چیز جس قدر زیادہ آدمی میں موجود ہو گی، اتنا ہی زیادہ وہ ہر حال میں مگن اور مطمئن رہے گا۔ اس میں سے میں نے تھوڑا ہی حصہ پایا ہے اور اس کا فیض یہ ہے کہ میرے اطمینان قلب میں ذرا فرق نہیں آنے پایا ہے۔ ایک سال کی قید کے بعد‘ اس وقت میری صحت اتنی اچھی ہے کہ پچھلے ۱۵سال میں کبھی ایسی اچھی نہیں رہی۔
آدمی اپنی جہالت سے سمجھتا ہے کہ اس دنیا میں کچھ انسانی منصوبے پورے ہو رہے ہیں، حالاں کہ یہاں دراصل ایک ہی منصوبہ پورا ہوا کرتا ہے اور وہ خدا کا منصوبہ ہے۔ دانش مند انسان خدائی منصوبے کے اچھے پہلوؤں میں کام کرنا پسند کرتے ہیں اور سرخ رو ہوتے ہیں۔ نادان اس کے برے پہلوؤں میں کام کرنا انتخاب کرتے ہیں اور سیہ روئی مول لیتے ہیں۔یوسف کے حق میں جو کچھ مقدر تھا، وہی ہو کر رہا۔ بردران یوسف اور زلیخا اور عزیز ِمصر جو جو کچھ کرتے گئے، خدا اسی کو اپنے منصوبے کی تکمیل ]کا[ ذریعہ بناتا گیا اور خود اُن کے حصے میں ندامت کے سوا کچھ نہ آیا۔ انسان کی دانائی کا سارا امتحان بس ا س میں ہے کہ وہ خدائی منصوبے کے کون سے پہلو میں کام کرنا اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ اگر خدا کے دیے ہوئے علم و عقل سے کام لے کر اچھے پہلو کو پہچان لیا ہے اور اسے اختیار کر لیا ہے تو انجام بہر حال بہتر ہے خواہ بیچ میں کتنی ہی برائیوں سے اس کو سابقہ پیش آئے۔ آخر دنیا میںکسی انسان کے ساتھ اس سے زیادہ کیا برائی ہوسکتی ہے جو حسین ابن علی، ابو حنیفہ، امام احمد، ابن تیمیہ، مجدد سرہندی اور سید احمد بریلوی کے ساتھ ہوچکی ہے۔ لیکن کسی کو ان کے انجام کا ہزارواں حصہ بھی میسر آجائے تو یقینا وہ خوش قسمت ہے۔
میری طرف سے گھر میں سب کو سلام اور بچوں کو بہت بہت پیار۔
(ابوالاعلٰی مودودی‘ علمی و فکری مطالعہ‘ مرتبین: رفیع الدین ہاشمی/سلیم منصورخالد‘ ادارہ معارف اسلامی‘ لاہور۔ صفحات: ۶۴۸)
آج سے تقریباً ۴۰ برس قبل‘ اس وقت کے پوپ نے دنیا کی دینی جماعتوں کے سربراہوں کے نام ایک خط لکھا تھا جس کا مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جواب دیا تھا۔ جواب میں مسیحی بھائیوں کے طرزعمل سے مسلمانوں کو جو شکایات تھیں ان کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔ ہم اس میں سے صرف ایک نکتہ یہاں پیش کر رہے ہیں جو موجودہ پوپ کے بیان سے متعلق ہے۔ (ادارہ)
میں آپ کو چند ایسے اُمور کی طرف توجہ دلا رہا ہوں جو مسلمانوں کے لیے اپنے مسیحی بھائیوں سے وجہِ شکایت ہیں تاکہ کیتھولک چرچ کے پیشواے اعظم ہونے کی حیثیت سے جو غیرمعمولی اثرورسوخ آپ کو مسیحی دنیا میں حاصل ہے‘ اس سے کام لے کر آپ اُن کی اصلاح کے لیے سعی فرمائیں۔ اور میں اس بات کا خیرمقدم کروں گا کہ ہمارے مسیحی بھائیوں کے لیے ہمارے طرزِعمل میں اگر کوئی چیز معقول وجہِ شکایت ہو تو وہ ہمیں بتائی جائے۔ ہم ان شاء اللہ ان کو رفع کرنے کی کوشش میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھیں گے۔ دنیا میں امن اور صلح و آشتی کی فضا پیدا کرنے میں ہم سب اسی طرح مددگار بن سکتے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ انصاف کریں۔ دوسروں سے فیاضانہ سلوک کرنے کی فراخ حوصلگی اگر ہم میں موجود نہ بھی ہو تو کم از کم اتنا تو ہو کہ دوسروں کی حق تلفی کرنے یاان کو اذیت دینے سے تو ہم باز رہیں۔
مسیحی بھائیوں کے طرزعمل میں جو اُمور کسی ایک ملک یا قوم کے نہیں‘ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے وجہِ شکایت ہیں‘ انھیں میں کسی لاگ لپیٹ کے بغیر مختصراً آپ سے بیان کیے دیتا ہوں۔
ایک مدت دراز سے مسیحی اہلِ علم اپنی تحریروں اور تقریروں میں سیدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم‘ قرآن اور اسلام پر حملے کر رہے ہیں اور آج بھی جن کا سلسلہ جاری ہے‘ وہ مسلمانوں کے لیے انتہائی مُوجبِ اذیت ہیں۔ میں ’حملے‘ کا لفظ قصداً استعمال کر رہا ہوں‘ تاکہ آپ کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہماری شکایت معقول علمی تنقید کے خلاف ہے۔ علمی تنقید اگر دلیل کے ساتھ اور تہذیب و شایستگی کے حُدود میں ہو تو خواہ وہ کیسے ہی سخت اعتراضات پر مشتمل ہو‘ ہم اس پر برا نہیں مانتے بلکہ اس کا خیرمقدم کرتے ہیں اور دلیل کا جواب دلیل سے دینے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن ہمیں بجا طور پر شکایت اُن حملوں کے خلاف ہے جو جھوٹے اور رکیک الزامات کی صورت میں اور نہایت دل آزار زبان میں کیے جاتے رہے اور اب تک کیے جا رہے ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے‘ وہ حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا انتہائی ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہیں اور ان کے متعلق کوئی خلافِ ادب بات زبان سے نکالنا ہمارے عقیدے میں کفر ہے۔ آپ کوئی مثال ایسی نہیں پاسکتے کہ کسی مسلمان نے کبھی سیدنا مسیح علیہ السلام اوران کی والدۂ ماجدہ کی شان میں کوئی بے ادبی کی ہو۔ اگرچہ ہم حضرت مسیحؑ کی اُلوہیت کے قائل نہیں ہیں‘ مگر ان کی نبوت پر ہمارا ویسا ہی ایمان ہے جیسا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ہے‘ اور کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اُن پر اور دوسرے انبیا پر بھی ایمان نہ لائے۔
اسی طرح ہم صرف قرآن ہی کو نہیں بلکہ تورات اور انجیل کو بھی خدا کی کتابیں تسلیم کرتے ہیں اور کوئی مسلمان ان مقدس کتابوں کی توہین کا خیال بھی نہیں کرسکتا۔ ہماری طرف سے اگر کبھی کوئی بحث ہوئی ہے تو اِس حیثیت سے ہوئی ہے کہ بائیبل جس شکل میں اب پائی جاتی ہے‘ یہ کہاں تک مستند ہے‘ اور یہ بحث خود مسیحی علما بھی کرتے رہے ہیں۔ کسی مسلمان نے کبھی اس کا انکار نہیں کیا کہ حضرت موسٰی ؑ و عیسٰی ؑاور بائیبل کے دوسرے انبیا ؑپر اللہ کا کلام نازل ہوا تھا‘ اور مسلمان چاہے یہ بات نہ مانتے ہوں کہ اِس وقت پائی جانے والی پوری بائیبل اللہ کا کلام ہے‘ مگر یہ ضرور مانتے ہیں کہ اس میں اللہ کا کلام موجود ہے۔ لہٰذا ہمارے مسیحی بھائیوں کو ہم سے یہ شکایت کرنے کا کبھی موقع نہیں ملا ہے کہ ہم اُن کے انبیا کی‘ یا اُن کی کتب مقدسہ کی توہین کرتے ہیں۔ بخلاف اس کے ہمیں آئے دن ان سے یہ رنج پہنچتا رہتا ہے‘ اور صدیوں سے اس دل آزاری کا سلسلہ چل رہا ہے کہ ان کے مصنفین اور مقررین ہمارے نبیؐ اور ہماری کتابِ مقدس اور ہمارے دین پر سخت حملے کرتے ہیں۔
دنیا کی اسلامی اور مسیحی برادریوںکے درمیان تعلقات کی خرابی کا یہ ایک اہم سبب ہے۔ اس سے شدید باہمی منافرت پیدا ہوتی ہے‘ اور مزیدبرآں اس ناروا پروپیگنڈے کا لازماً یہ نتیجہ بھی ہوتا ہے کہ مسیحی عوام کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت و تحقیر کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ آپ دنیا کے امن کی بہت بڑی خدمت انجام دیںگے اگر مسیحیت کے پیرووں کو اس طرزِعمل میں کم از کم اتنی اصلاح کرلینے کی نصیحت کریں کہ یہ دل آزاری اور نفرت انگیزی کی حد تک نہ پہنچے۔ (مکتوب بنام پوپ پال ششم‘ دسمبر ۱۹۶۷ئ‘ مکاتیب سید ابوالاعلٰی مودودی‘ جلد اوّل‘ مرتبہ: عاصم نعمانی‘ جون ۱۹۷۰ئ‘ ص ۲۱۶- ۲۱۹)
تقویٰ ہے کیا چیز؟ تقویٰ حقیقت میں کسی وضع و ہیئت اور کسی خاص طرزِ معاشرت کا نام نہیں ہے بلکہ دراصل وہ نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جو خدا ترسی اور احساس ذمہ داری سے پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں ظہور کرتی ہے۔
حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو‘ عبدیت کا شعور ہو‘ خدا کے سامنے اپنی ذمّہ داری و جواب دہی کا احساس ہو‘ اور اس بات کا زندہ ادراک موجود ہو کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے جہاں خدا نے ایک مہلتِ عمر دے کر مجھے بھیجا ہے اور آخرت میں میرے مستقبل کا فیصلہ بالکل اس چیز پر منحصر ہے کہ میں اس دیے ہوئے وقت کے اندر اس امتحان گاہ میں اپنی قوتوں اور قابلیتوں کو کس طرح استعمال کرتا ہوں۔ اس سروسامان میں کس طرح تصرف کرتا ہوں جو مشیت الٰہی کے تحت مجھے دیا گیا ہے‘ اور ان انسانوںکے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہوں جن سے قضاے الٰہی نے مختلف حیثیتوں سے میری زندگی متعلق کر دی ہے۔
یہ احساس وشعور جس شخص کے اندر پیدا ہوجائے‘اس کا ضمیر بیدار ہوجاتا ہے‘ اس کی دینی حس تیز ہوجاتی ہے‘ اس کو ہر وہ چیز کھٹکنے لگتی ہے جو خدا کی رضا کے خلاف ہو۔ اُس کے مذاق کو ہر وہ شے ناگوار ہونے لگتی ہے جو خدا کی پسند سے مختلف ہو۔ وہ اپنے نفس کا آپ جائزہ لینے لگتا ہے کہ میرے اندر کس قسم کے رجحانات و میلانات پرورش پا رہے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کا خود محاسبہ کرنے لگتا ہے کہ میں کن کاموں میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں صرف کر رہا ہوں۔ وہ صریح ممنوعات کو تو درکنار‘ مشتبہ امور میں بھی مبتلا ہوتے ہوئے خود بخود جھجکنے لگتا ہے۔ اس کا احساسِ فرض اسے مجبور کردیتا ہے کہ تمام اوامر کو پوری فرماں برداری کے ساتھ بجا لائے۔ اس کی خدا ترسی ہر اس موقع پر اس کے قدم میں لرزش پیدا کردیتی ہے جہاں حدود اللہ سے تجاوز کا اندیشہ ہو۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی نگہداشت آپ سے آپ اس کا وتیرہ بن جاتی ہے اور اس خیال سے بھی اس کا ضمیر کانپ اُٹھتا ہے کہ کہیں اس سے کوئی بات حق کے خلاف سرزد نہ ہوجائے۔
یہ کیفیت کسی ایک شکل یا کسی مخصوص دائرۂ عمل میں ہی ظاہر نہیں ہوتی بلکہ آدمی کے پورے طرزِفکر اور اس کے تمام کارنامۂ زندگی میں اس کا ظہور ہوتا ہے اور اس کے اثر سے ایک ایسی ہموار و یک رنگ سیرت پیدا ہوتی ہے جس میں آپ ہر پہلو سے ایک ہی طرز کی پاکیزگی و صفائی پائیں گے۔ بخلاف اس کے جہاں تقویٰ اس چیز کا نام رکھ لیا گیا ہے کہ آدمی چند مخصوص شکلوں کی پابندی اور مخصوص طریقوں کی پیروی اختیار کرلے اور مصنوعی طور پر اپنے آپ کو ایک ایسے سانچے میں ڈھال لے جس کی پیمایش کی جاسکتی ہو‘وہاں آپ دیکھیں گے کہ وہ چند اشکالِ تقویٰ جو سکھادی گئی ہیں‘ ان کی پابندی انتہائی اہتمام کے ساتھ ہو رہی ہے مگر اس کے ساتھ زندگی کے دوسرے پہلوئوں میں وہ اخلاق‘ وہ طرزِ فکر اور وہ طرزِعمل بھی ظاہر ہورہے ہیں جو مقامِ تقویٰ تو درکنار‘ ایمان کے ابتدائی مقتضیات سے بھی مناسبت نہیں رکھتے‘ یعنی حضرت مسیحؑ کی تمثیلی زبان میں مچھر چھانے جارہے ہیں اور اُونٹ بے تکلفی کے ساتھ نگلے جارہے ہیں…
میری ان باتوں کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وضع قطع‘ لباس اور معاشرت کے ظاہری پہلوئوں کے متعلق جو آداب و احکام حدیث سے ثابت ہیں‘ میں ان کا استحفاف کرنا چاہتا ہوں‘ یا انھیں غیرضروری قرار دیتا ہوں۔ خدا کی پناہ اس سے کہ میرے دل میں ایسا کوئی خیال ہو۔ دراصل جو کچھ میںآپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اصل شے حقیقت ِتقویٰ ہے نہ کہ یہ مظاہر…
پہلی چیز دیر طلب اور صبرآزما ہے‘ بتدریج نشوونما پاتی اور ایک مدّت کے بعد برگ و بار لاتی ہے‘ جس طرح بیج سے درخت کے پیدا ہونے اور پھل پھول لانے میں کافی دیر لگا کرتی ہے۔ اسی لیے سطحی مزاج کے لوگ اس سے اُپراتے ہیں۔ بخلاف اس کے دوسری چیز جلدی اور آسانی سے پیدا کرلی جاتی ہے‘ جیسے ایک لکڑی میں پتے اور پھل اور پھول باندھ کر درخت کی سی شکل بنا دی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ تقویٰ کی پیداوار کا یہی ڈھنگ آج مقبول ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ جو توقعات ایک فطری درخت سے پوری ہوتی ہیں‘ وہ اس قسم کے مصنوعی درختوں سے کبھی پوری نہیں ہوسکتیں۔ (روداد جماعت اسلامی‘ سوم‘ ص ۲۴۳-۲۴۸)
ہرحال میں دنیا پر آخرت کو ترجیح دیجیے اور اپنے ہر کام میں آخرت کی فوز و فلاح کو مقصود بنایئے۔ قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ دائمی اور ابدی زندگی کا مقام آخرت ہے‘ اور دنیا کی اس عارضی قیام گاہ میں ہم صرف اس امتحان کے لیے بھیجے گئے ہیں کہ خدا کے دیے ہوئے تھوڑے سے سروسامان‘ تھوڑے سے اختیارات‘ اور گنے چنے اوقات و مواقع میں کام کر کے ہم میں سے کون اپنے آپ کو خدا کی جنت کا مستقل آباد کار بننے کے لیے موزوں ثابت کرتا ہے۔ یہاں جس چیز کا امتحان ہم سے لیا جا رہا ہے وہ یہ نہیں ہے کہ ہم صنعتیں اور تجارتیں اور کھیتیاں اور سلطنتیں چلانے میں کیا کمالات دکھاتے ہیں‘ اور عمارتیں اور سڑکیں کیسی اچھی بناتے ہیں‘ اور ایک شان دار تمدن پیدا کرنے میں کتنی کامیابی حاصل کرتے ہیں‘ بلکہ سارا امتحان صرف اس امر کا ہے کہ ہم خدا کی دی ہوئی امانتوں میں خدا کی خلافت کا حق ادا کرنے کی کتنی قابلیت رکھتے ہیں‘ باغی اور خودمختار بن کر رہتے ہیں یا مطیع و فرماں بردار بن کر؟ خدا کی زمین پر خدا کی مرضی پوری کرتے ہیں یا اپنے نفس اور اربابٌ من دون اللّٰہ کی؟ اور خدا کی دنیا کو خدائی معیارکے مطابق سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں یا بگاڑنے کی؟اور خدا کی خاطر شیطانی قوتوں سے کش مکش اور مقابلہ کرتے ہیں‘ یا ان کے آگے سپر ڈال دیتے ہیں؟
جنت میں آدم و حوا علیہما السلام کا جو پہلا امتحان ہوا تھا وہ دراصل اسی امر میں تھا‘ اور آخرت میں جنت کی مستقل آبادی کے لیے بنی نوع انسان کے افراد کا جو انتخاب ہوگا وہ بھی اسی فیصلہ کن سوال پر ہوگا۔ پس کامیابی و ناکامی کا اصل معیار یہ نہیں ہے کہ امتحان دینے کے دوران میں کس نے تخت شاہی پر بیٹھ کر امتحان دیا اور کس نے تختۂ دار پر‘ اور کس کی آزمایش ایک سلطنت عظیم دے کر کی گئی اور کسے ایک جھونپڑی میں آزمایا گیا۔ امتحان گاہ کے یہ وقتی اور عارضی حالات اگر اچھے ہوں تو یہ فوز و فلاح کی دلیل نہیں‘ اور برے ہوں تو یہ خائب و خاسر رہ جانے کے ہم معنی نہیں۔ اصل کامیابی جس پر ہمیں اپنی نگاہ جمائے رکھنی چاہیے یہ ہے کہ دنیا کی اس امتحان گاہ میں جس جگہ بھی ہم بٹھائے گئے ہوں اور جو کچھ بھی دے کر ہمیں آزمایاگیا ہو اس میں ہم اپنے آپ کو خدا کا وفادار بندہ ا ور اس کی مرضات کا متبع ثابت کریں تاکہ آخرت میں ہم کو وہ پوزیشن ملے جو خدا نے اپنے وفادار بندوں کے لیے رکھی ہے۔
حضرات! یہ ہے اصل حقیقت۔ مگر یہ ایسی حقیقت ہے جسے محض ایک دفعہ سمجھ لینا اور مان جانا کافی نہیں ہے بلکہ اسے ہر وقت ذہن میں تازہ رکھنے کی سخت کوشش کرنی پڑتی ہے‘ ورنہ ہر وقت اس کا امکان رہتا ہے کہ ہم آخرت کے منکر نہ ہونے کے باوجود دنیا میں اس طریقے پر کام کرنے لگیں جو آخرت کو بھول کر‘ دنیا کو مقصود بناکر کام کرنے والوں کا طریقہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آخرت ایک غیرمحسوس چیز ہے جو مرنے کے بعد سامنے آنے والی ہے۔ اس دنیا میں ہم اس کا اور اس کے اچھے برے نتائج کا ادراک صرف ذہنی توجہ ہی سے کرسکتے ہیں۔ اس کے برعکس دنیا ایک محسوس چیز ہے جو اپنی تلخیاں اور شیرینیاں ہر وقت ہمیں چکھاتی رہتی ہے‘ اور جس کے اچھے اور برے نتائج ہر آن ہمارے سامنے آکر ہمیں یہ دھوکا دیتے رہتے ہیں کہ اصل نتائج بس یہی ہیں۔
آخرت بگڑے تو اس کی تھوڑی بہت تلخی ہمیں صرف ایک دل کے چھپے ہوئے ضمیر میں محسوس ہوتی ہے‘ بشرطیکہ وہ زندہ ہو مگر دنیا بگڑے تو اس کی چبھن ہمارا رونگٹا رونگٹا محسوس کرتا ہے اور ہمارے بال بچے‘ عزیز واقارب‘ دوست آشنا اور سوسائٹی کے عام لوگ‘ سب مل جل کر اسے محسوس کرتے اور کراتے ہیں۔ اسی طرح آخرت سنورے تواس کی کوئی ٹھنڈک ہمیں ایک گوشۂ دل کے سوا کہیں محسوس نہیں ہوتی‘ اور وہاں بھی صرف اس صورت میں محسوس ہوتی ہے‘ جب کہ غفلت نے دل کے اس گوشے کو سن نہ کر دیا ہو۔ مگر اپنی دنیا کا سنوار ہمارے پورے وجود کے لیے لذت بن جاتا ہے‘ ہمارے تمام حواس اس کو محسوس کرتے ہیں اور ہمارا سارا ماحول اس کے احساس میں شریک ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آخرت کو بطور ایک عقیدے کے مان لینا چاہے بہت مشکل نہ ہو‘ مگر اسے اندازفکر اور اخلاق و اعمال کے پورے نظام کی بنیاد بناکر زندگی بھر کام کرنا سخت مشکل ہے اور دنیا کو زبان سے ہیچ کہہ دینا چاہے کتنا ہی آسان ہو‘ مگر دل سے اس کی محبوبیت اور خیال سے اس کی مطلوبیت کو نکال پھینکنا آسان کام نہیں ہے۔ یہ کیفیت بڑی کوشش سے حاصل ہوتی ہے اور پیہم کوشش کرتے رہنے سے قائم رہ سکتی ہے۔
آپ پوچھیں گے کہ یہ کوشش ہم کیسے کریں اور کن چیزوں سے اس میں مدد لیں؟ میں عرض کروں گا کہ اس کے بھی دو طریقے ہیں: ایک فکری طریقہ‘ اور دوسرا عملی طریقہ۔
فکری طریقہ: یہ ہے کہ آپ صرف اٰمَنْتُ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ کہہ دینے پر اکتفا نہ کریں‘ بلکہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی عادت ڈالیں جس سے رفتہ رفتہ آپ کو آخرت کا عالَم دنیا کے اس پردے کے پیچھے یقین کی آنکھوں سے نظر آنے لگے گا۔ قرآن کا شاید کوئی ایک صفحہ بھی ایسا نہیںہے جس میں کسی نہ کسی ڈھنگ سے آخرت کا ذکر نہ کیا گیا ہو۔ جگہ جگہ آپ کو اس میں عالمِ آخرت کا نقشہ ایسی تفصیل کے ساتھ ملے گا کہ جیسے کوئی وہاں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہو‘ بلکہ بہت سے مقامات پر یہ نقشہ کشی ایسے عجیب طریقے سے کی گئی ہے کہ پڑھنے والا تھوڑی دیر کے لیے اپنے آپ کو وہاں پہنچا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے اور بس اتنی کسر رہ جاتی ہے کہ اس مادی دنیا کا دھندلا سا پردہ ذرا سامنے سے ہٹ جائے تو آدمی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھ لے جو الفاظ میں بیان کیا جا رہا ہے۔ پس قرآن کو بالالتزام سمجھ کر پڑھتے رہنے سے بتدریج آدمی کو یہ کیفیت حاصل ہوسکتی ہے کہ اس کے ذہن پر آخرت کاخیال مسلّط ہوجائے اور وہ ہروقت یہ محسوس کرنے لگے کہ اس کی مستقل قیام گاہ موت کے بعد کا عالَم ہے جس کی اسے دنیا کی اس عارضی زندگی میں تیاری کرنی ہے۔
اس ذہنی کیفیت کو مزید تقویت حدیث کے مطالعے سے حاصل ہوتی ہے جس میں بار بار‘ زندگی بعدالموت کے حالات بالکل ایک چشم دید مشاہدے کی شان سے آدمی کے سامنے آتے ہیں‘ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐؐ کے صحابہ کرامؓ کس طرح ہر وقت آخرت کے یقین سے معمور رہتے تھے۔
پھر اس کیفیت کو راسخ کرنے میں مدد زیارت قبور سے ملتی ہے جس کی واحد غرض نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتائی ہے کہ آدمی کو اپنی موت یاد رہے اور وہ دنیا کی اس متاعِ غرور کے ساتھ مشغول رہتے ہوئے اس بات کو نہ بھول جائے کہ آخرکار اسے جانا وہیں ہے جہاں سب گئے ہیں اور روز چلے جا رہے ہیں۔ البتہ یہ خیال رہے کہ اس غرض کے لیے وہ مزارات سب سے کم مفید ہیں جنھیں آج بگڑے ہوئے لوگوں نے حاجت روائی و مشکل کشائی کے مراکز بنا رکھا ہے۔ ان کے بجاے آپ گورِ غریباں کی زیارت کرکے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ یاپھر بادشاہوں کے ان عالی شان مقبروں کو دیکھ کر جن کے آس پاس کہیں کوئی حاجب و دربان ادب قاعدے سکھانے والا نہیں ہے۔
عملی طریقہ:اس کے بعدعملی طریقے کو لیجیے۔ آپ کو دنیا میں رہتے ہوئے اپنی گھریلو زندگی میں‘ اپنے محلے اور اپنی برادری کی زندگی میں‘ اپنے حلقۂ احباب اورحلقۂ تعارف میں‘ اپنے شہر اور اپنے ملک کے معاملات میں‘ اپنے لین دین اور اپنی معاش کے کاموں میں‘ غرض ہر طرف ہرآن قدم قدم پر ایسے دوراہے ملتے ہیں جن میں سے ایک راستے کی طرف جانا ایمان بالآخرۃ کا تقاضا ہوتا ہے اور دوسرے کو اختیار کرنا دنیا پرستی کا تقاضا۔ ایسے ہرموقعے پر پوری کوشش کیجیے کہ آپ کا قدم پہلے راستے ہی کی طرف بڑھے اور اگر نفس کی کمزوری سے یا غفلت کی وجہ سے کبھی دوسرے راستے پر آپ چل نکلے ہوں‘ تو ہوش آتے ہی پلٹنے کی کوشش کیجیے‘ خواہ کتنے ہی دُور پہنچ چکے ہوں۔ پھر وقتاً فوقتاً اپنا حساب لے کر دیکھتے رہیے کہ کتنے مواقع پر دنیا آپ کو کھینچنے میں کامیاب ہوئی‘ اور کتنی بار آپ آخرت کی طرف کھنچنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ جائزہ آپ کو خود ہی ناپ تول کر بتاتا رہے گا کہ آپ کے اندر فکرِآخرت نے کتنا نشوونما پایا‘ اور ابھی کتنی کچھ کمی آپ کو پوری کرنی ہے۔ جس قدر کمی آپ خود محسوس کریں اسے خود ہی پورا کرنے کی کوشش کریں۔ بیرونی مدد آپ کو زیادہ سے زیادہ بہم پہنچ سکتی ہے تو اس طرح پہنچ سکتی ہے کہ دنیا پرست لوگوں کو چھوڑ کر ایسے صالح لوگوں سے ربط بڑھائیں جو آپ کے علم میں دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے والے ہوں۔ مگر یاد رکھیے کہ آج تک کوئی ذریعہ ایسا دریافت نہیں ہوسکا ہے جو آپ کے اندر خود آپ کی اپنی کوشش کے بغیر کسی صفت کو گھٹاسکے یا بڑھا سکے‘ یا ایسی کوئی نئی صفت آپ میں پیدا کرسکے جس کا مادہ آپ کی طبیعت میں موجود نہ ہو۔(ہدایات ، اسلامک پبلی کیشنز‘۳-کورٹ سٹریٹ‘ لوئرمال‘ لاہور۔ ص۱۶-۲۱)
دنیا کا نظام جن الٰہی قوانین پر قائم ہے ان میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ اشیا کو اُن کے کمالات کی طرف ترقی دینے میں‘ جس طرح مبداِ فیاض کی طرف سے علی قدرِ مراتب‘ جودوبخشش کا فیضان ہوتا ہے‘ اُسی طرح خود اشیا کو بھی کمال کے ہر نئے مرتبے میں اپنے پچھلے مرتبے کے لوازم اور مالوفات و مرغوبات کو قربان کرنا پڑتا ہے اور اس قربانی کے بغیر تحصیلِ کمالات کے سفر میں وہ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتیں۔ بخار کو پانی بننے کے لیے اپنی آزادی اورہوائیت کو قربان کرنا پڑتا ہے‘ اور وہ تقیّدات قبول کرنا ہوتے ہیں جو مائیت کے ساتھ مخصوص ہیں۔ پانی کو برف بننے کے لیے پھر اپنی رہی سہی آزادی سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے‘ اپنے بہت سے آبی خواص کی قربانی دینی ہوتی ہے‘ تب جاکر اُسے پتھر کی سی سختی اور شیشے کی سی صفائی اور چمک میسر ہوتی ہے۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ بخار کے لیے حالت بخار میں رہتے ہوئے اور ہوا کی سی آزادی و لطافت رکھتے ہوئے وہ کمالات بھی جمع ہوجائیں جو صورتِ مائیّہ کے ساتھ مخصوص ہیں‘ اور وہ کمالات بھی جو برف کے لیے مقدر کیے گئے ہیں۔
یہ سنت اللہ ہے جس میں کوئی استثنا اور تغیر و تبدل نہیں‘ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا (الفتح ۴۸:۲۳)۔تمام مخلوقاتِ عالم پر یہی قانون جاری ہے‘ اور سب کی طرح انسان بھی اسی کے زیراثر ہے۔ نطفہ اپنی صورتِ نطفیہ کو قربان کر کے صورتِ انسانیہ حاصل کرتا ہے‘ بچہ اپنے بچپن کو قربان کر کے جوانی حاصل کرتا ہے‘ اور جوان اپنی جوانی کھو کر بڑھاپے کی بزرگی حاصل کرتا ہے۔ پھر زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں ترقی کرنے اور اعلیٰ مراتب تک پہنچنے کے لیے انسان کو کچھ نہ کچھ قربانیاں نہ دینی پڑتی ہوں۔ بڑائی اور بزرگی کا دامن ہر میدان میں قربانی اور ایثار کے ساتھ وابستہ ہے۔ ایک بڑے فائدے کے لیے بہت سے نقصانات برداشت کرنے پڑتے ہیں‘ ایک بڑی لذت کے لیے بہت سی تلخیاں گوارا کرنی پڑتی ہیں‘ ایک اعلیٰ مرتبے کے لیے بہت سے اُن مزوں کو ہاتھ سے دینا پڑتا ہے جو ادنیٰ مراتب میں حاصل تھے۔ جس علامہ کی جلالتِ علمی پر آپ رشک کرتے ہیں اُس سے پوچھیے کہ اس نے کتنی راتیں آنکھوں میں کاٹی ہیں اور کتنا خونِ جگر تحقیق و اکتشاف کی راہ میں کھپایا ہے؟ جس مَلِکُ التُّجاّر کی دولت کو دیکھ کر آپ کے منہ میں پانی بھرا آتا ہے اس سے پوچھیے کہ روپیہ کمانے کی جدوجہد میں کس طرح اس نے دن کے آرام اور رات کے چین کو اپنے اُوپر حرام کرلیا ہے؟ جس مدبّرِسلطنت کے اقتدار اور شان و شوکت کو دیکھ کر آپ کی آنکھیں خیرہ ہوئی جاتی ہیں‘ اس سے پوچھیے کہ اسے کتنی کش مکش‘ کتنی پریشانیوں‘ کتنی ٹھوکروں‘ اور کتنی روحانی و جسمانی اذیتوں کے بعد اس مقام تک پہنچنا نصیب ہوا ہے؟ غرض زندگی کا کوئی میدان لے لیجیے‘ ہر جگہ آپ یہی دیکھیں گے کہ کمال اور ترقی کا ہیولیٰ لذتوں کے خون سے تیار ہوتا ہے اور کمال کے مراتب جتنے بلند ہوتے ہیں‘ ان کے لیے قربانیاں بھی اتنی ہی زیادہ درکار ہوتی ہیں۔
دنیوی کمالات سب کے سب جزئی کمالات ہیں‘ اس لیے وہ قربانیاں بھی صرف جزئی چاہتے ہیں۔ دنیوی کمالات جتنے ہیں سب مادّی ہیں یا ان میں مادّے کی آمیزش ہے‘ اس لیے وہ قربانیاں بھی ایسی ہی چاہتے ہیں جو مادّی قسم کی ہوں یا مادّے سے لگائو رکھتی ہوں۔ دنیوی کمالات کا مقصود نفس یا تعلقاتِ نفس کے لیے فوائد کا حصول ہوتا ہے‘ لہٰذا ان کے لیے صرف وہ چیزیں قربان کی جاتی ہیں جو نفس اور اس کے محبوبات و مطلوبات سے ماسوا ہیں۔ مگر کمالِ حقیقی کا معاملہ سب سے جداگانہ ہے۔ یہ کلّی کمال ہے‘ قربانی بھی کلّی چاہتا ہے۔ مادّے سے مجرد و منزہ ہے‘ اس لیے جسم کی نہیں نفس و روح کی قربانی چاہتا ہے۔ گو ظاہری شکل کے اعتبار سے اس کے لیے بھی بہت سی ایسی قربانیاں دیناپڑتی ہیں جو مادّی قسم کی ہیں‘ یا مادّے سے لگائو رکھتی ہیں‘ لیکن دراصل وہ مادّے کی قربانیاں نہیں ہیں بلکہ ان محبتوں‘ ان دل چسپیوں‘ ان لذتوں اور ان علائق کی قربانیاں ہیں جو انسانی روح اس دنیا کی مادّی اشیا کے ساتھ رکھتی ہو۔ اس کمال کا مقصود نفس یا تعلقاتِ نفس نہیں‘ بلکہ حق ہے‘ اس لیے وہ خود نفس کی قربانی چاہتا ہے‘ اور بشرطِ ضرورت نفس کے ساتھ ہر وہ شے اس کے لیے قربان کرنی پڑتی ہے جو نفس کو مرغوب ہو۔
یہی نکتہ ہے جسے قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ:
لَنْ تَنَالُوا الْبِـرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (اٰل عمرٰن ۳:۹۲)
یعنی تم نیکی کے مقامِ رفیع تک پہنچ نہیں سکتے جب تک کہ وہ چیزیں نہ خرچ کرو جنھیںتم عزیز و محبوب رکھتے ہو۔ یہ مِمَّا تُحِبُّوْنَ کا لفظ اتنی وسعت رکھتا ہے کہ جان‘ مال‘ اولاد‘ رشتہ دار‘دوست‘وطن‘ قوم‘عزت‘ شہرت‘ ہر دلعزیزی‘ لذت و مسرت‘ عیش و آرام‘ عقائد و افکار‘ حریتِ خیال و آزادیِ عمل‘ غرض ہر محبوب شے اس میں داخل ہے‘ اور ان سب چیزوں کو مِمَّا تُحِبُّوْنکے دائرے میں لے کر حکم لگایا گیا ہے کہ اگر تم ’نیکی‘ کے اعلیٰ مراتب تک پہنچنا چاہتے ہو‘ تو تمھیں حق کی خاطر ان میں سے ہر چیز قربان کرنا پڑے گی۔ حق سب سے زیادہ اس کا مستحق ہے کہ تم اس سے محبت رکھو‘ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (البقرہ۲:۱۶۵)جو چیز تمھارے دل میں اتنا گھر کر لے گی کہ اس کی محبت‘ حق کی محبت سے بڑھ جائے اور حق کے مقابلے میں تم اس کو عزیز رکھنے لگو‘وہی بت ہے‘ صنم ہے‘ بناے شرک و کفر ہے‘ نیکی کے مقام تک پہنچنے میں وہی سنگِ راہ ہے۔ اس کمال کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو پہلی ضرب اِسی بت پر لگائو اور اسے پاش پاش کر کے حق کی محبت کو سب محبتوں پر غالب کر دو۔
غور سے دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ اسلام میں اوّل سے لے کرآخر تک جو کچھ ہے قربانی ہی قربانی ہے۔ اسلام میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے‘ انسان کو آزادیِ فکروآزادیِ عمل کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ ’اسلام‘ لانے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اب آپ اس کے لیے آزاد نہیں ہیں کہ جو عقیدہ چاہیں اختیار کریں اور جو راہِ عمل پسند کریں اس پر چلنے لگیں بلکہ آپ کا کام وہ اعتقاد رکھنا ہے جو خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا ہے‘ اور ان احکام و قوانین کے مطابق چلنا ہے جو خدا اور اس کے رسولؐ نے مقرر کر دیے ہیں:
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ ، (الاعراف ۷:۳)
جو کچھ تمھارے رب کی طرف سے تمھاری جانب اُتارا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اسے چھوڑ کر ان کی پیروی نہ کرو جن کو تم نے دوست بنا لیا ہے۔
یہ ’اسلام‘ یا ’نیکی‘ کے راستے میں پہلا قدم ہے‘ اور اسی پر اتنی بڑی قربانی دینی پڑتی ہے کہ اچھے اچھے اِسی مقام پر ڈگمگا جاتے ہیں۔ یہاں زندگی کے ہر شعبے میں حلال اور حرام کے حدود ہیں‘ خبیث اور طیب کے امتیازات ہیں‘ فرائض و طاعات ہیں‘ حقوق و واجبات ہیں جن کو اللہ اور اس کے رسولؐ نے مقرر کیا ہے۔ داعیاتِ نفس قدم قدم پر انسان کو اِثم وعُدوان کی طرف کھینچتے ہیں‘ مگر اسلام مطالبہ کرتا ہے کہ حدود اللہ پر نفس کی ساری خواہشوں کو بھینٹ چڑھائو‘ لذتوں کا خون کرو‘ فائدوں کو قربان کر دو۔ یہ تقویٰ اور پاکیزگی کی راہ بال سے زیادہ باریک ہے۔ اس پر ایک قدم بھی انسان اپنے جذبات و داعیات‘ اپنے لطف اور اپنے فوائد کی قربانی دیے بغیر نہیں چل سکتا۔ فضل و احسان کا مقام تو بہت بلند ہے‘ فرائض و واجبات کے ٹھیک ٹھیک بجا لانے میں حقوق کو پوری طرح ادا کرنے‘ اور گناہ کے راستوں سے بچ نکلنے ہی میں نفس پر کچھ کم جبر نہیں کرنا پڑتا۔
جیساکہ عرض کیا گیا‘ یہ تو صرف پہلا ہی قدم ہے‘ یہ پورا اسلام نہیں ہے‘ بلکہ اسے محض اسلام میں داخلے کا امتحان سمجھیے۔ اسلام صرف یہی نہیں ہے کہ آپ نماز پڑھیں‘ روزہ رکھیں‘ بشرطِ استطاعت حج اور زکوٰۃ ادا کریں‘ معاصی سے محترز رہیں اور حقوق ادا کرتے رہیں‘ بلکہ اسلام کی اصلی روح یہ ہے کہ آپ حق کو دنیا کی ہر شے سے زیادہ عزیز رکھیں اور جب موقع آئے تو کسی چیز کو بھی حق پر فدا کر دینے میں دریغ نہ کریں۔ اگر کوئی ایسا وقت آجائے کہ ایک طرف حق ہو اور اس کے ساتھ جان و مال کا زیاں ہو‘ مصیبتیں اور تکلیفیں ہوں‘ رسوائیاں اور ٹھوکریں ہوں‘ اور دوسری طرف باطل ہو‘ اور اس کے ساتھ عیش و آرام ہو‘ لطف و مسرت ہو‘ اور ہر طرح کے فائدے ہوں‘ تو مسلمان وہی ہے جو حق کے پہلو کو اختیار کرے‘ اور اس کی خاطر ان سب مصائب کو بخوشی برداشت کرلے:
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْ ٍٔ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ط وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ لا قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo (البقرہ ۲:۱۵۵-۱۵۶)
ہم ضرور تم کو کچھ خوف اور بھوک اور جان و مال اور ثمرات کے زیاں سے آزمائیں گے‘ اور (اے نبیؐ) تو ان صبر کرنے والوں کو بشارت دے دے جن پر اگر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم خدا ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پھرنا ہے۔
لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَلَوْ کَانُوْٓا اٰبَآئَ ھُمْ اَوْ اَبْنَآئَ ھُمْ اَوْ اِخْوَانَھُمْ اَوْ عَشِیْرَتَھُمْ-(المجادلہ ۵۸:۲۲)
ُ تو کوئی قوم ایسی نہ پائے گا جو اللہ اور یومِ آخر پر ایمان بھی رکھتی ہو اور پھر اللہ اور اس کے رسولؐ کے دشمنوں سے محبت بھی رکھے‘ چاہے وہ دشمنانِ خدا و رسولؐ ان کے باپ یا بھائی یا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔
فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِیَآئَ حَتّٰی یُھَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ - (النسائ۴:۸۹)
تم ان کو ہرگز دوست نہ بنانا جب تک کہ وہ خدا کی راہ میں ہجرت نہ کریں۔
اگر کسی وقت دشمنانِ اسلام کے خلافِ جنگ کی ضرورت پیش آجائے تو مسلمان وہی ہے جو سر ہتھیلی پر لے کر مرنے اور مارنے کے لیے نکل آئے‘ اور حق کی خاطر جان قربان کر دینے میں ذرا دریغ نہ کرے۔ جس نے اس موقعے پر کوتاہی کی‘ اس کا دعویِ اسلام جھوٹا ہے خواہ کتنا ہی بڑا عابد و زاہد کیوں نہ ہو۔
وَمَآ اَصَابَکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ فَبِاِذْنِ اللّٰہِ وَلِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنِیْنَo وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ نَافَقُوْا (اٰل عمرٰن۳:۱۶۶-۱۶۷)
جس روز دونوں جماعتوں کی مُڈبھیڑ ہوئی‘ اس دن تم پر جو مصیبت آئی وہ اللہ کے حکم سے تھی اور اس لیے تھی کہ مومنوں اور منافقوں کا فرق معلوم ہوجائے۔
غرض اسلام کچھ نہیں ہے مگر حق پر فدا ہوجانے اور ہر عزیز سے عزیز شے فدا کردینے کا ایک عاشقانہ جذبہ۔ جس شخص میں یہ جذبہ موجود نہ ہو‘ جو شخص حق کے مقابلے میں جان یا مال‘ یا اولاد‘ یا ملک و قوم‘ یا کسی اور دنیوی چیز کو عزیز رکھتا ہو‘ اس کا اسلام ادھ موا بلکہ بے جان ہے۔
قرآن مجید میں طرح طرح سے اس سچی اسلامی روح کو پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے‘ اور اسی غرض کے لیے پچھلی اُمتوں کے انبیا اور صالحین کے فداکارانہ واقعات کو مؤثر پیرائے میں دہرایا گیا ہے۔
حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کو حق کی طرف بلاتے ہیں‘ سالہا سال بلکہ قرنہا قرن تک شدید مصائب برداشت کرتے ہیں اور جب وہ نہیں مانتی تو خدا سے عرض کرتے ہیں کہ خدایا! ان کافروں میں سے ایک کو بھی جیتا نہ چھوڑ‘ رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِ مِنَ الْکٰفِرِیْنَ دَیَّارًا (نوح ۷۱:۲۶)۔ ان کی آنکھوں کے سامنے بیٹا غرق ہوتا ہے‘ بیوی ہلاک ہوتی ہے‘ مگر ایمان میں ذرا فرق نہیں آتا۔ حضرت لوط علیہ السلام اپنی بدکار قوم کو چھوڑ کر ہجرت اختیار کرتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو گناہ کی طرف بلایا جاتا ہے اور قیدوذلت کی دھمکی دی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ مجھے گناہ کے مقابلے میں قید زیادہ محبوب ہے‘ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَیْہِ (یوسف ۱۲:۳۳)۔ فرعون کے ساحر حق کے ظاہر ہوجانے کے بعد بے تکلف اعلان کردیتے ہیں کہ اٰمَنَّا بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o رَبِّ مُوْسٰی وَھٰرُوْنَ (الاعراف۷:۱۲۱-۱۲۲) ’’ہم پروردگارِ عالم پر ایمان لے آئے جو موسیٰ اور ہارون کا خدا ہے‘‘۔ فرعون ان کو سخت عذاب دے کر ہلاک کر دینے کی دھمکی دیتا ہے تو وہ صاف کہہ دیتے ہیں کہ فَاقْضِ مَآ اَنْتَ قَاضٍط اِنَّمَا تَقْضِیْ ھٰذِہِ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا (طٰہٰ۲۰:۷۲) ’’تجھے جو کچھ کرنا ہے کر گزر۔ تیرا حکم تو بس اسی دنیا کی زندگی پر چل سکتا ہے‘‘۔ اصحابِ کہف اپنی قوم کے مذہب سے علانیہ تبریٰ کرتے ہیں کہ ہم خداوند ارض و سما کو چھوڑ کر کسی کی عبادت نہ کریں گے‘ رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَاْ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰھًا (الکہف ۱۸:۱۴) ’’اورجب قوم کے راستے سے ان کا راستہ الگ ہوجاتا ہے تو گھر بار عزیز اقارب سب کو چھوڑ کر ایک غار میں جابیٹھتے ہیں‘‘۔
ان سب سے بڑھ کر حضرت ابراہیم ؑکی فداکاریاں تھیں جن کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے اسوئہ حسنہ فرمایا ہے۔ انھوں نے حق کی خاطر وہ سب کچھ قربان کیا جو دنیا میں ایک انسان کو عزیز ہوسکتا ہے۔ باپ دادا کے مذہب کو چھوڑا اور صاف اعلان کیا کہ تمھارے معبودوں سے مجھے کچھ سروکار نہیں‘ اِنَّنِیْ بَرَآئٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ (الزخرف۴۳:۲۶) قوم اور سلطنت اور خود اپنے باپ سے دشمنی مول لی۔ ان کے بتوں کو توڑا‘ قوم نے ان کو آگ کا عذاب دینا چاہا تو انھوں نے آگ کے گڑھے میں گرنا قبول کیا مگر حق کو چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ پھر اپنے باپ‘اپنے خاندان اور اپنی قوم سب کو چھوڑ کر وطن سے تن بہ تقدیر نکل کھڑے ہوئے اور سب سے کہہ دیا کہ ہمارا اب تم سے کچھ تعلق نہیں ‘ ہمارے اور تمھارے درمیان ہمیشہ کے لیے دشمنی ہوگئی تاوقتیکہ تم خداے واحد پر ایمان نہ لائو، کَفَرْنَا بِکُمْ وَبَدَا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃُ وَالْبَغْضَآئُ اَبَدًا حَتّٰی تُوْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَحْدَہٓٗ (الممتحنہ۶۰:۴)۔ یہ سب محبتیں قربان کر دینے کے بعد ایک محبت باقی رہ گئی تھی جو حق کی محبت کے پہلو بہ پہلو دل میں جاگزیں تھی۔ حکم ہوا کہ اس بت کو بھی توڑو۔ خواب میں دکھایا گیا کہ اپنے ہاتھوں اپنے عزیز بیٹے کو جو بڑھاپے کی لکڑی تھا‘ ذبح کر رہے ہیں۔ حضرتِ حق آزمانا چاہتے تھے کہ یہ دوستی کا مدعی اولاد کی محبت کو بھی ہماری محبت پر قربان کرتا ہے یا نہیں‘ مگر وہ سچا مسلمان اس آزمایش میں بھی پورا اُترا۔ اس کا دعویٰ عشق سچا تھا۔ جو کچھ خواب میں دیکھا تھا‘ بیداری میں بھی کردکھانے پر آمادہ ہوگیا۔ اس طرح جب حق کی محبت پر ساری محبتیں قربان ہوگئیں‘ تب بارگاہِ خداوندی سے اپنے اس بندے کو ایمان کی سند دی گئی‘ اِنَّہُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ (الصّٰفّٰت ۳۷:۱۱۱) اور اسے نوع بشری کا امام بنایا گیا‘ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا (البقرہ۲:۱۲۴)۔اور تمام عالم کے مسلمانوں سے کہا گیا کہ تمھارے لیے اس کی اور اس کے ساتھیوں کی زندگی ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے‘ قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ فِیْٓ اِبْرَاھِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ (الممتحنہ۶۰:۴)۔
عیدالاضحی کا تہوار اسی روح کو سال بہ سال تازہ کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ قربانی کی ظاہری شکل‘ جانور پر چھری چلانا‘ اس کا خون بہانا فی نفسہٖ مقصود نہیں ہے‘ بلکہ ان ظاہری اعمال سے دراصل اس سب سے بڑی قربانی کی یاد تازہ کرنا مقصود ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے محبوب حقیقی کے لیے دی تھی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ یہ فعل عبث ہے‘ ایک جانور کو ذبح کر دینے سے کیا فائدہ؟ مگر کوئی ان سے پوچھے کہ مہذب قومیں جو بڑے بڑے آدمیوں کے مجسمے نصب کرتی ہیں اور ان کی برسیاں مناتی ہیں‘ ان سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ یہی نا کہ ان ظاہری علامتوں سے ان کے کارناموں کی یاد تازہ ہوتی ہے اور ان کی تقلید کا جذبہ دلوں میں زندہ ہوتا ہے۔ بس یہی فائدہ اس قربانی کا بھی ہے۔ خدا کو جانور کا گوشت پوست اور اس کا خون نہیں پہنچتا‘ بلکہ وہ ایثار و فدویت کی روح اس کو عزیز ہے جو اس کے پاک بندے ابراہیم ؑکے رگ و پے میں جاری و ساری تھی‘ اور وہ چاہتا ہے کہ ہر مسلمان میں یہی روح پیدا ہو‘ ہر مسلمان اسی طرح اپنی تمام محبتوں کو حق کی محبت پر قربان کرنے کے لیے آمادہ رہے۔
لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَآؤُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ (الحج۲۲:۳۷)اللہ کو ان کے گوشت اور ان کے خون نہیں پہنچتے بلکہ اسے تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے۔
(’اشارات‘، ترجمان القرآن‘جلد ۳‘ عدد ۶‘ ذی الحجہ ۱۳۵۲ھ‘ فروری ۱۹۳۴ئ‘ ص ۲-۱۰)
حالیہ زلزلے کے بارے میں جب یہ کہا گیا کہ اللہ کی جانب سے گناہوں پر پکڑ اور گرفت ہے‘ تو بہت سے نیک نفس لوگوں نے یہ کہا کہ متاثرہ علاقے کے بے گناہ اور معصوم لوگوں کا کیا قصور ہے؟ کیسے کیسے بے گناہ لوگ کن کن مصیبتوں میں گرفتار ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ اس کائنات کا نظام حکمت اور تدبر سے چلارہا ہے۔ گناہ گار علاقے تو ملک میں اس سے زیادہ دوسرے ہیں‘ وہ کیوں بچا دیے گئے؟ اسی نوعیت کے سوال پر سید مودودیؒ نے جو جواب دیا تھا وہ ہم یہاں نقل کر رہے ہیں۔ سائل نے اسے خالق کی پالیسی میں جھول قرار دیا تھا۔ (ادارہ)
آپ جن الجھنوں میں پڑے ہوئے ہیں ان کے متعلق میرا اندازہ یہ ہے کہ میں ان کو سلجھانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہہ سکتا ہوں وہ یہ ہے کہ میرے نزدیک آپ کی فکر کا نقطۂ آغاز صحیح نہیں ہے۔ آپ جن سوالات سے غوروفکر کا آغاز کرتے ہیں وہ بہرحال کُلی سوالات نہیں ہیں بلکہ کُل کے بعض پہلوئوں سے متعلق ہیں‘ اور بعض سے کُل کے متعلق کوئی صحیح رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ آپ پہلے کُل کے متعلق سوچیے کہ آیا یہ بغیر کسی خالق اور ناظم اور مدبر کے موجود ہوسکتا ہے یا نہیں۔ اگر خلقِ بے خالق اور نظمِ بے ناظم کے وجود پر آپ کا قلب مطمئن ہوجاتا ہے تو باقی سب سوالات غیرضروری ہیں‘ کیوں کہ جس طرح سب کچھ الل ٹپ بن گیا‘ اسی طرح سب کچھ الل ٹپ چل بھی رہا ہے۔ اس میں کسی حکمت‘ مصلحت اور رحمت و ربوبیت کا کیا سوال۔
لیکن اگر اس چیز پر آپ کا دل مطمئن نہیں ہوتا تو پھر کُل کے جتنے پہلو بھی آپ کے سامنے ہیں‘ ان سب پر بحیثیت مجموعی غور کرکے یہ جاننے کی کوشش کیجیے کہ ان اشیا کی پیدایش‘ ان کا وجود‘ ان کے حالات اور ان کے اوصاف میں ان کے خالق و مدبر کی کن صفات کے آثار و شواہد نظر آتے ہیں۔ کیا وہ غیرحکیم ہوسکتا ہے؟ کیا وہ بے علم و بے خبر ہوسکتا ہے؟ کیا وہ بے مصلحت اور بے مقصد اندھادھند کام کرنے والا ہوسکتا ہے؟ کیا وہ بے رحم اور ظالم اور تخریب پسند ہوسکتا ہے؟ اس کے کام اس بات کی شہادت دیتے ہیں کہ وہ بنانے والا ہے یا اس بات کی کہ وہ بگاڑنے والا ہے؟ اس کی بنائی ہوئی کائنات میں صلاح اور خیر اور تعمیر کا پہلو غالب ہے یا فساد اور شر اور خرابی کا پہلو؟ ان امور پر کسی سے پوچھنے کے بجاے آپ خود ہی غور کیجیے اور خود رائے قائم کیجیے۔ اگر بحیثیت مجموعی اپنے مشاہدے میں آنے والے آثار و احوال کو دیکھ کر آپ یہ محسوس کرلیں کہ وہ حکیم و خبیر ہے‘ مصلحت کے لیے کام کرنے والا ہے‘ اور اس کے کام میں اصل تعمیر ہے نہ کہ تخریب‘ تو آپ کو اس بات کا جواب خود ہی مل جائے گا کہ اس نظام میں جن جزوی آثار و احوال کو دیکھ کر آپ پریشان ہو رہے ہیں وہ یہاں کیوں پائے جاتے ہیں۔ ساری کائنات کو جو حکمت چلا رہی ہے اس کے کام میں اگر کہیں تخریب کے پہلو پائے جاتے ہیں تو لامحالہ وہ ناگزیر ہی ہونے چاہییں۔ ہر تخریب تعمیر ہی کے لیے مطلوب ہونی چاہیے۔ یہ جزوی فساد کُلی صلاح ہی کے لیے مطلوب ہونا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ ہم اس کی ساری مصلحتوں کو کیوں نہیں سمجھتے تو بہرحال یہ واقعہ ہے کہ ہم ان کو نہیں سمجھتے۔ یہ بات نہ میرے بس میں ہے اور نہ آپ کے بس میں کہ اس امرواقعی کو بدل ڈالیں۔ اب کیا محض اس لیے کہ ہم ان کو نہیں سمجھتے‘ یا نہیں سمجھ سکتے‘ ہم پر یہ جھنجھلاہٹ طاری ہوجانی چاہیے کہ ہم حکیم و خبیر کے وجود ہی کا انکار کردیں؟
آپ کا یہ استدلال کہ ’’یا تو ہر جزوی حادثے کی مصلحت ہماری سمجھ میں آئے‘ یا پھر اس کے متعلق کوئی سوال ہمارے ذہن میں پیدا ہی نہ ہو‘ ورنہ ہم ضرور اسے خالق کی پالیسی میں جھول قرار دیں گے کیونکہ اس نے ہمیں سوال کرنے کے قابل تو بنا دیا لیکن جواب معلوم کرنے کے ذرائع عطا نہیں کیے‘‘، میرے نزدیک استدلال کی بہ نسبت جھنجھلاہٹ کی شان زیادہ رکھتا ہے۔ گویا آپ خالق کو اس بات کی سزا دینا چاہتے ہیں کہ اس نے آپ کو اپنے ہر سوال کا جواب پالینے کے قابل کیوں نہ بنایا‘ اور وہ سزا یہ ہے کہ آپ اسے اس بات کا الزام دے دیں گے کہ تیری پالیسی میں جھول ہے۔ اچھا‘ یہ سزا آپ اس کو دے دیں۔ اب مجھے بتایئے کہ اس سے آپ کو کس نوعیت کا اطمینان حاصل ہوا؟ کس مسئلے کو آپ نے حل کرلیا؟ اس جھنجھلاہٹ کو اگر آپ چھوڑ دیں تو بآسانی اپنے استدلال کی کمزوری محسوس کرلیں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ سوال کرنے کے لیے جس قابلیت کی ضرورت ہے‘ جواب دینے یا جواب پانے کے لیے وہ قابلیت کافی نہیں ہوتی۔ خالق نے سوچنے کی صلاحیت تو آپ کو اس لیے دی ہے کہ اس نے آپ کو ’انسان‘ بنایا ہے اور انسان ہونے کی حیثیت سے جو مقام آپ کو دیا گیا ہے اس کے لیے یہ صلاحیت آپ کو عطا کرنا ضروری تھا۔ مگر اس صلاحیت کی بناپر جتنے سوالات کرنے کی قدرت آپ کو حاصل ہے ان سب کا جواب پانے کی قدرت عطاکرنا اس خدمت کے لیے ضروری نہیں ہے جو مقامِ انسانیت پر رہتے ہوئے آپ کو انجام دینی ہے۔ آپ اس مقام پر بیٹھے بیٹھے ہر سوال کرسکتے ہیں‘ لیکن بہت سے سوالات ایسے ہیں جن کا جواب آپ اس وقت تک نہیں پاسکتے جب تک کہ مقامِ انسانیت سے اٹھ کر مقامِ الوہیت پر نہ پہنچ جائیں‘ اور یہ مقام بہرحال آپ کو نہیں مل سکتا۔ سوال کرنے کی صلاحیت آپ سے سلب نہیں ہوگی‘ کیوں کہ آپ انسان بنائے گئے ہیں‘ پتھریا درخت یا حیوان نہیں بنائے گئے ہیں۔ مگر ہرسوال کا جواب پانے کے ذرائع آپ کو نہیں ملیں گے‘ کیوں کہ آپ انسان ہیں‘ خدا نہیں ہیں۔ اسے اگر آپ خالق کی پالیسی میں ’جھول‘ قرار دینا چاہیں تو دے لیجیے۔(رسائل و مسائل‘ ج ۴‘ ص ۲۲-۲۵)
اس کے ساتھ اقبال نے مسلمانوں کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ اسلام کوئی پرانا اور ازکار رفتہ نظام نہیں ہے جو اس زمانے میں کام نہ کر سکتا ہو۔ انھوں نے اپنے شعر سے بھی اور اپنی نثر سے بھی یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کی کہ اسلام ازلی و ابدی اصولوں کا حامل ہے۔ اسلام کسی وقت بھی پرانا نہیں ہو سکتا۔ اس کے اصول ہرزمانے میں یکساں قابلِ عمل ہیں…
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
… اسی طرح سے مسلمانوں کے دماغوں میں جو یہ خیال جاگزیں ہوچکا تھا کہ اہلِ دین کا کام تو بس اللہ اللہ کرنا ہے یا مسجدوں اور مدرسوں میں فقط قرآن و حدیث پڑھنا ہے‘ ان کا سیاست سے بھلا کیا تعلق___ اس غلط تصور پر بھی اقبال نے ایک کاری ضرب لگائی ہے اور اس کو بھی ایک مصرع میں بیان کر دیا‘ اور واقعہ یہ ہے کہ اس موضوع پر جتنا کچھ لکھا جا سکتا ہے وہ سب ایک طرف اور وہ مصرع ایک طرف۔ اقبال کہتا ہے کہ ع
عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد
… اس کے ساتھ اقبالؒ نے مثبت طور پر یہ بات مسلمانوں کے ذہن نشین کی ہے کہ تمھاری مصیبتوں اور مسائل کا اگر کوئی حل ہے‘ تو وہ صرف یہ ہے کہ تم قرآن کی پیروی کرو اور اپنی زندگیوں پر اسلام کے آئین کو نافذ کرو۔ انھوں نے ۱۹۳۷ء میں قائداعظمؒ کے نام جو خط لکھا تھا اس میں واضح طور پر یہ بتایا تھا کہ مسلمانوں کے معاشی مسائل کا کوئی حل ہے تو وہ صرف اسلامی آئین کے نفاذ میں مضمر ہے۔
آخری بات: اس سلسلے میں آخری بات یہ ہے کہ علامہ اقبالؒ اور قائداعظمؒ آپ کو اسلام کی بنیاد پر ایک وطن دے کر گئے ہیں۔ اقبال نے آپ کو فکر اور نظریہ دیا اور قائداعظم کی قیادت میں آپ کو یہ وطن حاصل ہوا۔ اس وطن کی انوکھی شان یہ ہے کہ اس کا نظریہ پہلے وجود میں آیا اور ملک بعد میں بنا۔ اگر اس ملک کے بنیادی نظریے کو یا دوسرے لفظوں میں اس کی نظریاتی بنیاد کو ہٹا دیا جائے‘ تو یہ ملک قائم نہیں رہ سکتا۔ آج اس ملک کی نظریاتی بنیاد پر مختلف اطراف سے حملے کیے جا رہے ہیں [اور اب ’’روشن خیالی‘‘ اور ’’اعتدال پسندی‘‘ کی آڑ میں یہ حملے جاری ہیں]‘ لیکن کیا آپ اس چیز کو جو اتنی محنتوں اور عظیم قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہوئی یونہی اپنی غفلت اور کوتاہ ہمتی سے ضائع کر دیں گے___؟ میں کہتا ہوں کہ اگر آپ نے اس کو کھو دیا تو گویا تاریخِ انسانی میں یہ بات ثابت کردیں گے کہ ایک بیوقوف قوم تھی جس نے لاکھوں جانوں‘اَن گنت عصمتوں اور کروڑوں اور اربوں روپوں کی جایدادیں قربان کر کے ایک وطن حاصل کیا‘ مگر وطن حاصل کرنے کے بعد ۲۳ برس کی مدت کے اندر ہی اندر اس کو کھو بھی دیا۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو تاریخ میں آپ کا مقام ایک بے وقوف اور ایک احمق قوم کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا (بشرطیکہ آپ کی تاریخ کو باقی رہنے دیا گیا)۔ اگر آج آپ نے اشتراکیت یا وطنی قومیت کے نظریے یا کسی اور باطل ازم کو اختیار کیا تو صرف یہی نہیں کہ آپ کی آزادی ختم ہوجائے گی‘ بلکہ میں کہتا ہوں کہ آپ کا وجود بھی ختم ہوجائے گا‘ اور مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ اسپین کے بعد تاریخ کا یہ دوسرا بھیانک المیہ ہوگا کہ اس برعظیم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کا خاتمہ ہوگیا۔
اس وجہ سے یہ وقت ہے کہ مسلمانوں کے نوجوان‘ مرد اور عورتیں‘ بچے اور بوڑھے‘ سب اس بات کے لیے متحد ہوجائیں کہ وہ یہاں اسلام کا نظام ہی غالب کریں گے اور اُن لوگوں کی کوششوں کو قطعی طور پر ناکام بنا دیں گے جو مسلمانوں کو اسلام کے عقیدے اور نظامِ حق سے منحرف کرنا چاہتے ہیں‘ اور اس طرح ان کو فتنوں میں مبتلا کر کے تباہی کی طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔ (انتخاب از خطاب بموقع یومِ اقبالؒ، ۲۱ اپریل ۱۹۷۰ئ‘ پنجاب یونی ورسٹی ہال‘ لاہور)
(شخصیات‘ البدر پبلی کیشنز‘ اُردو بازار‘لاہور‘ ص ۲۳۲-۲۴۴)